علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
*وفیات : مورخہ ۲۴ جون*
1798ء وارث شاہ مصنف ہیر وارث شاہ
1957ء مولانا آزاد سبحانی مجاہد آزادی، خطیب ومفکر
1971ء تسکین قریشی، محمد یاسین شاعر
1981ء الطاف مشہدی
1983ء عاشق علی ذبیحی دبائیوی
1986ء انور علی بیگ میجر جنرل
1989ء محمد یوسف پروفیسر
1993ء راگ انبالوی (محمد رفیق )
1995ء محمو الحق عثمانی
2000ء ثناء اللہ جہانگیری صوفی
2001ء محمد بشیر پہلوان
2002ء مولانا شفیق الرحمن ندوی مصنف الفقہ المیسر
2015ء شاہدہ تبسم شاعر
(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab
خلق انسانی کی اکثریت احکم الحاکمین کے ابدی و سرمدی پیغام اور بیان سے یکسر جہالت برت رہی ہے۔
احکام ربانی کی معرفت سے پہلو تہی اور مکّلفات سے بے اعتنائی سرشت میں رچ بس گئ ہے۔
رہی بات دنیوی معاملات کی تو وہاں بھی خواہشات و شہوات اور نفسانی آرزؤں کی اجارہ داری ہے۔
اور فطرت سلیمہ کے مقتضیات سے مکمل بے توجی اور غفلت ہے۔
نوبت بایں جا رسید کہ اب یہ انسان نما بندے کسی کے لیے کار آمد نہیں اور حد یہ ہوچکی اب کوئی علاج ان کی بیماری کے لیے کام گار نہیں۔
مستفاد: تفسیر خطیب شربینی/مجلد:2/ سورہ یوسف آیت: 68
وصیت کی خواہش کی ، اس نے ''نصیبین'' میں ایک شخص کا پتہ بتایا۔
چنانچہ اس کی موت کے بعد وہ نصیبین پہنچے اور پادری سے مل کر دوسرے پادری کی وصیت بتائی،یہ پادری بھی پہلے دونوں پادریوں کی طرح بڑا عابد وزاہد تھا، حضرت سلمان یہاں مقیم ہوکر روحانی تسکین حاصل کرنے لگے،ابھی کچھ ہی دن اس کی صحبت سے فائدہ اٹھایا تھا کہ اس کا وقت بھی آپہنچا، حضرت سلمان نے گزشتہ پادریوں کی طرح اس سے بھی آئندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا، اس نے ''عموریہ ''میں گوہر مقصود کا پتہ بتایا۔ چنانچہ اس کی موت کے بعد انہوں نے عموریہ کا سفر کیا اور وہاں کے پادری سے مل کر پیام سنایا اور اس کے پاس مقیم ہوگئے ، کچھ بکریاں خرید لیں، ان سے مادی غذا حاصل کرتے تھے اور صبر و شکر کے ساتھ روحانی غذا پادری سے حاصل کرنے لگے، جب اس کا پیمانۂ حیات بھی لبریز ہوگیا ، تو حضرت سلمان نے اس کو اپنی پوری سرگزشت سنائی کہ اتنے مراتب طے کرتا ہوا آپ کے پاس پہنچا تھا، آپ بھی آخرت کا سفر کرنے کو آمادہ ہیں ، اس لیے میرا کوئی سامان کرتے جائیے ، اس نے کہا: ” بیٹا میں تمہارے لیے کیا سامان کروں؟ آج دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی نہیں ہے، جس سے ملنے کا تم کو ایسا باقی میں ہے، جس سے ملنے کام کو مشورہ دوں، البتہ اب اس نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جو ریگستان عرب سے اٹھ کر دین ابراہیمؑ کو زندہ کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا، اس کی علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کرے گا اور صدقہ اپنے لیے حرام سمجھے گا، اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، اگر تم اس سے مل سکو تو ضرور ملنا۔
اس پادری کے مرنے کے بعد حضرت سلمان عرصہ تک عموریہ میں رہے ، کچھ دنوں کے بعد بنو کلب کے تاجر ادھر سے گذرے ، حضرت سلمان نے ان سے کہا کہ اگر تم مجھ کو عرب پہنچا دو تو میں اپنی گائیں اور بکریاں تمہاری نذر کر دوں گا ، وہ لوگ تیار ہو گئے، اور زبان حال سے یہ شعر
؎چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
پڑھتے ہوئے ساتھ ہولیے۔
لیکن ان عربوں نے وادی القریٰ میں پہنچ کر دھوکا دیا اور ان کو ایک یہودی کے ہاتھ غلام بنا کر فروخت کر ڈالا؛مگر یہاں کھجور کے درخت نظر آئے، جس سے تو آس بندھی کہ شاید یہی وہ منزل مقصود ہو، جس کا پادری نے پتہ دیا تھا، تھوڑے دن ہی قیام کیا تھا کہ یہ امید بھی منقطع ہوگئی ، آقا کا چچازاد بھائی مدینہ سے ملنے آیا، اس نے حضرت سلمان کو اس کے ہاتھ بیچ دیا، وہ ان کو اپنے ساتھ مدینہ لے چلا اور سلمان غلامی در غلامی سہتے ہوئے مدینہ پہنچے، ہاتف غیب تسکین دے رہا تھا کہ یہ غلامی نہیں ہے۔
؎اسی سے ہوگی ترے غم کدہ کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
در حقیقت اس غلامی پر جو کسی کی آستانِ ناز تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے ہزاروں آزادیاں قربان ہیں، جوں جوں محبوب کی منزل قریب ہوتی جاتی تھی کشش بڑھتی چلی جاتی تھی اور آثار و علامات بتاتے تھے کہ شاید مقصود کی جلوہ گاہ یہی ہے، اب ان کو پورا یقین ہو گیا اور دیدار جمال کی آرزو میں یہاں دن کاٹنے لگے۔
اس وقت آفتاب رسالت مکہ پر تو افگن ہوچکا تھا؛لیکن جور وستم کے بادلوں میں چھپا تھا، سلمان کو آقا کی خدمت سے اتنا موقع نہ ملتا تھا کہ خود اس کا پتہ لگاتے، آخر انتظار کرتے کرتے وہ یوم مسعود بھی آگیا کہ مکہ کا آفتاب عالمتاب مدینہ کے افق پر طلوع ہوا، حرمان نصیب سلمان کی شب ہجر تمام ہوئی اور صبح امید کا اجالا پھیلا، یعنی سرور عالم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، سلمان کھجور کے درخت پر چڑھے کچھ درست کر رہے تھے، آقا نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے چازاد بھائی نے آکر کہا: ” خدا ''بنی قیلہ'' کو غارت کرے سب کے سب قؔبا میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں جو مکہ سے آیا ہے، یہ لوگ اس کو نبی سمجھتے ہیں ، سلمان کے کانوں تک اس خبر کا پہنچنا تھا کہ یارائے ضبط نہ رہا، صبر کا دامن چھوٹ گیا، بدن میں سنسناہٹ پیدا ہوگئی اور قریب تھا کہ کھجور کے درخت پر سے فرش زمین پر آجائیں، اسی مدہوشی میں جلد از جلد درخت سے نیچے اترے اور بدحواسی میں بے تحاشا پوچھنے لگے:تم کیا کہتے ہو ؟ آقا نے اس سوال پر گھونسہ مار کر ڈانٹا کہ تم کو اس سے کیا غرض ؟ تم اپنا کام کرو، اس وقت سلمان خاموش ہوگئے۔
لیکن اب صبر کسے تھا ، کھانے کی چیزیں پاس تھیں ، ان کو لے کر دربار رسالتؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ” میں نے سنا ہے کہ آپ خدا کے برگزیدہ بندہ ہیں اور کچھ غریب الدیار اور اہل حاجت آپ کے ساتھ ہیں، میرے پاس چیزیں صدقہ کے لیے رکھی تھیں، آپ لوگوں سے زیادہ اس کا کون مستحق ہو سکتا ہے اس کو قبول فرمائیے ، آنحضرت نے دوسرے لوگوں کو کھانے کا حکم دیا مگر خود نوش نہ فرمایا ، اس طریقہ سے سلمان کو نبوت کی ایک علامت کا مشاہدہ ہوگیا کہ وہ صدقہ نہیں قبول کرتا ، دوسرے دن پھر ہدیہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کل آپ نے صدقہ کی چیزیں نہیں نوش فرمائی تھیں ، آج یہ ہدیہ قبول فرمائیے، آپ نے قبول کیا، خود بھی نوش فرمایا اور دوسروں کو بھی
تعلیم کی اہمیت
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں: تعلیم کی اہمیت بہت بڑی ہے، یہی وہ سانچہ ہے، جس میں ملت کے نوجوان افراد ڈھل کر نکلتے ہیں، ان کی ذہنی تربیت، اخلاقی نشو و نما، دماغی استعداد اور قلبی قوتِ یقینی یعنی ساری ذہنیت، اسی کے ذریعہ بنائی اور بگاڑی جاسکتی ہے۔ امت کو جیسے افراد کی ضرورت ہے، وہ ان ہی کے ذریعہ تیار ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔
شذراتِ سلیمانی، حصہ: سوم/صفحہ: ۳۴۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*وفیات : مورخہ 23جون*
1565ء طور غود رئیس امیر البحر
1975ء منظر لکھنوی ، سید منظر حسن
1980ء سنجے گاندھی فرزند اندرا گاندھی
1982ء زبیدہ بیگم
1989ء میشل عفلق بانی البعث پارٹی
1994ء شوکت جہاں
2001ء قمر ساحری (سید علی رضا) پروفیسر
2003ء ابوالفیض سحر
2005ء مفتی عتیق الرحمٰن
2007ء ارشاد علی
2007ء خان ارمان
2008ء شمس وارثی
2009ء ارشد سمیع خان سفارت کار
2010ء محمد حامد اکرمی ( سائبو خلفو) قاضی خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل
2012ء ذکی عثمانی
2012ء عبید اللہ بیگ (حبیب اللہ بیگ)
2014ء سید دبیر الحسن
2015ء فہمی عبدالحمید
2015ء نرملا جوشی جانشین مدر ٹریسا
2016ء امجد صابری قوال
2019ء عبد الستار سفارت کار
2020ء مولانا عزیز الرحمن ہزاروی جمعیت علمائے اسلام (ف)
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سچی باتیں (11؍اگست 1935ء)۔۔۔ تہذیب کے بدلتے رنگ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
زیادہ نہیں آج سے چند ہی سال اُدھر،کوئی بے ادب اور گستاخ اگریہ کہہ دیتا کہ آپ فلاں بھانڈ کے طائفہ میں شامل ہیں تو وہ کہنے والا، آپ ہاتھوں پٹنے سے بچ سکتاتھا؟ اس سے بڑھ کر گالی کسی شریف کے لئے ہوکیا سکتی تھی؟ گالی کا جواب آپ گالی سے دیتے، اور اس پر طبیعت بس نہ کرتی، تو زبان کا جواب ہاتھ سے! عزت کے معنی ہی یہ تھے، شرافت کا تقاضا ہی یہ تھا ……لیکن آج؟ کیا آج بھی یہ کوئی گالی ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے، آپ نے دیکھا زمانہ کہاں سے کہاں پہونچ گیا!’’ایکٹر فلم ایکٹر‘‘ آج کون ہیں یہ؟ ’’ایکٹرس اور فلم ایکٹرس‘‘ بننا آج کس سوسائٹی میں کوئی سنگین جرم رہ گیاہے؟ کسی فلم کمپنی میں شرکت اب بھی کوئی معصیت ہے، فلمی رسالے آج کس تعلیم یافتہ کی میز پر نہیں ہوتے؟ صنعت، فلم سازی، پر مضمون نگاری اور مقالہ طرازی، آج کہیں بھی، شرافت کے علم کے، سنجیدگی کے منافی رہ گیاہے۔؟
آنکھوں نے وہ درمیانی دور بھی دیکھاہے، جب کوئی نوجوان، صاحب کے لائے ہوئے اور پھیلائے ہوئے ’’تھیٹر‘‘ میں جاتے بھی تو کس طرح؟ شرمائے ہوئے اور لجائے ہوئے۔ دل الگ چور، منہ الگ چرائے ہوئے۔ گویا …تھیٹر دیکھنے نہیں، کہیں نقب لگانے جارہے ہیں! باپ چچا نے کبھی پوچھ گچھ کی بھی، تو جھوٹ بول دینا قبول لیکن اس کا اقرار کرنا نہیں قبول!۔ مہینے اور سال، منٹوں اور گھنٹوں کی رفتار سے طے ہوکررہے، اور وقت وہ آن لگا، کہ اسی ہندوستان کے اندر بڑ ے بڑے عالی خاندان اور والا دودمان صاحبزادے، اپنے اسکول کے استادوں کے ساتھ، اپنے کالج کے پروفیسروں کے ساتھ، اپنے خاندان کے بڑوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں، ایک ہی ’’پکچر پیلیس‘‘ کو ایک ہی ’’ٹاکی‘‘ کو سرفراز فرمانے لگے! اب بلا کسی شرم اور جھجک کے، باپ، بیٹے سے فرماتے ہیں کہ ’’بیٹا مس فلاں کی اداکاری، تم نے دیکھی‘‘؟ اور صاحبزادہ بے تکلف باپ سے عرض کرتے ہیں، کہ قبلہ، فلاں اسٹار کا آرٹ آپ نے ملاحظہ فرمایا؟
بھانڈ بیچارہ تو اب بھی بدستور حقیر وذلیل ہے، لیکن بھانڈ اب بھانڈ رہاکیا؟ اب وہ ’’ایکٹر‘‘ ہے، ’’آرٹسٹ‘‘ ہے۔ طایفہ، کو آج بھی کون معزز کہتاہے، لیکن آج تو طائفہ ، کمپنی بن چکاہے، اور کمپنی ، پرکسی کی مجال ہے، جو نگاہ ’’تحقیر‘‘ ڈال سکے؟ ’’نوٹنکی‘‘ کا نام تو بھلا کہیں پڑھے لکھوں کی محفل میں لے کر دیکھئے، لیکن زبان پر …اور Stageکی اصطلاحات لے آئے اور پھر کہیں گستاخی کے الفاظ کا تخیل بھی دل میں آسکتاہے؟…بھائیوں اور بیٹوں کو چھوڑئیے بہنوں اور بیٹیوں کی خبر لیجئے۔ کل ان کے سایہ پر بھی غیر محرم کی نظرپڑجاتی تو خون کی ندیاں بہہ جاتیں آج خود شوق کے ساتھ مچلی اور آرزوؤں کے ساتھ نکلی جارہی ہیں، کہ للہ کہیں انھیں بھی، گانے والیوں اور ناچنے والیوں کی صف میں جگہ مل جائے! اپنے اسکولوں اور کالجوں کی ، اپنے زنانہ اسکولوں اور کالجوں کی برکت آپ نے دیکھ لی۔
(*نوٹ: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے یہ کالم آج سے سوسال پیشتر 02-01-1925ء سے جاری اپنے ہفتہ وار سچ، صدق اور صدق جدید میں لکھے تھے، عبد المتین منیری* )
Https://telegram.me/ilmokitab
سلسلہ نمبر: 255
انتخاب مطالعہ
تحریر: امام ابن ابی الدنیاؒ
حضرت اؔیوب بن القريةؒ نے فرمایا لوگ تین قسم کے ہیں
:
۱۔ عقلمند ۲۔ احمق ۳۔ فاجر.
عقلمند سے اگر بات کی جائے تو وہ صحیح جواب دیتا ہے، اور وہ اگر گفتگو کرتا ہے تو درست بات کہتا ہے اور اگر سنتا ہے تو اسے محفوظ رکھتا ہے، اور احمق سے اگر بات کی جائے تو وہ جلد بازی کرتا ہے، اور اگر بات کرے تو وہم میں پڑجاتا ہے، اور اگر کسی برائی پر ابھارا جائے تو اسے کر گزرتا ہے، اور فاسق و فاجر کے پاس اگر تم کوئی امانت رکھاؤگے تو وہ اس میں خیانت کرے گا اور اگر تم اس کے ساتھ بات چیت کروگے تو وہ تمہارے ساتھ عداوت کرے گا اور اؔیوب کے علاوہ ایک اور صاحب نے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ اگر تم اس کے پاس کوئی راز پوشیدہ رکھنا چاہوگے تو وہ اسے پوشیدہ نہیں رکھے گا۔
۞ واقعی عقلمند آدمی ان اوصاف سے متصف ہوتا ہے اس سے بات کی جائے تو وہ اسے غور سے سن کر اس کا جواب دیتا ہے، اور اگر خود کوئی بات کرتا ہے تو سوچ سمجھ کر صحیح اور درست بات کرتا ہے اور اگر کسی سے کام کی بات سنتا ہے تو اسے پلّو سے باندھ لیتا ہے، جب کہ احمق جلدی جلدی بات کرتا ہے، جلد بازی کا شکار ہوتا ہے اور بھول اور وہم میں پڑتا ہے اور ذرا سے اشارے میں برے کام میں لگ جاتا ہے؛ اس لئے کہ گناہوں اور برائیوں سے عقل روکا کرتی ہے،جس سے وہ عاری ہے، اور فاسق و فاجر میں دین نہیں ہوتا جو اسے امانت میں خیانت سے باز رکھے، وہ دوسرے کو اپنے سے بہتر دیکھ کر اس سے حقر وحسد کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے پیٹ میں راز راز نہیں رہتا، وہ کانوں کا کچا اور پیٹ کا ہلکا ہوتا ہے۔
مترجم: علامہ ڈاکٹر حبیب ﷲ مختار
( *عقل اور اس کا مقام، صفحہ: 38،طبع: دار التصنیف، جامعہ علوم اسلامیہ،بنوری ٹاؤن،کراچی*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صؔدیقی
کیا ہم مسلمان ہیں (٣٥) عرش رسا آوازیں ( تيسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
جلتی ہوئی ریت کی چنگاریوں پر سیدھا لِٹا کر۔
جُھلستے ہوئے سینے کو منوں بھاری پتھر یلی سل سے کُچل کر ۔
کافروں کے جُھنڈ کے جُھنڈ ایک بلال (رضی الله عنه) سے کہا کرتے تھے " ہمارے خداؤں کو مانو!"
"اَحد ! اَحد ! اَحد ! ایک ___ ! ایک ! ایک ___ ! ایک " خدا کی قسم ! یہی تھا حضرت سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کا بے قرار آہنگ ۔ ! درد و کرب کا احساس کہیں چلا نہیں گیا تھا۔ مگر جس کا دل ایمان سے چمک اُٹھا ہو اُس کے ہونٹوں سے کراہ بھی نکلتی ہے تو ایمان کی تب وتاب لیے ہوئے ۔
رات کی تاریکی میں اُن کو زنجیروں کے کساؤ گھائل ہی کر ڈالتے ___ رات بھر یہ زنجیریں گوشت میں پیوست ہُوا کرتیں اور رات اسی طرح آنکھوں میں کٹ جاتی ۔ صبح کی روشنی میں ان زخموں کو اُدھیڑ ڈالنے کے لیے تڑا تڑ کوڑوں کی مار دی جاتی ۔ نیلی نیلی رگیں اُبھرتيں پھٹ جاتیں اور خون دینے لگتیں ۔پھر رات بھر کے لیے اس سراپا جراحت مومن کو زنجیروں میں اینٹھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ پہاڑ سی رات ایسے عالم میں کٹ جاتی کہ ظالم تازہ دم ہونے کے لیے میٹھی نیند میں خرّانٹے لیتے اور مظلوم کرب ناک زخموں اور کانٹوں پر کروٹ بھی نہ بدل سکتا ! دوسرے دن کا سُورج دیکھتا کہ اس بلاکشِ حق و صداقت کو گرم گرم بالو کے بھاڑ میں بے تحاشا جھونک دیا جاتا ۔
"اب بھی کہہ دے خدا ایک نہیں ..... !" کفر و شرک کے انسانی درندے اس کے اوپر جُھکتے اور چلّاتے ۔
زخموں اور کرب و درد میں ڈوبی ہوئی تہ نشین آواز پھر سینے سے اُبھرتی اور اَحد ! اَحد ! اَحد ! اَحد ! " کا والہانہ آہنگ جُوں کا توں سُنائی دیتا ، ظلم وسفّا کی تھک ہار کر بیٹھ جاتی اور بلال ؓ کی آواز کو کسی طرح خاموش نہ کر پاتی ۔ ہاں ہاں ۔ کبھی بالکل ایسا ہی تھا کہ ہزاروں ستم گر مل کر بھی کسی ایک بلال ؓ کی آوازِ حق کو نہ دبا سکتے تھے ۔ مگر اب کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں بھی اس آواز کی کوئی دھمک سُنائی نہیں دیتی ۔ ہم کروڑوں میں بھی ایک بلال ؓ کی ایمانی طاقت نہیں اور ہم اپنے ایمان کی اس نا معلوم ترین رمق پر کس اطمینان سے بیٹھے ہیں پاؤں پسارے سورہے ہیں ___ دن میں اکڑ اکڑ کر زمین پر چل رہے ہیں۔ اے لوگو ! یہ ہمیں کیا ہوا ہے .... ؟
لیکن جب تک حضور ﷺ ان کے سامنے رہے حضرت بلال ؓ پر مظالم کے پہاڑ بھی ٹوٹ گئے تو انھوں نے اُف تک نہ کی ۔ مگر حضور ﷺ کے وصال کے بعد انھیں اس دنیا میں ایک دن ٹھہرنا دو بھر ہو گیا ۔ عشقِ رسول ﷺ سے مومن کے دل میں کیسی نزاکت اور کیسا استحکام پیدا ہو جاتا ہے کفر کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح اٹل مگر حُبِّ رسول ﷺ کی بارگاہ میں پانی پانی ___ ! حضور ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جاتے ہی بلال ؓ کا یہ حال تھا کہ وہ دیوانہ وار شہادت کو ڈھونڈتے پھرتے تھے۔
وہ جنھوں نے حضور ﷺ کے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کر لی تھیں ان کو یہ دیکھ کر کیسا اضطراب تھا کہ یہ دنیا حضور ﷺ سے خالی ہو گئی ہے۔ لیکن ہم نے حضور ﷺ کو کبھى نہیں دیکھا اور ان کے خلاء کو کبھی اتنی شدّت سے محسوس نہیں کرتے ! اگر ہمیں کبھی یہ آرزو نہیں ہوتی کہ فرشِ زمین پر شہادت کا سُرخ سُرخ خون ٹپکاتے ہوئے ہم بھی ادھر دوڑے چلے جائیں جدھر حضور ﷺ تشریف لے گئے ہیں تو ہم اس ایمان کی لذّت و سرمستی سے کتنی دُور ہیں ۔ جو خُدا اور خُدا کے رسول ﷺ کی دِلی چاہت کے بعد قلب و رُوح میں فصلِ بہار کی طرح لہلہاتا ہے!
___________***___________ /channel/ilmokitab
*وفیات : مورخہ 22 جون*
1691ء سلیمان ثانی خلیفہ عثمانی
1792ء محمد بن عبد الوہاب سعودی مصلح
1885ء محمد احمد بن عبد اللہ المہدی سوڈان
1955ء اعظم کریوی (انصار احمد) ناول نگار
1955ء مولانا ظہور الحق
1971ء محمد حبیب پروفیسر
1973ء شمس وراثی نعت گو شاعر
1975ء نشتر جالندھری (محمد عبد الحکیم خان )
1982ء چاندبن حسن شیخ پروفیسر
1986ء مفتی عبدالحکیم سکھروی
1987ء ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مغرب
1989ء قریشی، اے ایم
1990ء سبینہ رفیع ملیالم ادیب ومورخ
2002ء عزیز اللہ، سائیں
2002ء ناصر کاس گنجوی (ناصر محمد خاں) شاعر
2003ء ابوالفیض سحر
2007ء خان ارمان
2008ء شمس وارثی
2009ء ارشد سمیع خان سفارت کار
2012ء ذکی عثمانی
2012ء عبید اللہ بیگ (حبیب اللہ بیگ)
2016ء امجد صابری قوال
(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
کتب خانہ (08) بیان وآواز: رضاعلی عابدی BBC
/channel/ilmokitab/16537
یادوں کا سفر (10-11 ) بیخود دہلوی نے چھمیا جان کی محفل میں الف کا سبق پڑھا
تحریر: اخلاق احمد دہلوی
اصر ذی شاں کا سہرا
آواز: محمد غوث محتشم
کل مورخہ 19-06-2025ء حافظ محمد غوث محتشم کی رحلت کی اچانک خبر نے دل کو مغموم کردیا، سامنے ان کی بچپن کی شکل گھومنے لگی، معصوم چہرہ لیکن شرارتوں سے بھر پور، غالبا عربی دوم تک جامعہ میں تعلیم پائی تھی، اس کے بعد کارکل میں جاکر حفظ قرآن مکمل کیا، پھر مدتوں نظر نہیں آئے، تلاش معاش میں ادھر ادھر سرگرداں رہے۔ ابھی چند سال قبل دبی میں نظر آنے لگے تھے، لیکن پھر غائب ہوگئے، جب بھی ملے بڑی محبت اور احترام سے ملے، اللہ تعالی نے لحن داؤدی سے نوازا تھا، لیکن اس کا زیادہ استعمال نہیں ہوا۔ ایک سال قبل ہمارے رفیق درس مولانا ناصر الاسلام ندوی نے بتایا کہ محمد غوث محتشم کا برجستہ پڑھا ہوا سہرا ان کے پاس ہے تو میں نے کیسٹ کو یم پی تھری میں کنورٹ کیا، اور انہیں سنایا تو لاشعوری کی عمر میں بیالیس سال قبل پڑھا ہوا کلام پہنچان کر بہت خوش ہوئے۔ اللہ انکے درجات بلند کرے، بڑی غربت کے ماحول میں ان کی اٹھان ہوئی تھی، لیکن کبھی عزت نفس ہاتھوں سے جانے نہ دی۔ محنت کی حلال روزی کی تگ ودو میں رہے۔ امید ہے غفور و رحیم کے دربار میں ان کی لغزشوں کی معافی ہوگی۔(عبد المتین منیری)
محمد غوث محتشم کی آواز میں (43) سال قبل پڑھا ہوا سہرا پیش خدمت ہے۔
لنک اردو اڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=nasir-zee-shan-ka-sehra, Nasir Zee Shan Ka Sehra
*مانگے کا اجالا* ایک دفعہ ہمیں خواتین کے ایک بڑے اجتماع سے عشائیے سے پہلے خطاب کرنے کا اتفاق ہوا۔ جس ہال میں ہمیں تقریر کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا اس سے مُتصل ہال میں کھانے کا اہتمام تھا۔ چار پانچ منٹ تو اندھا دُھند جوشِ خطابت میں گزر گئے۔ اس کے بعد ہمیں ایسی خوشبوئیں آنے لگیں جن سے ہماری توجہ، تقریر کے تسلسل اور تلفظ میں فتور آنے لگا۔ خیر، شاہی ٹکڑوں اور زعفرانی قورمے کی مہک تو ہم برداشت کر گئے، لیکن سیخ کباب کا دھواں دار باربی کیو جھونکے نے ہمیں کچھ اس لیے بھی نڈھال کر دیا کہ ہم نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا۔ پھر جب ہماری فیورٹ ڈِش یعنی پلاؤ کی لَپَٹ آئی تو ہمارے Salivary glands یعنی رال بنانے کے غدودوں کا فعل اتنا تیز ہوگیا کہ الفاظ لذتِ تصور میں لتھڑ کر زبان سے لپٹ گئے۔ سامعین کا حال ہمیں معلوم نہیں تھا، خود ہمارا جی بولنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ہم نے پانی کے گھونٹ پیتے ہوئے سیکٹری صاحبہ سے کہا:
"بی بی! ان خوشبوؤں کی مجھ میں تاب نہیں۔ میں اس طرح تقریر نہیں کر سکتا۔"
وہ کچھ اور سمجھیں! انگریزی میں کہنے لگیں:
" آپ ذرا ضبط سے کام لیجئے۔ میں نوجوان خواتین کو Seductive perfumes لگانے سے بھلا کیسے روک سکتی ہوں؟"
(مشتاق احمد یوسفی؛ شامِ شعرِ یاراں) /channel/ilmokitab
علم وکتاب چینل پر چند روز سے نئے ممبران کا داخلہ کم ہوگیا ہے، اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے میں دلچسپی سے ذ وق مطالعہ اور کتب بینی کے فروغ میں مدد مل سکتی ہے۔
Читать полностью…ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس بزم کے ممبران کو ان کی دلچسپی سے پندرہ بیس منٹ پڑھنے کا مواد پابندی سے ملتا رہے۔ اس بزم سے ان کا دلی تعلق ہو، لیکن وہ اپنی ساری توانیاں اور اسی کے لئے صرف نہ کریں، اس سے بہتر کرنے کے دنیا میں اور بھی کام اور ذمہ داریاں ہیں۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی دلچسپ کتاب آجائے تو اس کے تعارفی صفحات الگ کرکے پوسٹ کردیں۔ تاکہ ان میں سے اپنی دلچسپی کا مواد تلاش کرکے طلب کریں۔ اور بہ شرط فرصت انہیں فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔
لہذا آپ سے گذارش ہے کہ ان تعارفی صفحات کا ضروری مطالعہ کریں۔ تاکہ آپ کی دلچسپی کے موضوعات کا پتہ چلے، اور اگر کتاب دستیاب ہوتو اسے خرید سکیں۔ اور اگر دستیاب نہیں ہے تو پھر ناشرین کتب کو ان کی اشاعت پر متوجہ کریں۔ اس طرح علم کا دائرہ بڑھے گا۔ اور کتابیں عام ہونگی۔
ہمیں جہاں طلب اور قدر محسوس ہوتی ہے محنت کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے، ورنہ خاموش رہ کر دوسرے کاموں میں لگ جاتا ہوں، میں کوئی مشاعروں کا شاعر نہیں کہ زبردستی اپنا کلام تھوپتا رہوں۔ امید کہ احباب ان باتوں کا خیال رکھیں گے۔
عبد المتین منیری
2025-06-19
دیا۔
تیسری بار جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بقیع میں تشریف فرما تھے، وہاں آپ اپنے کسی صحابیؓ کی تدفین میں شریک تھے، انھوں نے آپؐ کو بیٹھے ہوئے دیکھا، اس وقت آپ کے جسم پر دو چادریں تھیں ، انھوں نے قریب پہنچ کر سلام کیا اور گھوم کر پشت کی جانب آگئے کہ شاید وہ خاتم نبوت دیکھ سکیں جس کو عموریہ میں ان کے مرشد نے بتایا تھا، جب نبی نے انھیں اپنی پشت مبارک کی طرف نظر اٹھائے ہوئے دیکھا تو آپ مقصد سمجھ گئے اور پشت پر سے چادر سر کادی، اس طریقہ سے دوسری نشانی یعنی مہر نبوت کی بھی زیارت کرلی اور با چشم پرنم آپ کی طرف بوسہ دینے کو جھکے اور اسے بے ساختہ چومنے لگے اس وقت ان کی آنکھوں سے مسرت کے آنسو جاری تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سامنے آؤ، سلمان نے سامنے آکر ساری سرگزشت سنائی،آنحضرت کو یہ دلچسپ داستان اتنی پسند آئی کہ اپنے تمام اصحاب کو سنوائی، حضرت سلمان اتنے مرحلوں کے بعد دین حق سے ہم آغوش ہوئے۔
( *صحابہؓ کا قبول اسلام، صفحہ: 115،طبع: سید احمد شہید اکیڈمی،تکیہ کلاں،رائے بریلی*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صؔدیقی
سلسلہ نمبر: 256
انتخاب مطالعہ
تحریر: مولانا عبد العلیم ندوی رؔائے بریلوی
*اسی سے ہوگی تیرے غم کدہ کی آبادی
*
حضرت سلمان فارسیؓ اسلام سے قبل مجوسی تھے اور مجوسی نام ''مابہ'' تھا، اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اور بارگاہ نبوت سے ''سلمان الخير'' لقب ملا۔
آپ کے والد اصفہان کے ”جی“ نامی گاؤں کے باشندے اور وہاں کے زمیندار و کاشتکار تھے، ان کو حضرت سلمان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کو لڑکیوں کی طرح گھر کی چار دیواری سے نکلنے نہ دیتے تھے، آتش کدہ کی دیکھ بھال انہی کے متعلق کر رکھی تھی، چونکہ مذہبی جذبہ ان میں ابتدا سے تھا، اس لیے جب تک آتش پرست رہے اس وقت تک آتش پرستی میں سخت غلو رہا اور نہایت سخت مجاہدات کئے ، شب و روز آگ کی نگرانی میں مشغول رہتے تھے حتی کہ ان کا شمار ان پجاریوں میں ہوگیا تھا جو کسی وقت آگ کو بجھنے نہیں دیتے تھے۔
ان کے والد کا ذریعہ معاش زمین تھی ، اس لیے زراعت کی نگرانی وہ بذات خود کرتے تھے، ایک دن وہ گھر کی مرمت میں مشغولیت کی وجہ سے کھیت خود نہ جاسکے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے سلمان کو بھیج دیا ، ان کو راستہ میں ایک گرجا ملا ، اس وقت اس میں عبادت ہورہی تھی،نماز کی آواز سن کر دیکھنے کے لیے گرجے میں چلے گئے،نماز کے نظارے سے ان کے دل پر خاص اثر ہوا اور مزید حالات کی جستجو ہوئی اور عیسائیوں کا طریقۂ عبادت اس قدر بھایا کہ بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے، چنانچہ کھیتوں کا خیال چھوڑ کر اسی میں محو ہوگئے ، عبادت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں سے پوچھا کہ اس مذہب کا سر چشمہ کہاں ہے؟ انھوں نے کہا کہ :ملک شام میں! پتہ پوچھ کر گھر واپس آئے باپ نے پوچھا: ” اب تک کہاں رہے؟ جواب دیا: ” کچھ لوگ گرجے میں عبادت کر رہے تھے، مجھ کو ان کا طریقہ ایسا بھلا معلوم ہوا کہ غروب آفتاب تک وہیں رہا ، باپ نے کہا: ” وہ مذہب تمہارے مذہب کا پاسنگ بھی نہیں ہے ، جواب دیا: ” بخدا وہ مذہب ہمارے مذہب سے کہیں برتر ہے ، اس جواب سے ان کے باپ کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ خیال تبدیل مذہب کی صورت میں نہ ظاہر ہو، اس لیے بیڑیاں پہنا کر مقید کر دیا، مگر ان کے دل میں تلاش حق کی تڑپ تھی اس لیے عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب ملک شام کے تاجر آئیں تو مجھ کو اطلاع دینا، چنانچہ جب وہ آئے تو ان کو خبر کر دی، انہوں نے کہا: ” جب واپس ہوں تو مجھ کو بتانا ، چنانچہ جب کاروان تجارت لوٹنے لگا تو ان کو خبر کی گئی ، یہ بیڑیوں کی قید سے نکل کر ان کے ساتھ ہو گئے، شام پہنچ کر دریافت کیا کہ یہاں سب سے بڑا مذہبی شخص کون ہے؟ لوگوں نے بشب (پادری) کا پتہ دیا، اس سے جاکر کہا: مجھ کو تمہارا مذہب بہت پسند ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس رہ کر مذہبی تعلیم حاصل کروں اور مجھ کو اس مذہب میں داخل کر لو۔
چنانچہ مجوسیت کے آتش کدہ سے نکل کر آسمانی بادشاہت کی پناہ میں آگئے، مگر یہ پادری بڑا بد اعمال اور بد اخلاق تھا، لوگوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کرتا ، جب وہ دیتے تو اس کو فقراء و مساکین میں تقسیم کرنے کے بجائے خود لے لیتا، اس طریقہ سے اس کے پاس سونے اور چاندی کے سات مٹکے جمع ہوگئے ، حضرت سلمان اس کی حرص کو دیکھ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے تھے، مگر زبان سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اتفاق سے وہ مرگیا، عیسائی شان و شوکت کے ساتھ اس کی تجہیز و تکفین کرنے کے لیے جمع ہو گئے، اس وقت انہوں نے اس کا سارا اعمال نامہ ان لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا، لوگوں نے پوچھا: تم کو کیسے معلوم ہوا ؟؟ انہوں نے ان کو لے جاکر اس خزانہ کے پاس کھڑا کر دیا، تلاشی لی گئی تو واقعی سات مٹکے سونے چاندی سے بھرے ہوئے برآمد ہوئے ، عیسائیوں نے اس کی سزا میں نعش دفن کرنے کے بجائے صلیب پر لٹکاکر سنگسار کردیا، اس کی جگہ دوسرا پادری مقرر ہوا، یہ بڑا عابد وزاہد اور تارک الدنیا تھا، شب و روز عبادت الہی میں مشغول رہتا، اس لیے حضرت سلمان اس سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے اور دلی محبت کرنے لگے اور آخر تک اس کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس سے کہا: میں آپ کے پاس عرصہ تک نہایت لطف و محبت کے ساتھ رہا، اب آپ کا وقت آخر ہے اس لیے آئندہ کے لیے مجھ کو کیا ہدایت ہوتی ہے؟ اس نے کہا: ” میرے علم میں کوئی ایسا عیسائی نہیں ہے جو مذہب عیسوی کا سچا پیرو ہو، سچے لوگ مرکھپ گئے اور موجودہ عیسائیوں نے مذہب کو بہت کچھ بدل دیا ہے اور بہتیرے اصول تو سرے سے چھوڑ ہی دیئے ہیں، ہاں ''موصل'' میں فلاں شخص دین حق کا سچا پیرو ہے، تم جا کر اس سے ملاقات کرو۔
چنانچہ اس پادری کی موت کے بعد حق کی جستجو میں وہ موصل پہنچے اور تلاش کرکے اس سے ملے اور پورا واقعہ بیان کیا کہ فلاں پادری نے مجھ کو ہدایت کی تھی کہ آپ کے یہاں ابھی تک حق کا سر چشمہ ابلتا ہے اور میں آپ سے مل کر تشنگی بجھاؤں ، اس نے ان کو ٹھہرالیا، پہلے پادری کے بیان کے مطابق یہ پادری در حقیقت بڑا متقی اور پاکباز تھا، اس لیے حضرت سلمان نے آئندہ کے متعلق اس سے بھی
*قند مکرر*
" ابن انشاء‘‘ کا کلام ’’انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو" جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ وفات پاگئے تھے۔ اس کے بعد ’’قتیل شفائی‘‘ نے غزل لکھی " یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی"
’’ابنِ انشاء‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا
اس دل کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا
شب بيتی ، چاند بھی ڈوب چلا ، زنجير پڑی دروازے میں
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کيا
پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا
اس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا
اس حُسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا
اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کےلوگ نہ رستہ ديں،کيوں بن ميں نہ جا بسرام کرے
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا
’’قتیل شفائی‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی
جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا اِن سے بھی منہ پھیروگے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی
کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشا جی
تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشا جی
بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشا جی
اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشا جی
نہیں صرف قتیل کی بات یہاں، کہیں ساحر ہے کہیں عالی ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی
فدائے قوم راحت مولائی
معصوم مرادآبادی
آج یوپی کے ایک معروف مجاہد آزادی، سیاسی رہنما اور شاعر راحت مولائی کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 22 جون 1987 کو مرادآباد میں وفات پائی ۔ مرادآباد کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے راحت مولائی کا اصل نام سید حلیم الدین تھا اور " فدائے قوم " ان کا خطاب تھا۔ ان جیسی مقبولیت مرادآباد میں کسی اور مسلم قائد کو نہیں ملی۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو جلسے جلوسوں اور مشاعروں سے ایک فطری لگاؤ محسوس ہوا۔ غالباً آٹھ دس برس کی عمر ہی میں ان میں شرکت کرنے لگا۔ حالانکہ گھر کی بندشوں کی وجہ سے بہت زیادہ اس میں حصہ نہیں لے پاتا تھا، لیکن جب اور جہاں موقع ملتا، غیراختیاری طورپر ان میں شامل ہوجاتا تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد پہلا الیکشن راحت مولائی صاحب کا دیکھا اور میں نے شوقیہ طورپر بچوں کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ ہاتھ میں جھنڈا اٹھائے نعرے لگاتا ہوا اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ گلی کوچوں میں گھومتاتھا۔ اس وقت سیاسی شعور تو کجا زندگی کی بنیادی چیزوں کا بھی علم نہیں تھا، مگر نعرے بازی اور جھنڈا بلند کرنے میں عجیب سا لطف آتا تھا۔ایک سیاسی لیڈر کے طورپر سب سے پہلے راحت مولائی کو ہی دیکھا، جو مسلمانوں میں خاصے مقبول تھے اور اسی مقبولیت نے انھیں یوپی اسمبلی تک پہنچایا۔
راحت مولائی کے حالات زندگی پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 13 مارچ 1913 کو مرادآباد کے محلہ ڈھیریا میں پیدا ہوئے تھے۔انھوں نے چھٹی کلاس تک مرادآباد کے ہائی اسکول میں تعلیم پائی۔میٹرک کا امتحان پیلی بھیت سے دیا۔ 1933میں گورنمنٹ انٹر کالج مرادآباد سے انٹر کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 1936 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیااور وہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔بعد کو ناگپور یونیورسٹی گئے اور وہاں سے ایم اے کیا ۔ انھوں نے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔1940میں کانگریس سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا ۔کھادی پہننے کا قصد کیا اور تاعمر اس پر کاربند رہے۔1942 کی بھارت چھوڑو تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں نظربند ہوئے۔ دس مہینے بعد رہائی ہوئی۔1948 میں کانگریس چھوڑکر سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے، مگر 1953 میں سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ 1956 میں داؤ دیال کھنہ نے ان پر گئوکشی کا الزام لگاکر ان کے خلاف مقدمہ قایم کرادیا، جس میں ڈیڑھ سال کی سزا ہوئی۔ بعد کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈیڑھ سو روپے کا جرمانہ لگاکر رہا کردیا۔اس مسئلہ نے انھیں مسلمانوں کا ہیرو بنادیا اور انھوں نے 1957میں مرادآباد سے اسمبلی کا الیکشن لڑکر کامیابی حاصل کی۔ 1967کے الیکشن میں بھی کھڑے ہوئے، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔
1971میں دوبارہ کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور 1975میں ضلع کو آپریٹیو بینک کے چیئرمیں بنائے گئے۔ کافی عرصہ یوپی وقف بورڈ کے رکن بھی رہے۔1984میں کانگریس سے علیحدہ ہوکراسمبلی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طورپر پھر قسمت آزمائی، لیکن ناکام رہے۔22جون 1987کو مرادآباد میں وفات پائی۔ ان کے خاص دوستوں میں دہلی کے مولانا امداد صابری اور مولانا عبدالوحید صدیقی شامل تھے۔ اخبار ’نئی دنیا‘ نے الیکشن میں ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔شعرگوئی کا بھی شوق تھا۔ مولانا امدادصابری نے ان کے شخصی احوال پر "تذکرہ راحت مولائی" کے عنوان سے جو کتاب 1988میں لکھ کر شائع کی تھی،اس میں ان کا مجموعہ کلام "رعنائی خیال" بھی شامل ہے۔ یہ مجموعہ پہلے پہل ستمبر 1948 میں شائع ہوا تھا۔ اس کی دوسری اشاعت دس سال بعد 1958 میں ہوئی اور تیسری مرتبہ مولانا امداد صابری نے " تذکرہ راحت مولائی" میں اسے شامل کیا۔ اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے شاعری پر زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو۔
میری ہی طبیعت ہے یہ ظرف ہے میرا
دنیا کے ستم سہنا اور شکر خدا کرنا
مرادآباد میں کانگریس کے سینئر لیڈر اسد مولائی ان کے بیٹے اور سیاسی جانشین ہیں ۔
یادوں کا سفر (12+13) مولا نا محمد علی نے انگریز ڈپٹی کمشنر کو کوڑے مارے
تحریر: اخلاق احمد دہلوی
صور من حياة الصحابة - زيد بن ثابت رضي الله عنه بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا رحمه الله
Читать полностью…*وفیات : مورخہ 21 جون*
1976ء ناقد مرادآبادی (مفتی سعید الدین احمد)
1985ء ارمان اکبر آبادی (بشارت علی خان آفریدی)
2003ء نظام امینی (سید نظام الدین)
2011ء غلام صابر نظامی
2011ء خواجہ پرویز (خواجہ محی الدین) نغمہ نگار
2015ء واحد بشیر
2018ء جمشید مارکر سفارت کار
2020ء طالب جوہری شیعہ ذاکر
2021ء جاذب قریشی شاعر
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*اپنے موبائل اور کمپوٹر کے لئے یہ ایپ مفید ہوسکتی ہے*
آج ہم نے سفرنامہ ابن بطوطہ کے ترجمہ سے اس کے مترجم مولوی محمد حسین کی تحریر کے چند اقتباسات پیش کردئے تھے، جس میں تہذیب وثقافت کے غلبہ کے لئے تجارت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ امید کہ آپ کی نظر سے یہ اہم اقتباس گذر چکا ہوگا ہے۔
اس وقت مغربی اقوام کے غلبہ کی بنیادی وجہ تجارت پر ان کا غلبہ ہے، جن کا اصول ہے کچھ لو اور کچھ دو، وہ آپ کو جو چیزیں دیں گے وہ بہت سی جگہ مفت محسوس ہونگی، خاص طور پر انٹرنٹ اور سوشل میڈیا سے وابستہ واٹس اپ، فیس بک، یوٹیوب، سوفٹ ویرس وغیرہ وغیرہ، جنہیں آپ مفت سمجھتے ہیں وہ بنیادی طور پر مفت نہیں ہوا کرتیں،آپ کو مفتی میں مختلف سہولتیں دے کر دوسروں کو مطلوبہ معلومات مہنگے داموں پر وہ بیچتے ہیں۔ اس طرح یوٹیوب پر اشتہارات لے کراس کا زیادہ تر منافع خود لیتے ہیں، اور تھوڑا بہت آپ کو بھی دے دیتے ہیں۔
اسی قسم کی ایک چیز ہے کلاؤڈ Cloud ۔ اس کا مطلب ہے کہ انٹرنٹ کمپنیوں کے پاس ڈیٹا محفوظ کرنے کا ایک گودام Server ہوتا ہے، جس میں آپ بھی قیمتا یا مفت میں اپنا ڈیٹا رکھ سکتے ہیں۔ پھریہیں سے اپنا ڈیٹا دوسروں کو شیر کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کی معلومات کسی دوسرے تک نہ پہنچیں تو بڑی بڑی سلطنتوں کی فوجوں کا ڈیٹا محفوظ نہیں ہے۔ تو ہم آپ کس کھیت کی مولی ہیں!۔ انٹرنٹ پر اپنے مواد کی حفاظت کا یقین دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے بغیر چارہ بھی تو نہیں ہے۔
اس وقت ہمارے بہت سارے احباب اپنے موبائل اور کمپوٹر پر کتابیں پڑھتے اور انہیں محفوظ کرتے ہیں، انکے پاس فلاش میموری یا اکسٹرنل ہارڈ ڈسک رکھنے کی سہولت نہیں ہوتی یا پھر اس کا موقعہ نہیں ملتا۔
اور جب موبائل اور کمپوٹر اچانک خراب ہوجاتا ہے تو سالہاسال کی محنت اچانک نیست ونابود ہوجاتی ہے۔ اس سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ کلاؤڈ Cloud پر اپنی معلومات محفوظ کرنے کا اہتمام کریں۔گوگل ڈرائیو، ون ڈرائیو، میگا، ڈروپ بکس
Google Drive, One Drive, Mega, Dropbox
جیسے بہت ساری ایسی سائٹس موجود ہیں، جن کے استعمال سے آپ کو یویس بی فلاش، یا اکسٹرنل ہارڈ ڈسک کے بغیر اپنا محفوظ کردہ ڈیٹا ایک دوسری جگہ منتقل کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ سبھی مشہور سائٹس آپ کو پانچ سے بیس جی بی GB ڈیٹا مفت دیتی ہیں۔ جس سے ضرورت پوری نہیں ہوتی۔
اس دوران ٹیرا بوکس Terabox نامی ایک نیا کلاؤڈ سائٹ شروع ہوا ہے، یہ آپ کو دوسرے سائٹوں سے کئی گنا زیادہ ایک ٹیرا بائٹ TB جگہ مفت دیتا ہے۔ اسے تجربہ کرنے میں حرج نہیں، میں نے تجربہ کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ اس جیسی چیزیں دوسرے سائٹ افیکٹ سے خالی نہیں ہوتیں۔
یہ ایپ موبائل اور کمپوٹر دونوں پر دستیاب ہے، میں کچھ عرصہ سے اسے استعمال کررہا ہوں۔ اس کے موبائل ورژن میں اشتہارات کی کثرت اور کمپوٹر میں اشتہارات سے خالی ہونا ہم نے محسوس کیا ہے، ممکن ہے یہ انٹی وائرس کے استعمال کی وجہ سے بھی ہو۔ لنک حسب ذیل ہے۔
https://www.terabox.com/cloud-storage-pricing-plans?purchaseReason=web_reason_header_banner&curTab=premium
انڈروئید ایپ
https://play.google.com/store/search?q=terabox&c=apps
امید ہے کہ یہ آپ کی اہم ضرورت کی تکمیل میں مدد دے گا۔
عبد المتین منیری
Https://telegram.me/ilmokitab
تجارت ، تہذیب پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ (01)
تحریر: مولوی محمد حسین (رٹائر ڈ سیشن جج الہ آباد) وفات : 1913ء
یہ ہجری کی آٹھویں صدی اور تاریخ مسیحی کی چودہویں صدی تھی۔ یہ صدی دنیا کی تاریخ میں ایک نہایت اہم عصر ہے کیونکہ جیسا کہ اس صدی کو اسلامی تہذیب کے تنزل کا شروع کہہ سکتے ہیں، اسی طرح یہ صدی یورپ کی تہذیب کی ترقی کا آغاز سمجھی جاتی ہے اور اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم تھیں …
میں نے اراد تا یہ نہیں کہا کہ یہ صدی اسلامی طاقت کے تنزل کا شروع تھا کیونکہ اس کے بعد جو تین صدیاں گزری ہیں، ان میں اسلامی طاقت اپنے عروج پر تھی۔ اسلام کی تاریخ میں پہلے کوئی ایسا زمانہ نہیں گزرا تھا جو شہنشاہ اکبر گورگانی سلطان سلیمان خان عثمانی شاه تهماسپ صفوی اور ان کے ایک سے ایک بڑھ کر لائق جانشینوں کا مرقع دکھا سکتا ہو۔ یورپ میں ملکہ الزبتھ اور شہنشاہ چارلس پنجم اور فرانس شاہ فرانس ان کے ہم عصر اور اپنے زمانہ کے بڑے طاقتور بادشاہ سمجھے جاتے تھے لیکن اس میں کلام نہیں کہ وہ دولت اور طاقت میں ہر گزان اسلامی بادشاہوں کے ہم پلہ نہ تھے اور مسیحی قومیں اس وقت تک نہ تو طاقت میں نہ تہذیب میں نہ علوم میں۔۔۔
غرض کسی بات میں اسلامی دنیا کا مقابلہ نہ کر سکتی تھیں۔ مگر اس زمانہ میں تہذیب کی کنجی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلی جاتی تھی اور تماشا یہ تھا کہ ان کو نہ یہ پتہ لگا کہ کنجی ہاتھ سے نکلی جاتی ہے اور نہ یہ پتا لگا کہ وہ کنجی کیا چیز ہے۔۔۔۔
یورپ میں دین مسیحی کے عروج اور دخول میں اور تہذیب کے آغاز میں چودہ سو سال کا وقفہ ہے۔ کوئی احمق سے احمق منطقی ان دونوں واقعات کو علت اور معلول قرار نہیں دے سکتا۔ اس کے برخلاف اسلامی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ تھوڑے دن کے اندر اس نے عرب کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر ان کے گھروں اور درباروں اور مجلسوں میں اس تہذیب اور تعلیم کو جگہ دی جس کو مسیحی دین کے تعصب اور تنگرانی نے یونان اور اطالیہ سے چوٹی پکڑ کر نکال دیا تھا۔ باوجو دیکہ پہلی صدی میں چالیس سال تک بد قسمت خانہ جنگی نے ان کو فرصت نہ لینے دی اور پانچویں اور چھٹی اور ساتویں صدی میں یورپ کے جاہل جہادیوں نے ایک طرف اور چینی تاتار کے اجہل مغلوں اور ترکوں کے جہان سوز حملوں نے دوسری طرف سے ان کو اچھی طرح سے سانس نہ لینے دیا اور تہذیب کی ترقی کو روکے رکھا، لیکن ان دونوں مصیبتوں کو وہ جھیل گئے، اگرچہ ان میں سے طاقت کچھ عرصہ کے لیے جاتی رہی مگر چونکہ تہذیب پھر بھی باتی تھی اور اس لیے طاقت کے پھر واپس آ جانے کی قوی امید تھی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آٹھویں نویں اور دسویں صدی میں طاقت تو پہلے سے بھی زیادہ عود کر آئی لیکن تہذیب اور علوم کی تحصیل کا شوق گھٹتا گیا۔۔۔۔
اسلامی ممالک کی تہذیب کی ترقی اور تنزل کا اصلی باعث کیا تھا اور اس تہذیب کی کنجی کیا تھی۔ اس کا جواب ایک بہت چھوٹا لفظ ہے یعنی تجارت۔۔۔
ہ تجارت سے بڑھ کر تہذیب کے پھیلانے کا ذریعہ کوئی اور پیشہ دنیا میں نہیں ہو سکتا۔۔۔
انتخاب ؛ ترجمہ سفرنامہ ابن بطوطہ
/channel/ilmokitab
*وفیات : مورخہ 20 جون*
1970ء زبیدہ خاتون
1993ء شمیم احمد پروفیسر
1997ء نعیم الدین جسٹس (ر)
1999ء سید محمد تقی دانشور وصحافی،جنگ کراچی
2008ء مولانا سید محمد اجتباء حسینی ندوی پروفیسر، ڈاکٹر
2010ء عبد الملک ریگی بلوچ رہنما
2018ء مشتاق احمد یوسفی مزاح نگار
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab
یادوں کا سفر (8) حکیم اجمل خاں نے دعوت میں زردے اور بالائی کے کشتے کھلائے
تحریر: اخلاق احمد دہلوی
ادب اور نیک دید کی ازلی کشمکش
مولانا عمیر الصدیق صاحب دریابادی ندوی لکھتے ہیں:
عجب معاملہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں مذہبی ادب، ہمیشہ نہایت مؤثر بیانی قوت کی شکل میں دیکھا گیا، لیکن اس کو وقت کے اسلوب اور فطری طور پر بدلتے ہوئے ذوق و مزاج سے ہم آہنگ نہ کیے جانے کی شعوری کوششوں سے بے فیض بنا دیا گیا۔ اس بے فیضی نے حقیقی ادب کو اس طرح محدود و مقید کردیا کہ اس کی غیر موجودگی میں ادب کے اصل مقصد سے چشم پوشی کرنا، ان لوگوں کے لیے زیادہ سازگار حالات کا سبب بن گیا، جو انسانی خیر، انسانی مسرت اور انسانی افادیت کی جگہ تخریب، ذہنی انتشار، انسان کی زندگی کی اصل منزل سے دوری اور بے راہ روی کے فلسفوں کے دلدادہ تھے اور لذت اندوزی اور نفس پرستی کے غیر انسانی رویوں کی وکالت ہی میں جن کی مادہ پرستانہ سوچ کی تسکین کا سامان تھا۔ ادب کی سچی روح کو جراحت پہنچانے کا یہ رویہ، دیکھا جائے تو صرف تہذیبِ جدید ہی کا نہیں، انسانی معاشرہ میں نیک دید کی ازلی کشمکش کا نتیجہ ہے۔
سہ ماہی: "کاروانِ ادب"، اپریل تا جون: ۲۰۲۵ء/صفحہ: ۴/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
(علم و کتاب واٹسپ چینل)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B