ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

اسلافِ امت سے اعتماد اٹھ جانا، ہر گمراہی کا پیش خیمہ ہے

مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

اسلافِ امت، صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین جو رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم کے بلا واسطہ یا صرف ایک دو واسطے سے شاگرد ہیں اور اس پورے ماحول سے پوری طرح واقف ہیں، جن میں قرآن و سنت نازل اور نافذ ہوئے، ان کے دین دیانت پر تو غیر مسلموں کو بھی شبہ نہیں ہوسکتا، عقل و رائے کے اعتبار سے بھی قرآن و سنت کی فہم و تعبیر میں ان کی بصیرت جہاں پہنچ سکتی ہے، ما و شُما کا تو کہنا کیا ہے؟ ہمارے کسی ماہرِ فن کی نظر کا بھی وہاں پہنچنا آسان نہیں۔ قرآن کریم کے ارشاد: "صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ" (الفاتحہ: ۷) کے مطابق یہی حضرات، صراطِ مستقیم کی رہنمائی کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ ان سے اعتماد اٹھ جانا، ہر گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔

حوالہ: رسائل و مقالاتِ مفتی اعظمؒ/صفحہ: ۷۹۳/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*عبد الغنی محتشم : ایک روشن چراغ جس کی روشنی چارسو پھیل گئی (3)*
(مورخہ : 27 مارچ 2008ء بھٹکل کی مایہ ناز شخصیت اور قائد کی رحلت پر لکھی گئی تحریر)

*عبد المتین منیری ۔بھٹکل*
مرحوم کا کاروباری تعلق ہوٹل، کیفٹیریا اور بیکری کے تجارت سے تھا، اس میدان وابستہ شخصیت نرم شریف اور ڈھیلی ڈھالی ہوتو ایک روز بھی کام نہ چل سکے ، جس زمانے میں آپ نے آندھرا میں یہ تجارت شروع کی تھی ، اس زمانے میں تحکمانہ انداز کی ضرورت کچھ زیادہ ہی تھی ، یہ ضرورت مرحوم کی ایک شناخت بن گئی جسے آپ نے اجتماعی مسائل کے حل اور اداروں کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے بخوبی استعمال کیا ۔ آپ کے ایک رفیق بیان کرتے ہیں کہ کالیکٹ میں منعقدہ ایک میٹنگ کے بعد قوم کی ایک محترم شخصیت یس یم سید
محی الدین مولانا مرحوم آپ کو یرناکولم (کوچین ) لے گئی ، آپ کے اسٹیل فرم کو مختلف قرض داروں سے رقم واجب الوصول تھیں ، سید محی الدین صاحب نے ان کی وصولیابی کی ذمہ داری مرحوم کو سونپی ، اب یہ قافلہ ہنسی مزاق کرتے ہوئے گھوم پھر بھی رہا تھا ساتھ ہی ساتھ آپ کی بارعب شخصیت و ہتھیار بناکر وصولی بھی کررہا تھا، آپ کا رعب کچھ ایسا تھاکہ قرض آسانی سے وصول ہورہے تھے۔
آپ کے فرزند فیاض واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انجینیرنگ کالج کے ابتدائی ایام میں طلبہ کو سہولتیں میسر نہ ہونے کی شکایت ہونے لگی اور طلبہ میں بے چینی پیداکی جانے لگی ، صورت حال یہاں تک پہنچی کہ طالب علم رہنما عثمان علی کی قیادت میں کوئی تین چار سو احتجاجی طلبہ نے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا ،اس بات کا خوف تھا کہ کہیں یہ طلبہ گستاخی کرکے ہاتھ چلانے یا توڑ پھوڑ تک نوبت نہ لے جائیں، لہذا خاموشی سے وہ اور ان کے دو ایک ساتھی ناگفتہ حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں لگ گئے ، جس کی اطلاع مرحوم کو نہیں دی گئی ، اس وقت مرحوم کی جرات دیکھنے کے قابل تھی ، تن تنہا ہجوم کے سامنے نکلے اور لیڈر طالب علم کا کالر زور سے پکڑ کر اس طرح اٹھایا کہ سارا ہجوم ہکا بکارہ گیا ، آپ نے انہیں خوب ڈانٹ کر گھر بھیجدیا، ایسے بہت سارے واقعات آپ کی زندگی میں دیکھنے میں آئے ۔ ہجوم پر کنٹرل کرنے کا یہی فن تھا کہ بڑے بڑے پولیس آفیسر بھی مشکل حالات میں کنڑول کرنے کے لئے آپ کو یاد کیا کرتے تھے ، 1992 ء کے فسادات وغیرہ کے موقعہ پر ایسی کئی ایک مثالیں سامنے آئیں۔
جب آپ کا انتقال ہوا تو صرف وجے واڑہ میں آپ کے کاروبار میں بھٹکل کے چار سو افراد ملازم تھے ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پندرہ ہم خیال پارٹنر وں اور ملازمین کی یہ تعدا د کتنی انتظامی صلاحیتوں کا تقاضہ کرتی ہے، ہماری ناقص رائے میں ایسی کامیاب شراکت کی دوسری مثال بھٹکل کے تاجرحلقہ میں پہلے نہ بعد میں نہیں ملتی ، آئندہ کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس کا نتیجہ تھا کہ آپ کا کاروبار ایک ٹریننگ اسکول بن گیا ، قوم کے سینکڑوں افراد نے یہاں سے کاروبار کے گر سیکھے ، ہزاروں نے یہاں سے کسب معاش کیا ،تعلقات کی وسعت اس کا فطری نتیجہ تھا ، یہی وجہ تھی کہ بھٹکلی احباب کے جیب میں ہاتھ ڈال کر عطیات نکالنے کی جو صلاحیت آپ میں تھی اس کا ثانی نظر نہیں آیا ، ہمیں بھی آپ کے ساتھ جامعہ کے لئے سعودی عرب کا دوہفتہ کا سفر کرنے کا موقعہ ملا، 1981 ء میں سڑک حادثہ کے بعد جس میں آپ کی ٹانگین چور چور ہوگئیں تھیںاور روزانہ بڑھنے والے جسم کے وزن کو ڈھونے سے معذرت کا اظہار درد والم کی صورت میں کررہی تھیں ، اس کے باوجود پھرتیلا پن ایسا تھا کہ آپ کے سامنے جوان شرمندہ ہوجاتے ، مقصد کی لگن کا نشہ ہی کچھ ایسا تھا، اس موقعہ پر دیکھا کہ لوگوں نے من مانگے عطیات ہنسی خوشی دے دئے ، کسی کو آپ سے چھپنے کی ہمت نہ کرتے ہوئے بھی لوگ نظر آئے ۔
اللہ نے بر وقت فیصلہ کرنے اور عامۃ الناس کے موڈ کو پہچاننے کی بھرپور صلاحیت آپ میں ودیعت کی تھی ، یہ صلاحیت دودھاری تلوار کی مانند تھی ، اس صلاحیت سے آپ نے قومی اداروں کا بہت بھلا کیا ، اس سے قوم کو بڑا فائدہ پہنچا، لیکن آپ کا یہ انداز بہت سی شکایتیں جنم لینے یا لوگوں کو آپ سے دور کرنے کا بھی سبب بنا۔
جیسا کہ پہلے ذکر آچکا کہ جامعہ کے انتظامی امور سے ابتدا میں وابستگی واجبی سی تھی ، بھٹکل کے علماء سے آپ کے قریبی تعلقات بھی نہیں تھے ، ایسے میں 1976 ء میں آپ کے ایک فیصلہ سے یہ دوری فاصلوں تک پہنچ گئی ، لیکن 1989 ء میں کالیکٹ میں منعقدہ بین الجماعتی کانفرنس نے فارغین جامعہ کو یہ سنہری موقعہ عنایت کیا کہ قوم کو یہ باور کرائیں کہ حضر ت مسیح کے بقول کہ{ یہ کان کی نمک ہیں} جس طرح نمک کے بغیر کھانا پھیکا اور بد مزہ ہے ،اسی طرح بھٹکل میں علماء اب اس پختگی تک پہنچ گئے ہیں کہ معاشرے اور سوسائٹی کا اب کوئی کام ان کی فعال شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا ، اس کے بعد محسوس ہونے لگا کہ اب علمائے بھٹکل کے سلسلے میں ان کے رویہ میں تبدیلی

Читать полностью…

علم و کتاب

*عبد الغنی محتشم : ایک روشن چراغ جس کی روشنی چارسو پھیل گئی (2)*
(مورخہ : 27 مارچ 2008ء بھٹکل کی مایہ ناز شخصیت اور قائد کی رحلت پر لکھی گئی تحریر)

*عبد المتین منیری ۔بھٹکل*
مدراس کی مختصر ملازمت کے بعد آپ نے تلاش معاش میں آندھرا پردیش کا رخ کیا ، جہاں آپ کا پہلا پڑاؤ شہر نیلور تھا، یہاں ایک سالانہ میلہ لگا تھا ، جس میں آپ نے ایک کینٹین لگائی تھی، شہر اجنبی رہنے سہنے کی کوئی خاص جگہ نہیں تھی ، ایک مسجد میں قیام کیا ، وہیں وضو خانے میں نہاتے ، رات کے وقت ٹاٹ اوڑھ کر سو جاتے ، اس میلہ سے جو رقم بچ گئی اسی سے آئندہ تجارتی زندگی کا آغاز کیا ، یہاں آپ نے محمود شیکرے ،کولا سکری ، خورشید خومی، جعفر شیکرے کی شراکت میں کینرا کیف ، سیما کیف ، شملہ کیف وغیرہ قائم کئے اور اپنا کاروبار وجے واڑہ ،حیدرآباد ، مدراس اور کالیکٹ تک وسیع کیا ، بعد میں وجے واڑہ آپ کی تجارت کا مرکز بن گیا جہاں ، کینٹن ، بیکری او ر سوپر مارکیٹ کا ایک جال بچھ گیا ، یہاں شیکرے سکری آپ کے شریک رہے ، آپ نے اپنی تجارت میں شراکت کا ایسا وسیع اور کامیاب تجربہ کیا جس کی دوسری مثال تاجران بھٹکل میں نہیں ملتی، ایک اندازے کے مطابق تقریبا(15) افراد مختلف تجارتوں میں آپ کے شریک رہے اور کامیابی سے باہمی احترام کے ساتھ کاروبار آگے بڑھاتے رہے۔
اس دوران آپ نے جماعتی زندگی اور اہالیان بھٹکل کی معاشی زندگی کے سدھار اور ان کی رہنمائی کیلئے اپنے رفقاء کی شراکت سے آل آندھرا نوائط فنڈ قائم کیا ، جس کی شائع کردہ نوائط ڈائرکٹر ی سنہ ستر کی دہائی میں وطن عزیز میں اہالیان بھٹکل کی تجارتی سرگرمیوں کی آخری بہار کی ایک جھلک دکھاتی ہے ، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جو برادری گذشتہ سات آٹھ سوسال سے جنوب مغرب میں کوچین کی بندرگاہ سے شمال مشرق میں کلکتہ اور ویشاکا پٹم اور کاکیناڈا تک ،مغرب میں بمبئی سے مشرق میں مدراس (چنئی) تک اور وسطی علاقے میں تیرپور ، سیلم ، ایروڈ ، کوئمبتور ، اوٹاکمنڈ سے ہوتے ہوئے حیدرآباد تک ہوٹل اور کپڑے کے کاروبار میں اپنے جھنڈے گاڑ چکی تھی ، کس طرح خلیج عرب کے دہانے اس پر کھلتے ہی وطن عزیز میں اپنے مفتوحہ بہت سی تجارتی منڈیوں کو ایسا خالی کردیا جیسے کبھی یہاں سے ان کا گذر بھی نہ ہوا ہو۔
وجے واڑہ کے ابتدائی دور میں آپ و رفقاء کی ہمدردیاں جماعت اسلامی ہند کے ساتھ قائم ہوئیں، کیوںکہ یہ شہر اس وقت آندھرا میں جماعت کا مرکز سمجھا جاتا تھا ، اس شہر سے جماعت کے دو عظیم قائدین اور نامور خطیب مولانا عبد الرزاق لطیفی اور مولانا عبدا لعزیز کی اٹھان ہورہی تھی ، یہ ان حضرات کے شباب کا دور تھا ، یکے بعد دیگرے ان حضرات نے ٹامل ناڈو اور آندھرا پردیش کی امارت سنبھالی ، یہاں آپ کے رفقاء نے جماعت کے زیر انتظام ایک اسکول کے قیام میں بھی حصہ لیا، جس کی وجہ سے اس زمانے میں بھٹکل کے پڑھے لکھے افراد میں ایک معتد بہ تعداد کی ہمدردیاں اس جماعت کے ساتھ قائم ہوئیں۔
آپ کے فرزند فیاض محتشم بیان کرتے ہیں کہ آپ دینی جماعتوں سے تعلق میں تعصب سے بلند ہوکر ہمیشہ اعتدال کی راہ اپنانے کا خیال رکھتے تھے، آپ ہی نے دوران طالب علمی انہیں تبلیغی جماعت میں جانے پر آمادہ کیا تھا ، لیکن جب تجارت و دیگر امور میں ان کا دھیان کم ہوگیا تو بعد میں آپ نے اس سلسلے میں اعتدال کی راہ اپنا نے کا مشورہ دیا ، لیکن جب ان کے سامنے ایک صاحب نے تبلیغی جماعت پر تنقید کی اوراس سے منسلک احباب میں صرف ذکر وفکر کے غلبہ اور دنیا داری سے پہلو تہی کرنے کی شکایت کی تو آپ نے اس اعتراض کو پسند نہیں کیا اور فرمایا کہ ذکر وفکر بھی ایک مسلمان کے لئے نہایت ضروری چیز ہے۔
ایلور میں جب قادیانی تحریک کا اثر بڑھ گیا اور تقریبا ستر مساجد ان لوگوں کی دسترس میں چلے گئے تو آپ نے مولانا وصی اللہ مدنی صاحب کو ہمت دلائی اور تعاون کیا ، جس کے بعد اللہ نے مولانا کے ہاتھوں بڑا کام لیا ۔
سنہ ساٹھ کے عشرے کا آخری حصہ بھٹکل کے لئے بہت ساری اجتماعی اور معاشرتی تبدیلیاں لے کر آیا ، اس دوران قوم کے اہم مرکزی سماجی اور تعلیمی اداروں مجلس اصلاح وتنظیم اور انجمن حامی مسلمین بھٹکل کے انتظامی ڈھانچہ میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں ، تنظیم میں 1964 ء میں درپیش ایک بڑے بحران کے بعد الحاج محی الدین منیری مرحوم کی ایڈمنسٹریٹر شپ میں الیکشن کے بعد ایک نئی روح اور ولولہ پیدا ہوا۔ اجتماعی اور سماجی زندگی کواز سرنو زندگی ملی ۔ انجمن کے 1968 ء میں انتظامیہ الیکشن منعقد ہوئے جس میں نوجوان قیادت سامنے آئی ، اس الیکشن کے کمشنر بننے کا فال بھی منیری صاحب کے نام نکلا ، اس نئی ابھرنے والی نوجوان لیڈرشپ میں اہم نام عبد الغنی محتشم صاحب کا بھی ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*عبد الغنی محتشم : ایک روشن چراغ جس کی روشنی چارسو پھیل گئی (1)*
(مورخہ : 27 مارچ 2008ء بھٹکل کی مایہ ناز شخصیت اور قائد کی رحلت پر لکھی گئی تحریر)
*عبد المتین منیری ۔بھٹکل*

بات تو کل ہی کی لگتی ہے ، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے تین سال گذرگئے ، مارچ 2008ء تک عبد الغنی محتشم صاحب ہمارے درمیان جیتے جاگتے اپنے بھاری بھرکم تن و توش کے ساتھ موجود تھے ، اس دنیا میں ہر کوئی جانے کے لئے آیا ہے ، ساڑھے نو سو سال کی عمر تو حضرت نوح کے ساتھ اللہ نے مخصوص کی تھی ، حدیث نبوی کے مطابق تو امت محمدیہ کے افراد کی اوسط عمر ساٹھ سے ستر سال کی ہے۔
آپ کی ولادت مورخہ 2 ؍مئی 1934 ء کو ہوئی تھی، اس لحاظ سے آپ کی عمر عزیز (74) سال بنتی ہے۔ لیکن کیا عجیب شخص تھا، جنازہ بڑے ہجوم کے ساتھ سب کی آنکھوں کے سامنے کاندھوں پر لاد کر غوثیہ محلہ کے بڑے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا ، باوجود اس کے جب بھی شہر پر کوئی افتاد آتی ہے ، اداروں اور جماعتوں میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس کی زندگی کا احساس ہونے لگتا ہے، آنکھیں اس کو تلاش کرتی ہیں اور اس کی یاد ستانے لگتی ہے ،جس طرح انسان کے جسم میں خون کی شریانیں دل پر جاکر رکتی ہیں ، وہ بھی ہمارے معاشرے میں دھڑکتے دل کی حیثیت رکھتا تھا ، جب وہ زندہ تھا معاشرے کی رگوں میں خون کے دوڑنے کا احساس ہوتا تھا ،ایک جملہ تاریخ میں ذکر ہوتا آرہا ہے کہ(تمام راستے رومہ کی طرف جاتے ہیں)نور مسجد کے سامنے آپ کے مکان کی طرف سے بھی کچھ اسی طرح بھٹکل کے تمام راستے ہوکر گذرتے تھے ، آپ کی آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ یہ گھر ڈھنڈار ہوگیا ،بھٹکل میں شمال مشرق و مغرب میں نوائط کالونی ، ساگر روڈ اور مخدوم کالونی وغیرہ دیگر علاقوں سے قدیم شہر جانا ہو، یا قدیم شہر سے اوپر آنا ہو نور مسجد کے سامنے آپ کا مکان راستے میں ضرورملتا ہے اور یہاں کا تین سال پرانا چہچہاتا ماحول آنکھوں سامنے گھومنے لگتاہے اور گھر کے مکین کی یاد آنے لگتی ہے ۔ وہ بھی کیا دن تھے عبدالغنی صاحب جب زندہ تھے فجر کی نماز کے بعد ہو یا مغرب اور عشاء کے بعد اس جگہ ایک عجیب سی زندگی کا احسا س ہونے لگتا تھا ، مرحوم نے اپنے مزاج کی مناسبت سے دنیا میں رہائش کے لئے جگہ منتخب کی تھی ، کتنی اپنائیت بھردی تھی اللہ نے اس جسد خاکی میں ، چھٹیوں میں جب بھی ہمارا وطن جانا ہوتا تو پہلے ہی روز حاضری کی کوشش ہوتی ، ملنے پر ایسا لگتا جیسے ہمارا ہی انتظار ہورہا ہو، وطن پہنچنے پر کبھی ملاقات میں ایک دور وز کی تاخیر ہوجاتی تو بڑی شرمندگی کا احساس ہوتا ، حالانکہ نہ ہماری ان سے کوئی رشتہ دار ی تھی نہ عمر میں کوئی برابری ، اجتماعی معاملات میں بھی ہم ان کے طفل مکتب سے بھی کم حیثیت رکھتے تھے ،لیکن آپ سے باتوں میں کبھی اس فرق کا احساس نہیں ہونے پاتا تھا ، ہمیشہ دل کھول کر باتیں ہوتیں، چبا چبا کر بات کرنا گویا ان کی سرشت میں کہیں لکھا ہی نہیں تھا ، مہتر ہوکے برتر ، افسر ہوکہ چپراسی ، استاد ہو کہ طالب ، معاشرے کے جملہ طبقات کا مکان پر آپ کی موجودگی کے موقعہ پر ملاپ ہوتا، سب ان سے یہاں آکر ملتے ، سب اپنا دکھ درد یہاں آکر بانٹتے ، سب کا مداوا کرنے کی یہاں کوشش ہوتی ۔ الحاج محی الدین منیری مرحوم کے غریب خانے کے بعد اپنی نوعیت کا ایک ایسا نمونہ تھا جس کی مثال اب دور دور تک نظر نہیں آتی ، بس ایک خلا نظر آتا ہے ، ایسا نظر آتا ہے کہ بھٹکل کا نوائط اپنے بیش بہا اداروں اور جماعتوں اور تنظیموں کے باوجود اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف لوٹ رہا ہے اورتپتی دھوپ میں اس کے سر سے چھتناور درخت کا سایہ چھن گیا ہے یا پھر جیسے بیوہ کے سر سے چادر گر گئی ہے ۔ جن حالات سے بھٹکل کا معاشرہ گذررہا ہے اس میں کم ہی ایسا ہوتا ہے جب مرحوم کی یاد نہ آتی ہو۔ لیکن اس دنیا سے ہرایک کو جانا ہے،جب رسول صحابی اور امام نہیں رہے تو ہما شما کی کیا بات ، دوام صرف اللہ کی ذات کو ہے ، وہی حي و قیوم ہے ، اسيکو زوال نہیں ۔
عبد الغنی صاحب نے ایک خوش حال گھرانے میں آنکھیں کھولیں تھیں ، آپ کے والد حاجی باپا ابن ابو محمد محتشم mab نوائط برادری کے ایک بااصول ا ور امانت دار تاجر مانے جاتے تھے ، مدراس (چنئی) میں لنگیوں کی تجارت سے وابستہ تھے 1869 ء میں اپنے والد ماجد کی قائم کردہ فرم یم اے بی اینڈ سنز (موتی مارکہ لنگی) میں اپنے بھائیوں کے شریک تھے ، بعدمیں یہ کمپنی آپ نے خود خرید لی تھی ، آپ کی اصول پسندی کے بارے میں مشہور تھا کہ انہوں نے اپنی مصنوعات پر چھ فیصد منافع مقررکر رکھا تھا ، جب بازار میں مال کم ہوتا اور زیادہ فائدہ کمانے کا موقعہ ملتا تب بھی وہ مقررہ فیصد منافع سے زیادہ منافع وصول نہیں کرتے تھے، آپ کی زندگی بڑی قناعت پسندی میں گذری ، آپ کی کاروباری حلقہ اور بھٹکلی احباب میں بڑی عزت تھی ، اپنے نظام اور ضوابط کے بڑے پابند تھے ، 1981 ء میں اللہ کو پیارے ہوئے ،

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات: مورخہ 27 مارچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹڑ محمد عبد الحی عارفی 27 مارچ 1986 ء
سرسید احمد خاں 27 مارچ 1898 ء
شاکر علی جعفری 27 مارچ 1999 ء
عبد الغنی محتشم 27 مارچ 2008 ء
عبدالبشیر آذری، پروفیسر 27 مارچ 1983 ء
علی عباس زیدی، ابن حیدر 27 مارچ 1992 ء
لیاقت درانی 27 مارچ 1994 ء
محتشم عبدالغنی 27 مارچ 2008 ء
محمد یامین خان، نواب سر 27 مارچ 1966 ء
نصرت عبداللہ ہارون، لیڈی 27 مارچ 1974 ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
سلطانہ ڈاکو 🌴
انگریز دور کا ایک مشہور ڈاکو، جو سلطانہ کے نام سے جانا جاتا تھا ، اصل نام سلطان تھا اور مذھباً مسلمان تھا۔ انگریز دور کا ایک مشہور ڈاکو جسے7 جولائی 1924 کو پھانسی دے دی گئی وہ صوبہ اتر پردیش انڈیا کا رھنے والا تھا۔ وہ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں پر خرچ کرتا تھا۔ سلطانہ انگریز راج سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے اپنے کتے کا نام "رائے بہادر" رکھا ھوا تھا اور اس کے گھوڑے کا نام "چیتک" تھا۔ جیل کے دوران ایک نوجوان انگریز جیل آفیسر فریڈی اس کا اچھا دوست بن گیا اور اس نے سلطانہ کو بچانے کے لیے قانونی جنگ بھی لڑی۔ پھانسی سے قبل سلطانہ نےفریڈی سے وعدہ لیا کہ وہ سلطانہ کے بیٹے کو ایک افسر بنائے گا۔ سلطانہ کی پھانسی کے بعد فریڈی نے اس کے بیٹے کو برطانیہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا اور افسر بنا کر اپنا وعدہ پورا کیا۔ فریڈی بعد میں جیل خانہ جات محکمہ سے انسپکتڑ جنرل بن کر ریٹائر ھوا۔
سلطانہ وڈیروں جاگیرداروں کو لوٹتا اور غریبوں میں وہ دولت تقسیم کر دیتا تھا۔ایک انگریز لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ھوئی اور یہ عشق سلطانہ کی موت تک چلتا رھا۔
اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ھے کو وہ عورتوں کا رسیا تھا اور کافی امیر عورتوں کو اس نے ریپ کر کے مار بھی دیا تھا۔
اس سب کے باوجود لوگوں میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا شائد اس کی ایک وجہ اس کی انگریز دشمنی اور امیروں سے لوٹا ھوا مال غریبوں میں تقسیم کرنا تھا۔ جب اسے پھانسی کے تختہ پہ لایا جا رھا تھا تو لوگوں کا ھجوم باہر اکٹھا ھو گیا جو اس کی شانِ بہادری کے قصیدے اور ترانے پڑھ رھے تھے۔
اُس نے چوری کی ابتداءایک انڈے سے کی تھی لیکن اُس کو گھر والوں نے کوئی تنبیہ نہ کی۔ نتیجتاً اُسے جرا ت ہوئی اور پھر چوری کی عادت نے اُسے شہرت یافتہ ڈاکو بنا دیا۔
سلطانہ ڈاکو کو انگریز افسر فریڈی نے پھانسی کی سزا دیئے جانے سے پہلے اُس سے آخری خواہش پوچھی تو اُس نے کہا کہ میری آخری خواہش اپنی ماں سے ملاقات کرنا ہے۔ خواہش کے احترام میں اسکی ماں کو اس کے سامنے لایا گیا۔ اس نے ماں کے قریب جا کر بجائے کچھ کہنے کے اپنی ماں کے کان کو " دانتوں سے چبا لیا"۔ جب سلطانہ سے دریافت کیا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے جواب دیا کہ جس وقت میں پہلی بار انڈا چوری کرکے لے آیا تھا اگر میری ماں نے مجھے روکا ھوتا تو میں ڈاکو نہ بنتا اور نہ ہی آج

Читать полностью…

علم و کتاب

علماء پر اعتراض

افادات: حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ رحمۃ اللّٰه علیہ

آج کل بعض حضرات کا یہ ذہن بن گیا ہے کہ قرآن فہمی اور تدبر فی القرآن و احادیث سے احکام استنباط کرنے کی اجارہ داری علماء کرام ہی کو کیوں حاصل ہے؟ حالانکہ ہم نے بھی عربی، فارسی، انگریزی ادب و سائنس، ریاضی، جغرافیہ، قانون وغیرہ علوم حاصل کیے ہیں۔ ہمیں بھی قرآن میں تدبر و تفکر کرکے احکام اخذ کرنے کا اتنا ہی حق ہے، جتنا کہ مذہبی تعلیم کو مستند اساتذہ سے حاصل کرنے والے علماء کو ہے، لیکن ان حضرات کی یہ بات عقلاً بھی ٹھیک نہیں، کیونکہ ہر فن کے ماہر لوگ، الگ الگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا شخص، جس نے میڈیکل کالج کی شکل تک نہ دیکھی ہو، یہ اعتراض کرنے لگے کہ ملک میں علاج و معالجہ پر سند یافتہ ڈاکٹروں کی اجارہ داری کیوں؟ مجھے بھی بحیثیتِ انسان یہ حق ملنا چاہیے، یا کوئی غیر انجینئر شخص یہ کہنے لگے کہ ملک میں نہریں، پُل او اور بند وغیرہ تعمیر کرنے کے لیے ماہر انجینئروں کو کیوں مقرر کیا جاتا ہے؟ میں بھی ایک شہری کی حیثیت سے اس خدمت کو انجام دینے کا حقدار ہوں یا قانونِ عدالت سے ناواقف شخص، ماہرینِ قانون کی اجارہ داری پر اعتراض کرے اور اپنا حق جتائے تو ایسے شخص کو جواب میں یہی کہا جائے گا کہ بیشک ایک شہری کی حیثیت سے آپ کو بھی ان تمام کاموں کا حق حاصل ہے، لیکن ان کاموں کی اہلیت پیدا کرنے کے لیے سالہا سال محنت اور دیدہ ریزی کرنی پڑتی ہے اور ماہر استادوں سے ان علوم و فنون کو سیکھنا پڑتا ہے اور سندیں اور ڈگریاں حاصل کرنی پڑتی ہیں۔ پہلے آپ یہ زحمت اٹھائیے، پھر بیشک آپ ان خدمات کے انجام دینے کا حق جتا سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہی بات، قرآن و احادیث کے بارے میں کہی جائے تو اس پر علماء کی اجارہ داری کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ ان حضرات کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے۔

تدبر فی القرآن کے درجات مختلف ہیں اور ہر درجے کا حکم علیحدہ ہے۔ مجتہدانہ تدبر جس کے ذریعہ قرآن حکیم سے مسائل کا استخراج کیا جاتا ہے، اس کے لیے اجتہاد کی مبادیات و اصول کا علم حاصل کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ مسائل کا صحیح استخراج کرسکے، اگر ایسا نہیں ہے تو ظاہر ہے، وہ مسائل کا غلط استنباط کرے گا اور علمائے حق اس پر نکیر کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ قرآن مجید کی مثال، ایک بحر ناپیدا کنار سے دی جاسکتی ہے۔ سمندر میں ہر قسم کا آدمی غوطہ لگا سکتا ہے، لیکن ہر شخص اپنی بساط کے مطابق اس سے فوائد حاصل کرتا ہے، جو لوگ سمندر کی اوپر کی سطح کے قریب رہتے ہیں، وہ اس سے زیادہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتے کہ اپنے بدن کو تر کرلیں۔ جو شخص سمندر کی گہرائی میں جاتا ہے، وہ اس میں سے قیمتی موتی حاصل کرتا ہے اور جو شخص جس قدر زیادہ گہرائی میں جاتا ہے اور غوطہ خوری اور سمندر سے موتی وغیرہ فوائد حاصل کرنے کے ساز و سامان سے آراستہ ہوتا ہے، وہ اسی قدر قیمتی موتی اور دوسرے فوائد حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح جو شخص قرآن فہمی کے ساز و سامان سے جس قدر آراستہ ہوگا، وہ اسی قدر اس کے فوائد سے بہرہ ور ہوسکے گا۔

افکارِ زواریہ/صفحہ: ۱۰۷/۱۰۸/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

أرجوزة ذات الأمثال لابي العتاهية -

Читать полностью…

علم و کتاب

کتاب زندگی کے چند ورق (۱) ۔۔۔ بیان: الحاج محی الدین منیری
تحریر:عبدالمتین منیری۔ بھٹکل ۔ کرناٹک
Https://telegram.me/ilmokitab

جنوبی ہندکی ریاست کرناٹک کے قصبے بھٹکل نے اپنے جائے وقوع اور آبادی کی نسبت سے زیادہ شہرت پائی ہے ، گزشت نصف صدی میں اسے برصغیر کے اکابر سے اپنی حیثیت اور وسعت سے زیادہ پذیرائی پائی ہے ۔ یہاں کی جن شخصیات کی قربانیاں اس کا ذریعہ بنیں ان میں اہم ترین نام جناب الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ کا ہے ۔ مرحوم گزشتہ صدی میں چالیس کے عشرے سے مورخہ 30 ؍اگسٹ 1994ء داعی اجل کو لبیک کہنے تک بھٹکل اور ممبئی میں سرگرم عمل رہے ، ایک ایسے زمانے میں جب ہندوستان سے عازمیں حج بیت اللہ صرف قرعہ نکلنے کے بعد ہی حج پاسپورٹ حاصل کرکے پانی جہاز سے جاسکتے تھے ، ان دنوں آپ صابو صدیق مسافر خانے میں انجمن خدام النبی سے وابستہ رہ کر لاتعدا د لوگوں کی تیس سال سے زیادہ عرصہ تک مدد کی ، اس ذریعے سے آپکے برصغیر کے جملہ اکابر سے برادرانہ تعلقات قائم ہوئے ، اس دوران مولانا قاضی اطہر مبارکپوری علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں البلاغ ممبئی جاری کیا ،1953ء میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں کل ہند تعلیمی کنوینشن ممبئی کے موقعہ پر آپ کا شائع کردہ ضخیم تعلیمی نمبر دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ بھٹکل کے جملہ سماجی و تعلیمی اداروں میں آپ فعال رہے ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور جامعۃ الصالحات بھٹکل آپ کی قائم کردہ یادگاریں ہیں جو آج بھی علاقہ کو علم دین کی روشنی سے منور کررہی ہیں ۔
مرحوم اپنی زندگی کے جو مشاہدات اور تجربات بتاتے تھے وہ بڑے انمول اور موثر ہوا کرتے تھے ، اس ناچیز نے بارہا کوشش کی کہ ان کے مشاہدات کو ریکارڈ کرکے محفوظ کیا جائے ، جس کی کم ہی فرصت ملی ، خوش قسمتی سے آپ کی رحلت سے کچھ عرصہ قبل 1987ء میں نائطی زبان میں آپ کے دو ویڈیو انٹرویو لینے کا موقعہ نصیب ہوا ۔ یہی انٹرویو آب بیتی کی شکل میں اردو زبان میں منتقل کرکے پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں ، ہمیں امید ہے کہ قارئین اسے پسند کریں گے ۔ مرحوم کے حالات زندگی پر مولانا سید ابوالحسن ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل نے ایک خصوصی مجلہ عرصہ پہلے شائع کیا تھا ، لیکن آپ کی ایک مفصل سوانح لکھنے کا قرض ابھی باقی ہے ، دعا کریں اللہ تعالی اس سے سبکدوشی کی کوئی راہ نکالے ۔ شکریہ(عبد المتین منیری۔ بھٹکل۔کرناٹک)


خاندانی پس منظر
محترم محی الدین منیری صاحب خاندان منیری کے گل سرسبد تھے ۔ یوں تو عددی لحاظ سے یہ خاندان قبیلہ بہ نسبت چھوٹے خاندانوں میں شمار ہوتا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ معاشرے میں عزت و احترام سے نوازا ہے ۔ گذشتہ دور میں اس خاندان کے نائطی زبان کے دو شاعر مشہور ہوئے جن کا کلام گھر گھر پڑھاجانے لگا، ان میں سے ایک مولانا اسماعیل منیری ؒ تھے ، جن کا لکھا ہوا مولود نامہ نائطی زبان کے کلاسیکل ادب کا ایک ستون سمجھا جاتاہے ۔ مولانا خواجہ بہاؤ الدین اکرمی ندوی ؒکے بقول آپ کی تصنیف کردہ عربی زبان میں فقہ شافعی کی کتابیں مخطوطات میں پائی جاتی ہیں ۔ آپ کو سلطان ٹیپو کے دربار تک رسائی حاصل تھی ۔ آپ یمن کے بزرگ عالم شیخ محمد علوی جفری کے تین خلفاء میں سے ایک تھے۔ مشہور ہے کہ شیخ جفری نے سلطان ٹیپو شہید کو خلافت سے نوازا تھا اور انہیں ایک تلوار دی تھی ۔
دوسری معروف شخصیت حضرت شمس الدین منیری ؒ کی ہے ، آپ کی لکھی ہوئی مناجاتیں شادی بیاہ کے موقع پر عموماً پڑھی جاتی ہیں۔ خاص طورپر آپ کی لکھی ہوئی مناجات
ربا تو کر اپلو کرم + ہیں بے دلاور دم بدم
گناہ امچی سا بخسون + کر تو ایمانے وار ختم
ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود اپنی رونق باقی رکھے ہوئے ہے۔
جدِ امجد محمد امین منیری ؒ ایک سیدھے سادھے بزرگ تھے ، آپ نے اور ان کے ایک فرزند اسماعیل منیری نے الگ الگ اوقات میں حج بیت اللہ کا پیدل سفرکیا تھا۔
سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے ، محی الدین بن محمد امین بن محمد حسن بن محمد امین بن محی الدین بن محمد منیر بن محمد امین بن علی سکری ۔شیخ علوی الجفری علیہ الرحمۃ نے مولانا اسماعیل کو خلافت سے نوازتے وقت جو کتاب عنایت کی تھی ، اس قلمی نسخے پر آپ نے اپنا سلسلہ نسب سکری صدیقی لکھا ہے،جس کا واضح مطلب ہے کہ اس خاندان کا مخدوم فقیہ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ہے۔ یہ بزرگ ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم کے خانوادہ قاضی بد رالدولہ کے جد اعلی ہیں ۔ علی سکری پر منیری خاندان بھٹکل کے اور اہم اکرمی خاندان سے ملتا ہے ، منیری صاحب کے والد اور ان جد اعلی جامعہ مسجد کے قدیم قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔(یہاں سے الحاج محی الدین منیری مرحوم کی زبانی آب بیتی شروع ہوتی ہے ۔ ع ۔ م ۔ م )

Читать полностью…

علم و کتاب

کئی احباب نے دریافت کیا ہے کہ علم وکتاب پر آپ نے جو سلسلہ *مانگے کا اجالا* کے عنوان سے شروع کیا ہے یہ آخر کس کی تحریریں ہیں، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے بچپن میں گاؤں میں الکٹرک نئی نئی آئی تھی اور ابھی گھروں میں عام نہیں ہوئی تھی، اس زمانے میں مٹی کے تیل سے جلنے والے چراغ ہوتے تھے، جو روئی کی بتی سے جلتے تھے، ہمارے یہاں یہ چراغ کے بجائے بتی کہلاتے تھے۔ اس زمانے میں جب کسی کے گھر میں تیل ختم ہوجاتا یا کوئی چراغ خراب ہوجاتا تو اڑوس پڑوس سے تیل یا بتی منگوائی جاتی۔ اس سے گھر میں جو اجالا ہوتا وہی *مانگے کا اجالا* ہے
عام طور پر سوشل میڈیا سے آپ کے اس موقر گروپ میں کوئی مواد نقل کرنا ہمیں ذاتی طور پر پسند نہیں،لیکن وہ قانون ہی کیا جس میں ایک عدد استثنا نہ ہو، انسان کا بنایا ہوا کوئی قانون استثنا سے خالی نہیں ہوتا، تو سوشل میڈیا میں کوئی چیز آنکھوں میں اٹک جاتی ہے اور خیال گذرتا ہے کہ شاید یہ ہماری بزم علم وکتاب کی نظروں سے نہ گذری ہوتو ہم اسے افادہ عام کے لئے پوسٹ کردیتے ہیں، یہی *مانگے کا اجالا* ہے، جو عرف عام میں منقول کہلاتا ہے۔
*عبد المتین منیری*
اڈمن علم وکتاب

Читать полностью…

علم و کتاب

قرآن وہ آئینہ ہے، جسے ہم ہمیشہ اُلٹا کرکے دیکھتے ہیں

حضرت شاہ محمد یعقوب مجددی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: ہماری اور قرآن کی مثال، ایسی ہے، جیسے کسی شخص کے پاس آئینہ ہو، مدت سے اس کے پاس رکھا ہوا ہے، لیکن وہ ہمیشہ اس کو اُلٹا کرکے دیکھتا ہے اور اس کو کچھ نظر نہیں آتا۔ مشائخ مجاہدات کراتے ہیں۔ مراقبات بتاتے ہیں۔ مرغوبات چھڑاتے ہیں۔ انبیاء نے مراقبہ نہیں، بلکہ مشاہدہ کرایا ہے۔ وہ صرف کہتے ہیں کہ آئینہ کو سیدھا کرکے دیکھو، سب کچھ نظر آ جائے گا۔ "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ" (الحشر: ۱۸) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر نفس دیکھے اور سوچے کہ اس نے آنے والے دن (روزِ قیامت کے لیے) کیا کیا ہے۔ بس یہی آئینہ کو سیدھا کرکے دیکھنے کی تعلیم ہے۔

حوالہ: صحبتے با اہلِ دل/صفحہ: ۱۷۳/پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

الملك فيصل بن عبد العزيز رحمه الله في عام 1919ء و كان عمره 14 عاما.

Читать полностью…

علم و کتاب

پیار سب کچھ ہے زندگی تو نہیں
کلام : نذیر بنارسی
وفات: ۲۳ مارچ ۱۹۹۶ء
لنک بھٹکلیس
https://www.youtube.com/watch?v=0YG96JhmwEI&list=PLDE0CAC9E73C4162C&index=55

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: 23 مارچ
امیر احمد صدیقی 23 مارچ 2005 ء
بدیع الزمان سعید نورسی 23 مارچ 1960 ء
خواجہ بیگم 23 مارچ 1990 ء
سید حسین حسنی 23 مارچ 2008 ء
شعلہ وارثی لکھنوی (حافظ احمد علی) 23 مارچ 1973 ء
شہریار خان (سفارت کار) 23 مارچ 2024 ء
قدیر الدین احمد، جسٹس 23 مارچ 1995 ء
مارگورلیوتھ ، پروفیسر 23 مارچ 1940 ء
محمد علی محمد خان مہاراجہ محمود آباد 23 مارچ 1931 ء
مصلح الدین صدیقی، قاری 23 مارچ 1983 ء
مولانا حکیم عبدالرشید محمود گنگوہی (ننھو میاں) 23 مارچ 1995 ء
نثار بزمی(سید نثار احمد) 23 مارچ 2007 ء
نثار لکھنوی (نثار حسین) 23 مارچ 1969 ء
نواب کلب علی خاں بہادر رامپور 23 مارچ 1887 ء
یزدانی جالندھری 22 مارچ 1990 ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
"سقراط نے کہا تھا، 'زبان کا غلط استعمال روح میں برائی پیدا کرتا ہے۔' وہ گرامر کی بات نہیں کر رہا تھا۔ زبان کا غلط استعمال وہ ہے جو سیاستدان اور اشتہاری کمپنیاں کرتی ہیں، محض فائدہ اٹھانے کے لیے، بغیر اس کی ذمہ داری لیے کہ الفاظ کا اصل مطلب کیا ہے۔ جب زبان کو طاقت حاصل کرنے یا پیسہ کمانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ بگڑ جاتی ہے؛ یہ جھوٹ بن جاتی ہے۔"

— ارسولا کے لی گون

Читать полностью…

علم و کتاب

آنی شروع ہوگئی ہے پھر وہ علماء کے مضبوط حامی اور وکیل سمجھے جانے لگے ، ا۔ ہم نے بار ہا مرحوم سے بے تکلفی میں ان کے بعض پرانے موقف یا ددلائے تو ان کاجواب تھا کہ مرور زمانہ اور مشاہدات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی رویے بد ل جاتے ہیں ، اب وہ بیس تیس سال قبل کے عبد الغنی نہیں رہے ہیں۔ مرور زمانے کی تقاضوں کو سمجھنا اور اس کی ضرورتوں کے مطابق اپنے رویوں کو ڈھالنے کی صلاحیت کامیاب انسان کی نشانی ہے۔
بین الجماعتی کانفرنس ، منیری صاحب کے آخری ایام کی رفاقت اور اس پر ہمارے قدیم دوست اور اب کے بزرگ مولانا
عبد العزیز خلیفہ ندوی صاحب نائب مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اثرات نے بلاشبہ عبد الغنی صاحب کو آخری دنوں میں علمائے بھٹکل کے لئے سیف اللہ بنادیا تھا، جس کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کو ایسے اعزازات سے نوازا جو اس سے قبل بھٹکل کی کسی اور شخصیت کو میسر نہیں آئے ، آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس شوری، آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی مجلس شوری اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ، اتنے بڑے اعزازات کے بعد شاید دوسرے اعزازات کا تذکر ہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ڈاکٹریٹ کرنے والے کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ میٹرک بھی پاس ہے۔
آپ نے ان اعزازات کے بعد خود کو اس کا مستحق بنانے کی بھرپور کوشش کی ، آپ نے بھٹکل سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں بھر پور کردا ر ادا کیا ، اس ادارے سے ملحقہ اداروں اور مدارس کے تعاون کے لئے اپنا رسوخ بھرپور انداز سے استعمال کیا ، ان کے فرزند کہتے ہیں کہ جب بھی ان اداروں کے مندوبین عطیات کی فراہمی کے لئے بھٹکل یا وجے واڑہ تشریف لاتے ، ان کے والد انہیں عزت کے ساتھ ان وفود کے ساتھ کرتے تاکہ ان کے حوالہ سے تعاون مل سکے۔
ندوے اور ان کے اکابر سے محبت کی آپ کی یادگار مولانا سید ابوا لحسن علی ندوی اکیڈمی ہے،اس کے قیام ، اس کے استحکام ، قوم سے اس کا اعتراف اور اس کی ترقی کے لئے آپ نے دامے درمے سخنے ہر طرح سے اس کی فکر کی ، اکیڈمی بھٹکل کے اداروں میں ؎غالبا سب سے نیا ادارہ ہے،لیکن دنیا شاہد ہے کہ ترقی کی رفتار میں یہ نوساختہ ادارہ تمام دوسرے اداروں سے بازی لے گیا ، اس کی کامیابی کے پیچھے جہاں اکابر کی دعائیں اور رہنمائیاں کوششیں اور جدوجہد ہے، اس میں عبد الغنی صاحب کی توجہات کااثر عربی مثال کے مطابق شکار میں شیر کے حصہ کے برابر ہے۔
عبد الغنی محتشم اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن بھٹکل جیسے ایک چھوٹے سے قصبہ میں جب اس کی حیثیت سے زیادہ عظیم الشان تعلیمی ادارے اکیڈمیاں ادھر ادھر پھیلی نظر آتی ہیں تو دعاؤں میں جہاں دوسرے بانیان کے نام یاد آتے ہیں تو آپ کا نام ذہن سے ساقط نہیں ہوتا۔ آپ کے حق میں بھی دعائیہ کلمات ضرور نکلتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت تھا وہ شخص منوں مٹی میں دبنے کے باوجود ، اس یقین کے باوجود کہ اب وہ دوبارہ اس دھرتی پر تاقیامت واپس نہیں لوٹے گا۔ اپنی یاد کو بھلانے نہیں دیتا ، کتنی شاندار زندگی اس دنیا میں جی گیا ، آئندہ زندگی کے لئے کیا اس کے حق میں ڈھیر سارے نیک لوگوں اور بزرگوں کی گواہیاں کافی نہیں ہیں۔
06-05-2011
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

جب اس ٹیم نے اسٹیک سنبھالی انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج قائم ہوکر اپنے ابتدائی مرحلے سے گذر رہاتھا ، انجمن آرٹس کالج کے قیام میں جناب عبد القادر حافظکا صاحب مرحوم اور یس یم سید محی الدین امباری صاحب کا بڑا ہاتھ تھا ، اس وقت انجمن حامی مسلمین کی کل کائنات اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول اور یہ کالج ہی تھے ، بعد میں انجمن نرسری و پرائمری اسکول، انجینیرنگ کالج ، مینجنمٹ کالج وغیرہ اسکولوں اور کالجوں کا جو بھٹکل میں جال بچھا بنیادی طور پر اس کا کریڈٹ مرحوم اور ان کے رفقاء کو جاتا ہے۔
سیاسی میدان میں یس یم یحیی مرحوم کی صورت میں قوم کو جو کامیاب اور باوقار قیادت ملی ، اس میں بھی مرحوم کی جد وجہد اور رفاقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آپ تنظیم کے سیاسی پینل کے باربار کنوینر رہے،سیاسی فیصلوں کے موقعہ پر رہنمائی کے لئے قوم کی آپ پر ہمیشہ نظر رہی۔ وطن میں امن عامہ قائم کرنے میں بھی آپ کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا ، یہاں آنے والے تمام پولیس آفیسروں نے آپ کی قدر کی ، غیر مسلم قیادت بھی ہمیشہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی رہی ، پیس میٹینگوں میں ہمیشہ آپ کی شرکت کو ضروری سمجھا گیا۔
جماعت المسلمین بھٹکل کی سرگرمیوں میں جذباتی لگاؤ کے ساتھ آپ نے حصہ لیا ، اسے مضبوط کرنے میں ہمیشہ اپنا کردارنبھایا۔
جامعۃ الصالحات کی کاروائیوں میں ابتدا سے منیری صاحب کے شانہ بہ شانہ رہے ، اس کی ترقی کے لئے ہمیشہ ساتھ دیا ۔
جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی مجلس شوری کے آپ بہت دنوں سے ممبر رہے ، جامعہ آباد منتقلی وغیرہ کے موقعہ پر آگے آگے رہے ، یاد گار جامعہ میں صدر جامعہ جناب شابندری محسن کا انٹریو اس کی ایک علامت ہے، لیکن چونکہ اس زمانے میں انجمن کی ذمہ داریاں آپ پر بہت زیادہ تھیں، وسیع کاروبار کی نگہداشت کا مسئلہ بھی درپیش تھا، لہذا سنہ ستر کی دہائی میں جامعہ میں آپ کی عملی شرکت بہت زیادہ کھل کر سامنے نہیں آسکی ، البتہ اہم فیصلوں کے موقعوں پر آپ ہمیشہ شریک رہے، لیکن جب منیری صاحب جامعہ کے ناظم بنے تو جامعہ میں آپ کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ، منیری صاحب کو اپنے سے ناراض افراد کو قریب لانے اور ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کا فن خوب آتا تھا ، اسی کی دہائی کے بعد یہ دونوں ایک جان دو قالب بن گئے ، آپ کی رفاقت سے منیری صاحب کو خوب تقویت ملی ، پھر جناب ملاحسن صاحب او ر جناب محمد شفیع شابندری صاحب کے دور نظامت میں بھی یہ تسلسل جاری و ساری رہا ۔ مشکل حالات میں آپ کی موجودگی بڑی حل المشکلات ثابت ہوتی رہی۔
ہر انسان اللہ تعالی کی عطا کردہ خداداد صلاحیتوں اور ان کے بر محل استعمال ہی سے کسی معاشرے میں اپنی جگہ بناتاہے۔ اللہ تعالی نے مرحوم کو بھی کئی ایک اہم صفات سے نوازا تھا ، جنہیں آپ نے قوم اور معاشرے بہبود کے لئے استعمال کیا ، غلطی سرزد ہونا ہرانسان کا خاصہ ہے ، یہی چیز تو ایک انسان کو فرشتہ سے الگ کرتی ہے ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفات سے کچھ عرصہ قبل تک جب تک ہاتھ پاؤں نے کام کیا موصوف بھٹکل کے ایک اور و جیہ تاجر مصبا عبد الغفور مرحوم کے ساتھ نور مسجد کو لگ کر جہاں اب جامع مسجد کامپلکس واقع ہے ، شاہ نگاہ درگاہ کے بالمقابل ایک کشادہ جگہ پر جہاں اس وقت شکاکائی کے اونچے اونچے سایہ درخت اور سمنٹ اور پتھر کے بنے پختہ چبوترے ہوا کرتے تھے ، یہ دونوں عصر کی نماز کے بعد پابندی سے سلطان محلہ سے یہاں تک پیدل چڑھائی پار کرکے آتے اور کچھ دیر سستا تے ، رنگ گور ا چٹا ، دراز قد ، جسم بھرا پرا ، لیکن توند کا نشان نہیں ، بال پورے سفید ہوگئے تھے ، غالبا اسی (80) کے پیٹھے میں رہے ہونگے ، یہ دونوں مقررہ وقت پر یہاں نظر آتے تو بہتوں کے سر احترام سے جھک جاتے ۔
عبد الغنی صاحب نے ابتدائی تعلیم بھٹکل میں حاصل کرکے محمد ن کالج مدراس سے جو اب گورنمنٹ آرٹس کالج کہلاتا ہے 1958 ء میں یف اے پاس کیا ، جو آج کے حساب سے پی یوسی کے برابر ہے، اسی دوران آپ نے مدراس (چنئی) میں اہل بھٹکل کے مشہور لنگیوں کی فرم SRK (شابندری ، رکن الدین ، قاضیا) کے مینیجر کی حیثیت سے معاشی زندگی کا آغاز کیا ، ساتھ ہی ساتھ بھٹکلی احباب کی اجتماعی زندگی سے وابستہ ہوئے اور بھٹکل مسلم جماعت مدراس (چنئی) کے نائب سکریٹری منتخب ہوئے ، یہ بھٹکل میں زبردست جماعتی اختلافات کا زمانہ تھا، آپ نے اس موقعہ پر جماعت المسلمین بھٹکل کا بڑھ چڑھ کر اور جذباتی انداز سے ساتھ دیا ،یہیں آپ کا ادبی ذوق بھی پروان چڑھا ، آپ نے وہاں پر مونٹ روڈ ( اناسلے) میں منعقد ہونے والے سالانہ مشاعروں کے انتظام و انصرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، مشاعروں کا یہ شوق آخر دم تک جاری و ساری رہا ، انجمن پلاٹینم جوبلی کے موقعہ پر آپ کی قیادت میں ہونے والے آل انڈیا مشاعرہ کی شان و بان اب بھی دیکھنے والوں کی نگاہوں میں تازہ ہے ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

عورتوں کا مکر عظیم ہے

مولانا سید عبداللّٰه حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی علیہ الرحمہ ایک دن فرمانے لگے کہ دیکھو قرآن مجید میں آیا ہے: 'اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا" (النساء: ٧٦) (شیطان کا کید ضعیف ہے) اور فرمایا: "اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا" (الأعراف: ۲۰۱) (جب بھی ان پر شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھو کر بھی گزرتا ہے تو وہ چونک جاتے ہیں) یعنی جب شیطان کا حملہ ہوا تو اللہ کو یاد کرلو، شیطان غائب ہوجائے گا، اس لیے کہ شیطان میں یہ دم نہیں ہے کہ ذکرِ الٰہی کے سامنے ٹِک سکے، اور یہاں بھی عربی جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ "تذکّر" میں دو باتیں ہیں، تکلف اور اہتمام۔ یعنی جب شیطان کا حملہ ہو، تو ظاہر ہے ذکر کرنے کا جی نہیں چاہے گا۔ ذکر کرے، اہتمام سے کرے اور تکلف کے ساتھ کرے تو شیطان بھاگ جائے گا۔ لیکن مسکرا کر خاص انداز سے فرمایا: "كَیْدَكُنَّ عَظِیْمٌ" (يوسف: ۲۸) (بے شک عورتوں کا کید بڑا ہے) فرمایا: قرآن کہہ رہا ہے کہ عورتوں کا کید بڑا ہے، عظیم ہے، اور شیطان کا کید کمزور ہے، شیطان کا کید آسان ہے، اس کو قابو میں کرنا مشکل نہیں، لیکن عورتوں کے کید کو قابو میں کرنا بالکل آسان نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہم میں سے اکثر لوگ، اس کید النساء میں مبتلا ہیں، اس وجہ سے اس وقت، اس سے نجات حاصل کرنا مشکل ہوا جارہا ہے، اور کیدِ شیطان سے نجات حاصل کرنا آسان ہے۔

حوالہ: تذکرہ حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی رحمۃ اللّٰه علیہ/صفحہ: ۴۰/۴۱/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اعلیٰ خصلتوں کے تین سرچشمے

مولانا محمد حبیب الرحمٰن خان شروانی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا:

جو قوتِ عمل اور اعلیٰ خصلت اور کریکٹر، قدرت نے انسان میں رکھی ہے، اس کو حرکت میں لانے والے اور قوت بخشنے کے سرچشے تین ہوسکتے ہیں۔ مذہب، بزرگوں کی مثالیں، ملک و وطن کی محبت۔ ہم کو کوشش کرنی چاہیے کہ مذہب کے احکام کی صداقت کے عقیدت کے ساتھ پابند رہیں، اس کی تعلیم کو اپنی روحانی اور اخلاقی پاکیزگی کا ذریعہ بنائیں، مذہب کو دوسرے سے لڑنے کا آلہ نہ قرار دیں، بلکہ اس کو خود اپنی بری صفتوں سے اور عیبوں سے جنگ کرنے کا ہتھیار بنائیں، خدا کے بندوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے پیرو ہوں، ہم ہمدردی اور انصاف کا برتاؤ کریں۔ صحیح تاریخ کے مطالعہ سے اکابر کے حالات کو دل پر نقش کریں اور ان کو اپنے واسطے مثال اور نمونہ بنائیں۔ اور ان کی پیروی کی کوشش کریں، خواہ کتنی ہی تکلیف برداشت کرنی پڑے۔ اپنے وطن اور ملک کی خدمت اور بہبودی کو نصب العین قرار دیں، اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار رہیں اور ذاتی نفع یا آرام کے لیے کبھی ملک کو دغا نہ دیں۔

مقالاتِ شروانی/صفحہ: ۲۵۸/مطالعاتی پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات۔۔۔ مورخہ 26 مارچ

احمد دارا 26 مارچ 2006 ء
اکبر خان ، استاد 26 مارچ 1964 ء
حسینہ معین 26 مارچ 2021 ء
ڈاکٹڑ محمد عبد الحی عارفی 26 مارچ 1986 ء
سلطان الاطرش 26 مارچ 1982 ء
سید عبدالقادر الگیلانی 26 مارچ 1976 ء
صبیح الدین غوثی 26 مارچ 2009 ء
لالہ لال چند فلک 26 مارچ 1967 ء
مرتضیٰ شفیع، پروفیسر 26 مارچ 2002 ء
مشتاق شبنم (مشتاق احمد) 26 مارچ 2008 ء
مظفر ادیب (اداکار) 26 مارچ 2006 ء
مولانا ڈاکٹر امجد تھانوی 26 مارچ 2006 ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات۔۔۔ 25 مارچ

رجب علی سرور 25 مارچ 1869 ء
رشید کوثر فاروقی 25 مارچ 2007 ء
ساحر عباسی (معشوق علی ) 25 مارچ 1978 ء
ستار طاہر 25 مارچ 1993 ء
سعید عروج مظہر(مظہر النساء) 25 مارچ 1978 ء
سید محبوب رضوی 25 مارچ 1979 ء
سید محمود احمد پٹھیڑوی 25 مارچ 2011 ء
شاہ فیصل بن عبد العزیز آل سعود 25 مارچ 1975 ء
عبدالنبی خان (عبدالرزاق خان شور) 25 مارچ 1969 ء
محمد امین مسعود صدیقی 25 مارچ 2001 ء
مرزا رجب علی سرور 25 مارچ 1869 ء
مولانا سید محمود حسن پٹھیر وی 25 مارچ 2011 ء
نثار احمد کلیم بیدری 25 مارچ 2015 ء
نواب محمد بہاول خان چہارم 25 مارچ 1865 ء

((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

فرمائش پر پوسٹ کیا گیا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

کتاب زندگی کے چند ورق (۱) ۔۔۔ بیان: الحاج محی الدین منیری
تحریر:عبدالمتین منیری۔ بھٹکل ۔ کرناٹک
Https://telegram.me/ilmokitab

جنوبی ہندکی ریاست کرناٹک کے قصبے بھٹکل نے اپنے جائے وقوع اور آبادی کی نسبت سے زیادہ شہرت پائی ہے ، گزشت نصف صدی میں اسے برصغیر کے اکابر سے اپنی حیثیت اور وسعت سے زیادہ پذیرائی پائی ہے ۔ یہاں کی جن شخصیات کی قربانیاں اس کا ذریعہ بنیں ان میں اہم ترین نام جناب الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ کا ہے ۔ مرحوم گزشتہ صدی میں چالیس کے عشرے سے مورخہ 30 ؍اگسٹ 1994ء داعی اجل کو لبیک کہنے تک بھٹکل اور ممبئی میں سرگرم عمل رہے ، ایک ایسے زمانے میں جب ہندوستان سے عازمیں حج بیت اللہ صرف قرعہ نکلنے کے بعد ہی حج پاسپورٹ حاصل کرکے پانی جہاز سے جاسکتے تھے ، ان دنوں آپ صابو صدیق مسافر خانے میں انجمن خدام النبی سے وابستہ رہ کر لاتعدا د لوگوں کی تیس سال سے زیادہ عرصہ تک مدد کی ، اس ذریعے سے آپکے برصغیر کے جملہ اکابر سے برادرانہ تعلقات قائم ہوئے ، اس دوران مولانا قاضی اطہر مبارکپوری علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں البلاغ ممبئی جاری کیا ،1953ء میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں کل ہند تعلیمی کنوینشن ممبئی کے موقعہ پر آپ کا شائع کردہ ضخیم تعلیمی نمبر دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ بھٹکل کے جملہ سماجی و تعلیمی اداروں میں آپ فعال رہے ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور جامعۃ الصالحات بھٹکل آپ کی قائم کردہ یادگاریں ہیں جو آج بھی علاقہ کو علم دین کی روشنی سے منور کررہی ہیں ۔
مرحوم اپنی زندگی کے جو مشاہدات اور تجربات بتاتے تھے وہ بڑے انمول اور موثر ہوا کرتے تھے ، اس ناچیز نے بارہا کوشش کی کہ ان کے مشاہدات کو ریکارڈ کرکے محفوظ کیا جائے ، جس کی کم ہی فرصت ملی ، خوش قسمتی سے آپ کی رحلت سے کچھ عرصہ قبل 1987ء میں نائطی زبان میں آپ کے دو ویڈیو انٹرویو لینے کا موقعہ نصیب ہوا ۔ یہی انٹرویو آب بیتی کی شکل میں اردو زبان میں منتقل کرکے پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں ، ہمیں امید ہے کہ قارئین اسے پسند کریں گے ۔ مرحوم کے حالات زندگی پر مولانا سید ابوالحسن ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل نے ایک خصوصی مجلہ عرصہ پہلے شائع کیا تھا ، لیکن آپ کی ایک مفصل سوانح لکھنے کا قرض ابھی باقی ہے ، دعا کریں اللہ تعالی اس سے سبکدوشی کی کوئی راہ نکالے ۔ شکریہ(عبد المتین منیری۔ بھٹکل۔کرناٹک)


خاندانی پس منظر
محترم محی الدین منیری صاحب خاندان منیری کے گل سرسبد تھے ۔ یوں تو عددی لحاظ سے یہ خاندان قبیلہ بہ نسبت چھوٹے خاندانوں میں شمار ہوتا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ معاشرے میں عزت و احترام سے نوازا ہے ۔ گذشتہ دور میں اس خاندان کے نائطی زبان کے دو شاعر مشہور ہوئے جن کا کلام گھر گھر پڑھاجانے لگا، ان میں سے ایک مولانا اسماعیل منیری ؒ تھے ، جن کا لکھا ہوا مولود نامہ نائطی زبان کے کلاسیکل ادب کا ایک ستون سمجھا جاتاہے ۔ مولانا خواجہ بہاؤ الدین اکرمی ندوی ؒکے بقول آپ کی تصنیف کردہ عربی زبان میں فقہ شافعی کی کتابیں مخطوطات میں پائی جاتی ہیں ۔ آپ کو سلطان ٹیپو کے دربار تک رسائی حاصل تھی ۔ آپ یمن کے بزرگ عالم شیخ محمد علوی جفری کے تین خلفاء میں سے ایک تھے۔ مشہور ہے کہ شیخ جفری نے سلطان ٹیپو شہید کو خلافت سے نوازا تھا اور انہیں ایک تلوار دی تھی ۔
دوسری معروف شخصیت حضرت شمس الدین منیری ؒ کی ہے ، آپ کی لکھی ہوئی مناجاتیں شادی بیاہ کے موقع پر عموماً پڑھی جاتی ہیں۔ خاص طورپر آپ کی لکھی ہوئی مناجات
ربا تو کر اپلو کرم + ہیں بے دلاور دم بدم
گناہ امچی سا بخسون + کر تو ایمانے وار ختم
ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود اپنی رونق باقی رکھے ہوئے ہے۔
جدِ امجد محمد امین منیری ؒ ایک سیدھے سادھے بزرگ تھے ، آپ نے اور ان کے ایک فرزند اسماعیل منیری نے الگ الگ اوقات میں حج بیت اللہ کا پیدل سفرکیا تھا۔
سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے ، محی الدین بن محمد امین بن محمد حسن بن محمد امین بن محی الدین بن محمد منیر بن محمد امین بن علی سکری ۔شیخ علوی الجفری علیہ الرحمۃ نے مولانا اسماعیل کو خلافت سے نوازتے وقت جو کتاب عنایت کی تھی ، اس قلمی نسخے پر آپ نے اپنا سلسلہ نسب سکری صدیقی لکھا ہے،جس کا واضح مطلب ہے کہ اس خاندان کا مخدوم فقیہ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ہے۔ یہ بزرگ ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم کے خانوادہ قاضی بد رالدولہ کے جد اعلی ہیں ۔ علی سکری پر منیری خاندان بھٹکل کے اور اہم اکرمی خاندان سے ملتا ہے ، منیری صاحب کے والد اور ان جد اعلی جامعہ مسجد کے قدیم قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔(یہاں سے الحاج محی الدین منیری مرحوم کی زبانی آب بیتی شروع ہوتی ہے ۔ ع ۔ م ۔ م )

Читать полностью…

علم و کتاب

مانگے کا اجالا
ٹرین اسٹیشن ایک ایسا مقام ہے جہاں ہر روز مختلف کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مسافر ایک دوسرے سے ملتے ہیں، جہاں کچھ رشتہ مضبوط ہوتے ہیں اور کچھ ٹوٹ جاتے ہیں۔ ٹرین اسٹیشن میں ہر طرف بے شمار چہروں کی مایوسیاں، امیدیں اور خواب نظر آتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے سفر کی خوشی میں ہوتے ہیں، کچھ واپس آنے کی توقع رکھتے ہیں، اور کچھ وداعی کے لمحات میں گم ہوتے ہیں۔ اس اسٹیشن پر ہر چہرہ ایک کہانی سناتا ہے، اور ٹرین کی گھنٹیاں اس کہانیوں کے سنگیت میں ضم ہوتی ہیں۔
یہی وہ جگہ ہے جہاں محبتیں بھی پروان چڑھتی ہیں، جہاں رخصت کے وقت دل کا بوجھ اور ملاقات کے وقت خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ٹرین اسٹیشن صرف ایک جگہ نہیں، بلکہ ایک لمحہ ہے جہاں وقت رک جاتا ہے، جہاں ہر چیز کا ایک نیا رخ دکھائی دیتا ہے۔

یہ اسٹیشن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی ہمیشہ حرکت میں رہتی ہے، کبھی رکتی نہیں، اور ہر اسٹیشن ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سچی باتیں (۲۸؍اکتوبر ۱۹۴۰ء) ۔ آخری عشرہ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

روحانیات کے عالم میں موسم بہار ختم ہونے کو آگیا۔ امت کے ’’ریفریشر کورس‘‘ کے خاتمہ کو ایک ہفتہ رہ گیا، سپاہیوں کے قدم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوگئی۔ آخری فرصت کو غنیمت سمجھ، سیکھنے والوں اور حاصل کرنے والوں کی ہمت اورمستعدی بڑھ گئی، طلب اور تڑپ دوچند ہوگئی۔ رمضان کا مبارک مہینہ، سستی اور کاہلی، پڑے رہنے اور انگڑائیاں لیتے رہنے کا مہینہ کبھی بھی نہ تھا۔ آخری ہفتہ میں چستی اور مستعدی اپنے حدّ کمال کو پہونچ گئی۔ مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا تھا(اولہ‘ رحمۃٌ)تمامتر نیکی کے قویٰ کو تحریک ہوتی رہی۔ دوسرے عشرہ سے نتائج ظاہر ہونے لگے، دلوں سے زنگ دُور ہوگئے، روح میں جلا آگئی(أوسطہ‘ مغفرۃٌ) تیسرا عشرہ نچوڑ کا ہے، رہی سہی کثافتیں بھی دور ہوجائیں گی، ایک ایک فرد، اور ساری کی ساری اُمت نکھر جائے گی، سنور جائے گی، سُدھر جائے گی(وآخرہ‘عتقٌ من النار)……حدیث میں آتاہے کہ اس فوج کا سردار اعظمؐ، آخر عشرہ میں تمامتر وقفِ عبادت ہوجاتاتھا۔ تعلقات خلق سے وقتی انقطاع کے ساتھ مصروفیت ویکسوئی براہ راست خالق وناظر کے ساتھ ہوجاتی تھی!
خبر دی ہے اُس نے جس کی دی ہوئی ہرخبر سچ اور سچی ہی نکلی ہے، کہ اسی مشق وریاضت والے مہینہ (شہر الصبر) ، اسی رحم وہمدردی والے مہینہ (شہر المواساۃ) کے آخری عشرہ میں کوئی رات ایسی بھی آتی ہے، جو سال کی ہررات عمر کی ہررات سے بڑھ کر قیمتی اور قابل قدر ہوتی ہے۔ ڈھونڈواُسے آخر کی پانچ طاق راتوں میں۔ اللہ والے اس تلاش میں ساری ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں۔ اور دن بھر کی بھوک، پیاس کے ساتھ ساتھ رات کی نیند کی قربانی بھی بے تکلف اور بمسرت اپنے اَن دیکھے مولیٰ کے حضور میں پیش کردیتے ہیں، کہ رحمت کے فرشتے جس وقت بھی انھیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں، غافل نہیں،ہوشیار ومستعد، اپنی چاکری پر کمربستہ، اپنی ڈیوٹی پرمسلح پائیں!……جو امت ہرسال اس مجاہدہ کی منزلوں سے گزرتی ہے، دنیا کی جدوجہد میں اُسے کسی قوم سے بھی پیچھے رہنا چاہئے؟ ہنگامہ عمل میں کسی سے بھی بچھڑ جانے، اور بچھڑ جانے کا خطرہ اُسے ہے؟
تیسواں دن یا اکتیسویں دن خوشی کا دن ہوگا۔ سالانہ جشن کی تاریخ ہوگی۔ اللہ کے دربار میں اللہ والوں کے میلہ لگنے کی گھڑی آئے گی۔ یہ انوکھے میلہ والے گھروں سے نکلیں گے، فحش گیت گاتے ہوئے نہیں، ایک دوسرے پر رنگ کی کیچڑ اُچھالتے ہوئے نہیں، پاک صاف ہوکر، نہادھوکر، دلوں میں اللہ کا نام جپتے ہوئے، زبانوں سے توحید کی بڑائی پکارتے ہوئے، شہر کے باہریا محلہ کے مرکز میں جمع ہوں گے، ناچ، ناٹک، سوانگ دیکھنے نہیں، گھوڑدوڑ میں بازی لگانے نہیں، کارنیوال میں پانسہ ڈالنے نہیں، حمدوتسبیح کے لئے، رکوع وسجود کے لئے، توحید کی گواہی، رسالت کی شہادت کے لئے۔ آج نہ کوئی بڑا ہوگا نہ کوئی چھوٹا۔ نہ کوئی آقا اور نہ کوئی رعایا، نہ کوئی شریف نہ کوئی رذیل۔ محمود وایاز ایک صف میں کھڑے ہوں گے، محلہ کے دھوبی، بھشتی، نائی، جو رئیسوں کی ڈیوڑھیوں اور حویلیوں پر گھنٹوں کھڑے، اور پہروں پڑے رہتے ہیں، اور پھر باریابی نہیں ہوتی، آج بے تکلف اور بلاجھجک اُنھیں رئیسوں، امیروں نوابوں کے شانہ سے شانہ ملائے کھڑئے ہوں گے، ایک ساتھ اُٹھیں گے، ایک ساتھ جھکیں گے، ایک ساتھ دعاؤں کے لئے ہاتھ اُٹھائیں گے!……زبانیں ایک ہوں گی، ہاتھ پیر ایک ہوں گے، قالب ایک ہوں گے، عجب کیا ہے جو اس ظاہری اور خارجی یک رنگی، یک جہتی، یکسوئی سے دل اور روحیں بھی ایک ہوجائیں!

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*۔۔۔۔ گداگروں کے متعلق یہ فرض کرلینا درست نہ ہوگا کہ سب ہی فراڈ ہوتے ہیں۔ بعض کی مجبوریاں پیدائشی ہوتی ہیں۔ ابھی کل ہی ایک معصوم لڑکا معصوم صورت بنائے گلے میں تختی لٹکائے آیا۔ تختی پر لکھا تھا:
"میں گونگا اور بہرہ ہوں راہِ مولا میری مدد کیجیئے۔"
ہم نے ایک روپیہ دیا اور چمکار کر کہا :
برخوردار کب سے گونگے اور بہرے ہو؟
بولا:
جی پیدائشی گونگا بہرہ ہوں۔

(خمارِ گندم از ابن انشاء)

Читать полностью…

علم و کتاب

گزرے ہوئے لمحے اور آنے والے دن

تحریر: مولانا سید ازہر شاہ قیصر رحمۃ اللّٰه علیہ

سیکنڈوں سے منٹ، منٹوں سے گھنٹے، گھنٹوں سے دن اور پھر دنوں سے ماہ و سال بنتے جاتے ہیں۔ وقت کا یہ سفر ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور عالمِ ناسوت کے ختم تک جاری رہے گا۔ جگر مراد آبادی نے کیا اچھی بات کہی تھی کہ

"کس کا خیال کونسی منزل نظر میں ہے
صدیاں گزر گئیں کہ زمانہ سفر میں ہے"

شارع علیہ السلام نے وقت کی بڑی قدر کی اور اسے بہت قیمتی بتایا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ اللّٰه تعالیٰ فرماتا ہے کہ وقت کو برا نہ کہو کہ وقت کو برا کہنا، مجھے برا کہنا ہے۔ گویا یہ شب و روز، یہ ماہ و سال، یہ قرن و صدیاں، خدائے ذوالجلال کی قدرتِ کاملہ اور قوتِ تخلیق کے مظہرِ اتم ہیں۔ اور ان کے دامن میں جو کچھ ہے، وہ سب اللّٰه تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہے۔ وقت کی ایک حیثیت تو یہ ہے۔ اور دوسری حیثیت یہ کہ وقتِ عزیز کا جو لمحہ بھی ہمارے ہاتھ سے نکلا، وہ صرف وقت نہ تھا، بلکہ قدرت کی بخشی ہوئی ایک لازوال نعمت تھی، جس میں ہمیں اچھے کام نہ کرنے کا افسوس اور آنے والے لمحاتِ زندگی میں اپنے کردار کو خوب سے خوب تر، بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک اور حدیث مروی ہے کہ اہلِ قبور، زندہ لوگوں کو جب عبادت کرتے اور مسجدوں سے نمازیں پڑھ کر باہر آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو حسرت کرتے ہیں کہ کاش! ہمیں پھر یہ ناسوتی زندگی ملے اور ہم اسی طرح پھر کوئی عبادت و ریاضت کا فرض انجام دے کر، اپنے نامۂ اعمال کو روشن کرسکیں۔ ہر دانشمند کی نظر میں ہر لمحۂ زندگی، فانی زندگانی کا ایک حصہ ہے، وہ گزرتے ہوئے لمحوں میں اپنی غفلت کوشی پر ندامت محسوس کرتا اور آنے والے سال میں اپنے عزم و ہمت کو اچھے کاموں کے لیے تیار کرتا ہے۔

ماہنامہ: طیب/مئی: ۱۹٨٦/صفحہ: ٦/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

جماعت مذہبی ہو یا سیاسی، اس کا کارکن چونکہ اپنی عقل سے کام نہیں لیتا (پارٹی لائن کوفالوکرتاہے)، لہذا سب سے زیادہ کم عقل بھی وہی ہوتا ہے اور سب سے زیادہ مار بھی وہی کھاتا ہے۔ یہ مار وہ deserve بھی کرتا ہے۔
*ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر*

Читать полностью…

علم و کتاب

سقراط نے ایک بار کہا تھا:
"اگر کوئی گدھا مجھے لات مارتا ہے تو کیا میں اس پر مقدمہ کروں گا، شکایت کروں گا یا اسے واپس لات ماروں گا؟"

بات یہ نہیں کہ ہر مباحثہ جیتا جائے یا ہر دلیل میں کامیابی حاصل کی جائے، بلکہ یہ ہے کہ اپنی توانائی ان لوگوں پر صرف کی جائے جو اس کے مستحق ہوں۔

جہالت چیختی ہے، جبکہ عقل خاموش رہتی ہے۔ جب کسی کے پاس دینے کے لیے توہین اور شور شرابے کے سوا کچھ نہ ہو، تو سب سے طاقتور جواب خاموشی ہے۔

کسی ایسے شخص کی سطح پر مت گریں جو محض تنازعات کے لیے کوشاں ہو۔

سچی ذہانت کو خود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ اپنی روشنی سے خود بخود نمایاں ہو جاتی ہے۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel