ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عبادة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 274-277

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 250
انتخاب مطالعہ
تحریر: مولانا نؔور عالم خلیل امینیؒ

*یادِ ماضی عذاب ہے یا رب*

یہ قرونِ ماضیہ کی برکتیں تھیں کہ ایک پُر شوق سیاح، ایک حوصلہ بدوش طالب علم، ایک علم کا رسیا مؤرخ یا محقق، ایک شہیدِ جستجو فقیہ اور محدث،اپنے اپنے ذوق کی خاطر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتا تھا، جس ملک میں جتنے دنوں چاہتا تھا رہتا تھا،کسی بات کی کوئی پابندی نہ تھی،اس طرح کے کام کے لیے حدود و ثغور کا کوئی مسئلہ نہ تھا،قومیت،جنسیت رنگ و نسل، عصبیت،اقلیت و اکثریت،پاسپورٹ،ویزا،شناختی کارڈ،امیگریشن،سیکورٹی چیکنگ،آمد و رفت ( دخول و خروج ) کی ریکارڈنگ وغیرہ کے جھگڑے نہیں تھے ؛ ایک مسافر ”ہر ملک ملک ماست کہ ملکِ خدائے ماست “ کے خوش گوار احساس ؛ بل کہ مبارک یقین کے ساتھ جہاں چاہے چلا جاتا تھا اور زاد و راحلہ کی عدم دستیابی کے علاوہ اس کے سامنے دنیا کے کسی ملک میں جانے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی ۔
انسان کی شناخت اور اس پر اعتماد اس کے چہرے مہرے، اس کی شکل و صورت اور اس کے خد و خال سے کی جاتی تھی،کاغذی دستاویزات کے ذریعے اس کے انسان یا شیطان ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا تھا، اوراق کی روشنی میں یہ طے نہیں ہوتا تھا کہ وہ کرۂ ارض کا باشندہ ہے یا افلاک سے خاک پر تازہ بتازہ وارد ہوا ہے، نیز یہ کہ انسان ہے یا کوئی اور خلائی،فضائی،بحری یا بری مخلوق،چنانچہ اگر کاغذات میں کسی طرح کا ادنی سا ابہام ہو یا متعلقہ بدنیت یا بدخلق ارباب حل و عقد کی طرف سے ابہام پیدا کرلیا جائے تو ایسی صورت میں تادمِ ازالۂ ابہام حامل کاغذات کو بین بین مخلوق سمجہا جاتا ہے ؛ بل کہ بعض دفعہ بطور احتیاط ”بے زبان چوپایہ“ یا ”دو پایہ جانور“ ہی باور کرلیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ خدا کی اسی مظلوم مخلوق کا سا معاملہ روا رکھا جاتا ہے۔

( *حرف شیریں،صفحہ: 108، طبع: ادارۂ علم و ادب،افریقی منزل قدیم،نزد: چھتہ مسجد، دیوبند*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عبد الحمید ندوی،جامعہ کے علامہ شبلی(قسط ۔02)
(استاد الاساتذہ و معتمد اول جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی رحلت مورخہ ۱۳رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ مطابق ۱۷ اگست ۱۹۷۸ء پر لکھی گئی تحریر، جو اس وقت پندرہ روزہ نقش نوائط ممبئی میں شائع ہوئی تھی (
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

مولانا عبد الحمید ندوی نے دارالعلوم ندوۃالعلماء میں اس سال داخلہ لیا تھا جس سال بھٹکل میں انجمن حامی مسلمین کی بنا پڑی تھی، اتفاقاً مولانا کے شاگرد رشید الحاج محی الدین منیری مرحوم کا سال ولادت بھی یہی ہے، آپ نے مولانا سید عبدالحی حسنی ؒ کی نظامت کے تین سال دیکھے ، یہ وہ زمانہ تھا جب کہ مولانا آزادکے ’الھلال ‘کی گونج ابھی فضاؤں میں باقی تھی، یہ تحریک خلافت کا نقطہ عروج تھا، اورکہنے لگی ’’جی اماں بیٹا جان خلافت پہ دے دو‘‘کا نعرہ مستانہ وطن کے ہرسودلوں کوگرمارہاتھا، آزادی کا بگل بج رہاتھا اورپورا ملک آتش فشاں کے مانند دہک رہاتھا، اسلامی نشأۃ ثانیہ کیلئے ندوہ کی طرف ملت کی نگاہیں اٹھ رہی تھیں، یہ ندوہ کے جواںمرگ استاذ مولاناعبدالرحمن نگرامیؒ کی جولانی کا دورتھا، اب مولانا نگرامی کوکون جانے؟،ملت نے کتنی امیدیں باندھ رکھی تھیں اس شعلہ جوالہ سے، مولانا دریابادیؒ نے ہفتہ وار سچ لکھنو کاآغازآپ ہی کی رفاقت میں کیا تھا، مولانا ندویؒ بھی آپ کے خاص حلقہ ادارت میں شامل ہوگئے جس نے آپ میں بھی وہی جوش اور ولولہ بھردیا، یہ مولانا نگرامی ہی کا اثرتھا کہ مولانا ندوی بھٹکل میں درس قرآن کی وجہ سے بھی پہچانے گئے ۔
مولانا ندوی جب انجمن طلبہ کے صدرکی حیثیت سے ندوہ میں نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے اورزورخطابت کی دھاک بٹھاچکے تھے، اس زمانہ میں حضرت مولاناعلی میاں رحمۃ اﷲعلیہ کا تعارف ندوہ میں اتنا تھا کہ دھان پان خاموش طبع لکھنؤیونیورسٹی کے طالب علم بغل میں کوئی کتاب دبائے ندوے کے خصوصی درجات میں آتے تھے اورحضرت ناظم صاحب کے فرزند کی حیثیت سے بڑے احترام سے دیکھے جاتے تھے ۔
مولانا نگرامی کی صحبت نے آپ کوتحریک خلافت کا ہمنوابنادیاتھا، ندوہ کواس وقت انگریزی حکومت سے گرانٹ ملتی تھی ، جس کی وجہ سے طلبہ کی خلافت جیسی آزادی کی تحریکوں سے وابستگی دشوار تھی، مولانا نے اس کی وجہ سے ندوہ کے ہاسٹل سے اپنا نام کٹوادیا، شہرمیں ذاتی خرچہ پررہتے اورندوہ میں دورشہر سے آکرپڑھتے تھے، ساتھ ہی ساتھ فارغ اوقات میں گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ ا ٓزادی کا پیغام جلسہ جلوسوں اورتقریروں کے ذریعہ پہونچاتے تھے، آپ کا نام سی آئی ڈی کی فہرست میں درج ہوچکا تھا، پولس سے آنکھ مچولی مدتوں جاری رہی لیکن گرفتاری تک نوبت نہیں پہنچی، جواہرلال نہرواور دوسرے سیاسی لیڈران سے آپ کے تعلقات اس دورکی یادگارتھے، آزادی سے قبل کاراسٹریٹ بھٹکل میں جہاں اب صمد منزل واقع ہے، وہاں پراہل بھٹکل کی جانب سے پنڈت جواہرلال نہروکیلئے جلسہ استقبالیہ رکھا گیاتھا، مولانا ہی نے اہل بھٹکل کی جانب سے پنڈت جی کوہارپہنا کر استقبالیہ کلمات پیش کئے تھے ۔
آپ کو دوران طالب علمی میں حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃاﷲعلیہ کی مجالس میں بیٹھنے کاشرف حاصل ہوا، بعد میں حضرت مولانا الیاس کاندہلویؒ سے بھی ربط وتعلق رہا، اورغالباً آپ کا اول الذکرسے رشتہ بیعت بھی استواررہا ۔
جن گلہائے سرسبد نے ندوہ کی شہرت چہاردانگ عالم میں پھیلائی ان میں سے حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی، مولانا محمد ناظم ندوی، مولانا شاہ معین الدین ندوی، مولاناعبدالسلام صاحب قدوائی ندوی، مولانارئیس احمد جعفری ندوی، مولانا مسعودعالم ندوی، دوران طالب علمی آپ سے جونیررہے ۔
بھٹکل میں چند ماہ بیت گئے، وعدہ کے مطابق وداعی کی گھڑی آگئی ، صدرانجمن حاجی حسن مرحوم سے مولانا ملنے حاضرہوئے، حاجی حسن پررقت طاری ہوگئی، دلگیراندازمیں بھٹکل ہی میں خدمت کرنے پراصرارکیا، نہ جانے حاجی حسن کی زبان میں کیا اثرتھا، مولانا ۱۹۳۰ ء سے ۱۹۴۲ء تک دس سال سے زیادہ عرصہ بھٹکل میں رہے اوراس دوران انجمن سے ایک ایسی نسل تیارکی کہ سترسال سے زیادہ بیتنے کے با وجود اس کے فیض کا دریا ابھی جاری ہے، ذات خداوندی سے امیدہے کہ یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا ۔
انجمن میں مولانا نے کس شان سے قوم کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کی ، انہیں علم دین کے زیورسے سنوارا، ان میں کیسے کیسے شوق وذوق پیدا کیا ،اس کی ایک جھلک آپ کے ایک خورد طالب علم کے بجائے مولانا کے اس دور کے شاگردرشید الحاج محی الدین منیری مرحوم کی زبانی ملاحظہ فرمائیے :

مولانا عبد الحمید ندوی کا اندازتربیت

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا عبد الحمید ندوی،جامعہ کے علامہ شبلی(قسط ۔01)*
(استاد الاساتذہ و معتمد اول جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی رحلت مورخہ ۱۳رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ مطابق ۱۷ اگست ۱۹۷۸ء پر لکھی گئی تحریر، جو اس وقت پندرہ روزہ نقش نوائط ممبئی میں شائع ہوئی تھی (
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

استاذ محترم مولانا عبدالحمید ندوی رحمۃ اﷲعلیہ کا ذکرخیرہو اوراس کاآغازانجمن حامی مسلمین کے تذکرہ سے نہ ہوکیوںکرممکن ہے! بھٹکل میں اسلامی نشأۃ ثانیہ کی داغ بیل تویہیں پرڈالی گئی تھی، تعلیمی بیداری کی نیویہیں سے اٹھائی گئی تھی اورمولانا ندوی اسی ادارے کے مخلص ذمہ داران کی کوششوں سے عطیہ خداوندی بن کرپہلے پہل یہاں تشریف لائے تھے ۔
یہ بات دہراتے رہنے میں مضائقہ نہیں کہ ۱۹۱۹ء میں انجمن خفیہ کے جسے بعد میں مجلس اصلاح وترقی کا نام دیا گیاتھا، بعض اراکین نے جن میں جناب یف اے محمد حسن صاحب جاکٹی پیش پیش تھے انجمن کی طرف سے ایک ایسے مدرسہ کی بنیاد کی تحریک کی جہاں مذہبی اورمغربی دونوں علوم کی تعلیم دی جائے، بعض اراکین نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کوملتوی کرناچاہا توجناب محمد حسن مرحوم وشرکاء انجمن خفیہ سے علاحدہ ہوگئے اورقوم کی مادرعلمی انجمن حامی مسلمین کی بنیادرکھی ۔
مارچ ۱۹۲۱ء میں جناب یس یم سیدعلی مرحوم کے قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ کواس شرط پرانجمن میں ضم کیا گیا کہ انجمن دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا انتظام لازمی حیثیت سے برقراررکھے گی ، انجمن ایک دہائی تک پرائمری اسکول کی حیثیت سے کام کرتارہا،جب ۱۹۲۹ء میں پرائمری اسکول پرسے انجمن انتظامیہ کا کنٹرول ختم ہوکراس کا نظام سرکارکے ہاتھ میں چلاگیا تودل دردمندرکھنے والے ذمہ داران انجمن جناب حاجی حسن صاحب صدرانجمن، جناب یم یم صدیق صاحب سکریٹری انجمن اورآئی ایچ صدیق صاحب ہیڈ ماسٹرانجمن اسکول کو شدید احساس ہوا کہ انجمن کے مقصد تاسیسی پراس ضرب کاری کے بعد اب قوم کی خیرنہیں، انجمن کے اسلامی تشخص کی بقا، اس کی ترقی، اس کے درجات میں اضافے، اس کے معیارکوبلند کرنے کی فکرانہیں لاحق ہوئی اوراسی فکرمندی میں جناب اسماعیل حسن صدیق کی قیادت میں ایک وفد سوئے لکھنؤروانہ ہوا، تاکہ ذمہ داران دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤکی خدمات اس سلسلہ میں طلب کی جائیں، آئی ایچ صدیق مرحوم کی تحریک خلافت سے وابستگی رہی تھی، حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒ وغیرہ اکابرین امت کو دیکھا تھا، گمان غالب ہے کہ ۱۹۲۱ء میں ملبار کی ماپلا تحریک کے دنوں میں مولانا عبد القادر قصوری صدر مجلس خلافت پنجاب، اور آپ کے فرزند مولانا محی الدین احمد قصوری(معاون مدیر الہلال کلکتہ) کے توسط سے حاجی حسن شابندری(صدر انجمن ) وغیرہ بھٹکلی اہل خیر علامہ سید سلیمان ندویؒ سے متعارف ہوچکے تھے، اس پر مستزاد ۱۹۲۵ء میں خطبات مدراس کے زمانے میں چنئی میں بھٹکلی تاجروں سے بھی علامہ کو متعارف ہونے کا موقعہ ملا تھا۔ لہذا بھٹکل کے مخصوص سماجی وثقافتی مزاج کو دیکھتے ہوئے، علامہ سید سلیمان ندویؒ سے ربط وتعلق کو اہمیت دی گئی۔ اور انجمن کا وفد ۱۹۲۹ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنوکے معتمد تعلیم علامہ سید سلیمان ندویؒ سے ملاقات کے لئے آئی یس صدیق کی قیادت میں روانہ ہوا،
یہی زمانہ تھا جب کہ ندوۃ العلماء کی شاندار مسجد زیر تعمیر تھی، اور علامہ کے رفیق مولانا مسعود علی ندویؒ اس کے معتمد تعمیرات تھے، اس کام کے لئے وہ ندوے ہی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے، مولانا بڑی انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے، لہذا علامہ نے بھٹکل کے وفد کو آپ کے سپرد کیا۔
آگے بڑھنے سے پہلے ذرا مولانا عبدالحمید ندویؒ کی زبانی صدر انجمن اور وفد کا تعارف سن لیجئے، یہ مولانا کی دستیاب معدودے چند تحریروں میں سے ایک ہے، فرماتے ہیں :

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا عبد الحمید ندوی،جامعہ کے علامہ شبلی(قسط ۔01)*
*(استاد الاساتذہ و معتمد اول جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی رحلت ۲۳/۱۲/۱۹۷۷ء پر لکھی گئی تحریر، جو اس قوقت پندرہ روزہ نقش نوائط ممبئی میں شائع ہوئی تھی (*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

استاذ محترم مولانا عبدالحمید ندوی رحمۃ اﷲعلیہ کا ذکرخیرہو اوراس کاآغازانجمن حامی مسلمین کے تذکرہ سے نہ ہوکیوںکرممکن ہے! بھٹکل میں اسلامی نشأۃ ثانیہ کی داغ بیل تویہیں پرڈالی گئی تھی، تعلیمی بیداری کی نیویہیں سے اٹھائی گئی تھی اورمولانا ندوی اسی ادارے کے مخلص ذمہ داران کی کوششوں سے عطیہ خداوندی بن کرپہلے پہل یہاں تشریف لائے تھے ۔
یہ بات دہراتے رہنے میں مضائقہ نہیں کہ ۱۹۱۹ء میں انجمن خفیہ کے جسے بعد میں مجلس اصلاح وترقی کا نام دیا گیاتھا، بعض اراکین نے جن میں جناب یف اے محمد حسن صاحب جاکٹی پیش پیش تھے انجمن کی طرف سے ایک ایسے مدرسہ کی بنیاد کی تحریک کی جہاں مذہبی اورمغربی دونوں علوم کی تعلیم دی جائے، بعض اراکین نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کوملتوی کرناچاہا توجناب محمد حسن مرحوم وشرکاء انجمن خفیہ سے علاحدہ ہوگئے اورقوم کی مادرعلمی انجمن حامی مسلمین کی بنیادرکھی ۔
مارچ ۱۹۲۱ء میں جناب یس یم سیدعلی مرحوم کے قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ کواس شرط پرانجمن میں ضم کیا گیا کہ انجمن دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا انتظام لازمی حیثیت سے برقراررکھے گی ، انجمن ایک دہائی تک پرائمری اسکول کی حیثیت سے کام کرتارہا،جب ۱۹۲۹ء میں پرائمری اسکول پرسے انجمن انتظامیہ کاکنٹرول ختم ہوکراس کانظام سرکارکے ہاتھ میں چلاگیا تودل دردمندرکھنے والے ذمہ داران انجمن جناب حاجی حسن صاحب صدرانجمن، جناب یم یم صدیق صاحب سکریٹری انجمن اورآئی ایچ صدیق صاحب ہیڈماسٹرانجمن اسکول کوفکرلاحق ہوئی کہ انجمن کے مقصد تاسیسی پراس ضرب کاری کے بعداب قوم کی خیرنہیں، انجمن کے اسلامی تشخص کی بقا، اس کی ترقی، اس میں اعلی کلاسس کے اضافے، اس کے معیارکوبلند کرنے کی فکرانہیں لاحق ہوئی اوراسی فکرمندی میں جناب حاجی حسن شابندری اورجناب اسماعیل حسن صدیق پرمشتمل ایک وفد سوئے لکھنؤروانہ ہوا، تاکہ دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤکی خدمات اس سلسلہ میں طلب کی جائیں، آئی ایچ صدیق مرحوم کی تحریک خلافت سے وابستگی رہی تھی، حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒ وغیرہ اکابرین امت کی آپ نے صحبتیں اٹھائی تھیں،علامہ سید سلیمان ندویؒ کے چنئی میں ہوئے معرکۃ آراء خطبات مدراس کے ایام میں یہاں کے بھٹکلی تاجروں کا علامہ سے تعارف ہوا تھا، اور غالبا ملبار کی ماپلا تحریک کے دنوں میں اس تحریک کے اہم رہنما مولانا عبد القادر قصوری کے صدر انجمن حاجی حسن شابندری پر جو اثرات ہوئے تھے، یہ بھی علامہ سید سلیمان ندوی سے تعلقات قوی تر کرنے کا باعث بنے، انجمن کا وفد ندوۃ العلماء لکھنو کے متعمد تعلیمات علامہ سید سلیمان ندوی سے ملاقات کے لئے جب ندوۃ العلماء پہنچا تو وہاں علامہ کے رفیق اور منتظم اعلی دارالمصنفین مولانا مسعود علی ندویؒ سے اس کی ملاقات ہوئی، جو کہ اس وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعمیرات تھے، اور اس کی شاندار مسجد کی تعمیر کی ذمہ داری اٹھائے ندوے ہی میں مقیم تھے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ذرا مولاناعبدالحمید ندویؒ کی زبانی وفد کے ارکان کا تعارف سن لیجئے، یہ مولاناکی دستیاب معدودے چندتحریروں میں سے ایک ہے، فرماتے ہیں :

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا ہم مسلمان ہیں (٣٣) لِلّٰہیّت کا پروانہ ( دوسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

_______ ابوبکرؓ کا ایمان لانا ایک فردِ واحد کا ایمان لانا نہ تھا بلکہ ان کی شخصیّت کے روپ میں در حقیقت وہ تمام خوش قسمت انسانیت ایمان لائی تھی جس کی تقدیر میں اپنے خالقِ اکبر کا دیدار اور محمد ﷺکی شفاعت لکھی ہوئی ہے ان کے ایمان ویقین میں پُوری نوعِ انسانی کا ہمہ گیر سوز وگداز سِمٹ آیا تھا۔ ان کے دل میں آدم عليہ السلام کے تمام مؤمن بیٹوں اور حوّا کی تمام مومنہ بیٹیوں کے کروڑوں دلوں کی بے قرار دھڑکنیں یکجا ہوگئی تھیں ۔
رسولِ خدا ﷺ کے سینے پر جو وحی نازل اور ہونٹوں پر بلند ہو رہی تھی ابوبکرؓ کا پورا وجود اس کے سانچے میں ڈھلتا جا رہا تھا اور ان کے گھر کے صحن میں ان کی چھوٹی سی عبادت گاہ سے حقیقت کی پُر سوز صدائے بازگشت نشر ہو رہی تھی۔ شام اور یمن کی راہوں پر جو شخص اسبابِ تجارت کا بوجھ اُٹھائے نظر آتا تھا۔ آج اُس کے شانوں پر خدا کے عرش سے اُتری ہوئی اس بلند ترین حقیقت کا بوجھ تھا جس کو اُٹھانے کے تصّور سے ہی سمندروں کا بے قرار سینہ چاک چاک اور پہاڑوں کا جگر پانی پانی ہو گیا ۔ ریگستان کے تپتے ہوئے سُرخ و سوزاں ذرّوں نے دیکھا کہ وہ خدا کا یہی پیغام گھر گھر پہنچانے کی دُھن میں تلووں سے لہو ٹپکاتا پھر رہا ہے رات کو آسمان کے ان گنت تاروں نے دیکھا کہ اس کا پورا وجود خدائے واحد کے قدموں میں پڑا ہوا دردِ بندگی سے بے قرار ہورہا ہے اور ہونٹوں پر قرآن کی لاہوئی آواز اس کے آنسوؤں سے تر بتر ہو کر اٹھتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے ریگستانوں اور پہاڑوں کی سرزمین مکّے پر خونیں آنسوؤں کی بوچھاڑ کر رہی ہے پتّھر کے بے حس پُجاریوں کا دل سینے سے نکلا جا رہا ہے اور مردوں ، عورتوں اور بچّوں کی بے قرار بھیڑ اس کی دیوار تلے کھڑی ہوئی اس نالۂ نیم شبی پر سر دُھن رہی ہے جس کو یہ دنیا بےسمجھے تڑپ جائے اور سمجھ جائے تو فرطِ شوق سے مرجائے ۔!
شعلوں کی دہکتی ہُوئی سیج کی طرح جُھلسا دینے والی ریگستانی راہوں پر دو انسان ہر جگہ ساتھ ساتھ دیکھے گئے ! ان میں ایک وہ شخص جس کی امانت و دیانت اور صداقت کی قسم چالیس سال سے مکّے کی گلی گلی میں کھائی جارہی تھی تو دُوسرا وہ تھا جس کو اہلِ مکّہ نے کبھی ایک بار بھی نشے میں نہیں دیکھا تھا۔ محمد ﷺ اپنے خُدا کے اشاروں پر بُت خانوں اور وحشی ترین انسانوں کی اُونچی نیچی دنیا میں جدھر سے نوائے حق بلند کرتے ہوئے گزرتے ، ابو بکرؓ کی بے قرار آواز پیچھے پیچھے آمین کہتی ہوئی آتی:

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عبادة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 269-270

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

واحد کا صیغہ۔ چونکہ ہمارے بزرگ زیادہ تر خانوادہ قاضی بدر الدولۃ سے نسبت اور شاگردی کا تعلق رکھتے تھے، تو ان کی اتباع میں بھٹکل میں اب نوائط اور نائطی ہی رائج ہوگیا ہے۔
2024-12-22

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: نوائت یا نوائط، درست وجہ تسمیہ کیا ہے*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

بھٹکل واطراف ، چنیی اور حیدرآباد میں پھیلے ہوئے مسلم قبیلے کے نام (نوائت/نوائط) کے تلفظ کے بارے میں علم وکتاب کے ایک ممبرنے دریافت کیا ہے کہ کیا نائطی کی اصل نوائت سے ہے؟
یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اسےبیان کرنے کے لئے مستقل تحقیقی وعلمی مقالہ لکھنے کی ضرورت ہے، لیکن گلاب نہیں تو پنکھڑی ہی سہی کے مصداق کچھ لکھنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔
اس وقت جہاں بھی نوائط برادری بستی ہے، ان کے اہل علم میں لفظ "نوائط" طائے حطی کے ساتھ ہی رائج ہے۔
ہماری رائے میں (ط) کے ساتھ (نائطی) نام کی ترویج میں علامہ باقر ویلوری ؒ (وفات ۱۸۰۶ء) کی تحریروں کا بڑا ہاتھ ہے، آپ نے النفحۃ العنبریۃ میں لکھا ہے کہ (ونائطة جد القبيلة بن نضر بن كنانة )، آج سے نصف صدی پیشتر جب سے یہ حوالہ ہماری نظر سے گذرا ہے، ہم سیر وانساب کی کتابوں میں نضر بن کنانۃ کی اولاد میں نائطہ کا نام تلاش کررہے ہیں۔ لیکن ہنوز اس سلسلے میں کسی مستند مرجع تک ہماری رسائی نہیں ہوئی ہے۔
مورخین کی رائے ہے کہ نوائط کی اولین آبادی بھٹکل کے شمال میں (۴۰) کلومیٹر دوری پر واقع ہنور میں سلطنت وجے نگر کے اولین راجہ ہری ہر (ف ۱۳۵۶ء) کے دور میں قائم ہوئی ہے، اسی زمانے میں ابن بطوطہ کی اس علاقہ میں آمد ہوئی تھی، جسن نے وجے نگر کی باجگزار سلطان جمال الدین محمد بن حسن کی سلطنت ہنور کا نقشہ اپنے سفرنامہ میں کھینچا ہے۔
سلطنت ہنور کا تذکرہ تو دوسرے مورخین کے یہاں نہیں ملتا، لیکن ہنورشہر کا ذکر اس دور کے دوسرے جغرافیہ دانوں کے یہاں اسی نام سے ملتا ہے، موجودہ حالات کو دیکھ کر اسے کوئی دوسرا شہر قرار دینے کی تک نہیں بنتی۔
کرناٹک کا ساحلی علاقہ جو کاروار سے منگلور تک پھیلا ہوا ہے عربی جغرافیہ دانوں کے یہاں تلوان اور دوسروں کے یہاں تلوناڈو یا کینرا کہلاتا ہے،مورخین کے مطابق نوائط برادری کا اصل مرکز یہی علاقہ رہا ہے،کینرا کا یہ علاقہ موجودہ ریاست کرناٹک میں ہونے کے باجود زبان وتہذیب میں کرناٹک سے زیادہ مہاراشٹر کے کوکن سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔
نواب حیدر علی کے زمانے میں جب فتح کے بعد منگلور سلطنت خداد میں شامل ہواتھا،ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد جنوبی حصہ مدراس اسٹیٹ کے ماتحت اور شمالی حصہ بمبئی کے ماتحت ہوگیا، اس طرح کینرا کا علاقہ شمال وجنوب میں بٹ گیا، تقسیم کے بعد جب میسور اور مہاراشٹرا اسٹیٹ وجود میں آئے تو کینرا کا یہ علاقہ میسوراو پھر کرناٹک اسٹیٹ میں شامل ہوگیا، لہذا اس علاقے پر بنگلور اور میسور سے زیادہ تہذیبی وثقافتی ولسانی اثرات کوکن اور مہاراشٹر ہی کے باقی رہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں پر بولے جانے والی زبانوں کونکنی اور نائطی پر مراٹھی کے اثرات غالب ہیں، اور یہ کہنا شاید درست ہو کہ مراٹھی، کونکنی اور نائطی زبانیں بولنے والی اقوام ایک دوسرے کی ساٹھ ستر فیصد بولی سمجھتی ہیں، ممکن ہے ان کے بولنے میں انہیں کچھ دشواری ہو، اس کے مقابلے میں کنڑی زبان ان زبانوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس موضوع پر ہمارے مشفق۔ ماہرلسانیات ڈاکٹر محمد حامد اللہ ندوی مرحوم سابق پروفیسر بمبئی یونیورسٹی کا بڑا قیمتی مضمون ہے، جس میں آپ نے مراٹھی کے دوسری زبانوں پر اثرات خاص طور پر نائطی زبان پراس کے اثرات کی تحقیق کی ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ مراٹھی پر فارسی کا بہت زیادہ اثر رہا ہے، خاص طور پر حکومتی مناصب کے نام آج بھی فارسی کی بگڑی ہوئی شکل میں مراٹھی میں رائج ہیں، اس کی مثال میں موجودہ بھاچپائی برہمن وزیر اعلی فڈنویس کے نام کولیا جاسکتا ہے، یہ پڑھ اور نویس سے مرکب ہے۔ اگر تلاش کریں تو ایسی بہت ساری مثالیں ملیں گی۔
ڈاکٹر محمد یوسف کوکن عمری(خانوادہ بدر الدولۃ) اور عزیز جنگ ولا (تاریخ النوائط) نے نوائط نام کی اصل جاننے کے سلسلے میں اپنی کتابوں میں کافی مواد اکٹھا کیا ہے، اس سلسلے میں ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ انہیں سند کے ساتھ کوئی نام نہ مل سکا تو پھر تاریخ وانساب میں جو قریبی نام مل سکا اسے ہی قرین قیاس قرار دیا۔
کئی مورخیں نے اس نام کو بصرے کے قریب واقع گاؤں (نایت) یا (نوتی۔ ملاح) کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے جس پر عبد النبی احمد نگری (دستور العلماء) نے سخت تنقید کی ہے، احمد نگری کا کہنا ہے کہ یہ نسبت درست نہیں ہوسکتی، کیونکہ نوایت میں واؤ کے ساتھ الف رائج ہے، اور یہ عربی لفظ نہیں ہے، اور کسی طرح نوتی، یا نایت کی جمع نوایت درست نہیں ہوسکتی۔ ان کی رائے ہے کہ یہ فارسی لفظ نوآمد سے لیا گیا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

بہر کیف شام کے غیور اور دین پسند محبان وطن قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آمریت ولادینیت کا بستر گول کر دیا ہے، ویسے بھی شامیوں کے ایمان و عقیدہ کی پختگی دنیا بھر کے توحید پرستوں کے لئے کسی بشارت سے کم نہیں ہے، شارع علیہ السلام نے فرمایا تھا اذا فسد اهل الشام فلا خیر فیکم کہ جب اہل شام اپنے درست ایمان و عقیدہ میں کمزور ہو جائیں تو پھر تمہارے درمیان خیر و عافیت کا رشتہ منقطع ہو جائے گا۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اہل شام کا دریں زمانہ مشکلات کے بھنور سے نکلنا آسان نہیں ہے، عالمی سازشیں اوراستعماری قوتیں اس خطہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی وہاں آپسی خانہ جنگی بھی خارج از امکان نہیں ہے لیکن ہم اللہ کی ذات سے یہی توقعات رکھتے ہیں کہ وہ متبرک سرزمین شام میں ہونے والی نئی صبح کو دیر اور دور تک روشن کرے گا۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*ملک شام کی صبحِ نو*
*خدشات وتوقعات*

محمد ساجد کُھجناوری
مدرس حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ

/channel/ilmokitab

یہ اپریل ۲۰۱۸ ء کی بات ہے جب ماہ نامہ صدائے حق گنگوہ کے ادارتی صفحات پر ہی ملک شام میں پے درپے ہونے والے مظالم اور سنیوں کے قتل عام کی داستان الم قید تحریر میں لائی گئی تھی اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ شیعوں کے بدترین نصیری فرقہ سے تعلق رکھنے والا شامی صدر بشار الاسد اپنے باپ حافظ الاسد سے دو ہاتھ آگے ہے جس نے اپنے ہی ملک کے مظلوم مگر جائز مطالبہ کرنے والے لاکھوں حریت پسندوں جن کی اکثریت اہل السنہ والجماعة کے ہم عقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، انہیں یا تو موت کی نیند سلا دیا ہے یا پھر وہ فرعونی حکومت کے قید خانوں میں گل سڑ رہے ہیں، سنسر شپ اور صیغہ راز داری کے باوجود اُس وقت بھی آزاد ذرائع سے جو خبریں تو اتر سے مل رہی تھیں انہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا تھا کہ کسی طرح ظالم و جابر بشار نے اپنے اقتدار و حکومت کو محفوظ رکھنے کی خاطر عوامی خواہشات کو نہ صرف پاؤں تلے روندا ہوا ہے بلکہ جمہوری طرز پر صدائے احتجاج لگانے والے انقلابیوں کو بھی تختہ دار پر چڑھانے میں وہ ہر قسم کی رورعایت کو گناہ عظیم تصور کرتا ہے ، ظلم و ستم کی ریکارڈ توڑ داستانیں سننے پڑھنے اور لکھنے والے دردمند افراد بھی شکایتی لب ولہجہ میں یہی سوچتے اور کہتے کہ یا الہ ملک شام کی صبح درخشاں آخر کب ہوگی؟ ملک شام میں عدل و انصاف اور حریت فکر و مذہب کی باد بہاری کب چلے گی ؟ ، اپنی ہی سرزمین پر اسی فیصد تناسب رکھنے والے سنی مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق آخر کب ملیں گے، ملک وملت کی تعمیر نو میں ان کی شراکت کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا؟ کہتے ہیں کہ جب ظلم حد سے گذرتا ہے تو اس کی شام بہت جلد دستک دیدیتی ہے۔

8/ دسمبر 2024ء کی صبح آفتابِ دنیا افق عالم پر اس طرح روشن ہوا کہ ملک شام کے سارے اندھیرے کا فور ہوتے چلے گئے ، یعنی اس مبارک سرزمین سے وہ 54 / سالہ آمرانہ قاہرانہ اور ظالمانہ اسدی نظام حکومت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا جس کا سقوط بظاہر دیوانہ کا خواب ہی لگتا تھا ، اسدی تخت اقتدار کو اکھاڑنے کی واجب تدبیریں گذرے پچاس سالوں میں کئی مرتبہ ہوئیں، اس حوالہ سے اخوان المسلمون پر بھی الزام آیا جس کی پاداش میں انہیں شاہی عتاب جھیلنا پڑا۔ لیکن مشیت خداوندی کے سامنے سارے منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں، اسلام کے جیالوں نے ہمت نہیں ہاری ، وہ جانی مالی قربانیوں کا نذرانہ پیش کر کے شمع آزادی کی لو تیز کرتے رہے، ان کی راہوں میں پھول بھی تھے اور کانٹے بھی ، اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ شہادت و عزیمت کا انہیں اور ادراک تھا، وہ صبر و استقامت کے آنگن میں کِھلنے والے پھل اور پھولوں سے بخوبی واقف تھے بلکہ انہیں خیر القرون کے عظیم سپہ سالاروں کی طرح جگر آزمائی کا نقشہ یاد تھا۔ حضرت خالد ابن الولید ، صلاح الدین ایوبی اور طارق ابن زیاد کی جانشینی کا سودا ان کے دل میں سمایا ہوا تھا، بنام خداوہ آگے بڑھے بڑھتے گئے ظلم ونا انصافی کے خلاف انہوں نے مورچہ سنبھالا جس کا مثبت نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، کسی نے سچ کہا ہے تحریکیں ان کے بانیاں کے اخلاص پر زندہ رہتی ہیں۔

ملک شام میں جو انتقالِ اقتدار ہوا ہے وہ محض ایک ہفتہ کی ڈرامائی شورش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں لکھوکھا مظلوم شامی مسلمانوں کا خون اور تحرک شامل ہے، بظاہر اس تازہ انقلاب کی رفتار اس وقت تیز ہوئی جب ردع العدوان یعنی ظلم و جبر پر بندش کی تحریک کرنے والے بچوں نے درعا شہر میں دیواروں پر یسقط بشار یعنی بشار کی حکومت کا سقوط ہوا چاہتا ہے ، لکھنا شروع کیا جس کی خبر ملتے ہیں بشاری فوج نے ان معصوم بچوں کو زیر حراست لے کر الٹا لٹکا دیا ، ان کے ناخن تک اکھاڑ لئے اور جواباً لکھا یسقط ربك ولا يسقط بشار کہ بشار کا نہیں تمہارے پروردگار کا سقوط ہونے والا ہے، جب بچوں کے والدین اپنے جگر گوشوں کو چھڑانے گئے تو بشاری ملٹری نے انہیں ذلیل کرتے ہوئے اور اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارے یہ بچے بگڑی ہوئی نسل ہے، لہذا اپنی بیویاں ہمارے حوالہ کرو تا کہ ان سے اچھی نسلیں دریافت کر سکیں ۔

بشاری فوج نے اسی پر اکتفا نہیں کیا انہوں نے لا الہ الابشار جیسے فرعونی کلمات کا بھی نعرہ لگایا جس سے لوگوں میں اشتعال پیدا ہو گیا ، اور اہل ایمان کی رگ حمیت پھڑک اٹھی، چنانچہ حکومت مخالفت منظم فورس نے اس موقعہ سے بروقت پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذکورہ ظلم وزیادتی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا 27/ نومبر 2024 ء کو حکومت مخالف یہ تحریک منظم شکل میں آگے بڑھنے لگی اور دو تین دن کے بعد معروف شہر حلب تک اس کا کنٹرول ہو گیا ، آزادی کا صور اسرافیل پھو نکنے والے یہ شاہین ملک شام کی صبح نو کیلئے دیوانہ وار آگے بڑھتے رہے، جس کی تفصیلات وقفہ وقفہ سے الجزیرہ اور دوسرے انٹر نیشنل خبر رساں ادارے دنیا بھر میں پہنچاتے رہے، مصدقہ خبروں کے مطابق محض

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۲۱/ دسمبر

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
احتشام الدین حیدر 21/دسمبر/2001ء
بدرعالم بدر، سید 21/دسمبر/1975ء
جمیل واسطی ، پروفیسر سید محمد 21/دسمبر/1981ء
رشیدہ پٹیل 21/دسمبر/2009ء
رقیہ خلیل عرب 21/دسمبر/1980ء
نجم آفندی (میرزا تجمل حسین) 21/دسمبر/1975ء
نصرت علی شیخ، ڈاکٹر 21/دسمبر/1979ء
رام بابو سکسینہ 21/دسمبر/1957ء
حفیظ جالندھری 21/دسمبر/1982ء
پروفیسر کلیم الدین احمد 21/دسمبر/1983ء
حفیظ جالندھری 21/دسمبر/1982ء
رام با بوسکسینه 21/دسمبر/1957ء
پروفیسر کلیم الدین احمد 21/دسمبر/1983ء
حفیظ جالندھری 21/دسمبر/1982ء
یعقوب نانوتوی ، مولانا 21/دسمبر/1884ء
حفیظ جالندھری 21/دسمبر/1982ء
پروفیسر کلیم الدین احمد 21/دسمبر/1983ء
ڈاکٹڑ رام بابو سکسینہ 21/دسمبر/1957ء
ابوالاثر حفیظ جالندھری 21/دسمبر/1982ء
حفیظ جالندھری 21/دسمبر/1982ء
مولانا محمد عبد الستار تونسوی 21/دسمبر/2012ء
مولانا محمد یوسف اصلاحی 21/دسمبر/2021ء
مولانا محمد یعقیب نانوتوی 21/دسمبر/1884ء
یعقوب نانوتوی، مولانا محمد 21/دسمبر/ء
منزہ سلیم 21/دسمبر/2020ء
نصیر کوٹی 21/دسمبر/2016ء
ڈاکٹر طاہرشمسی 21/دسمبر/2021ء

Читать полностью…

علم و کتاب

‌‌‌*بات سے بات: اسلامی تاریخ کے عظیم کمانڈر المہلب بن ابی صفرہ پر کتاب کا تذکرہ*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) *
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

فرائیڈے اسپیشل میں ایک نئی کتاب "المہلب: خطہ پاکستان میں اسلام کا پہلا علم بردار"مصنف:ڈاکٹرسید محمد انور" پر علم وکتاب کے معزز رکن ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کا ایک تبصرہ شائع ہوا ہے۔یہ تبصرہ آپ کی اس بزم میں بھی پوسٹ ہوا ہے، اس میں اسلامی تاریخ کے اس نامور سپہ سالار کے تعارف میں لکھا ہے کہ مہلب کا تعلق جزیرہ نما عرب کے جنوب مشرقی علاقے سے اور نسبت سلطان عمان کے علاقے میں بسنے والے 'ازد' نامی معروف قبیلے سے تھی۔ اسے پڑھ کر ہمارا جی چاہا کہ اس سلسلے میں تاریخ کی پرانی باتوں تو تازہ کیا جائے، اگر یہ باتیں تبصرہ شدہ کتاب میں آئی بھی ہوں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟۔
متحدہ عرب امارات کے ساحلی شہر خورفکان سے ساحل کے ساتھ ساتھ جب شمال کی طرف آپ راس الخیمہ کی طرف بڑھتے ہیں،تو امارت الفجیرہ کا علاقہ شروع ہوتا ہے، اور کچھ ہی فاصلے پر مٹی سے بنی مسجد البدیہ ملتی ہے، جو 1446ء میں تعمیر ہوئی تھی، اوراس وقت امارات کی سب سے قدیم مسجد ہے، اور جہاں فجیرہ کی سرحد ختم ہوتی ہے وہاں پر ایک چوراہا ملتا ہے، جس کا نام المهلبية ہے، اور یہ امارات کے سب سے زیادہ تاریخی قصبے دبا Dibba میں واقع ہے، یہ قصبہ دو ملکوں اور تین ریاستوں پر منقسم ہے، الفجیرۃ کا حصہ دبا الفجیرہ کہلاتا ہے، اور شارجہ کا دبا الحصن، اور سلطنت عمان کے تابع حصہ دبا الربیعۃ کہلاتا ہے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ مسجدوں میں اذانین اپنے اپنے علاقوں کی تقویم کے مطابق ہوتی ہیں، تو رمضان المبارک میں سحری و افطار میں ایک قصبے میں جب مسجدوں سے چند منٹوں کے وقفہ سے آذانیں بلند ہوتی ہیں، تو عامۃ الناس پریشان وہاں کے احباب پوچھتے ہیں کہ مولانا کس آذان کے مطابق روزہ رکھا یا کھولا جائے؟۔
قدیم تاریخوں میں موجودہ سلطنت عمان سے سعودیہ کے منطقہ شرقیہ تک کا علاقہ عمان کہلاتا تھا۔ منطقہ شرقیہ کا ایک حصہ بحرین کہلاتا تھا، اور موجودہ بحرین اس زمانے میں دلمون کہلاتا تھا، لہذا قدیم حدیث، سیر ، وتاریخ میں عمان اور بحریں کا ذکرآئے، تو انہیں موجودہ جغرافیہ پر قیاس نہ کرنے کی گذارش ہے۔
اسلامی تاریخ کے عظم کمانڈر المھلب بن ابی صفرہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد نے در اصل اسی دبا میں جنم لیا تھا، ابو الفدا کا بیان ہے کہ دبا عرب کے قدیم بازاروں میں سے ایک تھا، یہ سنہ (۱۱) ہجری حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتح ہوا تھا، واقدی کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے زمانے میں دبا کے ایک شخص حذیفہ بن محصن الازدی کو یہاں پر صدقات وزکات پر نمائندہ بنا کربھیجا گیا تھا، تو وہ مالداروں سے صدقات وزکات لیتے اور انہیں غریبوں پر بانٹے، اور جو بچتا اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجتے، حضورﷺ کے انتقال کے بعد یہاں کے لوگ مرتد ہوگئے، اور زکات دینے سے انکار کردیا ، توحضرت حذیفہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ علنہ کو اس کی اطلاع دی، تو آپ نے عکرمہ بن ابو جہل رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دبا پر لشکر کشی کی جائے، تو یہاں کے لوگ قلعہ بند ہوگئے، اور ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد انہوں نے حضرت حذیفہ سے صلح کی درخواست کی، تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنی شرطوں پر صلح کروں گا،تب وہ ان کی شرطیں ماننے پر وہ مجبور ہوگئے، تو آپ نے حکم دیا کہ اپنے شہر سے خالی ہاتھ بغیر ہتھیاروں کے نکلیں، اورجب مسلمان قلعے میں داخل ہوگئے، تو حکم صادر فرمایا کہ معززین کو قتل کریں، اور ان کے آل واولاد کو قیدی بنائیں، تو انہوں نے ان کے ایک سو معززین کو قتل کیا، اور ان کے آل واولاد کو قید بنا کر مدینہ منورہ لے آئے، ان میں مہلب کے والد ابو صفرہ تھے جواس وقت ایک نابالغ بچے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے ان قیدیوں آزاد کردیا، تو ان میں بعض اپنے گاؤں چلے گئے، اور ابو مہلب بصرہ میں جاکر ٹہر گئے، اور حضرت عکرمہ حضرت ابوبکر کے عامل کی حیثیت سے مقیم رہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وہ شخص کہنے لگا میں مجبور ہو گیا تھا کھڑے ہونے پر،کیونکہ جس وقت حضرت تشریف لائے، تو مجھے محسوس ہوا کہ، جیسے کوئی شخص میرا کان پکڑ کر مجھ سے کہہ رہا ہے کھڑا ہو جا! بس پھر کیا تھا ،میں کھڑا ہو گیا۔
دارا وسکندر سے وہ مرد فقیر اولی
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی
(حکایات اسلاف دیوبند 32)

*ایک کرامت*

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ :
حضرت میاں جی قدس سرہ کی ایک کرامت مشہور ہے: آپ کے یہاں کوئی تقریب تھی۔ حضرت پیرانی صاحبہ یعنی آپ کی اہلیہ محترمہ آنکھوں سے بالکل معذور تھیں ۔عورتوں کا ہجوم ہوا۔ ان کی مدارات میں مشغول ہوئیں۔ مگر بینائی نہ ہونے سے سخت پریشان تھیں۔ حضرت رحمہ اللہ سے بطور ناز کہنے لگیں کہ: لوگ کہتے ہیں کہ آپ ولی ہیں۔ ہم کیا جانیں۔ ہماری آنکھیں جب درست ہو جائیں، تب جانیں۔ حضرت رحمہ اللہ باہر چلے گئے۔ دعا فرمائی۔ اتفاقا حضرت پیرانی صاحبہ بیت الخلاء تشریف لے گئیں۔ راستے میں دیوار سے ٹکر لگی۔ وہاں غشی ہو گئی اور گر پڑیں ۔تمام جسم پسینے پسینے ہو گیا۔ آنکھوں سے بھی بہت پسینہ نکلا ۔ہوش آیا تو خدا کی قدرت سے دونوں آنکھیں کھل گئیں۔ اور نظر آنے لگا۔
یہ حضرت میاں جی رحمہ اللہ کی دعا کا یہ اثر تھا اور یہ حضرت رحمہ اللہ کی کھلی کرامت تھی ( امثال عبرت132)
ادارہ علمی مرکز بنگلور 9611021347

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ : ۲۰/ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
رشید احمد ارشد، پروفیسر حافظ 20/دسمبر/1984ء
مولانا ظفر احمد انصاری 20/دسمبر/1991ء
علی محمد حاجی محمد، حاجی 20/دسمبر/1990ء
لودھی، ایس پی 20/دسمبر/2005ء
مجید، ایم اے 20/دسمبر/2012ء
محمد اختر 20/دسمبر/1958ء
محمد حسن صفدر، ائرکموڈور 20/دسمبر/2004ء
محمد عمر فاروقی 20/دسمبر/1969ء
معین نیازی قوال 20/دسمبر/1988ء
مولوی عبدالمجید 20/دسمبر/1960ء
سید اطہر حسین (آئی۔اے۔ ایس) 20/دسمبر/1988ء
مولانا مفتی عبدالعزیز رائے پوری 20/دسمبر/1991ء
ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی 20/دسمبر/2017ء
ماسٹر شجاع الدین قمرؒ 20/دسمبر/2017ء
ابصار عبد العلی 20/دسمبر/2018ء
اقبال احمد فاروقی 20/دسمبر/2013ء
عتیق الرحمن چودھری(بنگلہ دیش آرمی چیف) 20/دسمبر/2023ء
بشیر مان 20/دسمبر/2019ء
حسین علی منتظری، آیۃ اللہ 20/دسمبر/2009ء

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عبادة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 271-273

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

’’انجمن میں حاجی حسن مرحوم کی صدارت اورآئی ایچ صدیق کی صدر مدرسی کے دورمیں مولاناعبدالحمید صاحب ندوی ؒ کابحیثیت مدرس تقررہوا، آپ کا مقام دینیات، اردوزبان اور اقبالیات میں بہت بلند تھا، وہ میرے استاذ تھے اورجب میں پڑھانے لگا تب بھی وہ پڑھاتے تھے، انہیں مجھ سے دلی لگاؤتھا، ہماراساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا، وقت کے اکابرعلماء سے آپ کی مراسلت تھی، دینی ذوق پیداکرنے کیلئے عموماً وہ علامہ سیدسلیمان ندویؒ، مولانااشرف علی تھانویؒ اورمولاناعبدالماجد دریابادی ؒ وغیرہ کئی ایک بزرگوں کے آمدہ خطوط اپنے شاگردوں کوسناتے تھے، کبھی وہ مختلف رسالوں اورمجلات کے صفحات کی خواندگی کرتے اور بتاتے کہ ہمارے بزرگوں کا زندگی کے مختلف معاملات میں کیا طریقہ کارہے، صدرانجمن اورصدرمدرس مولانا کے علمی ذوق اور جذبے کے دل سے قدرداں تھے، انہوں نے مولانا کونصاب تعلیم کی حد بندیوں سے آزاد کردیاتھا اوراس کی چھوٹ دے دی تھی کہ درجہ میں جو مناسب سمجھیں طلبہ کوسکھائیں، مولانا شاگردوں کے سامنے دنیا بھرکاعلمی وتربیتی مواد لاکر ڈال دیتے، دین سے میری وابستگی میں سب سے بڑاہاتھ مولاناندویؒ کے دست شفقت اوررہنمائی کاہے ۔
مولانا بڑے خوش مزاج تھے، ان کاایک واقعہ آپ کوسناتا ہوں، غالباً میں اس وقت انگریزی کی چوتھی جماعت کاطالب علم تھا، اس زمانے میں ساتویں جماعت میں پبلک امتحان ہوتا تھا، مولانا ہمیں اقبالیات کا درس دیا کرتے تھے، ایک دن کا ذکرہے کہ مولانا نے درس میں اقبال کاایک شعرسنا کرفرمایا کہ جواس کا مطلب بتائے گا میں اسے ایک روپیہ بطورانعام دون گا اورہمیں جواب دینے کیلئے دوہفتہ کی مہلت دی، اس زمانہ میں ہماراذہن بہت تیزتھااوردماغ چلتا تھا، طلباء کی میٹنگ ہوئی اورطے پایا کہ لاہورمولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ رحمۃاﷲعلیہ کوخط لکھ کرجواب طلب کیاجائے، لہذا آپس میں تین آنے کاچندہ کیا گیا، اوردیڑھ آنے کا ڈاک ٹکٹ بھیجے جانے والے لفافے پرلگایاگیا اور ڈیڑھ آنے کاٹکٹ جوابی لفافہ پرچپکایا گیا،مولانامودودیؒ نے ہمارا خط ملتے ہی جواب بھیج دیا اورشعرکی تشریح تفصیل سے لکھ دی، ہم میں سے ہرایک نے وہ تفصیل زبانی یاد کرلی ،جب مولانا ندویؒ درجہ میں تشریف لائے توہم نے پوچھا کہ آپ نے شعرکا مطلب بیان کرنے پرایک روپیہ انعام دینے کا وعدہ کیا تھا، کیا آپ اپنے وعدہ پرقائم ہیں، مولانا نے جواب دیا تم میں سے کون اس کیلئے تیارہے! ہم نے کہا جس سے بھی پوچھ لیں، اس کے بعد جوکچھ یاد کیا تھا سنادیا، مولانابڑے متحیر ہوئے اورفرمایاکہ اب روپیہ دینا ہی پڑے گا، اس روپیہ سے ہم لوگوں نے حلوائی شاہ الحمید کی دکان سے تین رطل حلوہ خریدا چونکہ ہم کھانے والے صرف چھ تھے اورحلوہ زیادہ تھا لہذا اچارخریدا گیا اور مولانا سے کہا کہ آپ کے ساتھ ہی ہم لوگ حلوہ کھائیں گے، حلوہ کھا کرہم نے مولانا کے ہاتھ میں آہستگی سے پوسٹ سے منگوایا گیا لفافہ تھمادیا، فرمایااچھا تم ایسے ہو، غصہ بالکل نہیں ہوئے بلکہ ہماری ذکاوت اورقابلیت پربہت خوشی کا اظہارکیا ،میری حد نگاہ تک سرزمین بھٹکل پراس پایہ کااستاذ پھرنہیں ا ٓیا‘‘ ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

’’حق تعالی کا مزید کرم یہ ہواکہ اوائل کارہی میں اﷲ پاک نے قوم کوایک نیا اورسب سے پہلا گریجویٹ عطا فرمایا، جسے کارکنان انجمن نے پوری قدردانی کے ساتھ اپنی رفاقت میں لے لیا، گریجویٹ سے آپ دھوکہ نہ کھائیں، اس کوبھٹکل کے تنگ وتاریک گھرمیں رہنے والی ماں نے پالا تھا، انہیں ماؤں میں سے ایک نے جن کی تعلیم وتربیت کی برکتوں کا ابھی اوپرناتمام سا تذکرہ کیا جاچکاہے اورجن ماؤں کواب آپ ترسیں مریں جب بھی نہ پائیں گے، انہیں کی تربیت کا اثرتھا کہ یہ نوائط گریجویٹ اپنی دینداری، تقوی وطہارت، خدا ترسی وسادہ لوحی، ایثار وقربانی وغیرہ صفات اسلامی کا جامع اپنی نظیرآپ تھا، تہجد گذار، غریب نوازاورسب سے بڑھ کریہ کہ قوم کا پہلا گریجویٹ ہونے کے باوجود مغرب اورمغربیت سے سرتا سربیزار، نفور و گریزایسا کہ اتنا کہنے سے آپ موصوف کے اخلاق کا صحیح تصورنہیں کرسکیں گے، ہمارے اورآپ کے تصورسے کہیں زیادہ نیک اورمسلم ومنیب قلب کے مالک، جس طرح اﷲ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کوصنم خانہ میں رکھ کرصنم شکن بنایا، اسی طرح اﷲ تعالی نے اس نوائط گریجویٹ کومغربیت میں غوطہ دیکربھی اس کے اثرات سے بال بال بچایا بلکہ اس سے مغربیت کے استعمار کا کام لیا، دین بچپن سے ایسا رگ وپے میں بس چکا تھا کہ نہ نکلتا تھا، نہ نکلا اور روح اسلام کے خلاف کوئی رنگ نہ چڑھنا تھا نہ چڑھا، اب کیا تھا مرحوم یس حاجی حسن نوراﷲ مرقدہ جیسا پیکرسنت صدرانجمن اورمرحوم ائی ہیچ صدیق جیسا فدائے دین وملت انجمن اسکول کا مختارکل ہیڈ ماسٹر، سونے پہ سہاگہ، اسکول اورہیڈ ماسٹرکے الفاظ کہیں یہاں بھی دھوکہ نہ دے دیں، واضح رہے کہ یہ انجمن اسکول تھا توانگریزی ہی اسکول لیکن اپنی معنویت میں کسی عربی دارالعلوم سے کم نہ تھا اورنہ ہیڈ ماسٹرہی کسی دینی جامعہ کے مہتمم سے فروتر، انگریزی تعلیم کاانتظام ہوا لیکن دینی تعلیم کے اہتمام پرخصوصی نظررہی، انگریزی کے ساتھ عربی زبان اوردینیات کی تعلیم کا خاص انتظام کیا گیا، مستندعلماء کی خدمات حاصل کرکے دینیات کی تعلیم کواوربھی اہمیت دی گئی، دینی تعلیم کے معیارکا اندازہ کرنے کیلئے اتناہی کافی ہے کہ دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤسے خصوصی طورپرعلماء کی خدمات حاصل کی جاتی رہیں (روداداجلاس اول)
مولانا مسعودعلی ندوی جنہیں مولانا دریابادی نے بجا طورپرسالارغازی کے لقب سے یاد کیاہے، ان کوایسے ارکان پرمشتمل وفد کیونکرمتاثرنہ کرتا، مولانا کی مزاج شناسی اوراہل بھٹکل سے محبت نے اثردکھایا اورآپ کی نظرانتخاب بارہ بنکی کے قصبہ جیسکھ پورکے نوجوان فاضل مولوی عبدالحمید پرجا پڑی، بلایا اورکہا کہ بھٹکل کا وفد باہرانتظارکررہاہے، انہیں تمہاری ضرورت ہے، بوریہ بسترباندھواورچھ ماہ کیلئے بھٹکل ہوآؤ، اس حکم پرمولاناعبدالحمید ندوی ششدررہ گئے، پیرومرشد کا حکم تھا، بجا لانا ضروری تھا، گاؤں قریب ہی تھا لیکن بال بچوں سے اجازت لینے کی فرصت کہاں تھی؟، کھڑے کھڑے بسترباندھا، ضروری کپڑے لئے اوربھٹکل کیلئے رخت سفرہوگئے ۔
مولانا ندوی پہلے پہل جب بھٹکل کے لئے روانہ ہوئے تھے توکوئی معاشی مسئلہ آپ کودامنگیرنہ تھا، لکھنؤمیں ہومیوپیتھی مطب ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، گاؤں میں آباء واجداد سے چلی آرہی قابل کاشت زمینیں تھیں، دوست ہم جولی لکھنؤہی میں تھے، آپ مسجد ندوہ کی تعمیرمیں مولانامسعودعلی ندوی کا ہاتھ بھی بٹارہے تھے، اس وقت کا لکھنؤملی تحریکات کا مرکزبنا ہواتھا، چاروں طرف چہل پہل تھی، ایک مجلسی مزاج کے آدمی کواس سے زیادہ کیا چاہئے تھا، ایسے میں ہفتہ بھرسفرکی صعوبتیں برداشت کرکے ایک پسماندہ قصبہ میں جہاں پراقتصادی بدحالی کا یہ عالم ہوکہ ابھی چند روزپیشتراخراجات پورے نہ ہوسکنے کی وجہ سے اکلوتا پرائمری اسکول سرکارکی تحویل میں دے دیا گیا تھا، اودھ کے کھیت کھلیانوں کی کھلی فضا کوچھوڑکرتنگ وتاریک گلیوں میں اجنبی لوگوں میں رہنے میں سوائے جذبہ قربانی کے اورکیا کشش ہوسکتی تھی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

’’حق تعالی کا مزیدکرم یہ ہواکہ اوائل کارہی میں اﷲ پاک نے قوم کوایک نیااورسب سے پہلا گریجویٹ عطافرمایا، جسے کارکنان انجمن نے پوری قدردانی کے ساتھ اپنی رفاقت میں لے لیا، گریجویٹ سے آپ دھوکہ نہ کھائیں، اس کوبھٹکل کے تنگ وتاریک گھرمیں رہنے والی ماں نے پالاتھا، انہیں ماؤں میں سے ایک نے جن کی تعلیم وتربیت کی برکتوں کاابھی اوپرناتمام سا تذکرہ کیاجاچکاہے اورجن ماؤںکواب آپ ترسیں مریں جب بھی نہ پائیں گے، انہیں کی تربیت کااثرتھا کہ یہ نوائط گریجویٹ اپنی دینداری، تقوی وطہارت، خداترسی وسادہ لوحی، ایثاروقربانی وغیرہ صفات اسلامی کاجامع اپنی نظیرآپ تھا، تہجد گذار، غریب نوازاورسب سے بڑھ کریہ کہ قوم کا پہلاگریجویٹ ہونے کے باوجود مغرب اورمغربیت سے سرتا سربیزار، نفورو گریزاںا یسا کہ اتنا کہنے سے آپ موصوف کے اخلاق کا صحیح تصورنہیں کرسکیں گے، ہمارے اورآپ کے تصورسے کہیں زیادہ نیک اورمسلم ومنیب قلب کے مالک، جس طرح اﷲ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کوصنم خانہ میں رکھ کرصنم شکن بنایا، اسی طرح اﷲ تعالی نے اس نوائط گریجویٹ کومغربیت میں غوطہ دیکربھی اس کے اثرات سے بال بال بچایا بلکہ اس سے مغربیت کے استعمار کا کام لیا، دین بچپن سے ایسارگ وپے میں بس چکا تھا کہ نہ نکلتا تھا، نہ نکلااورروح اسلام کے خلاف کوئی رنگ نہ چڑھنا تھانہ چڑھا، اب کیا تھامرحوم یس حاجی حسن نوراﷲمرقدہ جیسا پیکرسنت صدرانجمن اورمرحوم ائی ہیچ صدیق جیسا فدائے دین وملت انجمن اسکول کا مختارکل ہیڈماسٹر، سونے پہ سہاگہ، اسکول اورہیڈماسٹرکاالفاظ کہیں یہاں بھی دھوکہ نہ دے دیں، واضح رہے کہ یہ انجمن اسکول تھ اتوانگریزی ہی اسکول لیکن اپنی معنویت میں کسی عربی دارالعلوم سے کم نہ تھااورنہ ہیڈماسٹرہی کسی دینی جامعہ کے مہتمم سے فروتر، انگریزی تعلیم کاانتظام ہوالیکن دینی تعلیم کے اہتمام پرخصوصی نظررہی، انگریزی کے ساتھ عربی زبان اوردینیات کی تعلیم کا خاص انتظام کیاگیا، مستندعلماء کی خدمات حاصل کرکے دینیات کی تعلیم کواوربھی اہمیت دی گئی، دینی تعلیم کے معیارکااندازہ کرنے کیلئے اتناہی کافی ہے کہ دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤسے خصوصی طورپرعلماء کی خدمات حاصل کی جاتی رہیں (روداداجلاس اول)
مولانا مسعودعلی ندوی جنہیں مولانا دریابادی نے بجاطورپرسالارغازی کے لقب سے یاد کیاہے، ان کوایسے ارکان پرمشتمل وفد کیونکرمتاثرنہ کرتا، مولانا کی مزاج شناسی اوراہل بھٹکل سے محبت نے اثردکھایا اورآپ کی نظرانتخاب بارہ بنکی کے قصبہ جیسکھ پورکے نوجوان فاضل مولوی عبدالحمید پرجاپڑی، بلایا اورکہا کہ بھٹکل کا وفد باہرانتظارکررہاہے، انہیں تمہاری ضرورت ہے، بوریہ بسترباندھواورچھ ماہ کیلئے بھٹکل ہوآؤ، اس حکم پرمولاناعبدالحمید ندوی ششدررہ گئے، پیرومرشد کاحکم تھا، بجالا لاناضروری تھا، گاؤں قریب ہی تھا لیکن بال بچوں سے اجازت لینے کی فرصت کہاں تھی؟، کھڑے کھڑے بسترباندھا، ضروری کپڑے لئے اوربھٹکل کیلئے رخت سفرہوگئے ۔
مولانا ندوی پہلے پہل جب بھٹکل کے لئے روانہ ہوئے تھے توکوئی معاشی مسئلہ آپ کودامنگیرنہ تھا، لکھنؤمیں ہومیوپیتھی مطب ٹھیک ٹھاک چل رہاتھا، گاؤں میں قابل کاشت آباء واجداد سے چلی آرہی زمینیں تھیں، دوست ہم جولی لکھنؤہی میں تھے، آپ مسجد ندوہ کی تعمیرمیں مولانامسعودعلی ندوی کاہاتھ بھی بٹارہے تھے، اس وقت کا لکھنؤملی تحریکات کا مرکزبنا ہواتھا، چاروں طرف چہل پہل تھی، ایک مجلسی مزاج کے آدمی کواس سے زیادہ کیا چاہئے تھا، ایسے میں ہفتہ بھرسفرکی صعوبتیں برداشت کرکے ایک پسماندہ قصبہ میں جہاںپرمالی بدحالی کایہ عالم ہوکہ ابھی چندروزپیشتراخراجات پورے نہ ہوسکنے کی وجہ سے اکلوتا پرائمری اسکول سرکارکی تحویل میں دے دیا گیا ہو، اودھ کے کھیت کھلیانوں کی کھلی فضا کوچھوڑکرتنگ وتاریک گلیوں میں اجنبی لوگوں میں رہنے میں سوائے جذبہ قربانی کے اورکیا کشش ہوسکتی تھی۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

"میں گواہی دیتا ہوں ____! اے دنیا میں گواہی دیتا ہوں۔! میں تصدیق کرتا ہوں کہ اس آدمی کی رگوں میں قریش کا بہترین خون ہے۔ اس کے قلب و رُوح میں سوائے نور کے کچھ نہیں اس کے کردار میں امانت و صداقت کے جوہر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں میں ایک دو دن نہیں چالیس سال سے اس کی زندگی کے شب و روز دیکھتا آیا ہوں اور اس کی شخصیت کو ہر وقت اپنی حدّ ِ نظر سے اُونچا پایا ہے میں کیسے بتاؤں یہ کتنے اچّھے ، کتنے سچّے ہیں ___ میں ان کی صداقت کی گواہی دیتا ہوں اے لوگو! میں گواہی دیتا ہوں....."
توحید و رسالت کی درد بھری آواز سینۂ رسول ﷺ سے اٹھی اور شہادتِ حق کا صدیقی نعرۂ مستانہ خونِ دل و جگر ٹپکاتا ہوا ساتھ آتا ۔ ساری دنیا ایک ساعت کے لیے سکتے میں آجاتی
! آخر کار سنگ دلوں نے ان دونوں کو گھور کر دیکھا، خود پرستوں کے کان کھڑے ہوئے ! اور انسان کی جھوٹی خدائی کی ظالم زنجیروں میں جکڑے ہوئے کتنے ہی غُلاموں اور لونڈیوں کے دلوں میں یہ احساس جاگزیں ہوا:
"ہائے کیسی دل کش ہے یہ آواز کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ___ کاش ہم اس آواز پر تن من دھن نثار کر سکتے ، کاش خُدا کا کوئی بندہ ہمیں انسانی غلامی سے نکال کر خدا کی بندگی ہیں داخِل کرا سکتا! "
یہ پکار خدا کے اس بندے کے کان میں پڑی جس کا نام ابو بکرؓ صدیق تھا۔ سُنتے ہی وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور عمر بھر کے خون پسینے کی کمائی بے دریغ خرچ کردی ان بے کسوں اور غلاموں پر جن سے ان کے خون کا نہیں ___ مفادات کا نہیں ، خالص ایمان کا رشتہ تھا۔ ایک رشتۂ اخوّت جس میں اپنے اور بیگانے کا کوئی امتیاز نہیں ۔ جہاں کسی سے کچھ لینے کے لیے نہیں دیا جاتا ۔ بلکہ جہاں دینے والا لینے کے ہر دروازے کو یہ کہہ کر اپنے ہا تھوں سے بند کر دیتا ہے کہ " تم سے مجھے کسی اجر و صلے کی طلب نہیں۔ میری مزدوری میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔" خدا کے نہ ماننے والوں نے بھی کبھی ان غلاموں کو خریدا تھا تا کہ اپنی جھوٹی خدائی کا کھلونا ان کو بنا کر سینہ پُھلا سکیں اور غرور سے سر اُٹھا سکیں۔ ابو بکرؓ جیسے اللہ والے نے بھی ان غلاموں اور لونڈیوں کو مُنہ مانگے دام دے کر خریدا تھا لیکن صرف اِس لیے کہ خدا کے بندوں اور بندیوں کو خدا کی بندگی کی آزادی دلا کر توحید کے آستانے پر جُھکادیں اور ساتھ ساتھ خود بھی سجدۂ شکر میں گر جائیں ۔ ان گلو خلاصی پانے والوں میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی ۔ ہاں ان میں بلال حبشیؓ نہ تھے ۔ عامرؓ بن فہیرہ تھے ۔ ان میں نذیرہؓ تھیں، نہدیہؓ اور جاریہؓ تھیں ۔ محمد مصطفے ﷺ کے فیض نظر نے یہ ابوبکرؓ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا
وہی جو بنی تمیم کے ایک کامیاب سوداگر کی حیثیت سے کبھی سونے چاندی سے دنیا کے سازو سامان کا مول تول کیا کرتے تھے آج وہی ان کی دولت تھی جس کے عوض وہ دنیا نہیں خرید رہے تھے ___ خدا کی خوشی خرید رہے تھے !
حق و صداقت کے جاں نثاروں کا قافلہ بڑھتا گیا اور حق وصداقت سے چڑنے والوں کی مکروہ تیوریاں چڑھتی گئیں ۔ دعویِٰ حق کرنے والوں کے مقابلے میں اب ظلم و ستم کی قہرمانیت پوری طرح حرکت میں آچکی تھی ۔ اب خدا کانام وہی
لے سکتا تھا جس نے سرسے کفن باندھ لیا ہو اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی ہو اس مقام پر کیسا عظیم ثبات تھا رسولِ خدا ﷺ اور ان کے نام لیواؤں کے قدموں میں ! زبانو ں کے تیر و نشتر سہنے کے لیے گھائل سینے بے تکلّف کھلے ہوئے تھے۔ بھوک اور پیاس کی شدّت میں آگ کی طرح جلتی ہوئی زمین پر گھسیٹے جانے کے لیے غلام اور لونڈیاں تک وادیِ خطر میں بے جھجک کود پڑی تھیں جہاں قدم قدم پر ہلاکت خیزیاں تھیں ۔ موت کی خوفناک چاپ تھی ۔ بے حسی اور سنگ دلی کی تاریکی میں درندوں کی طرح شعلہ بار آنکھیں مظلوموں کا خون ٹپکاتے ہوئے کرخت ہاتھ تھے ۔ اور کھوپڑیوں سے کھیلنے والی بے رحم ٹھوکروں کی باڑھ تھی ۔ وہاں قدم قدم پر خدا کے نام پر سر دھڑ کی بازی لگانے والے پروانوں کی طرح ٹوٹے پڑتے تھے اور اس کاروانِ عشق کی چوٹی پر خدا کے رسول ﷺ کے قدموں کو جو شخص زخمی اور پیا سے ہونٹوں سے چومتا چلا آرہا تھا وہ ابو بکرؓ صدیق ہی تھا ہائے اے ابو بکرؓ ! خدا کی ہزار ہزار رحمتیں ہوں آپ کی جان پاک پر کہ خدا اور رسول ﷺ پر فدا ہونے والوں نے ہمیشہ آپ کو فداکاری کے نقطۂ عروج پر ہی دیکھا۔ وہاں دیکھا جہاں کوئی نہ تھا۔ جہاں فدا کاری کے نقطۂ عروج و سرفروشی کی ساری رفعتیں اپنی آخری حدوں کو چُھو رہی تھیں ۔
________________________________________ (جاری)

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۲۲/دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
احسان احمد بیگ وکیل، مرزا 23/دسمبر/1972ء
شہزاد خلیل 23/دسمبر/1988ء
علی امجد 23/دسمبر/2005ء
مظہر یوسف زئی 23/دسمبر/2007ء
نور جہاں، ملکہ ترنم(اللہ وسائی ) 23/دسمبر/2000ء
شیخ مشیر حسین قدوائی 23/دسمبر/1937ء
مرزا احسان احمد 23/دسمبر/1972ء
ڈاکٹر ضیاء الدین احمد 23/دسمبر/1947ء
علّامہ محمد طاسین 23/دسمبر/1998ء
مولانا حکیم محمد زماں حسینی 23/دسمبر/1999ء
مولانا عبد الحمید ندوی جیسکھ پوری 23/دسمبر/1977ء

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عبادة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 268-266

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

کوکن عمری کی رائے ہے کہ "اگر ہم ہندوستان کے اہل نوائط کی تاریخ کو تلاش کرتے ہیں تو ساتویں صدی ہجری سے پہلے کسی کا نام نہیں ملتا۔۔۔۔ اور یہ کہ جنوبی ہند کے قدیم اہل علم نوائط میں سے ایک مشہور ترین بزرگ ملا فقیہ مخدوم علی مہائی نائطی(ف ۸۳۵ھ۔۱۴۳۰ء ) ہیں۔"۔۔ کوکن عمری کی تحقیق ہمیں درست محسوس ہوتی ہے، کیونکہ تلاش بسیار کے باوجود ہمیں بھی نوائط سے منسوب شیخ مہایمی سے قدیم کوئی معروف شخصیت کا نام نہیں مل سکا۔ قدیم تاریخوں میں اس ناچیز کو نوائط (حطی) کے ساتھ تو کوئی مستند حوالہ نہ مل سکا، البتہ ت (قرشت) کے ساتھ جو ذکر ملا ہے، تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
۱۔ رومن تلفظ میں Naiteas
جواو دی بیروس نے سنہ 1500ء کے آس پاس کے واقعات میں اسے اس تلفظ کے ساتھ لکھا ہے۔ بیروس ایک پرتگالی نامہ نگار ہے جو یورپ کی نشات ثانیہ کا اس وقت سے عینی گواہ ہے، جب سقوط اندلس کے صرف دو سال بعد ۲۵ اکتوبر ۱۴۹۵ء کو پرتگالی بادشاہ عمانویل اول کو بابائے روم کی جانب سے مشرقی ممالک پر غلبہ کی کمان سوپنی گئی تھی، اور 1498ء میں اس کے دور حکومت میں پرتگالی قزاق واسکوڈا گاما تلاش ہند کی مہم میں کامیاب ہوا تھا، اس وقت سے بیروس اس سلطنت کا سرکاری نامہ نگار بنا، اس نے اس کتاب میں 1498ء سے 1538ء تک کے واقعات پرتگالی زبان میں لکھے ہیں۔ یہ کتاب بھٹکل ونوائط کی تاریخ کا قدیم ترین اور مستند تاریخی مرجع شمار ہوتی ہے، اس کتاب میں جگہ جگہ 1502ء اور بعد کے واقعات میں Naiteas پر پرتگالی حملوں کا ذکر ملتا ہے۔

۲۔ Neiteas
پرتگالی تاریخ نویس فرناو لوپیز ڈی کاسٹانہیڈا نے سنہ (1552ء) میں اسے رومن حروف میں اس طرح لکھا ہے۔
۳۔ نائت
شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے (۱۵۸۸ء) میں حرمین شریفیں میں جن شخصیات کی صحبت رہی ان میں سے فقیہ محمد نائت کے لئے یہ لقب استعمال کیا ہے۔
۴۔ آپ کے بعد محمد قاسم فرشتہ (۱۶۲ء) کا نام آتا ہے جس نے لکھا ہے
"بندر کوہ و دابل و چیول وغیرہ کے را جاؤں نے بھی حکام ملا بار کی تقلید کر کے عرب تاجروں کو سواحل دریا پر مساکن تعمیر کرانے کی اجازت دی اور ان کو نوایت کے لقب سے جس کے معنی خدا وندا یعنی صاحب و آقا کے ہیں مخاطب کیا"۔
فرشتے کی یہ تشریح بھی قرین قیاس لگتی ہے، کیونکہ نائطی زبان میں محمد غوث عبد الرحمن حبیبی جوکاکو مرحوم کے کئی صدیوں سے رائج قدیم قصیدے " ایکا گے سیانو میں " لفظ نایتو اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، ان کا شعر ہے۔
توگے نائیتو امیں گے کیورو
تیگا کے وکنو نہ پاوے گے ایورو
ہمارے یہاں ابھی چند سال قبل تک مقامی غیر مسلم لوگوں کو نوائط افراد کو کواسی لفظ کے ہم معنی صاحبرو، اور وڈیار جیسے القاب ہی سے خطاب کرتے دیکھا ہے۔
عبد النبی احمد نگری (ف ۱۷۸۰ء) کی طرح غلام علی بلگرامی (۱۷۸۶ء) نے بھی نوائت ہی لکھا ہے۔ پھر ان کے بعد کے مورخین میں نواب صدیق حسن خان کی کتاب ابجد العلوم کے حاشیہ نگار اور سید عبد الحی حسنی،خیر الدین زرکلی وغیرہ نے یہی نقل کیا ہے۔
عبد النبی احمد نگری کا کہنا ہے کہ یہ فارسی لفظ( ںوآمد) ہے، ہسٹری آف میسور کے مصنف ولکس جس نے ٹیپو سلطان کی شہادت کے فورا بعد تاریخ میسور کی تصنیف کا آغاز کیا تھا، اس کی بھی یہی رائے ہے، لیکن ہماری رائے میں اس لفظ کی زیادہ واضح تشریح وکٹر ڈیسوزا نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے نوائط آف کینرا میں کی ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہ لفظ کوکنی اور سنسکرت کے دو الفاظ کا مرکب ہے Nava اور Ayata نوآیتہ یعنی نئے آئے ہوئے، کیونکہ ہندی،کنڑی، اور مراٹھی زبانوں کے حروف تہجی ساکن نہیں ہوا کرتے، بلکہ زبر کے ساتھ متحرک ہوتے ہیں تو ان زبانوں میں حرف (ت) بولنے میں متحرک ہے، اور اردو فارسی اور نائطی زبانوں میں ساکن ہے تو (ت) کے بعد (الف) ساکن ہوگیا۔

چونکہ باقر آگاہ ویلوری کے بعد سے نوائط حرف(ط) کے ساتھ ہی رائج ہے، اور مایہ نواز مورخ ومحقق محمد یوسف کوکن عمری رقم طراز ہیں کہ:
" نوائط جمع ہےنائط کی۔ اور یہ لفظ ط اور ت دونوں کی طرح لکھا جاتا ، قدیم مورخین اور تذکرہ نگار ت ہی کے ساتھ لکھا کرتے تھے چنانچہ ابوالقاسم فرشتہ ، سير المتاخرين ، صمصام الدولہ کی مآثر الامراء، خانی خان نظام خان نظام الملکی کی منتخب اللباب اور مولوی غلام علی آزاد بلگرامی کی سبحة المرجان فی آثار ہندوستان اور دوسری کتابوں میں نایت اور نایتی ہی لکھا گیا ہے(خانوادہ قاضی بدر الدولۃ) ۔
تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ہماری رائے ہے کہ اب چونکہ نوائط صدیوں سے رائج ہوہی گیا ہے، تو اب اسے اپنی جگہ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ جب اس قبیلے کی طرف نسبت ہوگی تو نوائطی کے بجائے نائطی کہنا درست ہوگا، اسی طرح اگر (ط) سے لکھنا ہے تو پھر اس کی زبان کے لئے نوائطی لکھنا غلط ہوگا، کیونکہ نسبت واحد کی طرف ہوتی ہے،جمع کی طرف نہیں ، البتہ اگر (ت) کے ساتھ لکھنا ہے تو پھر نسبت (نوائتی) درست ہوگی، کیونکہ (ط) کے ساتھ جمع کا صیغہ سمجھا گیا ہے، اور (ت) کے ساتھ

Читать полностью…

علم و کتاب

میجر جنرل فاروقی کی بڑھاپے کی شادی نہایت دھوم دھام سے ہوئی. راول پنڈی چھاؤنی کے گرد واقع سبزہ زار میں محفل آراستہ کی گئی. حفیظ جالندھری کو سہرا پڑھنے کے لیے بلایا گیا. حفیظ صاحب نے دولہا کی عمر کے حوالے سے طنز و مزاح کا پیرایہ اختیار کیا.
محفل میں شریک فوجی افسروں کو یہ بات ناگوار گزری کہ ایک شاعر نے میجر جنرل کی تفریح لی. انہوں نے حفیظ جالندھری کو اٹھا کر تالاب میں پھینک دیا. حفیظ صاحب ڈوبتے ڈوبتے بچے. پانی کی سطح پر صرف ان کی ٹوپی تیر رہی تھی.
ایک رحمدل فوجی افسر کرنل مسعود احمد کے دل میں نیکی آگئی اور وہ غرقاب شاعر کو تالاب سے کھینچ کر کنارے تک لائے. حفیظ صاحب بھیگے کپڑوں میں کانپتے جسم کے ساتھ مائیکرو فون کی طرف گئے اور "تم پر لعنت ہو" کہہ کر محفل سے رخصت ہوئے.
حفیظ ہوشیارپوری نے حفیظ جالندھری کے ہی اس شعر سے ان کی غرقابی کی تاریخ نکالی.

جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہاں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں

یہ واقعہ 1952 کا ہے اگر چھ سال بعد مارشل لاء کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آتا تو کرنل مسعود صاحب حفیظ جالندھری کی ٹوپی ہی باہر لاتے اور اسے فردوسی اسلام کی یادگار کے طور پر قومی عجائب گھر میں محفوظ کردیا جاتا.

(سید ضمیر جعفری کی کتاب "حفیظ نامچہ" سے اقتباس)

Читать полностью…

علم و کتاب

گیارہ دن کے اندر اسلام پسندوں نے حمص حماۃ اور دارالحکومت دمشق سمیت تقریباً تمام مرکزی شہروں کو بغیر کسی خون خرابے کے اپنی تحویل میں لے لیا، جبکہ ملعون بشار قو می خزانہ سمیٹ کر ملک سے بھاگ کھڑا ہوا اور روس جا کراس نے سیاسی پناہ حاصل کر لی ہے، جبکہ اس کی فیملی سقوط دمشق سے دو تین روز پہلے ہی وہاں منتقل ہو گئی تھی ۔
شام میں تختہ پلٹ ہونے کے ساتھ حریت پسندوں نے حسب عادت وہاں کے قید خانوں اور زندانوں میں طرح

طرح کے مظالم جھیلنے والے مرد، خواتین ، بچوں اوربوڑھوں کو موت کا نوالہ بننے سے یوں تو بچا لیا ہے لیکن ان میں تعذیب کا شکار رہے کتنے ہی ایسے افراد ہیں جو اپنی یادداشت، قیمتی جوانی اور صحت و تندرستی جیسی خدائی نعمتوں سے سدا کیلئے محروم کر دئے گئے ہیں، بشاری فوج کی درندگی اور سفاکانہ مظالم نے گوانتانا موبے جیل کے اس وحشیانہ سلوک و کردار کو بھی بھلا دیا ہے جو افغانستان وغیرہ سے پکڑ کر لائے گئے بے گناہ شہریوں کے ساتھ امریکا و برطانیہ کے افسران وہاں کرتے تھے ، دمشق سے تقریباً تیس کلومیٹر دور صید یا نا جیل جسے انسانی مذبح خانہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اس مکروہ عقوبت خانہ نے تو ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس سے اہل تشیع خصوصاً ایران کاحقیقی چہرہ بھی بے نقاب ہو جاتا ہے، پتہ نہیں کیوں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے اور تنظیمیں اس حوالہ سے دوہرا معیار رکھتے ہیں، انہیں پردہ نشیں اور حیاپسندخواتین کو آزادی اور مساوات کے نام پر شمع محفل بنانے بلکہ سڑک پر لانے کی فکر تو دامن گیر رہتی ہے لیکن حقیقی مظلوموں کا سہارا بنے اور ظالم قوتوں کا احتساب کرنے کی وکالت شاید ان کے بس کا روگ نہیں ہے، انسانی حقوق اور عدل و انصاف کا پر فریب نعرہ دینے والےلامذہب افراد بھی دراصل ان عالمی ٹھیکیداروں کے زیر اثر کام کرتے ہیں جنہیں انسانیت نہیں اپنے مفادات سے دلچسپی رہتی ہے ، آج فلسطین کے غزہ میں کیا وہ سب کچھ نہیں ہو رہا ہے جس کی مہذب دنیا میں بالکل جگہ نہیں ہے، لیکن ساری دنیا پر چودھراہٹ کا خواب دیکھنے والے اور انسانی حقوق کے نام پر بعض حکومتوں کو زیر عتاب لانے والے طاقتورممالک بھی اسرائیل جیسے درندہ کو لگام دینے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں جس کی توسیع پسندانہ انسانیت سوزحرکتوں نے پورے مشرق وسطی کو جہنم بنا کر رکھدیا ہے اور فلسطین کو غصب کرنے کے بعد اس کا جارحانہ رخ اب ملک شام کی طرف ہے جس کے بحری بیڑوں اور عسکری اہمیت کے حامل اہم ٹھکانوں کو ٹارگیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس کے کامیاب اہداف پر مبصرین کہتے ہیں کہ شام کے سابق حکمراں اسدی ٹولہ نے کبھی بھی اسرائیل کیلئے دردسری نہیں کی بلکہ وہ خفیہ ڈیل کے تحت اسرائیل کی سرحدوں کا محافظ بنارہا، گولان کی پہاڑیاں تو طشت میں سجا کر پہلے ہی اس کے حوالہ کر چکا ہے ، اب سقوط دمشق ہوا تو بشار رجیم جاتے جاتے ملک شام کے عسکری اڈوں اور دفاعی تنصیبات کی راز دارانہ معلومات بھی اپنے جگری دوست اسرائیل کے حوالہ کر گیا ہے، جسے کام میں لاکر اسرائیل شام کی سرحدوں میں مداخلت کر کے اس کی سلامتی کو چیلنج کر رہا ہے جو اقوام متحدہ کے ذریعہ طے کردہ عالمی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے ، یہی وجہ ہے کہ شام کی نئی عبوری حکومت کے سر براہ اور اس کے مستقل مندوب نے اسرائیل کو آگے بڑھنے پر خبردار کیا ہے۔
ملک شام میں یوں تو کئی متحارب گروپ سرگرم عمل رہے ہیں جن کی وفاداریاں کم وبیش باہری حکومتوں کے ساتھ وابستہ ہیں، امریکا، اسرائیل ، رشیا ، ایران اور ترکی ان متحارب گروپوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں جن کے اپنے اپنے سیاسی اہداف ہیں لیکن شام کے حالیہ انقلاب کے سب سے بڑے ہیرو اور جری قائد ابو محمد الجولانی ہیں جن کا اصل نام احمد حسین الشرع ہے ان کی پیدائش ۱۹۸۲ء میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہوئی ، جہاں ان کے والد پیٹرولیم کے انجینئر تھے ، احمد حسین الشرع کا خاندان ۱۹۸۹ء میں دمشق کے مضافات میں واپسی کر کے آباد ہو گیا ، ابو محمد الجولانی ۲۰۰۳ء میں عراق چلے گئے جہاں انہوں نے امیر کا مخالف جہادی گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی ۔ ۲۰۰۶ء میں دورانِ مزاحمت انہیں امریکی فوج نے گرفتار کر لیا جس کے نتیجہ میں پانچ سال انہیں قید تنہائی میں گزارنے پڑے اور رہائی نصیب ہوئی تو متعدد اسلامی تحریکات میں ان کی شمولیت رہی بالآخر ۲۰۱۶ء میں ابو محمد الجولانی نے اپنی تمام تر محنتوں کا مرکز اپنے وطن شام کو بنالیا جہاں بشاری مظالم سے ملک کو پاک کرنے اور عوام کی امنگوں کے مطابق مستحکم عادلانہ نظام حکومت کی تشکیل ان کی دیرینہ خواہش تھی ، ان کی قائم کردہ جماعت "هيئة التحرير الشام" کے بنیادی مقاصد میں وہ مرکزی نقاط شامل ہیں جو کسی بھی ملک یا نمائندہ حکومت کے روشن کردار کی ضمانت بنتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بہت جلد احمد حسین الشرع نے مظلوم عوامی حلقوں میں اپنی ستھری شناخت قائم کر لی اور جب انقلاب زندہ باد کی تحریک آگے بڑھی تو شام کی اکثریت ان کے شانہ بشانہ تھی ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

آب بیتی
بیان وآواز: ابو الاثر حفیظ جالندھری
(وفات: ۲۱ دسمبر)
لنک اردو آڈیو
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=aap-biti-interview, Aap Biti- Interview

حفیظ جالندھری کی آواز میں مزید کلام سننے کے لئے
Audios » Urdu Audio

Читать полностью…

علم و کتاب

دبا ربیعہ جو سلطنت عمان کے ماتحت ہے یہاں پر ایک قدیم قبرستان پایا جاتا ہے، جسے مقبرۃ الشہداء کہا جاتا ہے، آج سے تیس چالیس سال قبل ہمارا وہاں جانا ہوا تھا، اس وقت اس کی سرحدیں کھلی ہوئی تھیں ، الگ سے ویزا کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، توہم عید کی چھٹیوں میں وہاں اس قببرستان کی تلاش میں گئے تھے، ایک جگہ قبریں تو تھیں، لیکن کھلے میدان میں ، چہار دیواری وغیرہ نہیں تھیں، وہاں کئی سارے پاکستانی مزدور کام کررہے تھے، ان سے جب ہم نے دریافت کیا کہ یہاں صحابہ کے زمانے کا جوقبرستان ہے وہ کہاں ہے؟، تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، کہنے لگے کہ چند عرصے پہلے اس علاقے میں سڑکوں کا نظام پھیلایا گیاتھا ، اس وقت ہم لوگوں نے اپنے ہاتھ سے یہاں کی قبریں کھولی تھیں،اس وقت وہ قبریں تروتازہ تھیں، جیسے ابھی قریب کے مانے کی ہوں، ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس زمانے کے شہیدوں کی قبریں ہیں،جن میں صحابہ کرام بھی ہیں، اگر پتہ چلتا توانہیں ہہت غور سے دیکھتے اور ان کے لئے اور بھی زیادہ احترام اور تعظیم کا معاملہ کرتے۔ آج جب المہلب ابن ابی صفرہ پرکتاب کا تذکرہ آیا، خیال آیا کیوں نہ آپنے اس مشاہدے کو بھی آپ کے ساتھ شریک کیا جائے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عبادة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 265-264

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

منصب امامت کا لحاظ و ادب اور حضرت میاں جی نور محمد جنھجانوی نور اللہ مرقدہ

خلیل الرحمن قاسمی برنی بنگلور

/channel/ilmokitab

دیوبندیوں کے دادا پیر،قطب الاقطاب ،حضرت میاں جی" نور محمد "جنھجانوی قدس سرہ اپنے دور کے عظیم المرتبت مشائخ میں سے تھے ۔انتہائی سادہ اور منکسر المزاج بزرگ تھے۔خدا نے آپ کو لباس فقیری کے ساتھ شاہانہ رعب بھی عطا فرمایا تھا۔ اسی کے ساتھ اعلی درجے کے متقی اور ہر ہر قدم پر شریعت مطہرہ کا پاس و لحاظ رکھنے والے انسان تھے۔آپ نجیب الطرفین علوی تھے ۔آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتا ہے۔ جنھجانہ ضلع شاملی آپ کا وطنِ مولد ہے۔سن ولادت 1201 ہجری مطابق 1786 عیسوی ہے۔ آپ اگرچہ باقاعدہ فارغ التحصیل عالم نہ تھے۔مگر حافظ قران اور زبانِ فارسی پر کامل عبور رکھتے تھے۔ حسن پور لوہاری ضلع مظفر نگر میں خدماتِ قران اوردیگردینی خدمات میں مشغول رہے۔ جاہ و شہرت سے بہت دور بھاگنے والے انسان تھے۔ اپنی ذات کو مخفی رکھتے۔ یادِ الٰہی میں مشغول رہنے کا خصوصی مزاج پایا تھا۔ اسی کے ساتھ صاحب کشف و کرامات بھی تھے ۔اتباع سنت میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ 30 سال تک تکبیر اولٰی فوت نہیں ہوئی۔ 59 سال کی عمر میں عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف منتقل ہوئے۔ 1259 ہجری مطابق 1843 آپ کا سن وفات ہے ۔

*منصب امامت کا لحاظ*

آپ کے زمانے میں ایک شخص نہایت خوش گلو اورخوبصورت آوازکا مالک تھا۔ بہترین انداز میں نعت وغیرہ پڑھنے کا اس شخص کا معمول تھا۔ کسی نے حضرت میاں جی سے عرض کیا کہ: یہ شخص خوش گلو اور عمدہ آواز کا حامل ہے۔ نعت شریف(اور دیگر اشعار) بہترین انداز میں پڑھتا ہے ۔آپ بھی سن لیں !
حضرت میاں جی نے فرمایا: لوگ مجھے کبھی کبھی امام بنا دیتے ہیں اور غنا بلا مزامیر میں بھی علماء کا اختلاف ہے؛ اس لیے اس کا سننا خلافِ احتیاط ہے ؛لہذا میں اس کے سننے سے معذور ہوں -

*دنیا سے بے رغبتی*

حضرت میاں جی قدس سرہ اعلی درجے کے زاہد اور ہمہ وقت آخرت فکر رکھنے والے لوگوں میں سے تھے۔وہ ہر اعتبار سے فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول اور فکرامت میں مستغرق رہنے والوں میں سے تھے۔ آپ خدا کی محبت میں اس طرح دیوانے تھے کہ، دنیا کی ہر چیز سے بغض ہو گیا تھا۔ دنیاوی مال و دولت اور شان و شوکت سے آپ کو نفرت تھی۔یہی تعلیم آپ اپنے مریدین کو بھی دیا کرتے تھے؛ بلکہ آپ کی اہم ہدایت تھی کہ :
دنیاوی دولت اور جاہ و حشمت کے حصول کی تمناؤں کا خیال تک دل سے نکال دیا جائے ۔آپ خود حب مال سے کس طرح دورونفور تھے ،اس سلسلے کا ایک واقعہ نور محمدی صفحہ نمبر 66 پر مرقوم ہے ملاحظہ ہو :

ایک دفعہ ایک بڑا پہنچا ہوا سادھو حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ حضرت کا مہمان رہا۔ جب وہ جانے لگا تو بولا میاں ہماری زنبیل میں تھوڑی سی اکسیر ہے ۔یہ لے لے! تیرے پاس دھن کی کمی معلوم ہوتی ہے ۔اپنے کام میں لانا! حضرت جی نے فرمایا:
مجھے اس کی ضرورت نہیں، اپنے پاس ہی رہنے دو!
اس نے پھر کہا۔
حضرت نے انکار فرما دیا۔
جب تیسری بار یہی کہا اور اصرار کے ساتھ کہا،تو حضرت نے ایک ڈھیلا اٹھا کر سامنے والی دیوار پر مارا اور فرمایا:
یہ دیکھو! سادھونےنظر اٹھا کر اس طرف دیکھا،تو حیران رہ گیا ؛کیونکہ جس دیوار پر ڈھیلا لگا تھا، وہ دیوار سونے کی بن گئی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ بولا: تب تو میاں تجھے اس کی ضرورت نہیں۔

*اپنی تعریف و توصیف بالکل پسند نہ تھی*


ایک دفعہ آپ کے مسترشدِ خاص حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نور اللہ مرقدہ نے آپ کی منقبت اور شان میں ایک نظم لکھی اور رعب و داب کی وجہ سے خود سے حضرت میاں جی کے سامنے پڑھنے کی جراءت نہ ہو سکی۔ کسی اور کے ذریعے وہ نظم حضرت کو سنوائی۔ تو حضرت نے فرمایا: خدا اور اس کے رسول کی منقبت اور ثنا بیان کرنی چاہیے!

*لباس فقیری میں شاہانہ رعب*

اہل دیوبند کے یہی دادا پیر اگرچہ زاہدانہ و فقیرانہ زندگی گزارتے تھے؛مگر خدا نے ان کو اسی لباسِ فقیری میں شاہانہ رعب و جلال عطا کیا تھا۔ اسی کا اثر تھا کہ جب کبھی آپ بازار کی طرف نکلتے تھے،تو سب دکاندار تعظیما کھڑے ہو جاتے، اور سلام کرتے ۔

ایک مرتبہ ایک ہندو دکاندار نے اعتراض کیا کہ: تم لوگ کھڑے کیوں ہوتے ہو ؟ہرگز کھڑے مت ہوا کرو !اس پر دکانداروں نے کہا کہ:اچھا آئندہ سے ہم ان کی تعظیم کے واسطے کھڑے نہ ہوں گے ۔
پھر ایک دن حضرت میاجی بازار کی طرف نکلے۔ وہ شخص بھی وہیں تھا۔ یعنی معترض بھی بازار میں موجود تھا؛ مگر یہ کیا کہ جیسے ہی حضرت پہنچے تو سب سے پہلے یہی معترض تعظیم کے واسطے کھڑا ہوا اور اسی کے ساتھ سب دکاندار بھی حسب قاعدہ کھڑے ہو گئے۔ جب حضرت چلے گئے، تو دکانداروں نے معترض سے پوچھا کہ:بھائی!تم ہی تو اعتراض کرتے تھے اور تم ہی سب سے پہلے کھڑے ہو گئے ؟

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في عبادة رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 263-261

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…
Subscribe to a channel