علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
سچی باتیں (28؍اگست 1944ء)۔۔۔ بابرکت مہینہ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
مسلمان کی جنتری میں خیروبرکت کامہینہ آگیا۔ غیبت ہمیشہ ہی ممنوع تھی، اب ممنوع تر ہوگئی۔جھوٹ، فساد، فحش کلامی جائز کسی حال میں بھی نہ تھے، اب ناجائز تر ہوگئے۔ جو چیزیں کھلم کھلا جائز اور زیادہ سے زیادہ لذت کی تھیں، کھانے ،پانی ، حقہ، پان، سب بارہ بارہ اور چودہ چودہ گھنٹے کے لئے حرام قرار پاگئیں۔ اور یہ سلسلہ ایک دودن نہیں،سارے مہینے تک جاری رہے گا۔ بہت بوڑھوں اور بالکل بچوں، مریضوں ، ناتوانوں کو چھوڑ کر باقی سارے مسلمان،بڑے ، چھوٹے، عورت، مرد، امیر، غریب، آقا، خادم، رمضان منانے میں شریک ہوں گے، اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اللہ ہی کے حکم سے اپنے نفع کی خاطر، اپنی جسمانی، روحانی، اخلاقی فلاح واصلاح کے لئے دن دن بھر چھوڑے رہیں گے ، جانور کھائیں گے، پیئں گے، جو انسان اپنی روحانی پستیوں کے لحاظ سے جانوروں سے ابتر ہیں، وہ کھائیں گے ، پئیں گے……مہینہ بھر کے اس لطیف نورانی، سہل مجاہدہ کی نعمت صرف مسلمان کے حصہ میں آئی ہے۔
مسلمان کہیں بھی ہو، روئے زمین کے کسی حصہ پر بھی آباد ہو، افریقہ میں ہو یا آسٹریلیا میں، امریکہ میں ہو یا ہندوستان میں، رمضان کے آتے ہی اس کا روزانہ نظام زندگی بدل جائے گا۔ اور وحدت اسلامی کا نظارہ دنیا، ٹکڑیوں، پارٹیوں، جتھوں میں بٹی ہوئی دنیا ایک بار پھر دیکھ لے گی……روزہ کے طبّی فائدے کوئی طبیبوں سے، اور اخلاقی نفع، کوئی حکماء اخلاق کی زبان سے سُنے۔ اور پھر ایک متعین مہینے کے ساتھ 30یا 29 دنوں تک ان روزوں کا تسلسل، اُن کی عادت پڑجائے، اور جسم وروح دونوں ان کے خوگر ہوکر گیارہ مہینے تک کے لئے ذخیرہ فراہم کرلیں۔ اس حکم کی گہری برکتیں اور اجتماعی مصلحتیں چند سطروں میں کیسے بیان میں آجائیں؟ بار بار اس کے قبل بیان بھی تو ہوچکی ہیں۔ اتنا عظیم الشان اصلاحی نظام، انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے عظیم الشان نظام ، روزانہ پنج وقتہ نماز ہی کی طرح جسمانی، اخلاقی، روحانی مصلحتون اورمنفعتوں کا جامع، نظام،بجز ایک قوم مسلمان کے، اور دنیا کی کس قوم کے نصیب میں آیاہے؟
حیف ہے کہ اتنی بڑی نعمت ملے، اور ہم اپنی پست ہمتی یا بدنصیبی سے اسے یوں ہی بالا بالا گزرجانے دیں!آبِ حیات برس رہاہو، اور ہم بدستور پیاسے رہ جائیں!……روزہ رکھنا مشکل ہی کیاہے، شیطان ہی پہلے سے ہیبت بٹھادے، اور دل میں خواہ مخواہ کے وہم پیداکردے، تو اس کا کوئی علاج ہی نہیں۔ ورنہ اس میں حقیقۃً دشواری ہی کیاہے؟ صبح تڑکے تک، فجر طلوع ہونے تک بے تکلف جو چاہئے ، جتنا چاہئے ، کھائیے پیجئے، دن میں مزید عبادتیں کرسکئے تو سبحان اللہ، ورنہ کئی گھنٹے سوکر گزاردیجئے، روزہ دار کا سونا بھی تو ایک عبادت ہے(روزہ کی حالت میں اجر ہرمنٹ اورہر لمحہ ہرسانس پر ملتارہتاہے) ظہر، عصر کی نمازیں بہ اطمینان پڑھئے، گھر کا جائزکام کاج دیکھئے۔ افطار کا انتظار، اور افطاری کا اتنظام۔ دونوں خوشگوار اور پُرلطف مشغلے ہیں۔ ذرا ان کا تجربہ کرکے تو دیکھئے۔ اور بس، اتنے میں مغرب کی اذاں ہونے لگے گی۔ اُ س وقت دیکھئے ، اللہ کے حکم سے اللہ کا رزق تناول کرنے میں کیا لطف آتاہے، الفاظ کے ذریعہ سے ناقابل بیان!
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
یہ دور کہنا چاہئے کہ1903 ء سے 1907 ء تک رہا۔1907 ء میں نیاز’’مقالات شبلی‘‘اور ’’الکلام‘‘سے حاصل ہوا۔اور اسی دم سے جادو مولانا شبلی کا چل گیا۔تلاش ان کی اور تحریرو ںکی شروع ہوئی،انہیں پڑھتا نہ تھا ،تلاوت کرتا تھا،’’الندوہ‘‘والد مرحوم کے نام جاری کرایا،پرانا پرچہ سناتا،تازہ پرچے کے لئے دن گنا کرتا۔مولانا کے ہر مضمون کی ایک ایک سطر بار بار پڑھتا،فقرے کے فقرے حفظ ہوگئے،ترکیبیں زبان پر چڑھ گئیں،ہم سنوں سے کہتا پھرتا،بلکہ لڑتا پھرتا،کہ علامہ شبلی اس دور کے مجدد ہیں۔نذیرؔ،حالیؔ،سرسیدؔ،آزادؔ،کے ساتھ بھی حسنِ اعتقاد قائم رہا۔
1908 ء میں عمر کا سولہواں سال تھاکہ میٹرک پاس کرلکھنؤ میں کالج میں داخل ہوا،اور اب انگریزی کتابوں پر ٹوٹ پڑا۔اتفاق سے شروع ہی میں ایک بڑے انگریزی ڈاکٹر کی کتاب سامنے آگئی،ظالم نے کھل کر اور بڑے زور دار الفاظ میں مادیت کی حمایت،اور مذہب و اخلاق دونوں سے بغاوت کی تھی۔موضوع یہ تھا کہ عصمت اور نیک چلنی کے کوئی معنی نہیں،محض پرانے لوگوں کا گڑھا ہوا ڈھکوسلہ ہے۔اصل شے صحت اور مادی راحت ہے،صحت کا خیا ل رکھ کر جوکچھ جی میں آئے کرو،نکاح وغیرہ کی قیدیں، سب لایعنی ہیں۔مصنف کے پیش نظر اسلام یقیناً نہ تھا،لیکن زد تو بہرحال اسلام پر پڑتی ہی تھی۔خیالات ڈانواں ڈول ہونے لگے،وہ اس زمانے میں اتفاق سے ایک اور کتاب بھی نظر سے گزری،یہ ادبی تھی،مشاہیر عالم کے اقوال وخیالات پر اس میں ایک جگہ پورے قد کی تصویر صفحہ بھر پر رسول اللہﷺ کی در ج تھی،اور نیچے سند یہ بھی تھی کہ فلاں(غالباً رومہ)کے میوزیم میں قلمی تصویر موجود ہے۔یہ اس کا فوٹو ہے،حلیہ یہ تھا کہ سر پر عمامہ،جسم پر عبا،تلوار کمر سے بندھی ہوئی،شانہ پر ترکش،ہاتھ میں کمان،تیوروں پر بل پڑے ہوئے،آنکھوں سے غصہ،بشرہ سے تند خوئی عیاں،شان رحمۃ للعالمین الگ رہی،معمولی نرم دلی اور نیک مزاجی کے آثار بھی یکسر مفقود،نیچے سند درج!مغربیت سے مرعوب دماغ کے لئے اب شک وشبہ کی گنجائش ہی کہاں باقی رہ گئی تھی!!۔
دماغ پہلے ہی مفلوج ہوچکا تھا،اب دل بھی مجروح ہوگیا۔ارتداد دبے پاؤں آیا،اسلامیت کو مٹا،ایمان کو ہٹا،خود مسلط ہوگیا۔آریت،مسیحیت،دوسرے مذاہب سے دل پہلے ہی ہٹا ہوا تھا۔اب کھلم کھلا آزادی اور آزاد خیالی کی حکومت قائم ہوگئی۔الحاد کا نشہ،بے دینی کی ترنگ،’’ریشنلزم‘‘(عقلیت)سے پینگ بڑھے،’’ایگناسیئسزم‘‘(لاادریت)سے یارانہ گھنٹا،لندن کی ریشنلسٹ ایسوسی ایشن (انجمن عقلیتیں)کی ممبری قبول کر،سارا وقت ہیوم،مل،اسپنسر،ربی،ہکسلے،ہیگل،رنگ سول،بریڈلا،یوشنز،ڈارون اور یونان کے حکماء مادیین،متشککین وغیرہ کی نذر ہونے لگا۔مل کو اتنا پڑھا، اتنا پڑھا کہ لڑکوں میں مل کا حافظ مشہور ہوگیا۔ایک اور کتاب طب سے متعلق عضویات دماغی(mental phsychology)پر ایک مشہور انگریزی ڈاکٹر کی اس زمانے میں نظر سے گزری۔ذکر امراض عصبی ودماغی کا تھا،بدبخت نے مرض صرع کے ضمن میں لکھا تھا،کہ اس کی علامات کو پرانے زمانے میں لوگ’’وحی الہی‘‘ سمجھنے لگتے تھے، اور مصروع کے عام قوائے دماغی تو بہت اچھے ہوتے ہیں،وہ دنیا میں انقلاب برپا کرسکتا ہے،مذہب اور سلطنت دونوں قائم کرسکتا ہے،وقس علیٰ ہذا۔ارتداد،الحاداور اسلام بیزاری میں اگر کچھ کسر باقی تھی تو اب پوری ہوگئی۔ایف۔اے کے امتحان کی فیس جانے لگی تو فارم میں جہاں مذہب کاخانہ ہوتا ہے تو وہاں بجائے مسلمان کے ’’ریشنلسٹ‘‘ لکھ دیا!۔
الحاد،بے دینی کا یا عقلیت کا یہ دور کوئی 08۔10 سال تک قائم رہا۔ایف۔اے ،بی۔اے کی تکمیل ہوئی،ایم۔اے کی تکمیل نہ ہوئی،لیکن تعلیم تو بہر حال فلسفہ لے کر پائی۔مضمون نگاری،تصنیف، تالیف،اردو،انگریزی دونوں زبانوں میں جاری رہی۔ہوتے ہوتے 1918 ء آگیا،آخر سال تھا،کہ ایک دوست کی تحریک پر انگریزی میںبودھ مذہب پر کتابیں دیکھیں،اور دل کسی قدر ادھر مائل ہوا،معاً بعد ہندو فلسفے کا مطالعہ شروع ہوگیا۔خصوصاً مسز بسنٹ اور بنارس کے مشہور فلسفی ڈاکٹر بھگوان داس کے انگریزی تراجم وتالیفات کے ذریعے سے مغربیت ،مادیت اور عقلیت کا جو تیز نشہ سوار تھا وہ بتدریج کم ہونے لگا،اور اس کا قائل ہوگیا کہ مادی اور حسی دنیا کے علاوہ بھی کسی اور عالم کا وجود ہے ضرور!بھگوت گیتا کاا نگریزی ایڈیشن (مسز بسنٹ کا ترجمہ)اس حیثیت سے اکسیر ثابت ہوا ۔خدا کا نام اب قابل مضحکہ نہ رہا،’’روح اور روحانیت‘‘کے الفاظ سے نفرت و بیزاری دور ہوگئی،ہاں اسی درمیان میں مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول شائع ہو چکی تھی،اسے خوب غور سے پڑھا تھا،اور اس سے بھی ایسا اثر قبول کیا تھا۔صاحب سیرت کی رسالت پر ایمان تو اب بھی دور کی چیز تھی،لیکن مارگویس وغیرہ کے اثر سے(نعوذباللہ)جو ایک خداع اور خونخوار سردار کا تصور قائم ہوگیا تھا،آنکھوں سے یہ زنگ اسی سیرت کے مطالعے کی برکت سے کٹ چکا تھا،اور اس کی جگہ ایک خوش نیت مصلحِ قوم نے لے لی تھی۔۔۔۔ جاری
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
روزہ جسمانی علاج بھی ہے
سید العلماء علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
جس طرح حد سے زیادہ فاقہ اور بھوک، انسان کے جسم کو کمزور کردیتی ہے۔ اِس سے کہیں زیادہ حد سے زیادہ کھانا، انسان کے جسم کو مختلف امراض اور بیماریوں کا نشانہ بنادیتا ہے۔ طب کے تجربے اور مشاہدے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں انسان کا بھوکا رہنا، اُس کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ مختلف بیماریوں کا یہ قطعی علاج ہے۔ طبی ہدایت ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک وقت کھانا ناغہ کیا جائے۔ اسلام میں ہفتہ وار، مسنون و مستحب روزے بھی ہیں، مگر اِسی کے ساتھ سال میں ایک دفعہ جسمانی فضلہ کی تخفیف کے لیے فرضًا روزہ رکھنا، نہایت نفع بخش ہے۔ جو مسلمان رمضان کے روزے رکھتے ہیں، اُن کو ذاتی تجربہ ہوگا کہ ایک مہینہ کا روزہ، کتنی بیماریوں کو دور کردیتا ہے۔ بشرطیکہ اُنہوں نے از خود، کھانے پینے اور افطار و سحور میں بے اعتدالی نہ کی ہو۔ اِس لیے یہ ایک قسم کا سالانہ جبری جسمانی علاج بھی ہے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۷/۷۸/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
کچھ عرصہ بعد آپ گھریلی مجبوریوں کے تحت ابوظبی کے ایک اسکول میں تدریس سے وابستہ ہوئے ، اس اسکول میں انگریزی درجات کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کا ایک کامیاب تجربہ کیا گیا تھا ، جہاں ایک عشرہ گزار کر شوگر کی بیماری کی وجہ سے آپ دوبارہ بھٹکل واپس آگئے ، یہاں آپ کو ندوے کے قدیم ساتھی اور جامعہ کے سابق استاد قافشجی احمد عبد الرزاق نے بھٹکل سے کچھ فاصلے پر واقع گاؤں کیسر کوڈی شیرور میں ایک مدرسہ کی ذمہ داری پر مامور کیا ۔ یہاں آپ روزانہ صبح کو جاتے اور شام کو واپس آتے ، اس دوران آپ پر شوگر کی بیماری کا زبردست حملہ ہوا اور ایک وقت ایسا آیا کہ آنکھوں کی بنیائی جاتی رہی ، جسم پر بھی فالج کے اثر سے صاحب فراش ہوگئے اور ایک طویل عرصہ تک ان بیماریوں کی مار سہتے ، لشتم پشتم زندگی گزادی ، وفات سے دوچار ماہ قبل حاضری ہوئی تھی ، زبان بولنے سے معذور ہوگئی تھی ، پتہ نہیں کیا بولنا چاہتے تھے ، بات ہمارے کچھ پلے نہیں پڑی ، ہمیں وہ زمانہ یاد آگیا جب پہلے پہل آپ بھٹکل وارد ہوئے تھے ، اس وقت جسم کے رویں رویں میں قوت و توانائی کوند رہی تھی ، اب دیکھا تو ایک لاشہ سامنے پڑا تھا، شوگر کی بیماری کے معالج کو خود اسی بیماری نے لاچار کردیا تھا ، یہ بھی عجیب قدرت خداواندی ہے۔حافظ صاحب اب ہم سے بہت دور جا چکے ہیں ، دنیا شاہد ہے کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی ، ان کے ذریعہ فائدہ ہی پہنچا ، ان سے فیض اٹھانے والی کئی نسلیں گزر گئیں ، کیا مغفرت کے لئے یہ کافی نہیں ؟۔
16-03-2012
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*مولانا حافظ محمد رمضان ندوی ، ایک بے ضرر انسان*
*عبد المتین منیری ۔ (بھٹکل)*
(آج سے (13) سال قبل مورخہ 16مارچ 2012ء، سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی وفات پر لکھی گئی تحریر)
16؍مارچ 2012ء کو جب جامعہ آباد میں پچاس سالہ تعلیمی کنونشن کے انتظامات مکمل ہورہے تھے ، طنابیں کسی جارہی تھیں ،معزز مہمانانوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہورہا تھا ،جامعہ کے سرپرست حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم بھی بہ نفیس تشریف لا چکے تھے کہ خبر آئی کہ جامعہ کے اولین اساتذہ میں سے ایک استاذ الاساتذہ مولانا حافظ محمد رمضان ندوی صاحب کو داعی اجل کی جانب سے بلاوا آگیا ، اس وقت ان کی عمر پچھتر کے لگ بھگ تھی۔مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میں مولانا رابع صاحب 1979ء میں پہلی مرتبہ بھٹکل میں قدم رنجہ ہوئے تھے ، لیکن جامعہ میں غائیبانہ طور پر سبھی آپ کے عقیدت مند و گرویدہ تھے ، غائبانہ طور پر یہ گرویدگی اور عقیدت مندی پید ا کرنے میں جامعہ کے جن اساتذہ نے کردا ر ادا کیا تھا، ان میں حافظ صاحب کا نام سرفہرست تھا۔آپ مولانا سید محمد رابع صاحب کے ابتدائی شاگردوں میں تھے ، شاید استاد شاگرد کے مابین اسی خلوص و محبت کا اثر تھا ، جس نے چہیتے استاد کواس طرح اتفاقی طور پر اپنے شاگرد رشید کے جنازہ کی امامت کے لئے بھیجدیا ۔
حافظ صاحب کا جائے پیدائش فیض آباد تھا ، آپ کے والد مزدور پیشہ تھے ، تلاش معاش کے لئے ممبئی آئے تو یہیں کے ہو کر رہ گئے ، حافظ صاحب نے ممبئی میں کچھ ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ندوۃ العلماء جاکر حفظ قرآن مکمل کیا تھا ، یہاں آپ کے روابط بھٹکل کے حافظ محمد اقبال صاحب کے ساتھ قائم ہوئے ، جو برادرانہ تعقات میں بدل گئے ، اقبال صاحب ایک خوش حال اور صاف ستھری طرز زندگی کے مالک تھے ، حافظ صاحب بھی کھانا پکانے ، والی بال جسیے کھیلوں کے شوقین ، ان دونوں کی ندوے میں خوب جمی ، پھراس محفل میں بھٹکل و اطراف کے ممبران کا اضافہ ہوتا رہا ، جن میں گنگولی کے مولوی محمد تقی قاضی ندوی (جو فارغ ہوکر انجمن کے استاد بنے )، شیرور کے قافشی احمد بن عبد الرزاق ( جنہوں نے عرصہ تک سلطانی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دئے اور جامعہ میں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی) ،کائیکینی کے گیما محمد اقبال (عرصہ سے کوکن علاقہ میں امامت اور تدریس سے وابستہ ہیں )، منکی کے قاضی محمد فاروق ( سابق مہتمم جامعہ) ، بھٹکل کے ملپا عبد المجید ( انڈین ہائی اسکول دبی کے رٹائرڈ عربک ٹیچر) شامل ہوگئے ، ندوے میں حافظ رمضان بھٹکلی احباب کی رفاقت میں رہے ۔1962ء میں جب حافظ اقبال صاحب ندوے سے سند فضیلت لے کر وطن واپس لوٹے اور جامعہ سے وابستہ ہوگئے تو آپ نے پہلے سال جامع مسجد میں تراویح پڑھائی ، تو دوسرے سال اپنے یار غار حافظ رمضان صاحب کو بھٹکل بلا لیا، اس وقت آپ نے جامع مسجد میں اور حافظ اقبال نے سلطانی مسجد میں تراویح کی امامت کی ، اس طرح تراویح میں ختم قرآن کی ایک روایت قائم ہوگئی ، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ مبارک سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔
۱۹۶۵ء میں جب جامعہ اسلامیہ ، سوداگر بخار(گودام) سے جامع مسجد کو منتقل ہوا تو یہاں پر حافظ صاحب کی تقرری ہوئی تھی ، استاد گرامی مولانا عبدالحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ ( معتمد تعلیم جامعہ) آپ کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں ۔
"جناب مولوی حافظ محمد رمضان صاحب ندوی ، فاضل دارالعلوم ندوۃالعلماء جامعہ کے مغتنمات میں سے ہیں ،گو آپ رہنے والے یوپی کے ضلع فیض آباد کے ہیں ،لیکن پونہ اور بمبئی سے آپ کو گہرا اور طویل تعلق رہا ہے اور اب بھی ہے ،ندوی ہیں ہی،حافظ قرآن ہیں ، فارسی اچھی جانتے ہیں ،اردو تو مادری زبان ہی ہے، نہایت صالح،سلیم الطبع ،نوجوان فاضل ہیں ،گو سردست آپ مکتب کے اسباق زیادہ پڑھاتے ہیں ،لیکن در اصل جامعہ کی عربی جماعتوں کے لیٔے آپ کو منتخب کیا گیا ہے ،عند الضرورت مکتب میں کسی لائق شخص کو رکھ کرآپ کو جامعہ میں منتقل کرلیا جائے گا،اس وقت بھی عربی جماعتوںکے بعض اسباق آپ کے حوالہ ہیں"۔ روداد اجلاس اول 21؍22 نومبر 1964ء ۔
جب حافظ صاحب بھٹکل تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر کوئی پچیس چھبیس سال کے پیٹھے میں رہی ہوگی ، بھر پور جوانی کا دور ، گٹھا ہوا جسم ، کسرتی اور مضبوط اعضاء ، چوڑی چکلی چھاتی ، میانہ قد ، رنگت گہری سانولی ،ایسا لگتا تھا جیسے کسی پہلوان نے مولوی کا چولا پہن لیا ہو ، لیکن چال ڈھال میں سنجیدگی ، مزاج میں دھیما پن نمایاں تھے ،آپے سے باہر ہونا شاید کاتب تقدیر نے آپ میں لکھا ہی نہیں تھا ، جامعہ والوں کو آپ کی شخصیت پسند آئی ، بھروسہ ہوگیا کہ ان پر سرمایہ کاری بے کار نہیں جائے گی ، خرچ کریں گے تو قوم ہی کا اس میں بھلا ہوگا ، تقرری کے ایک سال بعد دورہ حدیث کے لئے جامعہ کے خرچہ پر جاری ماہانہ تنخواہ کے
وفیات مورخہ: 16 مارچ
استاد اللہ دیا خان( موسیقار) 16 مارچ 1946 ء
اصغر امام عظیم آبادی (فلسفی) 16 مارچ 1997 ء
مولانا حافظ محمد رمضان ندوی 16 مارچ 2012 ء
ڈاکٹر قمر الدین خان 16 مارچ 1985 ء
سرجسٹس محمد عبدالرحمٰن 16 مارچ 1962 ء
سید ایوب احمد صبر 16 مارچ 1973 ء
ڈٓاکٹر شوکت علی سید، میجر جنرل 16 مارچ 2015 ء
محمد خان جونیجو 16 مارچ 1993 ء
مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیر 16 مارچ 1291 ء
مولانا ثناء اللہ مرتسری 16 مارچ 1948 ء
مولانا عبد الحق بلوچ 16 مارچ 2010 ء
مولانا مسعود عالم ندوی 16 مارچ 1953 ء
ہدایت حیدری 16 مارچ 1970 ء
(( وفیات اورخاکوں کا موسوعاتی اشاریہ۔۔۔ زیر ترتیب: عبد المتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
روزہ، صبر سکھانے کی مشق ہے
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
انسان، گو کتنا ہی نعمت و ناز کے گودوں میں پلا ہو اور مال و دولت سے مالا مال ہو۔ تاہم زمانہ کا انقلاب' اور زندگی کی کشمکش، اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بنائے۔ جہاد کے ہر متوقع میدان کے لیے، بھوک اور پیاس کے تحمل اور صبر و ضبط سے اپنے آپ کو آشنا رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان مجاہد اور سپاہی، میدانِ جنگ میں بھوک اور پیاس کی تکلیف کو جس طرح ہنسی خوشی برداشت کرتا ہے، دوسرا نہیں کرتا۔ یہ گو ایک قسم کی جبری فوجی ورزش ہے، جو ہر مسلمان کو سال میں ایک مہینہ کرائی جاتی ہے، تاکہ وہ ہر قسم کے جسمانی مشکلات کے اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار رہے اور دنیا کی کشمکش، جدوجہد، سختی و محنت کا پوری طرح مقابلہ کرسکے۔ اس لیے روزہ کو قرآن پاک نے کبھی "صبر" کے لفظ سے بھی ادا کیا ہے، تاکہ اس سے روزہ کی یہ حقیقت بھی ظاہر ہوجائے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۷/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
فجر 14 رمضان/ مقام عجم
تلاوة المقريء الشيخ محمد طلحة منيار حفظه الله
أيها المسلمون
إنكم لن تجدوا بعد اليوم موقفًا هو أقرب إلى الله، وأدنى إلى رحمته وإحسانه، وأجلب لمغفرته ورضوانه من موقفكم بين هؤلاء الضعفاء المساكين تطعمون جائعهم، وتكسون عاريَهم، وتسلحون أعزلهم، وتعالجون جريحَهم، وتخلفون قتيلهم في أهله وولده.
#النظرات
وفیات: مورخہ 15 مارچ
اکبر جعفر بھائی ایڈوکیٹ 15 مارچ 1979 ء
جاد الحق علی جاد الحق ، شیخ الازہر 15 مارچ 1996 ء
خواجہ معین الدین چشتی 15 مارچ 1236 ء
دراب پٹیل ، جسٹس 15 مارچ 1997 ء
ڈاکٹر شوقی ضیف 15 مارچ 2005 ء
ڈاکٹر عبد الحق کرنولی، افضل العلماء 15 مارچ 1958 ء
سید محسن رضا رضوی 15 مارچ 1989 ء
شاہ جلال (بنگال) 15 مارچ 1346 ء
شیریں عظیم 15 مارچ 1985 ء
عباسی، ایم ڈبلیو 15 مارچ 1969 ء
مولانا ثناء اللہ امرتسری، ابو الوفا 15 مارچ 1948 ء
مولانا محمد یوسف قاسمی 15 مارچ 2011 ء
نواب سید آل حسن 15 مارچ 1959 ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ یہ ’تراویح‘ کا لفظ کہاں سے آگیا؟*
*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*
گلستانِ جوہرکراچی کی سعد آباد سوسائٹی سے سلمان بیگ صاحب کا سوال بالواسطہ موصول ہوا ہے:
”قرآن و حدیث میں تہجد اور قیام اللیل کا ذکر ہے، یہ ’تراویح‘ کا لفظ کہاں سے آگیا؟“
سوال سُن کر خوشی ہوئی۔ ہم بھی ہر لفظ کے پیچھے پیچھے اسی دُھن میں بھاگے پھرتے ہیں کہ دیکھیں تو سہی، ہمارے دیاروں میں یہ لفظ کہاں سے در آیا؟ بس اسی غرض سے اِن کالموں میں ہم الفاظ کا پیچھا کرتے ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں پیچھا کرتے پا کر الفاظ ہم سے آگے آگے اورخوب تیز تیز بھاگ لیتے ہیں۔ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ کچھ ہاتھ نہیں آتا، جز آہِ سحرگاہی۔
فقہی اور مسلکی معاملات مفتیانِ کرام جانیں۔ ہم تو اتنا جانے ہیں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ’تراویح‘ جمع ہے ’ترویحہ‘ کی۔’ترویحہ‘ کے معنی یوں تو مطلقاً بیٹھنے کے ہیں، مگر بعد میں اس لفظ کے اصطلاحی معنی تراویح کی چار رکعتوں کے بعد تازہ دم ہونے کی غرض سے بیٹھنے کے ہو گئے۔’ترویحہ‘ کا مطلب ’ایک دفعہ آرام کرنا‘ بھی لیا گیا ہے،بالکل اُسی طرح جیسے ’تسلیمہ‘ کا مطلب ’ایک دفعہ سلام پھیرنا‘لیا جاتا ہے۔ مثلاًتراویح کی تکمیل پردو رکعتوں کے بجائے وتر کی تین رکعتوں کے بعد ’تسلیمہ‘ کیا جاتا ہے۔
پر، یہاں تو سوال یہ ہے کہ رمضان مین عشا کی نماز کے بعد پڑھی جانے والی نماز کو ’تراویح‘ کیوں کہاگیا؟ تو صاحب! وجہِ تسمیہ ’تراویح‘ کی یہ بتائی گئی ہے کہ صحابۂ کرامؓ، رمضان المبارک میں جب جماعت کے اہتمام کے ساتھ قیام اللیل کرتے تھے تو ہر دو سلام (یعنی چار رکعتوں) کے بعد ’ترویحہ‘ فرماتے تھے۔مطلب یہ کہ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے نماز میں وقفہ کرتے۔ یوں یہ نماز ’وقفوں والی نماز‘ یعنی نمازِ ’تراویح‘ کہی جانے لگی۔تراویح کی آٹھ رکعتیں، بیس رکعتیں، حتیٰ کہ چھتیس رکعتیں بھی پڑھی گئی ہیں۔ان پر وتر کی تین رکعتیں مزید۔
آج بھی ماہِ رمضان میں پورے عالمِ اسلام میں ’تراویح‘ بڑی دھوم دھام سے ادا کی جاتی ہے۔ہر مسجد میں حفاظِ قرآن مہینے بھر میں پورے قرآنِ مجید کی تلاوت مکمل کرتے ہیں۔یوں ’تراویح‘ میں پابندی سے شرکت کرنے والے تمام مسلمان سورۂ فاتحہ سے سورۃالناس تک پورا قرآن مجید ایک بار کم از کم سن تو لیتے ہیں۔بعض مساجد میں ایک اہتمام اوربھی ہوتا ہے، وہ یہ کہ ’آج کی تراویح‘ میں پڑھی جانے والی قرآنی سورتوں کا ترجمہ اور تشریح بیان کی جاتی ہے۔ایسی مساجد کی تراویح میں شریک ہونے والے نمازی، تراویح کی برکت سے قرآنِ پاک کے پیغام سے بھی کسی قدر آشنا ہو جاتے ہیں۔ صاحبو!رمضان وہ ماہِ مبارک ہے جس میں جاپان سے کینیڈا تک قومِ رسولِ ہاشمیؐ ایک ہی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔ایک مخصوص وقت بیدار ہونا اور سحری کھانا۔ایک مخصوص وقت جمع ہو کر افطار کرنا۔نمازِ عشا کے بعد اہتمام سے تراویح پڑھنا۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اس ماہِ مقدس میں امت مسلمہ کے افراد اور ادارے جتنی بڑی مقدار میں دنیا بھر میں دولت کو گردش میں لاتے ہیں اُس کی مثال دنیا کی کسی دوسری قوم کے ہاں نہیں ملے گی۔اُمت کی صرف خامیوں اور خرابیوں کو کھوجتے پھرنے والی نگاہیں اگر شہد کی مکھی کی طرح پھولوں کی تلاش میں نکلیں تو اُن کی آنکھیں یہ دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ جائیں کہ کیا کیا مچی ہیں یارو ’رمضان‘ کی بہاریں۔
تراویح کے بعد مسلم محلّوں کی مساجد کے ارد گرد بڑی رونق رہتی ہے۔بالخصوص جن مساجدکی ’تراویح‘ میں خواتین کی شرکت کا خاص اہتمام ہوتا ہے،اُن کے باہر عورتوں اوربچوں کا ہجوم کسی تقریب کاساسماں بنا دیتا ہے، گلیوں اور راستوں میں چہل پہل ہو جاتی ہے۔
لفظ ’تراویح‘ ہے تو اسمِ جمع، لیکن اُردو میں یہ لفظ بطورِ واحد ہی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً تراویح شروع ہوگئی، تراویح ہو رہی ہے یا تراویح ختم ہوگئی۔دلی کے کرخنداروں کے ہاں تراویح کی بھی جمع استعمال ہوتے دیکھی اور سُنی۔ کوئی ’تراوِیاں‘ کہتا ہے اور کوئی ’ترابِیاں‘۔
لفظ ’ترویحہ‘ ہمارے لیے اجنبی سہی، مگر اس لفظ کے خاندان کے بہت سے الفاظ سے ہم مانوس ہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں بکثرت بولے جاتے ہیں۔ اجنبی ہو جانے والے الفاظ میں سے ایک لفظ ’راح‘ بھی ہے، جس کے معنی خوشی اور نشاط کے ہیں۔ میرانیسؔ مرحوم نے پسر یعنی اولادِ نرینہ کو بھی ’راح‘ قررا دیا ہے۔ انیسؔ اپنی ایک مسدس کے پہلے بند میں کہتے ہیں:
لذت کوئی پاکیزہ ثمر سے نہیں بہتر
نکہت کوئی بوئے گُلِ تر سے نہیں بہتر
راحت کوئی آرامِ جگر سے نہیں بہتر
نعمت کوئی دنیا میں پسر سے نہیں بہتر
صدموں میں علاجِ دلِ مجروح یہی ہے
ریحاں ہے یہی، راح یہی، روح یہی ہے
روس کے ادب کو انسانی نفسیات کی گہرائی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے منفرد مقام حاصل ہے۔
•"اگر تم میری تکلیفوں پر بھی قابض ہو جاؤ... میں پہلے والا انسان نہیں رہوں گا۔"
— فیودر داستایفسکی (کتاب: "برادران کارامازوف")
• "جو لوگ اجتماعی المیے میں اکٹھے ہوتے ہیں، وہ اکثر ایک دوسرے سے بے حسی محسوس کرتے ہیں۔"
— اینٹن چیخوف (کتاب: "دی سیگل")
• "یادداشت کا المیہ یہ ہے کہ ہم جسے بھولنا چاہتے ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔"
— داستایفسکی (کتاب: "یادوں کے اُجالے میں")
• "جب کوئی تمہیں دھوکہ دے تو معافی دے سکتے ہو، مگر پھر کبھی اُسے اپنے قریب مت آنے دو۔"
— لیو ٹالسٹائی (کتاب: "انا کرینینا")
•"انسان کو اُس وقت تک کوئی شفا نہیں دے سکتا جب تک وہ اپنے ماضی کے پچھتاوے کو سینے سے لگائے رکھے۔"
— داستایفسکی (کتاب: "جرم و سزا")
• "سردیاں اُن کے لیے بھی اتنی ہی بے رحم ہوتی ہیں جن کے پاس گرم یادیں نہیں، اور اُن کے لیے بھی جو یادیں لے کر زندہ رہتے ہیں۔"
— داستایفسکی (کتاب: "ابدی شوہر")
• "محبت کے سب سے خوبصورت لمحے وہ ہوتے ہیں جو جدائی سے پہلے آتے ہیں۔"
— داستایفسکی (کتاب: "نیچے تہہ خانے سے")
• "میری فتحوں پر مت جاؤ، بلکہ اُن شکستوں پر غور کرو جن سے میں نے زندگی سیکھی۔"
— چیخوف (کتاب: "جزیرہ سخالین")
• "کھڑکی کے کنارے بیٹھنے والے راستوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، بس خوابوں میں کھوے رہتے ہیں۔"
— میخائل لیرمنٹوف (کتاب: "ہمارے زمانے کا ایک ہیرو")
• "اُس بوڑھے سے بدتر کوئی نہیں جو اپنے خواب اپنے بیٹے کے سپرد کر کے خود مہمان خانے میں سو جاتا ہے۔"
— داستایفسکی (کتاب: "برادران کارامازوف")
نادیدہ ۔ مجموعہ کلام سید اقبال عظیم۔ علم وکتاب لائبریری https://archive.org/download/nadeedah/%D9%86%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%AF%DB%81%20%DB%94%20%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84%20%D8%B9%D8%B8%DB%8C%D9%85.pdf
Читать полностью…روزہ کا سب سے بڑا مقصد، تقویٰ ہے
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
روزہ کا سب سے بڑا معنوی مقصد، تقویٰ اور دل کی پرہیزگاری اور صفائی ہے۔ محمد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کے ذریعہ فرمایا گیا: "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ" (البقرہ: ۱۸۳) "اے ایمان والو! تم پر بھی اسی طرح روزہ فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا۔ تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔"
تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ، دل کی اس کیفیت کا نام ہے، جس کے حاصل ہونے کے بعد، دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک باتوں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑپ ہوتی ہے۔ اور روزہ کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر یہی کیفیت پیدا ہو۔ بات یہ ہے کہ انسانوں کے دلوں میں گناہوں کے اکثر جذبات بھی قوت کی افراط سے پیدا ہوتے ہیں، روزہ انسان کے ان جذبات کی شدت کو کمزور کرتا ہے، اس لیے آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم نے اُن نوجوانوں کا علاج، جو اپنی مالی مجبوریوں کے سبب نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور ساتھ ہی اپنے نفس پر بھی قابو نہیں رکھتے، روزہ بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ روزہ شہوت کو توڑنے اور کم کرنے کے لیے بہترین چیز ہے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۵/۷٦/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا عاقل صاحب علماء کے خطیب نہیں تھے ، ان کے مخاطب جاہل عوام تھے ، انہیں ان کی اصلاح کرنی تھی،ایسا خطیب زیادہ دیر تک واقعات کی صحت اور افکار و خیالات میں اعتدال کا لحاظ نہیں رکھ سکتا ،اسے اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لئے ہر رطب و یابس کو استعمال میں لانا ہوتا ہے۔لیکن ہم نے اس وقت محسوس کیا کہ عوامی خطیب ہونے کے باوجود شہادت حسین وغیرہ سے وابستہ واقعات میں آپ نے اعتدال سے تجاوز نہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی،غالبا یہ ان کے والد ماجد کی تربیت کا اثر تھا،
مولانا کو اہل حیدراباد کے روشن ماضی اور موجود ہ معاشی پستی کا شدت سے احساس تھا ، لہذا ان کی جدوجہد صرف تقریروں تک نہ رہی ، آپ نے رفاہی کاموں میں بھی حصہ لیا ،1970ء کے آس پاس قائم ہونے والے اپنی نوعیت کے اولین غیر سودی بنک طور بیت المال کی بھر پور مدد کی ، طور بیت المال کے بانی غالبا بشارت علی ان کا نام تھا مولانا تقریروں میں ساتھ ہوتے ، مدراس میں اہل خیر کو ان کے تعاون پر ابھارتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے۔
مولانا کو احساس تھا کہ خاص طور پر حیدرآباد دکن کے مسلمان پولیس اکشن کے بعد بہت خستہ حال ہوگئے ہیں۔ انہیں جاہلی رسوم ورواج سے نکال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی طرف لوٹا نانہایت ضروری ہے، لہذا آپنے پہلے پہل خواتین کی دینی تعلیم کے نظم و نسق پر توجہ دی ، پھر امارت شرعیہ بہار واڑیسہ کے طرز پر امارت ملت اسلامیہ قائم کی ، جس کے امیر کی نسبت سے آپ امیر ملت اسلامیہ کے لقب سے پہچانے گئے۔اس کے بعد آپنے مردوں میں علم دین کے فروغ کے لئے دارالعلوم حیدرآباد کی بنیاد ڈالی ، جس کا شمار دکن کی اہم دینی درسگاہوں میں ہوتا ہے۔اس درسگاہ کو معیاری بنانے کے لئے آپ نے دارالعلوم دیوبند ،جامعہ رحمانی مونگیر اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فارغ اور تجربہ کار علماء سے خوب استفادہ کیا۔اس کام میں آپ کو اپنے داماد جناب محمد عبدا لرحیم انصاری صاحب کا خوب تعاون حاصل رہا۔ آپ کے ہاتھوں غیر مسلمین کی ایک بڑی تعداد حلقہ بگوش اسلام ہوئی، جن کی تعلیم وتربیت کا بھی آپ نے اہتمام کیا۔
مولانا سے ہماری کئی ایک ملاقاتیں رہیں ، غالبا 1982ء میں پہلے پہل دبی تشریف لائے تو خوب ساتھ رہا،اس زمانے میں یہاں جمعیت تربیت اسلامی کے پلیٹ فارم سے برصغیر کے افراد میں دینی و دعوتی کام ہوا کرتا تھا، یہیں سے اکابر علماء کی نادر تقاریر کے کیسٹوں کا ایک سلسلہ پیغام اسلام کیسٹ سیریز کے عنوان سے شروع کیا گیا تھا، جوکہ اپنی نوعیت کا اولین سلسلہ تھا، مولانا نے اس سلسلے کے آغاز پر ہماری بڑی ہمت افزائی کی اور جب ہمارے ہاتھوں میں مولانا سید ابو الاعلی مودوی رحمۃ اللہ کے درس سورہ فاتحہ اور سورہ ق کے کیسٹ دیکھے تو ان کی باچھیں کھل گئیں ۔ بڑی حسرت اور محبت سے یہ کیسٹ ہم سے طلب کئے۔ اس کے دو ایک سال کے بعد دوبار ہ آپ کی تشریف آوری ہوئی ، اس زمانے میں استقبال رمضان پر آپ کی تقریر سے ویڈیو تقاریر کی ریکارڈنگ کا سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا۔مولانا کی یہ آڈیو تقاریر عرصہ ہوا ہمارے ویب سایٔٹ اردو آڈیو ڈاٹ کام www.urduaduio.com پر پیش کی جاچکی ہیں۔
مولانا نے شاہ بانو کیس کے دوران پورے ہندوستان کا دورہ کر کے مسلمانان ہند کو جھنجھوڑا ،چونکہ سفر زیادہ تر ریل گاڑی سے ہوا کرتا تھا ، اور بھٹکل میں ابھی ریل کی پٹڑی نہیں بچھی تھی تو مولانا قریب منگلور تک آکر چلے گئے، کہنے لگے بھٹکل کانام بہت سنا تھا ، بھٹکل والوں سے ملاقاتیں بھی ہر جگہ ہوئیں ،لیکن ہندوستان کے طول وعرض میں سفر کے دوران بھٹکل کہیں نہیں ملا،بھٹکل جانے کے لئے باقاعدہ نیت اور احرام کی ضرورت پڑتی ہے اور آپ نے باقاعدہ نیت کے ساتھ بھٹکل کا سفر کیا۔جس کی یادیں آج بھی دیکھنے والوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔
مولانا نے آندھرا پردیش کے گذشتہ الیکشن میں کھل کر کانگریس کا ساتھ دیا اور مرکز میں بی جے پی کو مضبوط کرنے والی پارٹی کو ہرانے میں ایک کلیدی کردا ر ادا کیا ، غالبا اس طرح کھل کر آپ نے پہلی مرتبہ الکشنی سیاست میں حصہ لیا تھا،
وفیات مورخہ: ۱۷ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیگم رفعت اسکندر مرزا 17 مارچ 1967 ء
ثروت اباظہ 17 مارچ 2003 ء
حشمت اللہ لودی 17 مارچ 2019 ء
حشمت اللہ لودی 17 مارچ 2019 ء
داغ دھلوی 17 مارچ 1905 ء
ڈٓاکٹر سرور جہاں زبیری 17 مارچ 2004 ء
سید ممتاز عالم گیلانی (وکیل) 17 مارچ 2020 ء
عبد العزیز رحیم آبادی 17 مارچ 1918 ء
کریم بخش خالد 17 مارچ 2003 ء
مصباح نجمی 17 مارچ 2009 ء
مفتی محمد عمر نعیمی مراد آبادی 17 مارچ 1966 ء
مولانا حبیب الرحمن اعظمی، ابو المآثر 17 مارچ 1992 ء
مولانا عبد العزیز (JIH) 17 مارچ 2015 ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
محسن کتابیں۔ قسط : 01۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ
ولادت:دریاباد(ضلع بارہ بنکی،یوپی)
16 / شعبان 1309 ھ ،مطابق 16 / مارچ 1892 ء
مفسر قرآن،ادیب شہیر،مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کا تعلق دریاباد ضلع بارہ بنکی (یوپی)کے قد وائی خاندان سے تھا۔کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔اے کیا،طالب علمی ہی سے مطالعے کی عادت نہیں ،لت پڑگئی تھی۔ہر قسم کا مطالعہ کرتے۔اسی زمانہ میں تشکک وارتیابیت سے لے کر الحاد ودہریت کے مرحلوں سے گزرے،پھر اللہ نے صحیح اسلام کی طرف باز گشت کی توفیق عطا فرمائی۔کالج کی زندگی ہی میں خاصی عربی سیکھ لی تھی۔مذہب کی طرف رجوع کے بعد مذہبیات میں ترقی کرتے چلے گئے۔مولانا مدنیؒ سے بیعت وادارت کا تعلق قائم کیا،اورحضرت تھانویؒ کی صحبت و تربیت سے فائدہ اٹھایا۔خلافت تحریک کے اسٹیج سے ملکی سیاست سے بھی گہرا تعلق رکھا ،آپ صوبہ اودھ کی خلافت کمیٹی کے صدر تھے ۔
مولانا ملک کے نامی صحافیوں میں تھے۔مولانا محمد علی جوہر کے’’ہمدرد‘‘سے صحافتی زندگی کا آغاز کیا،پھر’’سچ‘‘،اس کے بعد ’’صدق‘‘اور آخر میں ’’صدق جدید ‘‘ نکالا۔
آپ ایک صاحب طرز ادیب تھے،بقولِ حضرت مولانا علی میا ںؒ:وہ اپنے طرز کے بانی اور خاتم ہیں۔
آپ کی مشہور کتابوں میں تفسیر قرآن (انگریزی و اردو)،تاریخ اخلاقِ یورپ(ترجمہ)،قصص و مسائل،سفر حجاز،ذکر رسول، معاصرین،محمد علی: ذاتی ڈائری کے چند ورق،حکیم الامت:نقوش وتاثرات،بشریت انبیاء،انشائے ماجد اور نشریات ماجد وغیرہ ہیں۔
وفات:لکھنؤ ،/16محرم الحرام 1397 ھ، مطابق 6 / جنوری 1977 ء
مدفن:دریاباد
----------------------------------------------------------------
حکم ملا ہے ایک رند خراباتی کو،ایک گم نام اور بد نام کو،گوشہ نشین قصباتی کو،کہ وہ بھی اہل فضل وکمال کی صف میں در آئے۔ اور اپنا فسانۂ رسوائی دنیا کو کہہ سنائے ،اور حکم دینے والے کون!ایک بزرگ(مولانا سید سلیمان صاحب ندوی)اور ایک بزرگ صورت بزرگ سیرت خورد(مولانا علی میاںؒ)۔بہتر ہے!بزرگوں اورخوردوں کو،اگر لطف اسی داستان میں آتا ہے ،تو لیجئے،تعمیل فرمائش ابھی ہوجاتی ہے، لیکن آپ حضرات سوچ سمجھ لیں،دنیا آپ کے حسن انتخاب کو کیا کہے گی! ع
لو پسند آئیں ادئیں انہیں دیوانوں کی
آنکھ کھلی ایک مذہبی گھرانے میں۔باپ(اللہ ان کی تربت ٹھنڈی رکھے)ایک اچھے سرکاری عہدیدار ہونے کے باوجود،علماً مولوی اور عملاًدیندار،ماں(اللہ ان کی عمر میں مزید برکت عطا فرمائے)شب بیدار،تہجد گزار،زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے اخیر کا،گھر پر مشرقی تعلیم کا چلن ایک حد تک باقی تھا۔مولوی صاحب کے پا س پڑھنے بٹھائے گئے،قرآن(ناظرہ)کے ساتھ اردو بھی شروع ہوگئی۔مولوی محمد اسماعیل صاحب میرٹھی مرحوم کی ریڈریں کچھ اس طرح مزہ لے لے کر پڑھیںکہ ان کی شیرینی اب تک یاد ہے۔اور اردو ٹوٹی پھوٹی جو کچھ بھی لکھنی آگئی،اس کی بنیاد اسی وقت سے پڑ گئی۔فارسی میں گلستاں،بوستاں،رقعات قتیل،یوسف زلیخا کے علاوہ کیمیائے سعادت بھی کچھ سمجھے اور زیادہ تر بے سمجھے،جوں توں ختم کرڈالی۔داخلہ اسکول میں ہوا،زبان عربی ملی،استاد ملے شفیق،عربی سے جو الجھن اور وحشت نہ ہونے پائی،تصرف ہے انھیں بزرگوں کا!
ابھی بچپن ہی تھاکہ ایک انگریزی تعلیم یافتہ ’’چچا زاد‘‘ بھائی نے شوق اخبارات کا پیدا کرادیا۔دل خارجی مطالعے میں لگنے لگا۔اخبار،رسالہ،اشتہار،کتاب،جو چھپی چیز بھی سامنے آجاتی،مجال نہ تھی کہ بچ کر نکل جائے!اردو کے علاوہ انگریزی،فارسی،عربی میں کچھ نہ کچھ شد بد تو ہو ہی گئی تھی۔فقہ،تفسیر،تاریخ،تصوف،منطق ،مناظرہ،ادب،افسانہ،ناول،ناٹک،طب،شاعری سب ہی کچھ تو اس میں آگیا!جوش خاصا مذہبی موجود تھا۔آریوں اور عیسائیوں کی مناظرانہ کتابوں پر نظر پڑی،ایک آگ ہی لگ گئی،تلاش جوابات کی ہوئی،دھن ہی سوار ہوگئی۔مولانا ثناء اللہ امرتسری کی ترک اسلام وغیرہ،مرزاغلام احمد قادیانی کی سرمۂ چشم آریہ وغیرہ،حکیم نورالدین کی’’نورالدین‘‘،مولانامحمد علی مونگیری ناظم ندوہ کا ماہنامہ ’’تحفۂ محمدیہ ‘‘ اسی دور کی یادگاریں ہیں۔اور ہاں ایک نام تو ذہن سے نکلا ہی نہیں جاتا،اب وہ بیچارے یوں ہی گمنام ہو گئے ہیں،مولوی احسان اللہ عباسی وکیل گورکھپور،مصنف ’’الاسلام‘‘،’’تاریخ الاسلام‘‘ وغیرہ،ذوق شوق سے ساری کتابیں پڑھیں،اور اپنی بساط کے مطابق کچھ لکھا لکھایابھی۔ادبی میدان میں شرر مرحوم اور ان کے معاصرین منشی سجاد حسین ایدیٹر اودھ پنچ وغیرہ کا دور دورہ رہا۔
تحریر: شیخ طلحہ منیار حفظہ اللہ
*تحیۃ المسجد کی اہمیت*
مشہور صحیح حدیث ہے: (إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يصلي ركعتين)
اس حدیث کے پیش نظر:
جو شخص مسجد کے جماعت خانے میں داخل ہو، اور اس وقت مکروہ وقت نہ ہو، اور جماعت کی نماز بھی شروع نہیں ہوئی ہو
تو ایسے شخص کو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحية المسجد (جو مسنون ہے) پڑھنی چاہیے، یہ بندوں کا رب المسجد کو سلام کرنے کا طریقہ ہے۔
اگر کوئی شخص مسجد میں پہنچ کر بیٹھ جائے، پھر کھڑا ہو، اور دو رکعت پڑھے تو یہ بھی تحیة المسجد ہے، بیٹھنے کی وجہ سے تحیۃ المسجد فوت نہیں ہوتی۔
مسجد میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی سنت ادا کی، یا جماعت کی نماز کھڑی ہوگئی اور جماعت میں شامل ہوگیا، تو تحیۃ المسجد اس میں داخل ہو جاتی ہے، الگ سے پڑھنا ضروری نہیں۔
گھر سے سنت پڑھ کر اگر مسجد جائے، تو فجر کے علاوہ دیگر نمازوں سے پہلے وقت کی اگر گنجائش ہو، تو تحیۃ المسجد ادا کرنی چاہیے۔
"صحیح ابن حبان" میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ ایک مرتبہ وہ تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ گئے، آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تم نے تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھ لیں؟ حضرت ابوذر نے نفی میں جواب دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعتیں پڑھو۔
*تحیۃ المسجد کی حکمتیں:*
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے "حجۃ اللہ البالغہ" میں اس کی تین حکمتیں بیان فرمائی ہیں، جن کا ترجمہ اس کی شرح "رحمۃ اللہ الواسعہ" میں اس طرح تحریر فرمایا ہے:
1- پہلی وجہ یہ ہے کہ: مسجد میں پہنچ کر بھی (جو کہ خاص نماز ہی کے لیے تیار کی گئی ہے) نماز میں مشغول نہ ہونا محرومی اور افسوس کی بات ہے۔
2- دوسری وجہ: مسجد میں آدمی فرض نماز ادا کرنے کے لیے پہنچتا ہے، اور تحیۃ المسجد ایک محسوس چیز کے ذریعہ فرض کی رغبت متعین کرنے کے لئے مشروع کی گئی ہے، یعنی دو رکعتیں پڑھنے سے فرض کی رغبت محسوس ہوکر سامنے آجائے گی۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ: یہ مسجد کے احترام کے لیے ہے، مسجد کو اللہ تعالیٰ سے ایک خاص نسبت ہے، اور اِسی وجہ سے اس کو خانۂ خدا کہتے ہیں، پس اس کا یہ حق ہے کہ اس کا احترام کیا جائے، اور تحیۃ المسجد اسی حق کی ادائیگی کے لیے ہے۔ (رحمۃ اللہ الواسعہ: ۳۵۳٫۳)
اپنے دیار میں تحیۃ المسجد کا اہتمام نہیں ہوتا ہے، اکثر لوگوں کو دیکھا کہ جماعت کی نماز سے پہلے مسجد میں داخل ہوکر نماز کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں، تحیۃ المسجد نہیں پڑھتے۔
ضرورت ہے کہ اس کے بارے میں لوگوں کو ترغیب دی جائے۔
ساتھ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور بھیجدیا ، یہاں آپ نے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ، آپ کی مجالس میں بیٹھے ، لیکن آپ کے دورہ حدیث سے استفادہ کا موقعہ نہیں ملا کیونکہ اسی سال حضرت شیخ نے دورہ حدیث سے سبکدوشی لے کر حضرت مولانا محمد یونس صاحب کو اپنا جانشین بنا دیا تھا ، یہ نئے شیخ الحدیث کی جوانی اور حوصلوں کی بلندی کا زمانہ تھا، ان سے آپ نے خوب استفادہ کیا ،آپ کی درسی تقاریر کو اپنے ہاتھ سے قلمبند کیا ، اس زمانے تک یونس صاحب کے حدیث کی کتاب مشکاۃ شریف کے درس کی بڑی دھوم ہوا کرتی تھی ، آپ نے بڑی محنت سے سال بھر کے درس مشکاۃ شریف اور دوسرے بہت سارے علمی ذخیروں کو اپنے ہاتھ سے نقل کیا ، سال بھر بعد آپ جب بھٹکل لوٹے تو محنتوں کا یہ ثمرہ سیکڑوں صفحات کی شکل میں آپ کی جھولی میں موجود تھا ۔
اللہ نے آپ کو پاکیزہ ذوق اور ہنر مندی سے نوازا تھا ، کھانے کا اچھا ذوق رکھتے تھے ، طالب علمی کے زمانے سے ذائقہ دار کھانے پکانے میں مہارت حاصل کرلی تھی ، جس کی وجہ سے وطن سے ہزاروں میل کی دوری عذاب جان نہیں بن سکی ، کھیل اور ورزش کے شوق نے دوست احباب اور ہم جولی پیدا کئے ، شاعری کرتے کبھی نہیں دیکھا ، لیکن شعر و سخن کا بڑا پاکیزہ مذاق پایا تھا ، جامعہ میں بیت بازی کی ابتدا کا کریڈٹ آپ ہی کو جاتا ہے ، بڑے خوش خط تھے ، تکیوں وغیرہ کے غلافوں پر بڑے ہی خوبصورت اشعار اپنے ہاتھوں سے کشیدہ کرتے تھے ۔
خطاطی کا ذکر آیا تو اس دور کے ایک اور استاد یاد آئے جناب عبد الرحمن خان نشتر مرحوم ،1966ء میں جامعہ کے مدرس بنے تھے ، بڑے اخلاص محنت اور رعب داب سے بچوں کی تعلیم وتربیت کا فرض نبھایا ، ماہر فن خطاط اور شاعر، آواز بلا کی پائی تھی ، پختہ راگ جانتے تھے ، آپ کے برادر خورد عبد الحمید خان اور فرزند محمد ظفر اللہ خان نے بھی جامعہ کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنا خون خشک کیا اور قوت لایموت پر زندگی گذاردی ، بڑے خان مدبر اور سنجیدہ انسان تھے ، وہ جذباتیت کو پسند نہیں کرتے تھے ، عزت نفس کا خیال رکھتے ، بڑے بڑے نام انہیں مرعوب نہیں کرتے تھے ، ہم نے ان سے پڑھا تو نہیں ، لیکن جب ساتھ پڑھانے کا موقعہ ملا تو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا ، ان کی باتیں اب بھی یاد آتی ہیں ، ہمارا معاشرہ بھی کتنا طوطا چشم واقع ہوا ہے ، قوم کے نونہالوں کی اٹھان کے لئے اپنا خون جلانے والے اساتذہ کو ہم کس آسانی سے بھول جاتے ہیں ؟۔
حافظ رمضان صاحب نے کوئی دو عشرہ تسلسل کے ساتھ جامعہ میں تدریس کے فرائض انجام دئے ، جب جامع مسجد میں تعلیمی درجات رہے تو فاروقی مسجد کے پاس ایک ٹیلے پر کرایہ کے مکان میں رہے، پھر جب مدرسہ( جوکاکو مینشن ۔ سرکل) پر منتقل ہوتو آپ نے شرالی ( الوے کوڑی ) کے پاس ایک مسجد میں جامعہ کی تدریس کے ساتھ امامت کی زمہ داریاں بھی سنبھالیں اور درسگاہ کے جامعہ آباد منتقلی کے بعد روزانہ چھ سات کلومیٹر کا ٹیلوں، ویرانوں اور جھاڑیوں بھرا راستہ پید ل طے کر کے جامعہ آباد آنے لگے ، اسطرح ایک عشرہ آپ نے گذار دیا ، آج کے زمانے میں جبکہ ہر کسی کے پاس اسکوٹر اور بائیک موجود ہے، اساتذہ کی وقت پر نہ پہنچنے کی شکایت عام ہے ، لیکن کیا مجال کہ روزانہ اتنا طویل فاصلہ پیدل آنے کے باوجود، حافظ صاحب کی پابندی وقت میں کوئی حرف آیا ہو۔
جامعہ کے اساتذہ کا ابتدا سے یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ سیاسی ، تاریخی جغرافیائی اور عام معلومات کا وافر ذخیرہ ان کے یہاں پایا جاتارہا ہے ، حافظ صاحب بھی انہی میں سے تھے ، طلبہ کو دلچسپ معلومات پہنچانے کا انہیں ہنر معلوم تھا، 1967ء کی جنگ فلسطین کے بعد لیلی خالد ، یاسر عرفات وغیرہ بہادری کے کارناموں کا ذکر آپ ہی کی زبانی ہم نے سنا تھا۔
حافظ صاحب نے جامعہ کا نرم و گرم دور دیکھا ، آپ کے سامنے یہاں پر بڑے بڑے بحران اٹھے ، مولانا عبد الحمید ندوی آپکے بعد یکے بعد دیگرے مولانا یعقوب بیگ ندوی ، ابو الحسن قاضیا ماسٹر ، مولانا سید ارشاد علی ندوی ، مولانا شہباز اصلاحی وغیرہ کے سبھی دور دیکھے ،لیکن اس دوران ہمیشہ آپ نے خود کو صرف تعلیم و تعلم سے وابستہ رکھا ، سیاست اور اختلافات کی چھینٹیں اپنے دامن پر پڑنے نہیں دیں ، 1979ء میں مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اساتذہ کی خواہش و ایماء پر قائم مقام مہتمم کی ذمہ داری سونپی ، یہ ذمہ داری آپ نے تین سال تک نبھائی یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن رحمانی جامعہ کے اہتمام پر فائز ہوگئے ۔
مولانا حافظ محمد رمضان ندوی مظاہری سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل https://www.youtube.com/watch?v=5qlMTGDcg9g&list=PL5AFF3B0018DDC975&index=80
Читать полностью…✨ صلاة التراويح - اللية ٩
🎙️الشيخ طلحة بلال منيار
📍 ملا مسجد - ٩ رمضان ١٤٤٦
*مانگے کا اجالا*
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو اپنی موت سے چند سال قبل اپنی والدہ کی موت کا صدمہ پہنچا تو انہوں نے کہا ، اس دنیا میں ایک ہی وجود ایسا تھا جو مجھے مصطفیٰ کہہ کر پکارتا تھا، ماں کے ساتھ یہ مصطفیٰ بھی وفات پاگیا.
اس وقت میں ان کی یہ بات پوری طرح نہیں سمجھا تھا مگر یکم مارچ کو پوری طرح سمجھ گیا جب میری ماں کے ساتھ منیر احمد بھی وفات پا گیا.
منو بھائی ، مارچ 1983
اسلم ملک کی وال سے
"ذلیل" صاحب چائے لاؤں
مشہور سندھی ادیب امر جلیل صاحب نے اسلام آباد میں ایک بنگالی باورچی رکھا۔ اب ظاہر ہے، بندہ کھانا زبردست بناتا تھا لیکن زبان کا ذائقہ کچھ الگ ہی تھا۔
جب بھی مہمان آتے، وہ نہایت عزت سے پوچھتا:
"ذلیل صاحب! چائے لاؤں؟"
مہمانوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی، اور جلیل صاحب کے ماتھے پر پسینہ۔
جلیل صاحب نے نرمی سے کئی بار سمجھایا،
"بیٹا! میں جلیل ہوں… ذلیل نہیں!"
لیکن بندہ پورے اعتماد سے ہر بار وہی:
"ذلیل صاحب، کچھ اور تو نہیں چاہیے؟"
جلیل صاحب تنگ آ گئے۔ آخر کسی اور بنگالی دوست نے مشورہ دیا،
"مسئلہ یہ ہے کہ ہم بنگالی لوگ ج کو ز اور ز کو ج بولتے ہیں۔
آپ اپنا نام ذلیل لکھ کر دے دیں، وہ خود بخود جلیل کہنا سیکھ جائے گا۔"
امید کی کرن چمکی۔ فوراً کاغذ پر لکھا: ذلیل
اب تو کمال ہو گیا! جب بھی باورچی بلاتا، بولتا:
"جلیل صاحب! چائے لاؤں؟"
لیکن لہجہ کچھ ایسا طنزیہ سا ہوتا جیسے دل میں ہنسی دبا رہا ہو۔
اب جلیل صاحب کی مشکل دوگنی ہوچکی تھی کیونکہ:
"پہلے وہ مجھے 'ذلیل' کہتا تھا لیکن سمجھتا جلیل تھا۔
اب وہ مجھے 'جلیل' کہتا ہے لیکن سمجھتا ذلیل ہے!
’راح‘ بھی اسمِ جمع ہے۔اس کا واحد ’راحۃ‘ ہے۔ اُردو میں ’راحت‘ لکھا جاتا ہے۔اس کے معنی ہیں آرام و آسائش، خوش ہونا یا ہشاش بشاش ہو جانا۔مگر اُردوکے شعرائے کرام راحت کی جمع کے طور پر’راح‘ کی جگہ ’راحتیں‘ استعمال کرتے دیکھے گئے ہیں۔فیضؔ کی ایک مشہور نظم ہے”مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ“۔ اس نظم میں وہ اپنی محبوبہ کو ترکِ محبت کی اطلاع اس طرح دیتے ہیں جیسے کوئی شخٰص اپنے کسی حاسد دوست کو اپنی ملازمت میں تبادلے کی اطلاع دیتا ہے، بالخصوص اُس تبادلے کی جو ترقی کے ساتھ ہوا ہو۔ چناں چہ فیضؔ اپنی محبوبہ کو خوشی خوشی مطلع کرتے ہیں کہ ”راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا“۔
راحت ہی کے قبیلے کا ایک لفظ ہے ’استراحت‘۔ اُردو میں خوب مستعمل ہے۔اس کا مطلب ہے آرام کرنا، تازہ دم ہونایاکہیں آسائش کے ساتھ قیام کرنا وغیرہ۔اختر علی اخترؔجب عشق و عاشقی سے تھک گئے تو تھک کر برسوں سروْ کے پیڑ تلے لیٹے رہے۔ وہیں لیٹے لیٹے دم دے بیٹھے۔ البتہ دم دیتے ہوئے یہ کارِ خیر کرتے گئے کہ لواحقین کو اپنے دم دے بیٹھنے کا سبب بتاتے گئے ورنہ وہ تجسس میں مر جاتے:
عاشقِ شیدا کا دم نکلا ہے قد کی یاد میں
استراحت کی ہے برسوں سایۂ شمشاد میں
ہمارے ہاں شمشاد مردوں کا نام بھی ہوتا ہے اور خواتین کا بھی۔شمشاد نامی بعض خواتین و حضرات کا قد دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ان جیسے کوئی بیس شمشاداگر اوپر تلے رکھ دیے جائیں تب جا کر سروْ کے کسی کم سِن درخت کے برابر ہو پائیں گے۔اور تب شاید یہ ممکن ہو سکے کہ ’عاشقِ شیدا‘ صاحب ان کے سائے میں استراحت فرمائیں۔
رمضان کی راتوں میں تراویح کے بعد دیر تک سر پر سوار رہنے والا شاگرد بھی جاتے جاتے اکثر یہ احسان دھر جاتا ہے کہ
”حضرت! مجھے اجازت دیجے اور اب آپ بھی اب استراحت فرما لیجے“۔
لغات میں لفظ ’ترویح‘ بھی ملتا ہے، جس کے لغوی معنی سانس لینے یا ہوا دینے کے ہیں۔’ریح‘ ہوا کو کہتے ہیں، اس کی جمع ریاح ہے۔ مگر اردو والوں کی ہر بات نرالی ہے۔ وہ ریاح بھی بطور واحد نکالتے ہیں۔خوش گوار اور خوشبودار ہوا ’ریحان‘ ہے، ایک خوشبودار پودا (تلسی) بھی ’ریحان‘ کہلاتا ہے۔ خوشبو دینے والی شے یا گُل دستے کو ’ریحانہ‘ کہتے ہیں۔ مگر جاتے جاتے ذرا سرفراز شاہد ؔ صاحب کی بھی سنتے جائیے کہ وہ ’ریحانہ‘ کے متعلق کیا بتاتے ہیں۔چوک پر کھڑے ہو کر ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ پڑھتی تھی
وہ لڑکی تھی، مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی
بہ شکریہ : فرائیڈے اسپیشل
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
رمضان المبارک، غریبوں سے ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
روزہ ہی امیروں اور پیٹ بھروں کو بتاتا ہے کہ فاقہ میں کیسی اذیت اور بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے۔ اور اس وقت اس کو اپنے غریب اور فاقہ سے نڈھال بھائیوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ چند لقموں سے ان کی تکلیف کو دور کرنا کتنا بڑا ثواب ہے، جو خود بھوکا نہ ہو، اس کو بھوک کی، اور خود پیاسا نہ ہو، اس کو پیاس کی تکلیف کا احساس کیونکر ہوگا؟ بقول حافظ ابن قیم: سوزِ جگر کے سمجھنے کے لیے پہلے سوختہ جگر ہونا ضروری ہے۔ روزہ اسی احساس کو زندہ اور ایثار، رحم اور ہمدردی کے جذبہ کو بیدار کرتا ہے۔ چنانچہ خود آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان میں آپ کی سخاوت، بادِ رواں کی طرح ہوتی تھی اور اسی کا اثر ہے کہ آج تک مسلمانوں کے ہاں، اس مہینہ میں غریبوں اور فقیروں کی امداد و اعانت اور ان کو شکم سیر کیا جاتا ہے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۷۷/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مضراب ورباب ۔ مجموعہ کلام سید اقبال عظیم علم وکتاب لائبریری https://archive.org/download/mizrab-wa-rubab-by-syed-iqbal-azeem/Mizrab%20Wa%20Rubab%20By%20Syed%20Iqbal%20Azeem.pdf
Читать полностью…وفیات مورخہ: 13 مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد ابراہیم بادانی 13 مارچ 1966 ء
احمد علی خان 13 مارچ 2007 ء
استاد ولایت حسین (موسیقار) 13 مارچ 2004 ء
اللہ بخش یوسفی 13 مارچ 1968 ء
پروین رحمن (سماجی کارکن) 13 مارچ 2013 ء
تسلیم عارف 13 مارچ 2008 ء
حافظ محمد صدیق 13 مارچ 2012 ء
حبیب جالب 13 مارچ 1993 ء
حضرت سید شاہ غازی 13 مارچ 1993 ء
حمیدہ حبیب اللہ 13 مارچ 2018 ء
ڈاکٹر حافظ ابو فواز عبد العزیز رحمانی مبارک پوری 13 مارچ 1993 ء
ڈاکٹر مبشر حسن 13 مارچ 2020 ء
سرشاه سلیمان 13 مارچ 1941 ء
طیب علی علوی، سیٹھ 13 مارچ 1964 ء
ظہیر الحسن لاری، جسٹس(ر) 13 مارچ 1972 ء
عباس محمود العقاد 13 مارچ 1994 ء
عبد القیوم غازی آبادی (مجاہد آزادی) 13 مارچ 1935 ء
محمد خالد صدیقی القادری 13 مارچ 2011 ء
منشی شفاعت احمد دہلوی 13 مارچ 1969 ء
مولانا حفیظ الرحمن واصف دہلوی 13 مارچ 1987 ء
مولانا سید وقار علی بجنوری 13 مارچ 2012 ء
نہال اجمیری (محمد انوار الحق) 13 مارچ 1987 ء
((وفیات اور خاکوں کا اشاریہ ۔ زیر ترتیب۔ از: عبدالمتین منیری))
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
بیاسی سال ایک انسان کی فطری عمر ہوتی ہے، اس عمر کو طویل بھی کہا جاتا ہے، لیکن جب ایسے کسی سایہ درخت کی چھاوں سر سے اٹھ جاتی ہے تو تپتی دھوپ کی تپش محسوس ہونے لگتی ہے، اپنے باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد ایک یتیم کا احساس بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے، ایک ایسے دور میں جب کہ رواداری آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے سے اٹھتی جارہی ہے،ایک حدی خاں کی آواز سے فضا خاموش ہوجائے تو خلا میں جینے کا احسا س تو ہوگا ہی۔مولانا کے ہمارے درمیان سے اٹھ جانے کا احساس بھی مدتوں قوم کو محسوس ہوگا،۔اس گئے گذرے دور میں مولانا جیسی شخصیات خدا کی ایک نعمت ہیں۔ آج خداکی ایک بڑی نعمت ملت اسلامیہ ہندیہ سے چھن گئی ہے، اللہ اس کا نعم البدل عطا کرے ، اور ملت کی سربلندی کی لئے جو خدمات مرحوم نے انجام دی ہیں ، انہیں شرف قبولیت بخش کر خدا ئے تعالی انہیں ان کے بلند ی درجات کا ذریعہ بنائے۔ آمین
12۔03۔2010ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*مولانا عاقل حسامی : بلبل ہزار داستان کی موت*
*عبد المتین منیری۔ بھٹکلٌ
(ارض دکن کے ممتاز خطیب وواعظ مولانا حمید الدین عاقل حسامی علیہ الرحمۃ کی رحلت مورخہ 12 مارچ2010ء کو لکھی گئی تحریر)
حیدرآباد دکن سے یہ غمگین خبر موصول ہوئی ہے کہ ٓاج بروز جمعہ 12 ؍ مارچ کی صبح مولانا حمید الدین عاقل حسامی صاحب نے 82 سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کیا ۔ پھر ظہر بعد انٹرنٹ پر حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد سے ہزاروں معتقدیں کے کاندھوں پر اٹھتے ہوئے جنازے کی تصویریں بھی نظر سے گذریں۔ جو اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ اللہ کا ایک مقبول بندہ اس جہاں سے کوچ کرگیا ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولانا کو ہم نے پہلی بار 1970ء کے آس پاس مدراس میں دیکھا تھا، عمر کوئی چالیس کے آس پاس رہی ہوگی۔ڈاڑھی بالکل سیاہ تھی۔سفید شیروانی ، سرپر سفید عمامہ ، اس پر سفید غترہ یا رومال ، رنگ گورا ، ناک لمبی ، قد میانہ درازی مائل،چال ڈھال ایسی کہ دیکھنے والے کو اپنی طرف مائل کرکے دل میں اپنی محبت بٹھادے،اس وقت آج کا شہر چنئی جو کہ مدراس کہلاتا تھا یوں تو ریاست ٹامل ناڈو کا صدر مقام تھا ، لیکن اس میں اردو بولنے والوں کے چند علاقے بھی تھے ، مشہور عالم بنی مل Binnys کے پڑوس میں شولے، مونٹ روڈ کے قریب ٹریپلیکین روڈ اور پیریمیٹ ، چند اور علاقے اور بھی تھے،لیکن شولے کی مسجد اعظم جہاں ہمارے قاضی شہر بھٹکل مولانا ملا اقبال ندوی کے ایک عزیز امام تھے، اور ٹریپلیکین کی شاہی مسجد والاجاہی میں ماہ ربیع الاول اور محرم الحرام میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شہادت حسین رضی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے اردو کے واعظ اور خطیب دس بارہ دن ان ایام کی مناسبت سے تقریر یں کرنے آیا کرتے تھے، پیریمیٹ مسجد میں موسموں کی کوئی تخـصیص نہیں تھی ، وہاں پر شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ کے ایک شاگرد رشید اور سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا فخرالدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہم درس ایک پٹھان عالم دین امام و خطیب تھے، یہاں پر وقتا فوقتا حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد انظرشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ مختلف اکابر کے وقتا فوقتا بیانات ہوتے رہتے تھے۔
شولہ کی مسجد اعظم ہمارے جمالیہ عربک کالج سے بہ نسبت قریب پڑتی تھی اور یہاں ہرسال پابند ی سے مولانا حمید الدین عاقل حسامی صاحب جنہیں ہم آج مرحوم مغفور کہنے پر مجبور ہیں، ربیع الاول اور محرم کی مناسبت سے سالہا سال تک میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بیانات دینے کے لئے آیا کرتے تھے۔
ہمیں اپنی مختصر زندگی میں بہت سارے خطیبوں اور واعظوں کو سننے اور کئی ایک کے بیانات اور تقریروں کا انتظام کرنے کے مواقع نصیب ہوئے ، لیکن وعظ وخطابت کا جو انداز ہمیں مولانا حمید الدین عاقل صاحب کے یہاں سننے کو ملا اس کی مٹھاس کچھ الگ ہی تھی، آپ کے وعظ کا انداز کچھ نرالا ہی تھا۔
مولانا حیدرآباد کی گذشتہ مسلم تہذیب کی ایک علامت تھے، آپ کے والد مولانا حسام الدین فاضل رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اہل اللہ میں ہوتا تھا۔آپ ایک صوفی المشرب بزرگ تھے، یوں تو مولانا عاقل صاحب نے عصری علوم میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا،لیکن والد کی تربیت و تعلیم نے آپ کو ایک عالم دین کا مرتبہ دے دیا تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ خاندانی طور پر خوش عقیدہ روایات کے رواج کے باوجود آپ کے والد مرحوم نے آپ کو بزرگوں کا احترام سکھایا تھا اور عقیدہ میں اعتدال کی راہ دکھائی تھی ،جس کی وجہ سے آپ کے روابط و تعلقات مسلک دیوبند کے علماء سے زیادہ استوار ہوئے اور آپ کا احترام یکساں طور پر اس حلقے میں کیا گیا۔
ہمارے مولانا شہباز اصلاحی رحمۃ اللہ کی رائے تھی کہ شمال کے لوگوں کے مقابلے میں جنوبی ہند میں خطابت کا فطری جوہر زیادہ پایا جاتا ہے۔مولانا عاقل صاحب کو سن کر اس کا صحیح اندازہ ہوتا تھا،تقریر کوئی علمی نکات سے پر اور بھاری بھرکم نہیں ہوتی تھی ، نہ کہیں الفاظ میں آورد کا احساس ہوتا تھا، باتیں سبھی سیدھی سادھی ، عوام کے دلوں میں سیدھے اترنے والی،شہد میں دھلی ایسی خالص حیدرآباد کی دکنی زبان کم ہی سننے کو ملی،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دکنی اردو میں صادق حسین سردھنوی یا نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ رہے ہوں، ان میں بھی وہ بات کہاں جو مولانا کی خطابت میں تھی،واقعات کی ایسی منظر کشی کرتے کہ سماں بندھ جاتا ، ایسا لگتا جیسے سننے والے ان واقعات کا حصہ ہیں، صرف رلانے والے یا صرف ہنسانے والے تو ان آنکھوں نے کئی ایک دیکھے، لیکن چند منٹوں کے وقفہ میں ہنساتے ہنساتے رلانے اور رلاتے رلاتے ہنسانے کا ایسا فن کہیں اور نہیں دیکھا۔