علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
کچھ آرزو نہیں ہے، ہے آرزو تو یہ ہے
رکھ دے کوئی ذرا سی خاک وطن کفن میں
مو رخین نے لکھا ہے کہ پھانسی پانے والے دن وہ ہر روز سے کچھ پہلے بیدار ہوئے، غسل کیا، دھلے ہوئے کپڑے پہنے، نماز پڑھی اور قرآن شریف کی تلاوت کی۔ صبح 6بجے جیل کے افسران اشفاق اللہ کو لینے آئے۔ سفید کرتے کے اوپر بائیں کاندھے پر قرآن لٹکا ہوا تھا۔ وہ قرآنی آیات پڑھتے جارہے تھے۔ پھانسی گھر کی سیڑھیاں چڑھ کر جب وہ پھانسی کے پھندے پر جارہے تھے توپھانسی کی رسیوں کو چوم کر انہوں نے کہا۔ ”میرے ہاتھ کسی انسانی خون سے رنگین نہیں ہوئے۔ جو الزام مجھ پر لگایا گیا وہ غلط ہے۔ میرا انصاف اب خدا کے یہاں ہوگا۔“ یہ کہہ کر پھانسی کے پھندے کو خود اپنے گلے میں یوں ڈال لیا جیسے پھندا نہیں پھولوں کا ہار ہو۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
شہید وطن اشفاق اللہ خاں
معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
آ ج عظیم محب وطن اشفاق اللّہ خاں کا یوم شہادت ہے۔ انھیں 19 دسمبر 1927 کومحض 27 برس کی عمر میں فیص آباد جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ مشہور زمانہ کاکوروی کیس میں تختہ دار کو بوسہ دینے سے پہلے جنگ آ زادی کے اس عظیم سپوت نے اپنی ماں کے نام خط میں لکھا تھا :
” اگر مجھے ہزار بار پھانسی دی جائے اور میں ایک ہزار دفعہ مرمر کے دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لئے مرمٹنے کا میرا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا۔“
وطن کے لئے مرمٹنے والوں کی داستانوں میں یہ جملے آج بھی سنہرے الفاظ میں لکھے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے جن لوگوں نے فخر کے ساتھ اپنے سروں کا نذرانہ پیش کیا' ان میں وطن کی محبت اور وطن کے لئے اپنی عزیز جان کو قربان کردینے کا جذبہ کتنا بیش قیمت تھا۔
آج جولوگ آزاد ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں، ان میں سے بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہیں اشفاق اللہ خاں جیسے عظیم انسانوں کی قربانیوں کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ اشفاق اللہ خاں ان چند جانبازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے ناقابل فراموش قربانی دی تھی۔
شہید وطن اشفاق اللہ خاں، ہندوستان کی جنگ آزادی کے سورماوں میں دوسروں سے اس لئے ممتاز اور محبوب ہیں کہ ان کی رگوں میں جو خون دوڑ رہا تھا وہ اس کا ایک ایک قطرہ مادر وطن پر قربان کرنے کا جذبہ صادق دل میں رکھتے تھے۔ وہ شاید دنیا کے ان چند جاں بازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے کھلی آنکھوں سے پھانسی کے پھندے کو چوماتھا اور تختہ دار پر چڑھتے ہوئے اپنے آبدیدہ عزیزوں کو یہ کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش بھی کی تھی کہ ”خوشی کے دن رویا نہیں کرتے۔"
اشفاق اللہ خاں کی پیدائش شاہجہاں پور ( یوپی) کے ایک خوشحال گھرانے میں 22 اکتوبر 1900 کو ہوئی تھی۔ان کے والد کا نام شفیق اللہ خاں اور والدہ کا نام مظہرالنساءتھا۔ وہ ایک بہن اور چاربھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، سبھی کے چہیتے اور لاڈلے۔ ان کی تعلیم کا بھی بروقت اور معقول انتظام ہوا تھا لیکن انہوں نے نویں جماعت کے بعد تعلیم کا سلسلہ ختم کردیا۔ وہ عالم شعور کو پہنچ چکے تھے اور ان کے دل میں وطن کو آزاد کر انے کی آرزو کروٹیں لے رہی تھی ۔ وہ 14 سال کی عمر میں انڈین ری پبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہوگئے جو انقلابیوں کی ایک سرگرم اور فعال تنظیم تھی۔ ان کے بڑے بھائی ریاست اللہ خاں، مشہور انقلابی رام پرساد بسمل کے ہم جماعت اور دوست تھے۔ ریاست بھوپال می ایک سرکاری عہدے پر ان کا تقرر ہوا تھا اور وہیں جابسے ۔
پشپال نے اپنی تصنیف ”بغاوت“ میں اشفاق اللہ خاں کا حلیہ اس طرح کھینچا ہے۔ ”اشفاق اللہ خاں ایک سچے اور فرائض دین کے پابند کھرے مسلمان تھے۔وہ کھلتے ہوئے گندمی رنگ کے ایک لمبے چوڑ ے اور وجیہ شخص تھے۔ ان کی موہنی آنکھیں اور سرخی مائل چہرہ ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا ۔ دراز قد ہونے کی وجہ سے جب وہ بھیڑ میں کھڑے ہوتے تو سب سے بلند نظر آتے۔‘'
ان کے ایک ساتھی کے حوالے سے نقل ہوا ہے کہ ”جب ہم لوگ روپوش ہوتے اور بندوق کو ساتھ لے کر نکلنے کی مجبوری ہوتی تواکثر کسی راجہ یانواب کی شکار پارٹی کا سوانگ رچانا پڑتا۔ تب ہم میں سے صرف اشفاق اللہ خاں راجہ صاحب بنتے اور ہم لوگ ان کے درباری یا نوکر چاکر۔ اس طرح ہم پولیس اور اس کے مخبروں کو چکما دے کر نکل جاتے۔ اشفاق اللہ خاں بڑے طاقتور تھے۔ تھکنا تو وہ جانتے ہی نہ تھے۔ ایک بار 55 یا 56میل لگاتار پیدل چلنے کے بعد ہم سب تھک کےچور ہوگئے۔ زبانیں باہر نکل آئیں اور بالکل نڈھال ہوگئے لیکن اشفاق اللہ خاں کے چہرے پر شکن تک نہیں آئی۔“
اشفاق اللہ خاں نہایت صلح جو، خوش مزاج اور سلجھی ہوئی طبیعت کے انسان تھے۔ وہ کشت وخون کو پسند نہیں کرتے تھے مگر جس راستے پر وہ چل رہے تھے وہاں انگریز، پی اے سی، آرمڈ کانسٹبلری اور پولیس سے جھڑپیں روزمرہ کی بات تھیں ۔ لہٰذا انقلاب کے اس راستے میں ان کی نرم مزاجی اور صلح جوئی بھی آڑے نہیں آئی۔
ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن کے اراکین انگریز سامراج سے سیدھا مقابلہ چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو منظم کرلیا تھا لیکن وسائل کی کمی کے سبب وہ اپنے فیصلوں کو عملی شکل دینے میں دشواری محسوس کررہے تھے۔ پارٹی کو اکثر پیسے کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک بڑی اسکیم تیار کی گئی اور طے پایا کہ لکھنو کے قریب سہارنپور لکھنو پسنجرکو روک کر اس میں آرہے سرکاری خزانے کو لوٹ لیاجائے۔
دس افراد پرمشتمل انقلابیوں کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی اور وہ 9 اگست 1925 کو شاہجہانپور سے سہارنپور لکھنو پسنجر پر شام کے وقت سوار ہوئی۔ راجندر سنگھ لہری اس ٹیم کی قیادت کررہے تھے، جو اشفاق اللہ خاں اور سچندر ناتھ بخشی کے ساتھ سیکنڈ کلاس میں سوار ہوئے اور باقی لوگ تیسرے درجہ میں بیٹھے۔ جب گاڑی کاکوری سے عالم نگر اسٹیشن کی طرف بڑھی تو سیکنڈ
وفیات مورخہ: ۱۹/ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
برق دہلوی (محمد حنیف ) 19/دسمبر/1984ء
حنیف اسعدی (حنیف احمد) 19/دسمبر/2005ء
رضیہ انور (انوری خاتون 19/دسمبر/1997ء
ریاض احمد ٹاٹا 19/دسمبر/2005ء
ساحرفیض آبادی (سید اشتیاق حسین رضوی) 19/دسمبر/2004ء
شہزاد منظر (ابراہیم عبدالرحمٰن عارف) 19/دسمبر/1997ء
عذرا شیروانی 19/دسمبر/2005ء
محب عارفی 19/دسمبر/2011ء
محمد بشیر احمد بٹ 19/دسمبر/1958ء
محمد عظیم پریم راگی، الحاج 19/دسمبر/1964ء
محمد یحییٰ تنہا، مولانا 19/دسمبر/1966ء
نوشاد علی خان حشر 19/دسمبر/1986ء
ڈاکٹر ابرار مصطفیٰ خان 19/دسمبر/2004ء
ڈاکٹر عبادت بریلوی 19/دسمبر/1998ء
خرم مراد 19/دسمبر/1996ء
عارفہ رضوی(نیوز یڈر) 19/دسمبر/1978ء
اشفاق اللہ خان 19/دسمبر/1927ء
مولانا محمد سردار احمد قادری، 19/دسمبر/1962ء
خواجہ غلام السیدین 19/دسمبر/1971ء
(7)حسین بن علی العمار بھی،حسین بن حمدان الخَصِیبی کا شاگرد تھا۔اس نے آسان زبان میں نصیری فلسفے اور نصیری تصوف کو عوام میں پھیلایا۔
402ھ میں بغداد کے اہل سنت والجماعت کے علماء اور اثنا عشری جعفری علماء نے مل کر یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ نُصیری کافر ہیں۔
(8) میمون سرور بن قاسم (م: 427ھ): 400ھ کے بعد میمون سرور بن قاسم نے شام کے علاقے، لاذِقِیَّہ (Latakia) کے پہاڑوں میں اپنامرکز بنایا، یہاں ان کی حکومت قائم ہوئی۔
(9)حاتم طوبانی اور حسن عجرد (م:836ھ) حاکم بنے۔
(10) سلیمان آفندی اذانی (Sulayman AL-Adhani):
نصیریوں میں ایک بڑا نام سلیمان آفندی اذانی (Sulayman AL-Adhani)کا ہے۔
یہ 1250ھ یعنی 1834عیسوی میں پیدا ہوا۔یہ نُصیریوں کا ایک بہت بڑا مصنف گزرا ہے۔
سلیمان اذانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بعد میں عیسائی ہو گیا تھا۔
حنا بطاطو (Hanna Batatu)ایک فلسطینی مورخ تھا۔اس نے نصیریوں کے بارے میں بہت لکھا۔”بطاطو“خود ایک کمیونسٹ تھا۔اس کی وفات 2000ء میں امریکہ کے صوبے کنیکٹیکٹ میں ہوئی۔
(11)سلیمان المرشد:
نصیریوں میں ایک شخص سلیمان المرشد کے نام سے انطاکیہ (ترکیAntakya)میں پیدا ہوا۔اس کی تاریخِ ولادت 1898عیسوی ہے۔
یہ ایک معمولی چرواہا تھا، جو سادہ زندگی گزارتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں اس نے نصیریوں کی ایک نئی شاخ”مرشدیہ“ کی بنیاد رکھی اور لوگوں سے کہا کہ میں علی کے طرف داروں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(حضرت علی ؓ کو وہ الٰہ مانتا تھا)
شام میں فرانسیسیوں کا مکروہ کردار:
1920ء سے لے کر 1946ء تک فرانسیسیوں نے شام پر حکومت کی۔ اس سے پہلے شام خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت تھا۔
فرانسیسی اچھی طرح جانتے تھے کہ شام میں سنی مسلمانوں کی آبادی 75%سے زیادہ ہے۔ 10%عیسائی ہیں۔ 3%دروز ہیں۔ 3%اسمٰعیلی ہیں۔ 5%سے کچھ زیادہ نصیری ہیں۔ اُنہوں نے اقلیتوں کو سنی اکثریت پر مسلط کرنے کا منصوبہ بنایا۔
سلیمان المرشد (1898ء تا 1946ء):
سلیمان المرشدنصیری ایک بہت ہی چالاک آدمی تھا۔ اس نے فرانسیسی حکام سے اچھے تعلقات قائم کر کے اُن کی حمایت حاصل کر لی۔ فرانسیسیوں نے اس تحریک کو تقویت دی۔فرانسیسیوں نے سلیمان المرشد کے حامیوں کو فوج میں بھرتی کیا۔انہیں بڑے بڑے فوجی عہدے دیے، تاکہ یہ اہل سنت والجماعت کی اکثریت کے خلاف لڑنے کے لیے صف آرا ہو جائیں۔ فرانسیسیوں نے انہیں ایک نیا نام دیا۔
شام کے موجودہ عَلَوِی اور نُصَیرِی:
اب اس گروہ کا نام”نصیری“ کے بجائے ”علوی“تھا۔
سلیمان المرشد کا خدائی کا دعویٰ:
نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد سلیمان المرشد نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ اس کے پیروکار اس کی تعظیم کرتے رہے۔اس کی دعوت انطاکیہ (ترکی)کے ساحلی علاقوں سے شام کے ساحلی علاقوں میں پہنچی۔ لاذقیہ اور طرطوس میں اسے حمایت حاصل ہو گئی۔
سلیمان المرشد نے ربوبیت کا دعویٰ کرنے کے بعداپنے ایک شاگرد اور معتقد ”سلیمان المیدہ“ کواپنا نبی اور رسول مقرر کیا۔
1946عیسوی میں سلیمان المرشد کی وفات ہوئی۔ اس نے 48سال عمر پائی۔
شام کی آزادی:
شام 1945ء میں فرانس کے استعمار سے آزاد ہوا، لیکن فرانسیسی فوجیں وہاں موجود رہیں۔ آزادی کے بعد ملک میں کئی فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ 1947ء میں ایک آرتھوڈکس عیسائی مائیکل افلاک نے”بعث پارٹی“قائم کی۔ اس میں ایک سنی مسلمان صلاح الدین بیطار اور ایک نصیری زکی الارسوزی بھی شامل تھے۔ زکی بعد میں ملحد ہو گیا۔ 1966ء کی بغاوت میں بائیں بازو کے اشتراکی نظریات رکھنے والوں نے مائیکل افلاک اور صلاح الدین بیطار کو برطرف کر دیا۔ اب اس کے نئے رہنما نصیری صلاح الجدید اور حافظ الاسد تھے۔ ان کا واضح جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ اس طرح بتدریج شام میں روسی مداخلت بڑتی گئی۔
الاخوان المسلمون نے”نصیری سوشلزم“کی بھرپور مخالفت کی۔
حافظ الاسد اور اُس کے بیٹے بشار الاسد کا 54 سالہ دور:
بالآخر 1971ء میں نُصَیرِی شام میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کا نیا نام عَلَوِی تھا۔یہ لوگ خارج از اسلام ہیں۔
30سال تک حکومت کرنے والا شامی صدر حافظ الاسد (دورِ حکومت1971ء تا جون 2000ء)بھی نُصَیری اور عَلَوِی تھا۔
جون 2000ء میں حافظ الاسد نصیری علوی کی موت کے بعد اس کا بیٹا بَشَّار الأ سَد نصیری علوی مسلمانوں پر مسلسل ظلم ڈھاتا رہا۔
دسمبر 2024ء میں یہ ملک چھوڑ کر روس فرار ہو گیا۔ شام کے اہل سنت نے اطمینان کا سانس لیا۔
یہ دونوں باپ بیٹے 54 سا ل تک اہل سنت والجماعت پر، بالخصوص الاخوان المسلمون پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے۔جعلی انتخابات کراکے منتخب ہو جاتے تھے۔انہوں نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیااور ہزاروں کو جیلوں میں سخت ترین سزائیں دیتے رہے۔
نصیری مذہب
تحریر:خلیل الرحمن چشتی
/channel/ilmokitab
”نُصیری مذہب“کو سمجھنے کے لیے، اُس کے تاریخی پس منظر اور عباسی خلافت کے عروج و زوال کو سمجھنا ضروری ہے۔
مامون عباسی (معتزلی)کے دور(198 ھ تا 218ھ) تک عباسی خلافت اپنی پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی۔
عباسی خلیفہ معتصم کے زمانے میں ترکی غلام خرید کر لائے گئے۔انہیں فوج میں بھرتی کیا گیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی غلام،فوجی کمانڈر بن کر ”اصل حکمران“بن گئے۔عباسی خلیفہ برائے نام ہوتا تھا۔ یہ خلیفہ کو قید کرتے۔ اندھا کرتے، یہاں تک کہ قتل کر دیتے اور عباسی خاندان کے کسی بچے یا نوجوان کو برائے نام خلیفہ مقرر کرکے خود حکومت کرتے۔ یہ ترکی کمانڈر (232ھ تا 333ھ) تقریباً ایک سو سال یا کچھ زائد سالوں تک فعال اور متحرک رہے۔
اسی دور میں باطنی فرقوں کا ظہور ہوا۔ سب سے پہلے 261ھ میں ”قرامطہ“ ظاہر ہوئے۔ پھر 268ھ میں ”اسمٰعیلی“ ظاہر ہوئے۔ پھر اسی زمانے میں ”نُصیریہ“فرقہ وجود میں آیا۔ پھر 297ھ میں ایک اسمٰعیلی عبیداللہ المہدی نے تونس میں ایک اسمٰعیلی حکومت قائم کی، جسے”سلطنتِ عبیدیہ“کہتے ہیں۔ پھر300ھ میں ادھر عراق میں ”بارہویں امام“ کے عقیدے پر”اثنا عشری“فرقے کا اتفاق ہوا۔ بارہویں امام ”امام مہدی“ کے بارے میں کہا گیا کہ اُنہوں نے 260ھ سے لے کر 329ھ تک تقریباً 70سال چھپ کرزندگی گزاری۔ اس عرصے میں ان کے چار نائب یکے بعد دیگرے کام کرتے رہے۔70سال کا یہ عرصہ امام مہدی کی غیبوبتِ صغریٰ کا زمانہ کہلاتا ہے۔329ھ کے بعد اُن کی غیبوبتِ کبریٰ کا آغاز ہوا، جو قیامت سے کچھ پہلے تک رہے گا۔ اور یہی امام مہدی بن کر قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گے۔
323ھ کے بعد تاریخ نے ایک اور قوت کا جلوہ دکھایا۔ یہ اثنا عشری شیعوں کی حکومت تھی۔ آلِ بویہ، جنہیں دیالمہ بھی کہتے ہیں، ایک بڑی فوجی قوت کے ساتھ نمودار ہوئے۔ پہلے فارس، پھر رے اور پھر بغداد پر قبضہ کر لیا۔ ان کا اقتدار 323ھ سے 447ھ تک تقریباً 124سال قائم رہا۔ صورت حال وہی تھی، جو ان سے پہلے تھی۔ عباسی خلیفہ برائے نام ہوتا۔ اصل حکمران دیالمہ تھے۔ خلیفہ انہیں خطابات سے نوازتا۔
363ھ میں ایک پُر اسرار مصنفین کا باطنی گروہ بصرہ میں ظاہر ہوا۔ انہیں ”اِخوان الصَّفا“ کہا جاتا تھا۔ یہ بھی ”اسمٰعیلی شیعہ“تھے، جو آلِ بویہ کے زمانے میں بہت فعال تھے۔ ارسطو کے فلسفے سے بہت متاثر تھے۔ مسلمانوں میں ارسطو کے پیروکار فلسفی فارابی (339ھ)اور اسمٰعیلی شیعہ فلسفی بو علی سینا (م428ھ)اسی دور کی یادگار ہیں۔
اس عرصے میں تونس کی سلطنتِ عبیدیہ، 357ھ میں مصر کی ”اسمٰعیلی فاطمی خلافت“میں بدل گئی۔ یہ خلافت 567ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔اسی زمانے میں باطنیہ کا ایک اور ”فرقہ دُروزیہ“ کا 410ھ میں ظہور ہوا۔ دروز نے یونانی فلسفے کو اپنے عقائد میں جگہ دی۔
447ھ میں اثنا عشری شیعوں کا یہ اقتدار بھی ایک صدی کے بعد ختم ہو گیا، جب سلجوقی ترکوں نے طغرل بِک کی قیادت میں بغداد پر قبضہ کر کے دیالمہ کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ پھر وہی صورت حال تھی۔ عباسی خلیفہ برائے نام ہوتا، اصل اقتدار سلجوقی ترکوں کے پاس تھا۔
بالآخر 656ھ میں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہو گیا۔
قَرَامِطَہ 261ھ:
باطنی فرقوں میں سب سے پہلے 261ھ میں قرامطہ کا ظہور ہوا۔
261ھ میں حمدان قرمط اور مامون قرمط نے فارس (جنوبی ایران) میں ”قرامطہ“ کی بنیاد رکھی۔ حمدان کے شاگرد کاتب نے زکرویہ قرمطی کی تربیت کی۔
286ھ میں زکرویہ نے اپنے استاد”کاتب قرمطی“کو قتل کر دیا۔ یہ زندیق اور اِباحیت پسند تھے۔
286ھ سے 366ھ تک تقریباً 80سال اَحساء، قطیف، دمام (مشرقی سعودی عرب) کے علاقوں پر قرامطہ نے حکومت کی۔ حاجیوں کا قتل عام کیا۔ 317ھ میں مکے پر حملہ کر کے حجرِ اسود چرا کر لے گئے۔ 339ھ میں 22سال بعد حجرِ اسود لا کر دوبارہ نصب کیا گیا۔
اسمٰعیلیہ 268ھ:
قرامطہ کے ظہور کے چند سالوں بعد ہی، باطنیوں کا ایک اور فرقہ ”اسمٰعیلیہ“ پیدا ہوا۔
268ھ میں یمن کے اسمٰعیلی حاکم ”حُسین بن حوشب المصور“نے ”حُسین الصُّوفی المُحتَسِب“کو شام اور تونس بھیجا۔
”حُسین الصُّوفی المُحتَسِب“نے شام کے شہر ”سالمیہ“ کو مرکز بنایا۔یہاں خفیہ طورپر باطنی دعوت پھیلاتا رہا۔ پھر یہ تونس (افریقہ) گیا اور وہاں جا کر اہل بیت کے نام پر”عبید اللہ المہدی“کی بیعت لی۔ عبید اللہ المہدی نے دعوی ٰ کیا کہ وہ حضرت اسمٰعیل بن جعفر الصادق کی اولاد میں سے ہے ۔ چار پشتوں تک اس کے آباء روپوش رہے اور یہی چار ’’امام مستور ‘‘ہیں۔ میں گیارھواں امام ہوں اور ’’المہدی ‘‘ہوں ۔
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في نوم رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 255-256
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
’کسی دانش گاہ کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ ان پر کسی طالب علم کو پی ایچ ڈی کرائی جاتی۔پی ایچ ڈی تو کجا کسی یونی ورسٹی نے ان پر ایم فل کا مقالہ بھی نہیں لکھوا۔(3)
واضح رہے کہ امداد صابری کے 3انتقال کو 36برس گزچکے ہیں مگر ابھی تک اس جانب توجہ نہیں دی گئی۔شودھ گنگا،اور گنگوتری میں اس سے متعلق کوئی مقالہ یا اس کا مجوزہ خاکہ نہیں مل سکا ہے۔
ڈاکٹر سید احمد خاں اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انھوں نے اردو صحافت کی ایک ممتاز شخصیت کے کاموں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ادبی دنیا کے سامنے ایک اچھے کام کی مثال بھی پیش کی ہے۔
رابطہ نمبر 9810780563
اردو صحافت کی قاموسی شخصیت:مولانا امداد صابری
عمیر منظر
مولانا امداد صابری(1988-1914)کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ ایک ممتاز صحافی ہی نہیں تھے بلکہ علم و فضل کی ایک دنیا ان سے آباد تھی۔مذہب و تصوف اور خدمت خلق اس خانوادے کی پہچان رہی ہے۔آزادی سے پہلے مجاہدہ نفس ان کے بزرگوں کا وطیرہ تھا۔مولاناکے والدمولانا شرف الحق،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیعت وارادت کا تعلق رکھتے تھے۔ تحریک آزاد ی کے دوران میں ان کا یہی جذبہ وطن کی آزادی کےلیے قربانی دینے والوں میں تبدیل ہوگیا۔مولانا امداد صابری اور ان کے بزرگوں نے وطن کے لیے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔مولانا نے ایک جگہ خود اپنے خاندان کے بارے میں یہ لکھا تھا کہ ہندستان میں انگریزوں کے قدم جمتے ہی ان کے اقتدار کی مخالفت ہمارے بزرگوں نے شروع کردیا تھا۔شاہ ولی اللہ سے حاجی امداداللہ مہاجر مکی تک بزرگوں کاجو سلسلہ ہے انھوں نے انگریز فوجوں کا مقابلہ کیا ہے۔اس خانوادے نے انگریزوں کا مخالفت میں اپنی زندگی کو صرف کیا ہے۔
مولانا امداد صابری نے 1931سے انگریزوں کے خلاف مختلف سیاسی تحریکوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔1940میں ہفت روزہ خبار اتحاد دہلی کا اجرا کیا۔1942میں جب یہ اخبار بند ہوگیا تو ہفت روزہ تیغ دہلی کے مدیر ہوئے۔/13اگست 1942کو اخبار کو بند اور مدیر کو نظر بند کردیا گیا۔جیل سے نکال کر علاقے میں نظر بند کیا گیا۔1944کے اواخر میں ہفت روزہ چنگاری کے ایڈیٹر ہوئے۔چند ہی ماہ بعد 1945میں پھر نظر بند کردیا گیا۔ 9مئی 1947کوذاتی اخبار ہفت روزہ قومی حکومت کے نام سے نکالا۔یہ اخبارات تقسیم ہند کے دوران فسادات کی نذر ہوگیا۔اکتوبر 1948میں قومی حکومت دوبارہ جاری کیا۔نومبر 1949میں آزاد ہندوستان جاری ہوا۔اس کے بعد انگارہ،جماعت،عوامی رائے،صدیقی گزٹ،متحدہ محاذ سے وابستہ رہے۔کم و بیش دس اخبارات سے وابستگی رہی۔اخبارات بند ہوتے رہے۔ضمانت دیتے رہے مگر آزادی سے پہلے انگریزوں کے خلاف لکھنے میں کسی طرح کی نرم روی کا مظاہرہ ان کے قلم نے نہیں کیا۔اور یہی وجہ ہے کہ مختلف طرح کی قید وبند سے گزرتے رہےمگر قلم کو کبھی گروی نہیں رکھا۔
آزادی کے بعد جب سیاست کے راستے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنے کا موقع ملا تو ایک ایماندار اور مخلص محب وطن کی طرح کام کرکے دکھایا۔آج بھی ان کے کاموں کی مثال دی جاتی ہے۔دہلی کارپوریشن کے ڈ پٹی میئر کے عہدہ پر بھی فائزرہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جدوجہد اور لوگوں کے کام آنے کا غیر معموملی جذبہ انھیں قدرت نے عطا کیا تھا۔واقعہ یہ ہے کہ مولانا امدادصابری ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔سیاست اور صحافت دونوں میں وہ بہت نمایاں تھے۔صحافت کی علمی اور عملی دونوں تاریخ ان کے بغیر ادھری تصور کی جائے گی۔
یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا /اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن نے اس برس یوم اردو کے موقع پر مولانا امدادصابری:حیات و خدمات کے عنوان سے حسب روایت یادگاری مجلہ شائع کیا تھا۔عالمی یوم اردو کے یادگاری مجلہ سے امداد صابری کی شخصیت اور ان کی خدمات دونوں سے واقفیت ہوتی ہے۔اس کے مرتب مشہور صحافی اور ممتاز قلم کار جناب معصوم مرادآبادی ہیں۔انھوں نے نہایت سلیقے سے اسے مرتب کیا ہے کہ ایک طرف ان کی شخصی زندگی کے تقریباً تمام اہم گوشے سامنے آگئے ہیں تو دوسری طرف ان کی کتابوں اور صحافتی خدمات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ڈاکٹر سید احمد نے خاں نے امداد صابری کا حیات نامہ مرتب کیا ہے۔پنڈت ہرسروپ شرما جو کہ فارورڈ بلاک صوبہ دہلی کے صدر تھے مولانا کے دوست تھے۔انھوں نے مولانا کے مختصر حالات زندگی پر ایک کتابچہ مرتب کیا تھا۔اس کی تلخیص اور مولانا کا ایک یادگار انٹرویو جو نئی دنیا کے لیے معصوم صاحب نے لیا تھا اس خصوصی پیش کش میں شامل ہے۔ان تحریروں کی حیثیت اب دستاویزی کہی جاسکتی ہے۔مولانا کے کارناموں پر کام کرنے والوں کے لیے یہ خصوصی شمارہ بنیاد کا پتھر ہے۔چونکہ معصوم صاحب نے خود انھیں دیکھا تھا ان سے ملاقاتیں تھیں۔ان کے مضمون کا عنوان ہی ہے’مولانا امداد صابری، جیسا میں نے دیکھا‘۔ان کے مضمون سے امداد صابری کو قریب سے دیکھا جاسکتا ہے۔اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں۔
وہ زمین سے جڑے ہوئے انسان تھے۔مولانا حسرت موہانی اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسی قدآور شخصیات کے بھی قریب رہے،لیکن کبھی عوام سے دور نہیں ہوئے۔ان کی شخصیت کو عوام الناس کے لیے نافع پایا گیا۔انھوں نے زندگی میں آسائش کی کوئی چیز نہیں خریدی۔ان کی محبوب سواری رکشہ تھااور وہ کارپوریشن کے ڈپٹی میئر ہونے کے باوجود رکشہ پر سفر کرتے تھے۔پیدل کم چلتے تھے کیونکہ ان بائیں ٹانگ میں لنگ تھا۔(ص52)
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب حدیث أم زرع
روایت نمبر : 254
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
سلسلہ نمبر: 248
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا عطاء الحق قؔلبی عؔلوی صاحب*
*حضورؐ کا حلیۂ مبارک*
حسن مجسم،بدر مفخم، روح دوعالم،عدل مکرم،نبیٔ معلم،رسول محتشم کا قد مبارک درمیانہ تھا ؛ لیکن محفل مبارک میں آپﷺسب سے بلند دکھائی دیتے تھے،سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا،بال کالے چمکیلے اور گھنگھریالے جن میں گنتی کے چند سفید بال تھے،چہرۂ انور بیضوی اور چودھویں رات کے چاند سے زیادہ خوبصورت تھا،رنگ مبارک سفید سرخی مائل تھا،اس حسین امتزاج سے اعلی درجے کی ملاحت پیدا ہوگئ تھی، آنکھیں بڑی بڑی،نہایت سفید و سیاہ،جن میں سرخ ڈورے تھے،پلکیں لمبی لمبی اور سرمگیں تھیں۔
ابرو باریک اور کمان کی طرح کشیدہ،دونوں ابرؤوں کے درمیان خالی جگہ پر ایک رگ تھی جو غصہ کی حالت میں بیتاب ہوکر پھڑکنے لگتی تھی،پیشانی کشادہ، رخسار نرم اور پُر ملاحت! ناک معتدل انداز میں اونچی اور آگے کو ذرا سی جھکی ہوئی تھی،جس پر ایک نور ہر وقت رہتا،جس کی وجہ سے بلند معلوم ہوتی، دندان مبارک باریک اولوں کی مانند سفید اور تسبیح کے موتیوں کی طرح ایک قطار میں، ہنسی کے وقت جن کے فاصلوں سے بجلیاں کوندتیں ۔
دہن فراخ،ذقن چھوٹی اور خوبصورت،نیز ڈاڑھی بھرپور گھنی اور گروے دار تھی،آواز بھاری اور بھلی،بدن دہرا چوڑا،انتہائی مضبوط مربوط! گردن مبارک بہت حسین اور باریک جیسے مورتی کی گردن جو چاندی سے تراشی گئ ہو! دونوں شانے چوڑے اور مضبوط تھے،جن پہ پیچیدہ سیاہ زلفیں کبھی کبھی لہرایا کرتیں، کلائیاں دراز،ہتھیلیاں کھلی کھلی اور نرم،شکم اور سینۂ مبارک ہموار ؛ لیکن سینہ فراخ تھا! سینہ سے ناف تک چھوٹے چھوٹے بالوں کی ہلکی سی لکیر تھی، پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں، قدم مبارک پُر گوشت تھے،چلتے تو قدم جماکر اور یوں لگتا جیسے آپ بلندی سے نشیب کی طرف آرہے ہوں!ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں لمبی تھیں!آپﷺ کے جسم اطہر سے ہر وقت عمدہ قسم کی خوشبو آتی تھی،بولتے تو موتی پروتے،خاموش ہوتے تو ہیبت و وقار آپ کا پہرہ دیتے،رفتار سے وقار دکھائی دیتا اور چہرے سے متانت ٹپکتی تھی ۔
حسین پیشانی پہ کبھی کبھی پسینہ ایسے چمکتا جیسے ہلکی ہلکی بدلیوں میں چودھویں کا چاند چمکتا ہے،آپﷺکے دو کندھوں کے درمیان کبوتری کے انڈے جیسی مہرِ ختم نبوت تھی اور آپﷺخاتم النبیین تھے۔ فتبارکﷲ احسن الخالقین۔
( *ماہنامہ البلاغ کراچی، دسمبر: 2024، صفحہ: 23*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اس عہد کے اقتصادی نظام کا رشتہ بھی ذات پات اور نیچ ہونے کے احساس سے جڑا ہوا تھا، کچھ پیشے شرافت کی دلیل سمجھے جاتے اور کچھ ذرائع معاش ذلّت و رکاکت کی علامت تھے، جب کہ اس عہد میں جو اخلاقی قدریں مروج تھی، اور جن کی تبلیغ صوفیا و راہنما کرتے آتے تھے، ان کی روشنی میں ان ذرائع معاش کو جور زالت کے موجب بن گئے تھے، قطعاً غیر اخلاقی یا قابل نفرت نہیں قرار دیا جا سکتا تھا، لیکن اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھ کر لوگ معاشرتی روایت کے تابع ہو گئے تھے۔ پیشوں کے معاملہ میں معاشرہ کا رویہ اتنا بے لچک تھا، کہ وہ۔ لوگ بھی جو اونچی ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے، جب حوادث روزگار کی وجہ سے رزیلوں کا ذریعہ معاش اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے تو ان کو شرافت کے تخت سےاتار کر معاشرہ قعر مذلت میں پہونچا دیتا اور خود اس کے اعزا ان سے رشتہ ناطہ کرنے سے گریز کرتے، کچھ پیشے ایسے تھے، جو بازار سے دربار میں پہونچ کر معزز ہو جاتے تھے۔ سائیس، اور باورچی گری اور چلم برادری کا پیشہ عوامی سطح پر رذالت کا سبب بن جاتا ہے، لیکن کسی نواب یا رئیس کے توشہ خانہ ،باورچی خانے یا اصطبل کا نگراں ہونا بڑی عزت و توقیر کی بات سمجھی جاتی ،بعض حلقوں میں اطباء و فضلاء کو حقیر سمجھا جاتا ،خاص طور پر افغانوں میں اگر کوئی مولوی یا طبیب ہو جاتا تو اس کو ان لوگوں کے مقابلہ میں جو سپہ گرمی کا پیشہ اختیار کرتے حقیر سمجھا جاتا۔ اسی طرح بعض رسوم و رواج کے معاملہ میں اگر کوئی عام طریقہ کی پیروی کرتا تو اس کو حقیر تصور کیا جاتا ،چنا نچہ قتیل نے لکھا ہےکہ مسلمان شرفاء ہندؤں کی طرح اپنی بیوہ لڑکیوں اور عورتوں کی شادی نہیں کرتے تھے، اور ایسا کرنے والے کو نہایت ذلیل کمینہ اور کم مرتبہ سمجھتے تھے۔ اگر لڑ کی بذات خود ہزار مردوں سے تعلق پیدا کرے تو اس سے نہیں جھجکتے ،مگر اپنی کوشش اور دلی رغبت سے اس کا نکاح دوسرے مرد سے نہیں کرتے “
اس عہد کے معاشرہ میں نسب کے ساتھ حسب بینی معاشی پوزیشن کو بڑی اہمیت حاصل تھی، اور اکثر و بیشتر نسب میں کسی کو حسب کی بلندی پورا کر دیتی تھی،، مگر حسب کی خرابی کی تلافی نسب کی عظمت سے نہ ہو پاتی تھی۔ چنانچہ نسبی اعتبار سے شریف آدمی اپنی غربت وجہالت کے سبب کبھی نہ کبھی امراء کے یہاں فراش یا خدمت گاری پر مامور ہو جاتا تو اس عہد کی وجہ سے اس کو نسبی برتری کا کوئی فائدہ نہ پہونچتا، بلکہ نوکر کی حیثیت سے لوگ اس سے پیش آتے اور ایک برتن میں اس کو اپنے ساتھ کھانا بھی نہ کھلاتے ۔ واللہ والی التوفیق۔
2024-12-16
*بات سے بات: مسلمانوں میں ذات پات *
* تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) *
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
کل علم وکتاب کے ایک معزز ممبرنےمحدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کی کتاب "انساب وکفاءت کی شرعیت حیثیت" پوسٹ کی تھی،جس کے بعد شمالی ہند میں خصوصا مغربی یوپی کی مسلم برادریوں میں ذات پات کی تقسیم ، اور معاشرے پر اس کے برے اثرات اور تعصبات کا ذکر چھڑا تھا۔ پھر کسی نے مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کے رسالہ نھایات الارب فی غایۃ النسب بھیجدیا، پھر یہ تذکرہ آیا کہ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے کے افراد خود کو عثمانی لکھتے ہیں، جبکہ آپ صدیقی تھے، اور یہ بحث بند ہوگئی۔
اس بحث کو ہم دوبارہ کھولنا نہیں چاہتے، لیکن چونکہ ایسی شخصیات جن کا معاشرے پر بہت اثر ہوتا ہے، اور ایک بڑے حلقے میں مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی زندگی انفرادی نہیں ہوا کرتی، بلکہ یہ تاریخ کی امانت بن جاتی ہے، لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں مزید چند تشنہ امور پر روشنی ڈال کر اس بحث کو مزید آگے نہ بڑھایا جائے۔
۱۳۵۱ھ/ ۱۹۳۲ء میں مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ کا رسالہ نھایات الارب فی غایۃ النسب منظر عام پر آیا تھا، یہ غالبا ایک استفتاء کا جواب تھا،
اس رسالہ کو جمعیۃ المصلحین سہارنپور نامی کسی تنظیم نے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے رسالہ وصل النسب فصل النسب کے ساتھ شائع کیا تھا، اور اطلاع کے مطابق اس رسالہ کے پہلےایڈیشن کے ضمیمہ کے طور پرمولوی احمد عثمانی نامی کسی شخص کا ایک مضمون بھی تھا۔ ہماری ناقص رائے میں یہ مضمون آج کل اس رسالے کی تشہیر کا سب سے بڑا سبب بنا ہوا ہے۔
اس رسالہ میں جو مسائل بیان کئے گئے تھے اس سے دیوبند واطراف میں مختلف پیشوں اور صنعتوں سے وابستہ مسلمان برادریوں میں جو قریشی، انصاری، وغیرہ کہلاتے تھے، اور جو اپنے پیشوں کی وجہ سے عالی نسب شمار نہیں ہوتے ہیں، اس وقت ان رسالوں کے مندرجات پر بڑی بے چینی پھیلی تھی اور ہنگامہ آرائی ہوئی تھی، یہ بے اطمئنانی تحریک آزادی کے دوران کچھ تھم سی گئی تھی، لیکن تقسیم ہند کے بعد اس فتنے نے مزید سر اٹھایا، کہا جاتا ہے کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کے دیوبند سے خاموشی سے بغیر کسی کو بتائے ہجرت کرنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا۔
علماء کے حلقے میں جنہیں سب سے زیادہ اس مسئلہ سے تکلیف محسوس ہوئی ان میں محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کا نام سرفہرست آتا ہے، بنیادی طور پر آپ کی کتاب "انساب وکفاءت کی شرعیت حیثیت" مفتی شفیع صاحب کے رد میں لکھی گئی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس رسالہ کا مولانا اعظمی پر بڑا شدید اثر پڑا تھا، ہمارا خیال ہے کہ مولانا اعظمی کا رد عمل رسالہ کے اولین اڈیشن پر ہے، اور جواہر الفقہ میں شامل شدہ نسخہ نظر ثانی شدہ ہے۔ چونکہ ہمیں ان دونوں ایڈیشنوں میں موازنے میں کوئی خاص ادلچسپی محسوس نہیں ہوئی،کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک مصنف کا آخری موقف اس کے سابقہ موقف کو منسوخ کردیتا ہے، اور یہ ضروری نہیں کہ کوئی مصنف علی الاعلان ، اظہار براءت کرکے اپنی کسی تصنیف میں رد وبد کرے۔
جہاں تک مولاان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ کے عثمانی ہونے یا نہ ہونے کی بات ہے تو اس سلسلے میں آپ کے فرزند مولانا مفتی محمد رفیع عثمانؒی نے اپنے والد ماجد سےیہ روایت بیان کی ہے کہ"مجھے اپنے خاندان کا کوئی موثق اور با سند نسب نامہ ہاتھ نہیں آیا جس سے خاندان کے صحیح اور مستند حالات معلوم ہوتے، مگر شریعت نے ان معاملات میں سند متصل ہونے کی شرط نہیں رکھی، بلکہ بڑے بوڑھوں کی زبان پر عام شہرت کو کافی سمجھا ہے، جس کو فقہار کی اصطلاح میں "تسامع" کہا جاتا ہے۔ میں نے اپنے خاندان کے بزرگوں سے بہ تواتر یہ بات سنی ہےکہ ہمارا خاندان حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہے"۔ہماری اس بزم کے ایک معزز رکن سے بھی یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ انہوں نے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کو خط لکھا تھا کہ علاقے کے دستاویزات میں آپ کے خاندان کا کوئی نسب نامہ نہیں ملتا، اس پر آپ نے بھی یہی جواب بھیجا تھا۔
عربوں میں صدیوں سے مستند نسب ناموں کا اہتمام ہوتا آیا ہے، اس سلسلے میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن برصغیر، افغانستان، ایران وغیرہ میں مستند انساب کے بغیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر صدیق، عمر فاروق، اور حضرات انصار اور قبیلہ قریش کی طرف نسبت کرنے والے جتنی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اور ان میں جتنا نسبی تفاخر پایا جاتا ہے، وہ عربوں میں نظر نہیں آتا۔ شاید یہ برہمن واد اور منوواد معاشرت کا اثر ہو۔ اسے ہم جاہلیت ہی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
سنوسنو!!
ذات برادری بدلنے والوں سے…
(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
محترم مولانا شوکت تھانویؒ بڑے مزے کے انسان تھے وہ مزاح مزاح میں اتنی سچی ،اچھی اور حقیقت بیان کردیتے تھے کہ لوگ اش اش کر اٹھتے تھے چنانچہ انھوں نے ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک صاحب تقسیم ملک کے موقع پر پاکستان چلے گئے یہاں بھارت میں وہ نائی تھے لیکن وہاں پہنچتے ہی فاروقی ہوگئے ،میں ایک بار اُن سے ملنے پاکستان پہنچا تو اُن کے بتائے ہوئے پتہ پران کاپتہ لگانا مشکل ہوگیا کیونکہ لوگ کہتے تھے کہ اس نام کے ایک صاحب یہاں ہیں تولیکن وہ فاروقی ہیں ، خیرسوچا کہ ان صاحب سے ہی پوچھ لوں کہ عام طور پر لوگ اپنے محلہ کے ہم ناموں سے واقف ہوتے ہیں ، میں نے دستک دی تو دروازہ کھولنے والے وہی صاحب تھے جن کی مجھے تلاش تھی ۔میں نے ’’فاروقی‘‘ کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ یہاں پہلے سے ہی سید، فاروقی ، صدیقی ، عثمانی وغیرہ تھے اس لئے میں بھی فاروقی لکھنے لگا۔
یہ واقعہ شوکت تھانویؒ کا بیان فرمودہ ہے جو ممکن ہے سچ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ خیالی ہو لیکن آج بڑی تیزی کے ساتھ لوگ اپناحسب و نسب بدل رہے ہیں ،اگر کسی کے باپ دادا کانام صدیق ہوا تو اولاد اپنے آپ کو صدیقی لکھنے لگی، والد کا نام فاورق ہوا تو فاروقی اور عثمان ہواتو عثمانی، ایک صاحب کے والد کے نام میں حسن لگتا تھا تو ان کے صاحب زادے نے اپنے نام کے ساتھ حسنی لکھنا شروع کردیا۔ ایک دو نسلوں کے بعد سبھی لوگ یہی سوچیں گے کہ ان کی برادری ہی یہ ہے جو سراسر دھوکہ ہے۔ وہ نسب اور ذات جو پہلے سے معاشرہ میں ’’اشراف‘‘ مانی جاتی ہیں ان میں آپ کو کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ شب خون ماریں یا گھس پیٹھ کریں، شریعت مطہرہ میں اس سلسلہ میں زبردست وعیدیں موجود ہیں۔
دارالافتاء بنوری ٹاؤن کراچی کاارشادہے کہ
’’انسان کے لئے جائزنہیں ہے کہ اپنے قبیلے یاخاندان کے علاوہ کسی اور خاندان یا نسل کی طرف خود کو منسوب کرے‘‘
ایک دوسرے فتویٰ میں اسی دارالافتاء نے واضح لفظوں میں لکھاکہ
’’اپنی قوم کے علاوہ کسی غیرقوم سے اپنانسب ثابت کرنافسق ہے‘‘
ایسا نہیں ہے کہ ایسی حرکتیں صرف عام یاعوام سے سرزد ہوتی ہیں بلکہ بہت سے خواص سمجھے جانے والے افراد بھی ان حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایسے ہی ایک موقع پر مذکورہ دارالافتاء نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ
’’ اگرکوئی امام واقعی اس فعل کامرتکب ہوتو اس کوامام بناکر اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے‘‘
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرے اور وہ اس بات کو جانتا بھی ہو تو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتا ہے اور جو شخص کسی ایک قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں اس کا کوئی قرابت دار نہ ہو تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے۔(بخاری)
عام طور پر لوگ جب اپنی ذات اور برادری کے تعلق سے احساس کمتری اور دوسری قوم کے تعلق سے احساس برتری کاشکار ہوجاتے ہیں تو ایسی حرکتیں ان سے سرزد ہوتی ہیں، حسب ونسب وجہ تفاخراور وجہ بخشش و فضیلت نہیں ہے معیار توصرف وہ ہے جس کو قرآن کریم میں پوری صراحت اور کسی بھی لاگ لپیٹ کے بغیر بیان فرمایاگیاہے :
یا ایہاالناس اناخلقناکم من ذکر و انثی وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم ان اللّٰہ علیم خبیر۔ (حجرات)
لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا ، سب سے خبردار ہے۔
حضرت ابوسعیدحذری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے جان بوجھ کراپنانسب نامہ اپنے باپ کے علاوہ کسی اورکی طرف کیاتوجنت اس پرحرام ہے۔(بخاری)
ایک بات بڑی ذمہ داری کے ساتھ عرض کرنا چاہتاہوں کہ برادری اور ذات کوتعارف اور شناخت تک ہی محدود رکھنا چاہئے اس کوجنتی یاجہنمی کاتمغہ قطعی نہ سمجھا جائے ، اللہ تعالیٰ نے یہ شعوب وقبائل صرف ایک دوسرے کی جان پہچان اور شناخت کے لئے بنائے ہیں ،برادری کے بارے میں نہ توقبر میں کوئی سوال ہوگا، نہ حشرمیں اس بابت کوئی رعایت ہوگی، سب کو اپنے کئے کاحساب دینا ہوگا، وہاں رشتہ اور تعلق داریاں ،دات اور برادریاں، حسب ونسب اور رنگ ونسل کوئی بھی چیزکام نہیں آئے گی۔
ذات پات کوسب سے زیادہ اہمیت غیروں میں دی گئی اوران ہی کی یہ نحوست ہم مسلمانوں میں داخل ہوگئی اوراتنی زیادہ اہمیت دی جانے لگی کہ اب تومدارس اورمساجدکے بارے میں بھی سننے میں آنے لگاکہ فلاں مدرسہ انصاریوں کاہے یافلاں مدرسہ تیلیوں کاہے ،فلاں مدرسہ شیخ زادوں کاہے ، اوراسی طرح مساجدبھی موسوم ومتعارف ہونے لگیں چنانچہ بعض مسجدوں کے بینر دیکھے جن پر لکھا تھا تیلیوں والی مسجد، بعض انجمنیں اور سنگٹھن بھی وجود میں آگئے جو بے
گجرات کے عظیم محدث وفقیہ ، ولی کامل سے ملاقات
✒️صادق مظاہری
/channel/ilmokitab
ویسےتو ہمارے گجرات کے اسفار ہوتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ تین چار مہینوں میں دینی ودعوتی ، اصلاحی وتبلیغی یہ تیسرا سفر تھا اور اس سفر میں بفضل الہ سورت و اس کے اطراف میں مختلف مقامات پر خطابات کے ذریعہ پیغامات قرآن وحدیث لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملا ۔۔۔ یہ بات مسلم ہے کہ گجرات اپنی معاشی و تجارتی شناخت ، علمی ودینی پہچان کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے جن مقامات پر عہد فاروقی سے لے کر عہد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تک صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قافلے تجارت کی غرض سے ہندوستان آۓ ان میں ایک نام اس ریاست کے بعض سواحل کا بھی آتا ہے ظاہر ہے تاجروں کی آمد ورفت کا سلسلہ وہیں رہتا ہے جہاں پر تجارت ہوتی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گجرات کو بہت پہلے سے تجارت میں امتیازی شان حاصل ہے تاریخ کے طالب علم اس بات سے واقف ہیں کہ تاجر صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ذریعہ ہی اسلام وعلم دین ہندوستان تک پہنچا تو گویا جب بھی ہندوستان میں اسلام وعلوم دینیہ کے اولین پڑاؤ کی بات آۓ گی تو اس علاقہ کا نام یقینی طور پر سامنے آۓ گا پھر مختلف ادوار میں یہاں پر علمی شخصیتوں کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے علمی و تصنیفی ، اصلاحی و تبلیغی خدمات سے امت کو راہ راست دکھایا علامہ ربیع ابن صبیح بصری کی ١٦٠ ھ میں آمد ہو یا پھر علامہ ابن حجر عسقلانی کے روحانی فرزندان علامہ سخاوی وعلامہ ابن حجر مکی جیسے بلند پایہ محدثین کے تلامذہ کی یہاں سکونت اختیار کرنا ہو ۔ صاحب کنز العمال شیخ علی متقی کا دنیاۓ حدیث میں شہرہ ہو یا صاحب مجمع بحار الانوار شیخ محمد طاہر پٹنی کا علمی لحاظ سے عرب وعجم میں چرچا ہو شیخ علامہ علاءالدین علی ابن احمد المہائمی ہو یا شیخ وجیہ الدین علوی ہو زمانہ قریب میں حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم لاجپوری ہوں یا حضرت مولانا مفتی احمد بیمات یہ سب اس خطہ سے منسوب ہیں اور ان کی بدولت علوم ومعارف سے یہ خطہ روشن رہا ہے انھوں نے یہاں علم ومعلومات کے خم لنڈھاۓ ۔۔۔ صاحب نزھۃ الخواطر اس علاقہ کی علم دوستی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شاہان گجرات بھی علم دوست وادب پرور تھے اسی لۓ شیراز ویمن ودیگر ممالک کے لوگوں نے یہاں آکر بودوباش اختیار فرمائ اور ان کے فیوض وبرکات سے بہت جلد یہ خطہ مالامال ہوگیا کہاجاتا ہے کہ چھٹی صدی ہجری سے گیارہویں صدی ہجری تک یہاں کے دین وشریعت کے حامل افراد نے اپنے فیضان سے پورے برصغیر کو نمایاں طور سے مستفید فرمایا ہے بحمد الہ جس کے اثرات وثمرات آج بھی یہاں کی بستیوں وآبادیوں میں نظر آتے ہیں جگہ جگہ پر شاندار مدارس کا نظام جو اپنی خوشنما تعمیرات کے اعتبار سے جاذب نظر اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے اعتبار سے دل موہ لینے والے ہیں اور ہر مسجد کے ساتھ بہترین مکتب کا نظام موجود ہے ایسا کہ ہم نے ملک بھر میں ایسا منظم ، مرتب نظام کہیں پر نہیں دیکھا ہے اگر یہاں کی مساجد پر نظر ڈالی جاۓ تو دیہات میں ایسی عالی شان مساجد کہ عرب ممالک کی مساجد کی یاد تازہ ہوجاۓ ہر طرح کی سہولیات کا نظم ان میں موجود۔۔۔غور کرنے سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ ہر کار خیر میں گجراتی آگے کھڑا دکھائ دیتا ہے اور وہ خلوص ومحبت کے ساتھ کام کرتا ہوا نظر آتا ہے اسی لۓ ہندوستان میں جب بھی علمی وعملی دنیا میں کسی شخصیت کا شہرہ ہوا ہے تو گجراتیوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے ایسی کئ ایک شخصیتیں ماضی قریب میں بھی گزری ہیں اور اس وقت بھی جو موجود ہیں ان کا مسلسل آنا جانا لگا رہتا ہے ان کے فیوض وبرکات ، علم ومعلومات سے وہ بھرپور استفادہ کرتے ہیں ۔۔۔ جو علما وصلحا گجرات میں آج موجود ہیں ان کی بھی قدر کرنے میں کوئ کمی نہیں کرتے ، ان کی محفلوں ومجلسوں میں شامل ہونا ان سے اپنے دینی واصلاحی مشورے کرنا اور گھروں میں دینی واسلامی ماحول بنانے کی فکر کرنا یہاں کے باشندگان کا مزاج ہے اور اس کا اچھا اثر ان کی نسلوں پر نظر آتا ہے آج جو مدارس یہاں پر نظر آتے ہیں وہ اسی نیک نیتی و خیر کا اثر ہے ۔یہاں پر ایک قدیم ادارہ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل ہے جس کی ابتدا قریب کے گاؤں سملک میں ہوئ اور جامعہ کی شکل میں جس کو درجہ ڈابھیل میں ملا جب مؤرخ یا جغرافیہ نویس جامعہ کے تعلق سے لکھے گا مدرسہ کے بانی حضرت مولانا احمد حسن بھام رحمہ اللہ اور ان کے معاونین کا تذکرہ کرنے کے بعد علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ وعلامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ اور حضرت مولانا واجد حسین دیوبندی رحمہ اللہ وغیرھم کا ذکر ضرور کرے گا کیونکہ ان شخصیات کا جامعہ سے گہرا رشتہ رہا ہے اور انھوں نے یہاں پر اپنی علمی سوغات لٹائ ہے اور علم وتحقیق کے دریا بہاۓ ہیں ۔۔۔ اس جامعہ کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہر دور میں یہاں پر کوئ نہ کوئ ایسا عظیم محدث وفقیہ یا اہل اللہ کی جماعت کا کوئ فرد رہا ہے جس کی روشنی سے
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة کلام رسول الله ﷺ في الشعر
روایت نمبر : 247-248
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
کلاس کے ڈبے سے زنجیر کھینچی گئی۔ مسافروں کو ہوشیار کردیاگیا کہ نیچے نہ اتریں۔ وہ لوگ وقفہ وقفہ سے ہوائی فائر کرتے رہے۔ ان لوگوں کے پاس پستول، صندوق توڑنے کے لئے ہتھوڑا، چھینی اور کلہاڑی وغیرہ تھے۔ گاڑی رکتے ہی گارڈ نیچے اترآیا ۔ اس کے سینے پر پستول تان دی گئی۔ ایک جوان نے انگریز ڈرائیور کو کرسی سے گرادیا۔ دوآدمیوں نے بریک وین سے لوہے کے صندوق کو گرادیا۔ اشفاق اللہ خاں کے ہتھوڑوں کی چوٹ سے آہنی صندوق میں سوراخ ہوگیا اور اس میں سے روپے کے تھیلے نکال کر یہ لوگ چل دیئے۔کل 4679 روپے ہاتھ آ ئے ۔اس مہم میں اشفاق اللہ خاں کے علاوہ راجندر ناتھ لہری، سچندر ناتھ بخشی، چندر شیکھر آزاد، من متھ ناتھ گپتا، بنارسی لال اور روشن سنگھ شامل تھے۔
کاکوری کے اس واقعہ کے بعد انقلابیوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ شاہجہانپور، کانپور، وارانسی اور الٰہ آباد میں چالیس سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیاگیا لیکن اشفاق اللہ خاں گرفتار نہیں کئے جاسکے۔ وہ اپنے شہر سے ایک میل دور گنّے کے کھیتوں میں چھپے رہے۔ وہاں سے وہ بہار گئے اور ڈالٹن گنج میں ایک انجینئرنگ فرم میں ملازم ہوگئے۔ ان دنوں اشفاق نے متھرا کے ایک کایستھ کا بھیس بدل لیا تھا۔ اشفاق اللہ ایک اچھے شاعر بھی تھے، جس آفس میں وہ ملازم تھے وہاں کے ایک اعلیٰ آفیسر کو شاعری کا بہت شوق تھا۔ ایک مشاعرے میں اشفاق اللہ نے اپنی نظمیں سنائیں جن کو دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ اشفاق اللہ کے آفیسر نے بھی پسند کیا۔ اشفاق اللہ کی شاعری سے وہ اس قدر متاثرہوا کہ اس نے ان کی تنخواہ میں اضافہ کرکے انہیں ترقی دے دی۔ وہیں پر انہوں نے ہندی اور بنگالی زبان میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ ان دونوں زبانوں میں بھی شاعری شروع کردی۔
ڈالٹن گنج می وہ آٹھ دس مہینے رہے ہوں گے کہ وہاں کی زندگی سے تنگ آگئے اور نوکری چھوڑ کر دہلی پہنچ گئے۔ دہلی میں قیام کے دوران انہیں اپنے بچپن کا ایک دوست مل گیا۔ اس نے بڑی خاطر مدارات کی۔ اپنے گھر لے گیا اور کھلاپلاکر ہوٹل میں چھوڑ آیا۔ اشفاق اللہ نے رات ہوٹل میں آرام سے گزاری۔ دوسرے روزیعنی 8 ستمبر 1926 کو علی الصبح انہیں کمرے کے باہر کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔ جیسے ہی انہوں نے کمرے کا دروازہ کھولا وہاں پولیس کو کھڑا پایا۔ اشفاق گرفتار ہوگئے۔ ان کی گرفتاری کے لئے انگریز سرکار نے بڑے انعام کا اعلان کیا تھا۔ اسی کے لالچ میں ان کے بچپن کے ایک ساتھی نے ان کو گرفتار کروادیا ۔گرفتاری کے بعد پولیس انہیں لکھنو لے گئی۔ آپ کا مقدمہ ڈپٹی کلکٹر عین الدین کی عدالت میں پیش ہوا۔ اس کے بعد یہ مقدمہ سیشن جج کے سپرد ہو۔
6اپریل 1927 کو لکھنو کے سیشن جج مسٹر ہملٹن نے اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی۔ ان پر 5دفعات لگائی گئی تھیں۔ جن میں دو دفعات کے تحت تاعمر کالا پانی کی سزا اور تین دفعات کے تحت سزائے موت دی گئی تھی۔ اشفاق اللہ خاں جب سزائے موت کا اعلان سن کر عدالت سے باہر آئے تواپنے دوستوں اور رشتے داروں کو روتا دیکھ کر کہا ”رونا دھونا ٹھیک نہیں۔ آپ کو فخر کرنا چاہئے کہ خاندان کا ایک آدمی ظلم وجبر سے ٹکرلیتا ہوا تختہ دار پر چڑھ گیا۔“
جیل میں اشفاق کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ عدالت سے پھانسی کے فیصلے کے بعد وہ جیل میں اکثروبیشتر ہنستے ہوئے ملاقاتیوں سے پوچھا کرتے تھے ”دیکھنا اس دولہا میں کوئی نقص تو نہیں۔“ پھانسی کا فیصلہ سننے کے باوجود ان کے اطمینان اور سکون میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ جیل کے ریکارڈ کے مطابق ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی موت کے قیدی کا وزن بڑھ جائے۔ جس وقت اشفاق کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اس وقت ان کا وزن 178 پونڈ تھا اور اس کے بعد جب پھانسی دی جانے والی تھی تو ان کا وزن 203 پونڈ ہوچکا تھا۔
اشفاق اللہ خاں کے جیل سے لکھے ہوئے دو خطوط دستیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک خط اپنی بوڑھی ماں کے نام اور دوسرا ہم وطنوں کے نام۔ ماں کے نام اپنے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ ”میری پیاری امی! کل صبح سے پہلے مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔ دیکھنا جب میرا خاکی جسم لا ش کی صورت میں تمہارے سامنے آئے تو آنسو مت بہانا بلکہ مجھے ایسے رخصت کرنا جیسے ماں اپنے بیٹے کو دولہا بناکر دلہن ساتھ لانے کے لئے بارات کے ساتھ بھیجتی ہے۔ ماں تمہارا بیٹا آزادی کی دلہن کو ضرور ساتھ لے کر آئے گا۔“
اپنے اسی خط میں اشفاق نے اپنے جذبہ حب الوطنی کا یوں اظہار کیا ہے۔
”پیاری امی! آپ سے بڑی ایک اور ماں ہے اور وہ مادروطن ہے۔ جب سب سے بڑی ماں کو دشمن نے زنجیروں سے جکڑرکھا ہوتو کوئی بیٹا کس طرح آرام سے بیٹھ سکتا ہے۔“
اشفاق اللہ خاں اردو کے ایک اچھے شاعر تھے اور حسرت وارثی ان کا تخلص تھا۔ جب 19دسمبر 1927 کو فیض آباد جیل میں انہیں پھانسی دینے کی تیاری ہورہی تھی تو جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے ان سے کہاکہ ان کی کوئی آخری آرزو ہوتو بتائیں۔ اس کا جواب اشفاق اللہ نے اپنا ایک شعر سناکر یوں دیا تھا
آب بیتی مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان
شہادت: ۱۹ دسمبر ۱۹۲۷ء
لنک علم وکتاب
https://archive.org/download/aap-biti-by-ashfaqullah-kahn/Aap%20Biti%20By%20%20Ashfaqullah%20kahn.pdf
ایران اور حز ب اللہ کا مکروہ کردار:
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایران کی اثنا عشری شیعہ حکومت نے غزہ میں حماس کی حمایت کی، لیکن الاخوان المسلمون کے قتل عام میں باضابطہ طورپر بَشَّار الأ سَد کی حمایت کے لیے کمانڈر بھیجے اور لبنان کی شیعہ جماعت ”حز ب اللہ“کے کمانڈر حسن نصراللہ نے بھی عملی طورپر اس قتل عام میں حصہ لیا۔ اثنا عشری جعفری شیعہ پہلے تو نُصیریوں کو کافر سمجھتے تھے، لیکن اہل سنت والجماعت اور الاخوان کے خلاف یہ بھائی بھائی بن گئے۔
اس تضاد اور ظلم پر شیخ یوسف القرضاوی ؒ (م2022ء)اور شہید محمد المرسی ؒ (م2019ء)بھی چپ نہ رہ سکے اور علی الاعلان آواز بلند کی۔
نُصَیریَّہ کے عقائد:
محمد بن نصیر النمیری سے منسوب نُصَیریَّہ ایک فرقہ ہے۔یہ باطنیہ کا ایک گروہ ہے۔
حضرت علی ؓ کی الوہیت:
نصیریہ کہتے تھے کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کی انسانی شکل و صورت حضرت علیؓ ہیں، گویا یہ عیسائیوں کی طرح عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نعوذباللہ حضرت علی ؓ کے انسانی جسم میں حلول کیا ہے۔
حضرت علی ؓ کی خالقیت:
حضرت علی ؓ کے بارے میں نصیریوں کا عقیدہ ہے کہ یہ زمین اور آسمان کے ”خالق“ہیں، جبکہ قرآن مجید صاف طورپر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔
( خَالِقُ کُلِ شَیءٍ) ”اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔“ (الرعد:16)
قرآن مجید کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔
( إِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ)(الاعراف:54)
”بلاشبہ (اے انسانو)تم لوگوں کا رب اللہ ہی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔“
لاہوت سے ناسوت تک:
نصیری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لاہوت نے ، حضرت علی ؓ کے ناسوت میں ظہور کیا ہے، کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے مانوس ہو کر اُسے عبادت سکھاتا ہے۔ نُصیریوں کی دعوت خفیہ ہوتی ہے۔
فلسفیوں کی طرح ”عالم“(دُنیا)کو اللہ تعالیٰ کی طرح نعوذ باللہ’’ قدیم ‘‘سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
آخرت کا انکار:
آخرت، قیامت، جنت اور دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہیں۔
نصیریوں کے دیگر عقائد:
(1)مسلمانوں کے اندر رہتے ہوئے، قرآن کا اقرار کرتے ہیں، لیکن قرآنی آیات کی من مانی اور باطل تاویل کرتے ہیں۔
(2)ہندوؤں کی طرح تناسخ (Re-incarnation)کے بھی قائل ہیں۔
(3) شراب کو حلال سمجھتے ہیں۔
(4)وضو اور غسل نہیں کرتے۔
(5)پانچ نمازوں سے مراد، ان کے نزدیک پنج تن کے پانچ نام ہیں۔علیؓ ، حسن ؓ ، حسین ؓ ، محسنؓ ، فاطمہ ؓ۔
(6)تیس (30)روزوں سے مراد، ان کے نزدیک تیس(30) عورتیں ہیں، جن کے نام انہوں نے گنوائے ہیں۔
روزہ نہیں رکھتے،لیکن رمضان میں بیویوں سے دور رہتے ہیں۔
(7)قدیم ایرانیوں کی طرح ”عید نوروز“بھی مناتے ہیں۔
(8)عید الاضحی10 ذوالحجہ کے بجائے 2 تاریخ کو مناتے ہیں۔
(9)یہ عیسائیوں کی عیدوں کو بھی شوق سے مناتے ہیں۔
نصیریوں کی آبادی:
نصیریوں کی دُنیا میں موجودہ کل آبادی(2024ء) تقریباً 40لاکھ ہے۔ شام میں ان کی آبادی تقریباً 10لاکھ ہے۔ ترکی میں تقریباً 5لاکھ ہے۔ارجنٹائن اور لبنان میں بھی 1لاکھ سے زیادہ نُصیری آباد ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اسرائیل میں بھی تقریباً 5ہزار نصیری موجود ہیں، جو اسرائیل کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں میں ملازم ہیں۔
آج کل زیادہ تر نصیری (علوی) شام کے علاقے، لاذِقِیَّہ (Latakia) اور طَرطُوس (Tartus)کے ساحلی علاقے میں موجود ہیں۔
تحریر خلیل الرحمن چشتی
اسلام آباد
18دسمبر 2024ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
297ھ میں عبید اللہ المہدی نے تونس (افریقہ) میں ” سلطنتِ عبیدیہ“ کی بنیاد رکھی، جو357ھ میں مصر کی”اسمٰعیلی فاطمی خلافت“میں بدل گئی۔ایک سال بعد عبید اللہ المہدی نے اپنے محسن ”حُسین الصُّوفی المُحتَسِب“ کو 298 ھ میں قتل کرا دیا، تاکہ اُس کے نسب اور اُس کی باطنی تحریک طشت از بام نہ ہو جائے۔
567ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے اسمٰعیلی فاطمی حکومت کا خاتمہ کیا۔
نُصَیرِیَّہ 265ھ تا 270ھ:
260ھ میں شیعوں کے گیارھویں امام حضرت حسن عسکری ؒ کی وفات ہوئی۔ ان کا ایک شاگرد محمد بن نُصَیر النُّمَیری تھا، جس نے ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن عراق کے شیعوں کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا۔ اسی نے فرقہ نُصیریہ کی بنیاد رکھی۔محمد بن نُصَیر النُّمَیری کہتا تھا کہ میں حضرت حسن عسکری ؒ کا دروازہ، اُن کے علم کا وارث اور اُن کے لیے حجت ہوں، لیکن شیعوں کی اکثریت نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔
اثنا عشری شیعہ 300ھ:
300ھ میں شیعوں کی اکثریت نے اماموں کی تعداد کو قطعیت دے دی۔ بارہ اماموں کا فیصلہ ہوا۔ حضرت حسن عسکری ؒ لاولد تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا ایک بیٹا بچپن میں فوت ہو گیا تھا، لیکن شیعوں نے کہا کہ یہ ہمارے بارھویں امام ”مہدی“ ہیں۔ 260ھ میں غائب ہو گئے، لیکن مخصوص لوگوں سے ملتے رہے۔ ان کے بعد چار (4)افراد امام مہدی کے ”نائبین“مقرر ہوئے۔ 260ھ سے 267ھ تک”عثمان بن سعید عمری“پہلے نائب رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے”محمد بن عثمان بن سعید عمری“ 305ھ تک دوسرے نائب رہے۔ان کی وفات کے بعد”حسین بن روح نوبختی“ 326ھ تک تیسرے نائب رہے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد”علی بن محمد بن سمری“چوتھے اور آخری نائب رہے۔ ان کی وفات 329ھ میں ہوئی۔
اس کے بعد ”امام مہدی“ کی ”غیبوبتِ صغریٰ“ ختم ہو گئی۔ یہ ”غیبوبتِ صغریٰ“260ھ سے 329ھ تک تقریباً 70سال قائم رہی۔ پھر اس کے بعد امام مہدی کی”غیبوبتِ کبریٰ“ کا آغاز ہوا، جو قیامت سے پہلے امام مہدی کے ظہور تک رہے گا۔
دُ رزِ یَّۃ 410ھ:
410ھ میں ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل درزی نے ایک باطنی فرقے ”دُرزِیَّہ“کی بنیاد رکھی۔ اس فرقے کا بانی ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل درزی ایک اسماعیلی شیعہ تھا۔ فاطمی خلیفہ حاکم بامر اللہ(م 411 ھ) کا منظورِ نظر تھا۔مؤرخین کہتے ہیں کہ ایک ایرانی ”حمزہ دروزی“ نے فاطمی خلیفہ حاکم بامر اللہ کو(م:411ھ) باطل عقائد کی تعلیم دی تھی۔ اسی نے حاکم کی خدائی کا اعلان کیا۔دعویٰ کیا تھا کہ اللہ کی روح پہلے آدم ؑ میں، پھر حضرت علی ؓ میں اور پھر الحاکم میں منتقل ہوئی۔
یہ حُلُول کا قائل تھا۔ چنانچہ فسادات برپا ہوگئے،جس کے نتیجے میں 410ھ میں درزی کی موت واقع ہوگئی۔
ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل درزی سے منسوب ”دُرزِیَّوں“کا یہ باطنی فرقہ، جو آج بھی لبنان کی پہاڑیوں پر موجود ہے۔
محمد بن نُصَیر النُّمَیری الکَذَّاب (270 ھ)
(1)محمد بن نصیر النمیری الکَذَّاب،حضرت حسن عسکری ؒ(م260ھ)کے شاگردوں میں تھا۔
حضرت حسن عسکری(م260ھ) کا رفیق اور مداح تھا۔حضرت حسن عسکریؒ کی وفات کے بعدمحمد بن نصیر نمیری نے دعویٰ کیا کہ میں گیارھویں امام حسن عسکری ؒ کا دروازہ، ان کے علم کا وارث اور شیعوں کے لئے مرجع اور حجت ہوں۔ شیعوں کی اکثریت نے اس کے دعوے کو مسترد کردیا۔
نبوت کا دعویٰ: پھرمحمد بن نصیر نمیری نے اپنی نبوّت کا دعویٰ کردیا۔اس نے محارم کو حلال کیا۔
محمد بن نصیر النمیری کہتا تھا: ”اللہ تعالیٰ نے پنج تن میں ’’حُلُول ‘‘کیاہے“۔
پنج تن سے مراد، شیعوں کے نزدیک محمد رسول اللہ ﷺ، حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہیں۔
ان کا عقیدہ ہے کہ یہ انبیاء کی طرح معصوم ہیں، اِن سے کوئی صغیرہ اور کبیرہ گناہ نہیں ہوسکتا، بلکہ انبیاء سے بھی افضل ہیں۔
270ھ میں محمد بن نُصیر نمیری کی موت واقع ہوگئی۔
(2) محمد بن جندب:محمد بن نُصیر کی موت کے بعد، محمد بن جندب اس کا جانشین مقرر ہوا۔
(3)عبد اللہ بن الجنان جنبلانی: محمد بن جندب کی وفات کے بعد عبداللہ بن جنان جنبلانی نصیریوں کا امام بنا۔ اور اس نے مصر جا کر تبلیغ کی۔
پھر یہ لوگ شام، حلب اور بغداد میں کام کرتے رہے۔محمد بن نُصیر کے پیروکار، نُمیری یا نُصیری کہلاتے ہیں۔
(4)حسین بن حمدان الخَصِیبی النُصَیرِی:اس کے بعد حسین بن حمدان خصیبی نام کا ایک نصیری پیدا ہوا، جو مصنف بھی تھا۔
اس نے ”الہدایۃ الکبریٰ“کے نام سے ایک کتاب لکھی۔اس کی وفات(م334ھ، مطابق 945عیسوی) میں ہوئی۔
(5)خَصِیبی کے ایک شاگرد طبرانی نے نصیریوں کے فرقے کو منظم کیا۔
(6)محمد بن علی الجلی،حسین بن حمدان الخَصِیبی کا شاگرد تھا۔ اس نے نصیری فلسفے اور نصیری تصوف کو مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في نوم رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 257-260
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
سلسلہ نمبر: 249
انتخاب مطالعہ
تحریر: *ابوتراب نؔدوی*
*ہلال و صلیب دو مختلف تصویریں*
اسلام اور اس کے علمبردار عربوں نے اپنی جنگوں میں دنیا کے سامنے رحمت و انسانیت کی جو تصویر پیش کی اس پر فرنچ مفکر و مؤرخ گؔستاؤلی بون اپنی کتاب ”عربوں کی تہذیب“ میں اپنی مشہور زمانہ شہادت درج کرتے ہوئے کہتا ہے: ”تاریخ نے عربوں سے بڑھ کر رحم دل فاتح نہیں دیکھا،اس کے برعکس صلیبیوں نے اپنی جھوٹی مقدس جنگوں میں مدینۃ القدس پر قابض ہوتے ہوئے جو تاریخ رقم کی تھی اس کی ایک جھلک خود ان کی شہادت میں دیکھی جاسکتی ہے، صلیبی جنگوں کے مؤرخ پادری ولیم سوری کہتے ہیں : ”بیت المقدس میں مقتولین کی تعداد پر ایک نظر ڈالتے ہی انسان پر رعشہ طاری ہوجانا دہشت کا سبب،ہر طرف بکھرے ہوئے جدا جدا سر اور دھڑ،کٹے ہوئے اعضاء اور انسانی خون سے ڈھکی ہوئی زمین ہی نہیں تھی ؛ بل کہ سر سے پاؤں تک خون میں ڈوبے فاتحین کا منظر ماحول کو مزید خوفناک بناتا تھا،صرف مسجد اقصی کے احاطے میں دس ہزار مسلمان مارے گئے،اتنی ہی تعداد میں لاشیں سڑکوں اور میدانوں میں بکھری ہوئی تھیں،تنگ گلیوں میں جان بچاکر چھپنے والے مسلمانوں کو صلیبی گھسیٹ کر نکالتے اور کھلے عام بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کردیتے، ایک گروپ گھروں پر حملہ آور ہوتا اور شوہر بیوی بچے غرضیکہ پورے پورے خاندان کو گھروں سے نکال کر قتل کرتا یا پھر انہیں اونچی جگہوں سے پھینک کر تڑپتے ہوئے کربناک حالت میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔“
صلیبی مؤرخ ریمنڈ آگلرز جو 1099ء میں بیت المقدس پر صلیبیوں کے انسانیت سوز حملے کا عینی شاہد ہے بیان کرتا ہے:
”ہم نے شہر کی سڑکوں اور محلوں میں کٹے ہوئے انسانی سروں ہاتھ پاؤں کے ٹیلے دیکھے، سڑکوں پر بکھری ہوئی لاشوں پر عیسائی پورے سکون سے چلتے،وہ انسانی حس سے عاری ہوچکے تھے،میں اس خوفناک منظر کی اس سے زیادہ تفصیل بیان نہیں کرسکتا،میں نے جو کچھ دیکھا اگر اسے من و عن بیان کردوں تو تمہیں ہرگز یقین نہیں آسکتا۔“
صلیبیوں کے برعکس مسلمانوں نے جو اخلاق پیش کیا اس نے نوع بشر کا سر عزت و افتخار سے بلند کردیا، مسلمانوں نے انسانی جانوں اور جذبات کی قدر کرتے ہوئے اپنی توجہ اپنے رب کی حمد و ثنا پر مرکوز کردی، ماضی میں مسجد اقصی کی حرمت کی پامالی پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں نے اس کی صفائی اور تزئین کاری پر توجہ دی ۔
صلیبیوں نے بیت المقدس کی بے حرمتی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی،انہوں نے مسجد اقصی کے ایک حصہ کو گرجا گھر میں تبدیل کردیا تہا،تو کچھ حصوں کو اسٹور اور بقیہ حصوں کو گھوڑوں کا اصطبل بنادیا تھا،فتح کے بعد مکمل ایک ہفتہ تک مسجد کی صفائی ہوتی رہی،عرقِ گلاب اور دیگر خوشبؤوں سے مسجد کی دیوار اور فرش صفائی کی گئ۔
جمعہ 4 شعبان 583ھ موافق 9 اکتوبر 1187ء کو مسجد اقصی میں تقریبا ایک صدی کے بعد جمعہ کی نماز پڑھی گئ، نورالدین زؔنگی کے ارمانوں کا منبر حلب سے لاکر مسجد اقصی میں نصب کیا گیا،سلطان کی خواہش کے مطابق قاضی محی الدین بن زکیؔ نے نماز جمعہ کا خطبہ دیا اور امامت کی، تاریخ کی بیشتر کتابوں میں اس موقع سے دیے گئے خطبے کو پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
( *انقلاب شام عالم اسلام کی تشکیل نو کا آغاز،صفحہ: 62، طبع:نیو کریسنٹ پبلشنگ کمپنی،گلی قاسم جان،بلیماران، دہلی*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
جلال الدین اسلم نے اپنے مضمون میں مولانا کی سادگی کاذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کارپوریشن کی ذمہ داریوں کے زمانے میں جب وہ گھر سے نکلتے تو جیب میں مہر لے کر نکلتے تھے راہ چلتے بھی اگر کوئی کسی طرح کا فارم دیتا تو فوراً وہیں مہر پیڈ نکال کر مہر ثبت کردیتے تھے۔زیر دستوں کابہت خیال کرتے تھے۔
مولانا کی تصنیفی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان کا سب سے اہم کارنامہ تو ”تاریخ اردو صحافت“ ہے جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔صحافت کے موضوع پر اس کے علاوہ’روح صحافت‘، ’اردو کے اخبار نویس‘ (دوجلدیں)،تاریخ جرم و سزااور گلدستہ صحافت کے نام سے ان کی کتابیں ہیں۔ہندستان کی آزادی کے حوالے سے انھوں نے متعدد موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔تاریخ آزادہند فوج،مقدمہ آزاد ہند فوج،آزاد ہند فوج کا البم،اخبار مخبر عالم مرادآباد اور تحریک آزادی،1857کے غدار شعرا،1857کے مجاہد شعرا،دہلی کے سیاسی رہنماؤں کی مائیں اور بیویاں اور شہیدان آزادی مرادآباد اور صوفی امباپرشاد وغیرہ کتابوں کے نام سے ہی ان کی تصنیفی و تحقیقی خدمات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دہلی کے حوالے سے ان کی ایک اہم کتاب ’دہلی کی یادگار شخصیتیں‘بھی ہے۔معصوم مرآبادی نے لکھا ہے کہ امداد صابری نے ”مختلف اور متنوع موضوعات پر 76کتابیں تصنیف کیں (ص 3)۔
سہیل انجم نے انھیں اردوصحافت کا ایک بے مثل محقق قرار دیا ہے۔صحافت سے متعلق ان کی کتابوں کا تعارف اور تجزیہ بھی کیا ہے۔ان کا خیال ہے:
اس تاریخ (تاریخ اردو صحافت)میں قدیم اخباروں کامطالعہ کرنے ان میں شائع مضامین اور خبروں کا تجزیہ کرنے،ان کا روشنی میں تحقیق کرنے اور اردو صحافت کی تاریخ از سر نو مرتب کرنے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے بہت کچھ مواد موجود ہے۔بلکہ دیکھا جائے تو ان کے بعد جو لوگ بھی اردو صحافت کی تاریخ مرتب کریں گے ان کے لیے اس پہاڑ تک رسائی ضروری ہوگی۔جو اس پہار کی زیارت نہیں کرپائے گا اس کا کام نامکمل رہے گا۔یہ کام مولانا امداد صابری کا ایسا کارنامہ ہے جو ان کا نام اس وقت تک زندہ رکھے گا جب تک اردو صحافت زندہ رہے گی۔(ص63)
ڈاکٹرذاکر حسین نے امداد صابری کی اسی کتاب کو موضوع بناکر مضمون لکھا ہے اور اس کی تمام جلدوں کا تعارف کرایا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ شدید تنگی کے زمانے میں بھی انھوں نے اس کی طباعت کا کام نہیں روکا۔کاغذ کی گرانی اور چھپائی کی مہنگائی کے باوجود وہ اس کام کو اشاعت کے مرحلے سے گزارتے رہے۔کاتبوں کی غیر ذمہ داریاں بھی ان کے لیے نہایت تکلیف کا باعث تھیں۔واضح رہے کہ اس کتاب کی تحریک انھیں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملی تھیں۔وہ امداد صابری کے کاموں کو پسند کرتے تھے اور تحسین بھی فرماتے تھے۔مولاناآزادنے ہی انھیں اردو صحافت کی تاریخ لکھنے کامرتب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
مولانا کی خدمات کو یاد کرنے کا موقع اس وجہ سے ملا کہ ہر برس اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن یوم اردو کی مناسبت سے عالمی یوم ارد و یادگاری مجلہ(سووینر) کی خصوصی پیش کش کا اہتمام کرتا ہے اس برس (2024) یہ خصوصی پیش کش مولانا امداد صابری کے نام معنون تھی۔بڑے سائز کے سو صفحات پر مشتمل اس رسالہ میں مولانا امداد صابری کی متنوع جہات خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس شمارہ کے قلم کاروں میں
ڈ اکٹرعبدالعزیز،جلال الدین اسلم،معصوم مرادآبادی،محمد عارف اقبال،سہیل انجم،ڈاکٹر سید احمد خاں،ذاکر حسین،پرویز عادل ماحی اور ظفر انور شکر پوری کے نام شامل ہیں۔اس کے علاوہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی،پنڈت ہرسروپ شرما،جی ڈی چندن،کے مضامین پرانے رسالوں سے لیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ پروفیسر اخترالواسع،ڈاکٹر سید فاروق،خواجہ محمد شاہدپروفیسر شہپر رسول،ڈاکٹر اطہر فاروقی،ڈاکٹر شمس اقبال اور مولانا محمد ولی رحمانی کے پیغامات شامل ہیں۔مولانا امداد صابری کا ایک مضمون ’اخبارات و رسائل کی اہمیت و طاقت‘ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔یہ مضمون دراصل مولانا کی خود نوشت ہے اس کے مطالعہ سے مولانا کی زندگی کے بعض اہم گوشوں تک رسائی ہوتی ہے۔اسی مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ 1973میں اردو کے قدیم وجدید اخبارات و رسائل کی نمائش کا اہتمام لکھنؤ میں کیا گیا تھاجسے یہاں کے سیکڑوں صحافیوں نے ملاحظہ کیا اورمولانا کے اس قدم کو نہ صرف پسند کیا بلکہ سراہا بھی۔مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مسعود حسن رضوی ادیب جیسے مشاہیر نے اس قدم کو سراہا تھا۔ان بزرگوں نے جس شوق اور وارفتگی کے عالم میں قدیم رسائل کو ملاحظہ کیا تھا اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔لکھنؤ کے دیگر زبانوں کے معاصر اخبارات نے اس خبرکو نمایاں کرکے شائع کیا تھا۔
مولانا کی غیر معمولی شخصیت اور ان کے علمی و ادبی کارناموں کو دیکھتے ہوئے معصوم مرادآبادی کا شکوہ بجا ہے:
وفیات مورخہ: ۱۸/ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
احمدعلی، محمد 18/دسمبر/1973ء
اطہر قریشی ، ڈاکٹر محمد 18/دسمبر/2000ء
امداد حسین دوست محمد جونیجو 18/دسمبر/1987ء
انصار الٰہ آبادی، شاہ (سید انصار حسین ) 18/دسمبر/2017ء
آواری،ڈنشابی 18/دسمبر/1988ء
رشید ترابی، علامہ (رضا حسین خان) 18/دسمبر/1973ء
زرینہ الیاس 18/دسمبر/1990ء
زین نورانی (زین العابدین عبدالقادر) 18/دسمبر/1992ء
شوکت صدیقی 18/دسمبر/2006ء
صمد حسین رضوی 18/دسمبر/2009ء
ضمیر مرزارزقی 18/دسمبر/1995ء
ظہور احمد شاہ چشتی نورانی جے پوری، سید 18/دسمبر/1977ء
محمد احمد، بیرسٹر 18/دسمبر/1975ء
ڈاکٹر غلام محمد 18/دسمبر/1993ء
قاری بشیر احمد 18/دسمبر/2005ء
میاں سید جلیل حسن دیوبند 18/دسمبر/2005ء
مولانا عبد الرحمن کیلانی 18/دسمبر/1995ء
انصار الہ آبادی 18/دسمبر/2007ء
پی یم سعید 18/دسمبر/2005ء
چودھری غلام عباس 18/دسمبر/1967ء
چودھری رحیم خان 18/دسمبر/1987ء
ساحر ہوشیارپوری 18/دسمبر/1994ء
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في کلام رسول الله ﷺ في السمر
روایت نمبر : 253
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
پروفیسر عتیق احمد صدیقی
وفات( ۱۷/دسمبر ۲۰۰۴ء
تحریر: ڈاکٹر عبید اقبال عاصم
لنک علم وکتاب
https://archive.org/download/pro.-ateeq-ahmed-sdiidqui-by-dr.-obaid-iqbal-asim/Pro.Ateeq%20Ahmed%20Sdiidqui%20By%20Dr.%20Obaid%20Iqbal%20Asim.pdf
مشرقی یوپی میں خاص طور پر برادران وطن سے متاثر ہوکر مسلمانوں میں قوموں اور برادریوں کی تقسیم در تقسیم پائی جاتی ہے، اس طرف شاہ محی الحق فاروقی بحری آبادی نے اپنی آب بیتی Sir گزشت میں مفید تفصیلات دی ہیں، اس باب میں غلام مصطفی ڈوگر کی کتاب " برصغیر میں ذات پات کا ارتقا" ، مسعود عالم فلاحی کی "ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان" جیسی کتابیں بھی مفید ہوسکتی ، لیکن ہماری ذاتی رائے میں اس کی بنیاد کوسمجھنے کے لئے ڈاکٹر سید عبد الباری کی کتاب" لکھنو کے شعر وادب کا معاشرتی وثقافتی پس منظر" بہت اہم ہے، اس کتاب میں آپ نے مرزا قتیل کی کتاب ہفت تماشا، اور مولانا عبد الحلیم شرر کی گذشتہ لکھنو سے خوب استفادہ کیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبد الباری مرحوم نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ:
اودھ کی آبادی کا وہ طبقہ جو باہر سے آئے ہوئے اونچی نسل کے مسلمانوں پر مشتمل تھے۔ زیادہ تر شہروں میں رہتا تھا، ۔ یہ لوگ سوائے سپہ گری اور شہری انتظامیہ کے افسر و ملازم ہونے کے کسی اور پیشہ کو اختیار کرنا اپنے لئے باعث ننگ سمجھتے رہے یہی طبقہ اودھ کی ثقافتی زندگی اور سماجی نظام میں سے زیادہ کلیدی اور اہم مقام پر فائز تھا، ۔ اس طبقہ کے لوگ تین ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ سید افغان اور شیخ افغان اور شیوخ کی بڑی تعداد اودھ میں آباد تھی، صفدر جنگ کے ساتھ جو ایرانی اور ترک آئے تھے، وہ بھی فیض آباد و لکھنو میں بڑی تعداد میں آباد ہوگئے تھے۔ سید مسلمانوں میں ذات کے اعتبار سے سب سے افضل سمجھے جاتے تھے، اس زمرہ خاص میں داخل ہونے کی سب کو حسرت رہتی تھی، چنانچہ مرزا قتیل نے اپنی تصنیف ہفت تماشا میں جو اٹھارویں صدی کے آخری ایام میں لکھنو میں لکھی گئی ، سیدوں کی مختلف قسموں کا ذکر کیاہے، جو خواہ مخواہ سید بن گئے تھے، اور اس بنیاد پر معاشرہ میں معزز بننے کیلئے کوشاں تھے۔ کوئی سید خاندان کی لڑکی سے شادی کر لیتا تو اس کی اولاد بے خبری میں سید بن بیٹھی تھی، بعض لوگوں زمینوں میں عزت حاصل کرنے کیلئے قصدا مرزا لقب استعمال کرتے تھے، اور اسے دعوی سیادت کیلئے قوی دلیل سمجھتے تھے، ،کشمیریوں کا وہ فرقہ جس کے نام کے آخر میں میر آتا تھا، ہندستان آکر اس لقب کا فائدہ اٹھاتا تھا، اور میر کو شروع میں لگا کہ سید ہو جاتا تھا، کچھ لوگ تنگی معاش سے جاں بلب ہو کر یا نذر د نیاز کی خاطر پابندی سے مرثئے پڑھ کر سید ہو جاتے، کچھ لوگ علم و دولت سے شرافت نسبی حاصل کر کے دعوی سیادت کر دیتے تھے۔ اسی طرح کچھ اور لوگوں کے بارے میں مرزا قتیل لکھتے ہیں ایسےسیدوں کے اکثر لے پالک اور غلام بھی سیادت کے مدعی ہو گئے۔ اور دعوی سیادت میں سب سے بازی لے گئے ہیں، ان کے علاوہ عطر فروش ہیں جنہیں گندھی کہتے ہیں۔ یہ جب تک عطر کا صند و قچہ ہاتھ میں لیکر گلی گلی گھومتے ہیں یا بازار نشیں رہتے ہیں میر صاحب کہلاتے ہیں لیکن شرفاء میں اپنی سیادت کا اظہار نہیں کرتے ۔ مگر جب بازار ترک کردیتے ہیں یا کتابوں سے کچھ ربط پیدا کر لیتے ہیں یا ساز و سامان میسر آنے پر گھوڑا لے کر سپاہیوں میں نو کر ہو جاتے ہیں تو سادات کو اپنا برادر بنانے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ سید ہونے کا ایک دلچسپ راستہ یہ بھی تھا، کہ مذہب تشیع اختیار کر لیا جائے ۔
ان حضرات میں جو کم علم ہیں ان کی زبانوں پر اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ دلچسپ فقرہ رواں تھا، دریغ چوبی نباش سنی سید نباشد ۔
غرض سیادت کیلئے یہ بھاگ دوڑ اس لئے تھی، مسلم معاشرہ میں سیدوں کو دہی مراعات اور مراتب حاصل تھے، جو ہندؤں کے سماجی نظام میں برہمن کو ۔ یہ ایسا لبادہ تھا، جسے زیب تن کر لینے کے بعد آدمی مرزا قرار پاتا تھا، چاہے اس کی شخصیت د کردار کیسا ہی ہو۔ افغان و شیوخ اودھ کی حکومت میں بعض سیاسی وجوہ سے پایہ اعتبار سے گر چکے تھے، لیکن عام معاشرہ میں ان کا جاہ وجلال اب بھی قائم تھا۔ تعلیمی اعتبار سے ان کے اندر بیداری تھی، اور سپاہیانہ فنون پر ان کو کمال حاصل تھا، اس لئے دربار کی سر پرستی کے بغیر ماحول ان کا لوہا مانتا تھا۔ باقی نیچی ذات کے وہ مسلمان جو یہاں کے مقامی باشندے تھے، ان کے ساتھ اونچی نسل کے مسلمانوں کا تقریباً دہی سلوک تھا، جو اونچی ذات کے ہندو نیچی ذات کے ہندوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔
تکلف برادریوں کے نام پر موسوم و متعارف ہیں ۔
سوچیں کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس سوچ کو فروغ دیا ہے ، کیاان مدارس اور مساجد کے لئے چندہ صرف ایک ہی برادری سے لیا جاتا ہے اور ان مدارس اور مساجد میں ایک ہی برادری کے لوگ تعلیم پاتے یا نماز پڑھتے ہیں؟ اور کیا کسی ایک برادری کے تعلیم یافتہ ہونے سے پوری ملت کا بھلا ہوسکتا ہے ؟اور اگرکل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا کہ ہم نے تم کو جو دولت اور ثروت اورعزت ومرتبہ دیا تھا کیا وہ صرف تمہاری ہی برادری کے لئے دیاتھا؟
مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے جب سنتاہوں کہ فلاں مدرسہ میں صرف فلاں برادری کے لوگ ہی پڑھانے کے لئے رکھے جاتے ہیں ، غورکریں کیا یہی دین ہے ، کیاشریعت کی یہی تعلیم ہے؟ ہم نے کیا پڑھا ہے اور ہمارا عمل کیا ہے ،ہم دعوت دوسروں کو دیتے ہیں، تقریریں دوسروں کے لئے کرتے ہیں، صبح سے شام تک درس وتدریس دوسروں کے لئے انجام دیتے ہیں اپنے لئے کچھ بھی میں سے حصہ نہیں ہے۔کیاہم اس اندھے کہ مانندنہیں ہیں جواندھیری رات میں چراغ لے کر چلے جارہاہے، اس کے چراغ سے دوسرے فائدہ اٹھارہے ہیں اورخودوہ نابینااپنے ہی چراغ کی روشنی سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھاپارہاہے ،کیاہمارا عمل ’’یقولون مالاتفعلون‘‘کا مصداق نہیں ہے؟کیاقرآن واحادیث کے خلاف ہمارا یہ عمل اورنظریہ نہیں ہے ؟اگرقرآن وحدیث کے خلاف ہے اورآپ کاضمیراس بات کی گواہی دیتاہے کہ واقعی آپ غلطی پرہیں توسدھرجائیں ورنہ جب اللہ تعالیٰ سدھانے پرآئے گاتوکوئی حیلہ کوئی بہانہ کوئی فرصت اورکوئی موقع ملنے والانہیں ہے۔
سنوسنو!!
حضرت انس اورحضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے: ’’مخلوق اللہ کی عیال (زیر کفالت) ہے، اور مخلوق میں سے وہ شخص اللہ کو زیادہ پسند ہے جو اس کی عیال سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ ‘‘۔( بیہقی )
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
جامعہ و بستی اور علاقہ بھی فیض حاصل کرتا رہا اسی جماعت کا ایک فرد آج بھی اس جامعہ میں موجود ہے وہ ہے حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم شیخ الحدیث جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل ۔۔۔ یہ ہمارے لۓ خوش قسمتی کی بات تھی کہ حضرت سے ملاقات کا موقع میسر آیا زیارت تو کئ ایک بار پہلے بھی ہوچکی تھی لیکن اس بار ہمارے پروگرام میں شامل تھا کہ حضرت سے ملاقات کریں گے ہوا یوں کہ ہمارے تقریری پروگراموں میں ایک پروگرام ہرن گاؤں کا بھی تھا حافظ محمد صاحب کے یہاں قیام تھا بعد نماز عشا ہرن گاؤں کی جامع مسجد (جو نہایت خوب صورت ہے )میں تقریر ہوئ اور شب گزاری حافظ محمد صاحب کے دولت خانہ پر ہوئ صبح تقریبا ساڑھے گیارہ بجے کار کے ذریعہ حضرت کی رہائش پر پہنچے معلوم ہوا کہ حضرت کچھ دیر کے بعد سبق سے فارغ ہوکر تشریف لانے والے ہیں پندرہ بیس منٹ کے بعد تشریف لاۓ ہم اپنے رفقا کے ساتھ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوۓ علیک سلیک کے بعد حضرت سے کچھ باتیں ہونے لگیں بات سے بات نکلی تو ان کے شیخ اور ہمارے اکابر کی صف میں شامل حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ کا ذکر چل نکلا وہ بہت خوش ہوۓ ان کی طبیعت میں مزید نشاط پیدا ہوگیا کچھ دیر کے بعد میں نے کہا کچھ نصیحت فرمادیجئے حضرت نے فرمایا کہ جہاں آپ پڑھاتے ہیں وہاں موقع کی مناسبت سے طلبہ کی اصلاح کرتے رہا کرو پھر میں نے کہا کہ حضرت کچھ تھوڑا بہت بولتا ہوں اور کچھ لکھتا بھی ہوں تو فرمایا کہ بس اللہ کے لۓ بولو اللہ کے لۓ لکھو ۔ یہ کہنے میں دو جملے ہیں لیکن ایسے ہیں کہ جیسے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہو ۔۔۔ خادم کی طرف سے اشارہ آیا کہ اور بھی مہمان ہیں دل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ حضرت کو چھوڑا جاۓ بات ایسی کہ جیسے لبوں سے پھول جھڑ رہے ہوں ، تواضع وانکساری ان کی باتوں سے جھلک رہی تھی اورعاجزی ان کے انداز سے یہ ہی انسان کے بڑے ہونے کی دلیل ہے دو ایک علمی باتیں بھی ہوئیں لیکن وقت کی قلت کا احساس رہا ۔۔۔ ان کی زیارت وملاقات کے بعد دل کہتا رہا کہ یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جاۓ
یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
جب ہم نے ان کی زندگی کے بارے میں تھوڑا بہت پڑھا تو معلوم ہوا کہ وہ ابتدا ہی سے صالح و متقی تھے ان کے والد صاحب نےان کو دین کی خدمت کے لۓ وقف کردیا تھا باپ و بیٹے دونوں کی نیک نیتی وصالحیت کی برکت سے اللہ نے قرآن وحدیث کا ایسا مشغلہ عطا کیا کہ ساری زندگی قال اللہ وقال الرسول پڑھتے پڑھاتے ہوگئ چالیس سے زائد کا عرصہ مشغلہ حدیث میں گزرگیا اور مجموعی علمی وتدریسی خدمات نصف صدی پر محیط ہے ملک وبیرون ملک علمی واصلاحی فیض عام ہے ان کے فیض کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رشک گجرات حضرت مولانا مفتی عبد اللہ رویدروی رحمہ اللہ بانی وسابق مہتمم جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ گجرات اور حضرت مولانا مفتی عبد القیوم راجکوٹی اور حضرت مولانا احمد بزرگ دامت برکاتہم مہتمم جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل اور حضرت مولانا مفتی عباس صاحب دامت برکاتہم صدر مفتی تعلیم الدین ڈابھیل جیسے علمی دنیا کے روشن ستارے ان کے تلامذہ میں شامل ہیں اسی طرح ان کے اصلاحی فیض کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رئیس جامعہ اور مفکر گجرات حضرت مولانا عبد اللہ کاپودروی رحمہ اللہ انہیں کے دست گرفتہ وخلیفہ تھے ان کے علاوہ بہت سے خلفا موجود ہیں جن کا فیض ملک وبیرون جاری ہے ۔۔ حضرت مفتی صاحب کی علمی حکمرانی وبادشاہی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ خدمات علم حدیث کا جو سلسلہ گجرات میں پہلے سے چلا آرہا تھا انھوں نے اس کو آگے بڑھایا اور علم حدیث کے متعلق کئ ایک کام ایسے منظر عام پر آۓ جن کی مقبولیت اہل علم کے درمیان عام ہے سر فہرست حضرت مفتی صاحب کی امام بخاری رحمہ اللہ کی ” الادب المفرد “ کی شرح ” فتح اللہ الاحد “ اسی طرح ” حدیث کے اصلاحی مضامین “ پندرہ جلدوں میں اور شمائل ترمذی کی شرح ” محمود الخصائل “ وغیرہ معلوم ہوا ہے کہ ان کے بخاری کے درسی افادات ” تقاریر بخاری “ پر بھی کام جاری ہے اسی طرح حضرت مفتی صاحب نے فقہ وفتاوی کی دنیا میں بھی کام کیا ہے اور ” محمود الفتاوی “ کے نام سے ان کے فتاوی جمع ہوکر شائع ہوچکے ہیں اس کے علاوہ انھوں نے بہت سے کام کۓ ہیں جو اپنے اکابر کی علمی میراث کو آگے بڑھانے کی بین دلیل ہے اللہ تعالی اس مقدر کے سکندر کا سایہ امت کے سر پر تادیر قائم رکھے
١٥ دسمبر ٢٠٢٤ ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة کلام رسول الله ﷺ في الشعر
روایت نمبر : 249-252
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة کلام رسول الله ﷺ في الشعر
روایت نمبر : 244-246
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255