ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

*وفیات: 6 جون*

اثر لکھنوی( نواب مرزا جعفر علی خان)۔ شاعر ، ماہر لغت ۔ وفات: 6۔ جون۔ 1967ء
حامد حسن قادری۔ پروفیسر۔ وفات: 6۔ جون۔ 1964ء
ڈاکٹر عبدالمنعم النمر۔ ۔ وفات: 6۔ جون ۔ 2023ء
ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 1974ء
سید احمد شاہ میر۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 1955ء
سید سعید حسن۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 1999ء
سید مہدی عباس نقوی۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 2006ء
شاہد علی رعنا۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 2000ء
عبدالرشید رستم قلم۔ خطاط۔ وفات: 6۔ جون۔ 1991ء
مجنوں گورکھپوری۔ ادیب ونقاد۔ وفات: 6۔ جون۔ 1988ء
مشتاق حسین خاں ہاشمی۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 1982ء
مولا نا محمد عثمان معروفی اعظمی۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 2001ء
مولانا حامد حسن قادری۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 1964ء
مولانا عبدالجبار معروفی ۔ شیخ الحدیث ۔ وفات: 6۔ جون۔ 2001ء
مولانا محمد رفیق قاسمی۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 2020ء
میاں افتخار الدین۔ صحافی۔ وفات: 6۔ جون ۔ 1962ء
میمونہ غزل۔ ۔ وفات: 6۔ جون۔ 1987ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ کیوں کر عینک کو نہ آنکھوں سے لگاؤں اے یار
احمد حاطب صدیقی


ایک شُستہ اور شائستہ خاتون پوچھتی ہیں:
’’عام بول چال میں جو ہم بولتے ہیں کہ ’وہ عین وقت پر آگیا‘ اور بچوں کے جو نام رکھے جاتے ہیں ’قرۃ العین‘ یا ’نورالعین‘ تو اِن سب میں ’عین‘ کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کا حرف ’ع‘ سے کیا تعلق ہے؟‘‘

’عین‘ کے متعلق یہ سوال پڑھ کر ہم تو غین ہوگئے۔ ’غین ہوجانا‘ جدید بول چال کا کلمہ ہے۔ قدیم لغات میں نہیں ملے گا۔ اس کا مطلب ہے بیٹھے بیٹھے غائب غُلّا ہوجانا، یا ہوش و حواس کھو بیٹھنا۔ شان الحق حقی مرحوم نے اپنے ’فرہنگِ تلفظ‘ میں ’غین‘ کا مطلب ’غوطہ‘ اور ’غافل‘ بھی لکھا ہے۔ یعنی ’غین ہوجانا‘ غوطہ کھا جانے اور غافل ہوجانے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اتنی کیفیات میں بیک وقت مبتلا ہوجانے کا باعث یہ ہے کہ اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے۔ مختصر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اس کالم میں ’عین‘ کے تمام مفاہیم کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے کی ہم کوشش بھی نہیں کریں گے۔

چلیے سب سے پہلے حرف ’ع‘ ہی کو لے لیجے۔ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ مولوی سید احمد دہلوی مرحوم لکھتے ہیں:

’’عربی کا اٹھارہواں، فارسی کا اکیسواں اور اُردو کا چوبیسواں حرف جسے عین مہملہ یا غیر منقوطہ کہتے ہیں [غیر منقوطہ کا مطلب ہے بغیر نقطے والا] اس کا تلفظ اہلِ عرب سے بہتر کوئی نہیں نکال سکتا، اس کی آواز کنٹھ کے نیچے سے نکلتی ہے۔‘‘

’کنٹھ‘ گلے، حلق یا ٹینٹوے کو کہتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجے کہ اہلِ عرب ’ع‘ کا تلفظ حلق کے اُس حصے سے کرتے ہیں جہاں سے اہلِ عجم صرف قے کیا کرتے ہیں۔

مولوی صاحب مرحوم کی معلومات پرانی ہوگئی ہیں۔ ’ع‘ اب اُردو حروفِ تہجی کا چوبیسواں حرف نہیں رہا۔ اُردو نے مولوی صاحب کے وفات پا جانے کے بعد خاصی ترقی کی ہے۔ کچھ مزید حروفِ تہجی اپنے ذخیرۂ حروف میں شامل کرلیے ہیں، کچھ الفاظ بدل لیے ہیں اور مفاہیم میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے۔ بھاری آوازوں کو حروفِ تہجی کا درجہ دے دینے کے بعد اب اُردو حروفِ تہجی کی مجموعی تعداد چوّن ہوگئی ہے۔ مقتدرہ قومی زبان، پاکستان کی جاری کردہ معیاری تختی کے مطابق ’ع‘ اب اُردو حروفِ تہجی کا پینتیسواں حرف ہے۔ اکیلے اِس حرفِ ’ع‘ کے استعمالات بھی کئی عدد ہیں۔ قرآنِ مجید میں ’ع‘ رکوع مکمل ہونے کا اشارہ ہے۔ ’علیہ السلام‘ کے مخفف کے طور پر بھی ’ع‘ لکھا جاتا ہے، مثلاً حضرت آدمؑ۔ علاوہ ازیں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ آگے مصرع آرہا ہے، اشارتاً ’ع‘ لکھ دیتے ہیں۔

محترمہ شائستہ نے جو آخری سوال کیا ہے، اُس کا ہم پہلے جواب دیے دیتے ہیں کہ لفظ ’عین‘ کا حرف ’ع‘ سے بس اتنا تعلق ہے کہ ہم ’ع‘ سے ’عین‘ لکھتے ہیں۔ ٹی وی والوں کا بس چلے تو الف سے لکھ ماریں۔ ’ع‘ سے لکھنے پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ہمارے عزیز دوست اختر عباس جو بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں، حتیٰ کہ ’الف انار‘ اور ’ب بلّی‘ بھی پڑھے ہوئے ہیں، اس بات پرسخت تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے کہ یہ علامہ اقبالؔ کی اُردو کو کیا ہوگیا تھا کہ اُنھوں نے’ع لڑائی‘ لکھا؟ یہاں ’ل‘ کی آواز تو صاف نکل رہی ہے۔ چناں چہ اقبالؔ کی اصلاح کرکے وہ اس مصرعے کو یوں پڑھا کرتے تھے، ع:

آگیا ’لام لڑائی‘ میں اگر وقتِ نماز
یوں بھی’لام‘ کا لڑائی سے گہرا تعلق ہے۔ ’لام‘ کا مطلب فوج یا پلٹن ہے اور ’لام بندی‘ کا مطلب ہے لڑائی کے لیے لشکر جمع کرنا۔

اب ہم عین اپنے موضوع پر آتے ہیں۔ عربی زبان میں تو ’عین‘ کے سو سے زائد معانی ہیں۔گو کہ اکثر لغت نویسوں نے ’عین ‘ کے صرف پچاس معانی لکھے ہیں۔ پچاس معانی لکھ کر ہی وہ تھک گئے اور چھک گئے۔ ہم تو خیر پچاس بھی نہیں لکھ سکتے، اس سے پہلے ہی چھک جائیں گے۔ پھر بھی’عین‘ کے کچھ ایسے معانی یہاں لکھے دیتے ہیں جو ہمارے ہاں زیادہ معروف نہیں ہیں، مثلاً: سپہ سالار، جاسوس یا مخبر، شعاعِ آفتاب، اہلِ شہر، اہلِ خانہ، بڑا اور معزز آدمی، ترازو کا جھکاؤ، مسافت میں قریب، مطلوبہ سمت، نقد مال، سرسبز ہونا اور پہرے دار یا نگراں، وغیرہ وغیرہ۔ نہر کو بھی عربی میں ’عین‘ کہا جاتا ہے۔ ہم اُردو میں ملکہ زبیدہ کی کھنچوائی ہوئی نہر کو ’نہرِ زبیدہ‘ کہتے ہیں، یہ سوچ کر کہ ’نہر‘ عربی کا لفظ ہے، جس کے معنی دریا کے بھی ہیں، لیکن عرب مصر ہیں ’نہرِ زبیدہ‘ کو بھی ’عینِ زبیدہ‘ کہنے پر۔ چلیے صاحب کہہ لیجے۔

یہ تو تھے غیر معروف معانی۔ معروف معنوں میں سے ’عین‘ کا ایک مطلب آنکھ یا چشم ہے۔ دوسرا مطلب ’چشمہ‘۔ وہ چشمہ جو پہاڑوں اور پتھروں سے پھوٹ نکلتا ہے۔ سورۃ الغاشیہ کی بارہویں آیت میں جنت کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اُس میں ’’عَیْنٌ جَارِیَۃٌ‘‘ یعنی بہتا ہوا چشمہ ہوگا۔ آنکھ سے بہنے والا آنسو یاکنویں اور چشمے سے اُبلنے والا پانی ’مَعِیْن‘ کہلاتا ہے اور’عین‘ کی جمع ’عیون‘ ہے۔

رہا وہ چشمہ جو ناک پر بیٹھ کردونوں کان پکڑ لیتا ہے، اُس کو بھی ہم عین سے ’عینک‘ کہتے ہیں۔ ہم ہی نہیں، ذوقؔ بھی کہا کرتے تھے:

Читать полностью…

علم و کتاب

*•سفر حجاز کے بعض مناظر اور تاثرات•*

آخری قسط

(از: جناب مولانا محمد اویس صاحب نؔدوی نگرامی)


9 ذی الحجہ کی صبح کو عرفات روانہ ہونا تھا،عقل کہتی تھی کہ: کل مؔکہ سے مؔنیٰ تک کے سفر کا حال یاد کر! اور یہ بھی خیال کر کہ اب سفر دو گنا ہے! یعنی 6 میل!مگر عشق کہتا تھا کہ کچھ بھی ہو افتاں و خیزاں پیادہ پا چلنا چاہئیے ۔ یہی تو وہ منزل ہے جس کو انبیاء نے صرف پیادہ پا نہیں ؛ بلکہ برہنہ پا طے کیا ہے، الحمد للہ کہ عقل نے شکست کھائی، اور ہم لوگ عرفات کو پیادہ پا چل پڑے، جذبۂ دل نے پھر پکارا اور کہا کہ کیا خبر دوبارہ پھر یہ موقع ملے یا نہ ملے ؟ انبیائے کرامؑ کی پیروی کے خیال سے پیروں سے چپلوں اور جوتوں کو بھی الگ کرنا چاہئے، حج کا لبیک تو ہو ہی رہا تھا الحمد للہ کہ عشق کے اس منادی کی آواز پر بھی لبیک کہا گیا ۔

ہم لوگ اس انداز سے بیس منٹ چلے ہوں گے کہ سامنے ایک لاری آئی اور فی کس عمر کے حساب سے عرفات لے چلنے کے لئے ہم لوگوں سے کہا، عقل دور اندیش نے پھر سمجھایا کہ بحمد اللہ اس راہ میں پیادہ پا اور برہنہ پا چلنے کی سعادت بھی نصیب میں آچکی،اب رحمتِ خداوندی نے ہم لوگوں کی کمزوری پر نظر فرماکر دستگیری فرمائی ہے، لہٰذا لاری پر سفر سے احتراز نہ کرنا چاہئے۔ لیجیے منٹوں میں ہم لوگ لاری کے ذریعہ ''عرفات'' پہونچے گئے اور ''جبل رحمت'' کی قریبی جانب قیام ہوا، ''مسجد نمرہ''کی بھی زیارت ہوئی۔

شام کے وقت ہم نے جبل رحمت کے اس مبارک حصہ کے قریب پہونچنے کی کوشش کی جس کے متعلق گمان غالب ہے کہ یہاں حضرت نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر حجة الوداع کا یادگار خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔

شیخ عبد الحق مؔحدث دہلویؒ کا مشورہ ہے کہ اس پہاڑ پر جہاں سیاہ پتھر ہیں وہاں آدمی مختلف مقامات پر کھڑا ہو تو یقین ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا موقف مبارک اس کے نصیب میں آجائے گا۔ ''حکومت نجدیہ سعودیہ'' کے سپاہیوں کی وجہ سے ہم اس مقام تک تو نہ پہونچ سکے؛ مگر نگاہوں نے لطفِ زیارت ضرور حاصل کیا۔

اللہ اللہ آج وہ دن یاد آرہا ہے کہ حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرات صحابہ کرام کے مقدس مجمع کے ساتھ یہاں جلوہ افروز تھے اور سائل کی طرح ہاتھ پھیلا کر اپنی امت کے لئے دعا مانگی تھی، اس منظر کو یاد کر کے دل بھر آرہا ہے ۔

خداوندا! واسطہ اپنی ذات وصفات کا، اور وسیلہ اپنے رسول پاک اور انکے اصحاب کا اور صدقہ تیرے اولیاء صادقین کا ہم کو اپنی رضا نصیب فرما، مسلمانوں کی مصیبتوں کو دور فرما، اور اسلام کو نئی زندگی عطا فرما، اور ہماری زندگی اور موت اپنے لئے کرلے !۔

ہر طرف "حج مبارک'' حج مبارک " کے نعرے بلند ہو رہے تھے ، مغرب کے بالکل قریب ایک ہلکا ابر آیا اور حجاج کو خدا کی رحمت و بخشش سے نواز گیا۔ اب مؔزدلفہ کی روانگی تھی، ہمارے قابل صد شکریہ معلم مولانا عبد الهادی سکندر نے اپنی ذاتی موڑ پر ہم کو مزدلفہ روانہ کر دیا۔

عرفات اور مزدلفہ کے اس درمیانی راستے کا سماں شاید عمر بھر بھلایا نہ جاسکے، وہ بسوں کاروں، اور لاریوں کی مسلسل قطاریں، جن کی روشنی ایک عجیب دل کش منظر پیدا کر رہی تھی،دوسری طرف اونٹوں اور پیروں پر لوگ سوار آگے بڑھ رہے تھے، انھیں سے ملے جلے پیادہ پا حجاج کی جماعت چل رہی تھی ۔

تھوڑی دیر میں ہم مزدلفہ پہونچ گئے اور مجد مشعر حرام کے پاس ٹھہرے، آیت " فاذا افضتم من عرفات فاذكروا الله عند المشعر الحرام " بار بار یاد آرہی تھی۔ سبحان الله! یہی تو وہ مقام ہے جہاں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عرفات والی دعا کا بقیہ حصہ بھی قبول کیا گیا تھا، جس کی قبولیت کی وجہ سے شیطان پریشان حال بھاگا تھا اور حضور تبسم فرمانے لگے تھے۔ خداوندا! حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس تبسم کے صدقے میں شیطان اور اس کےکارندوں کو پھر ذلت و رسوائی نصیب فرما، اور غلامانِ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وسلم) کو موقع دے کہ آپ کے اور آپ کی امت کے دشمنوں کی رسوائی دیکھ کر ان کے دل ٹھنڈے اور چہرے تبسم کناں ہوں ۔

صبح کو جیسے ہی ہم نے نماز فجر ختم کی، معلم صاحب نے پھر اپنے ذاتی موٹر سے ہم کو منٰی روانہ کر دیا۔ یہاں رمی جمار قربانی اور حلق کے بعد ہم نے غسل کیا ، احرام اتارا اور کپڑے پہن کر مکہ معظمہ عصر کے وقت آئے اور طواف زیارت سے فراغت پائی ، مغرب کے وقت ہم لوگ پھر منٰی واپس آگئے،اور بارہ ذی الحجہ کی شام تک یہاں قیام کرکے پھر مکہ واپس آگئے ۔

شنبہ کے دن 27 ذی الحجہ 1367ھ مطابق 30 اکتوبر کو بعد ظہر ہم لوگ کا مکہ معظمہ سے جدہ کے لئے روانہ ہوئے، اور مغرب سے قبل جدہ پہونچ گئے۔
یہاں جہاز کے انتظار میں 8 نومبر 1948ء تک قیام کرنا پڑا ، اگر صحیح طور سے معلوم ہوتا کہ ابھی جہاز میں اتنی دیر ہے تو مکہ معظمہ سے ہر گز نہ آتے ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*عرفہ کا دن*
*تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی*

فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا
آج پیاسوں كے تجسس میں دریا تیرا
آج ہی حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم كے طفیل میں بخشنے والے نے فرشتوں كو گواہ كركے ان سب لوگوں كی مغفرت كا اعلان كیا ہے جو ہرطرف سے گرد وغبار میں اٹے ہوئے لبیك لبیك كہتے یہاں جمع ہیں ۔
فرشتوں نے عرض كیا پروردگار! ان میں فلاں ‏،فلاں اور فلانی ‏، فلانی تو بد اعمالیوں كے مرتكب اورحرام باتون كے ذمہ دار ہیں ۔
پروردگارِ عالم نے فرمایا : میں نے تو ان سب كی مغفرت كردی ہے۔
حضورانور ﷺ كے یہ كلمات بشارت اورمعافی كا یہ اعلان عام یاد آیا ‏، تودل خوشی سے رونے لگا اور شرمندگی بھی ہوئی كہ ایسے كریم سے سابقہ پھر بد اعمالیوں پر یہ اضطراب اور تشویش؟
شرمندہ ازانیم كہ دردار مكافات
اندر خور عفو تو كردیم گناہے
اب جبلِ رحمت كی طرف امام كے ساتھ جانے اور وہاں قیام كرنے كا ایك عظیم موقعہ تھا ‏، جبلِ رحمت میدان ہی میں ہماری قیام گاہ سے جو مسجد نمرہ كے قریب ہی تھی دو ہی ‏، تین میل ہوگا ‏، علماء اور فقہاء نے تحریر كردیا ہے كہ اگر كوئی جبلِ رحمت تك نہ جاسكے ‏، تو میدانِ عرفات میں كہیں بھی قیام ووقوف كرلے ‏، نیا حاجی پرانے حاجیوں سے ضرور پوچھتا ہے كہ جبلِ رحمت تك اس ہجوم میں جانا اور خیریت سے واپس آجانا ممكن ہے ؟ اور عموماً جواب یہی ملتا ہے كہ جانا تو ٹھیك ہے واپس قیام گاہ تك آجانے كا اطمینان نہیں اور گم شدگی كے اندیشے میں فقہاء كی دی ہوئی آسانی بہت كام آتی ہے ‏، ہمارے بھی كام آئی كہ اپنے خیمے ہی میں وقوف پر قناعت كرلی اور اس مقام فضیلت تك نہیں پہنچ پائے جہاں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اونٹنی ‘‘قصوٰی’’ پر تشریف لاكرنوعِ انسانی كی فلاح و نجات كا تاریخی منشور سنایا تھا ۔
‘‘تمہاری جانیں اور تمہارے مال ایك دوسرے كے لیے اس طرح واجب الاحترام ہیں جس طرح آج كا دن محترم ہے ‏، یہ مہینہ محترم ہے اور یہ شہر محترم ہے ‏، عورتوں كے حقوق كے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔
پھر حاضرین سے سوال فرمایا : تم لوگوں سے خداوند تعالٰی میرے بارے میں پوچھے گا ‏، تو تم كیا كہوگے ؟
سب نے ایك زبان ہوكر كہا : ہم گواہ ہیں كہ آپ نے تبلیغ كا حق ادا فرمایا اور خیر خواہی كے پہلو سے جو كچھ آپ پر لازم تھا اس كی تلقین فرمادی ہے۔
حضور انورﷺ نے انگشتِ شہادت كو آسمان كی طرف اٹھاكر اور حاضرین كی طرف اشارہ فرماكر تین بار ارشاد فرمایا: اے پروردگار ! ان كے اقرار كا تو گواہ رہنا ۔
اللہ اكبر! یہ عبدیت كی شان نبوت و رسالت كی اس جلالت و رفعت كے باوجود !۔ خیمے میں بیٹھے ‏، بیٹھے یہ سب خیال میں آرہا تھا اور یہ بھی سوچ رہے تھے كہ دیكھو كتنےصاف اور صریح الفاظ میں جن میں تاویل كی ادنٰی گنجائش بھی نہیں دوسروں كے جان و مال كے احترام كا حكم دیا گیا تھا اور حال یہ ہے كہ اپنی جان كے ڈر سے تو ضرور دوسروں كی جان لینے سے ڈرتے ہیں ‏، دوسروں كی جانوں كااحترام كتنوں كی نظروں میں ہے ‏، پھر جہاں جان كا خطرہ نہیں جیسے دوسروں كے اموال تو اس سلسلے میں اگرچہ حكم وہی جان كے احترام كی طرح ہے ؛لیكن ہم میں سے اكثر كا طرزِ عمل احترام كے حكم كے یكسر منافی رہتا ہے ۔
اور آج كے حالات میں تو ایك قدم اور ہم آگے رہتے ہیں یعنی مال كے علاوہ جان پر بھی حملہ آور ہوتے رہتے ہیں بےشك شخص كے قتل سے ہاتھ آلودہ كم ہوتے ہیں ؛لیكن شخصیت كے قتل میں ہم كس قدر بےباك ہوچكے ہیں ‏، یہ جوبےبنیاد باتیں دوسرے قابلِ ذكر اشخاص كے سسلسلے میں كسی غلط فہمی كی بنیاد پر نہیں بلكہ محض بدنام كرنے كی نیت سے ہم اڑاتے پھرتے ہیں ‏یہی تو شخصیت كا قتل ہے ‏، اصطلاحی معنوں میں خوں ریزی نہ سہی ؛لیكن عملاً دوسروں كی جان كی بے حرمتی كا ارتكاب تو سراسر ہے ۔
اپنی ہی حالت پر غور كرتے ہیں تو اس ‘‘خوں ریزی’’ كا سینكڑوں بار ارتكاب كرچكے ہوں گے ‏، تو جس ذات گرامی كے حكم كی تعمیل میں لكھنؤ سے دوڑكر عرفات تك آئے ہیں اس كے ایك حكم كو جو اس عرفات میں اس نے برملا دیا تھا كہاں تك ہم نے مانا ہے ؟
یادآنے لگا كہ عرفات میں جب حضور انورﷺ نے ہم گنہگاروں كی مغفرت اور نجات مانگی تھی ‏، تو پرورگار نے اپنے حقوق كے سلسلے میں ہماری كوتاہیوں اور نافرمانیوں سے درگزر فرمانے كا وعدہ فرمالیا تھا ؛لیكن حقوق العباد كے سلسلے میں كوتاہیوں ‏، غفلتوں اور زیادتیوں كی معافی كا اعلان یہاں نہیں ‘‘مزدلفہ’’ كے قیام كے وقت ہوا تھا ۔
بڑی تسلی ہونے لگی اور دن گزرنے كا انتظار كرنے لگے كہ مغرب ہوجائے تو عرفات سے روانہ ہوكر مزدلفہ پہنچیں جہاں رحمت عام كا اعلان عام ہوا تھا ۔
عصر كی نماز پڑھ چكے تھے ‏، مسجدِ نمرہ میں مغرب كی نماز آج عرفات میں پڑھنا نہیں ہے ‏، چاہے وقت ہوجائے ‏، چاہے وقت گزر جائے ‏، جب مزدلفہ میں قیام كریں گے ‏، تو مغرب اور عشاء كی نمازیں جمع كركے پڑھیں گے ‏، چاہے آدھی رات كیوں نہ ہوجائے ‏، عرفات میں تو بس مانگے جائیے ‏، دینے والا دینے پرتلا ہوا ہے

Читать полностью…

علم و کتاب

سبحان اللہ ! حصول ثواب کا ذوق و شوق کیسے کیسے باریک موقعوں کی نشان دہی کر رہا ہے ؟۔
در کعبہ اور حجر اسود کے درمیان نیچے کی دیوار کو ملتزم کہتے ہیں اس سے لوگ لپٹے کھڑے ہیں، دعائیں کر رہے ہیں اور بلک بلک کے رورہے ہیں، جیسے کوئی بچہ ماں کے سینہ سے لپٹ کر روئے ۔ آقائے دوجہاں حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) یہاں اسی طرح کعبہ کی دیوار سے سینہ پاک اور رخسار مبارک لگا کر جلوہ فرما ہوا کرتے تھے ۔

وہ سامنے زمزم شریف ہے، اس میں خود اپنے سوتے کے سوا حجر اسود ، صفا اور مروہ کی طرف سے تین سوتے ہیں، اس کو خوب جی بھر کر نوش فرمائیے ۔

مقام ابراہیم کے پاس بھی تشریف لے چلئے قرآن مجید اس جگہ کے متعلق فرماتا ہے: فيه ايات بينات مقام ابراهیم - دوسری جگہ ارشاد ہے : ۔ " واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی

یہاں سے قریب ہی وہ دونوں پہاڑیاں ہیں جن کے متعلق فرمایا گیا ہے : " ان الصفا والمروة من شعائر الله " صفا اور مروہ یہ دونوں وہ پہاڑیاں ہیں جہاں حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ کو ربانی کرشمے کے عظیم الشان جلوے نظر آئے ، ان کی سعی کرلیجیے۔ حضرت ہاجرہ حضرت اسماعیل کو لے کر جب یہاں آئی تھیں اور وہ پیاس سے بے تاب ہوگئے تھے توحضرت ہاجرہ صفا اور مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑی تھیں، یہ صفا اور مروہ کی سعی ان ہی کی اس مضطربانہ دوڑ کی یادگار ہے ۔

بہرحال مالک حقیقی کا شکریہ اور ہزار بار شکریہ کہ اس نے ایسے مبارک مقام کی حاضری سے ہم کو سرفراز فرمایا ۔ ہم لوگوں نے محلہ جیاد میں جبل سبع نبات پر ایک کرایہ کا مکان لے لیا تھا۔ ہمارے قافلے کے جو لوگ بمبئی میں جہاز میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے چھوٹ گئے تھے وہ بھی اسی دن جدہ سے مکہ معظمہ پہونچے جس دن ہم مدینہ سے آئے تھے ۔ سب کے سب اہل وطن یا وطن کے قریب کے لوگ تھے، اس لئے ایک ہی مکان میں قیام ہوا اور بڑی سہولت ہوئی ۔ ابھی حج میں ایک ہفتہ باقی تھا، ہم نے اپنا یہ وقت نیز حج کے بعد زمانہ قیام مکہ معظمہ کا بڑا حصہ بحمد الله مسجد حرام کی حاضری اور بیت اللہ کے طواف میں گزارا ۔
روزانہ حجاج کی آمد سے مکہ کی آبادی روز بروز بڑھ رہی تھی اور ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ کا شدت سے انتظار تھا۔ منی اور عرفات وغیرہ کے لئے اونٹ ، لاری ، بس اور کار کے انتظامات کے لئے لوگ برابر معلموں سے مل رہے تھے ۔ خاصی تعداد پیادہ پا چلنے والوں کی بھی تھی ، ہمارے قافلہ کے اکثر حضرات نے پیدل ہی چلنے کی نیت کی چنانچہ 8 ذی الحجہ کو بعد نماز فجر ہم سب لوگ منٰی کے لئے پیادہ پا چل پڑے ۔ مکہ اور منٰی کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا، خیال تھا کہ تین میل کی منزل بھی کوئی منزل ہے ، مگر

؏ عشق آساں نمود اول ولے افتاد و مشکلہا

اوپر دھوپ کی تمازت ، اور نیچے تپتی ہوئی ریگستانی زمین تھی جس میں پیر دھنس دھنس جاتے تھے، گو زبان اقرار کرنے کے لئے تیار نہ تھی ؛مگر دل ہمت ہار رہا تھا، لیکن بہ فضل خدا نو بجے کے قریب ہم لوگ منٰی پہونچ گئے اور مسجد خیف کے قریب ہی قیام کی دولت نصیب میں آئی۔ کہاجاتا ہے کہ مسجد خیف میں ستر نبیوں نے نماز پڑھی ہے، اور بعض روایات میں ہے کہ اس میں ستر نبیوں کی قبریں ہیں۔

جاری...

( ماہنامہ الفرقان 1369ھ حج نمبر)

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Читать полностью…

علم و کتاب

اسلام، قربانی ہے

علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

اسلام کے لفظی معنیٰ، اپنے کو کسی دوسرے کے سپرد کردینا اور اطاعت اور بندگی کے لیے گردن جھکا دینا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے اس ایثار اور قربانی سے ظاہر ہوتی ہے، یہی سبب ہے کہ ان باپ بیٹوں کی اس اطاعت اور فرمان برداری کے جذبہ کو، صحیفۂ محمدی میں اسلام کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے: فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّـهٝ لِلْجَبِيْنِ (صافات: ۱۰۳) "جب ابراہیم اور اسماعیل، اسلام لائے (یا فرمان برداری کی، یا اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردیا اور ابراہیم نے اپنے (اسماعیل) کو پیشانی کے بل زمین پر لٹایا۔" وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗؕ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَاۚ وَاِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ، اِذْ قَالَ لَـهٝ رَبُّهٝٓ اَسْلِمْ ۖ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَ (البقرہ: ۱۳۰/۱۳۱) "اور کون ابراہیم کی ملت کو پسند نہ کرے گا، لیکن وہ جو خود بیوقوف بنے، ہم نے اس کو دنیا میں مقبول کیا اور وہ آخرت میں بھی نیکوں میں سے ہوگا، جب اس کے رب نے اس سے کہا کہ اسلام لا (یا فرمان برداری کر یا اپنے کو سپرد کر دے) اس نے کہا: میں نے پروردگارِ عالم کی فرماں برداری کی (یا اپنے کو اس کے سپرد کردیا)

الغرض! ملتِ ابراہیمی کی حقیقت، یہی اسلام ہے کہ انہوں نے اپنے کو خدا کے ہاتھ میں سونپ دیا اور اس کے آستانہ پر اپنا سر جھکا دیا تھا، یہی اسلام کی حقیقت ہے اور یہی ملتِ ابراہیمی ہے اور اسی بارِ امانت کو اٹھانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام، بار بار خدا سے دعا فرماتے تھے کہ ان کی نسل میں اس بوجھ کے اٹھانے والے ہر زمانہ میں موجود رہیں اور بالآخر ان کی نسل میں وہ امین پیدا ہو، جو اس امانت کو لے کر، تمام دنیا میں وقف عام کردے، چنانچہ دعا فرمائی تو یہ فرمائی: رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَيۡنِ لَـكَ وَ مِنۡ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسۡلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبۡ عَلَيۡنَا ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَيُزَكِّيۡهِمۡؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ (البقرہ: ۱۲۸/۱۲۹) "ہمارے پروردگارا! ہم کو مسلمان (یا اپنا فرمان بردار بنا) اور ہماری نسل میں سے ایک مسلمان (یا اپنی فرمان بردار) جماعت بنا اور ہم کو مناسک (حج) کے دستور بتا اور ہم کو معاف کر، بے شک تو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے، ہمارے پروردگار! ان میں اپنا ایک رسول بھیج، جو تیری آیتیں ان کو پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کو پاک اور صاف کرے۔ تُو غالب اور حکمت والا ہے۔" یہ محمد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم تھے، یہ کتاب قرآن پاک تھی، یہ حکمت، سینۂ محمدی کا خزانۂ علمی و عملی تھا اور یہ مناسک، اسلام کے ارکانِ حج تھے۔

سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم: ۵/ ۱۸۵ـ١٨٦/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اور اس مبارک زمین کے اس مقدس حصہ کا حال آپ سے کیا بیان کیا جائے کہ جہاں سید المرسلین ، حبیب رب العالمین حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے دونوں رفیقوں اور وزیروں کے آج بھی جلوہ افروز ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کو یہاں کی حاضری سے سرفراز کرے۔ وہ گھڑی بھولنے والی نہیں ، جبکہ ایک سیہ کار و گنہگار نے مواجہ شریف میں عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! کفار بھی اگر سائل بن کر اس دربار میں آئے تو محروم واپس نہیں گئے، ہم اپنے اعمال کے لحاظ سے جیسے بھی ہیں مگر الحمد للہ کہ عقیدتاً آپ کے دین کے ماننے والے، اور آپ کے طریق کے چاہنے والے ہیں، اس لئے یا رسول اللہ ایسا نہ ہو کہ یہاں سے ہم محروم و نا کام واپس ہوں ۔
قسم ہے رؤف و رحیم خدا کی کہ اُس نے بالمومنین رؤوف رحیم جن ذات کا وصف اپنی کتاب مبین میں بیان فرمایا ہے اُس کی رأفت و رحمت نے ہر طرح کی دستگیری فرمائی!

بارگاہ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں عرض و معروض کے سلسلہ میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے: مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے متصل بؔاب جبرئیلؑ کے قریب قبلہ کی سمت شیخ الاسلام عارف حکمت بے کا بے نظیر کتب خانہ ہے، اس کتب خانہ کے بالکل مقابل حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا وہ مکان ہے جس میں حضرت نبی کریم )صلی اللہ علیہ وسلم) ہجرت کے موقع پر مہمان اترے تھے ۔
عارف حکمت بے تیرھویں صدی کے مشہور ترک علماء میں تھے، مدینہ منورہ میں قاضی ہوکر آئے تھے،1270ھ میں انھوں نے اس کتب خانہ کی بنیاد ڈالی، اپنی جائداد اور دولت کا بڑا حصہ اس پر صرف کیا۔ مؔقدونیہ اور اؔیشیائے کوچک میں اپنی جائداد اس کتب خانہ کی بقاء وترقی کے لئے وقف کی ۔ بؔلقان کی لڑائی کے بعد مؔقدونیہ وغیرہ کی جائداد تو ملکیت سے نکل گئی، پھر بھی ایشیائے کوچک کی آمدنی کتب خانہ پر صرف ہوتی رہی، مگر عرصہ سے یہ آمدنی کتب خانہ کو نہیں مل رہی ہے۔ ترکی حکومت اور سعودی حکومت کے درمیان اس سلسلہ میں مذاکرات جاری ہیں۔

شیخ ابراہیم حمدی خؔزلوطی جو ایک ترک عالم ہیں ، اور صرف ترکی و عربی سے واقف ہیں وہ اسی کتب خانہ کے منتظم ہیں، حضرت الاستاذ مولانا سید سلیمان صاحب ندویؒ اور جناب مولانا مسعود علی صاحب ندویؒ سے خوب واقف ہیں، ہندوستان آچکے ہیں، اسی تعلق سے میں شیخ حمدی سے ملا اور یہ مجھ پر بہت مہربان ہوگئے۔

ایک دن شیخ مجھ سے فرمانے لگے کہ تم سے ایک خاص بات کہنا ہے،میں ہمہ تن گوش ہوگیا، فرمانے لگے: کہ تم کو معلوم ہے کہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم )اپنے مہمانوں کا کس قدر اکرام فرماتے تھے اور مہمانوں کی دلجوئی حضرت کو کس قدر منظور تھی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ صحیح ارشاد فرماتے ہیں۔ کہنے لگے کہ جتنے حجاج آتے ہیں وہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وجہ سے مدینہ منورہ آتے ہیں، اس لئے سب حضور ہی کے مہمان ہیں۔ میں نے جب اس کا بھی اقرار کر لیا تو فرمایا کہ دیکھو اس وقت تم سب بوجہ مہمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے حضور کے مرکز نظر ہو، لہذا اب جب مواجہ شریف میں حاضر ہونا تو سعودی اور ترکی حکومت کے درمیان میرے کتب خانہ کے متعلق جو معاملات چل رہے ہیں اس کے متعلق حضور سے ضرور عرض کر دینا، اُمید ہے کہ میری مشکل ان شاء اللہ ضرور حل ہو جائے گی ۔

شؔیخ حمدی نے کچھ اس طرح یہ سب کچھ کہا کہ سننے والے کو اُن کی اس محبت و عقیدت پر رشک آگیا ۔



( ماہنامہ الفرقان لکھنؤ حج نمبر 1369ھ)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

جاری----

Читать полностью…

علم و کتاب

*•سفر حجاز کے بعض مناظر اور تاثرات•*

قسط دوم

(از: جناب مولانا محمد اویس صاحب نؔدوی نگرامی)


*جدہ میں مکہ کی یاد*

جَدہ کے چہار روزہ زمانہ قیام میں دل پر ایک چوٹ برابر لگتی رہی، مناسب ہے کہ اس چوٹ کا حال آپ بھی جان لیں، شائد کچھ کام ہی آجائے ۔ پہلے مدینہ منورہ ( صلی ﷲ علی صاحبہا) کی حاضری کا قصد ہم لوگوں نے دو وجہوں سے کیا تھا: ایک تو یہ کہ حج کا احرام ہم ''ذو الحلیفہ'' میں مسجد شجرہ میں باندھیں گے، تاکہ ارکان حج کی ابتدا اسی جگہ سے ہو جس جگہ سے حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے حج کی ابتدا فرمائی تھی ۔ دوسرے یہ کہ حجاج سے سنا تھا کہ حج کے بعد عموما لوگوں کے ذوق و شوق میں کمی آجاتی ہے، اور مدینہ طیبہ (صلی اللہ علی صاحبہا) اس طرح حاضری دیتے ہیں کہ جسم مدینہ میں ہوتا ہے اور خیال جدہ کی بندرگاہ میں۔

ہمارا جی چاہتا تھا کہ ہم حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں سراپا ذوق و شوق بن کر حاضر ہوں! مگر جدہ پہونچ کر کعبہ کی روحانیت نے کچھ ایسی جذب و کشش فرمائی کہ زیارت کعبہ کے بغیر آگے بڑھ جانے کا خیال صریحًا سوء ادب معلوم ہوا۔ اللہ جزائے خیر دے فقہاء امت کو، یہ حضرات قلوب انسانی کے کیسے طبیب تھے، زیارتِ مدینہ کے باب میں لکھتے ہیں کہ جس حاجی کے راستے میں مدینہ پڑتا ہے اور وہ حضرت نبی کریم ( صلی ﷲ علیہ وسلم)کی زیارت کے بغیر آگے بڑھ آئے تو یہ سوء ادب ہے اور سنگدلی کی نشانی ہے ۔ بعینہ یہی کیفیت مکہ چھوڑ کر مدینہ جانے والے حاجی نے محسوس کی!۔

وکیل سے کہا گیا کہ: ہمارے لئے پہلے مکہ ہی جانے کا انتظام فرما دیئے، مگر انھوں نے معذوری ظاہر کی اور فرمایا کہ آپ پہلے مدینہ جانے کے لئے کرایہ جمع کر چکے ہیں،اس لئے اب ممکن نہیں ہے۔

ظاہر ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے پہلے مدینہ طیبہ (صلی اللہ علی صاحبہا) کی حاضری میں کوئی قباحت نہ تھی، مگر یہ ایک دل کی بیتی تھی جس کا سنانا ضروری تھا۔

اس سلسلہ میں اہل حدیث جماعت کے ایک عالم صاحب نے بہترین راہ اختیار فرمائی،انھوں نے کیا یہ کہ یلملم میں عمرہ کا احرام باندھ لیا ، جدہ اتر کر سیدھے مکہ معظمہ گئے اور عمرہ سے فارغ ہو کہ مدینہ طیبہ (صلی اللہ علی صاحبہا) میں حاضری دی، اور حج سے پہلے پھر مکہ معظمہ آگئے۔ اس میں غالبا چالیس پچاس روپیہ کا خرچہ ضرور بڑھ جاتا ہے،( چالیس پچاس نہیں ؛ بل کہ اس صورت میں صرف پندرہ بیس روپے زیادہ خرچ ہوتے ہیں۔ نؔعمانی غفر لہ) لیکن میرے نزدیک یہ بہت مناسب صورت ہے۔

بہر حال اب ہم مدینہ طیبہ کے لئے چشم بر راہ تھے۔ وکیل صاحب صبح و شام موٹر کا وعدہ فرماتے تھے۔ اتفاق دیکھئے کہ 20 ستمبر (مطابق 16 ذی قعدہ) کو مغرب کی نماز ہم نے جس مسجد میں پڑھی اسی میں ''شیخ محمد مظہر نؔدوی'' بھی تشریف لائے، شیخ محمد مظہر شیخ عبدالرحمن مظہر جو ہندوستانی حجاج کے معلموں کے " رئیس المطوفین'' ہیں) ان کے چھوٹے بھائی ہیں، اور جدہ میں وزارت خارجہ کے دفتر میں کام کرتے ہیں،ندوہ میں میرے رفیق درس تھے ، بڑی محبت سے ملے، فورا اپنے عالیشان مکان لے گئے، اور پُر خلوص انداز میں شکایت بھی کی کہ ہمارے یہاں کیوں نہ ٹھہرے؟! ندوہ کا حال پوچھتے رہے۔ بعد میں ہم نے کہا کہ: ہم لوگ مدینہ کے انتظار میں یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں، اور ابھی تک کوئی صورت نہیں نکلی ہے۔ یہ بے چارے ہمارے ساتھ وکیل کے یہاں آئے اور تاکید کی کہ فورا موٹر کا انتظام کرو، اور مدینہ جانے والا پہلا موٹر ان کے قافلہ کو ملنا چاہئیے۔ شیخ مظہر کی موثر گفتگو کے جواب میں وکیل صاحب نے فرمایا کہ (حین ) یعنی ابھی ابھی۔ مظہر صاحب ہم کو رخصت کر کے گھر گئے اور ہم نے عشا کی نماز پڑھی، عشا کی نماز کے بعد ہی لاری آگئی ، اور ہم لوگ مدینہ طیبہ کی جانب روانہ ہو گئے ۔

جؔدہ سے رؔابغ تک ریگستانی اور رؔابغ سے مدینہ منورہ تک کوہستانی سلسلہ ہے، منزل بہ منزل رکتے ہوئے 22ستمبر 1948ء (مطابق 18 ذیقعدہ 1367ھ) کی شام کو ہم مدینہ منورہ صلی الله علی صاحبہا) پہونچے۔ راستہ کے کوہ و بیابان عقیدت ومحبت کی نگاہ میں کچھ ایسے بس گئے کہ ان کی تصویر آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے۔

بار بار خیال آتا تھا ممکن ہے کہ ان پہاڑیوں میں سے کسی خوش نصیب پہاڑی پر جناب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم )کی نظر پڑی ہو،ممکن ہے کہ صحابہ کرام اور خاندان نبوت کے افراد کبھی یہاں تشریف لائے ہوں، غازیان اسلام کے گھوڑوں نے ممکن ہے کہ ان گزرگاہوں کو بھی اپنے قدموں سے روندا ہو ، اسی لئے ان پُرانوار دشت و جبل کو عینکوں کے رنگین شیشوں کی آڑ سے دیکھنا دیدۂ شوق کے تحمل سے باہر تھا،آخر اس حجابِ رنگین کو الگ ہی کرنا پڑا۔

22 ستمبر کو عصر کے اول وقت ہم ذو الحلیفہ (موجودہ نام بئر علیؓ) پہونچے،یہاں مسجد شؔجرہ کی تلاش شروع کی ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں جمعۃ الوداع کے موقع پر حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک درخت کے نیچے قیام فرمایاتھا اور یہیں احرام زیب تن فرمایا تھا،بعد کو یہاں مسجد بنادی گئی، اور مسجد ''شجرہ'' کے نام سے

Читать полностью…

علم و کتاب

وسلم نے چھپکلی کو ایک ضرب سے مارنے پر زیادہ ثواب بیان کیا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں مار ڈالا اس کے لۓ اتنی اتنی نیکیاں ہیں اور جس نے دوسری ضرب سے مارا اس کے لۓ اتنی اتنی نیکیاں ہیں مگر پہلی دفعہ والے سے کم اور جس نے تیسری ضرب سے مارا اس کے لۓ اتنی اتنی نیکیاں ہیں مگر دوسری دفعہ والے سے کم (صحیح مسلم ۔ باب استحباب قتل الوزع ) اسی طرح جن جانوروں کو ذبح کرنا جائز ہے ان کے بارے میں فرمایا کہ جب تم ذبح کرو تو اچھی طریقے سے کرو ، اپنی چھری کو تیز کرلو اور جانور کو آرام دو (سنن ترمذی ۔ باب النہی عن المثلۃ ) اس لۓ کہ جب چھری کی دھار تیز نہیں ہوتی اور گردن پر چلتی ہے تو جانور کو تکلیف ہوتی ہے اور جب اس کی دھار تیز ہوتی ہے تو یک دم جان نکل جاتی ہے اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ اسلام میں جانور کو قتل کرنا تو دور کی بات کسی جاندار کو تکلیف دینا بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا رہا سوال یہ کہ کیا جانور کو ذبح کرنا اس کو قتل کرنا نہیں ہے تو اہل اسلام کے یہاں اس بارے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز اللہ کی بنائ ہوئ ہے انہیں مخلوقات میں جانور بھی ہے ، جن جانوروں کے ذبح یا قربانی کا حکم ہے وہ بھی اسی کا ہی ہے اور یہ بات قرآن کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے جو کہ اللہ کا کلام ہے (یہ الگ بحث ہے کہ قرآن اللہ کا کلام کیوں اور کیسے ہے ) پھر یہ سوال کہ کوئ مذہب کیسے کسی جاندار کو قتل کرنے کا حکم دے سکتا ہے یہ بات صرف وہ شخص کہہ سکتا ہے جس کو اسلام کی بنیاد ہی معلوم نہیں ہے کیوں کہ جب ہم یہ مانتے ہیں کہ ساری چیزیں خداۓ وحدہ لاشریک کی بنائ ہوئ ہیں وہی مالک ہے اور اسی کو ہر چیز میں تصرف کا حق ہے اب جس چاہے کو قربان کرنے کا حکم دے اورجس چاہے کو منع کردے ۔ اسی طرح ایسا شخص دیگر مذاہب کی بھی تعلیمات وہدایات سے یا تو واقف نہیں ہے یا پھر کسی بھی مذہب پر عمل پیرا ہونے سے باز رہنا چاہتا ہے ہندوستانی مذہب جین مت کے علاوہ دنیا کے سارے مذاہب کے اندر گوشت خوری کا تصور موجود ہے اور یہ جو بات ہندووں کے درمیان مشہور کردی گئ ہے کہ ان کے مذہب میں گوشت خوری سے منع کیا گیا ہے یہ ان کا اپنی تاریخ ومذہب سے ناوقفیت کی بنا پر ہے چناں چہ ویدوں میں جانوروں کے کھانے پکانے اور قربانی کا تذکرہ موجود ہے رگ وید میں بیان کیا گیا ہے کہ اے اندر تمہارے لۓ پسان اور وشنو ایک سو بھینس پکائیں (رگ وید ٦ \ ١١ \ ١٧ ) یجروید میں گھوڑے ، سانڈ ، بیل ، بانجھ گایوں اور بھینسوں کو دیوتا کے نذر کرنے کا ذکر ملتا ہے ( یجروید ادھیاۓ : ٢٠ \ ٧٨ ) منو سمرتی میں کہا گیا ہے مچھلی کے گوشت سے دو ماہ تک ، ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک ، بھیڑئیے کے گوشت سے چار ماہ تک اور پرند جانور کے گوشت سے پانچ مہینے تک پتر آسودہ رہتے ہیں (منو سمرتی ادھیاۓ ، ٣ \ ٢٦٨ ) خود گاندھی جی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ایک زمانہ تک ہندو سماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کا عمل عام تھا اور ڈاکٹر تارا چند کے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے ( اقتباس مضمون از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی : جانور سے فائدہ اٹھانا ) جیساکہ آج بھی ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہندو مذہب کے ہی نام لیوا افراد اپنے مندروں وعبادت خانوں میں دیوی دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کی بلی چڑھاتے ہیں زندہ جانور کھڑا کرکے اس کی گردن پر دھار دار آلہ بے رحمی سے مارتے ہیں اور اس کو مارڈالتے ہیں اپنے خود ساختہ معبودوں پر اس کا چڑھاوا چڑھاتے ہیں ۔ رہا یہ سوال کہ اہل اسلام اپنی زبان کے مزے کے لۓ لاکھوں جانوروں کو ذبح کردیتے ہیں تو اس بارے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بڑا اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ دنیا کا دستور چلا آرہا ہے کہ ادنی کو اعلی کے لۓ قربانی پیش کرنی پڑتی ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ چھوٹا افسر بڑے افسر کے لۓ قربانی پیش کرتا ہے اس کو بہت سے ایسے کام جن کو اس کا دل گوارہ نہیں کرتا اپنے سے بڑے افسر کی خاطر کرنے پڑتے ہیں اسی طرح آپ دیکھۓ جانوروں میں بہت سے ایسے ہیں جو صرف گوشت ہی کھاتے ہیں اور اس کے لۓ وہ روزانہ کوئ شکار کرتے ہیں جیسے شیر وچیتا وغیرہ اسی طری بہت سے پرندے شکار کرتے ہیں اور وہ چھوٹے چھوٹے جانوروں کو کھاجاتے ہیں ، سمندر میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کا اور مگر مچھ مچھلیوں اور دیگر سمندری جانوروں کا یہاں تک کہ مکڈی مکھی کا اور چھپکلی مچھروں کا شکار کرتی ہے ( دیکھۓ احکام اسلام عقل کی نظر میں : از مولانا اشرف علی تھانوی رح ) میں اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں ہر ایک چیز دوسرے کے لۓ کسی نہ کسی انداز میں قربانی پیش کر رہی ہے اب جو مخلوق اشرف المخلوقات ہو اور اس کی راحت وآسانی کے لۓ دنیا کی ساری چیزیں ہوں اس کے لۓ اگر کچھ جانوروں کی قربانی ہوجاۓ

Читать полностью…

علم و کتاب

اس وقت وہ دار العلوم دیوبند میں کافیہ، دروس البلاغہ، ترجمۂ قرآن: (از ابتدا تا سورۂ ھود) اور الفوز الکبیر و حسامی (درجۂ عربی ششم) کے اسباق کی تدریس پر مامور ہیں۔ ماضی میں شرح وقایہ؛ مقاماتِ حریری اور میبذی سمیت متعدد دیگر کتب کی تدریس بھی آپ کے ذمے رہی ہے۔

شرح کافیہ ”دورس الکافیہ“ کے علاوہ بھی ان کی کئی تصانیف ہیں: (1) تحفہ خاصیاتِ ابواب مع تمرین (تاؤلی کے زمانۂ تدریس کی تالیف)، (2) مفتاح النحو مع تمرین (”نحوِ میر“ کی اردو ترجمانی)، (3) ”تفسیرِ نصوص کے اصول و مناہج“ (جامعہ دمشق کے موقر استاذِ تفسیر و حدیث شیخ محمد ادیب صالح [1926–2017ء] کی تصنیف ”تفسیر النصوص“ کے مقدمہ کا بحکم مولانا نعمت اللہ صاحب عربی سے اردو ترجمہ)۔ اسی طرح انھوں نے حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی کی تصنیف ”غاية الوصول إلى ما في الهداية من الضوابط والمصطلحات“ کی ترتیب کا کام بھی کیا ہے۔

یہ شرح بلاشبہ کافیہ کی شروحات میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے، امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت مزید نمایاں ہوگی، ان شاء اللہ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مجنون گورکھپوری (وفات) 1988-06-04
انٹرویو
لنک اردو آڈیو ڈات کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=interview-010iwee2n6vjbyawy9gdr6ulokrmcv860d, Interview 01

Читать полностью…

علم و کتاب

یہ کتاب شاعر و افسانہ نگار احمد ہمیش نے شائع کی تھی اور ایک نسخہ مجھے بھی عنایت کیا تھا۔ ایک روز مشفق خواجہ صاحب نے جو بہ منزلہ میرے بزرگ دوست اور کرم فرما کے تھے، مجھے فون کرکے پوچھا کہ کیا سارہ شگفتہ کی کتاب آپ کے پاس ہوگی؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’بھئی ہندوستان سے افسانے کے نقاد وارث علوی نے مجھ سے اس کتاب کی فرمائش کی ہے، تو آپ یہ کتاب مجھے دے دیں۔ باوجود تلاش کے یہ کتاب دستیاب نہیں ہے‘‘۔ میں کتاب دینے کے معاملے میں بڑا بخیل واقع ہوا ہوں اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بہ قول کوئی کتاب مانگ کر لے جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کلیجہ نوچ کر لے جارہا ہے ۔ لیکن میں نے سارہ شگفتہ کی یہ کتاب بغیر کسی ردوقدح کے اٹھائی اور انہیں پہنچادی۔ وجہ اس کے سوا اور کیا تھی کہ اس کتاب کی کوئی قدر و قیمت میرے دل میں تھی ہی نہیں۔ اس لیے نہیں تھی کہ شاعری میرے نزدیک ایک فن ہے جو صرف زندگی کا تجربہ نہیں، اس فن پر عبورکا تقاضاریاضت و محنت ہے۔ زبان پر گرفت، خود صنف پر عبور اور مطالعے کے بغیر اگر کوئی شاعر یا اچھا شاعر بن سکتا تو لالوکھیت اور لانڈھی کورنگی کے مضافاتی سارے شاعر جو خود کو میر و مرزا غالب سے غزل میں کچھ کم نہیں گردانتے، واقعتاً شاعر ہی ہوتے اور مشاعروں میں پڑھنے کے لیے تقدیم و تاخیر کے مسئلے پر باہم دست و گریباں ہونے کے لیے کمربستہ نہ ہوجاتے۔ جب نثری نظم کی ہوا چلی تو یہ ہوا ایسی سہانی تھی کہ شہر کے ایسے نوجوان بھی جنھوں نے کسی ایک کلاسیکی یا جدید شاعر کو ڈھنگ سے پڑھا تک نہ تھا، خم ٹھونک کر شاعری کے میدان میں اتر آئے۔ نثری نظم چونکہ ویسے بھی وزن، بحر اور عروض کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے اس لیے کسی بھی نوآموز کے لیے اس صنف میں چار چھے لائنیں گھسیٹ دینا کون سی بڑی بات ہے، خصوصاً جب قمر جمیل مرحوم جیسا حوصلہ افزائی کرنے اور نثری نظم نگار کو بڑھاوا دینے والا نقاد بھی موجود ہو۔ اب قمر بھائی کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ ان کا ذہن اور ان کی پسند سطح آب کی طرح تھی جس پر لہریں بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے شگفتہ کی نثری نظموں کو بانس پہ چڑھایا، لیکن ایک عرصے بعد جب ان کا دوسرا انٹرویو کرنے گیا تو سارہ شگفتہ مرحومہ کی شاعری یا نثری نظمیں ان کی نظروں میں حقیر ہوچکی تھیں اور اب کے انہوں نے عذرا عباس کی نظم ’’نیند کی مسافتیں‘‘ کے گن گانے شروع کردیے۔ افسوس کہ قضا نے مہلت نہ دی ورنہ مجھے یقین ہے کہ قمر بھائی زندہ ہوتے تو اپنی اس رائے پر بھی نظرثانی کرلیتے اور کوئی تیسرا شاعر ان کی مبالغہ آمیز تعریف کا مستحق ٹھیرتا۔
بات دور نکل گئی، ذکر تھا سارہ شگفتہ کا۔ تو جب ان کے شاعر میاں کو اس حقیقت کا علم ہوا کہ ان کے دوست اور ان کی اہلیہ کے معاملات اب زبان زدِ خاص و عام ہوتے جاتے ہیں تو انہوں نے علیحدگی میں ہی عافیت جانی۔ شاعرہ بیوی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ یوں یہ علیحدگی عمل میں آئی، اور پھر اگلے مرحلے میں ان خاتون نے اپنے پہلے شوہر کے ان ہی دوست سے بیاہ رچالیا۔ لیکن یہ شادی بھی زیادہ عرصہ نہ چلی اور وہاں سے بھی طلاق نامہ لے کر ادبی محفلوں میں لوٹ آئیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، جو کچھ دوسروں پر یا جو کچھ ان خاتون پر بیتی اس کے واقعات خود ان شاعروں اور ادیبوں کی زبانی میں نے سنے جن کے ان خاتون سے ’’مراسم‘‘ رہے۔ لیکن مجھے ان کی تفصیلات بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہاں اتنا دہرا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ادبی دنیا میں اپنا اعتبار اور ساکھ بحال کرنے یا بنانے کے لیے انہوں نے مذکورہ دونوں شاعر شوہروں کی بابت جھوٹی اور بے بنیاد کہانیاں پھیلانی شروع کیں۔ ان کہانیوں میں وہ خود نہایت مظلوم، بے گناہ اور بے قصور تھیں کیونکہ عورت تھیں، اور عورت کے بارے میں یہ اعتبار کرانا بہت آسان ہوتا ہے کہ جو کچھ ہوا اس پر ظلم ہی ہوا، اور مرد اگر مظلوم بھی ہو تو اس کا یقین دلانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کہ اس پر بھی کوئی عورت ظلم کرسکتی ہے، اور وہ بھی سہہ کر خاموش رہنے اور برداشت کرنے کی تاب و طاقت رکھتا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سارہ شگفتہ – ایک افسانہ ایک حقیقت
تحریر : ڈاکٹر طاہر مسعود
پچھلے دنوں میرے ایک دوست نے فیس بُک پر پڑھا جانے والا ایک اقتباس غالباً کسی مضمون کا، مجھے ای میل کیا اور اس واقعے کی تصدیق چاہی جس کاذکر اقتباس میں کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اردو دنیا کی ایک شاعرہ سارہ شگفتہ کی بابت تھا جس میں ان کی پہلی شادی کے بعد ان کے شوہر جو خود بھی شاعر تھے، کی شاعرہ کے ساتھ کی جانے والی مفروضہ زیادتیوں کی تفصیل نہایت دردمندانہ انداز میں بیان کی گئی تھی۔ میں نے اپنے دوست کو جواب دیا کہ بھائی میں اس سارے واقعے بلکہ واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ خاتون جو اسی پہلی شادی کے بعد ان ہی شاعر صاحب کی صحبت میں رہ کر شاعرہ بنیں، چونکہ ان کا چال چلن مشکوک تھا، شادی کے چند سال بعد جب یہ معاملہ کھلا تو شاعر صاحب جو نہایت شریف، پاک دامن اور اپنے علم کے حوالے سے ادبی حلقوں میں دانش ور بھی تسلیم کیے جاچکے تھے، انہوں نے خاموشی سے انہیں طلاق دے دی۔ جس کے بعد ان شاعرہ نے اپنے شوہر کے قریبی دوست سے جن سے ان کے معاملات تھے، بیاہ رچالیا۔ وہ شادی بھی نہ چل سکی۔ وہاں سے بھی انہیں طلاق ہوئی، جس کے بعد انہوں نے ادبی حلقوں میں اپنی ساکھ اور اعتبار کی بحالی کے لیے اپنی مظلومیت کی گھڑی ہوئی داستان اِدھر اُدھر بیان کرنا شروع کردی ۔ چونکہ ہمارا قومی مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی جھوٹے سچے واقعے کو سن کر ہم اس کی تصدیق یا تردید کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ جو سنتے ہیں آنکھیں بند کرکے اس پر یقین کرلیتے ہیں، اور صرف یقین ہی نہیں کرتے، دوسروں کو سناکر اس کا نہایت خشوع و خضوع سے یقین بھی اس طرح دلادیتے ہیں جیسے یہ سنی سنائی بات نہیں، آنکھوں دیکھا حال ہے۔ اور یوں یہ سلسلہ قصے کہانی کا آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پھر اسے کوئی اپنے ناول کا، کوئی قسط وار کہانی کا موضوع بنالیتا ہے۔ کسی ڈرامہ نگار کو اس کی بھنک پڑتی ہے تو وہ اسے اپنی ڈرامہ سیریل میں ’’ڈرامہ‘‘ بناکر پیش کردیتا ہے۔ چونکہ واقعے میں عورت کی مظلومیت کا بیان ہوتا ہے تو اسے سچا ماننے میں کسی کو عار بھی نہیں ہوتا۔ تو سارہ شگفتہ مرحومہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ اس سارے واقعے کو ایک افسانہ سمجھیں اور اس افسانے کو حقیقت سمجھنے سے گریز ہی کریں تو بہتر ہے۔
ہمارے ان نیک دل دوست نے میرا جواب پڑھ کر نہایت راست گفتاری سے لکھا کہ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی ہے تو پھر ایک قلم کار کے طور پر آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان حقائق کو قلم بند کریں۔ ایک جھوٹ جس کا سرا جاکر بہتان طرازی اور کردار کشی سے ملتا ہو، اس کو نظرانداز کرنا کسی طرح مناسب نہیں، دینی اعتبار سے اور نہ دنیاوی لحاظ سے۔ ان کے اس جواب پر کوئی اور جواب بن نہ پڑا تو میں نے فوری طور پر یہ لکھ دیا کہ بھائی! پورے معاشرے اور خصوصاً ہماری ادیب برادری کا حال ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ کچھ بھی بولتے لکھتے ہوئے انہیں یہ خوف تو ہوتا نہیں کہ اس کی کہیں جواب دہی بھی ہونی ہے، اس لیے وہ جو جی میں آتا ہے لکھتے رہتے ہیں۔ کوئی کہاں تک اس کی وضاحتیں کرتا پھرے! دنیا میں کرنے کے لیے کیا اور کوئی معقول کام نہیں ہے؟ جواب دینے کو تو میں نے دے دیا لیکن ضمیر کی خلش پھر بھی اندر باقی رہی۔ سوچتا رہا کہ اگر اس سارے معاملے میں جو جھوٹ، بہتان طرازی اور کردارکشی کے دائرے میں آتا ہے، حقائق و واقعات سے باخبر رہنے اور ان کی اصلیت جاننے کے باوجود اگر میں خاموشی اختیار کرلوں تو ایک لکھنے والے کی حیثیت سے پھر میرے قلم اور میرے ضمیر کی کیا اور کون سی ضرورت باقی رہتی ہے جو وقت پر حق بات کو لکھ نہ سکے اور ایک بے قصور اور واقعی ’’مظلوم‘‘ کے لیے گواہی نہ دے سکے۔ ۔ ۔ اور مظلوم بھی ایسا جس نے کبھی ان بے بنیاد، گھڑے اور پھیلائے ہوئے جھوٹے سچے افسانوں کی وضاحت کی ضرورت ہی نہ سمجھی ہو اور اس کو لوگوں کے ضمیر اور خدا کے حوالے کررکھا ہو۔ اس خیال کے آتے ہی چاروناچار میں مجبور ہوا کہ حقیقتِ حال کھول کر بیان کردوں کہ حق کی گواہی سے بڑھ کر کسی صاحبِ قلم کی کوئی اور ذمہ داری نہیں۔ اور اسی ذمہ داری کے احساس اور شعور نے مجھے ہمت دلائی ہے کہ سچائی سے نہایت صحت کے ساتھ ان واقعات کو بلاکم وکاست بیان کردوں تاکہ وہ سارے قصے کہانیاں جو افسانے، ناول، ڈرامے اور سوانح کا موضوع بنے ہیں، ان کی حقیقت دن کی روشنی میں سامنے آجائے۔ مجھے نہ کسی کی کردارکشی کرنی ہے اور نہ کسی کے شاعرانہ مرتبے یا ذاتی معاملات ہی سے کوئی غرض ہے، اس لیے ان سب سے بچتے ہوئے صرف اتنا ہی لکھوں گا جس کا میں چشم دید گواہ اور عینی شاہد ہوں۔ جن واقعات کا مجھے صرف علم ہے اور جو کچھ اِدھر اُدھر سے اڑتی اڑاتی باتیں میں نے ان شاعرہ صاحبہ کی بابت سنی ہیں اور جن کی میں خود تصدیق نہ کرسکا یا اس کی ضرورت محسوس نہ کی، ان کو ہرگز بیان نہ کروں گا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے وقت کی صورتحال

مولانا ابوالکلام آزاد علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

حضرت مسیح علیہ السلام کا ظہور، ایک ایسے عہد میں ہوا تھا، جب کہ یہودیوں کا اخلاقی تنزل، انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا اور دل کی نیکی اور اخلاق کی پاکیزگی کی جگہ محض ظاہری احکام و رسوم کی پرستش، دینداری و خدا پرستی سمجھی جاتی تھی۔ یہودیوں کے علاوہ جس قدر متمدن قومیں قرب و جوار میں موجود تھیں، مثلاً: رومی، مصری، آشوری وہ بھی انسانی رحم و محبت کی روح سے یکسر ناآشنا تھیں، لوگوں نے یہ بات تو معلوم کرلی تھی کہ مجرموں کو سزائیں دینی چاہییں۔ لیکن اس حقیقت سے بے بہرہ تھے کہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی چارہ سازیوں سے جرموں اور گناہوں کی پیدائش روک دینی چاہیے، انسانی قتل و ہلاکت کا تماشا دیکھنا، طرح طرح کے ہولناک طریقوں سے مجرموں کو ہلاک کرنا، زندہ انسانوں کو درندوں کے سامنے ڈال دینا، آباد شہروں کو بِلاوجہ جلاکر خاکستر کردینا، اپنی قوم کے علاوہ تمام انسانوں کو غلام سمجھنا اور غلام بناکر رکھنا، رحم و محبت اور حلم و شفقت کی جگہ قلبی قساوت و بے رحمی پر فخر کرنا، رومی تمدن کا اخلاق اور مصری اور آشوری دیوتاؤں کا پسندیدہ طریقہ تھا۔ ضرورت تھی کہ نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے ایک ایسی ہستی مبعوث ہو، جو سر تا سر، رحمت و محبت کا پیام ہو اور جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے قطع نظر کرکے صرف اس کی قلبی و معنوی حالت کی اصلاح و تزکیہ پر اپنی تمام پیغمبرانہ ہمت مبذول کردے، چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کی شخصیت میں وہ ہستی نمودار ہوگئی، اس نے جسم کی جگہ روح پر، زبان کی جگہ دل پر اور ظاہر کی جگہ باطن پر نوعِ انسانی کو توجہ دلائی اور انسانیتِ اعلیٰ کا فراموش شده سبق، تازہ کردیا۔

ترجمان القرآن/جلد: ۱/صفحہ: ۱۰۵/١٠٦/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

میں احرام کا کوئی سوال نہ تھا۔
مگر قریب کے رفقاء کے لئے ہم لوگ موضوع بحث بن گئے، اور بحث نے نوعیت یہ اختیار کی کہ حج سے پہلے مدینہ جانا جائز بھی ہے یا نہیں ؟بحث و مباحثہ کے لئے طبیعت مطلقا تیار نہ تھی، انتہائی عاجزی کے ساتھ ان صاحبوں کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ مجبور کرنا تو درکنار ہم میں سے کوئی آپ لوگوں کو پہلے مدینہ منورہ چلنے کا مشورہ بھی نہیں دیتا ہے ، لہذا آپ کا بگڑنا تو بالکل بے محل ہے، باقی رہا دینی اخوت کی بناء پر آپ کو مشورہ کا حق ضرور حاصل ہے، تو اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ مستند کتابوں سے ہم اپنا اطمینان کرچکے ہیں لہذا اس سلسلہ میں بھی آپ پریشان ہوں۔

حج و زیارت سے متعلق تمام کتابوں میں یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ اگر حاجی مدینہ کے راستے سے آرہا ہے تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے زیارت نبی کریم صلی الہ علیہ سلم کی سعادت حاصل کر لے تب حج کے لئے آئے، اور اگر راستے میں مدینہ نہیں پڑتا ہے اور حج نفل کا ہے تو اختیار ہے کہ چاہے پہلے جو کرے یا پہلے مدینہ حاضری دے ۔

البتہ اگر حج فرض ہے تو اس کے متعلق فقہاءلکھتے ہیں کہ: بہتر یہ ہے کہ پہلے حج کرلے تب مدینہ طیبہ حاضر ہو۔ واضح رہے کہ معاملہ جواز اور عدم جواز کا نہیں، افضل اور غیر افضل کا ہے ۔ اور اس میں بھی تفصیل یہ ہے کہ اگر وقت میں اتنی گنجائش ہے کہ بہ آسانی حج کے وقت تک مدینہ سے لوٹ سکتا ہے تو یہ افضلیت اور غیر افضلیت کا معاملہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو، ابن حجرہیثمیؒ کی ''الجوھر المنظم''۔
_____
پنجشنبہ 16 ستمبر مطابق 12 ذیقعدہ کو صبح ہی سے جہاز میں دھوم مچی تھی کہ آج ہندوستانی گھڑیوں کے حساب سے دن کے دو بجے تک جدہ پہونچ جانے کی تو قع ہے۔ وہ دیکھئے جبہ بر دوش عرب ایک موٹر لانچ سے آیا اور لکڑی کے بالکل کھڑے زینہ پر جو رسی کے ذریعہ لٹکا دیا گیا ہے کھٹ کھٹ جہاز کے اوپر آگیا، اور انگریز کپتان نے جہاز اس کے سپرد کر دیا۔ حجاج قطار در قطار جہاز کے عرشہ پر کھڑے جدہ کی سمت نظر جمائے ہیں، جن کے پاس دور بین ہے وہ دور بین لگائے ہیں۔ جہاز کا عملہ اس وقت بہت مشغول ہے، مختلف رنگ کے جھنڈے ڈوری کے ذریعہ سب سے بلند مقام پر لگائے جا رہے ہیں۔

حجاج کا سامان کشتیوں پر اتارنے کے لئے مشین ٹھیک کی جا رہی ہے، وہ لیجئے لوگ ہاتھ کے اشارے سے ایک دوسرے کو کچھ دکھا رہے ہیں،کوئی کہتا ہے کہ: کبوتروں کے کابک جیسی کوئی چیز معلوم ہورہی ہے، کوئی کہتا ہے کہ: جی نہیں! اونٹ قطار در قطار کھڑے ہیں، لیجیے! جہاز جدہ کے قریب پہونچ گیا،جنہیں کبوتروں کا کابک اور اونٹوں کی قطار سمجھا گیا تھا وہ تو بڑی لق دق عمارتیں نکلیں! یقین کیجئے آج اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا کہاں ہم اور کہاں عرب کی سرزمین!

ذوق و شوق کہتا تھا کہ پورے جدہ کو اپنی نگاہوں میں رکھ لیجئے۔ جہاز لنگر انداز ہوا، اور کشتیوں نے جہاز کا محاصرہ کر لیا۔ عرب ملاحوں سے اور مسافروں سے گفتگو شروع ہوگئی، کیسا دلچسپ منظر تھا۔ لیکن ان ملاحوں کی بات کون سمجھے ۔

؏ زبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم

ہم ہندوستان کے عربی پڑھے لکھے لوگوں کی عربی دانی کی قلعی کھلنا شروع ہو گئی، مگر خدا کا شکر تھا کہ نؔدوہ کے طرز تعلیم نے اپنی تو آبرو رکھ لی، ایک موٹر لانچ ہم تیرہ چودہ آدمیوں کیلئے طے پا گیا ۔ بدوی ملاح نے پوچھا کہ ''مضبوط " یعنی بات اب پکی ہو گئی، ادھر سے اثبات میں جواب دیا گیا تو اُس نے اپنا رومال ہمارے پاس پھینک دیا، گویا یہ قول و قرار کے پختہ ہو جانے کی نشانی تھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے ملاح اور ان کے آدمی جہاز پر آگئے،گو ان کی بولی زیادہ سمجھ میں نہیں آتی تھی،تاہم ان کو دیکھ کر اوران کی بات سن سن کر جی خوش ہوتا تھا۔

ہمارا سامان شرط کے بموجب کشتی والوں نے خود اتارا، بالا کپی سے ایک چیز بھی ہم نے نہیں جانے دی ، گو اس وقت یہ سودا دوسروں کے مقابلہ میں ہم کو نسبتا گراں پڑا تھا، لیکن بعد کو معلوم ہوا کہ نہیں ہم ہی بڑے نفع میں تھے، جن لوگوں کا سامان بالا کپی سے گیا ان میں سے بعض کو زیادہ اور اکثر کوکچھ نہ کچھ نقصان اٹھانا ہی پڑا۔

موٹر لانچ نے جدہ کی آبادی کا رخ کیا۔ اب دم بدم اور لحظہ بہ لحظہ ہم شہر سے قریب ہوتے جاتے تھے۔ یہ لیجیے کشتیوں کا پلیٹ فارم آگیا،بسم اللہ کہہ کر سر زمین حجاز پر قدم رکھے، دل آج کاتب تقدیر کے سامنے بے حد شرمندہ ہے، نہیں معلوم تھا کہ قسام ازل نے آج کا مبارک دن بھی رکھا تھا،ورنہ اپنی تقدیر سے بد گمانی کا جرم کبھی بھی سرزد نہ ہوتا ۔

کشتی سے اُترے منٹوں میں بندرگاہ جدہ کے قانونی مراحل طے ہوئے، اور اب ہم شہر جدہ کی سب سے بڑی اور سب سے عمدہ سڑک پر کھڑے تھے۔ چاروں طرف امریکن طرز کی عمدہ اور عالی شان عمارتیں، وسط میں خوشنما پارک زیر تعمیر ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

کیوں کر عینک کو نہ آنکھوں سے لگاؤں اے یار
چار آنکھیں ہوئیں تجھ قوتِ بینائی سے

’عینک‘ میں جو’ عین‘ ہے اُس کا مطلب آنکھ ہے۔ ذوقؔ کے شعر سے آپ کے علم میں کم از کم اتنا اضافہ تو ہوچکا ہوگا کہ عینک آنکھوں ہی سے لگائی جاتی ہے۔ جب کہ بعض لوگ اسے سربھی چڑھا لیتے ہیں۔ چشمِ سر ہی کو ’عین‘ کہتے ہیں اور پلک جھپکنے کو ’طرفۃ العین‘۔ نظرِ بد بھی ’عین‘ ہوتی ہے کہ جو اچھی چیز کو بُری نظرسے دیکھنے پر لگ جاتی ہے۔ جو شے آنکھوں دیکھی ہو وہ ’عینی‘ ہوتی ہے۔ ہماری عدالتوں میںکبھی پیشہ ور اور کبھی حقیقی نوعیت کے ’عینی شاہدین‘ پیش کیے جاتے ہیں، جو عدالت میں حاضر ہوکر ’عینی شہادت‘ پیش کرتے ہیں۔ جب کسی چیز کو آنکھ سے دیکھنے کے بعد ہی یقین آئے تو ایسے یقین کو ’عین الیقین‘ کہا جاتا ہے۔ ذوقؔ کا یقین بھی کچھ ایسا ہی ہوگا، عین ممکن ہے:

نہ چھوڑے گی جیتا مجھے چشمِ قاتل
یقیں ہے، یقیں، بلکہ عین الیقیں ہے

قرۃ العین اور نورالعین میں بھی ’عین‘ کا مطلب آنکھ ہے۔ قرۃالعین آنکھ کی ٹھنڈک۔ نورالعین آنکھ کا نور، جسے نورچشم بھی کہتے ہیں۔

اب آئیے ’عین‘ کے کچھ مزید معنوں کی طرف۔ ہر چیز کی ذات، حقیقت یا جوہر کو ’عین‘ کہا جاتا ہے۔ اس مفہوم میں ’عین‘ اُردو میں بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’عین نوازش ہوگی‘‘… ’’عین فجر کے وقت دھماکا ہوا‘‘… ’’عین احسان ہوگا اگر آپ عید سے قبل میری رقم ادا کردیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اخترؔ (شاہِ اودھ) کا شعر ہے:

جس امر میں ہو خوشی تمھاری
میری بھی وہی ہے عین مرضی

’عین وقت‘ یا ’عین فجر کے وقت‘ جیسے جملوں میں ’عین‘ کا مطلب بالکل ٹھیک وقت، بروقت اور معین وقت لیا جائے گا۔

دو چیزیں یا دو افراد بالکل مشابہ ہوں تو انھیں ’عین غین‘ کہتے ہیں، یعنی دونوں میں کوئی فرق نہیں، بس نقطے برابر فرق ہوگا۔ ہوبہو کے معنوں میں ’عین مین‘ بھی بولتے ہیں، جیسے: ’’یہ تو عین مین ویسا ہی بکرا ہے جیسا ہم پچھلی عید پر لائے تھے‘‘۔

ایسے بکرے کے لیے آپ ’عین مین‘ کی جگہ ’بعینہٖ‘ یا ’عین غین‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہہ کر دیکھ لیجے کہ بِدک کر سینگ تو نہیں مارتا۔

کل عید ہے، سو، اس کالم کے تمام قارئین کو’ع‘ سے عید الاضحی مبارک ہو۔ اگریہ کالم عین عید کے روز شائع ہوتا توکیاخوب ہوتا۔
فرائیڈے اسپیشل
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

بہر حال خدا کو منظور یہی تھا، البتہ اب کے جدہ میں بڑا دلچسپ اجتماع ہوگیا تھا ہم لوگوں کا قیام اسی قدیم مکان میں تھا جس میں پہلی مرتبہ آکر ٹھہرے تھے، ہمارے مکان سے ملے ہوئے مکان میں جناب شیخ فیاض علی صاحب ( رئیس رحیم آباد لکھنو) مع اپنے قافلہ کے مقیم تھے۔ انڈین یونین کے سفارت خانہ میں مخدومی خان بہادر سید اصغر حسین کا مع اپنے قافلہ کے قیام تھا۔ جناب وکیل احمد صاحب اور اعظم گڑھ کے دوسرے احباب حجاج منزل میں قیام فرما تھے۔ اکثر اوقات ہم لوگ جمع ہوتے اور نہایت دلچسپی رہتی ۔

اگر آپ اُمیدوں سے پُر اور توقعات سے لبریز ہیں، تو غالبًا اس موقع پر میری تلخ نوائی آپ کو ناگوار گزرے، مگر یہ حقیقت میں کس طرح چھپاؤں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی افکار اس وقت دنیائے اسلام کی اکثریت پر چھا رہے ہیں، آخرت کا اہتمام کمتر، نمازیں بے وقار، وضع قطع رہن سہن، اور چہرہ چہرہ سے اسلامیت کے آثار مفقود، دینی علوم کی طرف سے بے توجہی، سیاسی اعتبار سے غیروں کے دست نگر! جدہ سے جس وقت ہم مدینہ منورہ جانے لگے تو خط بنوانے کی غرض سے ایک مرصع دُکان گئے، یہ حضرت ہمارے سر ہوگئے کہ انگریزی فیشن کے بال ترشوائیے، انھوں نے مجھ کو نصیحت کی اور فرمایا کہ ایمان، دل میں ہے ظاہر سے کیا ہوتا ہے ۔ میں نے اس نصیحت پذیری سے تو انکار کر دیا مگر دل پر چوٹ لگی کہ خداوندا! سرزمین حجاز میں یہ آواز ؟ اس قسم کے تجربے اہل مصر کے متعلق زائد ہوئے۔
بے شبہ اس "بحر ظلمات " میں کچھ " نورانی موجیں" بھی اٹھتی نظر آئیں ۔ مصریوں میں شؔیخ حسن بنا مرحوم کی جماعت کے لوگوں میں خاص دینی ولولہ اور ایمانی جوش نظر آیا ، خود شیخ حسن بنا بھی اس سال حج میں آئے تھے؛ مگر افسوس کہ ان سے میری ملاقات نہ ہو سکی اور اب تو وہ اپنے کسی دشمن کے ہاتھ خدا کے دار رحمت میں پہونچ چکے ) ۔

حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ کی تبلیغی جماعت اپنے مخصوص دینی رنگ کی بناء پر سب میں ممتاز نظر آئی، اور یہ حقیقت بار بار واضح ہوئی کہ امور تقدیری سے تو چارہ نہیں، ورنہ صحیح تر اور مفید تر طریق کار یہی ہے۔

ﷲ تعالی ہم سب کو خیر کی توفیق دیں خاتمہ بالخیر فرمائیں! اسلام اور مسلمانوں کو فروغ نصیب ہو!۔

وﷲ المستعان وعلیہ التکلان


( ماہنامہ الفرقان 1369ھ حج نمبر)

✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Читать полностью…

علم و کتاب

ہمیں جب نہ پھیلائیں دامن ملے كیا؟
اُدھر سے تو ہردم گہرباریاں ہیں
لیجئے ‏، غلغلہ مباركبادبلند ہوا ‏، باہر ایك دوسرے سے كہ رہے ہیں ‏: ‘‘ حج مبارك‏، حج مبارك’’ اتنے میں معلوم ہوا كہ ہمارے معلم مولانا عبدالہادی سكندر عرفات كی دعائیں پڑھانے آرہے ہیں ‏، ان كے تمام حاجی خیموں ‏، ڈیروں سے نكل كر كھلے میں آگئے اور معلم صاحب نے بڑے پر اثر انداز میں دعائیں بلند آواز سے پڑھنا شروع كیںِ اور ہم سب نے دہرانا ‏، ان پر بھی رقت كی كیفیت طاری ہوگئی تھی اور دہرانے والوں میں بہتوں كا حال ویسا ہی تھا ‏، چلئے ! وقوفِ جبلِ رحمت كی كوتاہی كی تلافی ہمارے معلم كی پر اثر دعا سے پیدا ہونے والے خشوع و خصوع سے كسی نہ كسی حد تك ہوگئی مگر شرعاً یہ كوتاہی نہیں ہے ‏، علماء نے تو لكھ دیا ہے كہ میدانِ عرفات میں كہیں بھی قیام ہو وہ وقوف ہے ‏، ہم حصولِ سعادت كے لحاظ سے كوتاہی كہنے پر مجبور ہوئے ۔
گرمی تو سخت تھی ہی ‏، پانی كا قحط ہمارے لیے تھا ‏، یعنی ہمارے ایسے لوگ اس جگہ سے پانی نہیں لاسكتے تھے جہاں حاجیوں كے لیے سینكڑوں نل لگے ہوئے تھے اور وافر پانی حاصل كیا جاسكتا تھا ‏، اس جگہ ایسی بھیڑ مستقل رہتی تھی كہ اسی میں عافیت نظر آئی كہ پانی خرید لیاجائے ‏، ایك كنسٹر پانی پانچ ریال میں بك رہا تھا ‏، لوگ خرید رہے تھے ؛لیكن اكثریت اس خریداری كی متحمل نہیں نظر آرہی تھی اور شدت پیاس سے بے قراری سب كی یكساں اس وقت اپنا خریدا ہوا پانی جو اپنے ہی لیے ناكافی نظر آرہا تھا دوسروں كو دینا واقعی ایثار تھا‏، یہ واقعی ایثار مولانا شاہد فاخری كی روایت كے مطابق اجمیرشریف كے ایك مخدوم زادے الحاج محمد یوسف جی مہاراج نے كیا كہ پانچ ‏، پانچ ریال دے دے كر كنسٹر خریدتے جاتے تھے اور ہرطلب گار كو بےدریغ دیتے جاتے تھے ‏، برف بھی منگاكر ایك مٹكی میں ڈال دی تھی كہ جی بھر كر پیاسے سیراب ہوں۔
خود ہم نے حاجی فقرمحمد كو دیكھا كہ انہوں نے خیمے كے سامنے ٹھنڈی بوتلوں كی اور چائے كی سبیل لگاركھی تھی ‏، یہ معمول خرچ دہائیوں اور سینكڑوں كا نہیں ہزاروں كا تھا ‏، پھراجروثواب بھی بے حساب ! جو آئے بلاتكلف پیاس بجھائے ‏، ہم نے تو اس وقت حاجی صاحب كے یہاں چائے پی ‏، سرمیں ہلكا ‏، ہلكا درد ہورہا تھا اور پورے سفر میں بس وہیں یہ ہلكا سادردِسر ہوا تھا ‏، ورنہ آتے جاتے كہیں جو كوئی مرض لاحق ہوا ہو ‏، سوائے حلق كی تكلیف كے سو وہ اپنے ہاتھوں تھا ‏، سگریٹ پینے میں ہم نے كوئی كسر كب اٹھاركھی تھی ؟
مغرب كا وقت ہوگیا ‏، مگر نماز مغرب سے آج چھٹی تھی ‏، روانگی میں ڈرائیور نے جو ٹیكسی لیے كھڑا تھا تاخیر كی كہ ٹریفك كارش نكل جائے ‏، غروب كے ڈیڑھ ‏، دو گھنٹے كے بعد ہماری روانگی ہوئی ‏، ہمارے سامنے خیمے ڈیرے اُكھڑے اور منٰی كے لیے روانہ ہوگئے ۔
میدان میں چاند كی ہلكی روشنی میں اپنی روانگی كا انتظاركرتے رہے ‏، مغرب سے پہلے جبلِ رحمت كی آڑسے ابركا ایك ٹكڑا نمودار ہوا اور رحمت كا سایہ ڈالتا ہوا گزرگیا ‏، برسا نہیں ‏، البتہ ایك دن منٰی میں چند ہی منٹ زور كی بوندیں پڑیں كہ خیمہ ٹپكنے لگا تھا۔
(حج کا سفر)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

قربانی کے جامع فوائد ہیں

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ، اپنے وقیع مضمون، "قربانی کا اقتصادی پہلو" میں ایک جگہ لکھتے ہیں: جشنِ قربانی کے اظہار کے لیے کوئی ایسا طریقہ، جس میں جشن کا اظہار ہو، باہم دوستوں کی سادہ دعوت اور ہدیہ کا انتظام ہو اور پھر غریبوں اور مسکینوں اور قومی ضرورتوں کا فنڈ بھی اس سے قائم ہو، "فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ" کا مصداق بھی ہو، قربانی کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔

معارف: ذی الحجہ: ۱۳۵۵ھ-مطابق: مارچ: ۱۹۳۷ء/ص: ۱۷۵/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*•سفر حجاز کے بعض مناظر اور تاثرات•*

قسط سوم

(از: جناب مولانا محمد اویس صاحب نؔدوی نگرامی)


اسی مدینہ میں بؔقیع جیسا مدفن پاک ہے،جہاں عمومًا رات کے آخری حصہ میں حضرت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تھے اور یہاں کے لوگوں کی مغفرت کی دعا فرمایا کرتے تھے۔ ایک رات کو جبریل امینؑ نے بارگاہ نبوت (صلی اللہ علیہ وسلم) میں تشریف لاکر یہیں کے لوگوں کے متعلق عرض فرمایا تھا کہ آپ کا پروردگار فرماتا ہے کہ جاکر ان لوگوں کیلئے استغفار کیجئے۔

چلئے اس سراپا نور حصۂ زمین کی زیارت کا شرف ہم بھی حاصل کریں! مگر دیکھئے! ضبط و تحمل کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے ، ادب و احترام کا پورا لحاظ رکھئے ، یہاں انبیاء کرامؑ کے بعد بنی نوع انسانی کی سب سے مقدس اور محترم جماعت مدفون ہے۔ یہیں سیدنا عثمان ابن عفانؓ، حضرت عثمان ابن مظعونؓ، حضرت عبد الله ابن مسعودؓ ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ ، حضرت سعد بن وقاصؓ اور حضرت عباسؓ جلوہ افروز ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت خدیجہؓ اور حضرت میمونہؓ کے سوا اور دیگر ازواج مطرات ، رقیه بنت الرسولؓ، اور دیگر بنات طاہرات، فرزند رسول حضرت ابراہیمؓ ، حضرت امام حسنؓ ہیں!

مکہ مکرمہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہیں پیدا ہوئے ، یہیں کی گلیاں اور راستے جبریل امین کی گذرگاہ تھے، یہیں براق کے قدم پڑے تھے۔

آج ادب کی آنکھیں نیچی ہوئی جاتی ہیں، او عقیدت کا سر جھکا جاتا ہے۔ آج ایمان کے سمندر میں تلاطم ہے، آج محبت و عظمت کی روح رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں تڑپ رہی ہے۔ خداوندا ! یہ سیہ پوش عمارت جس کو کعبہ کہتے ہیں اس میں کیا جذب و کشش ہے کہ دلوں کو اپنی طرف کھینچ لے رہی ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان ، ادھیڑ ، عورت اور مرد، بیمار اور تندرست سب اس کے گرد دیوانہ وار چکر لگا رہے ہیں ۔ بیت اللہ کے جنوب و مشرق میں در کعبہ کے قریب دیوار کے گوشہ میں ایک سیاہ رنگ کا پتھر نصب ہے ، دیکھئے اس کی طرف لوگ کیسے لپک رہے ہیں شہر مکہ کا ذرہ ذرہ بدل گیا، کعبہ کی ایک ایک اینٹ بدل گئی ، مگر یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت نبی کریم رصلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کے مقدس لب یا مبارک ہاتھ پڑے ہیں، اور پھر تمام خلفائے راشدین صحابہ کرام ، ائمۂ اعلام، اولیاء عظام کے لبوں ، ہاتھوں نے اس کو مس کیا ہے، اور آج ہمارے گنہگار لب اور ہاتھ بھی اس کو مس کر رہے ہیں۔
یہ کون ہیں ؟ شیبی، کعبہ کھولنے آئے ہیں، اللہ اللہ آج نگاہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک زندہ معجزہ دیکھا ۔

ہجرت سے پہلے ایک دن حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کعبہ کی کنجی کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ سے مانگی ، انھوں نے انکار کر دیا، پیغمبرانہ جلال کے ساتھ ایک آواز آئی کہ عثمان ایک وقت آئے گا کہ کعبہ کی کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی، اور جس کو میں دوں گا اُس کو ملے گی بات ہوگئی، برسہا برس کے بعد مکہ فتح ہوتا ہے، عثمان بلائے جاتے ہیں، اور کعبہ کی کنجی پیغمبر خدا کے حکم سے ان کے حوالہ کی جاتی ہے، پھر حضور دریافت فرماتے ہیں عثمان کچھ یاد ہے؟ انھوں نے پورے واقعہ کا اقرار کیا۔ حضور نے ارشاد فرمایا کہ: یہ کنجی ہمیشہ عثمان بن ابی طلحہ کے خاندان میں رہے گی، اس کو تم سے ظالم کے سوا اور کوئی لے نہ سکے گا جب عثمان کا انتقال ہوا تو کنجی شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں آئی ، اسی لئے یہ لوگ شیبی کہلاتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ حکومتیں مٹ گئیں، قومیں فنا ہو گئیں، مگر شیبہ کا خاندان بحمداللہ آج تک موجود ہے، اور کعبہ کی کنجی انھیں کے خاندان میں ہے ؟ (زرقانی شرح مواہب ج - ۲ - ٤٨٩)

مولانا محمد طیب صاحب مهتمم دارالعلوم دیوبند نے مکہ معظمہ میں حرم شریف کے قریب ایک مکان میں بعد عصر ایک دن تبلیغی جماعت کے اجتماع میں وعظ فرمایا تھا، جس میں ہم سب شریک تھے اس میں ایک واقعہ شیبہ کے خاندان سے متعلق تھا۔ مناسب ہے کہ اسی سلسلہ میں آپ بھی اس واقعہ کوسن لیں۔ مولانا نے فرمایا کہ جناب مولانا رفیع الدین صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند حج کیلئے تشریف لائے تو ایک حمائل اور ایک تلوار لیکر اپنے زمانہ کے شیبی صاحب کے پاس گئے اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے بموجب آپ کے خاندان کا کوئی نہ کوئی
فرد آخر تک رہے گا، اس لئے ضروری ہے کہ ظہور مہدی کے وقت بھی آپ کے خاندان میں سے کوئی صاحب موجود ہوں حضرت مہدی کے ہمراہ جہاد کرنے والوں کا ثواب بدر کے مجاہدین کے برابر بتلایا گیا ہے، آپ میری خاطر یہ زحمت گوارا فرمائیے کہ اس حمائل اور تلوار کو اپنے پاس بطور امانت کے رکھ لیں اور نسلاً بعد نسل کیلئے وصیت کرتے جائیے کہ آپ کی نسل میں سے آپ کا جو جانشین شخص امام مہدی کا زمانہ پائے اس امانت کو میری طرف سے حضرت مہدی کی خدمت میں پیش کر دے کہ حمائل تو آپ کی تلاوت کے لئے ہے اور تلوار کسی مجاہد کو دے دی جائے کہ وہ اس سے جہاد کرے !

Читать полностью…

علم و کتاب

دارالمصنفین اور معارف رسالہ

ڈاکٹر راہی فدائی، اپنے مضمون، "حیدرآباد دکن اور اہلِ جنوب کی علمی افادہ و استفادہ کے لیے خدمات" میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

برصغیر ہند و پاک کا عظیم الشان علمی و دینی اور تصنیفی و اشاعتی ادارہ، "دارالمصنفین اعظم گڑھ" (قائم شده ۱۹۱۴ء) زائد از صدی، مسلسل فعّال و متحرک ہے، ہند اور بیرونِ ہند کے کسی اور ادارے کو اس قدر وقار و اعتبار حاصل نہیں ہوا۔ علامہ شبلی نعمانیؒ (۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء) کا قائم کردہ اور ان کے عزیز ترین شاگردِ رشید، علامہ سید سلیمان ندویؒ (۱۸۸۴ء-۱۹۵۳ء) کے خونِ جگر سے سینچا ہوا یہ چمن، گرم و سرد ہواؤں اور برق و باراں کے تھپیڑوں کے باوجود، تاحال لہلہاتا ہوا، سر سبز و شاداب اور شگفتہ و ترو تازہ ہے۔ دارالمصنفین سے بلا ناغہ تسلسل کے ساتھ شائع ہونے والا علمی و تحقیقی ماہنامہ، "معارف" اپنے بلند معیار اور مستند قلم کاروں کی کاوشوں کی وجہ سے علمی دنیا میں خوب متعارف ہے۔

معارف: جون ۲۰۲۵ء/صفحہ: ۲۹/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اسکی شہرت ہوگئی ۔یہ مسجد منزل ذو الحلیفہ سے ذرا فاصلہ پر ہے اور عام حجاج وہاں نہیں پہونچتے ہیں، یہ اب بالکل شکستہ محض پتھروں کا ڈھیر ہے، معلوم ہوا کہ ابھی قریبی زمانہ میں کوئی سیلاب آیا تھا جس میں مسجد کی عمارت گرگئی، اور اب تک بننے کی نوبت نہیں آئی ۔

الحمد للہ کہ ہمارے پورے قافلے نے اس پُرانوار جگہ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کیا۔ یہاں سے مدینہ منورہ بالکل قریب ہے، آن کی آن میں موٹر پہونچنے والا ہے۔ اس وقت سارا ذوق و شوق گم ، اور الفت و محبت کے سب دعوے بھولے ہوئے ہیں، صرف کسی کا جلال یا جمال ہے جس کی نگرانی میں قافلۂ دل آگے بڑھ رہا ہے ۔

سبحان اللہ! وہ مدینہ کے آثار نظر آنے لگے، لیجئے باب عنبریہ آگیا، موٹر ڈرائیور با وجود ہر طرح کی خاطر و مدارات کے اپنے مقررہ ٹھکانے سے پہلے ہم کو اتارنے کے لیے تیار نہ ہوا، تھوڑی دیر میں ہمارا موٹر مدینہ منورہ (صلی اللہ علی صاحبہا) کے ایک بڑے بازار میں کھڑا تھا۔ یہاں ''شیخ المزورین'' بہاء الدین خؔاشقجی کے وکیل عثمان صاحب سے ملے،عصر کا وقت ذو الحلیفہ میں آچکا تھا، مگر خیال تھا کہ مدینہ منورہ پہونچ کر مسجد نبوی ( صلی اللہ علی صاحبہا) میں نماز عصر ادا کریں گے، اب پورا قافلہ منتظر ہے کہ موٹر یہاں سے چلے اور ہم کو حسب قاعدہ ہمارے ٹھکانے پر پہونچائے؛ مگر ڈرائیور صاحب لاپتہ ہوگئے۔ عثمان صاحب نے مشورہ دیا کہ سامنے مسجد سیدنا عمرؓ ہے اسی میں عصر پڑھئے! مگر بقول خواجہ صاحب کے :

؎ جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے

تو مجہکو بھری بزم میں تنہا نظر آیا!


اب آج تو اسی مسجد میں نماز پڑھنے کا جی چاہتا ہے جس کو ذات نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے شریف انتساب حاصل ہے، اور جس کے ایک گوشہ میں وہ ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) آج بھی جلوہ افروز ہے۔ مجبورا پورے قافلہ اور موٹر کو چھوڑ کر راقم سطور اور ہمارے رفیق نسیم صاحب نگرامی مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف چل پڑے ۔
چل تو پڑے مگر راستہ نہیں معلوم ! اور لطف پر لطف یہ کہ نہیں معلوم کیوں ہمت نہیں پڑتی ہے کہ مسجد نبویؐ کا نام لے کر کسی سے راستہ معلوم کریں، دو ایک صاحبوں سے مدرسہ علوم شرعیہ ( جو مسجد نبوی سے بالکل ملا ہوا ہے) کا پتہ ضرور دریافت کیا، اس کے بعد تو قدم خود بخود اٹھتے ہی گئے،جیسے کوئی مقناطیسی قوت اپنی طرف کھینچے لئے جا رہی تھی۔ لیجئے ، وہ گنبد خضراء نظر آیا، اور وہ سامنے باب السلام - اللهم صل وسلم على سيدنا و مولانا محمد و على آل محمد بعدد كل شیئ معلوم لك -

اردو تو خیر،عربی اور فارسی کی تمام مستند کتابیں جو زیارت مدینہ کے آداب کے متعلق مل سکیں ان سب کو آج ہی کے دن کے لئے پڑھ ڈالا تھا، مگر نہیں معلوم تھا کہ ہوش و حواس اس خاص موقع پر ساتھ چھوڑ دیں گے، اور دل و دماغ آج صاف جواب دے دیں گے ۔
اب تو قدم بھی نہیں اُٹھ رہے ہیں، ہم دونوں ایک دوسرے کو سہارا دے کر ٹھہر گئے، تھوڑی دیر بعد پھر آگے بڑھے، اور دبے پاؤں ڈرتے کانپتے باب السلام سے مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں داخل ہوئے ۔ جماعت ہو چکی تھی، نماز ادا کی، اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اُس نے اس نعمت عظمٰی سے سرفراز فرمایا، اب بارگاہ نبوی صل اللہ علیہ وسلم میں حاضری کی باری تھی ۔

حضرت شؔیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدظلہ نے مناسک حج، نیز اس موقع کیلئے کچھ مخصوص ہدایتیں فرمادی تھی ، الحمد للہ حضرت شیخ کی برکت و توجہ سے یہ منزل بھی طے ہو گئی۔
______
ہم بارہ دن مدینہ طیبہ صلی ﷲ علی صاحبہا میں ٹھہرے، یقین کیجئے! کہ مدینہ کے گلی کوچے،مدینہ کے بازار،مدینہ کے درو دیوار اور مدینہ کی فضا میں کچھ ایسی کیفیت محسوس ہوئی کہ سو جان سے نثار ہونے کا جی چاہا، یہاں کی خاک پاک کے ہر ذرہ سے ہم کو محبت کی بو آئی۔ عہد نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اس وقت تک کی یہاں کی اسلامی تاریخ کے سب اہم واقعے ہم کو یاد آئے۔

نگاہ تصور نے مسجد نبوی میں بالخصوص رؔوضۃ الجنہ میں صحابہ کرام کا مجمع دیکھا، مؔحراب النبی اور مؔحراب التہجد کے پاس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سر بہ سجود پایا ، اؔسطوانہ وفود کے پاس باہر کے آئے ہوئے وفود کو بارگاہ نبوت میں باریاب ہوتے ہوئے دیکھا، اؔسطوانہ حرس کے پاس جاں نثاران رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو پہرہ دیتے ہوئے دیکھا، اؔسطوانہ ابی لبابہ میں سیدنا ابولبابہؓ کو بندھے دیکھا اور پھر دیکھا کہ حضرت نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم اُن کو اپنے دست مبارک سے کھول رہے ہیں۔ اؔسطوان سیدتنا عائشہؓ کے ارد گرد خواص امت کے ہجوم کو دیکھا کہ نماز ودعا میں مشغول ہیں۔ گوش تخیل کو منبر شریف سے صحابہؓ کے در میان حضور کے مواعظ اور صؔفہ نبوی سے اصحاب صفہ کو تلقین و تعلیم کی آوازیں سنائی دیں ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

تو کونسا خلاف عقل ہوگیا اس تفصیل سے یہ معلوم ہوگیا کہ کائنات کا فطری نظام یہ ہی ہے کہ خالق کائنات نے کم تر مخلوق کو اپنے سے اعلی کے لۓ غذا اور وسیلہ حیات بنایا ہے جو لوگ قربانی و گوشت خوری سے منع کرتے ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ یہ زندہ وجود کو قتل کرنے یعنی ” جیو ہتیا “ کا باعث بنتا ہے لیکن غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جیو ہتیا سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے اس لۓ کہ جب آپ پانی یا دودھ ، دہی یا پنیر حلق سے نیچے اتارتے ہیں تو بے شمار جراثیم ہوتے ہیں جن کے لۓ آپ زبان حال سے موت کا پروانہ لکھتے ہیں اسی طرح بہت سی ایسی دوائیں وغذائیں آپ کھاتے ہیں جو جسم میں بہت سے مضر صحت جراثیم کا خاتمہ کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جیو ہتیا کے وسیع تصور کے ساتھ تو آپ نہ پانی سکتے نہ دودھ اور نہ ہی دوائیں استعمال کرسکتے ، پھر جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ جس طرح حیوانات میں روح موجود ہے اسی طرح پودوں میں بھی روح کار فرما ہوتی ہے اور نباتات میں بھی احساس کا مادہ پایا جاتا ہے خود میں نے کچھ روز پہلے میں نے ٹائمز آف انڈیا (Times Of India ) میں ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ ایک آلہ کے ذریعہ پودوں ونباتات کی آوازیں رکارڈ کی گئیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جیو ہتیا سے بچنا ہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہوگا گویا اس کائنات میں ایسے انسانوں کی کوئ ضرورت نہیں ہے جو مکمل طور پر جیو ہتیا سے بچ کر جینا چاہتے ہیں اس لۓ اسلام کا جانور کے ذبح وقربانی سے متعلق تصور نہایت معتدل انسانی دنیا کے لۓ فائدہ ونفع کا باعث ہے ۔

(ماہنامہ مظاہر ۔ جون ٢٠٢٥ ء )
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

قربانی اور جانور کے ذبح پر اعتراض کیوں ؟


تحریر : مفتی محمد صادق مظاہری

گزشتہ کچھ ماہ سے اچاریہ پرشانت نامی شخص کی سوشل میڈیا پر قربانی اور جانوروں کے ذبح سے متعلق دو لوگوں کے ساتھ تقریبا ایک گھنٹہ سے زائد کی پوڈکاسٹ بہت گردش کر رہی ہے جس میں اچاریہ پرشانت کے سامنے بیٹھے دو نوں شخص جانور کے ذبح وقربانی کے متعلق سوالات کررہے ہیں اور اچاریہ صاحب ان کے جوابات دے رہے ہیں جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ یہ جانوروں پر ظلم ہے اور زبان کی لذت کے لۓ جانوروں کو قتل کرکے کھایا جارہا ہے میں نے تقریبا پوری ویڈیو دیکھی ہے دیکھنے کے بعد ذہن میں آیا کہ اس کے متعلق کچھ باتیں قلم بند کردی جائیں ، ویسے تو یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جس پر ہمیشہ بہت سے غیر مسلموں کی طرف سے اعتراض کیا جاتارہا ہے اور اس کے اہل علم ودانش کی طرف سے نقلی وعقلی ہر طرح کے جوابات دئیے جاتے رہے ہیں لیکن افسوس کہ لوگ اسلام کے بارے میں پڑھے وسنے بغیر اعتراض کرنے لگتے ہیں ۔ یاد رکھنا چاہۓ کہ اسلام کی نظر میں جانوروں کی بڑی اہمیت ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں کئ ایک سورت جانوروں کے نام سے موجود ہیں ۔ جن میں سورہ بقرہ ، سورہ انعام ، سورہ نمل ، سورہ نحل ، سورہ عنکبوت ، سورہ فیل شامل ہیں اس کے علاوہ قرآن پاک میں مختلف مقامات پر جانوروں کا ذکر بھی موجود ہے ایک جگہ پر اللہ نے جانوروں کے منافع کو بیان کیا ہے (سورہ نحل ٥ ۔ ٨ ) اسی طرح بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے دور جاہلیت میں عربوں کا گزر بسر کا سامان جانور ہی تھے وہ ان کو سواری وبردباری کے لۓ استعمال کرتے تھے ، ان کی تجارت کا دارو ومدار بھی جانوروں پر ہی تھا لیکن اس کے باوجود وہ جانوروں کے ساتھ جابرانہ وجفاکارانہ سلوک کرتے تھے چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسی چیز سے منع فرمایا جس سے جانور کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کا مظاہرہ ہو اسی لۓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے منھ پر مارنے کی ممانعت بیان کی ، عہد جاہلیت میں لوگ جانوروں کو لڑاتے اور ان کا تماشا دیکھتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ممنوع قرار دیا اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دیکھا کہ اس کا پیٹ پشت سے لگا ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے معاملے میں خدا سے ڈرو ، اسی سلسلہ کا ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک اونٹ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مالک کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالک کو تنبیہ فرمائ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائ کہ اگر سر سبزوشاداب موسم میں سفر کرو تو آہستہ چلاؤ اور جانور کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دو اور قحط کا موسم ہو تو تیز تیز چلاؤ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کے تعلق سے فرمایا کہ گھوڑے کے ساتھ روز قیامت تک خیر وابستہ ہے ( صحیح مسلم ۔ باب الخیل فی نواصیہا ) ایک روایت میں فرمایا اونٹ اپنے مالک کے لۓ باعث عزت ہوتا ہے اور بکری میں خیروبرکت ہے ( ابن ماجہ ۔ باب اتخاذ الماشیہ ) ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرغ کو گالی نہ دو چونکہ وہ نماز کے لۓ جگاتا ہے (ابوداؤد ۔ باب ماجاء فی الدیک ) اس لۓ اسلام نے جانوروں کے حقوق کو بھی مستقل بیان کیا ہے اور ہر اعتبار سے ان کے خیال رکھنے کی تعلیمات وہدایات دی ہیں چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخرت کا ثواب وعذاب جانوروں کے ساتھ اچھے وبرے سلوک سے بھی متعلق ہے قیامت کے دن ایک عورت کو محض اس لۓ دوزخ میں ڈالا جاۓ گا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا اس کو اس کا موقع نہیں دیا گیا کہ وہ خود کھاۓ اور دوڈ دھوپ کر ضرورت پوری کرے (بخاری حدیث نمبر ٢٣٦٥ ) ایک شخص کو محض اس لۓ جنت میں داخل کیا جاۓ گا کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا (بخاری حدیث نمبر ٢٣٦٣ ) اگر کوئ شخص بلاوجہ کسی جانور کو تکلیف پہنچاتا ہے اسلام نے اس پر سختی سے منع فرمایا ہے چناں چہ بلاوجہ جانور کو مارنے کے درپے ہونا درست نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے گوریا پکڑ رکھی تھی اور اس کی ماں بے قرار تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا اور فرمایا بلا ضرورت ایک گوریا کو ذبح کرنے پر بھی جواب دہی ہے ( سنن کبری للنسائ حدیث نمبر ٤٥١٩ ) اسی لۓ جو جانور انسان کے کام نہیں آتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی مارنے سے منع فرمایا ہے چیونٹی ، شہد کی مکھی ، ھُد ھُد وغیرہ کے مارنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائ ہے (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر : ٥٧٢٨ ) اور جن موذی جانوروں کے مارنے کا حکم ہے ان کو بھی مارنے کا طریقہ احادیث میں بیان کردیا گیا ہے تاکہ وہ مربھی جاۓ اور ان کو زیادہ تکلیف بھی نہ ہو چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ

Читать полностью…

علم و کتاب

”دروس الکافیہ“ کا تعارفی جائزہ

محمد روح الامین قاسمی میُوربھنجی

نام شرح: ”دروس الکافیہ“
شارح: مولانا مفتی محمد ارشد معروفی، استاذ دار العلوم دیوبند
اشاعت: ذی قعدہ 1445ھ مطابق مئی 2024ء
صفحات: 368
ناشر: ثناء پبلیکیشنز، دیوبند
رابطہ نمبر: 09557684415

آج کل بیشتر مدارس سے ”شرح جامی“ کو نصاب سے خارج کیا جا چکا ہے؛ مگر دار العلوم دیوبند اور اس طرز پر قائم مدارس میں کافیہ کو نحو کی آخری کتاب کے طور پر بہ دستور پڑھایا جاتا ہے اور تدریس کا اسلوب ایسا ہوتا ہے کہ اس میں نہ صرف ”شرحِ جامی“ اور ”غایۃ التحقیق“ کی تحقیقی جھلک دکھائی جاتی ہے؛ بلکہ اس میں ”تحریرِ سنبٹ“ اور ”شرح رضی“ کے علمی نکات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

اسی کتاب ”کافیہ“ پر ہمارے محترم استاذ مولانا مفتی محمد ارشد معروفی صاحب نے اپنے دس سالہ تدریسی تجربے کی روشنی میں ایک جامع شرح مرتب فرمائی ہے، جسے انھوں نے اپنے دروسِ کافیہ میں مناسب حذف و اضافہ کے بعد کتابی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب ذی قعدہ 1445ھ مطابق مئی 2024ء میں شائع ہوئی اور اشاعت کے فوراً بعد عربی درجات کے طلبہ میں اس کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔


شرح کی خصوصیات: شرح کی اہم خصوصیات میں صحت کے ساتھ اعراب سے مزین عبارت، سلیس تحت اللفظ ترجمہ، اور اس کے بعد کی مختصر و واضح تشریح شامل ہے۔ مصنف نے شرح میں غیر ضروری مباحث سے گریز کرتے ہوئے صرف وہ نکات بیان کیے ہیں جن سے عبارت حل ہو جائے، اور بوقت ضرورت ”فائدہ“ کے عنوان سے دلائل و علتیں بھی پیش کی ہیں۔ تشریح میں "غایۃ التحقیق" اور "شرح جامی" جیسی معتبر شروحات سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ شرح دار العلوم دیوبند کے تدریسی مزاج کی بخوبی ترجمانی کرتی ہے۔ شرح پر بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی (استاذ حدیث دار العلوم دیوبند) کے کلماتِ تبریک، مفتی محمد امین پالن پوری (استاذِ حدیث دار العلوم دیوبند) و مولانا محمد علی بجنوری (استاذ تفسیر و نگراں شعبۂ تدریب المعلمین، دار العلوم دیوبند) کی تقریظ و رائے گرامی کے ساتھ خود شارح کا پیش لفظ بھی شامل ہے، جس سے شرح اور شارح کی حیثیت و اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔

اساتذۂ دار العلوم دیوبند کی نظر میں:
(1) بحر العلوم مولانا نعمت اللہ اعظمی نے شارح پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
”توقع ہے کہ یہ کتاب (شرح) مقبول ہوگی؛ اس لیے کہ مقبولیت کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے – ماشاء اللہ – وہ مولانا موصوف (مفتی محمد ارشد معروفی) میں موجود ہیں...۔
(2) مفتی محمد امین پالن پوری نے بھی کتاب کی توصیف بیان کرتے ہوئے اس کے سہل ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
(3) مولانا محمد علی بجنوری نے شرح کی خصوصیات کو مختصراً یوں بیان کیا ہے:
”کتاب (شرح) میں لفظی ترجمہ کرنے کے بعد مختصر الفاظ، آسان انداز اور مرتب طریقے سے عبارت کی ایسی جامع، صحیح اور غلطیوں سے پاک تشریح کی گئی ہے کہ نہ صرف قاری کو پوری تشفی ہو جاتی ہے؛ بلکہ اساتذہ کو تفہیم کے لیے بھی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے، کتاب میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے؛ نہایت نپے تُلے الفاظ میں کہا گیا ہے، شرح قابلِ اطمینان و تسلی بخش ہے۔ مطالعہ کے بعد اس کا فائدہ آپ (قارئین) بچشمِ خود ملاحظہ فرمائیں گے۔“

یہ تبصرے اس بات کی دلیل ہیں کہ کتاب نہ صرف مبتدی طلبہ کے لیے مفید ہے، بلکہ تدریس کے لیے بھی قابلِ اعتماد وسیلہ ہے۔

شارح کا مختصر تعارف: استاذِ محترم مولانا محمد ارشد معروفی صاحب کا وطنِ مالوف و جائے پیدائش مشرقی یوپی کے ضلع مئو کا معروف قصبہ ”پورہ معروف“ ہے۔ ان کا درست سنہ ولادت تو محفوظ نہیں ہے؛ البتہ اندازے سے دستاویزات میں تاریخ پیدائش 5 دسمبر 1979ء لکھی گئی۔

انھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ اشاعت العلوم، پورہ معروف میں حاصل کی اور فارسی سے لے کر جلالین تک کی تعلیم مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف میں مکمل کی۔ پھر 1996ء میں ان کا داخلہ دار العلوم دیوبند میں ہوا اور 1997ء میں انھوں نے وہاں سے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد وہیں سے ایک ایک سالہ تکمیلِ ادب اور تکمیلِ افتا کے کورسز مکمل کیے۔

فراغت کے بعد معین مدرس کی حیثیت سے انھوں نے دو سال دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر حضرت مولانا سید ارشد مدنی (صدر المدرسین دار العلوم دیوبند و صدر جمعیۃ علماء ہند) نے ان کو مدرسہ حسینیہ، تاؤلی (مظفر نگر) میں تدریس کے لیے مامور فرمایا، جہاں انھوں نے لگ بھگ پانچ سال تک تدریسی ذمہ داریاں نبھائیں۔

بعد ازاں طبیعت کی خرابی کے باعث کچھ وقفہ رہا۔ سنہ 1430ھ مطابق 2009ء میں ان کا مستقل تقرر دار العلوم دیوبند میں ہوا۔ سنہ 1440ھ مطابق 2019ء میں ان کو درجۂ وسطیٰ ’ب‘ کے استاذ کی حیثیت سے ترقی دی گئی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

چنانچہ ان خاتون کی پھیلائی ہوئی کہانیوں میں چونکہ مقبول ہونے اور دوسرے لفظوں میں میڈیا اور صحافت و ادب میں ’’فروخت‘‘ ہونے اور درد مندانہ اپیل کے ساتھ لکھے جانے کا خاصا افسانوی مواد تھا، لہٰذا پھر اللہ دے اور بندہ دے۔ اس پر افسانہ طرازی شروع ہوئی۔ یہ قصہ جب سرحد پار گیا تو پنجابی اور اردو کی شاعرہ اور افسانہ نگار امرتا پریتم نے ایک کتاب ’’ایک تھی سارہ‘‘ لکھ ماری۔ اب غیر مسلموں کا معاملہ آزادیٔ اظہار کا ایسا ہے کہ امرتا صاحبہ نے اپنے شوہر کی زندگی میں ساحر لدھیانوی سے اپنے معاشقے کی داستان ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ میں صاف صاف بیان کردی ہے، اس اعتماد کے ساتھ کہ شوہرِ نامدار کے ماتھے پر کوئی شکن نہ آئے گی۔ اور ایسا ہوا بھی۔ چنانچہ ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ کے بعد امرتا کی سوانح کی اگلی جلد بھی شائع ہوئی۔ چلیے اتنی رعایت تو پھر بھی امرتا کے قصے میں ہے کہ ان کا عشق ذہنی، ادبی، روحانی جو نام دیں، وہ تھا۔ اس میں لذت و شہوتِ جسمانی کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ شاید اسی لیے شوہر نامدار اُن کے اس پر معترض بھی نہ ہوئے۔ یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ بہرکیف، امرتا پریتم سے سارہ صاحبہ کے مراسم استوار ہوچکے تھے اور کتاب کے لیے مواد بھی انہوں نے ہی غالباً فراہم کیا۔ ہمارے ہاں ٹی وی ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ نے بنا کسی تحقیق، اور حقائق کی کھوج کرید کے اس پر ایک ڈرامہ سیریل لکھ ڈالی۔ ہمارے محترم شاعر دوست کے ایک دوست جو ان دنوں ایک اخبار میں تبصرۂ کتب پر مامور ہیں، وہ کیوں پیچھے رہتے! ایک ناول انہوں نے بھی تصنیف کرڈالا۔ جو لوگ صحافی و ادیب ہوکر بھی زندگی سے کٹے ہوئے اور لاتعلق رہتے ہیں، ان کے پاس ویسے ہی موضوعات کی قلت ہوتی ہے۔ ان کا یہ ناول بھی ادبی حلقوں میں پڑھا تو یقینا گیا لیکن اس کا شمار کسی ڈھنگ کے معیاری ناولوں میں نہ کیا جاسکا۔ وجہ غالباً یہ رہی ہوگی کہ جب حقیقت کو توڑ مروڑ کر، مسخ کرکے افسانہ بنایا جائے، اور پھر افسانے کو مزید افسانہ بنانے کے لیے مرچ مسالہ لگایا جائے تو تاثیر تخلیق میں کہاں سے آئے گی! کیونکہ کسی بھی تخلیق میں تاثیر جہاں سے آتی ہے وہ تو صورتِ معاملہ کی حقیقت سے خوب واقف ہے۔ تو یوں یہ معاملہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاکر، یا یوں کہیے کہ ادب اور میڈیا کی دنیا میں گردوغبار اڑا کر آہستہ آہستہ بیٹھ گیا۔ ہمارے محترم شاعر دوست نے اس حادثے کے بعد ادب، ادبی دنیا اور ادبی دوستوں سے خاصے عرصے کے لیے منہ موڑ لیا، بلکہ شہر چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ انہوں نے ان ساری جھوٹی اور بے بنیاد کہانیوں اور افسانوں کو کبھی درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا۔ انہوں نے اپنے رب سے لو لگائی اور اپنی ذاتی زندگی کو ’’ادبی آلودگی‘‘ سے بچانے کے لیے ادبی حلقوں میں آنا جانا چھوڑ دیا۔ اب وہ شادی بیاہ کے بعد اولادوں کو تعلیم و تربیت دلاکر اپنے پیروں پر کھڑا کرکے ایک آسودہ اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ البتہ ان خاتون شاعرہ کا یہ ہوا کہ ملیر ہالٹ کے ریلوے پھاٹک سے گزرتے ہوئے تیز رفتار ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہوئیں۔ ایک بیان یہ بھی ہے کہ بعض ادویات کے استعمال کی وجہ سے انہیں ٹرین کی آمد کا پتا ہی نہ چلا۔
اب یہ پرانا دھرانا قصہ اگر اصل صورتِ معاملہ سے ناواقف لوگ فیس بک پر ڈالتے اور ایسے واقعات سے چسکہ لینے کی جو ہم لوگوں کی عادت ہے، چسکہ اور لطف لیتے ہیں تو اس چسکے سے ضرور لذت کشید کریں، لیکن اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے واقعات سے کچھ سبق بھی لے لیا کریں۔ بڑی عام سی بات ہے کہ اعتبار نہ ابتدا کا ہے نہ درمیان کا۔ یقین و اعتبار ہمیشہ خاتمے اور انجام کا ہے۔ اگر مذکورہ واقعے اور اس کے انجام سے کوئی سبق سیکھنے پر تیار نہ ہو تو اس کے لیے فقط دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ اب یہ تو سننے والے پر ہے دعا سنے یا نہ سنے!
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ایسا ہے کہ واقعات اپنی تفصیلات کے ساتھ ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ جن شاعر صاحب کو اس سارے قصے میں بدنام کیا گیا وہ میرے کالج کے زمانے کے ایسے دوست رہے ہیں کہ جن کے علم کی وجہ سے میں نے ان کا ہمیشہ احترام کیا، آج بھی کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُن صاحبِ علم لوگوں میں کبھی شامل نہیں رہے جن کا علم ان کے کردار سے یا جن کا کردار ان کے علم سے لگّا نہیں کھاتا۔ وہ بنیادی طور پر اپنی تمام ذہانت، حاضر جوابی، گہرے مطالعے اور واضح شعور کے باوجود ہمیشہ نیک نفس، خوددار، دوست نواز اور اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے انسان رہے۔ ایسے لوگ جو اپنے اندر یہ خوبیاں رکھتے ہوں، اصلاً شریف اور بھولے یا معصوم ہوتے ہیں جو دوسروں کی چالاکیوں اور چلتربازیوں سے ناواقف اور اپنی نیک نیتی کے باوصف دوسروں کو بھی نیک نیت اور اپنا خیرخواہ ہی سمجھتے ہیں۔ یہ تو بعد میں پتا چلتا ہے اور وقت ثابت کرتا ہے کہ جنہیں وہ اچھا اور اپنا بہی خواہ، خیال کرتے تھے وہ ویسے نہیں۔ تو اس سارے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ جس سرکاری ادارے میں وہ ملازمت کرتے تھے، وہیں یہ خاتونِ مذکور بھی ملازمہ تھیں۔ دونوں میں مراسم اسی ملازمت کے حوالے سے قائم ہوئے اور پھر یہ معاملہ شادی پر منتج ہوا۔ شادی کے بعد ان شاعر صاحب نے اپنی دوست نوازی اور اپنی سادہ دلی کی وجہ سے اپنی اہلیہ کو اپنے دوستوں سے بھی ملوا دیا۔ جہاں جاتے، دوستوں کی محفل میں شرکت کرتے، اہلیہ بھی ساتھ ہوتیں۔ کچھ شوہر کی صحبت اور کچھ ادبی محفلوں میں شرکت کی وجہ سے ان خاتون میں بھی ادب کا شوق چرایا اور ایک دن انہوں نے اپنے شوہرِ نامدار کو یہ اطلاع دی کہ خیر سے انہوں نے بھی ایک نظم لکھی ہے۔ شوہر موصوف نے اپنی رفیقۂ حیات میں ادبی جراثیم پائے تو خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اپنے دوستوں کو بھی اس خوشی میں شریک کیا اور یوں پہلی نظم کے بعد دوسری، اور دوسری کے بعد تیسری۔ ۔ ۔ نظمیں جیسی کیسی بھی تھیں دوستوں میں کچھ پسند اور کچھ ناپسند کی جانے لگیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شہر میں نثری نظم کی تحریک حضرت قمر جمیل کی ادبی قیادت میں دھواں دھار طریقے سے چل رہی تھی اور شہر کے سارے نوجوان شاعر اور شاعرات اس تحریک میں دل و جان سے شامل تھے۔ چنانچہ جب قمر جمیل صاحب اور دیگر شاعر و شاعرات کو خود شاعر صاحب نے اپنی اہلیہ کے شاعرہ بننے کی خوش خبری سنائی تو بات منہ سے نکلی اور کوٹھوں چڑھی کے مصداق شہر کے ادبی حلقے میں پھیلتی چلی گئی۔ شاعرہ صاحبہ نے جب اپنی شاعری کی یہ قدر و منزلت اور پذیرائی دیکھی تو انہوں نے ہاتھ پیر نکالے اور اپنے طور پر اپنے شاعر شوہر کے دوستوں سے مراسم و تعلقات قائم کرنے شروع کردیے۔ ان ہی شاعروں میں ایک شاعر دوست ان کے شوہر کے ایسے تھے جو صرف و محض شاعر تھے اور شاعر و ادیب کے لیے مذہب و اخلاق کی پابندی ضروری نہ سمجھتے تھے، جس کا ثبوت انہوں نے اپنی زندگی میں ایک بار نہیں دو بار دیا۔ مطلب یہ کہ ایک نہیں دو گھر اجاڑے۔ چونکہ وہ میرا موضوع نہیں اور نہ ان کے ذاتی معاملات سے مجھے کچھ لینا دینا ہے، لیکن اتنا لکھ دینا بھی غیر ضروری نہ ہوگا کہ جب ان شاعرہ صاحبہ نے اپنے شوہر کے ان شاعر دوست کو اپنے دام میں کھینچا اور انہیں شیشے میں اتار کر ان سے اپنے قلبی معاملات وغیرہ استوار کیے، اور جب یہ اذیت ناک حقیقت ہمارے محترم دوست کے علم میں آئی تو انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ سے جو خیر سے شاعرہ بھی بن چکی تھیں اور قمر جمیل صاحب جو خود بھی ایک معصوم اور بھولے انسان ہی تھے اور نئے لکھنے والوں کی مبالغہ آمیز تعریف کرکے ان کی حوصلہ افزائی میں خاصی شہرت رکھتے تھے، انہوں نے بھی ان نئی نویلی خاتون شاعرہ کی میرے انٹرویو میں (جو میری کتاب ’’یہ صورت گر‘‘ میں شامل ہے) اتنی بڑھا چڑھا کر تعریف کی کہ میں تو حیران و ششدر رہ گیا۔ چونکہ خاتون شاعرہ کی نثری نظمیں کم سے کم مجھے تو کبھی پسند نہیں آئیں سوائے ایک آدھ نظم کے۔ جو واحد نظم دو ایک مصرعوں کی دل کو لگی وہ یہ تھی:
نابینا کی جھولی میں
دو آنکھیں روشن رہتی ہیں
یہ نظم ان کی ٹوٹی پھوٹی نثری نظموں کی کتاب ’’آنکھیں‘‘ میں شامل ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*چراغِ رہ گزر*
(نعت پاک علی صاحبہ الصلاۃ والسلام)
💐💐💐

دیارِ دل میں ان کی یاد ہے چراغِ رہ گزر
اسی سے روح میں تپش اسی سے خاک میں شرر

دراز ہے اگرچہ رات صبحِ نو بھی ہے قریں
نویدِ وصل ہی سے ہے شبِ فراق مختصر

اجالتی ہے روح کو حرا کی خلوتِ نیاز
عطائے سوزِ معرفت نوائے شوقِ معتبر

مسافرانِ عشق کی نگاہ میں ہیں منزلیں
رضائے دوست کے لیے صعوبتیں ہیں بے اثر

محبتوں کی جان ہے مرے نبی کی پیروی
سجائیے وفا کی راہ میں ہتھیلیوں پہ سر

رفاقتیں نبی کی آپ چاہتے ہیں خلد میں
تو ان کا نام لیجیے گلی گلی نگر نگر

سفینۂ نجات ہے بس ایک شہرِ مصطفیٰ
سبھی کے واسطے کھلے ہوئے ہیں رحمتوں کے در

ورق ورق کتابِ زندگی میں ہیں تجلیاں
شہادتیں عدو کی ہیں ہمارے حق میں معتبر

ہوا ہے مصطفیٰ کی مدح میں کوئی سخنؔ سرا
تو جھوم اٹھے ہیں وجد میں ملک ملک بشر بشر

*(✍🏻 خاک پائے مصطفیٰ: محمد سمعان خلیفہ ندوی۔ بھٹکل۔ انڈیا)*

💐💐💐

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

یہیں پہلی ملاقات جناب مولانا محمد سلیم صاحب ناظم مدرسہ صؔولتیہ مکہ معظمہ سے ہوئی،اس کے بعد ہم لوگ اپنی جائے قیام پر روانہ ہوئے،جدہ میں مدینہ منورہ جانے والے موٹر کے انتظار میں چار دن قیام رہا،اس چہار روزہ قیام میں جدہ کو خوب دیکھا بھالا، اس سر زمین کے ہر ٹکڑے سے الفت و محبت کی بو آئی،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمیشہ کا دیکھا بھالا مقام ہے،اجنبیت کا احساس کہیں نام کو بھی نہیں ہوا،دیدۂ شوق نے جی کھول کر اپنی آرزو پوری کی،پھر بھی جذبۂ عقیدت کو اپنی کم ہمتی کا شکوہ ہی رہا۔

( ماہنامہ الفرقان لکھنؤ حج نمبر 1369ھ)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

جاری----
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*•سفر حجاز کے بعض مناظر اور تاثرات•*

قسط اول

(از: جناب مولانا محمد اویس صاحب نؔدوی نگرامی)

👈🏻 مولانا موصوف نے گذشتہ سے پیوستہ سال 1367ھ/ 1948ء) میں فریضۂ حج کی ادائیگی کے سلسلہ میں حجاز کا سفر کیا تھا، مولانا کا یہ مضمون اسی زمانہ کا لکھا ہوا ہے ۔ "مدیر"
_____


الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى

ستمبر 1948ء کی پانچ اور عربی حساب سے شوال المعظم 1367ھ کی بیس تاریخ تھی کہ شام کو 5 بج کر بیس منٹ پر مؔغل لائن کے اسلامی جہاز نے اٹھارہ سو مسافروں کو لے کر جدہ کے قصد سے بمبئی کا ساحل چھوڑا ۔

؎ دریں دریائے بے پایاں دریں طوفان موج افزا
سر افگندیم بسم الله مجریہا ومرسٰها

وطن (نگرام) سے ۲۱ اگست ١٩٤٨ء کی صبح کو لکھنؤ کے لئے، اور لکھنو سے ٢۲ اگست کی دوپہر کو بمبئی کے لئے روانگی ہوئی تھی، اور بحمد اللہ اب اس مبارک سفر کے لئے کوئی ظاہری رکاوٹ بھی معلوم نہیں ہوتی تھی مگر...

؏ عشق است و ہزار بدگمانی

اندر ہی اندر دل ڈر رہا تھا کہ کہیں کوئی مانع نہ پیش آجائے، بارہ دن کے انتظار کے بعد جہاز روانہ ہوا۔ خیال تھا کہ بدگمان دل اب سکون پائے گا، مگر اس دیوانہ کے مقدر میں اطمینان آرام کہاں ؟ اب فکر یہ ہے کہ جہاز آج کے بارھویں دن جدہ پہونچے گا، اور قسمت کو اپنا رنگ کھلانے کیلئے بارہ دن اور بارہ گھنٹے کیا بارہ منٹ بھی بہت ہیں۔ بہر حال جسم کو جہاز جدہ کی طرف لئے جا رہا ہے، مگر دل امید و بیم کی کشمکش میں مبتلا کبھی شاداں و فرحاں،کبھی لرزاں و ترساں،ایک بے نیاز بارگاہ میں حاضر، اور اسی کی طرف متوجہ ہے ۔ فالحمد اللہ علی ذالك -

سمندر کے سفر کے ابتدائی آٹھ دن تو اس شان سے گزرے کہ اوپر نیلگوں آسمان تھا اور نیچے نیلگوں پانی اور پانی کی سطح پر ہزاروں ٹن کا وزنی جہاز خس و خاشاک سے بھی زیادہ بے وقعت اور سمندر کی کوہ پیکر موجوں کا کھیل بنا ہوا تھا، مگرسبحان اللہ ! انسانی عقل بھی کیا عجیب عطیۂ خداوندی ہے، سمندر کے اندر یہی حقیر اور بے وقعت جہاز موجوں سے ٹکر لیتا ہوا پانی کو کاٹتا ہوا آگے بڑھتا ہی جا رہا تھا، «سبحان الذی سخر لنا ھذا وماکنا لہ مقرنین».

غالبا ساتواں دن تھا کہ جہاز کے قریب دور ایک چڑیاں نظر آئیں! سیکڑوں آدمی ان چڑیوں کو دیکھنے اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر جہاز کے بالائی حصہ پر آگئے۔ اہل تجربہ نے بتلایا کہ چڑیوں کا نظر آنا اس بات کی نشانی ہے کہ ساحل کہیں قریب ہے۔

اب تک ہم بؔحر ہند میں چل رہے تھے لیجیے! بؔحر احمر آگیا، اب ہمارے داہنے ہاتھ پر ''جزیرة العرب'' اور بائیں ہاتھ پر ''صحرائے افریقہ'' ہے، سبحان اللہ آنکھیں یہ کیا دیکھ رہی ہیں ؟ وہ عؔدن کی پہاڑیاں اور عدن کے بعد مؔکلا اور بؔوشہر کی پہاڑیاں

؎ دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
میں اسے دیکھا کروں ، کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

نہیں معلوم کیا بات تھی کہ نگاہیں ان پہاڑیوں کو دیکھنے سے تھکتی نہ تھیں، بلکہ نظارہ ''زجنبیدن مژگاں گلہ دارد'' کی کیفیت تھی ۔ جی چاہتا تھا کہ ان پہاڑیوں سے لپٹ لپٹ کر روئیے ، اور روداد غم فراق ان کو کچھ اس طرح سنایئے کہ پہاڑیاں بھی لرز اٹھیں اور پتہر کا کلیجہ بھی دہل جائے! لوگ کہتے ہیں کہ یہ پہاڑیاں بالکل بے آب و گیاہ ، خشک اور جھلسی ہوئی ہیں، مگر اپنے ادراک و احساس نے جو محبوبیت و رعنائی اور شان دل آویزی اس کوہستانی سلسلہ میں پائی اسکی یاد آج بھی تازہ ہے۔

کؔامران میں ٹھرنا نہیں ہوا اب یؔلملم کا انتظارتھا۔ انہیں دنوں جہاز میں یلملم کے متعلق اہل علم کے درمیان ایک دلچسپ مذاکرہ جاری تھا،سوال یہ تھاکہ یلملم کو ہندوستانیوں کی میقات کس طرح قرار دیا جاتا ہے ؟ یلملم سعدیہ کے پہاڑوں سے ایک پہاڑ ہے، اور یمن والوں کا میقات ہے! ہندوستان سے جانے والے یہاں صرف اس لئے احرام باندھ لیتے ہیں کہ ان کا جہاز اس میقات کے سامنے سے گذرتا ہے، سامنے سے گزرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کپتان کے بتلانے کے بموجب یہ پہاڑ جہاز سے ستر پچھتر میل کے فاصلہ پر ہے، دوربین سے بھی دکھلائی نہیں دیتا ہے۔ کپتان سے دریافت کیا گیا کہ پھر آپ احرام کے لئے سیٹی کس حساب سے بجاتے ہیں؟ تو اُس نے کہا کہ جہاز کی رفتار کے حساب سے ہم یہ اندازہ کرتے ہیں کہ اب جہاز یلملم کے سامنے سے گزر رہا ہے، اسی اندازہ کے بموجب سیٹی بجوائی جاتی ہے۔

تحقیق طلب امر یہ ہے کہ اس درجہ کی محاذات قابل اعتبار ہے یا نہیں ؟ ظاہر کہ جب تک کوئی بات پایہ تحقیق کو نہ پہونچ جائے موجودہ میقات ہی سے احرام باندھا جائے گا،مگر یہ مسئلہ علمائے محققین کے لئے قابل توجہ ہے ۔ جیسے جسے یلملم قریب آ رہا تھا حجاج میں احرام باندھنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اٹھارہ سو مسافروں میں ہمارا تین آدمیوں کا قافلہ پہلے مدینہ طیبہ( صلی ﷲ علی صاحبہا) کی حاضری کا قصد کرچکا تھا،ہماری رفاقت کے خیال سے اعظم گڑھ کے نیک دل اور خوش صفات احباب نیز مرادآباد کے دس احباب بھی عازمِ مدینہ ہوگئے تھے ؛ اس لیے ہم لوگوں کے لیے یلملم

Читать полностью…
Subscribe to a channel