ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

ملفوظات اشرفیہ

فرمایا کہ مقصودِ سلوک رضاۓ حق ہے۔ اس کے بعد دو چیزیں ہیں طریق کا علم، اور اس پر عمل۔
سو طریق صرف ایک ہی ہے یعنی احکامِ ظاہرہ و باطنہ کی پابندی۔
اور اس طریق کا معین دو چیزیں ہیں۔ ایک ذکر جس پر دوام ہو سکے دوسرے صحبت اہل اللہ کی جس کثرت سے مقدور ہو۔ اور اگر کثرت کے لیے فراغ نہ ہو تو بزرگوں کے حالات و مقالات کا مطالعہ اُس کا بدل ہے۔ اور دو چیزیں طریق یا مقصود کی مانع ہیں معاصی اور فضول میں مشغولی۔
اور ایک امر ان سب کے نافع ہونے کی شرط ہے یعنی اطلاع حالات کا التزام۔ اب اس کے بعد اپنی استعداد ہے۔ حسب اختلاف استعداد مقصود میں دیر سویر ہوتی ہے۔ یہ خلاصہ ہے سارے طریق کا۔

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی
(کمالات اشرفیہ: صفحہ ۲۳)

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: اپریل / 19
+++++++++++++++
افسر میرٹھی۔ حامد اللہ / بچوں کے ادیب/ 19/ اپریل/ 1974ء
سید امتیاز علی تاج/ ڈرامہ نگار/ 19/ اپریل/ 1970ء
حسین انجم (سید محمد حسین کاظمی)/ ۔/ 19/ اپریل/ 2006ء
خلیل فرحت کارنجوی/ ۔/ 19/ اپریل/ 2007ء
ڈاکڑ محمد زاہد خاں/ ۔/ 19/ اپریل/ 2011ء
صبیح الدین احمد/ جسٹس/ 19/ اپریل/ 2009ء
فیض الغنی/ پروفیسر/ 19/ اپریل/ 1989ء
مولانا عبد الماجد ندوی عظیم آبادی/ ادیب، براڈکاسٹر/ 19/ اپریل/ 1985ء
مولانا محمد مصطفی بھیسا نوی/ ۔/ 19/ اپریل/ 2012ء
محمد ایوب خان / صدر پاکستان/ 19/ اپریل/ 1974ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

معاشی بدحالی کا زمانہ تھا ، اساتذہ کی تنخواہیں خود ان کے گزر اوقات کے لئے کافی نہیں ہوتی تھیں، لیکن یہ ایسے اساتذہ تھے، جو اپنے طلبہ کے گھر چولہا جلنے کی فکر میں رہتے تھے، یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ایک ایسی نسل تیار کی جن کے ہاتھوں قوم کے تعلیمی ادارے پروان چڑھے تھے تو وہ اردو میڈیم کے اساتذہ لیکن ان کے شاگردان نے قوم کو پروفیشنل تعلیم کے ایسے ادارے دئے، جو قوم کے افراد کی خوشحال زندگی کا ایک بڑا ذریعہ بنے۔
سيد عبد الرحمن باطن مرحوم نے سنہ 1964ء میں بی اے منگلور سے کیا تھا، آپ کی خواہش وکالت سیکھ کر يل یل بی کرنے کی تھی، لیکن اس وقت عثمان حسن جو باپو مرحوم جیسے قوم کے مخلص اور دردمند ہیڈ ماستر انجمن اسلامیہ اینگلو اردو اسکول کو میسر آچکے تھے، آپ کا حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی رحمۃ الله علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت سے بیعت و ارشاد کا تعلق تھا اسی زمانے میں انجمن اولڈ بوئز ایسوسی ایشن متحرک ہوئی، جس کے باطن صاحب بهى ركن ركين تھے، اور اس کے متحرک ذمہ داران میں اس وقت کے نوجوان صلاح الدین کوبٹے، بدر الحسن معلم ،عبد الرحمن جان محتشم ، عبد القادر باشا دامودی، جعفر دامودی عبد الرشيد دامدا ابو، اور جعفر گنگاولی ، خواجہ جو باپو صاحبان بھی شامل تھے ، اس وقت ہیڈ ماسٹر صاحب نے انجمن سے تعلیم یافتہ قوم کے دردمند نوجوانوں کو انجمن میں تدریس سے وابستہ ہونے کی ایک تحریک اٹھائی تھی، جس کو اولڈ بوئز ایسوسی ایشن نے طاقت بخشی ، اس تحریک کے زیر اثر قوم کے کئی ایک نوجوان انجمن میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے ، اس قافلے کے امیر سالار سید عبد الرحمن باطن تھے۔ اس کے بعد آپ نے تسلسل سے پندرہ سال تک انجمن میں تدریس کی خدمت انجام دی، یہ سال انجمن کے سنہرے سال میں شمار ہوتے ہیں ، آپ نے سابق اساتذہ کی شاندار روایات کو باقی رکھا، خود کو صرف اسکول کی ٹیچری تک محدود نہیں رکھا، بلکہ محلے کے سبھی بچوں کے سرپرست اور نگران بن گئے، شام کے بعد گھر سے نکلنے والے بچوں پر آپ کی نگاہ رہتی تھی تھے تو دھان پان لیکن جب گھر سے نکلتے تھے، تو چوک سے جامع مسجد تک بچوں میں ایک دھاک بیٹھ جاتی تھی ، کبھی بچوں کے کپڑے سونگھ کر پتہ لگاتے کہ کہیں اس نے بیڑی اور سگریٹ کو تو منہ نہیں لگایا، یا پھر رات کو سینیما گھر کا چکر تو نہیں لگا آیا، اس زمانے میں تربیتی نقطہ نگاہ سے اس نگرانی کی کیا اہمیت تھی، اس کا آج اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، کیونکہ اس زمانے میں والدین اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر سال دو سال کے لئے تلاش معاش میں سرگرداں دور دور دوسرے شہروں کو نکلتے تھے، ایمو بوتیم زوم اور ٹیم کا زمانہ نہیں تھا، دبی سے تین منٹ کا ایک کال آج کے حساب سے آٹھ سو روپئے کا پڑتا تھا ، جو عموما بیماری یا موت ہی کی خبر یں لاتا تھا، ممبئی ، کلکتہ اور چنئی میں کام کرنے والوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں تھا، اب تنہا سرپوش ماں چلمن کی آڑ سے کہاں تک اپنے نونہال کا خیال رکھ پاتیں، کب تک محلے والوں سے نونہال کی شکایتوں کو سہ پاتیں، اس زمانے میں باطن ماسٹر جیسے اساتذہ اسکول ٹیچر کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے والد اور سرپرست کی ذمہ داریاں بھی سنبھال رہے ہوتے تھے۔ لہذا محلے کے بچوں کے روابط بھی ان کے ساتھ ایسے ہی گہرے، محبت بھرے اور اٹوٹ ہوا کرتے تھے، حقیقت تو یہ ہے، باطن صاحب انجمن کے اساتذہ کی اس نسل کی آخری کڑی تھے، آپ کے ساتھ وہ تسبیح ٹوٹ گئی اور قوم کی بدنصیبی کے ان احسانات کو یاد کرنے والے بھی اب نہیں رہے۔
کیونکہ اسی دوران عین جوانی میں عثمان حسن ہیڈ ماسٹر مورخہ 31 /اکتوبر 1977 ء اچانک اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے، پرانے مخلصین بھی تھوڑی مدت میں اللہ کو پیارے ہوگئے یا رٹائرڈ ہوگئے ، پھر انگلش میڈیم پرائیوٹ اسکولوں کا بول بالا شروع ہوا اور اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول پس پشت جانے لگا، اور مقامی خوشحال خاندانوں کے بچوں، اور عصری علوم کے مقامی اساتذہ سے خالی ہوتا چلا گیا، اور انجمن اینگلو اردو اسکول میں جس داخلے کو عزت اور فخر کی بات سمجھی جاتی تھی، اب وہ احساس ختم ہونے لگا۔ یہی صورت حال بقیہ سرکاری اردو اسکولوں کی بھی ہوئی اور یہ اسکول یا تو بند ہوگئے، یا پھر غیر مستطیع اور محنت پیشہ اور غیر مقامی افراد کے نونہالوں کے لئے رہ گئے۔ جس کی وجہ سے بیٹر منٹ کمیٹیوں سے مقامی افراد بے دخل ہوتے گئے، اس کے منفی اثرات آج شدت سے محسوس ہورہے ہیں، کیونکہ گورنمنٹ اسکولوں کے اردو اساتذہ مردم شماری ، ووٹرلسٹ اور سرکاری پروگراموں کے موقعہ پر آکر مقامی باشندوں سے اردو میں تفصیلات لے کر ان کا درست اندراج کرتے تھے، لیکن اردو داں اسٹاف کی غير موجودگی میں سرکاری دستاویزات میں ناموں اور تفصیلات کے اندراج میں جو فاش غلطیاں سرزد ہورہی ہیں، اور اس سے یہاں کے باشندوں کو جوالجھنیں ، مشکلات اور نقصانات پہنچ رہے ہیں، ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

” اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں کج بحثی کر رہے ہیں [یخوضون] تو اُن سے منہ موڑ لو(یعنی ان سے کنارہ کش ہو جاؤ) یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں اور اگر شیطان تمھیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ان ظالموں کے پاس نہ بیٹھو“۔
اسی طرح سورۂ طور کی آیت نمبر 11 اور 12 میں فرمایا گیا:
”پس تباہی ہے اُس روز اُن جھٹلانے والوں کے لیے جو آج کھیل کے طور پر اپنی حجت بازیوں [خوض] میں لگے ہوئے ہیں “۔
ہمارے ہاں ’خوض‘ کا لفظ ’غور‘ کے ساتھ ملا کر سوچ بچار اور تفکر کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔یوں ’غور و خوض‘ کا مطلب ہوا کسی بات کہ تَہ تک پہنچنا، اُس کی گہرائی میں جانا، اس کا ناقدانہ جائزہ لینا، اس میں مِین میکھ نکالنا، نکتہ چینی کرنا،حجت یا دلیل بازی کرنا اور بال کی کھال نکالنا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج ہم نے ’غور و خوض‘ کے موضوع پر فرمائشی غور و خوض فرمایا۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
٭٭
/channel/ilmokitb

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: مورخہ اپریل/ 17
++++++++++++++
تورگوت اوزال (ترکیہ) ،17، اپریل، 1993ء
ثروت جہاں ثروت ،17، اپریل، 2010ء
حسن اے شیخ ،17، اپریل، 1994ء
ڈاکٹر فاضل زیدی، ڈاکٹر (سید سبطِ حسن) ،17، اپریل، 1989ء
سرو پلے رادھا کرشنن ،17، اپریل، 1975ء
سید عبد الرحمن باطن ،17، اپریل، 2023ء
سید مبارک حسین مسرور ،17، اپریل، 1995ء
قاری عطاء الرحمٰن دھامپوری ،17، اپریل، 2017ء
محمد حسین زبیری ،17، اپریل، 1976ء
محمد نقی ،17، اپریل، 2010ء
مولانا ارشاد علی ندوی ،17، اپریل، 2017ء
مولانا احمد علی محدث سہارنپوری ،17، اپریل، 1880ء
مولانا سحبان محمود ،17، اپریل، 1999ء
مولانا شاہ عبدالرحیم جے پوریؒ ،17، اپریل، 2005ء
نواب محمد صادق خان دوم (بہاولپور) ،17، اپریل، 1826ء
نور جہاں ثروت ،17، اپریل، 2010ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

استاد ذوقؔ سے ایک مرتبہ بادشاہ نے تاسف سے کہہ دیا کہ استاد جب ہم نہیں رہیں گے تو کیا تم دوسروں کے قصیدے بھی اسی طرح کہو گے۔ ذوقؔ جب مرنے لگے تو آب دیدہ ہو گئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ بادشاہ سے پہلے مر رہا ہوں اور زبان خدا نے کسی اور کی مدح سے آلودہ نہیں کی۔ ذوقؔ بے چارے کے پاس دھرا ہی کیا تھا ایک غیرت اور اخلاص ہی تو تھا۔ غالبؔ ایسے افراسیابی اور ترکمانی تھے کہ جو قصیدے بادشاہ کے لیے لکھے تھے، انہیں نام بدل بدل کر کمشنروں کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ رام پور سے مفتی آزردہؔ کی بیوہ کو وظیفہ ملتا تھا، غالبؔ نے نواب کو خط لکھا کہ یہ میرا حق ہے۔
غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

لوگ کہتے ہیں کہ شاعر کی زندگی نہیں دیکھی جاتی، شاعری دیکھی جاتی ہے۔ کچھ لوگ زندگی میں بڑے اور شاعری میں چھوٹے ہوتے ہیں، جیسے حسرتؔ۔ کچھ لوگ شاعری میں بڑے اور زندگی میں چھوٹے ہوتے ہیں جیسے غالبؔ۔
(مضامینِ سلیم احمد)

Читать полностью…

علم و کتاب

الانتقاد علیٰ تاریخ التمدن الاسلامی
(ازشبلی نعمانی)

حالی نے کہا تھا:
ادب اور مشرقی تاریخ کا ہو دیکھنا مخزن
تو شبلیؔ سا وحیدعصر ویکتائے زمن دیکھیں

اور مہدی افازی انہیں تاریخ کا معلم اول کہتے تھے۔

ڈیڑھ سو سال قبل جب شبلی نے تاریخ وادب پر لکھنا شروع کیا تورفتہ رفتہ وہ منہج اختیار کرلیا جسے جدید اصطلاح میں سائنسی طریقہ ٔتحقیق کہہ سکتے ہیں۔ تاریخ نگاری کے کچھ اصول متعین کیے ،مصادر کے استناد کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا، علمی اسلوب اختیار کیا اور روایت کو درایت سے صیقل کیا توان کی تاریخی تصانیف نے گویا ہندوستان میں دھوم مچادی۔اگر ان کی صرف تاریخی تصانیف کی اسم شماری کریں تو المامون(1887ء) ،سیرۃ النعمان(1893ء) ،الفاروق(1899ء) الغزالی(1902ء)،علم الکلام(1903ء)،سوانح مولانا روم(1906ء)، الانتقاد علی تاریخ التمدن الاسلامی(1911ء) اور سیرۃ النبی کے علاوہ متعدد ایسے تاریخی مقالات جو اپنے موضوع پر حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہوں،انہیں وحیدعصر توبناتے ہیں۔

”الانتقاد“ ان کی آخری عمرکی تصنیف ہے، جو ایک عیسائی شامی مصنف جرجی زیدان آفندی(ایڈیٹر الہلال مصر) کی چار جلدوں کو محیط کتاب ”تاریخ التمدن الاسلامی“ کا رد یا جواب ہے۔
شبلی اور جرجی زیدان دونوں دوستا نہ تعلقات رکھتے تھے اور ان کے درمیان خط کتابت بھی تھی ،لیکن جرجی زیدان کی کتاب جب شبلی نے پڑھی تواُسے ایسا دندان شکن جواب دیا کہ دوستی اور خط کتابت سب ختم ہوگئی۔یہ ایسا کڑ اجواب تھا جس پر خود رشید رضا المصری ،جنہوں نے اس طویل انتقادی مضمون کو اپنے جریدے”المنار“ میں قسط وار شائع کیا تھا ،وہ بھی بعد میں تاسف کا اظہار کرتےر ہے کہ اگر میں نے یہ طویل تنقید اشاعت سے پہلے پڑھ لی ہوتی تو مصنف(یعنی علامہ شبلی) سے اجازت لے کر اس کے بعض درشت اور سخت جملے حذف کردیتا۔

جب شبلی نے یہ طویل انتقاد لکھا تو پہلے ”الندوہ“ (لکھنو) میں قسط وار شائع ہوا،اُس کے بعد”المنار“ (مصر) میں قسط وار چھپا ،ازاں بعد لکھنو (انڈیا) سے 1912ء میں کتابی شکل میں شائع ہوا ۔میری ذاتی لائبریری میں ایک سو تیرہ سال پرانا یہ نسخہ موجود ہے، جس کی تصویر دی جارہی ہے اور علامہ کے انتقال کے بعد مصر سے 1921ء میں شائع ہوا۔

جرجی زیدان کی کتاب جب انڈیا پہنچی تو بڑے بڑے دھوکا کھا گئے، کتاب کے حق میں رطب اللسان ہوئے اور مولانا اسلم جیراج پوری سمیت کئی مورخین ومصنفین اس کاترجمہ کرنے پر کمر بستہ ہوئے،نیز یہ کوششیں بھی کی گئیں کہ جرجی زیدان کی کتاب کے بعض ابواب نصاب میں شامل کردیے جائیں۔ آخر الذکر کام تو نہ ہوسکا البتہ جنہوں نے جرجی زیدان کی کتاب کا ترجمہ کیا انہوں نے اس کے کذب وافتراء سے پردہ اُٹھانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔درآں حالیکہ جرجی زیدان نے اپنی کتاب میں مسلم حکمرانوں خاص طور سے خلفائے بنو امیہ پر متعصبانہ تبصرے کیے۔خلفائے راشدین کو بھی نہ چھوڑا،حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ؓپر اسکندریہ کے کتب خانے کو جلانے کاالزام لگایا ، خلافت ِ بنو امیہ کاتذکرہ کرتے ہوئے اُ س نےخلفاء پر رکیک حملے کیے مثلاً یہ کہ وہ قرآن اور حرمین کی توہین کرتے تھے، غیر عربوں کو حقیر سمجھتے تھے، مفتوحہ اقوام کے اموال غصب کرلیتے تھے ،ظالم وسفاک تھے ،لہو ولعب میں ڈوبے ہوئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کرتے ہوئے جرجی زیدان نے انفراد ی فعل کو اجتماعی اور استثناء کو عموم کا درجہ دے دیا۔ جو بڑی بددیانتی کی بات ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے اپنے ”انتقاد“ میں جرجی زیدان کے ایک ایک کذب، خیانت،تحریف،تدلیس اور تلبیس کا جواب دیا ہے۔

علامہ شبلی نے خود ہی اس کا ارد ومیں خلاصہ لکھا ،و ہ بھی الندوہ میں شائع ہوا۔ (بابت شوال 1329ھ) اور اب وہ خلاصہ ”مقالاتِ شبلی“ میں ایک مقالے کے طورپر شامل ہے۔ گویا وہ خلاصہ تو اردو میں دستیاب ہے لیکن پوری کتاب کا اردو ترجمہ نہیں ہواتھا۔ یہ کام حارث پبلی کیشنز،کراچی کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ مترجم ڈاکٹرمحمد بلال بربری ہیں۔ انہوں نے”الانتقاد“ کے ترجمے کے لیے جس محقق نسخے کا انتخاب کیا، اُس کی تحقیق ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی صاحب نے کی ہے، اجمل اصلاحی نے اس کتاب کے ہندوستانی ایڈیشن، مجلہ المنار میں شائع شدہ اقساط اور دارالمصنفین سے شائع شدہ ایڈیشن تینوں سے متن کا تقابل کیا ہے۔ اسی محقق نسخے کا ترجمہ حارث پبلی کیشنز،کراچی سے شائع کیا گیا ہے۔

شبلی کی انتقاد کو عربی میں پڑھیں تو ایک علمی رعب قائم ہوجاتاہے، ان کا آہنگ اور اسلوب ،ترجمے میں سمویا نہیں جاسکتا، وہ زور دار جملے، ترجمہ ہوکر ہلکے محسوس ہوتے ہیں۔ بہر حال مترجم (ڈاکٹر مفتی محمد بلال ابرہیم بربری) نے یہ بھاری پتھر اٹھا لیا، یہی بہت بڑی بات ہے، کتاب فروری 2025ء میں منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب کے آخر میں علامہ شبلی کا جرجی زیدان کے نام خط، جرجی زیدان کا شبلی کے نام خط، علامہ شبلی اوران کی تالیف ”الانتقاد“ پر رشید رضا کی تحاریر، اور علامہ شبلی کی وفات پر بعض اہل قلم کے تعزیتی شذرات بھی شامل کیے گئے ہیں ۔البتہ آغاز کتاب

Читать полностью…

علم و کتاب

ہی تھا تمام بڑے پروگرام چاہے وہ دارالعلوم کے اپنے ہوں یا طلبا کےوہیں ہواکرتے تھے، ہم لوگوں کا جلسہ بھی وہیں ہونا تھا، مگر اتفاق یہ ہوا کہ اجلاس صدسالہ کی تیاری کے سلسلے میں ہمارے جلسے کے ٹھیک دوسرے دن دارالعلوم نے پورے ملک کے مشاہیر کا ایک نمائندہ اجتماع طلب کرلیاتھا، اب ہمارا جلسہ خطرے میں پڑگیا تھا مہینوں سے ہم لوگ تیاری کر رہے تھے، علماء کو دعوت دی جاچکی تھی، مقالے تیار تھے، نعت خواں، مقررین سب تیاری کرچکے تھے، مہمانوں کی مدارات، جلسہ گاہ، ناشتہ پانی ساری ذمہ داریاں بانٹ دی گئی تھیں، عین موقع پر جلسے پر منڈالے والے اس خطرے سے تھے ہم تمام طلبا سہمے ہوئے تھے ـ ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیمی زندگی میں یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اس وقت بہت بڑی دکھائی دیتی تھیں ـ اس موقع پر ایک اور اطلاع آئی کہ نمائندہ اجتماع کے سلسلے میں جوبڑے اساتذہ کی میٹنگ ہوئی اس میں ہمارے جلسے کا ذکر ایسے انداز میں آیا جس کو ہم لوگ " ذکر خیر " نہیں کہہ سکتے تھے، اطلاع کے مطابق میٹنگ میں یہ طے ہورہا تھا کہ نمائندہ اجتماع طلبا کے جلسے کے مقابلے میں ذیادہ ضروری ہے، اس لئے طلبا کا جلسہ ملتوی کرادیا جائے، چونکہ حضرت مہتمم صاحب اتفاق سے اس میٹنگ میں شریک نہیں تھے اس لئے آخری فیصلہ ان پر چھوڑ دیا گیا.......، انتہائی بارسوخ ذریعے سے ہم لوگوں کو یہ اطلاع فورا مل گئی، ہم لوگوں نے فورا ہنگامی میٹنگ بلائی طے کیا گیا کہ آج ہی حضرت مہتمم صاحب سے ملنا چاہئیے، چنانچہ مغرب بعد ہم آٹھ دس لوگ طیب منزل پہونچے، حضرت مہتمم صاحب موجود نہیں تھے مولانا سالم صاحب سے ملاقات ہوئی، ہم لوگوں نے پوری صورت حال بیان کی اور جلسہ کی تیاری اور طلبا کی محنت ذوق وشوق کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست کی ہم لوگوں کا جلسہ ملتوی نہ کرایا جائے آگے سالانہ امتحان ہے، طلبا تیاری میں لگ جائیں گے، بیرونی مہمانوں کی منظوری بھی مل چکی ہے دوبارہ ان سے نئی تاریخیں بھی شاید نہ مل سکیں ـ
حضرت نے ہم لوگوں کی بات پوری توجہ سے سنی اور پہلے تو تعجب کا اظہار فرمایا کہ آپ لوگوں کی خفیہ اتنی تیز ہے کہ ہماری میٹنگ میں ہونے والی اندورنی گفتگو کی بھی اطلاع آپ تک پہونچ گئی، آگے آپ نے وہی اصولی بات فرمائی کہ دارالعلوم کا مفاد مقدم ہے، دارالعلوم ہی کے مفاد سے ہم سب کا مفاد وابستہ ہے، چونکہ دوسرے دن صبح ہی نمائندہ اجتماع اسی جگہ ہونا ہے اس لئے جلسہ گاہ کو رات ہی میں تیار کرکے رکھنا ہوگا اس لئے یہ بات آئی تھی کہ اُپ لوگوں کا جلسہ ملتوی ہوجائےـ
حضرت کے اس جواب سے ہم لوگ مایوس ہوگئے اسی وقت اللہ نے احقر کے دماغ میں ایک نئی بات ڈالی میں نے عرض کیا کہ " حضرت اگر دارالحدیث تحتانی میں ہمارا پروگرام ممکن نہیں ہے تو ہم لوگ دارالحدیث فوقانی میں اپنا پروگرام منتقل کرسکتے ہیں .....؟ میں نے اسی وقت ایک دوسرا پینترہ بھی پھینکا کہ " اگر دارالحدیث تحتانی میں بھی ہمارا پروگرام ہوتا ہے تو ہمیں ہدائت دی جائے ہم جلسہ گاہ کو نمائندہ اجتماع کی ضرورت کے مطابق رات ہی میں تیار کردیں گے .......، اور میرا آخری پینترہ یہ تھا کہ " پورے ملک سے نمائندہ اجتماع میں شریک ہونے والے مشاہیر یقینا ایک دن پہلے پہونچ جائیں گے اور وہ سب بھی ہمارے جلسے میں شریک ہوں گے اور ان کے سامنے ہم طلبا کامظاہرہ بھی کسی حد دارالعلوم کی نیک نامی کا سبب بن سکتا ہے ـ
میری اس گفتگو کے بعد حضرت نے میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا " اب آپ نے جویہ نئی تجویز پیش کی ہے اس پر مشورے کے بعد ہی کوئی جواب دیا جاسکتا ہے،
ہم لوگ واپس آگئے، حضرت سے یہ ملاقات خاص طور پرمجھے اس لئے بھی اچھی لگی کہ حضرت نے ہم طلبا کی بات پورے اطمینان اور دلجمعی کے ساتھ سنی، جوابی گفتگو میں بھی نرمی اور ہمدردی کا اظہار فرمایا ـ بہر حال جلسہ ہوا اسی تاریخ اور اسی جگہ پر ہوا، بہت کامیاب رہا بیرونی علما کرام اور نمائندہ اجتماع کے بعض مشاہیر کے بیانات ہوئے طلبا کی تقریریں ' مقالات بہت پسند کئے گئے احقر کا بھی ایک مقالہ تھا وہ بھی بہت پسند کیاگیا(افسوس محفوظ نہیں رہا)
فراغت کے بعد اجلاس صد سالہ کے موقع پر بھی دور سے زیارت ہوئی، پھر دارالعلوم کا قضیہ نامرضیہ پیش آگیا، پتہ چلا کہ جامع مسجد میں دارالعلوم وقف قائم ہواہے ...... اسی دوران ایک دن اچانک ممبئی میں میرے دواخانے کے سامنے ایک گاڑی رکی، میں نے دیکھا کہ حضرت مولانا سالم صاحب اگلی سیٹ پر تشریف فرماہیں پیچھے دوافراد اور ہیں، میری نظر پڑی فورا بھاگا ہوا گیا، سلام کیا ' موٹا ہونا اس دن بھی کام آیا، تعارف کی ضرورت پیش نہیں آئی حضرت نے پہچان لیا، معلوم ہوا کسی صاحب کے انتظار میں یہاں ٹہرے ہیں، دھوپ شدید تھی اس لئے میں نے درخواست کی کہ جب تک دواخانے میں تشریف رکھیں، تشریف لائے.......، وہ آئیں گھر میں ہمارے خداکی قدرت ہے ـ...... کلاہِ گوشہ دہقاں بہ آفتاب رسید ـ

Читать полностью…

علم و کتاب

آرزو لکھنوی (وفات 16-04-1951ء) تحریر جاوید صدیقی علم وکتاب لائبریری:https://archive.org/download/aarzu-lakhnavi-by-jawid-siddiqui/Aarzu%20Lakhnavi%20By%20Jawid%20Siddiqui.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

*حال، ماضی سے مربوط ہوتا ہے*

پروفیسر سید حبیب الحق ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

کسی بھی فرد، قوم یا ملک کے حال کو ماضی سے کاٹا نہیں جاسکتا۔ ماضی، حال اور مستقبل، سب تاریخ کی کڑیاں ہیں، جو ایک دوسرے سے علاحدہ نہیں۔ بلاشبہ فرد یا قوم کی پالیسی میں تغیر و تبدیلی واقع ہوتی ہے، لیکن ہر تبدیلی کے پس منظر میں ماضی کی جھلکیاں موجود ہوتی ہیں۔ اس دعوے کی دلیل میں محض تاریخی شواہد کافی ہیں۔

فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات/صفحہ: ٦٦٧/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا وحید الزماں کیرانوی
وفات( 15-04-1995ء)
تحریر: مولانا اعجاز احمد اعظمی
لنک علم وکتاب لائبریری
https://archive.org/download/wahiduzzaman-keranwi-by-ejaz-ahmad-azami/Wahiduzzaman%20Keranwi%20By%20Ejaz%20Ahmad%20Azami.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: اپریل۔ 14
++++++++++++++
ڈبلیو زیڈ احمد (وحید الدین ضیاء الدین احمد) ،15، اپریل، 2007ء
ذیشان حیدر جوادی ،15، اپریل، 2000ء
ریاض حسین مضطر زیدی ،15، اپریل، 1990ء
ریحان عمر فاروقی ،15، اپریل، 1994ء
سید حسین شاہ راشد ،15، اپریل، 2007ء
صاحبزادہ فضل کریم ،15، اپریل، 2013ء
عرفان صدیقی ،15، اپریل، 2004ء
گوپال متل ،15، اپریل، 1993ء
مختار مسعود ،15، اپریل، 2017ء
مضرزیدی (ریاض حسین ) ،15، اپریل، 1990ء
معروف شاہ شیرازی ،15، اپریل، 2022ء
مفتی شوکت علی فہمی ،15، اپریل، 1993ء
منظر عالم ،15، اپریل، 1970ء
مہاراجا چندو لال (حیدرآباد) ،15، اپریل، 1845ء
مولانا ضمیر احمد اعظمی ،15، اپریل، 1990ء
مولانا فرید الوحیدی ،15، اپریل، 2004ء
مولانا قاری عبدالحفیظ خان قادری ،15، اپریل، 1995ء
مولانا محمد قاسم نانوتوی ،15، اپریل، 1880ء
مولانا وحید الزماں کیرانوی ،15، اپریل، 1995ء
مونس جلیلی (مونس احمد) ،15، اپریل، 1985ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

موسیٰ کسی پر مقام ابراہیم لکھا تھا۔ایک مقام خالی تھا۔میں نے پوچھایہ کیا ہے کہنے لگے یہ میں نے اپنے لیے مخصوص کررکھاہے میں نے کہااس پرلکھ دیجیے’مقام مخصوص‘ یہ سن کر بہت شگفتہ ہوئے۔
(6)
سالک صاحب کی خاکوں پرمبنی کتاب ’یارانِ کہن‘۔اس کی ابتدامیں سالک صاحب لکھتے ہیں ”یہ کتاب آغاشورش کاشمیری کے توائی ڈالنے کی وجہ سے صرف چندروز میں لکھی گئی ہے۔اس لیے اگر اس میں کوئی ایسے اسقام نظر آئیں جواہلِ ذوق کے نزدیک میرے اسلوب تحریر
کے شایاں نہ ہوں تواس کی ذمہ داری اسی بلائے بیدرماں کے سر ہے جس کو شورش کہتے ہیں اور جس کی کسی ضد سے میں سرتابی نہیں کرسکتا“۔
ان خاکوں میں ایک خاکہ مولانا غلام قادر گرامی کا ہے۔وہ علامہ اقبال کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔علامہ اقبال کا کہناتھاکہ گرامی شعر میں تلمیذِروح الامین ہے اور باقی تمام معاملات میں چغد ہے۔مولاناکاایک نوکرتھاغلام محمد۔بہت نمازی اور پرہیزگار۔مکان کے پاس ہی مسجدتھی۔غلام محمدہرنماز مسجدمیں جاکرپڑھتاتھا۔ایک دفعہ مولانانے آوازدی غلام محمد!کسی نے بتایاظہر کی نمازپڑھنے گیا ہے۔دوگھنٹے گزرگئے پھر آواز دی غلام محمد!پھر کسی نے بتایا عصرکی نمازپڑھنے گیا ہے۔بہت بگڑے،کہنے لگے جب دیکھونمازپڑھنے گیاہے۔نابکار قرب مسجد کا ناجائزفائدہ اٹھاتاہے۔یہ ناجائز فائدہ بھی خوب رہا۔
مولانا گرامی بدحواس آدمی تو تھے ہی۔ایک دن میرمحبوب علی خان (آخری حاکم عثمان علی خان کے والد)نظام دکن کا دربار لگا ہوا تھا۔حسب دستورتمام ارکان درباراپنے اپنے منصب پر کھڑے تھے مولانابھی اپنے مقام پر استادہ تھے لیکن ازاربند لٹک رہا تھاحضورنظام کی نگاہ پڑگئی، انہوں نے پیش کارحضوری سے کہاگرامی کو دیکھو ازاربندلٹک رہاہے اور کچھ ہوش نہیں۔پیش کارپریشان ہواکہیں عتاب نہ ہوجائے،جھٹ بات بنائی۔اور کہاحضور والا گرامی پریشان رہتا ہے۔یہاں سے جو منصب ملتا ہے۔وہ نوکرچاکرگھوڑاگاڑی میں خرچ ہوجاتا ہے۔وطن میں ہمشیر کی شادی درپیش ہے(حالانکہ بہن کوئی تھی ہی نہیں)۔یہ پنجاب کے لوگ لڑکیوں کوجہیز میں سونے کے ٹھوس زیوردیتے ہیں۔اس لیے بیچارہ فکر مند رہتا ہے۔میرمحبوب علی خان میں پرانے بادشاہوں کی سی فیاضی تھی،حکم دیاکہ گرامی کوپان سیرسونادے دیاجائے۔.......پیش کار نے ساراقصہ سنایا،شام کے وقت مولانا اپنے مکان پر بیٹھے دون کی لے رہے تھے۔ابھی تو ازاربندلٹک ہی رہاتھاکہ پان سیرسوناملا۔اگر کہیں کھل گیاہوتاتو دس ملتا۔
مولاناگرامی کی ذات دلچسپیوں کی پوٹ تھی مثلاًصبح دس بجے علی بخش نے کہامولوی صاحب کھانالیجیے۔فرمایاواہ علی بخش تم بھی عجیب آدمی ہو ارے ابھی توناشتہ کیا ہے اور ابھی کھاناکھالوں؟کوئی ساڑھے دس بجے علی بخش نے کہامولوی صاحب کھانا لاؤں؟فرمایاپھرتم نے وہی رٹ لگائی۔ارے میاں ابھی تو ناشتہ کیا ہے۔علی بخش جاکر اپنی کوٹھڑی میں بیٹھگ گیا،ابھی پندرہ منٹ نہ گزرے ہوں گے کہ مولانا برآمدے میں نکل آئے اور چلانا شروع کیا۔علی بخش علی بخش،وہ بھاگا ہوا آیا۔حکم مولوی صاحب کہنے لگے۔بڑے بیدرد ہو تم لوگ۔دوپہر ہونے کو آئی۔ بھوک سے جان نکلی جاتی ہے اور کھانانہیں دیتے۔جلدی سے کھانا لاؤ۔
ایک دفعہ میں نے نواب سراج الدین احمد خان سائل دہلوی کے متعلق کہ ان کے لنگوٹیے یار تھے۔دریافت کیاکہ ان کی شاعری کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟جواب دیا خامی میں پختہ ہوگیا ہے میاں۔میں اس جامع مانع رائے کوسن کر پھڑک گیا۔
گرامی صاحب ایک مرتبہ علامہ اقبال کے گھر ٹھہرے تھے۔ایک دن کھانے پربیٹھے تھے تو کہا،علی بخش (گھریلو ملازم)آجکل گوبھی
(7)
نہیں ملتی؟عرض کیابہت ملتی ہے۔ حکم دیا کہ شام کوگوبھی ضرورپکانا۔شام کو جب گوبھی پک کرسامنے آئی تو پوچھنے لگے یہ کیاہے؟کہا گیا
گوبھی۔ بگڑ کرکہنے لگے۔صبح گوبھی، شام گوبھی،دن گوبھی،رات گوبھی۔بڈھے آدمی کو بادی سے مارڈالوگے کیا؟علی بخش نے کہا۔آپ ہی
نے حکم دیا تھا۔لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا۔تم چپ رہو۔صبح گوبھی کی فرمائش کرنے کے بعد مولوی صاحب اب تک اپنے تصور میں خدا جانے اب تک کتنی دفعہ گوبھی کھاچکے ہیں۔تم بھی سچے اوریہ بھی سچے۔
ایک مرتبہ گرامی صاحب اسلامیہ کالج میں تشریف لائے،طلبا نے ان کا کلام سننا تھا۔جلسہ انجمن میں اعلان کردیا گیا کہ جلسے کے خاتمہ پرمولانا گرامی حبیبیہ ہال میں اپنا کلام سنا رہے ہیں ارباب ذوق وہاں تشریف لائیں۔جب ہال بھر گیاتومیں نے مولانا سے کلام کی فرمائش کی،کہنے لگے، نہیں پہلے اور لوگ پڑھیں۔سالک صاحب بے حدپریشان ہوئے کہ اب شعرا کو کہاں سے لائیں۔اتنے میں منشی میراں بخش جلوہ سیالکوٹی نظرآئے۔یہ ایک بلندقامت،سیاہ فام ڈاڑھی اورپگڑی اور لمبے کالے چغے والے شاعر تھے۔پرانے فیشن کے اور بے تکے شعرکہاکرتے تھے اورانجمن کے جلسے میں اکثرآتے تھے۔میں نے ان سے فرمائش کی،مولانا حقے کی لے منہ میں لیے بیٹھے تھے۔جلوہ نے ایک غزل سنائی۔جس کی زمین تھی سحر کی آستیں،قمر کی آستیں۔جب مقتع پڑھا

Читать полностью…

علم و کتاب

اہل بھٹکل شافعی المسلک ہونے کی وجہ سے ان کا شمالی ہند کے علماء کے بجائے ملبار اور مدراس کے شافعی علماء کی طرف رجوع کا میلان زیادہ تھا، سنہ ستر کی دہائی کے اوائل میں مولانا محمود خیال کی قیادت میں جو مجلس العلماء تشکیل پائی تھی اور جس میں بھٹکل کے جملہ علماء ہفتہ وار علوہ مسجد میں جمع ہوکر مختلف فقہی مسائل پر متفقہ رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ، اس مجلس کی آپ بھی ایک فعال شخصیت تھے ۔
آپ ایک وسیع المطالعہ عالم دین تھے ، نثری ادب کا بڑا ستھرا ذوق رکھتے تھے ، ستر کی دہائی میں ( بیسوا) نامی ایک ناول خود آپ سے لے کر ہم نے پڑھی تھی ،مولانا عبد الماجد دریابادی ؒکی تحریروں سے گویا آپ کو عشق تھا، بھٹکل کے وہ شاید واحد شخص تھے جن کی تحریریں صدق لکھنو کے معیار پر پوری اترنےکی وجہ سے سچی باتیں کی جگہ پر چھپا کرتی تھیں ، دو مرتبہ تو مولانا دریابادی نے اپنی جگہ علی سکری صاحب کی لکھی سچی باتیں کو اپنے پرچہ میں جگہ دی تھی ، یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس کی دوسری مثال شاید ہی مل سکے۔ معاملات کے بارے میں بھی جو معلومات محتشم عبد الغنی مرحوم کے توسط سے موصول ہوئی ہیں کہ نور مسجد میں ملازمت کے ایام غیر حاضری کی تنخواہ واپس کرتے تھے ان کی عظمت کی نشاندہی کرتی ہے ۔
آپ کی تعلیم و تربیت مسلکی طور پر ایک روادارانہ خاندان میں ہوئی تھی ، ان کے آباء و جداد میں کسی کی تکفیر وغیرہ میں شدت کی مثالیں نہیں نہیں ملتیں، مولانا خیال سمیت دابھیل کے آپ کے جملہ اساتذہ دیوبند ی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ، بچپن میں ہم نے آپ کو مولود درود پڑھتے دیکھا ہے، لیکن جسے کھلی بدعت کہا جاتا ہے اس میں ملوث ہوتے کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
حس مزاح طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی ، اس کے لئے الفاظ کے ہیر پھیر کو خوب کام میں لاتے ، دولہا کو نکاح کے وقت جو تحفے دیتے وقت ان میں مستقبل کی ضروریات کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے ایسی چیزیں ڈبوں میں بند کر کے دیتے جنہیں کھولنے پر محفل مرغزار بن جاتی اور ، ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑتے ۔
1994ء کے فسادات آپ کے لئے بہت سی مصیبتیں لے کر آئے ، آپ پر اور خاندان والوں پر جان لیوا حملہ ہوا، پرکھوں کے قلمی مخطوطات تباہ و تاراج ہوئے ، اس کے بعد مزاج میں وہ باتیں نظر نہیں آئیں جو مولوی مدن میں تھیں ۔ عمر کے تقاضوں کے ساتھ زندگی کی بے وفائیوں کے اثرات صاف جھلکنے لگے تھے ۔ آپ نے امامت خطابت کے علاوہ ہمدرد کی دوائیاں ، درنجف ، سرمہ مصطفائی وغیرہ بیچ کر بھی گھر سنسار سنبھالنے کی کوشش کی ، لیکن بھرا پراگھر ،بنیادی ضرورتوں کا پورا ہونا محال تھا، اسی طرح لشٹم پشٹم زندگی گذار کے اب زندگی کے بوجھ سے تھکا ہارا مسافر وہاں پہنچ گیا ہے ، جہاں سے کسی کو واپس لوٹنا نہیں ہے ، زندگی میں بہت سے اچھے کام کئے ہیں جو ان کے لئے توشہ آخرت بنیں گے، یہی کام ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنیں گے۔
بشریت کے تقاضے سے مرحوم سے بہت سی غلطیاں بھی ہوئی ہونگی ، زندگی میں بہتوں کو آپ سے شکایتیں بھی رہی ہونگی ۔ اور آپ کو بہتوں سے ، مرحوم جس پائے کے عالم تھے ، ہماری ناقص رائے میں قوم کو اس سے خاطر خوہ فائدہ اٹھانے کا موقعہ نہیں ملا ، آپ کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ آپ سے کم صلاحیت کی مالک شخصیات شہرت اور قبولیت میں بازی لے گئیں ، یہ سب توفیق خداوندی سے ہوتا ہے ، کچھ بشری کمزوریاں بھی اس کا سبب بنتی ہیں ، دونوں جہانوں میں عزت اور سربلندی دینے والی ذات صرف وحدہ لاشریک کی ہے ، حقیقی عزت و سربلندی کی جگہ یہ دنیائے فانی نہیں بلکہ وہ دنیا ہے جو ابد الآباد اور ہمیشہ رہنے والی ہے ۔ کیوں نہ ہم مرحوم کی بارگاہ یزدی میں مقبولیت ، مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے ہاتھ اٹھائیں اور باقی باتیں قدرت کے سپر د کردیں۔

15-04-2014
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر عبید اقبال عاصم
علی گڑھ
14؍اپریل 2018ء

Читать полностью…

علم و کتاب

صدر ایوب خان (وفات 19-04-1974ء) تحریر آغا شورش کاشمیری https://archive.org/download/ayyub-khan-by-shorish-kashmiri/Ayyub%20Khan%20By%20Shorish%20Kashmiri.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

باطن صاحب نے اس دوران شولاپور یونیورسٹی سے ایم اے (اردو کیا، اور تین سال نیشنل اسکول مرڈیشور میں وہاں کے ذمہ داران کی خواہش پر ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، پھر دوسال اڈپی کالج میں گذارا، ہمیں اچھی طرح یا دہے جب آپ اڈپی میں تھے تو وہاں کے لوگوں کو بھٹکل سے مربوط کرنے کی کوشش کرتے تھے ، وہاں کی مسجد کے نظم و ضبط سے بھی دلچسپی لیتے تھے، اور ہر ہفتہ نماز جمعہ کے بعد اردو بیان کے لئے بھٹکل سے کسی عالم دین کو دعوت دینے کا اہتمام کرتے تھے۔
1979 ء میں آپ نے تلاش معاش کے لئے امارات کا رخ کیا، بعد میں آپ کا احساس تھا کہ یہ ان کی بڑی فاش غلطی تھے، سرکاری ملازم کی حیثیت سے اگر وہ رٹائرمنٹ لیتے تو نونہالان قوم کی تربیت کے ساتھ ساتھ پینشن بھی جاری رہ سکتی تھی، یہاں پہنچ کر پہلے آپ نے ابوظبی کی ایک کمپنی میں کام کیا ، پھر دبی آگئے، یہاں خالی وقت میں جناب عبد الباری محتشم اور جناب محمد ابراہیم قاضیا کے بچوں کو قرآن اور دینیات پڑھانا شروع کیا، یہی سلسلہ یہاں پر جماعت کے مدرسے کی بنیاد بنا ، دو تین ماه بعد صديق محمد جعفری مرحوم نے شیخ عبد البديع صقر رحمة الله کے مدرسۃ الایمان راشدیہ میں شیخ مرحوم کے ساتھ مل کر انگریزی سیکشن شروع کیا تو باطن صاحب اس سے وابستہ ہوئے، اور جماعت کے مدرسے کی ذمہ داری اس ناچیز کو سونپ دی، گزشتہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک اللہ کے فضل سے کسی نہ کسی طرح اس مدرسہ کی زیادہ تر ذمہ داریاں اس ناچیز سے وابستہ رہیں، اور الحمد لله یہاں سے تین نسلیں قرآن، دینیات اور اردو کی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر نکلیں، مدرسۃ الایمان چونکہ شہر سے دور راشدیہ میں تھا، اور مدرسۃ الایمان کا انگریزی شعبہ کامیاب بھی نہ ہوسکا، تو آپ نے ایک سال کے اندر ہی سعودیہ کی رخ کیا، جہاں الخوبر کے ایک انگریزی اسکول میں سولہ (16) سال تک بڑی تندہی سے محنت کی اور بڑی ناموری پائی ۔
آپ کی الخوبر موجودگی کے دوران وہاں کی بھٹکل مسلم جماعت کے عید ملن پروگراموں میں بہار آئی، اس میں پیش ہونے والے آپ کے کلام اور نظامت کی بازگشت دور دور تک سنائی دینے لگی، ایک زمانہ تھا کہ دبی میں بھٹکلی احباب کے عید ملن پروگرام بھی قومی ادب و ثقافت کی عکاسی کرتے تھے، اور بھٹکل کے نامی گرامی شعرائے کرام حاضر ہوکر انہیں یادگار بناتے تھے، 1990ء کے عید ملن کی نظامت کے لئے آپ کو خصوصیت سے دعوت دی گئی تھی، جس میں بهٹکل کے استاد شعراء میں سے محمد حسین فطرت بهٹکلی اور سید اسماعیل حسرت بهٹکلی کی شرکت نے اسے یادگار بنادیا تھا۔ باطن صاحب کا تعلق بھٹکل میں اردو شعراء کی دوسری نسل سے تھا، یہ سبھی مولانا محمود خیال مرحوم کے شاگرد اور فیض یافتہ تھے۔ آپ سے پہلے کی نسل کے شعراء میں جناب محمد بن عبد الرحمن کمتر شابندری ابوبکر مصور كولا، محمد تقى مضطر كولا مرحوم کا نام آتا ہے۔
مرحوم محمد مظفر کولا نے جب نونہال اسکول کے قیام کا ارادہ کیا تو اس کے انتظام و انصرام صدیق محمد جعفری کے ہاتھوں میں دیا، لیکن جب جعفری مرحوم دبی میں دوبارہ مشکلات میں پھنس گئے تو پھر آپ نے اس کی ذمہ داری باطن صاحب کو سونپی تھیں اور اس دوران آپ نے اسے لائسنس دلانے میں اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا تھا، لیکن باطن صاحب بنیادی طور پر ایک معلم اور مربی تھے، ان کے مزاج میں تعليم وتربيت کا پہلو انتظام و انصرام پر حاوی تھا۔
گزشتہ بیس سال سے آپ بھٹکل میں رٹائر منٹ کی زندگی گذار رہے تھے، اس آخری دور میں آپ کو کئی ایک صدموں سے دوچار ہونا پڑا، آپ کا جوان بیٹا سید جاوید احمد اور آپ کے داماد عبد السلام جو کاکو اچانک حادثاتی طور پر اس دنیا سے داغ مفارقت دے گئے، یہ دونوں باصلاحیت اور قوم کی فکر رکھنے والے جوان تھے، آخری عمر میں آپ آنکھوں سے بھی معذور ہوگئے تھے ، لیکن آپ نے ہر حال میں اپنی زندہ دلی کو نہیں چھوڑا، اس عرصہ میں مختلف میعادوں کے لئے انجمن حامی مسلمین بھٹکل اور جماعت المسلمين بهتكل کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے، نوائط محفل کی تاسیس میں بھی شامل رہے، اور محلے کی مسجد امام ابو حنیفہ کے انتظام و انصرام سے بھی وابستہ رہے۔ اس طرح آپ کی زندگی نونہالان قوم کی تعلیم و تربیت اور سماجی خدمات سے معمور رہی۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان خدمات کے صلے میں وہاں پر آپ کے درجات بلند ہونگے، اور آپ کی لغزشوں کی تلافی ہوگی، اللهم اغفر له وراحمہ، واعفہ واعف عنہ۔

2023-07-01
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سيد عبد الرحمن باطن۔۔۔ بھٹکل میں تعلیم وتربیت کے میدان میں ایک سنہرے دور کا اختتام (02)
تحریر: عبد المتین منیری

(مورخہ : 17-04-2023ء سید عبد الرحمن باطن ماسٹر صاحب کی رحلت پر لکھی گئی تاثراتی تحریر)

سيد عبد الرحمن باطن مرحوم نے سنہ 1964ء میں بی اے منگلور سے پاس کیا تھا، آپ کی خواہش وکالت سیکھ کر یل یل بی کرنے کی تھی، لیکن اس وقت عثمان حسن جوباپو مرحوم جیسے قوم کے مخلص اور دردمند ہیڈ ماسٹر انجمن اسلامیہ اینگلو اردو اسکول کو میسر آچکے تھے، آپ کا حضرت مولانا شاہ وصی الله الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت سے بیعت و ارشاد کا تعلق تھا اسی زمانے میں انجمن اولڈ بوائز ایسوسی ایشن متحرک ہوئی، جس کے باطن صاحب بھی رکن رکین تھے، اور اس کے متحرک ذمہ داران میں اس وقت کے نوجوان صلاح الدین کوبٹے، بدر الحسن معلم عبد الرحمن جان محتشم ، عبد القادر باشا دامودی جعفر دامودی عبد الرشيد دامدا ابو اور جعفر گنگاولی ، خواجہ جو باپو صاحبان بھی شامل تھے ، اس وقت ہیڈ ماسٹر صاحب نے انجمن سے تعلیم یافتہ قوم کے دردمند نوجوانوں کو انجمن میں تدریس سے وابستہ ہونے کی ایک تحریک اٹھائی تھی، جس کو اولڈ بوئز ایسوسی ایشن نے طاقت بخشی تھی ، اس تحریک کے زیر اثر قوم کے کئی ایک نوجوان انجمن میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے، اس قافلے کے امیر سالار سيد عبد الرحمن باطن تھے۔ اس کے بعد آپ نے تسلسل سے پندرہ سال تک انجمن میں تدریس کی خدمت انجام دی، یہ سال انجمن کے سنہرے سال میں شمار ہوتے ہیں، آپ نے سابق اساتذہ کی شاندار روایات کو باقی رکھا، خود کو صرف اسکول کی ٹیچری تک محدود نہیں رکھا، بلکہ محلے کے سبھی بچوں کے سرپرست اور نگران بن گئے، شام کے بعد گھر سے نکلنے والے بچوں پر آپ کی نگاہ رہتی تھی، تھے تو دھان پان آدمی، لیکن جب گھر سے نکلتے تھے، تو چوک سے جامع مسجد تک بچوں میں ایک دھاک بیٹھ جاتی تھی ، کبھی بچوں کے کپڑے سونگھ کر پتہ لگاتے کہ کہیں اس نے بیڑی اور سگریٹ کو تو منہ نہیں لگایا؟، یا پھر رات کو سینیما گھر کا چکر تو نہیں لگا آیا، اس زمانے میں تربیتی نقطہ نگاہ سے اس نگرانی کی کیا اہمیت تھی، اس کا آج اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، کیونکہ اس زمانے میں والدصاحبان اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر سال دو سال کے لئے تلاش معاش میں سرگرداں دور دور دوسرے شہروں کو نکلتے تھے، ایمو، بوتیم، زوم اور ٹیم کا زمانہ نہیں تھا، دبی سے تین منٹ کا ایک کال آج کے حساب سے آٹھ سو روپئے کا پڑتا تها ، جواس زمانے میں عموما بیماری یا موت ہی کی خبریں لاتا تھا، ممبئی ، کلکتہ اور چنئی میں کام کرنے والوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں تھا، اب تنها سرپوش والدہ چلمن کی آڑ سے کہاں تک اپنے نونہال کا خیال رکھ پاتیں، کب تک محلے والوں سے نونہال کی شکایتوں کو سہ پاتیں، اس زمانے میں باطن ماسٹر جیسے اساتذہ اسکول ٹیچر کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے والد اور سرپرست کی ذمہ داریاں بھی سنبھال رہے ہوتے تھے۔ لہذا محلے کے بچوں کے روابط بھی ان کے ساتھ ایسے ہی گہرے، محبت بھرے اور اٹوٹ ہوا کرتے تھے، حقیقت تو یہ ہے، باطن صاحب انجمن کے اساتذہ کی اس نسل کی آخری کڑی تھے، آپ کے ساتھ وہ تسبیح ٹوٹ گئی اور قوم کی بدنصیبی کہ ان احسانات کو یاد کرنے والے بھی اب نہیں رہے۔کیونکہ اسی دوران عین جوانی میں عثمان حسن بید ماسٹ مورخہ 31/ اکتوبر 1977ء کو اچانک اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے، پرانے مخلصین بھی تھوڑی مدت میں اللہ کو پیارے ہوگئے یا رٹائرڈ ہوگئے ، پھر انگلش میڈیم پرائیوٹ اسکولوں کا بول بالا شروع ہوا اور اسلامیہ اینگلو اردو بانی اسکول پس پشت جانے لگا، اور مقامی خوشحال خاندانوں کے بچوں، اور عصری علوم کے مقامی اساتذہ سے خالی ہوتا چلا گیا، اور انجمن اینگلو اردو اسکول میں جس داخلے کو عزت اور فخر کی بات سمجھی جاتی تھی ، اب وہ احساس ختم ہونے لگا۔ یہی صورت حال بقیہ سرکاری اردو اسکولوں کی بھی ہوئی، اور یہ اسکول یا تو بند ہوگئے، یا پھر غیر مستطیع اور محنت پیشہ اور غیر مقامی افراد کے نونہالوں کے لئے رہ گئے۔ جس کی وجہ سے بیٹر منٹ کمیٹیوں سے مقامی افراد بے دخل ہوتے گئے، اس کے منفی اثرات آج شدت سے محسوس ہورہے ہیں، کیونکہ گورنمنٹ اسکولوں کے اردو اساتذه مردم شماری ، ووٹرلسٹ اور سرکاری پروگراموں کے موقعہ پر آکر مقامی باشندوں سے اردو میں تفصیلات لے کر ان کا درست اندراج کرتے تھے، لیکن اردو داں اسٹاف کی غیر موجودگی میں سرکاری دستاویزات میں ناموں اور تفصیلات کے اندراج میں جو فاش غلطیاں سرزد ہورہی ہیں، اور اس سے یہاں کے باشندوں کو جو الجهنيں ، مشکلات اور نقصانات پہنچ رہے ہیں، ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*غلطی ہائے مضامین۔ ذرا غور فرمائیے گا*
*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

کل محفل میں ذکر تھا حالات کا اور اس بات کا کہ ”حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے“۔ سو،حاضرین میں سے کسی نے کہا:
”کسی تکلیف کا حکومت سے شکوہ کیجیے تو جواب یہی ملتا ہے کہ یہ مسئلہ زیرِ غور ہے“۔
اس پر پروفیسر عنایت علی خان کی مقبول نظم یاد آگئی۔ وہاں پوری سنائی تھی، یہاں فقط چند اشعار کی گنجائش ہے۔ تو چند ہی چن لیجے:
بہبودیِ عوام ابھی زیرِ غور ہے
یعنی ہر ایک کام ابھی زیرِ غور ہے
جو بورڈ کل ہتھیلی پہ سرسوں جمائے گا
اُس بورڈ کا قیام ابھی زیرِ غور ہے
نو سال قبل ہم نے کیا تھا اُنھیں سلام
وعلیکم السّلام ابھی زیرِ غور ہے
چھے ماہ سے مریض کی حالت تباہ ہے
نزلہ ہے یا زکام؟ ابھی زیرِ غور ہے
کہنے لگے عنایتِؔ عجلت پسند سے
بھیا تمھارا کام ابھی زیرِ غور ہے
نظم سن کر ایک تباہ حال بولے: ”حکومت تو بس غور ہی کرتی رہ جائے گی، بلکہ غور و خوض۔ اتنے میں چل چلاؤ کا وقت آ جائے گا“۔
یہ کہہ کر خود چل دیے۔اُن کے چل چلاؤ کے بعد دوسرے تباہ حال صاحب نے اپنی نزلہ زدہ ناک پونچھتے ہوئے ہم سے پوچھا:
” کیوں صاحب! غور کے ساتھ ’خوض‘ کیوں بولا جاتا ہے؟ کبھی آپ نے اس پر بھی غور فرمایا؟“
عرض کیا:”صاحب ہم نے توکبھی ’غور‘ پر بھی غور نہیں فرمایا خوض پر کیا غور فرماتے مگر آپ فرماتے ہیں تو آج فرمائے دیتے ہیں“۔
تو سب سے پہلے ’غور‘ ہی پر کیوں نہ غور کر لیا جائے۔’غور‘ کے لفظی معنی ہیں گہرائی، عمق، قعر، پستی، تَہ اور نزول وغیرہ۔ ’غور کرنا‘ گویا کسی معاملے کی تَہ تک پہنچنا یا اُس کی گہرائی میں جانا ہے۔ اہلِ ایمان کے غور کرنے کے واسطے غار والوں کا واقعہ سورۃ الکہف میں بیان کیا گیا ہے، جس کی آج (جمعے) کے دن تلاوت کرنے کی تاکید آئی ہے۔ سورۃ الکہف ہی کی آیت نمبر 41 اور سورۃ المُلک کی آخری آیت (آیت نمبر 30) میں کنویں کا پانی نیچے اُتر جانے کے لیے لفظ ”غورا“ استعمال ہوا ہے۔ سورۃ المُلک میں فرمایا گیاہے:
”ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر کسی صبح تمھارے کنووں کا پانی گہرائی میں اُتر جائے توکون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمھیں نکال کر لادے؟“
’غور سے دیکھنا ‘گہری نظر اور باریک بینی سے دیکھنا ہے، یعنی خوب اچھی طرح سے دیکھنا۔ روز مرہ معمولات میں کئی معاملات غور طلب یا قابلِ غور ہوتے ہیں مگر ہم انھیں سرسری انداز سے نمٹا دیتے ہیں۔حالاں کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہر پہلو پر اچھی طرح غور کر لینا چاہیے۔
’غور ‘ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک صوبے کا نام بھی ہے۔ یہاں کے لوگ پیدا ہوتے ہی ’غوری‘ ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو وہاں پیدا ہوئے بغیر یہیں ’غوری‘ ہوگئے ہیں، وہ کیسے؟ یہ معاملہ بھی غور طلب ہے۔
ہمارے ہاں تو غور طلب باتوں پر ’غور کیا جاتا‘ ہے، مگر حضرتِ داغؔ کے ہاں ’غور کی جاتی‘ تھی:
کیا ناگہاں جفائیں تری یاد آگئیں
بھولے سے اپنے حال میں جب میں نے غور کی
یہ سُنتے ہی پُرسشِ حال کو آیا ہوا محبوب داغؔ صاحب کو کوس کر چلا گیا۔ اس کے باوجود اُنھوں نے اپنے شعر میں ’غور کی‘ ہی باندھا:
بہرِ عیادت آئے تو وہ کوس کر گئے
اچھا مرا علاج کیا، میری غور کی
داغؔ بھی کیا کرتے؟ یہ رسم تو میرؔ کے زمانے سے چلی آتی تھی:
زخمِ دل غائر ہو پہنچا تا جگر
تم لگے کرنے ہماری غور اب
’غور‘ کا مطلب ’دیکھ بھال‘ بھی ہے۔ غائر بھی ’گہرے‘ ہی کو کہتے ہیں، اسم صفت ہے۔بہ نظرِ غائر دیکھیے تو ’غار‘ بھی گہرا ہوتا ہے، خواہ زمین کا غار ہو یا پہاڑ کی کھوہ۔ سنا ہے کہ سحرؔ کے سینے میں بھی غار ہوگیا تھا جو اُنھوں نے پاٹ دیا۔ مگر ذرا غور فرمائیے کہ کس مٹی سے پاٹا:
جن کا کہ پاس تھا مجھے، دل اُن سے ہٹ گیا
سینے کا غار گردِ کدورت سے پٹ گیا
غار کی جمع ’اغوار‘ ہے۔ٹھوڑی کے گڑھے کو بھی غار کہا جاتا ہے۔ کسی چیز کو گڑھے میں ڈال دینا، دھنسا دینا، تباہ و برباد کر ڈالنا یا لُوٹ لینا اُسے ’غارَت‘ کردینا ہے۔ لیجے ہماری ’غارت گری‘ کا بھی کچھ نہ کچھ تعلق غور (یعنی پستی) اور غار سے نکل ہی آیا۔ عربی میں ’کمانڈو‘ کو غالباً اُس کی غارت گری ہی کی وجہ سے ’مِغوار‘ کہتے ہیں۔لو صاحبو! اب ایک خبر اور سنو۔ غارت ہی کا نہیں غیرت کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے۔غیرت مند شخص کو عربی ہی میں نہیں اُردو میں بھی ’غیور‘ کہا جاتا ہے۔اقبالؔ فرماتے ہیں:
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
’جسور‘کا مطلب ہے جسارت کرنے والا، نڈر اور دلیر۔
’خوض ‘کے لفظی معنی ہیں داخل ہونا، گھسنا اور مشغول ہونا۔محاورے میں ’خوض ‘کے معنی بات سے بات اور بال کی کھال نکالنے کے ہیں۔ یعنی کسی بات پر اعتراض، نکتہ چینی اور کٹھ حجتی کے نت نئے پہلو پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ باطل کی حمایت اور حق کی مخالفت میں سخن سازی و دلیل بازی کے لیے قرآنِ مجید میں ’خوض‘ اور ’یخوضون‘ کے الفاظ آئے ہیں۔مثلاً سورۃ الانعام کی آیت نمبر 68 میں حکم دیا گیا:

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*...حاشا و کلا! مرحوم بزرگوں کی خطا کی گرفت کرنا ہمارا کام نہیں، فرشتوں کا فرض ہے۔ لیکن صحبتِ بد کی وضاحت اور ریکارڈ درست ر رکھنے کی خاطر خدا کو حاضر و ناظر جان کے عرض کرتے ہیں کہ جتنی بھی گالیاں ہمیں یاد تھیں وہ سب ہم نے اپنے بزرگوں اور ماسٹروں ہی سے سیکھیں تھیں۔
مشتاق یوسفی...زرگزشت

Читать полностью…

علم و کتاب

میں تقریظ نما جو سات آٹھ تحاریر شامل کتاب کی گئی ہیں اور جن کو کتاب کے ترپن(53) صفحات دیے گئے ہیں۔ ان تحاریر میں لاحاصل تکرار کے سوا کچھ بھی نہیں۔ صرف مقدمہ تحقیق از محمد اجمل ایوب اصلاحی کافی وشافی ہے۔ زیادہ سے زیادہ عرضِ مترجم کو جگہ دے دی جاتی۔ اس حوالے سے ہمارے ناشرین کو انڈیا کی کتابوں کو مثال بنانا چاہیے ،جس میں’مقدمہ‘ کے سوا دیگر ”تکلفات“ بروئے کار نہیں لائے جاتے۔ کم از کم علامہ شبلی نعمانی کو ان بیساکھیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ شبلی پر کچھ لکھنے کے لیے نہ کسی اعتذار کی ضرورت ہے،نہ اعتراف کی ،ان کا تو نام ہی کافی ہے۔
کتاب سلیقے سے شائع کی گئی ہے۔ضخامت 188 صفحات
،قیمت :ساڑھے پانچ سو روپیے۔

بذریعہ ڈاک حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیجیے:
حارث پبلی کیشنز:2285075 0331
قرطاس (سعود ظہیر) واٹس ایپ نمبر: 03213899909

Читать полностью…

علم و کتاب

دواخانےکی اس مختصرسی اتفاقی ملاقات کے بعد ایک مرتبہ اور ذرہ نوازی فرمائی باقاعدہ ارادہ کرکے ملنے تشریف لائے ، حضرت قاری صدیق صاحب باندوی علیہ الرحمہ کی وفات پر ہم لوگوں نے ممبئی میں ایک بڑا تعزیتی جلسہ کیا اس میں دعوت دی تشریف لائے، انتہائی موثر صدارتی تقریر فرمائی....،
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ممبئی میں ایک زبردست پروگرام کیا تھا جس میں امام کعبہ سمیت متعدد عالمی شخصیات بھی شریک ہوئی تھیں، ممبئی کے علماء ذاکر نائک کے بعض نظریات کی وجہ سے اس کو پسندنہیں کرتے تھے..... مگر ذاکر نائیک نے دولت کے زور پر محض ممبئی کے علماء کو بے عزت کرنے کے لئےبعض علماء دیوبند وندوہ کو بھی اپنے پروگرام میں مدعو کیاتھا، ہم لوگوں نے اپنے تمام علماء جن کو اس نے مدعو کیا تھا سے رابطہ کرکے ان کو ذاکر نائک کے نظریات وخیالات سےاگاہ کیا اور اس کے پروگرام میں اپنے علماء کی شرکت سے مسلک دیوبند کو ہونے والے نقصانات کو بتایا، افسوس ہمارے بیشتر علماء نے ہماری معروضات پر توجہ نہیں دی اور " کیسہ زر " کو مسلک پر مقدم رکھا، مگر آفریں صد آفریں، خانوادہ قاسمی کےاس فردِفرید پر جو پروگرام میں شرکت کے لئے ممبئی تشریف لاچکے تھے مگر جب ہم لوگوں نے ملاقات کرکے پوری تفصیل گوش گذار کی تو بغیر پروگرام میں شرکت کئے ہوئے واپس تشریف لے گئے، ممبئی میں قیام گاہ پر لینے آنے والی ذاکرنائیک کی گاڑی واپس کردی ـ
لکھنو کے ایک پروگرام میں احقر بھی مدعو تھا، حضرت مہمان خصوصی تھے، اس میں احقر نے بھی ایک عدد کج مج قسم کی تقریر کی تھی، پروگرام کے بعد ملاقات جب ہوئی فرمانے لگے کہ " تعارف تو پہلے سے تھا جناب سے استفادے کا آج موقع ملا،
حضرت کی اس خورد نوازی پر میں کٹ کے رہ گیاـ
دویا تین سال قبل ممبئی میں ہی انجمن اہل السنہ والجماعہ کی سالانہ تحفظ سنت وسیرت صحابہ کانفرنس میں تشریف لائے تھے ـ نقاہت کے باوجود آخر تک موجود رہے، تقریر فرمائی اگرچہ عمر کی زیادتی کے باعث کچھ الفاظ صاف نہیں تھے مگردرمیان میں آنے والی قرانی آیات بالکل صاف مخارج کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے ـ
ضعف تو تھا ہی پچھلے کئی دنوں سے صحت کی خرابی کی اطلاعات بھی آرہی تھیں، ویسے بھی عمر طبعی کو پہونچ چکے تھے، کب ساتھ چھوڑ جائیں یہ دھڑکابھی تھا ......مگر جب وفات کی اطلاع آئی تو ایسا لگا کہ اتنی جلدی ..... اچانک...؟
یقینا حضرت کے صاحبزادگان ودیگر اہل خانہ تعزیت کے مستحق ہیں ..... ہم ان کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش بھی کرتے ہیں.....،
مگر کیا ہم متعلقین و متوسلین حضرت کے کچھ نہیں لگتے؟
کاش ہم سے بھی کوئی تعزیت کرتا ـ

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرت مولانا سالم صاحب کی رحلت
حادثہ سخت ہے اور جان عزیز

از.....محمود دریابادی

چھ ساڑھے چھہ برس عمر ہی کتنی ہوتی ہے مگر مجھے یاد ہے جب پہلی بار حضرت مولانا سالم صاحب کو دیکھا تھا ' دراصل ممبئی میں اسلامی سال کے آغازمحرم میں مسلم محلوں کے اندر وعظ کی نششتیں منعقد کرنے کی روایت نہ جانے کب سے چلی آرہی ہے، تمام مکاتب فکر کے مسلمان اِنھیں منعقد کرتے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں سےاپنے علماء کو بلا کر فلسفہ شہادت ودیگر عنوانات پر تقریریں کرواتے ہیں ـ
اپنے حلقے کے مشہور عالم دین اور مقبول واعِظ حضرت مولاناابوالوفا شاہجہانپوری کے مواعظ بھی اس موقع پر بھنڈی بازار پٹھان واڑی میں ہوا کرتے تھے، عام دنوں میں تویہ جلسے عشا بعد ہوتے تھے مگر عاشورہ کے دن چونکہ آس پاس کے علاقے میں کچھ لوگ راستوں پر غیر شرعی کھیل تماشے کیا کرتے تھے ان سے اپنے لوگوں کو محفوِظ رکھنے کے لئے اس دن صبح آٹھ بجے سے ظہر تک بھی ایک جلسہ ہوتا تھا، اس جلسے کی خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ ان دنوں ممبئی میں وعظ کرنے والے تمام حلقہ دیوبند کے علماء کو دعوت دی جاتی تھی تھوڑی تھوڑی دیر ہی سہی سب کے بیانات ہوتے تھے، بہت بڑی تعداد میں سامعین کی شرکت ہوتی تھی، مولانا ابوالوفا صاحب کے بعد یہ دن والا جلسہ توختم ہوگیا رات کے جلسے اب بھی ہوتے ہیں ـ
یوم عاشورہ کے ایسے ہی کسی جلسے میں خطیب الاسلام کی پہلی زیارت ہوئی تھی، چھوٹی سی عمر میں ابّا کی انگلی پکڑکے میں اس جلسے میں شریک ہوا تھا ـ یہ بھی یاد ہے کہ جلسے کی صدارت اور نظامت خود حضرت مولانا ابوالوفا صاحب فرمارہے تھے، اس میں سیاہ ڈارھی ' متوسط قد ' دوہرے بدن اور بھاری آواز کی حامل ایک شخصیت کا تعارف مہتمم دارالعلوم دیوبند حکیم الاسلام قاری طیب صاحب کے صاحبزادے کی حیثیت سے کرایا گیا، نام سنتے ہی لوگ سنبھل کر بیٹھ گئے، تقریر کیا ہوئی کیسی ہوئی چھ سال کی عمر میں مجھے کیا سمجھ میں آتا، مگر شخصیت کی تصویر جو اس وقت ذہن میں چسپاں ہوئی تھی آج بھی تازہ ہے ـ
اس کے بعد نہ جانے کتنی مرتبہ ممبئی میں زیارت ہوئی یاد نہیں مگر اپنی کم عمری کی وجہ سے مصافحہ کا شرف حاصل نہیں کرپایا، پہلی بار قریب سے اس وقت دیکھا جب دارالعلوم میں درجہ ہفتم میں احقر کا داخلہ ہوا، مگر اتفاق یہ بھی ہوا کہ اُس سال ہمارا کوئی سبق حضرت سے متعلق نہیں ہوسکا، حضرت اُن دنوں ہفتم کی غالبا مشکوۃ پڑھاتے تھے مگر ہماری مشکوۃ حضرت مولانا نعیم صاحب سے متعلق تھی، مگر حضرت کو اپنی مخصوص ہیئت اور خاص رفتار کے ساتھ گھر سے درسگاہ تک آتے جاتے ہمیشہ دیکھتے تھے، راستے میں ملنے والے طالبعلم سلام کرتے تو جواب دیتے مگر ادھر اُدھر دیکھے بغیر آگے بڑھ جاتے، یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے راستے میں سلام کے بعد مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ " حضرت آج سبق میں حاضر تھا مگر جب حاضری ہورہی تھی تب اپنا نام نہیں سن سکا اس لئے غیر حاضری لگ گئی ہے ـ حضرت کا جواب اب بھی دماغ میں گونج رہا ہے، " جفَّ القلم ' مَضیٰ ما مَضیٰ " یہ کہتے ہوئے اسی " خرام مستانہ " کے ساتھ آگے بڑھ گئے ـ
دارالعلوم کی علاقائی انجمنوں کے جلسے میں بارہا حضرت کے بیانات سے بھی مستفیض ہونے کا موقع ملا ' صاف اور ششتہ زبان ' یکساں انداز ' بار بار " ظاہر ہے " اور غیر معمولی " کا تکیہ کلام جو سننے والے کو بھلا لگتا تھا نیز اپنے مخصوص انداز میں علوم ومعارف خصوصا حکمتِ قاسمیہ کی ترسیل اب بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے ـ
دورہ حدیث میں ابوداؤد ثانی کا سبق آپ سے متعلق ہوا، گھڑی دیکھ کر صحیح وقت پر دارالحدیث فوقانی میں تشریف لاتے ' مسند پرتشریف فرما ہوتے، عبارت ہوتی، سبق شروع ہوتا گویا کوئی علم کی مشین کُھل گئی، ایسا لگتا تھا سامنے کوئی کتاب رکھی ہے جس سے کوئی تحریر پڑھی جارہی ہو کوئی رُکاوٹ نہیں، کوئی اتار چڑھاونہیں، کوئی غیر ضروری بات، واقعہ، لطیفہ کچھ بھی نہیں، بس " ظاہر ہے " اور" غیر معمولی " کی متناسب تکرار، وقت پورا ہوا، کتاب بند، حضرت روانہ ........،
ہم اپنی نالائقی یا بد شوقی کی وجہ سے ہمیشہ درسگاہ کے " پس نشینوں " میں رہے ہیں اس لئے تعلیم کے دوران دارالعلوم کے اپنےاساتذہ سے بہت ذیادہ روابط نہیں رہے، لیکن اپنی " جسمانی فربہی " اور دیگر غیر درسی قسم کی مشغولیات کی وجہ سے بیشتر اساتذہ وطلبا یہاں تک کہ دیوبند کے اکثر رکشہ والے بھی پہچاننے لگے تھےـ
ویسے دارالعلوم کی زندگی میں حضرت سے بالمشافہہ گفتگو کا بس ایک ہی موقع ملا.........، ہوا یہ تھا کہ ہمارے دورے کے سال میں شیخ الاسلام لا ئبریری کے زیر اہتمام ہم لوگوں نے ایک بڑا جلسہ کرنا طے کیا تھا جس میں ملک کے نامور علماء مولانا سعید احمد اکبر ابادی ' مولانا اسعد مدنی، مولانا اخلاق حسین قاسمی اور علامہ انور صابری وغیرہ شریک ہورہے تھے، اس وقت مسجد رشید تعمیرنہیں ہوئی تھی اور دارالعلوم میں سب سے بڑا ہال دارالحدیث تحتانی

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: اپریل / 16
------------------------------------------------
آرزو لکھنوی (سید انور حسین) 16، اپریل 1951ء
ابن کمال پاشا (احمد بن سلیمان رومی): 16، اپریل 1534ء
افضل صدیقی(محمد افضل حسین): 16، اپریل 1992ء
راشد برہانپوری(سید محمد مطیع اللہ ): 16، اپریل 1960ء
شہاب ملیح آبادی (التفات احمد خان): 16، اپریل 1967ء
شو ق عظیم آبادی (زین الدین فخری): 16، اپریل 1987ء
عبد الحمید بن بادیس (الجزائر): 16، اپریل 1940ء
علی محمد رضوی سچے بھائی: 16، اپریل 2000ء
قاری فتح محمد پانی پتی: 16، اپریل 1987ء
مالک رام ،16، اپریل، 1993ء
مخمور اکبر آبادی (سید محمد محمود رضوی): 16، اپریل 1946ء
مولانا زبیر احمد دیوبندی: 16، اپریل 1998ء
مولانا سید ابوبکر غزنوی: 16، اپریل 1976ء
مولانا محمد میاں ابن موسیٰ سورتی: 16، اپریل 1963ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ (زیر ترتیب) از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمہ اللّٰہ کے حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ پر *علم و کتاب* پر پوسٹ ہوۓ خاکہ سے انتخاب۔
*انسان بھی عجیب شے ہے، ایک خبر سنتا ہے، غمزدہ ہو جاتا ہے، دنیا تاریک ہو جاتی ہے ، یوں محسوس ہوتا ہے ، کہ یہ غم ہمیشہ تازہ اور یہ دنیا ہمیشہ تاریک رہے گی ، یہ زخم سدا ہرا رہے گا، لیکن وقت کی رفتار آگے بڑھ جاتی ہے ، اور آدمی نئی چیزوں ، نئے سامانوں ، نئے قصوں میں پچھلے حادثہ کو فراموش کر دیتا ہے ، زخم کا صرف داغ باقی رہ جاتا ہے ، درد کا فور ہو جاتا ہے۔*

*مولانا کا دستور عموماً یہی تھا کہ وہ طالب علموں کی کمزوریوں اور غلطیوں پر زیادہ نظر نہیں رکھتے تھے، اور نہ ان پر بہت زیادہ زجر و تو بیچ کرتے تھے، اور نہ ان کی وجہ سے کسی کو حقیرسمجھتے تھے ، وہ ان کی خفتہ صلاحیتوں پر نگاہ رکھتے تھے ، انھیں بیدار کرنے کی تدبیریں کرتے، کمزوروں کو ہمت دلاتے ، ہمت والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ، طالب علموں کو بے تکلف کر کے استفادے کی راہ کشادہ اور آسان کرتے ، ان کے پاس جا کر ان کی باتیں سن کر، طالب علموں میں کام کی لگن ، پڑھنے لکھنے کی دھن اور محنت و کوشش کی آگ بھڑک اٹھتی ، کمزور سے کمزور طالب علم یہ سمجھ کر ان کے یہاں سے اٹھتا کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں ، وہ اس طریقہ سے طلبہ کو بہت جلد ترقی کی راہ پر لگا دیتے ، نئے طلبہ جو ابتداء دارالعلوم میں ڈرے سہمے رہتے، دبتے اور ججھکتے رہتے ۔ مولانا ان کی جھجھک بڑے خوبصورت انداز میں دور کرتے۔*

*مولانا کے چلنے کا ایک خاص انداز تھا۔ سارا بدن سمٹا ہوا ، پُرسکون ہوتا، لیکن رفتار ہوا جیسی ہوتی ، دائیں بائیں کوئی جنبش نہ ہوتی حتی کہ ہاتھوں میں بھی حرکت نہ ہوتی ، تیر کی طرح چلتے ، سیدھے تخت پر آگئے ، نہ کوئی تمہید نہ مقدمہ ! آتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ کوہ آتش فشاں پھٹ پڑا ہو، اس جوش اور روانی کے ساتھ بول رہے تھے کہ سننے والوں کی سانسیں سینوں میں اٹک اٹک گئیں، الفاظ کا زیروبم، آواز کی گھن گرج ، خطابت کا ایسا طوفانی جوش میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، ایسا معلوم ہورہا تھا کہ پہاڑ کی بلندی پر سے پانی کا ریلا نہایت شدت کے ساتھ اتر رہا ہو اور اپنے ساتھ بڑی بڑی چٹانوں کو بہائے لئے جا رہا ہو ۔ ٹھیک اسی طرح مولانا کا جوش خطابت ، طبیعتوں کی سرد مہری ، ستی و نا کارگی، بے حوصلگی و بے ہمتی کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لئے چلا جارہا تھا، بمشکل پون گھنٹہ یہ خطاب ہوا تھا لیکن سننے والوں کو محسوس ہوا کہ صدیوں کی گرانجانی ان پر سے اتر گئی ہو ، دلوں میں حوصلہ کی حرارت بڑھ گئی، مقصد کےلئے انہماک اور دھن کا ولولہ جاگ اٹھا،دارالحدیث سے واپسی ہوئی تو ہر طالب علم بدلا ہوا نظر آیا۔*

*ملک کے بے مثل خطیب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حکیمانہ انداز میں ایک بلیغ تقریر کی ، یہ تقریر اُردو میں تھی ، اس لئے معزز مہمان مستفید نہ ہو سکے ، مہتمم صاحب کی تقریر ختم ہوئی ، اور حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب ترجمہ کے لئے کھڑے ہو گئے ، ایسا برجستہ ، شستہ اور فصیح و بلیغ ترجمہ کیا ، اور اتنی روانی اور خطیبانہ آہنگ کے ساتھ کیا کہ عام سامعین تو مبہوت تھے ہی عرب سفراء بھی مسحور ہو کر رہ گئے ، ان کا حال یہ تھا کہ کبھی جھومنے لگتے ، کبھی مولانا کا چہرہ تکتے ، کبھی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے، بے ساختہ سبحان اللہ کی صدا بلند ہوتی ، مولانا کا خطاب تھا کہ لمحہ بہ لمحہ اس کی قوت و جوشش بڑھتی جاتی تھی ، آواز تھی کہ جادو جگا رہی تھی ، شعلہ سا لپک رہا تھا ، مضامین حضرت مہتمم صاحب کے نہایت بلند و بالا ، ترجمہ عربی زبان میں، جس کی رزانت و جزالت کا جواب نہیں اور محو گل افشانی گفتار حضرت مولانا وحید الزماں صاحب ! جن کی خطابت بے مثال ! بس سماں بندھ گیا، تقریر ختم ہوئی، تو تمام مہمان کھڑے ہو گئے اور ایک صاحب جو ذرا ممتاز تھے، بے اختیار بغل گیر ہو گئے ، وہ کچھ کہہ رہے تھے غالباً مولانا کو داد دے رہے تھے۔*
(کھوۓ ہوے کی جستجو)
انتخاب: محمد رضی قاسمی

Читать полностью…

علم و کتاب

آواز دوست سے ایک انتخاب
تحریر وبیان: مختار مسعود
(وفات: 15-04-2017ء)
اردو کے مایہ ناز ادیب ، آواز دوست، سفر نصیب، لوح ایام اور حرف شوق جیسے عظیم ادبی شہ پاروں کے مصنف کی یوم وفات کی مناسبت سے مصنف کی آواز میں ایک نادر ریکارڈنگ۔
اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=awaz-e-dost-partial, Awaz E Dost – Partial

Читать полностью…

علم و کتاب

یار کا جلوہ جو دیکھا اڑگئے درزی کے ہوش آستیں کی کی کمر اورکی کمر کی آستیں
تو مولانا ایک دم کیا فرماتے ہیں ”واہ رے تیری کی کی کی کی“قہقہوں سے ہال گونج اٹھا۔اور جلوہ صاحب بہت مدھم ہوئے۔
اسکے بعد حفیظ ضالندھری نے ایک نظم سنائی۔پھرمولانا نے سالک صاحب سے باصرارایک فارسی غزل کی فرمائش کی جو انہوں نے پڑھ کر سنائی اور مولانا سے عرض کیا کہ اب اورکوئی نہیں۔آپ ہی کی باری ہے۔اس پرمولانا نے کوئی ایک گھنٹہ تک اپنا کلامِ بلاغت نظام سنایا۔
جب یہ جلسہ ختم ہواتومواناشاعری کے آسمان سے اترکرپھراپنی عام سطح پرآگئے۔سالک صاحب نے سیداحمدشاہ بخاری کا تعارف کرایا،کہنے لگے اتویہ بخارا کے رہنے والے ہیں؟پھر توہماری غلطیاں نکالتے ہوں گے۔بخاری یہ سن کرکسی قدر خفیف ہوئے۔پھر میں نے سیدامتیاز علی تاج کوپیش کیا۔اچھاتو یہ مولوی ممتاز کے صاحب کے صاھبزادے ہیں!مولوی صاحب ہمارے پرانے دوست ہیں یہ کہہ کر امتیاز کے چہرے پرہاتھ لہرا لہرا کرکہنے لگے واہ بھئی واہ بھئی واہ۔اس واقعے کے بعد ہم مدت تک مولاناکی اس حرکت کویادکرکے ا متیاز کو چھیڑاکرتے تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
بذلہ سنجی اور جملے بازی ۔ قسط دوئم (تحریر: محموداحمدلئیق)
ماہر صاحب کی ایک نمایاں خصوصیت بزلہ سنجی اور فی البدیہہ لطیفہ تخلیق کرنا بھی تھی۔ انہوں نے ایک واقعہ لکھا کہ پاکستان بننے کے بعد لاہور میں انار کلی کے فٹ پاتھ پر ان کی اور ظفر احمد انصاری کی شفیق کوٹی سے ملاقات ہوگئی انہوں نے گھر پر دعوت دی، ماہر صاحب نے کہا کہ جگر مرادآبادی ان دنوں لاہور میں ہیں انہیں بھی دعوت میں بلائیے۔ شفیق کوٹی صاحب نے نفی میں جواب دیا، وجہ یہ بیان کی کہ جب بھی ان سے ملتا ہوں وہ فرماتے ہیں ”تم ریلوے میں نوکر ہو“انہوں نے بارہا تردید کی کہ وہ اسسٹنٹ دائرکٹر ہیں ریلوے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس پر ماہر صاحب نے ان سے پوچھا کہ ان کی ملاقات 1941ء سے ہے جب وہ بمبئی میں ایک مشاعرے میں آئے تھے، پھر کہا ”تو سنئیے میں بھی اب تک یہی سمجھ رہا تھا کہ آپ ریلوے میں ملازم ہیں“۔ اس پرشفیق صاحب بیساختہ اچھل پڑے،ظفر احمد انصاری بھی ہنسنے لگے۔
ان کی شگفتہ مزاجی کا ایک قصّہ سنتے چلیں۔ جنرل اعظم ان دنوں مشرقی پاکستان کے گورنر تھے (یہ غالباً1958کے مارشل لأ کا ذکر ہے)۔گلستان ڈھاکہ کا مشہور سنیما ہے اسی میں مشاعرہ منعقد ہوا۔ جنرل موصوف نے بھی شرکت فرمائی۔کسی شاعر کو اس کے شعر پر زیادہ
داد ملتی تو وہ غالباً اپنی گوش گزاری کے سبب اپنی بیگم صاحبہ سے کچھ پوچھتے، ارم لکھنوی نے اپنی غزل کا مطلع پڑھا ؎
وہ یہ کہتے ہیں جا اب رستگاری ہوگئی اے جنوں!زنجیر یہ تو اور بھاری ہوگئی
تو ہال تحسین کے شور سے گونج اٹھااس پر جنرل صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ سے سرگوشی کے انداز میں کچھ دریافت کیا۔جب مشاعرے سے ہم قیام گاہ پر آئے تو میں نے کہا ارم صاحب آپ نے غضب کردیا۔ مارشل لأ کے دور میں ایسا سیاسی مطلع پڑھ دیا۔ وہ چونک کر بولے اس مطلع کو سیاست سے کیا واسطہ، اور یہ غزل تو میں نے تقسیم سے قبل انگریز کے دور حکومت میں لکھنؤمیں کہی تھی۔اس مذاق میں اقبال صفی پوی
((5
صاحب کی شوخی اور ظرافت نے اور لطف پیدا کردیا۔اور ارم صاحب کو باور کریا کہ یہ شعر أ کے حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔معاملہ بڑا سنگین نظر آتا ہے اور بھےّا ارم!ہم جانتے ہیں کہ تمہارا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا، مگر.....یہ زنجیر........اور بھاری ہوگئی
اس کی توجیہہ تو ہماری سمجھ میں بھی نہیں آتی، اس شعر کو یہ معنیٰ پہنائے جارہے ہیں کہ پچھلے دوروں کے مقابلہ میں موجودہ دور سخت تر ہے۔ ارم
بے چارے کے چہرے پرفکر و تشویش کی ہوائیاں سی چھٹنے لگیں، کئی دن مذاق کا سلسلہ چلتا رہا اور جب اس مذاق کا راز ان پر کھل گیا،تو بڑا
نہیں مانا۔ (ماہنامہ فاران مارچ 1967)
اس میدان میں عبدالمجید سالک کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔وہ ظفر علی خان کے اخبارزمیندار سے منسلک تھے۔جلد ہی انہیں ایڈیٹرمقررکیا گیالیکن کچھ عرصہ بعد اختلاف کی بنا پرسالک اور غلام رسول مہر نے زمیندار سے الگ ہوکر ایک نیااخبارانقلاب شروع کیا۔یہ علٰحیدگی ظفرعلی خان کے بیٹے اختر علی خان کے رویہ کی وجہ کر ہوئی،اس کی تفصیل بیان کرنا ہماراموضوع نہیں ہے۔نئے اخبار انقلاب میں سالک صاحب نے ایک کالم افکاروحوادث کے نام سے شروع کیا۔اس عنوان سے لکھے گئے مضامین بہت مقبول ہوئے۔ان میں گفتگوکے دوران مزاح پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بہت بلند تھی۔
ان دنوں یوپی میں یوپی میں فتنہ ارتدادکے شعلے بند ہوئے آریہ سماجوں نے ملکانہ کو شدھ کرنا شروع کیااور ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں تبلیغ اسلام کی تحریک برپا ہوئی۔اس دوران خواجہ حسن نظامی نے اپنے اندازمیں تبلیغ اسلامی کی کامیابی کی تدبیریں بتانی شروع کیں۔خواجہ صاحب ادیب تھے،صحافی تھے لیکن عالم دین نہ تھے تو اپنے انداز میں انہوں نے ایک پمفلٹ شائع کیاجس میں دوسری تدبیروں کے علاوہ ایک یہ تدبیر بھی بتائی کہ طوائفیں جواکثر مسلمان ہیں اپنے آنے والوں کومسلمان بنانیکی کوشش کریں۔اس پرہندواخباروں نے مسلمانوں اوران کے مبلغوں پر بے پناہ حملے کیے اورمسلمان حلقوں میں بھی ہنسی اڑائی گئی۔
خواجہ صاحب نام دینے میں بہت ماہر تھے۔اپنا نام انہوں نے ”نظام المشائخ“اپنایااوراپنے اخبار میں جھٹکے کے گوشت کو حلال بتایاتو سالک صاحب نے اپنے کالم میں خواجہ صاحب کو خاصہ رگڑا دیا۔ان کا خطاب نظام المشائخ سے بدل کرجھٹکتہ المشائخ تجویز کیا۔
ایک دفعہ کا ذکرہے،سالک صاحب ریڈیوپر تقریرکرنے کے لیے دہلی گئے توخواجہ صاحب کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تو وہ بڑے
تپاک سے ملے،تھوڑی دیر بعد وہ درگاہ دکھانے چلے،خواجہ صاحب کے گھرسے ایک زینے پرچڑھ کردوسری طرف اترے توایک معمولی سا کمرہ تھا،خواجہ صاحب نے فرمایایہ ایمان خانہ ہے۔سالک صاحب نے کہااسی پرکیاموقوف ہے،اس نواح کے تو سبھی مکان ایمان خانے ہیں۔ہم جہاں سے اٹھ کر آئے ہیں کیاوہ بے ایمان خانہ تھا۔خواجہ صاحب ہنس دیے اورکہنے لگے اور کہنے لگے۔آپ افکار لکھتے ہی نہیں بولتے بھی ہیں۔اس کے بعدایک کمرے میں چندطاق دکھائے۔جن میں سے کسی پر مقام آدم۔کسی پرمقام

Читать полностью…

علم و کتاب

*ایک چراغ اور بجھا ۔ مولوی علی سکری اکرمی مرحوم (02)*
*عبد المتین منیری*
(مورخہ 14-04-2014ء مولانا علی سکری مرحوم کی رحلت پر لکھی گئی تحریر)

بھٹکل میں آپ کی دینی وعلمی سرکرمیوں کا محور خلیفہ جماعت المسلین رہی ، آپ نے خلیفہ محلہ میں نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے دار المطالعہ قائم کیا جہاں شبینہ دینی تعلیم کا اہتمام ہوتا تھا، محکمہ شرعیہ میں پیش ہونے والے قضیوں اور تنازعات میں آپ کی دینی رہنمائی کو ہمیشہ قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، مختلف اوقات میں قائم مقام قاضی کی حیثیت سے بھی آپ نے ذمہ داریاں نبھائیں۔ یہاںپر آپ نے مختلف اوقات میں محرر ، محاسب اور آخر میں سرپرست کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ آپنے ایک طویل عرصہ تک نور مسجد میں امامت کے فرائض انجام دئے ، مخدومیہ مسجد میں خطابت کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں ۔
خلیفہ جامعہ مسجد میں خطبہ کے نائطی ترجمہ کا آغاز آپ نے فراغت کے بعد سنہ 1960ء کی دہائی کے آغاز میں کیا تھا، دوسری بولیوں کی آویزش سے پاک کتنی خوبصورت نائطی زبان بولتے تھے ، ایسی زبان سننے کو اب کان ترس رہے ہیں ، ہمیں یاد پڑتا ہے ، تکیہ محلہ میں ہمارے مکان کے پچھواڑے میں جہاں قبرستان ہے جب وہاں چہار دیواری نہیں اٹھی تھی ، وہاں غیبی پیر کی قبر کے پائینتی کھلا میدان تھا ، ابھی قبروں کے لئے بہت سی جگہ خالی پڑی تھی ، نماز جمعہ کے وقت گھروں سے کئی عورتیں دور لاوڈ اسپیکر سے کانوں تک پہنچنے والا ترجمہ سننے کے لئے جمع ہوتی تھیں ۔
جامعہ اسلامیہ کے قیام پر فکری طور پر اس کی بھر پور تائید کی ، جامعہ کے ذمہ داران نے بھی ان کی ہمت افزائی کی ۔اس وقت آپ کی جامعہ کے تیں کیا فکر تھی اس کا اندازہ 21 نومبر 1964ء کو منعقدہ اجلاس اول میں آپ کی اس تقریر سے ہوتا ہے ، جس کا خلاصہ روداد اجلا س اول میں ان الفاظ میں درج ہے ۔
(مولوی علی سکری صاحب اکرمی نے جناب صدر کی اجازت سے نہایت پردرد اور پر جوش الفاظ میں ایمان افروز تقریر فرمائی ،جامعہ کے بچوں کو سراہا اور اسکی تعلیم کی تعریف کرتے ہوئے جامعہ بغداد کا ایک واقعہ خلیفہ بغداد کے معائنہ کا بیان کیا، شیخ عبد القادر جیلانی کی طالب علمی کا حال بیان کیا اور فرمایا کہ اگرجامعہ سے ایسا ایک طالب علم بھی پیدا ہو جائے جس کا مقصد تعلیم دین کی خدمت اور ہدایت ہو تو وہ سیکڑوںطالب علموں سے اچھا ہے ، اور جامعہ پر جتنا خرچ ہوجائے وہ وصول ہے ، ہم کو جامعہ اسلامیہ کا نام بد ل کر جامعہ عربیہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، جامعہ کو غریب مسلمان بنائیں گے ، اور اسکی تعلیم کو حکومت کے اثر سے محفوظ رکھیں گے۔) سنا ہے کہ اس وقت بعض اعیان شہر کی جانب سے مطالبہ آرہا تھا کہ نوزائدہ ادارے کا نام جامعہ اسلامیہ کے بجائے عربیہ رکھ کر سرکاری وزارت تعلیم سے اس کا الحاق کرکے سرکاری سہولتوں سے مستفید ہوا جائے ۔ وقت کی نزاکت کو دیکھ کر ہمارے مولانا ندوی علیہ الرحمۃ نے اس نوجوان عالم دین کو جامعہ کے موقف کی تقویت کے لئے آگے بڑھایا تھا ۔
آپ کو صاحب تفہیم القرآن کی تصانیف سے بڑی وارفتگی تھی ،آپ کے بارے میں کئی ایک بزرگوں کی بد گمانی کو دور کرنے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا ، اسی طرح کی آپ نے ایک کاوش آپنے بزرگ مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی کے ساتھ بھی کی جب آپ نے پردہ نامی کا صفحہ اول کاٹ کر انہیں پڑھنے کو دی اور ان سے اس کے بارے میں تعریفی کلمات حاصل کئے ۔ انہی مصنف ہی کی تحریروں کے اثر ات سے آپ سودی کاروبار سے بہت متنفر تھے اور جب بھٹکل میں اربن بنک کا قیام عمل میں آیا تھا تو سختی سے اس کے نکیر کی تھی ، انہیں ہمیشہ اس کی فکر رہی کہ بھٹکل میں غیر سودی بنکاری کا کوئی نظام وجود میں آئے ، لہذا جب ڈاکٹر سید انورعلی صاحب اور شوکت علی محتشم مرحوم کی فکر سے اسلامک ویلیفر سوسائیٹی کی داغ بیل رکھی گئی تو آپ ان اولین لوگوں میں تھے جنہوں نے اس کار خیر کا خیر مقدم کیا ، 1983ء کے آس پاس ویلیفیر سوسائٹی کی ابتدائی نشستوں میں جو عموما زین العابدین آرمار مرحوم کی رہائش گا ہ پر منعقد ہوتی تھیں ، محمد اکرم شمس االدین ، رکن الدین محمد جفری،برماور سید حسین گورپا ، سیدعمر برماور وغہرہ کے ساتھ ان کو بھی پرجوش انداز میں مشوروں میں شرکت کرتے ہم نے دیکھا ہے ، آپ کی بہت سی باتوں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ انکار منکر کے سلسلے میں ان کے یہاں مرعوبیت نہیں پائی جاتی تھی ،پہلی بین الجماعتی کانفرنس 1989ء کے بعد نہی عن المنکرکمیٹی کے کنوینر کی حیثیت سے بلا رعایت کانفرنس کے ایک اہم داعی ، محرک اور بارسوخ شخصیت کو ان کے گھر پرشادی کے موقعہ پر چراغاں کرنے کے لئے تنبیہی مراسلہ ارسال کیا تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا اوراس کے بعد ان نزاعی باتوں سے کوئی سروکار نہیں رہا اور کوشش یہ رہی کہ کسی طرح کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے اختلافات کو ہوا مل سکے۔ حضرت استاذِ محترم کے ساتھ زندگی کی جتنی بھی نشستیں میسر ہوئیں وہ سب ہمارے لئے نمونۂ عمل کا کام دیتی ہیں۔ سینکڑوں ملاقاتوں میں ہر طریقہ کی ناصحانہ گفتگو، مشفقانہ اندازِ تربیت، دوستانہ لب و لہجہ، صغر نوازی کے جملہ اوصاف اور ان سب پر مستزاد محترم المقام کا بالقصد غیبت سے اجتناب ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے اکابرین کی ’’متاعِ گمشدہ‘‘ ہیں ، انہیں موصوف نے نہ صرف یہ کہ حفاظت سے رکھا بلکہ ان پر عمل کرکے ہمیں یہ بھی دکھلا دیا کہ ’’نئی نسل کی تعمیر کے لئے عالم دین، مرشد، مربی یا کسی رہنما میں کن اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
حضرت استاذ کی شخصیت کا ایک اورنمایاں وصف زبان اور وقت دونوں کی پابندی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے اجلاسِ صدسالہ میں کئی سال تک انتظامی معاملات میں مصروف رہے۔ اکثر و بیشتر علاقہ اور اس سے متصل شہروں، ملک کے مختلف صوبوں اور کبھی کبھی ملک سے باہر کے اسفار بھی پیش آئے لیکن دیوبند میں موجود رہتے ہوئے کبھی بھی آپ نے سبق پڑھانے سے عذر نہیں کیا اور ہمیشہ پورے گھنٹے پڑھائے۔ حضرت کے بارے میں طلبہ کو اتنا اعتماد اور یقین تھا کہ اگر کبھی (شاذ و نادر) گھنٹہ بجنے کے بعد پانچ منٹ تک مرحوم درسگاہ میں میں تشریف نہیں لاتے تو یہ یقین کرلیا جاتا کہ یا تو حضرت اچانک کسی سفر میں تشریف لے گئے ہیں یا خدانخواستہ علیل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سبق پڑھانے سے قاصر ہیں، صرف پانچ منٹ کا انتظار کرنے کے بعد طلباء از خود چھٹی کرلیتے، یہ صرف درس میں ہی نہیں تھا بلکہ وقت کی پابندی آپ کے یومیہ معمولات میں شامل تھی، جس کا مشاہدہ کئی مرتبہ سفر کے دوران بھی ہوا حالاںکہ اس میں حضرت محترم کو اکثر و بیشتر اس لئے دشواری پیش آتی کہ جہاں تشریف لے جاتے وہ وقت کی پابندی کا التزام نہ کرتے۔
کئی سال قبل سہارنپور میں ایک اسکول کا پروگرام تھا، جس میں علی گڑھ سے راقم کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ رات میں دیوبند پہنچا، تو معلوم ہوا کہ حضرت بھی وہاں پر مدعوہیں، میں ملنے کے لئے گیا تو ازراہِ شفقت مجھے بھی حضرت نے ساتھ چلنے کے لئے کہا اور یہ بھی تاکید فرمائی کہ وہاں پروگرام دس بجے ہے ہمیں وقتِ مقررہ پر بہرحال پہنچنا ہے۔ میں نے دبے الفاظ میں عرض کیا کہ حضرت یہ تو ہندوستانی وقت ہے، دس بجے یہاں سے چلیں گے تو بھی کام چلے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ نہیں ہمیں وقت پر پہنچنا ہے۔ چنانچہ ہم اس انداز سے چلے کہ ٹھیک دس بجے اسکول میں پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ ابھی تو منتظمین کی اکثریت بھی جلسہ گاہ میں نہیں پہنچی، حضرت کو بہت تکلیف ہوئی۔ اس بات پر منتظمین کو فہمائش بھی کی لیکن ہمارا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ ہم وقت کی قدر کرنا جانتے ہی نہیں۔
اتفاق سے تین چار سال بعد پھر اسی شہر سہارنپور میں اسی طریقہ کا معاملہ پیش آیا جس میں حضرت کو اور مجھے دونوں کو ہی سفر میں جاناتھا۔ میں دیوبند پہنچا تو پھر حضرت کے اصرار پر آپ کی معیت میں سہارنپور جانے کا حکم بہ تاکید وقت صادر ہوا۔ میں نے گذشتہ تین چار سال قبل وقت کی پابندی کے تعلق سے درج بالا واقعہ کی یاددہانی کرائی لیکن مولاناؒ نے پھر یہی فرمایا کہ ’’وقت وقت ہے۔‘‘ چنانچہ وقت متعینہ پر سہارنپور پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ ابھی تو منتظمین کا اتہ پتہ بھی نہیں ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ دو گھنٹہ کا وقت مولانا نے کس کرب و بے چینی کے ساتھ گذارا اس کو تحریر میں لانا مشکل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مختصر سی تحریر میں استاذ مرحوم کے اوصاف پر تفصیلی گفتگو کا موقع نہیں ہے۔ بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’استاذِ محترم کی شکل میں ہم جیسوں نے اُس عہد کا مطالعہ کیا ہے جو ہمارے اسلاف و اکابرین کا خاصہ تھا۔ ایک دن قبل ہی راقم نے مولانا مرحوم کی زیارت کی تھی، سانس کی نزاکت کو بھی محسوس کیا تھا اور یہ پتہ چل چکا تھا کہ مولانا موصوف عمر کے جس حصے اور صحت کے جس مرحلے میں داخل ہیں وہاں سے واپس آنا بظاہر ممکنات میں سے نہیں، بظاہر اس وقت امیدیں دم توڑتی نظر آرہی تھیں لیکن موصوف کے سینے سے نیچے نہ اترنے والی سانس کے پورے بدن میں پھیل کر ایک چست و درست اور تندرست و توانا جسم میں تبدیل ہونے کی آس باقی تھی اور لبوں پر یہ دعا تھی کہ اللہ تعالیٰ موصوف کی عمر میں برکت اور صحت و سلامتی و تندرستی عطا فرمائے۔ اس دعاء کے ساتھ کہ ’’اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلاَم وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَان‘‘
جس وقت یہ تحریر ترتیب دی جارہی تھی وہ اس دنیائے فانی میں مولانا کی زندگی کا آخری دن تھا اور یہ خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ موصوف کو عمر طویل عطا فرمائے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد ہی فون پر دیوبند سے آنے والی اطلاع نے ’’کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذِی الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَام‘‘ کی حقیقت کو بتادیا۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel