علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
ڈاکٹر خلیق انجم کے مولانا امتیاز علی عرشی پر خاکہ سے کچھ منتخبات:
عرشی صاحب نے اسلم پرویز اور میری تقریروں کی تعریف کی اور کچھ مشورے بھی دیے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کا ایک مشورہ یہ تھا کہ *آپ بہت تیز اور اونچی آواز میں بولتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ ذرا ہلکے انداز میں بولیں ؛ تاکہ لوگوں کے دل و دماغ کو متاثر کر سکیں۔*
میں مراز امظہر جان جاناں کا جہاں کہیں ذکر کیا ان کا صرف نام لکھا تھا۔ نام کے ساتھ احتراماً حضرت یا اس طرح کا کوئی لفظ نہیں لکھا تھا۔ عرشی صاحب نے فرمایا کہ دیکھیے یہ اپنے زمانے کے بہت بڑے صوفی بزرگ تھے ان کے ساتھ آپ کو حضرت تو لکھنا ہی چاہیے ۔ *اس زمانے میں میری عمر وہ تھی جس عمر میں نوجوان کو اپنے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہوتی ہیں اور وہ کسی کو اپنے سامنے کچھ نہیں سمجھتا۔* میں عرشی صاحب کا دل و جان سے احترام تو کرتا تھا لیکن ان کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میں نے عرض کیا کہ اگر میں مرزا مظہر بحیثیت صوفی کے ساتھ موضوع پر کام کروں گا،توحضرت لگاؤں گا۔ میں نے ایک شاعر پر کام کیا ہے اور *شاعر کے ساتھ حضرت یا احترام کا کوئی اور لفظ اس کے مرتبے کو کم کرتا ہے۔* میری دلیل عرشی صاحب کی سمجھ میں نہیں آئی؛ بلکہ پسند بھی نہیں آئی۔ مگر یہ ان کی عظمت تھی کہ انہوں نے مسکرا کر کہا کہ جیسا آپ مناسب سمجھیں۔
ایک دفعہ پٹھانوں پر گفتگو ہوئی۔ میں نے پٹھانوں کو جان باز لیکن جاہل کہہ دیا۔ عرشی صاحب کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نمایاں ہو گئے ۔ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر کہنے لگے کہ آپ تو خود پٹھان ہیں اور پھر پٹھانوں کو جاہل کہتے ہیں۔ میں کسی کو مشورہ نہیں دیتا لیکن چونکہ آپ کی رگوں میں وہی خون ہے جو میری رگوں میں ہے اس لیے آپ سے کہوں گا کہ *پٹھانوں کی تاریخ پڑھیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پٹھانوں نے علمی میدان میں کیسے عظیم کارنامے انجام دیے ہیں ۔* اس کے بعد انہوں نے ان علما کے علمی کارناموں کا تفصیل سے ذکر کیا جو پٹھان تھے۔ میں سمجھ گیا تھا کہ عرشی صاحب کو میری بات ناگوار گزری ہے لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اور اب میرے بس میں کچھ نہیں تھا سوائے اس کے کہ عرشی صاحب جو کچھ کہتے رہیں میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہوں ۔ جب عرشی صاحب اپنی بات کہہ چکے تو میں نے عرض کیا میں نے یہ بات مذاق میں کہی تھی۔ عرشی صاحب نے کہا کہ پٹھانوں کے بارے میں یہ بات مذاق سے بھی نہیں کہنی چاہے ورنہ اس سے دوسرے لوگوں کو ہمیں برا بھلا کہنے کا موقع ملتا ہے۔
*کوئی کتب خانہ محض اس بنا پر علم کا خزینہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس میں انتہائی نادر اور نایاب ذخیرہ کتب اور مخطوطات ہیں۔ خراب ہاتھوں میں پڑجانے کے سبب ہم نے علم کے ایسے کئی خزینوں کو عراق کے نادر میوزموں کی طرح لٹتے اور خراب ہوتے دیکھا ہے۔*
انتخاب: محمد رضی قاسمی
مولانا امتیاز علی عرشی(وفات ۲۴ نومبر) تحریر: ڈاکٹر خلیق انجم
Читать полностью…افادات: حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مدظلہ العالی
*صوفیاء کے نزدیک آگ کی اقسام*
حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ آگ کی چار قسمیں ہیں:
(١)شہوت کی آگ۔
(٢)شقاوت کی آگ۔
(٣)قطع تعلقی کی آگ۔
(٤)محبت کی آگ۔
چنانچہ شہوت کی آگ نیکیوں کو جلادیتی ہے، شقاوت کی آگ توحید کو جلادیتی ہے، قطع تعلقی کی آگ دلوں کو جلادیتی ہے اور محبت کی آگ ہرقسم کی آگ کو جلادیتی ہے۔(سورہ کہف کے فوائد ١/٤٧٠،٤٧١)
انتخاب: محمد رضی قاسمی
سچی باتیں (۲۹؍دسمبر ۱۹۳۳ء)۔۔۔ معجزاتی انقلاب
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
ہزارہا مے نوشوں اوربدمستوں کو جن کی گھٹّی میں شراب پڑی ہوئی تھی، یک بیک اُس سے تائب ، پاکباز وپارسا کس نے بنادیا؟ ہزارہا ہزار بدکاروں کو، جن کا اوڑھنا ، بچھونا، بدنظری، بدوضعی، بدچلنی تھا، دیکھتے دیکھتے ،متقی وزاہد کس نے کردیا؟ جس قوم میں چوری، خیانت، بدعہدہ، کینہ پروری، خود بینی، نخوت، بیدردی، خوں ریزی، انسان کشی، برادرکشی، عام تھی، اُس کے اندر، صدیوں میں نہیں، سوپچاس برس کی مدت میں بھی نہیں، دس ہی بیس سال کے اندر اندر، صلح وآتشی، امن واتحاد، حلم وعفو، سچائی اور دیانت، تواضع وفروتنی، مساوات واخوت، ہمدردی ورحم دلی، برادرنوازی واعزہ پروری کی روح کس نے پھونک دی؟ جوُا کس نے چھڑایا؟ بت پرستی کی رسموں کو دلوں سے کس نے اُجاڑا؟ گندگی اورعفونت میں پڑے رہنے والوں کے ظاہروباطن دونوں کو صاف، سُتھرا، اُجلا اور دلکش کس نے بنادیا؟ توحید پرستوں، شرک سے نفرت کرنے والوں، روزہ داروں، تہجد گزاروں کی قوم کی قوم کس نے پیدا کردکھائی؟……جواب، جوش عقیدت سے نہیں، واقعاتِ تاریخ سے طلب کیجئے۔
روحانی انقلاب اور اخلاقی اصلاح کو چھوڑئیے۔ خالص مادی اور دنیوی پہلو کو لیجئے۔ جو ’’کچھ‘‘ نہ تھے، وہ کس کے اثروتوجہ سے ، یک بہ یک’’سب کچھ‘‘ ہوگئے؟ جن کے پاس خُرمے کے چند باغوں اور اونٹوں کے گلوں کے سوا اور کچھ نہ تھا، وہ کس کے فیض سے، ملک کے نہیں،ملکوں کے، سلطنتوں کے، مالک بن بن گئے؟ جس قوم پر اُس کے ہمسائے ہنستے، اور جسے ہمیشہ حقیر ہی سمجھتے رہے، کیا ایساہوگیا، کہ وہی قوم ان سب پر غالب، حاکم ومتصرف ہوکررہی؟ جو مفلس اور کنگال تھے، وہ کیسے زردار وخزینہ دار بن گئے؟ اور جو ذلیل وپست تھے، ان کا شمار معززین اور اقبال مندوں میں کیسے ہونے لگا؟ جو لوگ رومہؔ وفارسؔ کے باجگذاروں سے دبے ہوئے تھے، وہ خود رومہؔ وفارسؔ کے تاجدار ہوہوکر، کس مرد بزرگ کی نظر کیمیا اثر سے رہے؟ ……جواب اس کا بھی تقلیدًا نہیں، تحقیقاً ، تاریخ کے اوراق سے حاصل کیجئے۔
دین ودنیا، دونوں کے انتہائی فلاح وبہبود کے جامع، مادی وروحانی دونوں ترقیوں کے ضامن، کی حیثیت سے کوئی دوسرا نام ، پوری چھان بین ، تلاش وجستجو کے بعد، بجز عرب کے نبی امیؐ کے ملے گا؟ ’انقلاب‘’انقلاب‘ سب پکارتے ہیں، ’رفارم‘ ’رفارم‘ کے نعرے سب لگاتے ہیں، ایسے معجزانہ انقلاب، ایسے حیرت انگیز اور کامیاب رفارم کی کوئی اور مثال آپ کو کہیں بھی ملے گی؟ اس واقعہ کے ہوتے، اس تجربہ کے باوجود، اس مشاہدہ کی موجودگی میں، یہ کیسی محرومی، اور کیسے حیف کی بات ہے، کہ آپ کبھی ارسطو کے فلسفۂ اخلاق کا درس سننے کو دوڑتے ہیں، اور کبھی افلاطونؔ کی ری پبلک کے اوراق پر دیدہ ریزی کرنے کو لپکتے ہیں، کبھی دیوجانسؔ کلبی کے ’ٹب‘ کی طرف بڑھتے ہیں، کبھی روسوؔ کے مُعاہدہ عُمرانی کی دفعات کی طرف کان لگاتے ہیں، کبھی کارل مارکسؔ اور لیننؔ سے لَو لگاتے ہیں، اور کبھی مسولینیؔ اور ہٹلرؔ کو آخری سہاراسمجھنے لگتے ہیں! علقی وقیاسی نظریات کو الگ کیجئے، محض مشاہدہ وتجربہ کی راہ ہے، آپ شادابی ، خوش بختی، سرسبزی، کامرانی کدھر پارہے ہیں، اور ویرانی، شوربختی، خشکی، پزمردگی، خانہ جنگی، تباہی کدھر؟
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ظاہر ہے یہ مذہبی ہم آہنگی اور خیر سگالی اس دور کی بات ہے جب یہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا اور ذہنوں میں فرقہ واریت نے ڈیرے نہیں جمائے تھے۔ یوگی جی دراصل جس سیاسی نظریہ کے ترجمان ہیں، اس میں مذہبی منافرت بنیادی عنصر ہے۔ اگرچہ وہ خود ایک مذہبی شخص ہیں اور زعفرانی لباس بھی زیب تن کرتے ہیں، لیکن جہاں کہیں مسلمانوں اور اردو زبان کا ذکر آتا ہے، وہاں ان کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ جس وقت وہ اسمبلی کی کارروائی میں اردو کو شامل کرنے کی مخالفت کررہے تھے تو انھوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا تھا کہ ابھی پچھلے ہی ہفتہ ملک کی پارلیمنٹ میں خود اسپیکر اوم بڑلا نے یہ اعلان کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی میں اردوکو بھی شامل کیا جارہا ہے۔اوم برلا نے کہا تھاکہ’’اب بوڈو، ڈوگری، میتھلی، منی پوری، سنسکرت اور اردو زبان میں پارلیمنٹ کی کارروائی کا اردو ترجمہ ہوگا۔“حالانکہ پارلیمنٹ میں پہلے ہی سے اردو میں کام ہوتا ہے اور وہاں باقاعدہ اس کا عملہ موجود ہے، لیکن اسپیکر نے یہاں اردو کا نام لینا ضروری سمجھا۔ جبکہ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایوان کی کارروائی میں انگریزی کی جگہ اردو کو شامل کئے جانے کے مطالبہ پر اتنا شدید ردعمل ظاہر کیا کہ اس سے اردو کے تئیں ان کی مخاصمت پوری طرح عیاں ہوگئی۔
یوپی اسمبلی میں اردوزبان کی مخالفت کوئی نئی بات نہیں ہے۔کئی بار ایسا ہوا ہے کہ یہاں اردومیں حلف لینے کا مطالبہ کرنے والے ممبران اسمبلی کواس سے بازرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ معاملہ عدالت تک پہنچا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ1989 میں جب آنجہانی وزیراعلیٰ نارائن دت تیواری نے ریاست میں اردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان بنانے کا بل پیش کیا تھا تو اس کی کتنی شدید مخالف ہوئی تھی۔ خود ان کی کابینہ کے ایک وزیرواسودیو سنگھ نے اردو کے خلاف تقریر کی تھی۔اس موقع پر بدایوں میں فساد بھی پھوٹ پڑا تھا اور درجنوں بے گناہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس فساد کی وجہ دراصل زعفرانی عناصر کا اردو مخالف احتجاج تھا جس میں نعرہ لگایا گیا تھا کہ ”اردو تھوپی لڑکوں پر تو خون بہے گا سڑکوں پر۔“میں نے اس فساد کی چشم دید رپورٹنگ کی تھی۔
بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں اس وقت اردو بستر مرگ پر ہے۔مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ موہن یادو نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایسے تمام گاؤوں کے نام تبدیل کررہے ہیں، جو اردو میں ہیں۔دوسری طرف راجستھان میں اردو اسکول بند کئے جارہے ہیں اور وہاں اردو کی جگہ سنسکرت ٹیچر بھرتی کئے جارہے ہیں۔سہ لسانی فارمولے میں اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کرلیا گیا ہے۔جبکہ2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں صرف 73ہزار لوگ ہی سنسکرت بولتے ہیں، جبکہ 2012 کی مردم شماری کے مطابق اردو بولنے والوں کی تعداد چھ کروڑ ہے، لیکن اس کے باوجود اردو کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل خود ہماری بے حسی کا نتیجہ بھی ہے۔ اترپردیش میں ملائم سنگھ کے دور میں جن اردو اساتذہ اور مترجمین کی بھرتی ہوئی تھی، وہ دوسرے کام کررہے ہیں کیونکہ ہم اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکولوں کی بجائے انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیج رہے ہیں۔ ہماری اس بے حسی نے ہی اردو کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔کاش ہم اپنے بچوں کو اردو پڑھاکر اپنی تہذیب اور ثقافت کو باقی رکھنے کے بارے میں سوچ سکیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
محمد اسد لیوپولڈ(وفات 22 فروری) تحریر: پروفیسر خورشید احمد
Читать полностью…*مانگے کا اجالا*
*مرثیہ مولانا ابو الکلام آزاد، از آغا شورش کاشمیری و جگن ناتھ آزاد*
*آغا شورش کاشمیری*
عجب قیامت کا حادثہ ہے، کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبیں نہیں ہے
تیری جدائی سے مرنے والے! وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
اگر چہ حالات کا سفینہ اسیرِ گرداب ہو چکا ہے
اگر چہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے
اگر چہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سو چکا ہے
مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انساں، میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے؟
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے، زباں کا زور بیاں گیا ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا، کارواں گیا ہے
مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
یہ کون اٹھا کہ دیر و کعبہ شکستہ دل، خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم، خواص پہنچے، عوام پہنچے
تیری لحد پہ خدا کی رحمت، تری لحد کو سلام پہنچے
مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
ــــــــــــــــــــــــ
*جگن ناتھ آزاد*
بجھ گیا اے زندگی تیرا چراغِ علم و فن
غرق ظلمت ہوگئی علم و ادب کی انجمن
یوں چلا باد خزاں کا ایک جھونکا دفعتاً
رہ گیا مُرجھا کے تہذیب و تمدّن کا چمن
اب چمن اس وضع کا اے دل نہ کِھلنے پائے گا
بوالکلام آزاد کا ثانی نہ ملنے پائے گا
بوالکلام اے کاروان علم و حکمت کے امیر
مُرشد روشن بصر، روشن دل و روشن ضمیر
آسمان جذبۂ اخلاص کے مہر مُنیر
تو نے دنیا کو دکھادی عظمت و شان فقیر
فاش تھی تیری نِگاہوں پر نمودِ زندگی
تیرا ہر نکتہ ضمیر اندر وجودِ زندگی
ناز کر بخت رَسا پر ارضِ دہلی ناز کر
تیری خاک پاک میں پنہاں جو ہیں لاکھوں گہر
آج شامل اُن میں ہے وہ صاحبِ ذوق نظر
فکر جس کی تھی تجلی بخش خورشید و قمر
کیا کہوں دہلی تجھے کیا سروری حاصل ہے آج
تیری مٹی کو فلک پر برتری حاصل ہے آج
اے غلاموں کا لہو گرمانے والے الوداع
آگ سی الفاظ میں برسانے والے الوداع
خود تڑپ کر بزم کو تڑپانے والے الوداع
اے جگا کر ہند کو سو جانے والے الوداع
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مانگے کا اجالا
سنتا ہوں کہ ناصح کی زباں بند ہوئی ہے
ہر روز کی جِھک جِھک سے مرا ناک میں دم تھا
ہندی میں جَھک کے ایک اور معنی لیے جاتے ہیں: اُجلا، روشن،تاباں،منور، درخشاں، چمک دار یا چمکتا ہوا سفید۔محبوبہ کے بُڑھیا ہو جانے پر بھی شعورؔ کو شعر سوجھ گیا:
زلفِ مُشکیں کا سفیدی پر بھی ہے پیری میں بَل
کچھ نہ کچھ جَھک رہ گئی جس کو ہوا سودا کبھی
زُلف ہی نہیں، کوئی لباس یا زیور بھی خوب چمکیلا، دمکتا ہوا یا سونے چاندی کی جھلک مارتا ہوا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’جَھکا جَھک ہے‘‘۔
’جَھک مارنے‘ پر ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔گھر کے ایک بزرگ کسی کام کی جلدی میں بڑی تیزی سے گھر سے نکل رہے تھے۔ ایسے میں اُن کی ایک ننھی منی بھتیجی آکر اُن کی ٹانگوں سے لپٹ گئی: ’’چچا جان! کہاں جارہے ہیں؟‘‘
چچا جان جھنجلا گئے۔ بچی کا ہاتھ پکڑکر اُس کو الگ کرتے ہوئے غصے سے بولے: ’’جَھک مارنے جارہا ہوں‘‘۔
واپس آئے تو غالباً اپنے کام میں کامیابی پر شاداں و فرحاں و خنداں گھر میں داخل ہوئے۔ بچی نے اُنھیں خوش دیکھا تو ایک بار پھر آکر اُن کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ بڑی معصومت اور محبت سے پوچھا: ’’چچاجان! جَھک مار کے آگئے؟‘‘
(سبق: بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ ہر بات پر جھٹ یقین کرلیتے ہیں)
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مشفق خواجہ (وفات 21 فروری) تحریر: محمد حمزہ فاروقی
Читать полностью…"فضائل النبیﷺ۔ آیات ِ قرآنی کی روشنی میں"
مصنف :شیخ عبداللہ بن محمد الغماری،
مترجم: ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری،
ناشر:زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، کراچی،
صفحات:317، قیمت:درج نہیں ،
برائے رابطہ : 03142210737
تبصرہ نگار: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
/channel/ilmokitab
سید المرسلین خاتم النبین محمد الرسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا اولین اور مستند ترین تحریری ماخذ قرآن مجید ہے۔قرآن مجید کی روشنی میں آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور فضائل و خصائص پر عربی اور اردو میں متعدد کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ پیشِ نظر کتاب بھی آیاتِ قرآنی کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کے فضائل پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں فاضل مولف نے قرآن مجید کی ترتیب کے مطابق سورت وار رسول اللہ ﷺ کے فضائل و مناقب کا جائزہ لیا ہے اور مدلل اسلوب میں وضاحت کے ساتھ انہیں پیش کیا ہے۔ چنانچہ جن سورتوں میں یہ موضوع تفصیل کے ساتھ موجود ہے، وہاں تفصیل سے کلام کیا ہے، اور جہاں یہ مضمون مختصراً ذکر ہوا ہے، وہاں اختصار ہی کو پیش نظر رکھا ہے۔ فاضل مولف کی نکتہ رسی قابلِ تحسین ہے۔
یہ کتاب معروف مراکشی عالم ابوالفضل عبداللہ بن ابو عبداللہ شمس الدین محمد بن صدیق الغماری (1910ء۔1993ء)کی تالیف لطیف "فضائل النبی ﷺ فی القرآن" کا اردو ترجمہ ہے۔کتاب کاخوب صورت اردو ترجمہ مولانا ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری (مقیم امریکہ) نے کیا ہے ۔
ڈاکٹر حقانی رقم طراز ہیں: " فاضل مولف نے آیات قرآن سے جس طرح فضائل و خصائص کا استنباط کیا ہے، وہ بہت مدلل، مضبوط اور لائق استحسان ہے۔ اس دور ِپر فتن میں جب مسلمانوں کو اپنی قوت کے احیاااور غلبے کے لیے بے شمار چیلنج درپیش ہیں،سیرت نگاری کا تقاضا یہی ہے کہ سیرت نبوی قرآنی امت کو پیش کی جائے، تاکہ محبت رسول ﷺ کی افادیت واہمیت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مزید نمایاں ترکیاجائے۔ "
بلاشبہ اپنے موضوع پر یہ ایک منفرد ، جامع اور مستند کتا ب ہے۔ فاضل مولف اور مترجم کواللہ تعالیٰ اس کی بہترین جزاء عطا فرمائے۔ آمین
_________
"فروغِ نعت"
مصنف :طاہرؔ سلطانی،
ناشر:جہانِ حمدپبلی کیشنزکراچی،
صفحات:224، قیمت:درج نہیں،
برائے رابطہ : 03002831089
تبصرہ نگار: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
طاہر حسین طاہرؔ سلطانی معروف حمدو نعت گو شاعر ہیں۔ حمد و نعت کے فروغ کے حوالےسے آپ کی خدمات ہمہ جہت ہیں۔ آپ اردو میں حمد کے موضوع پر اولین ماہنامہ "ارمغانِ حمد" اور کتابی سلسلہ "جہانِ حمد" کے مدیر،ادارہ چمنستان حمد ونعت کراچی کے روحِ رواں، طرحی حمدیہ مشاعروں کے بانی اور میں عالمی حمد و نعت کانفرنسوں کی بنیاد رکھنے والے ہیں۔ علاوہ ازیں اپنے ادارے جہانِ حمد پبلی کیشنز،کراچی سے حمدیہ و نعتیہ ادب پر سو سے زائد کتابیں شائع کرچکے ہیں۔طاہر سلطانی کی کاوشوں کا خاص میدان حمدیہ ادب ہے لیکن انھوں نے نعتیہ ادب کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔
پیشِ نظر کتاب طاہر سلطانی کا وہ مقالہ ہے جو انھوں نے "حریمِ نعت" کے تحت شکاگو (امریکہ) میں منعقد ہونے والی "نعت کانفرنس" کے لیے تحریر کیا تھا۔ اس مقالے میں طاہر سلطانی نے نعت کے فروغ کے سلسلے میں کتابی سلسلہ "جہانِ حمد" (جس کے تاحال 22 شمارے ہوچکے ہیں) اور ماہنامہ "ارمغانِ حمد" (125 شمارے) کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔
پیشِ نظر کتاب کے بارے میں ڈاکٹر ریاض مجید رقم طراز ہیں: "فروغ نعت، طاہر ؔسلطانی کی ان کوششوں کی جمع آوری کی دستاویز ہے جو انہوں نے حمد باری تعالیٰ اور نعتِ رسول اکرم ﷺ کے باب میں کیں۔فروغ نعت کا اہم حصہ ان نعت نمبروں کے حوالے سے ہے جو طاہر سلطانی نے گزشتہ کچھ عشروں میں مرتب کیے۔ بحیثیت مجموعی یہ سارے اہم نعت نمبر ، نعت رسول اکرم ﷺ کے حوالے سے اہم معلومات لیے ہوئے ہیں ان شماروں میں غیر منقوطہ، ہائیکواور نظموں کا نعت نمبر شامل ہیں۔
'جہان حمد' اور 'ارمغان حمد ' نے جناب طاہر سلطانی صاحب کی ادارت میں فروغ نعت کے لیے اہم اور تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ 'فروغ نعت' کی تازہ تصنیف میں ان سبھی کارہائے نمایاں کی نشاندہی کی گئی ہے جو مدیر 'جہان حمد' اور 'ارمغان حمد' طاہر سلطانی نے سرانجام دیئے ۔یہ بلاشبہ ایک بڑا کام تھا جو غیر متزلزل وابستگی کے ساتھ مستقل کئی عشروں پر محیط محنت اور لگن سے طاہر سلطانی نے کیا۔ اردو نعت کی تاریخ یقیناً 'جہان حمد' اور 'ارمغان حمد' کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ طاہر سلطانی کی لگن اور محنت نے اردو نعت کو جو ثروت مندی عطا کی اس سے اردو نعت ہمیشہ ان کی ممنون رہے گی۔ "
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مناظرہ اور مکالمہ
خورشید ندیم
مناظرانہ طبیعت سے مکالمہ ممکن نہیں۔ ایسے مزاج سے پالا پڑ جائے تو اعراض بہتر ہے۔ بصورتِ دیگر ایک دھول اڑے گی جس میں لازم ہے کہ آپ کا چہرہ گرد سے اٹ جائے۔
جو لوگ سنجیدگی کے ساتھ علم یا سماج کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، وہ مناظرے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ اپنا نقطہ نظر شائستگی کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔ کوئی اعتراض اٹھے تو اس کا جواب بھی تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے دے دیتے ہیں۔ اگر فریقِ ثانی کو، اس کے بعد بھی اپنی رائے پر اصرار رہے تو وہ اپنا قدم کھینچ لیتے اور الجھتے نہیں۔ وہ مکالمے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں مگر جیسے ہی دوسرا مناظرے کے میدان میں اترتا ہے، وہ شکست کا اعتراف کرتے اور اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔
مناظرانہ مزاج کو دوسرے کے موقف کی تفہیم سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ حق تک پہنچنا بھی، اس کے پیشِ نظر نہیں ہوتا۔ اس کو صرف یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرا ناحق پر۔مباحثے کے اخلاقی تقاضے اس کا مسئلہ نہیں ہوتے۔ اسے دوسرے کو زیر کرنا ہوتا ہے اور بس۔ اس کے لیے وہ کوئی ہتھیار بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اس کی نظر دوسرے کے کمزور پہلوں پر ہوتی ہے۔ دوسرے کی پگڑی اچھالنا، اس کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔ اگر کسی کو القاب سے پکارنا ہو تو کوئی اخلاقی تقاضا اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ احمد جاوید صاحب نے اپنے ایک ہم عصر کے اخلاقیات پر بات کرتے ہوئے، ان کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ ناقد کے کمزور پہلو سے کبھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ مناظرانہ طبیعت کے لیے یہ سب اجنبی ہے۔ مد ِ مقابل جتنا رسوا ہو، اسے اتنی ہی خوشی ہوتی ہے۔
مکالمہ دوسروں کے احترام کو لازم کرتا ہے۔ اس کا انجام فتح و شکست نہیں، تفہیم ہوتا ہے۔ آپ اپنی بات اچھے اسلوب میں بیان کرتے ہیں تاکہ دوسرا سمجھنا چاہے تو اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ قبولیت یا عدم قبولیت آپ کا مسئلہ نہیں ہوتا۔اسی طرح آپ دوسرے کی بات کو بھی سمجھنا چاہتے ہیں۔ مکالمے کے نتیجے میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی رائے سے رجوع کر لیں اور کسی تیسری رائے کو اختیار کر لیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اپنے موقف پر قائم رہیں اور بات چیت کا دروازہ کھلا رکھیں، اس امکان کو تسلیم کرتے ہوئے کہ آج کا اختلاف کل کسی اتفاق میں بھی ڈھل سکتا ہے۔ اس سے اختلاف کے باوجود فضا مکدر نہیں ہوتی۔ میل جول کے امکانات باقی رہتے ہیں اور اتفاق رائے کی امید بھی زندہ رہتی ہے۔
ہمارے ہاں مذہب اور سیاست میں مکالمے کی جگہ مناظرے نے لے لی ہے۔ اہلِ سیاست جب مل بیٹھتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ مطلوب اتفاقِ رائے نہیں بلکہ دوسرے کو چت کرنا ہے۔ مقصد دوسرے کے موقف کی تفہیم یا اپنی رائے کا ابلاغ نہیں۔ مذاکرات کے نام پر چال چلی جاتی ہے۔ مکالمے کو سیاسی فائدے کے لیے بطور حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اخلاقیات کہیں زیرِ بحث نہیں ہوتے۔ سیاست دان میڈیا میں آمنے سامنے ہوتے ہیں تو وہاں بھی مطلوب یہی ہوتا ہے کہ دوسرےکو شکستِ فاش دی جائے۔سوشل میڈیا پر مذہبی مباحث میں مشغول دانش وروں اور اسکالرز کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ اہلِ سیاست سے بھی بدتر۔ علم ان کے لیے مفید بننے کے بجائے، حق تک رسائی کے لیے حجاب بن جاتا ہے۔ حق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تکبر ہے۔ علم کا تکبر جہالت کی بدترین صورت ہے۔
علم تواضع سکھاتا ہے۔ ہم نے تو یہی جانا ہے کہ جو علم کی دنیا میں پیش قدمی کرتا ہے، ہر دن اس پر اپنی بے علمی ہی منکشف ہوتی ہے۔ اس سے عاجزی پیدا ہوتی ہے۔میں نے یہ عاجزی مغربی ممالک کے سکالرز میں زیادہ دیکھی ہے۔ یہ وہاں کے نظامِ تعلیم کا اثر ہے۔ میرا ایک بار شکاگو یونی ورسٹی کے شعبہ الہیات میں جانا ہوا۔ وہاں ان لوگوں سے ملا جو تیس چالیس برس سے عہدِ نامہ قدیم و جدید اور قرآن مجید پڑھا رہے تھے۔ میرے ساتھ ایک دو افراد ایسے تھے، جن پر اپنی لاعلمی آشکار نہیں تھی۔ انہوں نے جو گفتگو کی، میرے جیسا طالب علم بھی سمجھ سکتا تھا کہ وہ ایک مبتدی کے سطح کی ہے۔ میں نے مگر اُن اساتذہ کو دیکھا کہ اس توجہ سے سن رہے ہیں جیسے ان پر نئے علمی نکات منکشف ہورہے ہوں۔جب انہوں نے جوابی گفتگو کی تو اس میں بھی انکسار تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ علم اور انکسار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
مجھے خوش بختی سے ایسے اہلِ علم کی صحبت نصیب ہوئی جن میں علم تھا اور انکسار بھی۔ مثال کے طور پر میں نے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری مرحوم کے ساتھ کم و بیش پچیس برس گزارے۔ ان کے علمی مرتبے کا اعتراف عالمی سطح پر ہوا۔ ان کا مطالعہ غیر معمولی تھا۔ اس کے باوصف ان میں تواضع ایسی تھی کہ میرا جیسا کم علم بھی سر راہ مل جاتا تو اسے یہ احساس نہ ہوتے دیتے کہ وہ اتنی بڑی علمی شخصیت سے مخاطب ہے۔
مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ( 02 ) ۔۔۔ تحریر: علامہ سید سلیمان ندوی ؒ
ولادت:دیسنہ (بہار) ۔۔۔۲۳ /صفر ۱۳۰۲ ھ ،مطابق /۱۳ دسمبر ۱۸۸۴ ء
مفخرئہ ہندوستان،محقق دوراں،علامۂ زمانہ،فاضل یگانہ،مؤرخ کبیر،ادیب شہیر حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کا تعلق حسینی سادات سے تھا۔
۱۹۰۱ ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا،اور ۱۹۰۷ ء میں فراغت پائی،پھر الندوہ کے سب ایڈیٹر،اور ندوہ میں عربی ادب کے استاد مقرر ہوئے۔اس کے بعد کلکتہ جاکر مولانا آزاد کے ساتھ الہلال کی ادارت میں شریک رہے۔۱۹۱۴ ء کے آغاز میں دکن کالج پونہ میں فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہوا۔نومبر ۱۹۱۴ ء میں علامہ شبلی کے انتقال کے وقت دارالمصنفین اعظم گڑھ آئے اور وہیں کے ہورہے۔
۱۹۱۶ ء میں معارف نکالا،جو آج تک مسلسل نکل رہا ہے۔۱۹۲۳ ء میں دارالعلوم ندوۃالعلماء کے معتمد تعلیم مقرر کئے گئے۔۱۹۴۶ ء سے ۱۹۵۰ ء تک ریاست بھوپال میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز رہے،مگر ندوہ اور دارالمصنفین سے برابر تعلق رہا۔۱۹۵۰ ء ہی کے وسط میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں مقیم ہوئے۔ہندوستان کی سیاست اور اس کی تحریکات آزادی سے برابر تعلق رہا۔خلافت کمیٹی،جمعیۃ علمائے ہند اور کانگریس کے جلسوں میں پابندی سے شرکت کرتے تھے،کئی جلسوں میںصدارت کے فرائض بھی انجام دیے۔حضرت تھانویؒ سے آپ کو خلافت حاصل تھی۔مشہور کتابوں میں سیرت النبیﷺ،خطبات مدراس،سیرت عائشہ،تاریخ ارض القرآن،عرب و دیار ہندکے تعلقات،عربوں کی جہاز رانی،حیات شبلی وغیرہ ہیں۔
وفات:کراچی،۱۴ / ربیع الاول ۱۳۷۳ ھ مطابق ۲۳ / نومبر ۱۹۵۳ ء
مدفن:احاطہ اسلامیہ کالج کراچی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
میرے بڑے بھائی مرحوم مولوی حکیم سید ابو حبیب صاحب رضوی مجددی،مولانا عبداللہ صاحب غازی پوری اور ان کے شاگرد مولوی شاہ علی نعمت صاحب پھلواروی کے شاگرد تھے،اس کا اثر یہ تھا کہ وہ توحید و سنت کے شیفتہ اور دل دادہ تھے،اور تمام عمر کامل اتباع سنت اور زہد وتقویٰ میں گزاری۔
ٍ وہ جب فراغت پاکر گھر آئے تو میں بچہ تھا،وہ مجھ سے عمر میں اٹھارہ برس بڑے تھے،میں نے انھیں کے دامن شفقت میں پرورش پائی۔مسلمانوں میں بدعات کا رواج زیادہ تر عورتوں کے سبب سے ہے،اس لئے ان کو اپنے رشتے کی بیبیوں اور گاؤں کی دوسری مسلمان بیبیوں کو سمجھانے اور اسلام کی صحیح تعلیم سے آشنا کرنے کی دھن تھی۔انھوں نے ہفتے میں ایک دن ان بیبیوں میں وعظ و تلقین کے لئے مخصوص فرمایا۔چوں کہ میں بچہ تھا،فارسی ختم ہوکر میزان و منشعب شروع کی تھی،قرآن پاک کے بعد مولانا اسماعیل شہیدؒ کی تقویۃ الایمان میرے ہاتھ میں دین کی پہلی کتاب دی گئی۔میں ان بیبیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تقویۃ الایمان کی ایک ایک بات پڑھتا تھا،اور بھائی صاحب مرحوم پردے کے پیچھے سے اس کے ایک ایک مسئلے کی تشریح و تفسیر فرماتے،اور جو وہ فرماتے،میرے دل میں بیٹھتا جاتا۔
یہ پہلی کتاب تھی،جس نے مجھے دین حق کی باتیں سکھائیں اور ایسی سکھائیں کہ اثنائے تعلیم ومطالعے میں بیسیوں آندھیاں آئیں،کتنی دفعہ خیالات کے طوفان اٹھے،مگر اس وقت جو باتیں جڑ پکڑ چکی تھیں،ان میںایک بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکی،علمِ کلام کے مسائل،اشاعرہ و معتزلہ کے نزاعات،غزالیؒ ورومیؒ ابن رشد کے دلائل یکے بعد دیگرے نگاہوں سے گزرے،مگر اسماعیل شہیدؒ کی تلقین بہر حال اپنی جگہ پر قائم رہی۔
۱۹۰۱ ء میں دارالعلوم آیا،اور دوسرے درجہ میں داخل ہوا،گھر سے کچھ رسالے ساتھ لایا تھا،ان میں اصول حدیث میں شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ کا رسالہ ’’عجالئہ نافعہ ‘‘ بھی تھا،اصول حدیث کے اس مختصر فارسی رسالے کو پڑھنے سے مجھے علم حدیث سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ندوہ کے کتب خانے سے شاہ صاحب کی دوسر کتاب بستان المحدثین ہاتھ آئی،بڑے شوق سے اس کا مطالعہ کیا،اور بالآخر محدثین کی شخصیتوں میں امام مالکؒ نے میرے دل پر قبضہ کیا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مؤطا امام مالکؒ سے بے حد گرویدگی پیدا ہوئی۔
ان دنوں دار العلوم کے طلبہ کے مطالعے کے لئے ان کے دارالمعلومات میں کچھ کتابیں الگ رکھوادی گئی تھیں جن کو دیکھا کرتا تھا،انہی کتابوں میں حافظ ذہبی کی کتاب تذکرۃ الحفاظ تھی،اس کے مطالعے نے محدثین کے کارناموں سے آگاہ کیا۔
اوپر کی سطروں سے ظاہر ہے کہ کیونکر میرے دل میں رفتہ رفتہ علم حدیث و امام مالک ؒ کی مؤطا کا شوق ہوا۔اسی شوق کا یہ نتیجہ تھا کہ ۱۹۰۵ ء میں میرا سب سے پہلا مضمون الندوہ میں علم حدیث پر نکلا،جس کی تعریف بزرگوں نے فرماکر میرا حوصلہ بڑھایا،اور میری سب سے پہلی کتاب حیات مالکؒ وجود میںآئی۔
وفیات مورخہ: 21 فروری
بہارکوٹی (محمود الحسن خاں) 21 فروری 1971 ء
بیگم سیماب اکبرآبادی 21 فروری 1966 ء
حافظ قاری محمد اختر 21 فروری 2005 ء
ڈاکٹر یوسف حسین خان 21 فروری 1979 ء
سر تیج بها در سپرو 21 فروری 1949 ء
سرتیج بہادر سپرو 21 فروری 1949 ء
شریر جعفری(لطیف احمد جعفری) 21 فروری 2002 ء
حاجی عبدالرزاق یعقوب 21 فروری 2014 ء
عبید اللہ احرار 21 فروری 1490 ء
عطار محمد بندیالوی 21 فروری 1990 ء
عمر فاروقی 21 فروری 1991 ء
مشفق خواجہ (خواجہ عبدالحئی) 21 فروری 2005 ء
مولانا یعقوب بخش 21 فروری 1948 ء
مولانا یعقوب بخش راغب 21 فروری 1948 ء
نذیر ناجی 21 فروری 2024 ء
یعقوب بخش راغب قادری بدایونی 21 فروری 1948 ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اجازت حدیث سے متعلق معتدل اور تحقیقی گفتگو
/channel/ilmokitab
سیدی و سندی بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہم عرب کے بعض علماء کو اجازت حدیث دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
”یہ جو اجازت لینے کی بات ہے ، اس قدر اس کو اہمیت دی جارہی ہے ، اور اہل عرب خاص طور پر اس کی اہمیت دیتے ہیں ، اس کے لیے سفر بھی کرتے ہیں ، یہ چیز ایسی نہیں ہے ، ابتدا کے اندر صحابہ تابعین اور جب تک کتابوں میں حدیثیں مدون نہیں تھیں ، تو انہی روات ہی کے ذریعے سے ہم تک [احادیث] پہنچائی تھیں۔ لیکن جب ان حدیثوں کو کتابوں میں مدون کردیا گیا اور تدوین کرنے کے بعد ، لکھنے کے بعد وہ کتاب ، لکھنے والے کی طرف منسوب ہوئی اور اس کی نسبت - کہ اسی نے لکھا ہے - متواتر ہوگئی ، اس میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ یہ کتاب اسی شخص کی ہے ، یہ بخاری کی ہے ، بخاری کے علاوہ کسی اور کی نہیں ہے ، جس نے بخاری کے نام پر یہ کتاب لکھ دی ہے۔ اسی طرح مسلم کی ، ابوداؤد کی [بات ہے]۔ اور جب یہ چیزیں ان لوگوں کی طرف متواتر ہوگئیں [تو] ہر شخص کو اس کتاب سے روایت کرنا صحیح ہوگیا ، چاہے بخاری کسی سے سنا ہو یا نہ سنا ہو ، تو برکت کے لیے محدثین سے یہ اجازت چلی ہے۔ *اس لیے اس کو بہت سے بہت ادنی درجے کا مستحب قرار دیا جا سکتا ہے ، اب اس کے لیے اتنی جد و جہد جیسے معلوم ہوتا ہے کہ اس بغیر آدمی حدیث نہیں پڑھا سکتا ، تو یہ بات نہیں ہے۔* سب لوگوں کو اپنے ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیے۔
تو فقہاء نے بہت پہلے اس کا فتویٰ دے دیا تھا ، اس زمانے میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا ۔۔۔۔
میرے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ [اجازتِ حدیث کا] بڑا اشتیاق رہتا ہے ، بہت شوق رہتا ہے ، اور اس کے بارے میں وقت بھی لوگ بہت لگاتے ہیں ، تو *میری گزارش ہے کہ اس بات پر توجہ دینی چاہیے ، جو چیز جس درجے کی ہے اسی درجے میں رکھنی چاہیے ، اب تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرض اور واجب ہے ، اس کے بغیر ہم روایت نہیں پڑھ سکتے ہیں ،[یا] ہمارا درجہ نیچا ہو جائے گا ، ایسا نہیں ہے۔“* انتہی بلفظہ
اس *گفتگو کا خلاصہ چند نکات میں* کیا جاسکتا ہے :
(1) اجازت حدیث کی ضرورت و اہمیت ماقبل عصر تدوین تک مسلم ہے ، لیکن اب اس کی ضرورت ہے نہ اس قدر اہمیت۔
(2) ہاں یہ حصول برکت اور نسبت کی حد تک درست ہے ، اس لیے اجازت کا عمل زیادہ سے زیادہ ادنی درجے کا مستحب قرار دیا جاسکے گا۔
(3) اجازت کی موجودہ روایت بالخصوص اہل عرب میں قابل اصلاح ہے ، وہاں اصل کو چھوڑ کر اس کو اس قدر اہمیت دی جارہی ہے جیسے یہ کوئی فرض و واجب ہو یا بہت بڑی فضیلت کی چیز ہو۔ یا اس کے بغیر آدمی حدیث پڑھا ہی نہ سکتا ہو ، ایسا نہیں ہے۔
(4) جب کتب حدیث کے مصنفین کی طرف ان کتابوں کی نسبت متواتر ہے ، تو ان سے پہلے سند کی حاجت تو ہے مگر ان کے بعد کسی سند کی کوئی حاجت نہیں ، ہر شخص اسی تواتر کی بناء پر براہ راست مصنف سے روایت کرسکتا ہے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: 24 / فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابو السعود احمد باقوی، امیر شریعت کرناٹک 24 فروری 1996 ء
اے ار خاتون، امت الرحمن 24 فروری 1965 ء
اے ڈی اظہر(احمد الدین) 24 فروری 1974 ء
جمیل صدقی الزھاوی 24 فروری 1936 ء
خان بہادر روہیلہ 24 فروری 1860 ء
راجہ تجمل حسین 24 فروری 2011 ء
سجاد دہلوی، ڈاکٹر (سید سجاد حسین ) 24 فروری 1955 ء
غلام احمد پرویز 24 فروری 1985 ء
مولانا امتیازعلی خان عرشی 24 فروری 1981 ء
مولانا سید عبدالغفار نگرامی ندوی 24 فروری 1998 ء
مولانا عبد السلام مبارک پوری 24 فروری 1924 ء
مولانا قاری امیر حسن مظاہری 24 فروری 2012 ء
میخائیل نعیمہ (مہجری ادیب) 24 فروری 1988 ء
نواب میر عثمان علی خاں، آصف جاہ، نظام حیدرآباد 24 فروری 1967 ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
عربی صرف ، نحو اور بلاغت پر تمرین کے لیے مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں۔ كيف تتقن (الصرف ، النحو ، البلاغة ) کے نام سے ایک بڑی اچھی سیریز نظر سے گزری ہے۔ خاص طور پر دینی مدارس میں جو علما ان فنون کی تدریس سے متعلق ہیں، ان کے لیے یہ سلسلہ کافی مفید ہو سکتا ہے۔ ان تین کتابوں میں قرآن ، حدیث اور کلام عرب سے مثالوں اور مباحث کو ذہن نشین کروانے کے لیے جداول سے مدد لی گئی ہے۔ دینی مدارس میں صرف و نحو کے اجرا کا اہتمام تو ہوتا ہے لیکن بلاغت کا فن بالعموم تمرین کے بغیر ہوتا ہے۔ دروس البلاغة میں تمارین شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ مختصر میں علامہ تفتازانی کا اختصاصی ذوق کتاب کو بوجھل بنا دیتا ہے۔ اس فن کا صحیح حسن تمرین ہی سے کھلتا ہے۔
سید متین احمد (اسلام آباد)
یہ مجموعہ علم وکتاب لائبریری پر دستیاب ہے، کلر کا سائز بڑا ہے، اور بلیک اینڈ وھائٹ کا اس سے کم، ڈون لوڈ لنک میں پروبلم ہونے کی صورت میں آپ براہ راست لائبریری اوپن کرکے انہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ سے گذارش ہے کہ سالانہ تعطیلات میں اپنے طلبہ کو اس قسم کا مواد پڑھا کر دوران تعلیم ہونے والے نقائص کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
كيف تتقن الصرف (ملون)
https://bit.ly/3EJWVRF
كيف تتقن الصرف (أبيض أسود)
https://bit.ly/4bueUIp
كيف تتقن النحو(ملون)
https://bit.ly/438gmO7
كيف تتقن النحو (رمادي)
https://bit.ly/41epheo
كيف تتقن البلاغة (ملون)
https://bit.ly/4b9FmXr
كيف تتقن البلاغة (أبيض وأسود)
https://bit.ly/41dfiG7
علم وکتاب لائبریری
https://bit.ly/4htLAnt
علم وکتاب واٹس اپ چینل
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اردو ’ کٹھ ملاّ ' کی نہیں آنند نارائن ' ملاّ ' کی زبان ہے۔
معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
اردو سے متعلق یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا وہ بیان آج کل سرخیوں میں ہے، جس میں انہوں نے اردو کو 'کٹھ ملّوں' کی زبان قرار دیا ہے۔ اپوزیشن نے جب ایوان کی کارروائی میں دیگر زبانوں کے ساتھ اردو کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیاتو وزیراعلیٰ بھڑک اٹھے۔انھوں نے اپنے عہدے کے وقار کو پس پشت ڈال کرکہا ہے ”اردو پڑھ کر لوگ کٹھ ملا اور مولوی بنتے ہیں، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔“یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ بیان اسی لکھنؤ میں دیا ہے، جہاں کسی زمانے میں اردو کاجادو سر چڑھ کربولتا تھا۔ جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں نے اس زبان کو اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔ حالانکہ آج صورتحال ویسی نہیں ہے، لیکن لکھنؤ کو آج بھی تہذیب و شائستگی کا شہر اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے درودیوار میں اردو زبان اور اس کے کلچر کی بوباس موجود ہے۔وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو کا نام سن کر جو کچھ کہا،وہ دراصل ان کی ذہنیت کی بھرپور عکاسی ہے۔ جب اپوزیشن لیڈر ماتا پرشاد پانڈے نے مطالبہ کیا کہ انگریزی کی بجائے اردو کو ایوان کی زبان بنایا جائے تو اس پر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بہت تیکھے تیور میں کہا کہ ”سماجوادی پارٹی کے لوگ اپنے بچوں کو انگریزی اسکول میں پڑھائیں گے اور دوسروں سے کہیں گے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھاؤ، یہ لوگ انھیں کٹھ ملا اور مولوی بنانا چاہتے ہیں، لیکن اب یہ نہیں چلے گا۔“
ہمیں وزیراعلیٰ کے منہ سے ’کٹھ ملا‘ کا لفظ سن کر اردو کے شاعراور اور ادیب جسٹس آنند نارائن’ملا‘بہت یاد آئے، جنھوں نے ایک بار کہا تھا کہ”اردو میری مادری زبان ہے، میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں مگر مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا۔“
آنند نارائن ملا اسی لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے، جہاں وزیراعلیٰ یوگی نے اردو کے خلاف بیان دیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ان کانام سنا ہے یانہیں؟ اگر یوگی جی ان سے واقف ہوتے تو یقینا اردو سے متعلق اتنی شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کرتے، کیونکہ اردو کے شیدایوں میں میرانیس اور میردبیر کے ساتھ پنڈت دیا شنکر نسیم اور برج نارائن چکبست بھی ہیں۔ علی سکندر جگر مرادآبادی کے ساتھ رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری بھی ہیں۔ منشی پریم چند اور کرشن چندر بھی ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھایا ہے جس کے ساحل پر آج کل صدی کا سب سے بڑا کمبھ اشنان ہورہا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم جسٹس آنند نارائن ملا کے بارے کچھ اور آپ کو بتانا چاہیں گے۔ ہم نے انھیں کئی بار یہاں دہلی میں دیکھا اورسنا ہے۔وہ کشمیری الاصل تھے، لیکن ان کے اجداد لکھنؤ آکر بس گئے تھے اور یہیں پنڈت جگت نارائن ملا کے یہاں 24/ اکتوبر1901کو ان کی پیدائش ہوئی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ پنڈت آنند نارائن ملاکی ابتدائی تعلیم’فرنگی محل‘ میں ہوئی جو ایک مدرسہ تھا۔ ان کے استادکا نام برکت اللہ فرنگی محلی تھا۔اس کے بعد انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1955میں لکھنؤ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔بطور جج ان کا وہ تبصرہ بہت مشہور ہوا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ”پولیس،جرائم پیشہ لوگوں کا سب سے منظم گروہ ہے۔“
جسٹس آنند نارائن ملا نے سبکدوشی کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور 1967کے لوک سبھا الیکشن میں لکھنؤ سے آزاد امیدوار کے طورپر کامیاب ہوئے۔ بعدازاں 1972میں راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے۔ وہ انجمن ترقی اردو ہند کے صدر بھی رہے۔ان کا انتقال 12/جون1997کو دہلی میں ہوا۔
جسٹس آنند نارائن ملا کے تعارف میں یہ سطریں ہم نے اس لیے لکھی ہیں کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہ جان سکیں کہ اس ملک میں اردو زبان اور تہذیب کی نمائندگی صرف ’مسلمان‘ ہی نہیں کرتے بلکہ وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو اعلیٰ ذات کے ہندو تھے اور وہ اپنی مادری زبان اردو کی خاطر اپنا مذہب چھوڑنے تک کو تیار تھے۔ آنند نارائن ملا کی تعلیم بھی ایک مدرسے میں ہوئی تھی جو یوگی جی کی نگاہ میں شدت پسندوں کی آماجگاہ ہے۔ اگر مدرسوں میں شدت پسندی کی تعلیم دی جاتی تو وہاں سے آنند نارائن ملاجیسا روشن خیال انسان پیدا نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے یوگی جی اپنی ریاست کی گنگا جمنی تہذیب اور تاریخ کا مطالعہ کریں۔ انھیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لکھنؤ میں منشی نول کشور بھی ملیں گے، جنھوں اپنی تمام زندگی اردو اور فارسی زبان کو فروغ دینے میں گزاری۔نول کشورنے اردو اخبارہی شائع نہیں کیا بلکہ اردو اور فارسی کی سیکڑوں کتابیں اپنے مطبع سے شائع کیں۔ اتنا ہی نہیں انھوں نے قرآن پاک بھی شائع کیا۔ جب ان کے پریس میں قرآن پاک کی طباعت ہوتی تو اس کے تقدس کا اتنا خیال رکھا جاتا تھا کہ مشینوں سے گزرنے والا پانی نالی میں نہ جانے پائے بلکہ اسے کسی دوسری دوسری جگہ محفوظ کیا جائے۔
وفیات مورخہ 23 فروری
اخگررامپوری (سید نقی علی) 23 فروری 1912 ء
اقبال حیدری 23 فروری 2000 ء
اکبر مستی ٰخان 23 فروری 2001 ء
جسٹس (ر) رانا بھگوان داس 23 فروری 2015 ء
حکیم حبیب الرحمٰن 23 فروری 1947 ء
ڈاکٹر سید اعجاز حسین 23 فروری 1975 ء
ڈاکٹر مہدی حسن 23 فروری 2020 ء
زہرہ جمال ۔ مدھو بالا 23 فروری 1969 ء
شاہ سعود بن عبد العزیز آل سعود 23 فروری 1969 ء
شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری 23 فروری 1962 ء
کنہیالال (مورخ) 23 فروری 1888 ء
گوہر اقبال حور (گوہر بانو) 23 فروری 1977 ء
محمد اسد ( سابق لیوپولڈ ولیس) 23 فروری 1992 ء
محمد عبد الباقی 23 فروری 1968 ء
مختار بیگم 23 فروری 1982 ء
مرزا عزیز جاوید 23 فروری 1984 ء
منشی عبد الرحمن خان 23 فروری 1989 ء
مولانا شبیر احمد دہلوی اشرفی 23 فروری 1998 ء
مولانا قمرالحسن بھاگل پوری 23 فروری 2012 ء
نصر اللہ خان 23 فروری 2002 ء
پیشکش علم وکتاب چینل
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
علمِ نبوت اور نورِ نبوت
مولانا عبیداللّٰه انور رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ سے ایک بار کسی نے دریافت کیا کہ مدارس کے طلباء اس زمانہ میں عملی کوتاہیوں میں کیونکر گرفتار ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ وہ عالم تو ہوجاتے ہیں، مگر با عمل نہیں ہوتے؟ سید صاحب علیہ الرحمہ نے نہایت عمدہ جواب دیا۔ فرمایا: دین مجموعہ ہے، دو جزء کا۔ ایک علمِ نبوت اور دوسرے نورِ نبوت۔ چونکہ طلباء صرف علمِ نبوت تو حاصل کرتے ہیں اور اللّٰه والوں سے نورِ نبوت حاصل نہیں کرتے، اس لیے علم پر قوتِ عملیہ سے محروم رہتے ہیں۔
حوالہ: ھفت روزہ "خدام الدین"/یکم مئی: ١٩٦۴ء/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
جوش ملیح آبادی (وفات 22 فروری) تحریر اخلاق احمد دہلویЧитать полностью…
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ دیر تک کچھ بیٹھے جھک مارا کیے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
جونؔ ایلیا جی ہی جی میں جلا کرتے تھے کہ
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
کچھ یہی کیفیت ہماری تھی۔ ہم بھی جی ہی جی میں کُڑھاکرتے تھے کہ ایک ہم ہی ہیں جو اسلام آباد میں بیٹھے جھک مار رہے ہیں، ورنہ دیگر شہروں میں تو ’’اپنے سب یار کام کررہے ہیں‘‘۔ وہ تو کہیے کہ یہیں بیٹھے بٹھائے ہم پر منکشف ہوگیا کہ اس شغل میں ہم اکیلے نہیں، بڑا بڑا اِس لت میں پڑا ہوا ہے اور بڑے بڑے شہروں میں۔
جدّہ (سعودی عرب) سے سید شہاب الدین صاحب نے پچھلے پرلے روز یہ سوال کرنے کو فون فرمایا کہ
’’اُردو کا ایک معروف محاورہ ہے ’جھک مارنا‘ جس کے مفہوم سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ’جھک‘ کیا چیز ہے؟ یہ لفظ کس زبان سے آیا ہے؟ اوراس محاورے میں ’مارنا‘کیوں استعمال ہوتا ہے؟ آخر ’جھک‘ ہے کیا چیز جسے مارا جاتا ہے؟‘‘
عرض کیا:’’یہ نہایت معصوم جانور ہے، جسے غیر معصوم لوگ مار مار کر اَدھ مُوا کیے دیتے ہیں۔ پھر معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ یہ ہے کیا چیز؟‘‘
جواب سن کرجھلا گئے۔ کہنے لگے: ’’جھک نہ ماریے۔ مسخرا پن فرمانے کے بجائے تحقیق کیجیے‘‘۔ یہ حکم دے کر فون بند کردیا۔
گویا سید صاحب کی نظر میں ’جَھک‘ پر تحقیق کرنا ’جھک مارنے‘ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
صاحبو! ہم تحقیق کیا کریں؟ جیم پر زبر کے ساتھ جَھک ہندی لفظ ہے۔ جَھک کا مطلب ہے بک بک، بڑ بڑ، واہی تباہی گفتگو، بکواس، بیہودہ گوئی، ٹرٹر یا پاگل پن کی بات۔ بہت بک بک کرنے والے یا اپنی فضول ضد پر اڑے رہنے والے حجتی شخص کو جھکّی کہا جاتا ہے۔ بلکہ یوں کہتے ہیں کہ ’’بڑا جھکّی آدمی ہے‘‘۔ (یہ جان کر اطمینان ہوا کہ جھکّی کو بھی آدمی ہی سمجھا جاتا ہے)
رندؔ اپنی دیوانگی کا علاج کروانے کے بعد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں:
باقی ہے ابھی اثر جنوں کا
سودا تو گیا ہے، جَھک رہی ہے
یعنی جنون تو گیا، مگر اثرِجنون بک بک کی صورت میں باقی ہے۔
اے عزیزو! جیسا کہ شہاب بھائی نے فرمایا ’جھک مارنا‘ ایک محاورہ ہے۔ اس محاورے کا مفہوم ہے ’فضول باتیں کرنا یا فضول کام کرنا‘۔ ’محاورے‘ کے الفاظ متعین ہوتے ہیں۔ انھیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اِس میں ایک ’اسم‘ ہوتا ہے اور ایک ’فعل‘۔ ’جھک مارنے‘ میں ’جھک‘ اسم ہے اور ’مارنا‘ فعل ہے۔ محاورے میں فعل اپنے حقیقی معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ مجازی معنوں میں لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سیڑھی سے اُترنا حقیقی فعل ہے، مگر ’دل سے اُترنا‘ محاورہ ہے۔ دل سے اترتے وقت ’اُترنا‘ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ اسی طرح تھپڑ مارنا، مُکّا مارنا یا ڈنڈا مارنا بھی حقیقی فعل ہے۔ لیکن شیخی مارنا، گپ مارنا، ڈینگ مارنا یا جَھک مارنا محاورہ ہے۔ یہاں ’مارنا‘ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں لیا جائے گا۔ اسی طرح قسم کھانا، غصہ پینا اور وعدہ توڑنا جیسے محاوروں میں ’کھانا، پینا اور توڑنا‘ اپنے اصل معنوں میں نہیں لیا جاتا۔ ان افعال کو تبدیل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ محاورے کے دیگر الفاظ بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ الفاظ بدل دیے جائیں تو محاورہ، محاورہ نہیں رہتا۔ مثال ملاحظہ فرمائیے، ’’سورج کو چراغ دکھانا‘‘ محاورہ ہے۔ اگر اس کی جگہ ’’سورج کو دِیا دکھانا‘‘ بولا جائے گا تو یہ محاورے کے خلاف ہوگا۔ حالاں کہ آج کل بلدیہ والے سورج کو دن دِہاڑے ’اسٹریٹ لائٹ‘ دکھا دیتے ہیں۔ اِس کے سوا بھی ان کا محاورہ بگڑا ہی ہوا ہے۔ قصہ مختصر، ’جھک‘ کے ساتھ ’مارنا‘ کا لاحقہ لگانا ضروری ہے۔ یہ محاورے کی مجبوری ہے۔ خیر، یہ توتھیں قاعدے قانون کی باتیں۔ آئیے پھر جھک مارتے ہیں۔
بہت باتیں بنانے کو بھی جَھک مارنا کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرتِ امیرؔ مینائی نے حضرتِ ناصح کی آمد کی اطلاع دیتے ہوئے کہا:
حضرتِ ناصح یہاں آئے تھے آج
دیر تک کچھ بیٹھے جَھک مارا کیے
’جھک مارنا‘ بے نتیجہ اورفضول کام کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے کے علاوہ ’کچھ نہ کرنے‘ کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ جیسے:
’’کتاب شائع کرنے کی ذمے داری اُنھیں کو دی گئی تھی، مگر دو برس تک کچھ نہ کیا، محض جھک مارا‘‘۔
یا’’کیا بتاؤں کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں آج کل کیا کررہی ہیں۔ بس جھک مار رہی ہیں‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’بہت کچھ کرنے‘ کو بھی انکسار کے اظہار کے طور پر ’جھک مارنا‘ ہی کہتے ہیں۔ مثلاً:
’’ہم بھی پچاس برس سے صحافت کے میدان میں جھک مار رہے ہیں‘‘۔
(اب ان بزرگ سے کون پوچھے کہ اب تک مار کیوں نہیں پائے؟)
’جَھک جَھک کرنا‘ تو تو مَیں مَیں کرنے یا تکرار کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ توتو میں میں طول پکڑ جائے تو کہا جاتا ہے:
’’دونوں میں بڑی دیر سے بک بک جھک جھک ہورہی ہے‘‘۔
عموماً جیم پر زبر کے ساتھ جَھک جَھک کی جاتی ہے، لیکن لغت اجازت دیتی ہے کہ آپ کا جی چاہے تو جیم کے نیچے زیر لگاکر جِھک جِھک کرلیجے۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہی نکلے گا کہ آپ کی جَھک جَھک یا جِھک جِھک بند ہوگی تو لوگ داغؔ کی طرح اطمینان کا سانس لیں گے:
🍁يقول ابن كثير في كتابه ..
(البداية والنهاية) :
أنه كان (لهارون الرشيد) ابن اسمه (احمد) أطلق عليه المؤرخون (أحمد السبتي ، لأنه كان يتكّسب بيده في يوم السبت شيئا ينفقه في بقية الأسبوع ويتفرغ للإنشغال بالعبادة فعرف بهذه الكنيه (أحمد السبتي)
ترك (بغداد) وذهب إلى (البصرة) دون أن يعلم أحد أنه ابن أمير المؤمنين.
وكان يعمل طياناً يوم السبت فقط (أي يبني بالطين) ثم يتفرغ باقي الأسبوع لعبادة الله عز وجل ، وكان يشترط على من يستأجره لهذا العمل أن يعطيه وقتاً كافياً للصلاة حين يؤذن لصلاة الظهر والعصر.
عاش (أحمد السبتي) في بيت متواضع جداً في (البصرة)
لا يوجد فيه إلا بردة قديمة ووسادة من الليف وكان له صديق يأتي له بالعمل لو أراد أحد أن يبني سور أو أي شيء.
وفي يوم سبت ذهب إليه في مكان يجتمع فيه العمال ليتفق معه على بناء جدار فلم يجده ، فسأل عليه أحد العمال فقال: (لم يأتي منذ فترة).
فبحث عن بيته حتى وجده ودخل عليه وهو في مرض الموت فأعطاه (أحمد السبتي) خاتماً وقال له :
(بعد أن تكفني وتدفني ، إذهب بهذا الخاتم إلى أمير المؤمنين في بغداد وأعطه إياه وقل له :صاحب هذا الخاتم يقول لك :
إياك أن تموت في سكرتك هذه فتندم حيث لا ينفع نادماً ندمه وإحذر إنصرافك من بين يدي الله إلى الدارين ، فإن ما أنت فيه لو دام لغيرك لم يصل إليك ، وسيصير إلى غيرك ، وقد بلغلك خبر من مضى).
قال هذا وفاضت روحه إلى خالقها وذلك في سنة 184ھجرى.
وذات يوم كان (هارون الرشيد) جالساً في قصر الإمارة ، فإذا برجل يستأذن عليه في الدخول ، ولما أذن له طلب منه أن يجلس معه على إنفراد لأمر هام وعلى الفور أخلى (هارون الرشيد) القاعة ، فأخرج الرجل الخاتم وقدمه له ، فلما نظر في الخاتم عرفه ، وقال له : (أين صاحب هذا الخاتم ).قال الرجل : (مات يا أمير المؤمنين).
وذكر له الكلام الذي أوصاه به وأن الرجل كان يعمل بالفاعل يوماً كل سبت فقط بدرهم ودانق يتقوت به سائر أيام الاسبوع ، ثم يقبل على العبادة.
فلما سمع (الرشيد) هذا الكلام أجهش بالبكاء ،و هو يقول: والله لقد نصحتني يا ولدي ، ويشهق من شدة البكاء)
ثم رفع رأسه إلى الرجل ، وقال: أتعرف قبره )
قال :
(أنا الذي دفنته)
فأمر أمير المؤمنين بإعداد رحلته للسفر إلى (البصرة) ولما وصل إلى قبر ابنه بكى بكاءاً شديداًً ، وقال : (رحمه الله لقد رفض أن يعيش إلا من عمل يده وترك زينة الدنيا لنا).
رحم الله أحمد السبتي الزاهد العابد.
📘المصادر:
- البداية والنهاية - ابن كثير.
- سير أعلام النبلاء - الذهبي.
مولانا امین احسن اصلاحی نے ایک بار ایک معاصر کا علمی محاکمہ کیا۔انصاری صاحب کی روایت ہے کہ ہم نے دوبارہ ان کے بارے میں لکھنے کی فرمائش کی تو انہوں نے فرمایا: ’میں کسی کے خلاف دوبار قلم نہیں اٹھاتا‘۔
مناظرے کی نفسیات اس بات کو سمجھ نہیں سکتی۔ ہمارے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ سیاست اور مذہب کی ترجمانی مناظر حضرات کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ اس وجہ سے سماج میں مکالمہ نہیں ہو رہا۔ اہلِ سیاست ایک جگہ مل بیٹھتے ہیں نہ اہلِ مذہب۔ اگر کبھی ملتے بھی ہیں تو کسی مفاد کے لیے۔ جیسے ہی کام نکل جاتا ہے، وہ اپنی صف الگ کر لیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سماج میں فاصلے بڑھنے لگے۔لوگ ایک دوسرے سے دور ہونے لگے۔ اس سے بدگمانیاں پیدا ہوئیں اور اکثر بات صریح بہتان تک جاپہنچی۔ یوں نفرت اور بد اعتمادی کو فروغ ملا۔
ختمِ نبوت کا مطلب یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کے بعد ہمیں اپنی اوقات کا احساس ہونا چاہیے۔ زیرِ آسمان اب کوئی ہستی ایسی نہیں کہ جس کی زبان سے صرف حق صادر ہوتا ہو۔ہماری بات میں غلطی کا امکان موجود ہے اور دوسرے کے موقف میں صحت کا۔ اگر یہ احساس زندہ رہے تو پھر ہمارے درمیان مکالمہ ہوگا نہ کہ مناظرہ۔ ہم دوسروں کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اگر تنقید کریں گے تو پہلے سمجھیں گے کہ فہم کے بغیر تنقید تعصب اور جہالت ہے۔ اسی سے بات بہتان تک جاپہنچتی ہے جو بڑا گناہ ہے۔ ہمیں اس مقام پر کھڑا نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ ہمارے شر سے بچنے کے لیے ہم سے بات کرنے سے گریز کرنے لگیں۔ ہمارے بارے میں یہ رائے پیدا ہو کہ اِن سے مکالمہ نہیں ہو سکتا۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اس شوق نے ایک قدم آگے بڑھایاآخری سال تھا،صحیح بخاری کا آغاز تھا،ہم درس ساتھیوں میں کچھ غالی حنفی تھے اور کچھ مائل الی الحدیث،آخری لقب کا اطلاق خود مجھ پر تھا۔درجے میں یہ دونوں قسم کے لڑکے ہر روز اسباق میں الجھتے اور سوال و جواب کرتے تھے،اور آخر درسگاہ سے اٹھ کر اپنے اپنے ثبوت کے لئے کتابوں کی طرف دوڑتے تھے۔دوسرے اشخاص امام طحاوی اور حافظ عینی کا سہارا ڈھونڈھتے تھے،اور میں حافظ ابن حجر ؒ کی فتح الباری کی پناہ۔اسی سلسلے میں فتح الباری کے مقدمے کے مطالعے کی توفیق ملی،اور ا س کا نتیجہ امام بخاری پر میرا وہ مضمون ہے جو الندوہ میں ۱۹۰۶ ء میں نکلاہے۔
حدیث کے شوق نے رجال کی طرف اور رجال نے تاریخ کی طرف بڑھایا،اور اس سلسلے میں ابن ندیم کی کتاب’’الفھرست‘‘، حاجی خلیفہ کی ’’کشف الظنون‘‘ اور ابن خلکان کی ’’وفیات‘‘کے مطالعے پر آمادہ کیا۔میں نے ابن خلکان کی کتاب اتنی دفعہ بار بار پڑھی کہ اس کے حواشی اور حوالوں سے اس کے اول و آخر کے صفحے بھر گئے۔مولانا شبلی نے ۱۹۰۸ ء میں حیدرآباد کے ایک سفر سے واپس آکر مجھے اس کے انگریزی یا فرنچ مترجم کا جب ایک تبصرہ دیا،اور تعریف فرمائی کہ دیکھو یورپین کس دقت نظر سے کسی کتاب کو دیکھتے ہیں،تو میرے دل میں ایک ٹھیس لگی اور میں نے ابن خلکان پر اس سے بہتر تبصرہ لکھ کر پیش کیا جو الندوہ میں چھپا۔
ہاں شروع میں ایک بات بھول گیا۔میرے وطن دیسنہ کے قریب ایک دوسرا مشہور قصبہ استھانواں ہے۔مولانا وحیدالحق صاحب (استاد وخسر مولانا محمد سجاد صاحب ،نائب امیر شریعت بہار)کی ایک چھوٹی سی کتاب’’مغنی الصبیان‘‘ ہاتھ آئی،اس میں مختلف ضرورتوں کے عربی الفاظ اور ان کے معنی لکھے ہیں۔یہ مجھے بڑی انمول چیز ہاتھ آئی،میں نے اپنے ہاتھ سے اس کو نقل کیا اور یاد کیا۔یہ ادب عربی کی طرف میری توجہ کا پہلا قدم تھا۔اس کا نتیجہ تھا کہ جب مجھے ادب عربی پر سب سے پہلے لکھنے کا خیال آیا،تو اسی طریق پر ’’دروس الادب‘‘ کی بنیاد ڈالی۔
ادب عربی کی تعلیم مولانا فاروق اور مولانا سید عبدالحی صاحب مرحوم کے زیر سایہ ہوئی،مگر یہ دونوں بزرگ متاخرین کے طرز کے زخم خوردہ تھے۔مولانا شبلی مرحوم کے حسن توجہ سے جب دلائل الاعجاز جرجانی درس میں پڑھنے کو ملی،تو سب سے پہلے متقدمین کا طرز انشا دیکھنے کو ملا،شوق سے پڑھی اور اس کی نقالی کی،اور کچھ عربی لکھنے اور بولنے کی شدبد پیدا ہوئی،حماسہ اور نقد الشعر نے اس ذوق پر جِلا دیااور ان کی پیروی نے نظم کا کچھ انداز پیدا کیا۔
علم کلام کاشوق تمام تر مولانا شبلی کی تربیت کا نتیجہ ہے،ان کی تصنیفات پڑھیں،ان کی حوالہ دی ہوئی کتابیں دیکھیں،ملل و نحل شہرستانی اور فصل فی الملل والنحل ابن حزم نگاہوں میں رہی،ابن رشد کی کشف الأدلہ اور شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی حجۃ اللہ البالغۃ،سب نے یکے بعد دیگرے اپنا رنگ دکھایا،بالآخر علامہ ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیم کی تصنیفات نے ہر نقش کو مٹاڈالااور ہر رنگ کو بے رنگ کردیا۔
سب سے آخری جلوہ قرآن پاک کا نظر آیا۔مولانا شبلی مرحوم نے اس کا آغاز کیااور مولانا حمید الدین مرحوم کی دلچسپ و مفید صحبتوں میں یہ چسکا اور آگے بڑھتا گیا،اور اسی کا یہ اثر ہواکہ سیرت نبویﷺ کی ہر بحث میںقرآن پاک میری عمارت کی بنیاد ہے،اور حدیث نبویﷺ اس کے نقش و نگارہیں۔اور اب یہ دونوں میرا سرمایہ ،اور یہ دونوں میرا زادِ راہ ہیں۔ایک اصل ہے دوسرا ظل،ایک وحی جلی ہے دوسرا وحی خفی،ایک دلیل ہے دوسرا نتیجہ،جس کو یہ ایک ،دو نظر آتے ہیں وہ ’’احول‘‘ ہے۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ.
سرتیج بہادر سپرو (وفات 21 فروری ) تحریر ڈاکٹر سید اعجاز حسین
Читать полностью…علم اوراس کی برکتیں انہی حضرات کو ملی ہیں جنہوں نے دنیا کے وقتی وفانی لذائذ سے منہ موڑ لیا اور زہد وقناعت کو اپنا میر کاروان بنالیا ، دولت اور اہل دولت سے بے نیازی اختیار کرلی، کتاب و سنت کو اپنا قبلہ و کعبہ بنالیا اور اُسے اپنا بنالیا اور اسی میں اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔(کاروانِ حیات 4/1)
انتخاب: محمد رضی قاسمی
مسلمانوں کے لیے سوچنے کی بات
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
مسلمانوں کو اپنے اصولِ حکومت، اصولِ اقتصاد، اصولِ معاشرت، معاملاتِ قانون اور احکام کے متعلق یہ سوچنا نہیں ہے کہ ان کی جگہ پر کیا ہو؟ کیوں کہ اس کے معنیٰ تو یہ ہیں کہ ان کا دین کیا ہو؟ بلکہ سوچنا یہ ہے کہ ان کو کس طرح رائج کیا جائے اور نئی شکلوں کے لیے اسلامی اصول کے مطابق کیا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
شذراتِ سلیمانی حصہ سوم/صفحہ: ۳۷۴/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B