ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

مولانا عبد السلام نیازی (وفات 30-06-1966ء) تحریر : اخلاق احمد دہلوی https://drive.google.com/file/d/12aNJvKiSZg9u1RaRdnRBmIhgMaORmbcm/view?usp=sharing

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات : مورخہ 30جون*

1857ء گلاب سنگھ ڈوگرا پہلا مہاراجہ کشمیر
1871ء مرزا شوق لکھنوی (تصدق حسین خان)
1917ء دادا بھائی نوروجی سیاست دان
1932ء مولانا نجم الغنی خان رامپوری مورخ
1961ء سید نواب علی پروفیسر
1966ء مولانا عبدالسلام نیازی متکلم، صوفی
1967ء شکری القواتلی صدر سوریہ
1980ء ڈاکٹر محمد ولی اللہ
1983ء نور محمد چارلی مزاحیہ اداکار
1986ء سرخوش قزلباش، آغا شاعر
1995ء خالد شمس الحسن
2004ء جمال ابڑو (جمال الدین)
2007ء صاحب سنگھ ورما وزیر اعلی دہلی
2008ء لطیف اللہ، ایس ایم پروفیسر
2008ء مولانا مبین احمد عالم دین
2010ء ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزو پروفیسر
2018ء فواد سزگین محقق
2021ء مولانا عبد الرزاق اسکندر عالم دین

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات : مورخہ 30جون*

1857ء گلاب سنگھ ڈوگرا پہلا مہاراجہ کشمیر
1871ء مرزا شوق لکھنوی (تصدق حسین خان)
1917ء دادا بھائی نوروجی سیاست دان
1932ء مولانا نجم الغنی خان رامپوری مورخ
1961ء سید نواب علی پروفیسر
1966ء مولانا عبدالسلام نیازی متکلم، صوفی
1967ء شکری القواتلی صدر سوریہ
1980ء ڈاکٹر محمد ولی اللہ
1983ء نور محمد چارلی مزاحیہ اداکار
1986ء سرخوش قزلباش، آغا شاعر
1995ء خالد شمس الحسن
2004ء جمال ابڑو (جمال الدین)
2007ء صاحب سنگھ ورما وزیر اعلی دہلی
2008ء لطیف اللہ، ایس ایم پروفیسر
2008ء مولانا مبین احمد عالم دین
2010ء ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزو پروفیسر
2018ء فواد سزگین محقق
2021ء مولانا عبد الرزاق اسکندر عالم دین

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب مجددی رحمہ اللّٰه نے علم حدیث حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب رحمہ اللّٰه سے حاصل کیا، آپ شاہ عبد العزیز رحمہ اللّٰه کے نواسے ہیں۔ ہندوستان میں علوم الحدیث کے تمام سلسلے آپ رحمہ اللّٰه سے وابستہ ہیں۔ آپ کی تربیت شاہ عبد العزیز رحمہ اللّٰه نے فرمائی۔ کتب فقہ و حدیث شاہ عبد القادر رحمہ اللّٰه سے پڑھیں۔ شاہ عبد العزیز صاحب سے بھی اجازت حدیث حاصل فرما کر سلسلہ سند سے ان متصل کیا ہے۔(جاری)

ٹائپنگ۔ وحید اللّٰه ریحان
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

جو احباب علم وکتاب گروپ یا چینل کے تعلق سے کوئی پیغام ارسال کرنا چاہتے ہوں، ان سے گذارش ہے کہ وہ علم وکتاب ٹیلگرام چینل جوئن کریں، اور کسی پیغام پر اپنا تبصرہ ارسال کریں، ٹیلگرام چینل سے مربوط ٹیلگرام گروپ کے خود بخود ممبربن جائیں گے ۔
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*کیا ہم مسلمان ہیں (٣٥) عرش رسا آوازیں ( چوتھی قسط )*
تحریر: شمس نوید عثمانی
نظامِ عالم کی ذراسی ہل چل پر حضور ﷺ کیسے کیسے چونک جاتے تھے ! کتنا گہرا اثر لیتے تھے ! ذرا ہوا تیز ہوتی اور آپ ﷺ کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ۔ ذرا گھٹائیں اُمنڈتی ہوئی نظر آتیں کہ آپ ﷺ کے مقدّس متبسّم چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا اور آپ ﷺ کے لبوں پر یہ بے تاب دُعا تھرتھرانے لگتی:
"میرے اللہ ! میں تجھ سے اس کی خیر چاہتا ہوں اور وہ خیر جو اس میں ہے اور وہ خیر جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے اور میرے اللہ ! میں اس کے شرسے تیری پناہ کا طالب ہوں اور اس شر سے جو اس کے اندر ہے اور اس شر سے جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہو۔"
حضور ﷺ موسم کی ان تبدیلیوں پر کیسے پریشان ہوتے تھے ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خُدا بھلا کرے کہ انھوں نے یہ راز معلوم کرنے کے لیے ایک دن حضور ﷺ سے سوال کر لیا تو ہمیں اس کی عظیم وجہ کا پتا چل گیا ۔ ان کے سوال کے جواب میں خوف و خشیت میں ڈوبی ہوئی حضور ﷺ کی یہی آواز تو سنائی دی تھی کہ " اے عائشہ (رضی اللہ عنہا)! مجھے یہ کیسے اطمینان ہو جائے کہ اس میں خدا کا قہر نہیں ہے ___ ؟" پھر آپ ﷺ نے اس بد نصیب غارت شده قومِ عاد کا تاریخی حوالہ دیا تھا جو ابر و باد کو دیکھ کر یہ خوف ناک دھوکا کھا چکی تھی کہ ان میں ہمارے لیے شادابیوں کے سوا کچھ اور نہیں _____ حالاں کہ ان میں اس بستی پر ٹوٹ پڑنے کے لیے عذاب کے ہولناک دھما کے چلے آرہے تھے۔
دنیا آج پھر قومِ عاد کی ذہنیت پر چل کھڑی ہوئی ہے _____ بادلوں کی گھن گرج _____
آندھیوں کے جھکّڑ _____ طوفانوں کا خروش _____ بھونچالوں کے جھٹکے اب تو آئے دن کی باتیں ہیں ، لیکن کتنے چہرے اس سب سے اچھے چہرے کی یاد تازہ کرتے ہیں جو نظامِ عالم کی ذرا سی ہل چل پر خدا کے خوف سے کُملا جاتا تھا _____ کتنے سینوں میں خدا کے قہر کا وہ اندیشہ سر اُٹھاتا ہے جو ایسے مواقع پر حضور ﷺ کی بے قرار دُعاؤں کے لفظ لفظ سے ٹپکا کرتا تھا ۔ ہم خدا نہ کرے کہ اس زمین پر عذاب کی گود میں دم توڑیں لیکن ایک مستقل عذاب سے کچھ کم ہے _____ ؟ ہائے وہ لوگ جو کُھلی ہوئی آنکھوں سے حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے ان کا انجام اس وقت کیا ہو گا جب آنکھیں بند ہو چکی ہوں گی ! لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ ءَاذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَآ ۚ أُولٰٓئِكَ كَالْأَنْعٰمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ
_____
اِسی شب و روز کی دنیا میں ایک ایسی رات بھی تو آئی ہے جس کو حضور ﷺ نے رو رو کر گزارا تھا ۔ آپ ﷺ خدا کے سامنے اس وقت ہاتھ باندھے ہوئے لرزہ براندام کھڑے تھے اور رہ رہ کر رو پڑتے تھے جب دنیا میٹھی نیند کے مزے لے رہی تھی اور آپ ﷺ کی اس رات کی یہ آواز گواہ ہے کہ آپ ﷺ اپنے لیے نہیں اس دُنیا کے غم میں رو رو کر جان ہلکان فرمارہے تھے:
"یا مالک الملک ! اگر آپ ان کو عذاب میں ڈال دیں تو یہ آپ ہی کے غلام ہیں اور اگر آپ ان کی خطائیں معاف کر دیں تو بے شک آپ زبر دست اور حکیم ہیں۔"
تمام رات اسی عالم میں گزری ۔
ہائے وہ رات _____ !
اور _____ ہائے وہ درد بھرے آنسو!
کاش _____ ! ہم اور کُچھ نہیں تو ان آنسوؤں ہی کی قیمت پہچان سکیں!

Читать полностью…

علم و کتاب

تعارفی صفحات ۔ جوش ملیح آبادی انٹرویوز اور مکالمات نادر نایاب اور غیر مطبوعہ ۔۔۔ ڈاکٹر ہلال نقوی

Читать полностью…

علم و کتاب

امالہ کی وضاحت بڑی تفصیل سے کی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ ’’واحد اسمائے ذات میں سے جتنے مونث ہیں (مثلاً خادمہ، اہلیہ، بیوہ، گڑیا، خالہ وغیرہ) ان کا امالہ نہیں ہوسکتا (یعنی اہلیہ کو بھی مائل نہیں کرسکتے، دوسروں کی تو چھوڑیے)۔ بیاہ، تباہ، شاہ، کوہ، راؤ، ماہ وغیرہ کا امالہ کرنے پر بھی پابندی ہے۔ عربی اسماء، جو الف مدودہ پر ختم ہوتے ہیں، ان کا امالہ نہیں ہوسکتا۔ الف مدودہ کی پہچان یہ ہے کہ اس کے بعد چھوٹا سا ہمزہ آتا ہے۔ مثلاً عصاء، صحراء، مبداء وغیرہ‘‘ (ہم لوگ تو عربی کے ایسے تمام الفاظ کے آخر میں ہمزہ ڈال دیتے ہیں جیسے دعا۔) طالب الہاشمی نے ’’سالوں‘‘ کا امالہ کرنے کی اجازت دی ہے، خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ امالہ کا مطلب مائل کرنا بتایا گیا ہے تو ضروری ہے کہ اہلیہ کا امالہ ہو یا نہ ہو، سالوں کو مائل کرنا، بلکہ مائل رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ طالب الہاشمی کے مطابق کسی قوم یا ذات کے نام یا حرف (مرزا، راجہ، خواجہ، چاولہ، شرما وغیرہ) کا امالہ نہیں ہوتا۔ لیکن ہم نے تو مرزے، راجے، چٹھے، خواجے وغیرہ سنا ہے۔ ظاہر ہے کہ غلط ہی سنا ہوگا۔ یہ راجے وہ نہیں جو راج کرتے ہیں۔ یہ راجا ظفرالحق یا راجا پرویزاشرف والے راجے ہیں اور راجہ کے بجائے راجا لکھنا صحیح ہوگا کیونکہ اردو قاعدے میں بچوں کو’ر‘ سے راجا پڑھایا جاتا ہے، راجہ نہیں۔ ایک معروف مصور انعام راجا بھی اپنا نام اسی طرح لکھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اب واضح ہوگیا کہ امالہ کیا چیز ہے۔

غَلَطْ اتنا غلْط ہوگیا ہے کہ صحیح ہونے میں نہیں آتا۔ آئے بھی کیسے جب ہمارے بولتے ہوئے ذرائع ابلاغ اسے غَلْط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

عربی میں کہا جاتا ہے ’’الغلْطُ غَلَطْ۔ یعنی غَلط کہنا غَلَط ہے۔ صحیح تلفظ میں غ اور ل دونوں پر زبر ہے یعنی غَ۔لَط۔ بروزن فلک، حلق۔ ہمارے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نہ صرف غلْط کہتے ہیں بلکہ واضح کو بھی مزید واضح کرنے کے لیے ’’واضحہ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن ان سے صحیح تلفظ کی توقع بھی نہیں، بس وہ اپنا کام صحیح، صحیح کرتے اور داخلی حکمت عملی واضح کرتے رہیں۔ حکمت عملی کا استعمال بھی خاصا غلط ہورہا ہے۔ مثلاً بری حکمت عملی، احمقانہ حکمت عملی یا تباہ کن حکمت عملی‘‘۔ اب اگر اس میں حکمت شامل ہے تو یہ بری یا احمقانہ کیسے ہوسکتی ہے! حکمت کا تو مطلب ہی دانائی، عقل، ہر چیز کی حقیقت دریافت کرنے کا علم، تدبیر، ڈھنگ وغیرہ ہے۔ عربی کا لفظ ہے، اس کو فارسی ترکیب سے ’’حکمت عملی‘‘ بنا لیا گیا ہے، یعنی وہ علم جو تجربہ اور عقل سے حاصل ہو۔ تہذیب، اخلاق، گھر کا انتظام یا شہری نظام۔ ’حکمت کرنا‘ کا مطلب ہے دانائی کرنا۔ کسی حکیم کی حکمت تو ناکام ہوسکتی ہے لیکن حکمت عملی میں تو دانائی، علم، عقل وغیرہ سب شامل ہیں۔ مگر اصطلاحاً جو ’’حکمت عملی‘‘ اختیار کی جاتی ہے اس میں نہ حکمت ہوتی ہے نہ ’’عملی‘‘۔ ۔ ۔ بدنیتی اور بدعملی کا زور ہوتا ہے۔ چلتے چلتے فارسی کی ایک مثل سن یا پڑھ لیجیے ’’حکمتِ چین، حجتِ بنگالہ‘‘۔ لغت میں اس کا مطلب یہ دیا گیا ہے کہ عقلمندی چین سے اور لڑائی جھگڑا بنگال سے منسوب ہے۔ بنگال کا تو تجربہ بھی ہے اور چین سے ہم نے عقل مندی سیکھی نہیں۔ وہ بھی ہم سے زیادہ بھارت کے ’’امالہ‘‘ کا قائل نظر آتا ہے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سچی باتیں (یکم ؍ستمبر 1935ء) مسلمان شہروں کا حال

(*نوٹ: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے یہ کالم آج سے سوسال پیشتر 02-01-1925ء سے جاری اپنے ہفتہ وار سچ، صدق اور صدق جدید میں لکھے تھے، عبد المتین منیری*
لکھنؤاسٹیشن پر اترنے، اور لکھنؤ شہر میں جانے کا اتفاق آپ کو کبھی ہواہے؟ اسٹیشن سے نکلتے ہی، سڑکیں آپ کو کون سی ملتی ہیں؟ وہ ،جن کے نام لاٹوش روڈ اور اسٹیشن روڈ ہیں(لاٹوش، صوبہ کی ایک سابق لاٹ صاحب کا نام ہے)آگے چلئے ،عمارتیں کون کون سی ملتی ہیں؟ ہندوؤں کا ایک کالج اور ہوسٹل، ایک ہندو (سری رام) یتیم خانہ، کچھ سرکاری عمارتیں ٹکنیکل اسکول وغیرہ محکمۂ نہر کی کوٹھیاں، کچھ ہندو ہوٹل اور دوکانیں ، سکھوں کا ایک بڑا گردوارہ لب سڑک بڑی بڑی نوتعمیر اور زیر تعمیر کوٹھیاں سب پر نام خالص ہندوانہ پڑے ہوئے پریم نواس، ہری نواس وغیرہ وغیرہ۔ کچھ اور چھوٹی چھوٹی سڑکیں، بنگالی اور ہندوانہ ناموں کے ساتھ بیچ بیچ میں کہیں کہیں مسلمان دوکانداربھی، ایک نانبائی، کئی مسلمان لکڑی کا کام کرنے والے، مع اپنے چھپروں، کھپریلوں، اور ٹین کے سائبانوں کے۔
لکھنؤ کی شہرت اب تک آپ کے کانوں میں کیا رچی ہوئی تھی؟ عوام کی شہرت کا ذکر نہیں خود تاریخ کیابتارہی ہے؟ لکھنؤ کا شمار ، دہلی وآگرہ، کی طرح ، ہندوستان کے انے گنے چند اسلامی شہروں میں ہے یا نہیں؟ یہاں سے مسلمان حکومت کو گئے ہوئے ابھی کتنے دن ہوئے ہیں؟ یہاں کا تمدن، مسلمانوں کا تمدن سمجھا جاتاہے یا نہیں؟…لیکن آپ کا، ایک نووارد کا، مشاہدہ کیا کہتاہے؟۔اس شہرت کی تصدیق ہوتی ہے یا تردید؟ شہر میں داخل ہوکر یا کچھ اورگھوم پھر کر بھی، اگر ایک بڑا نشان بھی مذہب اسلامی تمدن کا پائیں گے؟ کوئی بڑی اور قابل ذکرمسجد؟ مسجد بھی نہ سہی، شیعہ حکومت کے لحاظ سے، کوئی بڑا عالیشان امامباڑہ؟ کوئی ایسی نمایاں علامت، جس سے پہلی نظر میں معلوم ہوجائے کہ یہ لکھنؤ ہے، متھرا بندرابن، یا کٹک پوری نہیں ہے؟ اسلامی، شہر ایسے ہی ہوتے ہیں؟……سنا آپ نے کیاتھا، اور اپنی آنکھوں جب دیکھا، تو پایا آپ نے کیا!
یہ حال لکھنؤ کا نکلا، تواب ان شہروں کی طرف خیال کو کیوں تکلیف دیجئے، جو شروع ہی سے انگریزی ہندوانی، بنگالی، مرہٹی، غرض غیر اسلامی بنیادوں پر تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہ لکھنؤ شہر بھی، خدانخواستہ اسلامیت کے سارے نشانوں سے خالی ہوگیاہے۔ بحمد اللہ اب بھی بارونق اور آباد مسجدیں ہیں، اسلامی درسگاہیں ہیں، علماء ہیں، فقہاء ہیں،بڑے بڑے مسلمان رئیس اور تعلقدار ہیں، بڑے بڑے مسلمان تاجر ہیں، لیکن یہ سارے نقوش پارینہ ہیں۔ اس کا رنگ روز بروز اڑتا اور ہلکا ہوتاچلاجارہاہے۔ جائدادیں اُن کے ہاتھ سے جارہی ہیں، املاک ان کی نکلی جاتی ہے، تجارتیں ان کے قبضہ سے نکلی جارہی ہیں، عمارتیں ان کی دوسروں کے ہاتھ میں منتقل ہوتی جاتی ہیں، اور ان کا ظاہری تفوق اب تک جو کچھ بھی قائم تھا، اس کا بھرم ہر روز کھلتا جارہاہے!…دنیا یوں جارہی ہے، اور دین؟ تو خیر اس کا ذکر ہی جانے دیجئے!۔

Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

لیکن اس کے باوجود، ایک صدی سے زائد عرصے سے بہت سی تشریحات، حواشی اور تعلیقات جمع کی جا چکی ہیں، مگر نہ تو انہیں مرتب کیا گیا اور نہ ہی شائع۔ ہر مستشرق، جو عربی لغت پر کام کرتا تھا، اپنی ذاتی استعمال کے لیے تشریحات جمع کرتا تھا۔ ہماری لائبریری میں ایسی کئی لغات موجود ہیں جن میں یہ تعلیقات اور حواشی شامل ہیں، جن میں سب سے نمایاں جولیس کا معجم ہے، جو جان ژاک شولتنز کی ملکیت تھا، جو مشہور عالم الیوت شولتنز کے بیٹے تھے۔ انہوں نے 1749 سے 1778 میں وفات تک ہماری یونیورسٹی میں الہیات اور مشرقی زبانوں کی تدریس کی۔۔۔
ایک اور عظیم مجموعہ کاترمیر کا ہے، جس نے تین زبانوں عربی، فارسی، ترکی کا معجم ترتیب دینے کا ارادہ کیا، اور اس کی یادداشتیں آج میونخ کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ وہ ان الفاظ پر مشتمل ہیں جن کی جڑیں یونانی یا قبطی ہیں، اور ان کی ترتیب نسبتاً آسان ہے، لیکن اب بھی یہ غیر منظم ہیں، اور اکثر وضاحت کے بغیر صرف قید کیے گئے ہیں، اور ان کا اصل ماخذ پیرس کی نیشنل لائبریری میں موجود مخطوطات میں تلاش کرنا ہوگا۔
افسوس کی بات ہے کہ ان جید علما کی محنتیں ضائع ہو گئیں، اور یہی حال ہر اس حاشیے یا تشریح کا ہوتا ہے جسے مرتب اور شائع نہ کیا جائے، کیونکہ دوسرا شخص نہ تو اس کو اس خوبی سے سنبھال سکتا ہے اور نہ ہی اس کو حق ادا کر سکتا ہے۔
انہی وجوہات نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا اور جرات دلائی کہ میں اپنی لغوی تعلیقات کو ترتیب دے کر شائع کر دوں۔ یہ تعلیقات میں نے اپنی تیس سالہ مطالعے کے دوران جمع کیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں مکمل لغت نہیں بنا سکوں گا، لیکن میں نے یہ لغت مرتب کی ہے۔ بعض مقامات پر جہاں فریٹاج یا لین نے عمدہ تشریح کی ہے، وہاں میں نے مزید اضافہ نہیں کیا، سوائے بعض مواقع کے، اور جہاں کمی پائی تو میں نے اپنی طرف سے ان کا تکملہ کیا اور متعدد مصادر سے مدد لی۔
سب سے پہلے میں ان تین لغات کا ذکر کروں گا جو قرون وسطیٰ میں اسپین میں تیار کی گئیں... دوزی نے ان کی تفصیل دی ہے۔ جسے ہم یہاں حذف کرتے ہیں۔ (جاری)
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

رہنمائے کتب: دوزی کی تکملۃ المعاجم العربیۃ (قسط۔ 03)
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)
کتاب کا تعارف
دوزی کو یہ معجم لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کا منہج کیا ہے اس پر مصنف نے اپنے مقدمہ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، یہ کالم ان تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا، جسے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس معجم کو جمع کرنے میں اس نے بے انتہاء محنت کی ہے، اس میں اس نے اندلس کے دور سے شمالی افریقہ کے عرب ممالک میں رائج زبان کے ان الفاظ کو اپنی لغت میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے، جنہیں مصنف کے زمانے تک کے عرب مصنفین اور مغربی لغت نویسوں نے در خور اعتنا نہیں سمجھا، اس سے خاص طور پر اندلسی ادب سمجھنے میں مصنف کی بے پناہ دلچسپی کا احساس ہوتا ہے۔
دوزی نے اپنی لغت میں عربی زبان کو دوسری مغربی زبانوں اور معاشروں کے مطابق دیکھنے کی کوشش کی ہے، جس میں اسے غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں، ا س کا اندازہ آپ اس کی اس عبارت سے لگا سکتے ہیں ۔
"فصیح عربی زبان، جو قدیم شاعری، قرآن اور حدیث کی زبان ہے، صرف تقریباً دو سو سال تک زندہ رہی۔ پہلی صدی ہجری کے اختتام پر، اس سے پہلے کہ عربوں کے ہاں نیا ادب پیدا ہو، زبان میں بہت سے تغیرات رونما ہوئے، جو وقت کے ساتھ بڑھتے گئے۔ یہ تبدیلی تیز رفتار فتوحات کا نتیجہ تھی، وہ فتوحات جو معجزوں جیسی تھیں، جنہیں رسول کے پیروکار مسلمانوں نے سر کیا۔ عربی زبان صرف عربوں تک محدود نہ رہی بلکہ مفتوحہ علاقوں کی زبان بن گئی۔ شکست خوردہ اقوام، جو عربی بولنے لگیں اور اس میں غلطیاں کرنے لگیں، ان کا اثر خود عربوں پر بھی پڑا۔ عربوں نے عربی زبان کے اِعراب کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا، اور الفاظ کو ان کے اصل معانی سے ہٹا کر استعمال کیا، نیز اہلِ شام، ایرانیوں، قبطیوں، بربروں، ہسپانویوں اور ترکوں سے کئی الفاظ اور تعبیرات مستعار لیں"۔۔۔۔
لیکن یہ تبدیلی سخت مزاحمت کے بغیر نہ ہوئی۔ ان لوگوں کی طرف سے جنہیں زبان کی صحت اور پاکیزگی سے گہری دلچسپی تھی، یعنی نحویوں، لغویوں، متکلمین اور فقہاء کی طرف سے۔ یہ لوگ فصیح عربی کے علاوہ کسی اور زبان کو پڑھنے کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے حقیقتِ حال کا انکار کیا، اور نہ خود سمجھنا چاہا اور نہ ہی دوسروں کو سمجھنے دیا کہ دنیا کی ہر چیز تبدیلی کے تابع ہے، زبانیں بھی ویسے ہی بدلتی ہیں جیسے خیالات بدلتے ہیں، اور زبانیں اس معاشرے کے تابع ہوتی ہیں جو انہیں بولتا ہے، اور ان اہل قلم کے اثر میں رہتی ہیں جو انہیں برتتے ہیں۔
انہوں نے یہ چاہا کہ عربی زبان جیسی ہے ویسی ہی قائم رہے، اور قرآن کی زبان ہمیشہ کے لیے زندہ رہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس نئے الفاظ کو کمتر دکھانے اور ان کی توہین کے سوا کچھ نہ تھا، جنہیں ان کے ہم عصر گھڑتے تھے۔ زبان کے فساد اور اس کی پاکیزگی کے مٹنے سے بچنے کے لیے، کیونکہ ان کے نزدیک زبان ایک مقدس چیز تھی، انہوں نے زبان کے لیے بے شمار قواعد وضع کیے، لغات مرتب کیں، تند و تیز مضامین لکھے جن میں عام رائج غلطیوں پر سخت تنقید کی، اور ان غلطیوں کو جو عوام ہی نہیں خواص بھی کرتے تھے، طنز و تمسخر کا نشانہ بنایا، اور یہ رہنمائی دی کہ کیا کہنا درست ہے اور کیا نہیں۔
اور ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کی کوششیں بے سود نہیں گئیں۔ اگرچہ وہ زبان کی تبدیلی کو مکمل طور پر روکنے میں کامیاب نہ ہو سکے، مگر وہ کسی حد تک اس تبدیلی کو موخر کرنے اور محدود دائرے میں رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے۔ انہی کی بدولت، اور قرآن کے مطالعے کی بدولت، جو اسلامی ثقافت کی بنیاد تھا، عربوں میں نئی زبانیں جنم نہ لے سکیں جیسا کہ لاطینی زبان سے رومی زبانیں وجود میں آئیں۔ آج بھی عربی تحریر کی زبان قدیم زبان کے بہت قریب ہے، کم از کم قواعد کی پابندی کے لحاظ سے، اگرچہ بول چال کی زبان میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔
تاہم وہ فطری عمل کو روک نہ سکے، کیونکہ کئی ادیب بغیر کسی جھجک کے عوامی زبان اختیار کرتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، مقدسی جو دسویں صدی عیسوی کے ایک سیاح تھے، کہتے ہیں کہ وہ عمومی طور پر اہل شام کی زبان میں، یعنی اپنے علاقے کی زبان میں، لکھتے ہیں، اور اپنے وطن کی اور ہر علاقے کی توصیف میں ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو زیادہ قابل فہم ہوں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو زبان کی پاکیزگی اور خلوص کے پابند تھے، وہ بھی غیر شعوری طور پر نئے بنائے گئے الفاظ استعمال کرتے تھے، بلکہ اکثر وہ اپنی لغات میں فصیح الفاظ کی تشریح بھی انہی نو ایجاد الفاظ سے کرتے تھے۔ اندلس کے بعض مشہور نحوی حضرات تو عوامی زبان کے ذریعے فصیح عربی سکھاتے تھے۔ پس یہ سچ کہا گیا ہے کہ عملی دنیا نظریاتی اصولوں کی ہمیشہ پیروی نہیں کرتی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

شیخ مدنیؒ کا فیضانِ حدیث

یوں تو حضرت شیخ الہندؒ کے شاگردوں میں بڑے بڑے جبال العلم جامع کمالات تھے اور دین کے ستون قرار پائے اور ان سے دین و علم کے چشمے جاری ہوئے مگر حدیث کا جو فیض اور افادہ ہمارے استاذ اور مرشد حضرت شیخِ مدنیؒ کے ذریعہ ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج برصغیر اور بیرون ممالک میں ہزاروں تلامذہ کے ذریعہ ان کا فیض جاری ہے۔ حافظہ اور ذہانت میں ان جیسے اور حضرات بھی تھے مگر اپنے شیخؒ کی محبت اور جان نثاری جو اُن میں تھی اس کی مثال نہ تھی، عمر بھر وفا شعار غلام اور عاشق بنے رہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اس راہ میں آپ نے اپنی اولاد، بیوی اور والدین کی جدائی تک برداشت کی، ان کی وفات کی اطلاعیں پہنچیں مگر مالٹا کی جیل میں اپنے اُستاد کی رفاقت ترک نہ کی۔
ادب و محبت اور نیازمندی کا کوئی نمونہ نہ تھا جسے قائم نہ فرمایا اور اسی تعلقِ خاص اور محبت و خدمت کے ثمرہ میں اپنے شیخ کے علوم اور فیض کا مورد بنے، تصوّف اور ارشاد کا جو فیض جاری ہوا وہ اس کے علاوہ ہے۔
جہاد اور قربانیوں کی شکل میں مختلف حیثیّتوں سے جو فوائد اور برکات اہلِ اسلام کو پہنچے وہ اس سے الگ ہیں۔ یہ سب ادب اور محبّت اور عاشق بننے کے نتائج ہیں۔ اگر اساتذہ و شیوخ سے محض رسمی تعلق ہو کہ درسگاہوں میں انہیں اجیر سمجھ کر رہے، کتاب ختم کی تو چلے گئے، تو اس علم کی کوئی برکت نہ ہوگی۔ افسوس کہ آج یہ چیزیں ختم ہوتی جارہی ہیں، اساتذہ اور شیوخ سے رابطہ نہیں رہا، اتصالِ سند کی فِکر نہیں رہتی، حالانکہ انبیاء، اولیاء اور شیوخِ طریقت سے اپنے متبعین، شاگرد اور مُریدین کو بھی جو فیض حاصل ہوا وہ عاشق، جان نثار اور فدائی بن کر حاصل ہوا۔
تو میں حضرت شیخِ مدنیؒ کا ذکر کررہا تھا۔ علم اور اس کی اشاعت اور تعلیم و تدریس سے عشق تھا، دن کو سفر رات کو سبق۔ جس روز بخاری کا امتحان ہونا ہے اُس روز پرچہ سےقبل بڑے اطمینان سے بخاری کا درس پڑھا رہے ہیں۔ تواضع اور انکساری فِطرت اور طبیعتِ ثانیہ بن چُکی تھی۔ ہم نے بارہا دیکھا کہ غریب اور دیہاتی گنواروں یہاں تک کہ غیر مذہب کے ہنود وغیرہ کے خود ہاتھ دُھلا رہے ہیں، مہمانوں کی بے خبری ان کے پاؤں دبارہے ہیں۔ سفر میں راہ چلتے ساتھیوں کے لیے گاڑی میں پاخانے تک صاف کیے۔ اتنی شانِ تواضع و انکساری، دوسری طرف باطل کے خلاف ایک ننگی تلوار تھے، ساری زندگی انگریزی سامراج کے ساتھ ٹکرائے۔

حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ

حضرت شیخ مدنیؒ نے جامع ترمذی اور بخاری حضرت شیخ الہندؒ سے پڑھی۔ آپ دیوبند کے باشندہ اور عثمانی خاندان سے تھے۔ آپ کے والد مولانا ذو الفقار علی صاحبؒ جس طرح دینی اعتبار سے ایک عالم فاضلؒ اور ادیب تھے اسی طرح دُنیوی اعتبار سے بھی ذی وجاہت، صاحبِ اقبال اور صاحبِ اخلاق تھے۔ آپ کا خاندان ایک خوشحال گھرانہ تھا، مالی حالت اچھی تھی، بچپن سے بڑے ذہین اور ذکی واقع ہوئے تھے۔ دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم ہونے کا شرف آپ کو حاصل ہے۔پہلا طالب علم بھی محمودؒ اور استاد بھی محمودؒ۔ آپ نے صحاح سِتّہ کی کتب کے علاوہ بھی بعض دیگر اہم کتابیں قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سے پڑھیں، ۱۲۹۰ھ میں فارغ التحصیل ہوئے تو دار العلوم دیوبند ہی میں مدرس ہوگئے، آٹھ سال بعد صدر مدرس ہوئے۔ ۱۳۳۳ھ میں حجاز مبارک کا سفر اختیار کیا اور اس سفر کی غرض آزادیٔ ہند کے لیے ایک وسیع منصوبہ بندی کرانی تھی، انگریزی سامراج نے اس منصوبہ کو ناکام کرنے کے لیے آپ کو گرفتار کرکے مالٹا میں نظر بند کردیا۔ پانچ سال بعد رہا ہوئے اور ایک عرصہ تک علیل رہ کر سفرِ آخرت اختیار فرمایا۔۔۔۔ آپ کے ارشد تلامذہ میں حضرت شیخ مدنیؒ کے علاوہ انور شاہ کشمیریؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا کفایت اللہ صاحبؒ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا مفتی عزیز الرحمٰنؒ اور مولانا احمد علی لاہوریؒ وغیرہ جیسے اکابر علم و فضل ہیں۔۔۔۔ ویسے حضرت شیخ الہندؒ کی ہر کتاب علوم ومعارف کا بیش بہا گنجینہ ہے مگر ان سب میں زیادہ آپ کے ترجمہ و تفسیر کو حاصل ہوئی ہے۔ حکومتِ کابل نے بھی اس کو فارسی میں ترجمہ کرکے شائع کر دیا ہے۔
*ٹائپنگ: وحید اللہ ریحان*
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

اسلام پر یزید کی تخت نشینی کی بلا

علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:

امیر معاویہؓ نے ٦٠ھ میں وفات پائی اور ان کے بجائے یزید تخت نشین ہوا اور یہی اسلام کے سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور روحانی ادبار و نکبت کی اولین شب ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے متعدد روایتیں ہیں، مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ ٦٠ھ کے شروع ہونے سے اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگا کرو اور دنیا ختم نہ ہوگی، یہاں تک کہ اس پر ایسے ایسے حکمران نہ ہولیں۔ حاکم میں ہے کہ آپ نے فرمایا: عربوں پر افسوس! اس مصیبت سے، جو ٦٠ھ کے آغاز پر قریب آئے گی، امانت، لوٹ کا مال اور صدقہ و خیرات جرمانہ اور تاوان سمجھا جائے گا اور گواہی پہچان سے دی جائے گی اور فیصلے ہوا و ہوس سے ہوا کریں گے۔ بیہقی میں ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ مدینہ کے بازار میں یہ کہتے جاتے تھے کہ خداوندا! ٦٠ھ اور لڑکوں کی حکومت کا زمانہ نہ پاؤں۔ خدا نے ان کی یہ دعا قبول کی اور ۵۹ھ میں انہوں نے وفات پائی۔

سیرت النبی ﷺ. جلد: سوم/صفحہ: ۴۰۰/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

15۔ نفح الطیب فی غصن الاندلس الرطیب از ابو العباس المقری (وفات 1041 ہجری)۔ دوزی نے پہلے دو حصوں کی تحقیق کی، جو کتاب کا نصف ہیں، اور ڈوجا اور کریل ڈرائٹ کے تعاون سے 1861-1865ء میں لائیڈن میں دو حصوں میں شائع ہوئے۔ اس کے ساتھ مصنف کی سوانح اور کتاب کی اہمیت پر ایک مفصل فرانسیسی تمہید بھی شامل ہے۔ دوسرے حصے کے ساتھ ایک اشاریہ بھی ہے جس میں نامور شخصیات، کتابوں اور حواشی کا ذکر ہے۔
1 6۔ ابن بطوطہ کی سفرنامہ پر ديفربميري اور سانجينتي کی طرف سے شائع شدہ تعلیقات، جو 1860 میں "حوليات جوتنجن" میں شائع ہوئیں۔
1 7۔ اسپین کارلوس سوم کے دور میں" کے عنوان سے ایک مضمون، سن 1858 میں تحریر کیا گیا۔
1 8۔ مملکت غرناطہ" کے بارے میں ایک مضمون، جو 1862 میں جرمن مشرقی رسالے میں شائع ہوا۔
19۔ اسلام کی تاریخ ابتدا سے 1863 تک" کے عنوان سے کتاب، جو ہالینڈ کی زبان (ڈچ) میں لکھی گئی اور 1863 میں لائیڈن میں طبع ہوئی۔ بعد ازاں شونین نے اس کا فرانسیسی ترجمہ کیا، جو 1879 میں لائیڈن میں شائع ہوا۔
20۔ دى غويه کی مدد سے "نزهة المشتاق" کے ان حصوں کو شائع کیا جو افریقہ، اندلس اور بلادِ سودان سے متعلق تھے۔ مصنف: الشریف الادریسی۔ انہوں نے اس کا نام "صفة المغرب والسودان" رکھا، اس کے ساتھ فرانسیسی میں ایک مقدمہ، اسماء کا فہرست اور اصطلاحات کی وضاحت شامل کی۔ اس کی تدوین میں پیرس کی نیشنل لائبریری کے مخطوطے پر انحصار کیا گیا۔ طباعت کا سال 1866 اور مقام لائیڈن ۔
2 1۔عربوں کی سیاسی اور ادبی تاریخ" کے عنوان سے منتخب تواریخ، بالخصوص ابن الأبار کی "الحلة السيراء" سے انتخاب۔ اس میں مرقص یوسف موللر شریک تھے۔ طبع شدہ: میونخ، 1866–1876۔
22 - لانجلمان کے مرتب کردہ عربی الاصل ہسپانوی و پرتگالی الفاظ کے لغت کو مکمل کیا۔ مطبوعہ: لائیڈن ، 1869۔
23 - عریب بن سعد الکاتب القرطبی اور ربیع بن سعید الاسقف پر ایک تحقیقی مضمون لکھا، جو 1866 میں جرمن مشرقی رسالے میں شائع ہوا۔
24۔ ابن خلدون کی "مقدّمہ" پر ایک مطالعہ، جسے دس سلان (متوفی 1879) نے شائع کیا، اور جو کاترمیر کے ناتمام ترجمے کو مکمل کرتا ہے۔ اسی مطالعہ کو 80 صفحات پر مشتمل فرانسیسی رسالے "الجریدة الآسیویة" میں شائع کیا گیا۔
25۔ فلیشر کے نام ایک خط، جس میں "نفح الطیب" کے عربی نسخے پر گفتگو کی گئی۔ شائع شدہ: لائیڈن ، 1871۔
2 6۔ سن 961ھ کے قرطبہ کے تقویم کی تدوین، جس کی نسبت عریب بن سعد القرطبی اور ربیع بن زید الاسقف کی طرف کی جاتی ہے، اس کا لاطینی ترجمہ بھی شامل کیا۔ طباعت: لائیڈن ، 1873۔
2 7۔ آخر میں، دوزی کا مرتب کردہ "تکملة المعاجم العربیة" پر مشتمل دو جلدوں کا فرانسیسی لغت، جو 1877–1881 میں لائیڈن میں طبع ہوا، بعد میں 1927 میں پیرس سے اور پھر 1968 میں بیروت میں مکتبہ لبنان نے آفسیٹ طریقے سے اس کا عکس شائع کیا۔
2 8۔ غالباً دوزی کی اور بھی تحقیقات و مضامین ہیں جو امراء، مؤرخین، ادباء، عربی الفاظ کے ماخذ اور ان میں دخیل اجنبی الفاظ پر مشتمل ہیں، لیکن مختلف رسائل میں ان کی مکمل فہرست دستیاب نہ ہونے کے باعث ان کا ذکر ممکن نہیں۔
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*رہنمائے کتب: دوزی کی تکملۃ المعاجم العربیۃ (قسط 02)*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

فاضل مترجم سلیم النعیمی نے کتاب کے عربی نام کے سلسلے میں لکھا ہے کہ اس کے فرانسیسی نام کےعربی میں مختلف ترجمے ہوتے ہیں، جن میں: الملحق بالمعاجم العربية، ملحق بالمعاجم العربية، ملحق المعاجم العربية، ذيل المعاجم العربية، ملحق وتكملة القواميس العربية، اور تکملة المعاجم العربية وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ہم نے اس آخری نام کی شہرت اور مکتبہ لبنان کے ایڈیشن میں یہ نام ہونے کی وجہ سے اسے اختیار کرنا مناسب سمجھا ہے۔
آئیے ان چند تمہیدی باتوں کے بعد مصنف کے حالات زندگی اور کتاب کے تعارف کی طرف جاتے ہیں۔
حالات زندگی:

مصنف کا نام رینہارٹ پیٹر آن دوزی (Reinhart Pieter Anne Dozy) ہے، جو ایک ڈچ مستشرق (مشرقیات کے ماہر) تھا۔ وہ ایک فرانسیسی النسل پروٹسٹنٹ خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے آبا و اجداد کا فرانسیسی نام "آل ووزی" (ozy) تھا، جو سترھویں صدی کے وسط میں مذہبی جبر سے بچنے کے لیے فرانس سے ہالینڈ منتقل ہو گئے تھے۔ فرانس کی اضافی علامت "d" کو ہالینڈ میں رہائش کے بعد نام میں شامل کر کے "Dozy" بنا دیا گیا۔ اس کا خاندان مشرقی علوم سے محبت رکھنے والا تھا، اور اس کا رشتہ آل شولتنز خاندان سے تھا، جس نے کئی علما پیدا کیے۔
رینہارٹ دوزی 1820ء (1235ھ) میں لائیڈن (ہالینڈ کا ایک شہر) میں پیدا ہوا۔ اس نے ابتدائی عربی گھر پر سیکھی، پھر یونیورسٹی آف لائیڈن میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس کے استاد "فایرس" نے اسے عربی زبان کی گہرائی میں جانے اور اس کے نادر الفاظ سیکھنے کی طرف راغب کیا، تاکہ وہ جاہلی دور کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھ سکے۔ چنانچہ اس نے عربی ادب و تاریخ کی کئی کتب کا مطالعہ کیا، اور طلبِ علم کے زمانے اور بعد میں بھی ذہانت، سنجیدگی اور محنت کے لیے مشہور رہا۔
یونیورسٹی آف لائیڈن نے عربوں کے ملبوسات پر ایک مقالہ لکھنے کے لیے مستشرقین سے درخواست کی اور اس کے لیے انعام مقرر کیا۔ دوزی نے بطور طالب علم (جب اس کی عمر بائیس سال سے زیادہ نہ تھی) اس میں حصہ لیا اور انعام حاصل کیا۔ اس کامیابی نے اسے آسیائی مجلہ (Asian Journal) میں لکھنے پر آمادہ کیا، چنانچہ اس نے عربی مصادر سے "بنو زیان ملوکِ تلمسان" کی تاریخ ترجمہ و تشریح کے ساتھ شائع کی۔
دوزی نے 1845ء میں ایک ڈچ خاتون سے شادی کی، اور جرمنی میں ہنی مون کے لیے گیا۔ مگر اس نے یہ وقت جرمن کتب خانوں میں گزارا۔ وہاں اسے ابن بسام کی "الذخيرة" کی تیسری جلد ملی، جو فہرست میں المقرّی کی طرف منسوب تھی۔ وہ اجازت لے کر اسے لائیڈن لے آیا۔ جرمنی میں اس کی ملاقات معروف مستشرق و مشرقی علوم کے پروفیسر "ہنریخ فلیشر" (1801-1888) سے ہوئی، جو بعد میں اس کا قریبی دوست رہا۔
دوزی 1845 میں انگلینڈ چلا گیا، جہاں اس نے آکسفورڈ لائبریری سے "الذخیرہ" کا دوسرا حصہ اور کئی قیمتی عربی مخطوطات نقل کیے۔ وہاں اس نے کئی مستشرقین سے ملاقاتیں کیں۔ ہالینڈ واپس آنے پر اسے لائیڈن کی اورینٹل لائبریری کے مخطوطات کی انتظامی ذمہ داری سونپی گئی، جہاں اس نے دو فہرستیں تیار کیں۔

1850 میں اسے لائیڈن یونیورسٹی میں عربی زبان کا پروفیسر مقرر کیا گیا، اور یہ عہدہ اس نے 1878 تک سنبھالا، جس کے دوران اس نے یونیورسٹی کی بڑی تشہیر کی۔ 1878 کی انقلاب کے بعد اسے عمومی تاریخ پڑھانے کا کام سونپا گیا، جس پر مستشرقین کو افسوس ہوا۔ دوزی سامی زبانوں کا ماہر تھا، یونانی جانتا تھا، اور لاطینی، ڈچ، فرانسیسی، جرمن زبانوں میں لکھتا تھا، نیز پرتگالی اور ہسپانوی سے واقف تھا۔ وہ عربی میں "رنجرت دوزی" کے نام سے دستخط کرتا تھا۔ وہ 1883 (1300 ہجری) میں فوت ہوا۔ دوزی کو وسیع شہرت ملی اور اسے متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جیسے ایمسٹرڈم کی رائل اکیڈمی آف سائنسز، کوپن ہیگن اکیڈمی، اور پیرس کی ایشیائی سوسائٹی کا رکن بنایا گیا۔ مستشرقین کے نزدیک وہ اندلس کے مطالعات کا بانی تھا، اور اس کی تصانیف اندلس کی تاریخ، تہذیب، اور ثقافت کے لیے مرجع سمجھی جاتی ہیں، اگرچہ بعد کے محققین نے اس کی تحقیقات میں کچھ کمیاں نکالیں۔

تصانیف:

Читать полностью…

علم و کتاب

تعاون اور چندوں کی اپیل خلاف قانون ہے، ایسی اپیلوں کا جواب نہ دیں، ایسی درخواستیں کرنے والوں کے ناموں پر گروپ میں پابندی عائد کی جائے گی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

گروپ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسے علم وکتاب کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر چینل سے نام خارج کردیا جائے گا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

کچھ راہیں،کچھ منزلیں اور ہفت خواں ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں تن تنہاء،بے کارواں اور بے ہمرہاں طے کیا جاتا ہےـ

کوئی دوسرا شریک سفر ہوجائے تو نہ صرف منزل کھوٹی ہوتی ہے ؛ بل کہ دونوں پتھر کے ہوجاتے ہیں،راہی خود رواں دواں،خود کارواں اور خود سالارِ کارواں ہوتا ہے،اسے منزل کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا اور اپنے قدموں کی چَپ و راست چاپ کے سوا کوئی آواز، کسی کوہِ ندا کی صدا قطعـًا سنائی نہیں دیتی ـ

؎ شورِ جرس،آواز حُدی خواں، بانگِ منادی کچھ بھی نہیں!

(شامِ شعر یاراں، صفحہ: ۱۳۹)

Читать полностью…

علم و کتاب

میری علمی و مطالعاتی زندگی ۔۔۔
محدث کبیر شیخ الحدیث مولانا عبد الحق رحمہ اللّٰه بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ( قسط نمبر 02)
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰه


جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ حضرت شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحب رحمہ اللّٰه نے اکثر موقوف علیہ کتابیں اور کتب صحاح ستہ قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰه سے پڑھیں۔ مولانا محمد قاسم صاحب دارالعلوم دیو بند کے بانی ہیں، صرف دیوبند کے بانی ہی نہیں بلکہ آج ہند و پاک میں جہاں کہیں بھی اسلامی مدارس قائم ہیں، علوم دینیہ کا سلسلہ رواں ہے، علماء اور زمرہ اہل حق جو نظر آتا ہے یہ تمام فیض حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا ہے۔ حضرت نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے وقت کے امام رازی اور امام غزالی تھے۔ جہاں آپ نے تدریس و تعلم، تصنیف و تالیف میں ایک مقام پیدا کیا اور مجتہدانہ کمالات سے نوازے گئے وہاں تبلیغ و جہاد، عیسائیت کے خلاف محاذ اور پادریوں سے مناظرہ کے میدان میں بھی مجاہدانہ وار آگے رہے۔ آپ کا تاریخی نام خورشید حسن تھا۔ حد درجہ متواضع، خلیق اور منکسر المزاج تھے۔ کھدر کے کپڑے پہنتے تھے، کبھی ایسا لباس نہیں پہنا جس سے مولویانہ ٹھاٹھ کا اظہار مقصود ہو۔ عظیم مصنف، محقق اور علامہ ہونے کے باوجود اپنی عام نجی محفل میں گفتگو سادہ، بے تکلف اور عامیانہ ہوتی تھی، بلا وجہ اور بہ تکلف کبھی اپنی علمیت کا اظہار نہیں کرتے تھے لیکن جب درسگاہ میں ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے وقت کا غزالی یا رازی بول رہا ہے، طبیعت میں ضد اور بغض و عداوت کا نشان تک نہ تھا۔ مشہور محدث مولانا احمد علی سہارنپوری رحمہ اللّٰه محشی بخاری سے کسی مسئلہ میں اختلاف تھا تو ان کے ہاں جا کر درس بخاری میں داخلہ لے لیا اور باقاعدہ تلمذ اختیار کر لیا، جب مختلف فیہ مسائل میں مولانا احمد علی بحث کرتے تو حضرت نانوتوی رحمہ اللّٰه اثبات میں دلائل شروع کر دیتے، اولاً حضرت سہارن پوری جواب دینے کی کوشش کرتے رہتے لیکن جب سمجھ جاتے کہ بات وہی ہے جو حضرت نانوتوی کہتے ہیں تو بغیر کسی تصنع کے فرماتے کہ مولانا ! بات وہی ہے جو آپ کہہ رہے ہیں، میں نے اپنے مسلک سے رجوع کر لیا ہے ۔

مولانا احمد علی سہارنپوری رحمہ اللّٰه کا بخاری پر بڑا بہترین اور جامع حاشیہ ہے۔ آخری پارے ابھی باقی تھے کہ حضرت سہارنپوری رحمہ اللّٰه انتقال فرما گئے ۔ ان کی وفات کے بعد اس کام کو مولانا محمد قاسم نے مکمل فرمایا مگر اپنا نام ظاہر نہ ہونے دیا، آج تک استاد کا نام چلا آرہا ہے۔

*مولانا شاہ عبدالغنی رحمہ اللّٰه*

مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰه نے جامع ترمذی اور بخاری مولانا شاہ عبدالغنی رحمہ اللّٰه سے پڑھیں ۔ یہ شاہ عبدالغنی شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے نہیں بلکہ یہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللّٰه کے نواسے اور مہاجر مدنی ہیں، یہ شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللّٰه شاہ ابو سعید رحمہ اللّٰه کے فرزند ہیں، شاہ ابوسعید رحمہ اللّٰه شاہ شفیع القدر رحمہ اللّٰه کے صاحبزادے ہیں اور شاہ شفیع القدر رحمہ اللّٰه شاہ محمد معصوم رحمہ اللّٰه کے صاحبزادے ہیں اور شاہ محمد معصوم رحمہ اللّٰه حضرت مجددالف ثانی رحمہ اللہ کے صاحبزادے ہیں۔

آپ سے بکثرت علماء نے استفادہ کیا، ١٢٧٣ھ میں جب دہلی پر انگریز وں کا تسلط ہو گیا تو آپ نے ارض مقدس حجاز کی طرف ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ میں قیام فرما کر عبادت اور درس و افادہ میں مشغول ہو گئے۔ تو آپ حضرت مجددالف ثانی رحمہ اللّٰه کی ذریت سے ہیں ۔

دارالعلوم دیو بند کے قیام سے قبل جب حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللّٰه حکومت کے مجرم کے طور پر پابجولاں دیوبند کی سر زمین سے گذر رہے تھے تو فرمایا مجھے اس سر زمین سے علوم نبوت کی خوشبو آتی ہے۔ اور سید احمد شہید قدس سرہ سے بھی اپنے سفر جہاد کے دوران دیوبند کے قیام کے دوران ایسے برکات و انوار کے مشاہدہ کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت سید احمد شہید رحمہ اللّٰه اور شاہ اسمعیل شہید رحمہ اللّٰه نے اپنے جہاد کا آغاز اسی بستی اکوڑہ خٹک کی سرزمین سے کیا۔ جب انہوں نے سکھوں سے جنگ لڑی تھی تو اکوڑہ کے مغربی جانب پر پڑاؤ ڈالا تھا۔ اگرچہ تحقیقی طور پر ثابت نہیں لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریبا یہی وہ مقام ہے جہاں آج دارالعلوم حقانیہ قائم ہے اور کیا عجب کہ حضرات سیدین شہیدین اور ان کے رفقاء کے انفاس مبارکہ اور دعاؤں کا ظہور اس ادارہ کی شکل میں ہوا ہو ۔ ۔

*حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق رحمہ اللّٰه*

Читать полностью…

علم و کتاب

ذرا اس وقت کا دھیان تو کرو جب میدانِ حشر میں ایک طرف ہم اور دوسری طرف خدا ہو گا الامرُ يومئذ لله جب جُرم و گناہ کی ماری انسانیت ہولناک عذاب کی لپیٹ میں آرہی ہوگی اور ہم سب اس کے چشم دید گواہ ہوں گے ___ جہاں دوسری طرف عرشِ الہی کے خنک سائے میں وہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جن کے دن آبلہ پائیوں میں اور راتیں سجدوں میں گزری ہوں گی اور اس طرح اس رات کی یاد تازہ ہوگی جو حضور ﷺ نے ساری دنیا کے غم میں رو رو کر بسر کی تھی ۔ امام اعظم حضرت ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک پوری رات اس آیتِ قرآنی کے دریائے معانی میں سفینۂ بے تاب کی طرح چکراتی پھری:
"ارے او مجرمو _____ ! آج کے دن تم الگ تھلگ کھڑے تو ہو جاؤ _____ ! "
یہ تو طے ہے کہ قیامت کا میدان لگے گا۔ یہ بھی طے ہے کہ اس میدان میں تمام نوعِ انسانی ایک جِھڑ کی سُنتے ہی دبے پاؤں سمٹ آئے گی اور ہم خود اس ہجومِ بے کراں میں ہوں گے اور یہ بھی طے ہے کہ وہاں سب ایک ساتھ نہ رہ سکیں گے ۔ انسانیت کا لامتناہی خاندان صالحین اور مجرمین کے دو حصّوں میں بٹ جائے گا۔ الگ تھلگ کر دیا جائے گا ۔ ہائے اے لوگو _____ ! سوچو تو سہی اس دن ہم اِدھر بلائے جائیں گے یا اُدھر ہنکا دیے جائیں گے _____؟ اِدھر جہاں خدا ہوگا ۔ خدا کا رسول (ﷺ) ہوگا اور مومنین وصالحین کی جماعت ہوگی ___ یا اُدھر جہاں ابلیس لعین ہوگا
ملعون ابو جہل ہوگا ___ مردود فرعون ہوگا اور عاد و ثمود جیسی بدبخت قو میں ہوں گی ۔ اِدھر جہاں رحمت و مغفرت ہوگی یا اُدھر جہاں عذاب ہی عذاب ہوگا اِدھر جہاں پُھولوں کی طرح ہنستے کھیلتے چہرے ہوں گے یا اُدھر جہاں دُھول میں اٹے ہوئے چہرے ہوں گے ۔ زنگ چڑھے دل اور خوف و حیرت سے پھٹی آنکھیں ہوں گی ___ ؟
ہاں ابھی ہم یہ سب کچھ سوچ سکتے ہیں، یہ مہلت ایک دن ختم ضرور ہو جانے والی ہے ، لیکن ابھی ختم نہیں ہوئی چاہے یہ لمحہ اس کا آخری ہی لمحہ کیوں نہ ہو ۔ ہاں ہم ابھی یہ سوچ سکتے ہیں کہ' کیا ہم مسلمان ہیں ' ؟ خدا کا شکر ہے کہ ابھی اس نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور خدا کی طرف پلٹ جانے کی مہلت دے رکھی ہے۔ ہے کوئی جو اس مہلت سے فائدہ اٹھائے! ۔

♦️♦️♦️__
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ایک مرتبہ میں کسی کام سے اسلام آباد گیا ۔ اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا اور
مولانا معین الدین اسلام آباد میں تھے ۔ میرا قیام راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں تھا ۔ ایک دن
شام کو معین الدین سے ملنے ایم این اے ہوسٹل چلا گیا ۔ کافی دیر ان سے باتیں ہوتی رہیں ۔
واپس آنے لگا تو کہا' کچھ دیر بیٹھو' کھانا کھا کر چلے جانا ۔ میں کھانے کے لالچ میں بیٹھ
گیا ۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک شخص سے کہا جاؤ' دو تین پلیٹیں دال کی لاؤ ۔
وال کا نام سن کر میں کھڑا ہو گیا اور عرض کیا' آپ دال کھائیے اور مجھے اجازت
دیجیے ۔ دال تو لا ہور ہمارے گھر میں بھی مل جاتی ہے ۔ اس کے لیے اتنی دور آنے اور ایم این
اے سے ملنے کی کیا ضرورت تھی ۔
بولے : یہاں کا گوشت اچھا نہیں ہوتا ۔ ان لوگوں کا ذبیحہ بھی مشکوک ہے اور گوشت کے جانور بھی ایسے ہی ہیں ۔
میں نے کہا : آپ یہ گوشت بالکل نہ کھائیے' لیکن ہمیں کیوں روکتے ہیں ۔
فرمایا : لاؤ بھائی اس کے لیے گوشت کی پلیٹ ۔
کھانا کھا چکے تو برفی کا ڈبہ الماری سے نکالا ۔ کہا یہ برفی ایک شخص دے گیا ہے ۔ اس کے رنگ روپ سے بالکل پتا نہیں چلتا کہ یہ دودھ سے بنائی گئی ہے ۔۔۔۔۔ میں نے وہ ڈبہ پکڑ کر کہا یہ ہمیں دیجیے اور آپ خالص دودھ کی بنی ہوئی کھائیے ۔
وال کے متعلق میں نے ان کو لطیفہ سنایا کہ میراثی کو کسی چودھری نے ایک چودھری
کے پاس کوئی پیغام دے کر شہر بھیجا ۔ راستے میں میراثی سوچتا گیا کہ چودھری گوشت کھلائے گا'
حلوا کھلائے گا' مٹھائی کھلائے گا ۔۔۔۔۔ کھانے کا وقت ہوا تو دال آگئی ۔ میراثی نے دال کی
چھنی اٹھائی اور اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔ چودھری نے کہا دیکھئے کیا ہوا ، کھاؤ ۔
بولا : میں اسے پوچھ رہا ہوں کہ میں تمہیں گھر چھوڑ کر آیا تھا تم میرے پیچھے کیسے آ
گئی تمہیں کس نے بتایا کہ میں چودھری کے پاس شہر آیا ہوں ۔

(بزم ارجمندان۔ تذکرہ مولانا معین الدین لکھوی۔ تحریر: محمد اسحق بھٹی)
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سہ ماہی تدبر لاہور۔ شمارہ (۱۰۲) جولائی ۔ ستمبر۔ اس شمارے میں بعض مضامین بہت ہی نادر اور معیاری نوعیت کے ہے۔ ایک نطر ضرور دیکھیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

امالہ کیا ہے؟۔۔۔اطہر علی ہاشمی

پچھلے کالم میں ہم نے ’’امالہ‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ ہمیں اب تک یہ اندازہ نہیں ہے کہ اسے کہاں استعمال کرنا چاہیے اور کہاں نہیں۔ امالہ کے حوالے سے سابق صدر شعبہ اردو جامعہ پنجاب، اورینٹل کالج حضرت رفیع الدین ہاشمی ’’صحتِ املا کے اصول‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جن واحد مذکر لفظوں کے آخر میں ’’ہ‘‘ یا ’’الف‘‘ ہو اور ان کی جمع یاے تحتانی (بڑی یے) لگانے سے بن سکتی ہو اور ان کے فوراً بعد حرف عاملہ (مغیرہ) یعنی تک۔ سے۔ کو۔ کی۔ ہیں۔ پر، وغیرہ میں سے کوئی حرف آئے تو اردو املا میں اس ’ہ‘ یا ’الف‘ کو یاے تحتانی سے بدل دیا جائے گا۔ (استاد نے ے پر ہمزہ نہیں لگائی یعنی ’ئے‘ نہیں لکھا) مثلاً

آپ کے بارہ میں اس افسانہ کا nتمہارے بھروسا پر اس چوراہا تک چلے جاؤ۔ انہیں یوں لکھنا صحیح ہوگا: آپ کے بارے میں اس افسانے کا تمہارے بھروسے پر اس چوراہے تک چلے جاؤ۔ بعض استثنائی صورتیں بھی ہیں۔ مثلاً ’’میں انبالے کا رہنے والا ہوں‘‘ یا ’’وہ تین دن پہلے مدینے پہنچ گیا‘‘۔ خیال رہے کہ بعض الفاظ امالہ قبول نہیں کرتے۔ جیسے امریکہ (یا امریکا)، دادا، نانا، چچا، ابا، ایشیا، والدہ وغیرہ۔ اسی طرح زیادہ تر اسمائے معرفہ بھی جوں کے توں رہیں گے، جیسے کانگڑہ، افریقہ، ایتھوپیا، برما، ہمالیہ، رقیہ، جمیلہ وغیرہ۔

اب امالہ کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہے۔ ویسے پنجاب میں دادے، مامے، چاچے، نانے بلکہ ابے تک زبان زد عام ہیں۔ پنجابی+ اردو کے ایک معروف مزاحیہ شاعر نے تیرے ابے استعمال کیا ہے۔ یہ بھی عوامی زبان ہے کہ ’’وہ تیرے چاچے، مامے لگتے ہیں۔‘‘ لیکن یہ استعمال مزاح میں یا عام بول چال تک محدود ہے۔

امالہ کے حوالے سے ایک اور ہاشمی کی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں۔ طالب الہاشمی اپنی تحقیق ’’اصلاح تلفظ و املا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’امالہ کے لغوی معنی ہیں ’’مائل کرنا‘‘۔ علم صرف کی اصطلاح میں (چند مستثنیات کو چھوڑ کر) الف یا ہائے ہوز پر ختم ہونے والے الفاظ کے بعد اگر کوئی حرف ربط یا حرف جار (سے، کو، کی، کے، کا، پر، نے وغیرہ) آجائے تو الف یا ہائے ہوز کو یائے مجہول سے بدلنے کو امالہ کہا جاتا ہے، جیسے لڑکا سے لڑکے، گھوڑا سے گھوڑے، روزہ سے روزے، محلہ سے محلے، قبیلہ سے قبیلے، دعویٰ سے دعوے، تقویٰ سے تقوے، اچھا سے اچھے، برا سے برے، سلسلہ سے سلسلے، اپنا سے اپنے، حادثہ سے حادثے، محاصرہ سے محاصرے، معاشرہ سے معاشرے وغیرہ۔‘‘

ہم اپنی کم علمی کے سبب کسی کی تحریر میں ’’ذریعے‘‘ لکھا ہوا دیکھ کر ذریعہ کرتے رہے ہیں۔ ہمارا گمان تھا کہ لکھا تو ذریعہ، کمرہ، جذبہ وغیرہ ہی جائے گا لیکن پڑھا جائے گا ذریعے، کمرے، جذبے وغیرہ۔ اس سے ایک صورت پنجاب اور اردو بولنے والے بنگالیوں میں یہ دیکھنے میں آئی کہ وہ ایسے ہی بولنے لگے جیسے لکھا ہوا ہو۔ مثلاً ’’میں کمرہ میں گیا‘‘ تو اس کو کمرہ ہی بولا گیا، کمرے میں نہیں۔ اردو بولنے اور سمجھنے والے بنگالی بھائی تو مذکر، مونث میں بھی الجھتے ہیں۔ لڑکی گئی یا لڑکی گیا۔ ہمارے ایک بنگالی دوست نے بتایا کہ بنگالی زبان میں یہ تفریق نہیں ہے۔ دونوں سے یکساں سلوک ہوتا ہے۔

طالب الہاشمی مزید لکھتے ہیں کہ ’’تمام اردو مصادر (کرنا، لانا، رونا، آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ) کا امالہ ہوسکتا ہے۔ عربی اور فارسی اسمائے صفات (مثلاً ادنیٰ، اعلیٰ، دانا، بینا، نابینا، صغیرہ، کبیرہ وغیرہ) کا امالہ نہیں ہوسکتا۔ سنسکرت کے کسی اسم (مثلاً دیوتا، راجا، بابا وغیرہ) کا امالہ نہیں ہوسکتا۔ اسمائے ذات (ناؤن) میں سے کسی اسم کی جو جمع اردو قاعدے سے بنائی گئی ہو وہی اس کا امالہ ہوگی، لیکن اس کی جمع اگر عربی یا کسی اور زبان سے بنائی گئی ہو تو اس کا امالہ نہیں ہوگا۔ مثلاً قبیلہ کی جمع اردو قاعدے کے مطابق قبیلے ہے جو مجرور ہوکر قبیلوں بن جاتی ہے۔ مگر اس کی عربی جمع قبائل ہے جسے قبیلہ کا امالہ نہیں کہا جا سکتا۔ (ہم تو اسی میں الجھ گئے کہ یہ ’’مجرور‘‘ کیا ہوتا ہے، غالباً جَر سے ہے)

Читать полностью…

علم و کتاب

مسلمانوں نے وحدت پیدا کی، انگریز نے تفرقہ پھیلایا

احمد حاطب صدیقی لکھتے ہیں: ایک بار اہلِ اسلام اور اہل مغرب کا موازنہ کرتے ہوئے (مولانا ابوالجلال ندوی علیہ الرحمہ نے) ہمیں بتایا: انگریزوں نے یہاں آکر ہم کو تجزیہ اور تقسیم، (یعنی اجزا میں بانٹنا) سکھایا۔ مسلمان جب یہاں (برصغیر میں) آئے تو مسلمانوں نے یہاں کے لوگوں کو ایک قوم بنانے کے لیے انھیں ایک نام دیا، یعنی "ہندو" اور ایک زبان دی، جو پہلے ہندوستانی کہلاتی تھی، بعد میں اُردو کہلائی۔ مسلمانوں نے یہاں کے صوبوں کو گھٹانے کی کوشش کی اور گھٹا بھی دیا۔ مگر انگریز آئے تو انھوں نے پھر سے صوبہ واریت پھیلائی۔ چھوٹے چھوٹے صوبے بنائے، ہر ہر زبان کو زندہ کیا۔ جس زبان کے لیے رسم الخط موجود نہیں تھا، اُس کو رسم الخط عطا کیا۔ تعصب بڑھایا۔ اُن کا کام تجزیہ اور تقسیم تھا۔ اسی طرح عربوں کو عدم متحد کرنے کے لیے انھوں نے کہا کہ مصر کی عربی دوسری ہے، فلاں جگہ کی عربی دوسری ہے، فلاں جگہ کی عربی دوسری ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا انگلستان کی زبان ایک ہے؟ اور جو کتابیں تم پڑھاتے ہو اور جو تمھارے اخبار کی زبان ہے اور جو تمھارے عوام کی زبان ہے، اُن میں کیا یگانگت ہے؟۔

مولانا ابوالجلال ندوی: دیدہ و شنیدہ و خواندہ/صفحہ: ۹۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اس کے باوجود، فصیح زبان کے محافظین جہاں تک ممکن تھا، اسی زبان پر قائم رہے۔ انہوں نے صرف اسی کے الفاظ کو اپنی ضخیم لغات میں درج کیا اور ان کی وضاحتیں لکھیں۔ یہ لغات بعد میں یورپ میں تیار کی گئی لغات کی اصل بنیاد بنیں، کیونکہ یورپی لغات اس وقت تیار ہوئیں جب انہوں نے پہلے سے موجود کتابوں کا مطالعہ کیا، اور ان میں درج الفاظ کو جمع کیا۔ ان یورپی لغات کے مؤلفین نے مشرقی لغت نگاروں کی پیروی کی، بلکہ ان کا طریقۂ کار اس حد تک اپنایا کہ وہ نقش بہ نقش ان کی تقلید محسوس ہوتی ہے۔
پھر دوزی نے جن مغربی و عربی کتب لغت سے استفادہ کیا ہے، اور اپنے لحاظ سے ان میں جو خامیاں پائی ہیں ان کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ
یہی طریقہ جولیس کی لغت پر غالب ہے، جو اپنے وقت کے لحاظ سے ایک شاندار معجم ہے، پھر فریٹاج کی لغت بھی اسی کے نقش قدم پر چلی، حالانکہ اس کی تصنیف جولیس کی لغت کے دو سو سال بعد ہوئی۔ فریٹاج نے بہت مفید کام کیا، خاص طور پر جب جولیس کا معجم نایاب اور مہنگا ہو چکا تھا۔ بعد میں ایڈورڈ لین کی لغت بھی اسی اسلوب کی عکاسی کرتی ہے، جو نہایت صبر، محنت، علم اور گہری تنقید کا شاہکار ہے، اور اتنی عمدہ ہے کہ شاید اس سے بہتر لغت اسی طریقے پر تیار نہیں کی جا سکتی۔
چونکہ فصیح عربی ہی ان مقامی زبانوں کی اصل ہے جو اس کی جگہ وجود میں آئیں، اس لیے یہ لغات ان لوگوں کے لیے ناگزیر ہو گئیں جو قرون وسطیٰ کے عرب مؤلفین کی تصنیفات، جیسے مؤرخین، جغرافیہ دانوں، قصہ گو، نباتاتی ماہرین، اطباء اور ماہرین فلکیات کی کتابیں پڑھتے ہیں۔
مگر یہ لغات ان طلبہ کے لیے کافی نہیں تھیں، کیونکہ ان میں بہت سے الفاظ اور معانی کی کمی تھی۔ مثلاً ایڈورڈ لین نے اپنی لغت سے فصیح زبان کے علاوہ تمام الفاظ کو نکال باہر کیا، جیسا کہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں۔ فریٹاج نے اگرچہ ان الفاظ کو لین سے زیادہ شامل کیا، لیکن اس نے ان کو مربوط انداز میں کسی ایک کتاب میں تلاش نہیں کیا، یہاں تک کہ ان کتابوں میں بھی نہیں جو اس نے خود شائع کیں۔
فریٹاج، مثلاً، الف لیلہ و لیلہ (ہزار و ایک رات) کا مطالعہ ہی نہ کر سکے، جیسا کہ ان کی لغت سے ظاہر ہے، بلکہ انہوں نے یہاں وہاں سے غیر مانوس الفاظ کے مجموعے اکٹھا کیے جو "ہابیشت" نے ان کہانیوں کے مختلف حصوں میں شامل کیے تھے۔ فلیشر نے بڑی باریک بینی سے ثابت کیا کہ ان مجموعوں میں بہت سی غلطیاں اور اوہام موجود ہیں، لیکن فریٹاج نے ان پر نہ تو توجہ دی اور نہ شک کیا، بلکہ بعض اوقات ان میں سے سب سے عجیب و غریب اور بے بنیاد باتوں کو نقل کیا اور ان باتوں کو چھوڑ دیا جو زیادہ قرینِ قیاس تھیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ایک ایسی لغت ترتیب دی جائے جو وہ الفاظ اور اصطلاحات بھی شامل کرے جو عربوں نے اپنی فصیح زبان میں استعمال نہیں کیے تھے۔ لیکن عربی زبان اور ادب اتنے وسیع اور گہرے ہیں کہ اس لغت کی تدوین میں برسوں نہیں بلکہ شاید صدیوں لگ جائیں۔
ایڈورڈ لین، جو اس میدان میں بے مثال ماہر تھے، کہتے ہیں:
"غیر فصیح عربی کا معجم صرف اس وقت تیار ہو سکتا ہے جب یورپ، ایشیا اور افریقہ کی مختلف اقوام میں موجود ایک بڑی تعداد میں علما مل کر کام کریں، اور وہ کچھ مواد کتابوں سے حاصل کریں اور کچھ ان عربوں سے سیکھیں جو ان باتوں کو بہتر جانتے ہیں۔ اس کے لیے اسلامی علوم میں مہارت رکھنے والے کئی معاونین کی ضرورت ہوگی۔"
یہ خیال جتنا عمدہ اور عظیم ہے، اس کا عملی نفاذ اتنا ہی مشکل ہے۔ آخر اتنے زیادہ علما، وہ بھی تین براعظموں سے، ایک ایسا پیچیدہ، طویل المدت کام کیسے انجام دے سکتے ہیں، جب کہ یورپ میں موجود مستشرقین مختلف شہروں میں منتشر ہیں، ہر ایک اپنی ذاتی مصروفیات میں مشغول ہے، اور مشرقی علما ہمارے علمی طریقوں سے مانوس نہیں؟ اور وہ کون ہوگا جو ایسے کام کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار ہو، جب کہ ایسا کام صرف ایک شخص ہی انجام دے سکتا ہے؟ کیا اس مؤلف کو اپنے معاونین کی قابلیت اور کام کی درستگی پر اعتماد حاصل ہو سکے گا؟ کیا وہ اس قدر لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر سکے گا جن میں ہر ایک کا اپنا نظریہ اور فہم ہو؟ کیا یہ ضخیم لغت آخر کار ایک الجھا ہوا، بکھرا ہوا مجموعہ بن کر نہ رہ جائے گا، بجائے اس کے کہ یہ ایک خوب صورت، منظم لغت ہو؟
مجھے اس کا اندیشہ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ایسا عظیم منصوبہ شروع کرنے کا وقت نہیں آیا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات : مورخہ 29جون*

1940ء خواجہ عبدالروف عشرت لکھنوی ادیب وصحافی
1979ء عباس علی بیرسٹر
1979ء سید وزیر حسن عابدی محقق
1979ء سید وزیر حسن عابدی محقق
2009ء پرنم الہ آبادی (محمد موسی ہاشمی) شاعر
2023ء شکیل ( یوسف کمال) اداکار

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
HTTPS://TELEGRAM.ME/ILMOKITAB

Читать полностью…

علم و کتاب

میری علمی اور مطالعتی زندگی (۲) محدّث کبیر شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ
بانی دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک

ذیل کا مضمون محدثِ کبیر استاذی استاذ العلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کے علمی افادات، حقائق السنن، عواتِ حق اور زیادہ تر صحبتے با اہلِ حق سے حضرتؒ ہی کے لہجہ اور ان ہی کی زبان میں اخذ کرکے مرتب کیا گیا ہے۔ افادیت اور نافعیت تو ہے ہی مسلم، دلچسپ اتنا کہ خود مرتب، حضرتؒ سے براہِ راست سننے، لکھنے پھر کتابی صورت میں طبع کرنے اور اب کے بار اخذ و انتخاب کے بعد بھی جب نظرِ ثانی کرنے لگا تو ساری باتیں اتنی ہی پیاری اور میٹھی محسوس ہوئیں گویا ایک نئی اور دلچسپ تحریر ہے جس کی عذوبت و حلاوت اور لطف اندوزی ایک قند مکرر ہے، جتنی بار پڑھی جائے حظِّ وافر اور لطفِ جدید حاصل ہو۔ (عبد القیوم حقانی)

سلسلۂ سند (شیخ الحدیث مولانا عبد الحق ؒ)
میں نے جامع ترمذی اور بخاری شریف شیخنا شیخ العرب و العجم، شیخ المشائخ، شیخ الاسلام والمسلمین، المجاہد، فی سبیل اللہ، امیر الہند، حافظ الحدیث، سیدنا و مولانا و بالفضل اولانا حضرت مولانا سید حسین احمد المہاجر ؒ صدر المدرسین بدار العلوم دیوبند سے پڑھی ہیں۔

الشیخ مولانا حسین احمد مدنی ؒ

حضرت شیخ مدنی ؒ حدیث کے امام تھے، حافظ الحدیث تھے، بہت بڑے مردِ مجاہد اور صاحب الکمالات تھے۔ آپ کا نسبی تعلّق سادات سے ہے۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ جو سب سے پہلے ہندوستان پہنچے ان کا نام شاہ نور الحق ہے۔ ان سے حضرت شیخِ مدنیؒ تک خاندان کی سترہ پُشتیں گذری ہیں۔ مغلیہ خاندان کے شاہانِ دہلی نے آپ کے خاندان کے اعلیٰ مورثوں کو چوبیس گاؤں بطور جاگیر دیئے تھے۔ وہ دور اہلِ علم کی قدردانی کا دور تھا، یہ واقعہ تو مشہور ہے اور مولانا عبد الحکیم سیالکوٹیؒ کے سوانح نگاروں نے بھی لکھا ہے کہ علامہ سیالکوٹی ؒ کو ان کی ایک تصنیف کے بدلے سونے سے تولاگیاتھا۔ ۱۳۱۶ھ میں حضرت مدنی ؒ کے والد ماجد ؒ نے بمع اہل و عیال حجاز ہجرت کی تو آپ کو بھی ساتھ لے گئے۔ وہاں کے ایام آپ نے اور آپ کے خاندان نے حد درجہ تنگی اور عسرت میں گذارے مگر تحصیلِ علم اور اشاعتِ دین میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ ایک طویل عرصہ تک مدینہ منورہ میں قیام فرمایا، مسجدِ نبوی میں درسِ حدیث بھی جاری رکھا جس میں عرب و عجم کے سینکڑوں طالبان حدیث فیضیاب ہوتے رہے۔
حضرت شیخ الہندؒ کے ارشد و اخص تلامذہ سے تھے، جب حضرت شیخ الہندؒ گرفتار کرلیے گئے تو اُس وقت شیخ مدنیؒ نے حکومت سے کہا کہ جس دفعہ کے تحت تم نے میرے اُستاذ کو گرفتار کیا ہے میں بھی اُسی دفعہ کا مجرم ہوں۔ تو اس طرح اپنے آپ کو اپنے شیخؒ کے ساتھ مالٹا کی جیل میں شریک کرلیا کہ شیخؒ کی خدمت کا موقع ملتا رہے۔
حضرت شیخِ مدنیؒ بہت بڑے ولی اللہ اور صاحب الکرامات تھے۔ آپ کی کرامت کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ اس وقت ہند وپاک میں جس قدر بھی مدارس آپ کو نظر آتے ہیں تقریباً سب میں حضرت شیخِ مدنیؒ کے بلاواسطہ یا بالواسطہ تلامذہ خدمتِ دین میں مشغول ہیں۔
حافظہ ایسا تھا کہ بخاری آپ کو سند اور متن کے ساتھ یاد تھی مگر آپ نے کبھی اس امر کو ظاہر نہ فرمایا بلکہ اس کی ہمیشہ اخفاء کرتے تھے۔ جب بخاری پڑھاتے تو اپنے سامنے قسطلانی کا نسخہ رکھتے تھے۔ بہت تھوڑے عرصہ میں اپنے شیخ کی دُعا سے قرآن مجید یا کرلیا تھا اور اسی ماہِ رمضان جس میں قرآن یاد کیا اپنے اُستاد کو تراویح میں سُنا بھی دیا۔ جب کبھی غصّہ آجاتا اور بہت کم ایسا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ خلق الانسان من عجل کہ کر اس کا اظہار کرتے تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

یادوں کا سفر(18) اخلاق احمد دہلوی
لنک
/channel/ilmokitab/16593

Читать полностью…

علم و کتاب

1۔ تاریخ بنی زیان (تلمسان کے بادشاہ): عربی مصادر سے نقل، حواشی اور تعلیقات کے ساتھ، 1844 میں "جرنل ایشیاتیک" میں شائع ہوا۔
2۔ عربی لباسوں کے ناموں پر لغت: 446 صفحات، 1845 میں ایمسٹرڈم میں چھپی۔
3۔ ابن عبدون کی قصیدہ کی شرح (ابن بدرون کی تالیف): تحقیق اور انڈیکس کے ساتھ، 1846 میں لائیڈن میں شائع ہوئی،اس کے منتخبات 1847 اور 1883 میں چھپے۔
4۔ بنی عباد کی حکومت پر عربی کتابیں: پہلے نامعلوم، اس نے "الذخیرہ" (ابن بسام) کی مدد سے تیار کی، 1847-1863 میں لائیڈن میں تین جلدوں میں شائع ہوئی۔
5۔ کچھ عربی مخطوطات پر تبصرے: 260 صفحات، 1847-1850 میں لائیڈن میں چھپے۔
6۔. لائیڈن یونیورسٹی لائبریری کے مشرقی مخطوطات کی فہرست: 1851 میں لائیڈن میں شائع ہوئی۔
7۔ المعجب فی تلخیص اخبار المغرب (عبد الواحد المراکشی): موحدین کی تاریخ، 1874 میں لائیڈن میں انگریزی مقدمے کے ساتھ شائع ہوئی، 1881 میں دوبارہ چھپی۔ فرانسیسی ترجمہ 1893 میں الجزائر میں شائع ہوا۔
8۔ کچھ عربی نام، ایشیائی جریدے میں 1847ء میں شائع ہوئے۔

9۔ قشتالہ کا ادب اور امیر الامراء، 1848ء میں لائیڈن میں چھپا۔

10۔ البیان المغرب فی اخبار المغرب از ابن عذاری المراکشی (ابو عبد اللہ محمد المراکشی، ساتویں صدی ہجری کے آخر میں مشہور ہوئے)۔ یہ کتاب مغرب اقصی اور وسطی کے حالات پر ہے۔ دوزی نے اس کی تحقیق کی اور فرانسیسی میں ایک تمہید لکھی۔ اس کے علاوہ اس پر تعلیقات اور تشریحات بھی شامل ہیں۔ پہلا حصہ 1848ء میں اور دوسرا 1849-1851ء میں لائیڈن میں شائع ہوا۔ پہلے حصے میں نظم الجمان از ابن القطان (وفات 627 ہجری) کے کچھ حصے شامل ہیں، جبکہ دوسرے حصے میں تاریخ عریب (ابن سعد القرطبی) کے کچھ اقتباسات ہیں، جو تاریخ طبری کا تکملہ ہے اور 365 ہجری پر ختم ہوتا ہے۔

دوزی نے اس کتاب پر اضافہ کیا اور کچھ متن کی تصحیح کی، جس کے لیے انہوں نے اسکوریال لائبریری، سپین میں موجود قلمی نسخوں سے مدد لی۔ انہوں نے ایک کتاب تصنیف کی جس کا عنوان تھا: "تصحیحات لنصوص البیان المغرب وقطع من تاریخ غریب القرطبی وقطع من الحلۃ السیراء لابن الابار" (595-658 ہجری)، جو 1883ء میں لائیڈن میں شائع ہوئی۔
اس کتاب کا فرانسیسی ترجمہ فانیان نے کیا اور اس پر اضافہ کیا، جو دو حصوں میں 1901-1954ء میں الجزائر میں شائع ہوا۔ بعد میں لیوی پروونشال اور کولن نے اس کی مزید تصحیح کی۔ لیوی پروونشال نے تیسرا حصہ شائع کیا، جو 1932ء میں پیرس اور 1934ء میں لائیڈن میں چھپا۔

1 1۔ اسپین میں مسلمانوں کی تاریخ تا فتح المرابطین، چار حصوں پر مشتمل ہے جن میں کل 1410 صفحات ہیں۔ پہلا حصہ: خانہ جنگیاں، دوسرا: نصرانی اور مرتد، تیسرا: خلفاء، چوتھا: طوائف الملوک۔ یہ کتاب 1849-1861ء میں لائیڈن میں شائع ہوئی۔ سانتیاگو نے اس کا اسپینی میں ترجمہ کیا، جو 1920ء میں میڈرڈ میں چھپا۔ لیوی پروونشال نے 1932ء میں لائیڈن میں اسے دوبارہ شائع کیا، جس کے بعد یہ ایک معتبر حوالہ بن گئی۔ استاد کامل الکیلانی نے "ملوک الطوائف" کے ساتھ اس سے استفادہ کیا۔

12۔ تاریخ اسلام پر نظرثانی، اور اسپین کی قرون وسطیٰ کی تاریخ و ادب پر تحقیقات، دو حصوں میں کئی بار شائع ہوئی۔ تیسری اشاعت 1881ء میں لائیڈن میں ہوئی۔

13۔ امسٹرڈام کی ڈچ اکیڈمی میں مشرقی مخطوطات کی فہرست، 1851ء میں لائیڈن میں شائع ہوئی۔

14۔ ابن رشد اور ان کے فلسفے پر رینان کے رد میں، ایک مضمون جو 1853ء میں ایشیائی جریدے میں شائع ہوا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

فاضل مصنف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ "انگریزی تراجم قرآن کے پردے میں مغربی فضلاء کی شر انگیزی کے پہلو بہ پہلو خود مسلمانوں کے اپنے مسلکی تعصبات اور خود ساختہ نظریاتی مزعومات کی یلغار بھی کچھ کم خطرناک اور گمراہ کن نہیں ہے۔ علمائے کرام اور دینی حلقے انگریزی سے لاعلم ہونے اور بے نیاز رہنے کے باعث اس زہر سے آگاہ ہی نہیں، اس صورت میں تریاق کی فراہمی کا کیا امکان ہے؟ اس تصنیف کا مقصود انگریزی میں سرمایہ قرآنیات کے محاذ پر علماء کو بالخصوص اور دوسرے قارئین کو بالعموم بیدار کرنا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس فکری و علمی محاذ کے دفاع میں یا ان حملوں کے تعاقب کا کوئی نظم ہی نہیں ہے۔ بعض انگریزی تراجمِ قرآنِ مجید براہِ راست اسلامی عقائد اور نصوص کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، جس کا اندازہ اس تصنیف کے مطالعے سے ہوگا۔ بعض مقالات میں مغربی فضلاء کی اسلام دشمن مہم کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مکمل اور مطلق صنفی مساوات ِ مغرب کا زائیدہ ہمارے دور کا ایک سنگین خطرہ ہے جس کی زد میں اسلام، قرآن مجید، شریعت ہیں۔ یہ عفریت انتہائی سرعت سے مسلم خواتین اور معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے، اس باب میں بھی آگہی اور علمی تعاقب کی اشد ضرورت ہے جس کی جانب اس تصنیف میں توجہ مبذول کی گئی ہے۔"
کتاب میں شامل تمام مضامین عصری تناظر میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب قرآنیات پر ایک عام روایتی کتاب نہیں ہے جو صرف پیغامِ قرآنی کی ترجمانی اور ترسیل تک محدود ہو بلکہ قرآنی علوم کی ان جہات کو اجاگر کرتی ہے جو مسلم علمی روایت میں کم ہی زیرِ بحث آئی ہیں۔موجودہ دور میں جب مغربی جامعات اوربعض علمی حلقے قرآنیات کو مخصوص فکری سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس پس منظر میں یہ کتاب اپنی فکری معنویت اور علمی افادیت کے اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
علومِ اسلامیہ، خصوصاً قرآنیات سے وابستہ اردو داں اساتذہ، محققین اور طلبہ کے لیے یہ کتاب محض مطالعے کی نہیں، بلکہ فکری رہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا مطالعہ موجودہ فکری چیلنجز کے شعور، ان کے تدارک اور علمی بیداری کے لیے نہایت ضروری ہے۔ /channel/ilmokitab

Читать полностью…
Subscribe to a channel