علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
لغات سے پتا چلتا ہے کہ سنسکرت میں ’نکھ‘ ناخن کو کہتے ہیں اور’شِیکھ‘ یا’سیکھ‘ سر کو، سر کے بالوں کو یا سر میں بندھی چوٹی کو۔ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ مولوی سید احمد دہلوی کا خیال ہے کہ ”سِکھ شاید سیس کا بگڑا ہوا لفظ ہے“۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ سِیس (بروزنِ بِیس۲۰) ہندی میں ’سر‘ کے لیے بولا جاتا ہے۔اصل محاورہ تھا”نِکھ سِکھ سے درست ہونا“۔ مراد پاؤں کے ناخن سے سر کے بالوں تک یا ایڑی سے چوٹی تک یعنی اول سے آخر تک بے عیب، بے نقص، عمدہ، خوب اور موزوں ہونا۔اس محاورے کے ساتھ ہی فرہنگِ آصفیہ میں ایک محاورہ ”نکھ سے سکھ تک“ بھی درج کیا گیا ہے، اس کا مطلب بھی ’اول تا آخر‘ ہے۔ پس حکیم صاحب کا محاورہ درست ہے۔ مگر ’نکھ‘ اور ’نک‘ دونوں کے نون کی حرکت پر اہلِ لغت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔نون بالفتحہ یعنی زبر کے ساتھ بھی ہے اور بالکسرہ یعنی زیر کے ساتھ بھی۔ جب کہ سک اور سکھ کے ’س‘ پر نون سے بھی شدید اختلافات ہیں۔’سین‘ پر زیرزبر پیش یعنی تین کے تین پائے گئے۔نَک سَک سے درست،نِک سِک سے درست اور نِک سُک سے درست سب ہی درست ہیں۔اب آپ کی مرضی، آپ کا جیسے جی چاہے درست ہو لیں۔
ویسے اُردو میں نکھ سکھ یا نک سے سکھ تک لکھنا اور بولنا عام نہیں ہے۔ عام طور پر نک سک سے درست ہونا یا نک سک سے ٹھیک ہونا ہی بولا اور لکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پررنگینؔ اپنے محبوب کی رنگینیاں بیان کر تے ہوئے کہتے ہیں:
سب سے گفتار جدا سب سے نرالی نک سک
اورشوقؔ قدوائی کا شعر ہے:
کبھی ٹھیک نک سک سے بندی بھی تھی
خدا نے ادا اور پھبن دی بھی تھی
احتیاطاً بتاتے چلیں کہ نون پر زبر کے ساتھ ’نَک‘ کو ناک کے مخفف کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔مثلاً جس کی ناک کٹی ہوئی ہو اُس کو ’نکٹا‘ کہتے ہیں۔ محاورتاً ناک کٹا دینے والے (بے حیا اور بدنام) شخص کو بھی کنایتاً نکٹا کہہ دیا جاتا ہے۔ نکٹے کی مؤنث نکٹی ہوتی ہے۔ اسی طرح جس شخص کی ناک پر ہر وقت غصہ دھرا رہتا ہو کہ جب دیکھیے اپنی ناک چَڑھائے ہوئے ہے تو ایسے غصور، بدمزاج،مغرور اور بد دماغ آدمی کو ’نَک چَڑھا‘ کہتے ہیں۔ بعضی بعضی عورتیں بھی ’نَک چَڑھی‘ ہوتی ہیں۔ہمارا یہ فقرہ پڑھ کر ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی، چچی چودھرائن کو کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے، بولے کہ ”تمھارے اس جملے میں ’بعضی بعضی‘ فالتو الفاظ ہیں، انھیں نکال دو“۔ بہرحال، کہنا یہ تھا کہ نک سک اور نک سے سکھ تک کا تعلق ناک سے نہیں ہے۔ ہاں نک سے سکھ تک کے درمیان ناک کا علاقہ بھی پڑتا ہے۔
باجی قانتہ رابعہ کاسوال یہ تھا کہ کون سی جوڑی درست ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ دونوں ہی درست ہیں۔ اللہ جوڑی سلامت رکھے۔
٭٭
علم وکتاب https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ایام روزہ کی تحدید
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
روزہ ایک قسم کی دوا ہے اور دوا کو بقدر دوا ہی ہونا چاہیے تھا، اگر پورا سال، اس دوا میں صرف کردیا جاتا تو یہ ایک غیر طبعی علاج ہوتا اور مسلمانوں کی جسمانی جدوجہد کا خاتمہ ہوجاتا اور ان کی شگفتگی مزاج مٹ جاتی، جو عبادات کا اثر قبول کرتی ہے، لیکن اگر ایک دو روز کا تنگ اور محدود زمانہ رکھا جاتا تو یہ اتنی کم مدت تھی کہ اس میں دوا کا فائدہ بھی ظاہر نہ ہوتا۔ اس لیے اسلام نے روزہ کے لیے سال کے ۱۲ مہینوں میں سے صرف ایک مہینہ کا زمانہ اس کے لیے مقرر کیا۔ اس ایک مہینہ کی تخصیص کی بھی ضرورت تھی، تاکہ افرادِ امت، بیک وقت اس فرض کو ادا کرکے اسلام کے انتظامِ وحدت کا مظاہرہ کریں اور اس کے لیے وہی زمانہ موزوں تھا، جس میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا، یعنی رمضان۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم، اس کے بعد جب تک زندہ رہے اور تمام صحابہ نے یہ مہینہ ہمیشہ روزہ میں گزارا اور آج تک کُل امتِ محمدیہ پوری دنیا میں اسی مہینہ کو ماہِ صیام مانتی ہے اور پورے مہینہ بھر حسبِ توفیق روزہ رکھتی ہے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ١٦۴/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: 6 مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمداسحاق 6 مارچ 1964 ء
امام علی نازش، کامریڈ 6 مارچ 1999 ء
انور سید لیفٹیننٹ کمانڈر(سید انور حسین) 6 مارچ 1990 ء
حسین عادل کھتری، جسٹس 6 مارچ 1996 ء
عبداللہ مراد بلوچ 6 مارچ 2004 ء
قیصر بھوپالی (سعید احمد خان) 6 مارچ 2009 ء
محمد احمد عثمانی، پروفیسر 6 مارچ 1964 ء
محمود فاروقی 6 مارچ 1991 ء
مختار حسین نقشبندی جماعتی 6 مارچ 1985 ء
مرزا دبیر 6 مارچ 1875 ء
مولانا شاہد حسن قاسمی 6 مارچ 1998 ء
مولانا عبدالرحمن ندوی نگرامی 6 مارچ 1926 ء
مولانا محمد اعزاز علی امروہوی، شیخ الادب 6 مارچ 1955 ء
مولانا محمد اقبال حسینی نعیمی 6 مارچ 2002 ء
مولانا شاہد حسن قاسمی 6 مارچ 1998 ء
(ماخذ: وفیات اور خاکوں کا اشاریہ (زیر ترتیب) از: عبد المتین منیری)
فرضیتِ صیام کا مناسب موقع ۲ ھ
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
اگر اسلامی عبادات کا قالب، روح سے خالی ہوتا اور ان سے صرف جسم کی ریاضت مقصود ہوتی تو نماز سے پہلے روزہ فرض کیا جاتا۔ روزہ، عرفِ عام میں فاقہ کشی کا نام ہے اور عرب کو ملک کی اقتصادی حالت کی وجہ سے اکثر یہ سعادت نصیب ہوجایا کرتی ہے۔ ظہورِ اسلام کے بعد کفار نے مسلمانوں کو جن پریشانیوں میں مبتلا کردیا تھا، اس نے ان کو عرب کے معمولی طریقۂ کسبِ معاش کی طرف سے بھی غیر مطمئن کردیا تھا، جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم کی حمایت کی تھی، تمام قبائل نے ان سے تمدنی تعلقات منقطع کرلیے تھے، اس حالت میں صرف روزہ ایک ایسا فریضہ تھا، جو عرب کی عام حالت اور مسلمانوں کی موجودہ زندگی کے لیے موزوں ہوسکتا تھا۔ نماز و حج کی طرح اس میں کسی قسم کی مزاحمت کا بھی اندیشہ نہ تھا، وہ ایک خاموش طریقۂ عبادت تھا، جو بلا روک ٹوک جاری رہ سکتا تھا، لیکن اسلام نے عبادات کو امراضِ روحانی کی دوا قرار دیا ہے، جن کا استعمال صرف اس وقت ہوسکتا ہے، جب امراضِ روحانیہ پیدا ہوجاتے ہیں یا ان کے پیدا ہونے کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ قوائے شہوانیہ اور زخارفِ دنیا کی شیفتگی اور لذاتِ جنسیہ کے انہماک و توغل سے جو روحانی مرض پیدا ہوسکتے تھے، مکہ میں یہ تمام ساز و سامان مفقود تھے، بلکہ خود کفار کے جور و ستم نے ان جذبات کا استیصال کردیا تھا، اس لیے وہاں اس روحانی علاج کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو کفار کے مظالم سے نجات ملی، ایثار نفسی نے مسلمانوں کو بوجہ کفاف سے بے نیاز کردیا۔ فتوحات کا سلسلہ بھی شروع ہوا اور اس میں روز بروز وسعت پیدا ہوتی گئی، اب وقت آگیا یا عن قریب آنے والا تھا کہ دنیا اپنی اصلی صورت میں مسلمانوں کے سامنے آکر ان کو اپنا فریفتہ بنائے، اس لیے درحقیقت یہ تداخل کا موسم تھا، جن میں مرض کے پیدا ہونے سے پیشتر، پرہیز کی ضرورت تھی اور وہ پرہیز، "روزہ" تھا، جو ۲ ھ میں فرض ہوا، اس سے یہ شبہ دور ہوجاتا ہے، جو بعض ناواقفوں کو ہوا ہے کہ چونکہ آغازِ اسلام میں مسلمانوں کو اکثر فاقوں سے دوچار ہونا پڑا تھا، اس لیے ان کو روزہ کا خوگر کیا گیا۔ حالانکہ اصولِ اسلام کی رو سے فاقہ مستوں کو روزہ کی جتنی ضرورت ہے، شکم سیروں کے لیے وہ اس سے زیادہ ضروری ہے۔ علامہ ابنِ قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ مرغوباتِ شہوانیہ کا ترک کرنا، نہایت مشکل کام تھا، اس لیے روزہ، وسطِ اسلام میں فرض کیا گیا، جب لوگ، توحید نماز اور احکامِ قرآنی کے خوگر ہوچکے تھے، اس لیے احکام کا یہ اضافہ اسی زمانے کے لیے موزوں تھا۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ١٦٣//٦۴/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
شاہ قادری مولانا سید مصطفی رفاعی ندوی رحمۃ اللہ کے ساتھ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں بیتے ہوئے دنوں کے بارے میں آپ کی موجودگی میں مولانا قاضی محمد فاروق قاضی ندوی سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے مورخہ 12-01-2018ء ریکار کی گئی ایک گفتگو۔
https://www.youtube.com/watch?v=JcBrFL40QM0
سچی باتیں (۳؍اپریل ۱۹۲۵ء)۔۔۔ ماہ رمضان المبارک
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
مسلمان کے لئے سال بھر میں سب سے زیادہ متبرک مہینہ یہی رمضان کا ہے۔ قرآن مجید وحدیث نبویؐ دونوں اس کی بزرگیوں اور فضیلتوں پر گواہ ہیں۔ آپ اپنی جگہ پر سوچئے، کہ خود آپ کہاں تک اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں؟ آپ خود اورآپ کے گھر والے روزہ دار ہیں؟ اور اگر کسی عذر شرعی کی بنا پر مجبورًا ترک روزہ کئے ہوئے ہیں، تو اس کی قضا، یا مسکینوں کے کھلانے پر مستعد ہیں؟ آپ کے محلہ ، اور آپ کی بستی کی مسلمان آبادی میں، روزہ داروں، اور غیر روزہ دارون کی تعداد میں کیا تناسب ہے؟ شبرات ومحرم کے مراسم جس وسیع پیمانہ پر مسلمانوں میں گھر گھر منائے جارہے ہیں، عید وبقرعید کے موقع پر ہر گھر میں جو سامان جشن ہوتاہے ، کیا اسی مناسبت سے ہم اور آپ، رمضان مبارک کے اہتمام واحترام میں مصرو ف رہتے ہیں؟
اس ماہ مبارک کے اہتمام واحترام کے یہ معنی نہیں، کہ دن کا بیشتر حصہ سونے اور بدمزاجی میں، اور شب کا بڑا حصہ معدہ کی خاطر داریوں میں بسر کیا جائے، اور شام کے وقت افطاری کے نام سے ہر قسم کی فضول خرچی اور بد احتیاطی روارکھی جائے۔ روزہ تو اس واسطے ہے، کہ ہم کو سادگی کا سبق دے اور طبیعت کو صبر وتحمل کا خوگر بنائے۔ ہمارے جو بھائی عام طور پر شام کو ایک یا دوچیزیں کھانے کے عادی ہیں، اور رمضان میں محض افطار کے وقت پانچ پانچ سات سات کھانے ضروری سمجھتے ہیں، وہ خود اپنے دل میں ذرا غور کریں کہ وہ روزہ کی غرض کہاں تک پوری کرتے ہیں! روزہ تو خواہشوں کے ضبط کے لئے ہے، وہ اس لئے کہ انہیں کئی گنا بڑھا اور پھیلا دیا جائے۔ الہ آباد میں کئی سال ہوئے ایک ذی علم اور مشہور صوفی بزرگ تھے، وہ اس مہینہ بھر گوشت اور دوسری لذتوں کا استعمال بالکل ترک کردیتے تھے۔ روزہ کی روح وغایت کو وہ ہم لوگوں سے کہیں بہتر سمجھے تھے، جو افطاری کی بے اعتدالیوں جو جزو رمضان بنائے ہوئے ہیں۔
روزہ ، جسم وروح، دونوں کا قدرتی مصلح، اور صحت بدنی وصحتِ اخلاقی دونوں کا ضامن ہے۔ ہم نے اپنی شامت وبدبختی سے، اس کی یہ دونوں خوبیاں زائل وبرباد کردی ہیں، اول تو ایک بڑی آبادی سرے سے روزہ رکھتی ہی نہیں پھر جو روزہ دارہوتے ہیں ، وہ دن میں ہر قسم کی بدمزاجی اور چڑچڑاہٹ کو روزہ کے عذر پر اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں، اور افطار کے وقت سے لے کر سحری تک کھانے پینے کی ہر بے اعتدالی روا رکھتے ہیں۔ اس کا نام روزہ نہیں۔ روزہ دار کی شان تو یہ ہونی چاہئے کہ غیبت، حسد، غصہ، طمع، ہر قسم کی اخلاقی گندگی سے اپنے تئیں پاک رکھے، غصہ اور اشتعال کے موقع پر بھی ضبط وصبر سے کام لے، اور بدگوئی وسخت کلامی کے مقابلہ میں نرمی وفروتنی اختیار کرے۔ یہ روزہ روح کا ہوا۔ جسم کا روزہ یہ ہے ، کہ افطار کے وقت اور افطار کے بعد غذا میں افراط واسراف سے بچے۔ ماہ رمضان میں ہم سے بہتوں کی صحتیں بجائے درست ہونے کے خراب ہوجاتی ہیں، اور اکثروں کو جو معدہ کی شکایات پیدا ہوجاتی ہیں، وہ سب انھیں بد پرہیزیوں اور بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہیں۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
روزہ کا مفہوم
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
روزہ، اسلام کی عبادت کا تیسرا رُکن ہے، عربی میں اس کو "صوم" کہتے ہیں، جس کے لفظی معنیٰ رُکنے اور چُپ رہنے کے ہیں۔ بعض مفسرین کی تفسیروں کے مطابق قرآن پاک میں اس کو کہیں کہیں "صبر" بھی کہا گیا ہے، جس کے معنیٰ "ضبطِ نفس" ثابت قدمی اور استقلال کے ہیں، ان معنوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی زبان میں روزہ کا کیا مفہوم ہے؟ وہ درحقیقت نفسانی ہواؤ ہوس اور بہیمی خواہشوں سے اپنے آپ کو روکنے اور حرص و ہوا کے ڈگمگا دینے والے موقعوں میں اپنے آپ کو ضابط اور ثابت قدم رکھنے کا نام ہے۔ روزانہ استعمال میں عام طور سے نفسانی خواہشوں اور انسانی حرص و ہوا کا مظہر تین چیزیں ہیں، یعنی کھانا اور پینا اور عورت اور مرد کے جنسی تعلقات، انہی سے ایک مدت متعین تک رُکے رہنے کا نام، شرعاً روزہ ہے، لیکن دراصل ان ظاہری خواہشوں کے ساتھ باطنی خواہشوں اور برائیوں سے دل اور زبان کا محفوظ رکھنا بھی خواص کے نزدیک روزہ کی حقیقت میں داخل ہے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/جلد: پنجم/صفحہ: ۱۵۷/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا شاہ قادری سید مصطفی جیلانی رفاعی ندویؒ،سیاہ پوشاک میں ایک اجلے دل ،روشن دماغ خادم قوم وملت (قسط ۔۰۱) *
*تحریر: عبد المتین منیری(بھٹکل)
’آرسی مصحف‘ہندوستان کی مسلمان خواتین میں در آنے والی ایک دلچسپ رسم تھی۔اس رسم کی جزئیات و تفصیلات بہت ہیں۔ مختصریہ کہ نکاح ہو جانے کے بعد دولھا کو زنان خانے میں بلایا جاتا۔ وہاں دولھا دولھن کو آمنے سامنے سرسےسر جوڑکر بٹھایا جاتا۔ دونوں کے درمیان ایک تکیے پر ’مصحف‘ (یعنی قرآنِ مجید) رکھ دیا جاتا۔اب دولھا سے کہا جاتا کہ میاں!مصحف میں سے سورۂ اخلاص نکالو اور پڑھ کر دولھن کے منہ پر دم کرو (آج کل کے دولھوں کی بات نہیں ہو رہی۔ اُس زمانے کے دولھا سورۂ اخلاص درست پڑھ سکتے تھے) اس کے بعد مصحف کے ساتھ آئینہ بھی رکھ دیا جاتا، تاکہ دولھا ’مُصحفِ رُوئے یار‘ بھی دیکھ لے۔دولھا دولھن کے سروں پر سُرخ رنگ کا زرق برق دوپٹہ تان دیا جاتا تھا۔ دولھا کی بہنیں دولھا پر اپنی اپنی اوڑھنیوں کاآنچل ڈال کر کر گویا اُسے اپنے حفاظتی حصار میں لے لیتی تھیں۔ آئینہ اس لیے بیچوں بیچ تھا کہ دولھن شرم و حیا کی وجہ سے بھرے مجمعے میں دولھا کو براہِ راست نظر بھر کر نہیں دیکھ سکتی۔ اس پر بھی، یعنی دوپٹوں کے خیمے میں بھی، لاج سےسمٹی سمٹی جاتی تھی۔ حیا کے بوجھ سے پلکیں جھکی رہتیں۔ بڑی بوڑھیوں کے اصرار پر بھی دولھن آنکھیں نہ کھولتی۔ سالیوں کی طرف سے ہنسی مذاق ہوتا رہتا۔ دولھا سے کہا جاتا کہ کہو: ”بی بی میں تمھارا غلام، آنکھیں کھولو“۔ دولھن ذرا کی ذرا آنکھیں ٹمٹما بھی دیتی توشور مچ جاتا کہ”آنکھیں کھول دیں“۔ ورنہ دولھا خود ہی اس مشقت ومصیبت سے تنگ آکر جھوٹ موٹ کہہ دیتا کہ ”آنکھیں کھول دیں“۔آنکھیں کھل جانے پر دولھن کو دودھ پلایا جاتا اور اُس کاجھوٹا دودھ دولھا کو پینے کے لیے دیاجاتا کہ محبت بڑھے گی۔
گئے زمانوں کی شرمیلی رسمِ آرسی مصحف کا موجودہ ’مخلوط تخت عروسی‘ سے موازنہ کرنے بیٹھیے تو اقبالؔ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
بہ شکریہ: فرائیڈے اسپیشل
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: 28 / فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسان جعفری 28 فروری 2002 ء
حسن علی جی رمل 28 فروری 1999 ء
ڈاکٹر احمد لاری 28 فروری 2011 ء
ڈاکٹر راجند پرشاد 28 فروری 1963 ء
ریاض الدین سہروردی 28 فروری 2001 ء
شمس الحسن ، نواب سید 28 فروری 1984 ء
صمد بنگلوری (سید عبدالصمد علیگ) 28 فروری 1968 ء
کملا نہرو 28 فروری 1936 ء
محمد عمارہ(مصری مصنف) 28 فروری 2020 ء
مولانا محمد صالح بندھولی 28 فروری 1923 ء
نسیم امروہوی(سید قائم رضا) 28 فروری 1987 ء
ولایت علی شاہ (حافظ نور احمد انصاری) 28 فروری 1957 ء
یوسف صدیقی 28 فروری 1985 ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: 27/ فروري
دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں، مگر انہیں کو فائدہ پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں، بے ہمتوں کے لیے تو وہ ترک عمل کا حیلہ بن جاتی ہیں ۔
مولانا ابوالکلام آزاد
غبار خاطر (ص 149)
مولانا عبدالحئی سہارنپوری (وفات 26 فروری 1930ء) تحریر: علامہ سید سلیمان ندویؒ
ہندوستان میں عربی علم و ادب و لغت و محاورات کے جو چند مخصوص ماہرین ہیں۔ ان میں ایک مولانا عبدالحئی صاحب سہارنپوری استاد جامعہ عثمانیہ بھی تھے، افسوس کہ انہوں نے ۲۷؍ رمضان ۱۳۴۸ھ کو بمقام حیدرآباد دکن، مرض طاعون میں مبتلا ہوکر وفات پائی، مرحوم کے دادا شیخ الحدیث مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری تھے، جو اپنے زمانے میں علم حدیث کے مرجع کل تھے، ان کے صاحبزادہ اور مرحوم مولانا عبدالحئی صاحب کے والد مولانا عبدالرحمان صاحب ادب عربی کے نامور عالم اور عربی کے شاعر تھے، انہوں نے اندلس کی تباہی کے مشہور مرثیہ کی بحروقافیہ میں مولانا حالی مرحوم کے اشارہ سے ہندوستان کی تباہی کا بہت پردرد مرثیہ لکھا تھا، مولانا عبدالحئی مرحوم کی عمر پینتالیس اور پچاس کے درمیان تھی، عربی کے شاعر اور عربی ادب و امثال اور محاورات کے بڑے عالم تھے اور سرکار نظام کی اعانت سے وہ عربی محاورات کا ایک ضخیم لغت فراہم کررہے تھے، افسوس کہ یہ عظیم الشان کارنامہ بھی ان کی موت سے ناتمام رہا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
میری ان کی ملاقات دارالعلوم ندوہ میں ۱۹۰۶ء میں ہوئی تھی، جہاں آکر وہ بعض فنون کی تکمیل اور جھوائی ٹولہ میں طب کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہ دارالعلوم کا عجیب زمانہ تھا، مولانا شبلی مرحوم زندہ تھے، مولانا حمیدالدین صاحب اور مولانا ابوالکلام صاحب کئی کئی مہینے آکر مولانا مرحوم کے پاس رہتے تھے اور ہر وقت علمی چہل پہل اور علم و ادب کی گفتگو رہتی تھی، اس صحبت میں مرحوم بھی شریک رہتے تھے۔
ان کے والد حیدرآباد میں مطب کرتے تھے، اس تعلق سے حیدرآباد جاکر رہے اور جامعہ عثمانیہ میں استاد مقرر ہوئے، ساتھ ہی ولی عہد بہادر نواب معظم جاہ بہادر (ہزبائنس پرنس آف برار) کی استادی و اتالیقی کے منصب پر بھی سرفراز ہوئے، آخر میں ان کی روحانی بے تابی نے حضرت مولانا تھانویؒ کی طرف متوجہ کیا، مرید ہوئے اور اجازت پائی، مولانا کی دعوت پر ایک دفعہ حیدرآباد بھی تشریف لے گئے، آخر میں قرآن پاک بھی حفظ کرلیا تھا، رمضان کے دن تھے، رات کو تراویح پڑھاتے تھے، اسی حال میں بیمار ہوئے اور صبر و شکر کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ (’’س‘‘،مارچ ۱۹۳۰ء)
تصحیح: پچھلے شذرات میں مولانا عبدالحئی سہارنپوری مرحوم کے تذکرہ میں ان کے والد ماجد کا نام غلطی سے حبیب الرحمان لکھ گیا تھا، صحیح نام عبدالرحمان تھا، اس سلسلہ میں نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی اپنے والا نامہ مورخہ، ۶؍ ذیقعدہ ۱۳۴۸ھ میں ارقام فرما رہے ہیں:
’’مولوی عبدالحئی صاحب مرحوم بڑے مخلص دوست، ہمددر و بہی خواہ اسلام بزرگ تھے، انجمن اسلامیہ کے مقاصد کی تائید میں متواتر دورے ایامِ فرصت میں فرماتے تھے، شگفتہ طبع بدلہ سنج تھے۔ وفات سے دو سال پہلے کلام مجید بڑے اہتمام سے حفظ کیا، پارسال بڑے اہتمام سے محراب میں سنایا امسال بھی ۲۰؍ رمضان مبارک کی شب کو تراویح میں کلام پاک سنانے کی حالت میں مبتلائے طاعون ہوئے، ۲۷؍ ماہ مبارک یوم جمعہ کو وفات پائی، جناب کو بالخصوص بہت تاسف ہے۔‘‘
(’’س‘‘،اپریل ۱۹۳۰ء)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ایک ضروری وضاحت
اس سلسلہ میں یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، ہمارے اس زمانے میں دینی مدارس اور دارالعلوموں کی شکل میں علم دین کی تحصیل و تعلیم کا جو نظام قائم ہے، اس کی وجہ سے جب ہمارے دینی حلقوں میں "طالب علم" کا لفظ بولا جاتا ہے تو ذہن ان دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے "طالب علموں" ہی کی طرف جاتا ہے، اسی طرح عالم دین یا معلم دین کا لفظ سن کر ذہنی، اصطلاحی و عرفی علماء اور دینی مدارس میں تعلیم دینے والے اساتذہ ہی کی طرف منتقل ہوتا ہے اور پھر اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا حدیثوں میں اور اسی طرح اس باب کی دوسری حدیثوں میں علم دین کی طلب و تعلیم، یا طالبان علم دین اور معلمین دین کے جو فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں اور ان پر اللہ تعالی کی طرف سے ہونے والے جن غیرمعمولی انعامات کی بشارتیں دی گئی ہیں، ان سب کا مقصد ان مدارس ہی کے تعلیمی سلسلہ کو اور ان کے طلبہ اور معلمین ہی کو سمجھ لیا جاتا ہے؛ حالانکہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، عہد نبویؐ میں اور اس کے بعد صحابہ کرامؓ بلکہ تابعین کے دور میں بھی اس طرح کا کوئی تعلیمی اور تدریسی سلسلہ نہیں تھا، نہ مدارس اور دار العلوم تھے، نہ کتابیں پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ اور اساتذہ کا کوئی طبقہ تھا، بلکہ سرے سے کتابوں ہی کا وجود نہیں تھا، بس صحبت و سماع ہی تعلیم و تعلم کا ذریعہ تھا، صحابہ کرام نے (ان کے درجہ اول کے علماء و فقہاء، مثلا خلفائے راشدین، معاذ بن جبل، عبد اللہ بن مسعود، ابی بن کعب، زید بن ثابت وغیر ہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی) جو کچھ حاصل کیا صرف صحبت و سماع ہی کے ذریعہ حاصل کیا تھا اور بلا شبہ وہ حضرات ان حدیثوں اور بشارتوں کے اولین مصداق تھے۔ راقم سطور عرض کرتا ہے کہ آج بھی جو بندگان خدا کسی غیر رسمی طریقے سے مثلاً صحبت و سماع ہی کے ذریعہ اخلاص کے ساتھ دین سیکھنے اور سکھانے کا اہتمام کریں وہ بھی یقینا ان حدیثوں کے مصداق ہیں اور بلا شبہ ان کے لئے بھی یہ سب بشار تیں ہیں، بلکہ ان کو اصطلاحی و عرفی طلبہ اور معلمین پر ایک فضیلت و فوقیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ ہمارے موجودہ مدارس اور دارالعلوموں میں پڑھنے اور پڑھانے والے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے اس طلب و تعلیم کے کچھ دنیوی منافع بھی ہو سکتے ہیں (اور بس اللہ ہی جانتا ہے کہ اس لحاظ سے ہماری برادری کا کیا حال ہے) لیکن جو بےچارے اصلاح و ارشاد کی مجالس میں یا کسی دینی حلقہ میں اپنی دینی اصلاح اور دین سیکھنے کی نیت سے شریک ہوتے ہیں، یا دین سیکھنے سکھانے والے کسی جماعت کے ساتھ اس مقصد سے کچھ وقت گزارتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ اس سے کسی دنیوی منفعت کی توقع نہیں کر سکتے، اس لئے ان کی غیر رسمی "طالب علمی" یا "معلمی" بالکل بےغل و غش صرف اللہ ہی کے لیے اور آخرت ہی کے واسطے ہوتی ہے، اللہ کے ہاں اس عمل کی قدر و قیمت ہوتی ہے، جو خالصاً لوجہ اللہ ہو۔ اس عاجز نے اس زمانے میں بھی اللہ کے ایسے بندے دیکھے ہیں۔۔۔ ان میں متعدد ایسے بھی پائے جن سے ہم جیسے لوگ (جن کو دنیا عالم فاضل سمجھتی ہے) حقیقت دین کا سبق لے سکتے ہیں۔ یہ وضاحت یہاں اس لئے ضروری سمجھی کہ ہمارے اس زمانے میں "عالم "، "معلم" اور "طالب علم" کے مصداق کے بارے میں مذکورہ بالا غلط فہمی بہت عام ہے، اگر چہ غیر شعوری طور پر ہے۔
(مولانا محمد منظور نعمانیؒ، معارف الحدیث، جلد ۸، ص ۳۷)
انتخاب و پیشکش: انس بدام، گودھرا، گجرات
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ کون سی جوڑی نک سک سے درست ہے؟*
*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*
گزشتہ سے پیوستہ کالم بھر میں ہم جی بھر کے جھک مارا کیے مگر سید شہاب الدین صاحب کے اس سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے پائے کہ ”آخر ’جھک‘ ہے کیا چیز جسے مارا جاتا ہے؟“ اللہ بھلا کرے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب کا، جنھوں نے رابغ (سعودی عرب) ہی میں بیٹھے بیٹھے اُن لوگوں کا سراغ فراہم کر دیا جو سچ مُچ میں جھک مارتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
”سنسکرت میں ’جھکھ‘ مچھلی کے معنی میں ہے۔اسی ’جھکھ‘ سے جھک ہے۔ کانٹا لگا کر مچھلی پکڑنے والے کسی شخص کو آپ نے دیکھا ہو تو معلوم ہو کہ یہ کیسا نشہ ہوتا ہے۔ صبح تڑکے نکل جاتے ہیں۔کانٹا لگا کر بیٹھے رہتے ہیں۔گھنٹوں مچھلی نہیں پھنستی۔کہنے کو ’جھک‘ مار رہے ہوتے ہیں، لیکن ’جھک‘ دام میں نہیں آتی“۔
لندن(برطانیہ)سے جناب رضوان احمد فلاحی نے ’ہرکارے‘ کا کام کرتے ہوئے ایک ’کار آزمودہ‘ اُستاد کا پیام ہم تک پہنچایا ہے۔ یہ پیام ہے جناب محمد طارق کا، جو ممبئی (نالاسوپارہ) میں معلم ہیں اور آپ کا آبائی وطن رائے بریلی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
”بزرگوں سے سُنا ہے کہ جَھک ایک چھوٹی مچھلی ہوتی ہے۔ اس کے شکار میں کافی[مرادبہت] وقت لگتا ہے اور شکار کا حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا۔لہٰذا لاحاصل کام کرنے کے لیے ’جھک مارنا‘ استعمال ہونے لگا۔ احمد حاطب صدیقی تک یہ اطلاع پہنچا دی جائے“۔
جی اطلاع پہنچ گئی،بہت بہت شکریہ۔برادر گرامی سید شہاب الدین صاحب بھی مطلع ہو جائیں کہ ’جَھک‘ ایک چھوٹی مچھلی ہے جسے مارا جاتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے بچپن میں ایسے کئی شکاریوں کو ملیر ندی کے کنارے صبح سے شام تک بیٹھے جھک مارتے دیکھا ہے۔
یہ تو تھی گزشتہ سے پیوستہ کالم کی بات۔ گزشتہ کالم (”آرسی کیا ہے اور مصحف کیا؟“) کے حوالے سے محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب حفظہ اللہ نے رہنمائی فرمائی ہے:
”آپ نے لکھا ہے:”مصحف صحیفوں کے مجموعے کو کہتے ہیں“ المنجد میں میم کے زبر،زیر،پیش کے ساتھ مُصحف کے معنی ہیں: ”کتاب، مجلَّد کتاب، قرآنِ مجید“الغرض لفظ مُصحف مفرد ہے اور اس کی جمع ”مَصاحِف“ ہے۔ البتہ آپ نے صحیفہ کی جمع ”صُحف اور صحائف“ درست لکھی ہے، اسی سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لغتِ قریش پر جمع کردہ نسخۂ قرآنی کو ”مُصحفِ عثمانی“ کہا جاتا ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن۔یکم مارچ۵ ۲۰۲ء“
پچھلے کالم میں ہم نے مصحف کے حوالے سے اسرارؔ ناروی (ابن صفی)مرحوم کا ایک شعر نقل کیا تھا۔ہمارے ملک کی ایک مشہور علمی شخصیت نے (اپنے نام کی اشاعت کی ممانعت کرتے ہوئے)اس سلسلے میں ایک اور شعر کا حوالہ دیاہے۔ لکھتے ہیں:
”اسرارؔ ناروی المعروف ’ابنِ صفی‘نے اپنے محبوب کومخاطَب کر کے یہ شعر بھی کہا ہے:
مصحفِ رُخ، کلامِ پاک سہی
ہم بھی بیٹھے ہیں باوضو، آؤ
یعنی شاعر رخِ یار کو مُصحَف سے تشبیہ دیتا ہے اور ”لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ“ کی طرف اشارہ کر کے بوس وکنار کی دعوت دیتے ہوئے کہہ رہا ہے:’ہم بھی بیٹھے ہیں باوضو، آؤ‘۔والسلام۔“(وعلیکم السلام)
شاعری میں ’مصحف‘ استعارہ ہے چشم ولب و رُخسار کے مجموعے کا۔یہ مجموعہ شکل و صورت کا حصہ ہے۔ شکل و صورت کے حوالے سے محترمہ قانتہ رابعہ، گوجرہ (ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) صوبہ پنجاب، کاسوال موصول ہوا ہے:
”نک سک سے درست ہے یا نک سے سکھ تک؟ میں نے حکیم سعید صاحب کی ایک تحریر پڑھی ہے جو ”رمضان اور عیدِ محبت“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اپنے اس مضمون میں حکیم صاحب نے لکھا ہے:
’’رمضان کا مہینہ آتا تو برکات نازل ہو جاتیں۔ہماری والدہ محترمہ رمضان آنے سے پہلے گھر میں سفیدی کراتیں۔ صفائیاں نِک سے سِکھ تک ہوتیں ……“
معلوم یہ کرنا ہے کہ کون سی جوڑی درست ہے؟نک سک یا نک سکھ؟“
ہماری باجی قانتہ رابعہ کو نک سک سے درست ہونے کا خیال خاصی دیر سے آیا۔خیر، دیر آید درست آید۔حکیم محمد سعید صاحب ’دہلوی‘ تھے۔ دہلی والوں کی زبان درست ہوتی ہے۔ مگر نک سک سے درست اُنھیں بھی ہونا پڑتا ہے۔اُردو میں جو محاورہ رائج ہے وہ ”نِک سِک سے درست ہونا“ ہے۔لیکن غلط حکیم صاحب کا محاورہ بھی نہیں۔ تاہم صحیح غلط جاننے کے لیے لغات میں غلطاں ہونا پڑے گا۔
*مانگے کا اجالا*
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اب تو چہروں کے خد و خال بھی پہلے سے نہیں
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے
دے رہے ہیں تمہیں تو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو
دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاؤ گے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے
ہم سفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے
تم ہو اک زندۂ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے
صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے
سید اقبال عظیم
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات : مورخہ 07/ مارچ
بیگم دولت خانم ہدایت اللہ 7 مارچ 2004 ء
بیگم طاہر آغا اعجاز حسین 7 مارچ 2000 ء
جسٹس سید سجاد علی شاہ 7 مارچ 2017 ء
ڈاکٹر ظفر الہدیٰ 7 مارچ 1978 ء
ڈاکٹر محمد صدر الحق 7 مارچ 1984 ء
رفیق تارڑ 7 مارچ 2022 ء
شکیل احمد ضیاء 7 مارچ 1999 ء
شمیم رائے پوری ، مظفر حسین 7 مارچ 1970 ء
شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الرحمن بیصار 7 مارچ 1982 ء
عیش ٹونکی(احمد میاں) 7 مارچ 1985 ء
قیصر سلیم 7 مارچ 2013 ء
محمد احمد دہمان 7 مارچ 1988 ء
مولانا باقر آگاہ ویلوری 7 مارچ 1806 ء
(ماخذ: وفیات اور خاکوں کا اشاریہ۔( زیر ترتیب) ۔ از: عبد المتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات: مورخہ 6 مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابراہیم جورج خیر اللہ (بہائی) 6 فروری 1929 ء
پنڈٹ لیکھرام 6 فروری 1897 ء
ڈاکٹر عبدالقادر جیلانی 6 فروری 1992 ء
ڈاکٹرسید حبیب الحق ندوی 6 فروری 1998 ء
عزیز چھالا داڑی ، محمد عزیز الرحمن قریشی 6 فروری 1974 ء
علی محمد مجروح 6 فروری 1997 ء
لتا منگیشکر 6 فروری 2022 ء
محمد احمد عثمانی ، پروفیسر 6 فروری 1964 ء
محمد عبد الکریم خطابی 6 فروری 1993 ء
محمد وسیم، بیرسٹر 6 فروری 1950 ء
مرزا سلامت علی دبیر 6 فروری 1875 ء
موتی لال نہرو 6 فروری 1931 ء
مولانا سید محمد اسعد مدنی 6 فروری 2006 ء
مولانا علم الدین قادری 6 فروری 1986 ء
مولانا فیض الحسن سہارنپوری 6 فروری 1887 ء
مولانا محمد صادق خلیل 6 فروری 2004 ء
ناظم القدسی (سوریا) 6 فروری 1998 ء
(ماخذ: وفیات اور خاکوں کا اشاریہ۔( زیر ترتیب) ۔ از: عبد المتین منیری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: 5 مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امینہ سلمی (نومسلم) 5 مارچ 2010 ء
جوزف اسٹالن 5 مارچ 1953 ء
حسن الترابی (سوڈان) 5 مارچ 2016 ء
عبد الحق خیر آبادی 5 مارچ 1899 ء
عبد الغنی النابلسی 5 مارچ 1731 ء
غلام علی الانا (جی الانا) 5 مارچ 1984 ء
فخر ماتری 5 مارچ 1966 ء
محمد مصدق (ایران) 5 مارچ 1967 ء
مسعود اختر (اداکار) 5 مارچ 2022 ء
مولانا محمد احمد مدنی 5 مارچ 2011 ء
پیشکش علم وکتاب
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
روزہ کی حقیقت
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرہ: ۱۸۳) "مسلمانو! تم پر روزہ لکھا گیا، جس طرح تم سے پہلی اُمتوں پر لکھا گیا، تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔"
روزہ کی غرض و غایت تقویٰ ہے، یعنی اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھنا اور جذبات کے تلاطم سے اپنے کو بچا لینا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ روزہ ہمارے لیے ایک قسم کے روحانی علاج کے طور پر فرض ہوا، لیکن آگے چل کر قرآن پاک اسلامی روزہ کی دو اور حقیقتوں کو بھی واضح کرتا ہے: لِتُكَـبِّـرُوا اللّـٰهَ عَلٰى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُـرُوْنَ (البقرہ: ۱۸۵) "تاکہ خدا نے جو تم کو راہ دکھائی اس پر تم اس کی بڑائی کرو اور شکر ادا کرو۔"
اس مفہوم کی توضیح کے لیے ہم کو رمضان مبارک کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
رمضان المبارک کی حقیقت
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّـذِىٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ (البقرہ: ۱۸۵) رمضان کا وہ مہینہ جس میں قرآن اترا۔ اِنَّـآ اَنْزَلْنَاهُ فِىْ لَيْلَـةٍ مُّبَارَكَةٍ (دخان: ۳) ہم نے قرآن کو ایک برکت والی رات میں اتارا۔ اِنَّـآ اَنْزَلْنَاهُ فِىْ لَيْلَـةِ الْقَدْرِ (القدر: ۱) ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں اتارا۔
ان آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان وہ مقدس مہینہ ہے، جس میں قرآن، سب سے پہلی بار، دنیا میں نازل ہوا اور پیغمبر صلی اللّٰه علیہ وسلم کو عالم کی راہنمائی اور انسانوں کی دست گیری کے لیے دستور نامہ الہٰی کا سب سے پہلا صفحہ عنایت کیا گیا۔ قرآن کا حامل اور اس وحی الہٰی کا مہبط ان دنوں، ایک غار کے کونے میں یکہ، تنہا، بھوکا اور پیاسا سر بہ زانو تھا، اس بنا پر اس ماہ مقدس میں بھوکا اور پیاسا رہنا (روزہ) کسی عبادت گاہ میں یکہ و تنہا رہنا (اعتکاف) نزولِ وحی کی رات (ليلۃ القدر) بیدار و سر بسجود رہنا، تمام پیروانِ محمدی کے لیے ضروری تھا کہ: قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّـٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ (آل عمران: ۳۱) اگر تم خدا کو پیار کرتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا تمہیں پیار کرے گا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ روزہ، اعتکاف اور لیلۃ القدر کی حقیقت، اسلام میں کیا ہے؟ اور رمضان مبارک میں روزوں کی تخصیص، اسلام میں کس بنا پر ہے؟ اس لیے اس ماہ اقدس میں بقدر امکان، انہی حالات و جذبات میں متکیف ہونا چاہیے، جس میں وہ حاملِ قرآن متکیف تھا، تاکہ وہ دنیا کی ہدایت یابی اور رہنمائی کی یادگار تاریخ ہو، یہ جذبات و حالات، جن کو قرآن کے مبلغ کی پیروی میں ہم اپنے اوپر طاری کرتے ہیں، یہی اس ہدایت کے ملنے پر ہماری شکر گزاری اور خدا کی بڑائی ہے۔
سیرت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم/ جلد: پنجم/صفحہ: ١٦١/٦٢/٦٣/تلخیص و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: 3/ مارچ
-------------------------
اورنگ زیب عالمگیر 3 مارچ 1707 ء
ایرج افشار 3 مارچ 2011 ء
ایوب احمد کرمانی 3 مارچ 1957 ء
بدیع الزماں سعید نورسی (ترکی) 3 مارچ 1960 ء
جسٹس انوار الحق 3 مارچ 1995 ء
حسن شاہد سہروردی 3 مارچ 1964 ء
ڈاکٹر رضیہ لطیف انصاری 3 مارچ 1990 ء
رگھوپتی سہائے فراق 3 مارچ 1982 ء
سرشاہ سلیمان 3 مارچ 1941 ء
عبدالطیف، حاجی 3 مارچ 1987 ء
عبداللہ اسمٰعیل ابراہیم چندریگر 3 مارچ 1972 ء
عبدالواحد معینی، سید (ایس اے واحد) 3 مارچ 1980 ء
فراق گورکھپوری 3 مارچ 1982 ء
لطف اللہ خان 3 مارچ 2012 ء
محمد فاضل عثمانی 3 مارچ 1990 ء
محمد ہارون 3 مارچ 1965 ء
مولانا امانت اللہ معروفی اعظمی 3 مارچ 1996 ء
میاں بشیر احمد 3 مارچ 1971 ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
۔ مولانا رفاعی صاحب نے سجادہ نشینی سے متعلق اپنے تمام اختیارات اور مزارات اور معتقدین سے ملنے والی مادی ومالی منفعتیں اپنے بھائی کو چھوڑ دی تھیں،انہوں نے سجادہ نشینی کو صرف اصلاح معاشرہ کے مقصد کے علاوہ کسی اور مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا، یہاں تک کہ جب آپ کی ۱۹۷۲ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فراغت ہوئی تو آپ کے ابتدائی دن بڑی عسرت میں گذرے،اس وقت ذریعہ معاش کے لئے آپ نے سائیکل پنچر کی دکان کھولی تھی، پھر گھروں میں دودھ کی سپلائی شروع کی، اور سپاری پھاکنے کی مشین بھی لگائی ۔لیکن بغیر محنت کی حلال روزی کے علاوہ ایک دھیلا پائی اپنے یا بچوں کے پیٹ میں جانے نہیں دیا۔
۔ مولانا کی غذا صرف سفید ابلا ہوا چاول اور دال تھی، انہیں دن میں صرف ایک بار کھانے کی عادت تھی، لوگ دعوت دیتے تو اسے قبول کرتے، اس شرط کے ساتھ کہ چاول اور دال کا اہتمام رہے گا،میزبان کے تیار کردہ انواع و اقسام مرغن کھانے مہمان خاص کے بجائے دوسرے شریک دسترخوان افراد کے لئے ہوتے۔ مولانا مولانا کا ہاتھ چاول اور دال سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔
۔ سلسلہ رفاعیہ کی سجادہ نشینی کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے دور کے عظیم بزرگان دین حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ سے چاروں رائج الوقت سلسلوں میں اجازت حاصل تھی، آپ سے عقیدت رکھنے والے دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں میں پائے جاتے تھے، لیکن آپ نے ابھی تین سال ہی سے اپنے مریدین کو خلافت سے نوازنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس سلسلے میں چنئی میں خلفاء کا ایک اجتماع منعقد ہوا تھا، جس میں آپ کے تمام (۲۵۰) موجود تھے، ان خلفاء کا باقاعدہ رجسٹر میں اندراج کیا گیا تھا۔
۔ جب تک اعضاء وجوارح کام کرتے رہے، ایسا لگتا تھا کہ پاؤں میں چکر لگے ہوئے ہیں، باوجود اس کے آپ کا زاد سفر صرف جسم پر ایک کالی قمیص، تہبند، چادر اور ایک کالے تھیلے میں اس کا ایک جوڑے سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی بیگ یا صندوقچہ رکھنے کے روادار نہیں تھے، اسی حالت میں آپ کویت، دبی، اور دنیا بھر کے اسفار کیا کرتے تھے۔سفر میں صعوبتیں برداشت کرنے کے بھی خوب عادی تھے، بتاتے تھے کہ چند عرصہ پہلے وادی کشمیر میں اپنے مریدوں میں دعوت وارشاد کے لئے گئے تھے کہ حکومت نے دفعہ (۳۷۰) ہٹا کر پوری ریاست کی سرحدوں کو اس طرح بند کردیا کہ کوئی پرندہ ادھر ادھر آجا نہ سکے، اس دوران پہاڑوں وادیوں اور دریاؤں کو پا پیادہ پھلانگتے ہوئے آپ باہر نکلے تھے۔
۔ گزشتہ انتخابات کے موقعہ پر کرناٹک میں فسطائی قوت کو جو شکست ہوئی، اس میں خاموشی سے بغیر شور شرابے اور اشتہار بازی کے مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم سے بچانے کی کوشش میں جو کامیابی نصیب ہوئی تھی اس میں، مولانا کی شہرت کی خواہش سے بلند مخلصانہ جدو جہد کا بھی بڑا دخل تھا، ایسی شخصیات ملک کے طول وعرض میں پائی جائیں تو ملک کا نصیب بدل جائے۔
ولادت وخاندانی پس منظر
مولانا سید مصطفی رفاعیؒ کی پیدائش مورخہ ۱۲ اگست ۱۹۴۷ بنگلور کے قریب ڈوڈا بالاپور قصبے میں ہوئی تھی.
آپ کے والد ماجد شاہ سید غوث اللہ رفاعی مرحوم کا سلسلہ نسب شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمۃ سے جا ملتا ہے، تیرھویں پشت پر آپ کے جد اعلی سلسلہ رفاعیہ میں بیعت ہوئے تھے، اور بصرہ سے سورت تشریف لائے تھے، آپ کے جد امجد سید ظہور الدین شاہ قادری کا مزار کرناٹک کے قصبہ چند پٹن میں واقع ہے، جہاں سے سلسلہ رفاعیہ بڑے پیمانے پر برصغیر میں پھیلا ہے، مولانا کا خیال تھا کہ تصوف کے سلسلوں میں رفاعیہ کو ماننے والے برصغیر میں سب سے زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں،مولانا کا یہ خیال درست بھی ہوسکتا ہے، ویسے مولانا قادری النسب تھے۔
آپ کے والد ماجد نے سلسہ رفاعیہ کے آداب رسوم ورواج کے مطابق مجاہدات و تربیت کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ، انہوں نے کسر نفسی کی مشق کے طور پر مریدوں کے ساتھ اپنے شہزادے کو بھی ہاتھ میں کٹورا تھما کر در در بھیک مانگنے بھیجا تھا، مولانا کہتے تھے کہ بھیک کے ملے پیسے فقیر محتاجوں میں بانٹ دئے جاتے تھے، ان میں سے رتی بھر ان کے ذاتی استعمال میں نہیں آتے تھے۔ (جاری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: 02 / مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق غزنوی 2 مارچ 1974 ء
سروجنی نائیڈو 2 مارچ 1949 ء
سلطان احمد 2 مارچ 2010 ء
سید امیر امام 2 مارچ 2011 ء
شبنم شکیل 2 مارچ 2013 ء
فدا خالدی دہلوی (عبدالحمید ) 2 مارچ 2001 ء
فرخ مرزا 2 مارچ 1990 ء
محمد رضی دہلوی 2 مارچ 1996 ء
مولانا سید اسلام الحئی سیفی ندوی 2 مارچ 1990 ء
مولانا صفی اللہ خان جلال آبادی 2 مارچ 2012 ء
مولانا فہیم الدین میرٹھی 2 مارچ 1969 ء
میر یوسف علی خان سالار جنگ سوم 2 مارچ 1949 ء
ناصر کاظمی 2 مارچ 1972 ء
نسیم حجازی 2 مارچ 1996 ء
ہمایوں اختر عادل 2 مارچ 1988 ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
غلطی ہائے مضامیں۔۔۔ آرسی کیا ہے اور مصحف کیا؟
تحریر: احمد حاطب صدیقی (ابونثر)
برادرِ مکرم، سید مکرم علی (مقیم بحریہ ٹاؤن، راولپنڈی) پوچھتے ہیں کہ
”قبلہ! آرسی مصحف میں آرسی تو آئینے کو کہتے ہیں، مگریہاں مصحف کا کیا مفہوم ہے؟اس کا تعلق مصافحہ سے ہے یا صحافت سے؟“
معلوم ہوتا ہے، بھائی مکرم علی، کہ آپ کو اب تک ’آرسی مصحف‘ کا تجربہ نہیں ہوا۔ ایساہے توفی الفورتجربہ کرلیجے۔ حصولِ علم کے لیے عملی قدم اُٹھائیے اور شریعت کی اجازت سے استفادہ فرمائیے۔مگر’آرسی مصحف‘ کی مہم شروع کرنے سے پہلے خسروؔ کی یہ پہیلی پڑھ لیجے:
فارسی بولی آئی نا
ترکی ڈھونڈی پائی نا
ہندی بولوں آر سی آئے
خسروؔ کہے کوئی نہ بتائے
شروع کے تین مصرعوں میں خسروؔ نے کمال کر دیا ہے۔بظاہر ان تین مصرعوں کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ شاعر کو فارسی زبان نہیں آئی۔ ترکی تلاش کی تو ملی نہیں اور ہندی بولنے لگے تو’آر‘ سی شے سامنے آجاتی ہے۔(’آر‘ [ہندی، اسمِ مؤنث] ایک نوک دار کیل جو کوڑے میں لگائی جاتی ہے یا اُس چھڑی میں جس سے سُست بَیلوں کو ہانکتے ہیں) کمال یہ ہے کہ ان تینوں مصرعوں میں ایک ہی شے کا نام پوشیدہ ہے۔ جس چیز کو فارسی زبان میں ’آئینہ‘ کہا جاتا ہے ترکی زبان میں اُسی شے کو ’پائینہ‘ کہتے ہیں اور ہندی میں ’آرسی‘۔ ’آئی نا‘ کی آئینہ سے اور ’پائی نا‘کی پائینہ سے صوتی مناسبت کے سبب پہیلی کو پڑھنے سے زیادہ سننے میں لطف آتا ہے۔لیجے آرسی پر رندؔ کا ایک رندانہ شعر بھی سن لیجے:
تمام عمر بسر کی نظارہ بازی میں
رہا میں حیرتیِ حُسن آرسی کی طرح
آرسی یاآئینہ حیرت کی علامت ہے۔حیران انسان بھی آئینے کی طرح آنکھیں پھا ڑ کر ٹکرٹکر دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔اقبالؔ کہتے ہیں:
تجھے بھی صورتِ آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا
تو جناب یہ درست ہے کہ ’آرسی‘ ہندی زبان میں آئینے کو کہتے ہیں۔ مگر صرف آئینے کو نہیں،’درش‘ یا دیکھنے کو بھی کہتے ہیں۔ درش ہی سے لفظ درشن بنا ہے۔ پہلے زمانے کی عورتیں انگوٹھے میں ایک آئینہ دار انگوٹھی پہنا کرتی تھیں اور اُس میں (اپنا ہی) منہ دیکھتی رہتی تھیں۔ یہ انگوٹھی یا ’انگوٹھا‘ بھی’آرسی‘ کہلاتا تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے، مگر عورتیں تو نہیں بدلیں، اب بھی چاہیں توانگوٹھے میں انگوٹھی پہن سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طعنہ عام ہے کہ ”کبھی آئینے میں اپنی شکل دیکھی ہے؟“ اِنھیں معنوں میں کہا جاتا تھا کہ ”آرسی تو دیکھو“۔ کوئی شخص اپنی شکل و صورت پر یا اپنے حسن پر ناز کرتا نظر آتا یا اپنی لیاقت سے بڑھ کر کسی بات کا دعویٰ کرنے لگتا تو ایسے موقعے پر یہ یہ فقرہ بولا جاتا۔یہی فقرہ میر تقی میرؔ سے اُن کا محبوب بھی بول گیا تھا۔میرؔ صاحب اپنے دیوانِ دوم میں اعتراف کرتے ہیں:
ابر سا روتا جو میں نکلا تو بولا طنز سے
آرسی جا دیکھ گھر، برسے ہے منہ پر نور کیا
گھر کی بزرگ خواتین سے ہم نے ’آرسی‘ پر ایک ضرب المثل بھی سن رکھی ہے:
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے؟
پڑھے لکھے کو فارسی کیا ہے؟
یہ اُس زمانے کی ضرب المثل ہے جب ہمارے تعلیمی اداروں میں فارسی لازماً پڑھائی جاتی تھی۔ تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی شخص پڑھا لکھا ہو اور فارسی نہ جانتا ہو۔ لہٰذا پڑھے لکھے شخص کے لیے فارسی کوئی مسئلہ ہی نہیں تھی۔ ضرب المثل کا یہ دوسرا ٹکڑا ایسے موقعے پر بولا جاتا ہے جب کوئی مسئلہ حل کے لیے اُسی کام کے کسی ماہر کے سامنے پیش کیا جائے۔ رہا پہلا ٹکڑا تواس کا مفہوم یہ ہے کہ ہاتھ میں پہنے ہوئے کنگن کو دیکھنے کے لیے آئینے کی حاجت نہیں۔مراد، جو بات صاف ظاہرہو اور آنکھوں کے سامنے ہواُس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔
’آرسی‘ کے بعد باری ہے ’مصحف‘ کی۔’مصحف‘ کا تعلق مصافحے سے نہیں ہے۔’آرسی مصحف‘ میں بھی مصافحے کی نوبت آنے سے پہلے ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ ’مصحف‘ تو صحیفوں کے مجموعے کو کہتے ہیں اورصحیفہ لکھی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے یعنی رسالے یا کتاب کو۔صحیفہ کی جمع صُحف اور صحائف ہے۔ ’صُحفِ سماوی‘ آسمان سے اُتری ہوئی کتابیں ہیں۔اصطلاحاً قرآنِ مجید کے تحریری نسخے کو ’مصحف‘ کہا جاتا ہے۔ سورۃ البیّنہ کی دوسری اور تیسری آیت میں بتایا گیاہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلّم)”صُحُفاً مُّطَھَّرۃً“ (پاکیزہ صحیفے) پڑھ کر سناتے ہیں، جن میں مُستقل و محکم کتابیں ہیں۔ان آیات سے استنباط کر کے کہا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید کی 114سورتیں در اصل 114صحیفے ہیں۔
اہلِ فارس نے چشم و لب و رخسارکے مجموعے یعنی رُخِ محبوب کے لیے بھی ’مصحف‘ کا استعارہ استعمال کیا۔ پس اُردو شاعری میں بھی ایسا ہی ہونے لگا۔ہمارے محبوب جاسوسی ناول نگار ابن صفی مرحوم، جو اسرارؔ ناروی کے نام سے شاعری کرتے تھے، کہتے ہیں:
دِل علیہ السّلام پر لوگو
مُصحفِ رُوئے یار اُترا ہے
گمان غالب ہے کہ ہمارے مشہور لکھنوی شاعر شیخ غلام علی ہمدانی کو کوئی تخلص نہ سوجھا تو وہ ’مصحفِ رُوئے یار‘ دیکھ کر مُصحفی ہو گئے۔
حضرت مولانا ابو السعود احمد باقویؒ (وفات ۲۷ فروری) تحریر مفتی خلیل الرحمن برنی قاسمی
Читать полностью…وہ سات امور، جن کا بذل المجہود من التزام ہے
مولانا محمد عاشق الہٰی میرٹھی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں: بذل میں یہ ایک عجیب کمال ہے کہ جو مضمون حضرت (مولانا خلیل احمد مہاجر مدنی رحمۃ اللّٰه علیہ) کے ذہن میں آیا، جب تک متقدمین کے کلام میں اس کی تائید نہ مل گئی، حضرت نے اس کو قلم و قرطاس کے حوالہ نہیں کیا اور ہمیشہ یہ فرمایا کہ بھئی: اپنے علم پر کیا اعتماد ہے؟
۱ـ بایں التزام، ہر مسئلہ میں مذاہبِ ائمہ اربعہ کی تشریح اور باہم محاکمہ کیا گیا ہے۔
۲۔ مذہبِ حنفیہ کی تحقیق اور کافی دلائل کے بعد دوسرے مذاہب کے دلائل کے بہترین اور متعدد جوابات دیے گئے ہیں۔
۳۔ ہر راوی کے متعلق پوری جرح و تعدیل کی گئی۔
۴۔ جو روایات، ترجمۃ الباب کے موافق نہ تھیں، ان کی توجیہ و موافقت ظاہر فرمائی ہے۔
۵۔ مصنف نے جن روایات کو تعلیقًا بیان کیا ہے، دوسری کتابوں سے ان کی سندِ اتصال لکھی گئی ہے۔
٦۔ جو روایات، مختصر آئی ہیں، دوسری کتابوں کا، جہاں وہ مفصل ہے، حوالہ دیا ہے۔
٧۔ اور کلام الرسول کا منشا ظاہر کرکے وہ محاسن و حقائق بیان فرمائے ہیں، جن کا حظ وہی اٹھا سکتا ہے، جس کو فنِ حدیث سے مناسبت اور صاحبِ حدیث سے انس و محبت ہو۔
تذکرۃ الخلیل/صفحہ: ٢٧٨/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
جلوہ ہائے پابہ رکاب (33 )۔۔۔ ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم
کیا شیخ آئندہ سال تک میری زندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں ؟
شیخ ابن باز رحمہ اللہ علیہ ایک اللہ والے بزرگ تھے۔ ان کی محفل میں ایک روحانی فضا چھائی ہوئی رہتی تھی۔ اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا خوف طاری ہو جاتا تھا۔ شیخ کا ہر لمحہ مسلمانوں کی خدمت میں کہتا تھا۔
1969 میں جب میں اسلامی یونیورسٹی کے اسٹاف میں شامل ہوا، وہ اس وقت یونیورسٹی کے مدیر تھے۔
میں یونیورسٹی میں غیر عربی طلبہ کو عربی پڑھانے کے پروگرام سے منسلک تھا۔ ان دنوں کچھ نو مسلم کوریائی طلبہ اس پروگرام میں شامل ہوئے۔ ان میں سے ایک کا نام قمر الدین تھا۔ اس نے بتایا کہ جنوبی کوریا کے پائے تخت سیئول میں ایک بڑی خوبصورت مسجد بنی ہے۔ لوگ جمعہ کے دن کام کرتے ہیں، اس لیے وہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد نہیں آسکتے ۔ اکثر مسلمان اتوار کے دن مسجد آتے ہیں اور مسجد میں دین کی باتیں سیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ مسجد کے باغ میں بیٹھ کر شراب بھی پیتے ہیں۔
یہ آخری جملہ سن کر میں بہت رنجیدہ ہو گیا۔ میں اٹھ کر فورا شیخ ابن باز کے دفتر گیا۔ میری طرز گفتگو سے شیخ کو اندازہ ہو گیا کہ میں ایک ہیجانی کیفیت سے گزر رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے صبر کی تلقین کی۔ پھر آنے کا سبب پوچھا۔ میں نے ان کو کوریا کی مسجد والی بات بتائی۔ میں گفتگو کے دوران بہت agitated تھا۔ شیخ نے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہا: «علی كل حال، المعصية أخف من الكفر ، يعني: "بہر حال معصیت کفر سے کم درجہ کی نافرمانی ہے "۔ پھر اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا: یہ لوگ کافر تھے اور اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے یہ مسلمان ہوئے۔ اب لا علمی کی وجہ سے ان سے گناہ کے کام سرزد ہو رہے ہیں۔ جب ان کو صحیح علم مل جائے گا تو وہ ان شاء اللہ ان گناہوں سے باز آجائیں گے۔
شیخ کی ان حکیمانہ باتوں سے میرا غم چھٹ گیا۔ اور میں نہایت اطمینان کے ساتھ کلاس واپس آگیا۔
ایک دن میں پڑھارہا تھا، شیخ کے دفتر سے بلاوا آیا۔ جب میں شیخ کے دفتر پہنچا تو دیکھا کہ شیخ کے ساتھ ایک امریکی نوجوان بیٹھا ہوا ہے۔ شیخ نے مجھ سے کہا: ان کو بتادو کہ جامعہ میں داخلہ کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ یہ اپنی درخواست آئندہ سال جمع کرائیں۔
جب میں نے یہ بات درخواست گزار کو بتائی تو اس نے کہا: شیخ سے پوچھو کہ کیا وہ آئندہ سال تک میری زندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں ؟ اگر میں اسلام جانے بغیر مر جاؤں تو اسلام سے میری لاعلمی کا ذمہ دار کون ہو گا؟ جب میں نے شیخ کو اس کا ترجمہ بتایا تو وہ رو پڑے۔ انہوں نے نوجوان سے اس کے کاغذات لے لیے اور دفتر والوں سے کہا کہ فوراً اس کا داخلہ کرا دیا جائے۔
شیخ اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ دعاۃ کو کسی وجہ سے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ حرم شریف کے بالکل سامنے تصویروں کو فریم لگانے کی ایک دکان تھی۔ ایک دن میں نے اس دکان میں ایک بڑی فریم شدہ تصویر دیکھی۔ اس میں جو تصویر تھی وہ وہی تصویر تھی جو دنیا بھر کے عیسائیوں کے یہاں حضرت عیسی علیہ السلام کی تصویر مانی جاتی ہے۔
یہ ایک خطر ناک بات تھی۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ نہ تو تصویر کے مالک کو، اور نہ فریم کرنے والے کو ہی اس بات کا علم تھا۔ بہر حال میں نے اس بارے میں شیخ ابن باز کو خط لکھا اور خط کے آخر میں اپنا نام لکھ دیا۔ شیخ نے خط پڑھنے کے بعد کہا: تم اپنا نام ہٹادو اور اس کی جگہ " ایک خیر خواہ " یا اس قسم کی کوئی عبارت لکھ دو۔
پھر شیخ نے اپنے دفتر کے ایک ڈرائیور کو میرے ساتھ روانہ کیا۔ مجھے کچھ احتیاطی تدابیر بتائیں۔ کہا: تم فریم کی دکان سے بہت دور کھڑے ہو کر اس کی نشاندہی کرنا۔ دکان کا محل وقوع وصف کے ذریعہ بتانا، اور اس کی طرف انگلی سے اشارہ مت کرنا۔
سبحان اللہ! ایک volunteer کی حفاظت کا اتنا خیال اور اس کے لیے اتنی احتیاط اور اتنا جتن! دراصل یہ قرآن کریم کی تعلیم کی عکاسی ہے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالی نے قرض دار اور قرض خواہ کے حقوق کی حفاظت کے سلسلہ میں بہت سارے تفصیلی احکامات بتائے ہیں۔ اور اس ضمن میں گواہوں اور قرض کی دستاویز لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: (وَلَا يُضَارُ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ، فَسُوقُ بِكُمْ ) [البقرة: 282] یعنی: اس کا خیال رکھا جائے کہ نہ تو دستاویز نویس کو اور نہ گواہ کو کوئی نقصان پہنچنے پائے اور اگر تم سے ان کو نقصان پہنچانے والا کوئی تصرف سرزد ہو تو یہ (فرمان الہی کی) مخالفت ہو گی۔ ان کی وفات کے بعد اس عظیم شخصیت کو لوگ امام ابن باز کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: ۲۶ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید احمد ہمدانی 26 فروری 2015 ء
اخلاق، ایس ایم 26 فروری 2005 ء
اقتدار حسین اقتدار 26 فروری 2000 ء
آفتاب حسن، میجر 26 فروری 1993 ء
ظفر الاحسن لاری 26 فروری 1976 ء
قدرت اللہ خاں، استاد 26 فروری 1984 ء
لطیف الرحمٰن 26 فروری 1987 ء
ڈاکٹر رکن الدین حسان 26 فروری 1985 ء
ولی محمد خان خلش 26 فروری 1989 ء
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی 26 فروری 1978 ء
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی 26 فروری 1978 ء
مولانا مفتی نظام الدین اعظمی 26 فروری 2000 ء
مولانا عبدالحی صاحب سہارنپوری 26 فروری 1930 ء
مولانا مفتی محی الدین 26 فروری 1981 ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مانگے کا اجال
پطرس بخاری کو کالج کا چوکیدار گالیاں دیتا تھا لیکن وہ جواب نہیں دیتے تھے.
ایک دن ساتھی نے کہا کہ چوکیدار کہتا ھےکہ پطرس میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.
پطرس نے کہا وہ ٹھیک کہہ رہا ھے، اس کے پاس نہ دولت ھے، نہ شہرت اور نہ ہی عزت هے،
میں اس کا کیا بگاڑ سکتا ھوں؟