ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

برج رانی زتشی بھی شاعرہ تھیں اور بیزار دہلوی تخلص تھا۔ وہ نواب سائل دہلوی کی شاگرد تھیں۔گلزار دہلوی کے دوبڑے بھائی پنڈت دیناناتھ زتشی اور رتن موہن ناتھ خار دہلوی بھی سائل دہلوی کے تلامذہ میں تھے۔ اس طرح ان کے خاندان میں زار، بیزاراور خار کے بعد گلزار دہلوی نے شاعری کا پرچم لہرایا اور دہلی کے شعری اور ادبی منظرنامے پر چھاتے چلے گئے۔
اردوکی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب اور ہندومسلم یکجہتی کا جذبہ محض نظر یاتی طور پرگلزار دہلوی کے مزاج کا حصہ نہیں تھا بلکہ وہ عملی طور پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔رمضان کے مہینے میں وہ ہر سال ایک روزہ رکھ کرمشترکہ تہذیبی قدروں کو تقویت پہنچاتے تھے۔ یہ روزہ عام طور پر الوداع کا ہوتا تھا۔اسے انھوں نے ”روزہ رواداری“کا نام دیا تھا۔ ان کی روزہ کشائی کے لئے احباب باقاعدہ چندہ کرکے ایک شایان شان افطارپارٹی منعقد کرتے تھے۔ گلزار صاحب کا کہنا تھا کہ اس روزہ رواداری کی شروعات انھوں نے حضرت مولانا احمد سعید مرحوم کی ہدایت پر کی تھی،جسے انھوں نے بعد میں اپنی اخلاقی اور تہذیبی قدروں کاایک حصہ بنالیا۔گلزار صاحب کے اس ’روزہ رواداری‘ میں ہر برس بلا تفریق مذہب و ملت اہم شخصیات نے شرکت کی اور ان کے اس جذبہ خلوص کی ہر سطح پر پذیرائی کی گئی۔
عام طور پر شاعری اور سائنس کو ایک دوسرے کی ضد تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کے رسیا سائنس سے دور رہتے ہیں اور جو سائنس کے دل دادہ ہیں، وہ شاعری سے دور کی راہ ورسم رکھتے ہیں۔ لیکن یہ گلزاردہلوی کا ہنر تھا کہ انھوں نے سائنس اور شاعری کے درمیان ایک پل تعمیر کرلیا تھا جس پر وہ بے تکان سفر کیا کرتے تھے۔ گلزار دہلوی نے اپنی زندگی کا طویل حصہ ماہنامہ”سائنس کی دنیا“ کی ادارت کرتے ہوئے گزارا۔ اس کے ساتھ ہی وہ شعر وشاعری کا سفر بھی طے کرتے رہے۔وہ شاعر اور ادیب ہونے کے باوجود ایک سائنسی جریدے کے کامیاب مدیر ثابت ہوئے۔ مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ قطب شمال اورقطب جنوب قیامت کے دن ہی سہی مگر آپس میں مل سکتے ہیں، لیکن سائنس اور شعر وادب کبھی نہیں مل سکتے۔لیکن گلزار دہلوی نے مغربی مفکرین کے اس خیال کو اپنے عمل سے غلط ثابت کردکھایا۔ایک بار کچھ دوستوں نے گلزار صاحب سے پوچھا کہ ”سائنس حقائق کی تحقیق کرتا ہے اور ادب حقائق کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے، لہٰذا ایک شاعر وادیب کو’سائنس کی دنیا‘کی کمان سنبھالنے میں دشواری پیش نہیں آئی؟“ یہ سن کر گلزاردہلوی نے کہا کہ”ارے بھئی، سائنس میں بھی تو خورد بین سے چھوٹے چھوٹے ذرات، خلیوں اور جراثیم کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا جاتا ہے تاکہ سائنسی تحقیق آسانی سے کی جاسکے۔ اسی طرح ادب میں سماجی، معاشی، ثقافتی، مذہبی، تعلیمی اور سیاسی معاملات کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین، سامعین اور ناظرین کودین ودنیا کا آئینہ آسانی سے دکھایا جاسکے، اس لئے سائنس اور ادب ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔“
خواجہ احمد عباس نے سائنس اور شاعری کے حوالے سے اردو ہفتہ وار ’بلٹز‘ میں گلزار دہلوی پر باقاعدہ کالم لکھا۔ اس کا عنوان تھا”سائنس اور شاعری“۔ اس کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ”اردو میں ’سائنس کی دنیا‘سارے برصغیرمیں اپنی نوعیت کا واحداور بے مثل رسالہ ہے اور اس کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ ایک شاعر اور دانشور کی زیر ادارت نکلتا ہے۔یہ شاعر اپنی لگن اور اردو میں سائنس کی واقفیت کی وجہ سے اس کے بانی ہیں اور اس سے وابستہ ہیں۔ حکومت کے کتنے ہی اردورسالے ملک میں نکلتے ہیں، جن میں بہ آسانی ایک مشہور ادیب وشاعر کو جگہ مل سکتی ہے۔مگر اردو کوسائنس کے علوم سے مالا مال کرنے کا یہ جذبہ اور کوشش ان کے ہی حصے میں آئی، جس کا انھوں نے لاجواب حق ادا کرکے دکھایا۔ یہ شاعر ہیں علامہ پنڈت زار دہلوی(یادگار داغ)کے صاحب زادے پنڈت گلزار زتشی دہلوی، جو کہ ساٹھ برس کے ہونے پر بھی خوب رو، جامہ زیب صاحبزادے معلوم ہوتے ہیں۔ نوجوانی ان کے سرخ وسفید چہرے پر لکھی ہوئی ہے۔حال ہی میں اودے پور کے ایک مشاعرے میں وہ نوجوان ترین شاعر معلوم ہوتے تھے۔ اگرچہ وہاں دس بارہ ان سے کم عمر شاعراور بھی موجود تھے، مگر گلزار صاحب باتوں کے انداز سے، پڑھنے کے اسٹائل سے اور اپنے خیالات کے باغیانہ اسلوب سے نوجوان ہی لگتے تھے۔“
خواجہ احمد عباس نے اردو ’بلٹز‘میں یہ کالم اب سے کوئی 36برس پہلے لکھا تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ گلزار دہلوی 94برس کی عمر تک اسی طرح تروتازہ رہے -

Читать полностью…

علم و کتاب

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دینی مدارس پر اردو زبان سے لاتعلقی کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے دعوے عموماً وہ لوگ کرتے ہیں جو خود کو علمی اور ثقافتی حلقوں میں نمایاں کرنے کے لیے "شوشے" چھوڑتے ہیں۔ ان کا مقصد اردو زبان کی خدمت سے زیادہ اپنے عہدوں پر قبضہ برقرار رکھنا، حکومتی مراعات حاصل کرنا، اور سماجی مقام کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ دینی مدارس کو بدنام کر کے یہ حضرات یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف یونیورسٹیوں اور سیکولر اداروں میں ہی اردو زبان و ادب کی خدمت ہو رہی ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یہ طبقہ، جسے عرف عام میں "خود ساختہ اشرافیہ" کہا جاتا ہے، اردو کو محض ایک نمائشی زبان کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میکڈونلڈز میں پیزا کھاتے ہوئے یا انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر جیسے اداروں میں دارو پیتے ہوئے رسمی گفتگو کے دوران اردو کے مسائل پر بحث کرتے ہیں، لیکن زمینی سطح پر کوئی عملی کام نہیں کرتے۔ ان کی دلچسپی اردو کی ترقی سے زیادہ اپنے سماجی مقام کو برقرار رکھنے میں ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کی اصل خدمت وہ لوگ کر رہے ہیں جو گمنامی میں دیہاتوں، قصبوں، اور چھوٹے چھوٹے مدارس و اسکولوں میں زبان کے چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں۔ یہ وہ اساتذہ، مدرسین، اور شعرا ہیں جو بغیر کسی تمغے یا فورم کے خاموشی سے اردو کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اگر ہم اردو کے نامور شعرا، ادبا، اور معلمین کی فہرست دیکھیں تو ان میں سے بڑی تعداد دینی مدارس کے تربیت یافتہ افراد کی ہوگی۔
مثال کے طور پر، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال، اور مولانا حالی، مولانا مودودی، مولانا عبد الحلیم شرر جیسے عظیم ادبا کی علمی روایت دینی مدارس سے جڑی ہوئی ہے۔ آج بھی بے شمار بزرگ اساتذہ اور شعرا اردو زبان میں اعلیٰ شاعری اور نثر لکھ رہے ہیں اور نئی نسل کو زبان و ادب کی تربیت دے رہے ہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی واہ واہ کے، بغیر کسی ثقافتی سینٹر میں تصویر کھنچوائے، اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
زبان کی خدمت محض سمیناروں، مشاعروں، یا ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی محفلوں سے نہیں ہوتی۔ وہ استاد جو روزانہ گاؤں کے بچوں کو اردو کی الف بے سکھاتا ہے، وہ شاعر جو چپ چاپ اپنے کمرے میں تخلیقی عمل میں مشغول ہے، وہی اردو کا حقیقی نمائندہ ہے۔ دینی مدارس، جو اپنی علمی روایت اور ادبی تربیت کے ذریعے اردو زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ان پر بے جا تنقید نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ اردو کی ترقی کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔
☆ ☆ ☆ ☆
10th June 2025
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: 12 جون

1933 – میر ناصر علی (مدیر صلائے عام، دہلی)
1956 – خان بہادر مولوی بشیر الدین (خان بہادر)
1977 – شکیل احمد
1983 – امین الدین خان (نواب لوہارو)
1989 – شہزادی نیلوفر فرحت بیگم (عثمانی شہزادی، اہلیہ معظم جاہ – حیدرآباد دکن)
1991 – وفا ڈبائیوی (محمد حفظ الرحمٰن، شاعر)
1995 – اثر فیض آبادی
1996 – افضال احمد خاں شیروانی
1997 – پنڈت آنند نرائن ملا (جج، شاعر و ادیب)
1998 – محمد علی رنگون والا
1999 – محمد وصی خاں
2003 – مولانا حسین احمد (کوٹ دار)
2004 – رئیس احمر (خواجہ رئیس حسین)
2005 – محمودہ سلطانہ
2009 – مولانا سرفراز احمد نعیمی (بریلوی عالم دین)
2010 – رشید قیصرانی
2020 – گلزار زتشی دہلوی (پنڈت آنند موہن، شاعر)

(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ – زیر ترتیب: عبدالمتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 252
انتخاب مطالعہ
تحریر: مولانا سید محمد ازہر شاہ قؔیصرؒ

*خطۂ کشمیر*

خطۂ کشمیر اپنی حسین و گل فروش وادیوں، بہار بہ دامن کوہساروں، باصرہ نواز مناظر ، خوبصورت چمنستانوں ، دل نواز لالہ زاروں، اپنی اونچی اونچی سبزہ فروش پہاڑیوں
اور اپنی گہری گہری ترائیوں کے اعتبار ہی سے زمین پر قدرت کی کاریگری اور صناعی کا ایک بے مثال نمونہ نہیں ہے، نہ صرف یہ کہ وہاں قدم قدم پر لالہ وگل کے خزانے بکھرے پڑے ہیں؛ وہاں کا ہر ذره حسن فطرت کا ایک دل آویز شاہکار ہے، زمین کے سینے پر مچل مچل کر چلتے اور بہتے ہوئے سرد و شیریں چشمے، دراز قد اور سڈول جسم کے محبوبوں اور نازنینوں کی طرح تن کر کھڑے ہوئے چَنار کے درخت ، شرابِ جوانی کی تندی اور مستی میں بہک بہک کر جھومتے رہنے والے سیب اور خوبانی کے پیڑ/ آسمان کی بلندیوں کو بار بار چھوتی رہنے والی پہاڑیوں ، حد نظر تک پھیلی ہوئی سبزہ ولالہ وشگوفوں کی چادریں، قدرتی چشموں ، بلند آہنگ آبشاروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے تیزی کے ساتھ نیچے آتے ہوئے دریاؤں کے کنارے پر بیٹھی ہوئی حسین دوشیزاؤں کی آنکھوں میں چمکتی ہوئی نیک دلی کی معصومیت ان کی پیشانیوں کی چاندنی، زلفوں میں بسی ہوئی نگہت ، گیسوئے عنبری میں پڑے ہوئے شکن اور ان کے شباب تازہ و جمالِ کامل کی مسکراتی ہوئی بہار / پھولوں اور میوؤں کی فراوانی ، موسم کی خوشگواری ، زمین کی قوتِ نُمو، ہوا کی تازگی اور لطافت، پانی کی ٹھنڈک اور غذا کی خوش ذائقی اپنا کوئی جواب نہیں رکھتی ۔ نہ صرف یہ کہ وہاں سرد و خنک راتوں میں دور دور تک بچھے ہوئے سبزے کے مخملیں فرشوں پر چاند کی روشنی وہ لطف دیتی ہے کہ سبحان اللہ! پہاڑوں کے پیچھے
ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ، ہنستے ہوئے پھولوں ، شرمائی ہوئی کلیوں اور شریر و شوخ شگوفوں کے درمیان ایک عجیب کیفیت پیدا کرتا ہے، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ لالہ و گل سے معمور اس جنت بے نظیر میں روح خیزی اور شخصیت آفرینی کی ایک خاص صلاحیت بھی ہے۔

یہ بتانے کی بات نہیں کہ آب و ہوا کی خوشگواری ، موسم کا اعتدال ، مناظر کی رنگارنگی ، پھلوں اور میوے کے قسم قسم کے ذائقے صرف انسان کے ظاہری حسن و جمال ہی میں اضافہ نہیں کرتے اور صرف وہ انسان کی تندرستی، اور صحت جسمانی کے لئے ہی کار آمد نہیں؛بلکہ وہ صحت مند دماغ ، تندرست ذہن،علمی مذاق رکھنے والی طبیعتیں،شاعرانہ مذاق اور صناعی و فنکاری کی صلاحیتوں کو پیدا کرنے ، بڑھانے اور نشو و نما دینے میں بھی پوری اعانت کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی سرزمین پر حسن فطرت کے آغوش میں علم و کمال نے آنکھ کھولی ، قدرتی چشموں کا ٹھنڈا پانی پی کر شاعری اور ادب نے آغوں آغوں کرتے ہوئے صاف بولنا شروع کیا۔ بادصبا کے بار بار آتے ہوئے جھونکھوں سے حکمت و دانائی کے لب بستہ غنچے کھل پڑے اور رنگ برنگ پھولوں ، ننھی ننھی کلیوں ، چھوٹے پودوں اور مہوشان سیم تن کی رگ جسم سے بھی زیادہ باریک شاخوں کی ہم نشینی سے ذکاوت اور ذہانت جلا پائی،
شعراء وادباء میں غؔنی کاشمیری، عؔلامہ اقبال ، خؔواجہ عزیز لکھنوی ،آؔغاحشرکاشمیری، پؔنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ، پؔنڈت رتن ناتھ سرشار، آؔنند نارائن ملا ، مومن خان مؔومن، ایم اسلم ، مشہور افسانہ نگار کرشن چندر،چراغ حسن حسرت، نؔیاز کاشمیری، ظؔہیر کاشمیری، مؔیر غلام رسول نازکی، علامہ حسین میر کاشمیری،منشی محمد الدین فؔوق،

ارباب سیاست و حکمت میں پنڈت موتی لال نؔہرو، پؔنڈت جواہر لال نہرو۔ ڈاکٹر محمد عالم، ڈاکٹر کچلو،سر پنچ بہادر سپرو ، شیخ محمد عبد اللہ، نواب سر سلیم اللہ اور نواب خواجہ حبیب اللہ آف ڈھاکہ، مولانا محمد سعید مؔسعودی، مرحوم بخشی غلام محمد، مرحوم خواجہ غلام محمد صؔادق اور سیاسی وزیر اعلیء کشمیر سید میر قاسم ۔
حضرات اہل علم و کمال میں حضرت سید محمد اؔنور شاہؒ اور ان کے خاندان کے اور بہت سے علماء نسل اور وطن کے اعتبار سے کشمیر سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔

( سہ ماہی حسن تدبیر دہلی، امام العصرؒ نمبر،فروری 2010 صفحہ: 255،طبع:بٹلہ ہاؤس جامعہ نگر،دہلی)

✍🏻... محمد عدنان وقار صؔدیقی

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

رواية بعد الغروب

✍🏼 محمد عبد الحليم عبد الله
الناشر : دار الكنزي.. - 2020 م
عدد الصفحات : 280

✨✨✨✨✨

نبذة عن الكتاب

تعد رواية "بعد الغروب" أهم ما كتب الأديب الكبير "محمد عبد الحليم عبد الله" خلال مسيرته الأدبية، فقد حصلت هذه الرواية على جائزة أفضل 100 رواية عربية في القرن العشرين، ذلك لأنها تعكس حياة العصر والمجتمع المصري آنذاك، بصدقٍ وبلا تكلّف، بلغةٍ عَذبة وحبكة متماسكة.
لقد حَصلت هذه الرواية  أيضا على جائزة وزارة المعارف المصرية عام 1948 م.
إنها على المستوى النقدي رواية رومانسيِّة مليئة بالشجون، والقصص العاطفية المشبعة بالصور الحالمة وبالمشاعر الصادقة وبالعبارات المعبرة النقية الصافية.

اشتهر الأديب محمد عبد الحليم عبد الله بوصفه واحدًا من أفضل كتاب الرواية المعاصرين.. ومن أكثر الذين تحولت أعمالهم الأدبية إلى أفلام سينمائية بسبب ما تميز به من ثراء في الأحداث والشخصيات والبيئة المحيطة بها... وهي الخصائص التى ميزت أعماله عن سائر الروائيين من جيله. 

Читать полностью…

علم و کتاب

مانگے کا اجالا
کیا پڑھا جائے ؟
وجاہت مسعود کے مشورے ۔۔۔

کچھہ نوجوان دوستوں نے استفسار کیا ہے کہ اردو غیر افسانوی نثر کی کون سی کتابیں پڑھنا مفید ہو گا تا کہ ان کی اپنی تحریر میں سلاست اور روانی پیدا ہو سکے۔ نیز وہ اردو نثر کے مختلف اسالیب سے آشنا ہو سکیں۔ مجھے اس سوال سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ وسیع مطالعے کے بغیر ہمارے نوجوان اردو زبان پر کماحقہ عبور حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر ان کی تحریر کی زبان غیر مؤثر ہو گی تو ان کے دلائل بھی اپنا وزن کھو بیٹھیں گے۔

اپنے شہر کے کسی بھی صاحب مطالعہ استاد سے رجوع کرنا چاہیے۔ کوشش کیجئے کہ اس استاد سے رابطہ کریں جس کا مطالعہ تازہ ہو۔ ایسے اساتذہ جنہوں نے گزشتہ تیس برس سے کسی نئی کتاب کو ہاتھہ نہ لگایا ہو، انہیں نہایت احترام سے ملئے لیکن یاد رکھیے کہ ادب کی فہم ان پر نہیں اترتی جو مطالعے سے بے نیاز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ غلط فہمی بھی دور کر لیں کہ اردو ادب کے بارے میں صرف اسی استاد کی رائے مستند ہو گی جس نے اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہو گا۔ اردو کے خزانے زیادہ امکان ہے کہ آپ کو انگریزی یا سائنس کے اساتذہ میں مل سکیں۔ اسی طرح افسانوی نثر کے شناور بالکل مختلف ہوں گے۔ شعر کی دنیا البتہ الگ ہے اور یہاں اس سے بحث نہیں ہو رہی۔ فہرست سازی کتب کی ہو یا اساتذہ کی، اس میں سہو اور غلطی کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ خاکسار ایک مبتدی ہے اور اس کی رائے محض ایک ابتدائی نصابی خاکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں تو اس امید پر کچھہ نام تجویز کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ہمارے نوجوان اردو ادب کے ان جواہر پاروں سے آشنا ہوں گے تو ان کا ذوق جاگے گا اور پھر وہ اپنی ذاتی جستجو کی مدد سے نئے نئے موتی اور گوہر نکال لائیں گے۔

خطوط غالب (غالب)، آب حیات (محمد حسین آزاد)، مضامین فرحت اللہ بیگ (فرحت اللہ بیگ)، ذاکر صاحب (رشید احمد صدیقی)، من و یزداں (نیاز فتح پوری)، فکر اقبال (خلیفہ عبدالحکیم)، نسخہ ہائے وفا (داؤد رہبر)، بنام صحبت نازک خیالاں(ڈاکٹر آفتاب احمد)، روشنائی (سید سجاد ظہیر)، عام فکری مغالطے(علی عباس جلالپوری)، نوید فکر (سید سبط حسن)، یاران کہن (عبدالمجید سالک)، حرف و حکایت (چراغ حسن حسرت)، صلیبیں مرے دریچے میں(فیض احمد فیض)،

چراغوں کا دھواں (انتظار حسین)، غبار خاطر(ابوالکلام آزاد)، افکار پریشاں (رستم کیانی)، رزم زندگی (ڈاکٹر مبشر حسن)، یادوں کا سفر (اخلاق احمد دہلوی)، مقالات سراج منیر (سراج منیر)، خد و خال (آغا بابر)، قطرے میں دریا (انتظار حسین)، گنجے فرشتے (سعادت حسن منٹو)، خشک چشمے کے کنارے (ناصر کاظمی)، جو ملے تھے راستے میں (احمد بشیر)، مضامین (صفدر میر)، یادیں اور تاثرات (عاشق حسین بٹالوی)، لکھتے رہے جنوں کی حکایت (الطاف گوہر)، ناصر کاظمی، ایک دھیان (شیخ صلاح الدین)، پطرس کے مضامین(پطرس بخاری)، راہ ساز (ڈاکٹر فاخر حسین)،

آب گم (مشتاق احمد یوسفی)، مکاتیب خضر (محمد خالد اختر )، دنیا گول ہے (ابن انشا)، شہاب نامہ (قدرت اللہ شہاب)، اپنا گریباں(سید امجد حسین )، بجنگ آمد (کرنل محمد خاں)، نیم رخ (مجتبیٰ حسین )، مرقع غالب (حمید احمد خان)، لاہور کا چیلسیا (حکیم احمد شجاع)، سفر نصیب (مختار مسعود)، حرف شوق (مختار مسعود)، سلسلہ روز و شب (شیخ منظور الٰہی)، مشرق و مغرب کے نغمے(میرا جی)، جہان دانش (احسان دانش)، مجموعہ (حسن عسکری )، یادوں کی سرگم (مظفر علی سید)، اندازے (فراق گورکھپوری)، دلی جو ایک شہر تھا (ملا واحدی)، یادوں کی برات (جوش ملیح آبادی)، خلافت اور ملوکیت(سید ابواعلیٰ مودودی)، قید یاغستان (محمد اکرم)، چند ہم عصر (مولوی عبدالحق)، خامہ بگوش کے قلم سے (مشفق خواجہ)،
بزم صبوحی (اشرف صبوحی)، کالا پانی (جعفر تھانیسری )، آہنگ بازگشت (مولوی محمد سعید)، دجلہ (شفیق الرحمٰن)، معیار (ممتاز شیریں )، بزم شاہد (شاہد احمد دہلوی)، ہم سفر (حمیدہ رائے پوری)، بارہ سنگھے (عطا الحق قاسمی)، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب (آغا افتخار حسین )، گرد سفر (اختر حسین رائے پوری)، اردو کے بہترین خاکے (مبین مرزا : مرتب)، انیس۔ سوانح (نیئر مسعود)، سرگزشت (ذوالفقار بخاری )، اختلاف کے پہلو(جمال پانی پتی)، آپ بیتی (حسن نظامی)، کل کی بات (محمد کاظم)، داستان غدر(ظہیر دہلوی)، ناقابل فراموش (دیوان سنگھہ مفتون)، جرنیلی سڑک (رضا علی عابدی)، ناممکن کی جستجو(حمید نسیم)، کمپنی کی حکومت (باری علیگ)، ریل کی سیٹی (محمد حسن معراج)۔
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: 10 جون

1918 – مولوی عبدالغنی وارثی
1957 – محمد خلیل اللہ شاہ چشتی نظامی
1962 – پروفیسر محمد سعید مرزا
1973 – گہر گورکھپوری (ایشوری پرشاد)
1982 – سعید اللہ صدیقی
1982 – پروفیسر عبدالمجید قریشی
1987 – جیوان (اومکار ناتھ)
1995 – رضا الٰہ آبادی
1995 – مولانا انعام الحسن کاندھلوی (حضرت جی)
1996 – جسٹس (ر) نظام احمد
1998 – اختر بستوی
2000 – ابو مسلم صدیقی
2000 – حافظ الاسد (صدر سوریہ)
2000 – مولانا احمد علی آسامی (شیخ الحدیث)
2001 – حیا لکھنوی (کنیز فاطمہ)
2008 – نذرالحسن صدیقی
2012 – مولانا محمد حنیف گنگوہی

(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ – زیر ترتیب: عبدالمتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: اردو زبان اور مدارس دینیہ*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

آج علی الصبح فیس بک پر یونیورسٹیوں میں فارغین مدارس کے براہ راست بی اے اور یم اے میں داخلے سے متعلق ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ناظم دار المصنفین اعظم گڑھ، ار ڈاکٹر اطہر فاروقی جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند کے مابین مراسلات پر کافی لے دے نظر آئی۔ جس سے خیال ہوا کہ شاید یہ کوئی نیا معرکہ ہو، لیکن حیرت ہوئی کہ ان دونوں شخصیات کے درمیان یہ مراسلت جون 2023ء میں ہوئی تھی۔ پتہ نہیں کہ آج دو سال بعد انہیں کیوں زندہ کیا گیا۔
ہمارے خیال میں ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب نے اخلاص کے ساتھ مدارس کا دفاع کیا ہے، لیکن برج کورس کے بارے میں انہوں نے جو بات کہی ہے تو وہ جس برج کورس کی بات کررہے ہیں، اس کا اطلاق ڈاکٹر راشد شاذ صاحب کی نگرانی میں منعقد ہوئے کورسوں پر نہیں ہوتا۔ ان کورسوں کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوا ہے۔
رہی بات ڈاکٹر اطہر فاروقی کے مراسلے کی تو ہم نے ڈاکٹر صاحب کو نہیں دیکھا، نہ انجمن کے عہدے پر آنے سے پہلے کی ان کی کوئی تحریر پڑھی ہے، جب وہ انجمن کے جنرل سکریٹری بن کر آئے تھے تو اس وقت ان کے بارے میں سنا تھا کہ ابھی تک انہوں نے صرف انگریزی میں لکھا ہے، اور ان کا علمی پس منظر اردو کا نہیں ہے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے یہاں مدارس کے سلسلے میں حقائق پر خیالات نہیں پائے جاتے ہیں ۔
ہماری رائے میں اردو معاشرے کی جس طرح تقسیم در تقسیم ہورہی ہے اور اسے حصوں میں بانٹا جارہا ہے ،وہ بہت خطرناک ہے، پہلے یہ زبان برصغیر کے مسلم ہندو سکھ عیسائی سبھوں کی زبان ہوا کرتی تھی، تقسیم ہند کے بعد اسے صرف مسلمانوں کی زبان کی حیثیت سے پیش کیا گیا، اب اسے مدارس تک محدود کیا جارہا ہے، اگر یہی رویہ جاری رہا تو بہت ممکن ہے یہ سنسکرت کی طرح صرف مذہبی طبقہ کی زبان بن کر رہ جائے، سرکاری مردم شماری کے مطابق اب اردو سات فیصد سے بھی کم ہندوستانی باشندوں کی مادری زبان رہ گئی ہے، اور گجراتی جیسی مقامی زبان نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
یہ کہنا کہ مدارس دینیہ اردو زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ایک آفاقی زبان کے لئے کوئی زیادہ قابل فخر بات نہیں ہے، اس کا سیدھا سادھا مطلب یہی ہے کہ یہ اب صرف مولویوں کی زبان ہے۔ اسلام کا پیغام ساری دنیائے انسانیت کے لئے ہے، لہذا ایک عالم دین کا آفاقی زبانوں پر مہارت حاصل کرنا اس کے مقصد تعلیم سے قریب تر ہے۔
ڈاکٹر کلیم عاجز قریبی دور کے کتنے عظیم شاعر گذرے ہیں، ان سے ہر اردو داں واقف ہے، ان کی مذہب پر وارفتگی کوئی پوشیدہ نہیں، وہ اپنے علاقے میں تبلیغی جماعت کے امیر تھے۔ لیکن انہوں نے جگہ جگہ اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ ہم نے اقبال کو اسلامی اور پاکستانی کی سرحد میں بند کرکے، اس کے کلام وافکار کی آفاقی کو محدود کردیا ہے۔انہیں پڑھتے ہوئے غیر مسلم ہم وطن اور اغیار تحفظات کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ کہنا درست ہے کہ مختلف علمی وادبی میدانوں میں دینی مدارس کے فارغین کو جانے کی راہیں بند کرنا، اور اغیار کو اس کا مشورہ دینا اردو دشمنی کے مترادف ہے۔
یہ اب روز روشن کی طرح واضح ہوتا جارہا ہے مولوی فارغ ہوکر یونیورسٹیوں میں نہ جائیں، اور انہیں ان لوگوں پر چھوڑ دیں، جو عصری اور سرکاری تعلیمی اداروں سے پڑھ کر یہاں تک ترقی کرتے ہیں، اور مادی مفادات پاتے ہیں، تو یہ اردو زبان کو ایسے لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا ہے، جنہیں صرف اسے ذریعہ معاش بنانے سے زیادہ دلچسپی نہیں، ورنہ زیادہ تر ان کے گھروں سےاردو خارج ہوچکی ہے، ان کے بچوں کو اردو نہیں آتی، وہ دیوناگری حروف دیکھ کر اردو الفاظ ادا کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ زبان کی علمی وادبی قیمت اس کی تحریر میں پوشیدہ ہے۔ بول چال اور خطابت کسی زبان کو زندگی بخشنے اور اسے علمی وادبی زبان بنانے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتی۔ اردو کی بقا کے لئے دینی مدارس کی لاکھ خدمت مسلًم سہی، لیکن انہیں اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ ان کے اداروں میں اردو ادب کی ایک دو اصناف سے زیادہ رائج نہیں ہیں ۔ اور تخلیقی ادب ناول کہانی افسانہ ڈرامہ انشائیہ خاکے اور ادبی تنقید میں ان تصنیفی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے، شعر وشاعری کا معیار بھی عوامی مشاعروں میں پیش کی جانے والی شاعری سے آگے بڑھ نہیں پاتا۔ اور ہمارے یہاں ادب کے نام پر جو سیمینار اور کانفرنسیں ہوتی ہیں، ان میں بھی زیادہ تر توجہ اپنی ممدوح شخصیات کی مداحی پر مضامین پیش پر مرکوز ہوتی ہے، جن میں سے دوچار مضامین بھی شائع کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔
بچوں میں ذوق مطالعہ مکتب اور پرائمری ہی میں ترویج پاتا ہے، بڑے درجات اور فراغت کے بعد اس کا ذوق پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے ادب اطفال کی اہمیت ہہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ میدان بھی ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں خالی نظر آتا ہے۔ اور دور دور تک نیا بچوں کا ادب ڈھونڈھے سے نہیں ملتا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

یم یف حسین ۔ تحریر : ندیم صدیقی https://archive.org/download/m-f-husain-by-nadeem-siddiqui/M%20F%20Husain%20By%20Nadeem%20Siddiqui.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

’’ آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت بند ہے‘‘
"آپ کا موجودہ بیلنس اس کال کیلئے ناکافی ہے"
پتہ ہے یہ آواز کس کی ہے ؟
لوگ انہیں ’’ ٹیلی فون آنٹی ‘‘ بھی کہتے ہیں

انہیں بچپن ہی سے بولنے کا شوق تھا۔ جب وہ چھوٹی تھیں اور کبھی گھر کی گھنٹی بجتی تو وہ سب سے پہلے دوڑ کر دروازہ کھولتیں۔ جب کبھی فون کی گھنٹی بجتی تو جھٹ ریسیور اُٹھاتیں اور پکی سی آواز بنا کر کہتیں
’’ السلام علیکم ! جی آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟ ‘‘

فرحین ملک کو کیا معلوم تھا کہ آگے چل کر یہ شوق ان کا پیشہ بن جائے گا۔
فرحین ایک آئی وی آر آرٹسٹ ہیں۔

آئی وی آر کیا ہے؟
آئی وی آر 'انٹرایکٹو وائس رسپانس' کا مخفف ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کال کرنے والے شخص کو ٹیلی فون آپریٹر کے بجائے پہلے سے ریکارڈ پیغامات کے ذریعے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
موجودہ دور میں بیشتر بینکوں، ائیرلائنز، ٹیلی کام کمپنیوں اور دفاتر میں آئی وی آر کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ پیغامات انتہائی تربیت یافتہ افراد ریکارڈ کرتے ہیں جو آواز کے استعمال میں مہارت رکھتے ہیں۔

آئی وی آر آرٹسٹ کیا کرتا ہے؟
فرحین ملک بتاتی ہیں کہ جب وہ ریڈیو پر بطور آر جے کام کر رہی تھیں تو ان کی ایک ساتھی صداکار نے جو خود بھی آئی وی آر آرٹسٹ تھیں، انھیں اس شعبے سے متعارف کروایا۔ ’’یہ کام میرے لیے بالکل نیا تھا۔ صرف ایک جملہ درست طریقے سے ادا کرنے میں مجھے پورا دن لگ گیا۔‘‘

فرحین آئی وی آر تیار کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں بتاتی ہیں کہ 'آئی وی آر ریکارڈنگ میں ہر سوال کے کئی جوابات یا آپشنز ہوتے ہیں جن میں سے صارف کو ایک منتخب کرنا ہوتا ہے۔ آئی وی آر آرٹسٹ باری باری یہ تمام آپشنز اپنی آواز میں ریکارڈ کرتا ہے جس میں کافی وقت لگتا ہے۔' سُننے میں یہ کام بہت آسان لگتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آئی وی آر آرٹسٹ کو اپنی آواز کی ادائیگی کو ایک مخصوص انداز میں ڈھالنا پڑتا ہے جبکہ زبان پر عبور اور درست تلفظ جاننا بھی بہت ضروری ہے۔'

’’آواز خوبصورت ہے تو صورت بھی حسین ہوگی‘‘

فرحین کہتی ہیں کہ کبھی انھیں لوگوں سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ’’آپ آنکھیں بند کر کے صرف میری آواز پر غور کریں اور یاد کریں کہ یہ آپ نے کہاں سُنی ہے۔‘‘

فرحین ملک کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ پہلی ملاقات میں انھیں پہچان نہیں پاتے لیکن جب اُن کی آواز پر غور کرتے ہیں تو فوراً کہتے ہیں اچھا آپ وہی ہیں، جب ہم کال کرتے ہیں تو آواز آتی ہے ’’آپ کا مطلوبہ نمبر بند ہے‘‘

فرحین ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ اگر کسی کی آواز بہت خوبصورت ہے تو وہ دیکھنے میں بھی اتنا ہی پُرکشش ہوگا حالانکہ کبھی کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا۔

’’ ٹیلی فون آنٹی! ‘‘

فرحین ملک کے بقول ان سے ملنے والے کچھہ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ٹیلی فون کے دوسری جانب کوئی کمپیوٹرائزڈ یا روبوٹک آواز ہے۔

’’جب میں انھیں بتاتی ہوں کہ آپ جب کسی بینک یا ٹیلی کام کمپنی کو کال کرتے ہیں تو دوسری جانب جو آواز سنائی دیتی ہے وہ میری ہے تو وہ حیران ہو جاتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ کچھہ لوگ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ وہ 24 گھنٹے ٹیلی فون ہاتھہ میں لیے لوگوں کے سوالات کے جواب دیتی رہتی ہیں۔

فرحین کا کام اکثر ان کے گھر میں بھی موضوعِ بحث بنا رہتا ہے۔ اگر کبھی گھر والوں کے سامنے بہت زیادہ بولنے لگیں تو کوئی نا کوئی ٹوک دیتا ہے۔

’’ یہ کیا تم ہر وقت ٹیلی فون آنٹی کی طرح بات کرتی رہتی ہو‘‘ یا ’’پلیز یہ ٹیلی فون آنٹی کی طرح بات کرنا بند کرو۔‘‘

فرحین کہتی ہیں کہ جب کبھی گھر والوں کے علاوہ کوئی شخص انھیں ’’ٹیلی فون آنٹی‘‘ کہتا ہے تو برا تو ضرور لگتا ہے لیکن خوشی بھی ہوتی ہے کہ کم از کم لوگ ان کی آواز تو پہچانتے ہیں۔

کریم الاسلام : بی بی سی

Читать полностью…

علم و کتاب

ایم ایف حسین کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

”شہرہ آفاق ہندوستانی پینٹر ایم ایف حسین کا لندن میں انتقال“
9 جون 2011 کو
دہلی سے دبئی کی پرواز کے دوران جہاز کے چھوٹے سے اسکرین پر جب میری نظر بی بی سی کی اس سرخی پر پڑی تو میں اندر سے بے چین ہواٹھا۔ سوچا تھا اس بار سفر کی وجہ سے کالم کی غیر حاضری رہے گی لیکن مقبول فدا حسین کی موت نے یہاں بھی مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ اگلی صبح دبئی کے انگریزی اور عربی اخبارات حسین کی خبروں اور تصاویر سے بھرے پڑے تھے۔ 2007 میں جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد حسین نے اپنا بیشتر وقت دبئی ہی میں گذارا۔ وہ دبئی کو اپنا وطن ثانی کہا کرتے تھے۔ انہوں نے دبئی کے ڈیرہ علاقے میں واقع امارات ٹاور میں اپنا نہایت وسیع اسٹوڈیو بھی بنایا تھا اور یہی ان کی آخری یادگار بھی ہے۔
ایم ایف حسین نے لندن میں آخری سانس لی اور وہ وہیں کی خاک کا پیوند ہوئے۔ یہ ان کے اختیار میں نہیں تھا کہ کس ملک کی مٹی انہیں نصیب ہوگی لیکن حسین کا خمیر ہندوستان کی سوندھی مٹی سے اٹھا تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ہندوستانی تہذیب اور اساطیر کی ترجمانی میں گذارا۔ یوں آپ کسی عظیم فن کار کو کسی ملک کی سرحدوں میں قید نہیں کرسکتے۔ حسین نے ہندوستانی آرٹ کو بلندیوں تک پہنچایا۔ وہ ملک کے واحد فن کار تھے جن کے فن پارے عالمی بازار میں سب سے مہنگے داموں پر فروخت ہوئے۔
ایم ایف حسین کا پورا نام مقبول فدا حسین تھا۔ ان کا اپنا نام مقبول تھا لیکن وہ اپنے والد فداحسین کے نام کو اپنے نام سے منسلک رکھتے تھے۔ ان کی موت کے بعد اگر انہیں مقبول کے بجائے ’مقتول‘ لکھا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام جس ذہنی اذیت میں گذارے، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا تصور کیجئے کہ جس عظیم فن کار نے ہندوستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا اس کے لئے اپنے ہی وطن کی زمین اتنی تنگ کردی گئی کہ اسے مجبوری اورلاچاری میں ایک ایسے ملک کی شہریت اختیار کرنی پڑی جہاں نہ تو اس کی جڑیں تھیں اور نہ ہی تہذیب وتمدن کے نقوش۔ اگر قطر کی حکومت انہیں اپنی شہریت نہ دیتی تو شاید وہ یو نہی غریب الوطنی میں زندگی کے باقی ایام گذاردیتے۔بقول افتخار عارف:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
گذشتہ سال فروری میں جب حسین نے دل پر پتھر رکھ کر اپنا ہندوستانی پاسپورٹ واپس کیا تو بعض ہندوستانی دانشوروں نے کہا تھا کہ حسین کو ہندوستان واپس آکر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا جب کہ حسین پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ کچھ کم 100سال کی عمر میں میرے اعضاء اس قابل نہیں ہیں کہ میں عدالتوں کے چکر کاٹوں اور قانونی موشگافیوں کامقابلہ کروں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ چند دانشوروں اور صحافیوں کو چھوڑ کر بیشتر لوگوں نے ان حالات کے لئے حسین کو ہی ذمہ دار قراردیا اور ان انتہا پسندوں کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں دکھائی جنہوں نے حسین پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام عائد کرکے ان پر ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات قائم کردیئے تھے۔ حسین کی جن قلمی تصویروں پر 1996میں واویلا مچا وہ انہوں نے 1970میں بنائی تھیں۔ تب ان تصویروں پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ اچانک 1996میں ایک ہندی میگزین نے ان قلمی تصویروں کی بنیاد پرحسین کو ہندوؤں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کا ملزم گردانا اور منظم سازش کے تحت ان کے خلاف سینکڑوں مقدمات قائم کردئے گئے تاکہ وہ عدالتوں سے سرٹکراکر دم توڑدیں۔
1998میں ممبئی میں ان کے مکان پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کردیا گیا اور کروڑوں روپوں کے قیمتی شہ پارے برباد کردیئے گئے۔ کسی فن کار کے لئے اس سے زیادہ کربناک منظر اور کیا ہوسکتا ہے کہ خون جگر سے بنائی ہوئی اس کی پینٹنگز کو مذہبی جنونی اپنے پیروں تلے روند ڈالیں۔ شاید اسی واقعہ نے حسین کا دل توڑدیا اور انہوں نے ہندوستان کی شہریت چھوڑنے کافیصلہ کیا۔
یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جن لوگوں نے ہندی میگزین ”وچار ممانسا“ میں ’ایم ایف حسین،ایک پینٹر یا قصائی؟‘ کے عنوان سے انتہائی اشتعال انگیز مضمون شائع کردیا تھا وہ دراصل حسین کی بے پناہ مقبولیت سے خوفزدہ تھے۔ ان لوگوں میں ان ہندوستانی پینٹروں کاایک ایسا مایوس طبقہ پیش پیش تھا جو اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود حسین کے فن کی ہم سری کرنے میں ناکام رہا۔ اسی لئے حسین کے ہم عصربعض فن کار انہیں منظر سے ہٹاکر اپنی جگہ بنانا چاہتے تھے۔ حسین پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنانے کے الزام لگانے والوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اجنتا اور ایلورا کے غاروں سے لے کھجورا ہوکے مندروں کے درودیوار پر دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر ان کے دوغلے پن کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ حسین نے دراصل انہی مجسموں سے متاثر ہوکر اپنی پینٹنگز بنائی تھیں۔ جس مذہب میں معبودوں کی عریاں تصاویر اور مجسمے بنانا عام ہو وہاں اس قسم کے لایعنی سوال اٹھانا شرانگیزی نہیں تو اورکیا ہے؟

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کے دور میں لامبردار کی تاریخی عظمت دیہاتی کہانیوں اور بزرگوں کی زبانی روایتوں میں محفوظ ہے۔ ان کے عدل و انصاف، سخاوت اور انتظامی صلاحیتوں کے قصے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ کئی دیہاتوں میں آج بھی لامبرداروں کے بنوائے ہوئے کنوؤں، مساجد یا اسکول موجود ہیں، جو ان کی سماجی خدمات کی گواہی دیتے ہیں۔ لامبردار کا کردار برصغیر کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے، جو اس خطے کے معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کی عکاسی کرتا ہے۔

### نتیجہ
لامبردار برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسی شخصیت ہے جس نے مغلیہ دور سے لے کر برطانوی راج تک اپنے علاقے کے معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور انتظامی ڈھانچے کو سنبھالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف زمینوں کا منتظم تھا، بلکہ ایک سماجی رہنما، ثقافتی سرپرست، عدالتی حکام اور خیراتی ادارے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے متنوع فرائض، جیسے کہ زرعی پیداوار کو بڑھانا، محصولات کی وصولی، تنازعات کا حل، ثقافتی سرگرمیوں کی سرپرستی اور خیراتی کام، اسے اپنے وقت کا ایک غیر معمولی رہنما بناتے تھے۔ اگرچہ جدید دور میں لامبردار کا روایتی کردار ختم ہو چکا ہے، لیکن اس کی تاریخی اہمیت اور خدمات برصغیر کے دیہاتی معاشرے کی داستان کا ایک اہم حصہ ہیں۔ لامبردار کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جو ہمیں اس خطے کی سماجی اور معاشی تاریخ کے گہرے نقوش سے روشناس کراتی ہے، اور اس کا کردار ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
لامبردار، جسے دیہات میں نمبردار کے نام سے جانا جاتا ہے، برصغیر کی تاریخ کا ایک ایسی شخصیت ہے جس کا کردار صرف ایک انتظامی عہدیدار تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور حتیٰ کہ سیاسی ڈھانچے کا ایک اہم ستون تھا۔ لامبردار کا لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک ایسی تصویر ابھرتی ہے جو گاؤں کے ایک باوقار، عادل اور فیصلہ کن رہنما کی عکاسی کرتی ہے، جو اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے ایک چھوٹے بادشاہ کی مانند تھا۔ اس کا کردار محض زمینوں کی دیکھ بھال یا محصولات کی وصولی تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ اپنے گاؤں کی سماجی ہم آہنگی، معاشی خوشحالی، ثقافتی اقدار کے تحفظ اور انتظامی نظم و ضبط کا ضامن تھا۔ اس مضمون میں لامبردار کے تاریخی پس منظر، اس کے وسیع تر فرائض، مراعات، سماجی اثر و رسوخ اور زوال کے دور کا تفصیلی اور دلچسپ جائزہ پیش کیا جائے گا۔

### لامبردار کا لفظی اور تاریخی پس منظر
لامبردار کا لفظ فارسی کے دو الفاظ "لامب" (زمین) اور "دار" (مالک یا منتظم) سے مل کر بنا ہے، جس کا مطلب ہے "زمین کا منتظم" یا "زمین سے وابستہ ذمہ دار شخص"۔ یہ عہدہ مغلیہ دور میں باقاعدہ طور پر متعارف ہوا، جب مغل بادشاہوں نے اپنی وسیع سلطنت کے زرعی نظام کو منظم کرنے اور محصولات کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی رہنماؤں کو ذمہ داریاں سونپیں۔ مغلیہ دور میں زراعت ریاست کی معاشی ریڑھ کی ہڈی تھی، اور لامبردار اس نظام کا ایک اہم جزو تھا۔ وہ زمینوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، کسانوں کی رہنمائی کرنے اور محصولات کو بروقت جمع کرنے کا ذمہ دار تھا۔ مغل بادشاہوں نے لامبرداروں کو زمینوں کا محدود مالک تسلیم کیا اور انہیں محصولات کی وصولی کے بدلے مراعات دیں، جس نے ان کے سماجی اور معاشی اثر و رسوخ کو تقویت بخشی۔

مغلیہ دور میں لامبردار نہ صرف ایک انتظامی عہدیدار تھا، بلکہ وہ اپنے علاقے میں ایک باوقار شخصیت کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ اس کے گھر، جو اکثر قلعہ نما ہوتے تھے، گاؤں کے سماجی اور ثقافتی مرکز کا درجہ رکھتے تھے۔ وہاں لوگ اپنے مسائل لے کر آتے، تنازعات حل کرتے اور حتیٰ کہ شادی بیاہ جیسے سماجی تقریبات کے لیے جمع ہوتے تھے۔ لامبردار کی سخاوت اور انصاف پسندی کے قصے لوگوں کی زبانوں پر ہوتے تھے، اور وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے ایک رہنما اور سرپرست کی حیثیت رکھتا تھا۔

### برطانوی راج اور لامبردار کی بدلتی حیثیت
برطانوی راج کے قیام کے ساتھ لامبردار کا کردار مزید منظم اور اہم ہو گیا۔ انگریزوں نے مغلیہ دور کے زرعی نظام کو اپنایا اور اسے زمینداری نظام کے تحت مزید مضبوط کیا۔ اس نظام میں لامبرداروں کو زمینوں کا مالک تسلیم کیا گیا اور انہیں محصولات کی وصولی کا باقاعدہ اختیار دیا گیا۔ انگریزوں کے لیے لامبردار ایک ناگزیر شراکت دار تھے، کیونکہ وہ مقامی زبان، رسم و رواج اور معاشرتی ڈھانچے سے بخوبی واقف تھے۔ برطانوی حکام نے لامبرداروں کو اپنے انتظامی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ بنایا، کیونکہ وہ مقامی سطح پر ان کے معاشی اور انتظامی اہداف کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔

برطانوی دور میں لامبرداروں کو کئی اضافی اختیارات حاصل ہوئے۔ وہ نہ صرف زمینوں کی پیمائش اور محصولات کی وصولی کے ذمہ دار تھے، بلکہ انہیں اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور چھوٹے موٹے تنازعات کو حل کرنے کے لیے عدالتی اختیارات بھی دیے گئے۔ کئی لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں ایک چھوٹے بادشاہ کی طرح حکمرانی کی، اور ان کے فیصلے مقامی آبادی کے لیے حتمی سمجھے جاتے تھے۔ ان کی سماجی حیثیت اور سیاسی اثر و رسوخ اس قدر تھا کہ وہ اپنے علاقے کے سیاسی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے، اور کئی بار انگریزوں کے ساتھ مذاکرات میں گاؤں کے نمائندے کے طور پر شریک ہوتے تھے۔

### لامبردار کے متنوع اور دلچسپ فرائض
لامبردار کا کردار انتہائی متنوع اور جامع تھا، جو اسے گاؤں کی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بناتا تھا۔ اس کے فرائض محض زمینوں کی دیکھ بھال یا محصولات کی وصولی تک محدود نہیں تھے، بلکہ وہ ایک سماجی رہنما، ثقافتی سرپرست، عدالتی حکام اور حتیٰ کہ مقامی خیراتی ادارے کی حیثیت رکھتا تھا۔

سب سے اہم ذمہ داری زمینوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا تھی۔ لامبردار کسانوں کو مشورے دیتا تھا کہ کون سی فصلیں کاشت کی جائیں، کس طرح زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھا جائے اور کس طرح پانی کے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ جدید زرعی تکنیکوں کے بارے میں کسانوں کو آگاہ کرتا تھا، جیسے کہ نئے بیجوں کا استعمال یا کھاد کے استعمال کی تکنیک۔ کئی لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں نہری نظام کی ترقی کے لیے بھی کام کیا، جو زرعی پیداوار کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

لاتُصارع خنزيرًا في الوحل فتتسخ انت ويستمتع هو.

مثل انجليزي

Читать полностью…

علم و کتاب

اسلام میں دو ہی تہوار ہیں

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

جسمانی یادگار کی حیثیت سے اس میں شک نہیں کہ ابراہیمیؐ ملت میں عیدِ قربان یا عید الاضحٰی کا سالانا جشن، اور اس میں غریبوں اور مسکینوں کے کھلانے، اور دوستوں کی ضیافت اور خوشی کے اظہار کے لیے، کسی جانور کی قربانی، اسی واقعہ کی یادگار ہے، اسلام میں دو ہی تہوار ہیں: عید اور بقر عید۔ بقر عید، ملتِ ابراہیمیؐ کا جشن ہے، یعنی اس واقعہ کی یادگار ہے، جس کی بنا پر تخت ابراہیمیؑ کی تاسیس اور مکہ میں خانۂ الہٰی کی تعمیر ہوئی اور وہ تعمیر، ملتِ ابراہیم کا قبلہ قرار پائی اور عید، ملتِ محمدیؐ کا جشن ہے، یعنی نزولِ قرآن کی یادگار، جس سے پردۂ عالم میں ملتِ محمدیؐ کا ظہور ہوا۔

معارف، ذی الحجہ: ۱۳۵۵ھ مطابق: مارچ ۱۹۳۷ء/صفحہ: ١٦٧/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

گلزار دہلوی کی پانچویں برسی

معصوم مرادآبادی

گلزار دہلوی کو رخصت ہوئے آج پورے پانچ سال ہو گئے۔انھوں نے آج ہی کے دن یعنی 12/جون 2020کو اسی دہلی میں آخری سانس لی تھی، جہاں وہ پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور اردو تہذیب کی آبیاری کی۔آج میں گلزار دہلوی کے بغیر دہلی کے شعری اور ادبی منظر نامے کا تصور کرتا ہوں تو مجھے ہر طرف بڑی ویرانی نظر آتی ہے۔ہر محفل میں گرجتے برستے، چہکتے اور چہچہاتے گلزار دہلوی ایک ایسی باغ وبہار شخصیت تھے کہ ہر محفل ان ہی کے دم سے آباد تھی۔ انھیں شاعری کے ساتھ ساتھ تقریر کے فن پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ جب دلّی کی ٹکسالی زبان میں مرحوم دلّی کے قصے سناتے تو محفل خوب جمتی تھی۔ وہ دلّی کی سینکڑوں برس کی تہذیبی روایات اور اس کی شعری، ادبی اور سماجی زندگی کے واقعات کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں دلّی کے روڑے تھے۔ان کی سب سے بڑی پہچان ان کا وہ پرتو تھا جس میں وہ اردو کی گنگا جمنی تہذیب کی بھرپور نمائندگی کرتے تھے۔یہ مشترکہ تہذیب ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔
گلزار دہلوی کی سب سے بڑی جیت یہ تھی کہ وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود گھر نہیں بیٹھے اور آخری وقت تک سرگرم عمل رہے۔عمر کے آخری حصے میں جبکہ ان کے قویٰ جواب دینے لگے تھے تو وہ اپنے ایک معاون کی مدد سے ہر اس محفل کی زینت بڑھاتے تھے، جہاں انھیں عزت و احترام سے بلایا جاتا تھا۔
وہ خالص دلّی والے تھے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان ہی گلی کوچوں میں گزرا تھا، جنھیں خدائے سخن میر تقی میر نے " اوراق مصور" سے تشبیہ دی تھی۔وہ مرحوم دہلی کی ایک توانا آواز تھے اور اس مٹتی ہوئی تہذیب کے آخری امین تھے، جس نے اس شہر کو وقار بخشا تھا۔ وہ ہر شعری نشست کی آبرو تھے ۔انھیں بزرگی کی وجہ سے سب سے آخر میں پڑھوایا جاتا تھا، لیکن انھوں نے اپنی پیرانہ سالی اور نقاہت کے باوجود اس روایت کو ٹو ٹنے نہیں دیا۔ان کی شخصیت کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ وہ مذہبی طور پر خالص ہندو برہمن ہونے کے باوجود اپنے عادات واطوار اور بود وباش سے مسلمان نظر آتے تھے۔ حمدیہ اور نعتیہ نشستوں میں پورے خشوع وخضوع کے ساتھ سرخم کرکے شرکت کرتے تھے۔ یہ کوئی اداکاری نہیں تھی بلکہ اس ماحول کا فیض تھا جںس میں انھوں نے تربیت پائی تھی۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری یا طاقت اردو زبان اور اس کی ملی جلی تہذیب تھی، جس کی بقاء کے لئے وہ آخری دم تک جدوجہد کرتے رہے۔وہ اردو تعلیم کے سب سے بڑے وکیل تھے اور اس کے رسم الخط پر سب سے زیادہ اصرار کرتے تھے۔ہر محفل میں وہ شرکاء سے یہ ضرور کہتے تھے کہ اپنے بچوں کو آٹھویں کلاس تک اردو ضرور پڑھائیں۔ اردو زبان اور اس کی مٹتی ہوئی تہذیب کو زندہ کرنے کی انھوں نے ہر ممکن کوشش کی۔بقول خود
درس اردو زبان دیتا ہوں
اہل ایماں پہ جان دیتا ہوں
میں عجب ہوں امام اردو کا
بتکدے میں اذان دیتا ہوں
گلزار دہلوی ایک قادرالکلام شاعر، ایک ذی علم ادیب اور محفل پر جادو کردینے والے بے مثال مقرر تھے۔ وہ اپنے والد ماجد علامہ زار دہلوی کے سچے جانشین ہی نہیں تھے بلکہ حضرت بیخود دہلوی، نواب سائل دہلوی، علامہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی اور مولوی عبدالحق کے بھی صحیح جانشین تھے۔ وہ ادب میں داغ اور حالی کے ادبی خانوادے کے مایہ ناز سپوت تھے۔انھوں نے 1946میں انجمن تعمیر اردو اور ادارہ نظامیہ کی داغ بیل ڈالی اور اس کی سرگرمیوں کو جلا بخشی۔دہلی کا اجڑتا ہوا اردو بازار برسوں ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا اور وہ مولوی سمیع اللہ کے کتب خانہ عزیزیہ میں ادبی محفلوں کی جان رہے۔ وہ ہر سال رمضان کے مہینے میں ”روزہ رواداری“ رکھتے تھے اور ہم جیسے خوشہ چینوں کو اس میں بذریعہ پوسٹ کارڈ مدعو کرکے خوش ہوتے تھے۔وہ اتحاد واخوت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ جگر مرادآبادی، فراق گورکھپوری، مولوی عبدالحق، علامہ نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی جیسے عبقری شعراء گلزار دہلوی سے انسیت رکھتے تھے۔
گلزار دہلوی کا پورا نام پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی تھا۔وہ حضرت نظام الدین اولیاء اور حضرت امیر خسرو سے بے پناہ عقیدت کے سبب اپنے نام کے ساتھ نظامی و خسروی لکھتے تھے۔خط وکتابت میں اپنے نام کے بعد یادگار اسلاف لکھنا بھی نہیں بھولتے تھے۔وہ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کی منیجنگ کمیٹی کے سرگرم ممبر تھے اور ہر سال عرس کے موقع پر وہاں بڑی عقیدت سے حاضری دیتے تھے اور عرس کی تمام تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔ان کے آبا و اجداد شاہجہاں کے دور میں دہلی آئے اور دربار میں شہزادوں کی تعلیم وتربیت کی خدمت پر مامور ہوگئے۔ یہ لوگ عربی، فارسی، سنسکرت اور اردو کے ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہ کے دربار میں ان کے علمی وقار کو تسلیم کیا جاتا تھا۔گلزار دہلوی کے خاندان کو یہ وصف حاصل تھا کہ ان کے خاندان میں ہرکوئی شاعر تھا۔ ان کے والدپنڈت تربھون ناتھ زتشی زار دہلوی اپنے زمانے کے بہترین شاعر تھے اور ان کا شمار مرزا داغ دہلوی کے جانشینو ں میں ہوتا تھا۔ گلزار دہلوی کی والدہ محترمہ

Читать полностью…

علم و کتاب

اردو زبان اور دینی مدارس: حقیقت کیا ہے؟

محمد علم اللہ، سوانسی، یوکے

اردو زبان کے حوالے سے حالیہ دنوں میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز اور بعض اخبارات میں ایک مخصوص طبقہ دینی مدارس پر تنقیص کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک غیر اہم اور سطحی بیان نے دانشوروں اور اہلِ زبان کے درمیان ایسی ہلچل پیدا کر دی ہے کہ گویا یہ کوئی عالمی علمی بحران ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی دینی مدارس میں اردو زبان کی تعلیم نہیں دی جاتی؟ اور اگر دی جاتی ہے تو پھر بعض حضرات اس قسم کے بیانات کیوں دیتے ہیں؟

اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے قائم کردہ اداروں کی کارکردگی کو سمجھنا اس بحث کا ایک اہم پہلو ہے۔ 2012 سے انجمن ترقی اردو کے جنرل سیکریٹری کے طور پر محترم اطہر فاروقی صاحب کی تعیناتی کے بعد، اس ادارے کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھے ہیں۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اس ادارے کو محض ایک رسمی حیثیت تک محدود کر دیا ہے۔ علمی سرگرمیوں، مطالعاتی منصوبوں، اور تخلیقی کاموں کا فقدان اس تنقید کا بنیادی نکتہ رہا ہے۔ اگر محترم اطہر فاروقی صاحب کی علمی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو چند مرتب کردہ کتابوں کے علاوہ ان کے مضامین، جو کبھی کبھار اخبار انقلاب یا دیگر اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے ہیں، عموماً انگریزی سے ترجمہ شدہ ہوتے ہیں۔ ان ترجموں کی زبان کا معیار بھی بعض اوقات علمی حلقوں میں تنقید کی زد میں رہا ہے۔
اردو زبان کے ایک اہم ادارے کو چلانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف تقریری بیانات اور دعوؤں تک محدود نہ رہیں، بلکہ عملی اقدامات سے اردو کی خدمت کریں۔ بدقسمتی سے، انجمن ترقی اردو جیسی تنظیموں سے وابستہ کچھ افراد اپنی ذاتی شہرت یا مراعات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے زبان کے فروغ کا اصل مقصد پس پشت چلا جاتا ہے۔
اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں: کیا دینی مدارس میں اردو زبان کی تعلیم نہیں دی جاتی؟ یہ سوال سن کر حیرت ہوتی ہے، کیونکہ دینی مدارس کا نصاب، اگرچہ بنیادی طور پر دینی علوم جیسے عربی، فارسی، فقہ، اور حدیث پر مرکوز ہوتا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اردو زبان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، مدرسۃ الاصلاح جیسے قدیم اور معروف اداروں میں اسماعیل میرٹھی کی مرتب کردہ اردو کی کتابیں (پہلی سے پانچویں جماعت تک) نصاب کا حصہ ہیں۔ یہ کتابیں مکتب کی سطح پر، یعنی عربی اول سے قبل پڑھائی جاتی ہیں۔ یہی کتابیں پاکستان اور ہندوستان کے بیشتر دینی مدارس میں اردو کی بنیادی تعلیم کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اسماعیل میرٹھی کی یہ کتابیں اپنی سادگی، ادبی ذوق، اور زبان کی پاکیزگی کے اعتبار سے ایک شاہکار ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹیوں کے کئی پروفیسرز ان کتابوں کی متن خوانی بھی درست طریقے سے نہیں کر سکتے، جو ان کی زبان و ادب پر گرفت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی طرح، جامعۃ الفلاح اور جماعت اسلامی سے وابستہ دیگر اداروں میں افضل حسین ایم اے ایل ٹی کی مرتب کردہ کتاب تعمیری ادب نصاب کا حصہ ہے۔ یہ کتاب اردو ادب کے کلاسیکی نمونوں پر مشتمل ہے، جو طلبہ کے ذوق اور فہم کے مطابق ترتیب دی گئی ہے۔ اگر کوئی طالب علم اس کتاب کی ابتدائی دو جلدیں سمجھ کر پڑھ لے تو اسے اردو ادب کی فنی جہات کو سمجھنے کے لیے کسی اضافی کتاب کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ صرف دو مثالیں ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس میں اردو ادب کی تعلیم کو نظرانداز نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے نصاب کا ایک اہم حصہ بنایا جاتا ہے۔
دینی مدارس کی علمی روایت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کا نصاب صرف دینی علوم تک محدود نہیں ہوتا۔ اگرچہ اردو ادب کا باضابطہ تخصص ان اداروں میں نہیں ہوتا، لیکن بنیادی سطح پر دی جانے والی تعلیم بعض اوقات یونیورسٹیوں کے گریجویٹس سے کہیں زیادہ معیاری ہوتی ہے۔ ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے، مجھے آل انڈیا ریڈیو، این سی ای آر ٹی، اور ای ٹی وی جیسے اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران میں نے کئی یونیورسٹی پروفیسروں کی تحریریں دیکھیں، جن میں اردو زبان کی بنیادی غلطیاں موجود تھیں۔ کچھ پروفیسرز ایک سادہ اردو عبارت بھی بغیر غلطی کے لکھنے سے قاصر تھے۔ یہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ رسمی تعلیمی ڈگریاں زبان کی اہلیت کی ضمانت نہیں ہوتیں۔
دوسری طرف، دینی مدارس کے طلبہ نہ صرف اردو زبان بلکہ عربی اور فارسی ادب کے کلاسیکی متون سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، عربی ادب کی کتابیں جیسے معلقات، البلاغۃ الواضحہ، اورحماسہ ان کے نصاب کا حصہ ہوتی ہیں۔ قرآن مجید، جو خود عربی ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے، ان کے مطالعے کا بنیادی حصہ ہوتا ہے۔ یہ طلبہ جب اس طرح کی گہری ادبی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی لسانی صلاحیتوں میں نکھار آتا ہے، جو اردو زبان کی جڑوں (جو عربی اور فارسی سے ملتی ہیں) کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

.
قصتي مع محمد عبد الحليم عبد الله
الغروب المستحيل

✍️ الأستاذ د. حلمي محمد القاعود
الناشرون: ركاز.. ، دار العلم والإيمان..
ودار الجديد.. مصر 2021 م
عدد الصفحات: 208

#مرشح للتصوير
✨✨✨✨✨

🔰 هذا الكتاب
يتناول قصة المؤلف في شبابه مع أبرز أعلام الفن الروائي في القرن العشرين، ومن خلال هذه القصة يدلف إلى أعماق شخصية إنسانية عظيمة عبرت عن أحلامها وأمانيها ومعاناتها ومشكلات المجتمع من خلال أدب رفيع اشتمل على عدد كبير من الروايات والمجموعات القصصية..

ويرصد المؤلف نشأة الروائي محمد عبد الحليم عبد الله في قريته ويربط الأحداث التي مرت به مع رواياته، ويسعى لتحليلها نقديا ويقدم تفسيرا يدحض بعض المزاعم التي ألصقتها بعض أقلام المغرضين والتيارات الموتورة بهذا الروائي المبدع.

يُعدّ «الغروب المستحيل» دراسة سيرة ذاتية بمعنى ما، ولكنها تتقاطع مع النقد الأدبي، إذ يقدم مشهدًا حيًاً لحياة هذا الروائي الكبير، بأسلوب نصفي بین الذاكرة والنقد.
الكتاب مدخل مناسب لمن يرغب في معرفة خلفيات روايات محمد عبد الحليم عبد الله وللتعمق في شخصية الروائي من خلال حكايات حياته الشخصية وتحليل أعماله الأدبية.

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: 11 جون
1988 – حبیب احمد صدیقی
1990 – مولانا قاری ممتاز احمد رحمانی
1991 – ڈاکٹر فضل محمود
1994 – سیدہ حمیرا بی
1996 – روشن لکھنوی (سید نثار رضوی)
1996 – زبیدہ یزدانی (مورخہ دکن)
2000 – احمد علی بدر پوری
2000 – مولانا احمد علی بدر پوری (جمعیت علماء ہند، آسام)
2000 – راجیش پائلٹ (کانگریسی سیاست دان)
2003 – اظہر ملک
2003 – عبدالرزاق خان ایڈووکیٹ
2004 – ضمیر نیازی (ابراہیم جان محمد درویش، صحافی)
2006 – مولانا حکیم محمد مختار اصلاحی
2009 – رشید وارثی (نعتیہ شاعر)
2011 – صبا دشتیاری (غلام حسین، پروفیسر)
2012 – شاکر علی

(وفیات اور خاکوں کا اشاریہ – زیر ترتیب: عبدالمتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

Created and shared using Adobe Scan.

Читать полностью…

علم و کتاب

بغضِ مدارس: دین بیزاری کا ادبی چولا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص مضامین میں ایک مضمون یہ ہے کہ وہ دین کے لیے قربانی دینے والوں کو ایمان کی ایک کسوٹی کے طور پر پیش فرماتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے یہ فرمانا کہ ان کی محبت ایمان اور بغض نفاق ہے؛ آپ کے اسی شان دار مضمون کی ایک مثال ہے، یہ اعلامیہ معاصرت اور معاشرت سے جنم لینے والی غلط فہمیوں پر ضرب لگاتا ہے، آپ کی شکایت نفسانیت ہے اور بے دینی بھی، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوری کا کوئی مطلب نہیں بنتا، ایک مسلمان قال اللہ اور قال الرسول کے مراکز سے بد دل کیسے ہو سکتا ہے؟ دین کے لیے قربانیوں کے سب سے بڑے استعارے کو ہدفِ ہوس بنانے کے معانی بہت ہی نازک ہیں، بالکل آخری درجے کے سنگین، مدارس دینیہ کا تبرا اسلام کا تبرا ہے، مدارس سے محبت اسلام سے محبت ہے، مدارس سے بغض اسلام سے بغض ہے۔

نفاق شروع ہی سے ہمارا بڑا مسئلہ رہا ہے، ہمیں ہر دور میں دو محاذ درپیش رہے، بیرونی دشمن کے ساتھ آستین کے سانپوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا، مسئلہ نفاق کبھی ختم نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اسے موضوع بنایا، وقتی اور عارضی مسائل کو کتابِ حکیم کلیدی اہمیت نہیں دیتا؛ مگر نفاق کو اہمیت دی گئی ہے؛ کیوں کہ یہ ناسور اسلام کا لائف ٹائم زخم ہے، تا دمِ آخریں رستا رہے گا، چناں چہ مدارس اسلامیہ کو دو دشمنوں کا سامنا ہے: کفر کی یلغار اور منافق مسلمانوں کی ریشہ دوانی، دونوں عداوتیں کمیت اور کیفیت میں برابر ہیں، ایک دشمن کا علم اسلاموفوبیا ہے اور دوسرے دشمن کے پرچم پر دین بیزاری رقم ہے۔

مبینہ ادیبہ ان سادہ لوح مسلمانوں کے لیے ایک تشریح کا درجہ رکھتی ہیں جو کالجوں میں پروان چڑھ رہے ارتداد کو جاننا چاہتے ہیں، مضمون نگار خاتون نے مدارس کو نشانہ بنا کر صاف کردیا کہ عصری اداروں میں مسلم لڑکیوں کا ہندو لڑکوں کے ساتھ معاشقہ، ناجائز رشتہ اور شادی صرف ان معصوم ذہنوں کے لیے عسیر الفہم ہے جو انھیں صاحبِ ایمان سمجھتے ہیں اور اسلامی ناموں اور معاشرتی علامتوں سے دھوکہ کھاتے ہیں، وہ تو دیر پرست، قشقہ پسند اور پرانے تارکِ اسلام ہیں، آپ کی پروبلم ہے کہ ان کو مسلمان فرض کرتے ہیں، یہیں سے آپ کا خطاب بھٹکتا ہے، استدلال گمراہ ہوتا ہے اور آپ کی باتیں لاتعلق ٹھہرتی ہیں۔

زبان وبیان کی تاثیر مستحسن ومطلوب ہے، قرآن وحدیث کا ادبی معیار اس کی سب سے بڑی توثیق ہے، علمائے اسلام کے مذہبی کارنامے مساوی طور پر زبان وسخن کے شاہ کار بھی ہیں؛ مگر جب ادب کا عیاش رجحان نفسِ ادب میں قاصر واقع ہوا تو اس نے اپنی اس نارسائی کو جھوٹ، داستان گوئی، بے سروپا مضامین، افتراض، توہم، سفلہ پرستی، جنسی بے راہ روی، ہوس ناکی اور شہوت زدگی سے پورا کیا، یہاں سے اسلام کا مقدس راستہ ناپاک اور جھوٹے ادب سے جدا ہوتا ہے اور پھر قرآن سورۂ شعرا پیش کرتا ہے اور اس قبیل کے کذاب، مفتری، گمراہ اور گندے ادیبوں کی مذمت کے لیے تین آیتیں مختص کرتا ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ مدارس کا لسانی نصاب بہتری کی گنجائش رکھتا ہے؛ مگر جاری بحث کا محرک خیر خواہی نہیں، لادینیت ہے، جدت پسند ٹولے کو درخشاں اسلامی شناخت، جگمگاتے میناروں، دینِ محمدی کے پہرے داروں، دفاعی حصاروں یعنی مدارس اسلامیہ سے ذاتی، فکری، تہذیبی اور مذہبی مسئلہ ہے، یہ مجرد سیاسی اور معاشی دوری نہیں، نظریے اور سوچ کا فرق ہے، چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی کی ستیزہ کاری کا ایک رنگ یہ بھی ہے اور جب تک چراغ روشن ہے، پھونک والی حرکتیں بھی جاری رہیں گی۔

محمد فہیم الدین بجنوری
10 جون 2025ء

Читать полностью…

علم و کتاب

اس کا نتیجہ ہے کہ ہماری بزم علم کتاب میں دیوبند کے ایک ناشر کتب نے سروے پیش کیا تھا کہ اردو کتابوں کی اس سب سے بڑی مارکیٹ میں زیادہ تر کتابیں اساتذہ کی درسیات کی شرحوں ،دینی اور درسی کتابوں سے متعلق ہوتی ہیں، اس سے باہر عنوانات پر زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد کتابیں چلتی ہیں۔ اس صورت حال میں مدارس دینیہ کے ذریعہ اردو زبان کی خدمت والی بات میں وزن کم ہوجاتا ہے۔
جہاں پر کسی دانشور کے مدارس دینیہ کے فارغین کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے، اور ان کی اظہر من الشمس خدمات کے انکار پر ہمیں غصہ آتا ہے، وہیں ہمیں ٹھنڈے دل سے مذکورہ بالا امور پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
2025-06-09
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

خدمتِ کعبہ

ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی صاحب نے ہمدرد، دہلی، ۳ مارچ ۱۹۱۴ء، ص: ۱، بحوالہ انجمن خدامِ کعبہ، ص: ۹۳۔ علامہ شبلی نعمانیؒ کی یہ نادر نظم دریافت کی ہے، یہ "کلیاتِ شبلیؒ" میں بھی شامل نہیں ہے۔

خادمِ کعبہ وہ ہے، جس کو ہے پیارا اللّٰه
عزتِ کعبہ ہے، اللّٰه کی عزت گویا

ماہِ ذی الحجہ میں دیکھے کوئی خلقت کا ہجوم
شوکتِ کعبہ ہے، اسلام کی شوکت گویا

جانبِ کعبہ اگر اٹھ گئی بدبیں کی نظر
تو یہ سمجھو کہ ہے دنیا میں قیامت گویا

خدمتِ کعبہ میں دیتے ہیں گرہ سے جو کچھ
دامنِ کعبہ میں ہم بھرتے ہیں دولت گویا

جس کو خدمت سے گریز اس کو ہے کعبہ سے گریز
اور گریزاں کو ہے اسلام سے نفرت گویا

دل سے جو شخص نہ ہو جانبِ کعبہ مائل
اس کے دل میں نہیں ایمان کی وقعت گویا

خدمتِ کعبہ رسولِ عربیؐ نے کی ہے
اس کی خدمت تو ہے تقلیدِ رسالت گویا

معارف، جون: ۲۰۲۵ء/صفحہ: ۵۵/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اڈمن حضرات سے گذارش ہے کہ علم وکتاب چینل کو اپ ڈیٹ رکھنے کی فکر کریں- عبد المتین منیری

Читать полностью…

علم و کتاب

17 ستمبر 1915میں ہندستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں پیدا ہونے والے مقبول فدا حسین کا گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہری تھا جو داؤدی بوہریوں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔مادری زبان گجراتی تھی۔ مصوری کا شوق مدرسے میں پروان چڑھا۔مدرسے میں حسین پڑھتے پڑھاتے نہیں تھے بلکہ خطاطی کرتے تھے اور ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کی ایسی لت پڑی کہ فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کردیئے ۔جس سے ان کی پڑھائی اور رہن سہن کا خرچہ نکل آتا تھا۔حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان کا رجحان تو پیٹنگ کی طرف تھا۔ وہ دکان پر بیٹھتے تو بھی پنسل سے خاکے بناتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔ جب ان کے والد نے وہ تصویر دیکھی تو مقبول کو گلے لگا لیا۔ مقبول چند دنوں بعد بیندرے صاحب (مشہور مصور) کو اپنے باپ سے ملانے لے گئے۔ بیندرے بھی اندور سے تعلق رکھتے تھے
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات: 9 جون*

نیرو۔ رومن شہنشاہ۔ وفات: 9۔ جون۔ 68ء
ٹومس آرنلڈ۔ پروفیسر۔ وفات: 9۔ جون۔ 1930ء
مولانا محمد عثمان فارقلیط۔ مدیر الجمعیت دہلی۔ وفات: 9۔ جون۔ 1976ء
سید علی کوثر۔ ۔ وفات: 9۔ جون۔ 1983ء
جلال الدین۔ ۔ وفات: 9۔ جون۔ 1986ء
اسد بھوپالی (اسد اللہ خان)۔ شاعر۔ وفات: 9۔ جون۔ 1990ء
مغنی ، ایم ۔اے۔ ۔ وفات: 9۔ جون۔ 1991ء
راج کھوسلا۔ ہدایت کار۔ وفات: 9۔ جون۔ 1991ء
مولانا محمد ناظم دندوی۔ ادیب۔ وفات: 9۔ جون۔ 2000ء
جمیل فخری۔ اداکار۔ وفات: 9۔ جون۔ 2001ء
لاغر امروہوی (رضوان علی صدیقی)۔ شاعر۔ وفات: 9۔ جون۔ 2007ء
مقبول فدا حسین۔ پینٹر۔ وفات: 9۔ جون۔ 2011ء
عامر لیاقت خان۔ براڈکاسٹر۔ وفات: 9۔ جون۔ 2022ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

محصولات کی وصولی لامبردار کا ایک اور اہم فرض تھا۔ وہ نقد یا فصلی شکل میں محصولات وصول کرتا اور اسے حکومتی خزانے میں جمع کرتا تھا۔ اس عمل میں وہ کسانوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بناتا تھا، کیونکہ اس کی اپنی عزت اور اثر و رسوخ اس کی انصاف پسندی پر منحصر تھا۔ لامبردار نہ صرف محصولات کی وصولی کا ذمہ دار تھا، بلکہ وہ کسانوں کے مالی مسائل کو بھی حل کرنے کی کوشش کرتا تھا، جیسے کہ خشک سالی یا قدرتی آفات کے دوران محصولات کی ادائیگی میں نرمی کی درخواست کرنا۔

لامبردار انتظامی امور میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا تھا۔ وہ گاؤں کے تنازعات، جیسے کہ زمین کے جھگڑوں، خاندانی مسائل یا وراثتی معاملات، کو حل کرنے کے لیے ایک غیر رسمی عدالت کی طرح کام کرتا تھا۔ اس کے فیصلے مقامی روایات اور رسم و رواج کے مطابق ہوتے تھے، اور لوگ انہیں قبول کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ اپنے علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے بھی ذمہ دار تھا۔ اگر گاؤں میں کوئی چوری، ڈکیتی یا دیگر جرائم ہوتے، تو لامبردار مقامی سطح پر ان کا تدارک کرتا اور بعض اوقات انگریز حکام کو مطلع کرتا تھا۔

لامبردار کا ایک دلچسپ اور کم معروف کردار ثقافتی سرگرمیوں کا سرپرست ہونا تھا۔ وہ گاؤں کے تہواروں، میلے ٹھیلوں اور مذہبی تقریبات کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر، عید، دیوالی یا دیگر مقامی تہواروں کے موقع پر لامبردار اپنے گھر یا گاؤں کے چوپال میں تقریبات کا اہتمام کرتا، جہاں لوگ جمع ہوتے، موسیقی سنتے اور روایتی کھیلوں میں حصہ لیتے۔ کئی لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں مقامی شاعروں، موسیقاروں اور فنکاروں کی سرپرستی کی، جس سے دیہاتی ثقافت کو فروغ ملا۔

لامبردار خیراتی کاموں میں بھی پیش پیش ہوتا تھا۔ وہ اپنے علاقے کے غریب کسانوں کی مدد کرتا، انہیں بیج یا زرعی اوزار فراہم کرتا اور بعض اوقات ان کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتا تھا۔ کئی لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں اسکول، مساجد، مندر یا دھرم شالائیں بنوائیں، اور پانی کے کنوؤں یا نہروں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی۔ ان کے یہ اقدامات ان کی سخاوت اور سماجی ذمہ داری کے جذبے کی عکاسی کرتے تھے۔

لامبردار حکومتی احکامات کو عوام تک پہنچانے اور عوام کی شکایات کو حکام تک پہنچانے کا ذریعہ بھی تھا۔ وہ گاؤں کے لوگوں کی نمائندگی کرتا اور ان کے مسائل، جیسے کہ ٹیکسوں میں نرمی یا قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کے لیے امداد، کو حکومتی سطح پر اٹھاتا تھا۔ اس طرح وہ ایک مضبوط رابطہ کار کے طور پر کام کرتا تھا، جو گاؤں اور حکومت کے درمیان توازن قائم رکھتا تھا۔

### لامبردار کی مراعات اور سماجی اثر و رسوخ
لامبرداروں کو ان کی خدمات کے بدلے کئی مراعات حاصل تھیں، جو ان کی سماجی اور معاشی طاقت کو بڑھاتی تھیں۔ انہیں زمینوں کا مالک تسلیم کیا جاتا تھا، اور وہ محصولات کی وصولی کے بعد اس کا ایک حصہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ کچھ لامبرداروں کے پاس ہزاروں ایکڑ زمین ہوتی تھی، جو انہیں اپنے علاقے کا ایک چھوٹا بادشاہ بناتی تھی۔ ان کے گھر، جو اکثر قلعہ نما ہوتے تھے، ان کی دولت اور اثر و رسوخ کی علامت تھے۔ یہ گھر نہ صرف ان کے خاندان اور ملازمین کی رہائش گاہ ہوتے تھے، بلکہ گاؤں کے سماجی اور ثقافتی مرکز کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔

لامبردار کی سماجی حیثیت اس قدر بلند تھی کہ اس کی رائے کو گاؤں کے ہر معاملے میں اہمیت دی جاتی تھی۔ لوگ اس کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے تھے، اور اس کے فیصلے کو حتمی سمجھا جاتا تھا۔ کئی لامبردار اپنی سخاوت کے لیے مشہور تھے، اور ان کے قصے آج بھی دیہاتوں میں سنائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ لامبرداروں نے اپنے علاقوں میں غریبوں کے لیے مفت لنگر کا اہتمام کیا، جہاں ہر روز درجنوں لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ اس طرح کے اقدامات نے انہیں لوگوں کے دلوں میں ایک عظیم رہنما کے طور پر زندہ رکھا۔

### زوال کا دور
برطانوی راج کے خاتمے اور پاکستان و ہندوستان کی آزادی کے بعد لامبرداروں کا روایتی کردار بتدریج کمزور پڑنے لگا۔ نئی حکومتوں نے زمینی اصلاحات متعارف کروائیں، جن کا مقصد زمینداری نظام کو ختم کرنا اور زمینوں کو کسانوں میں تقسیم کرنا تھا۔ ان اصلاحات نے لامبرداروں کے اختیارات اور مراعات کو محدود کر دیا۔ زمینداری نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی لامبرداروں کا وہ اثر و رسوخ بھی ختم ہو گیا جو وہ صدیوں سے برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اگرچہ کچھ دیہاتی علاقوں میں لامبردار کا عہدہ آج بھی موجود ہے، لیکن اس کا کردار اب زیادہ تر رسمی نوعیت کا ہے، جو زمینوں کے ریکارڈ کی دیکھ بھال اور مقامی انتظامی امور تک محدود ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

آج بھی ”حرمِ مسجد اقصٰی“ کے مقدس فریضے کی ادائیگی کی حفاظت و بلندیٔ حق کی خاطر خونِ حق کی ضوفشانی اور اپنی جان کی قربانیوں سے نسل خؔطّابیؓ واؔیوبیؒ کے جانباز و جانشین پاسبان اپنی نوخیز نسل سمیت بیان باز،دروغ گو طبقۂ مقتدرہ کی امداد و اعانت سے بے پرواہ ہوکر نصرتِ حق پر کوہ شکن،جادۂ مستقیم پر گامزن وہ تاریخ رقم کر رہے ہیں جس کے نقوش کی روشنی میں آنے والی نسلیں صبر و تحمل استقامت و پامردی سے ہمت و حوصلہ پاکر مستقبل میں باذنﷲ ایک نئ تاریخ رقم کریں گی۔

حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی، مدظلہ مہتمم دار العلوم وقف، دیوبند.

(ندائے دار العلوم وقف دیوبند ذی الحجہ، (1446)

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات: مورخہ 8 مئی*

بیدار بخت۔ مغل شہزادہ۔ وفات: 8۔ جون۔ 1707ء
اسلم آزاد۔ ۔ وفات: 8۔ جون۔ 1922ء
ڈاکٹر بدر النساء بیگم قریشی۔ ۔ وفات: 8۔ جون۔ 1975ء
حبیب اللہ خان پراچہ۔ ۔ وفات: 8۔ جون۔ 1988ء
شاہد اکبر آبادی۔ ۔ وفات: 8۔ جون۔ 1993ء
مولانا محمد اسحاق پٹیل۔ ۔ وفات: 8۔ جون۔ 1996ء
ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی۔ ۔ وفات: 8۔ جون۔ 1999ء
شبیر حسین قریشی ۔ پروفیسر۔ وفات: 8۔ جون۔ 2000ء
کمال الدین۔ الحاج۔ وفات: 8۔ جون۔ 2000ء
لطیف اثر۔ ۔ وفات: 8۔ جون۔ 2000ء
مولانا محمد عارف سنبھلی ندوی۔ استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔ وفات: 8۔ جون۔ 2006ء
منصورہ احمد۔ شاعرہ۔ وفات: 8۔ جون۔ 2011ء
مولانا محمد غزالی خطیبی بھٹکلی ندوی۔ داعی ومبلغ۔ وفات: 8۔ جون۔ 2018ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*وفیات: 7 جون*

مولانا عبدالجلیل۔ ۔ وفات: 7۔ جون۔ 1976ء
فقیر محمد ساقی۔ ۔ وفات: 7۔ جون۔ 1975ء
نصیر الدین ، حاجی۔ ۔ وفات: 7۔ جون۔ 1997ء
حشرپوری ، سید محمد کاظم۔ ۔ وفات: 7۔ جون۔ 1973ء
شیخ طاہر علاء الدین قادری جیلانی۔ روحانی سرپرست ادارہ منھاج القرآن لاہور۔ وفات: 7۔ جون۔ 1991ء
رسول بخش پلیچو۔ سندھی سیاست دان ۔ وفات: 7۔ جون۔ 2018ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…
Subscribe to a channel