ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

ڈاکٹر عابد اللہ انصاری غازی
وفات( 11-04-2021)
تحریر: ڈاکٹر عبید اقبال عاصم
لنک
https://archive.org/download/dr-abidullah-ghazi-by-dr-ubai-iqbal-asim/Dr%20Abidullah%20Ghazi%20By%20Dr%20Ubai%20Iqbal%20Asim.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: مورخہ اپریل / 11
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا احتشام الحق تھانوی:11، اپریل 1980ء
احمد دین انجم:11، اپریل 1989ء
احمد رشدی:11، اپریل 1983ء
افتخار بھٹی علامہ:11، اپریل 2006ء
اکرم قادری:11، اپریل 2006ء
امتیاز راہی(امتیاز احمد):11، اپریل 1996ء
انجمن آراء بیگم:11، اپریل 1966ء
محمد حنیف بلو، حاجی:11، اپریل 2006ء
مولانا محمد عباس قادری:11، اپریل 2006ء
صاحبزادہ فرید الحسنین کاظمی:11، اپریل 2006ء
حافظ محمد تقی:11، اپریل 2006ء
نجیب اختر:11، اپریل 1990ء
نیاز احمد:11، اپریل 2000ء
یونس احمر(محمد یونس ):11، اپریل 2003ء
مولانا وسیم احمد ، شیخ الحدیث:11، اپریل 2020ء
مولانا حفظ الرحمٰن پالن پوری:11، اپریل 2020ء
ڈاکٹر عابد اللہ انصاری غازی:11، اپریل 2021ء
احمد بن بیلا (الجزائر):11، اپریل 2012ء
احمد رشدی (گلوکار):11، اپریل 1983ء
انور خوجہ (البانیا):11، اپریل 1985ء
ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی:11، اپریل 2021ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ (زیر ترتیب) از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*ڈاکٹر عابد رضا بیدار کی یاد میں*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

محترم معصوم مرادآبادی کے 28 مارچ کو لکھے ایک کالم سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر عابد رضا بیدار صاحب طویل علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں،آپ کی ولادت سنہ 1933ء رام پور میں ہوئی تھی، وہ ایک دانشور اور علم وکتاب کو اوڑھنا بچھونا بنانے والی شخصیت تھے، 1972ء میں آپ خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے تھے، اور آج سے ربع صدی پیشتر یہاں سے سبکدوشی کے وقت تک آپ اس عظیم کتب خانے کی شناخت بن چکے تھے، اور خدا بخش کے ساتھ عابد رضا بیدار کا نام لازم وملزوم بن گیا تھا۔ اس کتب خانے کو متحرک کرنے اور اس کی شہرت کو عام کرنے میں آپ نے اپنی ساری توانیاں صرف کیں۔ اور یہاں سے بہت سارے بیش بہا کتابیں اور مجلات اور دستاویزی نوعیت کا علمی مواد شائع کیا۔ جس سے کتب خانے کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ البتہ آپ کی سرپرستی میں شائع ہونے والے مجلات کے اشاریوں، اور علمی کاموں کے معیار کا جہاں تک تعلق ہے ، ہماری ناقص رائے میں اس میں جس تحقیق وجستجو اور عرق ریزی کے لحاظ سے ان کا معیار زیادہ بلند نہیں ہے، اور ان کے شائع کردہ اشاریوں اور فہرستوں کی موجودگی میں اس نوعیت کے دوسرے کاموں کی ضرورت ختم نہیں ہوتی۔
مرحوم دانشوروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جسے آج کے دور میں روشن خیالی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور جن میں فکری واعتقادی رواداری میں کسی حد تک مبالغہ پایا جاتا ہے، آپ کے دور میں ڈاکٹر سید ہاشم علی اختر کے قرآنیات پر توسیعی خطبات کے انعقاد پر کافی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
2002ء میں یہ ناچیز مرکز جمعۃ الماجد للثقافہ والتراث میں جزء وقتی خدمات انجام دے رہا تھا، یہ زمانہ مرکز کے اولین ڈائرکٹر ڈاکٹر عبد الرحمن فرفور کا تھا،اس زمانے میں بیدار صاحب کا مرکز کے ساتھ اچھا ثقافتی تعاون رہا تھا، اور بیدار صاحب مصورات کے تبادلہ میں خوب تعاون کررہے تھے، رٹائرمنٹ سے کچھ پہلے آپ کی دبی آمد ہوئی تھی، اور مرکز کے بانی شیخ جمعہ الماجد نے آپ کی خوب مہمان نوازی کی تھی۔ اس موقعہ پر آپ کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔
اس موقعہ پر یہ جوڑا ہمارے یہاں کی ایک بیہودہ سی مثل کے آخری ٹکڑے (( بڑھاپے کی محبت اصل محبت)) کا ہو بہو نمونہ نظر آیا۔ بیگم صاحبہ اپنے میاں کی تعریف میں آسمان کے قلابے ملا رہی تھیں، انہیں کہتے سنا کہ صبح کو ہمارے میاں تیار ہو کر صاف ستھرے لائبریری جاتے ہیں، لیکن شام کو جب لوٹتے ہیں، تو کتابوں کی دھول سے ان کا چہرہ اتنا پٹ جاتا ہے کہ میں انہیں خود پہچان نہیں پاتیں۔ ممکن ہے یہ حقیقت بھی ہو۔
رٹائرمنٹ کے بعد سننے میں آیا کہ بیدار مرحوم نے رامپور میں اپنی رہائش گاہ پر درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
مرحوم نے علمی وادبی سیمنیاروں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا،وہ سر پر ہیٹ رکھے بغل میں ٹیپ ریکارڈ دبائے ان میں شریک ہوتے تھے۔
۱۹۸۱ء میں دار المصنفین اعظم گڑھ میں اسلام اور مستشرقین کے عنوان پر جو تاریخی سیمنار منعقد ہوا تھا، اس کی جملہ مجالس کی آپ نے آڈیو ریکارڈنگ محفوظ کی تھی، اسی زمانے میں اس ناچیز نے بھی پیغام اسلام کیسٹ سیریز ، اور کاروان سخن کیسٹ سیریز کا سلسلہ شروع کیا تھا، اور برصغیر اور دیگر ممالک سے نادر تقاریر اور شعروادب کی مجالس کی ریکارڈنگ کے حصول کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔
برسبیل تذکرہ یہ بات آئی کہ خطابت بھی ایک طرح کی شاعری ہوا کرتی ہے، جب خطیب کے دل پر کوئی چوٹ پڑتی ہے اور کوئی تحریک پیدا ہوتی ہے، تو پھر اس کی زبان سے الہامی باتیں نکلنے لگتی ہیں، عظیم خطیبوں کی زندگی میں پانچ دس تقاریر ہی ہوتی ہیں، جو اسے فن خطابت کی چوٹی پر پہنچاتی ہیں، ہمارے حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمۃ کا شمار اردو وعربی کے عظیم خطیبوں میں ہوتا ہے، آپ کی تقاریر پر بھی یہ بات صادق آتی ہے، جس طرح مرزا غالب کے دیوان کے ایک تہائی حصہ نے مرزا کو اردو کا عظیم ترین شاعر بنادیا تھا، حضرت مولانا کی بھی معدودے چند تقاریر نے آپ کو اپنے دور کے عظیم ترین خطیبوں میں لا کھڑا کیا تھا۔
حضرت مولانا کی ان عظیم تقاریر میں دارالمصنفین کے اسلام اور مستشرقین سیمینار کی صدارتی تقریر بھی شمار ہوتی ہے، اس زمانے میں ہم نے بیدار صاحب سے رابطہ کرکے اس سیمینار کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کی بہت کوشش کی، اورآپ کی فرمائش پر اس کے تبادلے میں ہمارے پاس موجود نایاب مواد انہیں بھیج دیا تھا، خدابخش لائبریری میں اس قیمتی مواد کی حصولیابی کی تفصیلی رپورٹ آپ نے قومی آواز لکھنو اور اردو اخبارات کو اس وقت دے دی تھی، لیکن افسوس کے دارالمصنفین کے سیمینار کی ریکارڈنگ ہمیں دستیاب نہ ہوسکی، اب معلوم ہوا ہے کہ اس زمانے کی یہ نادر ریکارڈنگس لائبریری میں محفوظ نہیں ہیں، بیدار صاحب کا بڑی محنت سے اکٹھا کیا گیا یہ مواد بھی بہت قیمتی ہے۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

Читать полностью…

علم و کتاب

مانگے کا اجالا
" اپنی مادہ کی خدمت میں جتنی دوڑ دھوپ آدمی کرتا ہے کوئی اور جانور نہیں کرتا، اسی لئے تو اس کے سینگ غائب ہو گئے ہیں، کھر گھس گئے ہیں اور دم جھڑ گئی ہے. "

( ابن انشاء)

Читать полностью…

علم و کتاب

بیتی یادیں (01)
ڈاکٹر مشیر الحق بحری آبادی ندوی
شہادت : 10 اپریل 1990ء
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=biti-yadain-01webynuliqruaugg963cke7uwutoylsws, Biti Yadain 01

Читать полностью…

علم و کتاب

ہمیں باپ جون چاہئے تھا
[ فینانہ فرنام کے نام ]

وہ لفظوں کے بادشاہ تھے
اک تخت پر بیٹھے
شعروں کے سروں پر تاج رکھتے تھے
محفل میں اترتے تو
ہنر سر جھکاتا،
اور لوگ—
لوگ انہیں دیوتا سمجھتے تھے
جن کی ہر بات، ہر نظم
کسی صحیفے جیسی لگتی تھی

مگر میں؟
میں ان کی مٹی کی بیٹی تھی
جسے آسمان نہیں،
ایک چھت چاہیے تھی

مجھے عروض سے زیادہ
ان کے قدموں کی چاپ سننی تھی
کاش وہ میرے خوابوں میں نہیں
میری نیند میں ہوتے
میرے دوپٹے میں گندھی
ایک دعا جیسے
میری پیشانی پر سائے کی طرح ہوتے

لوگ پوچھتے ہیں
"جون کی بیٹی ہو؟
کیسا لگتا ہے شاعر کی اولاد ہونا؟"
کیسا لگتا ہے؟
یہ سوال ہے
یا زخم پر نمک رکھ دینا؟

کبھی بتاؤں اُن کو
کہ میرے رزلٹ کارڈ پر دستخط کس کے نہیں ہوتے تھے؟
کہ میرے سکول کے فنکشن میں
ایک خالی کرسی ہمیشہ
میرا باپ بن کر آتی تھی؟

ہاں، فخر ہوتا ہے
جب کتابوں میں اُن کا نام دیکھتی ہوں
لیکن دکھ بھی ہوتا ہے
جب دل کی کتاب خالی ہو

شاعری سب کو دے دی
ہمیں ایک آیت بھی نہ دی
محبت کے موجد تھے
پر اپنی اولاد کے لیے
ان کی لغت میں
بس خاموشی لکھی تھی

میں اُن کی نظم نہیں،
بس اک سوال تھی
جس کا جواب
کبھی دیا ہی نہیں گیا

ہمیں شاعر جون نہیں
ہمیں باپ جون چاہئے تھا۔

---ڈاکٹر محبوب کاشمیری ----

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۹ / اپریل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولوی ثناء الحق صدیقی:9، اپریل ،1996ء
سید محمد حسن نقوی مغموم:9، اپریل ،1987ء
ذیشان بدایونی (ذیشان فاطمہ ):9، اپریل ،1973ء
عبدالحکیم بوترابی، پروفیسر:9، اپریل ،2015ء
مریم فاروقی:9، اپریل ،2012ء
مقبول اے شیخ:9، اپریل ،2002ء
منظور احمد خان نیازی، استاد:9، اپریل ،2013ء
مولانا محمد یحیٰی عثمانی:9، اپریل ،2004ء
سید وزیر حسن جعفری:9، اپریل ،2004ء
محمد باقر الصدر:9، اپریل ،1980ء
زلیخا بیگم زوجہ مولانا ابو الکلام آزاد:9، اپریل ،1943ء

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

پروفیسر غازی علم الدین وفات پاگئے

ماہر تعلیم ماہر لسانیات پروفیسر غازی طویل علالت کے بعد آج اسلام آباد میں وفات پاگئے۔وہ کینسر کا شکار تھے اور اس سے پہلے 2014 میں جان لیوا حادثے کا شکار بھی۔اس سب کو انھوں نے کمال صبر سے برداشت کیا۔جب بھی بات ہوئی صابر و شاکر پایا۔

ریاست کے اندر اور اسلام آباد سے کراچی اور بھارت سے یورپ کی تمام اردو دنیا ان سے واقف تھی۔وہ ایک ہی وقت میں ماہر لسانیات، سماجیات تھے۔مکتوب نگاری کا جو فن دم توڑ چکا تو اسے غازی صاحب زندہ رکھنے کو موجود۔

دورونزدیک احباب سے فون اور کتابوں سے سرگرم رابطے میں رہتے۔بوئی آصف ثاقب صاحب مذاق میں غازی صاحب کو کہنے لگے کہ آپ فون کے ذریعے اور میں خط کے ذریعے دوستوں کے لیے زندہ ہیں۔جب فون اور خط نہ آئے تو دوست سمجھ لیں کہ ہم نہیں رہے۔

واقعی سچ کہا بابا جی نے۔وہ فون ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا جو عیدین پر خاص طور پر اور گاہے گاہے مختصر اور طویل گپ شپ کے لیے آتا اور کبھی شکوہ کہ یار اتنے دن ہوگئے آپ نے یاد نہیں کیا میں نے سوچا میں ہی یاد کروا دوں۔

غازی صاحب راہی ملک عدم ہوئے۔کبھی کیمو کبھی ریڈوتھراپی کبھی انجیکشن کبھی ایک اسپتال کبھی دوسرا کبھی ایک معالج کبھی دوسرا۔کبھی علاج کے لیے رقم کے بندوبست: ان سب سے آج آزاد ہوگئے۔واقعی زندگی تلخ ہے اور موت سکون آور۔اللہ آپ کو غریق رحمت فرمائے اور لواحقین کو صبر دے۔ایک باب تھا کہ بند ہوا ایک عہد تھا کہ تمام ہوا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات: مورخہ ۸ / اپریل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختر پیامی (سید سعید اختر) 8 اپریل 2013
مولانا ابوالنذررضوی امروہوی 8 اپریل 1956
جلال الدین چشتی، سید 8 اپریل 1982
جاوید اختر صدیقی 8 اپریل 1977
جے اے رحیم ، جلال الدین عبدالرحیم 8 اپریل 1986
قاری حبیب الرحمٰن صدیقی، کاندھلوی 8 اپریل 1991
حسن احمد مینائی 8 اپریل 1983
حکیم طفیل حسن رضوی امروہوی 8 اپریل 1952
مولانا سید فرید الوحیدی 8 اپریل 2004
جدن بائی 8 اپریل 1949
مولانا مختار احمد قاسمی 8 اپریل 2011
عرش صدیقی 8 اپریل 1997

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے
اے وائے اگر مَعرِضِ اظہار میں آوے
؎ چچا اس قسم کے مشکل الفاظ استعمال کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔نہ صرف خوشی محسوس کرتے تھے بلکہ تعلّی بھی فرماتے تھے:
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
’معروض‘ کے معنی ہیں جو کچھ پیش کیا گیا یا جو کچھ عرض کیا گیا۔ لہٰذا اگر کوئی شخض یہ کہتا ہے کہ ”میں نے یہ معروض کیا“ یا ”میں یوں معروض ہوا“ تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ”میں نے جو بات کہی وہ یہ ہے“۔ پنڈت دیا شنکر نسیم کی مشہور مثنوی ”گلزارِ نسیم“ کا ایک شعر ہے:
معروض کیا کہ یا شہنشاہ
کم مایہ یہ لوگ ہیں بہ ظاہر
لیکن لفظ ’معروضی‘ کا مطلب بالکل الگ ہے۔معروضی کے معنی ہیں وہ مشاہدہ،جائزہ، فکر یا تجزیہ جس میں اپنے نفس، اپنی ذات یا اپنی انا کو کوئی دخل نہ ہو، بے لاگ، مخلصانہ اور بے تعصبانہ ہو۔غرض کہ لفظ ’عرض‘ کے اتنے مشتقات ہیں کہ سب کا احاطہ کالم میں ممکن نہیں۔
”عرضِ مطلب، عرضِ مدعا اور عرضِ نیاز“ جیسی تراکیب مطلب، مدعا اور محبت و عقید ت کے اظہار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ جامعہ کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ہمارے ایک ہٹے کٹے شاعر دوست جس ہم جماعت طالبہ سے پینگیں بڑھانا چاہتے تھے، اُنھوں نے دیکھا کہ کسی اور شعبے کا شاعر اُسے اپنی غزلیں سنا رہا ہے۔ رقیب کے قریب پہنچ کر اُنھوں نے جو کچھ کیا اُس کا خلاصہ خود یوں بیان فرمایا:
”حاطب بھائی! میرا خون کھول اُٹھا۔میں نے وہیں اُس کی ایسی پھینٹی لگائی کہ وہ پھر…… عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا“۔
٭٭

Читать полностью…

علم و کتاب

*کیا احیائے اسلامی کی تحاریک ناکام ہوئیں؟*

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لکھا:

میرا خیال یہ ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ لوگ اسلام کا نام لے کر اٹھے، مگر مسلمان ہو کہ نہیں اُٹھے۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے کہ شیر کی کھال اوڑھ کر شیر بننا چاہتے ہیں۔ جو دین دار ہیں، وہ دنیا سے جاہل اور جو دنیا دار ہیں، وہ دین سے عاطل۔ حضرت فاروق رضی اللّٰه عنہ کی شان میں ایک سفیرِ اسلام نے کہا کہ وہ نہ کسی کو دھوکا دیتے ہیں اور نہ وہ خود کسی سے دھوکا کھاتے ہیں۔ جہاں دین ہے، وہاں عقلِ عملی نہیں۔ جہاں عقلِ عملی ہے، وہاں دین نہیں۔ جہاں جوش ہے، وہاں ہوش نہیں۔ اور جہاں ہوش ہے، جوش نہیں۔

مکتوباتِ سلیمانی/حصہ: دوم صفحہ: ۲۱۹/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر

یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں

نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں

ہے یہاں پہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں

کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

حبیب جالب

Читать полностью…

علم و کتاب

اسلام کی عید کا مفہوم

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

اسلام کی عید، خوشی و مسرت کی عید ہے، شکرانہ کی عید ہے، تکبیر و تہلیل کی عید ہے، سجدۂ عبودیت کی عید ہے، مگر کس خوشی کے واقعہ کے لیے؟ کس مسرت کے پیغام کے لیے؟ اس واقعہ، مسرت اور پیغامِ خوشی کے لیے کہ خدائے واحد نے اپنے موحدوں کو اپنے پیام سے سرفراز فرمایا، اس ظلمت کدہ میں ان کو نور بخشا، بت پرستی، ستارہ پرستی، مخلوق پرستی اور دوسری ہر قسم کی باطل پرستیوں کی ضلالت سے نکال کر توحید کی ہدایت عطا فرمائی۔

شذراتِ سلیمانی/حصہ: دوم/صفحہ: ۳۳۱/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*لیلۃ الجائزہ کا پیغام*

وقت کے قدر شناس آج کی شب کو بھی خالی نہیں جانے دیتے۔ رمضان کی ایک ایک رات، دولتوں سے مالا مال تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہی نعمتیں، شبِ عید تک پھیلادی جاتی ہیں۔ اللّٰه اللّٰه! جب بندہ نواز، یوں لُٹانے پر آئے تو بندہ مانگنے میں کیوں کوئی کسر اٹھا رکھے۔ آج کی رات، رات ہے دعاؤں کی، مناجاتوں کی، روحانیت کی، ربّانیت کی۔ اِدھر سے عبودیت کی، اُدھر سے ربوبیت کی۔ فضائے کائنات میں ہر ہر میٹر پر، ہر ہر WAVE LENTH پر، بارش ہوئی۔ رات، رات بھر لطف و نوازش کی، عطا و بخشش کی۔

مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ

نشریاتِ ماجد/حصہ: اول/صفحہ: ۳۸/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

تحریر: حضرت مولانا نسیم احمد غازی مظاہری رحمہ اللّٰہ تعالٰی
*آمد عید سعید*
ہلالِ عید آیا ہے نویدِجانفزا لیکر
کہ عید آتی ہے فضل و رحمتِ ربِّ و رٰی لیکر
اے روزہ دارو! ہوگی تم پہ انعام کی بارش
وہ آیا رحمت و فرحت کی نورانی گھٹا لیکر
ہلال عید اے غازی! نشان شادمانی ہے
مسلمانوں کے حق میں یہ سعادت کی نشانی ہے
افق پر ہلالِ عید جلوہ گر ہے‏،وہ آج سب کا منظور ِنظر ہے‏، روزہ داروں کا دیدہ ور ہے‏، فضاؤں پر تابانی بکھر رہی ہے ‏، باغ جہان کی ہر روش نکھر رہی ہے‏،زمین جلووں سے جگمگا رہی ہے ‏، بارش ِانوار میں ہر شئ نہا رہی ہے، مسرتوں کے فوّارے اچھل رہے ہیں‏،خوشیوں کے چشمےاُبل رہے ہیں‏، جُود و کرم کا فرش بچھا ہوا ہے‏، سارا گلشن سجا ہوا ہے‏، مست نسیمِ محبت اٹھلا رہی ہے‏، گلستان ِدل کی ہر کلی مسکرارہی ہے‏،ہر سو رحمت کے گلدستے سجے ہوئے ہیں‏، سرور وکیف کے میلے لگے ہوئے ہیں، مغفرت کی خوش گوار بھینی بھینی ہوائیں چل رہی ہیں‏، دلِ غمگین کی حسرتیں نکل رہی ہیں‏، عنایتوں کی نورانی گھٹائیں جھوم رہی ہیں‏،عالمِ ناسوت آج رشک ِچمن بنا ہوا ہے‏، جانِ چمن پر انعام و عطا کی موسلا دھار بارش برس رہی ہے ‏، شاہی دربارِ عام کی تیاریاں شروع ہوگئیں‏، انعامات کے لئے شاہی خزانوں کے دروازے کشادہ ہو چکے ‏، اب شہنشاہ کے وفاداروں کے دامنوں میں نوازشوں کے بیش بہا جواہرات بھرے جائیں گے‏،ان کے سروں پر رحمتوں کے پھول نچھاور ہوں گے،بخششوں کے انمول موتیوں کے ہار اُن کے گلے میں ڈالے جائیں گے۔
امتحانِ صیام و قیام میں کامیاب ہونے والے اہلِ سعادت اپنی مرادوں کی جھولیاں بھریں گے ‏، وہ مغفرت کی سند ِپُر سعد، جنت کا حسیں پروانہ اور رضا و خوشنودئ حق کی دستاویز حاصل کرکے خوش وخرم اپنے اہل و عیال کی جانب واپس ہوں گے ‏،وہ اس عہدِ محکم و عزمِ مصمّم کے ساتھ دربارِشاہی سے رخصت ہوں گے اور اس عالمِ رنگ و بو کی بہاروں میں اپنے مُنعم و مُحسن کی طاعت و عبادت ، ذکر و شکر میں مشغول رہ کر اپنی بے بہا زندگی کے قیمتی لمحات کو کامیاب و سعادت مآب کریں گے۔ اور دنیا میں تادمِ حیات عیدِ سعید کی حقیقی مسرتوں سے اور عقبیٰ میں ہمیشہ ہمیش لقائے رحمٰن کی عظیم الشان و پُر لطف لذّتوں و فرحتوں سے مالا مال رہیں گے۔
اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ .
سرور وکیف کا ساماں کرو کہ عید آئی ہے
دلوں کے درد کا درماں کرو کہ عید آئی ہے۔(تحفہ عید رمضان ص 7،8)
انتخاب : محمد رضی قاسمی

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر محمد عابد اللہ انصاری غازی۔۔۔ بیتی یادیں (۰۱) لنک https://www.youtube.com/watch?v=Y4FZCRg9T3I&list=PLjseW6sQdLXGctd_Syj4AWGOaep-xsg18&index=5

Читать полностью…

علم و کتاب

بیدار صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ اس شعر کے خالق بسمل عظیم آبادی کی آواز میں ریکارڈنگ ان کے پاس محفوظ ہے، اور اسے وہ فراہم کریں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
بیدار صاحب اب اپنے خالق کے پاس جاچکے ہیں، انہوں نے ایک ایک بامقصد زندگی گذاری، اور اپنی زندگی کے لمحے لمحے کو استعمال کیا، خدابخش لائبری جب تک قائم ہے، اس کے ساتھ آپ کا نام بھی زندہ رہے گا۔ ان کی زندگی میں بہت سے اچھے کام بھی ہیں، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان کی بشری لغزشات سے عفوودر گذر کا معاملہ ہوگا۔ وہی غفار و رحیم ہے۔
2025-04-10
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

تنظیم ملیہ مسجد نوائط کالونی بھٹکل کی تعمیر نو کی تکمیل کی مناسبت سے جاری اجلاس جاری ہے، ابھی ہماری اس بزم کے رکن رکین مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ کا خطاب ہونے والا ہے، دلچسپی رکھنے والے احباب یہ اس اجلاس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، لنک حسب ذیل ہے https://www.youtube.com/live/Dm36YSybK6Y

Читать полностью…

علم و کتاب

*اچھی صحبت، اچھی زندگی کی ضامن*

حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: صحابہ کرام کو بلند مقام، صحبت کی وجہ سے ملا، اس لیے صحبت کو غنیمت جاننا چاہیے، جن کو مستقل صحبت نہ ملے تو حسبِ سہولت بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے، قرآن کو سمجھ کر پڑھنا بھی صحبت کے قائم مقامی کرتا ہے، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ حدیثِ نبوی، صحبتِ نبوی کے قائم مقام ہے، البتہ نیت اور جذبہ کا بڑا اثر پڑتا ہے، دینی کاموں میں مشغولیت، عاقبت کو بہتر بناتی ہے۔

افادات علم و حکمت/صفحہ: ٢٦/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: 10 / مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر سید صلاح الدین جیلانی:10، اپریل ،1993ء
جبران خلیل جبران (لبنان):10، اپریل ،1931ء
ڈاکٹر مشیر الحق بحری آبادی ندوی:10، اپریل ،1990ء
ڈاکٹڑ محمود حسین خان:10، اپریل ،1975ء
سعید پپلی بھیتی (احمد سعید خان):10، اپریل ،1988ء
شبیہ عباس جارچوی:10، اپریل ،2004ء
محمد حسن:10، اپریل ،1996ء
محمد ذاکرحسین:10، اپریل ،1983ء
محمد واصل رحمانی حافظ:10، اپریل ،1983ء
مخدوم ابو القاسم نقش بندی ٹھٹوی:10، اپریل ،1726ء
مرارجی ڈیسائی:10، اپریل ،1995ء
مولانا دین محمد وفائی:10، اپریل ،1950ء
مولانا عبدالغنی بلگرامی:10، اپریل ،2017ء
مولانا عبدالمعبود بھاگل پوری:10، اپریل ،2012ء
نظر لکھنوی، منشی نوبت رائے:10، اپریل ،1923ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ (زیر ترتیب) از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*قیامِ امن کا واحد ذریعہ*

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا:

بادشاہ کو اگر ساتوں، اقلیموں کی سلطنت بھی مل جائے تو وہ اس پر بھی ایک دوسری اقلیم کی فکر میں رہے گا۔ یہ حقیقت آج بھی عیاں ہے، بادشاہ، بادشاہ سے، قوم، قوم سے اور ملک، ملک سے۔ صرف اس لیے لڑنے میں مصروف ہے کہ اس کو وہ بھی چاہیے، جو دوسرے کے قبضہ میں ہے، اسی سے انسانوں میں بے قراری، قوموں میں تباہ کاری، ملکوں میں پریشاں روزگاری اور بادشاہتوں میں ستم گاری کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے۔ اب چاہے کوئی کتنی ہی لیگ آف نیشنس اور سان فرانسسکو کی مجلسیں بنائے، دنیا میں امن اور اطمینان اور قوموں میں سکون اور ملکوں میں تسکیں پیدا نہیں ہوسکتی۔ اس کا علاج صرف ایک ہی ہے، سیاسی و اجتماعی قناعت۔ اور آتِ (یُؤْتِ) كُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ اور اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا پر عمل۔ جو جس کا ہے، وہ اُس کو دو۔ ورنہ کوئی قوم، سب کچھ پاکر بھی تسلی نہیں پاسکتی۔

علمِ معاش و معاد کی صحیح حیثیت/صفحہ: ١٦/١٧/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*مجالس العلم قديما:*
مجالس العلم في عهد السلف على قسمين:
الأول: مجالس للعوام تروى الأحاديث فيها بالمعنى،مع فوائد الأحكام . وعدد الحضور فيها كثير. وتكون بعد العصر أو المغرب.
الثاني: مجالس لطلبة العلم،تدرس فيها الكتب بألفاظها مع بيان معانيها وفوائد مؤلفيها، وعدد الحضور فيها قليل. وتكون قبل الفجر أو بعد الفجر إلى الظهر .
أحمد العتيبي

Читать полностью…

علم و کتاب

جدن بائی (وفات 08-04-1949) تحریر شوکت ہاشمی

Читать полностью…

علم و کتاب

*عقیدہ کی تربیت*

اسلامی نظامِ تربیت میں عقیدہ، تربیت کی بنیاد ہے اور اسی پر انسان کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کا انحصار ہے۔ عقیدہ ہی انسان کا اصل محافظ اور نگراں ہے۔ عقیدہ، بیدار آنکھوں کی طرح ہے، عقیدہ ہی انبیاء و رسل کی تربیت کی اساس ہے اور انبیاء تعلیم و تربیت میں ہمارے نمونہ اور آئیڈیل ہیں۔ اسلام نے عقیدہ کو تنہا نہیں چھوڑا ہے، بلکہ اسے عملِ صالح اور ایک دوسرے کو حق و صبر کی تلقین سے مربوط کیا ہے، یعنی زندگی میں بلند انسانی قدروں، پاکیزہ زندگی اور انسان کی عزت و شرافت کی حفاظت کے لیے مصائب اور پریشانیوں کو برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے، اس طرح اسلام نے فرد اور جماعت کی شرافت و عظمت کو تحفظ فراہم کیا ہے۔

مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ

نظامِ تعلیم و تربیت، اندیشے تقاضے اور حل/صفحہ: ۱۱۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*غلطی ہائے مضامین*

*اُن سے جو کچھ عرض کرنا تھا زبانی کر دیا*

*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

لودھراں (پنجاب) سے سید عبید بخاری صاحب نے سوال کیا ہے:
”درست کیا ہے، معروض ہوا یا عارض ہوا؟“
درست و نادرست کی بات تو آگے چل کر ہوگی۔ نئے قارئین کی خدمت میں عرض کرتے چلیں کہ عارضہ یہ ہماراپرانا ہے کہ ایک لفظ کی پونچھ پکڑ کر اسے دُور تک ’پوکھیاتے‘ چلے جاتے ہیں۔اب یہی دیکھ لیجے کہ لفظ ’پوکھیانا‘ متروک ہو چکا ہے، حتیٰ کہ لغات سے بھی خارج ہوگیا، مگر عمل(پوکھیانا) یاروں نے اب تک ترک نہیں کیا۔ ’پوکھیانے‘ کے معنی ہیں لٹھ لے کر کسی کے پیچھے دوڑ پڑنا، اُس کا پیچھا کرنا اور اُسے پکڑنے کے لیے اُسے دُور تک دوڑائے لیے چلے جانا۔پوربی لفظ ہے۔ بالعموم بِدکے ہوئے بیل یا کسی اور بھگوڑے مویشی کو پکڑنے کے لیے ڈنڈا لے کر ’پوکھیایا‘ جاتا ہے۔ہم جیسے لوگوں کو تو شیطان بھی دُور تک ’پوکھیاتا‘ ہے۔البتہ متقی لوگ لاحول پڑھتے ہوئے دوڑجاتے ہیں۔
توصاحب! عرض ہے کہ’عرض‘ کے بہت سے معانی ہیں۔ ایک مطلب ہے پیش کرنا، سامنے لانا، دکھانا۔اسی سے التماس، درخواست اور گزارش وغیرہ کے معنی لے لیے گئے کہ درخواست یا گزارش بھی پیش کی جاتی ہے، سامنے لائی جاتی ہے اور دکھائی جاتی ہے۔ ’عرض کرنا‘ بیان کرنے، کہنے اور اپنا مدعا پیش کرنے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ احسان دانشؔ مرحوم کا قاصد (یا نائب قاصد) اُن کے محبوب کاخود دیدار کرنے کے چکرمیں آئے دن اُن کے سر پر سوار ہو جاتا ہوگا۔ پس ایک روز اُنھوں نے اُس کی چھٹی کردی اور یہ اطلاع دے کراُسے ’پوکھیا‘ دیا کہ
آج کی تاریخ سے سب نامہ و پیغام بند
اُن سے جو کچھ عرض کرنا تھا زبانی کر دیا
پھراپنے اِس اقدام پر اُنھوں نے فخر بھی فرمایا کہ ”کیسے مشکل مسئلے کو ہم نے پانی کر دیا“۔نہیں معلوم کہ یہ خیال کیسے عام ہوا کہ عرض کرنے، درخواست کرنے یا درخواست پیش کرے والے کو ’عارض‘ کہنا چاہیے۔ آج بھی کچھ لوگ اپنی درخواست کے نیچے اپنا نام لکھنے سے پہلے ’العارض‘ لکھنے کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ لغت میں تو ’عارض‘ کے ایسے معانی ملتے نہیں۔ پس ”عارض ہوا“ نادرست ہوا۔
’عارض‘ کے ایک معنی رُخسار یا گال کے بھی ہیں۔اسرارالحق مجازؔ کی نظمِ مثلث کے یہ تین مشہور مصرعے آپ نے سنے ہی ہوں گے:
چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
اللہ کرے زورِ شباب اور زیادہ
’عرض‘ کے دوسرے معنی ’چوڑائی‘ کے ہیں۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں ’طول و عرض‘ کا مطلب ہے لمبائی اور چوڑائی۔’عرض‘ کے تیسرے معنی ہیں ’لاحق ہونا‘ یعنی کسی ایک تکلیف کی وجہ سے دوسری تکلیف میں مبتلا ہوجانا۔ حکیم محمد یامین صدیقی مرحوم کہا کرتے تھے کہ
”بخار مرض نہیں ہے، مرض کا عرض ہے“۔
مطلب یہ کہ بخار آنے کا اصل سبب کوئی اور مرض ہوتا ہے،مثلاً گلا خراب ہونا، کھانسی، نزلہ، زکام یا جسم کے اندرونی حصے میں تکلیف ہونایاکوئی زخم پڑ جانا۔اِس ’عرض‘ کی نسبت سے ’عارض ہونا‘ پیدا ہونے یا نمودار ہونے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔یہی ’عارض‘ آگے چل کر ’عارضہ‘ بن جاتا ہے یعنی بیماری یا روگ۔ ’عارضہ‘ عارض کے مؤنث کے طور پر بھی مستعمل ہے۔مگر اُردو میں زیادہ تر مرض یا روگ ہی کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ حضرتِ رندؔ کوجب دل کا روگ لگاتواُن کے دھڑکتے دل کو دھڑکا سا رہتا تھا کہ
کرے اُدھر کو سرایت نہ عارضہ دل کا
بہت قریب جگر سے ہے فاصلہ دل کا
جب کہ اتفاقیہ، چند روزہ یا غیر مستقل چیز کو ’عارضی‘ کہا جاتا ہے، جیسا کہ احسن اللہ احسنؔ نے اپنے عریضے میں کہہ ہی ڈالا:
یہی مضمونِ خط ہے احسن اللہ
کہ حسنِ خوبرویاں عارضی ہے
عرض و عارضہ کی جمع ’عُروض‘ ہے، ع پرپیش کے ساتھ۔ ع پر زبر کے ساتھ جو ’عَروض‘ ہے وہ ایک علم ہے جس میں نظم گوئی کے اصول و قواعد،وزن و بحر کے ارکان اور زحافات وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں۔ عارضہ کی جمع ’عوارض‘ بھی ہے۔’عریض‘ کے معنی تو ’چوڑا ہونے‘ کے ہیں،’طویل و عریض‘ عام بول چال میں بھی استعمال ہوتا ہے، مگر ’عریضہ‘درخواست یا گزارش پر مبنی خط کو کہتے ہیں۔ ایسی چٹھی جو چھوٹے کی طرف سے بڑے کو لکھی جائے۔بڑے لوگ بھی انکسار میں اپنی چٹھی کو ’عریضہ‘ کہہ دیتے ہیں مگر آپ کسی بڑے سے نہ کہہ دیجے گا کہ”حضرت! آپ کا عریضہ موصول ہوا“۔تحریری درخواست کو ’عرضداشت‘ یا ’عرضی‘ کہتے ہیں۔پہلے ڈاک خانے اور کچہری کے ارد گرد ’عرضی نویسوں‘ یا ’عرائض نویسوں‘ کا جمگھٹا ہوتا تھا لوگ اُن سے عرضیاں لکھواتے اور حکام کے آگے ’عرضی گزارتے‘ تھے۔ امیرؔ مینائی کو گلہ تھا
تحریر یار نے نہ پڑھی میری مدتوں
رکھے ہی رکھے طاق پہ عرضی گزر گئی
’مَعرِض‘ کہتے ہیں پیش کرنے کی جگہ، صورتِ حال، کیفیت یا جائے ظہور کو۔جیسے ”معاملہ معرضِ التوا میں پڑ گیا“۔یعنی معاملہ ملتوی ہونے کی حالت میں ہے۔’معرضِ وجود‘ پیدا ہونے کی حالت۔ ’معرضِ اظہار‘ بیان کرنے کی حالت۔ چچا غالبؔ فرماتے ہیں:

Читать полностью…

علم و کتاب

Internet Archive: Digital Library of Free & Borrowable Texts, Movies, Music & Wayback Machine
abdul_mateen_muniri828" rel="nofollow">https://archive.org/details/@abdul_mateen_muniri828

Читать полностью…

علم و کتاب

سکول کا پرنسپل ایک گوشت والی بڑی شاندار شاپ میں داخل ہوا اور وہاں کاؤنٹر پر بیٹھے لڑکے سے کہا بیٹا دو کلو گوشت دینا ۔
وہاں لڑکے نے کہا جی جناب آپ بیٹھیں اور ایک کپ چائے بھی پیش کردی اور اپنے ملازمین سے کہا کہ دو کلو اچھا گوشت بنائیں ۔
گوشت بیگ میں ڈالنے کے بعد ملازمین نے خود جاکر اس کی چھوٹی سی گاڑی میں رکھ دیا۔
پرنسپل نے جب پیسے دینے چاہے تو اس لڑکے نے منع کردیا تو پرنسپل نے پوچھا بیٹا تم نے اتنی میری خدمت کی اور گوشت کے پیسے بھی نہیں لیے ، کیا تم مجھے جانتے ہو ؟
تو اس لڑکے نے کہا آپ میرے استاد ہیں
یاد ہے آپ کو جب میں نے کلاس میں ایک غلطی کی تھی تو آپ نے کہا تھا کہ تب تک کلاس میں تم داخل نہیں ہوسکتے جب تک تم اپنے سرپرست کو ساتھ نہ لے کر آجاؤ تو میں سکول سے بھاگ گیا اور ایک قصائی کے ہاں کام شروع کردیا تھا ۔اب الحمدللہ میری اپنی چار بڑی بڑی گوشت کی دکانیں ہیں، ایک بڑا فارم ہے اور ایک شاندار گھر بھی میں نے لے لیا ہے
تب پرنسپل نے ایک سرد آہ بھری اور کہا جی بیٹا مجھے یاد آگیا . . .
کاش اس دن میں بھی تمہارے ساتھ سکول سے بھاگ جاتا.
اسلم ملک کی وال سے

Читать полностью…

علم و کتاب

وہ کیسی عورتیں تھیں
جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولھا جلاتی تھیں
جو سِل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں
صبح سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھک کر ملنے آتی تھیں
جو پنکھے ہاتھ کےجھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں
جو دروازے پہ رک کردیر تک رسمیں نبھاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

پلنگوں پر نفاست سے دری چادر بچھاتی تھیں
بصد اصرار مہمانوں کو سرہانے بٹھاتی تھیں
اگر گرمی زیادہ ہو تو روح افزا پلاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

جو اپنی بیٹیوں کو سویٹر بننا سکھاتی تھیں
سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں
بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصے بناتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

جوکلمے کاڑھ کر لکڑی کے فریموں میں سجاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلا تی تھیں
اور اپنی جا نمازیں موڑ کر تکیہ لگاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلا تی تھیں
پڑوسن مانگ لے کچھ باخوشی دیتی دلاتی تھیں
جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

محلے میں کوئی مر جائے تو آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں

میں جب گھر اپنے جاتی ہوں تو فرصت کے زمانوں میں
انھیں ہی ڈھونڈتی پھرتی ہوں گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں جز دان میں تسبیح دانوں میں
کسی برآمدے کے طاق پر باورچی خانوں میں

مگر اپنا زمانہ ساتھ لے کر کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری سو گئی ہیں وہ

Читать полностью…

علم و کتاب

لیلۃ الجائزہ کا پیغام

وقت کے قدر شناس آج کی شب کو بھی خالی نہیں جانے دیتے۔ رمضان کی ایک ایک رات، دولتوں سے مالا مال تھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہی نعمتیں، شبِ عید تک پھیلادی جاتی ہیں۔ اللّٰه اللّٰه! جب بندہ نواز، یوں لُٹانے پر آئے تو بندہ مانگنے میں کیوں کوئی کسر اٹھا رکھے۔ آج کی رات، رات ہے دعاؤں کی، مناجاتوں کی، روحانیت کی، ربّانیت کی۔ اِدھر سے عبودیت کی، اُدھر سے ربوبیت کی۔ فضائے کائنات میں ہر ہر میٹر پر، ہر ہر WAVE LENTH پر، بارش ہوئی۔ رات، رات بھر لطف و نوازش کی، عطا و بخشش کی۔

مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ

نشریاتِ ماجد/حصہ: اول/صفحہ: ۳۸/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

صاحبِ نسبت ہونا مشکل ہے

حضرت مولانا حافظ شاہ تجمل حسین بہاریؒ لکھتے ہیں:

حضرت مولانا سید محمد علی (مونگیریؒ) صاحب قبلہ نے حضرت (شاہ فضلِ رحمان گنج مراد آبادیؒ) سے نقل فرمایا کہ صاحبِ حال اور صاحبِ مقام ہونا آسان ہے۔ با نسبت ہونا مشکل ہے۔ با نسبت کی تعریف میں یہ فرمایا کہ سوتے اور جاگتے اُس کی یکساں حالت رہے۔ یعنی یادِ الٰہی میں غافل نہ ہو۔ فقیر سے یہ بھی فرمایا کہ صاحبِ نسبت وہ ہے کہ ادنیٰ ہمت سے اپنے سب کام کرلیا کرے اور غافل نہ ہو۔ فقیر سے یہ بھی حضرتؒ نے فرمایا کہ بانسبت ہونا مشکل ہے۔ شاہ عبدالقادر صاحبؒ، صاحبِ نسبت تھے اور شاہ عبدالعزیز صاحبؒ، نیک و صالح تھے۔

کمالاتِ رحمانی/صفحہ: ۴۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…
Subscribe to a channel