علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
”اُس کو تو لاہورتو جانا ہی ہے“(’ہوا‘ خلافِ محاورہ ہے)……”اب ہم کو (یا ہمیں) تم سے بھلا کیا لینا ہے؟“آخری جملے کو اس طرح بھی لکھ سکتے ہیں: ”اب ہم بھلا تم سے کیا لیں؟“بلکہ ایسے جملوں میں فعل کو مضارع یا مستقبل بنا نا بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً: ’پھر ہونا کیا تھا؟‘ کی بہ جائے ’پھر ہوتا کیا؟‘ فصیح ہے۔مثلا ’گاڑی نے یہاں ٹھیرنا ہے‘ کی بجائے یہ دو جملے صحیح ہیں: ’گاڑی کو یہاں ٹھیرنا ہے‘ …… ’گاڑی یہاں ٹھیرے گی‘۔ بعض دفعہ ’کو‘ کے استعمال میں کسی قدر اُلجھن بھی پیش آ سکتی ہے۔ مثلاً ’میں نے تمھیں سو روپے دینے ہیں‘۔ اگرچہ اس کی صحیح صورت یہ ہوگی: ’مجھ کو تم کو سو روپے دینے ہیں‘۔ لیکن اس ’کو‘ کی تکرار کی وجہ سے یہ مشکل پڑ سکتی ہے کہ یہاں سو روپے دینے والا کون ہے اور لینے والا کون۔لہٰذا ایسے موقعے پر اہلِ زبان کئی دوسری طرح کے جملے بولتے ہیں۔مثلا: ’مجھ کو تمھارے سو روپے دینے ہیں‘۔…… ’میں تمھیں سو روپے کا دین دار ہوں‘ …… ’مجھ پر تمھارے سو روپے آتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔(”درست اردو“ از آسی ضیائی۔ پہلا باب)
بھارت سے شائع ہونے والی ”اچھی اُردو“ کا پیش لفظ لکھتے ہوئے پروفیسر نثار احمد فاروقی (دہلی یونیورسٹی) لکھتے ہیں:
”راقم الحروف نے اس کتاب کو دلچسپی سے پڑھاہے اوراس کی افادیت کا احساس کیاہے، البتہ بعض معمولی جزئیات میں کسی قدر اختلاف کی گنجایش بھی محسوس کی ہے۔ مثلاً پہلے باب میں ’مجھ کو‘ اور ’مجھے‘ کی بحث کے ذیل میں فصیح تر مثال یہ ہوگی کہ ”تمھارے سو روپے مجھے ادا کرنے ہیں“۔
لیجے سو روپے کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔مگر رحمٰن فارس صاحب کی غزل کا مسئلہ لا ینحل رہا۔ اُردو شاعری میں کسی مستند شاعر نے ایسی بے سند بولی اپنے محبوب سے نہیں بولی۔اچھی زبان لکھنے والے ایسی زبان نہیں لکھتے۔غازی علم الدین مرحوم یا اسحٰق جلالپوری مرحوم نے بھی ’میں نے آنا ہے‘ اور تم نے جانا ہے‘ جیسے جملے اپنی علمی و ادبی نگارشات میں استعمال نہیں کیے۔ کالم نگار بھی……’نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے‘۔
٭٭
Https://telegram.me/ilmokitab
لیکن 16 دسمبر کے انقلاب میں اختلاف المسلمین کے عنوان سے فضیل جعفری صاحب نے مسلمانان بھٹکل کے خلاف سخت اداریہ لکھا۔ جس کے جواب میں ہم نے حقائق واضح کرتے ہوئے ایک تفصیلی مضمون انقلاب کو فیکس کیا۔ اور اپنے مضمون کے بارے میں سید خلیل الرحمن مرحوم کو مطلع کیا جن کے روابط خالد انصاری سے بہت پرانے اور گہرے تھے، چونکہ یہ مسلمانان بھٹکل کی بدنامی کا مسئلہ تھا تو سید خلیل صاحب نے ہمارے مضمون کی اشاعت کے لئے فضیل جعفری سے فون پر بات کی، لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئے، خالد انصاری سے ایک سے زیادہ مرتبہ بات کی اور انہوں نے اس کی اشاعت کا وعدہ کیا ، لیکن جعفری صاحب ٹس سے مس نہیں ہوئے، انہوں نے اسے شائع نہیں کرنا تھا، اخبار کے مالک کی بات بھی نہیں مانی۔ اس سے آپ کی شخصیت کا یہ پہلو اجاگر ہوتا ہے کہ کس طرح بے نیاز ہوکر آپ نے انقلاب کی ادارت کی تھی۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں،جن کےپیچھے دنیا چلتی ہے۔
2025-05-02
/channel/ilmokitab
روزنامہ ’انقلاب‘ سے وابستگی کے دوران وہ دہلی میں رفیع مارگ پر واقع آئی این ایس بلڈنگ کے گیسٹ ہاؤس میں قیام کرتے تھے۔ ’انقلاب‘ سے علیحدگی کے بعد ان کی پسندیدہ جگہ غالب انسٹی ٹیوٹ کا گیسٹ ہاؤس تھا لیکن بعد میں وہ دریا گنج میں واقع ’اتتھی‘ گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنے لگے تھے۔ دہلی آکر محبوب الرحمن فاروقی، ڈاکٹر اسلم پرویز، زبیر رضوی اور نورجہاں ثروت سے ان کی ملاقات ضرور ہوتی تھی۔ نورجہاں اکثر ان کے لئے کچھ پکا کر لے آتی تھیں۔نورجہاں ثروت سے وہ اس بات کے لئے شاکی تھے کہ انہوں نے اپنی صحت خرابی کرلی ہے۔ فضیل صاحب، نورجہاں اور میں اکثر بنگالی مارکیٹ میں کچھ کھانے کے لئے ضرور جاتے تھے۔ فضیل صاحب کو بنگالی مارکیٹ کی مٹھائی بہت پسند تھی اور وہ اسے اپنے ساتھ ممبئی بھی لے جاتے تھے۔ نورجہاں کے انتقال سے وہ بہت رنجیدہ ہوئے۔کچھ دنوں بعد دہلی آئے تو مجھ سے نورجہاں کی قبر پر چلنے کو کہا۔ میں انہیں دہلی گیٹ قبرستان لے گیا جہاں انہوں نے فاتحہ پڑھی اور نورجہاں کی مغفرت کے لئے دعا کی۔ بعدازاں محبوب الرحمن فاروقی کے انتقال پر بھی انہوں نے بہت افسوس کا اظہار کیا۔ زبیر رضوی اور ڈاکٹر اسلم پرویز کے چلے جانے کا بھی انہیں بہت صدمہ تھا۔
جولوگ فضیل صاحب کے مزاج سے واقف تھے، وہ ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے اور کسی بات کا برا نہیں مانتے تھے۔ ایک دن انہیں دہلی میں ڈاکٹر خلیق انجم کی یاد آئی تو مجھ سے کہا کہ چلو انجمن ترقی اردو چلتے ہیں۔ انجمن پہنچ کر انہوں نے ڈاکٹر خلیق انجم کے کمرے کا دروازہ کھول کر پوچھا ”کیا یہاں کوئی اردو داں موجود ہے؟“ ڈاکٹر خلیق انجم نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا اور کہا کہ”بس یہاں اردو جاننے والا ہی کوئی نہیں ہے۔“ ڈاکٹر خلیق انجم کی میز پر ایک عبارت جلی حرفوں میں لکھی ہوئی تھی جس پر تحریر تھا کہ”اس کرسی پر بیٹھ کر میری سمجھ میں علمی، ادبی اور سیاسی گفتگو بالکل نہیں آتی ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں۔“ فضیل صاحب اس عبارت کو دیکھ کر خاموش بیٹھے رہے تو ڈاکٹر خلیق انجم نے پوچھاکہ کیا بات ہے آپ کچھ بولتے کیوں نہیں؟ فضیل صاحب نے اس عبارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ میں انجمن میں بیٹھ کر علمی وادبی گفتگو ہی کرسکتا ہوں کوئی کاروباری گفتگو تو نہیں کرسکتا۔ اس پر ڈاکٹر خلیق انجم نے قہقہہ لگایا اور وہ عبارت وہاں سے ہٹا لی۔ اس کے بعد کچھ بے تکلف باتیں ہوئیں اور کچھ دیر بعد وہاں ڈاکٹر اسلم پرویز بھی تشریف لے آئے۔
فضیل صاحب نے زندگی اپنی ہی شرطوں پر گزاری۔وہ ایک باضمیر اور باشعور انسان تھے۔ ان کے اندر خودداری کا جو مادہ تھا وہ کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی اصول پسندی اور کسی کے آگے نہ جھکنے کی ادا نے انہیں خود غرض لوگوں میں غیر مقبول ضرور بنادیا تھا لیکن وہ اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اپنی باغیانہ فطرت اور سرکشی کی تصویر انہوں نے بہت پہلے اپنے اس شعر میں کھینچی تھی ؎
جھکتا نہیں تو کاٹ لے سر میرا زندگی
مجھ سے مرے غرور کی قیمت وصول کر
ہی بولتے رہے اور سچ بولتے بولتے جھوٹے لوگوں کی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے تمام عمر نہ تو اپنے لئے کسی ایوارڈ یا اعزاز کی خواہش کی اور نہ ہی بیساکھیوں کے سہارے اپنا قدبلند کیا۔ اسی لئے ان کے ڈرائنگ روم میں رنگ برنگے ایوارڈوں کی بجائے نہایت قیمتی کتابیں نظر آتی تھیں۔ ان میں اردو اور انگریزی کتابوں کی تعداد لگ بھگ برابر تھی۔ وہ اردو کے جتنے بڑے رمز شناس تھے، اتنے ہی بڑے انگریزی داں بھی تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنی انگریز ی دانی کا رعب نہیں دکھایا۔ ان کا انگریزی ادب کا مطالعہ قابل رشک تھا۔
لوگ اکثر انہیں اپنی کتابیں تبصرے کے لئے روانہ کرتے تھے۔ اگر کوئی کتاب اس قابل ہوتی یا اس کا علم وادب سے کوئی علاقہ ہوتا تو وہ اس پر ضرور اظہار خیال کرتے لیکن غیر ضروری کتابوں کو وہ کبھی منہ نہیں لگاتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے اپنے شعری مجموعے پر ان سے کچھ لکھنے کے لئے اصرار کیا۔ وہ مجبور ہوگئے تو انہوں نے چند سطروں کا ایک تبصرہ لکھ کر آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ”اگر موصوف اس کتاب پر خرچ ہونے والی رقم کسی یتیم خانے کو عطیہ کردیتے تو ان کے نامہ اعمال میں کچھ نیکیوں کا اضافہ ضرور ہوجاتا۔“
فضیل صاحب کو یاد کرتا ہوں تو ان کی بہت سی کھٹی میٹھی باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔ وہ ادیب تھے، صحافی تھے، شاعر اور نقاد بھی تھے۔ انہوں نے ادب کی جس صنف میں قدم رکھا،وہ وہاں سے سرخرو اور کامران ہوکر گزرے۔ برسوں پہلے جب بمبئی میں ’انقلاب‘ کے دفتر میں ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے حسب عادت کچھ ایسی باتیں کہیں جو مجھے اچھی نہیں لگیں۔ لیکن دوسرے ہی لمحے انہوں نے میری دلجوئی کی اور اپنے پاس بٹھالیا۔ اتفاق سے اس روز پروفیسر شمیم حنفی بھی وہاں موجود تھے، جو ان کے بہت قریبی دوست اور کالج کے ساتھی تھے۔ ان دونوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ جعفری صاحب کے جس ہنر نے مجھے اپنا گرویدہ بنایا تھا، وہ دراصل ان کی اداریہ نویسی کا ہنر تھا۔ میں اکثر ان کے اداریے بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔’انقلاب‘ کے علاوہ ہفتہ وار ’بلٹز‘ میں بھی کچھ عرصہ آخری صفحے پر شائع ہونے والی ان کی تحریروں سے استفادہ کا موقع ملا۔ فضیل صاحب نے جو کچھ بھی لکھا اس کا علمی، ادبی اور صحافتی حلقوں میں زوردار خیرمقدم کیاگیا۔ وہ برصغیر کے انتہائی معتبر اور معروف نقادوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے مغربی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کا عکس ان کی گفتگو اور تحریروں میں صاف نظر آتا تھا۔ وہ بے باک تنقیدی رویے کے حامل تھے۔ انہوں نے بوجھل نہیں بلکہ بڑی شگفتہ تنقیدلکھی اور ادبی حلقوں میں نام پیدا کیا۔ ان کے تنقیدی مضامین بڑے چاؤ سے پڑھے جاتے تھے۔ شاعری میں بھی ان کے تیور ان کی طرح دار شخصیت کی طرح بالکل جداگانہ تھے۔ اس میں بھرپور طنز بھی تھا اور عصری مسائل ومصائب کے تئیں جذبات واحساسات کا تخلیقی اظہار بھی۔وہ فراق گورکھپوری کو غالب کے بعد سب سے بڑا شاعر مانتے تھے۔ نئے شاعروں میں وہ عنبر بہرائچی اور صلاح الدین پرویز کو پسند کرتے تھے۔ وہ عہد حاضر کے نقادوں کی بے راہ روی سے خائف تھے اور ان کے مطالعہ نہ کرنے کی عادت کو تمام خرابیوں کی جڑ سمجھتے تھے۔ بقول ان کے قاضی سلیم جیسے شاعر کو بھی نقادوں نہیں پڑھا۔ فکشن نگاروں میں وہ سب سے زیادہ سریندر پرکاش کو پسند کرتے تھے۔ فضیل صاحب جدیدیت کے علمبردار تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ خود کو چھوٹا موٹا مارکسی بھی سمجھتے تھے۔ وہ ساختیات کو ام الخبائث سے تشبیہ دیتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی کتابیں خود چھپوا کر مفت تقسیم کرنے کا نقصان دہ کام نہیں کیا۔ وہ ادبی تقریبات میں بھی بہت کم شرکت کرتے تھے اور وہیں قدم رکھتے تھے جہاں قدم رکھنے کی گنجائش ہوتی تھی۔انہوں نے کبھی انسانی وقار اور معیار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہیں کبھی کسی کے ناراض یا راضی ہونے کی فکر دامن گیر نہیں رہتی تھی۔ وہ اپنے دوستوں سے محبت بھی کرتے تھے اور ان پر تنقید بھی۔ ایک روز فضیل صاحب کا فون آیا کہ ”میں ایوان غالب کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے دہلی آگیا ہوں۔ تم دوپہر کو آجاؤ تو کہیں چل کر کھانا کھائیں گے۔“ میں ایوان غالب پہنچا تو فضیل صاحب کہیں نظر نہیں آئے۔ اس دوران زبیر رضوی صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ فضیل جعفری صاحب کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کون فضیل جعفری؟ کچھ دیر بعد فضیل صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے زبیر رضوی صاحب کے سامنے ہی ان کا یہ جملہ دہرادیا۔ فضیل صاحب کے چہرے پر کسی قدر برہمی کے اثرات تھے۔ انہوں نے زبیر رضوی کو مخاطب کرکے کہا کہ”سنو زبیر تمہاری کتاب ابھی تک میرے کمرے کے باہر رکھی ہوئی ہے میں نے اسے اپنی اسٹڈی میں نہیں رکھا ہے۔ بولو کیا حشر کروں؟“ یہ سن کر زبیر رضوی مسکرادیئے اور بات ختم ہوگئی۔ وہ جب بھی دہلی میں ہوتے تو اکثر شام کو اپنا وقت زبیر رضوی کے ساتھ پریس کلب میں گزارتے تھے۔
*علمِ حدیث کی نزاکت اور قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا اندیشہ*
مولانا فیصل احمد ندوی بھٹکلی صاحب لکھتے ہیں:
حدیث کا علم اتنا آسان نہیں ہے، جتنا آج سمجھ لیا گیا ہے، یہ کوئی کھیل نہیں ہے کہ ہر کوئی تجربہ کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے، یہ تو ایک بہت وسیع اور پر خار میدان ہے کہ اگر آدمی فقیہ نہ ہو تو قدم قدم پر اس کے ٹھوکر کھانے، بلکہ بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ مشہور محدث و فقیہ حضرت سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں: "الحديث مضلة الا للفقهاء" یعنی اگر آدمی فقیہ نہ ہو تو حدیث اس کے لیے راستہ بھٹک جانے کا سبب ہوسکتی ہے۔ اسی طرح حدیث و فقہ کے ایک بڑے عالم، جن کا شمار امام مالکؒ اور امام لیث بن سعدؒ کے مایہ ناز اور جلیل القدر شاگردوں میں ہوتا ہے، یعنی امام عبد اللّٰه بن وهب مصریؒ، وہ فرماتے ہیں: "الحديث مضلة الا للعلماء" یعنی علماء کے علاوہ دوسرں کے لیے حدیث بہکنے کا سبب بن سکتی ہے۔ بلکہ خود امام مالکؒ فرماتے ہیں: "كثير من هذه الأحاديث ضلالة" یعنی بہت سی حدیثیں ایسی ہیں کہ اگر آدمی میں فہم و ذکاوت نہ ہو تو وہ ان سے بھٹک سکتا ہے۔
فقہی اختلاف کی حقیقت، سلف کا موقف اور ہمارا طرزِ عمل/صفحہ: ۱۸/۱۹/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab
فضیل جعفری(سابق مدیر انقلاب ممبئی)
وفات: 01-05-2018ء
تحریر: مشرف عالم ذوقی
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/fuzail-jajeri-by-musharraf-alam-zauqi/Fuzail%20Jajeri%20By%20Musharraf%20Alam%20Zauqi.pdf
عندما عزم الشيخ أحمد زكي يماني -رحمه الله- على تأسيس مؤسسة الفرقان في لندن، جمع أمناء المؤسسة لاستشارتهم حول المشاريع التي يمكن البدء بها. وكان مجلس الأمناء يضم نخبة من كبار العلماء، مثل: محمود شاكر، وأبو الحسن الندوي، وناصر الدين الأسد، ومونتغمري وات، وآنا ماري شيمل، وغيرهم.
ومن بين المقترحات التي قدمها الشيخ يماني، فكرة تصوير المخطوطات المحفوظة في الجامعات الغربية. فوجّه إليه الأستاذ محمود شاكر -رحمه الله- قوله: "اترك هذه المخطوطات، فهي في حماية جيدة، كالطفل المدلّل عندهم! ولكن الأَوْلى أن نبدأ بمخطوطات عالمنا العربي والإسلامي، فهي الأكثر عُرضة للضياع والتلف."
Https://telegram.me/ilmokiab
راجہ مہندرا پرتاب سنگھ
(وفات : 29-04-1979ء)
تحریر: آصف جیلانی
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/details/raja-partab-mahendra-singh-by-asif-jilani
ریشمی رومال تحریک کے اہم رکن ، مولانا عبیدا للہ سندھی اور مولانا منصور غازی کے رفیق، پر نایاب تحریر
حضرت مولانا سید محمد عاقل سہارنپوری (2)
(ناصرالدین مظاہری)
لو جی، جس چیز کا ڈر اور دھڑکا لگا ہوا تھا وہی ہوا۔ حضرت مولانا سید محمد عاقل مظاہری صاحب کا چراغِ حیات موت کی تیز و تند آندھیوں میں کبھی مدھم ہو جاتا، کبھی اس کی لو ہلکی اور کبھی تیز ہو جاتی۔ کبھی لگتا کہ اب حضرت، الحمدللہ، مکمل شفایاب ہو گئے ہیں اور پھر کبھی لگتا کہ یہ آفتاب و ماہتاب تو بس ڈوبا ہی چاہتا ہے۔ آخر کب تک جیتے، کیوں کر جیتے، کیسے جیتے، جب جینا کاتبِ تقدیر نے لکھا ہی نہیں۔ جب الہیٰ فیصلہ یہی ہے کہ ہر ذی روح کو موت سے ہم کنار ہونا ہی ہے۔ موت تو موت ہے، یہ تو آنی ہی ہے۔ انسان کو یہاں سے جانا ہی ہے، ہنسی خوشی جائے یا ناخوشی سے جائے۔
آپ ہلکے پھلکے جسم کے مالک تھے۔ میں نے آپ کو بہترین صحت میں بھی دیکھا ہے۔ ہاتھ میں ابوداود شریف یا نسائی شریف لے کر اپنے گھر سے اکیلے نکلتے اور راہ چلتے لوگوں کے سلام کا جواب دیتے، مسکراتے، جھومتے جھامتے درسگاہ پہنچ جاتے۔ نہ چلنے میں تعب، نہ اٹھنے بیٹھنے میں تکان۔ درسگاہ میں دورانِ درس طلبہ آپ کی درسی تقریر میں ایسا محو ہو جاتے کہ اپنا بھی خیال نہ رہتا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمہ اللہ کے درس کے بعد طلبہ انتظار کرتے تھے کہ اب حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب درسگاہ میں تشریف لائیں گے اور حنفیت کے محل پر چھائی ہوئی پرچھائیں اور گردوغبار کو دھو دیں گے۔ ایسا ہی ہوتا۔ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب احناف کے دلائل کی جھڑی لگا دیتے تھے۔ طلبہ آپ کی تقریر دلپذیر سن کر مست و مگن ہو جاتے تھے۔
ابوداؤد شریف مدتوں آپ کے زیرِ درس رہی، نسائی شریف آپ کو طویل عرصہ تک پڑھانے کا موقع ملا۔ جب تک دارجدید الگ نہیں ہوا تھا تب بھی یہ دونوں کتابیں آپ کے زیرِ درس تھیں۔ پھر جب مظاہرعلوم سے دارجدید الگ ہو گیا تب بھی یہ دونوں کتابیں بے تخلف و بے تکلف آپ ہی پڑھاتے رہے۔
آپ حضرت مولانا شیخ محمد زکریا کاندھلوی کا انتخاب تھے۔ مناظر اسلام حضرت مولانا محمد اسعداللہ رام پوری ناظمِ مظاہرعلوم کے دورِ اہتمام میں آپ نے پڑھانا شروع کیا تھا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس کے رفیقِ درس تھے۔ دونوں نے ایک ساتھ پڑھانا شروع کیا۔ شیخ یونس صاحب کو بخاری شریف جلد ہی مل گئی اور حضرت مولانا محمد عاقل صاحب کو اخیر عمر میں، حضرت شیخ محمد یونس کے انتقال کے بعد، بخاری شریف پڑھانے کا موقع ملا۔ بہرحال بخاری شریف پڑھانے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی اور یہ اسی کریم آقا کی توفیق سے ممکن ہوا۔
میری ملاقاتیں حضرت مولانا محمد عاقل رحمۃ اللہ علیہ سے بہت کم رہی ہیں۔ تاہم ایک دو بار جب ملاقات ہوئی اور حضرت نے میرا نام پوچھا یا میں نے ہی بغیر پوچھے اپنا نام بتایا تو فوراً فرمایا: "اچھا اچھا، آپ دارقدیم میں ہیں۔"
مجھے بڑا تعجب ہوا کہ نہ ملاقات رہی، نہ مجھے ان سے شاگردی کا موقع ملا، پھر بھی میرا نام جانتے ہیں۔
ایک بار امارتِ شرعیہ بہار کے کچھ علماء مظاہرعلوم وقف آئے۔ ان کو امیر شریعت کے انتخاب کے لیے کوئی پروگرام کرنا تھا۔ اس میں شرکت کے لیے مظاہرعلوم وقف سے حضرت مولانا محمد سعیدی مدظلہ کو اور مظاہرعلوم دارجدید سے حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب کو دعوت دینی تھی۔
وہ حضرات خدا جانے میرے نام سے کیسے واقف تھے کہ مجھے ڈھونڈ ڈھانڈ کر نہ صرف ملاقات کی بلکہ تقاضا کیا کہ میں ان کی ملاقات حضرت مولانا محمد عاقل صاحب سے کراؤں۔
میں نے پس و پیش کیا، وہ نہ مانے۔ میں نے کہا کہ مولانا ایسے پروگراموں میں جاتے ہی نہیں ہیں۔ وہ پھر بھی ملنے پر مصر رہے۔ میں نے کہا کہ مولانا سے میری ملاقات اور تعارف نہیں ہے۔ وہ کہنے لگے: "بہرحال آپ ملاقات کرائیں۔"
خیر، میں مہمانوں کو لے کر خانقاہ پہنچ گیا۔ کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے۔
چونکہ میں فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب کی خدمت میں آنے والی اور رہنے والی بھیڑ بھاڑ کا عادی تھا، اس لیے ایک خادم سے کان میں کہا کہ حضرت سے کہو مفتی ناصر مظاہری کچھ مہمانوں کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں، باہر کھڑے ہیں۔
وہ خادم اندر گیا، فوراً اجازت مل گئی۔ ہم لوگ اندر داخل ہوئے۔ حضرت نے مجھے خوب پہچانا۔ حضرت نے پوچھا: "ناشتہ کریں گے یا کر کے آئے ہو؟"
میں بھلا بزرگوں سے کیوں ڈرتا، وہ کوئی ہوا تھوڑی ہیں۔ میں نے برجستہ عرض کیا: "ناشتہ کر کے آئے ہیں اور یہاں بھی کریں گے۔"
یہ سن کر حضرت خوب مسکرائے۔ شاید سوچا ہوگا کہ اچھا پیٹو انسان ہے کہ بے دھڑک ناشتہ کا تقاضا کر رہا ہے۔
پھر میں نے خدام سے عرض کیا کہ جو لانا ہے جلدی لے آؤ۔
واللہ، ایسی نعمتیں ان کے دسترخوان پر تھیں جن میں سے بعض نہ پہلے کھانے کی نوبت آئی نہ اس کے بعد اب تک وہ چیزیں میسر آئیں۔
نگینے لوگ
معصوم مرادآبادی
سرکردہ ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور فن کاروں پر تعزیتی مضامین لکھتے لکھتے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے ہم عصروں پر بھی کچھ لکھا جائے۔ہمارے یہاں عام رواج یہ ہے کہ کسی فن کار کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کے لیے اس کے مرحوم ہونے کا انتظارکیا جاتا ہے۔ ایسا کم ہوتا ہے کہ معروضی انداز میں کسی زندہ جاوید علمی یا ادبی شخصیت کے کارناموں کواحاطہ تحریر میں لایا جائے۔ حالانکہ ادب وصحافت کی دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جواپنی زندگی ہی میں اپنے اوپر ضخیم کتابیں اور خصوصی شمارے اس خوف سے شائع کروالیتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی ان کو پوچھے یا نہ پوچھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی کا کام اس لائق ہے کہ اسے مرنے کے بعد بھی یاد رکھا جائے تو اسے لوگ یاد بھی رکھتے ہیں اور اس کے کارناموں کا بیان بھی دیر تک ہوتا ہے۔ خاکسار کی بالکل تازہ کتاب کا نام ہے " نگینے لوگ"
اور اس میں جن لوگوں کے خاکے شامل ہیں، وہ سب الحمدللہ بقید حیات ہیں۔ کچھ زندگی کے آخری پڑاؤ پر ہیں اور کچھ درمیانی منزل میں۔ خدا سب کو تادیر سلامت رکھے۔ میں نے اس قسم کے مضامین کی شروعات اپنے ان کرم فرماؤں سے کی تھی جنھوں نے میرے ذہن وشعور پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ ان پر لکھتے وقت عقیدت واحترام کا جذبہ حاوی ہے، تاہم میں نے حالیہ عرصے میں جب اپنے کچھ بے تکلف دوستوں کے خاکے لکھے تو ان کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ ان خاکوں کے جس پہلو نے قارئین کو متاثر کیا،وہ ان کا طنزیہ اور مزاحیہ انداز تھا۔
شاہد احمد دہلوی نے جگر مرادآبادی کے خاکے کا آغاز اس جملے سے کیا ہے کہ ”بعض چہرے بڑے دھوکہ باز ہوتے ہیں۔“ یہ شاہد احمد دہلوی جیسے بڑے خاکہ نگار کا حق تھا، مگر آپ موجودہ دور میں ایسی ’لبرٹی‘نہیں لے سکتے، کیونکہ آج کا دور خودپسندی کا دور ہے۔ میں نے پہلا طنزیہ اور مزاحیہ خاکہ برادرم تحسین منور کا لکھا تھا، جن کی شخصیت میں بڑی رنگارنگی ہے۔ اس خاکہ کو مقبولیت حاصل ہوئی تو میرا حوصلہ بڑھا۔ اس طرح میں نے طنزیہ اور مزاحیہ خاکے لکھنے کی طرف قدم بڑھایا اور یکے بعد دیگرے کئی دوستوں کے خاکے لکھے۔ اندیشہ یہی تھا کہ کہیں وہ برا نہ مان جائیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔ انھوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اورمیرے معزز قارئین نے ان خاکوں کی داد دی۔ ابھی یہ دلچسپ سلسلہ جاری ہی تھا کہ برادرم اطہرفاروقی کی صدا آئی کہ وہ ان خاکوں کو انجمن ترقی اردو (ہند) سے شائع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ میرے لیے ایک خوشگوار پیشکش تھی، کیونکہ اردو کا مسئلہ یہ ہے کہ کتابیں لکھ کر خود ہی چھاپنی پڑتی ہیں۔اردو میں اچھی کتابوں کو بھی اچھے ناشر میسر نہیں آتے جس کی وجہ سے کتابوں کی رسائی اچھے اور سچے قارئین تک نہیں ہوپاتی۔
اس کتاب میں شامل کچھ خاکوں پرعقیدت کی چھاپ ہے تو کچھ پر بے تکلفی کا سایہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں میں نے قریب سے دیکھا اور جانا۔ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو میری شہ رگ کے قریب رہے ہیں۔اس کتاب میں جہاں ایک طرف پروفیسر اخترالواسع، م۔افضل، ڈاکٹر خاور ہاشمی،پروفیسر شافع قدوائی، ڈاکٹر حسن احمد نظامی، پروفیسر شہپر رسول، جلال الدین اسلم، عظیم اختر، محمود سعید بلالی،ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی اور عارف عزیز کے خاکے سنجیدہ پیرائے میں لکھے گئے ہیں تو وہیں برادرم اطہرفاروقی، ندیم صدیقی، سہیل وحید، حسن ضیاء، حقانی القاسمی، تحسین منور اورحکیم سید احمد خاں کے خاکوں کا رنگ مکمل طورپر طنزیہ اور مزاحیہ ہے۔ آخر میں اظہرعنائتی، پاپولر میرٹھی، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، ڈاکٹر طارق منظور، شکیل رشید اور معین شاداب کے وہ خاکے ہیں جو ان کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وجود میں آئے ہیں۔ان میں سنجیدگی اور مزاح دونوں کا عنصر شامل ہے۔ مقدمہ پروفیسر غضنفر علی نے لکھا ہے۔
ان خاکوں کے بارے میں کوئی دعویٰ اس لیے نہیں کرسکتا کہ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں۔ بلاشبہ یہ وہ میدان ہے جس میں علم وادب کی نابغہ روزگار ہستیوں نے اپنے قلم کے جوہردکھائے ہیں۔میں نے ان خاکوں کو لکھتے وقت نہ تو خاکہ نگاری کے فن کا مطالعہ کیا اور نہ ہی خاکہ لکھنے کے آداب سیکھے۔یوں بھی میں اپنی بیشتر تحریریں کسی بندش کے بغیر لکھتا ہوں۔ میرے لیے سب سے بڑا سرمایہ قارئین کی وہ محبت اور وارفتگی ہے جو مجھے اپنی تحریروں کے جواب میں ملتی ہے۔ ایک نوآموز خاکہ نگارکے لکھے ہوئے خاکوں کی یہ تازہ کتاب اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ آپ کے روبرو ہے۔اگر آپ اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں 9810780563۔ دوسو صفحات کی اس کتاب کی قیمت نہایت مناسب یعنی صرف 250 روپے ہے۔
ہی بلند الفاظ کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے اور شکریہ ادا کیا ہے حالانکہ اس وقت آپ بالکل نوجوان تھے، اسی طریقے سے جب بذل المجہود کی نئی طباعت جب مصر سے شائع ہوئی اس میں بہت سی غلطیاں رہ گئی تھی حضرت شیخ نے حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی صاحب دامت برکاتہم کو خط لکھا اور اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ میرے پیارے یہ کام اگر میری زندگی میں ہو جاتا تو حضرت سہارن پوری کی روح کو بہت ہی خوشی ہوتی، چنانچہ حضرت مولانا تقی الدین صاحب ندوی ترکیسر کی شیخ الحدیثی سے ایک سال کی رخصت لے کر سہارنپور حاضر ہوئے اور آپ نے حضرت شیخ سے کہا میرے ساتھ ایک معاون بھی اگر ہو جائے تو اس سے کام میں سہولت ہوگی تو حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب کو حضرت شیخ نے بطور معاون بذل المجہود کے کام کے لیے مولانا کے ساتھ لگا دیا۔۔۔
جاری
بڑی غمناک خبر
مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے شیخ الحدیث و ناظم حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب کا ابھی ابھی انتقال ہوگیا ہے انا للہ وانا الیہ را جعون
نماز جنازہ و تدفین کا اعلان بعد میں کیا جائے گا
تمام متعلقین سے ایصال ثواب و دعائے مغفرت کی درخواست ہے
سوگوار
عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی ایڈیٹر ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور
ابراہیم سلیمان سیٹھ (وفات 27-04-2007ء) ... تحریر: مولانا امین الدین شجاع الدین ( سابق مدیر تعمیر حیات لکھنو)
https://archive.org/download/ibrahim-sulaiman-seth-by-amunuddin-shujauddin/Ibrahim%20Sulaiman%20Seth%20By%20Amunuddin%20Shujauddin.pdf
مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری (وفات 26-04-2008ء) تحریر: مولانا مفتی محمد ساجد کھجناوری ۔ لنک علم وکتاب لائبریری https://archive.org/download/moulana-syed-anzar-shah-kashmiri-by-mufi-sajid-khujnawari/Moulana%20Syed%20Anzar%20Shah%20Kashmiri%20By%20Mufi%20Sajid%20Khujnawari.pdf
Читать полностью…یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ نجومی اور ستارہ شناس اِنھیں بُرجوں کے نام لے لے کر قسمت کا حال بھی بتاتے ہیں اور فال بھی نکالتے ہیں۔ دُور کی کوڑی ہی نہیں، غیب کی کوڑی بھی لے آتے ہیں۔ تو اصلاً مین میکھ نکالنے کا مفہوم بات بات پر ’مین‘ اور’ میکھ‘ سے مستقبل کا حال معلوم کرنا اور ہرکام سے پہلے ستاروں کی چال سے فال نکالنا تھا۔ شبھ گھڑی کون سی ہے؟ اِس گھڑی ہم یہ کام کریں یا نہ کریں؟ اور جس گھڑی ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں وہ اچھی گھڑی ہے یا بُری گھڑی؟ گھڑی گھڑی اچھی گھڑی یا بُری گھڑی جاننے کی کوشش کرنا ہی مین میکھ نکالنا تھا۔ ہندوؤں کے ہاں آج بھی شادی بیاہ کی تاریخ طے کرتے وقت یا دیگر اہم مواقع پر جیوتشی بلا کر اُس سے فال نکلوائی جاتی ہے۔ بات بات پر شگون لیا جاتا ہے۔ ہندی میں اس عمل کو شُگن بِچارنا یا شُگن کرنا بولا جاتا ہے۔ نجومی’ شگنیا‘ کہلاتا ہے۔ بہت سی چیزوں سے بہت سا شگون ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ آج تک لیتے ہیں۔ جانوروں کے چلنے اور پرندوں کے بولنے سے شگون لے لیا جاتا ہے۔ مثلاً کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو سمجھیے کہ آپ جس کام سے جا رہے تھے وہ کام خراب ہوا (بلی کا کام بنا؟ یا وہ بھی بگڑ گیا؟ اس باب میں راوی خاموش ہے)۔گھر کی دیوار پر بیٹھ کر کوئی کوا کائیں کائیں کرگیا تو یہ جانیے کہ وہ اپنی بولی ٹھولی میں آپ کے گھر مہمانوں کی آمد کی اطلاع دے گیا ہے۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے بھی اپنے ایک شعر میں یہی شگون لیا ہے:
وہ آتے کب ہیں؟ مگر ہم نے اُن کے آنے کا
شگون سُن کے کچھ آوازِ زاغ لے تو لیا
اسی طرح ایک اور شاعر نے (جس کا نام ہم بھول گئے اوراس کا شعر یاد رہ گیا) اسی شگون پر ایمان کا اظہار یوں کیا ہے:
گھر کی دیوار پہ کوّے نہیں اچھے لگتے
مفلسی میں یہ تماشے نہیں اچھے لگتے
تو صاحب اسی قسم کی باتوں کو بات کو بات بات پر مین میکھ نکالنا کہا جاتا تھا۔
مسلمان مکمل ایمان رکھتے ہیں کہ خیر اور شر صرف اور صرف اللہ رب العزت کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ کے سوا کسی ہستی، کسی شے یا کسی گھڑی کے اختیار میں نہیں کہ وہ کسی کو یا خود اپنے آپ کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکے۔ اسی وجہ سے مسلمان اپنے فیصلہ کُن مواقع پر ’استخارہ‘ کرتے ہیں یعنی اللہ سے خیر طلب کرتے ہیں، کیوں کہ خیر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور اُسی کے اختیار میں ہے۔ کسی ستارہ شناس یا کسی ستارے کو کیا خبر کہ کسی معاملے میں اللہ کی مرضی، مشیت اور ارادہ کیا ہے؟ اقبالؔ کہتے ہیں:
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
ستاروں سے اپنی تقدیر وابستہ کر رکھنے کا وہم خود ہمارے ہاں بھی اس قدر سرایت کرچکا ہے کہ ہمارے لوگ اپنی ہر ’دختر‘ کو ’نیک اختر‘ بتانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ’اختر‘ ستارے کو کہتے ہیں اور ’نیک اختر‘ وہ ہے جس کے ستارے اچھے ہوں۔ مراد اچھی قسمت یا اچھی تقدیر سے ہے۔ بالخصوص شادی بیاہ کے دعوت ناموں میں بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ’’ہماری دختر نیک اختر کی شادی فلاں تاریخ کو فلاں شخص سے ہورہی ہے‘‘۔ تعجب ہے کہ ہر دختر ’نیک اختر‘ ہی بتائی جاتی ہے۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی نے اپنی ’دخترِ بداختر‘کی شادی کسی اور ’بد اختر‘سے کردی ہو۔ حالاں کہ ہوتی ہی ہوگی۔ ہمارے بھائی اختر عباس شادیوں کے موضوع پر سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہی یہ گتھی سلجھا سکتے ہیں۔
صاحبو! یہ تو تھا ’مین میکھ‘ کا پس منظر۔ مگراُردو قواعدکی رُو سے ’مین میکھ نکالنا‘ ایک فعلِ متعدی ہے۔ کسی متعدی مرض کی طرح ایک سے دوسرے کو لگ جاتا ہے۔ محاورے میں اس کا مفہوم نکتہ چینی کرنا، عیب نکالنا، خُردہ گیری کرنا، فی نکالنا، وہم ڈالنا، خواہ مخواہ اعتراض کرنا اور بے کار حجت کرنا یعنی بے بات کی بات پر بحث کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔ ہمارے لکھتے لکھتے ہی ہمارے کندھے پر سے جھانک جھانک کر پورا کالم پڑھ جانے کے بعد ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی نے چہک کر داد دی: ’’شاباش! تم بھی خوب مین میکھ نکالتے ہو۔‘‘
Https://telegram.me/ilmokitab
*غلطی ہائے مضامین*
*نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے*
*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*
حیدر آباد دکن کے محترم ابراہیم علی حسن صاحب اِن کالموں کے مستقل قاری ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
”السلام علیکم محترم احمد حاطب صدیقی صاحب۔ امید ہے بفضلہٖ تعالیٰ بخیر ہوں گے۔آج کل پاکستان کے اہلِ قلم میں ’ہم کو‘ کی جگہ ’ہم نے‘ اور ’تم کو‘ کی جگہ ’تم نے‘ کا استعمال بہت نظر آ رہا ہے۔ قدما میں تو نہیں تھا ایسا۔امید ہے آپ اپنا قیمتی وقت نکال کر اس موضوع پر کچھ لکھیں گے۔ یہ اگر مغالطہ ہے تو رفع ہو۔اگر نہیں تو ہمارے علم میں اضافہ ہوگا ، اِ ن شاء اللہ۔ابراہیم علی حسن (حیدر آباد دکن۔انڈیا)“
جناب ابراہیم علی حسن نے پاکستانی شاعررحمٰن فارسؔ کی ایک غزل بھی ثبوت کے طور پر ارسال فرمائی ہے، جس میں اُنھوں نے جا بجا ’تم کو اور ہم کو‘ کی جگہ ’تم نے اورہم نے‘ استعمال کیا ہے۔ ہم یہاں پوری غزل دینے کی بجائے صرف متعلقہ اشعار نقل کررہے ہیں:
تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہوبہو
تم نے بھی یاد آنا ہے، آنا تو ہے نہیں
عہدِ وفا سے کس لیے خائف ہو میری جان
کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں
وہ جو ہمیں عزیز ہے، کیسا ہے، کون ہے
کیوں پوچھتے ہو؟ ہم نے بتانا تو ہے نہیں
دنیا ہم اہلِ عشق پہ کیوں پھینکتی ہے جال؟
ہم نے ترے فریب میں آنا تو ہے نہیں
اگر ملک میں اس طرح کی شاعری کی پزیرائی ہوتی رہی تو شاید آگے چل کر رحمٰن فارسؔ صاحب ہی پاکستان کے نمائندہ شاعر کہلائیں گے۔فی الحال تو انھیں یہ مقام حاصل نہیں۔ہاں اگر مزید ’ہم نے، تم نے‘ کریں تو ممکن ہے کہ اُنھیں کو یہ منصب عطا کر دیا جائے۔ مگر اے حضرت! یہ ’ہم نے، تم نے‘ فقط پاکستان کے اہلِ قلم کے ساتھ مخصوص نہیں۔بقولِ شیخ سعدیؔعلیہ الرحمہ:
ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند
(یہ وہ خطا ہے جو تمھارے شہر والے بھی کرتے ہیں)
مشہور نقادآں جہانی پروفیسر ڈاکٹر گیان چند جین،جو بھارت کی مختلف جامعات میں اُردو کے پروفیسر بھی رہے ہیں، لکھتے ہیں:
”میں نے جانا ہے“ اس جملے کو پنجابیوں کا انداز اور اسلوب سمجھ کر اسے غلط قرار دیا جاتا ہے۔یوپی والے ”مجھے جانا ہے“ یا ”مجھ کو جانا ہے“ کو صحیح سمجھتے ہیں۔در اصل ”میں“ فاعلی حالت ہے، اس لیے ”میں نے جانا ہے“ ہی قواعد کے اعتبار سے صحیح ہے۔ضمیر ”مجھے“ میں مفعولی حالت ہے مثلاً اس نے مجھے مارا۔اور ”کو“ فاعل کا حرف نہیں بلکہ مفعول کا ہے۔ مثلاً اُس نے مجھ کو مارا۔لہٰذا ”مجھے جانا ہے“ کے بجائے ”میں نے جانا ہے“ ہی درست ہے۔یوپی والے اگر اسے غلط بولتے ہیں تو وہ اپنی یہ غلطی اہلِ پنجاب پر نہیں لاد سکتے“۔ (”عام لسانیات“ از ڈاکٹر گیان چند جین، شائع کردہ: انڈیا قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، نئی دہلی، سنہ اشاعت ۱۹۸۵ء، ص:۲۰)
مگر ڈاکٹر گیان چند چین کے اس نقطۂ نظر کو ماہرین زبان میں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ہمارے ہاں پاکستان میں بھی چند افراد (مثلاً پروفیسر غازی علم الدین مرحوم) اسی نقطۂ نظر کے حامی تھے۔ بلکہ مشہور ماہر نصابیات پروفیسر محمد اسحٰق جلالپوری مرحوم تو اس نقطۂ نظر کے حق میں ایک دلچسپ مثال بھی دیا کرتے تھے۔کہتے تھے:”اگر آپ یہ فرمائیں گے کہ ’آپ کو ۱۰۰ روپے دینے ہیں‘۔ تو یہ واضح نہیں ہوتا کہ روپے کون دے گا؟ میں دوں گا؟ یا آپ دیں گے؟ لیکن اگر یوں کہا جائے کہ ’میں نے ۱۰۰روپے دینے ہیں‘ یا ’آپ نے ۱۰۰ روپے دینے ہیں‘تو کوئی ابہام باقی نہیں ر ہے گا، بات بالکل واضح ہو جائے گی۔“
گویا ”میں نے، تم نے“ کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ۱۰۰ روپے ڈوب جانے کا ڈر نہیں رے گا۔ لیکن ہمیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ڈرے تو وہ جس نے ۱۰۰روپے ہڑپ کر رکھے ہوں۔ مُلا نوریؔ فرماتے ہیں کہ ”ہر وہ شخص جو خیانت کرتا ہے، ضرور ڈرتا ہے“:
ہر کس کہ خیانت کُند البتہ بِترسد
بے چارۂ نوریؔ نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے
نوری کے ذکر پر ضیائی یاد آگئے۔ پروفیسر آسیؔ ضیائی نے اپنی کتاب ”درست اُردو“ میں ’میں نے، تم نے‘ استعمال کیے بغیر ہی ۱۰۰ روپے ڈوب جانے کا ڈر دل سے نکال دیا ہے۔ آسیؔ صاحب کی یہی کتاب”مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی“ نے بھی ”اچھی اُردو“ کے نام سے شائع کر دی ہے۔ (یہ کتاب ڈاکٹر تابشؔ مہدی مرحوم نے کالم نگار کو ہندوستان سے ہدیتہً بھیجی تھی۔ اللہ اُن کے حسنات کو شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین) کتاب کے پہلے باب میں ”نے“ کے غلط استعمال کی مثالیں دیتے ہوئے پروفیسر آسی ضیائی لکھتے ہیں:
”میں نے تم سے کچھ کہنا ہے“ …… ”آپ نے ایسا نہ کرنا تھا“ …… ”اُس نے تو لاہور جانا ہی ہوا“ …… ”اب ہم نے تم سے بھلا کیا لینا ہے؟“یہ اور اس طرح کے دوسرے جملے جن میں ’نے‘ کے ساتھ فعلِ مصدری آتا ہے، پنجابی روز مرہ میں داخل ہیں۔ بلکہ پنجانی زبان کے قواعد کی رُو سے بھی درست ہیں۔ البتہ اُردو قواعد اور روز مرہ دونوں کی رُو سے ان کو کسی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے تمام مواقع پر ’نے‘ کی بہ جائے ’کو‘ استعمال ہوتا ہے۔ان جملوں کی صحیح شکل یہ ہوگی:”مجھ کو (مجھے) تم سے کچھ کہنا ہے“ …… ”آپ کو ایسا نہ کرنا تھا“ ……
*بات سے بات: فضیل جعفری، اردو صحافت کا انمول رتن*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
آج یکم مئی تھی اور یہ اردو کے مایہ ناز صحافی ، ادیب اور نقاد فضیل جعفری کی یوم وفات تھی، اس مناسبت سے معصوم مرادآبادی نے آپ پراپنا ایک پرانا کالم قند مکرر کے طور پر پیش کیا ہے۔ یوں تو معصوم صاحب کہنہ مشق صحافی ہیں اور بھرتی کے مضامین نہیں لکھتے، لیک جعفری صاحب پر آپ کا یہ مضمون اپکے بہترین کالموں میں شمار کرسکتے ہیں۔ کالم بڑا دلچسپ اور مرحوم کی زندگی کے جملہ گوشوں پر روشنی ڈالنے والا ہے۔
اردو صحافت جب سے برصغیر میں وجود میں آئی ہے، یہ اپنے مدیران سے پہنچانی گئی ہے، روزنامے ہوں یا ہفت روزہ یا ماہنامے ، ایڈیٹر حضرات ہی ان کی شناخت رہے ہیں، چاہے وہ مولانا محمدعلی کا ہمدرد ہو، یا مولانا دریابادی کا سچ اور صدق، مولانا ظفر علی خان کا زمیندار یا سالک و مہر کا انقلاب۔ یہ صورت حال ۱۹۷۰ء کی دہائی تک باقی رہی۔ اور ۱۹۸۰ء کی دہائی میں یہ روایت تقریبا دم توڑتی چلی گئی۔ اس نسل کے آخری لوگوں میں آپ شورش کاشمیری مدیر چٹان، اور محمد صلاح الدین مدیر جسارت کا نام شامل کرسکتے ہیں۔
در اصل انگریزی صحافت کی دیکھا دیکھی تجارتی مفادات کو ملحوظ نظر کرکے، اخبارات میں مینیجنگ ایڈیٹر کا نظام شروع ہوا، جو ایک انتظامی عہدہ تھا، اب اداریہ لکھنا مدیر کی ذمہ داری نہیں تھی، کوئی بھی اسسٹنٹ ایڈیٹر اسے لکھ سکتا تھا۔ لہذا کسی مدیر کے اداریہ کا جو چسکہ قارئین کو لگا رہتا تھا، وہ دور ختم ہوگیا۔
اردو میں جہاں تک مینیجنگ ایڈیٹر کا نظام کو متعارف کرنے کا تعلق ہے، پاکستان میں جنگ کراچی اور بھارت میں انقلاب ممبئی کو اس کا سہرا جاتا ہے۔ ماضی میں اس نظام کو اپنا کر ان پرچوں نے خوب منافع کمایا۔
لیکن اس کےنتیجے میں جنگ اور انقلاب کے اداریوں کی اہمیت ختم ہوگئی، اور قارئین اسے صرف خبروں کے لئے پڑھنے لگے، رہی بات فکری وسیاسی رہنمائی کی تو پاکستان میں نوائے وقت اور ممبئی میں اردو ٹائمز ان روزناموں کے مقابلے میں تعداد اشاعت کم ہونے کے باجود قارئین میں اپنی اہمیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔
جنگ نے تو ممتاز کالم نگاروں کے ذریعہ اس کمی کو پوری کرنے کی کوشش کی۔ لیکن انقلاب ممبئی نے ظ انصاری کی بحیثیت مدیر تقرری سے اس میدان میں بھی اپنی شناخت بنالی، اور انقلاب کے ادارئے بھی اسی ذوق وشوق سے ساتھ پڑھنے جانے لگے۔ ظ انصاری کے بعد جنہوں نے انقلاب کی مقبولیت کو بام عروج تک پہنچایا ان میں فضیل جعفری سر فہرست ہیں۔ آپ کے ادارئے انتظار اور بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے، اور ملک کے مختلف اخبارات میں نقل ہوتے تھے۔
آپ نے انقلاب سے علحدگی کے بعد بلٹز کو اپنی ادارت سے نوازا۔ اس میں آپ کی طنزیہ صحافت کا پہلو اجاگر ہوا، اس میں مختلف شخصیات کی خود ساختہ جو ڈائریاں چھپتی تھیں، وہ بڑی دلچسپی سے پڑھی جاتی تھیں۔
جعفری صاحب اکھڑ قسم کے انسان تھے، وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے، انقلاب میں جب تھے، تو اس کے مالک اور مینیجنگ ایڈیٹر خالد انصاری کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ اس بات کا سابقہ اس ناچیز کو بھی ہوا ہے۔
دسمبر 1994ء کو کرناٹک اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے تھے، جس میں بھٹکل سیٹ سے بی جے پی کو پہلی مرتبہ کامیابی ملی تھی، اور کرناٹک سرکار میں پہلی مرتبہ اسے ساجھا داری ملی تھی۔
اس وقت صورت حال یوں تھی کہ 6 دسمبر 1992ء بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر میں فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن میں ممبئی کا فساد بدترین فساد تھا، لیکن اس وقت بھٹکل میں امن وامان قائم رہا ، اور بھٹکل اس شر سے محفوظ رہا، جو دشمن عناصر کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چھب رہا تھا، بالآخر ان کی مراد برآئی اور 7 اپریل سے دسمبر 1993ء تک مسلسل آٹھ ماہ تک بھٹکل فسادات سے جھلس گیا، جس نے بی جے پی نمائندے کو بھاری کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
واضح رہے کہ اسمبلی حلقے میں بھٹکل میں مسلم ووٹوں کا تناسب (25) فیصد ہے اور پارلمانی حلقے میں (10) فیصد۔ آزادی کے بعد سے جب تک یہاں کانگریس جیتتی رہی اس میں مسلم ووٹ فیصلہ کن رہے۔ لیکن 1978ء کے الیکشن کے بعد جس میں صدیق محمد یحیی مرحوم وزیر مالیات منتخب ہوئے تھے۔ تو ماحول ایسا بنایا گیا کہ مسلم ووٹوں کو غیر موثر کیا جائے، اور مجلس اصلاح وتنظیم کے تائید شدہ نمائندے کے خلاف ہندو ووٹ متحد کئے جائیں۔ کیونکہ بھٹکل میں مسلمانوں کے ووٹ تقسیم نہیں ہوتے، تمام مسلمان تنظیم کے تائید کردہ نمائندہ ہی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اور پارٹی وابستگیاں رکھنے والے ممبران حلقے سے باہر جاکر اپنی پارٹی کے لئے کام کرتے ہیں۔ تنظیم کے تائید کردہ پارٹی کے خلاف نہیں۔
فسادات کے بعد جو اسمبلی انتخابات ہوئے اس میں پلاننگ کے مطابق بی جے پی کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹوں سے کامیابی ملی، اس کامیابی میں ووٹوں کی تقسیم کارفرما نہیں تھی۔
فضیل جعفری نے دومرتبہ ممبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اسے صحافتی تقاضوں کے تحت بام عروج تک پہنچایا۔ پہلے دور میں وہ 1988کے آس پاس اس سے وابستہ ہوئے اور دوسرے دور میں ہارون رشید کے انتقال کے بعد انہوں نے سن 2000میں دوبارہ’انقلاب‘کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ لیکن ادارتی امور میں انتظامی مداخلت کے سبب وہ تین سال بعد ہی اس سے علیحدہ ہوگئے۔ حالانکہ انتظامیہ نے علیحدگی کے بعد بھی ان سے اداریہ لکھتے رہنے کی گزارش کی لیکن انہوں نے اسے منظور نہیں کیا۔ ’انقلاب‘ سے علیحدگی کے بعد وہ کئی برس تک حیدرآباد کے روزنامہ ’سیاست‘ کے لئے کالم لکھتے رہے۔ لیکن بعد کو صحت کے مسائل کی وجہ سے یہ کالم بھی جاری نہ رہ سکا۔ انہوں نے دوسری بار’انقلاب‘ کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل کوئی ڈیڑھ برس ہفتہ وار ’بلٹز‘ میں آخری صفحے پر کالم نگاری کی۔ یہ وہی آخری صفحہ تھا جس پر برسوں خواجہ احمد عباس نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ مجموعی طورپر وہ کوئی دس برس ’انقلاب‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ان کے اداریے بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ ہر اداریے کی سرخی بڑی معنی خیز اور منفرد ہوتی تھی۔ تسلیمہ نسرین سے متعلق ایک اداریے کا عنوان تھا ’سرتسلیمہ خم ہے‘۔ انہوں نے باقر مہدی کی رفاقت میں ممبئی سے’اظہار‘ نام کے ایک ادبی پرچے کا بھی اجراء کیا تھا۔ فضیل صاحب نے کچھ عرصہ قبل انجمن ترقی اردو کے سہ ماہی جریدے ’اردوادب‘ میں اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن خرابی صحت کے باعث یہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکا۔ ’اردوادب‘ کے مدیر اُن کے قریبی دوست ڈاکٹر اسلم پرویز تھے۔
فضیل صاحب کا وطنی تعلق اترپردیش کے مردم خیز خطے الٰہ آباد کے قصبے چائل سے تھا جہاں 22جولائی1936کوان کی ولادت ہوئی تھی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ شروع میں درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور انہوں نے اورنگ آباد اور ممبئی کے برہانی کالج میں برسوں انگریزی پڑھائی۔ بعد کو انہوں نے صحافت کی دنیا آباد کرلی۔ حالانکہ وہ کہتے تھے کہ صحافت کا پیشہ تخلیقی قوت کو قتل کردیتا ہے لیکن معاشی ضرورتوں نے انہیں تادیر اس پیشے سے وابستگی پر مجبور کیا۔ ان کے تنقیدی مضامین اور شاعری نے پورے برصغیر میں دھوم مچائی۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’رنگ شکستہ‘ 1980میں منظر عام پر آیا۔ انہیں اپنی کتابیں شائع کرانے کی کبھی کوئی عجلت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’افسوس حاصل کا‘ 30سال بعد 2009 میں شائع ہوا جسے کرناٹک اردواکیڈمی نے شائع کیا تھا۔ تنقید پر ان کی چار کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں پہلی کتاب ’چٹان اور پانی‘1976میں شائع ہوئی تھی۔ دوسری کتاب ’صحرا میں لفظ‘ کے عنوان سے 1994میں شائع ہوئی۔ تنقیدی مضامین کے اس مجموعے کو مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے شائع کیا تھا۔ جدید تنقید پر ان کا ایک طویل مقالہ ’کمان اور زخم‘ 1986میں منظرعام پر آیا۔ جسے ماہنامہ ’جواز‘ مالیگاؤں نے شائع کیا تھا۔ اس کتاب کا سرورق مشہور افسانہ نگار اور صحافی ساجد رشیدمرحوم نے بنایا تھا جن سے بعد کو فضیل صاحب کے شدید اختلافات ہوگئے تھے۔ ان کی آخری تنقیدی کتاب ’آبشار اور آتش فشاں‘ 2008 میں شائع ہوئی۔ ’صحرا میں لفظ‘ کے پہلے مضمون ’عہد جدید کا تہذیبی بحران اور غالب ’کی ابتدائی سطور میں انہوں نے لکھا ہے کہ:
”یہ ایک اہم اور مسلمہ حقیقت ہے اور ہمارے دور کے کم وبیش سبھی سنجیدہ ادیب وشاعر اس پر متفق ہیں کہ وہ جس سماج میں سانس لے رہے ہیں، وہ سماج ذہنی، روحانی اور تخلیقی زندگی کے لئے نہ صرف ناسازگار ہے بلکہ ان چیزوں کا دشمن ہے۔“ (’صحرا میں لفظ‘ صفحہ6)
انہوں نے چند جملوں میں سماج کی ناسازگاری کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ بالکل درست ہے۔ وہ دراصل سماج کی اسی ناہمواری کا شکار تھے اور خود کو اس میں فٹ نہیں پاتے تھے۔ آج ہمارے اردگرد شہرت یافتہ ادیب اور شاعر تو بہت ہیں لیکن فضیل صاحب کی طرح قناعت پسند،باضمیر اور خوددار قلم کار بہت کم ہیں۔ فضیل صاحب نے میرے ساتھ ہمیشہ بڑی شفقت اور محبت کا معاملہ کیا۔ 2008میں شائع ہونے والی میری کتاب ’اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857‘ کے فلیپ کے لئے انہوں نے نہایت حوصلہ مندانہ تاثرات تحریر کئے تھے جن سے اس کتاب کی وقعت میں اضافہ ہوا۔ وہ اکثر اپنے خطوط میں میرے اخبار پندرہ روزہ ’خبردار‘ کے لئے تحسین آمیز جملے لکھتے تھے، جس کے وہ مستقل قاری تھے۔ میں جب بھی ممبئی جاتا تو ان کے دولت کدے پر ضرور حاضر ہوتا۔ حالانکہ میں ان کے بہت جونیئر ساتھیوں میں تھا لیکن وہ جب بھی دہلی آتے تو مجھے اس کی اطلاع ضرور کرتے اور اکثر اپنے دوستوں سے ملنے کے لئے میرے ساتھ ہی تشریف لے جاتے تھے۔ دہلی میں قیام کے دوران ان سے روزانہ ہی ملاقات ہوتی تھی۔
فضیل جعفری کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
آج اردو کے ممتاز نقاد ، شاعر اور صحافی فضیل جعفری کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے آج ہی کے دن یکم مئی 2018 کو ممبئی میں وفات پائی ۔میں نے ان کے انتقال پر ایک تعزیتی مضمون قلم بند کیا تھا ۔ ملاحظہ فرمائیں
یکم مئی کی رات ممبئی سے برادرم ندیم صدیقی نے یہ اندوہناک خبر سنائی کہ فضیل صاحب اس دنیامیں نہیں رہے۔ میں نے اناللہ واناالیہ راجعون پڑھ کر کچھ تفصیل جاننے کی کوشش کی تو رابطہ منقطع ہوگیا۔ فون ملایا تودیر تک انگیج ٹون سنائی دیتی رہی۔ بے چینی بڑھ رہی تھی کہ اسی حالت میں کچھ سوچے سمجھے بغیر میں نے براہ راست فضیل صاحب کا نمبر ملادیا کہ شاید ان کے گھر میں کوئی تفصیل بتاسکے لیکن خلاف معمول ان کا فون سوئچ آف تھا۔میری پریشانی اور الجھن میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ فضیل صاحب کبھی اپنا فون بند نہیں کرتے تھے اور میں اکثر ان سے باتیں کرتا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے مجھے ان کی گفتگو میں کچھ اضمحلال اور تھکاوٹ ضرور محسوس ہورہی تھی۔ لیکن یہ اندازہ قطعی نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے۔ یوں بھی وہ عمر اور بیماریوں کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ بمبئی کے احباب کو شکایت ہے کہ وہاں فضیل صاحب کے جنازے میں شرکاء کی تعداد نسبتاً کم تھی اور یہاں دہلی میں مجھے محسوس ہوا کہ کسی اردو ادارے نے ان کے انتقال پر تعزیتی بیان تک جاری نہیں کیا۔جبکہ یہاں معمولی ادیبوں اور شاعروں کے انتقال پر اس قسم کے بیانات کا جاری ہونا ایک عام بات ہے۔یہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ فضیل صاحب زمانہ ساز اور شہرت پسند لوگوں میں مقبول نہیں تھے۔ مجھے ان کی شخصیت کا جو پہلو سب سے زیادہ متاثر کرتا تھا، وہ ان کی قناعت پسندی اور استغناتھاجو اس دور میں بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔فضیل صاحب کی ایک اور خوبی جو مجھے متاثر کرتی تھی، وہ ان کی گوشہ نشینی تھی اور اگر سچ کہوں تو وہ خانقاہی مزاج کے آدمی تھے۔ اپنی ہی دنیا میں مگن رہنا انہیں سب سے زیادہ پسند تھا۔
فضیل صاحب بمبئی کے باسی ضرور تھے لیکن ان کے قریبی دوست دہلی میں آباد تھے اور وہ بڑی چاہت کے ساتھ اکثر ان سے ملنے دہلی آتے تھے۔ لیکن جب یکے بعد دیگرے ان کے یہ دوست اللہ کو پیارے ہوتے گئے تودہلی سے ان کا رشتہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب کبھی میں ان سے دہلی آنے کی درخواست کرتا تو وہ رندھی ہوئی آواز میں کہتے میاں اب وہاں کون بچا ہے۔ محبوب الرحمن فاروقی بھی چلے گئے۔ نورجہاں ثروت بھی رخصت ہوگئیں۔ زبیر رضوی نے بھی داغ مفارقت دے دیا۔ ایک لے دے کر ڈاکٹر اسلم پرویز بچے تھے،وہ بھی دغا دے گئے۔
دراصل دہلی میں یہ چارلوگ ہی ایسے تھے جنہیں وہ عزیز رکھتے تھے۔ مگر ان کا سب سے گہرا تعلق ’آج کل‘ کے سابق مدیر محبوب الرحمن فاروقی مرحوم سے تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے قدردان تھے اور ان دونوں کے گھریلو مراسم بھی بہت اچھے تھے۔ فضیل صاحب اور محبوب الرحمن صاحب میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں ہی اپنی رائے کا اظہار بڑی بے باکی اور جرأت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ فضیل صاحب کی طرح محبوب الرحمن صاحب بھی کسی مصلحت کے اسیر نہیں تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو حد درجہ پسند کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ فضیل صاحب محبوب الرحمن فاروقی صاحب کے بڑے بیٹے محمود فاروقی کے ولیمے میں شرکت کے لئے بطور خاص ممبئی سے دہلی تشریف لائے تھے۔ پنڈارہ روڈ کے کمیونٹی سینٹر میں ولیمے کی تقریب کے دوران کسی نے فضیل صاحب سے پوچھا کہ وہ کل شادی میں نظر نہیں آئے تو انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ”دراصل ڈاکٹر نے مجھے دوروز لگاتار ادیبوں اور شاعروں کو دیکھنے سے منع کررکھا ہے۔“ ان کے اس جملے پر سب لوگ ہنس پڑے۔
دہلی ہی نہیں ممبئی میں بھی فضیل جعفری کے حقیقی دوستوں کا حلقہ وسیع نہیں تھا۔ حالانکہ ان کے چاہنے والوں اور ان کے علمی وادبی کارناموں کا اعتراف کرنے والوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی لیکن ان کے حلقہ احباب میں وہی لوگ شامل ہوسکتے تھے جو ان کی صاف گوئی، جرأت مندی اور بے باکی کو برداشت کرنے کا یارارکھتے تھے۔ ان میں بے شمار خوبیاں تھیں اور ان کا علمی وادبی مرتبہ تو اپنے عہد کے تمام قلم کاروں میں سب سے بلند تھا۔ مگر فضیل صاحب کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ صاف گو بہت تھے۔ اسی لئے نرگسی مزاج رکھنے والے لوگ ان سے بہت جلد ناراض ہوجاتے تھے۔ وہ کسی قسم کی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیتے تھے کیونکہ انہیں کبھی کسی سے کوئی کام نہیں پڑتا تھا۔ بس اپنی سی زندگی گزارنے کا انہیں جنون تھا۔ وہ کبھی اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ ادبی حلقوں میں بھی ان کا کوئی گروپ اس لئے نہیں تھا کہ وہ کسی کی بے جا تعریف وتوصیف یا جھوٹی مدح سرائی نہیں کرتے تھے۔ ہمارے ادبی حلقوں میں عام طورپر لوگ ایک دوسرے کی قصیدہ خوانی کرکے اپنے لئے جگہ بناتے ہیں اورلابنگ کے ذریعہ دنیاوی فائدے اور عیش وآرام کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ لیکن فضیل صاحب نے کبھی کسی کی جھوٹی تعریف نہیں کی۔ وہ ہمیشہ سچ
مذکورہ بالا لنک زیادہ سے زیادہ اہل ذوق احباب میں شیر کریں اور چینل سے استفادہ کی انہیں دعوت دیں۔
Читать полностью…وفیات مورخہ: مئی / 1
احسان الحق عشقی/ بھیا/ 1/ مئی/ 1960ء
اقبال محزوں (اقبال حسین خان)/ / 1/ مئی/ 2001ء
بطرس بستانی/ لبنانی ادیب/ 1/ مئی / 1883ء
جوزیف گوبلز/ جرمنی/ 1/ مئی / 1945ء
چودھری عبد الرشید/ لارڈ میر لنڈن/ 1/ مئی / 2024ء
ڈاکٹر حنیف فوق/ / 1/ مئی/ 2009ء
ڈاکٹر حنیف فوق (محمد حنیف قریشی)/ / 1/ مئی/ 2009ء
ڈاکٹر نذیر احمد/ / 1/ مئی / 2010ء
عظیم احمد طارق/ / 1/ مئی/ 1993ء
فضیل جعفری/ صحافی/ 1/ مئی / 2018ء
محمد شہاب الدین / سیاست دان (بہار)/ 1/ مئی / 2021ء
مرتضی مطہری/ ایران/ 1/ مئی / 1979ء
مولانا حاجی معین الدین ندوی/ / 1/ مئی/ 1941ء
میر رسول بخش تالپور/ سیاست دان/ 1/ مئی / 1982ء
ناصر الدین شاہ قاچار/ ایران/ 1/ مئی / 1896ء
ولایت علی خان/ استاد/ 1/ مئی/ 2002ء
(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
Https://telegram.me/ilmokitab
لکھنؤ کے ایک نواب صاحب کو
کسی نے گدھا کہہ دیا۔۔!!
نواب صاحب کو یہ بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے کورٹ میں کیس کر دیا۔۔۔!
جج نے گدھا کہنے والے سے پوچھا تو اس نے اعتراف کرتے ہوئے اپنی غلطی مان لی۔۔
اور اپنے کہے پر شرمندہ ہوکر معافی مانگ لی۔۔
جج نے نواب صاحب سے کہا نواب صاحب اب تو یہ معافی مانگ رہا ہے آپ کا کیا کہنا ہے۔۔
اس پر نواب صاحب معافی کے لیے تیار ہو گئے۔۔ لیکن ایک شرط رکھی کہ اب کسی بھی نواب کو وہ گدھا نہیں بولے گا۔۔!!
جج نے مجرم کو بری کردیا۔۔۔۔!!
جانے سے پہلے اس آدمی نے جج سے پوچھا:۔۔
جج صاحب، میں نواب صاحب کو تو قطعی گدھا نہیں بولوں گا لیکن ایک بات بتایۓ کہ گدھے کو تو میں نواب صاحب بول سکتا ہوں کہ نہیں؟
جج نے کہا گدھے کو آپ کچھ بھی بولیے، کورٹ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔۔۔!!!
وہ آدمی نواب صاحب کی طرف مُڑا اور بولا۔۔
اچھا تو "نواب صاحب" مَیں چلتا ہوں۔
دو سال پہلے عزیزم مولانا محمد عمیر مظاہری سلمہ، ابنِ جناب حافظ محمد شریف صاحب نے مدینہ منورہ میں مجھ سے کہا کہ قریب میں ہی حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب بھی ایک ہوٹل میں قیام فرما ہیں۔
میں نے سوچا کہ ملاقات کروں۔ پھر خیال آیا کہ ضیافت کا تکلف ہوگا، اس سے بہتر ہے کہ مسجدِ نبوی شریف میں ہی ملاقات کر لوں۔
چنانچہ پتہ کیا کہ کس علاقہ میں نماز ادا کرتے ہیں۔ عمیر میاں ساتھ تھے۔ ملاقات کی اور حضرت سے عرض کیا کہ مجھے آپ کو مبارک باد پیش کرنی تھی۔
پوچھا: "کیسی مبارک باد؟"
عرض کیا: "چند دن پہلے ہی آپ نے مسجد نبوی شریف کے ایک امام صاحب کو اجازتِ حدیث شریف سے نوازا ہے۔ میں اس بات کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ وہ دولتِ بے بہا جو مدینہ منورہ سے مظاہرعلوم تک پہنچی، وہی دولت آپ کے ذریعہ واپس مسجد نبوی کے امام تک پہنچی۔ یہ مظاہرعلوم کی شان میں اضافہ کا ذریعہ بنی۔ میں چونکہ مظاہری بھی ہوں اور مظاہرعلوم کا ادنیٰ فرد بھی، اس لیے سب کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔"
یہ سنتے ہی حضرت کھل اٹھے، خوب مسکرائے، اور فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔
میں سمجھا کہ اب ضرور ریال نکلیں گے، لیکن ہاتھ باہر نکلا تو ایک شاندار بڑی سی عطر کی بوتل جگمگا رہی تھی۔
مجھے دیتے ہوئے فرمایا: "آپ نے اتنے خوبصورت الفاظ میں منظر کشی کی ہے کہ میں اپنی خوشی چھپا نہیں پا رہا ہوں۔"
آپ کے قریب میں آپ کی آل اولاد بھی تھی۔
بہرحال، واپس انڈیا آنے کے بعد آپ کی طبیعت خراب ہی رہی۔ کبھی پھول کی طرح کھل جاتے، کبھی پھول کی طرح مرجھا جاتے۔
کھلنے اور مرجھانے کا یہ سلسلہ جاری ہی رہا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ پتہ چلا کہ آپ کو علاج کے لیے حیدرآباد لے جایا گیا ہے۔ کچھ عرصہ بعد آپ سہارنپور تشریف لے آئے اور دوا کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ خبر ملی کہ آپ میرٹھ میں زیرِ علاج ہیں۔
بہرحال، یہ علاج و معالجے انسانی تدبیریں ہیں۔ غالب تو اللہ تعالیٰ ہی کی تدبیر کو آنا ہے۔ سو قضائے الہیٰ اور نوشتۂ تقدیر غالب آ گیا۔
اور آج، 29 شوال المکرم 1446ھ مطابق 28 اپریل 2025ء بروز پیر، دوپہر کے وقت یہ آفتاب و ماہتاب غروب ہو گیا۔
عصر سے پہلے زیارت کے لیے حضرت مولانا محمد سعیدی مدظلہ کے ہمراہ دولت خانے حاضری ہوئی۔ اندر عورتوں کی بھیڑ، باہر مردوں کا ہجوم۔ اس لیے زیارت کے بغیر ہی دفتر واپسی ہو گئی۔
اعلان ہوا کہ نمازِ جنازہ حضرت مولانا مرحوم کے آبائی قبرستان کے پاس مغرب کی نماز کے بعد ہوگی۔
لوگوں کا ہجوم نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے بھاگا چلا جا رہا تھا۔
بہرحال، یہ متاعِ علم و عرفان آج اس زمین کے حوالے کر دی گئی جس سے آپ کی پیدائش ہوئی تھی۔
لوگ تدفین کے وقت فرمانِ الٰہی کا وعدہ اور اعادہ کرتے جاتے تھے:
"مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ"
(اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا، اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ نکالیں گے۔)
ہائے ہائے! انسان کی پوری زندگی، قبر کا پورا منظر اور حشر کا مکمل نقشہ اس آیت میں جمع ہو گیا ہے۔
لِلّٰہِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَىٰ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَاصْبِرْ وَاحْتَسِبْ۔
مولانا محمد عاقل صاحب کو یاد رکھنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے
************************
بدر الحسن القاسمی
منحنی جسم مختصر و نحیف وجود اور خفیف جثہ کے مولانا محمد عاقل صاحب جنکے گرد عام طور پر شاگردوں اور فیض یافتوں کا ایک ہالہ بھی ہوا کرتا تھا ان سے میری ملاقات ہمیشہ مسجد نبوی میں ہوا کرتی تھی سلام ومصافحہ اور سرسری تعارف کی حدتک ہی معاملہ محدود رہتا اور یہ معلوم ہوتا کہ وہ سنن ابو داؤد کی اردو شرح کی تکمیل میں مصروف ہیں یا کوئی اور دوسرا اپنا تصنیفی کام انجام دے رہے ہیں اور بعض دفعہ ان کا مدینہ منورہ میں قیام مہینوں تک ممتد رہتا
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی کی حیثیت تو ایک دائرہ علم کی تھی انکے گرد انکی ہدایت کے مطابق جولوگ علوم حدیث کی کسی نہ کسی حیثیت سے خدمت میں مصروف تھے یا خود انکے ہی کے افادات کی جمع وتدوین میں لگے ہوئے تھے انمیں خاموشی سے اور مسلسل کام کرنے والوں میں مولا محمد عاقل صاحب بھی تھے جو زندگی کےایام پورے کرکے 28 اپریل 2025ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے انا لله وانا اليه راجعون
محدث عصر حضرت مولانا محمد یونس جونپوری صاحب کی حیثیت تو نادرہ روزگار تھے حافظہ کی قوت علمی استحضار اور خاص طور پر صحیح بخاری کے اسرار ورموز اورکتاب کے درو بست پر عبور رکھنے میں وہ اپنی مثال آپ تھے
مولانا یونس صاحب جونپوری کے انتقال کے بعد مظاہرین علوم میں صحیح بخاری کی تدریس مولانا محمد عاقل صاحب کے سپرد کردی گئی تھی جو انکے ہم سبق بھی رہ چکے تھے
مولانا محمد عاقل صاحب حضرت شیخ الحدیث کے گھر کے ایک فرد تھے علمی معاون رہے
"لابواب والتراجم" کا مواد جمع کرنے میں ان کا اور مولانا محمد یونس صاحب کا بڑا حصہ رہا ہے
صحیح مسلم سے متعلق حضرت گنگوہی کے افادات کی تر تیب اوراور ان پر حواشی وتعلیقات لکھنے کا کام بھی حضرت شیخ الحدیث صاحب کی ہدایت کے مطابق دوجلدوں میں انہوں نے ہی کیا ہے
گوکہ ان سے استفادہ کیلئے" لامع الدراری" اور" الکوکب الدری" ہی کی طرح متن کے ساتھ اور نئے انداز سے کتاب کو تحقیق کے بعد شائع کرنے کی ضرورت ہے
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کا دارالحدیث ان کا گھر ہی تھا لیکن ان کا فیض چار دا نگ عالم میں میں پہنچا انکی نہایت ہی قیمتی اور بے مثال محدثانہ و فقیہانہ تحقیقات عام شروح حد یث میں ذکرکردہ نکات سے کہیں فائق ہیں چنانچہ انکے دورہ حدیث کے درسی افادات اس قابل تھے کہ انکو دنیا کے علمی حلقوں میں پیش کیا جائے
یہ سعادت اللہ تعالی نےمولانا یحیی صاحب کاندھلوی کیلئے مقدر کر رکھی تھی انہوں نے بارہ سال خدمت میں رہ کر انکو محفوظ کیا پھر وہی انکے فخر روزگار بیٹے شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کی محنت سے صحیح بخاری کی شرح "لامع الدراری " سنن ترمذی کی شرح" الکوکب الدری " اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور علامہ انورشاہ کشمیری کے افادات کو بھی شامل کرکے " الابواب والتراجم " جیسی کتابیں تیار ہوگئیں
مولانا محمد عاقل صاحب مولانا رشید احمد گنگوہی کے بعض افادات اور علمی ذخائرکی ترتیب وتدوین میں انکی ہدایت کے مطابق کام میں معاون اور گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے شریک رہے
انکے انتقال سے رشید ی علوم ومعارف کے احیا ءکیلئے حضرت شیخ نے اپنی معاونت کیلئے جو ٹیم تیار کی تھی شاید اب اس کا کوئی رکن باقی نہیں رہا
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
رحمه الله رحمة واسعة
*از محمد طاہر سورتی*
استاد محترم حضرت مولانا عاقل صاحب حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رح۔کا تذکرہ سبق میں بارہا فرماتے تھے ، معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ رح۔کے بعد سب سے زیادہ ان ہی سے محبت تھی۔
حضرت رام پوری ناظم اعلی صاحب کا یہ شعر سب سے پہلے حضرت مرحوم ہی سے سنا :
رشک کرتا ہے فلک ایسی زمیں پہ اسعد
جس پہ دو چار گھڑی ذکر خدا ہوتا ہے
بہت سے علمی مضامین حضرت رام پوری سہولت حفظ کے لیے شعر کے قالب میں ڈھال دیتے تھے مثلا :
کن حدیث بو ہریرہ را شمار
پنج الف و سہ صد و ہفتاد و چار
فاقد الطہورین کے مسئلے میں مذاہب ائمہ یاد رکھنے کے لیے :
مالک ہیں شافعی بھی احمد بھی ہیں اور ہم
لا لا نعم نعم و نعم لا و لا نعم
یعنی : امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ شخص نہ ابھی نماز پڑھے ، نہ بعد
میں۔
امام شافعی رح۔: ابھی بغیر وضو کے پڑھ لے ، بعد میں جب پانی مل جائے تب بھی پڑھے۔
امام مالک رح۔ : ابھی پڑھ لے بعد میں اعادہ نہ کرے۔
امام ابو حنیفہ رح۔ : ابھی نہ پڑھے ، بعد میں پڑھ لے۔
جن چھے بچوں نے حضرت نبی اکرم ﷺ کی گود مبارک میں پیشاب کیا ، ان کے نام یاد رکھنے کے لیے
قد بال فی حجر النبی اطفال
حسن حسین و ابن الزبیر بالوا الخ
حضرت ناظم صاحب کا ایک عمل یہ تھا کہ عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد چوبیس منٹ مسجد میں ٹھہر کر اوراد میں مشغول رہتے۔اور فرماتے : حق تو یہ ہے کہ ہم چوبیس گھنٹے مسجد میں رہیں ، یہ تو ہم سے ہو نہیں سکتا۔اتنا تو ہم کر سکتے ہیں کہ چوبیس منٹ مسجد میں لگا دیں۔
*ایک ستارہ اور ڈوبا*
حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب سہارن پوری کا سانحہ ارتحال
(ولادت: 1356ھ/1937ء وفات 1446ھ/2025ء)
*_عبید اللہ شمیم قاسمی_*
29 شوال المکرم 1446ھ مطابق 28 اپریل 2025ء کو انتہائی کلفت اثر کے ساتھ یہ خبر گوش گزار ہوئی کہ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمہ اللہ جو مظاہر علوم سہارن پور کے ناظم اعلی اور شیخ الحدیث تھے ان کا انتقال ہو گیا إنا للہ وإنا إلیہ راجعون إن للہ ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى
حضرت مولانا کی ذات گرامی مظاہر علوم سہارن پور کے لئے روشن ستارہ کے مانند تھی جس کی روشنی سے نصف صدی سے زائد عرصہ تک طالبان علوم نبويہ مستفید ہوتے رہے۔ آپ کی وفات سے مظاہر علوم کی تاریخ کا ایک روشن باب بند ہوگیا۔
گذشتہ چند سالوں میں مظاہر علوم سہارن پور کو بہت سے علماء کی وفات کے حادثہ سے دوچار ہونا پڑا۔ سب سے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری رحمہ اللہ کا انتقال ہوا، اس کے بعد پیر طریقت حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ داغ مفارقت دے گئے اس کے بعد ناظم مدرسہ حضرت مولانا سلمان صاحب سہارن پوری بھی مسافران آخرت میں شامل ہو گئے۔ ابھی مظاہر علوم ان حادثات سے پوری طرح باہر نہیں آسکا تھا کہ اچانک حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھی رفیق اعلی سے جا ملے۔ ان حضرات کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا تھا اس کا پر ہونا تو بہت ہی مشکل تھا مگر حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمہ اللہ کی ذات گرامی جو ایک عرصہ سے مظاہر علوم کی مسند درس کو زینت بخشے ہوئے تھے، بخاری شریف کا درس بھی ان سے متعلق ہوا اور نظامت کا عہدہ بار گراں بھی انہی کے کندھے پر آگیا، حضرت مولانا بھی اپنی عمر کے آخری مرحلے میں تھے مگر آپ کی ذات گرامی جن کے وجود سے مدرسے میں خیر و برکت تھی۔ آپ کی شخصیت متنوع کمالات کی حامل تھی آپ کے درس سے جہاں ہزاروں تشنگان علوم نبوت سیراب ہوئے اور ملک وبیرون ملک دینی خدمات انجام دے رہے ہیں وہیں آپ کا سب سے محبوب مشغلہ تصنیف و تالیف تھا اور آپ کو حدیث شریف سے خصوصی لگاؤ تھا، آپ نے اپنے تدریسی دور کے آغاز سے حدیث شریف کی جو تدریس کی ابتدا کی تو وہ زندگی کی آخری سانس تک باقی رہا،آپ نے ابتدا ابو داؤد شریف کا درس دیا جو بہت ہی مقبول تھا اس کے علاوہ حدیث شریف کی اور بھی کتابیں آپ سے متعلق رہیں لیکن جب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا جو تقریبا نصف صدی تک مظاہر علوم کی مسند حدیث کو زینت بخشے ہوئے تھے اور بخاری شریف آپ سے متعلق تھی اس خلا کو پر کرنے کے لیے سب کی نگاہ حضرت مولانا محمد عاقل صاحب پر پڑی اور آپ نے اس خلا کو حتی المقدور پر کر دیا تھا لیکن جب حضرت مولانا سلمان صاحب کا انتقال ہو گیا جو انتظامی امور میں بہت ہی مہارت رکھتے تھے اور حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رام پوری رحمہ اللہ کے بعد ناظم صاحب کے لقب سے معروف و مشہور تھے، حضرت مولانا سلمان صاحب نظامت کے ساتھ ساتھ درس بھی دیا کرتے تھے، ارکان شوری کے مشورے سے حضرت مولانا عاقل صاحب کے ذمے نظامت کا بارگراں بھی لگادیا گیا، آپ صدرالمدرسین میں تھے شیخ الحدیث بھی تھے اور ناظم اعلی بھی تھے، لیکن دو سال پہلے اپنی معذوری کی بنا پر آپ نے عہدہ صدارت سے استعفی دے دیا تھا اور یہ ذمہ داری مولانا یوسف صاحب گجراتی کے سپرد کردی گئی تھی۔ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب جنہیں اللہ رب العزت نے گوناگوں خصوصیات سے متصف فرمایا تھا آپ کی پوری تعلیم مظاہر علوم سہارن پور میں ہوئی اور فراغت 1380ھ میں ہوئی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری اور حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بستوی سابق استاذ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی وغیرہ آپ کے رفیق درس تھے، اس کے اگلے سال علوم میں داخل رہے اور علوم سے فراغت کے بعد مظاہر علوم میں تدریس سے وابستہ ہو گئے، پہلے سال اگرچہ ابتدائی کتابیں آپ سے متعلق تھیں لیکن اگلے چند سال بعد ہی حدیث شریف کی تدریس بھی آپ سے متعلق ہوگئی اور 1386ھ میں ابو داؤد شریف اپ کے پاس آگئی، اسی طرح جب حضرت مولانا امیر احمد صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا تو 1390 میں آپ کو مظاہر علوم کا صدر مدرس بنایا گیا 50 سال سے زائد عرصہ تک آپ اس منصب پر بحسن و خوبی قائم رہے۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا بھی ذوق تھا اور آپ کو یہ ذوق کچھ تو اپنے والد صاحب رحمہ اللہ سے ورثہ میں ملا تھا، واضح رہے کہ آپ کے والد حضرت حکیم محمد ایوب صاحب رحمہ اللہ نے طحاوی شریف کے رجال پر بہترین کتاب تصنیف فرمائی ہے، اور زیادہ تر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ کی سرپرستی اور آپ کی شفقت و توجہ کی وجہ سے حاصل ہوا چنانچہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ بہت سے علمی کاموں میں آپ ان کے معاون رہے، چاہے وہ الکوکب الدری کا حاشیہ ہو یا الابواب والتراجم ہو حتی کہ حضرت شیخ نے الابواب و التراجم کے آخر میں بہت
مولانا عبید اللہ انور (وفات 27-04-1985ء) تحریر: مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ
https://archive.org/download/ubaidulla-anwar-by-yusuf-ludhyanwi/Ubaidulla%20Anwar%20By%20Yusuf%20Ludhyanwi.pdf
غلطی ہائے مضامین۔۔۔شاباش! تم بھی خوب مین میکھ نکالتے ہو۔۔۔. احمد حاطب صدیقی
’خوض‘ کے معانی پر غور کرتے کرتے یہ کالم نگار اپنے پچھلے کالم میں لکھ بیٹھا تھا کہ ’خوض‘ کے ایک معنی مین میکھ نکالنا بھی ہیں۔ اس پر لوگ لگے ’مین میخ‘ نکالنے۔ راولپنڈی سے محترمہ تابندہ شاہد نے لکھا:
’’مین میکھ کو میں نے پہلی بار ’پڑھا‘ ہے۔ ورنہ سننے اور بولنے میں ہمیشہ مین میخ ہی سنا اور کہا‘‘۔
اُستاد اعجاز عبید نے پوری تحریر پر تبصرہ فرماتے فرماتے فرمائش بھی کرڈالی:
’’اس عمدہ مضمون نے میرے ذہن میں بھی ایک سوال پیدا کردیا۔ مین میکھ یا مین میخ؟ اس پر تحقیق کی فرمائش بھی ہے‘‘۔
جدہ سعودی عرب سے سید شہاب الدین صاحب کے ذہن میں بھی محولہ کالم پڑھ کر یہی سوال آیا:
’’اصل میں کیا ہے؟ مین میکھ یا مین میخ؟ ہم نے اکثر میخ ہی پڑھا ہے، جس کے معنی کیل کے ہیں‘‘۔
دیگر کئی قارئین بھی اس پھیر میں پڑگئے کہ آیندہ وہ مین میخ نکالا کریں یا مین میکھ؟تو اب دیکھیے ہم کیا نکالتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ’مین میکھ‘ کی ترکیب ہندی ترکیب ہے، فارسی نہیں۔ یہاں ’مین‘ بروزنِ تین بولا جائے گا۔ اس کے ساتھ لگے ہوئے لفظ ’میکھ‘ کا تلفظ ’مے کھ‘ ہے۔ میکھ کا تعلق فارسی کے لفظ ’میخ‘ (تلفظ: می خ) سے ہرگز نہیں۔ فارسی میں ’مِیخ‘ کا مفہوم کیل، کانٹا، سوئی یا کھونٹی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُردو بولنے والوں نے ’میکھ‘ ہی کا تلفظ تبدیل کرکے اپنے طور پر اسے ’میخ‘ ( مے خ) بولنا شروع کردیا جو رواج پا گیا۔ بس پھر کیا تھا، مہذب اور چقطع مقطع لوگ ’مین میکھ‘ نکالنے کی جگہ ’مین میخ‘نکالنے لگے۔ لفظ بدل گیا،کرتوت نہیں بدلے۔
’مین‘ اور ’میکھ‘ دونوں الفاظ کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ ’مین‘ سنسکرت میں ’مچھلی‘ کو کہتے ہیں۔ یہ آسمان کے بارہویں بُرج کا نام ہے جس کی شکل مچھلی سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ اسے عربی میں ’حوت‘ کہتے ہیں اور انگریزی میں اس کا نام ‘Pisces’ ہے۔ مگر یہ بُرج کیا ہے؟
بُرج کے لفظی معنی قلعہ، محل اور گنبدکے ہیں۔ فصیل پر بنے ہوئے گنبد کو بھی بُرج کہا جاتا ہے۔ ہمارے شہر لاہور میں چار بُرجوں والی ’چوبُرجی‘ آج بھی پائی جاتی ہے، گو کہ اس کے گنبد غائب ہوچکے ہیں۔ قدیم علمِ فلکیات یا نجومیوں اور ستارہ شناسوں کی اصطلاح میں بُرج سے مراد ستاروں کے جھرمٹ ہیں۔ مجمع النجوم۔ ان جھرمٹوں کے نام اُن خیالی شبیہوں پر رکھ دیے گئے ہیں جو انھیں دیکھتے وقت بظاہر نظر آتی ہیں۔ یعنی حقیقتاً توآسمان پر مچھلی، بچھو، دنبہ، شیر اور ترازو نہیں ہوتے، مگر ستارہ شناسوں کو یہ جھرمٹ ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے آسمان کو بارہ بروج میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی سورۃ البروج کی پہلی آیت میں بھی بُرجوں والے آسمان کی قسم کھائی گئی ہے۔ مگر یہاں بُروج سے مراد وہ مضبوط آسمانی قلعے ہیں جن پر فرشتے متعین رہتے ہیں اور ملائِ اعلیٰ کی طرف بڑھنے والے شیطانوں کو شہابِ ثاقب مارکر بھگا دیتے ہیں۔ یعنی شیاطین کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔ لہٰذا جنات یا شیاطین کی مجال نہیں کہ وہ غیب کی خبر لا سکیں یا آسمانی رازوں کی سُن گُن لے سکیں۔ نجومی لوگ جو غیب کی باتیں بتاتے ہیں وہ اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں۔ لگ گیا تو تیر، نہ لگا تو تُکّا۔
’میکھ‘ سنسکرت میں مینڈھے یا دُنبے کو کہتے ہیں۔ ہندی میں اس کا تلفظ ’میش‘ بھی کیا جاتا ہے۔ ’میکھ‘ بھی ایک آسمانی بُرج کا نام ہے۔ یہ آسمان کا پہلا بُرج ہے۔ اس کی شکل مینڈھے سے مشابہ ہے۔ اسے عربی میں ’حمل‘ اور انگریزی میں ‘Aries’ کہتے ہیں۔