ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

قدرت نے اس خاندان کو یہ صلاحیت ودیعت کی ہے کہ وہ اَن ہونی میں بہت سے ہونے والے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔
کسی ادارے کی زندگی میں پینتیس سال کوئی اہمیت نہیں رکھتے لیکن دارالعلوم وقف نے محض 35 سال کی عمر میں ترقی کے جو مدارج طے کئے ہیں اور علمی ارتقاء کی جو نظیر پیش کی ہے دوسرے ادارے اس سے دوگنی عمر میں اس کے آدھے کو بھی نہیں پہنچ سکے۔ بات صرف دارالعلوم دیوبند کی ہی نہیں رہی بلکہ ملت کو جب کبھی موصوف کی قیادت کی ضرورت ہوئی آپنے اس سے بھی دست کشی نہیں کی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اورآل انڈیا مسلم مجلس مشاورت وہ پلیٹ فارم ہیں جہاں آپ کی صدا پر ملت نے پوری توجہ دی اور جب جس قسم کی ضرورت پیش آئی آپ نے پیش قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان سنبھالا۔
بہرحال یہ اُس قائدانہ وصف کا ایک ہلکا سا خاکہ تھا جسے سمجھنا ضروری ہے، علاوہ ازیں مولانا کے اندر جو اوصاف پائے جاتے ہیں اُس میں ہر ہر وصف پر صفحات کے صفحات رنگین کئے جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خوش اخلاقی کے ساتھ ساتھ ایسا مسکراتا چہرہ عطا فرمایا تھا کہ جس کو دیکھ کر ہی بہت سے غم غلط ہوجاتے۔ بانوے سالہ حضرت مولانا موصوف کے چہرے پر انتقال کے وقت تک بھی جو شگفتگی، شادابی و شیفتگی پائی جاتی تھی اس کو دیکھ کر سامنے والے کو اطمینان حاصل ہوتاتھا، اس کی اصلیت پر غور کیا جائے تو اس کی بنیاد ’’اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب‘‘ میں پائی جاتی ہے۔
مولانا نے حال و قال کی وہ ظاہری مجلسیں میرے خیال میں کبھی نہیں لگائیں جو انسانوں کی بزرگی کی شہرت و تشہیر کا مبدأ و منبع ہوتی ہیں، البتہ اُن کی اپنی ذاتی نشست و برخاست میں احکامِ الٰہی کی پابندی اُن حضرات نے ہمیشہ محسوس کی جن کا مولانا کے ساتھ سفر و حضر میں سابقہ پڑاہو۔مولانا اور اُن کے گھرانے سے راقم کا تعلق اُس وقت سے ہے جب کہ بقول شخصے ’’دودھ کے دانت ٹوٹنے‘‘ کا عمل بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ مولانا کے فرزند ارجمند برادر عزیز محمد عدنان قاسمی سے ہم درسی کے ساتھ ہم نشینی اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ہمدمی کا تعلق الحمد للہ کم و بیش پچاس سال سے ہمہ دم ہے۔ مولانا موصوف نے ہم سب دوستوں کو عدنان میاں کی طرح عزیز رکھا۔ مولانا مرحوم کی شفقت و عنایت کے یہ معاملات کہ دوستانہ بے تکلفیوں میں کبھی عدنان میاں سے کسی خواہش کا اظہار کیا جاتا اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اُس کے متعلق معلوم ہوجاتا تو وہ ہماری خواہش کی تکمیل بڑے خوشگوار موڈ میں کردیتے۔ ہم تمام دوست مولانا علیہ الرحمہ کو والد کے درجہ میں مانتے اور وہ ہمیں اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے۔
حضرت مولانا استاذ محترم کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع اُس وقت میسر آیا جب دارالعلوم دیوبند کا قضیہ نامرضیہ پیش آیا۔ اُس وقت علماء کرام کا تقدّس جس طرح پامال کیا جارہا تھا اور ایک دوسرے کی مخالفتوں میں جو طوفانِ بدتمیزی کھڑا ہوا تھا اس کا تذکرہ نہایت دل خراش ہے۔ ان حالات میں مولانا محترم نے نہ صرف یہ کہ خود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے تمام حمایتیوں کو ہمہ وقت بزرگوں کے احترام اور برداشت کی تعلیم دی۔ بہت سے مواقع ایسے آئے کہ ہم جیسے جذباتی جوانوں نے حضرت حکیم الاسلامؒ پر رکیک حملوں کا جواب دینے کے لئے کمرِ ہمت کسی لیکن مولانا نے عفو و درگذر سے کام لینے کی ایسی تلقین کی کہ سارے جوش و جذبات سرد ہوتے نظر آئے۔ بعد میں جب حالات نارمل ہوگئے اور مخالفتوں و اختلافات کا سیلاب تھما، بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا، تبادلۂ خیالات کے نتیجہ میں اکابرین نے مسلکِ دیوبند کی حفاظت و تحفظ کی خاطر تمام جھگڑوں و قضیوں کو دفن کرکے صلح پسندوں کی کوششیں کامیاب ہوئیں تو مولانا مرحوم کی ان دور اندشانہ تدابیر کے سربستہ راز کھلے۔ مولانا نے عفو و درگذر سے کام لینے کی تلقین ہی نہیں کی بلکہ ازخود عمل کرکے بھی دکھایا۔
یہ وقت نہ تو اُن حالات کے ذکر کرنے کا ہے اور نہ ہی اس پر کسی تبصرہ و تذکرہ کی تفصیلات کا۔ بات تھی اس وسیع الظرف انسان کی وسعتِ ظرفی کی کہ جس نے ان تمام مخالفتوں، اختلافات، نزاعات، قضایا، جھگڑوں و تشدّد کا مخصوص نشانہ بننے کے باوجود جب ۲۰۰۵ء میں ایک موقع آیا تو وسعتِ ظرفی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی اور تمام اختلافات کو نسیاً منسیاً کرکے دنیا کے سامنے اخلاص و للہیت کی ایک انوکھی مثال پیش کی۔
تمام جھگڑوں کو بہ یک قلم ایک ہی ملاقات میں ختم کردینے کا یہ واقعہ ایسا اتفاقی تھا کہ جس پر ہم جیسے بہت سے کم ظرفوں کو شرحِ صدر نہیں تھا۔کچھ وقت گذرنے کے بعد راقم نے حضرت کی خدمت میں ایک سفر کے دوران اس واقعہ پر جھگڑے کے دنوں میں پیش آمدہ واقعات کے باوجود حضرت کے اس فراخ دلانہ رویہ پر حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کیا تو تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد حضرت موصوف نے فرمایا کہ ’’عاصم میاں! کچھ کام آخرت کے لئے بھی چھوڑ دو‘‘ حقیقت یہ ہے کہ استاذِ محترم کے اس پُرمعانی جملے نے قضایا دارالعلوم کے زخموں پر مرہم کا کام

Читать полностью…

علم و کتاب

چراغ دیکھ کے میرے ۔۔۔ کلام والی آسی (وفات 14-04-2002ء) https://www.youtube.com/watch?v=-qEtacFrSJM&list=PLDE0CAC9E73C4162C&index=61

Читать полностью…

علم و کتاب

د وسرے دن شورش ادارہ اسلامیات میں تشریف لائے اور بولے کہ میں رات کے واقعہ پرنظم کہوں گا۔راقم الحروف نے عرض کیاکہ میں نے تو نظم شروع بھی کردی اور ارتجالاًیہ شعرپڑھا:
؎ لطف لینے کا جہاں جذبہ بھی تھاکوشش بھی تھی ہائے!وہ محفل جہاں شورش بھی تھا شورش بھی تھی
ان کے جانے کے بعد مولانا زکی کیفی نے کہاکہ آغاشورش اب نظم نہیں کہیں گے“۔
ماہرالقادری صاحب نے مزیدلکھا:”یہ لطیفہ بارہامضامین میں آچکاہے کہ لاہور میں شاعرانقلاب جوش ملیح آبادی کے ساتھ شکیل تانگے میں جارہے تھے۔کسی بات پر شکیل کے منہ سے ’اللہ‘نکلا۔۔۔۔۔اس پر: ’ہمیں کس نے پکارا۔۔۔۔۔جوش نے طنزیہ اندازمیں کہا
یہ شیطان کی آواز کہاں سے آئی۔۔۔۔۔شکیل نے جواب دیا“۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
بذلہ سنجی اور جملے بازی
ادیبوں اور شاعروں میں بذلہ سنجی اور جملے بازی میں ماضی قریب میں چند مشہور اہلِ قلم میں زیڈاے بخاری،صوفی تبسّم،چراغ حسن حسرت،عبدالمجیدسالک اور ماہرالقادری بہت معروف رہے ہیں۔ یوں تو ان کے علاوہ بھی دیگر فنکاروں میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے لیکن ہم ان چار کا بطور خاص تذکرہ مختلف مصنّفین کی تحریروں کے حوالوں سے پیش کریں گے۔اس میدان میں زیڈ اے بخاری کا مقام سب سے بلند نظرآتا ہے۔وہ اپنے ماتحتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے اور اگر سخت جواب کا سامنا ہو تو نارا ض ہونے کے بجائے لطف اٹھاتے تھے۔جملے چست کرنا ان کے کردار کا اہم پہلو تھا۔
معروف صحافی اور کالم نگارنصراللہ خان اپنی کتاب ”کیا قافلہ جاتا ہے“میں بخاری صاحب پر لکھے گئے کالم میں لکھتے ہیں،”ایک مرتبہ انھوں نے برِّ صغیر کے مایہئ ناز خوش نویس،بھائی یوسف مرحوم سے جو نہایت میلے کچیلے رہتے تھے،کہا:’بھائی یوسف!آج اللہ کانام لے کر نہاڈالواور سارا میل کچیل اتار پھینکو،اللہ پھر دے گا“۔
بخاری صاحب کی یاد میں مرزا ظفرالحسن کی مرتّب کردہ کتاب:”یادِیارمہرباں“میں سےّد غلام حسین جعفری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:”ایک مرتبہ کہنے لگے:”لوگ کہتے ہیں جسم کی مالش کروانے سے جسم تندرست اورتوانا ہوجاتا ہے۔میں کہتاہوں۔بھئی۔دیکھونا۔ورزش تواس کی ہوتی ہے جومالش کرتاہے۔توبھلاپھرمالش کروانے والے کا جسم کس طرح صحت مند ہوتا ہے“َ
اسی مذکورہ کتاب میں اسلم فرخی اپنے مضمون ”دوانہ مرگیا آخرکو“میں بیان کرتے میں:”مرکزمیں ایک بوڑھے شاعرآتے تھے۔استاد انصاف،داغ کے شاگرد تھے....بخاری صاحب ہمیشہ ان کے پاس بیٹھتے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ان سے بیڑی مانگ کر پیتے تھے۔کبھی کبھی استاد جھلّاجاتے اور کہتے تم اپنا سگریٹ کیوں نہیں پیتے۔بخاری صاحب پیکٹ ان کی طرف بڑھادیتے اور کہتے یہ آپ پئیں مگر مجھے بیڑی ہی پلائیں۔ایک دن تنقیدی نشست کے اختتام پرا ستادنے غزل سنائی جب اس مصرعے پرپہنچے کہ ع ”رات نالوں میں گزرتی ہے کہاں سوتا ہوں میں‘‘ تو بخاری صاحب اچھل پڑے۔بے اختیار بولے ”استاد کیا ٹھکانا تلاش کیا ہے۔نالہ بھی نہیں چھوڑا“۔اب استاد بگڑ رہے ہیں۔ارے وہ نالہ نہیں۔مگر بخاری صاحب ہیں کہ جھوم رہے ہیں۔”کیا انتخاب ہے۔کیاتلاش ہے“آخر استاد کے صبرکاپیمانہ لبریز ہوگیا۔ بخاری صاحب جھوم رہے تھے اور سارا مجمع ہنس رہاتھا۔استادبکتے جھکتے اٹھ گئے اور کہہ گئے اب جویہاں آئے اس پر لعنت۔بخاری صاحب نے کہااستاد بیڑی تو پلاتے جاؤ،استاد نے بنڈل نکال کر پھینک دیااورچلے گئے۔خدا معلوم بخاری صاحب نے کیا جادو کیاکہ اگلے جلسے میں استاد انھیں کے پاس بیٹھے تھے اور حسب دستور بیڑیاں پلا رہے تھے۔
اسی مضمون میں اسلم فرخی مزید لکھتے ہیں:”اس مشاعرے میں دلّی کے ایک بزرگ نے اپنی غزل میں جب مطلع پڑھا
؎ فرس و فیل سے نہ فرزانے سے زچ ہوا عشق فقط حسن کی شہ کھانے سے
توبخاری صاحب نے زانو پر ہاتھ مار کر کہا؛”قیامت کردی‘پوری چال ایک مطلعے میں“بزرگ تو جھوم جھوم کر آداب وتسلیمات میں مشغول ہوگئے۔سامعین کے چہروں پرمسکراہٹ دوڑ گئی مگر بخاری صاحب کے چہرے پر تبسّم کا پلکا سانشان بھی نشان نہیں تھا۔بس جھومتے رہے۔ (2)
تابش دہلوی اپنے مضمون ”برا آدمی“میں لکھتے ہیں:”ان سے پہلی ملاقات ۷۴۹۱؁ء میں لاہور میں ہوئی۔ایک روز مجھ سے فرمایا:”تابش صاحب پاکستان بن گیا ہے،اب دہلوی وہلوی نہیں چلے گا“۔میں نے عرض کیا،بخاری صاحب دلّی بخارا سے تو قریب ہے “۔اس جواب سے خوش ہوئے۔اسی طرح ایک روز میں خبریں پڑھ رہا تھاخبروں کے بعد مجھے طلب کیا،کہنے لگے آپ دلّی کے ہیں۔یہ لفظ نِشَست ہے یا نَشِست،میں نے کہا میں دلّی کا ہوں اور لفظ فارسی کا،تلفّظ نِشَست ہے۔اس جواب پر مجھے غور سے دیکھا اور پھر محبت سے اپنے پاس بٹھالیا
ان کے انتقال پر لکھے گئے تعزیتی مضمون جو ان کے رسالہ ماہنامہ فاران اگست 1975میں شائع ہونے والے شمارے میں ماہرالقادری صاحب لکھتے ہیں:”مجاز لکھنوی سے یہ لطیفہ منسوب ہے کہ وہ پطرس بخاری کوجوزیڈاے بخاری کے بڑے بھائی تھے”صحیح بخاری“اور بخاری صاحب کو ”غلط بخاری“کہا کرتے تھے!بخاری صاحب یہ لطیفہ خوب لطف لے کرسناتے تھے۔
ریڈیو اور ٹی وی کے اعلیٰ عہدیدار آغا ناصر اپنی کتاب ’گمشدہ لوگ‘ میں بخاری صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:”بخاری صاحب کو اختلاف رائے بالکل پسندنہیں تھا،لہٰذا مرزا صاحب(مرزاظفرالحسن)سے تھوڑا سا بے رخی کا انداز اختیار کر گئے۔اگلے روز شام کو پھر لوٹ آئے تو مرزا صاحب سے کہا،یار چائے پلوائیے۔چائے آگئی تو انھوں نے ادھرادھرگزرنے والوں کو ایک ایک کرکے بلانا شروع کردیا۔ جب خاصے لوگ جمع ہوگئے تو کہنے لگے”بھئی کل مرزا ظفرالحسن سے بڑی بحث ہوئی اورکوئی فیصلہ نہ ہوسکااورآخرمیں مجھے کہناپڑاکہ مرزا صاحب آپ میرے رہن سہن پرحملہ کریں،میں پلٹ کرآپ کے رہن سہن پرحملہ کروں گا۔آپ میرے مال واسباب پرحملہ کریں،میں آپ کے مال واسباب پرحملہ کروں گا۔آپ میرے عہدے اور رتبے پرحملہ کریں،میں

Читать полностью…

علم و کتاب

*محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبدالباری صاحب ندویؒ (۲)*

جو لوگ ا س کتاب پر ایمان نہیں رکھتے،کاش!ایمان اور عدم ایمان دونوں سے اپنے ذہن کوایک مرتبہ خالی کرکے،بلا ترجمہ وتفسیر،ممکن بے تعصبی کے ساتھ،خود اس کتاب کا مطالعہ کچھ دن جاری رکھ سکیں ، تو ان شاء اللہ ان کی سب بحثیں اور اعتراضات از خود ہی ختم ہوجائیں گے!اگر آدمی اتنی عربی جانتا ہو کہ عربیت کے تحت صحیح معنی سمجھ لیتا ہو،تو پھر ایک ہی ترجمہ وتفسیر کی ضرورت رہ جاتی ہے،کہ انسانی فطرت اور انسانی زندگی کے تحت پیش آنے والے واقعات وتجربات اور ان کی مشکلات و مہمات میں ،ان کی تفسیر تلاش کرے ، تو مومن تو مومن ،غیر مومن کو بھی یہ اذعان حاصل ہوکر رہے گا،کہ انسانیت جہاں کہیں اور جس حال میں بھی پائی جاتی ہو ،اس کی سیدھی راہ وہی راہ ہے،جس کی طرف یہ کتاب رہنمائی کرتی ہے۔ان ربی علی صراط مستقیم۔
غم وغصہ دونوں،زیادہ مسلمانوں کے حال پر آتا ہے،جو اس زندہ کتاب پر ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں ،اور پھر زندگی کا راستہ دوسروں سے پوچھتے ،اور ادھر ادھر ڈھونڈھتے پھرتے ہیں،!ان کو تو صرف اس کی ضرورت تھی کہ اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کے ہر شعبہ میں ،بس اسی کتاب کو بطور ایک زندہ کتاب کے استعمال کرتے۔
کہنے کی بات نہیں،لیکن آپ سے کہہ دینے کوجی چاہتا ہے،کہ میرا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ لغت اور زبان کے اعتبار سے معانی سمجھ لینے کے بعد،یا اگرواقعہ طلب شے ہو،توواقعے کو سمجھ لینے کے بعد،جہاں اور جس مقدار میں ،اس کلام اللہ کے ساتھ تفسیر وغیرہ کی صورت میں،کلام الناس کو شریک کیا،اسی قدر ہمیشہ نہیں،لیکن زیادہ تر ایسامعلوم ہونے لگتا ہے،کہ جو روشنی ملی تھی،اس کی جگہ پھر تاریکی چھانے لگی،بس’’ماینطق عن الھویٰ‘‘میں،اپنا یا پرایا،جتنا ہوائی علم مل جاتا ہے،شاید اتنا ہی خالص وحی کے علم کا حجاب بن کر اس کے فیضان کو روک دیتا ہے،اس لئے میرے نزدیک تو مفسر کے علم و تقویٰ کو معلوم کئے بغیر ہر تفسیر کو پڑھنے لگنا، بہت خطرناک ہے،الا آں کہ کسی کا علم و تقویٰ خود کافی محافظ ہو،اور آج کل تو ہر شخص مفسر ہے، اور ہر اخبار و رسالہ اس کی تفسیر شائع کرنے کے لئے کھلا ہوا ہے!!
ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے،کہ لوگ پورا قرآن سمجھنے سمجھانے کی فکرمیں لگ جاتے ہیں،یقیناً سارا قرآن ساری انسانیت کی ہدایت کے لئے ہے،لیکن ہر انسان کے لئے، سارا قرآن ،اسی طرح نہیں جس طرح کرۂ ارض کا سارا رزق ،ساری انسانیت کے لئے ہے لیکن ہر انسان کے لئے نہیں،اگر ہر آدمی’’خلق لکم ما فی الأرض جمیعاً‘‘ کے تحت سارے آدمیوں کا کیا،دو چار کا حصہ بھی ہوس میں آکر کھا جائے ،تواکثر صورتوں میں بدہضمی اور بعض میں ہلاکت یقینی ہے۔ ع
قسمت حق است روزی خواہ نے ہر یکے را سوے دیگر راہ نے
جس طرح ہر جسمانی غذا کا،ہر مزاج وماحول کے انسان کے لئے موافق آنا ضروری نہیں، وہی حال روحانی غذا کا بھی ہے،بلکہ ارواح کے الوان واقتضائات ،اجسام سے بہت زیادہ کثیر ومتفاوت معلوم ہوتے ہیں،ایک شخص دوسرے کا حصہ کیسے پاسکتا ہے!۔
ایک موٹی مثال عرض کرتا ہوں’’ان من أزواجکم وأولادکم عدواً لکم‘‘سے لے کر تغابن کی آخری آیات کا ترجمہ تو ہر شخص ہی سمجھ سکتا ہے،لیکن جو شخص ازدواجی زندگی کے تجربات سے سرے سے نہیں گزرا،یا جس کو ’’عدواً لکم ‘‘سے سابقہ نہیں پڑا،وہ’’فاحذروھم ‘‘کے پرہیز یا ’’وان تعفوا وتصفحوا وتغفروا‘‘ کے علاج کی کیا قدر جان سکتا ہے!اسی طرح’’انما أموالکم وأولادکم فتنۃ واللہ عندہ اجر عظیم‘‘کا تحقیق فہم،اس شخص کو کیسے نصیب ہوسکتا ہے،جو اس فتنۂ اموال واولاد میں پڑا ہی نہ ہو!ذہانت یا دوسروں کے تجربے سے تفسیر بیان کردینا اور بات ہے،لیکن ذاتی تحقیق تو بہر حال ذاتی تجربے کا ہی ثمرہ ہوسکتا ہے،اس یافت و تحقیق کی قائم مقامی، نہ ذہانت کی کوئی مقدار کرسکتی ہے ، اور نہ معلومات کا کوئی وسیع سرمایہ۔
ایک اور ذرا باریک مثال لیجئے:ایک شخص کا دماغ،خالق و مخلوق کے ربط کو سمجھنے کے لئے،سالہا سال عقلی آوارہ گردی میں گرفتار رہا،فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کی راہوں میں خاک چھانتا پھرا،اس کے بعد اس کو ’’ھوالأول والآخر والظاھر والباطن وھو بکل شئی علیم‘‘ سے اگر کچھ سمجھ میں آتا ہے،اور اس کی پیا س بجھتی ہے،اور’’بکل شیئٍ علیم‘‘کے ایک اشارے سے خالق کی اولیت و آخریت ،ظاہریت و باطنیت، اور مخلوقات کے ساتھ اس کے ربط وتعلق کی گرہ کھل جاتی ہے،تو جس دماغ میں یہ سوال ہی نہیں ،اس کا جواب کیاملے گا،یا اسکی کیاقدر ہوگی! کیا اس کی کوئی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے،کہ ایک فلسفی دماغ کی ہدایت کے لئے قرآن میں کوئی راہ نہ ہو۔!!
حاصل معروضات یہ ہے کہ مسلمہ عقائد واعمال کی جس مقدارکی تکلیف ہے،اس حد تک تو سب کو تبلیغ وتفہیم ،مساوی ہونے کی بھی تکلیف ہے،باقی قرآن کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا معلوم ہوتا ہے،کہ مختلف الوان واحوال ،یا مختلف ’’سبل‘‘ اور راہوں کے لوگ اپنی اپنی خاص راہ سے ،اس زندہ کتاب کے ذریعے ،اپنے زندہ رب سے ،اپنی زندگی کے سارے کاروبار میں ،زندہ اور شخصی ربط

Читать полностью…

علم و کتاب

دیا، جس پر وہاں موجود ایّوب خان ہکّا بکّا رہ گئے، تو جب ایّوب خان نے اقتدار سنبھالا، قاسو اُدھارا کو گرفتار کرلیا۔

کہا جاتا ہے کہ پھر موت ہی نے اُنھیں اس قید سے نجات دِلائی۔ جب کہ ایک روایت کے مطابق وہ سِول اسپتال، کراچی میں زیرِ علاج تھے، جس کے دَوران اُن کا انتقال ہوا۔ بہرحال، اب حاجی قاسم بھٹی، میوہ شاہ قبرستان میں مدفون ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

https://youtu.be/3Bg7ZlblxDI?si=k7ches5S8h90cOmf

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا قاضی محمد احمد خطیبی ؒ۔ سابق قاضی جماعت المسلمین بھٹکل*
وہ چلچلاتی دھوپ میں سایہ دار درخت کے مانند تھے
(مورخہ 13 / اپریل 2009ء قاضی صاحب کی رحلت پر لکھی گئی تاثراتی تحریر)
*عبد المتین منیری*

بالآخر سناونی آہی گئی اور ہمارے قاضی مولانا محمد احمد خطیبی صاحب جو عرف عام میں کوچوصاحب خلفو کے نام سے معروف تھے12؍اپریل کو نصف شب کے وقت جب دنیا سوتی ہے خاموشی سے اپنے مالک حقیقی سے جاملے ، اناللہ وانا الیہ راجعون ، ہم سب کو اپنے رب کی طرف اسی طرح ایک دن لوٹ کر جانا ہے ۔
آپ کی پیدائش سنہ 1906ء بھٹکل میں ہوئی تھی،اس طرح رحلت کے وقت آپ کی عمر 103 سال یعنی ایک صدی سے کچھ زیادہ بنتی ہے ،اللہ اگر طویل عمر دے اور اس کے ساتھ عمل صالح کا توشہ بھی ساتھ ہو تو یہ اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے آپ کو اس نعمت سے مالا مال کردیا تھا، آپکے معاصرین میں آپ جیسا عابد وزاہد دوسرا شخص شاید ہی رہا ہو۔ یوں تو آپ نے عمر طبعی پائی اور جب وفات پائی تو کئی سال سے صاحب فراش تھے، لیکن آپ کی ذات بابرکت کے اٹھ جانے سے ایسا لگتا ہے کہ چلچلاتی دھوپ میں کوئی پرانا سایہ دار درخت گرگیا ہو، کیونکہ آپ میں اللہ نے ایسے اوصاف بھردئے تھے، جن کے وجود کی برکت سے قوم پر آنے والے بڑے بڑے عذاب ٹل جاتے ہیں۔ اور جب عذاب نازل ہوتے ہوئے سامنے نظر آنے لگتا ہے، ان جیسوں کو دیکھ کر رحمت خداوندی اس کے غضب پر غالب آجاتی ہے۔
قاضی صاحب کا نوائط قبیلہ کے اس خانوادے سے تعلق تھا جو گذشتہ چھ صدیوں سے شہر بھٹکل ، چنئی(مدراس) اور حیدرآباد کے علاقوں کواپنے علم وتقوی سے سیراب کرتا آرہاہے،اس خانوادہ کے جد امجد مخدوم فقیہ اسماعیل سکری رحمۃ اللہ علیہ تھے ،جن کے ہاتھوں بھٹکل کی جامع مسجد کی سنگ بنیاد سنہ851ء میں رکھی گئی تھی ، تب سے بھٹکل میں جماعتی نظام اور محکمہ شرعیہ جاری و ساری ہوا،اس وقت سے جامع مسجد کے خطابت اور جماعت کی قضائت آپ ہی کی نسل میںجاری رہی، جو قاضی محمد احمد خطیبی عرف کوچو صاحب خلفو کے والد ماجد قاضی محمد ابوبکر خطیبی عرف اوپا خلفو کے اتحاد جماعت کے لئے سنہ 1954ء میں قربانی پیش کرتے ہوئے مستعفی ہونے تک تسلسل سے جاری و ساری رہا۔
جب قاضی صاحب نے اس دنیا میں آنکھ کھولی بھٹکل تعلیمی میدان میں بہت ہی پسماندہ تھا ، انجمن آپ کی آنکھوں کے سامنے قائم ہوا ، جہاں آپ نے داخلہ لے کر قوم کے اولین گریجویٹ اور انجمن کے صدر مدرس اسماعیل حسن صدیق مرحوم سے عصری تعلیم حاصل کی، جس کے بعد آپ نے دینی تعلیم اس وقت کے عظیم فقیہ مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی چیٖف قاضی جماعت المسلمین و نائب قاضی ممبئی سے حاصل کی ،قاضی شریف اکرمی کا معمول یہ تھا کہ اس دور کے دستور کے مطابق مغرب سے قبل کھانے سے فارغ ہوتے ، اور عشاء کے فورابعد سوجاتے اور نصف شب میں جگتے اور عبادتی اور علمی مصروفیات شروع کرتے، انہیں حافظہ کا یہ گر معلوم تھا کہ تھکن کی حالت میں یا نیند کے غلبہ کے وقت کا مطالعہ پانی پر لکھی ہوئی تحریر جیسا ہے، نیند سے جگ کر چاق وچوبند حالت میں مطالعہ پتھر کی لکیر ہے، لہذا اپنے طلبہ کو تہجد کے وقت ہی تعلیم کے لئے بلاتے تھے، قاضی خطیبی نے بھی قاضی اکرمی سے رات کے ڈھائی بجے ان کے پاس جاکر جب کہ ابھی بھٹکل میں بجلی کا رواج نہیں ہوا تھا ، مٹی کے تیل سے چلنے والے چراغوں کی دھندلی روشنی میں دینی علم سیکھا،پھر آپ مدراس مدرسہ محمدیہ چلے گئے جہاں آپ نے وقت کے عظیم بزرگ مولانا قاضی حبیب اللہ چیف قاضی مدراس سے فیض حاصل کیا۔وطن واپسی پر جماعت المسلمین سے وابستہ ہوئے اور یہاں کے دفتری کاموں میں حصہ لیا اور قاضی اکرمی سے بھی فقہی مہارت حاصل کرتے رہے۔ اور اپنے والد ماجد کا جماعت کی ذمہ داریوں خطابت اور قضاء میں ہاتھ بٹایا۔آپ نے مولانا سید میراں خلفو اور مولانا قاضی اسماعیل اکرمی دھاکلو بھاؤ خلفو سے بھی استفادہ حاصل کیا

Читать полностью…

علم و کتاب

مانگے کا اجالا--آزادی سے پہلے ہندو بنیے اور سرمایہ ہمیں لوٹا کرتے تھے۔ ہماری خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان بنئے اور سیٹھ لوٹیں۔ الحمد الله کہ یہ آرزو پوری ہوئی۔ (ابن انشاء)

Читать полностью…

علم و کتاب

محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبدالباری صاحب ندویؒ (۱)

ولادت: 11-08-1889ء ... وفات : 20-01-1974ء
آپ بارہ بنکی کے ایک خوشحال اور دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے والد حکیم عبدالخالق صاحب اپنے وقت کے مشہور شیخ طریقت،اور حضرت مولانا محمد نعیم فرنگی محلی کے خلیفۂ مجاز تھے۔والد صاحب نے حصول علم کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل کیا،ندوہ ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا،والد صاحب کو وہاں کی تعلیمی و تربیتی حالت سے اطمینان نہ ہواتومولانا ادریس صاحب نگرامی کی خدمت میں نگرام بھیجا،وہاں ایک سال سے کم قیام رہا۔پھر جب علامہ شبلی نعمانی نے ندو ہ کا تعلیمی نظام اپنے ہاتھ میں لیا،تو دوبارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل کئے گئے،آپ پر علامہ شبلی کی خاص توجہ تھی۔طالب علمی ہی سے معقولات کی طرف رجحان تھا،چنانچہ فلسفۂ قدیم کے ساتھ ساتھ فلسفلۂ جدید سے بھی گہری واقفیت پیدا کی۔ندوہ کی تعلیم کے زمانے ہی میں انگریزی میں اتنی مہارت بہم پہنچائی تھی کہ فراغت کے بعد جب دکن کالج پونامیں آپ کا تقرر ہوا توفلسفہ جیسے دقیق فن کا انگریزی زبان میں درس دے کرطلبہ کو پوری طرح مطمئن کرلیا۔کئی سال تک آپ نے وہاں فلسفے کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا،پھر گجرات کالج احمد آباد میں آپ کا تبادلہ ہوا۔اس کے بعد عرصے تک جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں شعبۂ فلسفہ کے صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔آپ مولانا مدنیؒ سے بیعت تھے،حضرت تھانویؒ نے تربیت فرمائی اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔آپ دینی معاملات میں انتہائی سخت تھے،رواداری کا آپ کے یہاں بالکل گزر نہیں تھا،ا س سلسلے میں کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے،یہاںتک کہ آپ کے شیخ مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا:’’مولانا عبدالباری صاحب چاہتے ہیں کہ شیطان مرجائے، اور یہ ممکن نہیں‘‘۔
مشہور کتابوں میں مذہب و عقلیات،مذہب اور سائنس،جامع المجددین،(تجدید دین کامل)،تجدید تصوف وسلوک،تجدید تعلیم وتبلیغ،تجدید معاشیات،تفسیر سورہ عصر(نظام صلاح و اصلاح)،حدیقۂ نفسیات،نظام تعلیم واصلاح،علم اخلاق،عملی نباتیات وغیرہ ہیں۔یہ سب کتابیں پہلے چھپی تھیں۔ان میں سے بہت سی کتابوں کو صاحب زادگان نے از سر نو شائع کیا ہے،(باری پبلی کیشنز،باری ہاؤس،سیتا پور روڈ ،لکھنؤ،۱۹۹۳ ء)۔
مدفن:قبرستان ڈالی گنج،لکھنؤ

مولانا عبدالباری صاحب کا یہ مضمون دراصل ان کا ایک مکتوب ہے،جوانھوں نے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو ان کے سوال کے جواب میں لکھا تھا۔چناں چہ مدیر’’الندوہ‘‘ کی حیثیت سے مولانا نے مضمون سے پہلے یہ عبارت لکھی ہے :ہم نے اس سلسلے میں مخدوم محترم مولانا عبدالباری صاحب ندوی کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی،مولانا نے ہمارے اس سوال کا جو جواب دیا ہے،وہ ان کے عنایت نامے سے نقل کیا جاتا ہے۔(فیصل)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*.... "کہتے ہیں کہ جب اہرام مصر کا معمار موقع پر پہنچا تو اس نے صحرا کی وسعت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ عمارت بلند ہونی چاہیے، پھر اس نے بھربھری اور نرم ریت کو محسوس کیا اور سوچا کہ اس عمارت کو سنگلاخ بھی ہونا چاہیے، جب دھوپ میں ریت کے ذرے چمکنے لگے تو اسے خیال آیا کہ اسکی عمارت شعاعوں کو منعکس کرنے کے بجائے اگر جذب کرے تو کیا اچھا تقابل ہوگا، ہوا چلی تو اسے ٹیلوں کے نصف دائرے بنتے بگڑتے نظر آئے اور اس نے اپنی عمارت کو نوک اور زاویے عطا کردیئے.
اتنے بڑے فیصلے کے بعد بھی اسے طمانیت حاصل نہ ہوئی تو اس نے طے کیا کہ زندگی تو ایک قلیل اور مختصر وقفہ ہے ، وہ کیوں نہ موت کو ایک جلیل اور پائیدار مکان بنادے، اب جو یہ مکان بنا تو لوگوں نے دیکھا کہ عجائب عالم کی فہرست میں اضافہ ہوگیا ہے۔"

مختار مسعود کی کتاب
" آواز دوست " سے اقتباس /channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

چند سال قبل جب بھٹکلیس میں ہم نے نائطی کلاسیکل شاعری کو شعراء کی اپنی آواز میں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو نائطی کے ایک اور شاعر جناب عبد اللہ رفیق صاحب سے پرواز صاحب کا کلام محفوظ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ، رفیق صاحب کی دلچسپی اور تعاون سے مرحوم کے گھر کئی روز حاضری ہوئی اور آپ کی آواز میں منتخب کلام ریکارڈ کیا گیا ، جب دل کا دورہ پڑا تو کہنے لگے اس وقت آپ نے انہیں محفوظ کردیا ، اب اسے محفوظ کرنا ممکن نہیں تھا، اللہ کا شکرہے نائطی زبان کے اس عظیم شاعر کی آواز اور پیغام کو زندہ رکھنے کی توفیق بھٹکلیس کے حصے میں بھی آئی ، جس طرح آپ کے پیش رو سید عبد الرحیم ارشاد مرحوم کے آواز و آہنگ کی حفاظت اس کے حصہ میں آئی تھی ،۔ مرحوم جس تہذیب اور ثقافت کے امین تھے ، اب وہ روایتیں معاشرے سے ختم ہوتی جارہی ہیں ، اس زوال پذیر معاشرے میں آپ جیسی شخصیات یاد آتی رہیں گی ، اور ان کے بلندی درجات کے لئے ہاتھ بلند ہوتے رہیں گے ، اللہم اغفر لہ وارحمہ

2017-04-12
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*محمد علی پرواز پر نائطی شعر و سخن کا ایک سنہرا دور ختم ہوا*
*تحریر: عبد المتین منیری*
( مورخہ 12 اپریل 2017ء نائطی زبان کے شاعر محمد علی پرواز صاحب کی وفات پر لکھی ہوئی تحریر)

آج مورخہ 12 ؍اپریل عصر کے وقت عمر اسٹریٹ میں واقع( پرواز ہاوس) میں رکھا محمد علی پرواز کا جسد خاکی دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی گہری نیند میں سورہے ہیں آپ کی یہ دائمی نیند تھی ، اب روز قیامت ہی وہ اس نیند سے اٹھا ئے جائیں گے، پرواز صاحب کی رحلت کے ساتھ نائطی شعر و ادب کا ایک اہم ستون گر گیا، مرحوم اس قافلہ کے آخری شہ سوار تھے ، جس نے گزشتہ صدی کی سنہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ممبئی سے نوائط مرکز کے خیمے تلے نائطی شعر و ادب کے فروغ اوراسے نئی نسل میں مقبول عام کرنے کے لئے اپنی خداداد صلاحیتیں صرف کی تھی ، اور انہوں نے اس زبان کو شعر و ادب کی نت نئی اصناف سے مالا مال کیا تھا ، سید عبد الرحیم ارشاد ، محمد علی قمر ، سید اسماعیل حسرت برماور ، محمد حسن معلم ، شبیر بائیدا و غیرہ اس سلسلے کی سنہری کڑیاں تھیں ۔ محمد علی پرواز نے عمر کی( 87) بہاریں دیکھیں۔
آپ کے والد ایک جفاکش انسان تھے ، بڑی محنت سے اپنے بچوں کی کفالت کی ، ابھی پرواز صاحب تین سال کے تھے تو شوکت علی اسٹریٹ آپ کے بھائی بہنوں کو اپنا ذاتی مکان نصیب ہوا جو (کندن گوڑا ہاؤس ) کے نام سے مشہور تھا ، دوچار مکان چھوڑ کر شاعر بھٹکل محمد حسین فطرت کا مکان اسی محلہ کے نکڑ پر واقع تھا ، لہذا بچپن ہی سے ان دونوں میں جان پہچان ہوگئی ۔
اس زمانے میں تعلیم تجارت نہیں بنی تھی ، نہ ہی تین سال کی عمر میں بچوں کا بچپن چھین لیا جاتا تھا ، تعلیم قرآن سے بچے کی تعلیم کا آغاز ہوتا ، اور چھ سات سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ ہوجایا کرتا تھا ، اس وقت کے اساتذہ مخلص تھے ، نونہالان قوم کو کچھ کرکے دکھلانا چاہتے تھے ، لہذا پانچ چھ سال کی تعلیم میں بچوں میں اتنی تعلیمی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی جو آج کے دور میں دس بارہ سال میں نہیں ہو پاتی ، پرواز صاحب گورنمنٹ پرائمری بورڈ اسکول میں ابتدائی چار سال اور انجمن ہائی اسکول میں دو سال یعنی جملہ چھ سال تعلیم پاسکے ۔اس دوران آپ کو یہاں پر مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی ، کوٹیشور شاہ الحمید ، کوٹیشور منصور اور ابوبکر غنی اور خاص طور پر مولانا محمود خیال جیسے انجمن کے مایہ ناز اساتذہ سے فیض حاصل ہوا ۔
اس کے بعد ا معاشی ضرورتوں نے آپ کو تلاش معاش کے لئے ممبئی جانے پر مجبور کیا ، جہاں آپ نے بھنڈی بازار میں واقع شینگری محمد غوث مرحوم کی کپڑوں کی دکان میں ملازمت اختیار کی ۔ اس دوران آپ کو اہل وعیال بال بچوں کی ضروریات پورا کرنے کی ہمیشہ فکر رہی ، اس کے لئے آپ نے دکان کی ملازمت کے علاوہ بھی مختلف پیشے اختیار کئے ، جن میں ممبئی بس میں کنڈکٹر کے ملازمت بھی شامل ہے ، جس کے لئے آپ کا تین سو درخواستوں سے انتخاب ہوا تھا ، جب آپ کو یہ پیشہ نہ بھایا تو آپ نے ڈرائیونگ کرکے بال بچوں کا پیٹ پالا ۔ اس طرح 1977ء تک تیس پینتیس سال کا عرصہ ممبئی میں گزارا۔
یہ تین دہائیاں ممبئی بھنڈی بازار میں اہالیان بھٹکل کا دور عروج تھا،اس علاقے میں جہاں دیکھو بھٹکل والوں کی کپڑوں کی دکانیں ، بیسیاں اور ریسٹورنٹ نظر آتے تھے ، سستائی کا زمانہ تھا ،ابھی منفعت خوری کا دور شروع نہیں ہواتھا ، لہذا آنے پاؤنے ہی میں منافع کا حساب لگایا جاتا تھا ، آمدنی کے ذرائع بھی محدود تھے ، قوت لایموت پرہی زیادہ تر لوگوں کی گزر اوقات ہوتی تھی ۔ بے کاری بھی عام تھی ۔ پرواز صاحب نے بڑا گداز دل پایا تھا ، دوست احباب کی دل داری ، ان کی حاجت روائی آپ کے رگ رگ میں بسی تھی ، ایسے حالات میں جب کہ ان کا ہاتھ بھی بہت تنگ ہوا کرتا تھا، جب وہ کسی عزیز یاد دوست کو مجبوری ، بیماری ، بے کاری اور حالت ضرورت مندی میں پاتے تو خاموشی سے اس کی تکیہ کے نیچے رقم چھوڑ کر خود بھوکے پیٹ رات گزارنا ان کے لئے عام سی بات تھی ۔
ثقافتی ، اجتماعی و سماجی طور پر یہ ممبئی میں اہل بھٹکل کے لئے یہ ایک سنہرا دور دور تھا ، بھٹکل کے محنت کش طبقہ کا زیادہ تر طبقہ یہیں تلاش معاش میں مگن تھا ، ان دنوں ادارہ تربیت اخوان ، نوائط آنہ فنڈ ، نوائط مرکز ، بھٹکل مسلم جماعت ممبئی وغیرہ بھٹکلی احباب کے ادارے کافی فعال رہے ، النوائط ، نقش نوائط ،داعی انہی ایام میں یہاں سے جاری ہوئے ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

متاع قلم
کلام وآواز: نازش پرتاب گڑھی
(وفات 10-04-1984)
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=mata-e-qalam, Mata e qalam

Читать полностью…

علم و کتاب

1۔ وطن، ولادت، اقارب،2۔تعلیم، نکاح، طبابت، 3۔ تصوف و سلوک، اسلامی ریاست کے دستور کی خاکہ سازی، 4۔ تدریس، ندوی زندگی، عسکری تربیت، امامت، مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ، اہتمامِ ندوہ، ہجرتِ پاکستان، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں خدمات، استعفیٰ، 5۔ سرگزشتِ حیات، علمی و مطالعاتی زندگی، 6۔ شعر و سخن، کلامِ شہیدؔ، 7۔ تصانیف و تالیفات، 8۔ مکاتیب ، 9۔ سفرِ آخرت، ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تعزیتی اجتماع، 10۔ رسائل و جرائد میں خراجِ عقیدت، 11۔ سیرت و اخلاق، 12۔ سیرت و شخصیت پر چند علماء کے مضامین، 13۔ عزیز و اقارب کے تاثرات، 14۔ نوادرات، 15۔ افکار و نظریات، 16۔ منتخب نگارشات۔
مولانا سندیلوی کی حیات و آثار پر اس جامع کتاب کی تالیف و ترتیب پر فاضل مرتب لائقِ تحسین ہیں۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا محمد سالم قاسمی صاحب ؒ*

*’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی‘‘*

*ڈاکٹر عبید اقبال عاصم*

حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی تیسری پشت کے فرزند اکبر خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ جن اوصاف و کمالات کا مجموعہ تھے اُن میں بہت سی وہبی ہیں جو یقینی طور پر مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کی دعاء ’’رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا‘‘ کی قبولیت کا نتیجہ اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ دعائے نیم شبی ’’رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء‘‘ کاثمرہ معلوم ہوتا ہے۔ ان سب پر مستزاد اُن کے کریمانہ اخلاق جو دشمن کو بھی اُن کا دوست بنا دے، اُن کا فطری مسکراتا چہرہ، وسیع مطالعہ، حکیمانہ گفتگو، پُراثر خطاب، وہ کسبی دولتیں ہیں جن کو پانے کے لئے انہوں نے کچھ گھریلو ماحول، کچھ بزرگوں کی صحبت، اسلاف کے فیضانِ نظر اور اکابرین کے احوال و افکار سے متاثر ہو کر اپنی ذات میں اس طرح سمولیں کہ وہ اُن کا جزوِ ذات بن گئیں تھیں۔
حضرت مولانا محمد سالم صاحب اس عالمِ آب گل میں جنوری ۱۹۲۶ء مطابق جمادی الاخریٰ ۱۳۴۴ھ میں وجود میں آئے۔ دیوبند کے جس گھرانے میں آنکھیں کھولیں وہ علم و فضل کے اعتبار سے چندے آفتاب و چندے ماہتاب تھا، بچپن سے ہی دینی ذوق کے حامل اس بچہ کی تعلیم و تربیت کے لئے اس دارالعلوم دیوبند کا انتخاب کیا گیا جس کی ظاہری و باطنی تعمیر و ترقی میں والد محترم قاری محمد طیب صاحبؒ نے زندگی وقف کرکے اسے ایک تحریک کی شکل دینے میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ ذہانت و فطانت رگ رگ می ںسرایت کئے ہوئے تھی۔ معاملات و واقعات بتانے سے نہیں، صرف مشاہدے سے سمجھنے میں بچپن سے ہی درک حاصل تھا۔ بائیس سال کی عمر میں دولتِ حفظِ قرآن کریم و تجوید نیز مروّجہ درسِ نظامی کے نصاب سے ۱۹۴۸ء مطابق ۱۳۶۷ھ فراغت حاصل کی، آپ کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر اراکینِ شوریٰ نے آپ کو دارالعلوم دیوبند کی تدریس کے لئے منتخب کرلیا،جس سے آپ ضعیفی و پیرانہ سالی کے زمانے کو چھوڑ کر تاعمر وابستہ رہے۔ ۱۹۸۲ء تک دارالعلوم کی چہار دیواری میں آپ نے قال اللہ و قال الرسول کی صداؤں کو بلند رکھا اور وہاں کے حالات کے انتشار کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند سے اُن کے والد بزرگوار حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کو جس طریقہ سے دارالعلوم دیوبند سے باہر کی راہ دکھائی گئی اُس کے نتیجہ میں جن بلند پایہ اساتذۂ کرام کو بے سروسامانی کے عالم میں مادرِعلمی سے رشتے منقطع کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا اُن میں استاذ محترم کا نام سرفہرست ہے۔
مولانا موصوف نے ایسے موقع پر جس صبر و ہمت اور عزم و استقامت کا مظاہرہ کیا وہ تو اپنی جگہ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ نے تخریب کا جواب دینے کے لئے تعمیری منصوبہ بنایا، قدم قدم پر مخالفتوں، مخاصمتوں، منافرتوں اور عداوتوں کے درمیان دارالعلوم دیوبند سے روحانی تعلق اور تحریک دیوبند سے حقیقی محبت کے اظہار کے لئے ایک دوسرے دارالعلوم کے قیام کا منصوبہ ہنسی کھیل نہیں تھا، جن لوگوں نے اُس وقت کے حالات کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے اُن میں بیشتر لوگ دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن ہم جیسے صفِ آخیر کے اُس وقت کے جوان عمر افراد جو اَب عمر کے آخری مرحلے میں داخل ہورہے ہیں اُن ناپسندیدہ واقعات کے عینی شہادتیں فراہم کرنے کے لئے موجود ہیں جب معرکۂ حق و باطل سمجھے جانے والے اس مجاہدۂ کارزار میں حق پسندوں کو مغلوب، مظلوم اور معصوم حالت میں دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ 85 افراد کے اس قافلۂ امن میں کیسے کیسے متقی، ولی صفت، استقامت و عزیمت کے پہاڑ، صبر و وفا کے پیکر انسان تھے کہ جنہوں نے قاری محمد طیب صاحبؒ کو حق پر مانتے ہوئے اپنے روزگار کے مقابلے میں بے روزگاری کو ترجیح دی۔ ایسے حالات میں مردِ آہن مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نے جس حوصلہ اور پامردی کے ساتھ سالارِ قافلہ کا فریضہ ادا کیا اس کی نظیر شاید و باید ہی ملے گی اور پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ بادِ مخالف کی تندی اور حالات کا پوری طرح شعوری جائزہ لے کر حالات کا رخ موڑنے کی کوشش کی اور چند سالوں میں ہی دارالعلوم کے مماثل دوسرا دارالعلوم اس قصبہ دیوبند میں پختہ و ٹھوس بنیادوں پر کھڑا کردیا جو دارالعلوم کا جزوِ ثانی کہلاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا محمدسالم قاسمی کو اس کاروانِ عزیمت میں مولانا سید انظر شاہ صاحب، مولانا خورشید عالم صاحب، مولانا محمد نعیم صاحب، مولانا محمد اسلم صاحب رحمہم اللہ جیسے مخلص رفقائے سفر نے ہر ہر قدم پر بہت زیادہ تعاون دیا اور علمِ قیادت مولانا محمد سالم صاحب کے ہاتھ میں دے کر اپنے قول و فعل سے اس امر کا اعلان کیا کہ ادارہ سازی کا وصف اس خانوادے کے خون میں شامل ہے اور

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ : اپریل / 14
+++++++++++++++
ڈاکٹر اسرار احمد ،14، اپریل، 2010ء
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ،14، اپریل، 1994ء
منصور ے ،14، اپریل، 2008ء
مولانا علی سکری اکرمی ،14، اپریل، 2014ء
مولانا محمد سالم قاسمی ،14، اپریل، 2018ء
مولانا محمد مبین خطیب ،14، اپریل، 1969ء
میر رضی میر ،14، اپریل، 2005ء
والی آسی ،14، اپریل، 2002ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

آپ کے عہدے اوررتبے پرحملہ کروں گامگرآپ میری عقل پرحملہ کرتے ہیں تومیں آپ کی کس چیزپرحملہ کروں!
اس میدان کے دوسرے کھلاڑی صوفی تبسّم ہیں۔صوفی صاحب کا فقرے بازی میں جواب نہ تھا۔وہ جہاں بیٹھ جاتے پرمزاح باتون اور ہنسی مذاق کا دریا بہا دیتے۔ان کی بذلہ سنجی سے بچّے بھی لطف اندوز ہوتے۔ان کا تخلیق کردہ کردار ”ٹوٹ بٹوٹ“ تھا۔انھوں نے بچوں کے لئے نظمیں کہیں اور یوں وہ بچوں میں بھی بہت مقبول تھے۔کشور ناہید اپنی کتاب ”شناسائیاں رسوائیاں“میں لکھتی ہیں:”صوفی صاحب سڑک پر جارہے ہوتے توبچے اپنی ماؤں کی ٹانگوں سے لپٹ کر ضدکرتے ’وہ دیکھیں ٹوٹ بٹوٹ جارہے ہیں۔مجھے ملوائیں۔صوفی صاحب خود رک جاتے بچے کو گود میں لیتے،اس کی ناک سے ناک رگڑتے،بچے کو پیار کرتے۔بچہ نہال ہوجاتا۔صوفی صاحب آگے بڑھتے“ایک دوسرا واقعہ درج کیا گیا ہے:”ایک دن کوہ قاف کے بارے میں بحث ہوگئی۔فیض صاحب نے کہاکہ کوہ قاف، روس میں ہے۔صوفی صاحب نے غصّے میں کہا’تو کوہ قاف وی روس نوں دے دیتا اے“۔ان کی بزلہ سنجی کا ایک قصّہ درج کیا ہے:”ایک دفعہ ہم بیڈن روڈ سے گزر رہے تھے۔دودھ والا کڑاہی میں دودھ،مگ کے ذریعے اونچا لے جاکرپھینٹ رہا تھا۔ہاتھ میں سگریٹ پکڑے،پہلے تو صوفی صاحب مسکراتے ہوئے اس کے ایکشن کو دیکھتے رہے۔پھر بولے’اے بھائی گز دودھ مینوں وی دئیں‘۔دودھ والا بھی ہنس پڑااور ضد کی کہ آپ اب دودھ کا گلاس پی کر ہی جائیں گے۔
(3)
معروف صحافی اور کالم نگار نصراللہ خان کی کتاب ”کیا قافلہ جاتا ہے“ میں صوفی صاحب پر لکھے گئے خاکے میں ان کے مزاحیہ تبصروں کے چند واقعات درج کئے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:”۴۵۹۱ء مین وہ بنگالیوں کو اردو پڑھانے لگے۔ایک بارصوفی صاحب نے مجھ سے ازراہ مذاق
کہا کہ بنگالیوں کو اردو پڑھانے سے بنگالیوں کوتوتھوڑی بہت اردو آگئی لیکن میں اردو بھول گیا“۔
وہ لکھتے ہیں:”ایک مرتبہ انھوں نے ذوالفقارعلی بخاری سے کہا’ذرا میرے ایک گیت کا مکھڑا سنو‘۔بخاری صاحب نے کہا’واقعی صوفی تمھارامکھڑاجو کبھی دیکھنے کا تھا،اب سنانے کا کا ہوگیا ہے“جواباًکہا’تم اپنی شکل دیکھو۔یوں لگتا ہے جیسے سفید تولیا سر پر باندھے پھر رہے ہو“
ایک مزید واقعہ یوں لکھا ہے:”ریڈیو پاکستان میں ایک نوجوان گانے والی صوفی صاحب سے کسی کی باتیں کرتے کہنے لگی۔اب دیکھیے نا
صوفی صاحب آپ ہمارے بزرگ ہیں۔صوفی صاحب نے مسکرا کر میری طرف دیکھ کر کہا۔یار اس بزرگی سے ہم پریشان ہوگئے۔اس نے ہمارا نرخ بھاؤ کم کردیا ہے۔
اس فن مین چراغ حسن حسرت کا بھی اونچا مقام ہے۔وہ اپنے ہم عصروں میں مولانا کے نام سے معروف تھے۔نصراللہ خان ان کے بارے میں لکھتے ہیں:”حسرت صاحب میں کوٹ کوٹ کر شوخی بھری ہوئی تھی۔وہ بڑے بذلہ سنج تھے۔جملہ بازی میں ان کاکوئی جواب نہیں تھا۔ایک مرتبہ ایک مشاعرے میں حفیظ صاحب نے حسرت صاحب کی طرف اشارہ کرکے کہا:”مولانا مصرع اٹھائیے“مولانا کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’مردے اٹھاتے اٹھاتے ساری عمر گزر گئی“۔
ان کا درج کردہ حسرت صاحب کی بذلہ سنجی کا ایک واقعہ اور ہے:”جب چیانگ کائی شیک جنگ ہار گیا تو مولانا سے میاں افتخارالدّین نے پوچھا’مولانا اب چیانگ کائی شیک کیا کرے گا“؟ مولانا نے کہا ”وہ بھی کوئی اخبار نکال لے گا“۔
ایک صاحب نے جو بزاز تھے اورحسرت صاحب کے پرستاروں میں تھے،ان سے کہا:”حسرت صاحب۔میرا ارادہ ایک اخبار نکالنے کا ہے“۔حسرت صاحب نے کہا”ضرور نکالیے۔رات کو لٹّھے پہ چھاپااور صبح ہوتے ہی دھوڈالا“۔
مجید لاہوری پر لکھے گئے تعزیتی مضمون میں ماہرالقادری لکھتے ہیں:”چراغ حسن حسرت کا اکثرذکرکرتے،کہتے تھے کہ حسرت،دھوبی،حجام،تانگہ والے یہاں تک کہ طوائف کو بھی ’مولےٰنا‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے“۔
ماہرالقادری صاحب نے آغا شورش کاشمیری کے بارے میں ایک لطیفہ ان کے انتقال پر لکھے گئے تعزیتی مضمون میں لکھا ہے:”آزادکشمیر کے صدرمقام مظفرآبادمیں یومِ اقبال منایاگیا۔آغا شورش کاشمیری نے بڑی دھوم کی تقریرکی۔ایوب خان کا دورِحکومت تھا،ایک پتنگا اڑتاہوا ان کے قریب آن پہنچا،آغا شورش اُسے پکڑکرچٹکی سے مسلتے ہوئے اپنے خاص اندازمیں بولے’یہ B.D.کاممبرکہاں سے آگیا“۔تمام مجمع بے اختیارہنس پڑا“۔
ایک دوسرا واقعہ اسی مضمون میں تحریرکیا ہے”آغاگل صاحب کی کسی فلم کی شوٹنگ ہورہی تھی،آغاصاحب نے چائے نوشی اور شوٹنگ دیکھنے کی دعوت دی،مغرب کے بعد نخشب جارچوی،ذکی کیفی اورراقم الحروف شوٹنگ دیکھ رہے تھے،اتنے میں حمیدنظامی مدیر’نوائے وقت‘ اور
(4)
آغاشورش وہاں تشریف لے آئے اورمجھے دیکھتے ہی آغا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:’ماہرصاحب!آپ کایہی صحیح مقام ہے ’جمنا کا کنارہ‘جیسی رنگین نظم کہنے والاجماعت اسلامی میں کہاں جاپھنسا‘۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وتعلق پیدا کریں،بغیر اس زندہ ایمان کے نہ عبد ورب میں ،عبدیت و ربوبیت کا ربط قائم ہوتا ہے،نہ ایمان کی حلاوت ملتی ہے،نہ اس کے اعلیٰ ثمرات پیدا ہوتے ہیں۔واللہ اعلم بالحق والصواب۔
علموکتاب https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*تعلیم کے تین عناصر*

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: تعلیم کے تین عنصر ہیں: استاذ، نصاب اور طالب علم۔ انتظامیہ تو اضافی چیز ہے۔ ان تینوں کے ذریعہ تعلیم کی تکمیل ہوتی ہے اور ان کا تعلیم پر غیر معمولی اثر پڑتا ہے۔ تعلیم میں بنیادی چیز، تصحیحِ نیت ہے، اس کے بغیر تعلیم، صحیح رُخ پر نہیں ہوگی۔

افادات علم و حکمت/صفحہ: ٦١/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

جب قاسو اُدھار نے سونے سے بَھری کشتی سمندر میں اُلٹ دی۔
تحریر: منور راجپوت

بِھٹ آئی لینڈ کا ایک اہم کردار، حاجی قاسم بھٹّی ہے، جس نے’’قاسو اُدھارا‘‘ کی عرفیت سے شہرت پائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا میں سونے کا سب سے بڑا اسمگلر تھا۔ اُس سے متعلق بہت سی دیومالائی طرز کی کہانیاں مشہور ہیں۔

اِس ضمن میں کراچی کے حوالے سے ایک کتاب کے مصنّف، اقبال اے رحمٰن کا کہنا ہے کہ’’بھٹّی، کچھی برادری کے ایک خاندان یا قبیلے کی شناخت ہے، لوگ اِسے ذات بھی کہتے ہیں، مگر دراصل یہ شناخت ہے، قاسم بھٹّی اِس خاندان کے سرخیل تھے، جو60 ء کی دہائی میں جزیرہ بِھٹ میں رہتے تھے۔

لیاری کے علاقے موسیٰ لین میں اُن کا سسرال تھا۔وہ گلی، محلّے کے محنت کش تھے، کام کبھی ملتا، کبھی نہ ملتا، لہٰذا جیب اکثر خالی رہتی۔پھر یہ کہ بیڑی کا شوق رکھتے تھے، سو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بیڑی اُدھار لے کر پیتے۔ میمن اور کچھی برادری میں مختصر یا بگاڑے ہوئے ناموں سے پکارنا معمول کی بات ہے، تو وہ قاسم کی بجائے’’قاسو‘‘ کہلاتے تھے، جب کہ اُدھار بیڑی لینے کی نسبت سے اُنھیں’’اُدھارا‘‘ کی عرفیت مل گئی، اِس طرح وہ’’ قاسو اُدھارا‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔ جزیرہ بِھٹ میں لانچوں پر مزدوری کرتے کرتے ایک پیسنجر لانچ بنالی تھی۔

یہ وہ وقت تھا، جب خلیج کی ریاستیں ترقّی کے مراحل سے گزر رہی تھیں۔دوسری طرف، بھارت اور پاکستان میں سونے کی بڑھتی مانگ اور کھپت کے باوجود دونوں ممالک میں سونے کی درآمد ممنوع تھی، لہٰذا خلیج کی ریاستوں سے سونے کی تجارت ہوتی تھی۔ قاسو ادھارا کا خلیجی ریاستوں کی طرف آنا جانا تھا، تو اُنھیں تجارت کا یہ طریقہ سمجھ آگیا۔طبیعت میں دلیری تھی، سو اِس دریا میں کود پڑے۔

بھارت میں سونے کی زبردست کھپت تھی، تقسیم کے بعد کے فسادات کی گرد بیٹھ چُکی تھی، جنہوں نے ہجرت نہیں کی تھی، وہ وہیں تھے اور برسوں کے جانے پہچانے تھے، جن پر پہلے سے قائم اعتماد نے سونے کی ترسیل آسان بنادی اور یوں قاسو ادھارا، قاسم بھٹّی بن گئے۔ برادری اور جزیرہ بِھٹ کی غریب بچیوں کی شادی کروانے میں اُن کا کردار مثالی تھا۔

ایک موقعے پر15 بچیوں کی اجتماعی شادی کروائی، جس پر15 دن تک جزیرے میں جشن کا سماں رہا۔ اُس زمانے کے نام وَر فن کار، جن میں مہدی حسن اور میڈم نورجہاں بھی شامل تھے، بطورِ خاص اِس تقریب میں شامل ہوئے۔‘‘سلیمان عبداللہ کیماڑی اور اطراف کے علاقوں کی تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حاجی قاسم بھٹی سے متعلق اُنھوں نے بات یوں آگے بڑھائی۔’’حاجی قاسم بھٹّی کے صدرِ پاکستان، اسکندر مرزا سے بہت قریبی تعلقات تھے۔

ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جب بھی دورانِ سفر کوسٹ گارڈز وغیرہ کا خطرہ محسوس کرتے، تو سونا سمندر بُرد کردیتے۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سُنا تھا کہ ایک موقعے پر جب متعلقہ سیکیوریٹی اداروں نے قاسو اُدھارا کے گرد سمندر میں گھیرا تنگ کردیا، تو اُنہوں نے سونے سے بَھری ایک لانچ سمندر میں ڈبو دی۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ پر ٹگ اور ڈریجر پر کام کرنے والے ایک سابق ملازم نے مجھے بتایا کہ اکثر ڈریجنگ کے دَوران کیچڑ سے قاسو اُدھارا کی طرف سے سمندر میں پھینکی گئی اشرفیاں نکل آتی تھیں۔یہ بھی مشہور ہے کہ ایک بار اُن کی ایک بڑی لانچ پکڑی گئی، مگر گھنٹوں کی جانچ پڑتال کے باوجود لانچ سے سونا برآمد نہ ہوسکا۔

بعدازاں، قاسو نے اُس لانچ کو اسکریپ کرکے اُس میں ٹھونکی گئی سونے کے بڑی بڑی کیلیں نکال لیں۔میرے حافظے میں 22نومبر1958 ء کی ایک خبر ہے، جس میں گو قاسو اُدھارا کا ذکر تو موجود نہیں، مگر وہ اُن ہی سے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ خبر کے مطابق سمندر سے”مزید سات من سونا“ برآمد ہوا، اِس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ وہی سونا ہوگا، جس کا ذکر اپنے بڑوں سے سُنا تھا۔ مجھے کچھ افراد نے بتایا کہ ساٹھ کی دھائی کے ابتدائی دنوں میں چوبیس انچ قطر کی پانی کی لائن میونسپل کارپوریشن سے اجازت لینے کے بعد بھٹہ ویلیج کے لیے قاسو ادھار کے مالی تعاون سے لگائی گئی۔‘‘

ہم نے جزیرہ بِھٹ پر حاجی قاسم بھٹّی کی مجلس کا مقام دیکھا اور وہاں موجود افراد سے بات چیت کی، تو سب کو اُن کے حق میں رطب اللسان پایا۔ ہر کوئی اُن کی تعریف ہی کرتا ملا، جب کہ علاقے کے منتخب کاؤنسلر، عبدالکریم لودھیا نے اِس بات سے اختلاف کیا کہ حاجی قاسم بھٹّی کا نام’’ قاسو اُدھارا‘‘ چیزیں اُدھار لینے کی وجہ سے پڑا۔ اِس ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ’’دراصل کوئی بھی شخص اپنے کام کے لیے اُن کے پاس آتا، تو وہ اُس کام کو اپنے ذمّے لے لیتے۔

ہماری زبان میں جو شخص لوگوں کے اِس طرح بڑھ چڑھ کر کام کرے، اُسے ’’اُدھارا‘‘ کا لقب دے دیا جاتا ہے۔‘‘ وہاں موجود افراد نے بھی اس مؤقف کی تائید کی۔ قاسو اُدھارا کی گرفتاری سے متعلق یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ’’ایک بار اُنھوں نے اسکندر مرزا کی بیوی، ناہید مرزا کو ایک محفل میں ہیروں سے جڑا سونے کا ہار تحفے میں

Читать полностью…

علم و کتاب

آپ کے والد قاضی محمد ابوبکر خطیبی مرحوم عرف اوپا خلفو اپنے والد خطیب حسن کے انتقال کے بعد 17 سال کی عمر میں جامع مسجد کے منصب خطابت پر فائز ہوئے تھے،قاضی بھٹکل قاضی عمر کے انتقال کے بعد خان صاحب محی الدین قاسمجی مرحوم کے اور عوامی اصرار پر آپ نے قضاء کا عہدہ سنبھالا،تقوی اور پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے،چال میں اتنی نرمی تھی کہ چیونٹی بھی آپ کے قدموں کے نیچے آکر محفوظ رہتی تھی،لکڑی کاٹنے اور بکری چرانے جیسے مشغلوں کو بھی اپنایا ہوا تھا،آپ کو سرقاضی کی حیثیت سے ٹیپو سلطان کے عہد سے جاری وظیفہ سرکاری خزانے سے ملتا تھا،آپ 65 سال تک منصب خطابت پر اور پچاس سال تک منصب قضاء پر فائز رہے۔ ہم نے جب آنکھیں کھولیں تب قضاء کے ساتھ قاضی محلہ کی چھوٹی سی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے، صورت دھان پان سی ، لمبائی کوئی پانچ فٹ کے قریب ، پنڈلیوں سے قریب لمبا عربی کندورہ جیسا جبہ پہنتے ، سرپر صافہ بھی باندھنے کی عادت تھی، 1974ء میں اس دارفانی سے کوچ کیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند اکبر قاضی محمد احمد خطیبی صاحب کو جماعت المسلمین نے قاضی بھٹکل منتخب کیا، آپ تا دم آخر اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ آپ ابتدا سے بھٹکل میں تبلیغی جماعت کے امیر رہے، میونسپل کونسلر،اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل وغیرہ اداروں کے مجلس شوری کے ممبر بھی رہے۔
اللہ نے آپ کو اپنے والد ماجد کی طرح صالحیت اور صلاحیت سے نوازا تھا، دل کے سخی تھے،نکاح وغیرہ کے بعد جو ہدیہ ملتا عموما راستے ہی میں کسی محتاج کو دے آتے، آپ نے کئی ایسے خاندانوں کی خبرگیری کی جن کے سرپرست اور والد انہیں چھوڑ گئے تھے ، یا حالات نے انہیں اپنے اہل عیال سے مدتوں ملنے نہیں دیا تھا، جسم اپنے والد ماجد ہی کی طرح دھان پان تھا، جسم میں پھرتی تھی، اقرباء رشتہ داروں کی خبرگیر ی کرنے کے لئے ان کے گھروں کو پابندی سے جاتے، اپنی جاگیروں کی دیکھ بھال کے لئے میلوں پیدل چلتے، مہمان نوازی میں ان کا جواب نہیں تھا ، ہم جیسے خورد مذاق میں ان سے کہتے کہ سب جگہ لوگ قاضی صاحب کے پاس ہدئے و تحائف لے کر جاتے ہیں ، لیکن آپ واحد قاضی ہیں جن کے یہاں سے لوگ تحفے تحائف لے کر آتے ہیں، رواداری اور اقرباء کا خیال کوٹ کوٹ کاان میں بھر ا تھا، اپنے باغات کے موسمی پھل فروٹ اپنے دور دور کے خاندان والوں پر پابندی سے تقسیم کرتے۔
فیصلوں میں بردباری اور سنجیدگی کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے ، میاں بیوی کے تنازعات میں طلاق تک نوبت نہ پہچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے، دفتری امور میں نفاست کا خاص خیال رکھتے، نکاح نامے خود اپنے ہاتھ سے لکھتے، اس میں خوش خطی کا خاص خیال رکھتے۔ فن وراثت میں انہیں بڑا عبور حاصل تھا ۔
امر بالمعروف اور نہی المنکر کا فریضہ زندگی بھر ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا، کہیں بازار وغیرہ میں کسی خاتون کو غیر مہذب حالت میں تو وہیں اپنی رومال یا چھتری کا استعمال کرکے ڈانٹ دیتے، جسم دیکھنے میں پھول جیسا، لیکن رعب ایسا کہ بڑے بڑے پہلوان اپنی چالیں ان کے سامنے بھول جائیں۔
انہوں نے جس بھٹکل میں جنم لیا تھا وہ امن کا گہوارہ تھا، یہاں بسنے والی اقوام میں احترام اور رواداری کا چلن تھا، لیکن زندگی کے آخری ایام میں بابری مسجد کے سانحہ نے پورے ہندوستان کے سماجی اور معاشرتی نقشہ کو تہ و بالا کردیا، اس سے آخر بھٹکل کیونکر محفوظ رہتا ، فسادات کی چنگاری یہاں بھی پہنچی اور امن و آشتی کے اس گہوارے کو دشمن کی نظر لگ گئی ، اور کئی مہینوں تک یہ شہر جلتا رہا ، اس منظر کو وہ دیکھ نہ سکے ، ان کی قوت برداشت جواب دے گئی اور اس کا دل و دماغ پر ایسا اثر ہوا کہ اعضاء و جوارح ماوف ہوگئے، جسم نے طبعی حالت میں کام کرنا بند کردیا آہستہ آہستہ غیبوبت نے ان کا گھیرا کرلیا ، اور زندگی کا تھکا مارا یہ مسافر سترہ سال تک موت سے جنگ کرتے بالآخر زندگی کی بازی ہار گیا۔
آپ کے بھائیوں میں مولانا غزالی خطیبی تبلیغ و دعوت کی محنت کے تعلق سے دنیا بھر میں معروف ہیں، آپ کے فرزند خورد مولانا عبد الرب خطیبی جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے استاد اور نائب قاضی جماعت المسلمین کی حیثیت سے آباء واجداد کی وراثت سنبھالے ہوئے ہیں۔اللہ انہیں اور ان کے دوسرے بھائیوں اور قرابت داروں کو ان کے خاندان کے علم وتقوی کی وراثت کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین
نوٹ: مولانا غزالی صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، اور مولانا عبد الرب اس وقت قاضی جماعت ہیں(ع۔م۔م)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: اپریل/ 13
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی آئی قاضی (علامہ امداد علی امام علی ) ،13، اپریل، 1968ء
انجم رومانی ،13، اپریل، 2001ء
اہلیہ علامہ سید سلیمان ندوی ،13، اپریل، 1917ء
بلراج ساہنی (اداکار) ،13، اپریل، 1973ء
ڈاکٹر نصیر احمد نصیر ،13، اپریل، 1997ء
سید ابوظفر زین ،13، اپریل، 1993ء
سید کرامت حسین، جسٹس ،13، اپریل، 1917ء
صلاح الدین صدیقی، ماسٹر ،13، اپریل، 2014ء
عبد السلام عارف (عراق) ،13، اپریل، 1966ء
فارغ بخاری ،13، اپریل، 1997ء
قاری جیسم الدین قاسمی پور نوی ،13، اپریل، 2019ء
محمد شہاب الدین ، جسٹس ،13، اپریل، 1971ء
مقبول جلیس ،13، اپریل، 2005ء
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ،13، اپریل، 2023ء
مولانا عبدالرحیم فلاحی رویدروی ،12، اپریل، 2020ء
مولانا قاضی محمد احمد خطیبی ،13، اپریل، 2009ء
وسیم فاضلی، پروفیسر ،13، اپریل، 2012ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

کچھ طبیعت کی افتاد اور کچھ قلت استعداد سے،اولاً تو کتابیں کم کیا،اتنی کم پڑھیں ہیں کہ آپ یقین فرماسکیں تو نہ پڑھنے کے برابر ہیں۔ان میں بھی کسی ’’مردہ کتاب‘‘ کا کم ازکم شعور کے کسی گوشے میں اتنااجاگر کوئی نقش نظر نہیں آتا جو لائقِ ذکر ہو،البتہ ذہنی زندگی کے قریب قریب ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی زندہ انسان ضرور کھڑا نظر آیا۔
حافظے کی زیادہ تلاشی لینے سے صرف ایک چھوٹی سی کتاب یاد آئی،جوکوئی چوتھائی صدی قبل پڑھی تھی،برکلے کی ’’پرنسپلس آف ہیومن نالج‘‘جس کا نام لینا بھی غالباً آپ پسند نہ فرمائیں،اسی زمانے میں’’مبادیِ علم انسانی‘‘کے نام سے اس کا ترجمہ بھی کیا تھا۔اس کا اولین اثر تو میری روایتی ارتیابیت کی توثیق تھی،مگرپھر اسی نے حقیقت علم کے سوال کی طرف متوجہ کر کے حقیقی علم و یقین (ایمان)کا راستہ صاف کیا،بلکہ اور آگے چل کر اسی کتاب کے نظریات ودلائل نے علم و یقین کے اصل سر چشمہ(قرآن)کے بعض اہم حقائق وغوامض کی فہم و یافت میں مدد دی۔بعد میں الحمدللہ کہ ان کی خود اپنے بہت سے اکابر کے ہاں تصدیق پاکر مزید اطمینان قلب اور شرح صدر نصیب ہوا۔
اصل میں طالب حق کے لئے کلی اصول ایک ہی ہے:’’الذین جاھدو ا فینا لنھدینھم سبلنا‘‘صدق طلب شرط ہے،پھر مجاہدہ کی کوئی راہ بھی حق رسی کا بہانہ بن جاتی ہے۔۔’’سبل‘‘ کی جمع میں بھی اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔بظاہر اگر کوئی گمراہی کے راستے پر بھی پڑگیاہو،تو وہ بھی اپنی ہی راہ سے’’سبلنا‘‘کی طرف مڑ جاتا یا موڑ لیا جاتا ہے۔مجھ کو تو خود اپنے اور اپنے ایک سے زائد احباب میں اس کا مشاہدہ ہوا۔طلب صادق واخلاص کی بڑی قیمت ہے،پیاس ہو تو پانی کی کیا کمی! ؂
آب کم جو تشنگی آور بدست تاکہ آبت جو شد از بالا و پست
البتہ جھوٹی پیاس استسقا کی ہلاکت ہے۔
یہ تو ماضی تھا، حال یہ ہے کہ’’ذلک الکتاب‘‘کے سوا کوئی کتاب ،کتاب ہی نہیں معلوم ہوتی۔دعا فرمائیے کہ جو کچھ بھی زندگی رہ گئی ہے،اسی زندہ کتاب اور اس کے زندہ (حی لایموت) مصنف کے آستانے پر ختم ہوجائے۔
چوں کہ یہ عریضہ آپ کے لئے ہے،اس لئے اس عجیب کتاب کے بھی عجیب تجربات،اس خیال سے آپ کی خدمت میں عرض کردینے کو جی چاہتا ہے کہ اگر کسی کی توثیق ہوگئی ،تو مزید تشفی کا باعث ہوگی۔
ابتدا میں شب سے زیادہ موحش،اس کتاب کا بظاہر بے ربط اسلوب بیان رہا،لیکن اب تلاوت کرتا ہوں،تو جو چیز اس کے لفظ لفظ کو اور حرف حرف کو ’’کلام اللہ‘‘ ثابت کرتی ہے،وہ سب سے زیادہ عین یہی اسلوب بیان’’اسٹائل‘‘ہے۔کسی طرح یہ بات تصور میں نہیں آتی کہ کوئی انسان بھی ،انسانی دل ودماغ اور بشری نفسیات کے ساتھ اس طرح بہ تکلف دو چار آیات بھی بول سکتا ہے،جس طرح یہ کتاب ابتدا سے انتہا تک بے تکلف ایک فوق البشری انداز بیان میں ناطق ہے۔حد یہ ہے کہ لفظی غیر لفظی کوئی ترجمہ خود اسی کتاب کا ،جب کسی دوسری زبان میں پڑھتا ہوں توصاف امتیاز ہونے لگتا ہے،کہ ترجمے کے اندر پھر انسان شریک ہوگیا،تفسیر وغیرہ کا ذکر ہی کیا۔اپنا حال تو یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ خود کسی طرح میرے ہاتھ میں ایک کتاب رکھ دیتے اور فرماتے کہ یہ’’بین الدفتین‘‘جو کچھ ہے،لفظ لفظ،حرف حرف میرا کلام ہے،تو بھی میرا شکی اور احتمال آفریں ذہن اس کے کلام اللہ ہونے پر شاید ہی اتنا یقین کرسکتا،جتنا اس عجیب وغریب اسلوب بیان کی بنا پر حاصل ہے،مجھ کو تو اس انداز بیان کا نام ہی بجز’’کلام اللہ‘‘کے کچھ سمجھ نہیں آتا!(جاری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

أمثال_العرب_ من عز بز، قصة هذا المثل، ومن قائله

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عامر عثمانی (وفات 12-04-1975) تحریر: ماہر القادری

Читать полностью…

علم و کتاب

نائطی شاعر و ادیب و صحافی کے طور سید عبد الرحیم ارشاد مرحوم کا سورج سنہ ساٹھ کے اواخرمیں ممبئی ہی سے طلوع ہوا ، ارشاد صاحب فطرتا ایک شاعر تھے ، لہذا شاعرانہ اوصاف ان میں بہ اتم موجود تھے ، نت نئے ماحول میں رہنے کی انہیں عادت تھی ، صوفی سنتوں سے انہیں ابتدا میں بڑا لگاؤ تھا ، کم لوگوں کو معلوم ہے کہ (چمٹے والے بابا) کے آستانے سے موصوف کو پرواز صاحب ہی نکال کے لائے تھے اور انہیں ممبئی کی قومی جماعتی و ثقافتی زندگی سے وابستہ کیا تھا ، اور نوائط مرکز کی ادبی و سماجی سرگرمیوں میں آپ ان کے شانہ بہ شانہ رہے تھے ۔ 1974ء جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے جامعہ آباد کے ساتھ جب فاروقی مسجد کملپکس میں جامعہ کا دفتر قائم ہوا تو غالبا ماسٹر شفیع صاحب کے ذمہ داری سنبھالنے سے قبل کچھ عرصہ یہاں پر آپ نے ذمہ داری سنبھالی ، اور اس دوران آپ تعاون حاصل کرنے کے لئے وفد لے کر کلکتہ کا دورہ کیا ، جامعہ کے وفد کے لئے یہاں کے بھٹکلی احباب کے احترام ، ان کی میزبانی اور محبت کے تاثر ہی میں کلکتہ پر آپ کی وہ شاہ کار نظم تخلیق پائی تھی جس کا عنوان تھا
(کشی میں سوڑوں کلکتہ )
پرواز صاحب نے اردو اور نائطی دونوں زبانوں میں شعری تخلیقات کیں ، لیکن چونکہ کسی تاثر ہی کے نتیجہ میں آپ سے شعر وں کی آمدہوتی تھی لہذا آپ کا کلام بہت محدود رہا ، لیکن چونکہ آپکے افکار و خیالات نائطی تہذیب و ثقافت کی سوندھی مٹی سے گوندھے ہوئے تھے لہذا آپ کے قلم سے جو بھی گیت یا نظم وارد ہوا اسے اپنے دور میں بے پناہ مقبولیت ملی اور وہ گھر گھر کی عورتوں اور مردوں کی زبان پر چڑھ گیا ۔
(موجی ہمدرد بہنیانو ایکا خبر گے )
آپ کا پہلا گیت تھا جو سنہ 1960ء کے اوائل میں آپ کی قلم سے نکلا تھا ، بنیادی طور پر یہ کورس کی شکل میں ایک طویل منظوم مکالمہ ہے جو دلہن اور اس کی سہلیوں کے درمیان ہوتا ہے ، ابھی چند سال قبل تک یہ نکاح کی شب دلہن کو جب تخت پر بٹھایا جاتا تھا ، اور اس کے سامنے خوش الحان خواتین (جلوہ) کی شکل میں جھوم جھوم کر گاتی تھیں ۔ جلوہ ان لوک گیتوں کو کہا جاتا ہے ، جو شب نکاح دلہن کے سامنے خواتین گاتی ہیں ۔ ہر خواص و عام کی زبان پر اس طویل گیت کے بند یاد ہوا کرتے تھے ۔اس طرح ( سنت رسول اللہ توکا مبارک ) بھی اپنے دور کو مقبول ترین جلوہ تھا۔
پرواز صاحب کی جو نظم انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی وہ ہے ( رڑتے گذرتا موجی گھڑی ۔ زرا پلا تمیں چڑواں ہاری ) پرواز صاحب نے بلا کا موثر نائطی لہجہ پایا تھا ، جب وہ یہ گیت پڑھتے تھے توسننے والوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے تھے ، ایسا محسوس ہوتا ہے ان کے زندگی میں کبھی ایسے لمحات گزرے ہیں جب اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنا ان پر دشوار ہوگیا ، ایک ذمہ دار اور حساس دل رکھنے والا شاعر اس الم کی شدت کو برداشت نہ کرسکا ، اور نائطی زبان کو خون جگر سے نکلا ہوا ایک شعری شاہکار مل گیا ۔ یہ ایک ایسی نظم ہے جو انسان میں احساس ذمہ داری جگاتی ہے ۔ اور اپنے اندر ایک عظیم پیغام سموئے ہوئے ہے ۔
1977ء میں آپ نے تلاش معاش کے لئے دبی کا سفر کیا اور وہاں 1998ء تک جملہ (21) سال بڑی عزت نفس کے ساتھ شیخ احمد محمد زکریا صاحب کی دکان میں معمولی مشاہرے پر گزارے ، بھٹکل کے ایک اور عظیم شاعر محمد حسن معلم مرحوم بھی انہی کفیل کے پاس ملازم تھے ، لیکن جب کفیل نے کاروبار سمیٹا تو مسجد بن دلموک میں امام مسجد مسعود خمیس مرحوم کی جگہ پر جزوقتی اذان و امامت اور دو ایک ٹیویشن پر گزارا کیا ۔ ابتدائی دنوں میں وہ یہاں کے بھٹکلی احباب کی ثقافتی و ادبی میں شریک ہوا کرتے تھے ۔ آپ کے کفیل اخیر وقت تک آپ کو یاد کرتے تھے اور ذکر خیر کرتے تھے ۔
گزشتہ 19 سالوں میں جب تک وہ چلنے پھرنے کے قابل رہے ، بھٹکل کی ادبی محفلوں میں شریک رہے ، نوائط محفل وغیرہ میں بھی فعال رہے ، گزشتہ سال خبر آئی تھی کہ نوائط محفل کی طرف سے آپ کے اعزا میں ایک پروگرام بھی رکھا گیا تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ اپریل: 12
.............................
ابراہیم خلیل ،12، اپریل، 1981ء
احفاظ الرحمن جبلپوری ،12، اپریل، 2020ء
اسرار احمد ، پروفیسر ،12، اپریل، 2010ء
تعشق لکھنوی ،12، اپریل، 1892ء
جنید نعمانی ،12، اپریل، 1933ء
ذیشان ساحل ،12، اپریل، 2008ء
راجا رشید محمود ،12، اپریل، 2021ء
سید سجاد حیدر یلدرم ،12، اپریل، 1943ء
ضیاء شاہد ،12، اپریل، 2021ء
فیض امروہوی(سید مستفیض الحسن نقوی) ،12، اپریل، 1992ء
مبارک عظیم آبادی ،12، اپریل، 1958ء
محمد ابوزہرہ مصری ،12، اپریل، 1974ء
محمد علی پرواز ،12، اپریل، 2017ء
محمود حسین ،12، اپریل، 1975ء
مولانا حبیب اللہ گنٹور ،12، اپریل، 2020ء
مولانا عامر عثمانی ،12، اپریل، 1975ء
مولانا عامر عثمانی ،12، اپریل، 1975ء
مولانا عبد العزیز حیدر آبادی ،12، اپریل، 2011ء
مولانا عبدالرحیم فلاحی رویدروی ،12، اپریل، 2020ء
مولوی جنید نعمانی ،12، اپریل، 1933ء
مولوی حسیب االله عظیم آبادی ،12، اپریل، 1941ء
نظیر صدیقی ،12، اپریل، 2001ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*فقہ اسلامی میں تعمق پیدا کرنے کی ضرورت*

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ، ندوہ میں اپنی آخری تشریف آوری کے موقع پر جو اہلِ ندوہ سے خطاب فرمایا تھا، اس متعلق مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی مدظلہ لکھتے ہیں:

"اس میں سید صاحب نے طلباء اور اساتذہ حضرات کو حال و مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہمیں اس وقت، سب سے زیادہ ضرورت، اس بات کی ہے کہ فقہ اسلامی میں تعمق پیدا کریں۔ اور اس کے ترجمان بننے کی کوشش کریں، تاکہ ہم اللّٰه کی شریعت کا جیتا جاگتا نمونہ، اپنی زندگیوں میں لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔

ممتاز علماء و رفقاء/صفحہ: ۲۰/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مفکر ِ اسلام حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ۔ حیات و آثار
ڈاکٹر محمد سہیل شفیق* - اپریل 11, 2025


مفکر اسلام حضرت مولانا محمد اسحاق صدیقی سندیلوی (١٩١٣-١٩٩٥ء)
حیات و آثار
تالیف : حافظ محمد عبد المقیت
صفحات : 493
قیمت : درج نہیں
ناشر : عظمت رفته نشر و اشاعت، پاکستان
aqooshesandhelvi@gmail.com

گزشتہ صدی کے ممتاز ترین علماء میں ایک اہم نام مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندویؒ (1913ء۔ 1995ء) سابق شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا بھی ہے۔ مولانا سندیلوی ایک جلیل القدر عالمِ دین، محدث، فقیہ، مدرس، مؤرخ، بلند پایہ محقق، شاعر اور حاذق طبیب تھے۔ فلسفۂ قدیم و جدید، شعرو ادب، معاشیات و سیاسیات، بشریات و نفسیات، تاریخ عالمِ اسلامی اور جدید افکار و نظریات کا وسیع مطالعہ اور گہرا تدبر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ارباب ِندوہ نے انھیں نہ صرف شیخ الحدیث کے منصبِ جلیلہ پر فائز کیا بلکہ وہ 1970ء تک ندوہ کی مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ کے ناظم بھی رہے۔
1970ء میں مولانا محمد اسحاق سندیلوی ہجرت کرکے پاکستان آگئے، جہاں مولانا محمد یوسف بنوری (بانی جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن، کراچی) نے آپ کو اپنے ادارے کے شعبۂ تحقیقات میں خدمات انجام دینے کی دعوت دی۔ اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے مولانا سندیلوی 1971ء میں جامعہ اسلامیہ دارالعلوم بنوری ٹاؤن سے وابستہ ہوگئے اور 1984ء تک وہاں تدریسی و تحقیقی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد آپ نے مختلف دیگر علمی اداروں میں بھی اپنی خدمات فراہم کیں، جہاں آپ نے اسلامی علوم کی ترویج اور طلبہ کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
مولانا سندیلوی کی تدریسی خدمات کا دائرہ تقریباً چالیس برسوں پر محیط ہے، جن میں آپ نے ہزاروں طلبہ کو علم و حکمت سے آراستہ کیا۔ آپ کے تلامذہ میں ایسے نامور علمائے کرام شامل ہیں جنہوں نے مختلف علمی اور تحقیقی میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان میں پروفیسر ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی، مولانا محمد رابع حسنی ندوی، مولانا واضح رشید ندوی، مفتی ظفیر الدین مفتاحی، ڈاکٹر مشیرالحق ندوی کشمیری شہید، مولانا تقی الدین ندوی مظاہری، مولانا سعید الرحمٰن اعظمی، مولانا فضل ربی ندوی، مولانا طیب کشمیری، مفتی رضاء الحق وغیرہ کے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
مولانا سندیلوی کا ذوقِ شعروادب بے حد عمدہ تھا اور وہ خود بھی شعر کہا کرتے تھے۔ ان کا تخلص ’’شہیدؔ‘‘ تھا۔ علاوہ ازیں، مولانا کو عربی، اردو اور انگریزی زبانوں پر کامل دسترس حاصل تھی اور ان تینوں زبانوں میں ان کی متعدد تصانیف موجود ہیں، جن میں: اسلام کا سیاسی نظام، اسلامی نظام، مسئلہ تصویر علم و عقل کی روشنی میں، دینی نفسیات، ایما ن و ایمانیات، اظہارِ حقیقت (تین جلدیں)، اسلامی عبادات، دعوتِ فکر، نورِحیات، کلمہ اسلام، اسلامی ذہن، اسلامی عقیدہ اور فکر ونظر، حفاظتِ دین کا فریضہ، الفکرۃ السنیہ والحاجۃ المسمیعہ، Behind the curtain، اہلِ سنت اور نظریہ امانت، التنویر، تنویرالعینین فی تفسیر معوذتین، آخری نبی، مسئلہ ختم نبوت علم و عقل کی روشنی میں، مجلس تحقیقاتِ شرعیہ کے دو اہم فیصلے، مشہور ہیں۔
فتنۂ قادیانیت اور سبائیت کے ردّ و ابطال میں مولانا محمد اسحاق سندیلوی کا قلم ہمیشہ سرگرم رہا، جس سے ان کی اسلامی حمیت اور حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے غیر معمولی عقیدت و محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ مولانا کی یہ تحریریں نہ صرف علمی میدان میں اہمیت رکھتی ہیں بلکہ ان کی ثابت قدمی اور اصولوں پر استقامت کی بھی آئینہ دارہیں۔ مستقل تصانیف کے علاوہ مولانا کے بے شمار مقالات مختلف اہم جرائد میں شائع ہوئے، جن میں الرائد (لکھنؤ)، البعث الاسلامی (لکھنؤ)، تعمیرِ حیات (لکھنؤ)، نظام (کانپور)، الفرقان (لکھنؤ)، تجلی (دیوبند)، معارف (اعظم گڑھ)، صدق، صدق جدید (لکھنؤ)، بینات (کراچی)، الحق (اکوڑہ خٹک)، الاحرار (لاہور)، خدام الدین (لاہور)، نقیب ختمِ نبوت (ملتان)، نوائے وقت (لاہور) اور ریڈر ڈائجسٹ وغیرہ شامل ہیں۔
پیشِ نظر کتاب ’’مفکرِ اسلام حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلویؒ: حیات و آثار‘‘ اپنے موضوع پر ایک عمدہ کاوش ہے۔ برسوں تک ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مدرسہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تدریسی و تصنیفی خدمات انجام دینے والی اس عظیم شخصیت کے حالات، کارنامے اور خدمات تقریباً معدوم ہوچکے تھے۔ عام کتب و رسائل میں بھی مولانا مرحوم کا سوانحی تذکرہ بوجوہ کم ہی ملتا ہے۔ تاہم محترم حافظ عبدالمقیت نے مولانا کی زندگی کے احوال مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اسے احسن طریقے سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
فاضل مؤلف نے مولانا محمد اسحاق سندیلوی کے احوال و آثار کو بڑے سلیقے سے ترتیب دیا ہے، اور اس میں طوالت، غیر ضروری تفصیلات اور غیر مفید باتوں سے اجتناب کرتے ہوئے مولانا کی زندگی کی مختلف جہتوں کو حوالوں کے ساتھ درجِ ذیل 16 ابواب میں مرتب کیا ہے:

Читать полностью…
Subscribe to a channel