علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
وفیات مورخہ: مئی / 28
احمد امین /مصری ادیب ونقاد /28 /مئی/ 1954ء
ادریس بختیار /براڈکاسٹر، صحافی /28 /مئی/ 2019ء
اکبر وفاقانی (سید محمد اکبر) / /28 /مئی/ 1968ء
الم مظفرنگری، محمد اسحاق / /28 /مئی/ 1969ء
امیر اللہ تسلیم /شاعر /28 /مئی/ 1911ء
بہاء اللہ (حسین علی نوری) /بابی فرقہ /28 /مئی/ 1892ء
پرتھوی راج کپور /اداکار /28 /مئی/ 1972ء
چودھری چرن سنگھ /وزیر اعظم ہند /28 /مئی/ 1987ء
ڈاکٹر قمر عباس ندیم / /28 /مئی/ 1981ء
ڈاکٹڑ مصباح الدین پیرزادہ /پروفیسر /28 /مئی/ 1999ء
سنیتی کمار چٹرجی /ماہر لسانیات /28 /مئی/ 1977ء
سنیتی کمار چٹرجی /ماہر لسانیات /28 /مئی/ 1977ء
عبدالرحمٰن کابلی / /28 /مئی/ 1964ء
فخر الدین سید / /28 /مئی/ 2020ء
محسن صدیقی، محمد / /28 /مئی/ 1990ء
محمد یعقوب بیگ (اتالیق غازی) /ازبک رہنما) /28 /مئی/ 1877ء
مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری /امام العصر، شیخ الحدیث /28 /مئی/ 1934ء
مولانا نذر الحفیظ ندوی از هری / /28 /مئی/ 2021ء
مولوی محبوب عالم /پیسہ اخبار لاہور /28 /مئی/ 1933ء
نازش رضوی / /28 /مئی/ 1991ء
نیاز احمد /موسیقار /28 /مئی/ 2019ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
آج بھی موجود ہیں۔ریڈیو پر اردو نشریات کے اوقات میں اضافہ کے علاوہ اردو اخبارات کو بعض سہولتیں فراہم کی گئیں۔ مگر افسوس گجرال کمیٹی کی، اردو تعلیم اور روزگار سے متعلق بہت سی اہم سفارشات آج تک ٹھنڈے بستے میں بند پڑی ہوئی ہیں۔“
(’خلیق انجم: کچھ یادیں، کچھ باتیں‘روزنامہ ’سیاست‘حیدرآباد، 19 نومبر 2016)
گجرال کمیٹی سے فارغ ہونے کے بعد مجتبیٰ حسین حیدرآباد واپس نہیں گئے اور وہ اگلے ہی روز یعنی19ستمبر1974کو مرکزی حکومت کے ادارے این سی آر ٹی کے شعبہ پبلی کیشنز سے بطور ایڈیٹر منسلک ہوگئے، جہاں سے جولائی1991میں سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر روزنامہ ’سیاست‘ کا دامن تھاما اوردہلی میں اس کے خصوصی نمائندے بن گئے۔ انھوں نے2008میں حیدرآباد مراجعت ضرور کی، لیکن ان کا دل دہلی میں ہی پڑا رہا، جہاں ان کے بے تکلف دوستوں کی پوری کہکشاں موجود تھی۔وہ آخری بار گذشتہ سال دہلی اردو اکادمی کا بہادر شاہ ظفر ایوارڈ لینے یہاں آئے تھے اور یہ ان کا آخری سفر دہلی تھا۔
خاکہ نگاری
مجتبیٰ حسین کے ادبی کارناموں میں ان کی خاکہ نگاری کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو کے ادیبوں میں شاید وہ اس اعتبار سے ممتاز حیثیت کے حامل ہیں کہ انھوں نے سب سے زیادہ خاکے لکھے۔ ان کے لکھے ہوئے دلچسپ خاکو ں کے کئی مجموعے شائع ہوئے اور انھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے خود اپنا بھی ایک خاکہ لکھا تھا جو ان کی کتاب’چہرہ درچہرہ‘ (اشاعت 1993)شامل ہے۔ یہ دراصل ایک مزاحیہ تعزیت نامہ ہے، جو انھوں نے ’اپنی یاد میں‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی ہی کھنچائی نہیں کرتے تھے بلکہ انھیں خود اپنے اوپر ہنسنے کا بھی ہنر آتا تھا۔ یہ ان کے ایک بڑے مزاح نگار ہونے کا ثبوت ہے۔ اس دلچسپ تحریر کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
”مجتبیٰ حسین (جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آنا چاہیے، مگر کیوں نہیں آرہا) پرسوں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے، کیونکہ انہیں تو بہت پہلے نہ صرف مرجانا چاہیے تھا بلکہ ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن سے وہ پیدا ہوئے ہیں، تب سے ہی لگاتار مرتے چلے جارہے ہیں۔ گویا انہوں نے مرنے میں پورے اسّی سال لگادئیے۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمرتے ہیں۔ یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندہ رہے۔ ان کی زندگی بھی قسطوں میں چل رہی تھی اور مرے بھی تو قسطوں میں۔۔۔ان کی بڑی خواہش تھی کہ ملک کی آزادی میں بھرپور حصہ لیں۔ بڑی تمنا تھی کہ انگریز کی لاٹھیاں کھائیں۔ چنانچہ جب جب وہ اس تمنا کا اظہار اپنے والد سے کرتے تو ان کی لاٹھی ضرور کھاتے۔۔۔مرحوم کی زندگی کی ٹریجڈی یہ تھی کہ وقت ان کی زندگی میں کبھی وقت پر نہیں آیا۔ ہر کام قبل ازوقت کیا، یا بعد از وقت۔ گویا زندگی بھر وقت سے آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ یہاں تک کہ آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے ان کا آخری وقت آگیا۔ شادی بھی کی تو وقت سے پہلے، یعنی اس عمر میں، جب انہیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ چنانچہ شادی کی پہلی ہی رات مرحوم اپنے کم عمر دوستوں کے ساتھ کبڈی کھیلنے نکل پڑے۔ گھر کے بزرگ انہیں زبردستی پکڑ کر لے آئے اور تنہائی میں سمجھایا کہ کبڈی کھیلنا ہی ہے تو۔۔۔“
مجتبیٰ حسین کی اس تحریر دل پذیر سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اوپر ہنسنا جانتے تھے بلکہ قہقہے لگاتے تھے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی قلم کار اپنے بارے میں اس انداز تبصرہ کرے اور دوسروں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع دے، لیکن یہ مجتبیٰ حسین کی بڑی خوبی تھی کہ وہ اپنا مذاق بھی ایسے ہی اڑاتے تھے جیسے وہ اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کا اڑاتے تھے۔ اب آئیے آخر دہلی اردو اکادمی کے بانی سیکریٹری شریف الحسن نقوی پر لکھے ہوئے ان کے خاکے سے کچھ اقتباس نقل کرتے ہیں، جو انھوں نے 1987 کسی تقریب کے لئے تحریر کیا تھا۔لکھتے ہیں:
”میرے دوست کرشن لال نارنگ ساقی جو اس تقریب کے کنوینر بھی ہیں، پچھلے ہفتے ملے تو بولے کہ’ہم لوگ دہلی میں اردو کے موضوع پر ایک تقریب کا اہتمام کررہے ہیں، اور لوگ تو دہلی میں اردو کے موضوع پر بولیں گے، آپ اردو میں شریف الحسن نقوی کے موضوع پر اظہار خیال کریں۔‘ساقی نارنگ نے’’اردو میں شریف الحسن نقوی“کچھ اس طرح کہا کہ جیسے شریف الحسن نقوی ایک شخصیت نہ ہوں بلکہ اردو کی ایک تحریک ہوں یا مکتب فکر ہوں۔میں نے کہا کہ’دہلی میں اردو کے کئی پہلو ہیں اور میں شریف الحسن نقوی کو دہلی میں اردو کا سب سے روشن پہلو سمجھتا ہوں۔ جو پہلے خود روشن ہواس پر آپ مجھ سے مزید روشنی ڈلواکر کیا کریں گے۔ اردو والوں کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ کوئی روشن پہلو نظر آتا ہے تو اس پرروشنی ڈالتے ہی چلے جاتے ہیں اور جو تاریک پہلو ہوتے ہیں، انھیں مزید تاریک رکھنے کے لئے ان پر پردے ڈالتے چلے جاتے ہیں۔۔۔یہ اتفاق ہے کہ شریف الحسن نقوی ان دنوں اردو اکیڈمی دہلی کے سیکر یٹری ہیں اور میں انھیں اس وقت سے جانتاہوں جب نہ دہلی میں اردو اکیڈمی تھی اور نہ اردو اکیڈمی
مجتبیٰ حسین نے اپنے تحریری سفر کاآغاز کالم نگار کے طور پر کیا تھا اور جب تک ان کے قویٰ نے ان کا ساتھ دیا وہ کالم نگاری کرتے رہے۔ اسی طرح خاکہ نگاری میں بھی انھوں نے خاصا نام کمایا۔ شاید وہ اردو کے واحد ادیب ہیں، جنھوں نے سب سے زیادہ خاکے لکھے اوران خاکوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آئے۔ وہ یاروں کے یار تھے اور اپنے بیشتر دوستوں کے نہایت عمدہ خاکے انھوں نے لکھے۔ عام طور پر خاکہ نگار اپنے تعلقات کو نبھاتے ہوئے اس فریضے کو انجام دیتے ہیں، لیکن مجتبیٰ حسین کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے ممدوح کی تعریف کرتے کرتے کب کھچائی شروع کردیں، پتہ ہی نہیں چلتا۔یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں سے ان کے اچھے خاصے تعلقات تھے، جب انھوں نے ان کا خاکہ لکھا تو یہ تعلقات یاتو کشیدہ ہوگئے یا پھر ختم ہوگئے۔ بقول خود:
”میرے لکھے ہوئے خاکوں کا پہلا مجموعہ’آدمی نامہ‘پہلی بار 1981میں شائع ہواتھا۔ ادبی حلقوں نے اس کی جس طرح پذیرائی کی اور کررہے ہیں،اس کا مجھے گمان بھی نہ تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس پذیرائی کا فائدہ میرے پبلشر کو بھی پہنچاہے کہ نہیں، اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ پذیرائی میرے حق میں نقصان دہ ثابت ہوئی۔ اب ہر دوست مجھ سے اس مقصد کے تحت ملتا ہے کہ میں اس کا خاکہ لکھ دوں۔ گویا احباب سے میرے تعلقات اب اتنے بے لوث نہیں رہے، جیسے کہ ہونے چاہئے۔ دو ایک احباب تو ایسے بھی نکلے جن سے دوستانہ مراسم اس وقت تک قائم رہے، جب تک کہ میں نے ان کا خاکہ نہیں لکھ دیا۔“
(مجتبیٰ حسین، ”سو ہے وہ بھی آدمی‘‘اشاعت 1987حیدرآباد، صفحہ7)
کالم نگاری
کالم نگاری دراصل بنیادی طور پر صحافت کا شعبہ ہے۔اس شعبے میں ماضی میں جن لوگوں نے نام کمایا، ان میں مولانا ظفر علی خاں، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہراور چراغ حسن حسرت کے کالم اپنے دور میں خاصے مقبول رہے ہیں۔ کالم نگاری کی صنف کو اصل عروج آزادی کے بعد حاصل ہوا اور اس نے ادب کے میدان میں باقاعدہ اپنی جگہ بنائی۔ پاکستان کے کئی ادیبوں نے اپنی ادبی نگارشات سے زیادہ کالم نویسی میں نام کمایااور اپنے فن کا ایسا جادو جگایا کہ کالم نگاری باقاعدہ ادب کی ایک صنف تسلیم کی جانے لگی۔ابن انشاء، احمد ندیم قاسمی، ابراہیم جلیس، مجید لاہوری اور شوکت تھانوی نے آزادی کے بعد اس صنف کو اعتبار بخشا۔ہندوستان کی اخباری صحافت میں صرف دونام ایسے ہیں جنھوں نے مزاحیہ کالم نگاری میں اپنی شناخت بنائی۔ ان میں پہلا نام فکر تونسوی(پیازکے چھلکے) اور دوسرا نام مجتبیٰ حسین(میرا کالم) کا ہے۔لیکن اگرآپ برصغیر میں طنزومزاح کے عصری منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اس میں چار نام بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان میں پہلا نام اور سب سے نمایاں نام اردو طنز ومزاح کے بے تاج بادشاہ مشتاق احمد یوسفی کا ہے۔ دوسرا نام مشفق خواجہ کا ہے، جنھوں نے خامہ بگوش کے قلمی نام سے ’سخن در سخن‘ کے عنوان سے بہترین طنزیہ اور مزاحیہ کالم لکھے اور بہتوں کو ناراض کیا۔اس ذیل میں تیسرا نام مجتبیٰ حسین کا تھاجنھوں نے حال ہی میں ہمیں داغ مفارقت دیا ہے۔اس سلسلے کا چوتھا نام ممتاز کالم نگارعطاء الحق قاسمی کا ہے۔ پہلی تینوں شخصیات ہمیں داغ مفارقت دے گئی ہیں اور اب برصغیر کے مزاحیہ ادب کے منظر نامے پرہمارے کرم فرما عطاء الحق قاسمی کا نام ہے۔ خدا انھیں لمبی عمر عطا فرمائے۔ رخصت پذیر مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی کو چھوڑ کر باقی تینوں مزاح نگاروں کی مشترکہ خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اخبارات و جرائد میں کالم نگاری کے ذریعہ ادب میں اپنی مضبوط اور مستحکم شناخت بنائی۔مشفق خواجہ نے پہلے روزنامہ ’جسارت‘ میں اور اس کے بعد ہفتہ وار ’تکبیر‘ میں خامہ بگوش کے قلمی نام سے اپنا مقبول عام طنزیہ اور مزاحیہ کالم ’سخن در سخن‘لکھا۔مجتبیٰ حسین نے اپنے قلمی سفر کاآغاز حیدرآباد کے مقبول روزنامے ’سیاست‘ کیا او اس میں ’میراکالم‘ کے عنوان سے مسلسل برسوں کالم نگاری کی۔ ان کی بیشتر کتابیں انھیں کالموں کا انتخاب ہیں۔ عطاء الحق قاسمی برسوں سے روزنامہ ’جنگ‘ میں اپنا مقبول عام مزاحیہ کالم ’روزن دیوار سے‘ تحریر فرمارہے ہیں۔ اس کالم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ تقریباً یومیہ شائع ہوتا ہے، جبکہ مشق خواجہ اور مجتبیٰ حسین کے کالم ہفتے میں ایک بار شائع ہوا کرتے تھے۔مجتبیٰ حسین کے ان دلچسپ کالموں کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کالموں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھیں آپ ادب کی کئی اصناف میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے کالموں کے ذریعے اپنے قارئین پر گہری چھاپ چھوڑی۔ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے تھے ا س کا پورا حق ادا کرتے تھے۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ روزنامہ ’سیاست‘ میں ان کی کالم نگاری کا آغاز محض اتفاقیہ طور پر ہواتھا۔انھوں نے اپنے مضمون ”میں اور میرا مزاح“ میں لکھاہے:
مجتبیٰ حسین نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز حیدرآباد سے کیا، لیکن اپنی عملی زندگی دہلی میں بسر کی۔ حالانکہ وہ نہ دہلی کے تھے اور نہ حیدرآباد ان کا وطن تھا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ دہلی والے انھیں اتنا ہی اپنا سمجھتے تھے جتناکہ حیدرآبادوالے۔اب میں آپ کو اس شام کا قصہ سناتا ہوں جو د11 ستمبر 2005کو مجتبیٰ حسین کے ساتھ دہلی اردو اکادمی نے برپا کی تھی اورجس پرمیں نے ایک رپورتاژ لکھا تھا۔ نہ جانے کیوں یہ رپورتاژ انھیں اتنا پسند آیا کہ وہ اسے اپنے ہر چاہنے والے کو پڑھنے کا مشورہ دیتے تھے۔اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”مجتبیٰ حسین کے تعلق سے اب یہ تنازعہ اٹھ کھڑا ہواہے کہ وہ اصلاً دہلی کے ہیں یا حیدرآباد کے۔ دہلی والوں نے ان پر ملکیت کا دعویٰ کیا ہے جبکہ وہ حیدرآبادیوں کے لئے وہ ’برسوں‘ سے اپنے ٹھہرے۔ یہ بات علاحدہ ہے کہ ان کی پیدائش نہ دہلی میں ہوئی اور نہ حیدرآباد میں بلکہ انھوں نے جب اس دنیائے رنگ وبومیں آنکھ کھولی تو خود کو گلبرگہ میں پایا۔ وہی گلبرگہ جو خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی سرزمین ہے۔ اس جلسہ کے مہمان خصوصی خواجہ حسن ثانی نظامی نے یہ کہہ کر سب کو خاموش کردیا کہ خودخواجہ بندہ نواز نے اپنی عمر کے85 برس دہلی میں گزارے اور105 برس کی عمر میں انتقال کیا اور اتنی ہی تصنیفات یادگار چھوڑیں۔ مہمان خصوصی نے ایک مقرر کا یہ الزام بھی مسترد کردیا کہ مجتبیٰ حسین کا لب ولہجہ حیدرآبادی ہے۔ انھوں نے کہا کہ”مجتبیٰ حسین کی تحریروں میں جو سا دگی اور پرُکاری ہے، وہ دلی کا خاصہ ہے اور وہ دہلی اسکول ہی کی نمائندگی کرتے ہیں، لہٰذا میں ان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہوں۔ کاش کہ ہمیں کوئی ایسا اختیار مل جائے کہ ہم ان کا حیدرآباد آنا جانا بند کردیں اور اگر کسی نے میرے اس دعوے کو چیلنج کیاتو اس کے لئے میں ایک پی آئی ایل داخل کرکے اپنا حق ثابت کرسکتا ہوں۔“
پروگرام کے آخر میں خود مجتبیٰ حسین نے اپنے بارے میں جوکچھ کہا وہ ان کی شہریت کے تعلق سے کم دلچسپ نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ”دہلی والوں نے میری شام مناکرمجھے بڑے تذبذب سے نکالا، کیونکہ ان دنوں میرا زیادہ وقت حیدرآباداور دہلی کے درمیان حالت سفر میں گزرتا ہے۔ حیدرآبادی مجھے دہلی والا سمجھتے ہیں اور دہلی والے حیدرآبادی، گویا کہ میں ایک دوشہرا شہری ہوکر رہ گیا ہوں۔ میں نے دہلی میں اپنی زندگی کا سب سے لمبا عرصہ 33برس گزارا ہے جو میرے لئے صدیوں کی زندگی جیسا ہے، کیونکہ میں گھنٹوں میں نہیں بلکہ لمحوں میں جیتا ہوں۔ میرے لئے زندگی دراصل زندہ دلی کا دوسرا نام ہے۔“
(’نیا دور‘ لکھنؤ، مجتبیٰ حسین نمبر، بابت ستمبر2018میں صفحہ 60 اور61)
مجتبیٰ حسین کے ساتھ منائی گئی اس شام کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے کہا تھا کہ:
”مجتبیٰ حسین کا المیہ یہ ہے کہ تشدد اور شورشرابے سے بھری دنیا میں وہ اپنی ظرافت کے ذریعہ نالے کو نغمہ بنانے کا جتن کرتے ہیں۔ مزاح نگار دراصل درد اور دہشت کی فضا کے خلاف ایک دفاعی مورچہ ہے۔ مجتبیٰ حسین نے مزاح نگاری کو ایک اخلاقی قدراور انسانی ذہانت کے سنجیدہ عمل کے طور پر اپنایا ہے۔“
حقیقت بھی یہی ہے۔ وہ جس طرح نالے کو نغمہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی مثالیں ان کی تحریروں سے دی جاسکتی ہیں۔خود اپنی مزاح نگاری کے بارے میں مجتبیٰ حسین نے اپنے مضمون ’میں اور میرا مزاح‘ میں اس کیفیت کو بھرپور انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”میرا خیال ہے کہ مزاح نگاری صحیح معنوں میں ایک ’کیفیت‘ کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہ بڑی عجیب وغریب کیفیت ہوتی ہے جہاں پہنچ کر آدمی ذات کو بھی بھول جاتا ہے۔ اس لئے مزاح نگار کبھی خود غرض نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک مزاح انسان کے پیمانہ وجود کے لبریز ہوکر چھلک پڑنے کا نام ہے۔ جب انسان کے وجود کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو وہ قہقہوں میں چھلکنے لگتا ہے۔۔۔لوگ مزاح کی کیفیت کوبہت معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ سچا مزاح وہی ہے جس کی حدیں سچے غم کی حدوں کے بعد شروع ہوتی ہیں۔زندگی کی ساری تلخیوں اور اس کی تیزابیت کو اپنے اندر جذب کرلینے کے بعدجو آدمی قہقہے کی طرف جست لگاتا ہے، وہی سچا اور باشعور قہقہہ لگاسکتا ہے۔ ہنسنے کے لئے جس قدر گہرے شعور اور ادراک کی ضرورت ہوتی ہے، اتنے گہرے شعور کی ضرورت شاید رونے کے لئے درکار نہیں ہوتی۔“
مجتبیٰ حسین کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی طنزومزاح سے بھرپور تحریروں کی طرح ذاتی گفتگو میں بھی خاصے بڑے مزاح نگار تھے۔عام طور پر مزاح لکھنے والے ذاتی زندگی میں بڑے سنجیدہ اور متین نظر آتے ہیں اور وہ لوگوں کو اپنی تحریروں کی حد تک ہی مزاح سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیتے ہیں، لیکن مجتبیٰ حسین نجی گفتگو اور محفلوں میں بھی خوب رنگ جماتے تھے۔ایک قصہ ملاحظہ فرمائیے۔دہلی میں کرناٹک کے مشہور سیاسی لیڈر جعفر شریف ہربرس ایک بڑی افطار پارٹی منعقد کرتے تھے۔ اس میں ’روزہ داروں‘ کا ہجوم ہوتا تھا۔ ایک بار اس افطار پارٹی میں مجتبیٰ حسین سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے حکم دیا کہ جب یہاں سے
شاید بیڈ روم کے آئینے کے سامنے ہوں گے۔“ میں نے سوچا شاید آپ بھی آئینے کے سامنے کھڑے ہوں۔ بھلا بتائیے اس بڑھاپے میں بھی زبیر کو آئینے کا اتناشوق ہے۔
میں گزشتہ 47 برس کے دہلی کے ادبی منظرنامے کا عینی گواہ ہوں۔ یہ زمانہ دہلی میں ادبی سرگرمیوں کے عروج کازمانہ تھا۔ ان تقریبات کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ مجتبیٰ حسین ان کا لازمی حصہ ہواکرتے تھے۔ شاید ہی ایسی کوئی تقریب ہو جس میں ان کی غیر حاضری ہوئی ہو۔آج دہلی کا ادبی منظرنامہ بہت اداس کرتا ہے، کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ وہی لوگ ان تقریبات میں شریک ہوتے ہیں، جنھیں اسٹیج پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔پروگرام شروع ہونے کے بعد جب یہ لوگ سامعین کی نشستیں خالی کرکے اوپر بیٹھ جاتے ہیں تو نیچے کی نشستیں خالی ہوجاتی ہیں اور مقررین ان ہی خالی نشستوں کوخطاب کرتے رہتے ہیں۔ لیکن میں نے اس دہلی میں ایسی بھرپور محفلیں دیکھی ہیں جن میں ادب کی بڑی بڑی شخصیات صف سامعین میں نظر آتی تھیں اور ہال کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا۔
گزشتہ دنوں دہلی اردو اکادمی نے مجتبیٰ حسین کو جب اپنے سب سے بڑے اعزاز ’بہادر شاہ ظفر ایوارڈ‘ سے نوازنے کا فیصلہ کیاتو سب سے پہلے میں نے انھیں فون پریہ خوش خبری سنائی۔انھیں میری بات پر یقین نہیں آیا، کیونکہ پچھلے کئی برسوں سے ان کا یہ حق مارا جارہا تھا۔ انھوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ یہ ایوارڈ انھیں نہیں مل سکتا، کیونکہ ہمارے نقاد اور ادب کے کارپرداز طنز ومزاح کو دویم درجے کی صنف سمجھتے ہیں۔ انھیں جب یقین ہوگیا کہ واقعی انھیں طنزومزاح کاآخری تاجدار تسلیم کرتے ہوئے آخری مغل تاجدار کے نام سے منسوب ایوارڈ تفویض کیا گیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور ایوارڈ وصول کرنے حیدرآباد سے چل کر دہلی آئے۔مجھے انھیں دیکھ کر دھچکا سا لگا، کیونکہ وہ بغیر سہارے کے کھڑے نہیں ہوپا رہے تھے۔ایوارڈ وصول کرنے کے بعد انھوں نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا”میاں اب میں واقعی بوڑھا ہوچکا ہوں اور اپنا سامان باندھنے کی تیاری کررہا ہوں۔“
مجتبیٰ حسین نے طنز ومزاح سے بھرپور تحریریں لکھیں اور ہم سب کو ہنساہنسا کرلوٹ پوٹ کرتے رہے، یہاں تک کہ قبر میں جاتے جاتے بھی ہمارے لئے ہنسی کا سامان کرگئے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو بندشیں لگائی گئی تھیں، ان کے تحت آخری رسومات میں صرف بیس لوگ ہی شریک ہوسکتے تھے جبکہ شادی میں شرکت کے لئے پچاس لوگوں کو شرکت کی چھوٹ تھی، لیکن مجتبیٰ حسین کے جنازے میں پچاس لوگ شریک ہوئے۔ یہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا یا پھر یوں ہی ہوگیا، مجھے نہیں معلوم۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کا انتقال اگر عام حالات میں ہوتا تو ان کے جنازے میں ہزاروں سوگواروں کا ہجوم ہوتا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے جنھیں ان سے سچی محبت تھی اور وہ بھی جنھوں نے ان کی زندگی میں کانٹے بوئے۔
ظاہرہے موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ وہ دہلی سے حیدرآباد شاید یہ سوچ کر منتقل ہوئے تھے کہ وہاں انھیں زیادہ سکون میسر آئے گا، لیکن المیہ یہ ہے کہ خود ان کے شہر میں ایسے بھی لوگ تھے جو ان کا تمسخر اڑاتے تھے اور انھیں نشانہ بناتے تھے۔ لیکن یہاں دہلی میں جہاں انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا، ان کے انتقال کے بعد مجھے بڑی اداسی نظر آئی۔ جس وقت انھوں نے آنکھ موندی تو دہلی کی وہ سڑکیں ویران پڑی تھیں، جن پر انھوں نے برسوں اپنی اسکوٹر دوڑائی تھی۔ان ادبی اداروں میں تالے پڑے تھے، جہاں انھوں نے سینکڑوں محفلوں میں شرکت کی اور انھیں زعفران زار بنایاتھا۔ان کے بغیر دہلی کی ادبی زندگی بڑی سونی اور ویران نظر آتی ہے۔ حالانکہ وہ سب لوگ ہی تقریباً اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، جنھوں نے مجتبیٰ حسین کے ساتھ اپنی زندگی کے بہترین ایا م گزارے۔مجتبیٰ حسین بڑے زندہ دل انسان تھے اور جس محفل میں بھی شریک ہوتے تھے، اسے طنز ومزاح سے بھرپور جملوں سے زعفران زار بنادیتے تھے۔وہ اسٹیج پر ہوں یا پھر صف سامعین میں،ان کی جملے بازی محفل میں رنگ بھرتی تھی۔وہ بات میں بات پیدا کرنے کا ہنر خوب جانتے تھے اور اس میں مزاح کے پہلو نکالتے تھے۔
دہلی، مجتبیٰ حسین کی کمزوری تھی یا طاقت، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔وہ بظاہر این سی آر ٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد یہاں سے حیدرآباد ضرور منتقل ہوگئے تھے، لیکن سچ پوچھئے تو ان کا دل یہیں پڑا رہتا تھا اور وہ اکثر فون پر مجھ سے دہلی کا حال چال اور مشترکہ دوستوں کی خیریت دریافت کرتے تھے۔مجتبیٰ حسین حیدرآباد کا بھرپور ادبی منظر نامہ چھوڑ کر 1971میں گجرال کمیٹی کے سلسلے میں دہلی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ان کے آنے کے بعد دہلی کی ادبی زندگی میں ایک کمی پوری ہوگئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ انھیں یہاں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔پروفیسر گوپی چند نارنگ کے لفظوں میں:
سلوک کی پہلی اور آخری منزل
سلوک کی پہلی منزل، "حاسبوا قبل أن تحاسبوا" اور آخر منزل، "عبادة الفقير نفي الخواطر" ہے۔
کلیات حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادی رحمۃ اللّٰه علیہ/جلد: دوم/صفحہ: ۷۳
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
زندگی شخصی ہو اجتماعی، اس کا مقصد اعلائے کلمۃ اللّٰه ہونا چاہیے
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
شخصی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، اس کے کاموں کی غایت، رضائے الہٰی کی طلب اور احکامِ الہٰی کی تعمیل اور اعلاء کلمۃ اللّٰه کے بلند تخیل کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتی۔ غیر فانی ملت کا مقصدِ حیات، ایسے ہی غیر فانی مقاصد ہوسکتے ہیں، ورنہ محض دنیاوی فوز و فلاح، یعنی دولت و حشمت، عیش کی زندگی اور اسبابِ راحت کی فراوانی اور بلند محلات اور خدم و حشم کی کثرت تو وه پست و متبذل مقاصد ہیں، جو زندگی کا فریب اور حیاتِ انسانی کا سراب ہے۔"ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ"۔(الحج: ٦٢) "كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ"۔
تجدیدِ جامع المجددین/صفحہ: ۳۴/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ریاض الحق ریاض
وفات : 26-05-2006ء
تحریر: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/riazul-haq-riyaz-by-dr.-nigar-sajjad-zaheer/Riazul%20Haq%20Riyaz%20By%20Dr.%20Nigar%20Sajjad%20Zaheer.pdf
*• رنج و غم انسان کو کھاجاتے ہیں •
*
امام اؔبن القیمؒ نے اپنی کتاب” طریق الھجرتین“ میں لکھا ہے:
رنج دل کو کمزور کرتا ہے، حوصلوں کے پروں کو کُتر دیتا ہے اور قوتِ ارادیہ کو کھوکھلا بنادیتا ہے۔
شیطان کو مومن کا رنجور ہونا بہت اچھا لگتا ہے ؛ لہذا آپ اس کی خوشی کا ذریعہ نہ بنیں ؛ بل کہ نیک فالی لیا کریں! آپ کو خیر حاصل ہوگی۔
عزیز دوست! ہم سب اندر ہی اندر کبھی روشنیوں کا شہر ہوتے ہیں اور بسا اوقات دلوں پر تاریکی کا قبضہ ہوجاتا ہے
لہذا ہمیں اندر کی مرمت کی ضرورت ہے تا کہ یہ کائنات بھی ہماری نظروں میں روشنیوں کی مانند چمکدار نظر آئے۔
رنج و غم ( ڈپریشن ) انسان کو تھوڑا تھوڑا کرکے مکمل کھاجاتا ہے
امراض جسمانی بھی انسان کے جسم کو خوراک بناتے ہیں
غمگین اور ڈپریشن زدہ شخص کو نہ کسی کا ساتھ اچھا لگتا ہے نہ ہی کسی نعمت سے وہ لذت پاتا ہے
بل کہ وہ اسی رنج و غم کو کسی زہر کی طرح تھوڑا تھوڑا معدے میں اتارتا رہتا ہے
دوست! دن تو ادلتے بدلتے رہتے ہیں، ہم سب ہی رنج و غم کے شکار ہیں ؛لیکن فرق اتنا ہے: کہ آپ اپنی فکر و الجھنوں کو اپنے دل کا مکیں بناتے ہیں یا اس کو چند لمحات کا مہمان سمجہتے ہیں!
چلو! اٹھو! اور دل کے در و دیوار سے حزن و رنج کے غبار کو جھاڑدیں!
آپ اکیلے تنہاء ہی تو اس رنج کا شکار نہیں ہوئے ہیں ؛ ہم سب اس سے دوچار ہوئے ہیں۔
دکتور ادھم شرقاوی
کتاب: رسائل من التابعین/ 63
افسوسناک خبر
ٹمل ناڈو سر قاضی مولانا صلاح الدین محمد ایوب صاحب کا انتقال ہوگیا ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مسلمان جب فاتحانہ یورپ تک پہنچے اور یورپ میں ان کو حکمت و دانش کا ورثہ ملا تو نہایت بے تعصبی کے ساتھ اسے گلے لگایا اور سر آنکھوں پر رکھا؛ لیکن جلد سے جلد اس علمی سرمایہ کو عربی زبان میں منتقل کر لیا، عباسی دور میں اس سلسلہ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے گئے وہ کسی صاحب ِعلم کیلئے محتاج اظہار نہیں، ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے مادری زبان سے محرومی کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے دینی علوم و معارف کا بہت بڑا حصہ اُردو زبان میں ہے، انگریزی یا دوسری مقامی زبانوں میں اسلام پر جو کچھ کام ہوا ہے، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں، ان حالات میں اگر ہماری نسلیں اردو سے نابلد اور ناواقف رہیں تو یہ براہِ راست دین و ایمان سے ان کا رشتہ کاٹ دینے جیسا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردو ذریعہ تعلیم کے معیاری مدارس قائم کریں، بچوں کو مادری زبان میں کم سے کم میٹرک تک تعلیم دیں اور انگریزی کو بھی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھائیں ؛ تاکہ وہ اصل فن میں آگے بڑھ سکیں اور جو صلاحیت محض سمجھنے اور سمجھانے میں صرف ہوتی ہے، وہی صلاحیت اصل مضمون میں استعمال ہو، یہ ان شاء اللہ ان کی تعلیمی ترقی کا ضامن ہوگا۔ اگر آپ ہر سال رینک لانے والے طلبہ کا جائزہ لیا لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کی۔ مہاراشٹر میں بحمدللہ کئی سال سے مسلم طلبہ اُردو سے تعلیم پا کر امتیازی کامیابی حاصل کررہے ہیں اور رینک لا رہے ہیں۔ انگلش میڈیم کا جو طوفان اس وقت آیا ہوا ہے اور غالباً مسلمان اس کے زیادہ شکار ہیں، وہ جہاں معاشی اعتبار سے متوسط خاندان کے لوگوں کی کمر توڑ رہا ہے، وہیں یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بہت سے بچوں کیلئے یہ تعلیم ایسا بوجھ ثابت ہوتی ہے کہ وہ چند قدم چل کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنا تعلیمی سفر مکمل نہیں کرپاتے۔ اس کے علاوہ اُردو زبان سے ناواقفیت انہیں سماج سے بھی کاٹ دیتی ہے، وہ اپنے خاندان کے بزرگوں سے کسی اہم موضوع پر مؤثر گفتگو نہیں کر سکتےاور دین و مذہب سے جو ان کا رشتہ کمزور ہوتا ہے وہ نقصان تو سب سے سوا ہے، اس لئے اُردو ذریعۂ تعلیم کی درس گاہیں قائم کرنا، اپنے تعاونِ عمل سے انہیں مستحکم کرنا اور ان کو تقویت پہنچانا وقت کی اشد اور اہم ضرورت ہے اور اسی میں ہمارے مذہب اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت ہے۔
Читать полностью…م حسن لطیفی (وفات 23-05-1959ء)
تحریر: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/m-hasan-latifi-by-dr.-nigar-sajjad-zaheer/M%20Hasan%20Latifi%20By%20Dr.%20Nigar%20Sajjad%20Zaheer.pdf
عبد المجید ندوی شہید رحمہ اللہ
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر…
آج 23 مئی 2025 ہے—وہ تاریخ جسے مدرسہ الاصلاح اور دیارِ اعظم گڑھ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ چونتیس برس بیت چکے ہیں اس المناک دن کو، جب علم، دیانت، غیرت اور عزیمت کی ایک روشن شمع راہِ حق میں بےدردی سے بجھا دی گئی۔ مولانا عبدالمجید ندویؒ کی شہادت صرف ایک فرد کا فراق نہ تھی، بلکہ ایک مکتبِ فکر، ایک طرزِ عمل اور ایک تہذیبی روایت کے درخشاں باب کا خاتمہ تھا۔ ان کے بعد بےشمار چہرے ابھرے، کئی آوازیں بلند ہوئیں، مگر وہ خاص لہجہ، وہ نادر مزاج، اور وہ بےمثال اخلاقی استقامت جو ان کی ذات میں سمٹ آئی تھی—پھر کہیں دکھائی نہ دی۔
مولانا عبدالمجید ندویؒ ان معدودے چند شخصیات میں سے تھے، جن کا وجود خود ایک عہد کا تعین کرتا ہے۔ اعظم گڑھ کے مردم خیز گاؤں، چکیا حسین آباد کی زرخیز مٹی میں 25 جون 1939ء کو ان کی ولادت ہوئی۔ یہ وہ ساعتِ سعید تھی جس نے ایک ایسے جوہر کو جنم دیا، جس کا نور نہ صرف اپنے وقت کی ظلمتوں کو چیر گیا بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی صداقت، دیانت اور اخلاص کا مینارِ ہدایت بن گیا۔ ان کی شخصیت علم و عرفان، عدل و حلم، روحانیت و بصیرت، اور فکری وقار کا دل آویز امتزاج تھی۔
مدرسہ الاصلاح سے ان کی وابستگی محض ایک طالب علم کی حیثیت سے نہ تھی، بلکہ وہ اس مادرِ علمی کی روح میں رچ بس گئے تھے۔ بعد ازاں تدریس اور انتظام کی ذمہ داریاں سنبھال کر انہوں نے مدرسہ کی علمی و روحانی فضا کو ایک نئی تازگی بخشی۔ وہ صرف معلم نہ تھے بلکہ مربی، مرشد اور رہنما تھے—ایسے رہنما جو نہ صرف علم بانٹتے بلکہ سیرت سنوارتے، نہ صرف تدریس کرتے بلکہ تزکیہ بھی فرماتے۔
ان کی مجلس علم و حلم، فہم و بردباری، اور عدل و شفقت کا حسین سنگم ہوتی۔ ان کا چہرہ متانت کا آئینہ دار اور زبان ایک متوازن شعور کی مظہر تھی۔ مدرسہ میں ان کے دو ادوارِ قیادت نے ادارے کو فکری استحکام، علمی وقار، اور تنظیمی شفافیت کی وہ مثالیں عطا کیں جنہیں آج بھی حسرت سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ اصول کے پاسدار، دیانت کے نگہبان، اور عدل کے علَم بردار تھے۔ ان کے فیصلے شخصی میلانات یا وقتی مصلحتوں کے بجائے صرف اور صرف حق و انصاف کے پیمانے پر تلے جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر دل میں راسخ اور ہر ذہن میں معتبر ہو گئے۔
انہوں نے ادارے کی تعمیر و ترقی میں جو اخلاص، ایثار اور یکسوئی دکھائی، وہ آج کے زمانے میں خال خال نظر آتی ہے۔ ان کے لیے ذاتی راحت بےمعنی تھی۔ دن مجاہدوں میں اور راتیں تعمیر کی تدبیروں میں بسر ہوتیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنی توانائیاں بلکہ اپنی خانگی آسائشیں اور ذاتی ترجیحات بھی مدرسہ کے مقصد پر نثار کر دیں۔ ان کا خواب ایک ایسا مدرسہ تھا، جو علم و تقویٰ، حکمت و بصیرت کا حسین مرقع ہو۔
ان کا مزاج حد درجہ متوازن، اصولی اور باوقار تھا۔ رعایت کے قائل نہ تھے، مگر ناانصافی سے بھی سخت نفرت تھی۔ ان کی حق گوئی بےباک تھی، جو بسا اوقات سختی کا تاثر دیتی، لیکن وہ جانتے تھے کہ صداقت کی راہ اکثر تنہا اور پرخطر ہوتی ہے۔ اسی جرات و عدل کی وجہ سے کئی اہلِ علم ان کے دور کو "عہدِ فاروقی" سے تعبیر کرتے تھے—اور یہ محض ستائش اور مبالغہ آرائی نہ تھی، بلکہ ان کی عدل پروری اور بےلاگ قیادت کا زندہ استعارہ تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ان کی وابستگی بھی اسی اصول پسندی کی غماز تھی۔ جب انہیں محسوس ہوا کہ وہاں کے ماحول میں اقدار سے انحراف ہو رہا ہے، تو انہوں نے بغیر کسی تردد کے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے نزدیک ضمیر ہی سب سے بڑا مقتدا تھا، اور وہ اس کی رہنمائی کے بغیر ایک قدم بھی اٹھانے کو تیار نہ تھے۔
اگرچہ وہ کوئی ضخیم تصنیف چھوڑ کر نہیں گئے، مگر ان کے علمی و فکری مقالات، ان کے متعدد گراں قدر کتابچے، ان کی نثر کی شفافیت، اور بیانات کی گیرائی اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ اگر حالات سازگار ہوتے، تو وہ ہمارے عہد کے ان مفکرین میں شمار ہوتے جن کا تذکرہ آئندہ نسلیں افتخار سے کرتیں۔ ان کی ذات ایک مرجع تھی—علمی رہنمائی ہو یا اجتماعی معاملات، فیصلوں میں ان کی بصیرت حرفِ آخر سمجھی جاتی۔ ان کا قول دلیل، اور فیصلہ حجت ہوتا۔
پھر وہ دل خراش لمحہ آیا—23 مئی 1991ء کو، سرائے رانی کے مقام پر وہ راہِ حق میں شہید کر دیے گئے۔ ان کا لہو مدرسہ الاصلاح کی مٹی میں ہمیشہ کے لیے رچ بس گیا، اور ان کی شہادت نے ان کے کردار کو دوام عطا کر دیا۔ جسمانی طور پر وہ رخصت ہو گئے، مگر ان کا اخلاص، دیانت، فکری بصیرت اور ایثار آج بھی مدرسہ کی فضا میں سانس لیتا ہے، ہر گوشے سے ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔
چونتیس برس بیت چکے ہیں، مگر ان کی کمی آج بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ مدرسہ الاصلاح آج جن فکری بحرانوں، تنظیمی پیچیدگیوں اور اخلاقی زوال سے دوچار ہے، وہ ایسے مخلص، بےلوث اور باکردار قائدین کی عدم موجودگی کا آئینہ ہیں۔ ایسے لمحے دل سے یہ صدا نکلتی ہے:
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر…
انوادہ عثمانیہ بدایوں (تعارف و خدمات)
. ڈاکٹر محمد سہیل شفیق - May 23, 2025
خانواده عثمانیہ بدایوں ( تعارف و خدمات )
مصنف : ڈاکٹر مظہر حسین بھدرو
صفحات : 438 ، قیمت : 2000 روپے
ناشر : ورلڈ ویو پبلشرز ، لاہور
خانوادہ عثمانیہ(بدایوں) کا شمار برصغیر پاک و ہند کے ممتاز علمی، دینی اور روحانی خانوادوں میں ہوتا ہے۔ اس خانوادے کے مورثِ اعلیٰ علامہ قاضی دانیال قطری ہیں، جن کا سلسلۂ نسب 16 واسطوں سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ قاضی قطریؒ ساتویں صدی ہجری میں عرب سے ترکِ سکونت کرکے ہندوستان تشریف لائے اور بدایوں کو اپنا مسکن بنایا۔ سلطان شمس الدین التمش نے آپؒ کو بدایوں کا قاضی القضاۃ مقرر کیا۔
علامہ قطری کے ایک بیٹے شیخ شمس الحق اور دوسرے قاضی غیاث الدین تھے۔ بدایوں کا عثمانی خاندان شیخ شمس الحق کی اولاد ہے۔ اس خانوادے کی نشاۃِ ثانیہ علامہ شاہ عبدالمجید قادریؒ سے ہوئی، جنھوں نے 1235ھ میں خانقاہ قادریہ بدایوں کی بنیاد رکھی۔ اس خانوادے میں درس و تدریس، قضا و افتاء، تقویٰ و طہارت، تصوف و روحانیت خاندانی ورثے کے طور پر نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔گزشتہ دو صدیوں میں علومِ دینیہ کے فروغ میں اس خانوادے کے جن علماء و مشائخ نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں ان میں علامہ شاہ عبدالمجید قادری، علامہ فضل رسول بدایونی، علامہ عبدالقادر بدایونی، علامہ عبدالمقتدر قادری، علامہ عبدالقدیر بدایونی، علامہ عبدالماجد بدایونی، علامہ عبدالحامد بدایونی، علامہ عبدالحمید سالم القادری اور علامہ اسید الحق قادری شہید کے نام نمایاں ہیں۔ ان جلیل القدر بزرگوں نے اپنے اپنے عہد کے جید علما اور معروف علمی مراکز سے استفادہ کیا اور خود بھی علم و ادب، شریعت و طریقت اور قومی و ملّی خدمات میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
پیشِ نظر کتاب ’’خانوادہ عثمانیہ بدایوں (تعارف و خدمات)‘‘ نوجوان محقق ڈاکٹر مظہر حسین بھدرو (شعبہ علومِ اسلامیہ، خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی، پنجاب)کا پی ایچ۔ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جو انھوں نے شعبہ عربی و علومِ اسلامیہ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹر محمد عابد ندیم کی زیرِ نگرانی مکمل کیا ہے۔
خانوادہ عثمانیہ کے عظیم مشاہیر اور ان کی دینی، فکری اور سماجی خدمات سے مزین یہ عمدہ تحقیقی مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کے شجرہ نسب کو عہدِ رسالت مآبﷺ سے لے کر تاحال بیان کیا گیا ہے۔ خانوادہ عثمانیہ کے اساتذہ و شیوخ کا تذکرہ شامل ہے، جن میں علمائے فرنگی محل اور علمائے خیر آباد شامل ہیں۔ خانوادہ عثمانیہ کے علماء و مشائخ کا بلاواسطہ اور بالواسطہ سلسلۂ تلمذ بھی بیان کیا گیا ہے اور خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کی دینی و ملّی خدمات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
باب دوم میں خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کے مشاہیر کی دینی و ملّی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں علامہ فضل رسول بدایونی، علامہ عبدالقادر بدایونی، مولانا فیض احمد بدایونی، علامہ عبدالماجد بدایونی، علامہ عبدالحامدبدایونی اور علامہ اسید الحق قادری شامل ہیں۔
باب سوم میں خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کے علماء، محققین، تذکرہ نویس، ادباء، شعراء، اور دینی و ملّی قائدین کی تصنیفی خدمات کا احوال تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کے علماء و مشائخ نے جو کتب تالیف کیں ان میں قرآن، حدیث، علم الکلام، تذکرہ نویسی، ادب، سماجیات، معاشیات، فلسفہ، تصوف، استغراب اور سیاسیات جیسے مباحث شامل ہیں۔
باب چہارم میں خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کے کثیر جہتی سلسلہ طریقت کو بیان کیا گیا ہے۔ خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کے مشائخ نے مختلف ادوار میں مختلف سلاسلِ طریقت اور صوفیہ سے اپنا روحانی رشتہ قائم کیا اور ان کے فیضان کو مخلوقِ خدا تک پنچایا، جس کے دوررس اور ثمربار نتائج برآمد ہوئے۔ ان سلاسلِ تصوف میں سلسلہ چشتیہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ قادریہ اور سلسلہ مداریہ شامل ہیں، جن کا مفصل احوال بیان کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ دو صدیوں میں خانقاہ قادریہ عثمانیہ کی مسند سجادگی پر متمکن مشائخ کا احوال بھی اس باب میں شامل ہے۔
باب پنجم میں خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کی علومِ اسلامیہ کے فروغ و اشاعت کے ضمن میں علمی، دینی، ملّی اور فکری خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خانوادہ عثمانیہ کے علماء و مشائخ، علمائے مدرسہ قادریہ، متعلقین اور تلامذہ کی تصانیف کی تعداد کثیر ہے جن کی دستیاب فہارس کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ نیز خانوادہ عثمانیہ کے علماء و مشائخ کی تصنیفات و تالیفات کے منہج و اسلوب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مزید برآں اس باب میں برصغیر پاک و ہند کے طول وعرض اور اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے خانوادہ عثمانیہ کے تلامذہ کے احوال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
*اقدار کی اہمیت اور آج کے انسان کی زندگی*
رشید احمد صدیقی مرحوم نے لکھا ہے:
انسان کی صالح و صحت مند زندگی کا مدار، اس پر ہے کہ اس کے ہاں اقدار کی اہمیت کیا ہے؟ اور اقدار کے لیے ضروری ہے کہ ان میں استقلال ہو اور وہ ہوا کے ہر جھونکے سے زیر و زبر نہ ہوں۔ یہ اقدار نتیجہ ہوتے ہیں مدتوں کے تجربے اور ریاضت کا۔ زندگی کی کشتی کو طرح طرح کے طوفانوں سے محفوظ رکھنے کے لیے، اقدار وہی کام کرتے ہیں، جو لنگر اور ناخدا کرتے ہیں۔ آج سے پہلے زندگی میں "وہ مرکزِ گریز" سرعت اور شدت نہیں تھی، جو اب ہے اور یہ آتی ہے عقل چکرا دینے والی اس صدی کی ان ایجادات سے، جنہوں نے زندگی کی آنے والی صدیوں کو مہینوں اور ہفتوں میں سمیٹنا شروع کردیا ہے۔ مستقبل کو حال میں کھینچ لانے کی مدت، جتنی مختصر کرتے جائیں گے، اتنی ہی جلد جلد، حال ماضی میں منتقل ہوتا رہے گا اور ماضی کی قدر و قیمت، کم ہوتی جائے گی۔ جہاں اور جب یہ صورت حال ہوگی، وہاں زندگی میں اختلال راہ پائے گا اور غیر یقینی بڑھے گی۔ آج کل ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔
آشفتہ بَیانی میری/صفحہ: ۷۵/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
میں شریف الحسن نقوی تھے۔ حالانکہ اس وقت بھی وہ اردو میں کمر کمر ہی نہیں گلے گلے ڈوبے ہوئے تھے۔سید شریف الحسن نقوی کو پہلی بار میں نے آٹھ نو سال پہلے دیکھا تھا۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کو اچانک پرائمری اسکول کے ٹیچروں کی ضرورت لاحق ہوگئی تھی اور اس مقصد کے لئے ایک سلیکشن کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ شریف الحسن نقوی اور میں اس سلیکشن کمیٹی کے رکن تھے۔ لگاتار چار دنوں تک ہم لوگوں نے سینکڑوں امیدواروں کا انٹرویو لیا۔ سلیکشن کمیٹی کا ممبر ہونے کے ناتے امیدواروں کی معرفت میری معلومات میں بعض دلچسپ اضافے بھی ہوئے۔ مثلاً مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ غالب کوئلہ بیچنے کاکاروبار کرتے تھے۔ میر تقی میر کی کپڑے کی دکان چاندنی چوک میں تھی۔ محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ ایک تصنیف نہیں بلکہ ان کی ایجاد کردہ ایک دوا کا نام ہے۔الطاف حسین حالی نہ صرف پانی پت کے رہنے والے تھے بلکہ پانی پت کی ایک لڑائی میں مارے بھی گئے تھے۔ میں ایسی معلومات پر ہنس دیتا تو شریف الحسن نقوی مجھے منع کرتے کہ ’اس طرح ہنسنے سے امیدواروں کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ اگر الطاف حسین حالی پانی پت میں پیداہوسکتے ہیں تو وہاں کسی لڑائی میں مارے بھی جاسکتے ہیں۔ آپ کو کیا تکلیف ہے۔“
(مجتبیٰ حسین:’مہرباں کیسے کیسے‘اشاعت 2010 ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، صفحہ225)
شریف الحسن نقوی کا یہ دلچسپ خاکہ خاصا طویل ہے اور اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ خاکہ نگاری میں طنز ومزاح کے کیسے کیسے پہلو پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنی اس شناخت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جو طنزومزاح نگار کے طور پر سب سے زیادہ مستحکم ہے۔ یہی بات ان کے انشائیوں، کالموں اور سفرناموں کا بھی طرہ امتیاز ہے۔مجتبیٰ حسین جیسے زود نویس قلم کاروں کی تعداد ہمارے ہاں بہت کم ہے۔ ان کی تصنیفات کی تعداد دودرجن کے قریب ہے اور ہر کتاب طنزیہ اور مزاحیہ ادب کا شاہکار ہے۔یہ تمام تحریریں دراصل ان کے کالموں سے ہی کشید کی گئی ہیں۔ ان کے فن کو ہمارے عہد کے تمام بڑے نقادوں اور سربر آوردہ ادیبوں نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ میرزا ادیب کا تاثر ملاحظہ فرمائیں:
”جس طرح دیوانگی کے لئے فرزانگی کی ضرورت ہے، اسی طرح مزاح نگار کے لئے حقیقی سنجیدگی درکار ہے۔ مجتبیٰ حسین کے مزاح میں سنجیدگی ہے اور سنجیدگی میں مزاح۔زندگی کے مسائل کی تفہیم میں وہ بڑے سنجیدہ ہیں مگر ان کا انداز پیشکش طنزیہ ومزاحیہ ہے۔“
”اب ذرا میرے مزاح کی طرف آئیے۔میرا مزاح بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ میں ہوں۔ بے ضرر، بے ہنگم اور بے معنی، اس میں معنی اس لئے تلاش نہیں کرتا کہ اب الفاظ بھی اپنے معنی کھوتے جارہے ہیں۔ آپ تعجب کریں گے کہ میری مزاح نگاری کی بنیاد ایک المیہ پر رکھی ہوئی ہے۔وہ المیہ یہ ہے کہ مشہور کالم نگار شاہد صدیقی کے انتقال کے بعدمیرے بڑے بھائی جناب محبوب حسین جگراور روزنامہ ’سیاست‘ کے ایڈیٹرجناب میر عابد علی خاں نے ایک دن مجھے بلاکر خوب ڈرایا، دھمکایا اور یہ حکم دیا کہ میں اچانک مزاح نگار بن جاؤں، چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں 12اگست 1962کو دن کے ٹھیک ساڑھے دس بجے میں نے پہلی مزاحیہ تحریر لکھی اور اب تک خوف کے مارے لکھتا چلا جارہاہوں۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ میں پیدائشی مزاح نگار ہوں، لیکن میں جانتا ہوں، میں پیدائشی’ڈرپوک‘ آدمی ہوں۔ جبھی تو اس حکم سے ڈر کراب تک مزاح لکھتا آرہا ہوں، حالانکہ اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اس میں ہنسنے سے کہیں زیادہ رونے کے مواقع موجود ہیں۔“
مجتبیٰ حسین کی زندگی پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری۔ نہ تو خود بور ہوئے اور نہ ہی اپنے ہم نشینوں کو کبھی بور ہونے دیا۔ان کی زندگی کے سفر کا آغاز 15 جولائی1936 کرناٹک کے ضلع گلبرگہ کی تحصیل چنچولی میں ہوا، حالانکہ ان کے آباء واجداد کا تعلق عثمان آباد سے تھا، لیکن ان کے والدمولوی محمد حسین بسلسلہ ملازمت گلبرگہ آگئے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور سیدھے چوتھی کلاس میں گلبرگہ کے مدرسہ تحتانیہ آصف گنج میں داخل کئے گئے۔ اس کے علاوہ عثمان آباد میں بھی کچھ عرصہ زیر تعلیم رہے۔1951 میں گورنمنٹ ہائی اسکول ٹانڈور سے میٹرک کاامتحان پاس کیااور یہیں سے 1953میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔1955میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے گریجویشن کرنے کے بعد یہیں سے 1958 میں پبلک ایڈمنسٹریشن میں ڈپلوما کیا۔ 11 نومبر 1963کو اپنی چچیری بہن ناصرہ رئیس کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے اور اسے تاعمر نبھایا۔دوبیٹے اور دوبیٹیاں پیداہوئیں۔
مجتبیٰ حسین اور گجرال کمیٹی
عملی زندگی کاآغاز 1958میں روزنامہ ’سیاست‘ میں بطور سب ایڈیٹر کیا۔ اس کے بعد حکومت آندھرا پردیش کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ ہوگئے اور وہاں 1962سے1972 تک برسرکار ہے۔یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ مجتبیٰ حسین اس شہرہ آفاق گجرال کمیٹی سے بھی وابستہ رہے جو 1972میں سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال کی قیادت میں بنائی گئی تھی اور جس کا کام اردو کی بقاء اور ترقی کی سفارشات پیش کرنا تھا۔ مجتبیٰ حسین نے اس کمیٹی کے شعبہ ریسرچ میں 10نومبر1972سے18 ستمبر1974تک کام کیا۔ اس دوران انھیں علی جواد زیدی اور ڈاکٹر خلیق انجم کی رفاقت میسر آئی اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔گجرال کمیٹی سے اپنی وابستگی کا حال انھوں نے ڈاکٹر خلیق انجم کے انتقال پر تحریر کردہ مضمون میں کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:”یہ 1972کی بات ہے جب حکومت آندھرا پردیش کے محکمہ تعلقات عامہ کے اردو شعبے سے وابستہ تھا۔ ایک دن ایک سرکاری مراسلہ وزارت تعلیم، حکومت ہند کی جانب سے مجھے موصول ہواجس میں لکھا تھا کہ میں دو برسوں کی مدت کے لئے ڈیپوٹیشن پر دہلی آؤں اور کمیٹی فار پروموشن آف اردو کی رپورٹ کی تیاری میں کمیٹی کا ہاتھ بٹاؤں۔ یہ وہی کمیٹی ہے جس نے بعد میں سارے ملک میں ’گجرال کمیٹی‘ کے نام سے شہرت پائی۔ اندر کمار گجرال، مرکزی وزیر اطلاعات اس کمیٹی کے صدر نشین تھے۔علی جواد زیدی اس کے سیکریٹری تھے اور خلیق انجم اس کے ڈائرکٹر تھے۔ اس کے ارکان میں کرشن چندر، سجاد ظہیر،ڈاکٹر سروپ سنگھ، آل احمد سرور، عابد علی خاں، احتشام حسین، مالک رام وغیرہ جیسی نابغہ روزگار ہستیاں شامل تھیں۔۔۔۔مجھے رپورٹ کے لئے درکار تاریخی مواد کو اکھٹا کرنے کی غرض سے بسا اوقات نیشنل آرکائیوز کے دفتر میں بھی جانے کا موقع ملتا تھا، جہاں چھان بین کے دوران مجھے اچانک کچھ ایسی دستاویزات ملیں جن سے پتہ چلتا تھا کہ برطانوی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں اردو کی کن کن نظموں کو ضبط کیا تھا۔ میں نے جب اس کی اطلاع علی جواد زیدی کو دی تو بہت خوش ہوئے اور مجھے مشورہ دیا کہ میں کمیٹی کے درکار مواد کے علاوہ ان نظموں کو بھی جمع کرتا چلوں۔ بعد میں خلیق انجم اور میں نے مل کر ان ضبط شدہ نظموں کو کتابی شکل میں مرتب کیا، جس کا اجراء وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ کچھ دنوں بعد اس کا ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوا۔۔۔گجرال کمیٹی نے مختلف مقامات کا طوفانی دورہ کیا اور شبانہ روز محنت کے بعداس کی رپورٹ کو دوسال کی مقررہ مدت میں مکمل کرلیا بلکہ اسے حکومت کے حوالے بھی کردیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اندر کمار گجرال نے اپنے اثر ورسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے کئی ریاستی حکومتوں کواس بات کے لئے آمادہ کیا کہ وہ کمیٹی کی بعض سفارشات کو فوری روبہ عمل لے آئیں۔مثال کے طور پر کئی ریاستوں میں اردو اکیڈمیاں قایم کی گئیں جو
روانہ ہوں تو انھیں بھی ساتھ لے لوں، کیونکہ ان کے پاس کوئی سواری نہیں ہے۔ہم دونوں کا روٹ ایک ہی تھا۔کچھ دیر بعد جب میں نے مجتبیٰ صاحب کو تلاش کیا تو وہ کہیں نظر نہیں آئے۔ موبائل کا زمانہ تھا نہیں کہ ایک دوسرے کو پکڑ سکیں۔ بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے کو ڈھونڈتے رہے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد جب ہم دونوں ایک دوسرے کے روبرو ہوئے تو ان کا بے ساختہ جملہ کچھ اس طرح تھا”ایک معصوم کو ڈھونڈنے کے لئے کتنے گناہ گاروں سے ملنا پڑا۔“
کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ مجتبیٰ صاحب نے مجھے فون کیا، لیکن نیٹ ورک کی خرابی کے سبب بات نہیں ہوپارہی تھی۔ کئی کالیں ڈراپ ہونے کے بعد جب ان سے رابطہ ہواتو وہ گویا ہوئے ”معصوم صاحب آپ میرا نمبر دیکھ کر بار بار فون کیوں کاٹ رہے ہیں۔میں سمجھ گیا اب آپ کا شمار بھی بڑے صحافیوں میں ہونے لگا ہے۔“ یہ ان کے گفتگو میں مزاح پیدا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور وہ اپنے مخاطب کو کبھی بور نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کی اکثر تحریریں میرے اخبار ”خبردار جدید“ میں شائع ہوتی تھیں۔ ایک بار ایک قاری نے ان کی طنزیہ ومزاحیہ تحریروں پر عجیب وغریب تبصرہ کیا اور ان سے مزاح نگاری چھوڑ کر کوئی سنجیدہ کام کرنے کی گزارش کی۔ اس پر انھوں نے ’سیاست‘ میں دلچسپ کالم لکھا۔اس کا عنوان تھا”ہنسنا چھوڑو اور قوم کی خدمت کرو“۔ اس مضمون کے چند ابتدائی جملے ملاحظہ فرمائیں:
”دہلی سے ایک ہفتہ وار رسالہ نکلتا ہے’خبردارجدید‘۔ جس کے ایڈیٹر ہمارے نوجوان دوست معصوم مرادآبادی ہیں۔ ہمارے حساب سے مرادآباد نے بمشکل تمام جگر مرادآبادی کے روپ میں ایک ہی معصوم ہستی پیدا کی تھی۔ ان کے بعد چونکہ مرادآباد میں معصوموں کی پیدائش پر پابندی سی عائد ہوگئی ہے۔ اس لئے اس کی تلافی کے لئے معصوم مرادآبادی نے ’مرادآبادی‘ کو اپنے نام کا حصہ بنالیا ہے۔ معصومیت چاہے برائے نام ہی کیوں نہ ہو،بہرحال معصومیت ہی ہوتی ہے۔ ان ہی معصوم مرادآبادی نے ہمارا ایک مضمون اپنے رسالہ میں چھاپا تھا۔ چنانچہ اس مضمون کے سلسلہ میں ان کے پاس بعض توصیفی خطوط بھی آئے، لیکن ایک خط ایسا بھی آیا جسے نہ تو آپ تعریف کے خانہ میں ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی مذمت کے۔ اس خط کے لکھنے والے محمدعلاؤالدین ہیں (یہ چراغ والے الہ دین نہیں ہیں)جو چتر پور ضلع ہزاری باغ کے رہنے والے ہیں۔ مضمون نگار نے ہمارے مضمون کی تعریف کرنے کے بعدجو کچھ لکھا ہے، اس کا لب لباب یہ ہے ”میں ان کے مضامین اکثر پڑھتا رہتا ہوں، نہایت ہی شگفتہ اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ بے ساختہ ہنسی بھی آجاتی ہے، لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر یہ کب تک ٹھی ٹھی،ٹھاٹھا، ہی ہی، ہا ہا کرتے رہیں گے۔ انھیں دیکھنا چاہئے کہ ان دنوں حالات کتنے سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں معاشرے کی خرابیوں کا بخوبی اندازہ ہے، لیکن وہ جان بوجھ کر ان پر صرف ہنس کر خاموش ہوجانا چاہتے ہیں۔ انھیں اصلاح معاشرہ کے بارے میں عملی طور پر بھی کچھ کرنا چاہئے اور قوم کی خدمت کے لئے ایک باضابطہ لایحہ عمل بناکر کام کرناچاہئے۔ انھیں قبر کے عذاب کو بالکل نہیں بھولنا چاہئے۔ دوسری دنیا میں جب ان سے پوچھا جائے گا کہ نیچے کی دنیا میں وہ کیا کام کرکے آئے ہیں تو وہ کیا جواب دیں گے۔“
”یقین مانئے، جب سے ہم نے ’خبردارجدید‘ کی معرفت اپنے بارے میں یہ مکتوب پڑھا ہے، تب سے ہمیں رہ رہ کے ’خبردار قدیم‘ کا خیال آرہا ہے۔ دل کو دہلانے والی ایسی تعریف سے آج تک ہمارا واسطہ نہیں پڑا تھا۔ قبر کے عذاب کے تصور سے ہی ہمارا سارا وجود لرزنے لگا ہے۔ مکتوب نگار نے بعد از وقت ہی سہی ہماری آنکھیں توکھول دی ہیں۔ اب پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ لگ بھگ چالیس برسوں سے ہم نے ہنسنے ہنسانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا(بشرطیکہ ہنسنے کو ایک کام سمجھا جائے) اس سارے عرصے میں ہم اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ لوگوں کو ہنسانا اور ان میں خوشیوں کوبانٹنابھی ایک نیک کام ہے۔ ہمیں دوسری خوش فہمی یہ بھی لاحق تھی کہ سماج کی بے اعتدالیوں پر ہنس کر اور ان پر طنز کے نشتر چلاکر ہم قوم کی اصلاح کررہے ہیں۔ قوم کی اصلاح تو نہ ہوئی الٹا ہماری عادت خراب ہوگئی۔چنانچہ اب ہر سنجیدہ بات کو ہنسی میں ٹال کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔“
(’میراکالم‘صفحہ 117حسامی بک ڈپو، حیدرآباد، اشاعت جون 1998)
مجتبیٰ حسین کی تحریروں میں بے ساختگی کا عنصر نمایاں ہے۔ان کی نگارشات کو پڑھتے ہوئے کہیں بھی تصنع یا بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ بات میں بات پیدا کرتے اور اپنے قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کرتے چلے جاتے ہیں۔ان کی تحریروں کو پڑھ کر کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ زبردستی مزاح پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے شخصی تجربات اور جذبات واحساسات میں ہمیں خود اپنے ارد گرد کی دنیا میں ہونے والے واقعات کی رمق نظر آتی ہے۔ وہ زندگی کے معمولی سے معمولی واقعے میں بھی اپنا ہنر جگانے کا ملکہ رکھتے تھے۔
”ادھر دہلی والوں کی ادبی زندگی میں ایسی کچھ کمی تھی کہ جب مجتبیٰ حسین یہاں آئے توانھوں نے بہت جلد دلو ں کو مسخر کرناشروع کیا اور مزاح کی محفلوں میں ایک معنویت پیدا ہوگئی۔ یہ نہیں کہ یہاں مزاح کا چرچا نہیں تھا۔ تھا، فکر تونسوی لکھ رہے تھے، دوسرے احباب بھی ہیں، کبھی کبھی مزاح کے شعراء بھی آجاتے ہیں، مشاعروں میں، شعری نشستوں میں،لیکن یہ بات نہیں تھی۔ ہمارے یہاں جس طرح کا ادب تخلیق ہورہا تھا، غزل تھی، نظم تھی، افسانہ تھا، ڈرامہ تھا، ناول تھا،لیکن مزاح نگاری جس کو صحیح معنوں میں مزاح نگاری کہا جاتا ہے، اسے دہلی کی زندہ ادبی روایت کا حصہ مجتبیٰ حسین نے بنایا اور یہ معمولی کارنامہ نہیں ہے۔“
اس میں دو رائے نہیں کہ مجتبیٰ حسین نے دہلی میں ایک ایسے طنزومزاح کی داغ بیل ڈالی جو اس سے پہلے یہاں نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں کی ادبی محفلوں پر چھاگئے۔ادبی سرگرمیاں اور ان کے ادبی دوست ہی دہلی میں ان کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ ایسا شاید ہی کبھی ہواہو کہ وہ ایک فرماں بردار شوہر کی طرح دفتر سے سیدھے گھر گئے ہوں۔ وہ دفتر سے فارغ ہوکر اپنے دوستوں کی تلاش میں نکل جاتے تھے اور وہ جہاں بھی انھیں میسر آجاتے، وہیں محفل سجاتے تھے۔ اس معاملے میں ان کی پرانی اسکوٹر ان کا کافی ساتھ دیتی تھی جس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دہلی کے تنگ وتاریک گلی کوچوں میں آسانی سے سماجاتی تھی اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بھی انھیں لئے لئے پھرتی تھی۔مجتبیٰ حسین کی اس اسکوٹر کو اس اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر بڑی بڑی شخصیات نے سواری کی۔ان میں پاکستانی مصور صادقین، شہرہ آفاق پینٹر مقبول فداحسین،گلوکار غلام علی جیسی ہستیا ں شامل ہیں۔پروفیسر بیگ احساس کی تجویز تھی کہ”اس اسکوٹرکومیوزیم میں رکھنا چاہئے، جس کی وجہ سے ایک عظیم فنکار نے نہ صرف ترقی کی منزلیں طے کیں بلکہ کئی عظیم فنکاروں کو منزل مقصود تک پہنچایا۔“
ایک مرتبہ تو وہ اپنی اس اسکوٹر پر بیٹھ کر اپنے دوست شہریار سے ملنے علی گڑھ پہنچ گئے تھے، جو دہلی سے پورے 140کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا قصہ خود شہریار نے اس انداز میں بیان کیا ہے:
”کئی سال پہلے کی بات ہے۔ رات کے نو بجے ناصر الدین اسٹاف کلب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے ایک اور صاحب تھے۔ ہاتھ میں ہیلمٹ تھا۔ ناصرنے تعارف کرایا کہ یہ مجتبیٰ حسین ہیں اور دہلی سے اسکوٹر پر آپ سے ملنے آئے ہیں۔ میں نے غور سے دیکھا، آنکھوں کے بہت پیچھے سے ایک معصوم لیکن شریر چہرہ دکھائی دیا۔“
اس معصوم چہرے نے شہریار کوآگے چل کر کس طرح اپنا مرید بنایا۔ اس کاقصہ انھوں نے یوں بیان کیا ہے:
”دہلی میں دوڈھائی آدمی میرے لئے سب کچھ تھے اور ہیں۔ان سے ملنے کے بعد میں خود کو مجتبیٰ کے حوالے کردیتا ہوں۔ مزاح نگاری کی وجہ سے ان کے اندر مبالغہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے(یا یوں کہیے کہ مزاج کے مبالغے نے مزاح نگاری کی طرف انھیں لگایا ہے)اس لئے وہ دوستوں کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ تعریف کہاں ختم ہوئی اور کھنچائی کہاں شروع ہوئی۔ کچھ لوگوں کی تعریف میں البتہ احتیاط برتتے ہیں۔ میں ان میں سے ایک ہوں۔ اس کے باوجود ان کی صحبت میں ہر آن چوکنا رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اردو کا شاید ہی کوئی ادیب ایسا ہو جو دہلی آئے اور مجتبیٰ سے ملے بغیر واپس چلا جائے۔ مجھے اب عادت سی پڑگئی ہے۔ پہنچتے ہی اور اب ٹیلیفون کی آسانی کی وجہ سے پہنچنے سے پہلے ان کو اطلاع کردیتا ہوں اور واپسی سے پہلے اجازت لیتا ہوں۔ میں کس سے ملوں گا، کیا کھاؤں گا، کیا پیوں گا، کب تک رہوں گا، یہ سب کچھ مجتبیٰ طے کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے خود پر غصہ آنے لگتا ہے کہ وہ شخص جو آج تک زن مرید نہیں ہوا، مجتبیٰ مرید کیونکر ہوگیا۔“
یہ حقیقت ہے کہ مجتبیٰ حسین کودوست بنانے کے فن میں ملکہ حاصل تھا۔انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے بیوی بچوں کی بجائے اپنے دوستوں کے ساتھ بسر کیا۔اس کا اظہار انھوں نے اپنے مضمون ’’میں اور میرا مزاح“ میں ان الفاظ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
”میں دوستوں کا رسیا اور متوالا ہوں۔ اپنے وقت کا بڑا حصہ دوستوں میں گنواتا ہوں، کیونکہ ایسا کرنے سے دوستوں کو میرے خلاف غیبت کرنے اور مجھے ان کے خلاف غیبت کرنے کا موقع ہاتھ آتا ہے اور یہ کوئی معمولی سہولت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی محفل سے اٹھ کر بظاہر تو باہر چلا جاتا ہوں، لیکن اصل میں وہیں کہیں چھپ کر کھڑاہوجاتا ہوں اور بڑی دیر تک اپنے کانوں سے اپنے خلاف ہونے والی غیبت کو سنتا رہتا ہوں۔ اگر کسی دن دوست میری غیبت نہیں کرتے تو میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آتا ہوں اور ان سے لڑنے لگتا ہوں کہ آج تم نے میری غیبت کیوں نہیں کی۔ آج کا سارا دن تو بس یونہی ضائع ہوگیا۔“
مجتبیٰ حسین کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے اپنے بڑے بھائی محبوب حسین جگر کے انتقال پر لکھا تھا کہ ”1956سے میری تحریریں روزنامہ ’سیاست‘ میں شائع ہوتی رہی ہیں اور زیر نظر تحریرمیری پہلی تحریر ہے، جو جگر صاحب کی نظروں سے گز رے بغیر شائع ہورہی ہے اور مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے اور یہ تحریر ان کی نظر سے گزرتی تو کبھی شائع نہ ہوتی۔“
میں اس بات کو اس انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ مجتبیٰ حسین پرمیں نے ان کی زندگی میں کئی مضامین لکھے اوریہ سب ہی ان کی نظروں سے گزرے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو میرے اس مضمون کو دیکھ کر خاصے ناراض ہوجاتے، جو میں ان کے انتقال کے بعد انھیں خراج عقیدت کے طور پر لکھ رہاہوں۔ حالانکہ انھوں نے خودبہت پہلے اپنی تعزیت میں ایک بڑا بھرپور مضمون لکھا تھا، جو ان کی کتاب ’چہرہ در چہرہ‘ میں شامل ہے۔ وہ ایک مزاحیہ مضمون تھا جو انھوں نے’اپنی یاد میں‘ لوگوں کو ہنسانے کے لئے لکھا تھا اور اس بات کا ثبوت تھا کہ ایک بڑا مزاح نگار وہی ہوتا ہے جو اپنے آپ پر بھی ہنس سکتا ہے۔لیکن میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، وہ مزاح ہرگز نہیں ہے۔یہ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ہمارے عہد کے منفرداورممتازمزاح نگار مجتبیٰ حسین اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ انھوں نے گزشتہ26مئی2020 کو اپنے وطن ثانی حیدرآباد میں آخری سانس لی۔ یہ درست ہے کہ ان کی موت طبعی انداز میں ہوئی لیکن انھوں نے جتنی بھرپور زندگی جی، اسے دیکھ کر ان کے انتقال کی خبر پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔
پچھلے دنوں جب مجھے معلوم ہواکہ وہ صاحب فراش ہوگئے ہیں اور انھیں لوگوں کوپہچاننے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے تو سچ پوچھئے مجھے جھٹکا سا لگا، کیونکہ مجتبیٰ صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کو دور سے پہچان لیتے تھے۔ جب مجھے یہ بتایا گیا کہ مجتبیٰ صاحب اب تنہائی میں رہ کر اپنے آخری ایام بسر کرناچاہتے ہیں تویہ بات بھی میرے لئے قطعی ناقابل یقین تھی، کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں تنہائی کو کبھی منہ نہیں لگایا اور ہمیشہ اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کے درمیان میں رہے۔ حالانکہ آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی دیکھا دیکھی انھوں نے یہ سوچ کر اپنے گھٹنے کا آپریشن کرالیا تھا کہ بڑا آدمی بننے کے لئے یہ کام بھی ضروری ہے، لیکن واجپئی کی طرح ان کے گھٹنے کا آپریشن بھی ناکام ہوا اور وہ آہستہ آہستہ اپنے دوستوں کی محفلوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔ انھوں نے اس کی تلافی اپنے موبائل فون سے کرنے کی کوشش کی، لیکن اس میں بھی انھیں رہ رہ کر ایک کمی کا احساس ہوتا رہا،جیسا کہ انھیں ہرشے میں ہوتا تھا۔
مجتبیٰ حسین نے اپنی عملی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی میں گزارا اور یہاں کی ادبی زندگی کا لازمی حصہ بن کررہے۔آج میں مجتبیٰ حسین کے بغیردہلی کا تصور کرتا ہوں تو مجھے اس بھرے پرے شہر میں بڑی کمی محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ انھوں نے کئی برس پہلے اس شہر کو خیر باد کہہ کر اس حیدرآباد میں بودوباش اختیار لرلی تھی، جہاں سے وہ1972 میں گجرال کمیٹی میں کام کرنے دہلی آئے تھے، لیکن اس دہلی شہر سے ان کا تعلق ایسا تھا کہ وہ حیدرآباد میں رہنے کے باوجود سانس دہلی کی ہوا سے ہی مستعار لیتے تھے۔دہلی سے ان کے قلبی تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آخری وقت میں جب انھوں نے اپنے ہوش وہواس کھودئیے تھے تو وہ اس حالت میں بھی خود کو دہلی میں تصور کرتے تھے اور کہتے تھے”مجھے پروگرام میں جانا ہے، دیر ہورہی ہے، مجھے جلدی لے چلو۔“
دہلی میں ان کے دوستوں کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن ان کے کچھ دوست ایسے ضرور تھے جن سے وہ ایک دن بھی جداہونے کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔ان میں ڈاکٹرخلیق انجم، پروفیسر نثار احمد فاروقی، شرددت، پروفیسر گوپی چند نارنگ، زبیر رضوی اور نارنگ ساقی تو ان کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے۔ ان کے علاوہ نہ جانے کتنے لوگ تھے، جو ان کے ساتھ وقت گزارنے کے متمنی رہتے تھے۔ان میں سے بیشتر لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور اب دوردرشن کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹر شرددت اور نارنگ ساقی ہی بقید حیات ہیں۔ ان دونوں کی حیثیت مجتبیٰ حسین کے لئے ان دوفرشتوں جیسی رہی ہے جو دونوں شانوں پر بیٹھ کر نامہ اعمال لکھتے ہیں۔پچھلے سال جب وہ دہلی اردو اکادمی کا بہادرشاہ ظفر ایوارڈ لینے یہاں آئے تھے تو ان کے یہ دونوں یار غار بھی وہاں منکر نکیر کی طرح ان کے ساتھ موجود تھے۔(افسوس شرددت بھی نہیں رہے)
مجتبیٰ صاحب کا حال یہ تھا کہ ان کی انگلیاں ہروقت موبائل پررہتی تھیں اور وہ کسی نہ کسی کو فون ملاتے رہتے تھے۔ ایک روز انھوں نے مجھے فون کرکے پوچھا کہ”آپ کہاں کھڑے ہیں؟“میں نے جواب دیاکہ میں اس وقت اپنی اسٹڈی میں بیٹھا ہوں تو انھوں نے کہا کہ بس یونہی پوچھ لیا، کیونکہ میں نے ابھی زبیر رضوی کو فون کیا تو ان کی بیگم نے بتایاکہ ’’زبیر تو ابھی آئینے کے سامنے ہی کھڑے تھے، پتہ نہیں کہا ں چلے گئے۔
وفیات مورخہ: مئی / 27
+++++++++++++
احسن مارہروی / /27 /مئی/ 1988ء
اسماعیل راجی الفاروقی /مفکر ودانشور /27 /مئی / 1986ء
بلونت سنگھ /افسانہ نگار /27 /مئی/ 1986ء
پنڈت جواہر لال نہرو /وزیر اعظم ہند /27 /مئی/ 1964ء
خواجہ دل محمد دل / /27 /مئی/ 1961ء
سید احسن مارہروی / /27 /مئی/ 1988ء
سید مجتبی حسین /بھارت ، مزاح نگار /27 /مئی / 2020ء
شاہد احمد دہلوی /ادیب، مترجم /27 /مئی/ 1967ء
صمد شاہین / /27 /مئی/ 1996ء
علی نواز وفائی / /27 /مئی/ 2000ء
کاوش بدری (وی پی عبد الرزاق پاشا) /شاعر /27 /مئی/ 2009ء
مجتبی حسین /بھارت ، مزاح نگار /27 /مئی/ 2020ء
مسعود حسن /پروفیسر /27 /مئی/ 1935ء
ناطق گلاؤٹھوی (سید ابو الحسن) /شاعر /27 /مئی/ 1969ء
والدہ مفتی تقی عثمانی / /27 /مئی / 1981ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
دل کو خود دل سے راہ ہوتی ہے (غزل)
حسام الملک نواب سید محمد علی حسن خان "طاہر" رحمۃ اللّٰه علیہ
ہائے کیا چیز چاہ ہوتی ہے
ہر نگہ ایک آہ ہوتی ہے،
شوخیوں سے ہے اضطراب عیاں
دل کو خود دل سے راہ ہوتی ہے
مذہبِ عشق میں ہے شرک خودی
آرزو بھی گناہ ہوتی ہے۔
پائمالِ نگاہِ ناز ہے دل
کیسی بستی تباہ ہوتی ہے
ہر قدم پر رہِ محبت میں
عقل ہی سنگِ راہ ہوتی ہے
جلوہ افروزیِ جہانِ وجود
اک فریبِ نگاہ ہوتی ہے
عشق میں بھی کبھی ہوس مل کر
سببِ اشتباہ ہوتی ہے
جس سے کھلتے ہیں راز ہائے خفی
وہ تو صرف اِک نگاہ ہوتی ہے
ماخوذ از: معارف: جون ۱۹۳۷ء/صفحہ: ۴٦٦/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سچی باتیں (یکم ؍جولائی 1935ء) کوئٹہ کا زلزلہ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
(*نوٹ: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے یہ کالم آج سے سوسال پیشتر 02-01-1925ء سے جاری اپنے ہفتہ وار سچ، صدق اور صدق جدید میں لکھے تھے، عبد المتین منیری*)
کوئٹہ کی زمین ہلی، اور شہر، برطانیہ عظمیٰ کا ایک مستحکم ترین شہر، دم کے دم میں قبرستان بن کر رہ گیا! کیا صرف زمین ہی ہلی؟ نہیں زمین کے ساتھ آسمان بھی ہلا، اور انسان کی آنکھ نے، قیامت کا نمونہ قیامت آنے سے پہلے ہی دیکھ لیا! نمونہ لاکھ ہلکا سہی پھر بھی قیامت کا نمونہ!جن کے لاڈلے اور پیارے، دل کے ٹکڑے اور آنکھوں کے تارے، آنکھوں کے سامنے ہزارہا من مٹی میں گڑے اور تپے زندہ درگور ہوئے، ان کے دلوں کے داغ دیکھنے اور گننے کی برداشت تو کسے سوگواروں کا نوحہ اور بین سننے کے لئے بھی پتھر کا کلیجہ چاہئے، ایک دکھے ہوئے دل کی آہ اور کراہ سنئے:-
’’کمرہ میں پہنچا تو ان عزیزوں کو دیکھا، جن کی کوئی امید نہ تھی لیکن جن کی امید تھی، وہ موجود نہ تھا۔ میں نے پہلا سوال یہ کیا کہ جمیل بھائی کہاں ہیں؟ سوال کا جواب سرد آہوں، گرم آنسوؤں ، اور بلند بانگ نالوں میں گم ہوگیا، میری چھوٹی بہن جن کی شادی کو صرف دو سال ہوئے تھے، بیوگی کی چادر اوڑھے ہوئے سامنے آئی ، ضبط کا آخری رشتہ بھی ہاتھ سے جاتارہا۔ لیکن یہ معصوم خاموشی سے کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں باربار آسمان وزمین کے خدا کی طرف اٹھتی تھیں اور زبان پر یہ لفظ تھا’’الٰہی تیراشکر‘‘ سب کا دل بھر آیا ۔ دردِ اضطراب کی کیفیت ناقابلِ برداشت ہوگئی ، تو سب سے پہلے اس بچی کی زبان سے نکلا ’’بھائی جان صبر کیجئے‘‘۔ یہ جملہ ایک آہ اور کراہ کے ساتھ ادا ہوا، حادثہ قیامت آخر میں تھا، لیکن یہ منظر بھی قیامت سے کچھ کم نہ ثابت ہوا‘‘۔
’’خالو صاحب نے قدم باہر نہ نکالاتھا کہ دروازہ دیوار کے ساتھ ان پر آرہا ، جمیل بھائی اٹھنا چاہتے تھے کہ ہال کی وسیع اور بلند وبالا چھت ان پر آپڑی، دوسرے کمرے میں ان کی والدہ چھوٹی بہن اور بڑی بہن کا بچہ اور بچی دب گئے۔ چھت کے ایک حصہ نے میری چھوٹی بہن کو محصور کرلیا ، معصوم پر بیس پچیس من ، مٹی کا انبار‘‘!
آگے کی سطریں پڑھنے سے قبل کلیجہ تھام لیجئے:-
’’جمیل بھائی زندگی کی آخری ساعت تک کلمہ پڑھتے رہے ، آواز آئی کی میں شہادت کی موت مرتاہوں‘‘۔ جلیل نے پوچھا بھائی صاحب کہاں ہیں؟ مٹی کے نیچے سے جواب ملا’’ اس طرف، مجھے نہیں پہلے انھیں نکالو‘‘ یہ جواب مرحوم کی رفیقۂ حیات کا تھا، جو وفا اور رضا کے صحیح تصور کے ماتحت اپنی جان اور آخری متاع پیش کررہی تھی۔ لیکن قدرت کا فیصلہ یہ تھا کہ ایک ہی جگہ ایک نازک جان محفوظ رہے اور ایک تنومند، قوی ہیکل، اور خوش رو جوان درجۂ شہادت کو پہنچے۔ فقیر’’جمیل‘‘۔
ایمان والے بھائی کی موت! اللہ اللہ کس کو اس شہادت پر رشک نہ آئے گا ، مررہے ہیں اور کس اطمینان سے! دم توڑ رہے ہیں، اور کِس برتر اور دائمی زندگی کے شوق میں!گویا جنت مع اپنی ساری دلفریبیوں کے آنکھوں کے سامنے ہے ایک قدم اٹھایا کہ پہنچ گئے……اور ایمان والی بیوہ بہن! خود منوں مٹی کے نیچے تپی ہوئی، ملک الموت کو سامنے دیکھ رہی ہے اور پھر بھی زبان پر یہ کہ ’’پہلے مجھے نہیں! انھیں نکالو‘‘! یہ نصیب یہ قسمت! اس دن کو سوچ اور رو، جب گرلز کالج کی پڑھی ہوئی لڑکیاں گلی گلی موجود ہوں گی ، مساوات حقوق کے نعروں سے فضا گونج رہی ہوگی، دہلی اور لکھنؤ کی ساری شرافتیں آکسفرڈ اور کیمبرج میں گم ہوچکی ہوں گی، لیڈیز کلب اور ویمنس ایسوسی ایشن، کی ممبری کی مقدار لکھوکھا تک پہنچ چکی ہوگی ، لیڈی ڈاکٹروں اور لیڈی بیرسٹروں اور لیڈی مجسٹریٹوں کی تعداد شمار سے باہر ہوگی۔ اسی وقت کان ایک قصباتی پردہ نشین کی اس کو آواز ترسیں گے اور نہ سن سکیں گے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ : مئی / 25
الطاف حسین ایڈیٹر ڈان کراچی 25 مئی 1968
سید محمد حسن ہاشمی 25 مئی 2011
ضمیر بدایونی (ضمیرالحسنین) 25 مئی 1994
فیض بھرتپوری (سید فرزند حسن) 25 مئی 1989
مولانا قاری عبدالرحمٰن حیاتی 25 مئی 2008
احمد کمال سفارت کار 25 مئی 2023
سنیل دت اداکار 25 مئی 2005
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: مئی / 24
اقبال صفی پوری (اقبال احمد خلیلی) / /24 /مئی/ 1999ء
بدر الحسن معلم /بھٹکل /24 /مئی/ 2011ء
حاکم علی زرداری / /24 /مئی/ 2011ء
حکیم عبدالجلیل خاں کرت پوری / /24 /مئی/ 2004ء
خیام قادری / /24 /مئی/ 2011ء
ڈاکٹر فہمیدہ عتیق / /24 /مئی/ 2022ء
ڈاکٹر نسیم عثمانی /پروفیسر /24 /مئی/ 1993ء
سید منورعلی شاہ / /24 /مئی/ 1987ء
صائمہ خیری / /24 /مئی/ 1998ء
ظفر مسعود / /24 /مئی/ 1981ء
عبد المجید سندھی / /24 /مئی/ 1978ء
عبدالرحمٰن صدیقی (اے آر صدیقی) / /24 /مئی/ 1953ء
مجروح سلطانپوری (اسرار الحسن خان) / /24 /مئی/ 2000ء
محمد صادق خان پنجم /نواب بہاولپور /24 /مئی/ 1966ء
مسرور حسین /ائیر کموڈور /24 /مئی/ 1967ء
منصور سعید / /24 /مئی/ 2010ء
منور لکھنوی، بشیشور پرشاد / /24 /مئی/ 1970ء
مولانا سعید احمد اکبر آبادی / /24 /مئی/ 1985ء
مولانا صفات اللہ مئو / /24 /مئی/ 2007ء
مولانا محمد زکریا کاندھلوی /شیخ الحدیث /24 /مئی/ 1983ء
نیاز فتح پوری (نیاز محمد خان) / /24 /مئی/ 1966ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
دینی علوم سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے، اُردو سے دوری!
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ
انقلاب: 23 مئی 2025ء
نئی نسل کو اُردو زبان سے نابلد رکھنے والے والدین اُس کا بہت نقصان کر رہے ہیں۔ یا تو اُردو سے تعلیم دلائی جائے یا گھر میں اُردو سکھائی جائے، کوئی تیسرا متبادل نہیں ہے۔ دینی علوم و معارف کا بہت بڑا حصہ اُردو زبان میں ہے، اس لئے بچوں کو اردو سکھانے پر بھی توجہ ضرور دیں۔ اُردو کے دو مشہور شعراء، جو مشرق اور مغرب دونوں کے بادہ خواروں میں تھے اور انگریزی زبان اور مغربی علوم پر ماہرانہ نظر رکھتے تھے، نے مسلمانوں کو للکارا تھا اور اس جدید نظام تعلیم کے فتنہ سے ان کو باخبر کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ تھے اکبر اِلٰہ آبادی اورڈاکٹر علامہ اقبال۔ یہ کوئی مولوی اور دینی مدارس کے فیض یافتگان میں سے نہیں تھے۔ ان کی پوری تعلیم اسی درس گاہ میں ہوئی جو اس زمانہ میں مغرب کی نمائندہ تھی؛ بلکہ اقبالؔ نے تو یورپ کے قلب میں پہنچ کر علم حاصل کیا اور اس نظام تعلیم کو سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کہہ اُٹھے:
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
ایک موقع پر اقبال نے کیا تیکھی تنقید کی ہے :
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدِ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
اقبالؔ زندہ ہوتے تو وہ اعتراف کرتے کہ پردہ اُٹھ چکا ہے اور جس الحاد کا انتظار تھا وہ اب نگاہوں کے سامنے پوری طرح بے لباس ہے۔
جن لوگوں نے اس نظام تعلیم پر تنقید کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ تحقیق و سائنس کے خلاف ہوں، سائنس تو کائنات میں چھپی ہوئی حقیقتوں سے پردہ اُٹھا تی ہے، اگر اس سے لوگوں کو نفع پہنچے تو کوئی سمجھدار شخص کیسے اس کی مخالفت کر سکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہر قوم کا نظام تعلیم اس کے افکار اور سماجی ماحول سے ہم آہنگ ہونا چاہئے، وہ علم کے ساتھ ساتھ اسے اپنے عقیدہ پر پختگی دے، اپنی تہذیب و ثقافت سے اس کی وابستگی کو بر قرار رکھے اور اپنے بارے میں احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ ہندوستان کو جو نظام تعلیم اپنے مغربی آقاؤں سے ملا، وہ اس خوبی سے محروم ہے، وہ دیسی شہریوں کو اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنے ادب اور اپنی سماجی قدروں کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے، اور اس کی اہم وجوہ میں ایک یہ ہے کہ ہم نے انگریزی کو بحیثیت ایک زبان پڑھنے کے بجائے اسی کو ’’ذریعہ تعلیم‘‘ بنالیا، کہ ہمارے بچے ابتداء ہی سے انگریزی میں بولنا، انگریزی میں لکھنا اور انگریزی میں سوچنا شروع کردیں۔ انگریزی کی عظمت کچھ اس طرح ہمارے دل و دماغ پر مسلط ہوئی کہ ہم نے اس کو علم کی معراج سمجھ لیا، اور اس چیز نے ہمارے بچوں کو ذہنی اعتبار سے بھی اور صحت جسمانی کے اعتبار سے بھی، بہت نقصان پہنچا یا ہے۔ غور کیجئے کہ ابتداء ہی سے انگریزی ذریعہ تعلیم قرار پائی، ہندوستان میں قومی زبان کی حیثیت سے اسے ہندی بھی پڑھنی ہے اور چونکہ یہ ایک ’’مختلف لسانی‘‘ خطہ ہے اس لئے ہر علاقہ کی اپنی اپنی زبانیں اس کے سوا ہیں، طالب علم اسے بھی پڑھے گا، اگر ہندی ریاستوں میں کوئی اور مقامی زبان نہیں تو اب قوم پر سنسکرت مسلط کی جارہی ہے، ان کے علاوہ مسلمانوں کو اپنے سماجی رابطہ اور مذہبی ورثہ سے وابستگی کیلئے اُردو بھی پڑھنی ہے، اس طرح ہمارے بچے ابتداء سے چار چار زبان سیکھتے ہیں۔
طبّی اعتبار سے نو عمر بچوں کے لئے یہ ایک بار گراں ہے، بالخصوص ان حالات میں کہ فی زمانہ چار سال کی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم شروع کرادی جاتی ہے اور ابھی زبان کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا کہ کتابوں کا ضخیم بستہ پشت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ دوسرے کسی بھی انسان کے اندر اپنی زبان کو بے تکلف سمجھنے اور ادا کرنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے، اجنبی زبان کو اس طریقہ پر پڑھنا پڑھانا دشوار ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اصل مضمون کو سمجھنے اور اس میں فکری ترقی حاصل کرنے کے بجائے اس کا ذہن چند انگریزی فقروں کے گرد گھومتا رہتا ہے اور اصل فن پر اس کی توجہ کم ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا کی جتنی ترقی یافتہ قومیں ہیں، انہوں نے علوم و فنون کو اپنی مادری زبان کا جامہ پہنایا ہے اور وہ اپنے بچوں کو اسی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔
فرانس اور جرمنی جغرافیائی اعتبار سے برطانیہ سے کتنے قریب ہیں ؟ لیکن ان کے یہاں ذریعہ تعلیم فرانسیسی اور جرمنی ہے، چین اور جاپان دنیا کے ترقی یافتہ اور معاشی اور صنعتی اعتبار سے طاقتور ترین ممالک میں ہیں ؛ لیکن ان کے یہاں ذریعۂ تعلیم چینی اور جاپانی ہے، روس میں جب کمیونسٹ انقلاب آیا اور اس نے ترقی کی نئی کروٹ لی، تو سب سے پہلے مغربی علوم کو روسی زبان میں منتقل کیا؛ لیکن ہمارے ذہنوں پر انگریزی کا ایسا سحر طاری رہا کہ ہم دیسی زبانوں میں عصری تحقیقات کو منتقل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے اور بجائے اس کے کہ دیگر علوم کو اپنی زبان میں لاتے ہم نے اپنی ہی زبان سے منہ موڑ لیا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مولانا عبدالمجید ندویؒ کی شہادت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، ان کے علمی و روحانی فیضان کو جاری و ساری رکھے، اور مدرسہ الاصلاح کو ایک بار پھر ایسی ہی پاکیزہ روح، بے لوث کردار، بے باک ضمیر اور باوقار قیادت سے نوازے۔
آمین یا رب العالمین!
محمد صادق اصلاحی ندوی
Https://telegram.me/ilmokitab
غرض یہ کہ پیشِ نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک جامع اور مستند کتاب ہے جس میں خانوادہ عثمانیہ (بدایوں) کے ہر پہلو کا بہت خوبی سے احاطہ کیاگیا ہے اور اس سلسلے میں فاضل محقق نے اپنی سعی و کوشش میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ فہرستِ مصادر و مراجع سے بھی فاضل محقق کی جستجو و عرق ریزی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر سید شمیم الدین احمد منعمی (صدر نشین: شعبہ عربی اورینٹل کالج پاٹلی پترا یونیورسٹی، پٹنہ بہار، انڈیا) کی اس بات سے بالکل اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ’’جناب مظہر حسین بھدرو اطلاعات کو جمع کرنا بھی جانتے ہیں اور ان اطلاعات کو تحقیقی کسوٹی پر پرکھ کر پیش کرنا بھی جانتے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ عملی کاوش خانوادۂ بدایوں کی گراں قدر خدمات کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ نسل کو تحقیق کی روش سے آشنا کرنے میں بھی مدد گار ہوگی۔‘‘
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
Https://telegram.me/ilmokitab
م حسن لطیفی (وفات 23-05-1959ء) تحریر: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
Читать полностью…*اقدار کی اہمیت اور آج کے انسان کی زندگی*
رشید احمد صدیقی مرحوم نے لکھا ہے:
انسان کی صالح و صحت مند زندگی کا مدار، اس پر ہے کہ اس کے ہاں اقدار کی اہمیت کیا ہے؟ اور اقدار کے لیے ضروری ہے کہ ان میں استقلال ہو اور وہ ہوا کے ہر جھونکے سے زیر و زبر نہ ہوں۔ یہ اقدار نتیجہ ہوتے ہیں مدتوں کے تجربے اور ریاضت کا۔ زندگی کی کشتی کو طرح طرح کے طوفانوں سے محفوظ رکھنے کے لیے، اقدار وہی کام کرتے ہیں، جو لنگر اور ناخدا کرتے ہیں۔ آج سے پہلے زندگی میں "وہ مرکزِ گریز" سرعت اور شدت نہیں تھی، جو اب ہے اور یہ آتی ہے عقل چکرا دینے والی اس صدی کی ان ایجادات سے، جنہوں نے زندگی کی آنے والی صدیوں کو مہینوں اور ہفتوں میں سمیٹنا شروع کردیا ہے۔ مستقبل کو حال میں کھینچ لانے کی مدت، جتنی مختصر کرتے جائیں گے، اتنی ہی جلد جلد، حال ماضی میں منتقل ہوتا رہے گا اور ماضی کی قدر و قیمت، کم ہوتی جائے گی۔ جہاں اور جب یہ صورت حال ہوگی، وہاں زندگی میں اختلال راہ پائے گا اور غیر یقینی بڑھے گی۔ آج کل ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔
آشفتہ بَیانی میری/صفحہ: ۷۵/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B