علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
*ختم قرآن کے دن مٹھائی بانٹنے میں خرابیاں*
اور ایک خرابی ختم کے دن یہ کر رکھی ہے کہ مٹھائی تقسیم کرتے ہیں، یہ خرابی اگرچہ ظاہر میں نہیں معلوم ہوتی مگر میں سمجھائے دیتا ہوں ، بات یہ ہے کہ یہ مٹھائی یا تو ایک شخص کی رقم سے آتی ہے تو اس میں یہ خرابی ہے کہ اس کی نیت دکھلاوا اور نام کرنے کی ہوتی ہے، اور اگر چندے سے ہوتی ہے تو اس میں یہ خرابی ہے کہ چندہ زور ڈال کر وصول کرتے ہیں اور اس سے لوگوں کے دل دکھتے ہیں دل دکھا کر لینا ایسا ہی ہے جیسا کہ مار پیٹ کر لیا جائے جب دوسرے کو دبا کر شرما کر لیا تو اس کے زبردستی ہونے میں کیا شبہ رہا
( تسہیل المواعظ / ص٩٢ )
مرزا غالبؒ کی الحاح و زاری کا نفع
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے فرمایا کہ غالبؒ شاعر کو ایک مرتبہ جنازہ پڑھانا پڑگیا۔ پہلے چونکہ کبھی اُن کو جنازہ پڑھانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ شاعر تھے۔ یاد بھی ایسا ہی تھا۔ جنازہ میں آگے کھڑے ہوکر اِس مضمون کی دعا کی۔ یا اللّٰه! مجھ کو آتا جاتا تو کچھ ہے نہیں۔ پھنس گیا ہوں۔ آپ میرا پردہ رکھیں اور اس مردہ کو بخش دیں۔ غالبؒ نے اپنے رنگ میں بہت الحاح اور عجز سے بارگاہِ ایزدی میں دعا کی۔ بعدہ حضرت شاہ عبد القادر صاحبؒ نے اس مردہ کو خواب میں خوش و خرم دیکھا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اس کی وجہ اس سے معلوم کی۔ کہا کہ غالبؒ کی دعا خدا نے قبول فرمائی، جس سے یہ راحت مجھ کو ملی ہے۔
(ملفوظات حکیم الامتؒ/جلد: ۱۵/صفحہ: ۱۹۹/۲۰۰)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا سندیلویؒ پرانے بزرگوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے تھے، آپ نے حضرت حکیم الامت تھانویؒ، مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ، شیخ الحدیث مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر کی صحبتیں اٹھائے ہوئے تھے۔ندوۃ العلماء میں داخلہ سے قبل آپ نے مدرسہ فرقانیۃ لکھنو میں تعلیم پائی تھیں، امام اہل سنت مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی کی مدتوں رفاقت حاصل رہی تھی، لہذا آپ پر آخر الذکر کارنگ سب پر غالب محسوس ہوتا تھا۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی محبت آپ کے رگ وپے میں پسی ہوئی تھی، جس نے رافضی مذہب سے دوری ومنافرت دل ودماغ میں پیوست کردی تھی، لہذا آپ نے زندگی بھر اس مسئلے پر کبھی بھی مصالحت ومداہنت کا موقف نہیں اپنایا، آپ مناظر تو نہ تھے، لیکن آپ کی شخصیت پر متکلمانہ رنگ غالب ہوگیا تھا،اور اس میں اتنی شدت ہوگئی تھی،کہ مشہور تھا کہ جب دریائے گومتی میں دو مچھلیاں لڑتیں نظر آتیں، تو اس میں آپ کو رافضی سازش نظر آتی، آپ کے ہم عمر اور معاصر حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ پر داعیانہ رنگ غالب تھا، لہذا آپ کے زبان وبیان میں اس قسم کے مسائل میں پختہ عقیدے کے باوجود اس شدت کا احساس نہیں ہوتا تھا ، جو ایک مناظر اور متکلم کے اسلوب میں ہوتا ہے، سننے میں آیا کہ اس وجہ سے کئی ایک ایسے مواقع بھی پیش آئے جب ایسے مسائل پر ان دونوں میں چشمک بھی ہوئی، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے تھے، خاص طور پر مولانا علی میاں نے لکھنو کی ٹکسالی زبان میں جو بیش بہا دینی وفکری لٹریچر پیش کیا اسپر وہ آپ کے دل وجان سے معترف تھے۔ ندوے میں آپ کے آخری دور میں مولانا قاضی معین اللہ ندوی مرحوم نے نائب ناظم کا عہدہ سنبھالا، آپ مولانا سندیلوی کے شاگردوں میں تھے۔
آپ کے ایک دیرینہ شاگرد مولانا قاری عبد الحمید ندوی (بہرائچ) نے ۱۹۵۹ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا تھا، اس وقت آپ مولانا سے قریب رہے، آپنے ملک سے ہجرت کے بعد بھی اس تعلق کو باقی رکھا، مولانا کی اہلیہ کے انتقال کے بعد آپ ہی کی دعوت پر ۱۹۹۰ء اور ۱۹۹۲ء میں دو بار آپ دبی تشریف لائے تھے، اس زمانے میں اس ناچیز کو مولانا کی صحبت میں بیٹھنے اور ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کرنے کا موقعہ ملا تھا۔
قاری صاحب اپنے مشفق استاد کے کئی سارے رازہائے سربستہ کے امین ہیں۔ ان سے مولانا کے بارے میں کئی ساری ایسی باتوں کا علم ہوا ، جن سے لوگ عموما ناواقف ہیں، آپ سے معلوم ہوا کہ مولانا کا اپنے طالب علموں سے بڑا گہرا اور مشفقانہ تعلق تھا، وہ سیدھے سادھے اور بااصول انسان تھے، ان کی زندگی تصنع اور تکلف سے پاک تھی، اس کا اندازہ آپ مولانا کی اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ فرماتے تھے کہ "ہمارے جتنے لوگ اپنے ساتھ احقر، ناچیز، ننگ اسلاف جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، وہ سب جھوٹے ہیں، کوئی خود کو احقر و ناچیز نہیں سمجھتا ، سوائے حضرت شیخ الاسلام مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ، جب وہ اپنے لئے ننگ اسلام لکھتے تھے، تو خود کو سمجھتے بھی تھے"۔
مولانا کا اپنے طلبہ سے خاص تعلق تھا،وہ ان کی نفسیات اتنی باریکی سے سمجھتے تھے جیسے کوئی کشف والہام ہوا ہو، مثلا ہمارے ایک عزیز سے جو اس زمانے میں ندوے میں تعلیم پارہے تھے، ایک مرتبہ مخاطب ہوکر کہا کہ آپ بہت زیادہ ناول پڑھتے ہیں، اور یہ بات درست تھی۔
آپ ایک حکیم بھی تھے، ہومیوپیتھی علاج بھی کرتے تھے، اور طلبہ جب بیمار پڑتے تو ان کے علاج پر خوب توجہ دیتے، کبھی ایسا ہوتا کہ ان کے پوشیدہ اعضاء میں کوئی مرض ہوتا تو خود اپنے ہاتھ سے ان کی صاف صفائی اور مرہم پٹی کرتے۔ آپ طلبہ کی اخلاقیات، فرائض و ارکان کی پابندی پر خصوصی توجہ دیتے تھے، فجرکے وقت خود کمروں میں جاکر طلبہ کی چادریں اور رضائیاں الٹتے، جس سے طلبہ ان سے بہت مرعوب رہتے تھے، لیکن طلبہ آپ سے محبت بھی اتنی ہی شد ومد سے کرتے تھے، حالانکہ آپ ان کی ڈسپلن شکنی کبھی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔
مولانا سندیلہ کے ایک تعلقہ دار خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتےتھے ،آپ کا مکان اشفاق منزل ایک سیدھا سادھا گھر نہیں بلکہ ایک حویلی تھا۔ آپ کی اہلیہ بھی ردولی کے ایسے ہی خوشحال گھرانے سے آئی تھیں، جہاں سب کام نوکر چاکر کیا کرتے ہیں ۔ مولانا کی ازدواجی زندگی مثالی تھی، زوجین میں بے پناہ محبت تھی۔ لیکن اس زمیندارانہ ماحول کی کچھ خامیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی تھیں، مثلا ساس اور بہو میں اس انس ومحبت اور تعلق کا فقدان تھا، جسے مثالی کہا جاتا ہے۔ لیکن مولانا نے والدہ کے حق کی ادائیگی میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی، جب تک والدہ وطن میں رہیں، جمعرات کی دوپہر کو دارالعلوم میں چھٹی ہوتی تو تانگے پر بیٹھ کر بس اڈے جاتے، وہاں سے بس پکڑ کر سندیلہ والدہ کے پاس چلے جاتے، وہاں جمعہ گزار کر سنیچر کی صبح دارالعلوم درجے میں پہنچ جاتے ، اس رواداری اور خدمت میں آپ نے کبھی فرق نہیں آنے دیا۔
وفیات مورخہ: 22 مارچ
...............................
ابو محمد جائسی، حافظ 22 مارچ 1973 ء
احسان دانش 22 مارچ 1982 ء
احمد فاخر 22 مارچ 1998 ء
استاد کبیر خاں 22 مارچ 2001 ء
آفتاب احمد صدیقی، ڈاکٹر 22 مارچ 1998 ء
بزمی انصاری (عبدالصمد) 22 مارچ 1989 ء
جیلانی چاندپوری 22 مارچ 2005 ء
حمید احمد خاں 22 مارچ 1974 ء
حمید احمد خاں ، پروفیسر 22 مارچ 1974 ء
ڈاکٹر صابر کلوروی 22 مارچ 2008 ء
ڈیویڈ مارگولیتھ 22 مارچ 1940 ء
ساگر سرحدی 22 مارچ 2021 ء
شیخ احمد یاسین 22 مارچ 2003 ء
شید، احمد مشتاق 22 مارچ 1994 ء
محمد عمر بلوچ 22 مارچ 2004 ء
مولانا سلیم کھتری 22 مارچ 2023 ء
مولانا سید نصیر احمد فیض آبادی 22 مارچ 2011 ء
مولانا عبد الغفار حسن عمر پوری 22 مارچ 2007 ء
نثار بزمی (موسیقار) 22 مارچ 2007 ء
یزدانی جالندھری 22 مارچ 1990 ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*بزرگوں کی خدمت میں اصلاح علم کے لیے بھی جانا چاہیے*
"مشائخ کے یہاں جانے کی ضرورت عموما یہ سمجھی جاتی ہے کہ عمل کی اصلاح ہو، مگر میں کہتا ہوں کہ علم کی اصلاح کے لیے بھی جانا چاہیے، اس لیے کہ صحیح علم اللہ والوں ہی کے پاس ہوتا ہے، علم قیل و قال کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک نور ہے جو اللہ کی طرف سے مومن کے قلب میں ڈالا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ عملی گمراہی علمی گمراہی کا نتیجہ ہے اور یہ اس زمانے میں عام ہے، عقائد کا تعلق علم ھی سے ہے، علم صحیح نہ ہوگا تو عقیدہ بھی صحیح نہیں رہ سکتا."
مصلح الامت حضرت *مولانا شاہ وصی اللہ* فتح پوری رحمة اللہ علیہ
(تذکرہ مصلح الامت، ص169)
*غلطی ہائے مضامین*
*چاند کا قضیہ*
*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*
کیوں نہ آج منہ کا مزہ بدلنے کو کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں ہو جائیں۔
ہمارے ہاں عموماً ہر سال رمضان یا شوال سے متعلق ’چاند کا قضیہ‘ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔مگرہم توآج چاند کا کوئی اور ہی قضیہ لیے بیٹھے ہیں۔
نویں جماعت میں تھے جب ۱ ۲ جولائی ۱۹۶۹ء کو دنیا بھر میں یکایک غل مچ گیا کہ ۰ ۲جولائی کوامریکا چاند پر اُتر گیا۔ ہمیں یقین ہوا ہم کو اعتبار آیا کہ جوملک ہیرو شیما، ناگا ساکی اور ویت نام وغیرہ میں دہشت گردی پر اُتر سکتا ہے وہ چاند پر کیوں نہیں اُتر سکتا؟ مگر بہتیرے اُس وقت بھی دُبدھا میں تھے، اور بہت سے آج بھی ہیں۔
آج کی بات بلکہ اس صدی کی بات یوں سمجھیے کہ ۵ ۱فروری ۲۰۰۱ء کو امریکا ہی کے فاکس ٹی وی نے ایکاایکی اپنے خوابِ سرشاری سے اُٹھ کر اپنی نشریات میں یہ ہنگامہ خیز سوال اُٹھا دیا کہ
”کیا ہم واقعی چاند پر اُترے ہیں؟“(پچھلی صدی میں)
جواب میں کہا گیا:
”نہیں! بس لندن کے ایک اسٹوڈیو میں کچھ جعلی فلمیں بنا کر دنیا کو دکھا دیا گیا۔ یوں امریکا نے پوری دنیا کو بے وقوف بنایا۔ یعنی انسان کے چاند پر اُترنے کا فقط ڈراما رچایاگیا۔ اپالو-۱۱ جو ۱۶ جولائی ۱۹۶۹ء کو خلا میں بھیجا گیا تھا آٹھ دن زمین کے مدار کے گرد چکر لگا کر واپس آگیا“وغیرہ وغیرہ۔
اس سے قبل ۱۹۹۴ء میں شائع ہونے والیAndrew Chaikin کی کتاب "A Man on the Moon" میں بھی بتایا گیا تھا کہ ”ایسا ڈراما رچانے کی منصوبہ بندی دسمبر۸ ۱۹۶ء میں بھی کی گئی تھی“۔مگر خیر، یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس قضیے سے مستقبل کے مؤرخ اور محقق کی روزی روٹی کا بندوبست ہو گیا ہے۔ہم ان دکھیاروں کے پیٹ پر لات کیوں ماریں؟
لات تو دھری نیل آرمسٹرانگ نے۔ خبروں کے مطابق تین امریکی خلاباز نیل آرم اسٹرانگ، مائیکل کولنس اورایڈوِن بز ایلڈرن ۱۶/ جولائی ۱۹۶۹ء کو اپالو گیارہ میں چاند کے مشن پر روانہ ہوئے۔چار دن بعد چاند تک پہنچ گئے۔ خلائی شٹل سے الگ ہوجانے والی چاند گاڑی’ایگل‘ چاند پر اُترگئی۔چاند گاڑی میں نیل آرم اسٹرانگ اورایڈوِن ایلڈرن سوار تھے۔ مائیکل کولنس خلائی جہاز میں بیٹھے بیٹھے چاند کے مدار میں چکر لگاتے اور تصویریں بناتے رہے۔۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء کو نیل آرم اسٹرانگ کو چاند پر سب سے پہلا قدم (یعنی لات) دھرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کے اترنے کے ۹ا منٹ بعد ایڈوِن ایلڈرن اُترے۔ خبروں کے مطابق دونوں صاحبان تین گھنٹے تک چاند پر مٹر گشت کرتے رہے۔ پھر دونوں نے اپنے جوتے وہیں چھوڑ ے اور چاند سے ٹوکری بھر مٹی اُٹھا کر رفو چکر ہوئے۔دونوں خلاباز ۲۴ جولائی ۱۹۶۹ء کو اپنے تیسرے ساتھی سے آملے اور بالآخر بخیریت زمین پر اُتر آئے۔یوں دنیا بھر میں امریکا کی ’واہ واہ‘ یا ’بلّے بلّے‘ ہوگئی۔
انسان کے چاند تک پہنچ جانے کی خبر سے خلائی سائنس و ٹیکنالوجی ہی کی دنیا میں نہیں، شعر و ادب کی دنیا میں بھی ایک بھونچال سا آگیا۔ اس خبرسے کسی کی آگہی میں اضافہ ہوا کسی کی غفلت میں۔ کسی کے ایمان میں ترقی ہوئی اور کسی کو ہمتِ کفر مل گئی۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقع پروالد محترم (مولوی ابوالحسنات صدیقی مرحوم) نے ایک قطعہ کہا تھا:
اِن خلا بازوں کی حرکت دیکھیے
چھوڑ آئے اپنا جوتا چاند پر
اے پجاری چاند کے، کچھ ہوش کر
جا پڑا ہے کیسا جوتا چاند پر
اسی ضمن میں رئیس امروہوی مرحوم کا یہ قطعہ بھی یاد آگیا:
گنجِ زر کھول دیے دولتِ امریکا نے
کُرۂ ماہ کا سودا جو سمایا سر میں
چاند کی سطح سے اے دوست خلائی فاتح
خاک لائے ہیں کوئی ڈیڑھ ارب ڈالر میں
اس فرضی یا حقیقی تسخیر ماہ کے بعد کہے گئے اشعار تو بے شمار ہیں بلکہ آج تک کہے جارہے ہیں۔ مگر روز مرّوں اور محاوروں کی دنیا میں بھی ایک تازہ بہار آگئی۔ وہ دانشور جو قوم کو طعنے تشنے دیتے رہنے ہی کو اپنی طرف سے ایک قیمتی قومی تحفہ اور قومی خدمت تصور فرماتے ہیں، اُن کے بے عمل ہاتھوں میں بھی،اس خبر پر ’ایمان بالغیب‘ لانے کے بعد، ایک نیا ہتھیار آگیا۔ بات بات پر کہا جانے لگاکہ
امریکا والے چاند سے ہو کر بھی آ گئے
ہم کو تو گولیمار کا رستہ نہیں ملا
ایسا ہی ایک طعنہ اُس وقت بھی ملا جب ہم ’ادارۂ فراہمی برق کراچی‘ المعروف بہ KESC میں برقی آلات کی تنقیح سیکھنے کو زیر تربیت تھے۔نژادِ نو کو کیا خبر کہ کسی زمانے میں KDA’ادارۂ ترقیاتِ کراچی‘ کہلاتا تھا،KMCکو ’بلدیہ عظمیٰ کراچی‘ کہا جاتا تھااور KW&SB کو ’ادارۂ فراہمی و نکاسیِ آب‘۔
حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !مجھے اپنی نیت کا پتہ ھے ،انہیں میری نیت کا کیسے پتہ چل گیا؟یہ پکوڑے بیچنے والے جس عظیم خاتون کے توسط سے ممبر بن کے آئے ہیں ان کی اپنی لیڈر کے بارے میں کیسی سوچ ہے؟
حافظ صاحب کی حس مزاح اور انداز تخاطب بہت جاندار تھا وہ بہت سنجیدہ ماحول کو اپنے ایک جملے سے کشت زعفران بنا دیتے تھے۔ عمر بھر مولانا فضل الرحمان کے ساتھی رہے آخر میں جنرل فیض جیسے "فضول" جرنیل کی وجہ سے مولانے سے اختلاف کیا جو بعد ازاں صلح کی صورت میں اپنے گھر واپسی کا سبب بنا ۔ حافظ حسین احمد سفر آخرت پر روانہ ہوگئے ہیں ۔انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک انہیں غریق رحمت فرمائے ۔
*خواجہ ظفر الہی کی وال سے*
ایک مطالعہ‘‘، 30۔’’ مولانا صلاح الدین احمد، فن اور شخصیت‘‘، 31۔’’حکیم عنایت اللہ سہروردی، حالات و آثار‘‘۔ 32۔ ’’ جدید اردو نظم کے ارباب اربعہ‘‘، 33۔’’کچھ وقت کتابوں کے ساتھ‘‘، 34۔’’مزید ادبی جائزے‘‘۔
ڈاکٹر انور سدید کی چند کتابوں مثلاً ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، ’’اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش‘‘،’’ اردو ادب میں سفر نامہ‘‘،’’ پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘، ’’اردو ادب میں انشائیہ‘‘ کو موضوع کے اعتبار سے اولین تصنیف ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ انور سدید ان دنوں ’’نوائے وقت‘‘ سنڈے میگزین میں کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے رہے ہیں۔ 2003ء میں انہوں نے ایک سال میں 225کتابوں پر تبصرے لکھ کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔
انور سدید کے فن اور شخصیت پر پروفیسر سید سجاد نقوی نے ایک کتاب’’گرم دم جستجو‘‘ شائع کی ہے۔ رسالہ ’’اوراق‘‘، ’’تخلیق‘‘، ’’ارتکاز‘‘، ’’جدید ادب‘‘، ’’کوہسارجرنل‘‘، ’’ چہارسو‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ میں ان پر گوشے چھپ چکے ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید کی بیشتر کتابیں کالج اور یونیورسٹی طلبا کے علاوہ اعلیٰ ملازمین کے مقابلے کے امتحانوں میں شریک ہونے والوں کی معاونت کرتی ہیں اور کئی یونیورسٹیوں کے اردو نصاب میں شامل ہیں۔
وہ ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی کو اپنا محسن تصور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان دونوں نے انہیں ہمیشہ متحرک رکھا ہے۔
إن كان أكثر رمضان قد ذهب فإن الباقي منه أغلى من الذهب ، وإن ذهب أكثره فقد قَدِم أبركه ،وإن ذهب جله فقد بقي أجله ، وإن فات معظمه فقد أقبل أعظمه ، ففي بقيته خير كبير ، وخيره آخره فيه ليلة خير من ألف شهر في خيراتها وبركاتها فالموفق من يغنمه والمحروم من يحرمه فلنستقبل ليالي العشر المباركة بنية صادقة وهمة عالية وتوبة ماحية واجتهاد في العبادة في الليالي الباقية
تغريدة الشيخ سليمان الرحيلي -حفظه الله-
وفیات مورخہ: 20 مارچ
اخلاق احمد دہلوی 20 مارچ 1999 ء
انور سدید 20 مارچ 2016 ء
اہلیہ محترمہ مولانا اشرف علی تھانوی 20 مارچ 1992 ء
ایس ایچ ہاشمی (سید حسین ہاشمی ) 20 مارچ 2006 ء
ایوب گونڈوی (محمد ایوب خان) 20 مارچ 1982 ء
پیر سید صبغۃ اللہ شاہ راشدی دوم 20 مارچ 1943 ء
حامد نعمانی 20 مارچ 1942 ء
عشرت رحمانی (امتیاز علی خاں) 20 مارچ 1992 ء
علی الجارم (مصریی ادیب) 20 مارچ 1949 ء
لالہ رخ حسین 20 مارچ 2013 ء
محبوب عالم (اداکار) 20 مارچ 1994 ء
محی الدین مومن 20 مارچ 2010 ء
مہندر ناتھ 20 مارچ 1974 ء
مولانا سید منت اللہ رحمانی، امیر شریعت 20 مارچ 1991 ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات: مورخہ 18/ مارچ
بشیر حسین زیدی، کرنل 19 مارچ 1992 ء
حبیب بلقیس بیگم 19 مارچ 1972 ء
حجاب امتیاز علی 19 مارچ 1999 ء
رضوان اللہ، سید 19 مارچ 1964 ء
سید عارف حسین، میجر 19 مارچ 1955 ء
شفیق الرحمن 19 مارچ 2000 ء
شمیم کرہانی ، شمس الدین حیدر 19 مارچ 1975 ء
شوکت سبزواری، ڈاکٹر سید(شوکت علی ) 19 مارچ 1973 ء
ضیاء جالندھری (سید ضیاء نثار احمد) 19 مارچ 2002 ء
ظفر اقبال 19 مارچ 2012 ء
محمد علی صابونی، شیخ 19 مارچ 2021 ء
محمد علی(اداکار) 19 مارچ 2006 ء
محمود الہی ، پروفیسر 19 مارچ ء
ممتاز احمد خان قادری، 19 مارچ 2003 ء
مولانا سید منت اللہ رحمانی، امیر شریعت 19 مارچ 1991 ء
مولانا غلام محمد شملوی 19 مارچ 1934 ء
مولانا کوثر نیازی 19 مارچ 1994 ء
میکش مرادآبادی(مسعود القدر) 19 مارچ 1980 ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
روزہ، نیک اعمال پر ابھارتا ہے
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
روزہ کی بھوک اور فاقہ، ہمارے گرم و مشتعل قویٰ کو تھوڑی دیر کے لیے سرد کردیتا ہے، کھانے اور پینے کی مصروفیت سے ہم آزاد ہوتے ہیں، دوسرے سخت کاموں سے بھی ہم اس وقت پرہیز کرتے ہیں، دل و دماغ، شکم سیر معدہ کے فاسد بخارات کی پریشانی سے محفوظ ہوتے ہیں، ہمارے اندرونی جذبات میں ایک قسم کا سکون ہوتا ہے۔ یہ فرصت کی گھڑیاں، یہ قویٰ کے اعتدال کی کیفیت، یہ دل و دماغ کی جمعیت خاطر، یہ جذبات کا سکون ہونا۔ ہمارے غور و فکر، اپنے اعمال کے محاسبہ، اپنے کاموں کے انجام پر نظر اور اپنے کیے پر ندامت اور پشیمانی اور خدائے تعالیٰ کی باز پرس سے ڈر کے لیے بالکل موزوں ہے۔ اور گناہوں سے توبہ اور ندامت کے احساس کے لیے یہ فطری اور طبعی ماحول پیدا کردیتا ہے۔ اور نیکی اور نیک کاموں کے لیے ہمارے وجدانی ذوق و شوق کو ابھارتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ رمضان کا زمانہ، تمام تر عبادتوں اور نیکیوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اس میں تراویح ہے۔ اس میں زکوٰة نکالنا مستحب ہے۔ اس میں اعتکاف رکھا گیا ہے اور خیرات کرنا سب سے بہتر ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللّٰه عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم کی فیاضی تو گو سدا بہار تھی، لیکن رمضان کے موسم میں وہ تیز ہواؤں سے بھی زیادہ ہوجاتی تھی۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۸/۷۹/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
نیم مسلمان ہوچکنے کے بعد پھر پورا مسلمان بن جانا اور’’ادخلوا فی السلم کافۃً‘‘ کے تحت آجانا،کچھ زیادہ دشوار نہ تھا۔اقبالؒ کی اردو اور فارسی نظمیں،محمد علیؒ کی نظمیںاورتحریریں(خصوصاً زمانۂ نظر بندی ۲۱۔۲۳ء کی)سب اپنا اپنا کام کرتی رہیں،دل میں گھر کرتی گئیں،یہاں تک کہ مکتوبات مجددی نے اس پر پوری مہر لگادی۔مکتوبات کا جو امرتسری نسخہ متعدد جلدوں میں پیش نظر رہا،وہ اپنی صفائی،خوشنمائی اور کثرت حواشی کے لحاظ سے گویا مثنوی ہی کے اسی کانپوری ایڈیشن کی ٹکر کا تھا،اور اثر میں شاید کچھ ہی کم!مثنوی سے اگر طبیعت میں ایک شورش اور تڑپ پیدا ہوگئی تھی،تواس میںسکون اور ٹہراؤ،مکتوبات ہی کی برکت سے حاصل ہوا۔درمیان میں عطارؒ، سنائیؒ،جامیؒ،شیخ جیلانیؒ،غزالیؒ،سہروردیؒ، وغیرہم اکابر شیوخ کی خدا معلوم کتنی کتابیں نظم ونثر کی نظر سے گزرگئیں،لیکن دل پر نقش انہی دو کتابوں کا سب سے زیادہ گہرا بیٹھا رہا،پہلے مثنوی پھر مکتوبات،حالاں کہ سمجھ میں دونوں کا بڑا حصہ اس وقت تو کیا آتا ،اب تک نہیں آیا!۔
حال کی انگریزی کتابوں میںایک قابل ذکر کتاب اور یاد پڑ گئی۔یہ نو مسلم یوروپین لیوپولڈویس محمد اسد کی (islam on the crossroad)ہے ،دیکھنے میں چھوٹی سی،معنویت کے لحاظ سے بہت بڑی اور گہری ہے،ہر انگریزی خواں کے ہاتھ میں جانے کے قابل۔بڑی مسرت پڑھ کر یہ ہوئی کہ جو خیالات تہذیب فرنگ واسلام سے متعلق پہلے سے اپنے قائم ہوچکے تھے،یہ مغربی مفکر بھی گویا تمام تر انہیں کی تائید کررہا ہے۔
۱۹۲۷ ء تھا کہ ایک دوست کی رہنمائی سے پہلے رسائی مولانا تھانوی مدظلہ (رحمہ اللہ)کے مواعظ اور بعض رسائل سلوک تک ہوئی،اور پھر ۲۸ء میں خود مولانا اور ان کی دوسری تصانیف تک۔اس نے حقائق دینی وعرفانی کا ایک نیا عالم نظر کے سامنے کردیا۔اب ادھر چند سال سے مسلسل مشغلہ،اس بے علم و نااہل کا،خدمت قرآنی کا ہے۔اپنا تجربہ یہ ہے کہ دوسرے حضرات کے یہاں،اکثر اوراق پر اوراق الٹ جانے سے بھی وہ گہرے نکتے نہیں ملتے،جومفسر تھانویؒ کے یہاںچند سطروں کے اندر میسر آجاتے ہیں۔معاصرت کا ابتلا عجیب ابتلا ہے!اللہ سب کو محفوظ رکھے۔جو دیکھنا نہیں چاہتے انہیں آنکھیں چیر کر دکھایا بھی کیسے جاسکتا ہے؟اور یہ صرف تفسیر یا دوسرے علوم ظاہری ہی پر موقوف نہیں ہے،علوم باطنی میں تو پایہ شاید کچھ بلند ہی نکلے۔ ع
اے لقاے تو جواب ہر سوال
مشکل از تو حل شود بے قیل وقال
محسن کتابوںکی تعداد ہے اتنی بڑی کہ سب کی تفصیل لکھی جائے تو بجائے خود ایک کتاب تیار ہوجائے۔مختصر بلکہ مختصر تریہ کہ حدیث میں صحیح بخاری اور اسکی شرح فتح الباری نے آنکھیں کھول دیں،اور فقہ میں شرح صدر کے لئے ائمہ حنفیہ کے اقوال بالکل کافی ثابت ہوئے،فہم قرآنی میںمعروف ومتداول تفسیروں کو معین ومفید پایا،ان کی بے وقعتی خود اپنی محرومی کی دلیل ہے۔ان کتابوں کا نام اس بے تکلفی سے لے رہا ہوں،کہ گویاسب کو رواں اور صحت اعراب کے ساتھ پڑھ سکتا ہوں،حالاں کہ یہ ذرا بھی صحیح نہیں ،لغات،شروح ،تراجم کے سہارے کام کسی نہ کسی طرح بس چل ہی جاتا ہے،لغت میں تاج العروس اور پھر لسان العرب کے ساتھ اور لغت قرآنی میں مفردات قرآنی کے ساتھ سب سے زیادہ لگا لپٹا رہتا ہوں۔
انسانی کتابوں کے ساتھ اور ان کے ضمن میں اللہ کی کتاب کا نام لے آنا، اور دونوںمیں موازنہ و تقابل کی ٹہرانا بڑی ہی بد مذاقی ہے،اور پھر محسن کتابوں میں ’’کتابوں‘‘ (صیغۂ جمع)کا لفظ خود اس پر دلالت کرتا ہے کہ’’الکتاب‘‘ موضوع سے بالکل خارج ہے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
دین کیا ہے؟
حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا کہ دین دراصل زاویۂ نظر کی تبدیلی کا نام ہے۔ روزمرہ کے بیشتر کام اور مشاغل وہی باقی رہتے ہیں، جو پہلے انجام دیے جاتے تھے، لیکن دین کے اہتمام سے ان کی انجام دہی کا زاویۂ نگاہ بدل جاتا ہے۔ اور اس تبدیلی کے نتیجے میں سارے کام، جنہیں ہم دنیا کے کام کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں، عبادات اور جزوِ دین بن جاتے ہیں۔
(خطباتِ عارفی/صفحہ: ۳۸۴)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اسی طرح آپ اصول وضوابط میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے،قانون کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے طالب علموں کا کھانا دارالعلوم میں بند کیا جاتا تو یہ طلبہ آپ کی اہلیہ کے پاس آتے اور زیادہ تر اودھی انداز میں شکایت کرتے کہ " اماں اماں ہمارا کھانا بند کردئیے مولانا " تو آپ ان طلبہ سے استفسار کرتیں،" اچھا تمہارا کھانا بند کردین، میں کہت ہے، کیوں کھانا بند کیا؟۔ اور جب مولانا گھر آتے تو آپ سے مخاطب ہوکر کہتیں،"میں کہت ہے ، کیوں کھانا بند کیا،تمہارے باپ کا کھانا ہے"؟۔ تو مولانا جواب دیتے کہ میں نے جو قانونی چیز ہے اس پر عمل کیا، باقی کھانا تو اسے میں اپنے گھر سے دوں گا۔ میں کھلاؤں گا۔ کیوں فکر کرتی ہو۔ اس طرح مولانا اپنے گھر سے ان طلبہ کو کھانا کھلاتے، کہتے ہیں کہ اس وقت طلبہ میں آپ جیسی مقبولیت کسی اور استاد کو نہیں تھی۔
یہی وہ لوگ تھے جو ہمارے تعلیمی وتربیتی نظام کے ستون تھے، اب انہیں کہا ں سے ڈھونڈیں، اب تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، نہ وہ طالب رہے نہ استاد ، ا ب اگر درست تربیت ہو تو کیوں کر؟۔ حافظ عبد المقیت صاحب نے ایک بھولی بسری شخصیت کو زندہ کردیا ہے۔ جب ان شخصیات کے کارنامے اور زندگیاں سامنے چلتی پھرتی نظر آئیں گی تو ان کو نمونہ بنانا اور ان پر عمل کرنا آسان ہوگا۔ اس محنت و جفاکشی کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ مولانا سندیلوی کو جنت الفردوس کے اعلی مقامات میں جگہ دے۔ آمیں۔
2024-12-13
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندویؒ، ایک عاشق صحابہؒ اورنسلوں کے مربی*
* تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) *
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کتاب : مفکر اسلام حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلوی، حیات وآثار،(۱۹۱۳ء۔ ۱۹۹۵ء)
تالیف: حافظ محمد عبد المقیت
ناشر: عظمت رفتہ ، نشر واشاعت پاکستان
ایمیل: naqooshesandelvi@gmail.com
تیس سال کی مدت کوئی کم مدت نہیں ہوا کرتی، اس عرصہ میں ایک سے زیادہ نسلیں بیت جاتی ہیں، جب معلوم پڑتا ہے کہ اتنی مدت بعد بھی کسی شخصیت اور اس کی خدمات کو یاد کیا جارہا ہے، جسے اس کی زندگی ہی میں بھلا دیا گیا تھا، تو پھر ان لوگوں کی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں ، جو نام ونمود سے بلند ہوکر کام کرنا چاہتے ہیں، اور ان کے دل میں یہ عقیدہ پیوست ہوتا ہے کہ اس زندگی کی شہرت ومقبولیت کوئی چیز نہیں، اصل چیز تو اللہ تعالی کے یہاں کی مقبولیت ہے، اگر اللہ تعالی کو ان کی کوئی خدمت اور محنت پسند آئے گی تو ان شاء اللہ اسے زندگی ملنے سے کوئی روک نہیں سکتا، حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے تیس برس بعد آج جب انہیں یاد کیا جارہا ہے، اور ان کی زندگی اور آثار کو محفوظ کرکے آئندہ نسلوں تک پہنچانے کا نظم کرنے کی اطلاع ملتی ہے ،تو پھر اس عمل سے خلوص دل سے کام کرنے والوں کی ہمت بندھتی ہے، انہیں اپنی قرابانیوں کو جاوداں ہونے کی امید بندھ جاتی ہے ، جو ان کے لئے تحریک اور مہمیز کا کام دیتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے حافظ عبد المقیت صاحب سے ہماری کوئی ذاتی واقفیت نہیں، نہ ہی ان سے ہماری کبھی کوئی ملاقات ہوئی ہے۔ ان سے فون پر کبھی بات کرنا یاد نہیں ہے،پتہ نہیں کیسے انہیں میرا نمبر ملا اور انہوں نے واٹس اپ پر رابطہ کرکے مولانا محمد اسحاق سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث ومہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کےحالات زندگی اکٹھا کرنے اور آپ پر لکھے گئےاور آپ کے نادر ونایاب مضامین کو ایک گلدستے میں اکٹھا کرنے کا عندیہ دیا، اور مسلسل اس سلسلے میں یاد دہانی کرتے رہے، اور مجھ جیسےکاہل آدمی کو بھی کچھ نہ کچھ حرکت کرکے خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا پڑا۔
بڑی مسرت کا مقام ہے کہ ان کی یہ محنت رنگ لارہی ہے، اور ایک خوبصورت گلدستہ اہل ذوق کے سامنے آرہا ہے۔
مولانا سندیلوی ان شخصیات میں تھے، جن کا نام اس وقت سے اس ناچیز کے کانوں میں پڑنے لگا تھا، جبکہ ابھی شعوری زندگی کا آغاز ہورہا تھا۔مولانا سے ہمارے تایا اور سرپرست الحاج محی الدین منیری مرحوم بانی جامعۃ اسلامیہ بھٹکل و جامعۃ الصالحات بھٹکل سے گذشتہ صدی کے چوتھے او پانچویں عشرے سے روابط وتعلقات تھے، اس زمانے میں منیری صاحب نے بھٹکل میں ایک دارالعلوم کے قیام اور اسے سنبھالنے کے لئے پہلے ایک حافظ قرآن اور عالم دین کی تیاری کا منصوبہ بنایااور مولانا محمد اقبال مولوی ندوی کا حفظ قرآن مکمل کرواکر جب دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو بھیجا تو ان کو اس وقت کے عظیم اساتذہ شیخ التفسیر مولانا محمد اویس نگرامی ندوی، اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندویؒ کی نگرانی میں دے دیا۔ ایک تو یہ تعلق، دوسرا اس ناچیز کا جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ابتدائی طالب علموں میں شامل ہونے کی وجہ سے مولانا سندیلوی کا نام کانوں میں مسلسل پڑتا رہا، آپ کے علمی مضامین بھی نظروں سے گذرتے رہے، اور پھر خلافت وملوکیت کے رد میں لکھی گئی شاید اولین کتاب تجدید سبائیت (اول) مجلہ نظام کانپور کے خصوصی نمبر کی حیثیت سے سنہ ۱۹۶۸ء میں چھپ کر ہاتھ لگی، اور اسے سمجھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باوجود مکمل پڑھ ڈالی، غالبا اسی کا اثر تھا کہ آئندہ چھ سال تک خلافت وملوکیت کو ہم نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
۱۹۷۱ء تک آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں اہتمام سے وابستہ رہے، اور جب حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری علیہ الرحمۃ بانی جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن ، کراچی نے آپ کو اپنے ادارے کے شعبہ تحقیقات میں خدمات انجام دینے کی پیشکش کی تو اس وقت تک مولانا کی تصنیف تجدید سبائیت آپ کی شناخت بن چکی تھی، اور آپ کے افکار وخیالات کی قبولیت ہی کے باعث آپ کو مولانا بنوری علیہ الرحمۃ نے اپنے ادارے کی ایک عظیم ذمہ داری سونپی تھی، مولانا کا ظاہر وباطن ایک تھا، ان کی زندگی صاف وشفاف تھی، مختلف علمی ودینی مسائل میں آپ کا ابتدا میں جو موقف ہوا ، اس میں کبھی سر مو فرق نہیں آیا، لیکن بد قسمتی سے مولانا بنوری کے انتقال کے بعد آپ کی وہ قدر نہیں ہوسکی جس کے بجا طور پر وہ مستحق تھے، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں حق پر کون تھا؟۔ لیکن اتنی بات ضرورت ہے کہ مشاجرات صحابہ کے مسئلے میں جنہوں نے بھی ہاتھ ڈالا،شا ذ ونادر ہی کسی کی انگلیاں جلنے سے بچ گئیں۔
*مانگے کا اجالا*
سیر کو سوا سیر.................... 🤣🤣 میں آفس پہنچا ہی تھا کہ اسکول سے فون آیا!
.
مدھرآواز میں ایک خاتون بولیں -
"سر! آپ کا بیٹا سیکنڈ کلاس میں ہے،
میں نے اس کی کلاس ٹیچر بول رہیں ہوں.
آج پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے. رپورٹ کارڈ دکھایا جائے گا.
آپ اپنے بیٹے کے ساتھ ٹائم پر پہنچ جائیں ۔. "
.
بیچارہ میں کیا نہ کرتا.
حکم کا پابند ...
فوری طور پر ، گھر سے بیٹے کو لے کر اسکول پہنچ گیا ۔
.
سامنے مہنگا سا سوٹ پہنے، درمیانی عمر کی، گوری سی لیکن انتہائی تیز میم بیٹھی تھی ۔
.
اس سے پہلے کہ میں کچھ بول پاتا تقریبا ڈانٹتے ہوئے بولیں - "اتنا لیٹ آئیں ہیں ، اب انتظارکریں، میں آپ سے الگ بات کروں گی."
.
میں نے بیٹے کی طرف دیکھا، اور دونوں خاموشی سے واپس جاکر بیٹھ گئے.
.
"میم بہت غصے میں لگتی ہیں" - بیٹے نے دھیرے سے کہا.
"تمہارا رپورٹ کارڈ تو ٹھیک ہے" - اسی طرح میں بھی آہستہ سے بولا.
"پتہ نہیں پاپا، میں نے تو نہیں دیکھا. "- بیٹے نے اپنا دفاع کیا.
"مجھے بھی لگتا ہے، آج تمہاری میم تمہارے ساتھ میری بھی کلاس لیں گی." - میں خود کو تیار کرتے ہوئے بولا۔
.
ہم دونوں آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ تبھی میم فارغ ہوکر بولیں - "جی ہاں! اب آپ دونوں بھی آ جائیے ۔
.
میں کسی طرح اس شہد بھری مرچي سی آواز کے پاس پہنچا اور بیٹا میرے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا
.
میم:_ دیکھئے! آپ کی بیٹے کی شکایات تو بہت ہیں لیکن پہلے آپ اس امتحان کی کاپیاں اور رپورٹ دیکھئے اور بتائیے اس کو کس طرح پڑھایا جائے ؟
.
میم نے سمری میں تقریبا ساری بات کہہ دی ..
.
میم- پہلے انگلش کی کاپی دیکھئے .. فیل ہے آپ کا بیٹا.
میں نے ایک نظر بیٹے کو دیکھا جو سہما سا کھڑا تھا..
پھر مسکرا کر بولا...
میں - انگریزی ایک غیر ملکی زبان ہے. اس عمر میں بچے اپنی زبان نہیں سمجھ پاتے تو غیر مُلکی کیسے سمجھیں گے ؟
.
یہ میم کو غصہ دلانے کے لئے کافی تھا ...
.
میم- اچھا! اور یہ دیکھئے! یہ اردو میں بھی فیل ہے. کیوں؟
میں نے پھر بیٹے کی طرف دیکھا .. گویا نظروں میں اس سے شکوہ کر رہا تھا ۔۔
میں - اردو ایک مشکل زبان ہے. آواز اور تلفظ کی بنیاد پر. اس کو جیسا بولا جاتا ہے، ویسا لکھا جاتا ہے. اب آپ کے انگلش اسکول میں کوئی خالص اردو بولنے والا نہیں ہو گا تو یہ بولے اور لکھے گا کیسے ؟
.
میم - اچھا ... تو آپ اور بچوں کے بارے میں کیا کہیں گے جس میں ....
اس بار میں نے میم کی بات کاٹ کر بولا..
- اور بچے کیوں فیل ہوئے یہ میں نہیں بتا سکتا ... میں تو ....
.
میم چِڑتے ہوئے بولی - "آپ پوری بات تو سن لیا کریں، میرا مطلب تھا کہ اور بچے کیسے پاس ہو گئے ..." فیل نہیں "
.
اچھا چھوڑو یہ دوسری کاپی دیکھیں آپ.
آج کے بچے جب موبائل اور لیپ ٹاپ کی رگ رگ سے واقف ہیں تو آپ کا بچہ کمپیوٹر میں کیسے فیل ہو گیا
.
میں اس بار کاپی کو غور سے دیکھتے ہوئے، سنجیدگی سے بولا "یہ کوئی عمر ہے کمپیوٹر پڑھنے اور موبائل استعمال کرنے کی ، ابھی تو بچوں کو کھُلے میدانوں میں کھیل کود، بھاگ دوڑ کرنی چاہیے ۔
.
میم کا پارہ اب ساتویں آسمان پر تھا ... وہ کاپیاں سمیٹتے ہوئے بولی "سائنس کی کاپی دکھانے سے تو کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ میں بھی جانتی ہوں کہ البرٹ آئنسٹائن بچپن میں فیل ہوتے تھے۔ "
.
میں خاموش تھا ...
.
میم نے پھر شکایت آگے بڑھائی - "یہ کلاس میں ڈسپلن میں نہیں رہتا، باتیں کرتا ہے، شور کرتا ہے، ادھر ادھر گھومتا ہے ۔"
.
میں میم کو درمیان میں روک کر، اِدھر اُدھر نگاہ دوڑاتے ہوئے بولا..
.
- وہ سب چھوڑیئے! آپ کو کچھ بھول رہی ہیں. اس میں ریاضی کی کاپی کہاں ہے؟اس کا نتیجہ تو بتائیے ؟
.
میم- (منہ پھیرتے ہوئے) جی ہاں، اس کے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
.
پھر بھی، جب ساری کاپیاں دکھا دی تو وہی کیوں باقی رہے ؟ میں نے گھورتے ہوئے کہا
.
میم نے اس بار اسٹونٹ کی طرف دیکھا اور ان میں سے ریاضی کی کاپی نکال کر دے دی ۔
.
ریاضی کے نمبر اور نتیجہ دوسروں سے یکسر مختلف تھا .... 100فیصد ...
.
میم اب بھی منہ پھیرے بیٹھی تھیں، لیکن میں پورے جوش میں تھا
.
ہاں تو استانی صاحبہ، میرے بیٹے کو انگلش کون پڑھاتا ہے؟
.
میم- (آہستہ سے) میں!
.
اور اردو کون پڑھاتا ہے؟
.
میم- "میں"
.
اور کمپیوٹر کون پڑھاتا ہے؟
.
میم- وہ بھی "میں"
.
اب یہ بھی بتا دیجئے کہ ریاضی کون پڑھاتا ہے؟
.
میم کچھ بول پاتی، میں اس سے پہلے ہی جواب دے کر کھڑا ہو گیا
"میں" ...
.
میم - (شرماتے ہوئے) جی ہاں پتہ ہے.
.
تو اچھا ٹیچر کون ہے ؟؟؟؟؟
دوبارہ مجھے میرے بیٹے کی شکایت مت کرنا. بچہ ہے. شور شرابا تو کرے گا ہی ۔
.
میم تلملا کر کھڑی ہو گئی اور زور سے بولیں -
"" "ملنا تم دونوں آج گھر میں، دونوں باپ بیٹے کی اچھے سے خبر لیتی ہوں" "" !!!
یعنی کہ ہم باپ بیٹے کی خیر نہیں تھی😋😁😂
ہمارے برقی ادارے میں مشہور شاعر و ادیب شیخ ایاز کے چار بیٹوں میں سے ایک بیٹا ’باس‘ تھا۔ یہ ۱۹۷۶ء کا ذکر ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی شیخ ایاز مرحوم اپنے الحادی نظریات سے تائب نہیں ہوئے تھے۔ یہ معاملہ تو یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک کے پاش پاش ہونے کے بعد پیش آیا۔ شیخ ایاز کے صاحبزادے اِس گنہگار کالم نگار کو ’مولوی‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے(نماز پابندی سے پڑھنے کی پاداش میں)۔ایک صبح چیف انجینئر شیخ صاحب اپنی مخصوص زبان اور مخصوص لب و لہجے میں، بھری محفل میں، بآوازِ بلندبولے:
”اوئے مولوی! دیکھ، اُدھرانسان چاند پر پہنچ گیا ہے اوراِدھرتیرا مُلّا ابھی تک استنجا کے مسائل بیان کر رہا ہے“۔
حاضر باشوں نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور بڑی حقارت سے اس حقیر کی طرف دیکھا۔ایک ساتھی نے پسلی میں کہنی مار کر کہا:
”اس موقعے پرتمھاراچپ رہنا ٹھیک نہیں،تگڑا سا جواب دو“۔
شہ پا کر عرض کیا:
”شیخ صاحب! انسان چاند پر پہنچ تو گیاہے، مگرکیااس خوشی میں زمین پر اس نے پیشاب پاخانہ کرنا چھوڑ دیا؟“
اس پر ہمارے ساتھیوں نے بھی ایک زبردست قہقہہ لگایا۔سو،اس قہقہاتی قوت کی کمک سے توانا ہوکر یہ پُر عزم اعلان کیاکہ
”جب تک انسان پیشاب پاخانہ کرتارہے گا، ہمارا مُلا استنجا کے مسائل بیان کرتا رہے گا“۔
اعلان سنتے ہی شیخ صاحب نے فوراً ہمیں ”بوائلر کنٹرول پینل کے انسٹرومنٹ چیک“ کرنے کے لیے روانہ کردیا۔
جس زمانے میں پوری دنیا میں ’کورونا‘شدت سے پھیلا ہوا تھا ایک رات ایک ڈاکٹر دوست کا فون آیا۔ یہ خاصے مُلّا ٹائپ دوست ہیں۔ موصوف امریکا میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے کچھ عرصے تک ایک امریکی اسپتال میں طبی مشق کرتے رہے۔ پھر پاکستان واپس آئے اور یہاں آکر ایک مشہور اور مہنگے اسپتال میں دادِ طبابت دینے لگے۔ڈاکٹر صاحب نے اُس رات پہلے فون پر قہقہہ لگایا پھر ہمیں بتایا:
”کل رات میرے ایک امریکی ’ساتھی ڈاکٹر‘ نے بہت طویل وڈیو کال کی۔وہ اپنے مریضوں کو حفظانِ صحت کے معیاری طریقے سکھانے کے لیے مجھ سے وضو، استنجا اور غسل کے طریقوں کی تفصیل پوچھ رہے تھے۔ یہ بھی پوچھ رہے تھے کہ تمھارے دین میں ایسا کرنا کب کب لازم ہوتا ہے؟“
اللہ جانے ہمارے چیف انجینئر شیخ صاحب اب کہاں ہوں گے؟ کہیں چاند پر نہ ہوں۔ آس پاس ہوتے تو اُن کو بھی ہم خوشی خوشی بتاتے کہ
”لو بھئی شیخ جی! چاند تک پہنچ جانے کا دعویٰ کرنے والے بھی اب ہمارے ”مُلّا“ سے استنجا کے مسائل سیکھ رہے ہیں“۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
٭٭
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
روزہ، صبر و تحمل کی بہترین مشق ہے
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
روزہ بھی چونکہ صبر کی ایک قسم ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ صبر اور تحمل و برداشت کی مشق اور ورزش کی ایک بہترین اور آسان ترین صورت ہے۔ اس لیے مشکلات کے حل کرنے کے لیے دعا اور صبر کرنے کی خاص ہدایت ہوئی ہے: "وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ"۔ "اور (مشکلات پر) دعا اور صبر کے ذریعہ سے مدد حاصل کرو۔" دعا مانگنے کی ریاضت تو ہر وقت ممکن ہے کہ وہ انسان کی اختیاری چیز ہے، لیکن صبر کرنے کی مشق کرنا، اختیاری نہیں، کیونکہ قدرتی مشکلات اور مصائب کا پیش آنا، انسان کے اختیار میں نہیں، اس لیے اس کی مہارت اور مشق کے لیے شریعت نے روزہ رکھا ہے۔ اس لیے اس آیتِ بالا کی تفسیر میں صبر کے معنیٰ، روزہ کے بھی کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ بھی اعمالِ حسنہ میں ہے، جن کے بدلہ میں اللّٰه تعالیٰ نے اپنے بندوں سے خطا پوشی، گناہوں کی معافی اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: "وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا" (الاحزاب: ۳۵) "اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور خدا کو زیادہ یاد کرنے والے مرد اور زیادہ یاد کرنے والی عورتیں ان کے لیے اللّٰه نے تیار رکھی ہے معافی اور بڑی مزدوری۔" اس سے ظاہر ہوا کہ روزہ جس طرح ہمارے بعض مادی جرائم کا کفارہ ہے، اسی طرح ہمارے روحانی گناہوں کا بھی کفارہ ہے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۸۰/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*ہر طالب علم کو پورا عالم نہ بنایا جائے*!
مدرسوں کو چاہیے کہ ہر طالب علم کو پورا عربی پڑھانا ضروری نہ سمجھیں, جس کے اند ر مناسبت دیکھیں اور فہم سلیم پائیں اس کو سب کتابیں پڑھا دیں اور جس کو مناسبت نہ ہو یا فہم سلیم نہ ہو اس کو بقد رضرورت مسائل پڑھا کر کہہ دیں کہ جاؤ ، دنیا کے دھندے میں لگو ، تجارت و حرفت کرو، کیونکہ ہر شخص مقتدا بننے کے لائق نہیں ہوتا، بعضے نالائق بھی ہوتے ہیں، ایسوں کو فارغ التحصیل بنا کر مقتدا بنا دینا خیانت ہے۔
*حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ*
*خطبات حکیم الامت ج : ۲ ص: ۱۹۸*
نواز شریف کی حکومت نے پہلی بار بجلی کے بلوں پر سرچارج لگایا تو اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کافی سخت ردعمل آیا ۔ سینٹ کا اجلاس ہو رہا تھا صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہان پانیزئی کررہی تھیں ۔حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ جناب سرچارج عزیز صاحب بتانا پسند فرمائیں گے؟ ابھی سوال نامکمل تھا کہ وزیر خزانہ سرتاج عزیز اٹھے اور کہا ''جی !انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں ۔''
حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا تو حافظ صاحب کہنے لگے:
''آج اخبار میں "سرچارج" کا تذکرہ بہت پڑھا ممکن ھے وہی اٹک گیا ہو ۔ وزیر صاحب اپنا درست نام بتادیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے ۔
سرتاج عزیز اپنے سرخ چہرے کے ساتھ انتہائی غصے میں اٹھے اور کہنے لگے:'' میرا نام سرتاج ہے سرتاج!! !!!
یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا
محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج (شوہر مراد ہے)کہہ سکتی ہیں؟
ڈاکٹر نورجہاں پانیزئی چند لمحوں کے لئے تو چپ رہیں۔ پھر بولیں:'' نہیں میں نہیں کہہ سکتی''
حافظ حسین احمد نے جواباً کہا
جب آپ انہیں "سرتاج" نہیں کہہ سکتیں تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟
اسی طرح ایک بار وسیم سجاد سینٹ کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے اقبال حیدر(مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کرہال کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے ۔چیئرمین صاحب نے پوچھا اقبال حیدر کہاں ہیں؟
حافظ حسین احمد نے کہا'' پینے گئے ھیں''
پوے ہال میں قہقہے گونجنے لگے تو اقبال حیدر فوراً ایوان میں داخل ہوئے اور کہنے لگے جناب چیئرمین !انہو ں نے مجھ پر بہتان لگایا ھے'
اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ھو چکے تھے ،حافظ حسین احمد اٹھے اور کہنے لگے جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے ؟میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ہیں
ڈاکٹر اشرف عباسی قومی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر تھیں، سپیکر معراج خالد بیرونی دورے پر چلے گئے۔ اب قائم مقام سپیکر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت اشرف عباسی ہی کو کرنا تھی ۔مسئلہ صرف حافظ حسین احمد کا تھا کہ کسی طرح انہیں کنٹرول کیا جائے۔ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سوچ وبچار کے بعد فیصلہ کیا کہ حافظ حسین احمد سے میٹنگ کرلی جائے ۔وہ یہ سوچ کر رات ساڑھے دس بجے ایم این اے ھوسٹل چلی آئیں ۔کمرے میں کراچی کے ایک عالم دین بھی موجود تھے ان سے کہنے لگیں کہ حافظ صاحب بہت تنگ کرتے ہیں انہیں سمجھائیں، اجلاس کو پر سکون رہنے دیا کریں۔ تیسرے فریق کی موجودگی میں حافظ حسین احمد اور ڈاکٹر اشرف عباسی کے درمیان معاہدہ ہوگیا کہ حافظ حسین احمد "تنگ" نہیں کریں گے ۔اگلے دن اجلاس شروع ھوا تو حافظ حسین احمد اٹھے اور بولنا چاہا تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے غصے سے کہا بیٹھ جاؤ۔ چند منٹوں کے توقف کے بعد وہ پھر اٹھے تو ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا پہلے والا جملہ دھرایا دیا۔ ایک مرتبہ پھر ایسا ھوا ۔جب چوتھی مرتبہ حافظ حسین احمد اٹھے تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے جھاڑ پلادی ۔حافظ صاحب نے کہا میں رات والے معاہدے کو توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔یہ کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سپیکر کی کرسی سے مخاطب ھوتے ہوئے کہنا شروع کردیا :نہیں، نہیں حافظ صاحب! معاہدہ برقرار رہے گا۔
تمام ممبران "رات" والے معاہدے پر حیرت زدہ تھے ،یہ معاہدہ ممبران کیلئے معمہ بن کے رہ گیا تھا۔ ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، اعتزاز احسن وزیر پارلیمانی امور تھے، انہیں جواب دینا تھے اعتزاز احسن نے آتے ہی سپیکر سے کہا کہ آج مجھے جلدی ھے حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ وہ سوال پوچھ لیں۔
حافظ حسین احمد نے کہا کہ وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے؟
اعتزازاحسن وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مری جارہی ہیں۔
حافظ حسین احمد:کس پر؟
بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ شور شرابہ شروع ہوگیا ۔حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابل اعتراض ہیں، ہم واک آؤٹ کریں گے نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔
حافظ حسین احمد: کون سے الفاظ قابل اعتراض ہیں، میں نے بڑی لمبی تقریر کی ہے مجھے کیا پتہ کہ کون سے قابل اعتراض بن گئے ہیں۔
معراج خالد ۔۔ وہ جو قابل اعتراض ھیں ۔
حافظ حسین احمد۔۔ مجھے کیسے پتہ چلے گا؟
اعتزاز احسن ۔۔۔ وہ جو انہوں نے کہا کہ کس پر…؟
حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ ہیلی کاپٹر پر جارہی ہیں تو پھر تویہ جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارہی ہیں تو وزیر صاحب بعد میں اپنی گاڑی پر جاسکتے ہیں۔ میں نے یہ پوچھا کہ وہ کس پر مری جارہی ہیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر''
اتنے میں شور بلند ھوا اور پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ھوگئے کہنے لگے:'' نہیں! حافظ صاحب کی نیت ٹھیک نہیں ھے۔'' بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی تھے۔
اردو کے ادبی اور علمی حلقوں میں یہ بات انتہائی دکه اور افسوس کے ساته سنی جائے گی کہ ڈاکٹر انور سدید طویل علالت کے بعد اتوار 20 مارچ 2016 کو سرگودھا میں وفات پا گئے . انا للہ وانا الیہ راجعون .
نامور ادیب، صحافی ڈاکٹر انورسدید 4 دسمبر 1928ء کو ضلع سرگودھاکے دور افتادہ قصبہ مہانی میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے عام سکولوں میں حاصل کی۔میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ ان کا رجحان ادب کی طرف تھا لیکن والدین سائنس کی تعلیم دلا کر انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ اس دور میں اسلامیہ کالج لاہور میں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں زور پکڑ چکی تھیں، انور سدید بھی ان میں شرکت کرنے لگے اور ایف ایس سی کا امتحان نہ دیا۔ اس وقت ان کے افسانے رسالہ بیسوی صدی، نیرنگ خیال اور ہمایوں میں چھپنے لگے تھے۔ عملی زندگی کی ابتدا محکمہ آبپاشی میں لوئر گریڈ کلرک سے کی۔بعد ازاں گورنمنٹ انجینئرنگ سکول رسول(منڈی بہائو الدین) میں داخل ہو گئے۔
اگست1948ء میں اول آنے اور طلائی تمغہ پانے کے بعد اری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر کی ملازمت پر فائز ہو گئے۔ یہاں انہوں نے ناآسودگی محسوس کی تو دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دئیے۔ ایم سے فرسٹ کلاس حاصل کی اور خارجہ طلبہ میں ریکارڈ قائم کیا۔
انور سدیدنے’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، ان کے نگران راہنما وزیر آغا تھے، پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر سید عبداللہ اور ڈاکٹر شمس الحسن صدیقی کو ان کا ممتحن مقرر کیا۔دونوں نے ان کے مقالے کو نظیر قرار دیا جو آئندہ طلبہ کو راہنمائی فراہم کر سکتا تھا۔ ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘ کےاب تک نو اڈیشن چھپ چکے ہیں -اس دوران انور سدید نے انجینئرنگ کا امتحان اے ایم آئی، انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر ڈھاکا سے پاس کیا۔
محکمہ آبپاشی پنجاب سے ایگز یکٹو انجینئر کے عہدے سے 60 برس کی عمر پوری ہونے پر دسمبر 1988ء میں ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ ‘‘ہفت روزہ’’زندگی‘‘ روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور میں چند سال کام کرنے کے بعد وہ ملک کے نظریاتی اخبار’’نوائے وقت‘‘ کے ادارے میں شامل ہو گئے، اس ادارے سے انہوں نے’’دوسری ریٹائرمنٹ‘‘جولائی2003ء میں حاصل کی لیکن مجید نظامی چیف ایڈیٹر’’نوائے وقت ‘‘ نے انہیں ریٹائر کرنے کی بجائے گھر پر کام کرنے کی اجازت دے دی ۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ سلسلہ آخر دم تک قائم رہا - تنقید، انشائیہ نگاری، شاعری اور کالم نگاری ان کے اظہار کی چند اہم اصناف ہیں۔
ڈاکٹر انور سدید نے اپنے بچپن میں ہی ادب کو زندگی کی ایک بامعنی سرگرمی کے طور پر قبول کر لیا تھا، ابتدا بچوں کے رسائل میں کہانیاں لکھنے سے کی، افسانے کی طرف آئے تو اس کے دور کے ممتاز ادبی رسالہ’’ہمایوں‘‘ میں چھپنے لگے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے’’اوراق‘‘ جاری کیا تو انہیں تنقید لکھنے کی ترغیب دی اور اپنے مطالعے کو کام میں لانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے رسالہ’’اردو زبان‘‘ سرگودھا کے پس پردہ مدیر کی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ’’اوراق‘‘ کے معاون مدیر کی حیثیت میں بھی کام کیا۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘، ’’مشرق‘‘، ’’حریت‘‘، ’’امروز‘‘، ’’ زندگی‘‘، ’’قومی زبان‘‘اور ’’خبریں ‘‘ میں ان کے کالم متعدد ناموں اور عنوانات سے چھپتے رہے۔ ’’دی سٹیٹسمن‘‘اور ’’دی پاکستان ٹائمز‘‘میں انگریزی میں ادبی کالم لکھے۔ انہیں تعلیمی زندگی میں تین طلائی تمغے عطا کیے گئے۔ ادبی کتابوں میں سے ’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘، ’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘اور ’’اردو میں حج ناموں کی روایت‘‘پر ایوارڈ مل چکے ہیں۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے انہیں بہترین کالم نگار کا اے پی این ایس ایوارڈ عطا کیا۔ 2009 میں ادبی خدمات پر صدر پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا .
جناب انور سدید نے 88 کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں، چند کتابوں کے نام حسب ذیل ہیں:
1۔’’فکرو خیال‘‘، 2۔’’اختلافات‘‘، 3۔ ’’کھردرے مضامین‘‘، 4۔’’اردو افسانے کی کروٹیں‘‘، 5۔’’موضوعات‘‘، 6۔ ’’بر سبیل تنقید‘‘، 7۔’’شمع اردو کا سفر‘‘، 8۔’’نئے ادبی جائزے‘‘، 9۔‘’’میر انیس کی اقلم سخن‘‘، 10۔’’محترم چہرے‘‘، 11۔’’اردو ادب کی تحریکیں‘‘، 12۔’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘، 13۔’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘‘، 14۔’’اردو ادب میں سفر نامہ‘‘، 15۔’’اردو ادب میں انشائیہ‘‘، 16۔’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘، 17۔ ’’اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش‘‘،18۔’’?‘‘، 19۔’’ غالب کے نئے خطوط‘‘، 20۔’’ دلاور فگاریاں‘‘، 21۔’’ قلم کے لوگ‘‘، 22۔’’ادیبان رفتہ‘‘، 23۔’’آسمان میں پتنگیں‘‘، 24۔’’دلی دور نہیں‘‘، 25۔ ’’ادب کہانی 1996ء‘‘، 26۔’’ادب کہانی 1997ء‘‘، 27۔’’اردو افسانہ: عہد بہ عہد‘‘، 28۔’’میر انیس کی قلمرو‘‘، 29۔’’ وزیر آغا
✨ صلاة التراويح - اللية ١٢
🎙️الشيخ طلحة بلال منيار
📍 ملا مسجد - ١٢ رمضان ١٤٤٦
دو روز قبل مصر کے عالم حدیث شریف شیخ ابو اسحاق الحوینی اللہ کو پیارے ہوئے، ایک عشرے قبل دبی آتے تھے تو آپ سے ملاقاتیں رہتی تھیں بڑے خوش اخلاق، ملنسار اور نرم خو انسان تھے۔
شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑے متاثر تھے، اور آپ سے ملاقات کے لئے کئی بار اردن گئے تھے، جہاں آپسے آپ نے علم وجرح وتعدیل سے متعلق دو سو سوالات کئے تھے۔
کئی ایک کتابیں یاد گار چھوڑیں۔ خاص طور پر سنن النسائی کی تخریج پر بہت تفصیلی کام کیا۔
دبی ہی میں ہمارے فاضل دوست تھے، ڈاکٹر محفوظ الرحمن زین اللہ مرحوم ،سلفی اداروں میں تعلیم پانے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث مکمل کیا تھا، شیخ الحدیث مولانا سید فخر الدین احمد رحمۃ اللہ کے شاگرد تھے، علل الدارقطنی پر آپ کی تحقیق عالم عرب میں بہت مشہور ہے،آپ کے کاموں کی برصغیر میں زیادہ شہرت نہیں ہوئی۔
وہ تخریج حدیث میں مبالغہ کے قائل نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ جب حدیث صحاح ستہ جیسے مراجع میں آگئی ہے،تو اس کا حوالہ کافی ہے، بلا ضرورت مزید دوسری کتابوں کے حوالہ کی ضرورت نہیں ہے، اس سے کتاب کا حجم بڑھنے کے علاوہ، علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا، تحقیق میں صحت نص پر توجہ دینی چاہئے، یہ بات انہوں نے شیخ ابو اسحاق سے بھی کہی تھی۔ برسبیل تذکرہ بات یاد آگئی تو ذکر کردی۔
عبد المتین منیری
2025-03-19
روزہ کی عظمت اور اس کا اجر و ثواب
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
تمام عبادات میں روزہ کو تقویٰ کی اصل اور بنیاد اس لیے بھی قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایک مخفی خاموش عبادت ہے، جو ریا اور نمائش سے بری ہے۔ جب تک خود انسان اس کا اظہار نہ کرے، دوسروں پر اس کا راز افشا نہیں ہوسکتا اور یہی چیز تمام عبادات کی جڑ اور اخلاق کی بنیاد ہے۔ اسی اخلاص اور بے ریائی کا یہ اثر ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا کہ روزہ دار میرے لیے اپنا کھانا پینا اور ملذذات کو چھوڑتا ہے۔ "الصوم لي وأنا أجزي به" روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔" جزا تو ہر کام کی وہی دیتا ہے، لیکن صرف اس کی عظمت اور بڑائی کو ظاہر کرنے کے لیے، اس کی جزا کو خود اپنی طرف منسوب فرمایا اور بعض علماء کے نزدیک، اس کا اشارہ قرآن پاک کی اس آیت میں ہے: اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (الزمر: ۱۰) "صبر کرنے والوں کو مزدوری بے حساب پوری کی جائے گی۔" اور اتنا ظاہر ہے کہ روزہ کی مشقت اٹھانا بھی صبر کی ایک قسم ہے، اس لیے روزہ دار بھی صابرین کی جماعت میں داخل ہوکر، اجر بے حساب کے مستحق ہوں گے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۹/۸۰/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
قال ابن الجوزي رحمه الله:
إذا وقعت في محنة يصعب الخلاص منها؛ فليس لك إلا الدعاء، واللجأ إلى الله، بعد أن تقدم التوبة من الذنوب، فإن الزلل يوجب العقوبة، فإذا زال الزلل بالتوبة من الذنوب، ارتفع السبب.
فإذا تبت ودعوت، ولم تر للإجابة أثرًا، فتفقد أمرك، فربما كانت التوبة ما صحت، فصححها، ثم ادع، ولا تمل من الدعاء، فربما كانت المصلحة في تأخير الإجابة، وربما لم تكن المصلحة في الإجابة، فأنت تثاب، وتجاب إلى منافعك، ومن منافعك ألا تعطى ما طلبت، بل تعوض غيره.
فإذا جاء إبليس، فقال: كم تدعوه ولا ترى إجابة! فقل: أنا أتعبد بالدعاء، وأنا موقن أن الجواب حاصل، غير أنه ربما كان تأخيره لبعض المصالح على مناسب، ولو لم يحصل، حصل التعبد والذل.
صيد الخاطر 352
®️ منقول
وفیات مورخہ: ۱۸ مارچ
امیر الاسلام ہاشمی 18 مارچ 2013 ء
ایم ایچ عسکری 18 مارچ 2013 ء
بدر اقبال 18 مارچ 2006 ء
بصیر اشرف 18 مارچ 2005 ء
جعفری، ایس ایس(سید سعید جعفری) 18 مارچ 2002 ء
جمیل احمد گھانوی، ماسٹر 18 مارچ 2013 ء
حسونہ نواوی، شیخ الازہر 18 مارچ 1925 ء
ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی 18 مارچ 1976 ء
سید سبط جعفر زیدی، پروفیسر 18 مارچ 2013 ء
عبد الشکور، پروفیسر 18 مارچ 1970 ء
عبدالحق صدیقی 18 مارچ 2005 ء
غازی محمود دھرم پال 18 مارچ 1960 ء
فاروق ،شاہ مصر 18 مارچ 1965 ء
قمر انجم (قمر الدین احمد) 18 مارچ 1999 ء
مجاہد لکھنوی (مرزاعلی مجاہد) 18 مارچ 1995 ء
محمد محمود عالم (یم،یم،عالم) 18 مارچ 2013 ء
مولانا زبیر الحسن کاندھلوی 18 مارچ 2014 ء
مولانا شائق احمد بھاگل پوریؒ 18 مارچ 2005 ء
نادم سیتا پوری (سید محمد اظہر) 18 مارچ 1983 ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
محسن کتابیں۔ قسط : 02 ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
اب دل مسلمان صوفیہ کے اقوال واحوال میں بھی لگنے لگا تھا،کشف وکرامت کے ذکر پر اب یہ نہ ہوتا کہ بے ساختہ ہنسی آجاتی،بلکہ تلاش اس قسم کے ملفوظات و منقولات کی رہنے لگی۔فارسی اور اردو کتابیں بہت سی اس سلسلے میں پڑھ ڈالیں۔مسلمان تو اب بھی نہ تھا،لیکن طغیان اور عداوت کا زور ٹوٹ چکا تھا،محسن کتابو ںکے سلسلے میں محسن شخصیتوں کا ذکر یقیناًبے محل ہے،لیکن اتنا کہے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتاکہ اس دور میں دو یا تین زندہ ہستیاں بھی ایسی تھیں جن سے طبیعت رفتہ رفتہ اور بہت تدریجی رفتار سے سہی،لیکن بہرحال اصلاحی اثر قبول کرتی رہی،ایک اردو کے مشہور حکیم وظریف شاعر اکبرؔالہ آبادی ہیں،دوسرے ’’کامریڈ ‘‘کے ایڈیٹر ،اس وقت کے مسٹر اورا سی درمیان مولانا ہوجانے والے محمد علی ،ان دو کے بعد ہلکا ہلکا اثر مولانا حمید الدین مفسر قرآن کا بھی پڑتا رہا۔
۱۹۱۹ ء قریب ختم تھا،کہ ایک عزیز کے پاس مثنوی معنوی(کانپوری ایڈیشن)کے چھ ضخیم دفتر دکھائی دئے(اللہ رحمت اللہ رعدؔ کی تربت پر اپنی رحمت کے پھول برسائے)کاغذ،کتابت، طباعت کے یہ جملہ محاسن ظاہری سے آراستہ،حاشیہ نہایت مفصل۔چند سال ادھر توجہ بھی نہ کرتا،لیکن اب زمین پوری طرح تیار ہوچکی تھی،معدہ کو غذا گھنٹہ اور منٹ کی پابندی کے ساتھ ٹھیک وقت سے ملی،مطالعہ ذوق و شوق سے شروع کیا،اور ہر ہر قدم پر شوق کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔الفاظ ملنے مشکل ہیں،جن میں اس ذوق و شوق کی کیفیت بیان کی جائے۔فارسی استعداد واجبی ہی تھی،سلوک ومعرفت کے نکات و اسرار الگ ہی رہے،ظاہری لفظی معنی بھی صدہا ہزارہا اشعار کے سمجھ میں نہ آئے،لیکن انہماک کا یہ عالم کہ ایک شعربھی چھوڑنے کو جی نہ چاہتا،اور دل بے اختیار یہ چاہتا کہ جس طرح بھی ممکن ہو سارے دفتروں کو ایک دم سے چاٹ جاؤں!کھانے پینے،ملنے جلنے تک کا ہوش نہ رہا۔طبیعت بے قرار،کہ کمرہ بند کئے بس اسی کو شروع سے آخر تک پڑھے چلا جاؤں،ہر ہر شعر تیر ونشتر بن کر دل کے اندرپیوست ہوتا جاتا،اور تشکیک،ارتیاب’’عقلیت‘‘ ولا ادریت کے بادل ایک ایک کر سب چھنٹتے چلے جاتے،حاشیے علمی رنگ کے دل کو زیادہ نہ بھاتے،خصوصاً شیخ ابن عربی کے نظریات جہاں آجاتے ،وہاں تو دم الجھنے لگتا،کہ تو پھر وہی افلا طون وغیرہ کے طرز کی باتیں آگئیں،جن سے گھبرا کر اور اکتا کر،میں بھاگا تھا!حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے چھوٹے سادے پر مغز حاشیے،جہاں نظر پڑجاتے، طبیعت پھڑک جاتی،اور دل گواہی دے اٹھتا کہ بے شک یہ قول سچے ہی کا ہوسکتا ہے!۔
مولانا نے حضرت رسالتﷺ کے باب میں کہا ہے کہ اس پر کسی معجزہ یا خارق عادت سے دلیل خارجی لانے کے کیامعنی،پیمبرﷺ کی تو ہر ہر چیز بجائے خود ایک معجزہ ہوتی ہے! ع
روے و آواز پیمبر معجزہ است
بس اپنا بالکل یہی حال،خود مثنوی سے متعلق تھا۔ہر شعر خود پکار کر شہادت دے رہا تھا کہ میں سچے ہی کی زبان سے نکلا ہوں،کسی اور دلیل اور برہان کی حاجت نہ تھی۔مثنوی کا مطالعہ ہفتوں نہیں مہینوں مسلسل جاری رہا،اور اس ساری مدت میں ایک نشہ سا سر پر سوار رہا۔اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے،چلتے پھرتے بس اسی کی دھن،اسی عالم میں کہیں مرگیا ہوتا تو عجب نہیں کہ نکیرین کے سامنے مذہب کے سوال پر جواب زبان سے یہی نکلتا کہ’’وہی مذہب ہے جو مولانائے روم کا مذہب تھا‘‘قرآن و رسالت تک پر ابھی ایمان پختہ نہ تھا،بس دلیل سب سے بڑی یہی تھی کہ جب صاحب مثنوی اس پر ایمان رکھتے ہیں،تو کیوں نہ یہ دین سچا ہوگا!
غالباًاگست ۱۹۲۰ ء تھاکہ ایک عزیز کے پا س مولوی محمد علی لاہوری کا انگریزی ترجمۃ القرآن پڑھنے میں آیا،اور طبیعت نے اس سے بھی بہت گہراا وراچھا اثر قبول کیا۔مغربی راہ سے آئے ہوئے بیسیوں شبہات و اعتراضات ،اس ترجمہ و تفسیر سے دور ہوگئے،اور یہ رائے اب تک قائم ہے۔اس بیس سال کے عرصے میں خامیاں اور غلطیاں بہت سی (بلکہ بعض جگہ تو ایسی جسارتیں،جن کے ڈانڈے تحریف سے مل جاتے ہیں)اس ترجمہ و تفسیر کی ،علم میں آچکیں،لیکن انگریزی خوانوں اور مغرب زدوں کے حق میں اس کے مفید اور بہت مفید ہونے میںاب بھی ذرا کلام نہیں۔ہدایت کا واسطہ،جب اللہ کی حکمت صریح غیر مسلموں کے کلام کو بنا دیتی ہے،تو یہ تو بہر حال اللہ کے کلام کا ترجمہ و حاشیہ ہے،مترجم کی بعض اعتقادی غلطیوں کی بنا پر ،ان کی ساری کوشش سے بد ظن ہوجانا قرین انصاف و مقتضائے تحقیق نہیں۔