علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
علم وکتاب واٹسپ گروپ پر ارسال کی جارہی کتاب کا ایک اقتباس:
*طوطی مؤنث اور دہی مذکر ہے*
ہمارے والد سناتے تھے کہ ایک دن جب سب مشاہیر بیٹھے ان بیگم صاحبہ کی باتیں سن رہے تھے، تو ان بیگم صاحبہ نے حکیم اجمل خان صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ حکیم صاحب ماشاء اللہ آج کل آپ کی تو طوطی بول رہی ہے۔
اس پر حکیم اجمل خان صاحب بولے کہ بیگم صاحبہ آپ جو کچھ فرمائیں بجا اور درست لیکن طوطی مذکر ہے۔ داغ کہتے ہیں کہ ۔
خوب طوطی بولتا ہے آج کل صیاد کا
اس پر بیگم صاحبہ نے کہا کہ حکیم صاحب داغ آپ کے لیے سند ہو گا ۔ میرے لیے تو وہ "لونڈی بچہ تھا۔" میرے دادا بہادر شاہ ظفر یا ان کے استاد ذوق کا کوئی شعر سند کے طور پر سنائیے تو میں مانوں۔
اس پر حکیم اجمل خان جو بہت ہی کم سخن تھے چپ ہور ہے، لیکن مولوی عبد السلام صاحب نے یہ کہہ کر بیگم صاحبہ کی ہاں میں ہاں ملائی کہ طوطی تو خودمنہ سے بول رہی ہے کہ میں مونث ہوں ۔
خواجہ حسن نظامی ایک دفعہ ہمارے ہاں دستر خوان پر بیٹھے ۔ کھانے میں دہی بھی تھا۔ خواجہ
صاحب نے فرمایا:
دہی کھٹی ہے۔
ان صاحبہ نے کہا۔ خواجہ صاحب یہ فصیل باہر کی زبان اپنے نظام الدین میں جا کر بولیے گا۔ یہاں میرا بچہ آپ کے پاس بیٹھا ہے۔ اس کی زبان تو نہ بگاڑ یئے ۔ دہی کھٹا ہوتا ہے کھٹی نہیں ۔
احباب سے گذارش ہے کہ وہ یہاں پوسٹ ہونے والے خاکوں کا پرنٹ آوٹ نکال کر طلبہ اور اخبارات کی میزوں پر عام کریں
Читать полностью…آہ!مولانا حسرت موہانی کی یہ سادگی کہ کل کائنات ایک تیل والے کنستر میں سماجاتی ۔ اور نیند و آرام کے لیے دوکان کے تختے پر ہی لیٹ جاتے۔ نہ مچھر و گرمی کی تکلیف کا دکھڑا نہ ہی اسٹیٹس کی فکر
اتنا بڑا نام ؛ لیکن نہ تفاخر نہ پرتکلف طرز بود و باش نہ چمک دار لباس نہ خوشبؤں میں معطر نہ چمکیلی گاڑی نہ خدام کا ہجوم ۔
در اصل عظمت و عزت اور قدر و منزلت ایک وقیع تر دولت غیر مترقبہ ہے جو نہ تو مال و زر اور نہ ہی قوت و اقتدار اور نہ مناصب کی رفعت کی مرہون ہے اور نہ ہی اس کا تعلق خدم و حشم کی بھیڑ اور نہ جاہ و شرف سے ہے یہ تو ایک کیفیت کا سرنامہ ہے جو انسان کے خلق و مزاج میں قدرت کا عطا کردہ ہدیہ ہے۔
*وفیات : مورخہ 19 جون*
1747ء نادر شاہ شاہ افغانستان
1933ء سر فخر الدین
1976ء قاضی مجمد عیسی والد جسٹس قاضی فائز عیسی
1983ء ڈاکٹر حبیب الرحمٰن الٰہی علوی
1983ء شیخ محمد علی الحركان سکریٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ
1986ء حافظ حسن چنہ سندھی ادیب وشاعر
1996ء مولانا بدرالدین اصلاحی ناظم مدرسۃ الاصلاح سرائے میر
1999ء سید محمد تقی دانشور وصحافی،
2007ء راشد (سید اخترعلی )
2008ء مولانا سید محمد عامر ہنسوی
2008ء مولانا ولی محمد سیتا پوری
2010ء انور چودھری (انور خورشید) پروفیسر
2014ء خالد اقبال پینٹر
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
بھٹکل مسلم جماعت ممبئی اور بھٹکل کے مرکزی اداروں انجمن حامی مسلمین بھٹکل میں عرصہ تک آپ انتظامیہ ممبر رہے، اور اپنے نیک مشوروں سے مستفیدکرتے رہے ، انجمن میں ۱۹۷۰ ء کے الیکشن کے بعد ایک موقعہ پر کنگ میکر کا کام بھی انجام دیا ، اس الکشن کے کنوینر مرحوم منیری صاحب تھے، حالات ایسے بن گئے کہ عہدے داران میں مرکزی اہمیت سکریٹری کو حاصل ہوگئی تھی، غیر رسمی طور پر بحیثیت صدر جناب یس یم سید محی الدین مولانا، اور جنرل سکریٹری جناب یس یم یحیی کے نام پر اتفاق رائے ہورہا تھا، جوکہ اس وقت چنئی اور بنگلور میں رہتے تھے، اس طرح سکریٹری کے لئے ایک نام پر بھی تقریبا اتفاق ہوگیا تھا، انتخاب کے روز یم ٹی صاحب اور ان کے ہم زلف عبد اللہ لنکا صاحب بھٹکل پہنچے ، انہیں سکریٹری کے لئے مجوزہ نام کسی وجہ سے پسند نہیں آیا، انجمن کے ایک متحرک سینیر ممبر کے پاس پہنچ کر انہوں نے انجمن انتظامیہ میں پہلی مرتبہ داخل ہونے والے نوجون رکن حسن شبر دامدا کا نام تجویز کردیا ، اور چند گھنٹوں کے اندر کنونیسنگ کرکے انہیں سکریٹری کے عہدے پر فائز کردیا، اس انتخاب کے بعد شبر صاحب تقریبا بیس سال تک سکریٹری اور جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے، یس یم یحیی، محتشم عبد الغنی اور شبر کے تکون نے بے مثال رفاقت نبھائی،اور انجمن کی ترقی کی راہ میں انمٹ نقوش چھوڑگئے۔ شبر صاحب بقید حیات ہیں، اللہ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے۔وہ ۱۹۷۱ء میں جامعہ کی شوری کے بھی رکن منتخب ہوئے تھے، لیکن ان کی مصروفیات ایسی رہیں کہ وہ اس سے تادیر وابستہ نہیں رہ سکنے کی وجہ سے سبکدوش ہوگئے۔
ان کا ذریعہ معاش ممبئی سے وابستہ تھا، لہذا ان کا ایک وسیع حلقہ احباب اس شہر میں بن گیا تھا، یہاں پر ان کے دوست ، ہم خیال و ہمجولی چاروں طر ف پھیلے ہوئے تھے، ڈاکٹر صاحب ہمیشہ کسی نظریاتی جماعت کے نظم میں بندھے بغیر کام کرنے کو ترجیح دیتے رہے، لیکن ان کا فکری میلان ہمیشہ فکر مودودی اور جماعت اسلامی کی طرف رہا، ان کے زیادہ تر حلقہ احباب اسی فکر سے وابستہ تھا، آپ نے ان احباب کے ساتھ بڑا وقت گزارا اور ملی پلیٹ فارموں پر اپنی خدمات پیش کرتے رہے، سابق امیر حلقہ اور بعد میں اس سے علحدہ ہونے والی علمی و دعوتی شخصیت شمس پیرازد ہ سے آپ کے گہرے مراسم رہے۔
جب ۱۹۷۵ ءمیں ایمرجنسی لگی ، سہ روزہ دعوت اور زندگی وغیرہ بند ہوگئے، اور جماعت کی قیادت پابند سلاسل ہوگئی ،تو ڈاکٹر صاحب نے داعی کے نام سے ایک پندرہ روزہ شروع کیا، جو اپنے دورکا بڑا معیار ی پرچہ بنا، اسے تحریکی حلقہ کے معیار ی قلم کاروں کا تعاون حاصل تھا، اور اس کی اشاعت پندرہ ہزار تک اس وقت پہنچ گئی، اس زمانے میں ممبئی کے ہفتہ وار بلٹز کا بڑا نام تھا، جس میں خواجہ احمد عباس جیسے سرخے اپنا پیر جمائے ہوئے تھے، داعی کے قلم کاروں کی ٹیم نے اس وقت خوب جم کر اس کا مقابلہ کیا، اس میں شعر و ادب اور طنز ومزاح کےمستقل دلچسپ کالم شامل تھے، ایمرجنسی کے بعد بھی کچھ عرصہ یہ پرچہ جا ری رہا ، لیکن پھر دھیرے دھیرے پس پشت چلا گیا، اور جب بند ہوگیا تو چالیس ہزار روپئے کا قرض ڈاکٹر صاحب پر باقی تھا، ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ النوائط اور داعی کا دوبارہ اجراء ہو، اور یہ اپنے مشن کو دوبارہ سنبھالیں، لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی، اسی وجہ سے جب آپ کے ایک محب مولانا مختار احمد ندوی نے اسے خریدنا اور اور آپ کا تمام قرضہ اتارناچاہا تو آپ نے اس سودے کو قبول نہیں کیا ، یہ عجیب اتفاق دیکھیے کہ مولانانے یہاں سے مایوس ہوکرایک اور بھٹکلی محی الدین منیری مرحوم کے انجمن خدام النبی سے جاری کردہ ماہنامہ البلاغ کو اپنا لیا۔
ڈاکٹر صاحب کو بھٹکل کے تعلیمی اداروں میں اچھی اور معیاری شخصیات کو لانے کی ہمیشہ فکر لاحق رہی، انجمن آرٹس ایند سائنس کالج کے نامور پرنسپل ڈاکٹر سید انور علی مرحوم کو پونا سے ، انجمن پرائمری اسکول کی ہونہار استا نی صبیحہ کو بنگلور سے، اور جامعۃ الصالحات کی استانی شاہد ہ کو مالیگاوں سے لانے میں آپ سے تعاون اور رہنمائی ملی ، اور بقول مرحوم سابق مہتمم جامعہ مولانا شہباز اصلاحی مرحوم کی تعییانی کے لئے حضرت مولانا علی میاں علیہ الرحمۃ کو متوجہ کروانے میں بھی آپ کی شمولیت رہی۔
*ایک پیکر صبر ووفاء کی جدائی۔ ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی...(02)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) *
(مورخہ 17-06-2019ء ڈاکٹر صاحب کی رحلت پر لکھی تاثراتی تحریر۔ تاریخ وفات کی مناسبت سے پیش کی جارہی ہے
اس زمانے میں منیری صاحب کے تعلقات ان سے مزید مستحکم ہوئے، کہتے تھے کہ منیری صاحب کے بھتیجے عبد الرشید منیر ی کاکم عمری میں باندرہ ریلوے اسٹیشن پر اغوا ہوا، اغوا کار ایک گول مٹول خوبصورت لڑکے کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے، وہ انہیں ہزاروں میل دور ہاپوڑ لے گئے، جہاں انہوں نے سیب اور پھلوں کے باغات میں انہیں رکھا، آٹھ مہینے تک کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس دوران آپ کے والد محمد علی منیری بھی اکلوتے فرزند کی واپسی دیکھے بغیر اللہ کو پیارے ہوگئے، اتفاق سے ہاپوڑ کے ایک پڑوسی کو اس نووارد بچے کی حالت زار کا علم ہوا تو اس نے ایک خط کے ذریعہ منیری صاحب کو اطلاع دی، دہلی سے ہاپوڑ تک رفاقت کے لئے اس وقت آپ کی نظر ڈاکٹر یم ٹی ہی پر پڑی، دیس اجنبی تھا،جن سے واسطہ پڑ رہا تھا وہ خوفناک تھے، منیری صاحب نے آپ کو ساتھ لے لیا ، یم ٹی مرحوم راوی ہیں کہ اتنے دنوں بعداس عالم غربت میں بغیچے میں تنہا بھتیجے پر جو نگاہ پڑی تو صبر کا دامن ہاتھوں سے ٹوٹ گیا ، منیری صاحب ڈھاڑیں مار مار کر رونے لگے ، آپ کو اس طرح روتے شاید ہی کسی نے آ پ کو دیکھاہوگا۔
تعلیم مکمل کرکے آپ نے تین سال مدھیہ پردیش کے شہر برہان پور میں گزارے، جہاں کالج میں پڑھاتے بھی تھےاور دواخانہ بھی چلاتے تھے، یہاں کا ماحول خالصتا بریلوی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کا تھا، لیکن دہلی میں بڑوں کی صحبت نے زندگی کو بامقصد بنادیا تھا، مسلمانوں میں دعوتی و تعلیمی کام کی فکر لاحق ہوگئی تھی، یہاں آپ نے مقامی نوجوانوں کو تحریک دے کر تربیت اطفال کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور بلال نرسری اسکول کی بنیاد ڈالی، جو کہ اس شہر کو چھوڑنے کے بعد بھی عرصہ تک جاری رہا۔
۱۹۶۹ء میں آپ ممبئی منتقل ہوئے، اس زمانے میں انجمن اسلام طبیہ کالج ایک نامی گرامی ادارہ تھا، یوں تو اس کے پرنسپل حکیم مختار احمد اصلاحی مرحوم تھے، لیکن عملا ممبئی کے ایک فعال شخص ڈاکٹر محمد اسحاق جمخانہ والا، اس ادارے کے کرتا دھرتا تھے، یم ٹی صاحب کا ان سے تعارف تھا، جمخانہ والا نے آپ کو طبیہ کالج کا وائس پرنسپل مقرر کردیا ، جہاں آپ ۲۰۰۵ ء کے آس پاس تقریبا پچیس سال خدمات انجام دے کر سبکدوش ہوئے۔ یہی دور آپ کی زندگی کا زرین ترین دور رہا ۔
ممبئی میں معاشی وسائل کی فراہمی کے ساتھ ہی آپ کو بھنڈی بازار میں اپنا ایک فلیٹ لینا نصیب ہوا، اس وقت اس کی قیمت ۲۴ہزار روپئے تھی،جو اس زمانے کے لحاظ سے بڑی خطیر رقم تھی، ہمت افزائی کے لئے منیری صاحب نے بھی آپ کو ایک معقول رقم بطور قرض دی، یہ فلیٹ مختلف دینی ، قومی و ملی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ، یہاں ہر بدھ کو ہفتہ واری اجتماع ہونے لگا، ابتدا میں درس قرآن اور تبلیغی نصاب کی خواندگی یہاں یکساتھ ہوتی تھی، چند دنوں بعد 1970ء میں بائیکلہ میں عبد اللہ دامودی مرحوم کے فلیٹ پر ایک نشست میں ادارہ بنام آئی ٹی آئی کی داغ بیل ڈالی گئی، نام کے سلسلے میں اس وقت کی مختلف علمی و دعوتی شخصیات سے آپ نے رابطہ قائم کیا جن میں مولانا عامر عثمانی مدیر تجلی دیوبند اور مولانا اسحاق جلیس ندوی مرحوم سابق مدیر تعمیر حیات لکھنو شامل تھے، اور آخر الذکر کے مجوزہ نام کو پسند کیا گیا تھا۔ مولانا جلیس مرحوم ہی کے توسط سے آپ کا حضرت مولاناسید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے رابطہ ہوا۔ جاری۔۔۔۔
یادوں کا سفر(04-05)"عطر کی مہک جو نوے سال تک برقرار رہی"۔۔۔ تحریر : اخلاق احمددہلوی
Читать полностью…تعارفی صفحات : اسرار دربار حرامپور۔ تحریر: شرر لکھنوی
Читать полностью…ٹیبل صاف کرنے کا کام مل جائے گا، خط پڑھ کرسر پر گھڑوں پانی گرگیا، اور پھر تعلیم مکمل کرنے کی ایسی ٹھانی کہ دوسال محنت کرکے گیارھویں جماعت امتیازی درجات سے پاس کی ، یہ سنہ 1960ء کی بات ہے۔
یم ٹی صاحب کے بدلتے رنگ ، ان میں پڑھنے کے شوق ، اورلگن کو دیکھ کر الحاج محی الدین منیری صاحب نے جو ممبئی میں گوائی میراں صاحب کے بڑے گہرے دوست تھےمشورہ دیا کہ انہیں یونانی طبیہ کالج دہلی میں داخل کیا جائے، یہاں آپ نے چھ سال تعلیم طب میں گزارے، یہاں کا ماحول آپ کے فکر وعمل میں بنیادی انقلاب کا باعث بنا ، جہاں آپ جماعت اسلامی ہند کی اس وقت کی اہم شخصیات، مولانا ابواللیث ندوی، جناب سید حامد حسین وغیرہ سے قریب ہوئے، وہیں مرکز نظام الدین سے بھی نزدیکی ہوئی، یہ حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ تھا ، اس زمانے میں یم ٹی صاحب قرول باغ سے مرکز نظام الدین ہر جمعرات کو اجتماع میں پابندی سے شریک ہوتے ، حالانکہ قرول باغ سے مرکز کافی دور تھا، اور مواصلات کا نظام بھی اس زمانے میں کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا۔ یہی اثر تھا کہ جماعت اور تبلیغ کی فکر کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی لگن انہیں آخر تک رہی۔ (جاری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*وفیات : مورخہ 17 جون*
656ء حضرت عثمان بن عفان امیر المومنین
1858ء لکشمی بائی جھانسی کی رانی
1950ء سید وزیر علی
1969ء نواب صولت علی خان
1987ء افتحار علی قاضی، محمد
1989ء نشتر ترکی
1992ء عثمانی ، آئی ایچ (عشرت حسین)
1992ء عشرت حسین عثمانی جوہری طبیعیات دان
1998ء محمد متولی شعراوی مصری مفسر قرآن
2004ء صابررامپوری (صابر غلام ناصر خاں)
2004ء منور سہروردی
2004ء ڈاکٹر یوسف جاوید (محمد وسف علی)
2009ء مولانا ابومحفوظ الکریم معصوی محقق
2012ء فوزیہ وہاب سیاست دان
2012ء مولانا عبدالباری
2012ء آفاق صدیقی (محمد آفاق احمد)
2012ء بشیر احمد ناظم نعتیہ شاعر
2015ء سلیمان ڈیمرل صدر ترکیہ
2019ء ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی مدیر داعی ممبئی
2020ء طارق عزیز صداکار
2023ء ناشاد اورنگ آبادی (عین الحق) شاعر
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اس نظم کا عنوان تھا ”نہ تم دلی والے نہ ہم دلی والے“۔اس نظم کا روئے سخن ڈاکٹر خلیق انجم کی طرف تھا جو چھٹے ہوئے دلی والے تھے اور تاحیات انجمن کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ ایک دن مشہورنقاد، صحافی اور شاعر فضیل جعفری جب بمبئی سے دہلی آئے تو انھوں نے مجھے فون کرکے کہا جلدی آؤ، آج خلیق انجم کے پاس چلناہے۔میں دوڑا ہوا گیا۔ ہم دونوں اردو گھر پہنچے اور فضیل صاحب نے خلیق انجم کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا کہ ”یہاں کوئی اردو داں ہے؟“اس پر خلیق انجم نے مسکراکر ان کا استقبال کیا۔ فضیل صاحب ان کے سامنے خاموش بیٹھ گئے اور کچھ بھی بولنے سے معذرت کردی۔ خلیق انجم نے پریشان ہوکر ان سے پوچھا کہ آپ خاموش کیوں ہیں ، تو انھوں نے خلیق انجم کی میزپر رکھی ہوئی ایک نیم پلیٹ نما عبارت کی طرف اشارہ کیا جس پر لکھا تھا کہ ”یہاں بیٹھ کر میری سمجھ میں علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی گفتگو بالکل نہیں آتی ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں۔“ خلیق انجم نے فوراًوہ عبارت وہاں سے ہٹائی اور کہا کہ یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔اس طرح فضیل صاحب کی باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اطہرفاروقی کی میز پر ایسی کوئی عبارت نہیں ہے لہٰذا آپ ان سے ہرقسم کی علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی گفتگو کرسکتے ہیں۔ اردو اور انگریزی دونوں میں۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*اطہرفاروقی کی "انجمن"*
*معصوم مراد آبادی*
(نوٹ) چند روز قبل سوشل میڈیا پر یونیورسٹیوں میں دینی مدارس کے فارغین کے داخلے ،اور ان کے گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں پانے کے مخالفت میں ڈاکٹر اطہر فاروقی صاحب جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند کے موقف پر جو بحث چلی تھی تو اس پر ہمارے ایک دانشور دوست نے دریافت کیا تھا کہ کیا آپ نے ڈاکٹر صاحب پر معصوم مرادآبادی صاحب کا خاکہ نہیں پڑھا، یہ خاکہ آپ کی نئی کتاب میں شامل ہے، اس پر آج ہم نے معصوم صاحب سے اس خاکہ کو علم وکتاب کے احباب کے لئے پوسٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی، جسے آپ نے شرف قبولیت بخشتے ہوئے یہ خاکہ پوسٹ کیا ہے، معصوم صاحب بہت سی ایسی باتیں تحت اللفظ میں کہ جاتے ہیں، جنہیں پڑھ کر قاری طویل مضامیں اور بحثوں سے مستغنی ہوجاتا ہے۔
احباب سے ہماری گذارش ہے کہ صرف سوشل میڈیا پر آپ کے مضامین پڑھنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ اپنے طلبہ اور اداروں میں انہیں خرید کرکے رائج کرنے کا ماحول بنائیں۔
سوشل میڈیا پر مضامین پسند کرکے ان کی مطبوعہ کتابوں کی ترویج میں حصہ نہ لینا علم وکتاب کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔ امید کہ احباب اس جانب ضرور توجہ فرمائیں گے۔
شکریہ عبدالمتین منیری۔ اڈمن علم وکتاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی کچھ بھی کہے ہمارے دوست اطہرفاروقی کی قیادت میں اردو نہ سہی "انجمن" خوب ترقی کررہی ہے۔ انجمن ترقی اردو کا نیا آڈیٹوریم تیار ہوگیا ہے۔ لائبریری بھی ڈیجیٹلائز ہوگئی ہے اور خود انجمن کے جنرل سیکریٹری کا کمرہ بھی بہت آراستہ ہوگیا ہے۔ وہاں رکھی ہوئی قدیم اشیاء کو بھی سلیقے سے سجادیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ بابائے اردو جس کرسی پر بیٹھا کرتے تھے اسے ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے تاکہ اس پر کوئی اورنہ بیٹھ سکے،خوداطہرفاروقی بھی نہیں۔ڈاکٹر خلیق انجم کے دورمیں بابائے اردو کی جو کرسی جنرل سیکریٹری کی پشت پررکھی ہوئی تھی وہ آگے آگئی ہے۔
بلاشبہ ہمارے پرانے دوست اطہرفاروقی بہت کام کے آدمی ہیں گرچہ انجمن میں ابھی تک ان کی صلاحیتوں کا پورا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک پروگرام میں 'اردو گھر' جانا ہوا تو اطہرفاروقی سے انجمن کی چھوٹی سی لفٹ ہی میں ملاقات ہو گئی۔ ان کے دائیں ہاتھ میں پلاسٹر بندھا ہوا دیکھ کر تشویش ہوئی۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کے آدمی ہیں اور ان کی ذہنی تربیت بائیں بازو کے دانشوروں کی سب سے بڑی پناہ گاہ جے این یو میں ہوئی ہے۔پرانی کہاوت ہے کہ ٹوٹا ہاتھ گلے کو آتا ہے۔ اطہرفاروقی کا ہاتھ بھی ان کے گلے کے نزدیک تھا۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے خاصی تفصیل سے اس فریکچر کا حال بیان کیا جس سے وہ پچھلے دنوں دوچارہوئے تھے۔ ان کی تفصیل جان کر مجھے طنز ومزاح کے مشہور شاعرعلامہ اسرار جامعی بہت یاد آئے۔ ایک دن وہ اوکھلا میں اپنے گھر کے آس پاس ٹہلتے ہوئے مجھے ملے تو ان کے بائیں ہاتھ میں پلاسٹر چڑھا ہوا تھا اور ان کا بھی ہاتھ گلے کو آیا ہوا تھا۔ میں نے جب ان سے اس کا سبب پوچھا تو وہ شرماکرکہنے لگے ”کچھ نہیں ، ہاتھ بھاری ہوگیا۔“
اسرار جامعی توطنز ومزاح کے شاعر تھے اور ان کی شاعری ہی نہیں گفتگو میں بھی ان کا فن جھلکتا تھا۔ مگر اطہرفاروقی کا طنز ومزاح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک سنجیدہ دانشور ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ احتیاط بھی برتنی پڑتی ہے۔اردو سے زیادہ وہ انگریزی سے متاثر ہیں اسی لیے ان کے مزاج میں نزاکت اور نرگسیت دونوں ہیں۔ شروع شروع میں جب وہ انجمن کے جنرل سیکریٹری بنے تھے تو وہاں انھوں نے اپنے کام کا آغاز انگریزی سیمیناروں سے کیا تھا۔ ایسے ہی ایک سیمینار میں ہماری ان سے جھڑپ بھی ہوگئی تھی۔ جو بعد میں رفع دفع ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے بہت پرانے اور بے تکلف دوست ہیں۔
وفیات: مورخہ 16 جون
1901ء – شاہ جہاں بیگم (نواب بھوپال)
1981ء – نواب زادہ ولایت علی خاں
1983ء – سکندر علی وجد
1983ء – خورشید آرابیگم (پروفیسر)
1983ء – سکندر علی وجد (شاعر)
1992ء – فرید الدین احمد الوجیہہ (حافظ)
1993ء – قمر ہاشمی (سید اسماعیل شہید)
1993ء – مولانا نیاز محمد میواتی
1997ء – ولی ہاشمی
2000ء – حضور احمد شاہ
2008ء – حفیظ بنارسی (شاعر)
2011ء – سجاد سخن
2011ء – مولانا عبد الرشید جھنگوی
(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ – زیر ترتیب: عبد المتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
تغافل کو طرز کلام جانتے ہیں
کلام
حفیظ بنارسی (وفات: 16-06-2008ء)
لنک بھٹکل ٹی وی
https://www.youtube.com/watch?v=nsSWvHZT6HQ&list=PLDE0CAC9E73C4162C&index=3
کیا ہم مسلمان ہیں (٣٥) عرش رسا آوازیں ( دوسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
جب کوہِ اُحد پر اہلِ ایمان کے اُن قدموں میں ڈگمگا ہٹ آئی جو ہمیشہ جمے رہنے کے لیے بنے تھے!
جب خود پہاڑ لرز اُٹھا ___ جب کُفر نے اسلام کے کُھلے ہوئے سینے پر نا کام مشقِ ستم کے بعد اسلام کی پیٹھ میں خنجر اُتار دینے کے لیے دستِ ستم بڑھایا تو گھن گرج کو کُچل ڈالنے والی ایک آواز فضا میں لہرا رہی تھی ۔ یہ حضرت انس بن نضر رضى اللہ عنہ کی پُر شوق آواز تھی ۔ "اے سعد ؓ ! کہاں چلے ؟ کیا تم نہیں محسوس
کرتے ۔ مُجھے تو جنّت کی خوشبو اِسی اُحد کے پہاڑ سے آرہی ہے _____!"
پھر انھوں نے جواب کا انتظار کہاں کیا ؟ تابِ انتظار تھی کس کو ؟ جنّت کی خوشبو سے جو دماغ و دل میں بس گئے ہوں وہ دنیا کی عفونت میں کتنی دیر ٹِک سکتے ہیں؟ دوسرے ہی لمحے حضرت انس ؓ موت سے لشکر پر خود ٹوٹ پڑے تھے ۔ تلوار ان کے ہاتھ میں تھی اور جان ہتھیلی پر ! اور نگاہ اس جنّت پر جس کی محض خوشبو سونگھ کر وہ دنیا و ما فیہا سے دامن جھٹک کر چل دیے تھے ۔ جب ان کی رُوح خدا سے جا ملی تو لوگوں نے ان کے گھائل جسم کو دیکھا ایک ایسا جسم جس کو جسم سے زیادہ زخم کہنا موزوں ہوگا۔ ایک لاش جس کو ان کی بہن بھی فقط ہا تھ کے پوروں سے پہچان سکی تھی ! ایک مجاہد، ایک شہید جس کے جسم پر اسّی گھاؤ تیر اور تلوار کے کیے گیے ! اللہ اکبر ! اللہ اکبر ! لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ! اللہ اکبر ولِلله الحمد _____!
"اور مت کہ دینا مُردہ ان لوگوں کو جو راہِ خدا میں موت کے گھاٹ اُتارے گئے نہیں نہیں وہ تو جیتے جاگتے ہیں لیکن یہ سمجھنا تمھارے بس کی بات نہیں!"
یہی زخموں سے پارہ پارہ بدن گواہ ہے کہ زندگی وہی زندگی ہے جس کو دُنیا موت کہے جائے مگر خدا کہے کہ وہی تو زندگی ہے۔ لیکن ذرا ان مُردوں کا دھیان تو کرو جن کو تمام عمر کبھی اس زندگی کی آرزو تک نہیں ہوتی ! کیسے تھے وہ لوگ بھی جو حق پر مر جانے کو مِٹ جانے کو تڑپتے تھے ! اور اور کیسے ہیں ہم کہ حق پر جینے کے لیے بھی تیار نہیں ! واحسرتا ۔
______________________
حضرت ابو جندل رضى اللہ عنہ کتنے بڑے آدمی تھے اللہ اکبر! کتنے بڑے آدمی تھے یہی تو تھے وہ بزرگ جو مکّے سے زنجیریں تُڑا کر حدیبیہ کے اس مقام تک گِھسٹتے ہوئے آپہنچے تھے جہاں ان کے اپنے باپ کفّارِ مکّہ کے وکیل سہیل اور اُمّتِ اسلامیہ کے "صاحب ﷺ " کے درمیان صلح کا مُعاہدہ ہو رہا تھا ۔
"واپس جاؤ! سہیل نے جو ابھی تک کا فر تھے اپنے مومن بیٹے ابو جندلؓ کو تلخ ترین لہجے میں حکم دیا تھا ___ لیکن اخوتِ اسلامی کے حسین حلقے تک آجانے کے بعد پھر کفر کی آہنی زنجیروں کی طرف واپس جانا بھلا ایک مومن کے لیے کیوں کر ممکن ہو سکتا تھا۔ وہ واپس نہیں پلٹے ۔ چیخ اُٹھے۔ امتِ اسلامیہ کی طرف غم ناک آنکھیں اُٹھاتے ہوئے پکار اٹھے:
"مجھے بچاؤ !!"
اس چیخ نے رسول ﷺ اور مومنوں کے سینوں میں جذبۂ اخوّت کا طُوفان اُٹھا دیا معاہدہ کی مخصوص دفعہ کی زد سے ان کو بچانے کے لیے حضور ﷺ نے درخواست تک فرمائی مگر پتھریلا کُفر ایک قیدی کو دینے کے لیے کسی طرح بھی راضی نہ ہوا ۔ اب صرف ایک راہ باقی تھی بال سے باریک اور تلوار سے تیز تر ! مگر سیدھی خُدا تک لے جانے والی راہ ___ وہ راہ جس میں منزل ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ راہ جس میں خدا نے بندے کے ساتھ ہو جانے کا یقین اپنی کتاب میں ستّر(٧٠) بار دلایا ہے صبرِ جمیل کی راہ _____
"صبر ! اے ابو جندلؓ صبر! حضور ﷺ ضبطِ غم کی عظیم شان سے تلقینِ صبر فرما رہے تھے ۔ " صبر کرو ! دیکھو ہم نے ان سب سے یہ عہد کرتے ہوئے خدا کا نام لیا ہے صبر کرو خدا تمہارے لیے راہ نکالے گا "
ٹھیک یہی صورتِ حال حضرت ابو بصیر رضی الله عنه کے ساتھ اس وقت پیش آئی جب وہ ایمان لاکر مدینے میں داخِل ہوئے تو ان کے پیچھے پیچھے کفر کے ہرکارے صلح حدیبیہ کے تحت اپنے آدمی کو واپس لے جانے کے لیے حضور ﷺ کے پاس آئے۔ ایک طرف اخوّتِ اسلامی تھی تو دوسری طرف اس معاہدے کی یہ دفعہ کہ مکّے سے آنے والے کو مکّہ لوٹا دیا جائے گا ۔ ایک طرف جذبات تھے تو دوسری طرف اصول ابو بصیرؓ کا صبرِ جمیل ہی جذبات اور اصولوں کی درمیانی خیلیج کو پاٹ سکتا تھا __ اور انھوں نے خونِ دل و جگر سے ہنسی خوشی یہ خلیج پاٹ دی ۔
وہ دونوں واپس چلے گئے۔ دونوں نے صبر کا وہ جام اُٹھا یا جو زہرِ ہلاہل سے بھی زیادہ تلخ تھا مگر حق کوشی اور ایمان نے اس میں نہ جانے کون سی حلاوت گھول دی تھی کہ وہ ہنسی خوشی یہ تلخی جھیل گئے۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ انھوں نے آنکھیں بند کر کے خدا پر بھروسہ کیا اور خدا نے ان کے لیے راہ نکال دی ۔ حالات اس درجہ دگرگوں ہوئے کہ جو کافر ان کو ساتھ لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے وہی ان کو واپس مدینہ بلانے کے لیے التجائیں کرتے نظر آئے!
پسندیدہ مواد کو لائک کرنے میں بخل نہ کریں، اور تبصرہ کرکے علم وکتاب گروپ میں شامل ہوں۔
Читать полностью…احباب سے ہماری گذارش ہے کہ اگر آپ پماری کوششوں کو کتب بینی اور ذوق مطالعہ کے فروغ کے لئے مفید پاتے ہوں تو اس چینل کی لنک زیادہ سے زیادہ احباب کو شیر کریں، اور انہیں اسے وابستہ رہنے پر آمادہ کریں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ یہاں پر سوشل میڈیا سے مواد کاپی پیسٹ نہ ہو۔ بلکہ ہم خود معیاری جدید اور نایاب مواد اہل ذوق کی خدمت میں پیش کریں۔ (عبد المتین منیری )
Читать полностью…النوائط جب 1972ء میں جب جاری ہوا تب میں چنئی میں زیر تعلیم تھا، یہاں کے پتے پر جب یہ آنے لگا تو بھٹکلی احباب کی اندرون ہند ور بیرون میں سماجی اور قومی سرگرمیوں سے اس نے ہمیں مربوط کردیا ، اسے گھر کے کسی خط کی طرح ہم پڑھتے تھے، اور نئے شمارے کا انتظار کرتے تھے،یہ ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف تھا، جو تعلق میں بدلا اور کسی نہ کسی طرح ان کی وفات تک جاری و ساری رہا۔ اس دوران 1974ء میں فراغت کے بعد ممبئی میں چند ماہ گزارنے کا موقعہ ملا تو ڈاکٹر صاحب سے بڑی قر بت رہی، پھر 1978 ء کی تعطیلات یہاںگزاریں تب بھی تعلقات میں مزید گرمی پیدا ہوئی، ان کے تعلقات میں خلوص و محبت جھلکتی تھی، 1988 ء میں دبی حلقہ سے ہم نے علحدگی اختیار کی تو انہوں نے اسے شدت سے محسوس کیا، باوجود اس کے آپ سے ذاتی تعلقات و روابط میں کوئی بال نہیں آیا، وہ اسی احترام اور محبت سے ملتے تھے، اور پرانی باتوں کو یاد کرتے تھے، طبعا وہ ایک صلح کل انسان تھے، سب کو ساتھ لے کر جانا چاہتے تھے، لیکن دریا کی لہریں کشتیوں کی خواہشات پر کہاں چلا کرتی ہیں؟انہوں نے زندگی میں کافی رنج برداشت کئے ، اپنے جگری عزیزوں سے دوری کا غم انہیں سہنا پڑا، لیکن وہ صبر کا ایک پہاڑ تھے، انہوں نے راضی برضا رہنے کی بہترین مثال قائم کی، انہوں نے زندگی میں اجتماعی ، ملی ، تعلیمی اور تربیتی کام کرنے والوں کی ایک نسل تیار کی، لیکن ان کی رحلت کے بعد ایک معمولی جلسے کے علاوہ ان کی یاد میں کسی شایان شان اورقابل ذکر سرگرمی کا حال سننے میں نہیں آیا، گزشتہ ایک عشرہ ان کی تنہائی او رگمنامی کے نذر ہوگیا، لیکن امید ہے کہ ان کے اچھے اعمال کا پلڑہ وہاں بھاری ہوگا، جہاں اان کاموں کا دائمی اجر ملا کرتا ہے، وہاں یہ ضائع نہیں جائیں گے ، اور ان کے درجات بلند ہوتے رہیں گے۔اللہم اغفرلہ وارحمہ۔
06-07-2019
Https://telegram.me/ilmokitab
سال 1972ء کی انجمن گولڈن جوبلی بھٹکل کی تعلیمی و سماجی تاریخ کا ایک زرین واقعہ تھی، اس کے لئے بحیثیت کنوینر الحاج محی الدین منیری مرحوم کا انتخاب عمل میں آیا تھا، مرحوم ایک بہترین منتظم تھے، وہ نوجوانوں کو قریب کر کے ان سے کام لینے کاہنر جانتے تھے،وہ بھی زیادہ تر ممبئی ہی میں اقامت پذیر ہوا کرتے تھے، لہذا ممبئی جماعت سے وابستہ نوجوانوں سید خلیل الرحمں یس یم، ارشاد ، عبد اللہ دامودی وغیر ہ نے سونیر کی ذمہ داری لی ، یہ لوگ پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ پرنٹنگ اور اشتہارات اکٹھا کرنے کے فن سے آگاہ تھے، لہذا ممبئی کی اس ٹیم کی لگن اور جد وجہد سے گولڈن جوبلی کا تاریخی سونیر منظر عام پر آیا ، جس سے انجمن کے مالی استحکام میں بھی بڑی مدد ملی، گولڈن جوبلی کے ساتھ ہی آپ کے ساتھیوں کو نائطی زبان میں ایک پندرہ روز اخبار بھی جاری کرنے کا شوق پیدا ہوا، اسے پیدا کرنے میں حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی علیہ الرحمۃ کی رہنمائی کا بھی خاصا اثر تھا، جو پہلے روز سے نائطی زبان میں دینی لٹریچر تیار کرنے کی ہمت افزائی کرتے تھے ، گولڈن جوبلی ایک سنہرا موقعہ تھا، اس موقعہ سے فائدہ اٹھا تے ہوئے، النوائط کے قلمی نسخے کا اجراء ہو ا،چونکہ جوبلی کی مصروفیات اتنی زیادہ تھیں کہ اخبار کے پہلے شمارے کو پریس لے جانے کی فرصت نہیں تھی، بھٹکل کے معروف خطاط اور مصور الطاف دامودی کی کتابت اس شمارے میں غالب رہی ، النوائط پندرہ سال تک جاری رہا ، اور اس کی ادارت ڈاکٹر یم ٹی، عبدا للہ دامودی اور ڈاکٹر محمد حنیف شباب میں یکے بعد دیگرے چلتی رہی،قومی شاعر و ادیب سید عبدا لرحیم ارشاد مرحوم بھی ابتدا میں اس قافلے کے ساتھ رہے ، پھر انہوں نے اپنی راہ الگ بنالی، اور تین سال بعد پندرہ روزہ نقش نوائط ممبئی مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ کی دعاوں سے شروع ہوا، جو آپ کی رحلت کے بعد اب بھٹکل سے جاری ہے، اس پندرہ روزہ سے پہلے مورخ بھٹکل مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی مرحوم نے النوائط ہی کے نام سے ایک مجلہ کا آغاز کیا تھا، جس کے ناشر یس جے برہان الدین مرحوم تھے، یہ پرچہ بھی چند شماروں کے بعد دم توڑ گیا ۔
اسی دوران خبر آئی کہ بھٹکل میں کرسچین مشنری اسکول آنے والا ہے، ڈاکٹر صاحب کو اطفال کی تعلیم و تربیت کا برہان پور سےتجربہ تھا، آپ اور ساتھیوں نے مل کر اسکے اثر کو ختم کرنے کے لئے اسلامی بنیادوں پر ایک عصری تعلیمی اسکول کے قیام کا منصوبہ بنا یا ، ایک سال کے اندر یہ منصوبہ روبہ عمل آیا ، اور مین روڈ پر بسدی کےپڑوس میں نشاط گارڈن میں اپنے محدود وسائل کے ساتھ شمس نرسری اسکول کے نام سے اس کا آغاز ہوگیا، مشنری اسکول نے بڑی چالاکی سے کام کیا تھا، مسلمانوں کو رجھانے کے لئے قرآن و دینیات کی تعلیم کے لئے ایک سند یافتہ قاری کی خدمات بھی انہوں نے حاصل کی تھیں ، لیکن نرسری اسکول قائم کرنے والوں کے اخلاص اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ دو چار سالوں میں مشنری اسکول نے بوریہ بستر باندھ لیا، اور چند سال دم لے کردوبارہ منظم ہوکراس نے دوبارہ بھٹکل میں اپنے شاطرانہ پنجے گاڑدئے ۔ نرسری پھر بستی روڈ پر پرانے مسمار شدہ فلم ٹھیٹر کی جگہ پر منتقل ہوا، یہاں سے اب جامعہ آباد روڈ پر اپنی وسیع مملوکہ زمین میں نیو شمس انگلش اسکول کے نام سے ایستادہ ہوا۔ اور نیک نامی کے ساتھ نونہالا ن قوم کی تعلیمی اور تربیتی خدمات انجام دے رہا ہے۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ آپ کی بزم علم وکتاب میں ایسا مواد پیش ہو جو نادر اور دلچسپ ہو، ذوق مطالعہ کو مہمیز دے، اور پانچ دس منٹ میں قاری اس کے مطالعہ سے فارغ ہوجائے اور آئندہ پر نہ ٹالے، جو سوشل میڈیا کی ریل پیل اور مصروفیات میں کبھی نہیں آتا۔
اب جن احباب تک یہ مواد پہنچتا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کا پرنٹ آوٹ لے کر اپنے طلبہ، خوردوں اور احباب میں انہیں پھیلائیں، اور جس طرح احباب پر چائے پارٹی کی باری آتی ہے، ان کے پرنٹ آوٹ کی بھی اسی طرح باری لگے، تاکہ ذوق مطالعہ میں بھی اشتراک ہو،اور کسی ایک پر بوجھ نہ پڑے، علاوہ ازیس مدارس کے دارالمطالعہ اور لائبریریوں میں اخبارات کے ساتھ ساتھ ان کی کاپیاں بھی طلبہ کے سامنے رکھنے کا اہتمام ہو۔
فرمائش، طلب، تحریک ، تبصرے ہوتے رہیں گے، لیکن ان سے اہم کتب بینی اور فروغ مطالعہ میں ان مضامین کا استعمال ہے۔ یہی ہماری ترجیح اور مقصود ہے۔
عبد المتین منیری
ایمان کی سلامتی
فیلسوفِ اسلام، مولانا عبد الباری ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے لکھا ہے: دین کا سب سے گراں اور انمول سرمایہ، ایمان ہے، لیکن اس دورِ دجل و فتن کی ساری زندگی، سب سے زیادہ ایمان ہی کی دشمن ہے۔ اس کے علومِ عقیلہ و فلسفیہ سے بڑھ کر اس کی عام تعلیم و تہذیب، سیاست و حکومت، تمدن و معیشت، اخلاق و معاشرت، غرض ہر ہر چیز، دق کے جراثیم کی طرح اندر ہی اندر اور اکثر غیر شعوری طور پر بے خبری ہی میں، ایمان کو ضعیف و مضمحل کرتے کرتے بالآخر فنا یا زندہ درگور کرکے رہتی ہے۔ بچے کھچے خالص دینی گھرانے اور خالص دینی تعلیم گاہیں تک ان ایمان کش اثرات کی دست برد سے محفوظ نہیں۔
تجدیدِ تصوف و سلوک، صفحہ: ۲۰۵/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
(علم و کتاب گروپ)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*ایک پیکر صبر ووفاء کی جدائی۔ ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی...(01)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) *
(مورخہ 17-06-2019ء ڈاکٹر صاحب کی رحلت پر لکھی تاثراتی تحریر۔ تاریخ وفات کی مناسبت سے پیش کی جارہی ہے)
جون 17 کی تاریخ تھی ،نماز مغرب کے بعد دبی کے القوز قبرستان میں ہمارے ایک دوست سے نماز جنازہ سے فارغ ہو کر ابھی ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی کی صحت کے بارے میں دریافت کرہی رہا تھا، کہ خبر آئی کہ ڈاکٹر یم ٹی صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ، ایک روز پہلے میں بھٹکل میں تھا، ان کے بعض خاص احباب وغیرہ سے ملاقات ہوئی تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کی علالت کی کوئی خبر اس وقت تک عام نہیں ہوئی تھی۔
خبر سنتے ہی آپ کا ہنستا مسکراتا، امید کی روشنی سے دمکتا کتابی چہرہ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا،جب بھی وطن جانا ہوتا، ان سے ملاقات کبھی نہ کبھی ہوجا کرتی تھی، حالانکہ گزشتہ کئی سالوں سے وہ گوشہ نشین سے ہوگئے تھے، گھٹنے کے درد نے انہیں چلنے پھرنے سے معذور کردیا تھا ، کوئی دس ماہ قبل ان کے دیرینہ ساتھی عبد اللہ دامودی مرحوم بیمار تھے،تو میں ان کی عیادت کے لئے جارہا تھا تو انہیں بندر روڈ پر پارک سے متصل اپنے مکان دار الامن کے باہر کرسی پر بیٹھے دیکھا، قریب ہی ایک دیندارنوجوان ان سے راز ونیاز کی باتیں کررہا تھا، جیسے کوئی مرید اپنے پیرو مرشد سے کیا کرتا ہے،وہ دامودی صاحب کی عیادت کے لئے جانے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لیکن ان کے چہرے مہرے سے لاچاری محسوس نہیں ہورہی تھی،اس وقت بھی ان کی میں زندہ دلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ دل کھول کر باتیں کررہے تھے، عیادت کرکے واپس آیا تو وہ ابھی وہاں موجود تھے گویا میرا انتظار کررہے ہوں، پھرپرانی یادیں تازہ ہونے لگیں، ڈاکٹر صاحب تعلقات نبھانے والے انسان تھے، ایک بار ان سے جوتعلقات قائم ہوگئے تو پھر ان میں دراڑ شاذونادر ہی پڑتی تھی، وہ دوستیوں کو نبھانا جانتے تھے، عمروں کا فرق ان کے روابط وتعلقات میں آڑے نہیں آتا تھا۔انہوں نے 1940 میں اس دنیا میں آنکھیں کھولی تھیں، لیکن 79 سال گزرنے کے باوجود کبھی ان کے رویوں سے محسوس نہیں ہواکہ ان پر پیرانہ سالی چھا گئی ہے، یا پھر ان کا دماغ بوڑھا ہونے لگا ہے۔
آپ کا آبائی مکان تکیہ محلہ کراس میں دامدے منا ہاوس تھا، جو آپ کے والد سعدا محمد تقی کوزاپو اور ان کے بھائیوں میں مشترک تھا ، آپ کا شمار بھٹکل کے کامیاب تاجروں میں ہوتا تھا، منگلور میں آپ کاروبار کیا کرتے تھے، اسی طرح آپ کے چچا سعدا محمد جفری کوچوصاحب جو کہ بانیان جامعہ میں شامل تھے، وہ بھی تجارت پیشہ تھے، منگلور کی سعدا اینڈ کمپنی کو اس کے زوال کے دنوں میں سنبھالا دیا تھا، ابھی آپ کی عمر دیڑھ سال کی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، اور ابھی ان کی عمر چھ سال کی ہورہی تھی کہ آبائی مکان کو تنگی کی وجہ سے چھوڑ کر فاروقی مسجد کے قریب گوائی منزل منتقل ہونا پڑا ،اسی مکان کی پہلی منزل پر کوئی سولہ سال بعد ایک استاد اور دو کم سن بچوں کی بسم اللہ خوانی سے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی بنا پڑی تھی، اب آپ اپنے بہنوئی محمد میراں گوائی مرحوم کی سرپرستی میں آگئے تھے، میراں صاحب کا قیام عموما ممبئی میں رہتا جہاںوہ کاروبار سے وابستہ تھے، اس زمانے میں شہروں اور قصبوں کے درمیان فاصلے بہت لمبے ہوا کرتے تھے ، جہاں آج ممبئی بارہ گھنٹوں میں بس یا ٹرین پر پہنچتے ہیں، وہیں یہ سفر بخاری جہاز اور بس پر تین دن اور تین راتوں میں طے ہوتا تھا، تلاش معاش اور تجارت کا راہی عموماً سال بھر گزار کرہی وطن لوٹتا تھا، گھر والوں سے رابطہ کا واحد ذریعہ خطوط ہی ہوا کرتے تھے، جو کبھی ہفتے بعد اپنے منزل مقصود پر پہنچتے ، ایسے ماحول میں بچوں پر سرپرستوں کی نگرانی کا کیا سوال؟ ، بس اللہ کا سہارا ہوتا، نصیبے اچھے ہوتے، دعائیں اثر کرتیں تو زندگی پار لگ جاتی ، ورنہ ناخواندگی اور جہالت کو عام ہونے سے روکنے والے اسباب بہت سارےتھے ، اب یتیم حسن باپا کی پردہ نشین ماں کہاں تک اپنے شریر بچے پر قابو رکھ پاتیں، انجمن میں لشتم پشتم تعلیم ہوتی رہی، لیکن گلی کوچے کے بچوں کے ساتھ کبھی ہوناور ، کبھی شرالی اور مردیشور میں گھومنے پھرنے اور آوارگی ہی میں زیادہ ان کا دل لگتا ، یہاں تک کہ نویں کلاس میں پہنچ کر لڑھک گئے، اب پڑھنے میں مزید کیسے جی لگتا ، ہمجولی اب ان کی عمر سے چھوٹے ہوگئے تھے ، ان کے ساتھ درجے میں بیٹھنے میں شرم سی آنے لگی تھی،اس زمانے میں انہیں قاضی اکرمی ، مولانا خیال وغیرہ اساتذہ کو ستانے میں مزہ آتا تھا، لہذا شرارت کی اس جیتی جاگتی تصویر کو مولانا خیال نے یم ٹی کا نام دے دیا تھا، جس میں جہاں والد ماجد کے نام محمد تقی کا مخفف تھا، تو وہیں انگریزی کے empty یعنی خالی ہونے کی تلمیح بھی۔ آپ نے گوائی میراں صاحب کو لکھا کہ ان کا جی یہاں پڑھنے میں نہیں لگ رہا ہے، انہیں ممبئی بلا لیں، جواب آیا کہ ٹھیک ہے چننا ہوٹل میں بات ہوگئی ہے، آنے پر وہاں گلاس اور برتن دھونے اور
یادوں کا سفر (03) منشی ذکا اللہ اور آقا حشر کاشمیری میں گالم گلوچ
تحریر: اخلاق احمد دیلوی
اطہرفاروقی سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ روزگار کی تلاش میں نئے نئے سکندرآباد سے دہلی آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم کتابت اور خطاطی کا فن سیکھ کر بعض اردو اداروں میں کتابت کررہے تھے۔غالباً 1982 کا سنہ تھا۔ پرانی دہلی کی گلی قاسم جان میں ماہنامہ ڈائجسٹ ”چہاررنگ“ کا دفتر مسلم ہوٹل کے دوکمروں میں واقع تھا۔ ایک میں ”چہاررنگ“ کے مالک و مدیر طارق مصطفی صدیقی بیٹھا کرتے تھے جو مولانا عبدالوحید صدیقی کے بیٹے تھے۔ہرقسم کی لت پالنے کا انھیں شوق تھا۔ہمارا کمرہ ہوٹل کی بالکونی کی طرف تھا جہاں سے ہم گلی قاسم جان کی رونقوں کا نظارہ کرتے تھے، جبکہ طارق صدیقی اپنی اسسٹنٹ کے ساتھ کمرہ بند کرکے تنہا بیٹھتے تھے۔ ایک دن وہ ہمارے کمرے میں آکر ادارے کے منیجر ضیاء الرحمن سے کہنے لگے ”ضیاء صاحب، سکندرآباد سے ایک لڑکا آیا ہے کام کی تلاش میں۔ ہے بہت خوبصورت۔ اردو بھی جانتا ہے۔رکھ لیں اسے۔" طارق صدیقی نے نئے مہمان کی خوبصورتی کاذکر اس انداز میں کیا کہ ہمارا بھی اسے دیکھنے کو جی چاہا۔ تھوڑی دیر میں طارق صدیقی اس لڑکے کولے کر ہمارے کمرے میں آئے تو ان کی بات درست نکلی۔ ضیاء صاحب نے نام پوچھا تو بتایا۔”اطہرفاروقی۔“
یہ اطہرفاروقی سے ہماری پہلی ملاقات تھی، جو ان کی خوبصورتی کے حوالے سے ہوئی تھی۔خوبصورت تو ماشاء اللہ وہ آج بھی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی عمر نے اس خوبصورتی پر بھی ڈورے ڈالے ہیں اور وہ ہماری طرح بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں۔پھرجب اطہرفاروقی کو اردو صحافت سے شغف ہوا تو ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا کہ ہماری جیب میں پیسے نہیں ہوئے تو اطہرفاروقی نے اپنی جیب سے چائے پلائی اور کبھی اطہرفاروقی کی جیب خالی ہوئی تو ہم نے انھیں چائے پر مدعو کیا۔ وہ بھی پرانی دلی کے چنڈوخانوں میں۔ ان سے بیشتر ملاقاتیں وہیں سڑک پر چلتے ہوئے یا پھر کسی اخبار یا میگزین کے دفتر میں ہوتی تھیں۔ اطہرفاروقی کی تعلیم تو جے این یو میں ہوئی ہے، لیکن ان کی ذہنی تربیت میں دولوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ان میں ایک نام ہے مشہورشاعر مخمور سعیدی کا اور دوسرانام ہے افسر جمشید کا۔ افسر جمشید ہر فن مولا قسم کے آدمی تھے۔ ”روبی“ میگزین کے ایڈیٹر تھے اور بجنور سے ان کا تعلق تھا۔ خوبی ان کی یہ تھی کہ وہ لوگوں کو نیند کے بغیر خواب دکھاتے تھے۔
اطہرفاروقی جے این یو کیسے پہنچے، یہ ہمیں نہیں معلوم، لیکن وہاں پہنچ کر ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا اور وہ خودکو ترقی پسندوں کی صف میں شمار کرنے لگے۔ہمیں کبھی کسی دانش گاہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا، اس لیے ہم دانشوری سے کماحقہ واقف نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے دوست اطہرفاروقی کی انگریزی پر بھی رشک آتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ اچھی انگریزی جانتے ہیں اور ڈکشنری کے بغیر انگریزی لکھنے اور بولنے پر قادر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دوستوں کا دائرہ اردو سے زیادہ انگریزی دانشوروں تک ہے۔
ہم جب بھی کسی ترقی پسند دانشور سے ملتے ہیں تو ہمیں اپنے ایک پرانے دوست خورشید الحسن کی یادآتی ہے، جنھیں لذیذ کھانے بنانے کا شوق تھا اورکچھ عرصہ انھوں نے لندن میں گزارا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مشہور ومقبول پاکستانی شاعر احمدفراز لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے تھے اور اسی کمپلیکس میں مقیم تھے جہاں خورشید صاحب رہتے تھے۔ دونوں میں دوستی ہوگئی اور احمدفراز خورشید صاحب کے دسترخوان تک پہنچ گئے۔ لذیذ کھانے کھاکر بہت متاثر ہوئے اور نئی نئی فرمائشیں کرنے لگے۔ ایک دن کھانے کے دوران انھوں نے خورشید صاحب سے کہا کہ ”اگلے اتوار کو آپ پسندے بنائیے گا۔“ اس پر خورشید صاحب نے معذرت کی کہ ہمیں ’پسندے‘ بنانے نہیں آتے۔ احمدفراز نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ ”کیسے علی گیرین ہیں کہ آپ کو ’پسندے‘بنانے نہیں آتے۔“ اس پر خورشید صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ”علی گڑھ میں دراصل ہم ’ترقی پسندے‘ بنایا کرتے تھے۔“
بات ہورہی تھی اطہرفاروقی کی اور پہنچ گئی ان کی دانشوری کے حوالے سے لندن۔ ہم پھر انجمن ترقی اردو کے دفتر واپس آتے ہیں، جو’اردو گھر‘ کی تیسری منزل پر واقع ہے۔ جب یہ عمارت تعمیر ہوئی تھی اور ڈاکٹر خلیق انجم اس ادارے کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے تھے تو یعقوب عامر نے ایک نظم کہی تھی۔اس کا ایک شعر کچھ یوں تھا
بنا ہے ساتویں آسماں پہ اردو کا گھر
قدم زمین پر رکھتے نہیں دلی والے
چندے کی عجب تکنیک
/channel/ilmokitab
میری عمر کوئی آٹھ سال کی ہوگی کہ رمضان شریف آگیا اور میرے محراب سنانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ بیگم صاحبہ جو اپنے تئیں میری دوا یعنی کِھلائی، ہر آئے گئے سے کہتی تھیں اور جنھوں نے مجھے بِن ماں کا ہونا بھلا دیا تھا، چاہتی تھیں کہ اتنی کم سنی میں میرے حافظ قرآن ہونے اور پہلی محراب سنانے پر چاندی کی طشتریاں سارے محلے اور رشتے کنبے میں تقسیم کی جائیں جن میں چار چار حلوۂ سوہن کی ٹکیاں ہوں۔
یہ خبر جب مولانا محمدعلی جوہر تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ اسرافِ بے جا ہے۔ اور میری دادی اماں سے کہلوایا کہ چاندی کی طشتریوں کے بجائے تانبے کی طشتریاں تقسیم کی جائیں اور حلوۂ سوہن کی جگہ بالو شاہی بانٹے جائیں۔ اور اس طرح جو رقم بچے وہ تحریک خلافت میں چندے کے طور پر جمع کرادی جائے۔
مولانا احمد سعید ناظم جمعیۃ علماء ہند کو جب یہ تجویز معلوم ہوئی تو انھوں نے میری دادی اماں سے کہا کہ تانبے کی طشتریوں کی جگہ بالو شاہی پتنگ کے کاغذ کے ہرے اور لال لفافوں میں بانٹ دیے جائیں اور اس طرح جو رقم نکلے وہ جمعیۃ علماء ہند کے فنڈ میں جمع کرائی جائے ۔ آصف علی بیرسٹر جن کی حویلی بالکل ہمارے گھر کے سامنے تھی، انھوں نے میرے والد سے کہا کہ بالوشاہی کی جگہ اس خوشی کے موقع پر آپ کو بتاشے بٹوانے چاہئیں اور جو روپے اس طرح بچیں وہ کانگریس کے چندے میں جانے چاہئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک روپیہ چندے میں دینا بھی بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔
چنانچہ میری دادی اماں نے یہ طے کیا کہ تحریک خلافت، جمعیۃ علماء ہند اور کانگریس؛ سب کو اپنی حسبِ توفیق اور ان کی حسب حیثیت چندہ بھی دے دیا جائے اور بچے کی خوشی میں بھی کوئی فرق نہ آئے۔
انتخاب از ”یادوں کا سفر“ (خود نوشت)، مصنفہ: اخلاق احمد دہلوی، ص: 17–18۔
(علم و کتاب گروپ)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ارباب مروت کو یہاں
کلام وآواز
سکندر علی وجد
وفات: 16-06-1983ء
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=arbab-muruwat-ko-yahan-kam-bahut-hai, Arbab Muruwat ko yahan kam bahut hai
_____ مسلمان تو ہم بھی ہیں مگر ہم رات اور دن کو دیکھ دیکھ کر آگے قدم بڑھاتے ہیں ۔ وہ لوگ بھی مسلمان تھے مگر وہ اس ذات کی طرف دیکھا کرتے تھے جس کی قوّت سے دن میں سے رات اور رات میں سے دن نکل آتا ہے۔ اسی لیے ہم گردشِ ایّام کے تھپیڑے کھاتے پھرتے ہیں اور گردشِ ایّام ان کے سامنے تہہ وبالا ہوا کرتی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں قسم کے مسلمان ، مسلمان ہی ہیں ۔ خدا کرے ایسا ہی ہو ۔ ورنہ سوچو تو سہی ہم جیسوں کا کہاں ٹھکانہ ہے ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
آپ کے تبصروں اور تاثرات سے کام کرنے والوں کو تحریک ملتی ہے، اس چینل کے ساتھ گروپ سے بھی وابستہ ہے، جس میں آپ پیغامات بھیج سکتے ہیں، پیغامات پڑھ کر خاموشی سے نہ گذریں۔ اس سے آپ کے لئے محنت کرنے والوں کو ہمت نہیں ملتی، اور نہ کام کا شوق بنتا ہے۔
Читать полностью…