علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
حضرت مولانا منیری صاحب بہت شکریہ۔
*وللارض من کأس الکرام نصیب*
میری ( اخلاق احمد دہلوی) عمر کوئی آٹھ سال کی ہوگی کہ رمضان شریف آ گیا اور میرے محراب سنانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ بیگم صاحبہ ( بہادر شاہ ظفر کی وہ ہوتی جو غدر کے زمانہ سے ہمارے گھر میں مقیم تھیں) جو اپنے تئیں میری دوا یعنی کھلائی ، ہر آئے گئے سے کہتی تھیں اور جنہوں نے مجھے بن ماں کا ہونا بھلا دیا تھا، چاہتی تھیں کہ اتنی کم سنی میں میرے حافظ قرآن ہونے اور پہلی محراب سنانے پر چاندی کی طشتریاں سارے محلے اور رشتے کنبے میں تقسیم کی جائیں جن میں چار چار حلوہ سوہن کی ٹکیاں ہوں ۔
یہ خبر جب مولانا محمدعلی جوہر تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ اسراف بے جا ہے۔ اور میری دادی اماں سے کہلوایا کہ چاندی کی طشتریوں کے بجائے تانبے کی طشتریاں تقسیم کی جائیں اور حلوہ سوہن کی جگہ بالو شاہی بانٹے جائیں ۔ اور اس طرح جو رقم بچے وہ تحریک خلافت میں چندے کے طور پر جمع کرادی جائے۔
مولانا احمد سعید ناظم جمعیت العلمائے ہند کو جب یہ تجویز معلوم ہوئی تو انہوں نے میری دادی اماں سے کہا کہ تانبے کی طشتریوں کی جگہ بالو شاہی پتنگ کے کاغذ کے ہرے اور لال لفافوں میں بانٹ دیئے جائیں اور اس طرح جو رقم نکلے وہ جمعیت العلمائے ہند کے فنڈ میں جمع کرائی جائے ۔ آصف علی بیرسٹر جن کی حویلی بالکل ہمارے گھر کے سامنے تھی ، انہوں نے میرے والد سے کہا کہ بالو شاہی کی جگہ اس خوشی کے موقع پر آپ کو بتاشے بنوانے چاہئیں اور جو روپے اس طرح بچیں وہ کا نگریسی کے چندے میں جانےچاہئیں ۔ یہ وہ زمانے تھا جب ایک روپیہ چندے میں دینا بھی بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔
چنانچہ میری دادی اماں نے یہ طے کیا کہ تحریک خلافت ، جمعیت العلمائے ہند اور کانگریس سب کو حسب توفیق اور ان کی حسب حیثیت چندہ بھی دے دیا جائے اور بچے کی خوشی میں کوئی فرق بھی نہ آئے۔
اقتباس از: مولانا فہیم الدین صاحب گورکھپوری
یادوں کا سفر(02) اخلاق احمد دہلوی
مولا نا محمد علی نے بچے کے پیچھے نماز پڑھی
حکیم حبیب اشعر (وفات : 15-06-1971ء)
تحریر: مقبول جہانگیر
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/habeeb-ashar-by-maqbul-jahangir/Habeeb%20Ashar%20By%20Maqbul%20Jahangir.pdf
قند مکرر
*دین کی حفاظت*
*خطاب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ*
بوقت افتتاح مکتب جامعہ اسلامیہ بھٹکل۔ سنہ 1976
(*یہ خطاب اس ناچیز نے ریکارڈ کیا تھا۔ پھر اس کا متن تحریر کرکے نقش نوائط میں شائع کیا تھا۔ غالبا یہ حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ کی کسی تقریر کی واضح ترین ریکارڈنگ ہے*)
یوٹیوب کلپ
https://www.youtube.com/watch?v=FKQbz_x10HE&list=PL5AFF3B0018DDC975&index=116
مکمل خطاب
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=din-ki-beqa, Din Ki Beqa
صور من حياة الصحابة - نعيم الاشجعي بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا رحمه الله
Читать полностью…یادوں کا سفر(02) اخلاق احمد دہلوی۔۔۔۔ آئندہ قسطیں ان شاء اللہ فرمائش پر پوسٹ ہونگی۔ احباب سے گزارش ہے کہ اس محفل میں ون وے ٹریفک نہ چلائیں۔ اس میں جو بھی آپ کے لئے محنت کررہا ہے اسے تحریک دیں،تحریریں تاثرات کے علاوہ بھی آپ کا معمولی لائک یا ڈس لائک کا ایموجی تحریک دینے میں گروپ کو فعال بنانے اور اسے معیاری ومفید بنانے میں مفید ثابت ہوتا ہے
Читать полностью…آپ کو یاد ہوگا کہ میں ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم کی فرمائش پر ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی مرحوم کے اردو مضامین فراہم کر رہا تھا بلکہ آپ کی وساطت سے احمد آباد سے کئی مضمون بھی موصول ہوئے تھے۔پھر معلوم ہوا کہ بنارس یونیورسٹی کے پروفیسر حسن عباس یہ کام قریب قریب مکمل کر چکے ہیں اور مجموعہ شائع ہونے والا ہے۔معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ مجموعہ مقالات وہاں چھپ گیا ہے یا نہیں ؟ آپ اگر کسی ذریعہ سے یہ معلوم کرکے مطلع کر دیں تو مہربانی ہوگی۔اللہ کرے آپ ہر طرح خیر وعافیت سے ہوں۔
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
پس نوشت:محترم خورشید رضوی صاحب کو آپ کا سلام پہنچا دیا تھا ۔وہ بھی سلام کہتے تھے۔کوئی ڈیڑھ ماہ سے ان کی طبیعت ناساز ہے ۔دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا کرے اور سلامت باکرامت رکھے۔فقط
(۱۲)
۱۳۔جولائی ۲۰۱۴ء
محترم شیخ صاحب!السلام علیکم
کل آپ کا ارسال کردہ علمی تحفہ’’عربی زبان وادب کی ترقی میںگجرات کے دانشوروں کا حصہ‘‘مولفہ ڈاکٹر باقر علی ترمذی مرحوم کا اردو ترجمہ از محبوب حسین عباسی صاحب موصول ہوا جس کے لیے میں سراپا سپاس ہوں۔یہ آپ کی مہربانی ہے کہ ایسے نایاب تحفوں کے لیے مجھے یاد رکھتے ہیںورنہ میری ان تک رسائی معلوم۔یہ بڑاعلمی کام ہے جو اردو ترجمہ کے باعث ہم جیسوں کی دسترس میں آگیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ ایک حوالہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ سطور بطور رسید ارسال کر رہا ہوں ۔آج کل یہاں گرمی اور حبس کی شدت ہے۔ رمضان شریف کے باعث لکھنا معطل اور پڑھنا کم کم ہے۔پچھلے دنوں لُو لگ گئی تھی ،بخار ہوگیا ،اب افاقہ ہے مگر نقاہت ہوگئی ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت باکرامت رکھے۔دعا ؤںمیں یاد رکھیے۔
والسلام
مخلص
مظہر محمود شیرانی
(۱۳)
۴؍اپریل ۲۰۱۸ء
عزیز گرامی راشد شیخ صاحب!سلام اور دعائیں
امید ہے آپ بفضل خدائے متعال ہر طرح بخیرو عافیت ہوں گے۔میری مرتبہ ایک چھوٹی سی کتاب ’’جگن نامہ مو ہن گڑھ ‘‘ حال ہی میں مجلس ِ ترقی ادب لاہور نے شائع کی ہے۔اس کا ایک نسخہ آپ کے لیے بھیج رہا ہوں
آپ کو یاد ہوگا ایک صاحب عبدالصمد بزمی انصاری ہوا کرتھے (۱۹۱۳۔۱۹۸۹)۔صاحب علم وقلم تھے۔وفات کراچی میں ہوئی تھی اور سخی حسن کے قبرستان میں محو خواب ابدی ہیں۔انھوں نے دوسرے کاموں کے علاوہ علامہ سعد اللہ خان پر بھی ایک طویل مضمون لکھا تھا جو جامعہ پنجاب کی ریسرچ سوسائٹی کے جرنل میں متعدد اقساط میں چھپا تھا۔میرے دوست پروفیسر محمد رفیق ( سابق صدر شعبہء فارسی جی سی یونیورسٹی لاہور ) نے اس مقالے کو یکجا کر کے کچھ اضافے کیے ہیں اور حواشی دیے ہیں۔وہ اسے کتابی صورت میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ اخلاقاً بزمی انصاری مرحوم کے ورثا سے جو یقیناً کراچی میں ہوں گے اس کی اشاعت کی اجازت لے لی جائے۔اگر آ پ یا آپ کے حلقے کے کوئی صاحب ان سے واقف ہوں تو اس ضمن میںاعانت کیجیے۔
والسلام
مخلص
مظہر محمود شیرانی
جیسا کہ اوپر ذکر آیا شیرانی صاحب کو شاعری سے بھی شغف تھا اور شاعری کی مشکل ترین صنف یعنی تاریخ گوئی میں انھیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ان کی آخری کتاب جو راقم کو موصول ہوئی یعنی ’’ مجموعہ گل ہائے تاریخ ‘‘ اسی موضوع پر ہے۔اس کتاب کا نام بھی تاریخی ہے جس سے کل اعداد ۱۴۴۱برآمد ہوتے ہیں جو کتاب کا سال طباعت ہجری ہے۔اس کتاب میں شیرانی صاحب کے قلم سے فارسی اور اردو میں کہی کل ۱۰۶ تاریخیں محفوظ کر دی گئی ہیں۔جن معروف شخصیات کے انتقال پر انھوں نے تاریخیں کہیں ان میں سید امتیاز علی تاج، پروفیسر حمید احمد خاں،جسٹس ایس اے رحمن، پروفیسر سیّد وزیر الحسن عابدی ،پیر حسام الدین راشدی،خطاط الملک حافظ محمد یوسف سدیدی،حکیم محمد سعید ،ڈاکٹر نجم الاسلام ،ڈاکٹر ضیاء الدین دیسائی ،مشفق خواجہ ،ڈاکٹر غلام مصطفی خان،مشتاق احمد یوسفی ،ڈاکٹر جمیل جالبی و دیگر شخصیات شامل ہیں۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
پچھلے دو ہفتے میں خاصا علیل رہا۔۱۹۶۵ء سے گردوں کی پتھریوں کا مریض ہوں،بیسیوںہی نکل چکی ہیں ،اس بار جو پتھری گردے سے نکل کر مثانے میںآئی وہ دیر تک اسی میں گردش کرتی رہی اور شاید اس اثنا میںذرا بڑی ہو گئی۔پھر اس نے نکلنے کی کوشش میں بڑی تکلیف دی۔اتوار کے دن لاہور لے جایاگیا کیونکہ یہاں ڈاکٹروںنے آپریشن کامشورہ دیا تھا۔الحمدللہ کہ لاہور پہنچ کر بغیر آپریشن کے یہ شدید تکلیف محض اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے بغیر آپریشن کے رفع ہو گئی۔یہ تو خارج ہوگئی لیکن ابھی دو پتھریاں ایک گردے میں اور ایک دوسرے میں موجود ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ تکلیف نہیں دے رہی ہیں۔
یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ علامہ عبدالعزیز میمن مرحوم پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔آپ نے ان کے جن دو مضامین کا ذکر کیا ہے سو انٹرویو والی بات تو سمجھ میں آگئی لیکن دوسرامضمون ’’ آداب العربیہ ‘‘ کی تیسری قسط آپ کہتے ہیںکہ اورینٹل کالج میگزین اگست ۱۹۲۰ء کے شمارے میں چھپا تھا۔اورینٹل کالج میگزین کا آغازجہاں تک مجھے علم ہے ۱۹۲۱ء میں ہوا تھا،۱۹۲۰ ء میں مضمون کیسے چھپا؟پھر مولانا میمن مرحوم غالباً ۱۹۲۵ء میں اورینٹل کالج میں آئے تھے۔کیا مضمون پہلے چھپا تھا؟علاوہ ازیں اورینٹل کالج میگزین کی فہارس میں مولانا کے اس مضمون کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔بہر حال فی الحال میں لاہور کے ایک عربی کے فاضل دوست کو لکھ رہا ہوں یعنی ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو۔ان کے مولانا میمن سے تعلقات رہے ہیں۔ممکن ہے ان کے پاس یہ دونوں چیزیں ہوں یا وہ وہ ڈھونڈنکالیں۔رضوی صاحب موصوف میرے عزیز دوست ہیں،۱۹۶۰ء میں ہم اورینٹل کالج میں پڑھتے اور ہوسٹل میںرہتے تھے ۔انھوں نے اپنے نوشتہ خاکوں میں ایک مولانا میمن پر بھی لکھاہے ،اس کاعکس آپ کے مطالعے کے لیے بھیج رہا ہوں۔
’’ارمغان شیرانی‘‘کی مجھے صرف ایک ہی کاپی ملی ہے باوجود اس کے کہ اس میں میرامضمون بھی شامل ہے۔میرا خیال ہے کہ محترم حکیم محمود برکاتی صاحب کو بھی ایک ہی نسخہ انہوںنے بھیجا ہوگا کیونکہ ان کا مضمون (’’حکیم احسن اللہ خاں‘‘پر)بھی اس میںچھپا ہے۔اب جب بھی لاہورجانا ہوا معلوم کروں گا کہ اس کی قیمت مبلغ۲۰۰ روپے میں کتنی رعایت وہ لوگ دے سکتے ہیں۔ سردست اپنے مضمون کی عکسی نقل آپ کے ملاحظے کے لئے ارسال کرتا ہوں۔
ص۱۱۹:مولانا سید طلحہ والی عربی انگریزی لغت میں نے دیکھی ضرور ہے لیکن ٹھیک سے یاد نہیں کہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری میںدیکھی ہے یا کہیں البتہ گمان غالب ہے کہ وہیں ہے۔علی میاںکا ان پر جومضمون پرانے چراغ(جلد اول) میں ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس لغت پر جو ۱۹۳۸ء میںچھپی تھی سید طلحہ مرحوم کا نام نہیں دیا گیا حالانکہ اس کے آغاز میں۳۲صفحات پر مبنی فاضلانہ مقدمہ انہیں کا لکھا ہوا ہے۔
ص۱۲۷:امیر خاں پر انگریزی مقالے کا اردو ترجمہ جو ثروت علی خاں نے کیا ہے وہ انہوںنے خود ہی چھپوایا تھا ۔ا س کاایک نسخہ انہوںنے مجھے ارسال کیاتھاحالانکہ میرا ان سے تعارف نہ تھا۔ان کے ایک عزیز محمد رشید خاں صاحب میرے دوست ہیں۔خط و کتابت بھی ہوتی ہے ۔ان کو لکھوں گا۔دو ایک اور صاحبان نے بھی کہا تھالیکن گزشتہ سال ڈیڑھ سال سے خطوںکا سلسلہ منقطع تھا۔اب اکتوبر میںان کا خط ملا تھا۔ میں نے جواب لکھا ہے۔آیندہ خط میں معلوم کروں گا۔
ص۱۲۸:(حاشیہ)’’ما آبروئے فقروقناعت۔۔۔۔۔۔روزی مقرراست‘‘
اس ضمن میں یا تو ڈاکٹراسرار صاحب کو تسامح ہوا یا آپ کے سننے میں غلطی ہوئی۔صورت حال یہ ہے کہ حضرت عبدالقدوس گنگوہی سنہ ۱۵۳۷ء میں وفات پاتے ہیں اور نواب امیر خاں ۱۷۶۸ء میں پیدا ہوتے ہیں تو حضرت گنگوہی امیر خاں کو یہ شعر لکھ کر کیسے بھیج سکتے تھے۔بالفرض ڈاکٹراسرار صاحب نے مولانا رشید احمد گنگوہی کہا ہوتو ان کی پیدائش ۱۸۲۹ء کی تھی اور جب وہ پانچ برس کے لگ بھگ ہوں گے تو امیر خاں وفات پاتے ہیں یعنی ۱۸۳۴ء میں۔
حقیقت یہ ہے کہ امیر خاں ۱۸۱۷ء میں باقاعدہ نواب بنتے ہیں۔ان دنوں دہلی میں شاہ غلام علی اور ان کی خانقاہ کا بڑا شہرہ تھا۔شاہ صاحب کی وفات اکتوبر ۱۸۲۴ء میں ہوتی ہے۔اسی سات سالہ عرصے یعنی ۱۸۱۷ء تا ۱۸۲۴ء کے درمیان یہ قصہ ہوا ہے۔سرسید احمد خاں نے’’تذکرۂ اہل دہلی‘‘ (مرتبہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڈھ)اشاعت ثانی انجمن ترقی اردو،کراچی(۱۹۶۵ء)میں صاف لکھاہے:
’’ایک دفعہ نواب امیر الدولہ امیر محمد خاں ]صحیح محمدامیر خاں[والیٔ ٹونک نے بہت التجا سے درخواست تقرروظیفہ کی۔اس کے جواب میں آپ نے یہ شعر لکھ بھیجا:
ماآبرئے فقروقناعت نمی بریم با میرخاں بگوئے کہ روزی مقرراست‘‘(ص۲۶)
لیجئے آپ کے استفسارات تمام ہوئے۔
اسی فوٹوگرافر کے مہیا کردہ فوٹوگرافوں کا ایک اورمجموعہ''Forts of India''بھی اسی پبلشر نے بعد میں شائع کیا ہے جس کا تعارف جے پور کے مہاراجہ کرنل بھوانی سنگھ نے لکھا ہے۔
آپ کے ارشاد کے مطابق میں سردست تین صاحبان کے پتے درج کر رہا ہوں جنہیںعلمی وادبی کتابوں کا شوق ہے یعنی پڑھنے کا بھی اور خریدنے کا بھی:
۱:پروفیسر ملک محمد رفیق شعبہ فارسی،گورنمنٹ کالج،کچہری روڈ،لاہور
۲:پروفیسر خورشید حسین بخاری پرنسپل گورنمنٹ اسلامیہ کالج ،سانگلہ ہل، ضلع شیخوپورہ
۳:پروفیسرنذیر حسین چودھری گورنمنٹ کالج،شیخوپورہ
صاحبزادہ عبدالوہاب خاںکا سفر نامہ حج نہ میرے پاس ہے اور نہ میری نظر سے گزرا ہے۔اگر پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں ہے تو اس کے عکس حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔لیکن اس غرض سے مجھے خود جا نا ہوگا۔یہ کام شاگردوں کے بس کا نہیںہے۔میں نے نوٹ کر لیا ہے ۔دعا کیجئے کہ کتاب وہاں موجود ہو۔
ڈاکٹرغلام مصطفی خاں صاحب مد ظلہ کے خطوط بنام حافظ محمود شیرانی کے لئے گزشتہ سال مجھے خالد محمود صاحب نے کہا تھا ۔میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے دو ایک خط ضرور ہوں گے ۔لیکن تلاش پر مایوسی ہوئی ۔میں نے یہ اطلاع خالد محمود صاحب کو دے دی تھی۔
خدا کرے آپ بہمہ وجوہ بخیروعافیت ہوں۔
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
(۶)
۱۹۔اکتوبر۲۰۰۱۔ء
عزیز گرامی راشد صاحب !سلام مسنون!
اس سے قبل آپ کو ایک رسیدی عریضہ لکھا تھا جس میں کوئی بات جواب دینے کے قابل نہ تھی
یہ خط ایک ضرورت سے لکھ رہا ہوں۔پروفیسر ڈاکٹرعزیز انصاری غالباً ٹنڈوآدم کے کسی کالج میں پروفیسر ہیں ۔ان کا پی ایچ۔ڈی کا مقالہ جو انہوں نے محترم ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب کی نگرانی میں مکمل کیا تھا کراچی سے حرافاؤنڈیشن پاکستان (رجسٹرڈ) نے چھاپا ہے۔نام ہے ’’اردو اور راجستھانی بولیاں‘‘۔مجھے اس کی اشد ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ہی ان ہی صاحب کی ایک کتاب ’’کیسے کیسے لوگ‘‘ ہے جو غالباً خاکوں کا مجموعہ ہے۔معلوم نہیں یہ کس نے چھاپا ہے۔اگریہ مل سکے تو ساتھ ہی روانہ کر دیجئے ۔
میں اکثر آپ کو زحمت دیتا رہتا ہوں اور شرمندہ ہوتا لیکن ممنون رہا کرتا ہوں۔خدا کرے آپ بخیروعافیت ہوں۔
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
(۷)
۱۶۔مارچ۲۰۰۲۔ء
عزیز گرامی راشد صاحب سلام مسنون
آپ کا ۲۴؍ فروری کا گرامی نامہ میرے سامنے ہے۔ معذرت چاہتا ہوں کہ اتنے دن کی تاخیر سے اس کا جواب ارسال کررہاہوں ۔اس تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ میں آپ کی فرمائش کے نتیجے میں سید عامرحسنی مرحوم کا تیار کردہ سید احمد شہیدکے خاندان کا شجرہ تلاش کرتا رہا جو ابھی تک نہ مل سکا۔میں نے اسے کچھ زیادہ ہی سنبھال کر رکھ دیا تھا۔انشااللہ ملے گا ضرور اور جیسے ہی ملے گا اس کا عکس آپ کی خدمت میںارسال کردوں گا۔سردست عامر حسنی مرحوم ہی کا تیار کیا ہوا ایک اور شجرہ جو دو حصوں میں ہے بصورت عکس روانہ کررہاہوں ۔اس سے زیادہ جواب میں تاخیر سے مجھے شرمندگی ہورہی تھی۔
حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب پر میرے مضمون کی پسندیدگی کے لئے ممنون ہوںاور اس سے زیادہ آپ کی اس مہربانی پر ، جو آپ نے اس مضمون میں آنے والے تسامحات پر توجہ دلاکر،فرمائی ہے۔میں نے ان سب باتوں کی تصیح اور اضافہ وغیرہ کر لیا ہے انشا اللہ اگر دوبارہ چھپنے کی نوبت آئی تو ان باتوںکا خیال رکھا جائے گا۔کمپوزنگ کی غلطیاں تو بہت ہیں اوران میںسے بعض میں نے درست بھی کی ہیں۔قرآن پاک کی آیت کی بابت خیال بھی نہ تھا کہ اس میںبھی غلطیاں رہ گئی ہوں گی۔جزاک اللہ۔
مولانا عبدالعلیم ندوی مرحوم پر آپ کا مضمون کراچی کے کسی دینی یا علمی رسالے میں شائع کرادیجئے ۔اسے دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہے۔اگر آپ کے علم میں ایسا کوئی رسالہ ہو جو کوئی ندوی صاحب نکالتے ہوں تو اس میں بآسانی چھپ سکے گا ۔ایک صورت یہ ہے کہ اگر آپ یہ مضمون بھجوادیں تومیں لاہور میں چھپوانے کی کوشش کروں ۔ایک افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ یہاں والوں کوہندوستان کے مسلمانوں اور ان کے عظیم علمی ورثہ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔اب وہاں کے کسی کام کی نہیںہیں۔قیام پاکستان کی خاطر ان کے ووٹ مسلم لیگ کے لئے حاصل کرنے تک ان کا مطلب تھا وہ انہوںنے بلطائف الحیل حاصل کر لیا تھا،سبز باغ دکھا کر۔ اسی لئے عرض کر رہا ہوں کہ کراچی یا حیدرآباد کے کسی رسالے کے مدیر اس میں دلچسپی لیں گے اور بطیب خاطرشائع کردیں گے۔
گزشتہ دنوں ہندوستان اور بالخصوص گجرات اور احمد آباد کے مسلمانوں پر جو قیامت گزری اس سے دل بے حد دکھی ہے۔میں تو پوری بصیرت سے یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج ہندوستان میں ۴۵۔۵۰کروڑ مسلمان ہوتے تو کفارکویہ جرأت کبھی نہ ہوتی۔بہرحال مرضی مولا از ھمہ اولی۔ اگر آپ کو کسی ذریعہ سے ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی صاحب کی خیریت معلوم ہو تو مطلع کیجئے گا۔
(۴)جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے۔’’منظورۃالسعداء‘‘ کا کوئی نسخہ شیرانی کلیکشن میں ہونے کا مجھے علم نہیں ہے۔اگر آپ کوعلم ہو تو تحریر فرمائیے۔طریق کار یہ ہے کہ اردو،فارسی،عربی کتب کے مائیکروفلم کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے متعلقہ تدریسی شعبے کے صدر سے اجازت حاصل کرنا ہوتی ہے ۔یہ اجازت نامہ چیف لائبریرین پنجاب یونیورسٹی لائبریری کوپیش کرنے پروہ مائیکروفلم بنوادیتے ہیں۔بشرطیکہ لائبریری کی مائیکروفلم بنانے والی مشین کام کر رہی ہو(اکثر یہ مشین برسوں خراب پڑی رہتی ہے)۔واضح رہے کہ لائبریری والے مخطوطات کے فوٹو اسٹیٹ ہرگز نہیں بناتے کیونکہ اس عمل سے مخطوطات کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔
ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی صاحب ایک عرصے سے خاموش ہیں۔میں ہندوستان کی مساجد پر ان کی انگریزی کتاب دیکھنے کا مشتاق ہوں مگر اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔اردو کتاب کے عکس تو آپ کی مہربانی سے مل گئے تھے۔
خلیق ٹونکی صاحب کے بارے میں بھی بہت عرصے سے کوئی اطلاع نہیں ملی ۔آپ کی ان سے سلسلہ جنبانی ہے یا نہیں؟
خدا کرے آپ مع الخیر وعافیت ہوں۔یہ عریضہ کراچی کے پتے پر روانہ کر رہا ہوں۔اللہ کرے پہنچ جائے۔
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
(۳)
۱۳؍اگست۹۹۔ء
عزیز گرامی راشد صاحب ۔السلام علیکم
آپ کا ۵؍اگست کا تحریر کردہ گرامی نامہ ملا ۔کل اور پرسوں تعطیل ہے۔انشا اللہ کتابوں کی قیمت مبلغ تین صد روپیہ ۱۶؍اگست کو بذریعہ منی آرڈر ارسال کروں گا۔
۱۷؍اگست کو میں حسب معمول دو ہفتوں کے لئے کاغان اور سوات کے ٹور پر جارہا ہوں۔اس لئے ان دنوں توآپ سے ملاقات ممکن نہ ہوسکے گی۔اس کے بعد جب بھی آپ آئیں انشا اللہ ملاقات ہوگی۔لیکن آنے سے قبل اطلاع ضروردے دیجئے گا۔
کراچی اور حیدرآبادسے شائع ہونے والی کتابیں اکثر لاہور میں دستیاب نہیں ہوتیں۔بعض کتابوں کی ایک عرصہ سے تلاش ہے۔اب آپ نے لکھا ہے تو کچھ نام درج کئے دیتا ہوں۔ان میں سے جو مل سکیں ارسال کرنے کی زحمت کیجئے گا۔
سندھ یونیورسٹی کے مجلہ تحقیق کے بعض شمارے میرے ایک دوست کو درکار ہیں وہ بھی درج کررہا ہوں۔زحمت دہی کے لئے معذرت۔ ان میں سے بعض کتابیں شائع ہوئے کئی برس ہوگئے ہیں۔اب یہ آپ کی ہمت پر منحصر ہے:
۱۔ Aurangabad by Waheeda Naseem
۲۔دید و بازدید از فرمان فتحپوری(مکتبۂ افکار کراچی)
۳۔پاکستان اور سری پرکاش از ً ً ً ً
۴۔تاریخ جھجر از مرزا بشارت علی(علی سنز ۵۴۶/۳ لیاقت آباد ۔کراچی)
۵۔مثمر از سراج الدین علی خاں آرزو(اس کے دو نسخے درکار ہیں)
]یہ جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ریاض الاسلام والے ادارے نے چھاپی ہے[
۶۔گرراہ (خودنوشت) از اختر حسین رائے پوری
۷۔ہم سفر(خودنوشت) از بیگم حمیدہ اختر حسین
۸۔گنجینۂ گوھر از شاھد احمد دہلوی
۹۔ذکرعلی گڑھ از ذاکرعلی خاں
۱۰۔سلطان جی از ڈاکٹر محمد اسلم فرخی
۱۱۔’’تحقیق‘‘ (جامعہ سندھ) شمارہ نمبر۷،۸،۹اور۱۰،۱۱
باقی کچھ کتابیں انشا اللہ آیندہ خط میں تحریر کروں گا۔
خدا کرے آپ بخیر وعافیت ہوں۔
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
پس نوشت:ڈاکٹردیسائی صاحب کی تازہ کتاب نیز Mosques of Indiaکے لئے کوشش جاری رکھئے ۔
(۴)
۱۸؍اگست۲۰۰۰۔ء
عزیز گرامی محمد راشد شیخ صاحب!دعائیں!
آپ کا۷؍اگست کا مرقومہ مع دو کتابوں یعنیــ’’تاریخ جھجر‘‘اور ’’حیرت انگیزاسلامی معلومات‘‘ بذریعہ رجسٹرڈپوسٹ موصول ہوا۔ابھی صرف منی آرڈر روانہ کیا تھا اور عریضہ تحریر نہ کر پایا تھا کہ کل ڈاکٹر غلام مصطفی خاں مدظلہ کے مکاتیب کے دونوں حصے مل گئے۔انشااللہ کل ان کی قیمت مع ڈاک خرچ کے ارسال کردوںگا۔الحمدللہ کے محترم دیسائی صاحب کی خیریت معلوم ہوئی۔ مجھے ان کے اکسیڈنٹ کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ میں نے دہلی میں ایک عزیز کو لکھا ہے کہ وہ دیسائی صاحب کی کتاب جو مغربی ہندوستان کتبوں کی فہرست انگریزی زبان میں ہے تلا ش کرکے بھجوا دیں۔دیکھیں کیا ہوتا ہے؟
حکیم محمود احمد برکاتی صاحب مغتنمات روزگار شخصیات میں سے ہیں اور ٹونک مرحوم کی اسلامی تہذیب کا شاید آخری نمونہ بھی۔خدا کا شکر ہے کہ آپ کی ان سے ملاقات ہوگئی۔آپ کوشاید یادنہیں رہا میں نے اپنے ایک گزشتہ خط میںآپ سے عرض کیاتھا کہ میرے پاس بھی ایک کتاب کامواد موجود ہے جو اشاعت کے قابل ہے اگر آپ توجہ فرمائیںتومہربانی ہو گی۔میری مراد اس کتاب سے محترم حکیم صاحب کے تحریر کردہ خاکوں کا مجموعہ تھا۔میںآخری بار کراچی جانے پر حکیم صاحب سے ان کی غیر مطبوعہ تحریریں لے آیا تھا۔یہ تین قسم کی ہیں یعنی:
۱:(ا)طبی موضوعات پرمضامین
(ب)ہماری طبی تاریخ کے دلچسپ واقعات جو معلومات سے بھرپور ہیں اور ۲۔مختلف شخصیات پر حکیم صاحب کے تحریر کردہ خاکے۔
لاہور کے مشہور تاریخی قبرستان میانی صاحب میں ان کی تدفین ہوئی۔شیرانی صاحب کی والدئہ محترمہ انتقال تک انھی کے ساتھ رہیں اور شیرانی صاحب کو ایک سعادت مندبیٹے کی حیثیت سے ان کی خدمت کے مواقع حاصل ہوئے ۔ان کا انتقا ل دسمبر ۲۰۰۴ء کو شیخوپورہ میں ہواتھا۔ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی مورخہ 12 جون 2020ء کو شیخوپورہ ہوا اور اسی روز ان کی تدفین والدئہ محترمہ کے مرقد کے پہلو میں ہوئی اور یوں سعادت مند بیٹے کو بعد ازوفات اپنی محترم ماںکے پہلو میں تدفین کی سعادت حاصل ہوئی۔اسی قبرستان میں ان کی والدئہ محترمہ کے علاوہ ان کی دادی صاحبہ اور برادر ِاصغربھی آسودئہ خاک ہیں۔
شیرانی صاحب نے مقالات حافظ محمودشیرانی کے 10 جلدی منصوبے کے علاوہ ایک اور علمی منصوبے کو بڑی کامیابی سے مکمل کیا اور وہ بھی ریٹائر منٹ کے بعد۔ یہ منصوبہ ’’لغت جامع جی سی یو‘‘ ہے۔ اس عظیم علمی منصوبے پر شیرانی صاحب گزشتہ 25 برسوں سے برابرکام کررہے تھے۔ یہ فارسی ۔اردولغت ہے اور اب تک شائع شدہ تین ضخیم جلدوں کو دیکھ کر ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کس قدر مشکل اور صبر آزما کام ہے۔اس لغت کی تیاری کی خاطر شیرانی صاحب نے فارسی کی معروف لغت ’’لغت نامہ دہخدا‘‘ کے ایک ایک لفظ کو پڑھا تھا اور فارسی الفاظ و اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا تھا۔شاید یہ بات بہت سے قارئین کے علم میں نہ ہو کہ لغت نامہء دہخدا کل ۵۱ جلدوں پر مشتمل ہے۔لغت جامع جی سی یو کو شیرانی صاحب نے پانچ ضخیم جلدوں میں مکمل کیا تھا جن میں سے بقیہ دو جلدیں منتظر اشاعت ہیں۔ ان کے دیگر علمی منصوبوں میں جنھیں وہ مکمل کر کے شائع کرانا چاہتے تھے’’خطوطِ مشاہیر بنام حافظ محمود شیرانی‘‘اور ’’خطوط حکیم سید محمود احمد برکاتی‘‘ شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لاہور سے ان کی کہی تاریخوں پر مشتمل کتاب ’’مجموعہ گلہائے تاریخ‘‘ شائع ہوئی تھی جس کا ایک نسخہ انہوں نے راقم کو بھی ارسال کیا تھا۔
مختصراً ان کی کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے:
-1 حافظ محمود شیرانی کی علمی و ادبی خدمات (2 جلدیں)
-2 بے نشانوں کا نشاں (خاکے)
-3 کہاں سے لائوں انہیں (خاکے)
-4 مقالاتِ حافظ محمود شیرانی (10 جلد یں)
-5 مکاتیب حافظ محمود شیرانی
-6 حافظ محمود شیرانی (کتابیات)
-7 جادئہ نسیاں (خاکے)از حکیم سیّد محمود احمد برکاتی (مرتّبہ)
-8 مشاہداتِ فرنگ از حکیم سیّد محمود احمد برکاتی (مرتّبہ)
-9 منتخب مقالات از حکیم سیّد محمود احمد برکاتی (مرتّبہ)
-10 مجموعہ گلہائے تاریخ
-11 معرباتِ رشیدی (مرتبہ)
-12 لغتِ جامع جی سی یو (5جلدیں)
-13 وہ کہاں گئے (خاکے۔اشاعت بعد وفات)
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی زندگی کی 85 بہاریں دیکھ کر اس فانی دنیا سے عالم بالا کا سفر اختیار کرچکے لیکن شیرانی صاحب کی شیریں یادیں ان سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ تازہ رہیں گی اور انہی خوش نصیب انسانوں میں راقم سطور بھی شامل ہے۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ شیرانی صاحب ،ان کے والد اختر شیرانی اور ان کے دادا حافظ محمود شیرانی کی حیات کا زیادہ عرصہ لاہور میں گزرا لیکن اس شہرِ علم و ثقافت میں آخری آرام گاہ صرف اختر شیرانی کو نصیب ہوئی ،حافظ صاحب کے مقدر میں ٹونک کی مٹی اورشیرانی صاحب کے مقدر میں شیخوپورہ کی مٹی لکھی تھی۔ تدفین خواہ کسی مقام پر ہوئی ہو ، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ جانے والا کتنی خوبیوں کا مالک تھا اور بعد والوں کے دلوں میں کیا مقام بنا کر گیا ۔اس حساب سے شیرانی صاحب خوش قسمت انسان تھے جو بے شمار انسانوں کے دلوں میں اپنی محبت ،شفقت،جذبہء خیرو خواہی و ہمدرد ی کی انمٹ یادیں چھوڑ گئے ۔انھی انسانوں میںعاجز راقم سطور بھی شامل ہے۔ دعا ہے اللہ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آج وہ ہم میں نہیں لیکن بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ عالم ِبالا سے اپنے مخصوص انداز میںہم سے یہ کہہ رہے ہوں:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جیسا کہ اوپر ذکر آیا راقم ان خوش قسمت انسانوں میں شامل ہے جنھیں شیرانی صاحب سے نہ صرف ملاقاتوں کے مواقع حاصل ہوئے بلکہ شرف ِ مکاتبت بھی حاصل ہوا۔یہاں ہم ان کے تیرہ عددمنتخب خطوط پیش کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوگاکہ وہ کس طرح ہم جیسے چھوٹوں سے نہ صرف علمی روابط برقرار رکھتے تھے بلکہ ہر ممکن علمی معاونت بھی کرتے اور علمی کاموں پر حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے:
(۱)
8-12-97
عزیز گرامی محمد راشد شیخ صاحب
سلام مسنون !
آپ کا ۹۷۔۱۲۔۱ کا تحریر کردہ گرامی نامہ مع محترم ڈاکٹر ضیاء الدین دیسائی صاحب کے مکتوب کی عکسی نقل کے موصول ہوا ۔جی ہاں مجھے بزم اقبال میں آپ سے ملاقات بخوبی یاد ہے بلکہ میں نے کئی با رسوچا کہ اگرآپ کا پتہ ملے تو میں خطاطوں پر آپ کی تالیف کی اشاعت کے بارے میں معلوم کروں کہ یہ کب اور کہاں چھپ رہی ہے۔
آپ کے اس خط سے ایک روز قبل محبی ڈیسائی صاحب کا نامہ عالی بھی مجھے مل چکا تھا۔ان کو بھی آج ہی جواب تحریر کررہا ہوں۔
٭ ضعیف العمری کی وجہ سے عموما ً حافظہ کمزور ہو جاتا ہے لیکن شیرانی صاحب سے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران جب بھی گفتگو ہوتی تو وہ فرماتے کہ اب میرا حافظہ مجھے خدا حافظ کہہ رہا ہے۔اسی طرح جب راقم کی گزشتہ رمضان المبارک سے قبل فون پر گفتگو ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اب میری سماعت اس مرحلے میں داخل ہو گئی ہے کہ میں غالب کی طرح کہہ سکتا ہوں: بہرا ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات۔
٭شیرانی صاحب ایک مرتبہ جب کراچی تشریف لائے تو حکیم محمود احمد برکاتی مرحوم نے ان کو ناشتے پرمدعو کیا اورراقم سطور کو بھی بذریعہء فون دعوت دی۔اس محفل میں ٹونک سے تعلق رکھنے والے کئی بزرگ تشریف لائے تھے۔وہاں جب شیرانی صاحب تشریف لائے تو آتے ہی وہ رونقِ محفل بن گئے اور ٹونک اور اہل ٹونک سے متعلق دلچسپ گفتگو کا آغاز کر دیا۔کچھ دیر بعد انھوں نے راقم کی جانب غور سے دیکھا اور فرمایا :معاف کیجیے میں آپ کو پہچان نہ سکا۔اس جملے پر راقم کو ذرا حیرت ہوئی کیونکہ ہماری ملاقات کے درمیان کئی برس کا وقفہ آچکا تھا لیکن فون پر اکثر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ جب راقم نے نام بتایا تو بلند آواز میں فرمایا:اخاہ، تو یہ آپ ہیں،معاف کیجیے میں آپ کو پہچان نہ سکا لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ہماری آپ سے گزشتہ ملاقات ہوئی تھی تو آپ کی داڑھی ناقابلِ گرفت تھی اور اب قابلِ گرفت ہو گئی ہے،دیکھیے میری داڑھی ابھی تک ناقابلِ گرفت ہے۔
یہ اور اسی طرح کے دلچسپ جملے ان کی گفتگو کا حصہ ہوتے تھے۔بعض اوقات یوں لگتا کہ مشفق خواجہ مرحوم کی طرح شیرانی صاحب نے بھی زندگی کے آلام اور مصائب و مسائل کا علاج مزاح میں ڈھونڈا ہے اور یہ فیصلہ کرلیاہے کہ ان مصائب کا اثر لینے اور ان پر توجہ دینے کی بجائے خوش مزاجی اور خوش گفتاری سے ان کا علاج کیا جائے اور اپنے قیمتی وقت کو علمی اور تحقیقی کاموں میں صرف کیا جائے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ مزاح میں تہذیب اور شائستگی کا دامن کبھی نہ چھوڑتے تھے کیونکہ وہ مزاح اور پھکڑ پن کے باریک فرق سے بخوبی واقف تھے۔دراصل شیرانی صاحب ان بزرگوں میں شامل تھے جو پہلی ملاقات ہی میں اپنے خلوص، شفقت، محبت اور جذبہء خیر خواہی سے مخاطب کے دل میں گھر کرلیتے ہیں اور جب تک زندہ رہتے ہیں ہر قیمت پر تعلقات نبھاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تعلقات کی بنیاد غرض کے بجائے خلوص پر مبنی ہو تو وہ وقت گزرنے سے نہ صرف مضبوط ہوتے ہیں بلکہ استوار بھی۔
تقریباً 25 برس قبل بزمِ اقبال لاہور کے دفتر میں راقم کی شیرانی صاحب سے اوّلین ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت ان کی معیّت میں ان کے ایک شاگرد بھی موجود تھے لیکن شاگرد صاحب تو مسلسل گم صم بیٹھے رہے اور شیرانی صاحب مسلسل گل افشانیِ گفتار کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس اوّلین ملاقات کے بعد سے ان کے انتقال تک جیسے جیسے وقت گزرتا رہا تعلقات میں استواری آتی گئی ۔ وہ جب بھی کراچی تشریف لاتے ان سے طویل ملاقاتیں ہوتیں اور مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ یا اس سے زائد بھی فون پر گفتگو ہوتی۔ اس عرصے میں راقم نے جب بھی کسی قسم کی علمی معاونت کی درخواست کی، شیرانی صاحب نے کبھی مایوس نہ کیا،راقم کوخواہ کوئی نادر کتاب درکار ہوتی، رسالے کی ضرورت ہوتی یا کسی مضمون کی،وہ ذاتی کوشش یا اپنے وسیع تعلقات کو کام میں لاکر یہ فرمائش ضرور پوری کرتے۔دراصل وہ مخلصانہ تعلقات کو اس سطح تک لے آئے تھے کہ کبھی ذہن میں یہ خیال بھی نہ آیا کہ وہ علمی معاونت سے پہلو تہی کریں گے یا معذرت کر دیں گے یا ٹال دیں گے بلکہ ہمیشہ یہ یقین ہوتا کہ وہ ضرور بھرپور کوشش کریں گے اور مطلوبہ چیز فراہم کرکے ہی دم لیں گے۔لطف یہ کہ جب بھی مطلوبہ چیز کے حصول کے بعد راقم بذریعہ فون شکریہ ادا کرتا تو ان کا ردّ عمل کچھ اس قسم کا ہوتا جیسے انھوں نے کچھ کیا ہی نہیں۔باہمی تعلقات میں خلوص و محبت کی یہ سطح شیرانی صاحب کے علاوہ کسی اور شخصیت میں نظر نہ آئی۔ اسی طرح جب انہیں کسی کتاب یا مضمون کی ضرورت ہوئی یا کوئی علمی کام ہوتا تو عاجز کو لکھتے اور راقم فراہم کرتا تو بذریعہ خط بڑی ممنونیت کا مظاہرہ کرتے۔اسی طرح عاجز کی جب کوئی نئی کتاب شائع ہو تی تو ان کی خدمت میں ضرور روانہ کرتا ۔ اس کے بعد وہ بذریعہ خط کچھ اس طرح شکریہ ادا کرتے اور حوصلہ افزا کلمات تحریر فرماتے کہ راقم شرمندہ ہو جاتا ۔شیرانی صاحب کی محبتوں اور شفقتوں کی حد یہیں تک نہیں تھی بلکہ اس عرصے میں جب بھی ان کی کوئی نئی کتاب شائع ہوتی وہ بذریعہ ڈاک کتاب کا نسخہ اپنے محبت آمیز کلمات تحریر فرما کر ضرور ارسال فرماتے۔ان سے اس عرصے میں رشتہء مکاتبت بھی قائم رہا چناں چہ تلاش کرنے کے بعد علم ہوا کہ راقم کے ذخیرئہ مکاتیب میں ان کے 100 خطوط محفوظ ہیں اور چند اور خطوط ملنے کی توقع ہے۔
اہلِ عقل کی نظریاتی کمزوریاں
معارف، نومبر ۱۹۴۱ء کے شذرات میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ، ایک جگہ لکھتے ہیں: اہلِ عقل کے نظریہ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں دین پر براہِ راست، قلبی یقین کے بجائے، عقلیات کے سہارے یقینِ ثانوی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سہارا جہاں ہٹا، عقائد و اعمال کی ساری عمارت نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ اس کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ چوں کہ اس میں دین کی کوئی مستقل حیثیت قائم نہیں رہتی، بلکہ ہر عصر اور ہر زمانہ میں اس کے نئے نئے قالب بدلتے رہتے ہیں اور اس کی نئی نئی شکلیں نکلتی رہتی ہیں، اس لیے یہیں سے فرقہ آرائی کا سامان پیدا ہوتا ہے اور نئے نئے فرقوں کا ظہور ہوتا ہے اور پھر ہر طرف سے "اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا" کی لعنت برسنے لگتی ہے۔
شذراتِ سلیمانی، حصہ: سوم/صفحہ: ۲۷۰/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
’’یادوں کا سفر‘‘ (پہلا حصہ)۔۔۔دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
رئیس فاطمہ
پچھلے دنوں ایک بڑی زبردست کتاب پڑھنے کو ملی،کیا محاورہ ہے، کیا زبان ہے اور کیا انداز بیاں ہے۔ بس پڑھتے چلے جائیے، نہایت سادہ اور سلیس زبان۔ کہنے کو تو یہ خود نوشت ہے لیکن یہ ایک تاریخ ہے جس میں بڑے بڑے انکشافات بھی ہیں۔ مصنف بچپن سے بڑھاپے تک بڑے بڑے لوگوں سے ملے، ان کی صحبتیں نرالی تھیں، بڑے بڑے علمائے کرام، مشاہیر ادب اور رؤسا سے ان کا تعلق رہا، جس کی تفصیل کتاب میں درج ہے۔
یہ کتاب معلومات کا خزانہ ہے، اس کے مصنف ہیں اخلاق احمد دہلوی، جن کا ایک خاکہ اے حمید نے اپنے کالموں کے مجموعے ’’سنگ دوست‘‘ میں لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ آج قارئین کا تعارف اخلاق احمد دہلوی کی خود نوشت ’’یادوں کا سفر‘‘ سے ہوگا۔ اس کتاب کی خوبی اس کی زبان ہے، نہایت سادہ اور دلچسپ، اخلاق صاحب نے بڑے بڑے نامور ادیبوں، شاعروں اور مختلف شخصیات کے ساتھ پرورش پائی ہے۔
اس میں دلّی کی ’’ ٹکسالی زبان‘‘ نظر آتی ہے۔ ویسے بھی دلّی کی زبان سادہ اور دلکش ہے جب کہ لکھنؤ کی مشکل۔ خواجہ حسن نظامی کی تمام تصنیفات میں بھی یہی ٹکسالی زبان نظر آتی ہے۔ دلّی کا محاورہ ہی الگ ہے، زبان کے معاملے میں دلّی والے بڑے حساس ہوتے ہیں، جہاں کسی نے غلط الفاظ استعمال کیے انھوں نے خبر لی۔ لیکن اب تو خالص دلّی والوں کے بچے جو زبان بولتے ہیں انھیں سن کر یقین ہی نہیں آتا کہ ان کے والدین اور دادا، دادی کا تعلق دہلی سے ہے۔ جن لوگوں کو لکھنے کا شوق ہے انھیں ’’ یادوں کا سفر‘‘ ضرور پڑھنی چاہیے۔ ایسے ایسے واقعات کا تذکرہ ہے جو اب تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔
’’میری دادی نے مجھ سے کہا کہ دیکھو بھئی! غریبوں کی مدد کیسے کی جاتی ہے اور تمہارے باوا میری ناک میں دم کیے جاتے ہیں کہ آپ ہر سودے والے کو بلا کرکیوں بے کار کے سودے خریدتی رہتی ہیں، میری دادی کا یہ حال تھا کہ جہاں کوئی سودے والا بولا، انھوں نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا اور جتنے پیسے اس نے کسی چیز کے بتائے اس سے یہ بحث شروع کر دی کہ’’بھئی! غضب کرتے ہو، اب یہ جو انگوٹھی تم ٹکے ٹکے بیچتے پھر رہے ہو، چاہے پیتل کی ہی کیوں نہ ہو مگر اس کی بنوائی گھڑوائی اور اس میں جڑا ہوا شیشے کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، پھر اس میں الٹا سیدھا نگ بھی ہے اور پھر ان انگوٹھیوں کو ڈورے میں لگا کر تم دھوپ میں گلی گلی آواز لگا کر مارے مارے پھرتے ہو تو، کم سے کم ایک آنہ تو لگاؤ ان انگوٹھیوں کا ، ٹکے ٹکے میں بھلا تمہیں کیا ملے گا؟‘‘
اسی طرح ہر سودے والے سے بحث کرتیں اور جو دام وہ بتاتا اس سے دگنے دام میں وہ چیز خرید لیتیں، اس طرح وہ سودے خریدتیں اور محلے والوں میں بانٹ دیتیں۔ ان باتوں سے جب میرے والد چڑتے تو کہتیں ’’ اگر تمہارے والد کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں نہ کھڑی ہوتیں اور تمہیں روٹی کمانے کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی تو پتا چلتا کہ بیسی کے ساٹھ ہوتے ہیں، خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہیں خدا نے روٹی کمانے سے مجبور نہیں کیا، تمہیں پکی پکائی مل جاتی ہے، اس لیے تم سمجھتے ہو کہ سب کو من و سلویٰ مل جاتا ہے۔ دیکھو کتنے بوڑھے لوگ، کتنا وزن اٹھائے پھرتے ہیں اپنی کمر پر۔ تب جا کے کہیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ روکھی سوکھی روٹی سے بھرتے ہیں۔‘‘
’’ہمارے والد بتاتے تھے کہ ایک دن جب سارے مشاہیر بیٹھے تھے، ان بیگم صاحبہ (بہادر شاہ ظفر کی پوتی) کی باتیں سن رہے تھے تو ان بیگم صاحبہ نے حکیم اجمل خاں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’حکیم صاحب! ماشا اللہ آج کل تو آپ کی طوطی بول رہی ہے۔‘‘ اس پر حکیم صاحب بولے ’’بیگم صاحبہ! آپ جو کچھ فرمائیں بجا ہے لیکن طوطی مذکر ہے، داغ کہتے ہیں:
خوب طوطی بولتا ہے آج کل صیاد کا
اس پر حکیم صاحب نے کہا ’’ حکیم صاحب! داغ آپ کے لیے سند ہوگا، میرے لیے تو وہ لونڈی بچہ تھا، میرے دادا بہادر شاہ ظفر یا استاد ذوق کا کوئی شعر سنائیے، تو سند کے طور پر میں مانوں۔‘‘
’’خواجہ حسن نظامی ایک دن ہمارے ہاں دستر خوان پہ بیٹھے تھے، کھانے میں دہی بھی تھا، خواجہ صاحب بولے ’’ دہی کھٹی ہے‘‘ ان کی بیگم صاحبہ نے کہا ، خواجہ صاحب! یہ فصیل سے باہر کی زبان ہے اسے نظام الدین (بستی نظام الدین) میں جا کر بولیے گا، یہاں میرا بچہ آپ کے پاس بیٹھا ہے، اس کی زبان تو نہ بگاڑیے، دہی کھٹا ہوتا ہے،کھٹی نہیں۔‘‘
’’ یہ جو آج کل ہر بچہ ہر بڑے سے بڑھ بڑھ کر ہاتھ ملاتا ہے اور خود بچوں کے والدین یا بڑے بچوں سے کہتے ہیں انکل سے ہاتھ ملاؤ۔ شیک ہینڈ۔ یہ بات پہلے کبھی نہ تھی، دستور یہ تھا کہ بچوں کو صرف یہ سکھایا جاتا تھا کہ بڑوں کو سلام کرو، خواہ وہ جواب دیں یا نہ دیں، ہاتھ بڑے بھی کم ہی ملاتے تھے اور لوگ بغل گیر صرف عید بقر عید پر ہوتے تھے۔
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار (وفات 13-06-2007ء) تحریر: محمد حمزہ فاروقی
Читать полностью…ہمارے علم وکتاب گروپوں اور چینلوں میں باقاعدگی سے منتخب نادر مضامین اور خاکے پوسٹ ہوتے رہتے ہیں، ان کا مقصد تعارف کرکے ان کتابوں کی طلب پیدا کرنا، مختلف ادیبوں اور اہل قلم کے اسلوب تحریر سے واقف کرانا اور مطالعہ کا ذوق پیدا کرنا ہے۔ جن کتابوں سے یہ مواد لیا جاتا ہے زیادہ تر یہ ہماری خرید کردہ کتابیں ہیں، ریختہ اور دوسرے سوشل میڈیا فورم پر ان کی کاپیاں دستیاب نہیں ہیں، احباب سے گذارش ہے کہ ان مضامین کی پرنٹ نکال کر اپنے طلبہ اور باذوق احباب میں انہیں رائج کریں۔ اور ان میں مطبوعہ کتابوں کے حصول اور خرید کا جذبہ پیدا کریں۔
عبد المتین منیری
اڈمن علم وکتاب
اپنے خیالات کی خود تنقید
مولانا ابوالجلال ندویؒ نے فرمایا: میرے مرحوم استاد، مولانا سید سلیمان ندویؒ، میرے والد بزرگوار، مولانا محمد ابراہیم صدیقیؒ بعد الغاری اور میرے استاد، مولانا احمد مکرم عباسیؒ چریا کوٹی نے بار بار مجھے مشورہ دیا کہ میں کوئی رائے کسی بھی مسئلہ کے متعلق، جب قائم کروں تو بار بار اپنے خیال کی خود تنقید بھی کرلیا کروں۔ کیوں کہ صحیح طریقہ تحقیق کا یہی ہے۔ میں اس مشورہ کو، تجربات کے بعد، زرّیں مشورہ مان رکھا ہے۔ اپنی پہلی تحقیق پر جب تک بار بار سوچ نہ لوں، یقین نہیں کرتا۔
مولانا ابوالجلال ندویؒ، دیدہ وشنیدہ وخواندہ/صفحہ: ۱۴۴/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات: مورخہ 15 جون
1904ء – مولانا سلامت اللہ جیراج پوری
1922ء – ہاجر دہلوی
1935ء – مولوی سید ممتاز علی (والد امتیاز علی تاج، مدیر تہذیبِ نسواں)
1960ء – ڈاکٹر حمید (عبدالحمید)
1971ء – حبیب اشعر دہلوی (حکیم حبیب احمد، مدیر فنون، لاہور)
1979ء – کلیم فیض آبادی (شبیر حسین، شاعر)
1989ء – مولانا اعتماد الحق تھانوی
1994ء – صفدر حسین صفدر
2003ء – شفیق رضوی
2004ء – مفتی زین العابدین (فیصل آباد)
2009ء – رشید وارثی (عبدالرشید خان)
2009ء – جوگندر (نغمہ نگار)
2010ء – ڈاکٹر محمد انور وقار
2014ء – حاجی محمد اقبال خاں
2016ء – اسلم فرخی (ادیب و خاکہ نگار)
2022ء – گوپی چند نارنگ (ادیب و نقاد)
2022ء – گوپی ناتھ امن (شاعر)
(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ – زیر ترتیب: عبد المتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سلسلہ نمبر: 254
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا سجاد الحجابی*
*اسلامی قلمی ورثہ کی اہمیت
*
ایک اور درخواست یہ ہے کہ: "اپنا دائرہ کار تقریر میں محصور مت سمجھو، کوشش کرو کہ تم بہترین مدرس بنو، بہترین محقق، ریسرچ اسکالر بنو، کہ تم کتاب پر تحقیق کرسکو''، کیونکہ آج الحمد للہ پوری دنیا میں تقریبا ایک کروڑ اسلامی کتابیں مخطوطات کی شکل میں پائی جاتی ہیں،جن پر تحقیق کی ضرورت ہے ، ان کتابوں میں صرف آٹھ / دس لاکھ کتابیں چھپی ہیں، باقی نوے لاکھ کتابیں قلمی ہیں،اس کے لیے محققین کی ضرورت ہے ، کہ عالم اسلام کا نام روشن ہوجائے ، اور یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ان میں سے بیشتر مخطوطات یورپی ممالک کے لائبریریوں کی زینت ہیں، امریکہ کی بؔرنسٹن یونیورسٹی کی لائبریری قلمی کتب کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اس کی فہرست حال ہی میں صرف دس جلد میں چھپی ہے، یہ صرف ان کتب کی فہرست ہے جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں موجود ہیں ۔
ایک مشہور محقق اور عالم گزرے ہیں "علامہ بؔیری زادہ'' کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، اس فہرست میں ان کی انچاس کتابوں کے نادر مخطوطے برسٹن کی کتب خانے میں موجود ہیں،جن میں بیشتر تا حال نہیں چھپے، فرنگیوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے، کہ ہم اسلامی دنیا کے ذخیرۂ کتب کو ان سے حاصل کریں، کبھی چوری کرکے،کبھی (ایک بڑے عالم دین کی وفات ہوئی اور ان کی اولاد میں صلاحیت نہ تھی ، تو فرنگیوں کے ایجنٹ چلے جاتے اور ان کی اولاد سے )وہ کتابیں خرید لیتے،اس طریقے سے ہزاروں قیمتی مخطوطات فرنگیوں کے ہاتھ لگ گئے، حقیقت یہ ہے کہ فرنگی بہت مکار ہیں،صرف فلسطین ہی کی مثال لیجئے! ایک محقق کے تحقیق کے مطابق 1948ء میں بیت المقدس میں (جب مقبوض نہ تھا) اسلامی کتب کی تعداد 50000 مخطوطے تھی ، یاد رہے قلمی کتب کی قیمت بہت ہوتی ہے، یہ مسلمانوں کا ورثہ ہے۔
*انگریز اور مخطوطات کی قدردانی
*
جب 1967ء میں یہودیوں نے مسلمانوں سے بیت المقدس چھین لیا اور 57 اسلامی ممالک کچھ بھی نہ کرسکے، حال یہ ہےکہ یہودیوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم تھی ، تو ان کا سب سے پہلے بڑا ہدف یہ تھا کہ فلسطین سے کتابیں نکال سکیں! آج ان 50000 مخطوطوں میں سے صرف 8000 مخطوطے رہ گئے ہیں اور تقریباً 42000 یہودیوں نے چرالیے اور قؔدس میں اپنی یونیورسٹی ''الجامعة العبرية'' کی زینت بنا ڈالی۔
اسی طرح بعض کتب امریکہ یونیورسٹی میں لے گئے، کچھ جرمنی میں ، جرمنی میں برلن کے اندر ایک بڑا کتب خانہ ہے، آپ اندازہ لگائیے کہ مخطوطات کی ان کے پاس اتنی اہمیت ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم برپا ہو رہی تھی تو سب سے پہلے ہؔٹلر نے حکم دیا کہ برلن یونیورسٹی سے یہ کتابیں نکال کر دیہاتوں کی طرف منتقل کر دی جائیں؛ کیونکہ شہر پر بمباری کی وجہ سے کہیں یہ کتابیں ضائع نہ ہو جائیں ، اس طریقہ سے انہوں نے ان کتب کو محفوظ کرکے جنگ کے بعد واپس برلن مکتبہ میں منتقل کر لی، ان کی تعداد کافی ہے ان میں نوادرات بھی موجود ہیں، چنانچہ یہ کتب اب چیخ رہی ہیں کہ'' ھل من مبارز'' کیا کوئی ہے جو ان کتب پر تحقیق کر سکے! جو لوگ اردو شروح کا مطالعہ کرتے ہیں وہ ان کتب پر تحقیق نہیں کر سکتے۔
( سہ ماہی الصدیق،صوابی اپریل تا جون 2017ء، صفحہ: 28،طبع:دار الصدیق،بام خیل صوابی،خیبر پختونخوا )
✍🏻... *محمد عدنان وقار صدیقی*
/channel/ilmokitab
وفیات: 14 جون
1889 – عبد الغفور نساخ (شاعر)
1902 – عبد الرحمن الکواکبی (عرب مفکر)
1945 – سید ضیاء الحسن علوی (پروفیسر)
1964 – مولانا صلاح الدین احمد (مدیر، ادبی دنیا، لاہور)
1988 – اکبر علی نقشبندی (پیر)
1998 – رحمان گل (لیفٹیننٹ جنرل)
2001 – احمد زاہد
2001 – شوکت الٰہ آبادی [محمد زبیر فاروقی] (شاعر)
2003 – سید اشم علی اختر (وائس چانسلر)
2006 – سریندر کور (گلوکارہ)
2007 – مولانا خلیل احمد
2007 – کورٹ والڈاہیم (سیکرٹری جنرل، اقوامِ متحدہ)
2011 – ابرار عابد
2018 – شجاعت بخاری (صحافی)
(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ – زیر ترتیب: عبد المتین منیری)
whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
صادق قریشی مرحوم (۴۷)کا علامہ اسد پر مضمون نوائے وقت کی ہفتہ وار اشاعت خاص میں کئی قسطوں میں شائع ہوا تھا۔میں نے بھی پڑھا تھا ۔بڑا دلچسپ مضمون تھا۔کاش ان کے ورثا اس موضوع پر ان کی کتاب شائع کرنے کی صورت نکال سکیں۔قریشی صاحب مرحوم سے میری تو کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی تھی۔خورشید صاحب تو فون پر بھی طویل باتیں کرتے اور ایک دوسرے سے مشورے لیتے تھے۔
ایک بار میں اور خورشید صاحب پنجاب پبلک لائبریری میں داخل ہورہے تھے توصادق قریشی مرحوم نکلتے نظر آئے۔ہم دونوں کو دیکھ کر گرم جوشی سے ملے اور بولے’’آپ دونوں بڑے موقع پر آئے ۔میں نے عربی کی یہاں موجود تمام لغات کی کتابیں دیکھ ڈالی ہیں لیکن لفظ ’یوسف‘کسی میں نہیں ملا۔‘‘میں نے عرض کیا ’’جناب!یہ لفظ عربی ہے ہی نہیں تو کیسے ملے گا۔آ پ کوئی عبرانی لغت دیکھئے یا پھر انگریزی قاموسوں اور دائرہ ہائے معارف میںjoseph کی جستجو کیجئے۔‘‘خوش ہو کر بولے واقعی یہ تو مجھے خیال ہی نہ آیا تھا۔
بہر حال اچھے لوگوںکی چھوٹی چھوٹی یادیں اور باتیں بھی بڑا اثاثہ ہوتا ہے۔’’مضامین ڈار‘‘کا تازہ ایڈیشن جس کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ مرحوم ڈیسائی صاحب نے لاہور کے ایک صاحب کے ہاتھ مجھے بھجوا دیا تھا۔لیکن اس میں پہلے ایڈیشن کے مقابلے میںکوئی خاص اضافہ نہیں ہے۔
ڈیسائی صاحب پر میرا مضمون ابھی تک نہیں چھپا۔خواجہ صاحب نے ان کے فوٹو کی فرمائش کی تھی ۔میرے پاس ایک فوٹو تھا جو حافظ محمود شیرانی سیمینار دہلی میں مرحوم کی درخواست پر ان کے ساتھ بنوایا تھا۔وہی بھیج دیا ہے۔دیکھیں کب چھپتا ہے۔ اللہ کرے آپ بہمہ وجود بخیرو عافیت ہوں۔
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
(۱۰)
۷۔ستمبر۲۰۰۷ء
عزیزی گرامی شیخ صاحب !دعائیں
آپ کے تین خطوط اوپر تلے موصول ہوئے ۔پہلا ۲۰ ۔اگست کا تحریر کردہ دوسرا ۲۷۔اگست کا اور تیسرا کارڈ ۳۱۔اگست کا۔درمیانہ رقعہ دونوںکتابوں کے ساتھ تھا۔جن کے لئے میں آپ کا ازحد ممنون ہوں ۔اقبال علی صاحب والی کتاب بڑی دلچسپ ہے البتہ اس میں کتابت اور زبان کی بعض اغلاط ہیںنیز اکثر اشعار غلط لکھے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ڈاکٹر منیر احمد خاں صاحب اس پر نظر ثانی نہیں کر پائے جیسا کہ کتاب کے آغاز سے ان کا عندیہ معلوم ہوتا ہے۔میں نے ابھی تک اقبال علی صاحب کوشکریہ کا خط بھی نہیں لکھا ہے۔ خیال ہے کہ شکریہ کے علاوہ ان اغلاط کی فہرست بھی انھیں بھجوادوں تاکہ آیندہ اشاعت میں درستی ہو سکے۔اب آپ کے استفسارات کے جواب تحریر کرتا ہوں۔
(۱)ڈاکٹرڈیسائی مرحوم پر دو جلدوں میں جو کتاب ہےوہ دراصل’’ارمغان‘‘کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے پہلے پچاس ساٹھ صفحات کے عکس تیار کرکے آپ کو بھجوا رہا ہوں۔ اس سے آپ کو اپنے تمام سوالات کا جواب مل جواب مل جائے گا۔
(۲)گورنمنٹ کالج کے مجلے’’راوی‘‘کے تین خاص نمبر آپ کی خدمت میں روانہ کر رہا ہوں۔یہی دستیاب ہوسکے ہیں۔(’’راوی‘‘قیمتاً فروخت نہیں کیا جاتا)۔
(۳)سویرا میں محمد رفیع گلوکارپر شائع شدہ مضمون بصورت عکس ارسال ہے۔بلکہ اس کے بعد ایک اور صاحب نے اس ضمن میں مزید روشنی ڈالی تھی اس کا عکس بھی لف کر دیا گیا ہے۔
(۴) خورشید رضوی صاحب موسم گرما کی تعطیلات میں اپنے فرزندوں کے پاس سعودی عرب اور انگلستان چلے جاتے ہیں ۔اب کالج کھلا ہے تو ان شاء اللہ آیندہ پیر کے دن تشریف لائیں گے تو آپ کا سلام پہنچاؤں گا۔’’ڈھلتے سائے ‘‘ غالبا ًچھپ گئی ہے۔
(۵)ڈیسائی صاحب کی کتاب''Centres of......''(۵۴)کی C.Dمیں نے ایک صاحب سے (میرے بھانجے ندیم محمود) کہہ کر بنوائی تھی اوراس نے کسی عزیز کی وساطت سے بھجوائی تھی۔اللہ کرے یہ اوپن ہوجائے تو اطمینان ہو۔
(۶)’’صاحب جی سلطان جی‘‘ اور’’ نظام رنگ‘‘مجھے خود ڈاکٹراسلم فرخی صاحب نے بھجوادی تھیں ۔اس لئے زحمت نہ کیجئے
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
(۱۱)
۲۵ فروری۲۰۱۲ء
محترم شیخ صاحب!السلام علیکم
آپ کا نادر تحفہ یعنی علامہ عبدالعزیز میمنی کے موضوع پر آپ کی لاجواب کتاب موصول ہوئی ۔حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اس موضوع کا صحیح معنی میں حق ادا کردیا ہے۔
ابھی تک میں نے نصف سے کچھ زیادہ کتاب پڑھی ہے۔سوچا تھا کہ پوری کتاب پڑھ کر خط لکھوںگالیکن کتاب کی رسید کے طور پر زیادہ تاخیر کیے بغیر یہ عریضہ لکھ رہا ہوں ۔پوری دیانتداری سے کہتا ہوں کہ شخصیات کے موضوع پر کام کرنے والے پی۔ایچ۔ڈی کے طالبان علم کو آپ کی کتاب بطور نمونہ پیش نظر رکھنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ آپ کو علم و ادب کی زیادہ سے زیادہ خدمت کے لیے عمر درازاور توفیق ارزانی کرے۔
آپ نے سید شہیدکے قیام سندھ کے بارے میں جو معلومات فراہم کیں ان کا ذکر سن کر اشتیاق بہت زیادہ ہوا۔کاش کہ میںبھی ان اطلاعات سے مستفید و مستفیض ہوسکتا۔میاں محمد شفیع مرحوم کی اس بارے میں بیان کردہ خلاف حقیقت بات سے،مجھے یاد ہے کہ زمانہ طالب علمی میں اسے پڑھ کر بہت افسوس ہوا تھا۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔فیصل احمد ندوی صاحب تو لکھنؤ میں ہوں گے۔کیا انہوں نے ان معلومات کی مدد سے کوئی مضمون لکھا؟اور چھپوایا؟۔آپ یہ کرتے کہ خود ان معلومات پر مبنی مضمون تحریر کرکے چھپواتے۔بہر حال یہ فرمائیے کہ کیا ان حقائق پر مبنی معلومات کی آپ نے بھی کوئی نقل رکھی یا سب کچھ وہاں بھجوادیا؟اگر ان کی نقول موجود ہیں تو فوراً انہیں مضمون کی شکل دینے پر توجہ فرمائیے۔
آج کل حضرت محمود احمد برکاتی صاحب علیل ہیں۔اللہ تعالیٰ صحت عطا فرمائے۔اس عالم میں بھی سامی نامہ آیا ہے۔’’یادگارِ اسلاف‘‘پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔
مضامین تو بہت سے لوگوں پر لکھنے کی خواہش ہے ،اللہ تعالیٰ توفیق ارزانی کرے۔اب تک میرے کوئی دس بارہ مضمون ہوئے ہوں گے ۔جن کے نام یاد آرہے ہیںان کی فہرست دوسرے کاغذ پر درج کررہا ہوں۔ان میں بعض تو علمی اور دینی شخصیات ہیں اور کچھ گم نام لوگ جن میں کردار کی ایسی خوبیاں تھیںجو اب کم بلکہ بہت کم رہ گئی ہیں۔
اللہ کرے آپ بہمہ وجوہ قرین صحت وعافیت ہوں۔
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
۱۔بھاء جی (والد مرحوم پر ایک مختصر مضمون)
۲۔حکیم نیرواسطی
۳۔خورشید احمد خاں
۴۔سید نذرحسین شاہ
۵۔گل نبی
۶۔چک نمبر۱۷ کا شریفا
۷۔بے نام
۸۔یادگارِ اسلاف
۹۔کالے خاں
۱۰۔’’اختر شیرانی ایک باغ وبہار شخصیت‘‘ (والد مرحوم پر ذرا طویل مضمون)
چار پانچ مضمون اپنے کالج کے ان دوستوں پر ہیں جو ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو ان کی الوداعی تقریبات میں پڑھے تھے۔
ابھی ذہن میں پندرہ سولہ شخصیات پر لکھنے کا ارادہ ہے۔
(۸)
۲۱۔اپریل ۲۰۰۲۔ء
عزیزگرامی ۔سلام مسنون!
آپ کا ۱۴؍اپریل کا نوشتہ کارڈ موصول ہوا ۔اس سے قبل ایک پارسل جس میںآپ کی مطلوبہ دو کتابیں تھیں اور اس کے فوراًبعدایک عریضہ روانہ کر چکا ہوں۔یکتا جودھپوری کے ’’تذکرہ شعرائے جودھپور‘‘کی دستیابی سے بڑی مسرت ہوئی۔ میں نے اس کا ذکر کئی بار سنا اور پڑھا تھالیکن اب تک دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔یہ بھی میری مطلوبہ دونوں کتابوں یعنی’’دلی کی برادریاں‘‘اور’’سیرت بانی دارالعلوم دیوبند‘‘کے ساتھ روانہ کر دیجئے لیکن ساتھ ہی ان تینوں کتابوں کی قیمت سے بھی مطلع کر دیجئے گا۔
الحمدللہ کہ ’’ معربات رشیدی‘‘کا کام (تدوین کا)ختم ہو گیا اور اس کا مسودہ میں نے محبی مشفق خواجہ صاحب کو بھجوا دیا ہے۔رات خواجہ صاحب سے فون پر بات ہوئی تھی۔ان کی علالت پر بڑی تشویش ہے۔اللہ تعالیٰ صحت عاجلہ وکاملہ عطاکرے۔
امید ہے آپ بہمہ وجوہ بخیر وعافیت ہوں گے۔
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
پ۔ن
آپ سے ایک مشورہ بھی کرنا ہے۔ سابقہ ریاست،جے پور کی نظامت شیخاواٹی کے صدر مقام جھنجھنو میں ایک بزرگ کا مزار ہے جووہاں غالباً’’امام الاولیا‘‘کے لقب سے مشہور ہیں۔ان کے ہاتھ پر بہت سے مقامی راجپوتوں نے اسلام قبول کیاتھا۔کیا آپ کے پاس موجود کتابوں میں یا ان میں جو آپ نے پڑھی ہیں ان کے بارے میںکچھ معلومات مل سکتی ہیں مثلاً ان کا نام،سلسلہ،زمانہ وغیرہ اگر اس بارے میںکچھ علم ہو تومطلع کیجئے ۔مجھے ایک صاحب پر مضمون لکھنے کے سلسلے میں ان معلومات کی ضرورت ہے۔ممکن ہے آپ کے واقف کاروں میں اس علاقے کے کوئی صاحب علم کراچی میں موجود ہوں۔فقط
(۹)
۷۔مئی۲۰۰۲ء
عزیز گرامی محمد راشد صاحب۔سلام مسنون
آپ کے تحریر کردہ ۲۳؍اور ۲۷؍اپریل کے خطوط مع کتاب ’’دلی کی برادریاں‘‘موصول ہوئے۔
میرے خاکوں کی پسند کا بہت بہت شکریہ۔دراصل میرے وہ تینوں خاکے جو’’فنون‘‘میں چھپے بہت ہی گم نام اشخاص پر ہیں ۔اسی لئے میں نے آپ کو نہیں بھیجے تھے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی دلچسپی محض مشاہیر کے ساتھ ہے۔دراصل’’فنون‘‘ علمی سے زیادہ ادبی پرچہ ہے اور اس میں ادبی انداز کی تحریریںزیادہ پسند کی جاتی ہیں۔میں نے آپ کو شاید ’’یادگار اسلاف‘‘نامی خاکہ بھی (بصورت عکس) بھیجا تھا۔یہ بھی میں نے محبی احمد ندیم قاسمی صاحب کوفنون کے لئے دیا تھا لیکن انہوں نے اس میں دینی اور تاریخی پہلو غالب ہونے کے باعث فنون کے بجائے’’صحیفہ‘‘میں چھاپ دیا۔بہرحال اگر آپ فنون والے تینوں خاکے پڑھنا چاہیں اور یہ آپ کو کراچی میں آسانی سے دستیاب نہ ہوسکیں تو بلاتکلف مجھے لکھ دیجئے۔میں تینوں کے عکس آپ کو روانہ کردوں گا۔ ممکن ہے یہ بھی آپ کو پسند آئیں۔
حکیم صاحب کی تحریریں شکستہ ہونے کے سبب سے پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔میں نے ایک خوش خط دوست سے درخواست کرکے انہیں صاف کروایا ہے اس رعایت کے ساتھ کہ جو الفاظ آپ کی سمجھ میں نہ آئیں ان کی جگہ چھوڑ دیجئے ۔وہ میں پُر کرنے کی کوشش کروں گا۔
یہ تینوں موضوعات مل جل کر کوئی ڈھائی تین سو صفحات پر مشتمل ہوں گے۔لیکن ابھی دو ماہ قبل جب حکیم صاحب میری درخواست پر والد مرحوم اختر شیرانی پر لکھے گئے اپنے مضمون پرنظر ثانی کر رہے تھے انہیں اپنے کاغذات میں بعض اہم شخصیات مثلاًمولانا ابوالکلام آزاد،مولانا حسین مدنی وغیرہم پر لکھے گئے مضامین بھی دستیاب ہوئے۔میںنے ان سے درخواست کی ہے کہ ان کے عکس بھی مجھے بھجوا دیجے تاکہ شخصی خاکے ایک مجموعہ کی صورت میں ا ٓسکیں۔ہم دونوں نے اس کا نام’’طاقِ نسیاں‘‘تجویز کیا ہے ۔حکیم صاحب کا فرمانا ہے کہ نقش اول ہونے کے باعث نئے دستیاب شدہ مضامین(جومیرے خیال میں چھ سات سے کیا کم ہونگے)کا پڑھنا زیادہ دقت طلب ہے اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ کسی بہتر خط والے شخص سے انہیں صاف کرواکرروانہ کروں گا۔اب میں ان مضامین کا منتظر ہوں۔
مجھے اطلاع ملی ہے کہ آیندہ ماہ ستمبر کی ۹؍ تاریخ کوکراچی میںایک ادبی انجمن ’’یومِ اختر شیرانی‘‘منارہی ہے۔اس صورت میںانشا اللہ میںستمبر کے پہلے ہفتے میں اس اجلاس میں ایک مضمون پڑھنے کی غرض سے کراچی آؤںگا۔اگر حکیم صاحب حسب وعدہ تازہ ملنے والے مضامین اس وقت تک نہ بھیجیںتو میں ان سے مل کریہ خاکے حاصل کرلوںگاپھر میرے پاس موجود خاکوں کے ساتھ ملاکر اور ترتیب دے کر اشاعت کے لئے یہ مجموعہ تیار ہو جائے گا۔میری تو دلی خواہش ہے کہ آپ ہی ’’ادارۂ علم وفن ‘‘کے زیرِ اہتمام یہ مجموعہ چھاپیں۔ کراچی آنے کی صورت میں انشا اللہ میںاورآپ دونوں حکیم صاحب کی خدمت میں حاضری دیں گے اور بالمشافہ مضامین کی یکجائی اور اس کی تفصیل پر گفتگو کرلیں گے۔
آپ نے جن دوکتابوں کا پوچھا ہے ان میں سے میرے پاس توکوئی نہیں۔البتہ میاں محمد شفیع والی کتاب میں نے پڑھی تھی۔شاید کالج کی لائبریری میں مل جائے۔ دوسری ’’روداد مجاہدین ہند‘‘ از خواصی خاں میں نے کبھی نہیں دیکھی۔اس کے لئے مکتبہ رشیدیہ لاہور سے معلوم کرتا ہوںانشا اللہ آیندہ خط میں اس بارے میں اطلاع دوں گا۔کیاآپ خود حیدرآباد گئے تھے؟اگر گئے تھے تو کیا حضرت ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ان کی صحت کا کیا حال ہے؟کیا ملاقات کر لیتے ہیں؟
فقط
مظہر محمود شیرانی
(۵)
۲۷؍ستمبر ۲۰۰۰۔ء
عزیز گرامی محمد راشد صاحب !السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ابھی میں آپ کو خط لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ آپ کا ۱۶؍ ستمبر کا تحریر کردہ گرامی نامہ ملا۔دراصل تاخیر کا سبب یہ ہوا کہ کراچی سے واپس آکر میں ایک عزیزہ کی وفات پر راولپنڈی چلا گیا تھا۔پھر واپسی پر گاؤں کا چکر لگایا۔عزیزی عبدالقیوم کی چھوٹی بہن کی شادی ۸؍اکتوبر کو ٹھہری ہے۔اس کی مصروفیت بھی ہے۔
خالد محمود صاحب کی عطا کردہ’’مکتوبات ڈاکٹرغلام مصطفی خاں‘‘کی دونوں جلدیںاور ڈاکٹر رضوان واسطی(درست:ندوی) صاحب کاشان الحق حقی صا حب کی کتاب پر تبصرہ موصول ہوا جس کے لئے میں آپ دونوں کا ممنون ہوں۔میں نے مکتوبات کا ایک سیٹ ہمشیرہ صاحبہ کو دے دیا ہے کیونکہ دوسری جلد میںان کے نام محترم ڈاکٹر صاحب کے سولہ خطوط شامل ہیں۔میں ’’تاریخ اسلاف‘‘کے لئے ڈاکٹر صاحب سے براہ راست درخواست کر رہا ہوں۔البتہ ان کی تالیف ’’مواطق ثلاثہ‘‘]خدا جانے یہ نام میں صحیح لکھ بھی رہا ہوں یا نہیں؟[کے لئے میںنے آپ سے عرض کی تھی کہ کراچی سے حاصل کرکے مجھے ارسال فرما دیجئے گا۔عند الفرصت توجہ کیجئے گا۔
آپ نے جن دو کتابوں کے بارے میں استفسار کیاتھا اور اپنے خط میں بھی ان کا ذکر کیا ہے ان سے متعلق ضروری معلومات درج ذیل ہیں:
''Dictionary of Indian Biography'' by C.E Buckland (i.c.s) Swan Sonnenschein
& Co,LIM 25 High Street,Bloomsbury,LONDON1906یہ کتاب نایاب تھی ۔۱۹۷۵ء میں لاہور کے ایک ادارے ’’البیرونی‘‘نے اس کا دوسراایڈیشن شائع کیا اب تو یہ ادارہ بھی ختم ہوچکا ہے۔میں لاہور میں دیکھوں گا ۔شاید انارکلی کے کسی کباڑیئے کے ہاں سے کوئی نسخہ مل جائے۔لیکن آپ خوب جانتے ہیںکہ یہ کام محض حسن اتفاق سے ہوتا ہے۔دوسری کتاب''The Palaces Of India''ایک فری لانس فوٹوگرافر خاتون''Vrginia fass''کے کھینچے ہوئے فوٹوؤںکا مجموعہ ہے جس پر مہاراجہ فتح سنگھ راؤ گائیکواڑ آف بڑودہ نے پیش لفظ لکھا ہے نیز تعارفی عبارت بھی سپردقلم کی ہے۔ یہ کتاب ہندوستان کی تیس مختلف ریاستوں کے محلات کے منتخب فوٹوگرافوں پر مشتمل ہے۔یہ پہلی بار ۱۹۸۰ء میں William Collins Sons & Co,Ltd,london. glasgow.Sydney.Auchland.Toronto.Johaunesbury.نے شائع کی تھی۔
برادرم خورشید احمد خان صاحب توفروری ۱۹۹۷ء میں وفات پاگئے تھے۔دیسائی صاحب کو اس کا علم نہ ہوسکا تھا۔
جن دو کتابوں کے بارے میں ڈیسائی صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔یعنی دیوان قاضی محمود دریائی اور ’’گلستان‘‘ان کے بارے میں چند روز تک لاہور آکر یونیورسٹی لائبریری سے معلوم کروں گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ لائبریری والے مخطوطات کے عکس نہیں دیتے مائکروفلم دیتے ہیں اور ان کی مائکروفلم تیار کرنے والی مشین کئی سال سے خراب پڑی ہے۔اس صورت میں اہل ِعلم کو جو لاہور سے دوربیٹھے ہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔بہر حال میں اپنی سی کوشش کروں گا۔خدا کرے بارور ہو۔
جب آپ کی خطاطوں والی کتاب شائع ہو تو مہربانی فرما کر مجھے اس سے محروم نہ رکھئے گا۔میں اس کی کچھ جلدیں خرید کر ہندوستان(ٹونک) اور پاکستان میں اپنے دوستوں کو روانہ کروں گا۔
یونیورسٹی لائبریری سے رابطے کے بعد انشاء اللہ آپ کو مطلع کروںگا۔لیکن یہ چیزیں دیسائی صاحب کو بھیجنے کی کیا صورت ہوگی؟کیا ڈاک سے روانہ کر دی جائیں یا کوئی جانے والا مل جائے گا۔
گجرات اردو اکیڈیمی گاندھی نگر نے بعض پرانی اردو کتابوں کے عکسی ایڈیشن شائع کئے ہیں ۔ ان میں سے بعض مجھے درکار ہیں ۔کیا ان کی کوئی صورت ہوسکتی ہے؟ باقی آیندہ
والسلام
آپکا مخلص
مظہر محمود شیرانی
(۲)
۱۰ ؍دسمبر۹۸۔ء
عزیز گرامی !السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!!
ایک مدت بعد آپ کا خیریت نامہ موصول ہوا’’تذکرۂ خطاطین‘‘کی اشاعت کی تیاری پر مسرت ہوئی ۔خدا کرے یہ کام بخیر و خوبی اور جلد ازجلد تکمیل کو پہنچے۔عزیزی واجد محمودکبھی کبھار شیخوپورہ آتا ہے۔ تذکرہ کے تعارف نامہ کا ایک عکس میں اسے پہنچا دوں گا۔
نفیس شاہ صاحب سے مجھے بھی نیاز حاصل ہے گو ملاقات کو ایک عرصہ ہوگیا۔میں حسب سابق موسم سرما میں ہونے والی گردن کے مہروں کی شکایت میں مبتلا ہوں۔اس لئے اشد ضرورت یا مجبوری کے بغیر سفر سے بچتا ہوں ۔ڈاکٹر نثار احمد فاروقی صاحب سے ملنے بھی نہ جا سکا۔اب تو وہ واپس جاچکے ہوں گے۔
’’منظورۃالسعداء‘‘کا کوئی نسخہ جدمرحوم کے کتب خانے(مشمولہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری) میں میری نظر سے نہیں گزرااور غالباً فہرست مخطوطات شیرانی مرتبہ ڈاکٹر بشیر حسین مرحوم میں بھی اس کا تعارف موجود نہیں ہے۔یوں بھی اس قابل قدر تالیف کا ثقہ نسخہ ٹونک ہی سے مل سکتا ہے اور یہ محبی نثار فاروقی صاحب کے لئے حاصل کرنا آسان ہے۔البتہ اگر نفیس شاہ صاحب کو اس کی ضرورت ہے تو دوسری بات ہے۔مکاتیب حافظ محمود شیرانی کا ٹائیٹل واقعی حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم نے لکھا تھا۔مجھے خوش قسمتی سے ان کی خدمت میں بھی نیا حاصل تھا۔’’مجلہ تحقیق‘‘ میں شائع ہونے والے مجموعہ مکاتیب اور ’’مکاتیب حافظ محمود شیرانی‘‘ بصورت کتاب میں حرف چند خطوط کا فرق ہے۔وہ یوں کہ کتاب بعد میں شائع ہونے کی وجہ سے اس میں بعض مکاتیب کا آخرمیں اضافہ کردیا گیا تھا۔کیاآپ کے پاس مکاتیب کتابی شکل میں موجود ہے؟
آپ نے میرے مقالے کے مطالعہ کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔کیا یہ آپ نے کہیں سے حاصل کرلی ہے۔اگر نہیں تو میں کسی وقت لاہور جانے پر اس کا انتظام کروں؟یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔
اب آپ کے استفسارات کی طرف آتا ہوں:
(۱) ’’مخزن‘‘ کا اشاریہ ایم۔اے کے کسی طالب علم (یا طالبہ) نے تیار کیا تھا۔یہ میں نے پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں دیکھا تھا۔اس سے علامہ میمنی کے مقالات(۱۶) کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔میں نے آپ کی فرمائش نوٹ کرلی ہے اور انشا اللہ اسے پوری کرنے کی سعی کروں گا۔
(۲) ڈاکٹر صادق حسین مرحوم اپنی کتابیں خود ہی شائع کرتے تھے۔چنانچہ ’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ ،’’تحریکِ مجاہدین‘‘ کے چھ حصے اور متعدد طبی موضوعات پر کتابیں انہوں نے اپنے خرچ پر شائع کی تھیں۔’’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘کا کوئی نسخہ ان کے پاس موجود نہ تھا۔میں ان کی خدمت میں حاضری دیتا رہتا تھا۔ان کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر کرنل صبیح الدین طور سے بھی میری ملاقات رہی۔اب یہ بھی مرحوم ہوچکے ہیں۔
ان کے دوسرے فرزندان ان کے آبائی مکان ہی میں رہتے ہیں۔میںنے راحت مارکیٹ(اردو بازار) کے ایک کتاب فروش کو ان کے پاس بھیجا تھا کہ وہ اپنے والد مرحوم کی کتابیں کمیشن پر فروخت کرنے کے لئے اس کو دے دیاکریں لیکن کامیابی نہ ہوئی ۔اس سے قبل میں خود بھی کوشش کر چکا تھاکہ اپنے بعض دوستوں کے لئے کتابیںبعض ان کے ہاں سے حاصل کروں لیکن مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ڈاکٹر صادق مرحوم اپنی تازہ شائع ہونے والی تالیفات اور بالخصوص ’’تحریک مجاہدین ‘‘کے مختلف حصے خاصی تعداد میںمجھے عنایت فرماتے تھے اور میں انہیں ہندوستان اور پاکستان کے علم دوست اصحاب اور کتب خانوں کو بھجوادیتا تھا۔ان کی وفات پر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
(۳)جہاں تک مجھے علم ہے علامہ میمنی اور شیرانی صاحب کے روابط کے بارے میںکوئی حوالہ موجود نہیں۔دونوںاساطین علم و تحقیق کے میدان مختلف تھے۔
شیرانی صاحب گو، اردو اور فارسی کے نامور محقق تھے اور انہوں نے اپنے نامور دادا حافظ محمود خان شیرانی کے قلمی آثار کی جمع آوری، ترتیب و اشاعت میں زندگی کے 40 سال صرف کیے اور دادا پر ہی Ph.D کا مقالہ بھی لکھا لیکن ان کو زیادہ شہرت بحیثیت کامیاب خاکہ نگار کے ملی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہمارے ہاں علمی اور تحقیقی کاموں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جن کے وہ حق دار ہیں۔ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی کی 10 جلدوں میں جو علمی جواہر انہوں نے محفوظ کرلیے ان کے بارے میں نامور محقق مشفق خواجہ مرحوم نے ایک خط میں تحریر فرمایا تھا کہ اگر کسی کو یہ معلوم کرنا ہو کہ علم کسے کہتے ہیں تو وہ مقالاتِ حافظ محمود شیرانی کا مطالعہ کرے۔ مشفق خواجہ مرحوم شیرانی صاحب کی خاکہ نگاری کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے چناں چہ اس بارے میں انہوں نے ایک خط میں شیرانی صاحب کو لکھاتھا:
’’حقیقت یہ ہے کہ شخصیت نگاری کا جو اسلوب آپ کے ہاں ملتا ہے وہ کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتا۔آپ اپنی یادوں کو اس طرح تازہ کرتے ہیں کہ متعلقہ شخصیت کے خدوخال روشن ہوتے جاتے ہیں اور مضمون کے خاتمے پر محسوس ہوتا ہے کہ اس شخصیت کو تو ہم بھی بہت قریب سے جانتے ہیں۔‘‘
شیرانی صاحب کے خاکوں کے اب تک تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا مجموعہ ’’کہاں سے لائوں انہیں‘‘ ہے جس میں اختر شیرانی، مولانا سید محمد یعقوب حسن، پروفیسر حمید احمد خان، سید وزیر الحسن عابدی، حکیم نیّر واسطی، اکرام حسن خان، ڈاکٹر ضیا الدین دیسائی، مشفق خواجہ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، رشید حسن خان اور احمد ندیم قاسمی کے نہایت دلچسپ اور معلومات افزاخاکے موجود ہیں۔ ان تمام خاکوں میں راقم کو حکیم نیّر واسطی کا خاکہ سب سے زیادہ پسند آیا تھا جو سب سے پہلے ماہنامہ قومی زبان کراچی میں شائع ہوا ۔ ایک مرتبہ حکیم سیّد محمود احمد برکاتی شہید سے راقم نے جب شیرانی صاحب کے لکھے خاکوں کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی اس خاکے کو ان کا بہترین خاکہ قرار دیا تھا۔ خاکہ نگاری کے موضوع پر شیرانی صاحب کی دوسری کتاب ’’بے نشانوں کا نشاں‘‘ ہے جس میں کل نو خاکے ہیں۔ یہ تمام خاکے ان انسانوں کے ہیں جو غیر معروف لیکن انسانی خوبیوں کے حامل تھے۔ شیرانی صاحب نے اپنے قلم سے یہ خاکے لکھ کر ان غیر معروف انسانوں کو معروف بنادیا۔ان کے خاکوں کا تیسرا مجموعہ ’’وہ کہاں گئے‘‘ ہے جوان کے انتقال کے بعد کراچی سے شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی ایک انتھک عالم اور محقق تھے۔ وہ 9 اکتوبر 1935ء کو شیرانی آباد (جودھپور۔ راجپوتانہ) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ کچھ عرصے لاڑکانہ رہے ،بعد ازاں شیخو پورہ منتقل ہو گئے ۔انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ اور ایم اے فارسی کی ڈگریاں حاصل کیں۔وہ فارسی زبان و ادب کے بے مثل عالم پروفیسر سیّد وزیر الحسن عابدی کے نامو ر تلامذہ میں شامل تھے۔ملازمت کی ابتدا میں وہ کچھ عرصہ مظفر گڑھ میں رہے اور 1960 سے 1995 تک گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ،گورنمنٹ کالج لاہور اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج شیخو پورہ میں بطور استاد زبان ِ فارسی خدمات انجام دیں۔ شیرانی صاحب کا مستقل قیام شیخوپورہ میںتھا اور وہیں مختصر علالت کے بعد 12 جون 2020 کووہ راہی ملک عدم ہوگئے۔علم اور اہل علم کے ساتھ ہمارے اجتماعی رویے کے حوالے سے جو افسوس ناک صورت حال ہو چکی ہے اس کی بنا پر بہت کم لوگوں کو احساس ہوگا کہ شیرانی صاحب کا انتقال محض ایک فردِ واحد کاانتقا ل نہیں بلکہ تقریباً سو سالہ علمی و ادبی روایت کا خاتمہ بھی ہے ۔شیرانی صاحب کے نامور دادا حافظ محمود خان شیرانی ۱۸۹۷ء میں بحیثیت طالب علم ٹونک سے لاہور تشریف لائے تھے۔اس کے بعدانھوں نے ۱۹۲۱ء سے ۱۹۴۰ء تک بحیثیت استاد فارسی پہلے اسلامیہ کالج لاہور اور بعد ازاں اورینٹل کالج لاہور میں خدمات انجام دیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد۱۹۴۰ء میںوہ ٹونک تشریف لے گئے جہاں ۱۵؍فروری ۱۹۴۶ء کو ان کا انتقال ہوا۔ شیرانی صاحب کے والد اختر شیرانی اردو کے نامور شاعر تھے اور گو وہ اردو ادب میںشاعرِ رومان کے طور پر معروف ہیں لیکن شیرانی صاحب کی عنایت سے جب اختر صاحب کی کہی نعتیں راقم نے پڑھیں تو خوش گوار حیرت ہوئی۔ان نعتوں میں احترام اور جذبے کی گہرائی اور اس پر شاعرانہ خوبیوں نے انھیں اردو کی بہترین نعتوں میں شامل کر نے کے قابل بنا دیا ہے ۔اسی طرح راقم نے اختر شیرانی کی نظم’’ اودیس سے آنے والے بتا‘‘ بچپن میں،قیام ِحیدرآباد کے دوران، ایک بزرگ کی زبانی سنی تھی اور اس کا کچھ حصہ حافظے میں محفوظ رہ تھا ۔بعد ازاں شیرانی صاحب کی عنایت سے مکمل نظم کی کاپی حاصل ہوئی اوربچپن میں سنی ہوئی اس نظم کو پڑھ کر بے حدخوشی ہوئی ۔یہ نظم وطن سے دور ایک ایسے شخص کے دل کی آواز ہے جو وطن کی ایک ایک چیز کو یاد کرتا ہے اور وطن سے آنے والے سے ان تمام چیزوںکے بارے میں دریافت کرتا ہے۔اختر شیرانی کی عمر کا زیادہ حصہ لاہور ہی میں گزرا اور وہیں مورخہ ۹؍ستمبر ۱۹۴۸ء کو ان کا انتقال ہوا اور
*ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی مرحوم (وفات : 13-06-2020ء)*
*تحریر: محمد راشد شیخ*
فارسی اور اردو کے نامور محقق اور استاد، کئی علمی کتابوں کے مصنف،مولف و مرتّب، کامیاب خاکہ نگار، لغت نگار اور شاعر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی مورخہ 12 جون 2020ء کو شیخوپورہ میں وفات پاگئے۔وہ نامور محقق بلکہ بقول رشید حسن خاں اردو تحقیق کے معلّمِ اوّ ل حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور معروف شاعر اختر شیرانی کے صاحب زادے تھے۔البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی علمی خدمات سے واقف یہی کہتے تھے کہ وہ اپنے دادا کے صحیح جانشین اور ان کی علمی وراثت کے امین تھے یعنی عربی محاورہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لَابِیہِ(بیٹا اپنے باپ کا راز دار ہوتا ہے) تبدیل ہوکر اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِجَدِّہِ ہو چکا تھا۔ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی اور ان کے نامور دادا حافظ محمود شیرانی میں بہت سی خوبیاں مشترک تھیں۔دونوں فارسی زبان و ادب کے بے مثل عالم تھے،دونوں کو خاص تحقیقی ذوق عطا کیا گیا تھا اوردونوں اعلیٰ انسانی خوبیوں کے حامل تھے۔حافظ محمود شیرانی اس اعتبار سے ایک کامیاب استاد تھے کہ انھیں تلامذہ کی ایک ایسی جماعت کی تربیت کا موقع ملا جس نے عمر بھر علم و تحقیق سے تعلق رکھا اور شیرانی مکتبِ تحقیق کے نامور رکن بن کر علمی کارنامے انجام دیے ۔انھی تلامذہ میں سابق پرنسپل اورینٹل کالج لاہور ڈاکٹر سیّد عبداللہ بھی شامل تھے ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون بہ عنوان’’ پروفیسر شیرانی‘‘ میں حافظ صاحب کے جن جن محاسن کا ذکر کیا ،ان کے پوتے ڈاکٹرمظہر محمود شیرانی کی شخصیت میںبھی ہمیں وہی محاسن نظر آئے۔اس موضوع پر ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے لکھا تھا:
’’شیرانی ایک وضع دار،سادہ مزاج مگر غیّور طبیعت کے بزرگ تھے۔وہ لباس میں بھی سادگی پسند تھے اور عام طرزِ ماند و بودمیں بھی تکلف اور طمطراق سے نفرت تھی۔کھانے پینے کی عادتوں میں بھی یہی خصوصیات نمایاں تھیں۔ان کادسترخوان الوانِ نعمت کی فراوانی کے لیے ضرب المثل تھا لیکن و ہ خود کم کھانے والے اور دوسروں کو زیادہ کھلانے والے آدمی تھے۔وہ دوسروں پر احسان کرتے تھے مگر خود زیرِبارِ احسان ہونے سے بہت بچتے تھے اورجب کبھی بامرِ مجبوری کسی کے ذرا بھی احسان مند ہو جاتے تھے تو اس احسان مندی کے جواب میں ایک کے بدلے دس کے اصول پر عمل کرتے تھے۔‘‘
اسی مضمون میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے حافظ محمود شیرانی کی شرافت اور سیرت و کردا رکے بارے میں لکھاتھا:
’’ان کا علم جس قدر گہرا اور وسیع تھا ،ان کی شرافت اور بلند انسانیت اسی قدر لامثال اور لازوال تھی۔جن لوگوں کو اپنی زندگی میں ان سے کچھ ربط پیداہوا،وہ انھیں کبھی فراموش نہ کر سکیں گے۔نہ اس وجہ سے کہ وہ ایک بڑے عالم اور محقق تھے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ وہ بڑے پاکیزہ سیرت انسان تھے۔‘‘
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی بھی اپنے دادا کی خوبیوں کے جامع تھے اور دادا کی طرح جس جس سے ان کا ربط ہوا وہ انھیں فراموش نہ کر سکے گا۔وہ ان باکمال انسانوں میں شامل تھے جو جب تک جیتے ہیں اپنی شفقت، محبت، ہمدردی، دل سوزی ،اپنائیت اور جذبہء خیر خواہی سے دلوں میں گھر کرلیتے ہیں اور جب اپنی عمرِ طبیعی پوری کرکے اس جہان سے کوچ کرتے ہیں تو ایسا خلا چھوڑ جاتے ہیں جو کسی صورت پُر ہوتا نظر نہیں آتا۔ راقم سطور بھی ان خوش قسمت انسانوں میں شامل ہے جنھیں گزشتہ 25 برسوں کے دوران شیرانی صاحب سے نہ صرف ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا بلکہ ان کی وسعت ِقلبی، جذبہ ء خیر خواہی اور علمی فیض رسانی سے فیضیاب ہونے کے بار بار مواقع حاصل ہوئے۔
جب سے شیرانی صاحب کے انتقال کی خبر سنی ہے، میر تقی میر کی یہ رباعی بار بار حافظے کی لوح پر نمودار ہورہی ہے:
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ناز اس کو کمال پر بہت کم ہووے
ہوگرمِ سخن تو گرد آوے یک خلق
خاموش رہے تو ایک عالَم ہووے
شاید اس رباعی کے یاد آنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ابتدائی تین مصرعوں میں میر تقی میر نے جن انسانی خوبیوں کا ذکر کیا وہ بہ تمام و کمال ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں موجود تھیں۔ چوتھے مصرعے سے متعلق ہم اس وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے انہیں کبھی خاموش دیکھا ہی نہیں بلکہ جب بھی دیکھا، وہ گل افشانیِ گفتار کرتے ہی نظر آئے خواہ شخصی ملاقاتیں ہوں خواہ فون پر گفتگو ہو۔ اس پون صدی کے عرصے میں کبھی ایسا نہ ہوا کہ انھوں نے دوران ملاقات یا فون پر گفتگو کے دوران اپنا ئیت اور بلند اخلاقی کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔دوران ِ گفتگو وہ کوئی نہ کوئی دلچسپ جملہ زبان سے ادا کرتے جس سے نہ صرف وہ لطف لیتے بلکہ سامعین بھی ۔یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم ایسے چند جملے نقل کرتے ہیں:
یہ نہیں کہ آپ لاہور سے چند گھنٹوں کے لیے چھانگا مانگا ہو کر آئیں تو ہر ایک سے گلے ملنے کا حق آپ کو حاصل ہو جائے، بچے بچے کا سلام کا جواب دینے میں (جیتے رہو، پھلو پھولو) صرف تین بزرگ تھے۔ مولانا شوکت علی، خواجہ حسن نظامی اور مولانا حسرت موہانی۔ حکیم اجمل خاں کے پوتے حکیم محمد جمال سویدا زیادہ تر امراض کا علاج مرکبات کے بجائے مفردات سے کرتے تھے۔ اگر اس درد کے سامنے کسی قیمتی غذا کی ضرورت ہوتی جیسے پھل یا مرغی کا شوربہ وغیرہ جو ان غریبوں کی حیثیت سے زیادہ ہوتا، تو دس دس یا پانچ پانچ روپے بھی مریضوں میں تقسیم کرتے۔
ایک دفعہ ایک بھنگی نے ڈیوڑھی میں حکیم صاحب کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا، ’’حکیم صاحب! پیٹ میں آگ سی لگ رہی ہے، نہ بھوک ہے نہ پیاس۔‘‘ حکیم صاحب بولے: ’’کتے کا گوشت کھاؤ۔‘‘ سب کو حیرت ہوئی کہ یہ کیا علاج ہوا؟ لیکن حکیم صاحب کا حکم تھا، اس لیے کتے کا گوشت اس بھنگی کو کھلایا، اس گوشت کے کھاتے ہی اسے قے ہوئی اور قے میں گوشت کے ساتھ چمٹی ہوئی چچڑیاں نکلیں جو شاید وہ پانی کے ساتھ پی گیا تھا اور وہ چچڑیاں پیٹ میں جا کر انتڑیوں میں چپک گئی تھیں اور جیسے ہی کتے کا گوشت اس بھنگی کے پیٹ میں پہنچا اور وہ اس مریض کی انتڑیوں کو چھوڑ کر اپنی محبوب غذا کتے کے گوشت پر لپکیں۔‘‘
ایک دفعہ ایک جولاہا پیٹ کے درد کی شکایت لے کر آیا تو حکیم محمد احمد خاں نے اسے چنے کھلانے کو کہا اور جیسے ہی اس مریض نے چنے کھائے اس کے پیٹ کا درد جاتا رہا۔ مصاحبوں نے پوچھا، پیٹ کے درد میں چنے؟
حکیم صاحب نے کہا، ’’ یہ جولاہا ہے، ان لوگوں میں شادی بیاہ میں شکرانہ ہوتا ہے، شکرانہ چاولوں کا خشکا ہوتا ہے جس پر لوٹے کی ٹونٹی سے گھی ڈالا جاتا ہے اور پھر بھر بھر پیالے شکر اور گھی اور شکر ان ابلے ہوئے چاولوں پر اس وقت ڈالا جاتا ہے جب مہمان دونوں ہاتھوں سے بس بس نہ کرنے لگے۔ حکیم صاحب نے بتایا یہ جولاہا کہیں سے شکرانہ کھا کر آیا تھا، یہ گھی اس کی آنتوں میں بیٹھ گیا تھا، چنوں نے جا کر وہ گھی جذب کر لیا اور پیٹ کا درد جاتا رہا۔
یہ سارے بلّی ماروں کے حکیم طبیب سے زیادہ قیافہ شناس تھے، صرف مریض کی نبض ہی نہیں دیکھتے تھے، اس کی حیثیت اور شخصیت بھی دیکھتے تھے۔ دلی کے ہر کوچے میں طبیب، شاعر اور ادیب پائے جاتے تھے، یہ جو کوچۂ چیلاں ہے جہاں ہم رہتے تھے دراصل ’’ کوچۂ چہل امیراں‘‘ کا مخفف ہے۔ یہاں امیروں، ادیبوں اور ہنرمندوں کے چالیس گھر تھے، ہر طرح کا بندہ یہاں پایا جاتا تھا، لیکن پوری دلّی ہی فنکاروں، طبیبوں، شاعروں اور ادیبوں سے بھری پڑی تھی، میر صاحب نے یوں ہی تو نہیں کہہ دیا تھا کہ:
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
بہ شکریہ اکسپرس
(جاری ہے)
وفیات: 13 جون
1979 – مولانا سید محمد الحسنی (مدیر البعث الاسلامی، لکھنؤ)
1982 – شاہ خالد بن عبد العزیز آل سعود (بادشاہ، سعودی عرب)
1987 – صغیر علی خواجہ (پروفیسر)
1988 – عنبر نظامی (منظور احمد خان، ادیب و محقق)
1990 – بیگم رعنا لیاقت علی خان (خاتونِ اوّل، پاکستان)
1990 – کوثر چاندپوری (سید علی، افسانہ نگار)
2003 – معراج محمد خالد (سابق وزیرِ اعظم، پاکستان)
2004 – حفیظ تائب (شاعرِ نعت)
2007 – رام چندر گاندھی (پوتے مہاتما گاندھی)
2007 – ڈاکٹر غلام حسین ذو الفقار (مورخ و ادیب)
2012 – مہدی حسن (نامور غزل گائیک)
2020 – ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی (ادیب، لغت نویس)
2021 – اختر ہاشمی
(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ – زیر ترتیب: عبد المتین منیری)
whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سلسلہ نمبر: 253
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مرزا ہادی رؔسوا*
*وجہ رنگینئ حیات گئی
*
افسوس! جن باتوں کو میں اب سمجہی ،اگر پہلے ہی سے سمجھ گئی ہوتی تو بہت اچھا ہوتا؛مگر نہ کوئی سمجھانے والا تھا،نہ خود اتنا تجربہ تھا کہ آپ ہی آپ سمجھ لیتی ۔ مولوی صاحب نے جو دو حرف پڑھا دیئے تھے وہ میرے بہت کام آئے ( خدا ان کے درجات عالی کرے۔) اس زمانے میں مجھے اس کی قدر نہ تھی،تن آسانی اور آرام طلبی کے سوا کوئی کام نہ تھا، علاوہ اس کے قدردان اس قدر تھے کہ کسی وقت فرصت ہی نہیں ملتی تھی،جب وہ دن آئے کہ قدردان ایک ایک کرکے کھسکنے لگے تو ذرا مجھے مہلت ملی،اس زمانے میں کتب بینی کا شوق بڑھا؛ کیونکہ سوائے اس کے اب کوئی اور شغل نہ رہا تھا، میں سچ کہتی ہوں کہ: ”اگر یہ شوق نہ ہوتا تو اب تک میں زندہ نہ رہتی، جوانی کے ماتم اور اگلے( گزرے ہوئے) قدر دانوں کے غم میں کب کا خاتمہ ہوگیا ہوتا“۔ کچھ دنوں تو میں قصے کہانی کی کتابوں سے دل بہلاتی رہی، ایک دن پرانی کتابیں دھوپ دینے کے لیے نکالیں، ان میں وہ ”گلستان“ بھی نکلی جو مولوی صاحب سے پڑھی تھی۔ ادھر ادھر ورق الٹ پلٹ کے پڑھنے لگی۔ پہلے مجھے اس کتاب سے نفرت سی ہوگئی تھی۔ ایک تو اس لیے کہ تعلیم کا ابتدائی زمانہ تھا، عبارت مشکل معلوم ہوتی تھی۔ دوسرے تجربہ نہ تھا اس لیے کچھ سمجھ میں نہ آتی تھی۔ اب جو پڑھا تو وہ دقتیں دور ہو چکی تھیں۔ خوب ہی دل لگاکے میں نے سرے سے آخر تک کئی مرتبہ پڑھا۔ فقرہ فقرہ دل میں اتراجاتا تھا۔ اس کے بعد ایک صاحب سے ”اخلاق ناصری“ کی تعریف سن کے اس کے پڑھنے کا شوق ہوا۔ انہی سے ایک نسخہ منگاکے پڑھا۔ واقعی اس کتاب کے مطلب بھی مشکل ہیں اور عربی لفظیں کثرت سے ہیں۔ اس لیے اس کے سمجھنے میں بہت دقت ہوئی ؛مگر تھوڑا تھوڑا پڑھ کے بہت دنوں میں کتاب کو ختم کیا۔
پھر ”دانش نامہ غیاث منصور“ نول کشور کے مطبع میں چھپا، اسے پڑھا۔ پھر ایک مرتبہ صغرٰی وکبرٰی کو بجائے خود مطالعہ کیا اور جو جو سمجھ میں نہیں آیا اسے پوچھ لیا،کتابوں کے پڑھنے سے مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے دنیا کے بھید مجھ پر کھلتے جاتے ہیں۔ ہر بات کی سمجھ آگئی۔ اس کے بعد میں نے بہت سی کتابیں اس قسم کی اردو فارسی کی بجائے خود پڑھیں۔ اس سے طبیعت کو جلا ہوتی گئی۔ ”قصائد انوری“ و ”خاقانی“ جستہ جستہ پڑھے۔ مگر جھوٹی خوشامد کی باتوں میں اب میرا دل نہ لگتا تھا۔ اس لیے ان کو بند کر کے الماری میں رکھ دیا ۔ فی الحال کئی اخبار بھی میرے پاس آتے ہیں۔ انہیں دیکھا کرتی ہوں۔ ان سے دنیا بھر کا حال معلوم ہوتا رہتا ہے۔ کفایت شعاری کی وجہ سے میرے پاس اب بھی اس قدر اندوختہ ہے کہ اپنی زندگی بسر کرلے جاؤںگی ۔ وہاں کا مالک اللہ ہے۔ میں بہت دن ہوئے سچے دل سے تو بہ کر چکی ہوں اور حتی الوسع نماز روزے کی پابند ہوں۔ رہتی رنڈی کی طرح ہوں۔ خدا چاہے مارے، چاہے جلائے، مجھ سے پردے میں گھٹ گھٹ کے تو نہ بیٹھا جائے گا؛مگر پردہ والیوں کے لیے دل سے دعاگو ہوں: خدا ان کا راج سہاگ قائم رکھے اور رہتی دنیا تک ان کا پردہ رہے۔
اس موقع پر میں اپنی ہم پیشہ عورتوں کی طرف مخاطب ہوکے ایک نصیحت کرتی ہوں،وہ اپنے دل پر نقش کرلیں!!
اے بے وقوف رنڈی! کبھی اس بھلاوے میں نہ آنا کہ کوئی تجھ کو سچے دل سے چاہے گا، تیرا آشنا جو ہر وقت تجھ پر جان دیتا ہے، چار دن کے بعد چلتا پھرتا نظر آئے گا، وہ تجھ سے ہرگز نباہ نہیں کرسکتا اور نہ تو اس لائق ہے، کچی چاہت کا مزا اس نیک بخت کا حق ہے جو ایک کا منہ دیکھ کےدوسرے کا منہ کبھی نہیں دیکھتی۔ تجھ جیسی بازاری شفتل کو یہ نعمت خدا نہیں دے سکتا۔
خیر میری تو جیسی گزرنا تھی گزرگئی۔ اب میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔ جتنے دن دنیا کی ہوا کھانا ہے کھاتی ہوں۔ میں نے اپنے دل کو بہر طور سمجھا لیا ہے اور میری کُل آرزوئیں پوری ہو چکیں۔ اب کسی بات کی تمنا نہیں رہی، اگر چہ یہ آرزو کم بخت وہ بلا ہے کہ مرتے دم تک دل سے نہیں نکلتی ۔
مجھے امید ہے کہ میری سوانح عمری سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا ۔ اب میں اپنی تقریر کو اس شعر پر ختم کرتی ہوں اور سب سے امیدوارِ دعا ہوں۔
؎ مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات!
تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہوگئی۔
( اؔمراؤ جان ادا، صفحہ: 223، طبع: خزینۂ علم و ادب،اردو بازار،لاھور)
✍🏻... محمد عدنان وقار صؔدیقی