ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

’’ایک دن آغا حشر اور حکیم صاحب آم کھا رہے تھے، آغا آم کھاتے جاتے اور اپنی عادت کے مطابق کہتے جاتے کہ بھئی حکیم صاحب بمبئی کے الفانسو کا جواب نہیں، لکھنؤ کا سفیدہ اس کے آگے کیا ہے؟ حکیم صاحب نے کہا جی ہاں، لیکن ہم تو بنارس کے لنگڑے پہ لٹو ہیں۔ آغا بھڑک گئے، بات یہ تھی کہ آغا مرحوم بنارس کے رہنے والے تھے اور ایک ٹانگ سے لنگڑے تھے۔ اس لیے لنگڑے کی پھبتی ان پہ ایسی بیٹھی جیسے انگشتری میں نگینہ بیٹھتا ہے۔‘‘

’’حکیم صاحب کے پاس ہر طرح کے مریض آتے تھے جن میں بعض نامی گرامی طوائفیں بھی تھیں، یہ لوگ ضلع جگت اور پھبتی میں طاق ہوتے ہیں، اس لیے کبھی کبھی ان سے نوک جھونک ہو جاتی تھی، ایک دفعہ ایک سیاہ فام طوائف علاج کرانے آئی، حکیم صاحب کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی اس نے سن رکھی تھی، اس لیے آتے ہی ان پر ایک دو پھبتیاں کہہ دیں، گرمی کے دن تھے اور اس نے جالی کا کرتا پہن رکھا تھا، جس سے اس کا سارا جسم جھلکتا نظر آتا تھا، حکیم صاحب اس کی باتیں سن کر بولے ’’آپ اپنی کہیے یہ باورچی خانہ میں سفیدی کیسی کرا رکھی ہے؟‘‘

دیوان سنگھ مفتون کے خاکے میں لکھتے ہیں:

’’دیوان سنگھ سکھ تو ضرور ہے لیکن مذہبی تعصب کی چھاؤں اس پر نہیں پڑی۔ اکالیوں سے اس کی ہمیشہ ٹھنی رہی ہے اور تارا سنگھ سے مقدمہ بازی بھی ہوتی رہتی ہے۔ شہید گنج کے جھگڑے میں اس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا۔ خیر یہ تو پرانی باتیں ہیں، ڈاکٹر قریشی کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا کا حکم سنایا گیا تو دیوان سنگھ نے صاف لکھ دیا کہ بے چارہ ڈاکٹر بے گناہ ہے۔‘‘

مولانا ظفر علی خاں کے متعلق یہ تحریر دیکھیے:

حقہ پیتا ہے شعر کہتا ہے

اور عاشق میں کیا برائی ہے

یہ شعر دراصل مولانا ظفر علی خاں کے متعلق ہے۔ بات یہ ہے کہ مولانا حقہ کے بڑے رسیا ہیں، جب شعر کہتے ہیں تو حقہ ضرور پیتے ہیں اور جب حقہ پیتے ہیں تو شعر ضرور کہتے ہیں۔ ان کے شعر کہنے کا انداز یہ تھا کہ حقہ بھروا لیا اور شعر کہنے بیٹھ گئے۔ طبیعت کی روانی کا یہ حال کہ کبھی کبھی فی کش ایک شعر کے حساب سے کہتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی خود لکھتے ہیں کبھی کسی سے لکھوا لیتے ہیں۔‘‘

علامہ اقبال کے خاکے میں لکھتے ہیں: ’’ایک دفعہ بے تکلف احباب کی صحبت میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ چوہدری شباب الدین کا ذکر چھڑ گیا، کہنے لگے ’’ میں نے ایک بڑھیا دیکھی، جو اسٹیشن کی طرف جا رہی تھی، میں نے پوچھا ’’تو کون ہے؟‘‘ کہنے لگی ’’میں طاعون ہوں‘‘ میں نے کہا ’’تو بھاگ کے کہاں جا رہی تھی؟‘‘ کہنے لگی ’’میں شہر کی طرف جانا چاہتی تھی، لیکن وہاں شباب الدین پہلے سے موجود ہے، میری کیا ضرورت رہ گئی۔‘‘
بہ شکریہ روزنامہ اکسپرس
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سمع و طاعت کا مقام آتا تو وہ سراپا گوش اور پیکر تسلیم و رضا ہوتے تھے۔ لیکن غیرتِ بندگی پر ذرا سی آنچ آتی تو پھر ان کا جوش و خروش دیدنی ہوتا۔ جب صلح حدیبیہ کے تاریخی موڑ پر مشیتِ ایزدی کے رموز اہل ایمان کے لیے ایک زبر دست راز تھے ۔ جب اسلام شانِ مغلوبیت کے ساتھ کفر سے معاہدہ کرتے وقت یہ اعلان کر رہا تھا کہ یہ حق وصداقت کی کُھلی ہوئی جیت ہے۔ جب جوشِ جہاد سے کانپتی ہوئی اور جذبات سے رُندھی ہوئی آواز میں حضرت عمرؓ نے حضور ﷺ سے بے تابانہ سوال کیا تھا کہ "کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ اس وقت صدیق اکبرؓ حضرت عمرؓ کو ایک طرف لے جاکر کیسی بھولی بھالی باتیں کر رہے تھے۔ " حضور ﷺ تو اللہ کے رسول ہیں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کا کہا نہ مانیں اور دیکھو عمرؓ اللہ حضور کا مدد گار ہے" لیکن جب کفّارِ مکّہ کے ایلچی عروہ بن مسعود نے حضور ﷺ کا دل دکھانے والی یہ چھوٹی بات کہی کہ "اے محمد ! (ﷺ ) خدا کی قسم میں تمہارے ساتھ ایسے چہرے اور ایسے لوگ دیکھتا ہوں کہ وقت پڑے گا تو وہ تمہیں چھوڑ کر الگ ہو جائیں گے ۔" تو یہی فرشتہ خو، حلیم ترین انسان تھا جس کا چہرہ غیرت و جراحت سے لال ہو گیا ___ وہی شخص جو سیاہ ناگ کے زہریلے پھن سے چپ چاپ خود کو کٹوا سکتا تھا ۔ ایک کافر کا طنز برداشت نہ کر سکا جس کی اصل چوٹ اس کے اپنے وجود پر نہیں بلکہ غیرتِ ایمانی اور پیمانِ بندگی پر پڑ رہی تھی مجروح جذبات کے طوفانی تھپیڑوں کو چند سادہ و شائستہ الفاظ میں سمیٹتے ہوئے آپ پلٹ کر طنز کیا "اچھا تو ہم رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ! ؟ " بظاہر کتنے سادہ الفاظ تھے لیکن ان کے تیور میں نہ جانے کون سے جذبات کی زبر دست یورش تھی کہ ان الفاظ کی کاٹ تلوار سے زیادہ تیز نکلی ۔ عروہ بن مسعود نے تڑپ کر پوچھا " یہ کون شخص ہے آخر ؟" لیکن جواب میں ابو بکرؓ کا نام سُنا تو ان کی شخصیت سے مرعوب ہو کر سر جھکالیا اور بولا " قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میرے سر پر آپ کے احسانات نہ ہوتے تو میں نہایت سخت جواب دیتا ۔"

...... اور ......
یُوں ہی جہاد در جہاد ایمان وعمل کی قربان گاہوں میں حق و صداقت کی قیمت سمجھتے اور حق و صداقت پر جاں نثاری کی والہانہ ادائیں سمجھاتے ہوئے جب وہ غزوۂ تبوک کی تاریخی منزل تک پہنچے تو قربانی کے جذبے نے ان کو سراپا قربانی بنا دیا ۔ غزوۂ تبوک کی تیاریوں میں جب ہر مومن مالی و جانی حصّہ لینے کے شوق میں اپنی بساط سے آگے نکلا جا رہا تھا ۔ جب حضرت عمرؓ نے نِصف گھر بار اُٹھا کر راہِ مولا میں لُٹاتے ہوئے سوچا تھا کہ شاید نیکی کی دوڑ میں آج میں صدیق اکبرؓ پر بازی لے جا سکوں گا اس وقت حضرت ابو بکرؓ ایک کونے میں غلام ومسکین کی طرح یوں سمٹے بیٹھے تھے جیسے بہت کچھ کر گزرنے کی زبر دست تڑپ ہو مگر عملاً تڑپ کا حق ادا نہ ہو سکا ہو ۔ اس عالم میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”آج وہ خدا اور رسول کے لیے کیا لائے ہیں ؟ تو عجز و وارفتگی میں ڈوبا ہوا یہ جواب ملا " جو کچھ تھا وہ سب کچھ لے آیا ہوں- " یہ جواب اور پھر یہ اداے عاجزانہ حاضرین سنّاٹے میں آگئے ۔ خدا کے رسول ﷺ فرطِ شفقت سے پُکار اٹھے " اور گھر والوں کے لیے آخر کیا چھوڑ کر آئے ہو ___ ؟ " " خُدا اور خُدا کا رسول ! " محبت اور عقیدت میں ڈوبی ہوئی آواز آئی ۔

_______

"ہاں ___ اے گردشِ تقدیر! کبھی ہماری سب سے قیمتی متاع کا نام خُدا اور خُدا کا رسول " ہی تھا ۔ کسی اور کا تو رونا کیا : سچ یہ ہے کہ ہمیں اب خود یہ یقین کرنا دشوار ہے کہ کیا سچ مچ ہم اب بھی ٹھیک وہی ہیں جو کبھی تھے ؟ کبھی ہمارا یہ حال تھا کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہ محسوس ہوتا تھا کہ جیسے بندگی کے سارے حقوق ادا کر چکے ہوں ! ہاں خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اپنی "دیوانگی" کا دُکھ بھرا احساس ہے اور بس یہی وہ احساس ہے جس کے دم تک ہمارا ایمان زندہ ہے۔ لیکن کیا یہ ایمان کی جاں بلب طاقت زندگی اور موت کا پُل صراط طے کرنے کے لیے کافی ہے ؟ کیا یہ فکر ہمیں ستاتی ہے کہ " کیا ہم مسلمان ہیں ___ ؟"

_________________٭٭٭_______________
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ : مئی / 09

ابوالکلام /انجینیر /9 /مئی/ 2013ء
بسنتی دیوی /مجاہد آزادی /9 /مئی/ 1974ء
حکیم محمد یحییٰ /ہمدرد /9 /مئی/ 1963ء
خواجہ آشکار حسین وفا سنبھلی / /9 /مئی/ 1984ء
زخمی امروہوی (سید انوار احمد نقوی) / /9 /مئی/ 1989ء
سید اظہار حیدررضوی / /9 /مئی/ 2005ء
سید شہنشاہ حسین / /9 /مئی/ 2013ء
مولانا عبد الحمید ہزاروی /اہل حدیث /9 /مئی/ 2020ء
مولانا نور احمد بدخشانی / /9 /مئی/ 1973ء
یٰسین شاہ بخاری تاجی / /9 /مئی/ 1999ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

’’میں نے تم سے کچھ کہنا ہے‘‘ … ’’آپ نے ایسا نہ کرنا تھا‘‘ … ’’اُس نے تو لاہور جانا ہی ہوا‘‘ … ’’اب ہم نے تم سے بھلا کیا لینا ہے؟‘‘یہ اور اس طرح کے دوسرے جملے جن میں ’نے‘ کے ساتھ فعلِ مصدری آتا ہے، پنجابی روزمرہ میں داخل ہیں۔ بلکہ پنجانی زبان کے قواعد کی رُو سے بھی درست ہیں۔ البتہ اُردو قواعد اور روزمرہ دونوں کی رُو سے ان کو کسی طرح درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے تمام مواقع پر ’نے‘ کی بہ جائے ’کو‘ استعمال ہوتا ہے۔ ان جملوں کی صحیح شکل یہ ہوگی: ’’مجھ کو (مجھے) تم سے کچھ کہنا ہے‘‘… ’’آپ کو ایسا نہ کرنا تھا‘‘… ’’اُس کو تو لاہور جانا ہی ہے ‘‘(’ہوا‘ خلافِ محاورہ ہے)… ’’اب ہم کو (یا ہمیں) تم سے بھلا کیا لینا ہے؟‘‘آخری جملے کو اس طرح بھی لکھ سکتے ہیں : ’’اب ہم بھلا تم سے کیا لیں؟‘‘بلکہ ایسے جملوں میں فعل کو مضارع یا مستقبل بنانا بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً: ’پھر ہونا کیا تھا؟‘ کی بہ جائے ’پھر ہوتا کیا؟‘ فصیح ہے۔ مثلاً ’گاڑی نے یہاں ٹھیرنا ہے‘ کی بجائے یہ دو جملے صحیح ہیں: ’گاڑی کو یہاں ٹھیرنا ہے‘… ’گاڑی یہاں ٹھیرے گی‘۔ بعض دفعہ ’کو‘ کے استعمال میں کسی قدر اُلجھن بھی پیش آسکتی ہے۔ مثلاً ’میں نے تمھیں سو روپے دینے ہیں‘۔ اگرچہ اس کی صحیح صورت یہ ہوگی: ’مجھ کو تم کو سو روپے دینے ہیں‘۔ لیکن اس ’کو‘ کی تکرار کی وجہ سے یہ مشکل پڑ سکتی ہے کہ یہاں سو روپے دینے والا کون ہے اور لینے والا کون۔ لہٰذا ایسے موقعے پر اہلِ زبان کئی دوسری طرح کے جملے بولتے ہیں۔ مثلاً: ’مجھ کو تمھارے سو روپے دینے ہیں‘… ’میں تمھیں سو روپے کا دین دار ہوں‘… ’مجھ پر تمھارے سو روپے آتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ (’’درست اردو‘‘ از آسی ضیائی۔ پہلا باب)

بھارت سے شائع ہونے والی ’’اچھی اُردو‘‘ کا پیش لفظ لکھتے ہوئے پروفیسر نثار احمد فاروقی (دہلی یونیورسٹی) لکھتے ہیں:

’’راقم الحروف نے اس کتاب کو دلچسپی سے پڑھاہے اوراس کی افادیت کا احساس کیا ہے، البتہ بعض معمولی جزئیات میں کسی قدر اختلاف کی گنجایش بھی محسوس کی ہے۔ مثلاً پہلے باب میں ’مجھ کو‘ اور ’مجھے‘ کی بحث کے ذیل میں فصیح تر مثال یہ ہوگی کہ ’’تمھارے سو روپے مجھے ادا کرنے ہیں‘‘۔

لیجے سو روپے کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔ مگر رحمٰن فارس صاحب کی غزل کا مسئلہ لاینحل رہا۔ اُردو شاعری میں کسی مستند شاعر نے ایسی بے سند بولی اپنے محبوب سے نہیں بولی۔ اچھی زبان لکھنے والے ایسی زبان نہیں لکھتے۔ غازی علم الدین مرحوم یا اسحٰق جلالپوری مرحوم نے بھی ’میں نے آنا ہے‘ اور ’تم نے جانا ہے‘ جیسے جملے اپنی علمی و ادبی نگارشات میں استعمال نہیں کیے۔ کالم نگار بھی…’ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے‘۔

Читать полностью…

علم و کتاب

مانگے کا اجالا

عورت کیلئے شادی کیوں ضروری ہے ؟
ایک عورت ماہر نفسیات کے پاس گئی اور کہا میں شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میں پڑھی لکھی ہوں، خود کماتی ہوں اور خود مختار ہوں اس لئے مجھے خاوند کی ضرورت نہیں ہے مگر میں بہت پریشان ہوں کیونکہ میرے والدین شادی کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
میں کیا کروں ؟
ماہر نفسیات نے کہا بےشک تم نے بہت کامیابیاں حاصل کرلی ہیں لیکن بعض دفعہ تم کوئی کام کرنا چاہو مگر نا کر سکو، کبھی تم سے کچھ غلط ہوگا، کبھی تم ناکام ہوجاؤ گی، کبھی تمھارے پلان ادھورے رہ جائیں گے، کبھی تمھاری خواہشیں پوری نہیں ہوں گی۔۔ تب تم کس کو قصوروار ٹھہراؤ گی ؟ کیا اپنے آپ کو قصور دو گی ؟
لڑکی۔ نہیں بالکل نہیں، اپنے آپ کو کیوں دوں گی ؟
ماہر نفسیات۔ بالکل یہی وجہ ہے کہ تمھیں ایک خاوند کی ضرورت ہوگی جسے اپنی غلطیوں کا زمہ دار ٹھہرا سکو۔

Читать полностью…

علم و کتاب

 
*ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم کا اپنی ہمیشرہ کے نام  (92) سال  قبل جرمنی سے لکھا گیا ایک خط*

   20 رجب 1352هـ ( 8 نومبر 1933ء)
 جناب ہمشیرہ امۃ العزیز بیگم مدظلها
سلام خیریت حاصل و مطلوب ۔ آپ کے متعدد خطوط آئے اور باعث ممنونیت ہوئے گذشتہ ہفتہ کا خط کسی قدر دیر سے ہمدست ہوا۔ جو اس وقت پیش نظر ہے۔ لندن میں انگور دس آنے کلدار میں سیر ملتے ہیں زیادہ بڑے اور میٹھے البتہ نہیں ہیں۔ آم بھی ڈبوں میں آتے ہیں ۵۔۷ بار رات کے کھانے پر ملے تھے۔ امام المدرسین کا کوئی مضمون وصول نہیں ہوا۔ لندن کے کتب خانہ کی فہرستیں بے شبہ کئی سو جلدوں میں ہیں اور کتابوں کی تعداد بھی ملیون( لاکھوں ) میں ہے لیکن اس میں کئی زبان کی کتا بیں شامل ہیں۔ عربی، فارسی کی قلمی کتابیں شاید دس بارہ ہزار ہوں ۔
آکسفورڈ میں بھی کچھ اچھا ذخیرہ ہے، کیمبرج میں چند سو کرتا ہیں ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ قلمی ذخیرہ میں کچھ نہ کچھ دلچسپ چیزیں ہوتی ہیں۔ انگلستان میں حفاظت کا سب سے اچھا انتظام ہے سیاہی کاغذ کو چاٹنی لگی ہو تو بھی ایک خاص قسم کا کاغذ عبارت کے اوپر لگا دیتے ہیں مگر کتاب کے ہر ورق پر دونوں جانب جالی دار مہین کاغذ کو لگانے میں بڑے مصارف ہوتے ہیں فی صفحہ کم از کم دو ر و پے اوسط سمجھئے، چونکہ سرد ملک میں کیڑا کم آتا ہے اور گرد بھی کم ہوتی ہے اس لئے سال میں ایک بار کتاب کو جھٹکنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ مطالعہ کے لئے رحل کی وضع کے اشیا البتہ برتنا لازمی ہے سیاہی ( عبارت) پر ہاتھ پھیرنے کی ممانعت ہے کیونکہ پسینہ کا غذ کو ضرر پہنچاتا ہے اور حروف پر ہاتھ پھیرتے رہنے سے کچھ عرصہ بعد وہ مدھم ہو جاتے ہیں۔ غرض کتاب جس احتیاط سے پڑھی جائے اس قدر اس کی عمر زیادہ ہوتی ہے اب تک سب سے قدیم کتاب لائیڈن (ہالینڈ) میں دیکھی گئی۔ غریب الحدیث مولفہ ابو عبید ۲۴۷‘ یا اس سے لگ بھگ کی ہے، لندن میں ایک غیر مورخ قرآن مجید ہے یہ اس سے قدیم سمجھا جاتا ہے مگر غریب الحدیث بار یک کاغذ پر اور یہ قرآن مجید جھلی پر ہے۔
(۲) مکتوب حمید از لندن:
اس ہفتے ڈبلن یونیورسٹی سے خط آیا ہے کہ وہاں سے بہ آسانی ایک سال میں پی۔ ایچ۔ ڈی ہو سکتی ہے۔ میں نے مکرر ایل ایل ڈی یا ڈی لٹ کی خواہش کر کے خط لکھا ہے۔ آئرلینڈ (ڈبلن) کی پی ایچ ڈی کی جرمن ڈگری کے بعد کوئی خاص وقعت نہیں محض وقت اور روپیہ ضائع کرنا ہے۔ پاریس یونیورسٹی سے بھی خط و کتابت کر رہا ہوں وہاں کی ڈگری کے ساتھ کم از کم فرنچ اچھی ہو جائے گی۔
اپنے مقالے کے انگریزی ترجمے کو کسی لندنی ناشر کتب کے ذریعہ طباعت کی کوشش کر رہا ہوں اگر اس میں کامیابی ہو۔ جس کی کم اُمید ہے۔ تو شاید لندن میں مزید چند دن قیام رکھنا پڑے گا۔ ورنہ آکسفورڈ اور کیمبرج دیکھ کر غالباً سیدھا پاریس چلا جاؤں گا۔
جامعہ عثمانیہ میں ڈاکٹریٹ منظور ہو جائے تو اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہو؟ میں ان شاء اللہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ فی الحال رخصت ۔ خدا حافظ
م۔ح۔ا
/channel/ilmokitab

 

Читать полностью…

علم و کتاب

*جنگ۔۔۔۔*
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

*ساحر لدھیانوی*

Читать полностью…

علم و کتاب

باسمہ تعالی
خراجِ عقیدت برائے *ہمدرد قوم وملت حضرت مولانا غلام محمد وستانوی* رحمۃ اللہ علیہ

از: بندہ *عمران خانپوری* غفر لہ
خادم دارالعلوم فلاح دارین، ترکیسر

إنا للہ وإنا إلیہ راجعون

*آج ہمارے دلوں پر غم و اندوہ* کا ایسا پہاڑ ٹوٹا ہے، جسے الفاظ کی حدود میں سمیٹنا ممکن نہیں، اس لیے کہ آج ہم نے اپنے عہد کی ایک عظیم الشان مایۂ ناز علمی، تعلیمی، تربیتی، روحانی اور اصلاحی بے مثال شخصیت کو کھو دیا۔ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک عالمِ باعمل، با کردار مربی، مخلص وہمدرد قائد اور ملت کے عظیم محسن تھے، جن کی ذات علم، حلم، محبت، اخلاص، دور اندیشی، ایثار اور قیادت کی تمام تر خوبیوں سے مالامال تھی۔

*دار العلوم فلاح دارین ترکیسر کے اس ہونہار سپوت* نے اپنی علمی، دینی اور تربیتی مساعی سے برصغیر کے گوشے گوشے میں علم و عمل کے چراغ روشن کیے۔ آپ جامعہ اشاعت العلوم، اکلکوا کے بانی اور روحِ رواں تھے، یہ جامعہ آج جس علمی و عملی رفعت پر فائز ہے، وہ آپ کی شبانہ روز محنت، بے مثال اخلاص اور حکیمانہ قیادت کی روشن دلیل ہے، ملک کے مختلف خطوں میں آپ کے ذریعہ قائم کردہ مساجد، مدارس، اسکولز اور کالجز آپ کی نگاہِ دور بیں، عزمِ راسخ اور ملت کے لیے تڑپ کے واضح ثبوت اور شہ سرخیاں ہیں۔

*آپ والا رحمت اللہ علیہ کی زندگی کے عظیم کارناموں* میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ملک و ملت کو عموما اور جامع اشاعت العلوم اکلکوا کو خصوصا اپنا ایک علمی، فکری، ثقافی اور دعوتی بلند معیار خلفِ رشید دے کر اس دنیا سے رخصت ہوئے، میری مراد حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی دامت برکاتہم العالیہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی عمر میں برکت عطا فرمائے۔

*آپ والا رحمۃ اللہ علیہ کا دل* سمندر سے بھی وسیع، اور دست سخاوت ہر سائل کے لیے کشادہ تھا، بیواؤں، یتیموں، ناداروں اور مجبوروں کے لیے آپ ہم درد وغم گسار تھے، نہ جانے کتنے گھروں کی رونقیں آپ کی سخاوت و کفالت سے قائم رہیں، جو بھی آپ کی مجلس میں پہنچا محبت و عزت اور حوصلہ و امید لے کر واپس ہوا۔ چھوٹوں کے لیے شفقت، بڑوں کے لیے احترام، اور علما و طلبہ کے لیے خالص محبت و حوصلہ افزائی یہ آپ کے مزاج کا خاصہ تھا۔

*ہماری ذاتی زندگی میں* حضرت کی شخصیت بچپن ہی سے محبتوں کا مرکز تھی۔ والدِ محترم رحمہ اللہ کو آپ سے اور آپ والا رحمت اللہ علیہ کو ہمارے والد گرامی سے محبت وعظمت کا جو سلوک و تعلق خاطر تھا، وہ کسی قرابت سے کم نہ تھا۔ ہم نے بارہا حضرت کی زبانِ مبارک سے والدِ محترم کے لیے عزت، عقیدت اور محبت کے وہ کلمات سنے، جو دل کو گرما دیتے تھے، ہم بھائیوں سے بھی بے پناہ شفقت و محبت سے پیش آتے، اور ہر موقع پر دل جوئی اور ہمدردی کی دل آویز مثالیں قائم کرتے۔

*لیکن میرے قلبی تعلق و محبت کی معراج* وہ لمحہ تھا، جب ایک بار بفضل خداوندی خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی لذیذ ترین سعادت پائی، خواب میں دیکھا کہ سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑے ہال میں جلوہ افروز ہیں، شوق دید و زیارت میں دوڑ کر حاضری دی، تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک صورت، حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمہ اللہ علیہ کی صورت میں جلوہ گر ہے۔ اس خواب نے میرے دل پر محبت کی مہر ثبت کر دی، جس کے نتیجے میں محبت وعقیدت ہر روز بڑھتی ہی چلی گئی۔

*آج حضرت ہم سے* ظاہری طور پر جدا ہو گئے، مگر آپ کی یادیں، آپ کے کارہائے نمایاں، آپ کی دعائیں، شفقتیں، اور آپ کا مشن ہمارے درمیان زندہ و تابندہ رہے گا۔

*اے اللہ!* ہمیں حضرت کی زندگی سے سیکھنے، اُن کے نقشِ قدم پر چلنے، اور اُن کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرما۔
*اے رب کریم!* آپ رحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند فرما، آپ کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنا، اور آپ کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرما *آمین یا رب العالمین*

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ اپریل / 04
سلطان ٹیپو شہید/ / 4/ مئی/ 1799ء
حاجی سر رحیم بخش / / 4/ مئی/ 1935ء
سید صادق حسین شاہ کاظمی/ / 4/ مئی/ 1989ء
شوکت تھانوی (محمد عمر)/ / 4/ مئی/ 1963ء
غلام احمد خاں، چودھری/ / 4/ مئی/ 1975ء
فہیم الدین نوری/ / 4/ مئی/ 1972ء
مہا راجہ سرکشن پرشاد/ / 4/ مئی/ 1940ء
مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحی/ / 4/ مئی/ 2004ء
مولانا قاری شریف احمد گنگوہی/ / 4/ مئی/ 2005ء
مولانا محمد منظور نعمانی/ / 4/ مئی/ 1997ء
مولوی حاجی سررحیم بخش/ / 4/ مئی/ 1935ء
نصرت ،ایس اے/ جسٹس (ر)/ 4/ مئی/ 2001ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*اللہ سے دعا اور شکر زندگی کو آسان اورعنداللہ مقبول بنانے کا بیش بہانسخہ ہے*
المعہد العالی الاسلامی میں اصلاحی تربیتی نشست سے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا خطاب
حیدرآباد(پریس ریلیز)المعہد العالی الاسلامی میں تعلیم کے ساتھ طلبہ کی اصلاح و تربیت کا بھی پورا خیال رکھاجاتاہے، طلبہ کی دینی، اخلاقی اور روحانی تربیت کیلئے معہد میں ہفتہ وار ی تربیت نشست کااہتمام کیا جاتاہے جو ہرجمعہ کو بع نماز مغرب منعقد ہوتاہے،آج مورخہ ۴؍ ذی قعدہ ۱۴۴۶ھ مطابق ۳؍مئی ۲۰۲۵ء تربیتی نشست کاانعقاد عمل میں آیا، جس میں اوراد ماثورہ اور درود شریف کے پڑھنے کا اہتمام کیاگیا، اس نشست سے فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نےطلبہ سے خطاب کیا، خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ اسلام میں علم کی تقسیم دین اوردنیا کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ اسلام میں علم کی تقسیم نافع اورغیر نافع کی حیثیت سے ہے، جوعلم نافع ہو، اس کے حصول کے لیے اللہ سے مانگنے کی تاکید کی گئی ہے اور جو غیر نافع علم ہے ،اس سے پناہ مانگاگیاہے، علم کی نافعیت کے دو درجے ہیں، پہلا درجہ تویہ ہے کہ خود اس کی ذات کو اس سے نفع ہو، دوسرا یہ کہ اس کا نفع متعدی ہو، خاندان، محلہ، سماج ، شہر اورملک وبیرون ملک اس کے علم سے لوگوں کو نفع پہنچے،علم کے نافع کے ہونے کے کچھ تقاضے ہیں اوراس میں سب اہم تقاضایہ ہے کہ آدمی اپنے علم پر عمل کرے، دین کی جوبات اس کو معلوم ہو،اس کو اپنی زندگی کا معمول بنائے، اگرکسی نے تہجد کی فضیلت کی حدیثیں پڑھی ہیں توپڑھ کر نہ گزرجائے بلکہ اس کو اپنامعمول بنائے، کسی نے حسن اخلاق کی حدیث پڑھی ہے تواس کو محض دماغ تک محدود نہ رکھے بلکہ اپنی زندگی میں اس کو برتے،جواپنے علم پر جتنا زیادہ عمل کرتاہے،اس کی نافعیت کا دائرہ بھی اسی لحاظ سے وسیع ہوتاہےاورلوگ اس کی باتیں بھی قبولیت کی کانوں سے سنتے ہیں۔
آپ نے خطاب کرتے ہوئے مزید فرمایا:ایک آسان عمل ہے اس کو طلبہ اپنی زندگی کا معمول بنالیں ان شاء اللہ وہ اس کے ثمرات وبرکات کامشاہدہ کھلی آنکھوں سے کریں گے،ایک یہ کہ کسی بھی کام سے پہلے چاہے چھوٹا ہو،یابڑا، اللہ سے دعاکااہتمام کریں، دوسرے:کام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کا شکراداکریں،ان شاء اللہ وہ کام بڑی آسانی اورسہولت سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا اوراس میں برکت بھی ہوگی ،اس کی تائید احادیث اوررسول اللہ ﷺ کے معمولات مبارکہ سے بھی ہوتی ہے ،،مثلاً: کھانے کی ابتدا اللہ کانام لے کر ہوتی ہے اور دعا پڑھی جاتی ہے،اورکھانے کے بعد رزق کی نعمت پر شکر اداکیاجاتاہے۔حضرت مولانا کی دعا پر اس نشست کا اختتام عمل میں آیا، اس مجلس میں معہد کے اساتذہ اورطلبہ سبھی موجو د تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

مضمون نگاروں کی ایک ایسی کھیپ بھی منظر پر ہے خاص طور پر سوشل میڈیا پر جسے الفاظ کے استعمال کا ذرہ بھر سلیقہ نہیں، وہ ایسا لکھتے ہیں کہ جیسے قلم کی سانسیں اکھڑ رہی ہوں، بھیک مانگتے جملے، کٹورا ہاتھ میں لئے کھڑی عبارتیں، سسکیاں لیتی تشبیہات، منہ بسورتی تعبیرات، ایسی بے دردی سے قلم چلاتے ہیں کہ لفظ مر جاتے اور خیالات جاں کنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مولانا کے یہاں حِسِّ مزاح بھی تھی، چٹکلوں اور لطیفوں کی کاشت کرتے، کبھی مہذب تبصرے بھی ہوجاتے مگر حدود سے باہر قدم نہ نکالتے۔ درس گاہ اور نجی مجلسوں میں ان کی یہ ادا زیادہ دیکھنے میں آتی۔ شگفتہ اور قہقہہ بار جملوں اور گفتگو سے زیر لب تبسم کی کیفیت تو پیدا کرتے ہی۔

مولانا تحریری قلمرو کے مالک تھے اور اس کا رنگ جدا تھا۔ ان کی مضمون نگاری مہکتی عبارتوں، پُردم جملوں، مسحور کن اقتباسات، سماں باندھتی تشبیہات سے عبارت تھی۔ تراکیب کی ندرت اور اسلوب کی آفاقیت انہیں دوسرے قلم کاروں سے بلند کرتی ہے۔ شہد میں گھلے طویل اقتباسات، چاشنی میں لپٹے لمبے لمبے جملے یوں ان کا قلم شخصیت کے خدوخال کو خوبصورتی کے ساتھ کاغذ پر ایسے اتارتا کہ مکمل تصویر بن جاتی۔ عادت، اخلاق، مزاج، کردار، کمال، صلاحیت، خدمات، کارنامے، داستانِ زندگی کا ہر ورق روشن ہوتا۔ لگتا کہ زیر قلم مرحوم شخصیت اٹھ بیٹھی ہو اور آنکھیں ان کے متحرک ہونے، چلنے پھرنے کا حیرت انگیز منظر دیکھتی ہوں۔ مولانا نے بے شمار مقالات، مضامین اور کافی کتابیں لکھیں، سب شاہکار ہیں، معلومات کا خزینہ ہیں، زبان و بیان کا گنجینہ اور اسلوب و ادائیگی کا حسین قرینہ ہیں۔ ’’پسِ مرگ زندہ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ کتاب مولانا کے نثری اسلوب اور پیرایۂ اظہار کا مکمل اور روشن نمونہ ہے۔ کتاب کے یہ چند اقتباسات ہمارے خیال کے مؤید ہیں۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا سراپا یوں لکھتے ہیں:
’’گورا چٹا سرخی گھلا ہوا اور صباحت کی مثال کتابی و بیضوی آمیزے کا چہرا، کھڑی ناک، بڑی بڑی آنکھیں، گھنیریں بھنویں، متوسط القامت، نحیف الجسم، مستقیم القد وجود، گھنیری داڑھی، سر پر دوپلّی ممتاز طور پر کھڑی ٹوپی، جو اُن کی شانِ امتیاز تھی، جاڑے اور گرمی دونوں موسموں میں بہ وقتِ ضرورت و خواہش خوب صورت جاذبِ رنگ کی شیروانی، ہاتھ میں ان کے ذوق ِلطیف کی غماز خوب صورت سی چھڑی، ہونٹوں پر ہلکی گلابی جو قدرتی گلابی سے گھل مل کر مزید پرکشش ہوجاتی تھی، اوپر کی جیب میں نستعلیق سا قلم، چال میں عالمانہ شان، نشست و برخاست میں دین دارانہ امتیاز، حرکات و سکنات سے صالحانہ عظمت و وقار کا ترشح، بات میں متوازن دھیما پن، عام مجلس ہو یا بزمِ خاص ہر جگہ علم و فضل کی بارش۔ بیٹھے ہوں، یا چل رہے ہوں یا کھڑے ہوں، لوگ اُن کی دید سے اتنے محظوظ ہوتے کہ جس کی نظیر، میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ سلوک و برتاؤ میں نرمی اور دل میں اُس سے زیادہ نرمی و بردباری، جوش میں آتے، نہ بلند آواز سے بولتے، اس کے ساتھ ظرافت و بذلہ سنجی میں بھی ممتاز تھے۔ نثر و نظم دونوں پر قدرت تھی، اُن کا بڑا علمی سرمایہ تو نثر ہی میں ہے؛ لیکن اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعری میراث بھی چھوڑی ہے۔ اُن کی تقریر ہی کی طرح اُن کی تحریر بھی، بڑی سہل اور اُن کے زبردست علم و فکر کی ترجمانی کے باوجود، انتہائی رواں، سلیس اور شگفتہ ہوتی تھی، جو بہ ذاتِ خود اُن کا وجہِ امتیاز تھی۔‘‘(پسِ مرگ زندہ)

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’اُن کی عربی اور اردو دونوں یک ساں طور پر روحانیت اور ایمان و یقین میں دھلی ہوئی اور قلب و جگر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہیں ـــــــ مولانا کی ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ ، ’’کاروانِ مدینہ‘‘، ’’جب ایمان کی بہار آئی‘‘، کو بالخصوص اور اُن کی دیگر کتابوں اور دعوتی و فکری کتابچوں کو بالعموم، ایک سے زائد بار پڑھا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ بعض دفعہ وفورِ جوش و جذبات کی وجہ سے مجھے ایسا لگا کہ میرا سینہ چاک ہوجائے گا، چناںچہ میں بیٹھا ہوتا، تو کھڑا ہوجاتا اور کھڑا ہوتا تو ٹہلنے لگتا، نہ معلوم کتنی مرتبہ آنکھوں کو غسلِ صحت ملی اور عصیاں شعار و توبہ شکن دل پر قلعی ہوئی۔ میرے جیسے سیکڑوں نہیں ہزاروں ایسے بندگانِ خدا ہوں گے، جنہیں مولاناؒ کی تحریر و تقریر سے اس مبارک کیفیت کا توشہ ملا ہوگا اور ان شاء اللہ ملتا رہے گا۔ آخر کوئی بات ہے کہ عرب کے بڑے بڑے شاہانِ قلم و زبان، اپنا اپنا تاجِ شہنشاہی، مولانا کے قدموں میں ڈال کر عقیدت کا خراج ادا کرکے، ناقابلِ بیان فرحت و انبساط محسوس کرتے رہے ہیں۔‘‘ (پس مرگ زندہ)

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا نور عالم خلیل امینی*
*قرطاس و قلم کا ایک عہد*

–– *مولانا نسیم اختر شاہ قیصر* رحمۃ اللہ علیہ
(سابق استاذ دارالعلوم وقف دیوبند)

سادگی اور شائستگی کا ایک پیکر، تہذیب و اخلاق کی ایک مبہوت کر دینے والی تصویر، گفتار و لباس سے اپنی جانب متوجہ کرنے والا انسان، سنجیدگی، متانت، عالمانہ وقار کا مجسمہ، خوش ذوقی، خوش مزاجی کا نمونہ، ادب و کمال کی نادر مثال، علمی اور قلمی آفاقیت اور سربلندیوں کی نشانی، زبان اور بیان کی ناقابل تسخیر صلاحیتوں کی ہستی، اسلوب اور اظہار کی انتہائی قوتوں کا مالک شخص، اپنی ذات میں ایک عہد اور اپنے کاموں کے اعتبار سے ایک وقت اور مخصوص سانچے میں ڈھل جانے والی شخصیت کا نام مولانا نور عالم خلیل امینی ہے، جو ماہِ مقدس میں رخصت ہوئے اور یوں خدائی رحمتوں کے سائے میں ابدی نیند سوتے ہیں.

مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سے میرے تعلق کا آغاز ۲۰۰۶ء میں ہوا، میں اپنی کتاب ’’جانے پہچانے لوگ‘‘ پر مقدمہ لکھوانے کے لئے مولانا کی خدمت میں پہنچا، مولانا نے اول مرحلے میں مقدمہ لکھنے کی حامی بھرلی، جس آسانی سے یہ مرحلہ طے ہوا اتنا آسان ثابت نہ ہوا. مولانا کو مقدمہ لکھنے میں چھ ماہ لگ گئے. میں نہ مایوس ہوا اور نہ نا امید، مولانا نے خود مقدمہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے. مقدمہ میرے ہاتھ میں آیا تو لفظ لفظ محبتوں اور عنایتوں کا عنوان تھا۔ خاکہ نگاری کی خصوصیات، نامور خاکہ نگاروں کے حوالے، خاکہ نگاری کی ضرورت اور وقیع رائے سب اس مقدمہ کے مندرجات تھے۔ ایک بیش بہا مقدمہ جس سے مولانا کے مطالعہ، نظر اور قلمی رفعتوں کے دروازے وا ہوتے ہیں بلکہ مجھے لکھنا چاہئے کہ نئی سمتوں اور جہتوں کے واضح اشارے اس مقدمہ کا امتیاز ہیں۔ مولانا نے دل سے مقدمہ لکھا تھا، چھ ماہ کی محنتوں اور گزرنے والے دنوں کی جھلکیاں مقدمہ میں موجود ہیں. یہ مقدمہ، مقدمہ نگاری کے باب میں خاص طور سے دیوبند کی قلمی زندگی میں اپنی انفرادیت کی خود گواہی دیتا ہے.

مولانا سے ۱۲-۱۳ سال کے عرصہ میں کافی ملاقاتیں رہیں، میں ان کے مکان پر حاضر ہوتا، کھلتے چہرے اور مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہتے، بڑی نفیس اور نظیف طبیعت پائی تھی، بڑا سلیقہ تھا، انتہائی مہذب تھے، دسترخوان بھی خوش ذائقہ اور لذیذ چیزوں سے سجا ہوتا. جب دسترخوان سمیٹنے کی باری آتی تو یہ شکایت ضرور فرماتے کہ آپ لیتے کچھ نہیں ہیں.

خوش پوشاک تھے، شاید روز ہی لباس تبدیل کرتے، شیروانی ہر موسم میں زیب تن رہتی، دھیمی چال کے ساتھ مکان سے دارالعلوم آتے، بہت بار باب قاسم دارالعلوم دیوبند اور چھتہ مسجد کے درمیانی راستے میں ان سے آمنا سامنا ہوا، کبھی چند منٹ ٹھہر کر گفتگو فرماتے اور کبھی سلام و دعا کے بعد آگے بڑھ جاتے. گفتگو میں بڑا ٹھہرائو تھا، لفظوں کا انتخاب اور جملوں کی ساخت بھی دل پذیر ہوتی. مولانا مرغوب الرحمن سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا انتقال ہوا تو برادرم مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی مدظلہٗ شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند اور میں تعزیت کے لئے مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند پہنچے. اس نشست میں مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا انوار الرحمن ممبر مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند، مولانا نور عالم خلیل امینی اور دیگر حضرات موجود تھے، مجھے مولانا نور عالم خلیل امینی کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا، تعزیتی گفتگو اور مولانا مرغوب الرحمن سے خاندانی اور قدیم تعلق کے تذکرے کے بعد دیگر موضوعات پر بات ہوتی رہی. مولانا میری جانب متوجہ ہوئے، میں یہاں یہ عرض کردوں کہ بہت دیر سنجیدہ ماحول میں گزارنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے اور میری فطرت مجھے چہکنے پر مجبور کرتی اور قہقہوں پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے. میں چند ہی ملاقاتوں میں بڑوں کی مجلسوں میں بھی بے تکلفی کی فضا بنا لیتا ہوں۔ میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آپ کی کتاب ’’پسِ مرگ زندہ‘‘ کے بعد میرا خیال ہے کہ اب ’’قبل از مرگ مردہ‘‘ آنی چاہئے. یہ سنتے ہی مولانا سنجیدہ ہوگئے، کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگئے، مگر یہ لمحاتی سنجیدگی تھی، چہرے پر پھر وہی زندہ مسکراہٹ لوٹ آئی جو مولانا کی فطرت کا حصہ تھی. فرمایا: بات تو درست ہے، ایسے کردار بھی لاتعداد ہیں، ان پر لکھا جاسکتا ہے.

Читать полностью…

علم و کتاب

کتب خانہ (03) رضا علی عابدی

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر ذاکر حسین
وفات 03-05-1969ء
تحریر: آصف جیلانی
ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہند کے یوم وفات کی مناسبت سے بی بی سی اردو کے مشہور صحافی وبراڈکاسٹر کی تحریر
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/dr-zakir-husain-by-asif-jilani/Dr%20Zakir%20Husain%20By%20Asif%20Jilani.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

*صبر کے ساتھ شکر*

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: حوادث، مصائب، ذاتی بھی ہوتے ہیں، اجتماعی بھی ہوتے ہیں، اللّٰه تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے، وہ اللّٰه کا حکم دیکھتے ہیں اور حفاظت کرتے ہیں۔ ورنہ رہنا دو بھر ہوجائے۔ کہا جاتا ہے: بال بال بچے، بچے نہیں؟ بچائے گئے۔ فرشتے چاروں طرف لگے ہوئے ہیں: "لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِؕ" (ہر شخص کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے پہرہ دار ہیں، جو اللّٰه کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں) اس لیے شکر بھی ضروری ہے، ہر شخص کی زندگی کی یہ دو حالتیں ہیں: صبر یا شکر، ان کا تعلق اصلاً دل سے ہے، دل سے صبر ہوتا ہے اور دل سے شکر ہوتا ہے، دونوں پر اللّٰه تعالیٰ بہت نوازتا ہے، دنیا میں بھی اس کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور آخرت میں جو ہوگا، وہ الگ ہے۔

افادات علم و حکمت/صفحہ: ۳۱/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مردم دیدہ...حقہ پیتا ہے شعر کہتا ہے اور عاشق میں کیا برائی ہے

رئیس فاطمہ

اردو میں خاکہ نگاری کا پہلا نمونہ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریر ’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی‘‘ کی صورت میں ملتا ہے، تاہم اس سلسلے میں بعد میں آنے والی کتابوں میں ’’مردم دیدہ‘‘ کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ چراغ حسن حسرت کے یہ مضامین جامع اور مختصر ہیں، اسلوب رواں دوا شستہ اور دلچسپ ہے۔ ’’مردم دیدہ میں چند ایسے مشاہیر کی زندگی کے متعلق مضامین ہیں جن سے مصنف کے ذاتی طور پر مراسم رہے۔ حسرت صاحب کی خوش طبعی اور لطیف شگفتہ انداز بیاں نے کتاب کو دل آویزی بخش دی ہے۔

پہلا خاکہ آغا حشر کاشمیری کا ہے، لکھتے ہیں ’’آغا حشر اور ڈرامہ تینوں لفظ (آغا+حشر+ڈرامہ) میرے نزدیک بہت ڈراؤنے اور بھیانک تھے۔ پھر جب ہمارے ہاں ایک ڈرامیٹک کلب کی بنیاد پڑی اور اسیر حرس، سفید خون اور ’’خواب ہستی‘‘ کے نام ہر شخص کی زبان سے سنائی دینے لگے تو آغا حشر کا نام بھی ہر شخص کی زبان سے سنائی دینے لگا۔ اس دور افتادہ مقام پر لے دے کے یہی ایک تفریح تھی، اس لیے بوڑھے بچے، جوان سب تھیٹر دیکھے جاتے تھے۔‘‘

’’میں جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں ابھی ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا، جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھا جسے لوگ زندہ ناچ گانا بھی کہتے تھے اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا، یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراماٹسٹ موجود تھے، جیسے طالب بنارسی، احسن، بے تاب، مائل سب کے سب تھیٹر کی لنکا کے باون گز تھے۔ لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ آغا سے پہلے اس فن کی قدر بھی کہاں تھی۔ بے چارے ڈراماٹسٹ تھیٹر کے منشی کہلاتے تھے۔‘‘

’’چارپائی پر آغا صاحب لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے، ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے، سر پر انگریزی فیشن کے بال، ڈاڑھی منڈی ہوئی، چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ و سفید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا، محفل میں بیٹھا ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ وہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔‘‘

’’آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے، جس محفل میں جا بیٹھتے سب پر چھا جاتے، ان کے ملنے والوں میں اکثر لوگ ضلع جگت میں طاق تھے اور پھبتی کسنے میں بھی ان کا کوئی جواب نہ تھا اور جب شام کو صحبت گرم ہوتی تین تین چار چار آدمی مل کے آغا پر پھبتیوں کا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے، لیکن آغا چو مکھی لڑنا جانتے تھے۔ حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا تھا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔

’’جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا مقصود ہوتا، اسے اس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بے چارہ حیران رہ جاتا تھا۔ گالی۔۔۔۔ کا نام سن کر کچھ لوگ کہیں گے گالی دینا کہاں کا اخلاق ہے؟ لیکن آغا کنجڑے قصائیوں جیسی گالیاں تھوڑا ہی دیتے تھے۔ انھوں نے گالی کو ادب و شعر سے ترکیب دے کر ایسی خوش نما چیز بنا دیا تھا کہ اگر مرحوم کچھ دنوں اور زندہ رہتے تو ان کا شمار فنون لطیفہ میں ہونے لگتا۔‘‘

’’آغا مطالعے کے بڑے شوقین تھے، بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی، کھڑے ہوگئے، اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستے میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق پر پڑیاں باندھ کے دے دیں، یکایک آغا صاحب کی نظر پڑ گئی، نوکر سے پوچھ رہے ہیں، اس پڑیا میں کیا ہے؟ شکر۔۔۔۔ اچھا شکر کو ڈبے میں ڈالو، پڑیاں خالی کر کے لاؤ، اسے پھینک نہ دیجو، یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ آغا مناظرے کے میدان کے شیر تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے سب پر چھا جاتے۔ باقاعدہ تعلیم تو واجبی سی تھی لیکن مطالعے نے انھیں کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔‘‘

آغا حشر نے بڑی عمر میں مختار بیگم سے شادی کر لی تھی جو فریدہ خانم کی بڑی بہن تھیں۔ وہ کہتے تھے بڑھاپے کا عشق بڑا کافر ہوتا ہے جس پہ مرتا ہے اسے مار رکھتا ہے۔ پتا نہیں کیوں اتنے طویل خاکے میں مختار بیگم کا ذکر تک نہیں۔

دوسرا خاکہ ہے شفا الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی کا، جس کا عنوان ہے ’’شفا الملک‘‘۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

’’اصل میں ادیبوں اور شاعروں کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ بہت دبلے پتلے اور ہمیشہ کے روگی ہوں گے، اگرچہ پنجاب کے بعض ادیبوں نے بہت حد تک اس خیال کی تردید کردی ہے جن لوگوں نے صرف اسی قسم کے بعض پنجابی ادیب دیکھے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی اچھا ادیب گاماں پہلوان سے کیا کم ہوگا۔‘‘

’’ایک دن مطب میں بیٹھے تھے کہ ایک نازک اندام ہندو عورت آئی، اس کا دوپٹہ گوٹے سے لپا ہوا تھا۔ حکیم عبدالحمید خاں کے سامنے اور تو کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اپنے ایک ہم درس کو جو دوائیں دے رہا تھا پکار کر کہا ’’خمیرہ گاؤ زبان پہ ورق نقرہ پیچیدہ۔‘‘

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا ہم مسلمان ہیں (۳۴) خدا کی سَمت میں کشاں کشاں زندگی ( تيسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
جنگِ اُحد میں جب مسلمانوں کی ایک المناک فرو گزاشت سے بساطِ فتح و ظفر تہہ و بالا ہوکر رہ گئی تھی جب گھائل کفر نے شکست کا ہر گہرا گھاؤ کھا کر پیچھے سے اچانک حملہ کیا جب مومنوں کو سوچنے سمجھنے کی فرصت بھی نہ ملی اور ہوش و حواس نے ایمانی تقاضوں کا ساتھ چھوڑ دیا جب وہ قدم زمین پر رکھے ہوئے تھر تھرا رہے تھے جن میں تلواروں کی دھار پر بھی جنبش نہ ہوتی تھی۔ جب قتلِ رسول(ﷺ) کی ہوش رُبا افواہوں نے اہل ایمان کو سکتے میں ڈال دیا تھا ___ اُس جنگ میں بھی شروع سے آخر تک حضرت ابو بکرؓ کے قدموں میں بال برابر جنبش نہ ہوئی تھی خون اور غم کی جس ہولناک آندھی میں جہاد و عزیمت کے سر بفلک پہاڑ ذرّوں کی طرح اُڑ رہے تھے اس وقت ابو بکرؓ کی زندگی میں خوف اور غم کے تمام جذبات احساسِ فرض کو آگے بڑھانے کے لیے دست بستہ راستہ دے رہے تھے ۔ جب معرکۂ فرض سر ہو گیا تو یہی وہ شخص تھا جو گھائل پیغمبر( ﷺ )کے نقوش پا کو خونِ دل و جگر سے نکھار تا ہُوا حضور ﷺ کے ساتھ ساتھ پہاڑ کی بلندی پر چڑھ رہا تھا۔ حضور ﷺ کے زخم رسیدہ چہرے کو دیکھ کر ان کا کیا حال ہوا ہو گا ؟ یہ سوچنے کی بات نہیں۔ وہی شخص جو اس کے لیے ہزار بار تیار تھا کہ سیاہ ناگ اس کو غار ثور میں ڈس لے ، مگر حضور ﷺ کے خوابِ راحت کو ذرا سی ٹھیس نہ پہنچے وہی اب یہ دیکھ رہا تھا کہ حضور ﷺ کا مقدس چہرہ خُون میں نہایا ہوا ہے بھلا کِس کی سکت ہے کہ حضرت ابو بکرؓ کی خوں چکاں کیفیات کا اندازہ کر سکے ۔ اگر کُچھ اندازہ ہوتا ہے تو اس زبر دست واقعہ سے ہوتا ہے کہ زخموں سے چُور اس راہِ پُر خار پر چلے تھے کہ زخمی دل پر ایک اور بجلی گری ۔ پتہ چلا کہ اس لرزہ خیز فتنہ کا شکار کچھ سادہ دل مسلمان بھی ہو گئے ہیں اور ان مسلمانوں میں وہ مسطحؓ بن اثاثہ بھی شامل ہیں جن کی عمر بھر کی کفالت پر حضرت ابو بکرؓ نے اپنی آغوشِ محبّت کی بہترین گرم جوشیاں صرف کی تھیں خود اپنے پروردۂ نعمت کے ہاتھوں اپنے ننگ و ناموس کو خون سے رنگین دیکھ کر ان پر جو بھی قیامت گزر گئی ہو کم ہے لیکن اس وقت بھی انہوں نے منہ سے کچھ نہ کہا ۔ دل تھام کر اور کلیجہ مسوس کر رہ گئے ۔ وہ اس وقت تک کچھ کہنے کے بجائے صرف سہنا چاہتے تھے جب تک حقیقت خود واضح نہ ہو جائے وہ خوب جانتے تھے کہ یہ الزام ایک عفیفہ کی پاک دامنی پر قاتلانہ حملہ ہے ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ حضور ﷺ کی بے چینی اور فتنہ انگیز منافقوں کی فتنہ طرازیوں کے درمیان حضرت عائشہؓ کے ڈھانچے لگے جارہے ہیں اور آنسوؤں سے تر بتر تکیے پر سر ڈالے ہوئے کانٹوں اور شعلوں کی سیج پر تڑپ رہی ہیں لیکن کوئی شے صدیقی صبر کا پیمانہ نہ چھلکا سکی وہ سینے پر صبر کی سِل رکھے ہوئے اور ہونٹوں پر تقوے کے قفل چڑھائے ہوئے صرف اس لیے خاموش تھے کہ یہ خاموشی اسوۂ رسول ﷺ تھی ___ یہ رضائے الٰہی کا دل کش تقاضا تھا ۔ یہ ادا ان کے جذبات پر کتنی ہی شاق کیوں نہ ہو ان کو دل و جان سے زیادہ پیاری تھی کہ یہ ان کے مولا کو پیاری ہے آخر صبر کی جاں گدازیاں اپنے نیک انجام کو پہنچیں انتظار کے پہاڑ سے دن کٹ ہی گئے اور آسمانی آواز نے اعلان کیا کہ زمین پر یہ فتہ سراسر کذب و افترا ہے ۔ ابو بکرؓ اس وقت بولے جب خُدا خود بول اُٹھا تھا۔ اخلاق و شائستگی کی حدوں میں رہتے ہوئے اس وقت بھی انھوں نے اس سے زیادہ احتجاج نہ کیا کہ "خدا کی قسم! اس فتنہ پردازی کے بعد میں مسطحؓ بن اثاثہ کی کفالت نہیں کر سکتا ۔" یہ ایک حلیم ترین بندۂ مومن کے الفاظ تھے جہاں سادہ و متین الفاظ کی تہہ میں مجروح جذبات کے طوفان دبے ہوتے تھے لیکن ابھی اس فیصلہ کُن اعلان کی گونج بھی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ خُدا کی دُوسری آواز نے حضرت ابو بکرؓ کو محویتِ جذبات سے چونکا دیا:
"تم میں سے بڑے اور ذی استطاعت لوگ عزیز و اقرباء مسکینوں اور راہ خدا میں گھر بار چھوڑ دینے والوں کو (مدد) نہ دینے کی قسم نہ کھائیں اور چاہیے کہ ان کے قصور معاف کریں اور در گزر کریں ۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو بخش دے ؟ اور اللہ انتہائی معاف کرنے والا اور ترس کھانے والا ہے ۔"
خدا کی یہ آواز سنتے ہی حضرت ابو بکرؓ نے اپنی آواز دبادی اپنے زبر دست جذبات کا گلا گھونٹ دیا ۔ یہ الفاظ کہ " کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو بخش دے ؟" حضرت ابو بکرؓ کی رُوح کو تڑپا دینے والا سوال تھا۔ غیرت و خود داری کے جذبات عجز و بندگی میں ڈھل گئے ۔ دل و جگر کا گرم خون آنسوؤں میں تبدیل ہو گیا ۔ خدا کا پرستار خدا کے قدموں میں گرتے ہوئے گِڑ گِڑا رہا تھا "ہاں میرے مولا میں یہ چاہتا ہوں میں یہ چاہتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے-" سجدے سے سر اُٹھایا اور اعلان کیا "خدا کی قسم ! اب بھی ہمیشہ مسطح کا کفیل رہوں گا ۔ ہمیشہ ہمیشہ ۔"

Читать полностью…

علم و کتاب

مانگے کا اجالا ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم
ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے
پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر
تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی

ساحر لدھیانوی

Читать полностью…

علم و کتاب

*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی*

حیدر آباد دکن کے محترم ابراہیم علی حسن صاحب اِن کالموں کے مستقل قاری ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’السلام علیکم محترم احمد حاطب صدیقی صاحب۔ امید ہے بفضلہٖ تعالیٰ بخیر ہوں گے۔ آج کل پاکستان کے اہلِ قلم میں ’ہم کو‘ کی جگہ ’ہم نے‘ اور ’تم کو ‘ کی جگہ ’تم نے‘ کا استعمال بہت نظر آرہا ہے۔ قدما میں تو نہیں تھا ایسا۔ امید ہے آپ اپنا قیمتی وقت نکال کر اس موضوع پر کچھ لکھیں گے۔ یہ اگر مغالطہ ہے تو رفع ہو۔ اگر نہیں تو ہمارے علم میں اضافہ ہوگا اِن شاء اللہ۔ ابراہیم علی حسن (حیدرآباد دکن۔انڈیا)‘‘

جناب ابراہیم علی حسن نے پاکستانی شاعر رحمٰن فارسؔ کی ایک غزل بھی ثبوت کے طور پر ارسال فرمائی ہے، جس میں اُنھوں نے جا بجا ’تم کو‘ اور ’ہم کو‘ کی جگہ ’تم نے‘ اور ’ہم نے‘ استعمال کیا ہے۔ ہم یہاں پوری غزل دینے کی بجائے صرف متعلقہ اشعار نقل کررہے ہیں:

تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہو بہو
تم نے بھی یاد آنا ہے، آنا تو ہے نہیں
عہدِ وفا سے کس لیے خائف ہو میری جان
کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں
وہ جو ہمیں عزیز ہے، کیسا ہے، کون ہے
کیوں پوچھتے ہو؟ ہم نے بتانا تو ہے نہیں
دنیا ہم اہلِ عشق پہ کیوں پھینکتی ہے جال؟
ہم نے ترے فریب میں آنا تو ہے نہیں

اگر ملک میں اس طرح کی شاعری کی پزیرائی ہوتی رہی تو شاید آگے چل کر رحمٰن فارسؔ صاحب ہی پاکستان کے نمائندہ شاعر کہلائیں گے۔ فی الحال تو انھیں یہ مقام حاصل نہیں۔ ہاں اگر مزید ’ہم نے، تم نے‘ کریں تو ممکن ہے کہ اُنھیں کو یہ منصب عطا کردیا جائے۔ مگر اے حضرت! یہ ’ہم نے، تم نے‘ فقط پاکستان کے اہلِ قلم کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بقولِ شیخ سعدیؔ علیہ الرحمہ:

ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند
(یہ وہ خطا ہے جو تمھارے شہر والے بھی کرتے ہیں)

مشہور نقادآں جہانی پروفیسر ڈاکٹر گیان چند جین،جو بھارت کی مختلف جامعات میں اُردو کے پروفیسر بھی رہے ہیں، لکھتے ہیں:

’’میں نے جانا ہے‘‘ اس جملے کو پنجابیوں کا انداز اور اسلوب سمجھ کر اسے غلط قرار دیا جاتا ہے۔ یوپی والے ’’مجھے جانا ہے‘‘ یا ’’مجھ کو جانا ہے‘‘ کو صحیح سمجھتے ہیں۔ دراصل ’’میں‘‘ فاعلی حالت ہے اس لیے ’’میں نے جانا ہے‘‘ ہی قواعد کے اعتبار سے صحیح ہے۔ ضمیر ’’مجھے‘‘ میں مفعولی حالت ہے مثلاً اس نے مجھے مارا۔ اور ’’کو‘‘ فاعل کا حرف نہیں بلکہ مفعول کا ہے۔ مثلاً اُس نے مجھ کو مارا۔ لہٰذا ’’مجھے جانا ہے‘‘ کے بجائے ’’میں نے جانا ہے‘‘ ہی درست ہے۔ یوپی والے اگر اسے غلط بولتے ہیں تو وہ اپنی یہ غلطی اہلِ پنجاب پر نہیں لاد سکتے‘‘۔ (’’عام لسانیات‘‘ از ڈاکٹر گیان چند جین، شائع کردہ: انڈیا قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، نئی دہلی، سنہ اشاعت ۱۹۸۵ء، ص:۲۰)

مگر ڈاکٹر گیان چند جین کے اس نقطۂ نظر کو ماہرین زبان میں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں پاکستان میں بھی چند افراد (مثلاً پروفیسر غازی علم الدین مرحوم) اسی نقطۂ نظر کے حامی تھے۔ بلکہ مشہور ماہر نصابیات پروفیسر محمد اسحٰق جلالپوری مرحوم تو اس نقطۂ نظر کے حق میں ایک دلچسپ مثال بھی دیا کرتے تھے۔ کہتے تھے: ’’اگر آپ یہ فرمائیں گے کہ ’آپ کو ۱۰۰ روپے دینے ہیں‘۔ تو یہ واضح نہیں ہوتا کہ روپے کون دے گا؟ میں دوں گا؟ یا آپ دیں گے؟ لیکن اگر یوں کہا جائے کہ ’میں نے ۱۰۰روپے دینے ہیں‘ یا ’آپ نے ۱۰۰ روپے دینے ہیں‘ تو کوئی ابہام باقی نہیں ر ہے گا، بات بالکل واضح ہوجائے گی۔‘‘

گویا ’’میں نے، تم نے‘‘ کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ۱۰۰ روپے ڈوب جانے کا ڈر نہیں رہے گا۔ لیکن ہمیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ڈرے تو وہ جس نے ۱۰۰روپے ہڑپ کر رکھے ہوں۔ مُلا نوریؔ فرماتے ہیں کہ ’’ہر وہ شخص جو خیانت کرتا ہے، ضرور ڈرتا ہے‘‘:

ہر کس کہ خیانت کُند البتہ بِترسد
بے چارۂ نوریؔ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے

نوری کے ذکر پر ضیائی یاد آگئے۔ پروفیسر آسیؔ ضیائی نے اپنی کتاب ’’درست اُردو‘‘ میں ’میں نے، تم نے‘ استعمال کیے بغیر ہی ۱۰۰ روپے ڈوب جانے کا ڈر دل سے نکال دیا ہے۔ آسیؔ صاحب کی یہی کتاب ’’مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی‘‘نے بھی ’’اچھی اُردو‘‘ کے نام سے شائع کردی ہے۔ (یہ کتاب ڈاکٹر تابشؔ مہدی مرحوم نے کالم نگار کو ہندوستان سے ہدیتہً بھیجی تھی۔ اللہ اُن کے حسنات کو شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین) کتاب کے پہلے باب میں ’’نے‘‘ کے غلط استعمال کی مثالیں دیتے ہوئے پروفیسر آسی ضیائی لکھتے ہیں:

Читать полностью…

علم و کتاب

نداۓ دارالعلوم کا تازہ شمارە(ماہ شوال وذی قعدہ) نذر قارئین ہے...!
Click here to download latest issue (Apr/ May Issue) of Nida e Darul Uloom.

https://dud.edu.in/images/pdf/Nida%20Full%20Shawwal%20April%20May25.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے

یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو
جگمگاتے ہوئے لمحوں سے گریزاں کیوں ہو

انگلیاں اٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف
اک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف

چوڑیوں پر بھی کئی طنز کیئے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ بھی فقرے کَسے جائیں گے

پھر کہیں گے کہ ہنسی میں بھی خفا ہوتی ہیں
اب تو روحیؔ کی نمازیں بھی قضا ہوتی ہیں

لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں مرا ذکر بھی لے آئیں گے

ان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تأثر سے سمجھ جائیں گے

چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا ان سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی

#کفیل امروہی

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ : مئی / 06
++++++++++++++
بھولا بھائی ڈیسائی / /6 /مئی/ 1946ء
حسن عابد (سید حسن عابد زیدی) / /6 /مئی/ 2007ء
ڈاکٹر میرولی الدین / /6 /مئی / 1974ء
سراج الدین ظفر / /6 /مئی/ 1972ء
سید مظہرالحسن / /6 /مئی/ 2003ء
ظفر، سراج الدین ظفر / /6 /مئی/ 1972ء
کارل برکلمان /جرمن محقق /6 /مئی / 1956ء
مولانا حکیم محمد احسن قاسمی / /6 /مئی/ 1994ء
مولانا سید عزیز الرحمن حسنی / /6 /مئی/ 1958ء
مولانا سید کفایت علی کافی /مجاہد آزادی /6 /مئی / 1858ء
مولانا شاہ اسماعیل دہلوی / /6 /مئی / 1831ء
نبیسہ امل /کیرالا، سیاست دان /6 /مئی / 2023ء
نثاراٹاوی ، نثار حسین / /6 /مئی/ 1974ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
*اسلم ملک کی وال سے*
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے

یہ شعر علامہ اقبال کا نہیں ، سید صادق حسین شاہ ایڈووکیٹ کا ہے، جن کی آج 36 ویں برسی ہے.

سید صادق حسین کاظمی یکم اکتوبر 1898 کو کشمیر کے موضع کھادر پاڑا میں پیدا ہوئے اور 4 مئی 1989ء کو وفات پائی۔ 1910 میں ان کا خاندان ہجرت کرکے ظفر وال ضلع سیالکوٹ میں آباد ہوگیا۔ "تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب" والی غزل 1918 میں روزنامہ "آفتاب" لاہور میں شائع ہوئی ۔سید صادق حسین کاظمی سیالکوٹ اور شکرگڑھ میں وکالت کرتے رہے۔پائی.ان کا مجموعہ کلام "برگِ سبز" کے نام سے شائع ہوا.
ان کے دو بیٹے سید صفدر حسین کاظمی اور سید شوکت حسین کاظمی پاکستان کی بیورو کریسی میں اعلی' عہدوں پر فائز رہے ۔

پیش ہے وہ پوری غزل
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

کامیابی کی ہُوا کرتی ہے ناکامی دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے

نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لیے

چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر
مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے

استقامت سے اٹھا وہ نالۂ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لیے

آتشِ نمرود گر بھٹکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لیے

مانگنا کیسا؟ کہ تو خود مالک و مختار ہے
ہاتھ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے

دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

تعارفی صفحات
اخبار الوفیات
مرتب: محمد ثاقب رضا قادری
لنک علم وکتاب لائبریری
https://bit.ly/42H6k6g

Читать полностью…

علم و کتاب

فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ مسعودیؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند کے تحریر و قلم کے باب میں یوں لکھتے ہیں:
’’نیز وہ اردو کے بلند پایہ اہلِ قلم تھے، ان کی زبان پُرشکوہ ہونے کے ساتھ ساتھ، نئی نئی ترکیبوں اور خوش نما ساختیات سے بھری پُری ہوتی تھی۔ وہ اپنی تحریروں میں زیادہ تر اپنے تراشے ہوئے جملے استعمال کرتے، جو روانی، شیرینیت اور جمال کا پیکر ہوتے تھے۔ وہ زندگی کے اکثر میدانوں میں نقالی و محاکات اور ’’دوسروں سے مانگنے‘‘ کے رویہ سے بے نیاز تھے، ان کی تحریر میں یہ رنگِ بے نیازی زیادہ نمایاں تھا، لہٰذا ان کی تحریریں اپنے بانک پن کی وجہ سے بڑی پُرکشش اور طرح دار ہوتی تھیں، جیسے سامعین اُن کی تقریروں سے بے پناہ محفوظ ہوتے تھے، اسی طرح قارئین اُن کی تحریروں سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے، جن میںخیال کی ندرت، زبان کی بلاغت، ترکیبوں کی فصاحت، طرزِ ادا کی سحرکاری اور پیرایۂ بیان کے تنوع اور ہمہ گیریت کی وجہ سے، ہر لمحہ ایک نئی لذّت محسوس ہوتی اور قاری کسی قدم پر اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا۔ ‘‘ (پس مرگ زندہ)

یوں تو مولانا کی تمام تصانیف اعلیٰ پائے کی ہیں لیکن سوانحی باب اور شخصی مضامین کے ذیل میں ان کے قلم کی رعنائیاں اور جلوہ ریزیاں دیدنی ہیں۔ ’’پس مرگ زندہ‘‘ کے ساتھ ان کی کتاب ’’وہ کوہ کن کی بات‘‘ بھی لائق تذکرہ اور لائقِ بیان ہے۔ کتاب میں مولانا نے تعلق اور عقیدت کے پہاڑ کاٹے ہیں اور اپنے استاذ کو جو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے اس کا درجہ متعین کرنا مشکل ہے۔ استاذ کی محبت میں لکھی گئی اس کتاب کی ہر سطر روشن اور ہر صفحہ تابندہ ہے۔ کتاب کی ایک خاص بات جس نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا کہ مولانا نے معروف اور روایتی تعبیرات کو قلم کا طواف کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ انہوں نے تعبیرات اور استعارات کی اپنی دنیا آباد کی جس سے کتاب کے حسن میں اضافہ ہوا۔

اردو عربی زبان و ادب کے وہ ادا شناس اور ماہر تھے، دونوں زبانوں کی نزاکتوں، تقاضوں اور فطری مطالبوں کو وہ خوب جانتے تھے، دونوں زبانوں میں ان کا اشہبِ قلم اپنے جلوے دکھاتا، کبھی عربی میں اپنی برق رفتاری سے متاثر کرتا، کبھی اردو میں موجِ رواں کی کیفیت پیدا کرتا۔ ان کا لکھا ایک زبان کا شہ پارہ دیکھیں تو دوسرے سے بڑھا ہوا، دوسری زبان کی تخلیق کا مطالعہ کریں تو پہلے سے زیادہ سامانِ قلب و نظر فراہم کرتی ہوئی۔

مولانا نور عالم خلیل امینیؒ مسلسل اور تیز رفتاری کے ساتھ انسانوں سے محروم ہوتی اس دنیا سے جسم و جاں کا نذرانہ لئے بارگاہِ خالق میں پہنچ گئے۔ حادثات، محرومیوں اور درد و کرب کے اس عالم میں یہ خیال بار بار دل اور دماغ پر دستک دیتا ہے:
ایک ایک کرکے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفۂ ماتم نہیں ملا

گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں قلم نے غموں کا بوجھ ڈھونے کے سوا کیا ہی کیا ہے، اپنوں کو رونے اور چلے جانے کا دکھ ہی اس کی پہچان اور شناخت بن کر رہ گئی ہے۔ اس شناخت کو مولانا نور عالم خلیل امینی کی وفات نے اور زیادہ گہرا کردیا ہے۔ اللہ مولانا مرحوم کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے.

Читать полностью…

علم و کتاب

میری کتاب ’’اوراق شناسی‘‘ چھپی تو حسبِ معمول مولانا کی خدمت میں بھی بھیجی، میں نے اس کتاب میں اپنی وہ تمام تحریریں شامل کی ہیں جو دیگر حضرات کی کتابوں پر مقدمات اور تقاریظ وغیرہ کی صورت میں لکھی گئیں۔ اتفاق یہ کہ مولانا سے بابِ قاسم اور چھتہ مسجد والے راستے میں ملاقات ہوئی۔ فرمایا کہ میں کتاب کے نام سے یہ سمجھا تھا کہ اس میں کاغذ کی تاریخ اور اقسام وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہوگی۔ میں نے قہقہہ لگایا تو مولانا نے فرمایا کہ ابتدائی مطالعہ کر چکا ہوں، آپ نے اچھا کیا جو یہ چیزیں جمع کردیں۔ ان سے ایک ملاقات کے بعد دوسری ملاقات کے لئے طبیعت بے چین رہتی تھی، وہ دھیرے دھیرے بولتے، ان کی زبان پر کسی کے لئے کوئی توہین یا تضحیک آمیز بات نہ آتی۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے دو دور اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، دونوں ہی زمانوں کی مثبت اور لائقِ ذکر یادیں ہی ان کی زبان اور قلم کا سرمایہ تھیں۔ ان کے یہاں تلخی نہیں، خوشگواری تھی، بہت سی تلخیوں کو انہوں نے ماضی کے حوالے کردیا تھا۔ مثبت اور بہترین سوچ کے ساتھ زندگی گزاری اور اس سلسلے میں خود سے جو عہد کیا تھا تمام عمر اس کی پاس داری کی، کبھی میں زمانۂ طالب علمی کے حوالے سے انہیں کریدتا اور اس دور کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتا تو وہ اس سمت میں نہ چلتے اور اچھی ہی باتیں بتاتے۔

اپنے زمانے کے نامور افراد اور اشخاص کے لئے ان کے دل میں بڑی محبت تھی، ان کے شخصی مضامین بڑے طویل ہوتے، ۱۵-۱۵، ۲۰-۲۰ صفحات پر مشتمل، کبھی اس سے بھی زائد، متعلقہ شخصیت کی زندگی کے ہر پہلو کو سامنے لاتے، مختصر مضامین لکھنے پر شاید وہ قادر ہی نہ تھے، طوالت کے باوجود ان کے مضامین نثری خوبصورتی اور آراستگی کی بنا پر ذوق اور شوق سے پڑھے جاتے۔ مجھے لمبی چوڑی تحریروں سے وحشت ہوتی ہے، بات مختصر سے مختصر انداز میں ادا کی جائے، میرا دل اس کا تقاضہ کرتا ہے مگر ان کے شخصی مضامین کو ابتداء تا انتہاء پڑھتا۔

ان کا اندازِ نگارش کتنا دل آویز، پرلطف اور چاشنی بھرا تھا اس کو ان کے پڑھنے والے ہی جان سکتے ہیں۔ مولانا کی زبان اور قلم دونوں ہی تنقید سے پاک تھے۔ انہوں نے بے تحاشہ لکھا، شخصیات پر بھی انہوں نے کمال درجہ دادِ قلم دی، شخصیات پر آدمی لکھے اور اپنا دامن بچا لے جائے بڑی بات ہے۔ تنقید اور تعریض دونوں کے قریب نہ جائے، قلم مثبت اور سیدھی راہ پر ہی چلے، یہ جہاں قلم پر گرفت کی علامت ہے وہیں اپنے افکار و خیالات کو آزاد نہ چھوڑنے کی نشانی ہے۔ یہ مولانا کی بڑی خوبی رہی کہ انہوں نے شخصیات پر تفصیل کے ساتھ لکھا اور قلم کو بے قابو نہ ہونے دیا۔

جملہ معترضہ کے طور پر ہی سہی لکھتا ہوں کہ ہمارے بہت سے مضمون نگار جب شخصیات پر لکھتے ہیں، خاص طور پر مرحوم شخصیات پر تو شخصیت کے ان گوشوں کو بھی اُبھارنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مولانا نے اپنے مضامین میں اس روش کو جگہ نہ دی، جس پر لکھا محبت اور تعلق سے لکھا۔ مولانا کے مضامین کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ کسی کے لکھے ہوئے پر کبھی تنقید نہ کرتے حالانکہ ان مضمون نگاروں کے خیالات اور افکار کو بھی اگر نظر انداز کریں تب بھی ان کی زبان و بیان کی غلطیوں کی پکڑ کی جاسکتی تھی مگر مولانا خاموش ہی رہتے۔ انہیں یہ شوق کبھی نہیں رہا کہ ہمہ دانی کا دعویٰ کریں اور لفظوں کو نشانہ بناکر اپنی قوت ضائع کریں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

علامہ پروفیسر ساجد میر صاحب
امیر مرکزی جمعیت اھلحدیث پاکستان وفات پاگئے ہیں
انا للہ وانا الیہ راجعون

پروفیسر صاحب علمی و سیاسی شخصیت تھے ۔
ان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ رد قادیانیت میں ان کے دادا جان مولانا ابراھیم میر سیالکوٹی نے مسلک اھل حدیث میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا اور مرزا غلام قادیانی کے رد میں کتاب *شھادت القرآن* لکھی ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

إذا المرء لا يرعاك إلا تكلفا (أ.معاذ الشلال)

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ : مئی / 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامد حسن/ / 3/ مئی/ 1956ء
حمید دلوائی/ پرسنل لا مخالف مفکر/ 3/ مئی/ 1977ء
ڈاکٹر ذاکر حسین/ صدر ہند/ 3/ مئی/ 1969ء
ڈاکٹڑ سید محمد حفیظ زیدی / پروفیسر/ 3/ مئی/ 1986ء
رتن سنگھ/ ادیب/ 3/ مئی/ 2021ء
سلطان محمد فاتح/ ترکیہ/ 3/ مئی/ 1481ء
قاضی سمیع الزمان سراب/ / 3/ مئی/ 1971ء
سید علی بلگرامی/ شمس العلماء، مصنف ومترجم/ 3/ مئی/ 1911ء
لقمان ججی ابراہیم جی/ / 3/ مئی/ 1966ء
مانی ناگپوری،بشیر خان/ / 3/ مئی/ 1975ء
محمد ابراہیم/ ماسٹر/ 3/ مئی/ 1977ء
محمد عبد الوہاب/ مصری موسیقار/ 3/ مئی/ 1991ء
مختار آزاد/ / 3/ مئی/ 1968ء
مولانا ضیاء الدین احمد برنی/ / 3/ مئی/ 1969ء
مولانا طبا طبائی لکھنوی/ / 3/ مئی/ 1933ء
مولانا علی حیدر نظم طباطبانی/ / 3/ مئی/ 1933ء
مولانا غلام نبی ربانی سوہدری/ / 3/ مئی/ 1930ء
مولانا نور عالم خلیل امینی/ / 3/ مئی/ 2021ء
مولوی ڈپٹی نذیر احمد دہلوی/ / 3/ مئی/ 1912ء
نرگس دت (فاطمہ رشید)/ اداکارہ/ 3/ مئی/ 1981ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*صبر کے ساتھ شکر*

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: حوادث، مصائب، ذاتی بھی ہوتے ہیں، اجتماعی بھی ہوتے ہیں، اللّٰه تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے، وہ اللّٰه کا حکم دیکھتے ہیں اور حفاظت کرتے ہیں۔ ورنہ رہنا دو بھر ہوجائے۔ کہا جاتا ہے: بال بال بچے، بچے نہیں؟ بچائے گئے۔ فرشتے چاروں طرف لگے ہوئے ہیں: "لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِؕ" (ہر شخص کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے پہرہ دار ہیں، جو اللّٰه کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں) اس لیے شکر بھی ضروری ہے، ہر شخص کی زندگی کی یہ دو حالتیں ہیں: صبر یا شکر، ان کا تعلق اصلاً دل سے ہے، دل سے صبر ہوتا ہے اور دل سے شکر ہوتا ہے، دونوں پر اللّٰه تعالیٰ بہت نوازتا ہے، دنیا میں بھی اس کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور آخرت میں جو ہوگا، وہ الگ ہے۔

افادات علم و حکمت/صفحہ: ۳۱/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab

Читать полностью…
Subscribe to a channel