علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
وفیات ۱/اپریل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر سید حسام الدین راشدی۔وفات۔1982
انیسہ خاتون المعروف بہ پاشی ۔وفات۔2001
عبدالعزیزشاہ جمالی صدیقی، صوفی ۔وفات۔1982
پروفیسر سید مجتبی حسین۔وفات۔1989
مولانا مفتی محمد انوار الحق در بھنگوئی۔وفات۔2004
عساف علی۔وفات۔1953
/channel/ilmokitab
رمضان مبارک اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے ہم نے پیغامات کی ترسیل کو بہت محدود کردیا ہے، لہذا خاکوں کی ترسیل بھی رکی ہوئی ہے، جو خاکے مطلوب ہوں ان کے سلسلے میں رمضان مبارک کے بعد فرمائشین ارسال کریں، شکریہ عبد المتین منیری
Читать полностью…*🎯 رمضان کے عشرۂ اخیرہ میں فتنہ شکیل بن حنیف خان کے متعلق دارالعلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث امیر ملت حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم کا متولیان مساجد، ائمہ کرام، علماء عظام اور جماعت کے ذمہ داروں کے نام بہت ہی اہم پیغام!*
Читать полностью…ناگپاڑہ چوک کی خوبیوں کا ذکر میں پہلے ہی ایک پوسٹ میں کرچکا ہوں۔ یہاں مرزا غالب، مولانا آزاد، حسرت موہانی اور بی اماں کی جو یادگاریں قایم کی گئی ہیں انھوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔اس میں سماجوادی پارٹی کے ممبر اسمبلی رئیس قاسم شیخ کی کوششوں کو دخل ہے۔مرزاغالب روڈ پر واقع پارک کے ڈیولپمنٹ اور یہاں غریبوں کے علاج کے لیے شہباز صدیقی،سعید خان اور ان کے ساتھیوں نے جو ڈسپنسری اور ڈائلسس سینٹر قایم کیا ہے، وہ لاجواب ہے۔یہاں مرحوم ضیاالدین بخاری کے نام کا سائن بورڈبھی آویزا ں ہے۔ اس میں بہت سے غریبوں کا علاج ہورہا ہے۔ اسی پارک میں بی اماں کی یادگار قایم کی گئی ہے۔ اہل بمبئی کے جذبہ خیر کی پہلے ہی تعریف کرچکا ہوں۔
بردارمکرم ندیم صدیقی کا بے حد ممنون ہوں جو ممبرا سے دوبار مجھ سے ملنے بمبئی آئے اور اپنے پسندیدہ نورمحمدی ہوٹل میں ضیافت بھی کی۔ندیم بھائی واقعی خوب انسان ہیں۔ میں نے ظ۔انصاری کے اخبار ”آئینہ“ کا تذکرہ کیا تو اگلے روزمجھے دکھانے کے لیے اس کی قیمتی فائل بغل میں دباکر اسلام جمخانہ لے آئے۔وہ بھی لوکل ٹرین کی بھیڑ بھاڑ سے بچتے بچاتے۔ اس بار سوچا تھا کہ ان کے ممبرا کا بھی دیدار کروں گا، مگر اس کی مہلت نہیں ملی۔ندیم بھائی نے مجھے ناگپاڑہ پر کئی تاریخی مقامات دکھائے۔ پہلے وہ مولانا آزاد روڈ پر ’ہندوستان‘ کے دفتر سے کچھ آگے اس مقام تک لے گئے جہاں 1938میں روزنامہ ’انقلاب‘کی اشاعت شروع ہوئی تھی۔ اس بلڈنگ کا نام آج تک ’انقلاب منزل‘ ہے۔یہیں کسی زمانے میں روزنامہ ’اقبال‘ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ اسی مولانا آزاد روڈ سے روزنامہ ’اردو ٹائمز‘ کی اشاعت شروع ہوئی تھی۔یہیں ندیم بھائی نے یہاں مجھے کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کی وہ عمارت بھی دکھائی جہاں کبھی کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری آکر بیٹھتے تھے۔ ناگپاڑہ سے نورمحمدی ہوٹل تک انھوں نے مجھے ممبئی کی نئی الیکٹرانک بس میں بٹھانے سے پہلے بس اسٹاپ کے قریب پارسیوں کا وہ علاقہ بھی دکھایا جہاں کبھی سعادت حسن منٹو پارسی دوشیزاؤں سے دوستی نبھانے آتے تھے۔ ممبئی دراصل ایسی ہی دلکش داستانوں کا شہر ہے اور یہ داستانیں ندیم بھائی کی زبانی اچھی لگتی ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں زیروزبر اور پیش وقوسین کا ایسا ہی خیال رکھتے ہیں، جو ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔خدا انھیں سلامت رکھے۔یار زندہ صحبت باقی
Https://telegram.me/ilmokitab
*قرآن کریم کے دسترخوان پر (19)*
*عمران خانپوری*
فلاح دارین ترکیسر
*7046648261*📱
*سورة البقرة 9*
*وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن یَقُولُ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَبِٱلۡیَوۡمِ ٱلۡـَٔاخِرِ وَمَا هُم بِمُؤۡمِنِینَ*
✒️ *یہاں سے مسلسل 13 آیات تک* اپنے کفر کو چھپا کر اسلام ظاہر کرنے والے منافقین کا بھانڈا پھوڑا گیا ہے۔ یہ کفار ومشرکین سے بھی زیادہ بھونڈے ہیں، (آلوسی) *آستین کے سانپ جو ٹھہرے۔* اسی لئے نبی یہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے کا بھی کوئی موقع نہ چوکتے، آپ پر جملے چست کرتے، اور یہ باتوں کی توڑ مروڑ میں بھی بے مثال تھے۔
🥑 *اللہ تعالی نے قرآن کریم کی ابتدا ہی میں* صفاتِ مؤمنین کے بیان کے لیے 4 آیات اور کفار کو ذکر کرنے کے لیے 2 آیات نازل فرمائیں، لیکن مسلسل 13 آیتیں اتار کر منافقین کا پردہ چاک کر دیا، تا کہ امتِ محمدیہ ان سے چوکنّا رہے، ان کا بھانڈا پھوڑ دیا، اس لیے کہ ان کی حرکتیں بہت بھونڈی ہیں، اور ان کی قلعی کھول دی کہ یہ جعلی و جعل ساز ہیں۔ انہوں نے نہ جانے اسلام کے کتنے مضبوط قلعے مسمار کر دیے؟! اور کتنی بنیادیں اکھاڑ دیں؟! *اصل دشمن یہی ہیں، انسے چوکنا رہئے۔* (ابن قیم)
🔥 *اسی وجہ سے* آج کل امت مسلمہ کو اس کے اندر لباسِ ایمان و اسلام میں موجود کفار یا منافق صفت افراد سے جتنا نقصان پہنچ رہا ہے اتنا غیروں سے نہیں پہنچتا۔ *بہر حال کریم الخصال اور سادہ لوح اہل ایمان کو کمینہ صفت اور دھوکہ باز منافقین سے چوکنّا رہنا چاہیے۔*
🪸 *ہر چشمِ اشک بار قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔*
*ہر چکنی چپڑی کہنے والی زبان سچی نہیں ہوتی*
*ہر چمکدار شیئ سونا نہیں ہوتی*
*وَمَا هُم بِمُؤۡمِنِینَ*
❤🔥 *لذت بلاغت سے آشنا طبائع سمجھتی ہیں کہ* اگر وَمَا هُم مُؤۡمِنِینَ باء کے بغیر کہا گیا ہوتا تو کمالِ ایمان کی نفی ہوتی، نفسِ ایمان کی نہیں۔ لیکن باء کے اضافے کی وجہ سے نفی جب اس پر مسلط ہوئی تو اصلِ ایمان کی نفی ہو گئی، یعنی ایمان نے ان کے قلب کو مَسّ بھی نہیں کیا، دیکھیے نفاق کیسا زہر ہے جو ایمان کے آبِ حیات کو دل تک جانے ہی نہیں دیتا۔ (معارج البیان/ عبداللہ ھتاري) 🪜 *فصاحت و بلاغتِ قرآن* کے سالکین اس باء کی سیڑھی پر چڑھ کر کچھ مدارج ضرور طے کر سکتے ہیں۔
🛝 *وبِاليَوْمِ الآخِرِ* چوں کہ کفار، آخرت کے دن کا انکار کرتے تھے، اس لیے انہوں نے ایمان باللہ کے بعد اپنے ایمان کو مؤکَّد کرنے کے لیے آخرت کے دن پر ایمان کا بھی اظہار کیا اور حرف جر کے اعادہ سے اسے مزید مؤکَّد کیا تاکہ ان کو خالص مومن مان لیا جائے، (بقاعي) آج کل کی زبان میں اوور ایکٹنگ (Over Acting)۔
🪚 *علماءِ کلام و عقیدہ* جانتے ہیں کہ یہاں قول باللسان ہے لیکن اعتقاد بالقلب نہیں ہے، اس پر ایمان کی نفی کی گئی ہے، اس میں کَرامیہ کی صاف تردید ہے۔ (ابن عطیہ)
📃 *مَن یَقُولُ ءَامَنَّا* اس میں نُحات کے اس مسئلہ کی دلیل ہے کہ متکلم کا واحد سے جمع کی طرف رجوع جائز ہے، لیکن جمع سے واحد کی طرف نہیں۔ (ایضا)
🖊️ *جنگ بدر میں* مسلمانوں کی قوت و شوکت نکھر کر سامنے آئی اس کے بعد مدینہ میں نفاق کا گھناؤنا کھیل شروع ہوا، (محاسن التأویل) *معلوم ہوا* اگر آپ کمزور ہیں تو آپ کی مخالفت دندنا کر، برسر عام ہوتی ہے، لیکن اگر آپ کو قوت و شوکت حاصل ہے تو پھر دشمن آپ کی آستینوں میں آ کر بیٹھ سکتے ہیں یا پیٹھ پیچھے سے وار کر سکتے ہیں۔
🤲 *اللہ تبارک و تعالی* اعتقادی و عملی نفاق کے روگ سے، اور اس مرض کے مریضوں کی شرارت و شر انگیزی سے حفاظت فرمائے۔ *آمین*
Https://telegram.me/ilmokitab
مئو کی شان جناب مختار انصاری
از قلم : مولوی عزیز الرحمٰن ندوی
کوپاگنج مئو
اگر انگریز شیر میسور سے ڈرتے تھے تو شیر مئو سے پورا پوروانچل ڈرتا تھا ادھر حکومت تھی تو ادھر انفرادی شجاعت تھی۔ لاکھوں انسانوں کی بھیڑ میں جناب مختار انصاری کو دیکھنا ہر ایک کے لیے آسان تھا۔ تقریباً کوئی سات فٹ کا لمباتڑنگا قد ۔گورا چٹا۔ خوبصورت و خوب سیرت ۔ کردار کا غازی۔مظلوموں کے لیے مضبوط پلر ۔ چہرہ پر بہادری نمایاں ۔مونچھوں پر تاؤ۔ایمان و عقیدہ میں جما ہوا پہاڑ۔ توکل علی اللہ میں کامل۔زبردست نشانہ باز۔
ہزاروں دشمنوں کے ہوتے ہوۓ کھلی گاڑی کے اوپر بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو لہرانا مجھے یاد ہے اورسیل رواں کی طرح انکے آگے پیچھے عوام کا امنڈتا سیلاب بھی مجھے یاد ہے ۔ ہر شخص اپنے مسیحا کو دیکھ کر گویا فدائی ہوا جاتا تھا۔ اسٹیج پر ان کی دھاڑ سے بڑے بڑے بھیا بھی ہل جایا کرتے تھے۔ وہ اسٹیج پر برملا کہتے تھے کہ مجھے اتنے ووٹوں سے جتاؤ کہ وزیر اعلیٰ کو جاکر تھپڑ لگاؤں۔اس خاندان نے قدیم زمانہ سے اس ملک کے گیسو کو سنوارا اور سلجھایا ہے۔ ان کے دادا ڈاکٹر مختار احمد انصاری آزادی کے بڑے علم بردار تھے اور اس وقت کانگریس کے راشٹریہ صدر تھے تو دوسری جانب ان کے نانا شہید محمد عثمان برگیڈئیر رہ چکے تھے۔ نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری صاحب بھی اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔
جب مختار انصاری کا مئو کی سرزمین پر سیاست کی دنیا میں قدم پڑا تو مئو ہی کے ایک معروف سیاست داں جناب مولانا حبیب الرحمن صاحب نعمانی نے اسٹیج پر انصاری صاحب کا ہاتھ اٹھا کر اہل مئو سے اپیل کیا کہ اے لوگو اس ہاتھ کی لاج رکھنا۔ اور مئو کی عوام نے بھی ایسی لاج رکھی کہ ان کو پانچ مرتبہ مئو سے ودھایک بنایا ۔
مختار انصاری کی خوبیاں اور انکی بہادری کے چند واقعات۔
1 ۔ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ ضلع مئو سے حاجیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تھی ۔ شاید اس کے بعد سے اتنی بڑی تعداد ضلع مئو سے اب تک نہ ہوسکی۔ حجاج کرام اور ان کو رخصت کرنے والوں کی مئو اسٹیشن پر بھیڑ لگ گئی۔ جس سے افراتفری کا ماحول ہوگیا۔ بدنظمی ہوگئی۔ تب پولیس نے لاٹھی چارج کر دی۔ اسی وقت مختار انصاری اوربریج سے گزررہے تھے کرتا پائجامہ والوں کو بھاگتے ہوۓ دیکھا۔ عینی شاہدین کا بیان ہے کہ انصاری صاحب گاڑی سے اترے اور بریج کی ڈھلوان سے کود کر دوڑے ہوۓ اسٹیشن آۓ اور لوگوں سے معلومات حاصل کرکے پولیس افسر کا کالر پکڑ کر کہا یہ سب کیا ہورہا ہے۔ چونکہ ڈر کی وجہ سے لوگ ادھر ادھر منتشر ہو گئے تھے۔ ٹرین آئ اور چلی بھی گئی کچھ لوگ بیٹھے اور کچھ نہ بیٹھ سکے۔ تب انصاری صاحب نے اپنے پاور کا استعمال کرتے ہوئے ٹرین کو جو کہ تین کیلومیٹر تک آگے جا چکی تھی پیچھے واپس بلوایا اور اپنی نگرانی میں جانے والے تمام حاجیوں کو بٹھا یا اور پولیس کے ڈنڈے کی ڈر سے جو لوگ ٹرین میں پناہ لئے ہوۓ تھے سب کو نیچے اتارا۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ٹرین بھی واپس آتی ہے؟ یہ کمال تھا مختار کا۔ آج بھی بوڑھے لوگوں سے کوئی پوچھتا ہے کہ مختار نے مئو کے لیے کیا کیا؟ تو پرانے لوگوں کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارے لئے ٹرین کو واپس بلایا یہی ہمارے لئے کافی ہے۔
2 ۔ شہر مئو کی کوتوالی والی مسجد کافی عرصہ سے تعمیر کی محتاج تھی مگر انتظامیہ کی طرف سے بار بار رکاوٹیں آجاتی تھیں اور برسوں سے تعمیری کام ہو نہیں پاتا تھا۔ مختار انصاری ہی وہ ہستی ہے جس نے وہیں بیٹھ کر مسجد کی مضبوط و مستحکم تعمیر کرائ۔اور مسجد کو ایک نئی زندگی دے دی۔
3 ۔ ہر سال دسہرہ کے موقع پر مئو میں فساد کا اندیشہ رہتا تھا اور پولیس انتظامیہ کا سکون غارت ہوجاتا تھا۔ در اصل بات یہ ہے کہ ایک زمانہ سے برادران وطن جب مورتی پھینکنے کے لئے لے جاتے تھے تو کٹرہ کی شاہی جامع مسجد کی دیوار سے اس کو ضرور ٹچ کرتے تھے جس کی وجہ سے ہنگامہ ہوجاتا تھا اور فساد تک نوبت آجاتی۔ مختار انصاری ہی کی حکمت عملی سے وہ جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔مختار انصاری صاحب کی بااثر ثالثی سے اور فریقین کے باہمی سمجھوتہ سے سرکاری دستاویزات کے ساتھ مسجد کی دیوار سے دس بارہ فٹ چھوڑ کر زمین میں موٹے موٹے پائپ گاڑ دئیے گئے اس کے بعد سے ہر سال دسہرہ کے موقع پر اس میں بانس بلی لگا کر مسجد کو محفوظ کردیا جاتا ہے اور مورتی باہر ہی باہر ٹچ کرنے کی کوشش کے باوجود ٹچ ہوۓ بغیر اور بغیر کسی خطرہ کے روانہ ہو جاتی ہے ۔ اس طرح امن کے علم بردار جناب مختار نے ہندو مسلم کے درمیان صلح و مصالحت کرا کر مئو کے لئے امن کا ماحول سازگار بنا دیا۔
یہ کمال تھا جناب مختار انصاری کا۔
4 ۔ جب برجیش اور اس کے ساتھیوں نے اچانک راستہ روک کر ان کی گاڑیوں پر حملہ کر دیا اور گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی تو اس مرد مجاہد نے اپنی گاڑی کا اگلا شیشہ توڑا اور باہر نکل کر گاڑی کے نیچے بیٹھ کر کئی ایک کو کیفر کردار تک پہونچا ڈالا۔
مختار مسعود بیوروکریٹ تھے اور مصنف بھی ، وہ دو ہزار سترہ میں انتقال کر گئے لیکن دو ہزار دو میں انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی اکٹھی کی جو کہ دس کروڑ روپیہ بنی اور اُسے آزاد کشمیر کی ایک فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا اور انہیں سکول بنانے کا کہا ، فاؤنڈیشن نے سکول بنا دیا اور مختار مسعود صاحب کو افتتاح کی دعوت دے دی ، مختار مسعود صاحب نے یہ دعوت تین شرائط کے ساتھ قبول کی ۔
ایک کہ افتتاح کی کوئی تقریب نہیں ہو گی ۔
دو کہ افتتاح چھٹی والے دن ہو گا ۔
تین کہ ڈونیشن کی کوئی تشہیر نہیں کی جائے گی ۔
یوں مختار مسعود صاحب ایک اتوار کو سکول کے افتتاح کے لئے چلے گئے ، وہ خالی کلاس روم میں گئے ، بلیک بورڈ پر “ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ لکھا اور واپس آ گئے ۔
جب کسی نے مختار مسعود صاحب سے پوچھا کہ آپ نے یہ سکول کھولنے کے لئے چوکی ( گاؤں ) کا انتحاب کیوں کیا تو مختار مسعود صاحب نے جواب دیا “ میرے دادا کشمیر سے چوکی کے راستے پنجاب میں داخل ہوئے تھے ، وہ رات چوکی میں رکے تھے اور چوکی گاؤں کے لوگوں نے اُن کی بہت خدمت کی تھی ، اُن کے دادا ساری عمر چوکی کے لوگوں کی تعریف کرتے رہے اور میں اس گاؤں میں سکول بنا کر یہ احسان اتارنا چاہتا ہوں“
یہ واقعہ دو حصوں پر مشتمل ہے ، پہلا حصہ ڈونیشن ، سادگی اور تشہیر پر مشتمل ہے ، اُس بندے نے اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی ڈونیٹ کر دی اور کسی کے سامنے نام تک لینا گوارا نہیں کیا جبکہ دوسرا حصہ پہلے حصے کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے ، بڑے لوگ ایسے ہی بڑے نہیں ہوتے ، اُن کے دادا نے ایک رات گاؤں میں گزاری اور ساری عمر اُس گاؤں کی مہمان نوازی کی تعریف میں گزار دئیے جبکہ پوتے نے دادا کی وہ بات پلے باندھ لی اور ساری عمر کی جمع پونجی اُس گاؤں پہ لگا دی ۔ اللہ اللہ
آج ہم کسی غریب کو کچھ دیں بھی تو اُس کی تشہیر چاہتے ہیں ، فوٹو لگتی ہے ، بینر لگتے ہیں ، دوسروں کو واقعات سناتے اُس کا ذکر ہوتا ہے اور ایک وہ تھے کسی کو کان و کان خبر نا ہونے دی ۔
بات کردار کی ہوتی ہے جناب
ورنہ قد میں سائے بھی لمبے ہوتے
تحریر: جاوید چودھری
منقول
مولانا غلام محمدشملوی
یہ خبر نہایت رنج و افسوس کے ساتھ درج کی جاتی ہے کہ ندوۃ العلماء کے مشہور سفیر و وکیل مولانا غلام محمد صاحب شملوی نے ۲۹؍ مارچ ۱۹۳۴ء کو وفات پائی، ندوۃ العلماء کے مقاصد کی اشاعت اور اس کے لیے مالی امدادوں اور چندوں کے حصول میں ان کی کوششیں بہت کامیاب تھیں، وہ جوانی میں تارک الدنیا فقیر ہوگئے تھے، اور جنگلوں میں رہتے تھے، ندوۃ العلماء کے ابتدائی اجلاسوں کے روحانی اثرات نے ان کو دوبارہ دنیا میں داخل کیا اور ندوۃ العلماء کی خدمت کا ایسا ولولہ ان میں پیدا کیا کہ مرتے دم تک سرد نہیں ہوا، وہ بڑے پرجوش مقرر، روشن خیال عالم اور صاحب عزم محنتی تھے، ندوہ کی خدمت میں انہوں نے ہندوستان کی گلی گلی کی خاک چھانی، اور ہر چھوٹے بڑے سے ملے، مدت سے ان کی صحت خراب تھی، وفات کے وقت ان کی عمر ستر کے قریب ہوگئی، تاہم ان میں ایسی ہمت تھی جو جوانوں کو شرماتی تھی، خدا مغفرت فرمائے۔
/channel/ilmokitab
آمین ثم آمین۔ دیکھیے! مفتی صاحب محترم اصلاحِ زبان کے ساتھ ساتھ اصلاحِ اعمال بھی فرماتے جاتے ہیں۔ آپ کے مکتوب سے جہاں الفاظ کے معانی معلوم ہوئے، وہیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ’بیع عِینہ‘ فقہا کے نزدیک مکروہ ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ آقائے دوجہاں، معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلّم نے بیچی ہوئی چیز پہلی قیمت سے کم قیمت میں خریدنے کے عمل پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔
فقہی اصطلاحات ہی میں نہیں، غیر فقہی بول چال میں بھی ایک ترکیب استعمال ہوتی ہے ’بیع و شِرا‘۔ اس کا مطلب ہے خرید و فروخت۔ مگر ترتیب اس ترکیب میں اُلٹی ہے۔ بیع کا مطلب فروخت ہے اور شِرا کا مطلب خرید۔ بیع کی بہتیری اقسام ہیں۔ ایک قسم کا ذکر تو مفتی صاحب حفظہٗ اللہ نے کردیا۔ ایک اور قِسم ’’بیع سُلطانی‘‘کہلاتی ہے۔ سلطانِ معظم کسی کا مال اپنی ہی مقرر کردہ قیمت پر خرید فرمالیں، یا سلطان کے حکم سے کسی کی جائداد کی قُرقی اور نیلامی ہوجائے تو یہ ’بیع سلطانی‘ ہے۔ ہمارے شہری ادارے اجتماعی مصالح کے تحت اگر کسی کی زمین یا جائداد بحقِ سرکار حاصل کرنا چاہیں تو ہمارے یہ جدید سلطان بالعموم اپنی ’بیع سلطانی‘ میں عوامی ملکیت کی قیمت بازار سے کم تر مقرر کرتے ہیں۔ جب کہ سلاطینِ سلف ایسے موقعے پر رعایا کو رائج الوقت قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت ادا کیا کرتے تھے۔ ایک بیع اور ہوتی ہے جو ’بیع بالوفا‘ کہی جاتی ہے۔ یہ مشروط بیع ہوتی ہے۔ مثلاً ایک مقررہ مدت میں رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ میعادِ مقررہ میں رقم ادا کردی گئی تو وعدہ وفا ہوگیا اور’بیع بالوفا‘ ہوگئی۔ مقررہ وقت پر رقم ادا کرنے میں بے وفائی کی گئی تو چیز بھی آئی گئی ہوگئی۔ ’بیع شرطی‘ بھی ایک بیع ہے جو کسی شرط کے پورا ہونے پر موقوف ہوتی ہے۔ شرط پوری ہوجائے تب ’بیع قطعی‘ کی جاتی ہے۔ خرید و فروخت لکھ کر کریں تو لکھی جانے والی دستاویز ’بیع نامہ‘ کہلاتی ہے۔ ’بیعانہ‘ سے تو سب ہی واقف ہیں۔ قیمت طے ہوجائے تو مکمل رقم دینے سے قبل کچھ رقم دے کر بیع پکی کرلی جاتی ہے۔ یعنی یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس قیمت پر بات طے ہوگئی ہے۔ یہ رقم کُل قیمت ادا کرتے وقت وضع کرلی جاتی ہے۔ ’بیعت‘ بھی ایک طرح سے اپنے آپ کو فروخت کرکے کسی کی اطاعت و فرماں برداری قبول کرلینا ہے۔ مگر اس بیع کا تعلق دل کی رضا سے ہے۔ افتخار عارف کہتے ہیں:
اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہو گی ہم سے
دل نہیں ہو گا تو بیعت نہیں ہو گی ہم سے
’شِرا‘ خریداری کا عمل ہے تو خریدار کو مُشتری کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بار بار اس سے ’’ہُشیار باش‘‘ کہا جاتا ہے، مگر ہر بار یہ غریب کسی نئے جال میں پھنس جاتا ہے۔ کالم میں ’’رمضان کا ٹچ‘‘ دینے کو عرض ہے کہ خریداری کے لیے اِشتریٰ کا لفظ قرآن مجید میں باربار آیا ہے۔ اللہ نے مسلمانوں کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لینے کا وعدہ کیا ہے۔ مثلاً سورہ توبہ کی آیت نمبر 111 کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
’’بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے ان کے جان و مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں…‘‘
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
بعد ازاں خواجہ حسن نظامی نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا اور یہ قضیہ اپنے انجام کو پہنچا، لیکن اس دوران جو تحریریں منصۂ شہود پر آئیں، وہ اس علمی مباحثے کا سرمایہ ہیں۔ گزشتہ ایک صدی میں اس حوالے سے بعض تحریریں وقت کی گرد میں دب چکی تھیں، خدشہ تھا کہ اگر انھیں اب بھی محفوظ نہ کیا جاتا تو آئندہ نسلیں اس تمام علمی بحث اور اس کے اسباب و نتائج سے لاعلم رہ جاتیں۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے کوشش کی ہے کہ وہ تمام ضروری دستاویزات اس مجموعے میں شامل کرلی جائیں، جن سے اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی سے متعلق مباحث کا احاطہ ہوسکے۔ ان تحریروں کو زمانی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے، تاکہ قارئین ان مباحث و مطالعات کی ابتدا، عروج اور نتیجے سے بخوبی آشنا ہوجائیں اور معلوم ہوجائے کہ اقبال کے فکر و نظر کی استقامت اور اسلوب کی شائستگی سے معاملہ اس حد تک سلجھ گیا کہ اس معرکے کے اوّلین اور نمایاں محرک خواجہ حسن نظامی نے بالآخر اقبال کے نقطہ ٔنظر کو درست تسلیم کرلیا۔
فاضل مرتب ترتیب و تدوین کا عمدہ سلیقہ رکھتے ہیں۔ کتاب بھی بڑے سلیقے سے شائع ہوئی ہے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
وفیات ۲۹ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشیر حمد ڈار ۔وفات۔1979
سراج الدین احمد۔وفات۔1990
سردار علی صابری ۔وفات۔1984
سعید امرت۔وفات۔2001
صادق دہلوی (سمیع احمد)۔وفات۔1986
لطیف کپاڈیا ۔وفات۔2002
لیاقت قریشی ۔وفات۔1993
محشر اجمیری ۔وفات۔2003
محمد فرید، پروفیسرقاضی ۔وفات۔1966
منظر کریم،سید محمد ۔وفات۔1998
مولانا غلام محمد شملوی۔وفات۔1934
بشیر احمد ڈار۔وفات۔1979
کرنل بشیر حسین زیدی۔وفات۔1992
مولانا محمد زکوٰۃ قلزم حیاتی ۔وفات۔2005
مولانا محمد یوسف متالا۔وفات۔2020
صولت ٹونکی، محمود الحسن عرب۔وفات۔1968
/channel/ilmokitab
42) مولانا محمد قمر الہ آبادی مدظلہ
آپ الہ آباد کے رہنے والے ہیں، مسیح الامت حضرت مولانا شاہ مسیح اللہ خان جلال آبادی کے خلیفہ مجاز بیعت ہیں ،سن ولادت 1940 ہے _
43) مولانا علاؤ الدین میواتی مدظلہ
آپ علاقہ میوات کے ممتاز بزرگ ہیں، تبلیغی جماعت کے اکابر میں شمار ہوتا ہے، مولانا یوسف کاندھلوی کے تربیت یافتہ ہیں، مولانا الیاس کاندھلوی کے سلسلہ میں مولانا احترام الحسن کاندھلوی کے خلیفہ مجاز ہیں، 1940کی ولادت ہے، میانجی سفیدہ میواتی اور مولانا داؤد کاندھلوی سے بھی اجازت ہے
44) قاضی محمد کامل مدظلہ
آپ دیوبند کے رہنے والے ہیں.دار العلوم دیوبند کے فارغ التحصیل ہیں، صوفی یسین کے خلیفہ و جانشین ہیں. اقطاب ثلاثہ میں سے مولانا فتح محمد تھانوی خلیفہ میانجی نور محمد جھنجھانوی کے سلسلہ کے بزرگ ہیں.اوکھلا میں قاضی کے عہدہ پر فائز ہیں
45) مولانا مفتی نوید ظفر حسینی مدظلہ
موجودہ دور کے صاحب نسبت عالم دین ہیں...سو سے زیادہ مشایخ سے اجازت و خلافت حاصل ہے.. مولانا شاہ عبدالغفار مہاجر مدنی کے اخص الخواص خلفاء میں سے ہیں نیز ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی، مولانا سید أصلح حسینی وغیرہ کے خلیفہ ہیں،
46) مولانا مفتی احسان الحق کراچی
عالی سند کے حامل ممتاز فقیہ ہیں.سو سے زیادہ مشایخ سے نسبت و اجازت حاصل ہے ،مولانا امیر علوی میرٹھی ،مولانا قاری فیوض الرحمن بریگیڈئر ،صوفی اسعد جونپوری ،مولانا مفتی عبدالحمید ستارہ وغیرہ سے اجازت و خلافت حاصل ہے..
47) مولانا مفتی سید عمیر ندوی
دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ممتاز فاضل ہیں، مدرسہ گلشن ملت کے شیخ الحدیث ہیں، کم عمری میں صلاح و تقوی، علم و فہم اور عالی نسبتوں کے حامل ہیں، پانچ سو سے زیادہ محدثین و مسندین سے روایت کی اجازت ہے، کئی علماء کے وکالات بھی ہیں، حافظ اسید رحمانی، مولانا ظریف احمد ندوی ،مفتی حبیب اللہ اعظمی اور میانجی رمضان میواتی سمیت متعدد مشایخ سے اجازت و خلافت حاصل ہے
48) مولانا عمرین محفوظ رحمانی
آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری ہیں، مولانا سید محمد ولی رحمانی کے خلیفہ مجاز ہیں، کافی متحرک و فعال عالم دین ہیں، خانقاہی سلسلہ سے وابستہ ہیں اور مریدین و مسترشدین کی تربیت میں مشغول ہیں،
49) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ہندوستان کے ممتاز فقیہ ہیں، المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے ذمہ دار ہیں، دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ ہیں، مولانا سالم قاسمی اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی وغیرہ کے خلیفہ ہیں، کئی اہم علمی و فقہی کتابوں کے مصنف ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں میں سے ہیں سن ولادت 1956ہے
50) مولانا احمد میاں سندھ
عالم تصوف میں سلسلہ قادریہ کے سب سے عالی نسبت شیخ کامل ہیں، عمر سو سے متجاوز ہے، مولانا حماد اللہ ہالیجوی کے پوتے اور خلیفہ مجاز بیعت ہیں
51) مولانامفتی خالدسیف اللہ گنگوہی مدظلہ
آپ سلسلۀ تصوف کے بافیض عالم دین اور صاحبِ ارشادبزرگ ہیں ،مولاناشاہ محمداحمدپرتاپگڑھی کے صحبت یافتہ اور مولاناشاہ محمدقمرالزمان الہ آبادی کے خلیفہ ہیں ، جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کے شیخ الحدیث ومدیر اور کتب کثیرہ کے مصنف ہیں ، آپ کا سن ولادت 1967 ہے ۔
52) مولاناقاری شاہ عبدالستاربوڑیوی مدظلہ
آپ متحدہ پنجاب کے بزرگ عالم دین اور قوی النسبت شیخ طریقت ہیں ،مدرسہ ضیاءالقرآن خانقاہ بوڑیہ کے سرپرست اور مسیح الامة مولانامسیح اللہ خان جلال آبادی کے خلیفہ شمارہوتے ہیں ۔علاوہ ازیں انھیں مولاناحکیم سیدمکرم حسین سنساررپوری ، مولانامحمودحسن پٹھیڑوی اور حافظ عبدالرشید راۓ پوری جیسے نصف درجن مشایخ سے اجازت بیعت حاصل ہے ، بہت سے علماء اور محدثین آپ سے بیعت واجازت کا تعلق رکھتے ہیں ۔
53) مولاناحسین احمدپانڈولی مدظلہ
آپ شیخ الحدیث مولانامحمدیونس جون پوری کے محبوب شاگرد اور فقیہ الامت مفتی محمودحسن گنگوہی کے مجاز بیعت ہیں ، ملک کے طول وعرض میں آپ کے منتسبین پھیلے ہوۓ ہیں ، تعلیم وتربیت کے میدان میں آپ کی نمایاں خدمات ہیں ۔
(54) مولانا سید نجم الحسن تھانوی
خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کے موجودہ سجادہ نشین ہیں، مولانا سید ظہور الحسن کسولوی کے صاحبزادہ ہیں اور مولانا رئیس الدین بجنوری و مولانا سید مکرم حسین سنسارپوری سمیت آٹھ نو بزرگوں کے خلیفہ ہیں خود بھی صاحب سلسلہ ہیں ان کے بھی بیسیوں خلفاء مجازین ہیں...
عبدالمالک ندوی دہلوی
رابطہ نمبر 6393731334
کالینہ ممبئی میں مقیم ہیں اور سلوک و احسان کے سلسلہ میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں.. سو سے زیادہ خلفاء ہیں
17) میانجی رمضان میواتی مدظلہ
آپ عہد حاضر کے مشہور صاحب ارشاد بزرگ ہیں، مالب میوات سے تعلق رکھتے ہیں. پوری دنیا میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے آخری تربیت یافتہ اور خلیفہ مجاز بیعت ہیں ،بڑے متحرک و نشیط ہیں. نوے برس سے متجاوز عمر ہے اس کے باوجود دینی، ملی اور احسانی خدمات میں پوری تن دہی سے مشغول ہیں، آپ کے خلفاء میں فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی سب سے نمایاں ہیں
18)مولانا مفتی حبیب اللہ قاسمی اعظم گڑھ مدظلہ
جامعہ اسلامیہ سنجرپور کے شیخ الحدیث و مہتمم ہیں.سن ولادت 1959 ہے، مصنف کتب کثیرہ ہیں.. حدیث و فقہ و تصوف کے جامع ہیں. فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی اور مولانا شاہ عبدالحلیم جونپوری کے خلیفہ ہیں.. کئی خانقاہوں کے بھی ذمہ دار ہیں. فتاوی حبیب الامت اور مواعظ حبیب الامت سمیت درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں... سو کے قریب خلفاء ہیں
19)شاہ انصار کامل چائلی مدظلہ
معروف شاعر اسلام ہیں.. درد و سوز اور کیف و مستی کے عالم میں حمد و نعت پڑھتے ہیں. بزرگانہ اداؤں کے امین ہیں. شاہ وصی اللہ کے مرید ہیں اور مولانا احمد پرتاپ گڑھی و مولانا ابرار الحق ہردوئی کے خلیفہ ہیں..
20)مفتی تقی عثمانی مدظلہ
آپ عالم اسلام کے ممتاز عالم دین ہیں، فقہ، حدیث ،تصوف اور ادب سمیت مختلف علوم و فنون میں مہارت رکھتے ہیں، سن ولادت 1943ہے، مولانا مفتی شفیع عثمانی سابق مفتی دار العلوم دیوبند کے صاحبزادہ ہیں، طریقت و تصوف میں ڈاکٹر عبدالحئی عارفی اور مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادی کے خلیفہ مجاز ہیں، تھانوی سلسلہ کے صاحب فکر اور عالی مرتبت شیخ، دار العلوم کراچی کے شیخ الحدیث ہیں، اردو، عربی اور انگریزی میں کئی گراں قدر تصانیف ہیں! بلاشبہ آپ ملت اسلامیہ کے گل سرسبد اور گوہر شب چراغ ہیں،
21)حکیم محمد نسیم گیاوی مدظلہ
صاحب جذب بزرگ ہیں، کشف و کرامات کے حوالہ سے بھی ممتاز ہیں.مولانا احمد پرتاب گڑھی وغیرہ کے خلیفہ ہیں.شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے سلسلہ میں بھی اجازت یافتہ ہیں
22)مولانا سید بلال حسین تھانوی مدظلہ
مغربی اترپردیش کے بافیض بزرگ ہیں.سن ولادت 1943ہے ، مدرسہ جامع العلوم اشرفیہ باغپت کے بانی و مہتمم ہیں.. وعظ و بیان کا بہترین ملکہ حاصل ہے.. مولانا حامد حسین تھانوی کے صاحبزادہ و مجاز ہیں محی السنہ مولانا ابرار الحق ہردوئی کے ممتاز خلیفہ ہیں. ہزاروں مریدین ہیں سو سے زیادہ خلفاء ہیں
23)مولانا ہاشم چھٹملپوری مدظلہ
سلسلہ رائے پور کے ممتاز بزرگ ہیں مدرسہ کاشف العلوم چھٹملپور کے مہتمم ہیں اور حافظ عبدالستار نانکوی خلیفہ شاہ عبدالقادر رائے پوری کے ممتاز خلیفہ ہیں. مولانا احمد جعفری خلیفہ شیخ الاسلام سے بھی اجازت حاصل ہے تیس کے قریب ان کے خلفاء ہیں..
24) ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری مدظلہ
ہندوستان کے مشہور محدث ہیں،سن ولادت 1934ہے، آپ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مظاہر علوم سہارنپور کے فیض یافتہ ہیں، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ،فلاح دارین ترکیسر گجرات اور العین یونیورسٹی ابوظہبی میں حدیث پاک کے مدرس رہے ہیں،شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ کے عزیز ترین شاگرد ہیں، تصوف و سلوک میں مولانا احمد پرتاب گڑھی، مولانا طلحہ کاندھلوی ،مولانا سید رابع حسنی ندوی اور پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی کے خلیفہ مجاز بیعت ہیں ،جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ کے بانی ہیں نیز عالی سند کے حامل معمر بزرگ ہیں، شیخ زکریا کاندھلوی ،مولانا یوسف بنوری،مولانا احمد ہرتابگڑھی اور شاہ حلیم عطا سلونی سے روایت حدیث کرتے ہیں عالم اسلام میں آپ کے ہزاروں شاگرد ہیں، آپ سے اجازت حدیث لینے والوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں ہے، تصنیف و تالیف اور تحقیق و تنقیح کے اعتبار سے بھی مشہور مصنف ہیں
25)سید انظر حسین میاں دیوبندی مدظلہ
دیوبند کے باشندہ ہیں اور میاں خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.. مولانا سید اصغر حسین میاں دیوبندی کے پوتے ہیں اور ایک واسطہ سے ان کے خلیفہ ہیں.
26)پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ
نقشبندی سلسلہ کے معروف بزرگ پیر ذوالفقار نقشبندی کی ولادت 1953کی ہے.. مولانا غلام حبیب چکوال کے خلیفہ ہیں، دارالعلوم جھنگ کے ذمہ دار ہیں، تصوف و سلوک کے حوالہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں، آپ کے دنیا بھر میں لاکھوں مریدین ہیں تین سو کے قریب خلفاء ہیں جن میں مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی، مولانا سلمان بجنوری دار العلوم دیوبند، مولانا سید محمود مدنی، مولانا سید طلحہ بھیو نڈی، مولانا لطیف الرحمن بہرائچی وغیرہ شامل ہیں، آپ کی تصانیف میں حیات حبیب، دوائے دل، خطبات فقیر اور مجالس فقیر خاصے کی چیز ہیں
27)مولانا احمد مرتضی سہارنپوری
مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے بزرگ استاذ ہیں اور مولانا شاہ اسعد اللہ رامپوری کے خلیفہ مجاز ہیں.
وفیات ۲۸ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصطفا لکھنوی (محمد اصطفا خان)۔وفات۔1963
تہورحسین اثر بدایونی، مفتی ۔وفات۔1981
عبدالقادر شیخ، جسٹس ۔وفات۔2008
ہمدم علیگ (محمد احمد صدیقی)۔وفات۔1988
مولانا محمد سعید وستانوی۔وفات۔2019
مولانا شبیر احمد۔وفات۔2009
مولانا حکیم عبد اللہ جیراج پوری ۔وفات۔1890
ٹکا خان۔وفات۔2002
عالم فخری۔وفات۔2018
/channel/ilmokitab
اسی طرح محی السنہ کے خلفا میں حکیم کلیم اللہ صاحب علی گڑھی اور مولانا افضال الرحمان قاسمی، شیخ الحدیث جامعہ اشرف المدارس، ہردوئی بھی ہیں۔ مندرجہ بالا حضرات کے علاوہ محی السنہ کے اور بھی خلفا موجود ہوں گے، مثلاً اڈیشا میں صوفی ازہر کریم صاحب وغیرہ
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی ڈاکٹر عبد الحی عارفی اور مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خاں شیروانی کے مجاز و خلیفہ ہیں اور وہ دونوں حضرت تھانوی کے خلیفہ تھے
سچی باتیں (۲۸؍اکتوبر ۱۹۴۰ء) ۔ آخری عشرہ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
روحانیات کے عالم میں موسم بہار ختم ہونے کو آگیا۔ امت کے ’’ریفریشر کورس‘‘ کے خاتمہ کو ایک ہفتہ رہ گیا، سپاہیوں کے قدم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوگئی۔ آخری فرصت کو غنیمت سمجھ، سیکھنے والوں اور حاصل کرنے والوں کی ہمت اورمستعدی بڑھ گئی، طلب اور تڑپ دوچند ہوگئی۔ رمضان کا مبارک مہینہ، سستی اور کاہلی، پڑے رہنے اور انگڑائیاں لیتے رہنے کا مہینہ کبھی بھی نہ تھا۔ آخری ہفتہ میں چستی اور مستعدی اپنے حدّ کمال کو پہونچ گئی۔ مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا تھا(اولہ‘ رحمۃٌ)تمامتر نیکی کے قویٰ کو تحریک ہوتی رہی۔ دوسرے عشرہ سے نتائج ظاہر ہونے لگے، دلوں سے زنگ دُور ہوگئے، روح میں جلا آگئی(أوسطہ‘ مغفرۃٌ) تیسرا عشرہ نچوڑ کا ہے، رہی سہی کثافتیں بھی دور ہوجائیں گی، ایک ایک فرد، اور ساری کی ساری اُمت نکھر جائے گی، سنور جائے گی، سُدھر جائے گی(وآخرہ‘عتقٌ من النار)……حدیث میں آتاہے کہ اس فوج کا سردار اعظمؐ، آخر عشرہ میں تمامتر وقفِ عبادت ہوجاتاتھا۔ تعلقات خلق سے وقتی انقطاع کے ساتھ مصروفیت ویکسوئی براہ راست خالق وناظر کے ساتھ ہوجاتی تھی!
خبر دی ہے اُس نے جس کی دی ہوئی ہرخبر سچ اور سچی ہی نکلی ہے، کہ اسی مشق وریاضت والے مہینہ (شہر الصبر) ، اسی رحم وہمدردی والے مہینہ (شہر المواساۃ) کے آخری عشرہ میں کوئی رات ایسی بھی آتی ہے، جو سال کی ہررات عمر کی ہررات سے بڑھ کر قیمتی اور قابل قدر ہوتی ہے۔ ڈھونڈواُسے آخر کی پانچ طاق راتوں میں۔ اللہ والے اس تلاش میں ساری ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں۔ اور دن بھر کی بھوک، پیاس کے ساتھ ساتھ رات کی نیند کی قربانی بھی بے تکلف اور بمسرت اپنے اَن دیکھے مولیٰ کے حضور میں پیش کردیتے ہیں، کہ رحمت کے فرشتے جس وقت بھی انھیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں، غافل نہیں،ہوشیار ومستعد، اپنی چاکری پر کمربستہ، اپنی ڈیوٹی پرمسلح پائیں!……جو امت ہرسال اس مجاہدہ کی منزلوں سے گزرتی ہے، دنیا کی جدوجہد میں اُسے کسی قوم سے بھی پیچھے رہنا چاہئے؟ ہنگامہ عمل میں کسی سے بھی بچھڑ جانے، اور بچھڑ جانے کا خطرہ اُسے ہے؟
تیسواں دن یا اکتیسویں دن خوشی کا دن ہوگا۔ سالانہ جشن کی تاریخ ہوگی۔ اللہ کے دربار میں اللہ والوں کے میلہ لگنے کی گھڑی آئے گی۔ یہ انوکھے میلہ والے گھروں سے نکلیں گے، فحش گیت گاتے ہوئے نہیں، ایک دوسرے پر رنگ کی کیچڑ اُچھالتے ہوئے نہیں، پاک صاف ہوکر، نہادھوکر، دلوں میں اللہ کا نام جپتے ہوئے، زبانوں سے توحید کی بڑائی پکارتے ہوئے، شہر کے باہریا محلہ کے مرکز میں جمع ہوں گے، ناچ، ناٹک، سوانگ دیکھنے نہیں، گھوڑدوڑ میں بازی لگانے نہیں، کارنیوال میں پانسہ ڈالنے نہیں، حمدوتسبیح کے لئے، رکوع وسجود کے لئے، توحید کی گواہی، رسالت کی شہادت کے لئے۔ آج نہ کوئی بڑا ہوگا نہ کوئی چھوٹا۔ نہ کوئی آقا اور نہ کوئی رعایا، نہ کوئی شریف نہ کوئی رذیل۔ محمود وایاز ایک صف میں کھڑے ہوں گے، محلہ کے دھوبی، بھشتی، نائی، جو رئیسوں کی ڈیوڑھیوں اور حویلیوں پر گھنٹوں کھڑے، اور پہروں پڑے رہتے ہیں، اور پھر باریابی نہیں ہوتی، آج بے تکلف اور بلاجھجک اُنھیں رئیسوں، امیروں نوابوں کے شانہ سے شانہ ملائے کھڑئے ہوں گے، ایک ساتھ اُٹھیں گے، ایک ساتھ جھکیں گے، ایک ساتھ دعاؤں کے لئے ہاتھ اُٹھائیں گے!……زبانیں ایک ہوں گی، ہاتھ پیر ایک ہوں گے، قالب ایک ہوں گے، عجب کیا ہے جو اس ظاہری اور خارجی یک رنگی، یک جہتی، یکسوئی سے دل اور روحیں بھی ایک ہوجائیں!
/channel/ilmokitab
وفیات ۳۱ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صہبا لکھنوی۔وفات۔2002
ظفر نیازی۔وفات۔1966
پروفیسر اختر اور ینوی۔وفات۔1977
مولانا سید محمد جعفرشاہ پھلواروی ندوی۔وفات۔1982
کالی داس گپتا رضا۔وفات۔2001
شاہ محمد جعفر پھلواروی ندوی۔وفات۔1982
مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی۔وفات۔1991
مولانا جمیل احمد سکروڈوی۔وفات۔2019
مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی۔وفات۔2011
مولانا نذیر الدین احمد جعفری بنارسی۔وفات۔1934
سید قاسم محمود۔وفات۔2010
مولانا جمیل احمد سکروڈوی۔وفات۔2019
مولانا محمد طاہر پنج پیری ( شیخ القرآن)۔وفات۔1987
/channel/ilmokitab
سلسلہ نمبر : 41
انتخاب مطالعہ
تحریر: منسٹری آف انفارمیشن
*لدّاخ آب و ہوا*
''لؔداخ'' میں دن کو کڑی دھوپ اور رات کو زبردست سردی ہوتی ہے، بارشیں بہت کم ہوتی ہیں، مشکل سے سال میں دو تین انچ ہوتی ہوگی، اکثر برف گرتی ہے، اور بہت گرتی ہے، بہر حال آب و ہوا ایسی ہے: جو حیوانی زندگی کے لیے مناسب ہے، جؔنگلی گدھے، ہؔرن، یؔاک، پؔہاڑی بکرے اور جؔنگلی بھیڑیں 17 ہزار فٹ کی بلندی تک پائی جاتی ہیں، 19 ہزار کی بلندی پر پہؔاڑی گلہری، اور خؔرگوش بھی پائے جاتے ہیں۔
''لداخ''میں شکاریوں کے لیے بڑی کشش ہے؛ یہ مؔارخور، لؔال بھالو، برفیلے علاقے کے چؔیتے، تؔبتی ہرن، اور غؔزالوں کا مسکن ہے۔
یہاں افق دکھائی نہیں دیتا، صرف پہاڑی کی اونچی اونچی چوٹیاں نظر آتی ہیں، یہاں 9 سے 15 ہزار فٹ کی بلندی پر انسانی آبادیاں ہیں، آبادی کا گھنا پن دو آدمی فی مربع میل ہے ۔
یہ اونچا نیچا پہاڑی علاقہ یقینًا انسانی ہمت و جرات کو ہر وقت للکارتا رہتا ہے، اونچے پہاڑی سلسلوں، برف پوش چوٹیوں، اور ہوا ہلکی ہونے کی وجہ سے چند گز اوپر چڑھنے کے لیے سخت جد و جہد کرنی پڑتی ہے، یہاں بہت سردی پڑتی ہے، درجۂ حرارت انجماد سے نیچے ہوتا ہے ( رات کو صفر سے 30°/ 40° سینٹی گریڈ کم ہوتا ہے ) رات کو زور دار اور برفیلی ہوایئں بھی چلتی ہیں، جاڑے میں ہرچیز جم جاتی ہے، کھانا پکانے اور پینے کے لیے پانی حاصل کرنے کے لیے برف کی اوپری سطح کو توڑنا پڑتا ہے، سبزیاں اور پھل پتھر جیسے سخت ہوجاتے ہیں، میدانی علاقے کے مقابلے میں بلندیوں پر پکانے میں کافی وقت لگتا ہے، اگر کوئی پکی ہوئی چیز چند منٹوں کے لیے پلیٹ میں چھوڑ دی جائے تو وہ بالکل سخت ہوجاتی ہے اور کھانے کے قابل نہیں رہتی ۔
ضؔلع کا صدر مقام " لیہہ" ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے، جو اونچے پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، اس سے بلندی پر ایک محل اور ایک ( بودھ مذہبی) خانقاہ ہے، جو سؔولہویں صدی میں بنائی گئ تہی۔
( دسمبر : 1965)
( *لداخ، صفحہ: 8، طبع: گورمنٹ آف انڈیا، پریس: فریدآباد، پنجاب*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
بمبئی کی بزم آرائیاں (2)
معصوم مرادآبادی
بمبئی میرے لیے ہمیشہ خوابوں کا شہر رہا ہے۔یہاں کی بے تحاشہ بھیڑبھاڑ اور تنگیوں کے باوجود مجھے یہاں کی نظم وضبط میں ڈھلی ہوئی زندگی اچھی لگتی ہے۔یہاں نقل وحمل کا نظام بھی بہت اچھا ہے۔ ٹیکسی اور آٹو والے کسی کو لوٹنے کی جرات نہیں کرتے۔مجھے شروع ہی سے بمبئی بہت پسند ہے اور میں نے بارہا اس کی رونقوں کو لوٹا ہے۔لیکن جب سے زندگی بے ہنگم مصروفیات کی نذر ہوئی ہے تب سے بمبئی کے سفر کم ہوگئے ہیں۔ کبھی ایک دو دن سے زیادہ ٹھہرنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن اس بار جب بھائی سرفراز آرزو نے اپنے اخبار ”ہندوستان“ کے 88 برس پورے ہونے کی تقریب میں مجھے مدعو کیا تو میں نے ان سے کہا کہ اس بار میں کچھ دن وہاں ٹھہرنا چاہتا ہوں۔انھوں نے خوش آمدید کہا۔ لہٰذا لکھنؤ کے مانو کیمپس میں توسیعی خطبے اور ’بالمشافہ‘ کے اجراء سے فارغ ہوکر سیدھا لکھنؤ سے ممبئی پہنچ گیا۔سفردرسفر سے گریز کرتا ہوں، لیکن اس بار یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ بمبئی پہنچ کر مجھے ایک عجیب طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ دوست احباب بھی بہت ہیں مگر سب سے زیادہ سمندر سے میری شناسائی ہے۔گھنٹوں ساحل پرلہروں سے ہم کلام رہتاہوں۔اس بار جن دوستوں نے میرے ساتھ وقت بتایا ان میں برادرم سرفراز آرزو کے علاوہ برادرمکرم ندیم صدیقی، شکیل رشید، فاروق سید، جاوید جمال الدین، محمدوجیہ الدین، شہباز صدیقی،سعید خان اور ڈاکٹر روؤف پٹھان کے نام قابل ذکر ہیں۔
پہلے دودن توسینٹرل ممبئی کے پریل میں واقع آئی ٹی سی گرانڈ سینٹرل میں ہندی صحافی آشوتوش کے ساتھ گزرے۔ پھر میں ناگپاڑہ آگیا۔آئی ٹی سی گرانڈسینٹرل واقعی بہت خوبصورت ہوٹل ہے۔ میں نے جو لطف امریکہ اور انگلینڈ کے ہوٹلوں میں اٹھایا،وہی یہاں بھی محسوس ہوا۔ ہندستان میں عالمی معیار کے ہوٹل دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔لیکن مجھے اصل لطف ناگپاڑہ کے ہوٹل میں آیا۔اپنا ماحول، اپنی تہذیب اور معاشرت کی بات ہی کچھ اور ہے۔
26/فروری کی صبح برادرم فاروق سید اپنی تیز رفتار اسکوٹی پر بٹھاکر مجھے اپنا نیا دفتر دکھانے لے گئے، وہیں پرانے دوست فوٹو گرافر عبید خاں سے بھی ملاقات ہوئی، جنھوں نے 1987میں بال ٹھاکرے سے انٹرویو لیتے ہوئے میری تصویر کھینچی تھی۔ طویل عرصہ بعد ملے تو بہت خوشی ہوئی۔اس دوران ’ممبئی اردو نیوز‘ کے ایڈیٹر اور ہمدم دیرینہ شکیل رشید مکتبہ جامعہ پہنچ گئے تھے۔ ان کے ساتھ میں نے پہلی بار مکتبہ میں کچھ وقت گذارا۔ محمدعلی روڈ پر واقع مکتبہ جامعہ کی یہ برانچ بڑی تاریخی جگہ ہے۔یہاں ماضی میں اخترالایمان، جاں نثار اختر، علی سردار جعفری، ظ انصاری، مجروح سلطانپوری، باقر مہدی،فضیل جعفری، حسن کمال،اور جاوید صدیقی جیسی شخصیتیں آکر بیٹھاکر تی تھیں۔ ان اکابرین ادب کی کچھ خوشبو یہاں آج بھی یہاں محسوس ہوتی ہے۔یہ محفلیں میرے کرم فرما شاہد علی خاں کے دم سے آباد تھیں جو اس زمانے میں مکتبہ جامعہ کی بمبئی شاخ کے منیجر ہوا کرتے تھے۔عبداللہ کمال نے ان محفلوں کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”مکتبہ جامعہ کی ممبئی شاخ بھی کسی زمانے میں ایک عرصے تک ممبئی کے بے کراں، بے اماں آسمان کے نیچے ایک فرحت بخش سائبان کا حکم رکھتی تھی، جہاں ممبئی کے سرکش قلم زادوں کی مجروح ومفرور روحیں شام ڈھلے یکجا ہوجاتی تھیں اور اپنے اپنے زخموں اور ٹوٹ پھوٹ کا جائزہ لیتی تھیں۔شاہد علی خاں جنھیں سب پیار سے شاہد بھائی کہتے ہیں، ان مجروح ومفرور روحوں کے روح رواں ہواکرتے تھے اور ممبئی کے ان ادیبوں اور شاعروں کے سروں پر جامعہ کا سائبان ان ہی کے دم سے قایم تھا۔“(’شاہدعلی خاں:ایک فردایک ادارہ‘:مرتب:نصیرالدین اظہر، صفحہ160)
مکتبہ کی یہ تاریخی شاخ ابھی تک جوں کی توں موجود ہے، لیکن یہاں بھی مکتبہ جامعہ کے ہیڈآفس پر طاری جمود کاگہرا اثر ہے۔فی الحال ایک نوجوان عالمگیر نے اس کی کمان مضبوطی سے سنبھال رکھی ہے۔ آگے کیا ہوگا مجھے نہیں معلوم۔ بہرحال مکتبہ میں شکیل رشید، شاداب رشیداور فاروق سید میراساتھ دینے کے لیے وہاں موجود تھے۔شاداب رشید سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ بمبئی کے معروف صحافی، ادیب،کالم نگار اور ’نیاورق‘ کے مدیر ساجد رشید کے ہونہار بیٹے ہیں۔ ’کتاب دار‘کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ چلاتے ہیں۔انھوں نے ’نیا ورق‘ کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔مجھے ان سے مل کر خوشی ہوئی۔ان کا ادبی ذوق قابل قدر ہے اور ان میں اپنے والد کی پوری جھلک موجود ہے۔فاروق سید بچوں کے ماہنامہ ’گل بوٹے‘ کے بڑے محنت کش اور صراط مستقیم پر چلنے والے مدیر ہیں۔ جب بھی ملتے ہیں تپاک سے ملتے ہیں۔
شکیل رشید میرے دیرینہ کرم فرما ہیں۔میں انھیں خلیل زاہد کے ’اخبار عالم‘کے زمانے سے جانتا ہوں۔بڑی محبت اور خلوص میں رچے ہوئے انسان ہیں۔ اس بار ان سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی اور ہم نے ناگپاڑہ کے ساروی ہوٹل میں ایرانی ڈش ’آب گوشت‘ کا لطف اٹھایا۔ میزبان تھے بھائی شہباز صدیقی۔ سعید خان اور فاروق سید نے بھی ساتھ دیا۔سنا ہے دلیپ کمار کو ساروی ہوٹل کے کباب بہت پسند تھے۔
غریب اور مظلوم انسان جیل تک پہونچ کر ان سے بھر پور مدد حاصل کرتا ۔
غریب پروری اور مظلوموں کی داد رسی تو اس خاندان کا شیوہ رہی ہے۔ گھر ہو یا جیل ہر جگہ غریبوں اور مظلوموں کے لئے دربار لگاۓ جاتے تھے۔ ان حضرات کی حکومت لوگوں کے دلوں پر ہوا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ پورے بھارت میں غازی پور ایک ایسی سیٹ ہے جہاں مسلمان گیارہ فیصد اور غیرمسلم نواسی فیصد ہیں پھر بھی چالیس پینتالیس سال سے لگاتار ایم پی اسی خاندان سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ سن اسی (80) کے بعد سے غیر مسلموں کے ووٹ سے لگاتار کامیاب ہونا اس بات کی کھلی ہوئ دلیل ہے کہ یہ گھرانہ لوگوں کے دلوں میں بستا ہے خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ٹھیک اسی طرح مختار احمد انصاری مئو سے پانچ بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور چھٹی بار ان کا بیٹا عباس انصاری موجودہ ایم ایل اے ہے ۔
یہی نہیں بلکہ 2005 کے آس پاس مختار انصاری صاحب نے اپنے بل پر قرب و جوار سے سماج وادی پارٹی کو نصف درجن سیٹوں پر جیت درج کروائی تھی ۔
5 ۔ ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں زمینوں کے ناجائز قبضے ہٹوا کر لوگوں کے مسائل کو حل کردیا ۔
6 ۔ بے شمار غریبوں اور مریضوں کی مدد فرمائ اور ہزاروں بچیوں کی شادیوں میں خاصا تعاون فرمایا۔
7 ۔ ظالم ان کے نام سے کانپ جاتا تھا ۔ ظلم کے لئے وہ بہت بڑی چٹان تھے ہر مظلوم کی فریاد ان کے یہاں پوری ہوتی۔
8 ۔ امت مسلمہ کی ناک سمجھا جانے والا یہ بہادر ہمیشہ علماء کرام سے خصوصی لگاؤ رکھتا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ مئو کے مفتی محفوظ الرحمٰن صاحب اور کوپاگنج کے مفتی خلیل صاحب سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ جب بھی کوپاگنج آتے تو مفتی صاحب کے یہاں ضرور حاضر ہوتے ۔ اور مدارس میں حاضری دیتے تھے۔ ان کا یہ وصف دین سے تعلق کی بنا پر تھا ۔
میں نے کبھی بھی کسی مقامی لیڈر کے یہاں انہیں جاتے نہیں دیکھا اگر جاتے تو بزرگوں کے یہاں جاتے۔ اور ان کی دعائیں لیتے ۔ اللہ تعالی نے انہیں بڑی مقبولیت عطا فرمائ تھی۔
گفتار کے غازی تو نہیں تھے البتہ کردار کے غازی ضرور تھے۔
مختار انصاری کی وفات جیل میں ہوئ وہ ایک طویل عرصے سے مختلف جیلوں میں بند تھے غزوہ بدر کی تاریخ یعنی سترہ رمضان المبارک کو ان کے خدشات ظاہر ہوۓ ۔ کہتے ہیں کہ شیر کا شکار پنجرہ میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ کھلے میں شکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح امت مسلمہ کا ایک مضبوط ستون ہمیشہ کے لئے گر گیا ۔
چنانچہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پورے غازی پور کو چھاؤنی میں بدل دیا گیا اور چھبیس نامزد گاڑیاں ایک بہادر کی مردہ لاش کو باندہ سے لے کر ان کے وطن غازی پور پہونچیں جو اس بات کی شہادت ہے کہ مختار گرچہ مرچکے ہیں مگر ان کی جلالت شان اور وہی سابقہ رعب و دبدبہ باقی ہے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کی شان کے مطابق ان کے درجات بلند فرماۓ۔ ان کے گھر کے سارے افراد کو صبر جمیل عطا فرمائے۔مقدمات سے چھٹکارا نصیب فرمائے اور مظلوموں کے لئے ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
Https://telegram.me/ilmokitab
سلسلہ نمبر : 40
انتخاب مطالعہ
تحریر: ممتاز مؔفتی
*آپ کا نام*
نام کے تین پہلو ہوتے ہیں : صوتی اثر، مفہوم، اور تاثیر
کچھ نام صوتی اثر کے لحاظ سے ہلکے پھلکے ہوتے ہیں، کچھ بھاری بوجھل ہوتے ہیں، کچھ زیادہ ہی گاڑھے ہوتے ہیں، اور کچھ حلق میں یوں پھنس جاتے ہیں جیسے: مچھلی کا کانٹا، ان کا بولنا حلق پر ظلم کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔
مثلا: غؔضنفر ایسا نام ہے جسے آپ بار بار بولیں تو یقینا آپ کو ٹانسلز کا عارضہ لاحق ہوجائے...
ناموں کے معاملے میں ایک اور دقّت ہے، ماں باپ بچے کا مقدس نام رکھ دیتے ہیں مثلا: ''محمد علی''، ''ﷲ بخش''، ''محمد حسین ''
مؔحمد علی کو نہ آپ ''محمد'' کہہ کر بلا سکتے ہیں، نہ ''علی'' کہہ کر، پھر یہ بھی ہے: کہ پیار سے نام بگاڑ بھی نہیں سکتے؛ میرا تجربہ یہ ہے: کہ اظہار محبت کے لیے نام بگاڑنا بے حد ضروری ہوتا ہے، مثلا: میرے بیٹے کا نام عؔکسی ہے، اگر میں عکسی کہہ کر بلاؤں تو اجنبیت سی محسوس کرتا ہوں ؛ اس لیے میں اسے "اچھی" کہہ کر بلاتا ہوں
پتا نہیں ایسے کیوں ہوتا ہے ؛ لیکن ایسا ہوتا ھے کہ جس کے لیے آپ کے دل میں محبت ہے آپ اس کے نام کو بگاڑنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں، رؔضیہ کو ''رضو'' کہتے ہیں، اؔقبال کو ''بال'' اور مؔقبول کو ''بولی''
مقدس نام موزوں نہیں رہتے، کم از کم نام کا ایک حصہ ضرور غیر مقدس ہونا چاہئے؛ کہ آپ اسے برا بھلا کہہ سکیں، غصے میں گالی دے سکیں، دُر پھٹے منہ کہہ سکیں...
آج کل کے مغرب زدہ دور میں کچھ لوگ پسند نہیں کرتے کہ ان کے نام سے مذہب کی بو آئے، وہ سیکولر بننا پسند کرتے ہیں ؛ نام سے مذہب کی بو آئے تو اسٹیٹس میں فرق آتا ہے، اس مشکل کو حل کرنے کے لیے وہ اپنے نام کے ساتھ ایک اور لفظ بڑھادیتے ہیں، بطرز تخلص
مثلا: غلام محمد نے سؔرشار کا لفظ بڑھالیا، پھر مذہبی نام کو کیما فلاج کرلیا، یوں وہ اپنا نام ''جی ایم سرشار'' لکھنے لگے، نذر محمد خود کو ن م راشد لکہنے لگتا ہے، محمد حسین ایم ایچ چٹھ میں پناہ لیتا ہے
معنوی پہلو سے نام کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے مثلا: میرا ایک دوست ہے ''نور دین'' اور اسکی شخصیت دیکھئیے تو نام کی ضد ہے، نہ اس میں نؔور ہے نہ دؔین ہے۔
نام لینے والا خواہمخواہ شرمندہ ہوتا ہے جیسے برملا جہوٹ بول رہا ہو،
پھر میری ایک عزیزہ ہیں ان کا نام ''حسینہ'' ہے، دیکہنے میں انہیں حسن سے دور کا تعلق بھی نہیں، جب انہیں حسینہ کہہ کر بلایا جاتا ہے تو ان کی بدصورتی اور بھی نمایاں ہوجاتی ہے، ایک خاتون پر اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوسکتا ہے!
...نام کے دو حصوں میں بے ربطی نہیں ہونی چاہئے! پھر یہ بھی ضروری ہے کہ نام اور شخصیت ہم آہنگ ہوں! اہلِ مغرب نے نام کی اہمیت کو بالکل نہیں سمجہا؛. انہوں نے ناموں کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے، کوئی خود کو فاکس (Fox) کہلاتا ہے، کوئی ولف ( wolf)، کوئی گولڈ واٹر کا نام رکھے بیٹھا ہے، کوئی باٹل تک، حیرت ہے کہ اتنے مہذب ؛ لیکن اتنے بے حس! بات سمجھ میں نہیں آتی، حیرت اس بات پر ہے: کہ اتنے بے معنی نام انہیں سوجہتے کیسے ہیں! نہ معنی، نہ سُر، نہ تال،
رؔوسی ناموں سے اللہ پناہ میں رکھے! میں روسی لکہنے والوں کا مداح ہوں، دؔوستودسکی کا فین ہوں، دؔوستودسکی کا مطالعہ کیا، تو سب سے بڑی مشکل ناموں نے پیدا کی، آدھی آدھی سطر کا ایک ایک نام اور ہر نام میں تقریبا ساری اے بی سی ڈی سمائی ہوئی ...
میں نے زندگی میں ایک نام دیکھا ہے، جو ہر لحاظ سے مکمل جامع اور پرفیکٹ ہے،
صوتی، معنوی، نفسیاتی، ہر لحاظ سے اعلی و ارفع ہے، اس میں سُر ہے، لَے ہے، نغمگی ہے، معنوی لحاظ سے مثبت اثرات سے بھر پور ہے، ماڈرن ناموں کی طرح مختصر ہے، جامع ہے، پیارا ہے، مفہوم کے اعتبار سے قابل احترام ہے، قابل ستائش ہے، اور وہ ہے _ محمد صلی اللہ علیہ وسلم_ سبحانﷲ! کیا نام ہے!
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
(*رام دین، صفحہ: 171، طبع: پاک سوسائٹی ڈاٹ کام*)
/channel/ilmokitab
چندے کا دھندہ
معصوم مرادآبادی
یہ واقعہ کل یعنی جمعہ 29 مارچ کا ہے۔مشرقی دہلی کی ایک بڑی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی میں نماز جمعہ کے دوران مدارس کے سفراء کی اچھی خاصی تعداد چندہ کرنے آئی تھی۔ امام صاحب نے اعلان کیا کہ مسجد کے نیچے ان سفراء کے بیٹھنے کا معقول انتظام کیا گیا ہے اس لئے وہ مسجد کے راستے میں جہاں جوتے چپل پڑے رہتے ہیں وہاں نہ بیٹھیں۔کیونکہ ان کا مقام بہت بلند ہے۔
نماز جمعہ ختم ہوئی اور مقررہ مقام پر لوگ سفراء کو زکوٰۃ وصدقات کی رقوم دے کر اپنی رسیدیں کٹوانے لگے۔ اتنے میں سوسائٹی کا ایک نوجوان اچھی خاصی رقم تقسیم کرنے کے لئے وہاں پہنچا۔ اس نوجوان کے ہاتھوں میں رقم دیکھ کر یہ سفراء حضرات بھکاریوں کی طرح اس پر یوں ٹوٹ پڑے کہ اسے اپنی جان بچانا مشکل ہوگیا۔ اچھا خاصا شورشرابہ بھی ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مذکورہ نوجوان نے رقم تقسیم کرنے کی بجائے وہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
یہ سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی ہے۔ اسی کے ساتھ مجھے امام صاحب کا وہ جملہ یاد آیا کہ جس میں انھوں نے سفراءکو مخاطب کرتے ہوئےکہاتھاکہ " آپ کا مقام بہت بلند ہے۔"
https://telegram me/ilmokitab
وفیات ۳۰ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسان الہی ظہیر۔وفات۔1987
بلقیس جمال بریلوی ۔وفات۔1991
روشن عطاء ۔وفات۔2011
صہبا لکھنوی (سید شرافت علی)۔وفات۔2002
لیاقت سولجر(لیاقت علی)۔وفات۔2011
محمد بیدری،سید ۔وفات۔1975
محمد علی حبیب ۔وفات۔1959
سید شہاب الدین دسنوی ۔وفات۔1998
مولانا احسان الہی ظہیر۔وفات۔1987
آنند بخشی۔وفات۔2002
/channel/ilmokitab
اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہوگی ہم سے... - احمد حاطب صدیقی
پچھلے کالم میں، نہ جانے کس جھونک میں آکر اور لغات سے سند لیے بغیر، ہم لکھ گئے کہ
’’ تعیُّن عربی لفظ ہے، تَعیین فارسی لفظ ہے اور تعینات یا تعیناتی خالص اُردو اصطلاح ہے‘‘۔
یہاں غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے تعیین کو صرف فارسی لفظ قرار دیا ہے، جب کہ خود فارسی کا تعیین بھی عربی ہی سے آیا ہے۔ یعنی یہ لفظ عربی الاصل ہے۔ اب یہ الگ بات،کہ فارسی والوں نے تعیین کا ایک ’ی‘ حذف کرکے اپنے تعیین میں تخفیف کرڈالی۔ وہ تعیین کو بر وزنِ یقین برتنے لگے۔ جیسا کہ ملا طغراؔ مشہدی نے تعیین کے ساتھ یہ برتاؤ کرکے دکھادیا۔ فرماتے ہیں:
تعِیں گشت ساعاتِ بزم و طرب
خوشی یافت از حکمِ او روز و شب
گزشتہ کالم کا اصل موضوع تو لفظ’ تعینات‘ اور اس کا تلفظ تھا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر اس لفظ کو تواتر سے تعیُّنات بولاجارہا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اُردو والوں نے پہلے اسی مفرس لفظ تعِین (بروزنِ امین)کی جمع عربی قاعدے کے مطابق تعِینات (تلفظ: تِعی نات) بنائی، پھر اسے مفرد کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ تلفظ بھی ’تَعے نات‘ کرلیا۔ اب اُردو میں یہی تلفظ درست مانا جاتا ہے۔ بقول صاحبِ نوراللغات مولوی نورالحسن نیر مرحوم ’’اس کوتوال کی تَعیناتی رکاب گنج میں ہوئی ہے‘‘ نہ کہ تعیُّناتی، مگر کس کوتوال کی؟ یہ مت پوچھیے!
متعدد اہلِ علم نے تعیین کے تعیُّن میں ہمارے تسامح کی نشان دہی کی۔ ہم فرداً فرداً سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ملتمس ہیں کہ آیندہ بھی رہنمائی فرماتے رہیں۔ اِنھیں اہلِ علم میں مولانا صدر الدین اصلاحی رحمہٗ اللہ کے فرزندِ دل بند محترم رضوان احمد فلاحی حفظہٗ اللہ بھی شامل ہیں۔ مولانا رضوان احمد فلاحی طول اللہ عمرہٗ، جوجامعۃ الفلاح، بلریا گنج، ضلع اعظم گڑھ سے فارغ التحصیل ہیں، اپنے نام کے ساتھ مولانا لکھنے سے سختی سے منع فرماتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کسی کتاب پر ان کے نام کے ساتھ مولانا چھپ جائے تو کتاب کو عام کرنے سے پہلے لفظ ’مولانا‘ پر موٹے کاغذ کی چیپی لگوانا ضروری سمجھتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ تعیینِ مراتب کی اس دنیا میں ایسے ایسے مولانا بھی موجود ہیں۔
’تعیین‘ کے محض فارسی ہونے کا تاثر ملنے پر اہلِ علم اور اہلِ لغت کے اعتراضات بالکل بجا، برمحل اور سر آنکھوں پر۔ مگر صاحب! ذرا کی ذرا ہمارے پچھلے کالم بعنوان ’’بھرتی کہاں کروں دلِ خانہ خراب کی‘‘ پر اہلِ قرأت میں سے ایک صاحب کا تعریفی و توصیفی مراسلہ بھی پڑھ لیجے، تاکہ توصیف و تصحیح دونوں کو مساوی موقع یعنی ‘Level Playing Field’مل سکے اور مزید کوئی اعتراض باقی نہ رہے۔ جناب محمد طاہر عزیز اوسلو (ناروے) سے لکھتے ہیں:
’’ماشاء اللہ، حسب معمول شان دار اور جان دار… بلاشبہ منتظر کالم… چند سال قبل ہمارے یہاں (اوسلو میں) مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمٰن صاحب مدظلہ تشریف فرما ہوئے، ایک نجی مجلس میں بچوں کی اُردو سے عدم توجہ کا موضوع زیر بحث تھا تو اس کالم کی طرف اشارہ فرمایا۔ تب سے اب تک اس کالم کو الحمدللہ مستقل پڑھتا ہوں۔ اُردو میں نظم و نثر کی معلومات کے حوالے سے تو اس کی افادیت مسلم ہے ہی، مگر اصلاح کے معاملے میں یہ کالم ایک عظیم، مصلح اور مدبر استاذ سے کم درجہ نہیں رکھتا… آپ نے اس تسلسل کو قائم رکھا اور قاری کو اپنے ساتھ جڑے رہنے پر مجبور کردیا… اللہ کریم آپ کو تادیر سلامت باکرامت رکھے۔ آپ کی اس سعی کو مشکور اور قبولِ عام عطا فرمائے آمین‘‘۔ ثم آمین۔ اب مفتی صاحب مدظلہ العالی کا مکتوب بھی ملاحظہ فرما لیجے:
’’محترم جناب ابونثر احمد حاطب صدیقی صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔آپ نے رواں شمارے میں لکھا ہے ’’تعیُّن‘‘ عربی لفظ ہے اور’’ تعیین‘‘ فارسی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں عربی الفاظ ہیں۔’’ع، ی، ن‘‘ مادّے سے بابِ تَفَعُُل کے وزن پر تَعَیُّن ہے ’’المنجد‘‘ میں اس کے معانی یہ ہیں:’’تَعَیَّنَ الشَّیَٔ‘‘ دیکھنا، ’’تَعَیَّنَ الرَّجُلَ‘‘ یقینی طور پر دیکھنا۔’’تَعَیَّنَ عَلَیْہِ الشَّیُٔ‘‘مقرر شے کا لازم ہونا وغیرہ۔ بابِ تفعیل سے تعیین ہے۔’’تاج العروس‘‘ میں اس کے من جملہ معانی میں سے ہے: ’’عَیَّنَ الشَّجَرُتَعْیِیْناً‘‘ درخت کا سرسبز ہونا، شگوفہ دار ہونا، ’’عَیَّنَ التآَاجِرُ تَعْیِیْناً وَ عِیْنَۃً‘‘ سامان کو ایک مقررہ مدت کے وعدے پر فروخت کرنا اور پھر پہلی قیمت سے کم قیمت میں دوبارہ خرید لینا۔ اس کو حدیث و فقہ کی اصطلاح میں’’بیعِ عِیْنَہ‘‘ کہتے ہیں۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے ناپسند فرمایا ہے، لہٰذا اکثر فقہا نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔’’تَعیِیْنُ الشَّیٔ‘‘کسی چیز کو خاص کرنا، علیحدہ کرنا، وغیرہ۔ آپ کے ادبی شہ پاروں سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ عافیت میں رکھے‘‘۔ مفتی منیب الرحمٰن۔ 24 مارچ 2024ء
*تعارف کتاب: مطالعاتِ اسرار و رموز۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق*
کتاب : مطالعات اسرار و رموز
مرتب : خالد ندیم
صفحات : 548
قیمت: درج نہیں
ناشر : نشریات، لاہور
03214433155
r.khalidnadeem@gmail.com
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ؒایک عظیم شاعر ہی نہیں، کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے، قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ کرنے، اور سب سے بڑھ کر فلسفۂ حیات و ممات کی گتھیاں سلجھانے والے ایک عظیم فلسفی بھی تھے۔ قیامِ یورپ کے زمانے میں جب اقبال نے فلسفہ ٔ عجم پر اپنا علمی مقالہ لکھا اور اس ضمن میں فارسی ادب اور تصوف کا گہرا مطالعہ کیا تو انھوں نے محسوس کیا کہ دنیا میں مسلمانوں کی کمزوری اور انحطاط کا ایک بڑا سبب عجمی تصوف یعنی ٔخودی کا وہ تصور ہے جو انسانی وجود کو موہوم سمجھتا ہے اور یاس و قنوطیت کی تعلیم دیتا ہے۔ علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ نفیِ خودی کا اصول مغلوب اور مفتوح قوموں کا ایجاد کیا ہوا ہے۔ یہ مفتوح قومیں چاہتی ہیں کہ غالب اور فاتح قوموں کو بھی کمزور کردیں، تاکہ ان کے ظلم و ستم سے نجات پائیں، اس لیے وہ بے خودی اور فنائیت کے مسلک کا پرچار کرتی ہیں۔ جبکہ علامہ اقبال منکرِ خودی کو منکرِ خدا سے بڑھ کر کافر سمجھتے تھے:
منکرِ حق نزدِ مُلا کافر است
منکرِ خود نزدِ من کافر تر است
علامہ اقبال نے مسلمانوں کے دماغ سے احساسِ کمتری کو دور کرنے کی کوشش کی، اور یہی ان کی مشہور مثنوی ”اسرارِ خودی“ کا مرکزی موضوع ہے۔ مثنوی اسرارِ خودی اقبال کا فارسی زبان میں پہلا شعری مجموعہ ہے۔ عجمی تصوف کے مطالعے کے دوران اقبال نے مثنوی مولانا روم کا بھی نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تصنیف مثنوی اسرارِ خودی کی بنیاد بھی مثنوی ٔ معنوی ہی کی طرز پر رکھی۔ اور اس میں وہی تمثیلی اور حکایتی طرز اختیار کیا جو مثنوی ٔمعنوی کا طرہ ٔامتیاز ہے۔ جب کہ ”رموزِ بے خودی“ (دوسری فارسی تصنیف) میں اقبال نے بین الاقوامی اسلام کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی، اقبال ایسی خلافت کے احیا کے بارے میں شدت سے سوچ رہے تھے، جو دنیا بھر کے تیس کروڑ مسلمانوں کو ایک ہی مذہبی ریاست کے ماتحت لے آئے۔
ممتاز محقق اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر خالد ندیم (صدر شعبہ اردو، سرگودھا یونیورسٹی) کی پیشِ نظر کتاب ”مطالعاتِ اسرار و رموز“ ان مباحث کا ایک اہم علمی و تحقیقی مجموعہ ہے جو ”اسرارِ خودی“ اور ”رموزِ بے خودی“ کے نتیجے میں عمل میں آئے۔ ان مباحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو مثنوی اسرارِ خودی لکھنے سے قبل اور مابعد کن ذہنی و فکری مراحل سے گزرنا پڑا۔
مثنوی اسرارِ خودی کے نتیجے میں جو معرکہ بپا ہوا اس کے بارے میں فاضل مرتب و محقق رقم طراز ہیں:
”یہ معرکہ اقبال کے لیے کچھ ایسا ضرر رساں نہیں رہا، بلکہ اس کی وجہ سے انھیں بعض عمدہ مضامین اور دوسری مثنوی رموزِ بے خودی لکھنے کا موقع ملا۔ اس کا ایک بڑا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ بڑی بڑی شخصیات کے اوصافٗ ظاہر ہوگئے اور ان کی علمی حیثیات کا اندازہ بھی ہوگیا۔ اسرارِ خودی کی اشاعت پر اقبال کے بعض نظریات کی شدید مخالفت ہوئی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اقبال کے یہ نظریات بہت پہلے سے ظاہر ہورہے تھے، لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال پہلے شخص نہیں تھے جو تصوف سے متعلق ان خیالات کا اظہار کررہے تھے، بلکہ ان سے پہلے بھی اس سلسلے میں اہلِ علم کے ہاں گفتگو ہوتی رہی۔“
مثنوی اسرارِ خودی پر اوّلین ردِعمل اکبر کی طرف سے اس خط میں نظر آتا ہے جو انھوں نے 18مارچ 1915ء کو عبدالماجد دریا بادی کے نام لکھا تھا اور دو نئی تصانیف (معارج الدین اور اسرارِ خودی) موصول ہونے کی اطلاع دی تھی۔ اکبر نے یہ لکھ کر ”مثنوی کی نسبت تو کچھ زیادہ نہ کہنا چاہیے، کیونکہ وہ مذہبی اور قومی جوش پر مبنی ہے، اشعار نہایت اچھے ہیں، یہ خود ہی مستی اور تصوف ہے۔ دیباچے میں پولیٹکل دانش مندی بھی ہے“،یہ بتایا کہ ”البتہ معارج الدین بہت غور کے لائق ہے“۔ مثنوی پر اکبر کا یہ پہلا تاثر (جو اُن کا آخری بھی ثابت ہوا) نہایت اہم ہے۔ ابتدا میں انھوں نے مثنوی میں ”مذہبی اور قومی جوش“ اور ”دیباچے میں پولیٹکل دانش مندی“ کے سبب اسے دوسری تصنیف کے مقابلے میں نظرانداز کیا تو بعد میں خواجہ حسن نظامی سے تعلق نے اس تاثر کو اصرار میں بدل دیا۔
اس تنازع کا ایک تکلیف دہ پہلو خواجہ حسن نظامی کا رویہ ہے۔ اقبال، حسن نظامی کے اعتراضات کا جواب دینا چاہتے تھے اور دیے، لیکن حسن نظامی اعتراض کرنے کے بجائے ایسے سوالات اٹھاتے تھے، جن کا مثنوی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ دیباچے، پیشکش اور خواجہ حافظ پر اقبال کے اشعار پر انھیں اعتراض تھا۔جب کہ اقبال چاہتے تھے کہ خواجہ صاحب مثنوی سے متعلق اپنے خیالات قلم بند کریں، جن کا جواب دیا جائے۔
*مشتری ہوشیار باش*
فہرست میں اکثر مشائخ واکابر ہیں، اور واقعۃً وہ اس نبست ومنصب کے اہل بھی ہیں۔
بندے نے یہ فہرست دیکھنے کے بعد فہرست میں مذکور ایک مبینہ شیخ صاحب سے رابطہ کیا، جو ہمارے دوست ہیں ، عمر لگ بھگ 35 سال ہوگی ، ان کے تقوی اور پرہیزگاری پر بندے کو اعتماد ہے، مگر فہرست میں ان کے تعارف میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے، انہوں نے اپنے بارے میں لکھی گئی تفصیل کی تردید کی اور کہا کہ یہ ایک فراڈیہ اور جھوٹا گروپ ہے، جو بعض لوگوں کا نام فہرست میں شامل کرکے ان سے خلافتیں وصول کرنے کا حربہ اختیار کرتا اور بونوں کا قد اونچا کرتا ہے ۔
ایک صاحب کی ایماء اور غلط سلط معلومات کی بنا پر یہ فہرست بنائی گئی ہے، جس کا مقصد خود کو اکابر و مشائخ میں شامل کروانا ہے ۔ کچھ نام لے کر انہوں نے تفصیل بھی بتائی اور ایسے کچھ حضرات کے بارے میں بندے کو پہلے سے بھی معلوم تھا ۔ ایک شیخ صاحب تو 25 سال کے بھی ہیں ۔
بہرحال رمضان کا مہینہ ہے، کسی کا نام لینا اور ذاتیات اچھالنا مناسب نہیں ہے۔ اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
28) مولانا مفتی غلام مصطفیٰ اوکاڑوی مدظلہ
مشہور و معروف محدث و شیخ ہیں. پچاس سے زیادہ مشایخ سے اجازت و خلافت حاصل ہے.. مولانا سرفراز خان صفدر کے خلیفہ ہیں. مولانا جلال الدین جمالی، مولانا نثار حسینی ،میانجی رمضان میواتی خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مدنی، مولانا ظریف مدنی خلیفہ سید ابوالحسن علی حسنی وغیرہ سے بھی اجازت ہے
29)مولانا عبدالرحمن گلاؤٹھی مدظلہ
گلاؤٹھی بلندشہر کے بافیض بزرگ ہیں، مظاہر علوم سہارنپور کے فارغ التحصیل ہیں. مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی کے استاذ ہیں. فقیہ الإسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین سہارنپوری کے ممتاز خلیفہ ہیں.
30)مولانا سید مصطفی رفاعی بنگلوی مدظلہ
آپ بنگلور کے عظیم بزرگ خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، سن ولادت 1948ہے، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فارغ التحصیل ہیں، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی قدس سرہ کے خلیفہ مجاز بیعت ہیں ،سلسلہ کی اشاعت میں متحرک ہیں، کئی سو خلفاء ہیں، خاندانی سلسلہ رفاعیہ و قادریہ میں اپنے والد کے جانشین ہیں
31) مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ
آپ بنارس سے تعلق رکھتے ہیں، سن ولادت 1947ہے، ملت اسلامیہ کے امیر اور دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث و مہتمم ہیں، نہایت عالی اخلاق اور بلند کردار کے حامل ہیں، فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی کے خلیفہ مجاز ہیں
32) مولانا مفتی احمد خانپوری مدظلہ
آپ گجرات کی سب سے مضبوط علمی و فقہی شخصیت کے مالک ہیں، دار العلوم ڈابھیل کے شیخ الحدیث و صدر مفتی ہیں، سن ولادت 1946ہے، فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی کے خلیفہ اجل ہیں ،گجرات کے نمایاں مشایخ میں سے ہیں، آپ کی تدریسی، تصنیفی، تفقہی اور احسانی خدمات کا سلسلہ بہت وسیع ہے_
33) مولانا مفتی سید جاوید حسین شاہ
عالم اسلام کے ممتاز محدث و فقیہ ہیں، سن ولادت 1948ہے، دار العلوم کبیر والا اور خیر المدارس ملتان کے فیض یافتہ ہیں، دار العلوم عبیدیہ فیصل آباد کے بانی و شیخ الحدیث ہیں ، مولانا عبید اللہ انور، مولانا مفتی عبدالستار ملتانی، خواجہ عبدالحئی نقشبندی مجددی اور صوفی نفیس الحسینی کے خلیفہ ہیں، سلوک و احسان کے سلسلہ میں خاصے مشہور ہیں اور اکابر کے طریقہ پر رہ کر سالکین کی تربیت اور سلسلہ کی اشاعت کررہے ہیں
34) مولانا ڈاکٹر عبدالرحمن کوثر مدنی مدظلہ
آپ مشہور عالم دین ہیں. مولانا مفتی عاشق الہی بلندشہری مہاجر مدنی کے صاحبزادہ ہیں، مولانا شاہ حکیم محمد اختر پرتاب گڑھی ،مولانا سید مکرم حسین سنسارپوری ،مولانا جلال الدین جمالی وغیرہ کے خلیفہ ہیں.
35) مولانا شاہ عبدالقادر ندوی مظاہری مدظلہ
آپ گجرات کے معروف مشایخ میں سے ہیں، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے فیض یافتہ ہیں، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ سے اجازت حدیث حاصل یے ،حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے ممتاز خلیفہ مجاز بیعت ہیں ،دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے شیخ الحدیث اور نائب مہتمم ہیں، اکابر و مشایخ کی روایتوں کے امین ہیں اور بڑے بافیض، متحمل مزاج، عال ہمت اور شفیق و ملنسار استاذ و مربی ہیں _
36) مولانا سید کفایت بخاری مدظلہ
آپ عہد حاضر کے مشہور محقق و محدث ہیں.متعدد مشایخ سے اجازت و خلافت حاصل ہے ان میں مولانا عبدالغنی لاہوری ،مولانا جلال الدین جمالی وغیرہ شامل ہیں.
37) مولانا الیاس گھمن مدظلہ
ممتاز مناظر اور باکمال عالم ہیں، علم کلام سے خاص شغف ہے، حکیم اختر پرتاب گڑھی ،مولانا امین شاہ جیلانی، مولانا عبدالحفيظ مکی اور پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی وغیرہ کے خلیفہ ہیں، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں،
38) مولانا شاہ احمد نصر بنارسی مدظلہ
آپ دار العلوم دیوبند کے فاضل ہیں، سن ولادت 1952ہے، خانقاہ امدادیہ بنارس کے بانی و ناظم ہیں، مولانا صفی اللہ خان جلال آبادی، حافظ اسید رحمانی اور مولانا قمر الزماں الہ آبادی وغیرہ کے خلیفہ ہیں _
39) مولانا قاری یامین قاسمی مدظلہ
حیدرآباد کے ممتاز بزرگ ہیں. مولانا قاری صدیق باندوی اور مولانا سالم قاسمی کے خلیفہ ہیں
40) مولانا مفتی مسعود عزیزی
موصوف مشہور و معروف عالم دین ہیں.. دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فارغ التحصیل ہیں. مرکز احیاء الفکر الاسلامی کے نام سے سہارنپور میں ادارہ کے بانی و ذمہ دار ہیں.. عالی سند کے حامل ہیں. مولانا سید مکرم حسین سنسارپوری ،مولانا ظریف ندوی اور مولانا ہاشم چھٹملپوری وغیرہ کے خلیفہ ہیں..بافیض بزرگ ہیں سو سے زیادہ خلفاء مجازین ہیں..
41) مولانا مفتی ظہور احمد الحسینی برطانیہ مدظلہ
مشہور محقق ہیں. امام ابوحنیفہ کی حدیثی خدمات پر تحقیقی کام کیا ہے.. مولانا حاجی فاروق سکھروی، مولانا نثار حسینی وغیرہ سے اجازت و خلافت حاصل ہے...
فہرست مشایخ طریقت جولائی 2023
عہد رواں میں برصغیر کے درج ذیل مشایخ اپنے علوم و معارف، تزکیہ و احسان کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں اور سلاسل اربعہ نقشبندیہ، قادریہ ،چشتیہ اور سہروردیہ میں عالی نسبت رکھتے ہیں __احاطہ مقصود نہیں ورنہ کئی دفاتر درکار ہیں یہ محض قسط اول ہے بقیہ نام انشاء اللہ جلد پیش کیے جائیں گے
1) استاد الاساتذہ حضرت مولانا گل محمد تور پٹکی دامت برکاتہم مشہور و معروف معمر بزرگ ہیں، نوے سے زیادہ عمر ہے اور مولانا خان بہادر قدس سرہ کے خاص شاگرد و خلیفہ مجاز بیعت ہیں!
2)حضرت مولانا قمر الزمان الہ آبادی مدظلہ
ہندوستان کے مشہور پیر طریقت ہیں، تصوف و أخلاق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، اقوال سلف جیسے انسائیکلوپیڈیا کے مرتب ہیں،1933 کی ولادت ہے.. مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی خلیفہ حکیم الامت حضرت تھانوی کے داماد و خلیفہ ہیں، نیز مشہور نقشبندی بزرگ حضرت مولانا محمد احمد ہرتابگڑھی قدس سرہ سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے، برصغیر اور عالم عرب میں ان کے سیکڑوں مریدین اور ہزاروں خلفاء ہیں، آپ بلاشبہ برکة العصر ہیں _
3) مولانا قاری عبدالغفور وزیرستانی مدظلہ
نقشبندی سلسلہ کے ممتاز بزرگ ہیں حضرت مولانا عبدالمالک صدیقی نقشبندی مجددی خلیفہ شاہ فضل علی قریشی کے خلیفہ مجاز ہیں
4) مولانا عبدالحلیم دیر باباجی مدظلہ
بافیض بزرگ و محدث ہیں،جامعہ حقانیہ کے شیخ الحدیث ہیں،شیخ التفسير حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے شاگرد و مرید ہیں جب کہ مولانا عبید اللہ انور کے خلیفہ مجاز ہیں
5) مولانا قاری فیوض الرحمن برگیڈیر مدظلہ
آپ ماہر علم و فن معروف مصنف اور عظیم عالم دین ہیں، مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ کے مرید ہیں اور مولانا مفتی بشیر احمد پسروی خلیفہ مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ أسرارھما کے مسترشد و خلیفہ ہیں ان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی،مولانا شاہ عبدالغفار مہاجر مدنی اور مولانا سید انظر حسین میاں دیوبندی وغیرہ سے بھی اجازت و خلافت ہے.
6)مولانا سید چراغ الدین شاہ مدظلہ
یہ بھی عصر رواں کے مشہور عالم دین ہیں.فن تفسیر و حدیث میں ممتاز مقام رکھتے ہیں سلسلہ نقشبندیہ میں مولانا عبدالمالک صدیقی نقشبندی کے خلیفہ ہیں.
7)مولانا مفتی محمد حسن لاہوری مدظلہ
باکمال محدث ہیں. اپنے تقوی و طہارت، نرم مزاجی، اخلاق و کردار اور تواضع و انکسار کی بدولت خاصے مقبول ہیں، مولانا صوفی محمد سرور لاہوری کے خلیفہ ہیں، ان کے علاوہ مولانا سرفراز خان صفدر اور صوفی نفیس الحسینی لاہوری سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے.
8)مولانا سید عاقل سہارنپوری مدظلہ
مظاہر علوم سہارنپور کے ناظم و شیخ الحدیث ہیں.. شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی کے داماد و خلیفہ مجاز ہیں. سنن ابی داؤد کی شرح الدر المنضود کے مصنف ہیں. بڑے باکمال اور بافیض عالم ہیں
9)مولانا مختار الدین شاہ صاحب مدظلہ
کربوغہ کے رہنے والے ہیں اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ کے خلیفہ ہیں.. ارشاد و سلوک کے سلسلہ میں بڑا کام کررہے ہیں
10)مولانا سید شاہد سہارنپوری مدظلہ
مظاہر علوم سہارنپور کے امین عام اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی قدس سرہ کے نواسہ و خلیفہ مجاز بیعت ہیں.. کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں اکابر مظاہر علوم کی جنگ آزادی میں خدمات اور فضل آئے مظاہر علوم کی علمی خدمات قابل ذکر ہیں
11)مولانا عبدالرشید قاسمی اعظمی مقیم ممبئی
گمنام بزرگ ہیں اور مولانا عبدالمالک صدیقی نقشبندی مجددی کے انڈیا میں واحد خلیفہ ہیں
12)مولانا فضل الرحیم مجددی مدظلہ
جامعہ اشرفیہ کے مہتمم ہیں. مولانا مفتی حسن امرتسری کے صاحبزادے و خلیفہ ہیں..
13)مولانا ڈاکٹر میاں محمد اجمل قادری مدظلہ
موصوف سلسلہ قادریہ راشدیہ کے سرخیل ہیں اور مولانا عبید اللہ انور لاہوری کے خلیفہ و جانشین ہیں
14)مولانا پیر محمد شاہ قریشی مدظلہ
خانقاہ فضلیہ مسکین شریف کے سجادہ نشین ہیں اور خواجہ کلیم اللہ اور مولانا علی مرتضیٰ کے خلیفہ ہیں.. سلسلہ نقشبندیہ کے امیر ہیں دو سو سے زائد خلفاء ہیں _
15)مولانا حکیم عبداللہ مغیثی مدظلہ
موصوف کی ولادت 1936 کی ہے_ مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری کے خادم و مرید ہیں _مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی قدس سرہ کے اجل خلیفہ ہیں_ یوپی کے مشہور ادارہ جامعہ گلزار حسینہ اجراڑہ کے مہتمم ہیں اور ملی کونسل کے صدر ہیں. طریقت و تصوف کے حوالہ سے کافی مشہور ہیں.. سو کے قریب خلفاء ہیں
16)مولانا شاہ منیر احمد کالینہ ممبئی مدظلہ
موصوف بستی کے رہنے والے ہیں سن ولادت 1948ہے. مظاہر علوم سہارنپور کے فارغ التحصیل ہیں. مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی کے مرید ہیں اور مولانا شاہ عبدالحلیم جونپوری خلیفہ مصلح الامت و شیخ الحدیث کے ممتاز خلیفہ ہیں. فقیہ الإسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین سہارنپوری اور پیر طریقت حضرت مولانا طلحہ کاندھلوی دے بھی اجازت بیعت ہیں.
*قرآن کی بے حرمتی شہر القرآن میں*
سورت کی ایک مسجد کی تراویح سنی، تو بہت افسوس اور دکھ ہوا کہ پڑھانے والے مفتی صاحب ہونے کے باوجود اتنی غلط اور محرف تلاوت کر رہے ہیں، نہ مخارج نہ صفات نہ مد نہ غنہ، نہ وصل وفصل کی رعایت۔
مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں قرآن مجید کی جتنی بے حرمتی تراویح میں کی جاتی ہے، اتنی سال بھر میں نہیں ہوتی ہے۔
ایسی تلاوت ضرور کالے کپڑے میں لپیٹ کر پڑھنے والے کے منھ پر ماردی جاتی ہوگی، ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا۔
فضائل رمضان میں حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ لکھا ہے کہ رمضان میں پورا قرآن ایک بار سننا مسنون ہے، مگر ایسا بگاڑ کر پڑھنے سے تو بہتر ہے کہ الم تر سے روزانہ تراویح ہو۔
اور آخر درجے میں تو میں کہتاہوں کہ تراویح ہی مت پڑھو، کمبل اوڑھ کر سو جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہاری ایسی تراویح سے غنی ہے۔
سنیت کی دلیل نہیں یہ جزئیہ حذف کردیا
ہمارے یہاں مولانا حکیم محمد مظہر صاحب مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی رحمۃ اللّٰه علیہ کے خلیفہ ہیں۔ اور گلشنِ اقبال کراچی میں خانقاہی سلسلہ قائم کیے ہوئے ہیں۔
Читать полностью…