ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

"جہاتِ قرآنیات"
مصنف:پروفیسر عبدالرحیم قدوائی،
مرتب: رفیق احمد سلفی،
ناشر:ورلڈ ویو پبلشرز، لاہور،
صفحات:376، قیمت:درج نہیں ،
برائے رابطہ :03084404493
تبصرہ نگار: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

پروفیسر عبدالرحیم قدوائی(پ:1956ء) عصرِ حاضر کے ایک ممتاز اسلامی مفکر، محقق، مترجم اور ماہرِ تعلیم ہیں۔ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،انڈیا کے شعبۂ انگریزی کے کہنہ مشق استاد اور کے۔اے۔ نظامی مرکز علوم القرآن، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے کے اعزازی ڈائرکٹر ہیں۔ پروفیسر قدوائی کی علمی و تحقیقی توجہ کا خصوصی مرکز قرآن مجید کے انگریزی تراجم، اسلامی علوم کی عصری تفہیم اور بین المذاہب مکالمہ رہا ہے۔ انگریزی زبان میں اختصاص اور مغربی جامعات اور اداروں سے وابستگی کے باعث پروفیسر قدوائی کو انگریزی میں قرآنیات پر مطبوعات بالخصوص انگریزی تراجم قرآن مجید کے خصوصی مطالعے کے بالعموم کمیاب لیکن زریں مواقع میسر آئے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب "جہاتِ قرآنیات" پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کے علمی و تحقیقی مقالات کا دوسرا مجموعہ ہے جسے جناب رفیق احمد رئیس سلفی نےترتیب دیا ہے۔یہ مجموعہ مقالات قرآن ِ مجید کی چار جہات کو محیط ہے۔ جہتِ اول میں قرآن مجید کے حیات بخش پیغام کے اس درخشاں پہلو کی تذکیر ہے کہ نیکی عام ہو اور جسمانی طور پر معذور افراد سے حسنِ سلوک کیا جائے۔ جہاتِ دوم اور سوم اس تصنیف کی اساس بلکہ امتیاز ہیں کہ ان کے مطالعے سے انگریزی میں سرمایہ قرآنیات کا عصری منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ ان انگریزی تصانیف اور تراجم میں کیا رجحانات ہیں، ان کا مقصود کیا ہے، ان کے محاسن اور عیوب کیا ہیں، یہ قرآن فہمی میں کس حد تک مفید ہیں، ان میں وہ کیا فنتے مضمر ہیں جو غیر مسلموں کو اسلام/ قرآن مجید سے متنفر کرتے ہیں اور مسلمان قارئین کے دل و دماغ میں شک و شبے کی تخم ریزی کرتے ہیں۔جہت ِچہارم میں سیرۃ طیبہ پر تصانیف اور علم ِ حدیث میں حضرتِ عائشہکے مقام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
"جہاتِ قرآنیات" درجِ ذیل اکیس وقیع مقالات پر مشتمل ہے:
1۔ قرآن مجید کے مطابق نیکی کیا ہے؟ 2۔ معذور افراد سے حسنِ سلوک، 3۔ قصہ یوسف ؑ توریت اور قرآن مجید میں: ایک موازنہ، 4۔ قرآن مجید کی صحت اور حفاظت: ایک دستاویزی تحقیق، 5۔ لائیڈن یونیورسٹی میں قرآن مجید کا قدیم مخطوطہ، 6۔ متن قرآن مجید کا استناد: آثاریاتی شواہد سے تصدیق اور توثیق،۔ قرآن مجید اور مستشرقین: ایک فتنے کا استیصال، 8۔ پکتھال کے انگریزی ترجمہ قرآن پر ایک نظر، 9۔ عبداللہ یوسف علی کے گمراہ کن انگریزی ترجمہ قرآن کے عواقب، 10۔ مولانا عبدالماجد دریابادی بحیثیت انگریزی مترجم قرآن پاک، 11۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا انگریزی ترجمہ قرآن مجید و تفسیر: نقد و نظر، 12۔ انگریزی ترجمہ قرآن (ڈاکٹر تقی الدین ہلالی اور محمد محسن خان)، 13۔ حالیہ انگریزی تراجم قرآن مجید: ایک تنقیدی جائزہ، 14۔ تفسیر قرطبی: اسلامی مساوات صنف کے تناظر میں، 15۔ انگریزی تراجم قرآن مجید سے استفادے کا طریقہ، 16۔ برصغیر پاک و ہند میں قرآن مجید کے انگریزی تراجم و تفاسیر، 17۔ خواتین کے ذریعے قرآن مجید کے انگریزی تراجم: ایک جائزہ، 18۔ غلام یحییٰ انجم کی تصنیف: "قرآن کریم کے ہندوستانی تراجم و تفاسیر" پر نقد و نظر، 19۔ رسول اکرم ﷺ۔ رحمتِ عالم، 20۔ سیرتِ طیبہ پر ایک مغربی تصنیف، 21۔ علمِ حدیث میں حضرت عائشہ کا مقام۔
اس مجموعے کے زیادہ تر مقالات میں قرآنِ مجید کے انگریزی تراجم اور تفاسیر کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔فاضل مصنف نے ان تراجم کی خوبیوں اور خامیوں کو نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے، اور یہ واضح کیا ہے کہ مترجمین کہاں اور کیوں لغزش کا شکار ہوئے۔ ان کا تجزیہ فکری، لسانی اور مذہبی سیاق و سباق کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے، جس سے قارئین کو تراجم کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔علاوہ ازیں کتاب میں مغربی مستشرقین، قادیانی اور شیعہ مترجمین کے تراجم پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم مقالے میں ان مسلم خواتین کا تذکرہ شامل ہے جنھوں نے قرآنِ مجید کا انگریزی ترجمہ کیا اور اس پر حواشی تحریر کیے۔ مصنف نے ان کے تراجم کا غیر جانب دارانہ مطالعہ کرتے ہوئے ان کی فکری جہت، اور علمی معیار کا باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

افتتاحِ سال

تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللّٰه علیہ

(سِن ۱۳۵۹ھ کے آغاز پر حضرت مفتیءِ اعظم کا یہ فکر انگیز مضمون، "ماہنامہ المفتی" (محرم ۱۳۵۹ھ) میں شايع ہوا۔)

عبرت و موعظت

سِن ۱۳۵۸ھ ہجری آیا اور گزر گیا۔ آج اگر آپ ساری دنیا کی دولت خرچ کرکے اس کے ایک منٹ کو واپس لینا چاہیں تو ناممکن ہے۔ قدیم و جدید فلسفہ، سائنسِ جدید کی جدّت طرازیاں، اس جگہ عاجز ہیں۔ اس قضیہ میں بڑے سے بڑا عاقل ماہر اور جاہل یکساں بے بس نظر آتے ہیں۔ لیکن سالِ جدید کے لیل و نہار، ابھی آپ کی مِلک ہیں، آپ ان میں گزشتہ نقصانات کی تلافی، آئندہ مہمات و مقاصد کی تحصیل کرسکتے ہیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان ہیں کہ یہی سال، ان کا آخری سال ہے۔ شب برأت میں جو سالانہ بجٹ فرشتوں کے سپرد کیا جاتا ہے، اس میں ان کا رزق اور ان کی حیات ختم ہوچکی ہے۔ وہ آسمانی دفتروں میں مردہ لکھے ہوئے ہیں۔ مگر وہ چلتے پھرتے ہیں، کھاتے کماتے ہیں اور تمناؤں کی خیالی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اُن میں داخل نہیں۔ مصرعہ: "شاید ہمیں نفس نفسِ آخریں بود"۔ عقلمند وہی ہے کہ اس طرح آنے والی چیز کو حاضر و موجود سمجھ کر، لمحاتِ فرصت کو غنیمت سمجھے۔ اس کے متعلق ارشاد ہے:"إِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ المَسَاءَ". (رواه البخاری عن ابن عمر) جب شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور صبح ہو تو شام کا انتظار نہ کرو، یعنی یہ یقین نہ کرو کہ آج شام کے بعد صبح ضرور ہی آوے گی۔ الٰہ العالمین! ہم سب کو اس کا استحضار نصیب فرما اور اس سے کام لینے کی توفیق عطا فرما۔ ہمارے گزشتہ گناہوں کی اپنے فضل سے مغفرت فرما اور آئندہ اپنی مرضی کی توفیق عطا فرما۔ وما ذلك على اللّٰه بعزيز.

رسائل و مقالاتِ مفتیءِ اعظم، صفحہ: ٨٢٥/٢٦/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سن ہجری کا پس منظر ۔ تحریر یم اے کے آزاد۔ مجلہ فقہ اسلامی کراچی ، اپریل 2013ء

Читать полностью…

علم و کتاب

صور من حياة الصحابة - زيد بن سعنة رضي الله عنه بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت باشا رحمه الله

Читать полностью…

علم و کتاب

تاجر کی تجوریاں اورعالم کے مسودات
****
بدر الحسن القاسمی "مجد التاجر في كيسه ومجد العالم في كراريسه"
یہ جملہ محدث جلیل شیخ عبد الفتاح ابوغدہ علامہ جار اللہ زمخشری کی مختصر سی لیکن دلچسپ اور ادیبانہ کتاب" نوا بغ الکلم " سےنقل کر کےبڑے پر لطف انداز سے اسکی تشریح کیاکر تے تھے اس کتاب میں ادبی شہپارے اور بلاغت سے بھر پور حکیمانہ تعبیرات ہیں یا زندگی کے تجربات پر مبنی بیش قیمت جملے اور محاورات
حقیقت تو یہی ہے کہ تاجر کی تجوری میں جتنا سرمایہ ہوگا تاجر کی اتنی ہی بڑی شان ہوگی
اسی طرح ہر عالم کی شان اسکی تصنیفات اور مسودات ہی سے ظاھر ہوتی ہے قدیم زمانہ میں کراریس ہی اسکی علمی عظمت کی علامت اور اسکے ہرفن ماہر ہونے کی پہچان تھیں
لیکن یہ دونوں عظمتیں
محنت و سلیقہ مندی اور ربانی توفیق سے حاصل ہوتی ہیں
ورنہ تاجر کا خزانہ" کیس" میں اور عالم کا زندگی بھر کا اندوختہ "کراریس" میں ہی دفن ہو کر رہ جاتاہے اور وہ خود دوسری دنیا میں منتقل ہو جاتاہے
علامہ ابن الجوزی نے اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا اور شروع سے وعظ وخطابت اور تعلیم وتدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی ساری زندگی جاری رکھا تو ایک بڑا علمی ذخیرہ انہوں نے اپنے بعد سیکڑوں چھوٹی بڑی تصنیفات
کی شکل میں چھوڑا اور
"صید الخاطر" کی شکل میں تجربات زندگی کا دلکش مرقع بھی آنے والوں کیلئے تحفہ کے طور پر پیش کر گئے
تمام بڑے اور کثیر التصانیف علماء
امام ابن جریر طبری امام مزی امام ذھبی امام رازی امام غزالی علامہ ابن القیم علامہ بدر الدین العینی علامہ ابن حجر العسقلانی جلال الدین السیوطی سبھی اپنے اندوختہ ذخیرہ یا اپنے کراریس کے صحیح استعمال کرنے والے اور توفیق ربانی سے بہرہ ور لوگ تھے
زندگی بھر کا حاصل مطالعہ اور قیمتی علمی فوائد اور یاد داشتوں کا انبار ہم لوگوں کے پاس بھی کم نہیں ہے لیکن نہ وقت کی حفاظت کا خیال نہ زیادہ تصنیف کی طرف میلان اور نہ وہ غیبی تائید وتوفیق
جو ہر اچھے اور مقبول کام کیلئے ضروری ہے
نتیجہ یہ نکلتاہے کہ آدمی اپنی عمر کے آخری مرحلہ میں حسرت کے ساتھ ان پر نظر ڈالتا ہے اور کاش کہ یہ کرتا اور یہ کرتا کہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجاتاہے
اک حرف کاشکے است کہ صدجا نوشتہ ایم
حسرت ان کلیوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئیں
علامہ محمد یوسف بنوری نے مولانا احمد رضا بجنوری کے مطالعہ کی کثرت اور تصنیف کی طرف توجہ کی کمی کو دیکھ کر کہا یہ تو
"پڑھنے اور کنویں ڈالنے " والی بات ہوئی
یہ بات خود مولانا احمد رضا صاحب نے" انوا ر الباری "میں لکھی ہے
بہر حال اب جبکہ نیا ہجری سال شروع ہورہا ہےیعنی مقررکردہ زندگی میں ایک سال کی مزید کمی ہورہی ہے ١٤٤٦ھ گزر گیا اور ١٤٤٧ھ میں ہم نے قدم رکھدیاہے اللہ تعالی پوری امت کیلئے اسے برکت وسعادت کا سال بنائے
علامہ زمخشری نے جب اپنی تفسیر "الکشاف " لکھنی شروع کی تھی تو وہ اپنی عمر کے ٦٠ اور٧٠ سال کے درمیانی مرحلہ میں تھے جسے عرب "دقاقة الرقاب" یعنی گردن توڑ دینے والی عمر کہتے ہیں اور بیشتر موتیں اسی عمر میں واقع ہوتی ہیں
انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رض کی مدت خلافت یعنی دو سال تین مہینے اور دس دن میں اپنی تفسیر مکمل کرلی جو لغت وبلاغت کے لحاظ سے تمام تفسیروں پر فائق ہے
اس میں عیب ہے تو معتزلہ کے افکار کو قرآنی آیات پر مسلط کرنے کی ناروا کوشش ہے
جسکی تلافی علامہ ابن المنیر اور بعض دوسرے علماء نے کرنے کی
کو شش کی ہے
ڈاکٹر فضل الرحمن گنوری مرحوم نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنے ڈاکٹریٹ کا مقالہ زمخشری کی "الکشاف " پر ہی لکھا تھا
زمخشری کی الکشاف کے علاوہ غریب الحدیث کی " الفائق " لغت کی "اساس البلاغہ" اور نحو کی "المفصل" وغیرہ بھی بے مثال کتابیں ہیں ٥٣٨ھ میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے
علامہ ابن الجوزی نے ستر سال کی عمر میں یہ تمنا کی کہ اللہ تعالی نے اگر مزید مہلت دی تو چند اور کتابیں لکھون گا اور فلاں فلاں موضوع کی تکمیل کرو نگا
اسکے بعد مزید ٢٢ سال زنده رہے اور آخری سانس تک مختلف علوم فنون میں داد تحقیق دیتے رہے یہ سب بڑے باعزم اور با توفیق لوگ تھے علم سے ان کا شغف ایسا تھا کہ ٨٠ سال کی عمر میں جلا وطن کئے گئے تو علم تجوید میں مزید مہارت حاصل کرنے میں لگ گئے یعنی علم کےحصول کا جذبہ مہد سے لحد تک
باقی رہنے کامل نمونہ تھے اور حقیقت بھی یہی ہیکہ آدمی اس وقت تک طالبعلم رہتا ہے "مادامت الحياة تحسن به " جبتک زندگی کی رمق اس میں باقی اور ماحول اسکے لئے سازگار رہے
اللہ تعالی ہم سبھوں کو علم نافع عطافرمائے اور عمل صالح کی توفیق بخشے
اور صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
کا مصداق نہ بنائے آمین
یوم الخمیس غرة محرم الحرام ١٤٤٧ھ


Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*رہنمائے کتب: دوزی کی تکملۃ المعاجم العربیۃ (قسط 01)*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

ہمارے دینی نظام تعلیم میں ایک ماحول بن گیا ہے کہ جن سے ہمارا اختلاف ہوتا ہے یا جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں، اپنے وابستگان کے دلوں میں یک طرفہ نفرت بٹھادیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو چیزیں ہمیں اپنے مخالفین سے سیکھنی ہوتی ہیں، اور جو سبق ان سے ہمیں لینا ہوتا ہے وہ ہم نہیں لے پاتے۔
اللہ تعالی کا ایک نظام ہے، جو محنت کرتا ہے اللہ تعالی اس کی محنت کا صلہ اسے ضرور دیتا ہے، یہ جو مسلم مخالف قوتیں دنیا بھر میں عروج پارہی ہیں، اور ترقی کررہی ہیں، اس کا راز ان کی انتھک جدو جہد اور کوششوں اور طریقہ کار میں پنہا ہے۔
ہمارے یہاں مستشرقین کے بارے میں عموما دلوں میں نفرت بٹھائی جاتی ہے، یہ نفرت بٹھانے والے عموما وہ ہوتے جن کا میدان تحقیق و تصنیف مستشرقین کے میدان سے عموما مختلف ہوتا ہے، مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے اپنا مشن لغت نویسی، مخطوطات کی حفاظت اور ان کی تحقیق واشاعت کو بھی بنایا تھا، ان میدانوں میں ان کی انتھک کوششوں اور قربانیوں سے ہمارے طلبہ و فارغین ناواقف ہیں۔
یہ درست ہے کہ زوال اندلس کے بعد مغربی سامراج کے دور عروج سے مغرب کو استشراق کے میدان میں کام کی ضرورت پیش آئی، اور انہوں نے اپنی سلطنتوں کو مستحکم کرنے اور غلام اقوام کی تہذیب وثقافت اور ان کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے استشراق کے شعبہ کو اپنی وزارت خارجہ کے ماتحت قائم کیا،اور اس پر بے دریغ پیسہ بہایا، اور یہ کہ ابتدا میں اس میدان میں کام کرنے والوں پر متعصب عیسائیوں مشنریز کا غلبہ رہا، لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اور عربی کتابوں اور مخظوطات میں رچ بس جانے کے بعد ان میں سے بہتوں کو عربی زبان و تہذیب سے جو مسلمانوں کی تہذیب تھی بے پناہ محبت بھی پیدا ہوئی۔اور ان میں عربی زبان سے محبت رکھنے والے، اس کی باریکیوں کے ایسے شناور پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی زندگیاں اس کے لئے صرف کیں۔ ان میں بہت سے فراموش شدہ قلمی کتابوں کی تحقیق کرکے انہیں نئی زندگیاں دینے والے بے شمار محققین پیدا ہوئے، جب کہ مشرق میں فن طباعت انگلیوں کے بل چل رہا تھا۔

ان میں سے بعضوں کی عربی زبان وادب وتاریخ کے میدان میں محنت اور قربانی کو جان کر ہمارے اسلاف کی قربانیوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔اور حسرت بھی ہوتی ہیں، کہ اگر اللہ تعالی نے انہیں ایمان کی دولت سے نوازا ہوتا تو یہ علمی میدانوں میں کیا کچھ دین اسلام کی خدمت نہ کرگزرتے۔ اسلامی معاشرے میں نہ رچنے بسنے اور علمائے دین سے علم دین اور عربی زبان پر مہارت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ان میں سے بہتوں نے اسلام و عربی لٹریچر کو سمجھنے میں بڑی ٹھوکریں لگیں، اور انہوں نے اپنے مغربی ماحول اور معاشرت کے اثر میں غیر ارادی طور پر اسلام سے وابستہ امور کو درست طور پر سمجھنے میں جگہ جگہ غلطیاں کیں۔ لہذا ہم ان میں سے بہتوں کی غلط بیانی کو ہمیشہ نیت کے فتور پر محمول نہیں کرسکتے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بہت سارے مستشرقین جن کی عبارتیں ہم اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں نقل کرتے ہیں، انہی مستشرقین کی کتابوں میں دوسری جگہ اسلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں ایسی ایسی ہفوات دیکھتے ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔
آئیے آج یہاں ہم مستشرقین کے اہم علمی کاموں میں ایک کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جس کے لئے ہم نےمستشرق ڈوزی کی موسوعی لغت تکملۃ المعاجم العربیۃ کو منتخب کیا ہے۔ جس کی فرمائش ہمیں چند روز قبل بزم علم وکتاب کے رکن رکین مولانا محمد عزیر فلاحی صاحب سے موصول ہوئی ہے۔
کتاب کا نام: تکملۃ المعاجم العربیۃ
مصنف: رینھاٹ دوزی
مترجم: الدکتور محمد سلیم النعیمی و جمال الخیاط
ناشر : دار الرشید للنشر، وزارۃ الثقافۃ والاعلام
ایڈیشن: 19 80
جلدیں: 10
عربی زبان کی یہ لغت فرانسیسی زبان میں لکھی گئی تھی، اور اس کا اصل نام ہے
SUPPLÉMENT AUX DICTIONNAIRES ARABES
یہ کتاب آج سے ڈیڑھ سو سال قبل 1880ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی، اس کی پہلی جلد بڑے سائز کے (907) صفحات اور دوسری جلد ( 8 82) صفحات پر مشتمل ہے۔
کتاب کے نام سے اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب عربی زبان کی جملہ معاجم کو دیکھ کر تیار کی گئی ہے۔ اور اس میں وہ الفاظ بیان ہوئے ہیں جو دوسری عربی زبان کی معاجم میں پائے نہیں جاتے۔
شاید آپ کو تعجب ہو کہ اس لغت کا یہ موضوع نہیں ہے۔ اور یہ مصنف کے لئے ممکن بھی نہیں تھا کیونکہ مصنف کو لسان العرب اور تاج العروس جیسی عظیم کتب لغت مطبوعہ شکل میں دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*علم وکتاب پر نیا سلسلہ مضامین " میری علمی اور مطالعتی زندگی"*

جب سے آپ کی اس بزم علم وکتاب کا آغاز ہوا ہے، ہماری کوشش رہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے کتب بینی اور ذوق مطالعہ کو فروغ ملے، اور یہاں سے اس سلسلے میں مناسب رہنمائی ملے۔
لہذ ا آغاز ہی میں الندوہ لکھنو کے مشہور عالم سلسلے اہل علم کی مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں کے مضامین کو خاص طور پر ٹائپ کرواکر سلسلہ وار پوسٹ کیا گیا تھا۔
اس بزم میں مولانا ابن الحسن عباسی مرحوم ابتدا سے شریک تھے، یہیں سے انہیں تحریک اور علمی تعاون ملا اور آپ کا "یاد گار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ" منظر عام پر آیا۔
اس وقت ہم اس سلسلے میں ایک نیا سلسلہ شروع کرنے جارہے ہیں، ہمارے کئی سارے احباب کو معلوم نہ ہو کہ
ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک میں ۱۹۷۲ء کے آس پاس
میری علمی ومطالعاتی زندگی کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین شروع کیا تھا، جس میں وقت کے اکابر علمائے دین ومدرسین نے سوالات کے جوابات دئے تھے۔ اس سلسلے میں مندرجہ اکابر کے مضامین ہمارے پاس محفوظ ہیں۔
مولانا ابراہیم جان مجددیؒ،مولانا سید ابو الحسن ندویؒ،مولانا اطہر علیؒ(بنگلہ دیش) ،مولانا مفتی تقی عثمانی،مولانا شمس الحق افغانیؒ،مولانا صغیر احمد معصومیؒ،جناب طالب ہاشمیؒ،مولانا عبد القدوس ہاشمیؒ،مولانا عبد الکریم قاضیؒ، مولانا الطاف الرحمنؒ،مولانا مارتونگؒ، ڈاکٹر محمد حمیدا للہؒ، ڈاکٹر سید عبد اللہؒ، مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ،مولانا محمد اشرف سلیمانیؒ،مولانا زاہد الحسینیؒ،مولانا عبد المعبودؒ،شیخ الحدیث مولانا محمد فریدؒ ،مولانا مفتی محمد شفیعؒ
اس کے علاوہ الشریعہ گوجرانوالہ نے بھی ایسا ہی ایک سلسلہ شروع کیا تھا، جس میں مندرجہ ذیل اکابر کے مضامین شائع ہوئے تھے۔

حکیم محمد احمد برکاتی، ڈاکٹر اسلم فرخی، پروفیسر خورشید احمد، مولانا زاہد الراشدی، زاہد منیر عامر، ڈاکٹر صفدر محمود، ڈاکٹر طاہر مسعود، اور عبد القدیر سلیم۔
ہماری خواہش ہے کہ احباب ان مضامین کو ٹیکسٹ پر کنورٹ کرکے فراہم کرتے رہیں اور ان مضامین کے اقتباسات اور ان پر رد عمل میں بھی فعالیت ظاہر کریں، اور محسوس نہ ہو کہ بغیر فائدے کے گروپ کو ان مضامین سے بوجھل کیا جارہا ہے۔ آپ کی فعالیت اس بزم علم وکتاب کو متحرک اور معیاری بنانے کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
شکریہ
عبد المتین منیری
اڈمن علم وکتاب
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سنو سنو!!

حاسدین اور مخالفین — ہمارے محسن ہیں

(ناصرالدین مظاہری)

انسان فطری طور پر تعریف پسند ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے کام کو سراہا جائے، اس کی محنت کی داد دی جائے اور اسے عزت و مقام دیا جائے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، اس پر اعتراضات کیے جاتے ہیں، اس کے اخلاص پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، اور کبھی کبھی محض حسد و بغض کی بنیاد پر اس کی شخصیت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

یہ تمام مظاہر بظاہر منفی اور پریشان کن لگتے ہیں، لیکن اگر گہرائی سے سوچا جائے تو یہ "مخالفین" اور "حاسدین" درحقیقت ہماری زندگی کے محسن ہوتے ہیں۔

کیسے؟

سب سے پہلے تو یہی سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی آپ سے حسد کر رہا ہے یا آپ کے خلاف باتیں کر رہا ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ کچھ کر رہے ہیں، اور وہ "کچھ" ایسا ضرور ہے جو دوسروں کو کھٹک رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کے دل میں چبھن محسوس ہو رہی ہے۔ اگر آپ بے عمل ہوتے، بے کار ہوتے، تو آپ سے کسی کو کوئی خطرہ نہ ہوتا، نہ ہی آپ پر اعتراض کیا جاتا۔

ہزاروں لوگ حسد سے جلیں، تو جلنے دو
چراغ اپنی جگہ روشنی ہی دیتا ہے

اسی طرح حاسدین کی موجودگی ہمیں اپنی اصلاح کا موقع دیتی ہے۔ جب کوئی ہمارے کام پر تنقید کرتا ہے تو ہم مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے عمل کا جائزہ لیں، خود احتسابی کریں، اور اگر واقعی کوئی کمی ہو تو اسے دور کریں۔ اس طرح ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ تنقید ہمیں مزید بہتر بناتی ہے، ہمیں جھنجھوڑتی ہے، ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

پھر حاسد اور مخالف ہمیشہ ہماری محنت کو پہچانتا ہے، چاہے وہ زبان سے اس کا اعتراف نہ کرے۔ اس کا اعتراض، اس کی چڑ، اس کی مخالفت دراصل یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم کچھ "قابلِ رشک" کر رہے ہیں۔ یہ حسد کی آگ صرف اسی وقت جلتی ہے جب کسی کے اندر احساسِ محرومی یا احساسِ کمتری پیدا ہو، اور یہ احساس اسی وقت ہوتا ہے جب آپ کی روشنی اس کی تاریکی کو بے نقاب کر رہی ہو۔

کبھی کبھی یہ مخالفین ہماری ترقی کی راہوں کو ہموار کرتے ہیں۔ ان کی مخالفت ہمیں مزید سنجیدہ بناتی ہے، ہمیں مضبوط کرتی ہے، ہماری قوّتِ ارادہ کو جِلا دیتی ہے، اور ہم ثابت قدمی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ یہی تو وہ قوّتِ محرکہ ہے جو ہمیں خوابوں سے حقیقت تک پہنچاتی ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے:

"تمہارا دوست وہی ہے جو تمہیں تمہاری خامیاں بتائے، اور تمہارا دشمن وہ ہے جو تمہاری برائیوں میں تمہاری پیروی کرے۔"

تو گویا مخالف اگر ہماری غلطی بتا دے، یا ہمیں آئینہ دکھا دے تو وہ دراصل ہماری خیرخواہی کر رہا ہے، چاہے اس کا ارادہ کچھ بھی ہو۔

ہمیں سیکھنا یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم حاسدوں اور مخالفوں سے شاکی ہوں، ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ وہ نہ ہوتے تو ہمیں اپنی عظمت کا اندازہ نہ ہوتا، وہ نہ ہوتے تو ہم اپنی کمزوریوں کو پہچان نہ پاتے، وہ نہ ہوتے تو ہم ترقی کی رفتار میں تیزی نہ لا پاتے۔

آپ اپنے ہی اسلاف کو دیکھیں، یاروں نے ان کے ساتھ کیا کیا! حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ کے خلاف کتاب لکھی گئی، احتجاج ہوئے، پگڑی اچھالی گئی، استعفیٰ کی مانگ کی گئی۔ حتیٰ کہ حضرت نے استعفیٰ کا ارادہ بھی کر لیا، مگر عین موقع پر حضرت امام ربانی علامہ گنگوہیؒ نے سر پر دستِ شفقت رکھا، انہیں حوصلہ دیا اور سدِ سکندری بن کر کھڑے ہو گئے۔

مظاہر علوم کے ناظم حضرت مولانا عبداللطیف پورقاضویؒ کے خلاف شہر میں پوسٹر لگا دیے گئے۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور مناظر اسلام حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رامپوریؒ کے مابین اختلاف پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش و سازش کی گئی۔

فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین اجراڑویؒ کے خلاف جو کچھ ہوا، جاننے والے آج بھی موجود ہیں۔

خود ہمارے ناظم و متولی، محسن و کرم فرما حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کے خلاف پمفلٹ شائع کیے گئے، اشتہارات آویزاں کیے گئے، اور طوفانِ بدتمیزی پیدا کیا گیا۔

مگر ہوا کیا؟ کچھ بھی نہیں۔ سورج پر تھوکنے والے خود ہی خوار ہوئے۔ سگِ بازاری کی عادت رہی ہے کہ وہ ہر کہہ و مہہ پر بھونکتے ہیں، ہر چلتی کار کا پیچھا کرتے ہیں، سفید پوشوں کو دیکھ کر کان کھڑے لیتے ہیں۔

اس سے کسی کی نہ تو عزت کم ہوتی ہے، نہ مرتبہ گھٹتا ہے۔ بلکہ جب بادل چھٹتے ہیں، غبار ہٹتا ہے، تو ماحول مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔ بدبودار ہوائیں وقتی ہوتی ہیں، تعفن دیر تک نہیں رہتا، اندھیرے کی حکومت کبھی نہیں رہی۔
"محال است کہ ہنرمندان بمیرند و بے ہنراں جایِ ایشاں گیرند"۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: ایک بار پھر مصنوعی ذہانت*
* تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) *
آج صبح آفس جاتے ہوئے شیخ علی الطنطاوی کے سال جدید کے عنوان پر ایک کالم نظر آیا تو جی چاہا کہ اسے احباب میں شیر کروں۔ فرصت ہوتو مضامین ٹیکسٹ ہی میں بھیجنے کا میں اہتمام کرتا ہوں۔ لیکن دن کے دوران یہ کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
اس مضمون کو بعض احباب نے ٹیکسٹ میں بھیجنے کی فرمائش کی تو ایک اور نے اسے مصنوعی ذہانت کے ٹول سے کنورٹ کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد مصنوعی ذہانت سے ٹیکسٹ اور ترجمہ دونوں آگئے، لیکن دونوں ناقص تھے۔
محسوس ہوتا ہے کہ ہماری بزم کے احباب میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کچھ زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اسے استعمال کرنا چاہئے، اور اس سے استفادہ کرنا چاہئے، بڑے کام کی چیز ہے، میں بھی اسے مختلف کاموں میں استعمال کرتا ہوں۔
لیکن پتہ نہیں ہمیں کیوں محسوس ہوتا ہے، کہ جس طرح بعض لوگ ڈنڈا کنارے سے پکڑنے کے بجائے درمیان سے پکڑتے ہیں۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال ہورہا ہے۔ ہر فن کی طرح اس کے کچھ مبادی اور وضوابط ہیں۔
اس میں پہلی بات یہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس وقت جو اس قسم کی ایجادات سامنے آرہی ہیں، ان کا مقصد علمی استعمال سے زیادہ تجارتی مفادات کے لئے ہے، اسی کو مد نظر رکھ کر فوری استعمال کے لئے موبائل پر کچھ سہولتیں دی جاتی ہیں، موبائل کتابیں پڑھنے اور علمی کاموں کے لئے نہیں ہے۔ اس کے لئے لیپ ٹوپ ہے، اور موبائل استعمال کرنے کے بجائے کچھ بچت کرکے لیپ ٹوپ حاصل کرنے کی کوشش ہونی چاہئے، کیونکہ موبائل پر غیر ضروری بوجھ ڈالنے کی صورت میں جہاں موبائل جلد خراب ہوسکتا ہے،وہیں آپ کی صحت پر غلط استعمال کے بڑے برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔علمی کام کرنے اورنئی ایجادات کے استعمال کے لئے صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔
اس وقت مصنوعی ذہانت کے کئی سارے ٹولس آگئے ہیں، یوں تو چاٹ جی پی ٹی سب سے معیاری اور آسان ہے، لیکن جہاں اس کی مفت استعمل کرنے کی سہولت ختم ہوجاتی ہے تو پھر اس کے متبادل کے طور پر کئے سارے ٹولس آگئے ہیں۔ جو مفت ہونے اور ٹرافک زیادہ ہونے کی وجہ سے تھوڑے سست ہوتے ہیں۔
ویسے یہ زمانہ اختصاص کا ہے، اورہومیوپیتھی معالج سے علاج کی طرح مصنوعی ذہانت کا سارا دارومدار آپ کے سوال ترتیب دینے اور دائرہ کار محدود کرنے پر ہے۔ مصنوعی ذہانت روز بروز ترقی کرنے کے باوجود سوالات اور دائرہ کار کی محدودیت میں غلطی کی وجہ سے درست نتائج ملنے میں دشواریاں ہورہی ہیں، اور بہت سارا وقت ضائع ہورہا ہے۔ جس کا ہمیں احساس نہیں ہوتا،
کیونکہ کمپوٹر اور سوفٹ ویر کا استعمال ایسی مصیبت ہے کہ پانچ منٹ کسی کام کو مکمل کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں، تو گھنٹہ دوگھنٹہ گذر جاتا ہے اور وقت کے نقصان کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
یہاں ہمارے مولوی حضرات میں محنت کم کرکے زیادہ شہرت پانے کا ایک ہوکا لگا ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ایک مضمون لکھنے کے لئے دس گنا مطالعہ ہو، اوراس میں تدبر وفکر کی صلاحیتوں کا استعمال ہو، لیکن شہرت کی بے جا خواہش نے ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کو برباد کررہی ہے۔ ان پیج اور پھر مصنوعی ذہانت جیسی چیزیں آنے کے بعد اب لوگوں کو مصنف بننے کا شوق چرانے لگاہے۔ اب یہ جتنا پڑھتے ہیں، اس سے زیادہ لکھتے ہیں،بے لطف تحریرون نے قاری کو کتاب سے مزید دور کردیا ہے۔ اب غیر معیاری مواد میں ٹارچ لے کر معیاری مضامین کو تلاش کرنے کی کسے فرصت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس بزم میں ایسے افراد کو شریک کرنے سے کتراتے ہیں جو اپنے اوقات سوشل میڈیا پر زیادہ گذارتے ہیں۔ اور اپنے مضامین پھیلانے کے لئے افراد بٹھا رکھے ہیں۔
ہماری نائطی زبان کی کہاوت ہے" سو بلان لوکھڑی چی" سوئی کہنے کا مطلب ہے کہ یہ لوہے کی بنی ہے۔ اب مصنوعی ذہانت ہر کوئی استعمال کررہا ہے، اب اس میدان میں کوئی نئی چیز آئے اور جس کے بارے میں احساس ہو کہ شاید احباب اس سے ناواقف ہونگے تو اس کے بیان میں مضائقہ نہیں۔ لیکن جو باتیں ہر ایک کو معلوم ہیں، ان کے بیان میں کالم بھرنا وقت اور توانائیوں کا ضیاع ہے۔ اسے دوسرے مفید کاموں میں لگانے کی فکر کرنی چاہئے۔
2025-06-25
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

Created and shared using Adobe Scan.

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 258
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مشتاق احمد یؔوسفیؒ*

*لفظوں میں بھی بہروپیے ہوتے ہیں*

لغت دیکھنے کی عادت آج کل اگر کل کلیتًا ترک نہیں ہوئی تو کم سے کم تر اور نا مطبوع ضرور ہوتی جارہی ہے،نتیجہ یہ کہ vocabulary یعنی زیرِ استعمال ذخیرہ الفاظ بڑی تیزی سے سکڑتا جارہا ہے، لکھنے والے نے اب خود کو پڑھنے والے کی مبتدیانہ ادبی سطح کا تابع اور اُس کی انتہائی محدود اور بس کام چلاؤ لفظیات کا پابند کر لیا ہے،اس باہمی مجبوری کو سادگی و سلاست بیان،فصاحت اور عام فہم کا بھلا سا نام دیا جاتا ہے! قاری کی سہل انگاری اور لفظیاتی کم مائیگی کو اس سے پہلے کسی بھی دور میں شرطِ نگارش اور معیار ابلاغ کا درجہ نہیں دیا گیا، اب تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ ”پھلوں سے لدا درخت خود اپنی شاخِ ثمر دار شائقین کے عین منہ تک جھکا دے! لیکن وہ کاہل خود کو بلند کرکے یا ہاتھ بڑھا کر پھل تک پہنچنے کی کوشش ہرگز نہیں کرے گا“۔۞

۞ (ممتاز شاعر ونقاد پروفیسر ارشاد الحق خؔلش چاکسوی نے ہم سے یہ بات سنی تو بہت پسند آئی، تین چار دن بعد انہوں نے ایک ادبی تقریب کے صدارتی خطبے میں ہمارے فقرے کا ترجمہ اپنی ٭اسطوخودوس٭ زبان میں کیا۔ انہیں بعض ژولیدہ بیان اور دقّاق عالموں کی طرح ہر وقت اور ہر جملے سے پہلے یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں لوگ ان کی بات سمجھ نہ جائیں! چنانچہ فرمایا کہ ”فی زمانہ کاہل الوجود لوگ متمنی ہیں کہ فواکہاتِ نورس اور ثمرہائے پیش و بیش رس سرِ شاخ سے خود بخود ہوتی پرواز کرکے ان کے لعاب آلود دہن پر منتہی ہوں“

”منتہی“ ہونے کا یہ تیر بہدف و ”لقمہ بدہن" استعمال انہی کا حصہ ہے! ہم نے سنا تو تین دن تک سر دھنتے اور عش عش کرتے رہے، دیکھیں!

؏اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا)

مجھے تو یہ اندیشہ ستانے لگا ہے کہ کہیں یہ سلسلۂ سلاست و سادگی، بالآخر تنگنائے اظہار اور عجز بیان سے گزر کر، نِری body language یعنی اشاروں اور برت بھاؤ بتانے پر آکے ٹھہرے۔

عزیزو! جو جیے گا وہ دیکھے گا کہ ادب کی تنگی Muse نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا؟ ہمیں تو یہ دونوں منظر دیکھنے کے لیے جینے کی آرزو بھی نہیں۔

غؔالب، آؔزاد، سؔرسید احمد خاں، حؔالی،شؔبلی، سؔرشار، غلام رسول مؔہر ، صؔلاح الدین احمد اور مؔنٹو کی نثر کا آج کی تحریروں سے موازنہ کیجئے تو واضح ہوگا کہ بیسیوں نہیں ، سیکڑوں جاندار الفاظ کہ ہر لفظ گنجینۂ معنی کا طلسلم تھا، عدم استعمال اور تساہل عالمانہ کے سبب متروکات کی لفظ خور کانِ نمک کا حصہ بن گئے ۔ اُن کی جگہ ان مطالب و مفاہیم، اتنے معنوی ابعاد، تہ داریوں اور رسائیوں، اُن جیسی نزاکتوں اور لطافتوں، ویسے رنگ و نیرنگ معانی ، شکوہ وطنطنے کے حامل نادرہ کار الفاظ نہ آنا تھے، نہ آئے۔ اور آتے بھی کیسے؟ ہر لفظ انوکھا، یکتا، بے مثل و بے عدیل ہوتا ہے۔

دوسری نسل کے DNA سے اس کی کلوننگ نہیں ہو سکتی ؛ ہر لفظ ایک عجیب و غریب، ہرا بھرا ، سدا بہار جزیرہ ہوتا ہے، جس کی اپنی آب و ہوا، اپنے موسم ، اپنی شفق اور دھنک، اپنی بجلیاں اور ان کے کڑکے، اپنی نباتات اور گل زمیں تلے اپنی معدنیات ہوتی ہیں۔ اس کے اپنے کولمبس ، اپنے کوہ و دشت پیما، سیاح ، سیلانی اور کان کَن ہوتے ہیں ـ

جب بے غوری،غفلت اور فراموش کاری کا بحیرہ مردار کسی جزیرے کو نگل جاتا ہے تو نہ کبھی اُس کا جنازہ اٹھتا ہے، نہ کہیں عرس پر قوالی یا دھمال ہوتی ہے،بحر کی تہ سے اُس جیسا جزیرہ پھر نہیں اُبھرتا، جس طرح ہر فردِ بشر بالکل unique یعنی انیق اور بے مثیل و بے مثنّٰی ہوتا ہے، اور اس کا کوئی مماثل یا نعم البدل ہوا،نہ ہوگا، اسی طرح صحیح معنوں میں لفظ کا کوئی متبادل یا مترادف نہیں ہوتا ؛البتہ لفظوں کی برادری میں بھی عوضی کام کرنے والی نفری، سوانگ بھرنے والے بہروپیے اور نقال ضرور ہوتےہیں،

؏ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا ۔

ان کی ہنر مندی اور بہروپ سے ہم لطف اندوز تو ضرور ہو سکتے ہیں،لیکن فریب کھانا آئین سخنوری و سخن دانی میں حرام ہے۔

ایک زمانے میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈاکٹروں کو بقراطی حلف (Hippocratic Oath ) اٹھانا پڑتا تھا،جس میں وہ یہ عہد کرتے تھے کہ وہ مریض کے رنگ ونسل و حیثیت سے قطع نظر، اس کی جان بچانے کے لیے کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھیں گے۔ میرے خیال میں شاعروں ، ادیبوں، لکھاریوں اور قلم کاروں کو بھی ایک باقاعدہ رسم حلف برداری میں ”کرامًا کاتبین“ کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرنا چاہیے:

”ہم اپنے قلم کی قسم کھا کر عہد کرتے ہیں کہ کسی جاندار، کار آمد ، اپنے مفہوم اور اُس کے اظہار پر پوری قدرت رکھنے والے اور گئی رُتوں کی خوشبوؤں میں بسے لفظ کو آنکھوں دیکھتے محض اس جرم کی پاداش میں مرنے نہیں دیں گے کہ عدم استعمال کے باعث عام آدمی یا سہل انگار قاری اُس سے نا آشنا ہے،اور نہ کسی جیتے جیتے ، ہنوز کاغذی پیرہن میں سانس لیتے ہوئے لفظ کو قدامت و متروکات کے دشتِ خموشاں میں زندہ دفن ہونے دیں گے، ہم اس عہد سے پھریں تو رب ذوالجلال لفظ کی تاثیر اور اس کا

Читать полностью…

علم و کتاب

یادوں کا سفر (16-17) تحریر: اخلاق احمد دہلوی
/channel/ilmokitab/16564

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات : مورخہ 25 جون*

1944ء نواب بہادر یار جنگ قائد ملت
1950ء صفی لکھنوی (سید علی نقی زیدی) شاعر
1955ء سید احمد اشرف
1973ء جعفر حسن (جافر ہسن)
1980ء شیخ علی احمد
1988ء رفیق رضوی (باپو)
1990ء سید محمد عبدالرشید فاضل پروفیسر
1997ء مرغوب اختر صابری
2000ء مبارک حسین صدیقی
2003ء محمد ایاز خان قادری صوفی
2008ء سنگین خان ولی فرزند خان ولی خان
2008ء غلام محمود بنات والاً انڈین یونین مسلم لیگ
2009ء کلیم عمر
2009ء مائیکل جیکسن امریکن پوپ ڈانسر
2009ء میاں طفیل محمد امیر جماعت
2019ء سوامی ستیہ متر آنند جگت گرو شنکر اچاریہ
2020ء سید آل عمران محقق پوٹھوہار تہذیب
2022ء محمود خلیل القاریء امام مسجد نبوی شریف

(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

رپورٹ:
*پہلا مسابقہ برائے غیر درسی مطالعہ 📘*
*شعبۂ ثانویہ – جامعہ اسلامیہ بھٹکل*
(نصف ذوالقعدہ تا نصف ذوالحجہ ١٤٤٦ھ)

الحمدللہ، *جامعہ اسلامیہ بھٹکل* کے قیام سے ہی اس کے ذمہ داران و اساتذہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ ایسے باصلاحیت افراد تیار کیے جائیں جو دین اسلام کی صحیح ترجمانی کے ساتھ عصری تقاضوں کو بھی سمجھنے اور ان کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسی مقصد کے تحت جامعہ میں ہر سال مختلف علمی، فکری اور تربیتی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے *جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے شعبۂ ثانویہ* میں امسال طلبہ کے اندر غیر درسی مطالعہ کے ذوق کو فروغ دینے، علمی وسعت اور فکری پختگی پیدا کرنے کی غرض سے *"پہلا مسابقہ برائے غیر درسی مطالعہ"* کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مسابقہ نصف ذوالقعدہ سے نصف ذوالحجہ ١٤٤٦ھ تک ایک ماہ جاری رہا، جس میں طلبہ کو مختلف غیر درسی کتب کے مطالعہ کی ترغیب دی گئی۔

الحمدللہ، اس علمی و فکری مقابلے میں طلبہ نے بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوق و ذوق کے ساتھ مختلف علمی، تاریخی، سوانحی اور فکری کتب کا مطالعہ کیا۔ طلبہ نے باقاعدہ صفحات کی تعداد نوٹ کرکے رپورٹ کی، جس سے نہ صرف ان کی محنت کا اندازہ ہوا بلکہ غیر درسی مطالعہ کے رجحان میں نمایاں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ یہ مسابقہ یقیناً طلبہ کی فکری تربیت اور وقت کے بہتر استعمال کی طرف ایک مؤثر قدم ثابت ہوا۔

*ممتاز طلبہ کی فہرست*
(کل مطالعہ شدہ صفحات کی بنیاد پر ترتیب)
(اول عربی تا دوم عربی)
١) بلال بن عبد البصیر منیری -متعلم اول عربی ب- (٧٥١٠ صفحات)
٢) علقمہ بن خبیب رکن الدین -متعلم دوم عربی الف- (٤٥٩٥ صفحات)
٣) محمد بن یونس سلیم دامدا فقی -متعلم دوم عربی الف- (٣٤٧١ صفحات)
٤) محمد ابراہیم بن عبد الرؤف مصباح -متعلم دوم عربی د- (٣٢٣٦ صفحات)
٥) علی عبداللہ بن محمد سلیم دامدا -متعلم دوم عربی ج- (٢٢٣٣ صفحات)
٦) محمد سراج بن عبد النافع اکرمی -متعلم دوم عربی الف- (٢١٠٣ صفحات)

(سوم عربی تا چہارم عربی)
١) سید معن بن سید محمد میراں برماور -متعلم چہارم عربی ب- (٣٦٢٢ صفحات)
٢) حیان حسن بن محمد عمیر فقی بھاؤ -متعلم چہارم عربی الف- (٢٥٨١ صفحات)
٣) عبد الحنان بن معین الدین قاضی -متعلم سوم عربی د- (٢١٤٠ صفحات)
٤) سید محمد جازل بن سید محمد جاوید برماور -متعلم سوم عربی د- (١٧١٢ صفحات)
٥) عابد بن فردین دمدا -متعلم سوم عربی ج- (١٤٥٤ صفحات)
٦) محمد حامد بن عبد القیوم اکرمی -متعلم سوم عربی د- ( ١٣٧٣ صفحات)

یہ مسابقہ اپنے اہداف میں بفضل اللہ کامیاب رہا، اور آئندہ بھی ان شاءاللہ اس نوعیت کی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں گی تاکہ طلبہ کی علمی، فکری اور اخلاقی صلاحیتوں کو جلا ملتی رہے۔

رپورٹ:
عبد الرشید شہراز شاہ بندری
(جامعہ اسلامیہ بھٹکل)

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 257
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا محمد شہاب الدین نؔدوی*

*صحیفۂ تاریخ کا فیصلہ*

آج ہندستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی اکثر و بیشتر قومیں صحیفۂ تاریخ کے اسباق کو بھلا کر جبر و تشدد ، ظلم و عدوان اور جارحیت و فسطائیت پر اتر آئی ہیں، فلسفہ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب کسی قوم کا نظامِ اخلاق بگڑجاتا ہے اور وہ اقدار انسانیت کا پیرہن اپنے جسم سے نوچ کر پھینک دیتی اور جارحیت و بر بریت کا نقاب اوڑھ لیتی ہے تو وہ دنیا کے اسٹیج پر زیادہ دنوں تک ٹہر نہیں سکتی؛ کیونکہ ظلم و عدوان کی کشتی پر جو سوار ہوتا ہے وہ دریا برد ہوتا ہے ۔

آپ تاریخ عالم کا مطالعہ کیجئے! اور دنیاکی کسی بھی قوم کے زوال و ادبار اور اُس کے اسباب و محرکات کا جائزہ لیجئے، آپ کو سب سے بڑا اور اہم ترین سبب کردار کے کیریکٹر کا بگاڑ نظر آئے گا ۔ یعنی ہر قوم اپنی تباہی و بربادی کے زمانے میں( اسٹیج چھوڑنے سے کچھ مدت پہلے ) اپنے نظام اخلاق کے بدترین دور سے گزر رہی ہوتی ہے،گویا کہ اپنی موت و ہلاکت سے پہلے بیماری کی انتہا کو پہنچ چکی ہوتی ہے اور مریض اکھڑی اکھڑی سانسیں لینے لگ جاتا ہے ، جس کو ایک ذرا سا تھپیڑا بھی موت کی نیند سلا دیتا ہے ۔

کسی قوم کا نظام اخلاق کیا بگڑتا ہے گویا کہ اس کی قسمت پر مہر لگ جاتی ہے ۔ اگر فوری اصلاح اور علاج و معالجہ نہ کیا جائے تو اس کو اندر ہی اندر گُھن لگ جاتا ہے، جو بالآخر اس کو لے ڈوبتا ہے، صحیفۂ تاریخ کا مسلّمہ کلیہ اور اٹل قانون ہے جو آشوری و کلدانی، مصری ویونانی، بابلی ومدیانی اور رومی و ساسانی اقوام عالم پر جس طرح صادق آچکا ہے، اسی طرح اُموی و عباسی، سلجوقی و فاطمی، ترک و مغل اور چنگیزی و تاتاری اقوام پر بھی پورا اتر چکا ہے۔ عرب ہوں یا عجم، ایران ہو یا توران ، چین ہو یا جاپان، یورپ ہو یا امریکہ
ہندستان ہو یا افریقہ ، نیز اس طرح نمرود ہو یا فرعون ، رومی ہوں یا آتش پرست، یہودی ہوں یا زرتشتی ، انگریز ہوں یا حبشی، مسلمان ہوں یا عیسائی ، ہندوں ہوں یا پارسی ، مشرک ہوں یا بت پرست، صحیفه تاریخ کا فیصلہ ہر ایک کے لئے اور ہر حال میں ایک اور صرف ایک ہے ۔ وہ یہ کہ نظام اخلاق کی تباہی یا سیرت و کردار کے بگاڑ کے ساتھ قوموں اور ملکوں کی تباہی یقینی ہے ۔ جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے یا جب پاپ کا گھڑا بھرجاتا ہے تو پھر قانون الٰہی کی شمشیر خارشگاف بے نیام ہو کر ظالم و سرکش اور بد کردار قوم کا سر قلم کرکے خلافت ارضی کسی دوسری قوم کے حوالے کر دیتی ہے، جو اس بارگراں کو سنبھالنے کی اہل ہو۔ ازل سے یہی قانون چلا آرہا ہے، جس میں کبھی تغیر نہیں ہوا ۔ مشہور فرنچ محقق ڈاکٹر لیبان لکھتا ہے :

”معراج کمال تک پہنچنے میں ہر قوم کو ایک طویل زمانے کی ضرورت ہوتی ہے؛لیکن انحطاط کے ”تحت الثری“ تک پہنچنے کے لئے ایک مختصر مدت کافی ہے ۔ ہر قوم کے اسبابِ انحطاط میں سب سے زیادہ موثر سبب اُس کے نظامِ اخلاق کا انحطاط ہے ۔ تمام قوموں میں تمدن کے انحطاط کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ، جو اب تک قائم ہے؟“

(انقلاب الامم، صفحہ 168)

دور حاضر کے سب سے بڑے عربی شاعر شؔوقی مرحوم نے فلسفۂ تاریخ کی اس آفاقی مقدمات کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے:

وإنما الأمم الأخلاق ما بقيت
فإن هم ذهبتْ أخلاقهم، ذهبوا

''یعنی قوموں کی بقا کا دار و مدار محض اخلاق پر ہے، جب کسی قوم سے اُس کے اخلاق رخصت ہو جاتے ہیں تو وہ قوم بھی دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے"۔

اور حؔکيم مشرقؒ نے اس حقیقت کو اس طرح بے نقاب کیا ہے :

؎ میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

(قرآن کا پیغام اور اسکے علمی اسرار و عجائب، صفحہ: 36، طبع: مجلس نشریات اسلام، کراچی)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی


Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*بزم علم وکتاب کے احباب سے چند گذارشات*

(علم وکتاب اصل گروپ کے لئے لکھی گئی باتیں، شاید یہاں والوں کے لئے بھی مفید ہوں)

جی تو بہت چاہتا ہے کہ مقصد سے ہم آہنگ جملہ مواد کو یہاں پوسٹ کرنے کی اجازت دی جائے، مثلا آج ایک استفسار آیا ہے کہ "مولانا عبد الحمید نعمانی صاحب کی ہندو ازم کے موضوع پر لکھی کتابیں مطلوب ہیں تو جواب آیا کہ "ہندو ازم کے موضوع پر حضرت مولانا عبدالحمید نعمانی مدظلہ کی جملہ کتب دیوبند کے کس مکتبے پہ دستیاب ہیں"
ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اس قسم کے استفسارات کے جوابات میں اگر معلومات دستیاب ہوں تو دستیاب معلومات، ان کے نام اور موبائل نمبر ضرور دئے جائیں۔ آخر مطلوبہ کتابوں کی ترویج میں آسانی فراہم کرنا ہماری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ممبران کی اچھی خاصی تعداد طویل عرصے سے اس بزم سے جڑے رہنے کے باوجود ابتک اس بزم کی مزاج آشنا نہیں ہوئی ہے۔ لہذا خواہش کے باجود ان پر روک لگانا پڑتا ہے۔
ہم اس بزم میں باربار معیار، جدت، ندرت اور طلب کی بات کرتے ہیں، جن کا خیال یہاں کی ہر پوسٹ میں رکھنا چاہئے، اس کے بغیر گروپ کی ضرورت،افادیت اور شناخت ختم ہوجائے گی۔ پھر اس میں محنت کرنے میں دلچسپیاں باقی نہیں رہیں گی۔
(1) معیار سے مراد یہ ہے کہ اس بزم میں زیادہ تر احباب کو فارغ ہوئے دس سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے، اور انہیں تدریس تحریر اور افتاء کا وسیع تجربہ ہے، یہ سوشل میڈیا سے بھی باخبر لوگ ہیں، لہذا طالب علمانہ معیار کے سوالات مواد اور لطیفے یہاں پوسٹ کرنا ایک قسم کی تکرار( (Repetition اور قیمیتی وقت کا ضیاع ہے۔

(2) جدت سے مقصود نیا پن ہے، جو مواد پیش کیا جائے اس میں کچھ نیا معلوم ہو، سچی باتیں، کیا ہم مسلمان ہیں ؟ جیسا مواد جو پیش ہوتا ہے،ان میں درج معلومات تو پرانی ہوتی ہیں، ان سے ہر کوئی واقف ہوتا ہے، لیکن اسے پیش کرنے کے انداز میں ایک نیاپن اور جاذبیت پائی جاتی ہے۔
شخصیات پر لکھے گئے ایک دو مضامین کے بعد پھر مضامین کی تکرار شروع ہوجاتی ہے، جس سے آنے والے مضامین بوجھ لگتے ہیں۔ ہم ذاتی طور پر کئی ایک شخصیات پر مضامین نہیں لکھ پاتے جن پر لکھنا اخلاقی فرض بنتا ہے، لیکن جب محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پاس ان کے بارے میں لکھنے کے لئے کچھ نیا نہیں بچا ہے۔

(3) ندرت سے مطلوب ایسا مواد ہے جو نایاب ہے، جاننے کے باجود اسے زندہ کیا جائے تو افادیت سے خالی نہیں، قند مکرر، مانگے کا اجالا، کو اس میں شامل کیا جاسکتا ہے، جس سے سب نہیں تو چند افراد واقف رہ سکتے ہیں۔

(4) جو علم بغیر طلب کے حاصل ہوتا ہے، وہ محفوظ نہیں رہتا، نہ ہی اس کی قدر ہوتی ہے، یہاں اتنا مواد پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے بعد طلب باقی رہے، اور ہل من مزید کی ندا آئے۔


جب کتابوں کی بات آئی ہے تو اس سلسلے میں چند باتوں کی یاد دہانی مناسب معلوم ہوتی ہے۔

۔ اس پلیٹ فارم کو شخصیات، اداروں اور تحریکات کی تشہیر کے لئے استعمال نہیں کیا جائے، جس مواد او لنکس میں ایسی باتیں محسوس ہوتی ہیں، ان کی اطلاع انفرادی طور پر دی جاتی ہے۔

۔ اصلاحی، دینی، درسی کتابیں عام طور پر پائی جاتی ہیں، ان کی تشہیر کے لئے یہ پلیٹ فارم مناسب نہیں۔

۔ ایسی معیاری تحقیقی، علمی وادبی وفکری کتابیں جو پہلی مرتبہ دستیاب ہورہی ہیں، اور ان سے آگاہی ضروری ہے، یا اس کی فرمائش آئی ہے تو اس کے سلسلے میں دستیاب مکمل معلومات دینے میں حرج نہیں۔

۔ اسی طرح کتابوں پر معیاری تبصرے پوسٹ ہوتے رہنے چاہئیں۔
امید کہ احباب ان باتوں کا خیال رکھیں گے۔
شکریہ
عبد المتین منیری
اڈمن علم وکتاب

Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ہجری تقویم کا ٓغٓاز۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمن ۔ معارف فروری 2003

Читать полностью…

علم و کتاب

کتب خانہ (09) رضاعلی عابدی (ٹونک 01)

Читать полностью…

علم و کتاب

اقتباس

الحق کا سوالنامہ اور اس کے جوابات سلسلہ نمبر: ٨

میری علمی اور مطالعتی زندگی

(حضرت ضیاء المشائخ مولانا محمد ابراہیم جان المجددی کابل افغانستان)


میرے عقیدے میں آج ملت اسلامیہ کی ترقی و بقا کے لئے بہترین نظریہ یہ ہے کہ :ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کو اسلامی کلچر اور ثقافت کے مکمل سرمایہ سے بہرہ ور کردیا جائے اور جدید علمی انکشافات، موجودہ دور کی ٹکنالوجی سے کامل طور پر شناسائی حاصل کرائی جائے۔

البتہ آج علماء کرام اور رہنمایان اسلام کا اہم وظیفہ یہ ہے کہ ثقافت اسلامی کو موجودہ فلسفہ کی بنیاد پر مدون کرکے عصر حاضر کے نوجوانوں کو ارمغان اسلامی پیش کریں ۔ اور اس امر کا خیال ضرور رکھنا چاہیئے کہ اس نئے تدوین میں علوم اسلامیہ کے جملہ شقوق ٹھوس اصول اور عقلی نقلی دلائل پر مبنی ہوں! جنہیں روشن فکر ، سلیم الطبع حضرات قبول کریں۔ اور ان جدید کتب کی عبارت میں روانی،شستگی ہو۔ لہجہ عام فہم ہو ، بدیہیات اور مشاہدات پر مبنی ہوں ۔ اور ان میں ایسے دلائل سے مسائل کو ثابت کیا گیا ہو جن دلائل کو عقل سلیم رکھنے والے حضرات از روئے عقل و دانش قبول کریں۔ نیز ان مسائل کو بھی ایک جامع فارمولے کے تحت جمع کریں جن کو قرآن مجید اور روایات میں تکوینی اور عالم سفلی ، علوی کی کیفیات کو صراحہ یا اشارہ بیان کر دیا گیا ہے۔

البتہ میرے عقیدے اور نظریے میں یہ بات سب سے پہلے ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں اکابر علماء اسلام کا ایک اجتماع منعقد ہوجائے جسکی علمی حرکت اور نشاط پیدا کرانے کے لحاظ سے بے حد ضرورت ہے۔ اگر پورے خلوص اور صداقت سے یہ کام شروع ہوسکے تو عالم اسلام کو علمی و فکری پیش آمدہ جدید مسائل و مشکلات کا جواب دیا جاسکے گا۔ اور ملت اسلامیہ کو وہ علمی اور عرفانی مقام مل سکتا ہے جو اس کے شایان شان ہے۔

(الحق رجب ١٣٩٢ھ صفحہ:٣٧)

Читать полностью…

علم و کتاب

بولاق سےعلامہ مرتضی الزبیدی کی تاج العروس من جواهر القاموس کی اشاعت سنہ 1888ء میں شروع ہوئی، ابن منظور افریقی کی لسان لعرب کی اشاعت 1300 ھ/ 1882میں شروع ہوئی ، اور اس کے چھپتے چھپتے آٹھ دس سال لگ گئے۔
آپ مصنف کی محنت کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتے، کہ عالم عرب و اسلام میں مطبوعہ کتابوں کے اس کال میں بھی، انہوں سے یورپ کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ اندازا (375) کتابوں کا حرف حرف مطالعہ کر اپنی اس ضخیم کتاب کے لئے مواد جمع کیا، وہ ایک سو ( 100) کتابیں الگ ہیں جن کا مصنف نے حرف بہ حرف پڑھا، لیکن اپنے کتاب کے موضوع کے لحاظ سے اسے ایک لفظ نہیں ملا۔ مصنف نے ان کتابوں کے کی پوری تفصیل اپنی کتاب میں دی ہے۔
مصنف نے اپنی کتاب کے لئے سیاحوں کے ادب وتاریخ ، سفرنامے، جغرافیہ وغیرہ جملہ غیر مذہبی علوم کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی کتاب کے لئے عربی معاجم ولٖغت میں اسے بطرس البستانی کی محیط المحیط (ط 1867) بلاذری کی فتوح البلدان ( لائیڈن 1866ء) ، ابن العذاری المراکشی کی معجم الألفاظ الملحقة بكتاب البيان المغرب في أخبار المغرب لابن العذاري المراكشي (ط لائیڈن 1848ء) . جینول کی معجم التنبيه للاما م او اسحاق الشیرازی، ( ليڈن )1879ء ، امام نووی کی تہذیب الاسماء والصفات ( ط وستنفیلڈ ۔گوٹا 1842 ء) ، یاقوت الحموی کی معجم البلدان (وسٹنفیلڈ ۔ لیبزگ 1868) یعقوبی کی کتاب البلدان (ط لائیڈن 1860ء) جیسی چند ایک معاجم ہی ہیں، باقی عربی زبان وادب کی دوسری کتابیں اور مستشرقین کی تیار کردہ کتب لغت ہیں۔
(چند عرصہ قبل احباب کی فرمائش پر کتب لغت کے ارتقاء پر چند ایک کالم قارئین کی نذر کئے جاچکے ہیں،لہذا اس موضوع کی تکرار کی یہاں چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی)۔
اس کتاب کا عربی ترجمہ دس جلدوں میں عراق کی وازرت ثقافۃ والاعلام نے دارالرشید بغدا دسے 1980ء میں شائع کیا تھا، اس کی ابتدائی آٹھ جلدوں کے مترجم استاد محمد سلیم النعیمی ہیں اور بقیہ دو کے استاد جمال الخیاط ہیں۔
عربی کتابوں کے شائقین کی یہ بڑی بدقسمتی رہی کہ البعث پارٹی کے دور حکومت میں عراق سے شائع شدہ کتابیں شاذونادر ہی دوسرے ملکوں میں دستیاب ہوتی تھیں، حالانکہ عراقی محققین کا مقام محنت ، معیار اور باریک بینی میں عالم عرب کے دوسرے محققین سے زیادہ بلند سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس زمانے میں عراق سے کتابوں کا نکلنا جوئے شیر لانے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ اسے ایک واقعہ سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مایہ ناز عراقی محقق وماہر لغت ڈاکٹر محمد حاتم الضامن مرحوم مرکز جمعۃ الماجد میں ہمارے ڈائرکٹر تھے، وہ ہم لوگوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ہم نے ایک بار ان سے بغداد سے شائع ہونے والے علمی مجلہ "المورد" کا ذکر کیا۔ کیونکہ اس مجلہ سے مراجعت کی ضرورت ہمیں اپنے علمی کام میں بار بار پڑتی رہتی تھی۔اور ہم نے ان سے اس کی فائل کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تو انہوں نے فرمایا کہ بغداد میں ان کی ذاتی لائبریری میں اس کی مکمل فائل موجود ہے، تو ہم نے ان سے کہا کہ یہ فائل دبی میں کیوں نہیں لاتے ، تو ہنستے ہوئے فرمایا کہ کیا مروانا چاہتے ہو؟۔ ایسی نادر چیزیں ملک سے باہر لے جانے والوں کو صدام حکومت مار ڈالتی ہے۔
تکملۃ المعاجم العربیہ بغداد سے شائع تو آج سے پینتالیس سال قبل ہوئی تھی، لیکن اس کا فوٹو آفسٹ ایڈیش کوئی بیس سال قبل ہم لوگوں کو دستیاب ہوسکا ۔ اس معجم کا اصل فرانسیسی نسخہ بھی 1969 ء میں مکتبہ لبنان سے شائع ہونے کے بعد عالم عرب کے مخصوص علمی حلقوں میں یہ کتاب متعارف ہوئی تھی ۔ (جاري)
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرت ضیاء المشائخ مولانا محمد ابراهیم جان المجددی. کابل (افغانستان )
میری علمی ومطالعتی زندگی
الحق ۔ اکوڑہ خٹک

Читать полностью…

علم و کتاب

دینی اداروں کا محافظ اللہ ہے، ان کی باگ ڈور کے فیصلے بھی اللہ کے اختیار میں ہیں۔ حضرت مولانا عبداللطیف پورقاضویؒ کے بعد جب نظامت حضرت مولانا محمد اسعد اللہؒ کے سپرد ہوئی تو حضرت بالکل تیار نہیں تھے، مگر غیبی نصرت نے ان کے قدم مضبوط کر دیے۔ حضرت مولانا اسعد اللہؒ کے بعد فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ نے ناظم چنا۔ مفتی صاحب بھی اس عہدہ جلیلہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہے، مگر بہٹ ضلع سہارنپور کے چیئرمین اور مظاہر علوم کے سرپرست شاہ مسعودؒ نے بڑی مشکل سے تیار کیا۔

خود ہمارے ناظم مولانا محمد سعیدیؒ بھی نظامت قبول کرنے سے انکار کرتے رہے، مگر عوامی تائید، سرپرستانِ مدرسہ کی توثیق اور عملۂ مدرسہ کی خواہش و فرمائش کے احترام میں مجبوراً یہ عہدہ قبول کیا، اور پھر ترقیات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلا، اور الحمدللہ! اپنے پرائے سب نے آپ کے تدبیر و تدبر اور بصیرت و دانائی کا لوہا مانا۔

فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ کی راقم الحروف پر شفقت و عنایت رہی، شیخ الادب حضرت مولانا اطہرحسین سے استفادہ کا خوب موقع ملا۔ جانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانا محمد سعیدیؒ نے تاحیات راقم کے ساتھ جو تعلق اور محبت کا معاملہ رکھا، اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

ان شفقتوں کے نتیجہ میں حاسدین در آئے، معاندین خود رو گھاس کی مانند قرب و جوار میں نظر آئے، متعنتین کمین گاہوں میں بیٹھ گئے۔ ہنوز یہ کیل کانٹے اور مہاشے موجود ہیں۔

میں اپنے خیر خواہوں، ہمدردوں، دوستوں اور شاگردوں سے چاہتا ہوں کہ میرے خلاف کسی مضمون کے دفاع یا میری تعریف میں کوئی مضمون نہ لکھیں، کہ اس سے نفس کے پھولنے اور اپنے بارے میں خوش فہمی پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔

خلوص کی مثال ایک چھپر کی سی ہے جس کی تعمیر میں ایک ایک تنکا سہار بنتا ہے اور خوش فہمی کی مثال ماچس کی تیلی جیسی ہے ، خلوص کا محل بھلے ہی خوبصورت ہو مگر ماچس کی ایک تیلی چشم زدن میں جلا کر خاک کرسکتی ہے۔

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

اللَّهُمَّ احفَظْني مِن حَسَدِ الأقربينَ، وَعَدَاوَةِ الأجانبِ، وَالنِّفَاقِ، وَالمُدَاهَنَةِ، وَالرِّيَاءِ، وَسائِرِ الأَمرَاضِ الرُّوحِيَّةِ وَالجَسَدِيَّةِ۔

اللہ تعالیٰ میری حفاظت فرمائے ، اپنوں کے حسد سے، بےگانوں کی دشمنی سے ، منافقت سے ، مداہنت سے، ریاکاری سے ، ہر قسم کے روحانی و جسمانی امراض سے۔

(اٹھائیس ذی الحجہ 1446ھ)

Читать полностью…

علم و کتاب

میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو لے آؤ زمیں پر رکھ دو

اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

میں نے جس طاق پہ کچھ ٹوٹے دیے رکھے ہیں
چاند تاروں کو بھی لے جا کے وہیں پر رکھ دو

راحت اندوری

Читать полностью…

علم و کتاب

هذا مقال بعنوان "عام جديد" للشيخ علي الطنطاوي، مقتبس من كتابه (صور وخواطر)

أقرأه دومًا في بداية كل عام، فأجِدُ فيه موعظة وذكرى، وحث على اغتنام العمر بالخير، والحذر من تبديد الأيام في سوق الغفلة، والاعتبار بتصرّم الأعمار.

كتبه الشيخ بأسلوبه البديع وتشبيهاته البليغة فأوصل فكرته تمامًا على الذي أحسن ..

رحمه الله وغفر له..

✍ د. طلال الحسان

Читать полностью…

علم و کتاب

اعجاز ہم پر حرام کر دے! ہم عہد کرتے ہیں ۔“

اس کا اطلاق ہر زبان کے قلم کاروں پر ہوتا ہے۔

لفظ کی جان کنی اور موت پر یہ نوحہ کناں تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ «ڈکشنری» لفظ کو حیات نو بخشنے، زندہ اور زیر استعمال رکھنے کی معتبر ضمانت ہے۔ ہر اصطلاح اور ہر لفظ انسان کے علم و آگہی اور احساس کی زمانی سرحد کی نشاندہی کرتا ہے۔

مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ اگر تمہیں کسی غیرآباد، سنسان اور بے چراغ جزیرے میں خراب مزاح لکھنے کی پاداش میں چھوڑ دیا جائے تو تم قرآن مجید کے علاوہ اور کون سی کتاب ساتھ لے جانا پسند کروگے؟ تو میں ایک لمحہ تامل کیے بغیر کہوں گا کہ: ”ایک جامع و مستند ڈکشنری جو تمام عمر میری حیرت ومحویت، دلبستگی اور سرشاری کا سامان اپنے اندر رکھتی ہے“۔

کسی لفظ کے معنی کی تلاش میں جب ہم ڈکشنری کھنگالتے ہیں تو اس لفظ سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے دلچسپ، رنگا رنگ،کار آمد اور معجزنما الفاظ اور ان کے مشتقات سے شناسائی ہو جاتی ہے،جس نے نئے لفظ سے پہلی نظر میں پیار نہیں کیا، اُس نے ابھی پڑھنا نہیں سیکھا،جس نک چڑھے اور تُند جبیں ادیب و شاعر نے نیے پرانے الفاظ سے پیار دلار کا رشتہ نہیں رکھا، اُس پر شعر و ادب کی ”میوز“(muse) اپنے بھید بھاؤ نہیں کھولتی، لفظ اس نامحرم نکتۂ راز پر اپنی لذتیں تمام نہیں کرتے۔

اؔکبر الہ آبادیؒ کی عادت تھی کہ سونے سے کچھ دیر پہلے اپنے آپ سے سوال کرتے کہ: آج میں نے کون سی نئی بات سیکھی؟ جواب اگر نفی میں ملتا تو «ڈکشنری» اٹھا کر کوئی نیا لفظ ہجّے اور معنی کے ساتھ یاد کرکے سوجاتے۔

سوچتا ہوں کیسی اچھی نیند آتی ہوگی انہیں۔

( *شامِ شعر یاراں،صفحہ: 131،طبع: جہانگیر بُکس، کراچی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صؔدیقی

Читать полностью…

علم و کتاب

سنو سنو !!

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab

دلیپ ورما یہ ایک غیر مسلم واقف کار ہے، اس کا اپنا میڈیکل اسٹور میرے گاؤں سے قریب اختیار پور میں ہے۔ پہلے سماج وادی کا نمائندہ تھا، پھر اس نے چڑھتے سورج کی طرف اپنا رخ پھیر لیا اور بی جے پی کا سپورٹر بن گیا۔ میں اپنی اور اپنے بچوں کے لئے دوا اسی سے خریدتا ہوں، دلیپ ورما معاملات کی شفافیت سے متأثر ہوا اور شاید دل سے عزت کرنی شروع کر دی۔ کبھی پیسے کم ہوئے تو بے تکلف دوا دے دی اور آج تک واپسی کا تقاضا نہیں کیا۔ (ویسے تقاضے کی نوبت بھی الحمدللہ نہیں آئی)۔

ایک دن میں اختیار پور پہنچا، وہیں سے بسیں وغیرہ ملتی ہیں۔ مجھے اپنی تحصیل دھورہرہ جانا تھا جو کم از کم پچیس کلو میٹر دور واقع ہے۔ دلیپ کی مجھ پر نظر پڑی، دور سے دعا سلام کرتا ہوا میرے پاس آ گیا اور کہنے لگا:

"مولانا صاب! میں کئی دن سے آپ کے انتظار میں ہوں۔"

میں نے کہا: "خیریت تو ہے؟"

کہنے لگا: "میں نے آپ کے آشیرواد سے ایک کار لی ہے، کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو بٹھا کر اسے چلاؤں، اس کا اودگھاٹن(افتتاح) بھی ہو جائے گا اور میری اچھا (تمنا)بھی پوری ہو جائے گی۔"

میں نے کہا: "کار کہاں ہے؟"

جواب دیا: "میں گھر جا کر لاتا ہوں، آپ تھوڑی دیر یہیں دکان پر بیٹھیں۔"

دلیپ ورما جلدی سے گھر جا کر کار لایا، مجھے بٹھایا اور چلنے ہی والا تھا کہ دلیپ کے گاؤں کا ایک شخص آیا اور دلیپ سے کہنے لگا: "مجھے بھی لیتے چلو، مجھے راستے میں ہی عیسیٰ نگر جانا ہے۔"

دلیپ نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہا: "آج نہیں بٹھا سکتا، تم دیکھ رہے ہو گاڑی میں مولانا صاب بیٹھے ہیں، یہ پاک اور صاف لوگ ہیں اور تم دارو (شراب) والے ہو۔"

خیر، دلیپ مجھے لے کر روانہ ہوا، اور میری منزل تک چھوڑ کر واپس آ گیا۔

اس واقعہ سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اب بھی معاملات اور حالات اتنے خراب نہیں ہوئے کہ ہم سدھار نہ سکیں۔ بے شک بھارت کی اکثریت کا دماغ خراب کر دیا گیا ہے، پھر بھی اگر ہمارے نبی ﷺ کٹر اور متشدد کفار مکہ کو اپنے اخلاق، اپنی تبلیغ اور اپنے کردار سے اتنی بڑی تعداد اپنے قدیم دھرم کو چھوڑ کر اسلام قبول کرا سکتے ہیں کہ آخری حج کے موقع پر موجود صحابہ کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی، اور بہت سے حضرات جو اس وقت شریک حج نہیں ہو سکے ان کو بھی ملا لو تو بلا مبالغہ یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے۔

بھارت میں بگڑے اور بپھرے یعنی خردماغ افراد کی تعداد اگرچہ کم ہے، لیکن پھر بھی آپ پوری تعداد یعنی تقریباً اسی لاکھ افراد مان لیں تو بھی بمشکل ایک مسلمان کے حصہ میں تین چار لوگ ہی آتے ہیں۔ یعنی اگر ایک مسلمان محض چار لوگوں پر اپنی توجہات مرکوز کر لے تو بہت جلد اتنے خوشگوار نتائج دیکھنے کو ملیں گے کہ آپ تصور نہیں کر سکتے۔

سفر و حضر میں مستقل میرا واسطہ اور سابقہ برادران وطن سے پڑتا رہتا ہے اور ان سے نرم و شیریں گفتگو کر کے محسوس کرتا ہوں کہ وہ تھوڑی ہی دیر میں اپنے ہی پرشوں اور مہا پرشوں کو تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں۔

آپ پہلے اپنی اصلاح کیجیے، بزرگوں کی خدمت میں جائیے، ان سے سیکھئے، زندگی کیسے گزاری جاتی ہے یہ فارمولہ لیجیے، معاشرہ میں کیسے رہنا چاہئے اس کی تربیت لیجیے، گفتگو میں شیرینی اور حلاوت کیسے پیدا ہوتی ہے یہ ہنر حاصل کیجیے اور پھر تقابلِ ادیان یعنی مختلف ادیان و مذاہب پر اسلام کی فوقیت اور امتیاز کے لئے کتابوں کا مطالعہ کیجیے۔ مختلف مناظرین: حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حضرت مولانا مرتضیٰ چاندپوری، حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رام پوری، حضرت مولانا نور محمد ٹانڈوی، حضرت مولانا محمد منظور نعمانی، حضرت مولانا محمد طاہر گیاوی وغیرہ مناظرین کی کتابیں پڑھیں اور جب یقین ہو جائے کہ اسلام کی حقانیت کے اثبات کے لئے دلائل اور براہین کا اچھا خاصا ذخیرہ محفوظ ہو گیا ہے تو آپ نکل پڑیں، ان شاء اللہ "کایا پلٹ" ہو جائے گی۔

(ستائیس ذوالحجۃ چودہ سو چھیالیس ھجری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

یادوں کا سفر(16-17) . تحریر: اخلاق احمد دہلوی

Читать полностью…

علم و کتاب

*عجیب و غریب علاج*
آموں وغیرہ میں سڑاند پیدا ہوگئی، لیکن غریب غرباسستے کے لالچ میں اُن پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ نتیجہ معلوم ! یعنی بیماری پھیل گئی ہے۔ موسمی بخار سے، جو فصل کا میوہ ہے، بچے سے لگا بڑے تک لوتھ پڑے ہیں۔ گھر گھر ماندگی ہے۔ آخر کھانے پینے کی بندک بندا ہوئی۔ پر بیماری کا علاج عجیب و غریب ہے۔ کوئی حکیم سے رجوع نہیں کرتا بلکہ آلو بخارے اور کچالو اڑائے جارہے ہیں جن میں ہلاہل مرچیں اور جانے کیا کیا مسالے پڑے ہوئے ہیں۔ منہ جل رہا ہے، زبان سے سی سی نکل رہی ہے، مگر یہ دلی والے ہیں، مرچوں سے تھوڑی بھاگیں گے! جی بھر کے کھا چکے تو منہ لٹکا دیا۔ ناک، منہ اور آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے۔ گھڑی دو گھڑی رال ٹپکائی، بس بھاری سر ہلکا ہو گیا۔ منہ کا مزہ بدلا ، بخار دم دبا کر بھاگا۔ طبیعت صاف رکھنے کے لیے شکنجبین اور تلنگنیاں بھی استعمال ہو رہی ہیں۔ پھر بھی اگر موسم کی خرابی یا عدم صفائی کی وجہ سے آب و ہوا راس نہ آئی، تو امیر امرا کچھ دنوں کے لیے گردو نواح میں کسی مقام پر چلے گئے۔(دلی والے اور برسات)

Читать полностью…

علم و کتاب

خلقِ خدا کو فائدہ نری علمی تحقیق سے نہیں، تقویٰ سے پہنچتا ہے

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے ارشاد فرمایا کہ مولانا عبید اللّٰه سندھیؒ نے نقل کیا کہ علامہ شبلی نعمانیؒ نے ان کے سامنے فرمایا کہ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قوم کو اصلاحی فائدہ وہ شخص پہنچا سکتا ہے، جس میں تقدس و تقویٰ ہو۔ اس کے بغیر کتنا ہی بھاری عالم اور محقق ہو، اصلاحِ خلق اس سے نہیں ہوسکتی۔

مجالس حکیم الامتؒ، صفحہ: ۱۵۲/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

جو تھے سیاسی گھرانے والے، سب ایک نکلے
بجھانے والے، جلانے والے، سب ایک نکلے

حرام کے رزق میں کوئی امتیاز کیسا
کہ کھانے والے، کھلانے والے، سب ایک نکلے

ہمارے ماضی کی اک عمارت یہ کہہ رہی ہے
بچانے والے، گِرانے والے، سب ایک نکلے

(معراج فیض آبادی)

Читать полностью…
Subscribe to a channel