علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
وفیات مورخہ: ۲۶ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
پروین شاکر 26/دسمبر/1994ء
ضمیر الدین احمد 26/دسمبر/1990ء
علاء الدین احمد، پروفیسر 26/دسمبر/1975ء
غفور احمد، پروفیسر(عبدالغفور) 26/دسمبر/2012ء
فرید الحق ، پروفیسر سید شاہ 26/دسمبر/2011ء
وجد چغتائی (مرزا محمد ایوب چغتائی) 26/دسمبر/1993ء
وجیہ الدین، حاجی محمد 26/دسمبر/1963ء
مولانا محمد شمیم 26/دسمبر/2001ء
دل شاہجہانپوری 26/دسمبر/1959ء
پروفیسر عبد الغفور احمد 26/دسمبر/2012ء
سکندر حیات خان 26/دسمبر/1942ء
قاری مصطفی اسماعیل 26/دسمبر/1978ء
ریاض کھوکر 26/دسمبر/2023ء
۳۱ مارچ ۱۹۷۷ء کی صبح ہم لوگ مولانا کے ساتھ کمرے میں بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ ماسٹرعثمان حسن کی رحلت کی خبرپہونچ گئی، شدت غم سے دل دہلا دینے والی ایک چیخ اٹھی اورکچھ لمحات کیلئے بے ہوشی طاری ہوگئی، ہم سب گھبرااٹھے، جامعہ کے ابتدائی ایام میں ماسٹر صاحب سے مولانا کا بڑا گہرا تعلق تھا ۔
مولانا کے نیازمندوں کی دلی تمنا تھی کہ مولانا کے آخری ایام ان کے درمیان گذریں، لیکن ایسا نہ ہوسکا، واپسی کے کچھ دنوں بعد ناگہانی خبرآئی کہ رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ میں مولانا نے ایک ہفتہ ہردوئی اورایک ہفتہ رائے بریلی میں گزارنے کی غرض سے ہردوئی کے راستے ندوہ پہنچے، مولانا معین اﷲ صاحب ندوی سے ملاقات کی اورمولاناعبدالعزیز خلیفہ ندوی بھٹکلی وغیرہ احباب کی تلاش میں سلیمانیہ ہوسٹل جارہے تھے کہ راستے میں ندوہ کی مسجد کے دروازے پردل کا دورہ پڑا، ڈاکٹرکوبلایاگیا، معاینہ ہوا، انجنکشن لگے، آکسیجن پہونچی، بارہ بج کردس منٹ پرمولانا نے ڈاکٹروں سے فرمایا کہ آپ لوگ ناکام ہوگئے اورآنکھیں ہمیشہ کیلئے بند ہوگئیں ۔
ندوہ کی مسجد سے مولانا کی زندگی کا بڑاربط تھا، آئی ایچ صدیق اور انجمن کے وفد کی ملاقات اس کی تعمیر کے دنوں میں یہیں پر ہوئی تھی، یہیں پر اپنے پیرومرشد کے حکم کو مان کرایک ویرانے کوآپ نے آباد کیا تھا، نصف صدی کے بعد جب مولانا یہاں سے گذرے ہونگے توپرانی یادیں لوٹ آئی ہونگی، وہ چہرے یہاں پر چلتے پھرتے نظرآئیں ہونگے جن کی صورتیں کبھی کی خاک میں پنہاں ہوچکیں، خلوتوں اورجلوتوں کے وہ لمحات نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہوںگے جن کیلئے اب آنکھیں ترس گئیں تھیں، اب مولانا تھے اورکبر سنی کی ڈسنے والی تنہائیاں، مولانا مسعودعلی ندوی کی روح نے دعوت دی ہوگی، بہت دیرہوگئی بہشت میں آکرگلے مل لو، مولانا نگرامی بڑی دیرسے انتظارمیں ہیں ، اور مولانا دریابادی بھی ابھی ابھی آئے ہوئے ہیں۔
۱۹۳۱ء سے ۱۹۷۸ء تک مولانا نے وقفہ وقفہ سے تین باربھٹکل کوفیض یاب کیا، پہلاوقفہ دس سال پر، دوسراچھ سال پر، تیسراچند مہینوں پر مشتمل تھا ،تینوں مرتبہ بدقسمتی سے مولانا کی واپسی خوش گواراندازسے نہیں ہوسکی، نہ ہی رخصتی پرکوئی سپاس نامہ پیش کیا جاسکا، مولانا کوداغ مفارقت دئے بھی ربع صدی سے زیادہ کا طویل عرصہ بیت چکاہے،ہمارے ناقدرشناس ماحول میں مولانا کی ایک دھندلی شبیہ چند افراد کے ذہنوں میں موجود رہنے کے علاوہ آپ کویادرکھنے کے اسباب معدوم نہیں تونایاب ضرورہیں، مولانا کا نام اب تک ذہنوں میں محفوظ ہے ، یہی مولانا کی بہت بڑی کرامت ہے ۔
مولانا نے بھٹکل میں اپنے جوآثارچھوڑے، مختصرعرصہ ہونے کے باوجود جامعہ میں آپ کی خدمات کا پہلونمایاں ہے لیکن یہاں پرمولانا کے مقام کے تعین میں بڑا الجھاؤپایا جاتاہے اوراس کا سب سے بڑاسبب بھٹکل والوں کی یہ ستم ظریفی ہے کہ یہاں پرمعمولی تنخواہ پاکرخدمت کرنے والے کی قربانی کااعتراف نہیں کیا جاتا، اعزازی عہدیداروں کوہرحال میں فوقیت حاصل رہی ہے، آئی ایچ صدیق،عثمان حسن مرحوم تنخواہ دارہونے کی وجہ سے اپنی زندگی میں وہ مقام نہ پاسکے جس کے بجاطورپر وہ مستحق تھے ، مولانا ندوی کے ساتھ بھی یہی کچھ المیہ پیش آیا۔
روداداجلاس اول کے مطابق ۱۷مارچ ۱۹۶۲ء قیام جامعہ کا فیصلہ ہونے سے پیشترجامعہ کے قیام کے مشوروں میں مولانا شریک رہے اور ۲۰اگست ۱۹۶۲ء باقاعدہ افتتاح سے قبل ہی مولانا تحریک جامعہ سے وابستہ رہے اورقرارداد جامعہ ۱۷/اکتوبر ۱۹۶۳ء کے مطابق مولانا جامعہ کے مختارکل قرارپائے، روداد اجلاس اول میں ثبت ان شواہد کے بعد یہ بحث کہ مولانا جامعہ کے بانیان میں شمارہوسکتے ہیں یا نہیں بے معنی ہوکررہ جاتی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی اورمولانا ندوی کے حالات میں یک گونہ مشابہت پائی جاتی ہے ،علامہ شبلی ندوہ سے علحدگی پرمجبورہوئے، ندوہ کی چہاردیواری میں آپ کے مخالف حاوی رہے لیکن علامہ نے ندوہ کوجومنھج دیا یہی منھج ندوہ کاطرہ امتیازبن گیا اور اس سے ندوہ کی چہاردانگ عالم میں شہرت ہوئی ۔
مولانا عبد الحمید ندوی کی جامعہ سے علاحدگی کے بعد جامعہ بھی کئی ایک بحرانوں کے دلدل میں پھنس گیا، لیکن مولانا کے دورمیں ندوی فکرسے جامعہ کی جووابستگی ہوئی اس میں سرموانحراف نہ ہوسکا بلکہ ان تعلقات میں روزبروزاستحکام آتا گیا اوربھٹکل میں اس کی جڑیں اتنی مضبوط وپائیدارہوگئیں کہ ناظم ندوہ حضرت مولانا سید محمدرابع صاحب حسنی ندوی نے اپنے ایک مضمون میں اظہارخیال کرتے ہوئے فرمایا کہ وطن عزیزمیں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی کہ شہرکی چندایک کوچھوڑکرجملہ مساجد میں جامعہ وندوہ کے فضلاء کی اتنی بڑی تعداد امامت وخطابت پرفائزہو ۔
سنو سنو!!
پوش کالونی
(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
اپنے پرانے محلہ ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، ان پڑھ و جاہل متعلقین اور جھگی جھونپڑی نیز تنگ و تاریک گلیوں اور بچوں کے شور شرابہ سے پریشان ہوکر ہرگز کسی ایسے علاقہ میں نہ جائیں جہاں آپ کے ہم مذہب نہ ہوں یا کم ہوں کیونکہ شیر کیسا ہی کمزور ہو اپنی نسل میں ہی محفوظ رہتا ہے ورنہ خونخوار کتے شکار بنالیتے ہیں ۔
ہر کہ گرداند ز خویشاوند رو
بے گماں نقصاں پذیرد عمر او
(جو شخص اپنوں سے چہرہ پھیر لیتا ہے بے شک اس کی عمر گھٹ جاتی ہے)
گجرات فسادات میں سروے کے بعد پتہ چلا ہے کہ زیادہ تر ان ہی لوگوں کو ٹارگیٹ اور نشانہ بنایا گیا جنھوں نے ہوش کالونیوں میں اپنوں سے کٹ کر اور ہٹ کر رین بسیرا بنالیا ،
ہر کہ او ترک اقارب می کند
جسم خود قوت عقارب می کند
(جو شخص اپنے عزیز واقارب سے ترک تعلق کرلیتاہے تو گویا وہ اپنے جسم کو بچھوؤں کے حوالہ کردیتاہے۔)
سکون کی ضرورت ہے تو آپ کو مسجدوں سے بہتر دنیا میں کوئی جگہ نہیں ملے گی، فارسی کی مشہور کہاوت ہے کہ "حفظ نعمت ها در سایه ارتباط فامیلی است" یعنی نعمتوں کی حفاظت اپنوں سے مربوط رہنے میں ہے، آپسی جھگڑے سمندری جھاگ کے مانند ہونے چاہئیں جو ہوا کے جھونکوں سے دب جایا کرتے ہیں ، غیروں کے درمیان پہنچ کر آپ کو بہت سی نئی پریشانیاں نظر آئیں گی مثلا وہاں روز روشن میں بھی شب دیجور سا سناٹا ہوگا ، باہر کچھ بھی ہوتا رہے کوئی مدد کو اپنے گھر سے نہیں نکلے گا ، لوگ ایک دوسرے کے یہاں بالکل ملنے نہیں جائیں گے ، ہمدردی نام کو نہیں ہوگی ، اجنبیت اور غیریت کی حکمرانی ہوگی ، کبھی کوئی اچھی چیز کسی کے یہاں نہ تو بھیجی جائے گی نہ قبول کی جائے گی کیونکہ پوش کالونیوں میں قیام پذیر افراد اپنے دماغ میں ایک حصار کھینچ لیتے ہیں اپنا ایک اسٹینڈرڈ بنالیتے ہیں اس سے نکلنے کو اپنی عار اور توہین سمجھتے ہیں وہ گھنی بستیوں اور غریب لوگوں کو بہ نظر حقارت دیکھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غربت اور امارت کے درمیان کی خلیج مزید گہری ہوجاتی ہے ، غریب انسان اپنی غربت میں خوش رہنا چاہتا ہے اسے اپنے محلہ اور گلی کا شور اچھا لگتا ہے کیونکہ اسے شور شرابہ سے انس ہے ۔
ہرکہ او از خویش خود بے گانہ شد
نامش از روئے بدی افسانہ شد
(جو شخص اپنوں سے بیگانہ ہوا اس کا نام برائی کے ساتھ مشہور ہوا)
گجرات فسادات میں ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری اور ان کی فیملی پوش علاقہ میں رہتی تھی دہشت گردوں نے پوری فیملی کو شہید کردیا بلکہ گلبرگہ سوسائٹی کے 69افراد کو شہید کردیا، غریبوں کے پاس دولت نہیں ہوتی لیکن وہ حوصلہ مند ہوتے ہیں جری اور بہادر ہوتے ہیں ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ایک دوسرے کے لئے دل میں جگہ رکھتے ہیں بھلے ہی ان کے مکانات تنگ ہوں اپنی گلیوں کو ہی بارات گھر بنالیتے ہوں لیکن جو سکون اور اپنائیت وہاں ہے پوش علاقوں میں کہاں ۔نظمی سکندری آبادی نے خوب کہا ہے :
کوٹھیوں میں نکلے گا آدمی بھی مشکل سے
جھونپڑوں میں ممکن ہے دیوتا نکل آئے
ہمارے ڈاکٹر محمد حنیف مرحوم نے سکروڈہ سے سہارنپور میں گھر بنالیا پھر سہارنپور میں گھنی مسلم بستی سے ہٹ کر ایک پوش علاقہ میں کوٹھی لے لی یہاں یا تومسلمان بہت ہی کم تھے یا نہ ہونے کے درجہ میں تھے ایک بار فساد پھوٹ پڑا تب انھیں اپنی پرانی گلی اور کوچے یاد آئے ان گلی کوچوں میں حفاظت کا جو یقین تھا وہ یقین یہاں بالکل ختم ہوچکا تھا پھر جب حالات نارمل ہوئے تو اپنی مہنگی کالونی بیچ کر خالص مسلم آبادی میں مکان بنوایا ، کہا کرتے تھے مسلمان مسلمان کے لئے مسلمان ہی ہے غیر نہیں ہوسکتا اور غیر ہمارے لئے غیر ہی ہے اپنا نہیں ہوسکتا۔
گرچہ خویشان تو باشند از بداں
بدتر از قطع رحمی چیزے مداں
(اگرچہ آپ کے اپنے برے ہوں ،ان سے ترک تعلق کرنا زیادہ براہوتا ہے)
میں اعلی اور معیاری کالونیوں کی مخالفت نہیں کرتا آپ کالونی کاٹیں ، رہائش اختیار کریں لیکن اپنوں میں ، غیروں کے درمیان آپ ہمیشہ ہی غیر رہیں گے۔ وہ آپ کے جسم و جاں کے دشمن بعد میں ہیں پہلے تو آپ کے دین و شریعت ہی کے دشمن ہیں ، ان کو کان کے پردے پھاڑ دینے والے گانوں ، باجوں اور ڈی جے سے کوئی پریشانی نہیں ہے انھیں تو ایک دو منٹ کی سادہ سی اذان سے نفرت اور وحشت ہے ، وہ گوبر ، موت سے نہیں آپ کے عطر و خوشبو سے پریشان ہیں ، وہ اپنے رنگ برنگے کپڑوں سے نہیں آپ کے سفید لباس سے خوف زدہ ہیں ، وہ دنیا بھر کے نعروں اور شور شرابوں سے پریشان نہیں ہیں بلکہ اللہ اکبر کی صدائے شیریں سے خائف ہیں۔ وہ ہرگز آپ کے نہیں ہوسکتے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ہم نے بھی فراق کو دیکھا تھا
میں نے 1991 میں جب اپنا پندرہ روزہ اخبار”خبردار جدید“ جاری کیا تو ا س کی اعزازی کاپی جن سرکردہ ار دو ادیبوں کو روانہ کی جاتی تھی، ان میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام بھی شامل تھا۔عام طور پر اتنے مصروف لوگوں کے پاس اس قسم کے اخبارات ورسائل کی اعزازی کاپیاں آتی ہیں تو وہ اکثرردی کی ٹوکری کی نذرہوجاتی ہیں، لیکن مجھے یہ جا ن کر حیرت ہوئی کہ فاروقی صاحب میرے اخبار کے مستقل قاری تھے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں نے پروفیسر محمدحسن کی تجہیز وتدفین کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔ یہ اتنا عبرت ناک تھا کہ ملک کے تمام ہی اخباروں نے اسے نقل کیا۔ اس سلسلہ میں 8 مئی2010کو فاروقی صاحب نے ای میل کے ذریعہ جو خط مجھے ارسال کیا، وہ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
”برادرم معصوم مرادآبادی، السلام علیکم
ادھر کچھ دنوں سے آپ کا اخبار نہیں ملا۔میں امید کرتا ہوں کہ میرا نام ابھی فہرست میں ہوگا۔ اگر کٹ گیا ہے تو براہ کرم دوبارہ درج کرادیں۔ آپ چاہیں تو میں مناسب رقم کا ڈرافٹ بھیج دوں۔ مجھے آپ کا اخبار بہت پسند ہے۔
محمدحسن کے جنازے اور تدفین کے بارے میں آپ کا مضمون دیکھا۔آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ میں اسے اپنے ’خبرنامہ‘ میں شائع کرنا چاہتا ہوں۔ اجازت مرحمت فرمائیے اور یہ بھی لکھئے کہ یہ آپ کے اخبار کی کس اشاعت میں شائع ہوا ہے۔
امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔
آپ کا
شمس الرحمن فاروقی
فاروقی صاحب نے ”شب خون“ کی اشاعت بند ہونے کے بعد ’خبرنامہ شب خون‘ کے عنوان سے ایک مختصر پرچہ جاری کیا تھا جو مخصوص لوگوں کو بھیجا کرتے تھے۔ اس خط سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری محنت رائیگاں نہیں جارہی تھی اور میں اپنا جو اخبار انہیں روانہ کررہا تھا‘ وہ باضابطہ ان کے مطالعہ میں تھا، درمیان میں ڈاک کی خرابی کے سبب جب اخبار ان تک نہیں پہنچا تو انھوں نے اس کی یاددہانی کرائی۔ظاہر ہے یہ بھی چھوٹوں کو بڑابنانے کا ایک طریقہ ہے۔فاروقی صاحب ان لوگوں میں ہرگز نہیں تھے جو محض علم وادب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے بڑا ہونے کاڈھونگ رچاتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں علم وادب کے رسیا تھے اور انھیں جہاں سے بھی حاصل ہوتا اسے بے تکلف حاصل کرتے۔ اس خط کے بعد جب وہ دہلی تشریف لائے تو انھوں نے مجھے یاد کیا اور میں نے جامعہ کے مجیب باغ میں ان کی بیٹی کے گھر پران سے تفصیلی ملاقات کی۔ کبھی کبھی ان سے فون پر بات ہوتی تھی۔
شمس الرحمن فاروقی نے اپنی غیرمعمولی ادبی خدمات کے لئے ادب کے تمام ہی بڑے اعزازات حاصل کئے۔1982 میں تنقیدات میر پر چار جلدوں پر مشتمل ان کی غیرمعمولی تصنیف ”شعرشورانگیز“ کوادب کا سب سے باوقار انعام ’سرسوتی سمان‘ ملا۔ 1986 میں شاعری پران کی کتاب ”تنقیدی افکار“ کو ساہتیہ اکادمی نے انعام سے نوازا۔2009میں حکومت ہند نے ان کی ادبی خدمات کے عوض انھیں ’پدم شری‘ کے اعزاز سے نوازا۔2010 میں حکومت پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی اور دہلی اردو اکادمی نے انھیں اپنے سب سے بڑے اعزاز بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے سرفراز کیا۔یہ ان کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے کبھی ان اعزازات کو اپنے سینے پر نہیں سجایا۔ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ’پدم شری‘ نہیں لکھا۔ظاہرہے ان کی شناخت انعام واکرام نہیں تھے بلکہ وہ کام تھا جس کی بنیاد پر انھیں موجودہ عہد میں اردو کا سب سے بڑا ادیب تسلیم کیا گیا۔وہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئرمین بھی رہے اور اس کے بنیادی خدوخال طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
2006 میں شائع ہونے والاان کا شہرہ آفاق ناول ”کئی چاند تھے سرآسماں“ منظر عام پر آیا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ہمارے عہد کے ایک بڑے فکشن نگار انتظار حسین نے ان لفظوں میں اس ناول کا استقبال کیا”مدتوں بعد اردو میں ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندوپاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچادی ہے۔“ یہ حقیقت ہے کہ اس ناول نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے اور یہ اردو فکشن کی بہترین کتاب قرار پائی۔فاروقی صاحب نے اس ناول میں تاریخ اورفکشن کا بہترین تانا بانا بن کراپنے قارئین کو ماضی کا پیرہن اوڑھا دیا۔اس کی بے پناہ مقبولیت کے سبب خود فاروقی صاحب نے اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کرایا۔ بعد کو یہ ناول ہندی میں بھی شائع ہوا۔
فاروقی صاحب نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں جدیدیت کا علم اٹھایا۔1966 میں انھوں نے ایک منفرد جریدے ”شب خون“ کی داغ بیل ڈالی، جس کی اشاعت تقریباً چالیس برس تک جاری رہی۔یہ دراصل ان ادیبوں کی پناہ گا ہ تھا جو ترقی پسند تحریک سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ اس دوران فاروقی صاحب کے نظریات پررنگ برنگے الزامات بھی لگے۔ انھیں سی آئی اے کا ایجنٹ بھی قرار دیا گیا۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ”شب خون“ میں علی سردار جعفری، عصمت چغتائی اور راجندرسنگھ بیدی جیسے ترقی پسند ادیبوں کوبھی جگہ ملی۔جب اس کی اشاعت بند ہوئی تو انھوں نے ”خبرنامہ شب خون“ کے نام سے کچھ
وفیات مورخہ ۲۵ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
غلام احمد فلاحی مدراسی، نواب 25/دسمبر/1948ء
نواب غلام احمد کلامی مدراسی 25/دسمبر/1948ء
احمد بشیر 25/دسمبر/2004ء
سر سکندر حیات خاں 25/دسمبر/1942ء
شمس الرحمن فاروقی 25/دسمبر/2020ء
غلام احمد فلاحی مدراسی، نواب 25/دسمبر/1948ء
نواب غلام احمد کلامی مدراس 25/دسمبر/1949ء
ذیل سنگھ 25/دسمبر/1994ء
راجہ جی، چکرورتی راجگوپال اچاریہ 25/دسمبر/1972ء
سید آدم بنوری 25/دسمبر/1643ء
مولانا عبد الحمید ندوی،جامعہ کے علامہ شبلی(قسط ۔04)
(استاد الاساتذہ و معتمد اول جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی رحلت مورخہ ۱۳رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ مطابق ۱۷ اگست ۱۹۷۸ء پر لکھی گئی تحریر )
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
۱۹۶۷ء تک جملہ ۵ سال سے زیادہ عرصہ مولانا نے جامعہ کا نظم با اختیارمعتمد کی حیثیت سے چلایا، حالانکہ آخری ایام میں جامعہ کی ایک مجلس منتظمہ تشکیل پاچکی تھی لیکن اس کے ارکان عموماً مولانا ہی کے شاگردتھے، اس پرمستزاد مولانا کی شان جلالی ، آپ کے سامنے کون زبان کھول سکتا تھا۔
مولانا کے نظم ونسق کااپناایک جداگانہ اندازتھا، یہ رکھ رکھاؤ اوررعب وداب کا سنگم تھا اورانجمن میں درس وتدریس سے ایک عشرہ تک وابستگی سے بھٹکل میں معززین شہرکی معتد بہ تعداد آپ کے حلقہ تلمذ میں آچکی تھی، لہذا تعلیم وتربیت کا وہ قدیم اصول کہ ہڈی وچمڑی والدین کی اورباقی سب استاذ کا تو مولانا اس تہذیب کی آخری نشانیوں میں تھے ۔
اداروں کی تاریخ میں پانچ سال کاعرصہ کوئی طویل مدت شمارنہیں ہوتا، باوجود اس کے مولانا نے جامعہ کوجومنھاج دیا، جس ڈگرپراسے ڈالا، مولانا کے جانے کے بعد جامعہ کے مسلسل بحرانوں سے دوچارہونے کے باوجود اس کا تسلسل باقی رہا اوراﷲ کی ذات سے قوی امید ہے کہ آئندہ بھی اس میں سرموفرق نہیںا ٓئے گا ۔
جامعہ کاقیام ایسے وقت میں ہوا تھا ،جب کہ جماعتی اختلاف کا گھاؤ بھٹکل کے جسم پر ابھی رس رہاتھا، آپ کی نبض شناسی نے اس ادارے کووحدت کاایک نشان بنادیا، ’’خذ ماصفاودع ماکدر‘‘آپ کامطمح نظررہا، وہ تحریک خلافت کے پروردہ تھے، اختلاف مسلک ومذہب کوبھلا کرمسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پرلانے والی ایسی ملی تحریک برصغیرنے نہ پہلے دیکھی ، نہ اس کے بعد ۔
مولانا کا یہی جذبہ تھا جس کے زیر اثر مولانا نے اپنے عزیزترین شاگردوں اورجامعہ کی اولین نسل کومولانا محمداسماعیل اکرمی علیہ الرحمہ عرف دھاکلوبھاؤ خلفو قاضی وخطیب خلیفہ جماعت المسلمین بھٹکل کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کرنے بھیج دیا، آپ کے شاگرداب بھی وہ واقعہ یاد کرتے ہیں کہ جب مولانا اسماعیل کی آنکھیں شدت جذبات سے چھلک پڑی تھیں اورفرمایا تھا کہ فراغت کے بیس سال بعد پہلی مرتبہ اس شہربھٹکل میں آپ کی حقیقی عزت افزائی ہوئی ہے ،کیونکہ ایک عالم دین کیلئے مسند تدریس پانے سے بڑھ کرکوئی انعام نہیں ہوسکتا، اس وقت مولان ااسماعیل کوعمرمیں پہلی مرتبہ فقہ شافعی کی منتہی عربی کتابیں پڑھنے والے طلبہ میسرہوئے تھے، ورنہ اس سے قبل مولانازیادہ سے زیادہ سرتاج جیسی اردوکتابیں طلبہ کی مخصوص جماعت کوپڑھایا کرتے تھے
مولانا کی طبیعت کوجماعتی گروہ بندیوں سے کوئی میل نہیں تھا، وہ طلبہ کوبھی ایام طالب علمی میں صرف طالب علم دیکھنا چاہتے تھے، انہیں ایام طالب علمی میں کسی طالب علم کوجلسہ جلوسوں، سماجی سرگرمیوں میں دیکھنا سخت نا پسند تھا، آپ کے عزیز شاگرد منیری صاحب نے ایام طالب علمی میں یوم جوہرکے موقع پران کی اطلاع کے بغیر ایک جلسے میں جاکر دھواں دھار تقریرکی، جب مولانا کواس کا پتہ چلا تو کئی روزتک اپنے اس چہیتے سے بات چیت بندرکھی اورفرمایا کہ جب تک چڑیا کا بچہ مکمل طورپراڑنے کے قابل نہیں ہوتا، چڑیا اس کی حفاظت کرتی ہے اوراسے اڑنے سے روکتی ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ بغیرقدرت کاملہ کے اس کا بچہ اڑنے کی کوشش کرے گا تو یا گرکرمرجائے گا یا پھرچیل اسے اچک لے جائے گی ۔
جامعہ میں بھی آپ کایہ اندازبرقراررہا، ہمارے استاذ جناب کافشی احمد بن عبدالرزاق نے ہم چند طالب علموں سے سیرت النبی پرتقریرمیں انعام پانے کی خوشی میں شیرورناخدامحلہ کی مسجد میں تقریرکا مظاہرہ کروایا تومولانا مارے غصے کے تلملا اٹھے۔
اسی طرح علوہ مسجد کے اس وقت کے امام صاحب کے درس قرآن میں طلبہ نے بعدعشاء شرکت کرنی شروع کردی اورہوم ورک میں فرق آنے لگا تواس وقت ہوئی مولانا کی تلخی اب تک لوگوں کو نہیں بھولی۔
مولانا طلبہ سے ہوم ورک لینے میں بہت سخت تھے، تمرین الصرف میں گردان کی ایک غلطی پرایک رات میں سوسوگردان لکھنااب بھی ہمیں یاد ہے، مولانا کی یہی محنت، طلبہ و والدین کی تابعداری سے جامعہ میں اس وقت جومعیاربنا ویسا دوبارہ نہ بن سکا ۔
*مولانا عبد الحمید ندوی،جامعہ کے علامہ شبلی(قسط ۔03)*
(استاد الاساتذہ و معتمد اول جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی رحلت مورخہ ۱۳رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ مطابق ۱۷ اگست ۱۹۷۸ء پر لکھی گئی تحریر)
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
انجمن میں دوران تدریس آپ نے آئی ایچ صدیق سے انگریزی سیکھی اور صدیق صاحب نے آپ سے عربی، ۱۹۳۶ء میں یم یم صدیق انجمن کی سکریٹری شپ سے اور۱۹۳۹ء میں آئی ایچ صدیق جیسے مولانا کے قدردان انجمن کی با اختیار صدرمدرسی سے علیحدہ ہوئے اورمسٹرنائنن ہیڈماسٹربنے، جس کے بعد مولانا ۱۹۴۲ء میں واپس لکھنؤلوٹ گئے جہاں نظیرآبادمیں کپڑوں کی دکان کھول کرتجارت شروع کی، وہاں سے مولانا کلکتہ چلے گئے، وہاں بھی کپڑوں کا کاروبارجاری رکھا، ساتھ ہی ہومیوپتھی مطب کا سلسلہ بھی چلتارہا ، مولانا نے بھٹکل کے نوجوانوں کوہومیوپیتھی کا ذوق دلایا اوراس کے رموزبتائے، ان فیض یافتگان میں بانی جامعہ ڈاکٹرملپاعلی صاحب کانام گرامی بھی شامل ہے۔
جامعہ اسلامیہ کاقیام
انجمن ستارہ حسنات اورمدرسہ اسلامیہ کے بند ہونے، پرائمری تعلیم کا نظم ونسق قوم کے ہاتھوں سے مکمل طورپرختم ہونے، بورڈ اسکول کی ناقص کارکردگی اورتقسیم ہند کے بعد فروغ پانے والے قومی بگاڑنے بھٹکل میں ایک دینی مدرسہ کے قیام کی تحریک کوجنم دیا، اوراﷲ تعالی نے جناب ڈاکٹرملپاعلی صاحب کوتوفیق دی کہ اس تحریک کوآگے بڑھائیں، آپ نے دل دردمند رکھنے والے اپنے دوسرے رفقاء کے ساتھ اس سلسلہ میں مشورہ کیا کہ اگردینی مدرسہ قائم کیا گیا تواس کام کوسنبھالنے والاکون ہوگا، اس کام کیلئے تودینی علم رکھنے والے کی ضرورت ہے، پھریہ بھی ہوگا کہ وہ ہرطرف سے کٹ کراپنی زندگی اس کام کیلئے وقف کردے ‘‘۔( روداد اجلاس اول ۴۲)
’’تائیدغیبی سے اس وقت سب کے دماغ میں مولانا ندوی کی ذات مستحضر ہوگئی اورسب کی رائے ہوئی کہ مولانا بھٹکل سے پورے واقف ہیں اورتعلیم وتربیت کا تجربہ بھی رکھتے ہیں، اس لئے مولانا سے ہی اس سلسلہ میں رائے لینی چاہئے ‘‘(ص ۴۲)
’’مولانا بھٹکل تشریف لائے اورآپ کی قیادت اورجناب ڈی اے اسماعیل، سعدا جعفری، ماسٹرعثمان حسن اورڈاکٹرصاحب کی حاضری میں ابومحل میں گفتگوہوئی اور ۱۰/شوال ۱۳۸۱ ھ مطابق ۱۷مارچ ۱۹۶۲ء بھٹکل میں دینی تعلیم کیلئے ایک عربی دارالعلوم قائم کرنے کا فیصلہ کیاگیا، اس فیصلہ کے دس روزبعد بمبیٔ میں ۱۹/شوال ۱۳۸۱ھ مطابق ۲۶/مارچ ۱۹۶۲ء جناب الحاج محی الدین صاحب کی صدارت میں بھٹکل مسلم جماعت بمبیٔ کاجلسہ ہوا جس میں منیری صاحب کوجامعہ کے قیام کیلئے فوراً کام شروع کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی‘‘ ۔ (ص ۴۵)
’’اس اجلاس میں طے پایا کہ جامعہ کے کام کومستقل شروع کرنے سے پہلے اس کام کوعارضی وتجرباتی طریقہ پرکیاجائے اورابتدائی ایک سال عبوری دور تصورکرلیاجائے‘‘ ۔( ص ۴۵)
منیری صاحب نے افتتاح جامعہ کی ذمہ داری سنبھالتے ہی اپنے پیرومرشد مولانا عبد الحمید ندوی کوباضابطہ مراسلت کے بعد مدرسہ کیلئے منتخب فرمایا، استاذ وشاگرد اورمحرکین کی شبانہ روزدلچسپی وتگ ودو سے مقررہ ایک سال کے بجائے پانچ ماہ کے اندرجامعہ کا افتتاح ۲۱/ربیع الاول ۱۳۸۲ھ مطابق ۲۰/اگست ۱۹۶۲ء مولانا ارشاد احمد مبلغ دارالعلوم دیوبند کے ہاتھوں ہشت سالہ لڑکے عبداﷲ کوبٹے کی بسم اﷲ خوانی سے عمل میں آیا، اس افتتاح کے دوسرے روزکی کیفیت خود مولانا کی زبانی ملاحظہ فرائیں :
’’ صبح ہوئی، گوائی میراں صاحب کے مکان کی بالائی منزل پراچھے خاصے ہال کی شکل میں ہے ابھی کل تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، آج راقم سطورعبدالحمید معلم اورعبداﷲ بن محمد کوبٹے متعلم کے سواکچھ نہ تھا ۔
سماں کل کا رہ رہ کے آتاہے یاد ابھی کیا تھااورکیاسے کیا ہوگیا
کیسی حوصلہ شکن اورصبرآزما گھڑی تھی، ۲۰/اگست ۶۲ ء کی صبح آپ ہی آپ سوال پیدا ہوتاہے، کیا یہی درسگاہ تھی جس کی کل اوپننگ ہوئی تھی، کل اسی کیلئے وہ سارے پیام سنے گئے تھے، بزرگوں کی دعاؤں کاحاصل اورنیک تمناؤں کا مرکزیہی ہے، اس کیلئے زبان ہلتے ہی دردمندان قوم نے سیکڑوں نہیں ہزاروں ہزارپیش کردئے، کیاعبداﷲ ہی کیلئے حضرت قبلہ مولانا ندوی مدظلہ کی خدمات کا ریزرویشن ہورہاتھا، علی ملپا، سعداجعفری،ڈی اے اسماعیل کی دلی تمناؤں اورمخلصانہ آرزؤں کاحاصل یہی ہے؟منیری صاحب کے زورقلم، سعی پیہم اورحسن تدبیرکے نتیجہ میں عبداﷲ اورعبدالحمید کے سواکچھ نہ تھا، بظاہرخواب اورافسانہ کے سوا اس کا نام آپ اورکیا دیںگے ۔( ص ۶۵)
اس مایوس کن صورت حال کو بدلنے کیلئے مولانانے منیری صاحب ، ماسٹر عثمان حسن اورڈی اے اسماعیل وغیرہ احباب کے مشورہ سے درس قرآن کی ابتداکی، اس کی برکت سے بھٹکل میں قرآن سے تعلق کی جوفضا پیدا ہوئی مولانااس کاحال یوں بیان کرتے ہیں :
نورانی ماحول اور دارالحدیث کے وسیع ہال میں، اصلاحی باتیں فرماتے تھے ۔
دراصل یہ سب ان پاکیزہ، اونچی اور رفیع نسبتوں کے اثرات تھے، جو اللہ پاک نے آپ کو کاملین کی طرف سے عطا فرمائی تھیں۔ سب سے پہلے تو آپ بزرگانِ دیوبند کے تلمیذِ ِرشید تھے جن کی نسبت کی مضبوطی میں دورائے نہیں ہو سکتیں ۔آپ کے تمام اساتذہ اصحابِ نسبت مشائخ تھے۔ پھر آپ کی نسبت حضرت شاہ وصی اللہ صاحب سے قائم ہوئی اور ان کے پاس آپ نے سلوک کے مراحل طے فرمائے غالبا ان کی طرف سے آپ کو اجازت بھی ملی۔اس کے بعد آپ نے سلوک و تصوف میں اصلاحی سلسلہ، حضرت محی السنہ شاہ ابرار الحق صاحب حقی کی ہر دوئی رحمہ اللہ سے قائم فرمایا۔ان کی طرف سے اجازت و خلافت ملی۔ حضرت مولانا قاری صدیق صاحب باندوی نور اللہ مرقدہ اور حضرت مولاناسید محمود حسن صاحب پٹھیڑوی خلیفہ حضرت اقدس شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہم اللہ سے بھی،آپ کو اجازت و خلافت حاصل تھی۔
اتنی ساری نورانی نسبتیں ،جب ایک سینے میں جمع ہوں اور قران و سنت کا نور پہلے سے وہاں موجود ہو تو ظاہر ہے رشد و ہدایت کے سلسلہ کا کیا ٹھکانہ! ایسے حضرات کی پوری زندگی ان کی ہرادا، نشست و برخاست سراپا ہدایت ہوتی ہے۔ لوگ انہیں دیکھ کر ہی فیض حاصل کرتے ہیں۔ اور وہ پوری قوم کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ان کی پوری ہستی، پورا وجود مجمع ِانوارہوتاہے۔ اس لیے حضرت علامہ کے ہر قول و فعل سے انوارات کی بارش ہوتی تھی۔
انہیں پاکیزہ نسبتوں کے اثرات تھے کہ آپ میں دعوت و اصلاح اور تبلیغ و ارشاد کا جذبہ بہت زیادہ موجزن رہتا۔اسی بنیاد پر آپ نے ملک و بیرون ملک بہت سے اسفار فرمائے۔ کئی مرتبہ انگلینڈ اور امریکہ بھی تشریف لے گئے۔ اور کئی سالوں سے رمضان کے اخیر عشرہ میں مسجد ہاشم آمبور(مدراس)میں اعتکاف فرماتے رہے۔ وہاں رہ کر دل پذیر نصیحتیں، اکابر کی خوبصورت زندگی کے واقعات اور مواعظِ حسنہ سے معتکفین، اصلاح لینے والے مریدین، شہر اور بیرون شہر کے عمائدین اور ہزاروں افراد کو مستفید فرماتے رہے۔آپ کے اُن مواعظِ ثمینہ کو جواہرِ قمر کے نام سے شا ئع بھی کیا گیا ہے۔
حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ مشرقی یو پی میں ضلع گورکھپور کے قصبہ بڑھل گنج میں دو فروری 1938 ءکو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی بشیر احمد تھا۔ عربی کی ابتدائی اور متوسط تعلیم مبارک پور اور دارالعلوم مؤ میں حاصل کی۔ 1954 میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ 1957 میں اس وقت کے مقتدر، مشاہیر اور اساطینِ علم، علماء جیسے شیخ الاسلام حضرت مدنی سید حسین احمد مدنی جاث المعقول والمنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی حضرت مولاناسیدفخر الدین صاحب مراد آبادی حضرت مولانا بشیر احمد خان صاحب وغیرہ چوٹی کے اساتذہ سے علمی تشنگی بجھاکر سندِ فراغت حاصل کی اور دو سال فنون کی تکمیل بھی کی۔
فراغت کے بعد کچھ عرصے مدرسہ عبدالرب دہلی میں تدریس کی خدمات انجام دیں پھر اساتذہ کے حکم پر مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند میں تشریف لے آئے ۔یہاں آپ نے تقریبا تمام ہی کتابیں پڑھائیں اور ترقی کرتے ہوئے درجہءعلیاء تک پہنچے۔دورہءحدیث میں نسائی شریف ابو داؤد شریف اور مسلم شریف کا درس آپ کے ذمہ رہا۔تکمیلِ تفسیر میں تفسیر ابن کثیرکادرس آپ کے متعلق رہا۔ آپ کے تمام دروس طلباء میں مقبول رہے۔
آہ! آج وہ محدثِ عظیم، مرشدِ کامل،مصلحِ زمن ہمیشہ کے لیے ہماری نگاہوں سے روپوش ہو گیۓ۔ وہ بہت دور جا چکے۔ اتنی دور کہ اب ان سے ملاقات اسی وقت ہو سکتی ہے،جب یہ سارا بکھیڑا ختم ہو جائےگا۔ دنیا نابود،کائنات زیروزبراور آخرت قائم ہوگی ۔
رحمہ اللہ تعالیٰ رحمہ واسعہ
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سے ضرور ملاقات کریں ،اور ان سے دعائیں لیں، حضرت مولانا ان کی دعوت ضرور کرتے تھے، آپ نے 58 سال تک اپنے مادر علمی کی دل وجان سے خدمت کی، دارالعلوم دیوبند سے پہلے مدرسہ عبدالرب میں بھی شیخ الحدیث رہے، اور وہاں كى جامع مسجد میں تفسیر کا سلسلہ جاری فرمایا، دارالعلوم دیوبند میں دوره حدیث کی کتابوں کو بار بار اور سالہا سال پڑھائی ،اب بخاری شریف جلد ثانی حضرت سے متعلق تھی، میرے برادر کبیر مولانا فضل احمد کا 10 فروری سن 2009 ءمیں جب انتقال ہوا جنازه دہلی سے وطن لے جایا جا رہا تھا، راستے میں حضرت کا فون آیا تعزیت مسنونہ اورتلقين صبر کے بعد فرمایا کہ میں تمہارے گھر پہنچ رہا ہوں، چنانچہ حضرت تشریف لائے، اور جنازے کی نماز پڑھائی، گھر کے جملہ افراد کو تسلی دلائی، یہ حضرت کی غايت درجہ شفقت اور محبت اورخورد نوازى کی بات تھی۔
حضرت کے تلامذہ میں سے ایک سے ایک عالم فاضل ہیں،جن کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہوگی، دارالعلوم دیوبند کے موجودہ اساتذہ میں سے چند کے علاوہ سبھی حضرت ہی کے خوشہ چینوں میں سے ہیں۔
دل سے دعا ہے کہ رب کریم حضرت والا کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے، خاندان کے جملہ افراد خصوصا مولانا معراج الحق صاحب، مفتی احسان الحق صاحب وغیرہ نیز محبین، مخلصین، تلامذہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمين
عزير احمد قاسمى
24۔12۔2024ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سنو سنو !!
محرم کے بغیر حج یا عمرہ کرنا گناہ ہے
(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
میں مکہ مکرمہ میں تھا ایک گروپ والا دوسرے گروپ والے سے کہنے لگا کہ یار ایک لڑکی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ عمرہ پر آنے کے لئے بے چین تھی بہت پریشان تھی اس کے رشتہ داروں نے کہا کہ جب اتنا کہہ رہی ہے تو لیتے چلو ، میں مجبور ہوگیا اور ٹور کے ساتھ لڑکی آگئی ، یہاں پہنچ کر معاملہ ہی الٹ گیا ، پتہ چلا ہے کہ اس لڑکی کا کسی پاکستانی لڑکے سے سوشل میڈیا پر عشق ہوگیا تھا اور دونوں عمرہ کے ویزے پر حرمین شریفین پہنچ کر عشق لڑا رہے ہیں میں بہت پریشان ہوں اگر لڑکی وقت پر واپس نہیں۔ گئی تو ہمارا تو رجسٹریشن ہی منسوخ ہو جائے گا اور اس کے گھر والے مجھے جیل میں ڈلوادیں گے۔
اس واقعہ پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشاد یاد آیا :
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اعمال کا مدار نیت پر ہی ہے، اور آدمی کے لیے وہی (اجر) ہے جس کی اس نے نیت کی۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے تھی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی تھی۔"( مشکوٰۃ)
میں نے تو بعض فقہا کا فتویٰ پڑھا ہے کہ اگر کوئی عورت چاہے بوڑھی ہو یا جوان ہو یا نوجوان ہو اپنے محرم کے بغیر اگر اس نے سفر حج یا عمرہ کیا تو یہ اس کے لیے باعث ثواب نہیں باعث عذاب ہوگا اور ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا۔
عام طور پر بوڑھی خواتین اپنے بارے میں یہ خیال کرتی ہیں کہ وہ تو عمر کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہیں جہاں پردہ یا اکیلے سفر کرنا کوئی قباحت نہیں رکھتا انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت میں کسی بھی عمر کی خاتون کے لیے بغیر محرم کے سفر کی اجازت قطعی نہیں دی ہے۔
کوئی بھی خاتون سفر شرعی کی جو مسافت ہے جو تقریبا 48 میل ہوتی ہے اس سے زیادہ بغیر کسی محرم کے سفر نہیں کر سکتی اور یہ جائز نہیں ہے چاہے جوان ہو نوجوان ہو یا بوڑھی ہو ہر صورت میں منع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
"لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم"
جو عورت ﷲ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر تین رات کا سفر کرے ۔
خالہ زاد بھائی مامو زاد بھائی پھوپھی زاد بھائی یا چچا زاد بھائی یہ سارے لوگ نامحرم ہوتے ہیں اسی طرح ممانی بھی نامحرم ہوتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے کہ
"عورت کا بغیر محرم کے عمرہ یا حج کے سفرکے لیے جانا جائزنہیں ہے،اگر محرم کے بغیر سفرکرکے حج یاعمرہ کرے گی توعمرہ اور حج کراہت تحریمی کے ساتھ اداہوجائے گااور محرم کے بغیر سفرکرنے کا گناہ ہوگا"۔(فتاوی شامی،کتاب الحج)
بہت سی عورتیں خواہ مخواہ کسی نامحرم کو اپنا محرم بنالیتی ہیں کوئی کسی کو اپنا بھائی اور کوئی کسی کو اپنی بہن بنالیتا ہے یہ سراسر دھوکہ ہے اور یہ اور بھی گناہ ہے۔اس سے نامحرم محرم نہیں ہوسکتا ہے۔
بعض لوگ کہتے نظر آتے ہیں کہ آپ میری بیوی یا ماں یا بہن کو لیتے جائیں میری طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہے ارے بھائی آپ کے اعتراض یا آپ کی اجازت کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اس باب میں آپ کی نہیں شریعت کی چلے گی اور شریعت اٹل ہے اس میں حیلے بہانے نہیں چلا کرتے ہیں۔
ایک بات اور جیسا کہ حالات نظر آرہے ہیں بہت ممکن ہے حکومتیں عورتوں کو بغیر محرم کے سفر حج و عمرہ کی اجازت دیدیں تو خوب سمجھ لیجیے حکومت دارالافتاء نہیں ہے وہ تو اپنی تجارتوں کو فروغ دینے کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ مستند صاحبان فقہ و افتاء ہی سے شرعی سوال کریں ملا نما مولویوں یا فارغین محض یا مفتیان محض سے مسائل نہ پوچھیں مفتی وہی ہے جو مسند افتاء پر بیٹھ کر فتوی دے ہما شما جو لوگ افتاء کا کورس کرلیتے ہیں یہ مفتی نہیں ہوتے، انھوں نے بس افتاء کی تعلیم پائی ہے۔جیسے ڈاکٹر وہی ہے جو اس پیشہ سے باقاعدہ جڑا ہوا ہے ڈاکٹر وہ نہیں ہے جس نے صرف ڈاکٹری کا کورس کررکھاہے اسی طرح اگر کسی کا مشغلہ ہی فتوی نویسی ہے تو اسی کو مسائل بتانے کا حق ہے ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
حضرت باندوی کے تعزیتی اجلاس کے بعد ابھی چند سال قبل ممبئی کے ایک ادارے میں ختم بخاری کے سلسلے میں حضرت تشریف لائےتھے ، ملاقات ہوئی، ہم نے محمود دریابادی کہہ کر اپنا تعارف کرایا، حضرت نے پہچان لیا، دراصل پچھلے کچھ برسوں میں مضامین نویسی اور دیگر گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے ہمارا نام کسی حد تک بزرگوں تک پہونچ گیا ہے،اس لئے اس بار " موٹے تعارف" کی نوبت نہیں آئی ـ بس یہی آخری زیارت و ملاقات تھی، حالانکہ عرصے سے صحت خراب تھی، عمر طبعی کو بھی پہونچ چکے تھے، تاہم جب انتقال کی خبر ملی تو دل نے کہا ارے! ابھی کیسے؟ ابھی تو حضرت کی بڑی ضرورت تھی! .......... مگر وقت موعود آچکا تھا، اللہ درجات بلند فرمائے، ہم سب اُن کے پسماندگان ہیں اللہ ہم سب کو صبر جمیل عطافرمائے ـ
جھونکے نسیم خلد کے ہونے لگے نثار
جنت کو اس گلاب کا تھا کب سے انتظار
محمود احمد خاں دریابادی
24 دسمبر 2024 ایک بجے شب
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
آہ! آخری استاذ علامہ قمرالدین صاحب
ــــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
/channel/ilmokitab
دارالعلوم دیوبند کے ہمارے آخری استاذ بھی رخصت ہوئے، ہم متحدہ دارالعلوم کی پیداوار ہیں، ہمارے فراغت کے سال 1978 تک نہ صدسالہ برپا ہوا تھا نہ وقف وجود میں آیا تھا ـ............. آگے کا تذکرہ تکلیف دہ ہے اس لئے جانے دیجئے،............
وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا
درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رُلانے والے
یوں تو ہماری ابتدائی ومتوسطات تک کی تعلیم جامعہ ہتورا باندہ اور دارالعلوم امدادیہ ممبئی میں ہوئی ہے، آخر کے دو برس دارالعلوم دیوبند میں گزرے،
1976 میں ہم دیوبند پہونچے، چند دنوں میں داخلے کی کارروائی مکمل ہوئی، اسی دوران ایک دن پتہ چلا کہ دارالحدیث تحتانی میں مناظرے کی انجمن کا افتتاحی اجلاس ہوگا، ہم بھی پہونچے، مناظرے کا موضوع آریوں کا مشہور عقیدہ تناسخ یعنی آواگون تھا، دارالحدیث پورا طلبا سے بھرا ہوا تھا، مناظرے میں حصہ لینے والے طلبا کے دو گروپ تھے ایک آواگون کو ثابت کرنے والا اور دوسرا اس کی تردید کرنے والا، درمیان میں ایک مسند تھی جس پر سیاہ ڈاڑھی، خوبصورت، وجیہ، دوپلی ٹوپی اورسادہ سفید لباس میں ایک بزرگ نظر آنے والی شخصیت حکم کی حیثیت سے تشریف فرماتھی ـ معلوم ہوا کہ یہ دارالعلوم کے استاذ حضرت مولانا قمرالدین صاحب ہیں ـ بہر حال پروگرام شروع ہوا دونوں طرف کے طلبا نے اپنی تیاری کے مطابق تقریریں کیں، اس دوران حضرت اطمینان سے چار زانو بیٹھے رہے، اسی بیچ حضرت نے دوایک " برگ سبز" یعنی پان بھی نوش جان کئے اور سامنے رکھے پیک دان کا بھی متعدد مرتبہ استعمال ہوا، پھر آخر میں حکَم کی حیثیت سے حضرت کا بیان ہوا، بیان میں بھی ہمیں حکمت و موعظت جھلکیاں نظر آئیں ـ ......... تو یہ تھا ہمارا حضرت مولانا قمرالدین صاحب سے پہلا اور یکطرفہ تعارف! حالانکہ ہم حضرت کو درسگاہوں میں آتے جاتے، ناظم کی حیثیت سے دفتر دارالاقامہ کی سیڑھیاں چڑھتے اُترتے دیکھ کر اپنے یک طرفہ تعارف کو مزید مضبوط کرتے رہےتھے ـ
دو طرفہ تعارف کی نوبت بہت بعد میں آسکی، ہوا یوں کہ ہم افریقہ منزل جدید کے کمرہ نمبر ایک میں مقیم تھے، ہمارے کمرے کے سامنے بیر کا باغ تھا، جسے دارالعلوم کی طرف سے کسی کو ٹھیکے پر دے دیا گیا تھا، ایک رات اس باغ میں کسی نے گُھس کر کافی سارے بیر توڑلئے، صبح جب باغ کا رکھوالا جاگا تو اُس کو پتہ چلا، چونکہ ہم ممبئی کے کئی لڑکے ایک نمبر میں تھے، اور ممبئی ہی کا اثر تھا کہ سب کے سب تیز طرار، ہنسی ٹھٹول، ہنگامہ، شور، اور بے چارے بعض یوپی بہار کے صوفی صافی لڑکوں سے ہم لوگ " خصوصی گفتگو" بھی کرتے رہتے تھے اس لئے اس لئے اُس باغ کے رکھوالے کا شک ہم شریر لڑکوں پر ہی گیا اور اُس نے دفتر دارالاقامہ میں نامزد شکایت کردی، ......... وہاں سےطلبی ہوئی ہم سارے" ایک نمبری " حاضر ہوئے، وہاں حضرت مولانا قمرالدین صاحب اور حضرت مولانا عبدالعزیز بی اے تشریف فرماتھے، سارے ایک نمبریوں نے مجھے " دس نمبری" کا عہدہ دیا اور متکلم کی ذمہ داری سونپ دی تھی، ( کیا بتائیں اب تک دس نمبری عہدے سے پیچھا نہیں چھوٹا ہے اب بھی بیشتر جگہوں پر متکلم بننا ہی پڑتا ہے ـ ) وہاں جاکر پتا چلا کہ ہمارا اجمالی تعارف ہم سے پہلے پہونچ چکا ہے ـ ہمیں دیکھتے ہی مولانا قمرالدین صاحب مولانا بی اے سے مخاطب ہوکر کہنے لگے
" یہ موٹا ممبئی کا ہے خود بھی نہیں پڑھتا اور اس کے ساتھ دس پانچ لڑکے بھی گھومتے رہتے ہیں "
بتائیے ہم کیا جواب دیتے آدھی بات تو بہرحال درست تھی، البتہ دس پانچ لڑکوں والی بات میں مبالغہ نظر آرہا تھا، یہ بھی ممکن ہے حضرت تک یہ روایت یوں ہی پہونچی ہو، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ " دروغ بر گردنِ راوی " ـ بہر حال سر جھکائے سنتے رہے، ......... پھر حضرت کا ارشاد ہوا
" بیر کی چوری تم لوگوں نے کی تھی "
" جی نہیں! ہم لوگوں کو یہاں کے بیر بالکل پسند نہیں"
حضرت مسکرائے فرمانے لگے
" تعجب ہے ! دیوبند کے بیر سارے ہندوستان میں شہرت رکھتے ہیں "
" جی! مگر ہم لوگوں کو عادت نہیں ہے، دانت کھٹے ہوجاتے ہیں "
" پھر وہ باغ والا پاگل ہے جو صاف صاف تم لوگوں کا نام لے رہا ہے ؟ "
" جی! ہم لوگوں نے کوئی چوری نہیں کی، اس کے پاس کوئی ثبوت گواہ ہو تو لائے "
ہمارے اس جواب پر حضرت نے برہمی کے ساتھ فرمایا
" رات بارہ بجے وہ گواہ ڈھونڈنے کہاں جاتا "
" ہم قسم بھی کھا سکتے ہیں کہ ہم نے چوری نہیں کی " یہ ہمارا آخری جواب تھا،
حضرت نے فرمایا
" ٹھیک ہے اس وقت آپ لوگ جائیں آگے دیکھیں گے "
کا دسترخوان سج جاتا۔ تعلیم کا یہ حلقہ اماں جان کے فراق کے بعد بھی کسی درجے میں الحمدللہ قائم ہے، باری تعالی استقامت عطا فرمائیں، آمین! ایسے نورانی حلقے ہر گھر کی ضرورت ہیں، یہ حلقے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی لاشعوری تربیت کا ذریعہ بنتے ہیں، ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا بننے کا جذبہ پیدا کرتے، نماز روزہ اور ذکر وتلاوت کا شوق اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کا ذوق پیدا کرتے اور انسانیت کی خیرخواہی کے جذبات ابھارتے ہیں۔
رب العالمین کے فضل وکرم اور والدین واساتذہ کرام کی دعاؤں کی بدولت ہم سب بہن بھائی حفظِ قرآن کریم اور علمِ دین کی دولت سے مالامال ہوئے، حق سبحانہ ہمیں زندگی بھر ان نعمتوں کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے، اور ہماری کوتاہیوں کے سبب ہمیں محروم نہ فرمائے! ہم سب کے تعلیمی سلسلے میں ابا جان کی کوششوں اور دعاؤں کے شانہ بشانہ اماں جان کی قربانیوں کا کلیدی کردار ہے، وہ محض ہماری تعلیم میں حرج کے اندیشے سے لگ بھگ پچیس برس اپنے آبائی علاقے نہیں گئیں، وسائل کی فراوانی کے باوجود ان کی یہ ساری دوریاں اختیاری تھیں، اس دوران کئی بار ہماری نانی مرحومہ کراچی آئیں، اماں جان ان کی خوب خدمت کرتی رہیں، نانی مرحومہ کے انتقال کے موقع پر لگ بھگ پچیس برس بعد وہ گاؤں گئیں، ان کی شبانہ روز محنتوں سے قطع نظر محض یہ ایک قربانی ہی ہماری تعلیم وتربیت کے لیے ان کی ہمت وحوصلے کی گواہ ہے، اس دور میں ماؤں کی ایسی قربانیوں کی مثالیں خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہیں، حق جلّ مجدُہ ابا جان اور اماں جان کی ان قربانیوں کو قبول فرماکر ہمیں کسی لائق بنادے، آمین!
اماں جان کی صحت، ان کی عمر کے لحاظ سے قابلِ رشک تھی، وہ مرضِ وفات سے پہلے کسی سنگین مرض میں مبتلا نہ تھیں، روز وشب بہت اچھے گزر رہے تھے، وفات سے چار ماہ قبل معدے میں تکلیف کی شکایت ہوئی، دوا دارو چلتا رہا، لیکن "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی !" درست تشخیص میں کافی وقت گزر گیا، تب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا، خیر بیماری تو جانے کا اک بہانہ تھا، دراصل وقتِ موعود آچکا تھا، مرضِ وفات کے پورے دورانیہ میں تکلیف سہنے کے باوجود کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائیں، ہمیشہ کی طرح صبر وشکر کی تصویر بنی رہیں، ہم بہن بھائیوں نے بھی حسبِ توفیق خدمت کی سعادت حاصل کی، اور پھر ایک شب رات کے آخری پہر وہ ہم سے جدا ہوکر خاموشی سے اپنی اصل منزل کی جانب روانہ ہوگئیں، إنا لله وإنا إليه راجعون !
خدا ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے!
سبزۂ نورستہ جن کی نگہبانی کرے!
ابا جان کا انتقال جمعرات کے روز ہوا اور شبِ جمعہ میں تدفین عمل میں آئی تھی، اماں جان بھی جمعرات کی رات کے آخری پہر سفرِ آخرت پر روانہ ہوئیں، اور اگلے روز سپردِ خاک ہوئیں۔ یوں جمعرات کے روز سے ہم کمزوروں کے دو گہرے صدمے وابستہ ہوگئے۔ جمعرات کے روز ہی پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری مرض کی تکلیف میں اضافہ ہوا تھا، عم زادِ حبیب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان لمحوں کی یاد میں گریاں ہوکر گویا ہوتے: يوم الخميس! وما يوم الخميس؟! ہائے جمعرات کا دن! لوگ کیا جانیں کہ کیا ہے جمعرات کا دن؟! وہی دن جس میں محبوبِ دلربا کا درد بڑھا، اور ظاہری اسباب کے تحت اس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ صدیوں سے رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کا درد سہتی چلی آرہی ہے۔ اسی جمعرات کے روز ابا جان اور ابا جان دونوں کی جدائی کی بنا پر ہم ناتواں امتیوں کے لیے درد والم کی اس دل خراش داستان میں دو غمناک باب رقم ہوئے، لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ آخرت اس عارضی فراق کے بعد دائمی وصال کی نویدِ مسرت سناتا اور تسلی کا سامان فراہم کرتا ہے: غدًا نلقى الأحبة، محمدًا وحزبَه!
يا ربّ صلّ وسلّم دائمًا أبدًا
على حبيبك خير الخلق كلّهم
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مجید کا ایک اور نسخہ مشہورخطاط یاقوت مستعصمی (متوفی 698 ہجری)کے ہاتھ کا لکھا ہوا بھی یہاں موجود ہے۔قرآن مجید کے اس کے علاوہ بھی کئی نادر ونایاب نسخوں کے علاوہ عربی زبان کی بیش قیمت کتب اس لائبریری میں پائی جاتی ہیں۔
اگرچہ عربی اور فارسی کے مقابلے میں یہاں اردو کی قلمی کتابیں کچھ کم ہیں، لیکن وہ اپنی قدر وقیمت کے اعتبار سے بہت باوزن ہیں۔ان میں ”دیوان زادہ شاہ حاتم“، ”کلیات میر“،”کلیات سودا“اور ”دیوان غالب“وغیرہ کے بڑے اہم مخطوطے یہاں موجود ہیں۔یہاں غالب کا وہ اردو دیوان بھی موجود ہے جسے انھوں نے 1857سے کچھ پہلے مرتب کرکے نواب رامپور کو ہدیہ کیا تھا۔ان کے علاوہ ہندی اور سنسکرت کے اہم مخطوطات بھی اس لائبریری میں موجود ہیں۔لائبریری میں تاڑ کے پتوں پر سنسکرت، تلگو، کنڑ، ملیالم اور سنہالی زبانوں کے دوسو سے زائد آثار ہیں، جن کے پتوں کی مجموعی تعداد بیس ہزار ہے۔ لائبریری میں قلمی کتابوں اور مصور نسخوں کے علاوہ ایک ہزار سے زائد نہایت نادر ونایاب قلمی تصویروں کا ذخیرہ ہے، جس کا بڑا حصہ مغل مصوری پر مشتمل ہے۔عہداکبری کا ایک دلچسپ البم”طلسم“ کے نام سے ہے، جس میں تقریباً 150لاجواب تصاویر ہیں، جن میں اس عہد کی سماجی، معاشی وثقافتی زندگی کی بھرپورعکاسی ہوتی ہے۔ایک البم ”مرقع اولیاء اللہ“ کے نام سے ہے جس میں مشہور صوفی سنتوں کی تصاویر ہیں۔اس کے علاوہ جن بادشاہوں، امراء، نوابین، راجہ مہاراجہ اورمشہور سیاسی، مذہبی اور تاریخی شخصیتوں کی تصویریں اس ذخیرے میں موجود ہیں ان میں ہلاکو خاں، امیرتیمور، بابر، ہمایوں،اکبر، گلبدن بیگم، ابوالفضل، فیضی، بیربل، جہانگیر، نورجہاں، اورنگزیب اور بہادر شاہ ظفر وغیرہ کی تصاویر شامل ہیں۔ صوفی اور سنتوں میں خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین، شیخ سلیم چشتی، تلسی داس اور میرانیس وغیرہ کی تصویریں یہاں موجود ہیں۔ لائبریری کی یہ قلمی تصویریں فن مصوری کے سبھی اسکولوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اسی طرح مشہور خطاطوں کی ایک ہزار سے زیادہ وصلیاں یہاں موجود ہیں۔ مجموعی طورپر یہ لائبریری نادرونایاب کتابوں، قلمی نسخوں، فن پاروں اور نوادرات کا ایک منفرد مرکز ہے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اس قسم کے سیکڑوں ہزاروں سوالات پرانسان جتنا زیادہ غور اور نکتہ سنجی سے کام لے گا، توحید اور توحیدی حکمتوں کا نقش دل پر اور زیادہ ہوتا جائے گا۔ جاہلی اور غیر مو من قوموں کے فلسفہ اور سائنس کا نقطہء نظر غلط ہوتا ہے۔ اسکی اگر تصحیح ہو جائے اوران علومِ مادّی کا مطالعہ اگر ایمانی نقطہء نظر شروع کردیا جائے تو بجائے الحاد، ارتیاب و تشکک کے عرفان وایقان کی راہیںروز بروز روشن ترہوتی جائیں۔ ‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اوّل ،صفحہ نمبر۲۹۹)
Читать полностью…مولانا ندوی کوہم سے جد اہوئے برسوں بیت گئے،یہی قانون قدرت ہے، ماہ وسال اس طرح گذرجاتے ہیں،مولانا کودیکھنے والے بھی اب بھٹکل میں بہت کم رہ گئے ہیں، لیکن مولانا کی یادوں کی قندیل دلوں میں اب بھی روشن ہے،مولانا نے بھٹکل میں آنکھ کھولی نہ یہاں پرخاک نشین ہوئے ، نہ آپکا یہاں پرکوئی خون کارشتہ پایاجاتاہے لیکن مولانانے جوشمع روشن کی ، جودیپ جلائے ان کی ضوفشانی جاری ہے،دیوں سے دئے جل اٹھے اورذات خداوندی سے امید ہے کہ روشنی پھیلانے کا یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا، بارگاہ یزدی میں اسے قبولیت نصیب ہو اورمولاناکی بلندی درجات کاذریعہ بنے ۔
٭٭٭
*مولانا عبد الحمید ندوی،جامعہ کے علامہ شبلی(قسط ۔05)*
(استاد الاساتذہ و معتمد اول جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی رحلت مورخہ ۱۳رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ مطابق ۱۷ اگست ۱۹۷۸ء پر لکھی گئی تحریر، جو اس وقت پندرہ روزہ نقش نوائط ممبئی میں شائع ہوئی تھی (
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اپنے پیرومرشد مولانا نگرامی کے لگائے ہوئے پودے ’سچ‘ لکھنؤ اور پھر ’صدق‘ و’صدق جدید‘سے آپ کودلی لگاؤتھا، اس ناطے مولاناعبدالماجددریابادی ؒ سے ربط وتعلق تھا، مولانانے بھٹکل کے لکھنے پڑھنے والوں کومولانا دریابادیؒ کی تحریروں کااتنا گرویدہ بنایا کہ جامعہ آباد کے افتتاح کے موقع پرمولانادریابادی نے اپنے پیغام میں لکھا کہ "بھٹکل والوں سے میرا خصوصی تعلق آج سے نہیں سالہا سال سے قائم ہے، کہ سکتا ہوں کہ میرے جتنے مخلصین بھٹکل میں ہیں ، ملک کے کسی ایک مقام پر مشکل ہی سے ہوں گے" ۔
عمرمیں بڑے ہونے کے باوجود اپنے خورد مولانا سیدابوالحسن ندوی رحمۃ اﷲ علیہ کا دل وجان سے احترام کرتے تھے اورجب ۱۹۶۷ء میں حضرت مولانا پہلی مرتبہ بھٹکل تشریف لائے تواپنے خورد کی یہ عزت ومقبولیت دیکھ کرشدت جذبات سے لپٹ کرروپڑے، رواداری کے ایسے مناظراب کہاں سے ڈھونڈ لائیں، ایسے مناظر کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔
مولانا کوجامعہ چھوڑے ایک عشرہ بیت چکا تھا، اس عرصہ میں مولانا کا دوباربھٹکل آنا ہوا، البتہ منیری صاحب ودیگرمتعلقین سے خط وکتابت کے روابط باقی رہے، ۱۹۷۷ء میں جامعہ اپنی تاریخ کے بد ترین بحران سے دوچارہوا اوراس وقت اپنے عظیم القدرمہتمم کے ساتھ ساتھ قربانی دینے والے چند قیمتی اساتذہ کی تدریسی خدمات سے بھی محروم ہوگیا، ان اساتذہ میں وہ بھی شامل تھے جن کے ہاتھوں میں آئندہ جامعہ کی باگ ڈوردینے کی غرض سے مولانا نے خصوصی تربیت کی تھی، ان ہی ایام میں مولانا کی شریک حیات داغ مفارقت دے گئیں، مولانا کی تنہائی دورکرنے اورجامعہ میں ایک سرپرست بزرگ کی موجودگی کااحساس جگانے کی غرض سے منیری صاحب نے مولانا کوبھٹکل آنے کی دعوت دی ۔
جامعہ آباد منتقل ہونے سے پیشتر بھٹکل میں قدم رکھتے ہی مولانا نے ابومحل کا رخ کیا، جہاں پرکبھی جامعہ کی تاسیس کے فیصلے ہوتے تھے اپنے ان شاگردان عزیزکو بلایا اورنصیحت کی کہ میں نے تمہیں جامعہ کا نظام سنبھالنے کیلئے تیارکیا تھا، جامعہ کی مسند تدریس پرواپس لوٹ آؤ، یہاں آٓنے سے پیشترجامعہ کے سرپرست مولاناعلی میاں صاحب سے میری بات ہوچکی ہے اورمولاناابرارالحق صاحب سے بھی ربط قائم کررہا ہوں ، وہاں سے بھی اس تنازعہ کوختم ہونے کی امید ہے، ان ایام میں مولانا کے چہرے پررنج والم کے اثرات نمایاں تھے، ذمہ داران جامعہ سے بھی وہ ان اساتذہ کی جامعہ میں دوبارہ واپسی کی بات کرتے رہتے تھے، وہ کہتے کہ میں نے اتنی محنت سے انہیں تیارکیا،اور تم نے انہیں کیسے جانے دیا؟ کچھ روزبعد مولانا نے ہم اساتذہ کوخوشخبری سنائی کہ مولانا ابرارالحق صاحب کی جانب سے بھی ان اساتذہ کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ ختم ہوگئی ہے، مولانا چند روزاورجامعہ میں رہتے توشاید جامعہ کی تقدیربدل جاتی لیکن قدرت کوکچھ اورہی منظورتھا، ان کے خورد بعض افراد کے رویوں سے مولانا دلگیرہوئے اورتنہائی کے غارمیں واپس لوٹ گئے ۔
مولانا کوہم نے جب جامعہ کے دوراول میں دیکھاتھا تومجال تھی جومولانا کے سائے کے قریب بھی پھٹکتے، ایسا جاہ وجلال ایسارعب داب کہ بڑے بڑوں کا پتہ آپ کے سامنے پانی ہوجاتا، ۱۹۶۳ء کا وہ منظرتواب بھی نظروں کے سامنے تیررہاہے، مین روڈ پرواقع بخار (گودام) میں قائم مکتب جامعہ میں داخلہ کیلئے پہلے پہل اس ناچیزکو لے جایا گیا تھا، یسرناالقرآن سے (اولئک) کا حرف مولانا نے پوچھا تھا، میری زبان مارے خوف کے تالوسے چپک گئی تھی اورچہرہ خشک ہوگیا تھا ۔
مولانا بڑی بارعب شخصیت کے مالک تھے، آوازمیں گھن گرج تھی جوبہت دورتک سنائی پڑتی تھی، درازقد، میانہ جسم، کتابی چہرہ، گھنی داڑھی،مونچھ ترشی ہوئی،رنگ کھلا گندمی، دوپلی ٹوپی، لنگی پرکلی دارگھٹنے سے نیچی قمیص پہنتے ۔
دس سال بعد مولانا بھٹکل لوٹے تواب شیربوڑھا ہوچکاتھا، دل کے دورے نے اب جسم سے طاقت وتوانائی چوس لی تھی،ڈاکٹر کی گولی کے سہارے کی باربارضرورت پڑتی لیکن ہمت کایہ عالم کہ اس وقت بھی ہم لوگوں کے ساتھ لائٹ ہاؤس کی پہاڑی پرچڑھ گئے ۔
حادثات نے مولانا کا دل گدازکردیاتھا، اس میں رقت غالب آگئی تھی، طلبہ پرشفقت ورفقت کا پہلوچھا گیاتھا، اب کے وہ طلبہ میں گھل مل گئے تھے ، ایک مرتبہ منیری صاحب کی مجلس میں جگرمرادآبادی کی نعت سرکارمدینہ کا تذکرہ چل نکلا، منیری صاحب شاعرموصوف سے اسی نعت کوسنانے کااکثرتقاضہ کیا کرتے تھے، نعت کے چند قطعات سنے تھے کہ آنسوجاری ہوگئے ، رقت سے رونے لگے۔
عرصہ کے لئے ایک مختصر خبرنامہ بھی جاری کیا۔ان کی پیدائش30ستمبر1935کو اعظم گڑھ کے ایک علمی خانوادے میں ہوئی۔وہ اپنے والدمولوی خلیل الرحمن فاروقی کی سب سے چہیتی اولاد تھے۔بچپن ہی میں انھیں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگیا تھااوراپنی بہن کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک ماہنامہ قلمی رسالہ”گلستاں“ شائع کیا تھا۔پندرہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا ناول ”دلدل سے باہر“لکھا۔ انھیں کمسنی میں ہی سینکڑوں اشعار یاد ہوگئے تھے۔اعظم گڑھ سے میٹرک اور گورکھپور کے مہا رانا پرتاپ کالج سے فرسٹ بیچ کے ساتھ بی اے کیا۔1955میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا اور وہ بھی اس شان سے کہ پوری یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔اس کے بعد وہ درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے مگر ساتھ ساتھ سول سروس کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے۔1957 میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعدپوسٹل سروس سے وابستہ ہوگئے۔اس دوران ملک کے مختلف صوبوں میں انھیں تعیناتی ملی۔1994 تک وہ نئی دہلی میں چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور پوسٹل سروسز بورڈ کے ممبر رہے۔ سبکدوشی کے بعد وہ الہ آباد منتقل ہوگئے جہاں ان کی ذاتی لائبریری میں دس ہزاروں کتابیں ان کی منتظر تھیں۔ فاروقی صاحب نے باقی ماندہ عمر لکھنے، پڑھنے اور سوچ بچار میں گزاری۔ ان کی سب سے بڑی خوبی جس نے انھیں اپنے دور کا سب سے بڑا ادیب، محقق، نقاد، ناول نگار اور شاعر بنایا وہ دراصل ان کی ثابت قدمی اور پتہ ماری تھی۔ وہ جس کام کے بھی پیچھے پڑجاتے اسے اس کے انجام تک ضرور پہنچاتے تھے اور وہ بھی اتنے وقار اور معیار کے ساتھ کہ پڑھنے والے سردھنتے ہیں رہ جائیں۔فاروقی صاحب کے انتقال پر اردو حلقوں میں غم والم کی لہر دیکھ کر مجھے افتخارعارف کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
پانچویں برسی پر خاص
شمس الرحمن فاروقی کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
آج عہدساز نقاد اور ادیب شمس الرحمن فاروقی کی پانچویں برسی ہے۔انھوں نے آج ہی کے دن گزشتہ 25 دسمبر2020 کو اپنے وطن الہ آباد میں آخری سانس لی۔ بلاشبہ وہ اردو زبان وادب کے ایک ایسے ادیب ، محقق اور دانشور تھے جس کی حالیہ دور میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے جو علمی اور ادبی ورثہ یادگارچھوڑا ہے اس پر اردو دنیا ہمیشہ ناز کرے گی اور اس بات کی مثالیں دے گی کہ اس دور ابتلا میں بھی ہمارے درمیان ایسے ادیب اورمحقق پیدا ہوئے جنھوں نے اردو ادب کو عالمی ادب سے آنکھیں چار کرنے کے لائق بنایا۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ فاروقی صاحب اگر انگریزی میں ایسا ادب تخلیق کرتے تو انھیں نوبل پرائز ضرور ملتا۔وہ ایک ہمہ جہت قلم کار تھے۔ انھوں نے اپنے لئے ایسے دقیق موضوعات کا انتخاب کیا جنھیں چھوتے ہوئے ہمارے تن آسان ادیب خوف محسوس کرتے ہیں۔ان کی مثال ایک ایسے جوہری سے دی جاسکتی ہے جو جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے، وہ کندن بن جایا کرتی ہے۔انھوں نے اپنا سفر ایک نقاد کے طور پر شروع کیا اور میرفہمی پر ایسی معرکۃ الآراء کتاب تخلیق کی جس پر اردو والے آج تک سردھنتے ہیں۔چارجلدوں پر مشتمل میرتقی میر کی شاعری پر ان کا تنقیدی شاہکار”شعر شور انگیز“ ہی اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اگروہ کچھ اور نہ بھی کرتے تو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہتے۔
وہ بیک وقت کئی اصناف ادب پر دسترس رکھتے تھے۔انھوں نے اردو زبان وادب اور خاص طور پر کلاسیکی ادب کو انگریزی سے متعارف کروایااوردونسلوں کی ذہنی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اردو شعر وادب کو پڑھنے اور سمجھنے کے نئے زاویے ایجاد کئے اور تحریر کو سب سے بڑی طاقت ثابت کردیا۔وہ ایک نہایت مربوط اور منظم ذہن کے مالک تھے اور موضوعات پر ان کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بھی ان کی ہمسری نہیں کرسکا۔معاملہ غالب کی تفہیم کا ہو یا میرشناسی کا یا پھر داستان گوئی کا۔ ان میدانوں میں ان کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ داستان گوئی کو تو انھوں نے ایک ایسے دور میں زندگی بخشی جب وہ ایک متروک صنف سمجھی جانے لگی تھی۔ انھوں نے طویل ترین داستان ”داستان امیرحمزہ“ پر جس جفاکشی اور محنت سے کام کیا، وہ شاید ہی کوئی کرسکتا۔ کلاسیکی شعر وادب، غزل کی شعریات، میرشناسی، داستانی ادب،لغت نویسی، فکشن، ادبی صحافت اور شاعری وہ کون سا میدان ہے جو ان سے اچھوتا رہا ہو اور جس سے وہ سرخرو ہوکر نہ گزرے ہوں۔انھوں نے کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھا بلکہ ان کی بعض تحریریں ایسی ہیں جن پر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی مگر وہ اپنے کام میں مگن رہے۔کسی نے درست ہی کہا ہے کہ فاروقی صاحب کی رحلت سے ادبی بساط الٹ گئی ہے۔
یادش بخیر!
یہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کا قصہ ہے۔راقم الحروف غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں فن خطاطی کا طالب علم تھا۔کلاس بعد دوپہر ہوتی تھی اور شام چھ بجے فراغت کے بعد ہم اکثرغالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ یہاں تقریباً روزانہ ہی کوئی ادبی محفل آراستہ ہوتی جس میں دہلی وبیرون دہلی کے مشاہیراہل قلم جمع ہوتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور غالب اکیڈمی کے آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔جو لوگ ان محفلوں کی شان بڑھاتے تھے، ان میں مالک رام پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمررئیس، پروفیسر شمیم حنفی،پروفیسر محمدحسن،پروفیسر نثار احمدفاروقی، مجتبیٰ حسین، خواجہ حسن ثانی نظامی اورجوگیندرپال کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔فاروقی صاحب ان دنوں دہلی کے ڈاک بھون میں تعینات تھے اوراکثر ان محفلوں میں تشریف لاتے تھے۔ انھیں بڑے ادب واحترام کے ساتھ اسٹیج کی زینت بنایا جاتا۔ان کی جو ادا دوسروں سے انھیں ممتاز کرتی تھی، وہ ان کے پائپ پینے کانرالا انداز تھا۔ ہم نے پہلی بار کسی کو پائپ پیتے ہوئے دیکھاتھا۔آنکھوں پر موٹا چشمہ اور نہایت دیدہ زیب لباس۔ جب وہ مہمان خصوصی یا صدر کے طور پر تقریر کرنے کھڑے ہوتے تو ان کی باتیں سن کر جی چاہتا کہ بس وہ بولتے ہی رہیں۔ ان کی زبان سے علم وفضل کے دریا بہتے تھے۔ وہ تقریر نہیں کرتے تھے اور نہ ہی غیر ضروری ہاؤ بھاؤ سے سامعین کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ بے تکلف انداز میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر باتیں کرتے تھے۔حالانکہ بہت سی باتیں ہمارے سر سے گزر جاتیں کہ اس وقت ہماری عمر ہی کیا تھی۔علمی مباحث اور تحقیق وتنقید کی بیشتر جہتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں، لیکن فاروقی صاحب کی گفتگو میں ایسا جادو تھاکہ ہم انھیں بہت ذوق وشوق سے سنتے تھے۔ اکثر ادبی محفلوں میں فاروقی صاحب کے دیدار ہوتے اور ہم انھیں حسرت بھری نظروں سے یہ سوچ کر دیکھتے اور سنتے تھے کہ آگے چل کر اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو بتائیں گے کہ
مولانا نے اپنے طلبہ پراتنی محنت کی کہ کہاں ۱۹۶۳ء میں یہ احساس کہ وقت کتنا تھوڑااورکام کتنا بڑا، مقصد براری کی راہ کتنی لمبی ،اتنی کہ ہم جیسے سن سفیدہ لوگوں کے دماغ میں کامیابی کی جھلک بھی پیداکرسکے، اس راہ سے منزل تک پندرہ برس سے کم میں رسائی نہ ہوسکے گی، اورکہاں محنت کا یہ پھل کہ تین چارسال بعد جامعہ میں پہلے عربی درجہ نے نے ندوۃالعلماء میں داخلہ لیا تومعیارکا یہ عالم کہ درجہ ہفتم عربی میں داخلہ ہوگیا اور آپ کی جامعہ سے رخصت کے دوسرے ہی سال جامعہ کی عربی جماعت کا پہلا طالب علم محمداقبال بن حسین ملا ندوہ سے فارغ التحصیل ہوکرجامعہ کی مسند تدریس پرجلوہ فگن ہوگیا، کاش اس وقت مولاناا پنے لگائے ہوئے درخت کوپھل دیتے ہوئے دیکھنے کیلئے جامعہ میں موجود ہوتے توکتنے خوش ہوتے لیکن قدرت کوکچھ اورمنظورتھا، اب ان تلخیوں کو یاد کرکے زخموں کوہراکرنے اوردل کودکھی کرنے کا کیافائدہ ۔(جاری)
Читать полностью…’’ انجمن ہائی اسکول کے اونچے کلاسوں کے طلباء اوردلچسپی رکھنے والے شہرکے دوسرے حضرات جوق درجوق شریک ہوتے حتی کہ گوائی میراں کے مکان کے بالاخانے میں تل دھرنے کی گنجائش نہ رہتی، بیرونی گیلری اورزینے تک بھرجاتے، قرآن اورمضامین قرآن سے انجمن ہائی اسکول کے طلباء کی دلچسپی کا بیان میرے بس کا نہیں، فرط اشتیاق کا یہ عالم کہ درس شروع ہونے سے پہلے ہی پوراہال بھرجاتا، سمجھدارطلباء کا یہ عالم تھا کہ پسندیدہ مضامین پرمضمون لکھ کرلانے اوراصلاح کیلئے پیش کرنے لگے، قرآن کوڈائریکٹ طورپرعربی سمجھنے کے شوق میں کتنوں نے عربی شروع کرڈالی، سننے اورسنانے والے سب کے سب مست ومسحور، جی چاہتاکہ زندگی کایہی ایک دھنداہوتاتوکیاہی اچھا ہوتا‘‘۔ (ص ۶۶)
جامعہ کی دستوری اوپننگ کے دومہینے پانچ روزبعد ۲۵/جمادی الاولی ۱۳۸۲ء مطابق ۲۵/اکتوبر۱۹۶۲ء جامعہ کوباقاعدہ عربی جماعت کا پہلاطالب علم ملا محمداقبال کی شکل میں نصیب ہوا اورکچھ دنوں بعدمزید تین طلباء اس میں شامل ہوگئے، مولانااس وقت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہم لوگ جامعہ کی پہلی ششماہی سے گذررہے ہیں، لیکن جامعہ میں پڑھنے کیلئے بچے ناپید ہیں، جناب دامداصاحب اپنے پیروں کے درد میں مبتلا،محی الدین منیری بمبیٔ کب تک نہیں جاتے، حضرت مولانا ارشاد صاحب مبلغ دارالعلوم کورخصت کرکے چند دن بعد خود بھی تشریف لے گئے ، چاردن کی چاندنی پھراندھیراتھا، اب سابقہ ڈاکٹرملپاعلی صاحب سے تھا یا پھرجناب عثمان حسن صاحب سے، طلباء کی طرف سے مایوسی کے عالم میں ان ہی سے پوچھتا کہ آخرطلباء کہاں سے آئیں یاکہاں سے لائے جائیں؟کوئی تشفی بخش جواب کسی سے نہیں ملتا، بالآخرماسٹرصاحب نے مجبورہوکرایک مکتب کھول لینے کا مشورہ دیاکہ انہیں کوحسب دل خواہ پڑھا لکھا کرپاس پوس کرپروان چڑھا کرجامعہ میں پڑھنے کے لائق بنائے، سمجھنے والاخوب سمجھ سکتاہے کہ جواںعمروجواں ہمت ہیڈ ماسٹرکی یہ تجویزجوموصوف کے نزدیک نہ صرف مجبوری کے علاج کے طورپرتھی بلکہ واقعی بہت سی خوبیوں اورمصلحتوںکی حامل بھی تھی، مجھ ضعیف ناتواں کیلئے کتنی ہمت شکن، روح فرسا اورساتھ ہی کتنے بڑے طول امل کی حامل تھی، میں توقبرمیں پیرلٹکائے حیات مابقی کے اندرہی اندربدست خودجامعہ کوجامعہ بنانے اوربچشم خود اس کے نتائج وثمرات کودیکھنے کا آرزومند اورمشورہ اس قدرطول وطویل، وقت کتنا تھوڑااورکام کتنابڑا، مقصد براری کی راہ کتنی لمبی، اتنی کہ ہم جیسے سن سفید لوگوں کے دماغ میں کامیابی کی جھلک بھی نہ پیدا کرسکے، اس راہ سے تومنزل تلک پندرہ برس سے کم میں رسائی نہ ہوگی‘‘ ۔ (ص ۶۹)
ابتداء میں مولانا کی جامعہ میں تقرری بالکل عارضی محض عبوری دورکیلئے تھی ، چندماہ بعدجناب ڈی اے ابوبکراورڈی اے اسماعیل صاحبان نے بمبیٔ جاتے ہوئے کاسرکوڈمیں ندی پارکرتے وقت رمضان بعد واپس آنے اورجامعہ کے خاطربھٹکل کومستقل مستقربنالینے پراس قدرزوردیا کہ ایک طرف سننے کو تیارنہ ہوئے۔ (۷۲)
مؤرخہ ۷/اکتوبر۱۹۶۳ء جناب یس یم سید محی الدین صدربلدیہ ونائب صدرانجمن حامی مسلمین بھٹکل کی صدارت میں ہمدردان جامعہ کا ایک جلسہ منعقدہوا جس میں انتظامی امورسے متعلق مندرجہ ذیل تجویزمنظورہوئی :
الف ۔ جامعہ کے تعلیمی وانتظامی جملہ امورکوسنبھالنے اورچلانے کیلئے ہمارایہ جلسہ متفقہ طورپرجناب مولاناعبدالحمید صاحب ندوی کومنتخب کرتاہے، اورموصوف پرپورا اعتماد کرتے ہوئے کامل اختیاردیتاہے کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق جامعہ کے جملہ امورکوچلائیں اورپوری ذمہ داری کے ساتھ اس کی دیکھ بھال کریں ۔
ج۔ یہ جلسہ بالاتفاق طے کرتاہے کہ دفتری امورکے انتظام وانصرام کیلئے مولانا عبدالحمید صاحب ندوی کواختیارہوگا کہ جسے چاہیںا ٓنریری یابالمعاوضہ مقررکرلیں ،لیکن ذمہ داری تمام ترموصوف ہی پررہے گی ۔ (۵۹)
ابتدائی دورمیں جامعہ کے تئیں ذمہ داریوں ک اکونسا بوجھ پڑااس کا نقشہ زرا مولاناہی کی زبانی سنئے :
’’ابھی توکیفیت یہ ہے کہ دینی تعلیمی تحریک ڈاکٹرعلی کے ذہن سے زبان پر آئی ، قریب کے دوایک نے بات اٹھائی، منیری صاحب نے کس طرح ڈھانچہ کھڑا کردیا، ندوی صاحب ہاتھ لگ گئے توسارابوجھ ان پرڈال دیاگیا، اب وہ ہیں اور جامعہ، رب کریم کا کرم ہے قوم کے دریادلوں پرکہ جس نے قوم کی دینی ضرورت کیلئے بے دریغ روپیہ دیا، دوڈھائی برس سے دیتے چلے آرہے ہیں، پوچھتاتک نہیں کہ اسے کیا کیا؟ یہ ہے کیفیت اورحقیقت حال جامعہ اسلامیہ کی، ابھی نہ جامعہ کا کوئی ضابطہ ہے ، نہ کوئی مینیجنگ باڈی ہے، نہ صدرو سکریٹری ہیں، نہ منتظم ، نہ مہتمم ، نہ آفس، نہ آفس بیرر، نہ منصرم ، نہ متولی، نہ کلرک نہ پیون، کچھ بھی تونہیں، کام بالکل گھریلوطریقہ سے چل رہاہے اوراﷲ کے فضل سے نہایت خوبی وخوش اسلوبی کے ساتھ چل پارہاہے ۔ (ص۳۵)
ماہنامہ ''الحق'' آن لائن ویب سائٹ کا آغاز
https://alhaqonline.com
الحمدللہ ! جامعہ دارالعلوم حقانیہ کا علمی و دینی ترجمان مجلہ ''الحق'' جوکہ 59سال سے مسلسل شائع ہورہا ہے ،جس نے دینی اور علمی حلقوں میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے، اب آپ کے لیے ڈیجیٹل دنیا میں ویب سائٹ کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ چاہے آپ سفر و حضر میں ہوں یا کہیں بھی ، اب آپ صرف ایک کلک سے ''الحق''کے بیش قیمت مضامین تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔اس ویب سائٹ میں اکتوبر 1965 سے لے کر موجودہ تمام شمارے دستیاب ہوں گے۔ آپ اپنے پسندیدہ مضامین کو یونی کوڈ اور پی ڈی ایف فارمیٹ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ہر ماہ کی نئی اشاعت اور خصوصی شمارے وغیرہ بھی بروقت اپڈیٹ کیے جائیں گے اور قارئین کو علمی مضامین کے ساتھ ساتھ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کی تازہ ترین معلومات بھی دستیاب ہوں گی ۔ قارئین پی ڈی ایف کی شکل میں شمارے ڈاون لوڈ بھی کرسکیں گے اور اس کے علاوہ آف لائن بھی استفادہ کرسکیں گے ۔ معروف اہل علم و قلم کے تحقیقی مضامین، جن میں تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف ،تاریخ، سیرت اور دیگر جدید موضوعات شامل ہیں۔اس ویب سائٹ کے ذریعے آپ آسانی سے سبسکرپشن حاصل کر سکتے ہیں اور ہر ماہ کا شمارہ براہِ راست اپنے ای میل پر بھی موصول کر سکتے ہیں۔قارئین اور طلبا کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے علماء سے براہ راست رابطے کی سہولت بھی موجود ہوگی ۔
https://alhaqonline.com ویب سائٹ لانچ ہوچکی ہے ،اب آپ اس کا وزٹ کرسکتے ہیں ۔ اپنے علم میں اضافہ کریں اور دینی رہنمائی حاصل کریں۔
نوٹ: اس ویب سائٹ پر مزید بہتری کے لئے مفتی محمد یاسر نعمانی، جناب زاہد صاحب کام کررہے ہیں۔ آپ کی اچھی تجاویز کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ (مدیر اعلیٰ ماہنامہ ''الحق'')
مولانا راشد الحق سمیع
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*عکسِ غزالی*
*حضرت مولانا قمر الدین صاحب گورکھپوری نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث ثانی دارالعلوم دیوبند*
خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347
/channel/ilmokitab
دارالعلوم دیوبند کے عظیم استاذِحدیث ،اونچی نسبتوں کے حامل بزرگ،عالمِ ربانی،شریعت و طریقت کے جامع،ماہرِ علوم عقلیہ و نقلیہ،حضرت مولانا (المعروف بعلامہ )قمر الدین صاحب گورکھپوری بھی،اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ آج صبح تقریباً پانچ بجےبتاریخ19جمادی الثانی مطابق22دسمبر2024 حضرت مولانا دار فانی سے دار جاودانی کی طرف منتقل ہو گئے۔آپ کے جانے سے تاریخِ دارالعلوم دیوبند کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔تدریس حدیث کا ایک بڑا ستون منہدم ہو گیا۔ سلوک و تصوف کا ایک روشن باب مستور ہو گیا۔ پند و نصائح کاوسیع سلسلہ رک گیا۔ اسلاف کے واقعات اور نصیحت بھرے حالات سنانے والی ایک عظیم شخصیت داغِ مفارقت دے گئی بزرگوں کی باتیں سنا کر دلوں کو گرمانے والے محدث اور صوفی اب نہیں رہے۔
یوں تو آپ کافی دنوں سے علیل چل رہے تھے۔ رہ رہ کے ایسی خبریں آتی تھیں، جن سے لگتا تھا کہ؛حضرت بس اب جانے والے ہیں چراغِ سحرہیں،بجھاچاہتے ہیں ۔لیکن پھر ایسی خبر آجاتی کہ دل کو سکون ہو جاتا۔آج ساری امیدیں ٹوٹ گئیں اور حضرت حقیقی معنوں میں حیاتِ جاودانی سے ہمکنار ہو گئے۔
ہماری طالب علمی کے زمانے میں حضرت رحمہ اللہ علامہ اور شیخِ مسلم سے مشہور تھے؛ کیونکہ؛آپ صحیح مسلم کا درس دیا کرتے تھے اور اس عاجز نے بھی آپ سے صحیح مسلم شریف ہی پڑھی ہے۔علامہ گویا جزوِ نام ہوگیاتھا۔احاطہءدارالعلوم میں کوئی آپ کو علامہ کے بغیر یاد نہیں کرتاتھا۔
دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں غالبا سب سے پہلے علامہ کے لقب سے امام المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ملقب ہوئے۔ اس کے بعد حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی کا جزوِ نام ہوا۔حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی کے بعد اس لقب سے حضرت مولانا قمر الدین صاحب رحمہ اللہ مشہور ہوئے ۔بے شک! آپ اسکےمستحق تھے اور یہ لقب آپ کو جچتا تھا۔
یادش بخیر! بچپن میں جب فارسی یا عربی اول میں تھا۔ غازی آباد کے ایک گاؤں میں، والد محترم کے ایک شاگرد رشید( قاری ابرار صاحب دوتائ) کے یہاں ان کی مدرسے کے سالانہ اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس علاقے اور اس اجلاس کے مہمان خصوصی حضرت مولانا بلال اصغر صاحب دیوبندی رحمہ اللہ ہوا کرتے تھے۔ان کی تقریر وہاں بڑی مقبول تھی۔ اور لوگ ان کے گرویدہ تھے۔ شوق سے ان کی تقریر سنتے تھے لیکن اس سال حضرت مولانا قمر الدین صاحب رحمہ اللہ کو بھی دعوت دی گئی اور آخر میں حضرت کا بیان رکھا۔سفر کے باعث حضرت مولانا قمر الدین صاحب نور اللہ مرقدہ کو پہلے موقع دیا گیا اور آخر میں حضرت مولانا بلال اصغر صاحب کو موقع دیا گیا۔ حضرت علامہ نے اس موقع پر جو تقریر فرمائی بہت ہی موثر، دل پذیر، پرکشش، دلوں کو موہ لینے والی تھی ۔پورا مجمع ایک عجیب اثر محسوس کر رہا تھا۔ سماں بندھ گیا۔اس تقریر میں آپ نے بزرگانِ دیوبند کے کئی واقعات سنائے،جس سے مجمعے پر ایک خاص کیفیت دیکھنے کوملی ۔مدرسے کے طلبہ کی دستار بندی بھی تھی، تو حضرت ہی کے ہاتھوں دستار بندی کرا دی گئی، اور آخر میں حضرت مولانا بلال اصغر صاحب کو تقریر کے لیے دعوت دی گئی؛ مگر مجمع حضرت مولانا قمر الدین صاحب نور اللہ مرقدہ لوٹ کر جا چکے تھے ۔اب مجمعے میں وہ کیفیت باقی نہیں رہی تھی ۔پہلے والا اشتیاق نظر نہیں آرہا تھا۔ اس پر حضرت مولانا بلال اصغر صاحب پر ایک جلال والی کیفیت بھی نظر آئی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ منتظمین پر کافی ناراض ہیں۔کچھ دیر بعد مجمع پرسکون ہوا، تو حضرت مولانا بلال اصغر صاحب نور اللہ مرقدہ کی تقریر بھی خوب رہی۔ انہوں نے بھی بزرگوں کے حالات واقعات ،صالحین کے قصے،خوبصورت اور دل پذیر نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔ سامعین کو خوب فائدہ ہوا۔یہ ایک واقعہ تھا۔ میں اس واقعہ سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ مجمع ،عام دیہاتیوں کا مجمع تھا۔ان میں سیدھے سادے ان پڑھ لوگ زیادہ تھے اور حضرت والا دارالعلوم دیوبند کے محدثِ کبیر ؛لیکن آپ کی تقریر سے ان پر بےحداثر ہوا،بیان موثر اور کافی مفید رہا۔جب آپ جانے لگے، تو مجمع آپ سے ملاقات کے لیے بے تاب نظر آیا، جو ملاقات نہیں کر سکتے تھے صرف زیارت لیے ہی پریشانی اٹھا رہے تھے اور ایک دوسرے پر گر پڑ رہےتھے؛ کیونکہ اژدہام تھا، بھیڑ تھی اور لوگوں میں ایک عجیب وارفتگی تھی۔
حضرت مولانا جب سبق پڑھاتے تھے اس وقت بھی عشقِ الہی اور عشقِ رسول میں ڈوب کر تقریر فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی درسی تقریریں عام فہم مربوط اور مسلسل ہوا کرتی تھیں۔ بیچ بیچ میں گاہے بگاہے نصیحتیں، اسلاف کی باتیں،بزرگوں کی حکایات،دل پذیر موعظت سے بھی نوازتے تھے۔ ہم جیسے بیکارو غبی قسم کے طالب علمی بھی آپ کی درسی تقریروں کے نور سے خوب حظ اٹھایا کرتے تھے۔بہت اچھا لگتا تھا جب آپ عشق الہی سے سرشار ہو کر ، عشق رسول کی سرمستی میں قال اللہ وقال رسول کے زمزموں کے درمیان، خوبصورت اور
"ایسا کہاں سے لاؤں تجھ سا کہیں جسے"
عزير احمد قاسمى
/channel/ilmokitab
استاد الاساتذہ، محدث جلیل، شیخ التفسیر، حضرت علامہ مولانا قمر الدین احمد صاحب نائب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا بروز اتوار ٢٢ دسمبر سن ٢٠٢٤ء کو علی الصباح قبل نمازفجر انتقال ہو گیا، انا لله وانا اليه راجعون لله ما اخذ ولله ما اعطى وكل شيء عنده بمقدار.
حضرت والا کے انتقال سے جو دھچکا اور غم ہمارے پورے خاندان پر پڑا ہے اور ناقابل بیان ہے، رب کریم حضرت والا کى بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے۔ امین
حضرت والا سے ہمارے گھر انے کے تعلقات کم و بیش 50 سال سے تھے، یہ حقیر سن 1975 ءمیں دارالعلوم دیوبند گیا، اس سے پہلے ہمارے دو بھائی حضرت مولانا فضیل احمد صاحب، اور حافظ شعیب احمد رحمهما الله حضرت کی خدمت میں رہ چکے تھے، جنہیں حضرت والا اپنی اولاد کی طرح سمجھتے اور مانتے تھے، ا حقر جس وقت دارالعلوم دیوبند گیا کم عمر تھا ،حضرت کے گھر میں آنا جانا رہتا تھا، حضرت کی اہلیہ جنہیں ہم "چچی جان" کہا کرتے تھے( تغمدها الله بواسع رحمته ويسكنها فسيح جناته) بڑی شفقت کا معاملہ فرماتی تھیں، چونکہ حضرت والا کی کوئی صلبی اولاد نہیں تھی ،اس لیے اپنے بڑے بھتیجے جناب مولانا معراج الحق صاحب استاد جامعہ قاسمیہ شاہی مراد اباد کو اپنے پاس رکھ رکھا تھا، گھریلو ضروریات کو ہم دونوں پورا کر دیا کرتے تھے، وہ بھی اولاد کی طرح شفقت فرمایا کرتی تھیں، یہ میرا سال پنجم تھا،حضرت والا علیاء کے استاد تھے،بعد میں حضرت سے کتب حدیث پڑھنے کا اتفاق ہوا،اس کے ساتھ ساتھ اور بھی درسی کتابوں میں جہاں کوئی اشکال ہوتا تھا حضرت سے پوچھ کر حل کر لیا کرتا تھا ،میرے بڑے بھائی مولانا فضل احمد مرحوم نے حضرت والا سے اپنے وطن گو رکھپور چلنے کی درخواست کی، جسے حضرت والا نے شرف قبولیت سے نوازا، میرے والدمولانا مجیب اللہ صاحب (تلمیذ شیخ الاسلام و شیخ الادب) مدرسہ عربيہ بيت العلوم بیروا چندن پورضلع گورکھپور(حال مہاراج گنج) کے ناظم تھے،دیہات کی وجہ سے وہاں مواصلاتى نظام ایسا نہیں تھا کہ حضرت کو اسٹیشن سے بذریعہ گاڑی یا رکشہ لایا جا سکے، اس لیے والد صاحب نے ہاتھی کا انتظام کروایا، اس پر سوار ہو کر حضرت والا اسٹیشن سے مدرسے تشریف لائے،کئی دن قیام فرمایا ،آس پاس کے مدارس کے ذمہ داران کی کافی بھیڑ رہی، حضرت والا شکار کے بے حد شوقین تھے، اس لیے قریبی جنگل میں شکار کا انتظام کرایا گیا، کچھ شکاری تجربہ کار لوگ حضرت کے ساتھ گئے ،اور شکار بھی لائے ،پھر یہ سلسلہ متعدد بار پیش آیا کہ حضرت ہماری دعوت کو شرف قبولیت سے نوازتے تھے، اور کئی کئی دن قیام فرمایا کرتے تھے ،میرے والد صاحب نے اپنی آخری عمر میں علالت کی بنا پر ادارے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، اور اب ہماری رہائش دوسری جگہ ہو گئی تھی، یہاں پر بھی والد صاحب ہی کا قائم کردہ ادارہ مدرسہ سعد ابن ابی وقاص تھا، حضرت والا وہاں بھی "چچی جان" کے ساتھ تشریف لایا کرتے تھے، اور اسی پرانے انداز میں وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ شکار کا بھی سلسلہ چلتا رہتا تھا ،تعلیم و تربیت وعظ و نصیحت ہر طرح کی مجالس ہوا کرتی تھیں، راقم السطور جس وقت مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں تدریس سے متعلق تھا، حضرت کی معیت میں دارالعلوم کی طرف سے سن ١٤٠٢ھ میں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمہ کے حکم پر مالیگاوں اور بمبئی کا سفر ہوا،جس میں مختلف جگہوں پر بیانات بھی ہوئے، احقركے دیوبند سے بہ سلسلہ تعلیم سعودی عرب جانے کے بعد بھی خط کتابت اور ملاقات ہوتی رہتی تھی، حضرت کی وہی شفقتیں وہی عنایتیں اب بھی رہا کرتی تھیں، میرے بھتیجوں مولوی محمد ازھد مرحوم، مولوی سہیل احمد ،ومولوی محمداخلد سلمهما جس وقت دیوبند میں زیر تعلیم تھے ان کے ساتھ بھی ہمیشہ شفقت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے، خاص طور پر گورکھپور کے طلباء کے ساتھ تو بہت ہی محبت و تعلق سے پیش آتے،ان کی خواہش ہمیشہ یہ رہتی تھی کہ اس پسماندہ علاقے کے طلباء زیادہ سے زیادہ تعلیم میں آگے بڑھیں، اور اپنے ضلع کا نام روشن کریں، دارالعلوم كےاختلافی دور میں ہمیشہ طلباء کو ان کی یہی نصیحت رہا کرتی تھی کہ تم طلبِ علم کے لیے دارالعلوم آئے ہو کسی بھی اختلاف سے تمہارا کوئی بھی سروکار نہیں رہنا چاہیے، بلکہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم ہی کی طرف اپنی توجہ کو مرکوز رکھو، یوں تو حضرت کے جاننے اور عقیدت رکھنے والے ہندوستان کے گوشے گوشے میں ہیں، لیکن مغربی یو پی میں خاص طور پر اہل مدارس اپنے پروگراموں میں حضرت کو ضرور بلانا چاہتے تھے، اور حضرت والا بھی اپنی تدریسی مشغولیت نیز دارالعلوم دیوبند کی ذمہ داریوں کے باوجود کوشش یہی کرتے تھے کہ آنے والے علماء اور محبین کی دلشکنی نہ ہو، حسب وسعت وقت ضرور دیتے تھے، اپنے شاگردوں خاص طور پر جو دیوبند سے جا چکے ہیں اور کسی ادارے سے وابستہ ہیں ،دیوبند آنے کے موقعہ پر ان حضرات کی يہى خواہش ہوتی ہے کہ اپنے اساتذہ
🌹 *ایک نظر ادھر بھی۔۔۔۔۔!*🌹(1406)
*قاسمی قبرستان*
/channel/ilmokitab
احاطہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں کئی ایسی جگہیں ہیں جو تاریخی ہے، جیسے "چھتہ مسجد، نودرہ(مولسری)،اسی میں تاریخی کنواں، مسجد قدیم، باب القاسم اور باب الظاہر ،قدیم دارالحدیث وغیرہ "، ان تمام سے متعلق ایک عظیم تاریخ وابستہ ہے ،انہیں تاریخی مقامات میں سے ایک تاریخی مقام زبان زد"مزار قاسمی"(قاسمی قبرستان،یا قاسمی شہر خموشاں)ہے ،جس میں عالم اسلام کے کئی علم و عمل کے آفتاب و ماہتاب آسودگان خاک ہیں، یہ " قاسمی قبرستان" بانی دارالعلوم دیوبند حجتہ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی قدس سرہٗ کے نام سے موسوم ہے، کیونکہ اس شہر خموشاں کے سب سے پہلے مکیں حضرت بانی دارالعلوم دیوبند ہی ہوئے تھے، اس کے بعد سے ہی "قاسمی قبرستان"کے نام سے موسوم ہوا ۔
اس قبرستان قاسمی کے بارے میں شاہین ختم نبوّت حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب دامت برکاتہم العالیہ (پاکستان)اپنے سفرنامہ "ایک ہفتہ شیخ الہند کے دیس میں"لکھتے ہیں:
*"ہم نماز کے بعد قبرستان قاسمی میں حاضر ہوئے ۔یہ قبرستان علم و فضل ،تقوی و ولایت کے کتنے عظیم لوگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔اس پر فقیر کیا عرض کرسکتا ہے ۔حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ جانب مغرب حضرت مولانا قاری محمد طیّب رحمہ اللہ ،حضرت نانوتویؒ کے قدموں میں حضرت شیخ الہندؒ،ان کے ساتھ جانب مغرب میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ۔آپ کے ساتھ پہلو میں جانب مغرب مولانا سید اسعد مدنیؒ۔ان حضرات نے یہاں لا کھڑا کیا ۔تمام قبرستان کے مکینوں کے لئے ایصال ثواب کیا۔"*
"قاسمی قبرستان" کا وجود اس طرح عمل میں آیا کہ حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا جب وصال ہوا تو دیوبند کے ایک صاحب خیر"مرحوم حکیم مشتاق احمد "نے زمین کا ایک حصّہ قبرستان کے لئے اسی وقت وقف کیا اور سب سے پہلے اس میں حجۃالاسلام کی تدفین ہوئی ، حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "حالات طیّب"(سوانح حیات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ) میں لکھتے ہیں:
*"گھر میں وسعت نہ تھی ،مدرسہ میں لاکر جنازہ رکھا اور بعد غسل و کفن ،بیرون شہر ایک قطعہ زمین کا ،حکیم مشتاق احمد صاحب نے خاص قبرستان کے لئے اسی وقت وقف کردیا ،وہاں اول مولانا کو دفن کیا۔"*(صفحہ:69/محقق حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی مدظلہ العالی)
اس "قبرستان قاسمی"کی تاریخ سے متعلق حضرت مولانا مفتی فیضل الرحمن ہلال قاسمی رحمہ اللہ بھی اپنی کتاب "حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیّبؒ ایک شخصیت ،ایک عہد ،ایک تاریخ"میں لکھتے ہیں:
*"دارالعلوم کی شمالی جانب قبرستان قاسمی میں پہلی قبر مولانا نانوتوی صاحبؒ کی بنی ،جس کو حکیم مشتاق احمد صاحبؒ نے حضرت نانوتوی کے خاندان کے لئے وقف کردیا تھا ،کیوں کہ یہ خاندانی قبرستان ہے اس لیے کسی اور کی تدفین کے لئے ان کے وارثوں سے اجازت لینی ضروری ہوتی ہے۔"*(صفحہ:11)
موجودہ دور میں حکیم مشتاق احمد صاحبؒ کے خاندان سے کوئی بقیدِ حیات ہیں یا نہیں ، راقم الحروف اس سے ناواقف ہے ، اللہ تعالیٰ حضرت حکیم صاحب رحمہ اللہ کی قبر کو نور سے منور فرمائے کہ انہوں نے اپنی زمین وقف کرکے ایک عمدہ سودا کیا کہ آج اس خاک پر اپنے زمانہ کے اساطین علم و فضل محو استراحت ہیں ، اس کا ثواب ضرور حکیم مشتاق احمد صاحبؒ کو ملتا رہے گا۔ ان شاء اللہ
ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
٢٠/جمادی الاخری ،١٤٤٦/ھ
23/دسمبر ،2024/ء
moinuddinmusleh88@gmail.com
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اس طرح ہم لوگوں کی پیشی اختتام کو پہونچی ـ ( آگے چل کر ہم لوگوں نے اُس جھوٹے باغ والے کو جو سبق سکھایا تھا اس کا ذکر ابھی موضوع سے خارج ہے)
اس کے بعد بھی کئی چھوٹی چھوٹی ملاقاتیں پیش آتی رہیں، چونکہ حضرت ناظم دارالاقامہ تھے اس لئے کبھی کبھی فجر کے فورا بعد ہماری افریقی منزل کا دورہ فرماتے، ہمارے زمانے میں افریقی منزل ہم جیسے آزاد پنچھیوں آشیانہ تھا، اس لئے عموما حضرت کے ہر دورہ پر کوئی نہ کوئی ایسا پرندہ شکار ہوجاتا جو صیاد سے بے خبربال وپر بکھرائے ہوئے بستر خواب پر دراز ہوتا ـ الحمدللہ ہمارے ساتھ یہ نوبت کبھی نہیں آئی، البتہ کبھی کبھی سامنا ہوجاتا تو ہم سلام کا شرف حاصل کرلیتے تھے ـ
موقوف علیہ میں ہم لوگوں کا کوئی سبق حضرت کے پاس نہیں تھا، ہمارا حضرت کے پاس پہلا سبق دورہ حدیث کے سال موطاء امام محمد کا ہوا، عجیب درس تھا، سبق بھی ہوتا اور حضرت کا وعظ بھی، حدیث پر مختصر جامع کلام کے بعد اسی موضوع پر بزرگوں کے اقوال، اکابر دارالعلوم کے واقعات، مثنوی کے اشعار مخصوص انداز میں سناتے تھے ـ
حضرت سے تعلیم کے دوران ایک سابقہ اور پڑا، دراصل دارالعلوم میں یہ قانون بنایاگیا کہ دارالعلوم سے فارغ ہونے والوں کے لئے تجوید کا جاننا ضروری ہے، طلباء دارالعلوم اپنی سہولت کے مطابق شعبہ تجوید کے کسی بھی قاری کے یہاں جاکر روز تجوید کی مشق کریں اور فوائد مکیہ مکمل پڑھیں،اس قانون کے بعد ہم نے بھی حضرت قاری احمد میاں ( یہ حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی کے صاحبزادے اور مجذوب صفت دلچسپ بزرگ تھے، عرصے سے موصوف پر کچھ لکھنے کا تقاضا ہے مگر اب تک ہو نہیں پایا، دیکھئے کب ہوتا ہے ـ ) کے درجے میں نام لکھا لیا، وہاں بہت آسانیاں تھیں، سال بھر غیر حاضری کے باوجود ہمیشہ حاضری لگ جاتی تھی، سہ ماہی شش ماہی امتحانات میں بغیر محنت کے اعلی کامیابی ملتی تھی،........... مگر قاری صاحب کے اسی مزاج کی وجہ سے اُن کے درجے کا سالانہ امتحان کسی دوسرے استاذ کے سپرد ہوتا تھا اور تب سال بھر کی کوتاہیوں اور تن آسانیوں کا احتساب ہوجاتا تھا ـ اسی وجہ سے عموما لڑکے دوسرے قراء کے یہاں پڑھتے تھے، میں چونکہ ممبئی میں ہی متعدد قراء کے یہاں مشق کرچکا تھا، قواعد تجوید سے بھی کچھ شدبدھ تھی، اس لئے مجھے قاری احمد میاں کے یہاں نام لکھانا مناسب لگا،............ بہر حال تجوید کا سالانہ امتحان حضرت مولانا قمرالدین صاحب کے یہاں پہونچا، قاری صاحب کے درجے کے سب لڑکے حاضر ہوئے، حضرت ایک ایک کو بلاکر فوائد مکیہ سے سوالات کرتے اور قران کی چند آیتیں تجوید کے ساتھ سنتے، میرا نمبر آیا فوائدمکیہ سے سوال جواب کے بعد مجھے بھی کچھ پڑھنے کا حکم ہوا، مجھے پہلے سے مشق تھی اس لئے اعتماد کے ساتھ ترتیل سے پڑھنا شروع کیا، حضرت کے ذہن میں چونکہ میری تصویر ایک کھلنڈرے، شریر اور نااہل طالبعلم کی تھی اس لئے جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو حضرت کے چہرے پر تعجب کی لکیریں تھیں، آخر تک غور سے میرا چہرہ دیکھتے رہے ـ الحمدللہ نمبرات بھی حضرت نے اعلی دئے تھے ـ ہاں ! آخر میں حضرت نے تمام لڑکوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
" آپ لوگ قاری احمد میاں کے شاگرد ہیں مگر ان کے لہجے میں تو کسی نے نہیں پڑھا ؟ "
کیسے پڑھتے ؟کسی نے قاری احمد میاں کے پاس جاکر مشق کی ہو تب نا! ........ مگر یہ بات حضرت کو کون بتاتا ؟
فراغت کے تقریبا دس برس بعد ممبئی میں منعقد ہونے والے حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی رح کے تعزیتی اجلاس میں شرکت کی دعوت کے لئے حضرت کو فون کیا، شروع میں محمود نام بتایا تو حضرت پہچان نہیں پائے، مگر جب ممبئی کا موٹا بتایا تو فورا پہچان لیا، دعوت قبول ہوئی حضرت تشریف لائے، یہاں بڑا تعزیتی اجلاس تھا اس سے خطاب فرمایا، ......... اُس اجلاس میں شرکت کے لئے حضرت ایک خادم کے ساتھ صبح فجر کے وقت ٹرین سے پہونچے تھے، حضرت وہیں اسٹیشن پر ہی نماز پڑھنا چاہتے تھے، ہم نے عرض کیا، حضرت مہدی مسجد قریب ہے جماعت مل سکتی ہے، اسٹیشن کی ٹرافک کی وجہ سے جب مسجد پہونچے تو جماعت ہوچکی تھی، انفرادا نماز پڑھی گئی، مسجد میں کچھ ہمارے جاننے والے بھی ملے، انھیں جب بتایا گیا کہ دیوبند کے استاذ ہیں تو انھوں نے حجرے میں چائے وغیرہ کا اہتمام کیا، اُن دنوں اُس مسجد میں دیوبند کے قاری زبیر صاحب امام تھے، وہ بھی تشریف لے آئے، دیوبند کا ہونے کی وجہ سے حضرت بھی اُن سے واقف تھے، وہ کہنے لگے کہ مولانا ہمارے پڑوس میں صبح جلیبیاں بہت عمدہ بنتی ہیں، چائے سے قبل گرم جلیبیاں لطف دے جائیں گے ـ حضرت نے قاری صاحب کو اصول حدیث کے ایک مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے بڑا پر لُطف جواب دیا ـ فرمایا
" قاری صاحب آپ ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی معتبر ہوتی ہے "
اسلامی ثقافتی نمائش - ایک دل موہ لینے والا تجربہ
/channel/ilmokitab
23-24دسمبر 2024 کو جامعہ اسلامیہ کارگدّے کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ اسلامی ثقافتی نمائش کی جھلکیاں دیکھنے کا شرف یوٹیوب کے ذریعے حاصل ہوا۔ استاد جامعہ، محترمی ومكرمی مولوی سعود شنگیٹی ندوی صاحب کی عنایت سے ارسال کردہ لنک نے غائبانہ ہی سہی، اس شاندار نمائش کے مناظر سے فیض یاب ہونے کا موقع فراہم کیا۔ یہ نمائش، بلاشبہ اسلامی ثقافت کے مختلف گوشوں کی دلکش عکاسی اور متنوع پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ایک منفرد کوشش تھی۔
نمائش میں پیش کیے گئے موضوعات نے دل و دماغ کو مسحور کر دیا۔ غزواتِ رسول ﷺ، مسلم سائنسدانوں کی خدمات، اسلام اور سائنس کے تقاضے، تاریخِ ہند کی جھلكیاں، فلسطین کی المناک داستان، اور دیگر کئی اہم موضوعات پر طلبہ نے ماڈلز کے ذریعے شاندار عکاسی کی۔ ہر ماڈل، ہر منظر، اور ہر تفصیل گویا تاریخ کو زندہ کر رہا تھا۔ یوں محسوس ہوا کہ ہم خود ان تاریخی لمحوں میں جی رہے ہیں، ان واقعات كے چشم دید گواہ بن رہے ہیں۔
طلبہ کی محنت، تخلیقی صلاحیت، اور تحقیقی دلچسپی نے دل کو بے حد مسرور كیا۔ اساتذہ کی رہنمائی اور طلبہ کی انتھک محنت کا عکس ہر زاویے سے جھلکتا نظر آیا۔ ان ماڈلز کی تیاری اور ان کے پیش کرنے کے انداز میں ایک غیرمعمولی مہارت دکھائی دی۔ طلبہ جس دلکش اور مؤثر انداز میں ان ماڈلز کی منظر کشی کر رہے تھے، وہ واقعی دیدنی تھا۔
ایسی غیر نصابی سرگرمیاں نہ صرف طلبہ کی خفتہ صلاحیتوں کو جِلا بخشتی ہیں بلکہ ان كی خود اعتمادی میں اضافہ بھی کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ، دیکھنے والے ان لمحات کو اپنی آنکھوں کے سامنے جیتے ہیں، ان سے روحانی و علمی فیض حاصل کرتے ہیں، اور اپنے ایمان کو تازگی عطا کرتے ہیں۔
یہ نمائش اسلامی تاریخ و ثقافت کو منفرد انداز میں پیش کرنے کی ایک شاندار کوشش تھی۔ ایسی کوششیں نہ صرف تعلیمی اداروں کی شان میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ اسلامی ورثے کی یاد دہانی کے لیے ایک بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہیں۔ یہ قدم قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے۔
میں دل کی گہرائیوں سے جامعہ اسلامیہ کارگدّے کے اساتذہ اور طلبہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے مل جل کر یہ تاریخی نمائش ترتیب دی۔ میری دعا ہے کہ ایسی سرگرمیاں بار بار منعقد ہوں، تاکہ ہماری نئی نسل کو اسلام کی عظیم تاریخ اور ثقافت کے قریب لایا جا سکے۔
شكیب احمد شاہ بندری
مقیم دبی، متحدہ عرب امارات
24-12-2024
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اماں جان!
مولانا محمد یاسر عبداللہ
جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
/channel/ilmokitab
اماں جان کو اس دنیا سے منہ موڑے پانچ برس ہونے کو ہیں، اتنے عرصے میں لوگ جانے والوں کو بھول جایا کرتے ہیں، لیکن ماں کو بھلا کیونکر کوئی بھلا سکتا ہے؟! وہ ہماری یادوں کا حصہ ہیں اور رہیں گی، وہ صبح سویرے ان کے ہاتھوں کا ناشتہ، دوپہر کی سخت گرمی میں ان کے ہاتھوں کی بنی تازہ اور گرما گرم روٹیاں، شام کی چائے لوازمات سمیت دستر خوان کی زینت بنانا، رات کے کھانے میں سب بہن بھائیوں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا، رمضان کے سحر وافطار میں ان کا اہتمام، ہر موقع پر ہمیں کھلا کر خود کھانا، جمعے کے روز ہم سب بھائیوں کے کپڑے استری شدہ تیار رکھنا، عید کی حسین صبح میں ان کے چہرے کی تمتماہٹ، نمازِ عید کے بعد ان کی مسرّت انگیز دید، ان میں سے کونسا لمحہ بھلانے لائق ہے؟! اور ہم انہیں بھولے ہی کب ہیں کہ دوبارہ یاد کریں! ابا جان ہم سے جدا ہوئے تب سے انہیں ہر نماز کے بعد یاد کیا کرتے، اماں جان بھی جانے کے بعد آخرت کے سفر کے ساتھ ہماری اس یاد میں بھی ابا جان کے ساتھ شریک ہوگئیں۔
اماں جان ایک سیدھی سادی گھریلو خاتون تھیں، مروجہ دینی وعصری تعلیمی نظام کے اعتبار سے کسی درجے میں شمار نہ ہوتی تھیں، لیکن خانگی تربیت سے آراستہ اور اخلاق وآداب سے پیراستہ تھیں، پڑھنا لکھنا نہ جانتی تھیں، لیکن ایسی اعلی اخلاقی خوبیوں کی حامل تھیں جن سے آج کے پڑھے لکھے بھی ناآشنا ہیں، فرائض کی پابند تھیں اور پیارے رب نے قرآن کریم کی محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھر رکھی تھی، روز صبح نمازِ فجر کے بعد اور شام میں نمازِ عصر کے بعد پابندی سے کانوں میں رس گھولتی سریلی آواز (جس کے سننے کو اب یہ سماعتیں ترستی رہیں گی) میں قرآنِ کریم کی تلاوت کیا کرتیں، سالہا سال سے ہم ان کا یہ معمول دیکھتے چلے آئے تھے، بہت کم ہی کسی غیر معمولی صورتِ حال کی بنا پر اس میں ناغہ ہوتا تھا، نمازِ فجر کے بعد کچھ دیر تلاوت کرکے ہم بہن بھائیوں کے لیے ناشتہ بنانا، پھر سب کو تیار کرکے مدرسے بھیجنا، اس کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ آرام کرنا، دوپہر کے کھانے کی تیاری میں جت جانا، ہم بارہ بجے کی چھٹی کے بعد گھر پہنچتے تو ہمیشہ بروقت کھانا مہیا ہوتا، عام طور پر وہ دو وقت کا کھانا ایک ساتھ ہی تیار کرلیتی تھیں، مہمانوں کی آمد یا ضرورت پڑنے پر مغرب کے بعد بھی اہتمام کرتیں، کھانا ہمیشہ وافر مقدار میں موجود ہوتا، کھانے کے وقت اچانک مہمانوں کی آمد پر بھی ہمیں کوئی فکر نہ ہوتی، مہمانوں کی خاطر داری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتیں، مہمان کی رات دیر سے اور بے وقت آمد پر بھی کبھی ان کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی، نہایت خوش دلی سے خاطر مدارات کرتیں۔ ہمارے شعوری یادوں کے آغاز میں وہ گھر کے سارے کام کاج کے ساتھ دوکان کے پندرہ بیس ملازمین کا کھانا بھی خود تیار کیا کرتی تھیں، بعد میں تعداد بڑھنے پر دوکان کے ایک ملازم کو اضافی تنخواہ کے ساتھ یہ ذمہ داری سونپ دی گئی، تب بھی چار چھے افراد کا دو وقت کا کھانا گھر سے ہی جایا کرتا تھا، ان کے ہاتھ کا کھانا سادہ لیکن پُر لذت ہوتا، ابا جان وتایا جان بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں مبتلا ہوئے تو نمک مرچ ومصالحہ جات میں پہلے سے زیادہ احتیاط برتنے لگیں، لیکن تب بھی ہمیں باہر کے چٹ پٹے ذائقوں کے بجائے ان کے ہاتھ کا سادہ ولذیذ کھانا ہی اچھا لگتا، اس کھانے میں ان کے ہاتھ کے ذائقے سے زائد ان کی نیکی کا اثر ضرور ہوتا تھا۔
ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو دوپہر میں ابا جان کو روزانہ تعلیمی حلقہ لگاتے دیکھا، ابا جان لگ بھگ آدھ پون گھنٹہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کی مقبولِ عام کتابوں “فضائلِ اعمال وفضائلِ صدقات” میں سے پڑھ کر سناتے، پھر کچھ دیر ترغیب دیتے اور ہم چھوٹے بچوں اور اماں جان کے سامنے کل جہاں کے ارادوں کی بات کرتے اور آخر میں پُر سوز اور رقت آمیز دعا کرتے، ان کی نم ناک آنکھوں کے ساتھ رندھی ہوئی آواز میں مانگی دعاؤں کو ہم بچے ہاتھ اٹھائے حیرت سے دیکھتے سنتے، اس وقت ہمیں سمجھ نہیں پڑتی تھی کہ ابا جان روتے کیوں ہیں؟! ہمیں تو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں، تب ہمیں کیا خبر تھی کہ ابا جان کے دل میں کیا جذبات وکیفیات امڈتی تھیں؟! ابا جان کی ان دعاؤں میں یہ جملے بھی ہوا کرتے کہ “اے اللہ ! ہمیں کسی کا محتاج نہ بنانا، چلتے پھرتے زندہ رکھنا اور چلتا پھرتا اٹھالینا”۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ ایک روز ابا جان یوں ہی چلتے پھرتے دنیائے فانی سے منہ موڑ گئے، لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ ان کی آہ وزاریاں اور شب و روز کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں اور رہیں گی۔ ابا جان کی جدائی کے بعد بھی ہمارے گھر میں تعلیم کا حلقہ جاری رہا، جس کی روح رواں اماں جان تھیں، اب دن بھر میں موقع نہ ملتا تھا، اس لیے وہ نمازِ عشا کے بعد کتاب ہاتھ میں لے کر کسی بہن یا بھائی کو تھما دیتیں، اور یوں کچھ دیر تعلیم کا حلقہ قائم ہوجاتا اور روحانی غذاؤں
رضا لائبریری اور ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی
معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
رامپور رضالائبریری کے لائبریرین ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی آئندہ ہفتہ اپنی تیس سالہ خدمات کے بعد سبکدوش ہورہے ہیں۔ وہ شاید یہاں سب سے طویل خدمات انجام دینے والے لائبریرین ہیں۔ بطورلائبریرین اہم خدمات انجام دینے کے علاوہ انھوں نے شعبہ مخطوطات کے انچارج کی ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھائی ہیں، جو لائبریری کا سب سے وقیع شعبہ ہے۔ اس شعبے میں اردو، عربی،فارسی، سنسکرت اور ہندی کے 17000 مخطوطات ہیں۔ ایشیاء کے اہم کتب خانوں میں شمار ہونے والی اس لائبریری میں نادرو نایاب مخطوطات کے علاوہ پانچ ہزار قلمی تصویریں اور اسلامی خطاطی کے تین ہزار نمونے محفوظ ہیں۔ یہاں ایک لاکھ کے قریب مطبوعہ کتابیں ہیں جن میں ہزاروں کتب نادرونایاب ہیں۔ لائبریری کی دیگر خوبیوں کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے، آئیے پہلے ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں جنھیں بجاطورپر اس لائبریری کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے۔میں نے گزشتہ ہفتہ رامپورکے مختصر قیام کے دوران کچھ وقت اس لائبریری میں ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی کے ساتھ گزارا۔
ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی کا وطنی تعلق مردم خیز سرزمین اعظم گڑھ سے ہے۔ان کی ابتدائی مدرستہ الاصلاح (سرائےمیر) میں ہوئی۔ انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو، عربی اور تاریخ کے موضوع پر گریجویشن کیا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے1985 میں ایم اے کرنے کے بعد بی لب اور ایم لب کا کورس مکمل کیا۔ 1994میں علی گڑھ کی مولانا آزاد لائبریری میں ایک سال تک خدمات انجام دینے کے بعد 1995میں رامپور رضا لائبریری میں بطوراسسٹنٹ لائبرین ان کا تقرر ہوااور شعبہ مخطوطات کے انچارج بھی مقرر ہوئے۔ 2006میں ترقی پاکر لائبریرین بن گئے اور تبھی سے وہ یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں اوریہاں سے وہ31/دسمبر 2024 کو سبکدوش ہورہے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے ملازمت کے دوران بھی تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا اور 2004 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ”عربی زبان وادب میں روہیل کھنڈ کا حصہ“کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے رضا لائبریری میں جن ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کیا، ان میں ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی کا نام قابل ذکر ہے، جن کے ساتھ وہ پندرہ سال تک وابستہ رہے۔ یہ دور لائبریری کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ ڈاکٹر صدیقی کی نگرانی میں انھوں نے مخطوطات اور مطبوعات کا فزیکل ویری فکیشن مکمل کرانے کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو کتابوں کا انڈیکس تیار کرایا۔لائبریری نے ان کے پی ایچ ڈی مقالے کے علاوہ ان کی جو کتابیں شائع کی ہیں،ان میں ’عربی مخطوطات کا کیٹلاگ‘(انگریزی)،’فہرست خطاطی رضا لائبریری، ’عربی مخطوطات کی چھ جلدوں کا اشاریہ‘ (عربی)’ہندی اردو کیٹلاگ (نادرمخطوطات کا تعارف) شامل ہیں۔ڈاکٹر اصلاحی نے لائبریری جرنل کے اسسٹنٹ کے طورپر جرنل نمبر4تا 32 کے شمارے شائع کئے۔ لائبریری کے مخطوطات کا ڈیجیٹا لائزیشن کا پروجیکٹ ان ہی کے تعاون سے مکمل ہوا ہے۔ بہت جلد یہ مخطوطات آن لائن دستیاب ہوں گے اور دنیا بھر کے اسکالر ان سے استفادہ کرسکیں گے۔
اب آئیے لائبریری کی طرف جو اپنے قیام کا ڈھائی سوسالہ(1774تا2024) جشن منارہی ہے۔
یہ عظیم الشان کتب خانہ نادر مخطوطات، نایاب قلمی تصویروں، نہایت اہم کتابوں اور قیمتی وصیلوں اور نوادرات کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں چہاردانگ عالم میں شہرت رکھتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے اس لائبریری کو دیکھ کر کہا تھا کہ ”میں نے روم اور مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں، لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی اعتبار سے اس سے افضل نہیں دیکھا۔“اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے 1952میں اس لائبریری کی وزیٹر بک میں لکھا تھا کہ ”ہندوستان میں جو گنتی کے قیمتی علمی ذخائر ہیں، ان میں ایک گراں مایہ ذخیرہ یہ ہے۔“
مجموعی اعتبار سے یہ ہندوستان میں اپنی طرز کا واحد کتب خانہ ہے، جہاں عربی اور فارسی کی قلمی کتابیں بڑی حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔کئی قدیم نسخے خود مصنّفین کے لکھے ہوئے ہیں۔347 عربی اور 523فارسی نسخے ایسے ہیں جو نہایت خوش خط خود مصنّفین اور اور مشہور خطاطوں کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مشہور ومعروف مصوروں کی تصاویر اس کتب خانے میں بکثرت موجود ہیں، جن میں چند پر ان کے دستخط بھی ہیں۔
لائبریری کے ذخیرے میں سب سے قدیم اور قیمتی مخطوطہ پہلی صدی ہجری مطابق ساتویں صدی عیسوی کا قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے، جو خط کوفی میں چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دست مبارک کا تحریر کردہ بتایا جاتا ہے۔اسی طرح دوسری صدی ہجری مطابق آٹھویں صدی عیسوی کا ایک قرآن مجید امام جعفر صادق سے منسوب ہے۔اسی طرح بغداد کے وزیراعظم اور خط نسخ کے موجد شہرہ آفاق خطاط ابن مقلہ سے منسوب کاغذ پر لکھا ہوا چوتھی صدی ہجری ایک قرآن مجید بھی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ابن مقلہ نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کی جو دوکاپیاں تیار کی تھیں، ان میں سے ایک رضا لائبریری کی زینت ہے۔قرآن
انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۲۴
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق اس کائنات اور خود انسانی جسم میںاللہ کی قدرت کی نشانیوں سے ہے۔اس اقتباس میں مولانا دریابادی نے جس عمدہ طریقے سے توحید کے مضبوط دلائل دیے ہیں اور جس طرح معلومات کے دریابہائے اور انشائے ماجدی کے محاسن کا مظاہرہ کیا ہے ،اسے بجائے خود انشائے ماجدی کا شاہکار بنا دیا ہے۔ اس اقتباس کے آخر میں مولانا نے الحاد و تشکیک کے امراض میں گرفتار انسانوں کے لیے ان امراض کا بہترین علاج بھی لکھ دیا ہے جو آج بھی اتنا ہی موثر ہے جتنا ان سطو ر کے وقتِ تحریر تھا۔
انشائے ماجدی
”زمین اگر ۲۵ ہزارمیل کے محیط کا کوئی گولا ہے تو ،اگر غیر پیمائش شدہ وسعت کی کوئی بھی چیز ہے توبھی ،اگرتیزی اور پھرتی کے ساتھ گردش کر رہی ہے یا اگراپنی جگہ پر ساکن ہے توبھی، ہر حال میں اور ہر صورت فرض کرنے کے بعد بھی کیسی عظیم الشان کاریگری، کیسی بے مثال صنّاعی کا نمونہ ہے۔ فضا کی خلامیں کس کی قوت اسے تھامے ہوئے سنبھالے ہوئے ہے ؟ اس کے اور چاند، سورج اورستاروں سیّاروں کے درمیان فاصلہ کا ایک خاص تناسب کس نے قائم کر رکھا ہے ؟ اس کی رفتار کی ایک خاص شرح کس نے متعین کر دی ہے ؟ آفتا ب سے ایک خاص مقدار میں روشنی اور گرمی کون پہنچا رہا ہے ؟ چاند سے روشنی اورخنکی ایک متعین حساب کے ساتھ کس کا دستِ قدرت اس تک لارہا ہے ؟ آسمان اگر ٹھوس مادی اجسام ہیں تو یا اگر خلا میںمحض حدِّ نظر ہیں تو بھی ہر صورت میں ان کی وضع ،ساخت، ترکیب ،ہیئت انسانی دسترس سے کتنی بالاتر ہے ۔گتنی شمار سے باہر ثوابت و سیّارے کے سکون و حرکت کا انتظام کون قائم کئے ہوئے ہے ؟ ستاروں کی یہ روشنی اور ان کے طلوع و غروب میں یہ باقاعدگی کس کے حکم سے قائم ہے ؟ نظام فلکی کے بے شمار اجزا و عناصرمیں یہ ترتیب اور باہمی تناسب کس کی حکمت و صنعت کے دم سے زندہ ہے ؟ رات اور دن کس طرح ایک برتر قانون کے اندر جکڑ ے نظر آرہے ہیں؟ گرمی اور سردی اور برسات، ہر موسم کے اندرمناسب وقت میں تبدیلیاں کون کرتا رہتا ہے؟ مختلف ملکوں میں ان کے طلوع و ظہور کے وقت کیسے بندھے ہوئے ہیں؟ کبھی یہ نہیں ہوتا کہ جس وقت کلکتہ میں دن نکلتا ہے،دمشق میں بھی دن نکل آئے ،نہ یہ ہوتا ہےکہ امریکہ کی شام کبھی کبھی ایران کی شام بن جائے۔ جنوری میں جو او قات اندھیرا چھانے کے ہوتے ہیں یہ نہیںہوتا کہ جون میں و ہی باقی رہ جائیں ۔آخر یہ رات دن کے بندھے ہوئے اور قانون کی زنجیرمیں جکڑے ہوئے تغیّرات کس کی حکومتِ قاہرہ اورحکمتِ کا ملہ کی شہادت دے رہے ہیں ؟
بحرِذخّار سارے براعظموں کو اپنی گرفت میں لئے رہنے والا رقبہ میں خشکی سے چہار چند،اپنی اس ساری عظمت و ہیبت کے باوجود کس طرح مشتِ خاک انسان کے قبضہ میں آگیا ہے؟ کس طرح لکڑی کے تختوں کو جوڑ جاڑ کران میں لوہے کی کیلیں ٹھونک ٹھانک کر ان پر لوہے کی چادریں چڑھا کرانسان سمند کے بڑے بڑے مہیب فاصلوں کو طے کر کے رکھ دیتا ہے ۔ اس میں جز رو مدّ جب ہوگا قمری مہینوں کی فلاں فلاں ہی تاریخوں پر ہوگا۔ اپنی ساری غضبناک تندی کے باوجود ایک خاص رقبہ کے حدود سے آگے نہ بڑھ سکے گا، ایک مخصوص و متعین ہی وزن کی چیزوں کو وہ اپنے او پر تیرائے گا اور اس کے علاوہ وزن والیوں کو ڈبودےگا۔اس کے پانی کا ایک مخصوص مزاج ، خاص رنگ ،خاص مزہ ہوگا، کنوؤں کے پانی سے مختلف ،دریاؤں کے پانی سے مختلف ۔اس طرح سیکڑوں دوسرے قانونوں کا پابند اسے کس کی مشیت ،کس کی قدرت کس کی حکومت نے کر رکھا ہے؟
بارش کا خاص خاص فصلوں میں خاص خاص موسموں میں خاص خاص فضائی تغیّرات کے ما تحت ہونا ،بخارت کا ایک خاص گرمی پا کر سمندری ذخیرہ آب سے اٹھنا، ایک خاص فاصلہ تک اوپر جانا، ایک خاص درجہ کی سردی پاکر ان دخانی و ہوائی اجزا کا منجمد ہو جانا، ان کا بادل کی شکل اختیار کرلینا، ایک خاص درجہءثقل تک بڑے بڑے بھاری اور بوجھل بادلوں کا فضا میں سنبھلے رہنا ،پھر فلاں فلاں فضائی تغیّرات کے ماتحت فلاں فلاں علاقہ تک جانا پھر ایک بندھی ہوئی مقدارمیں ایک متعین مدّت کے اندر برس پڑنا، اس سے از سرنوخشک زمین میں جان پڑجانا۔ یہ سارے ردّوبدل کسی حکیم کی حکمت ،کسی آمر کی حکومت، کسی قادر کی قدرت کی کیسی کھلی ہوئی شہادت دے رہے ہیں۔
پھر حیاتِ نباتی کے علاوہ خود حیاتِ حیوانی جن عجائب کا مجموعہ ہے، ہر زندہ جسم میں بے شمار ذرّوں اور خلیوں کامجموعہ ہوتا ہے ۔ان میں جو ایک مخصوص ترتیب اور متعین ترکیب ہوتی ہے ،ایک خاص درجہ کی حرارت جو حیات کو قائم رکھتی ہے، ایک خاص مقدار سے بڑھی ہوئی سردی جو اس لف میں نشر، اس اجتماع میں انتشار پیدا کر دیتی ہے، نظامِ تغذیہ، نظامِ تنفس ،نظام تناسل، نظامِ عصبی و غیرہ ،جسم کے اندرمتعدد نظامات، پھر ہر نظام کے تحت بے شمار قاعدے اور ضابطے ۔اس سے نظامِ اعظم کی تکوین اور قیام پر کس کی قدرت ،کس کی مشیت ،کس کی حکومت کا رفرما ہے ؟