ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

*کیا ہم مسلمان ہیں (٣٣) لِلّٰہیّت کا پروانہ ( پہلی قسط )*
*تحریر: شمس نوید عثمانی*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

"جب تمہیں اپنے کسی بھائی کا سانحۂ غم یاد آئے تو اُس وقت یاد کرو تم اپنے بھائی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ان کارناموں کی بنیاد پر جو انھوں نے سرانجام دیے۔ نبی ﷺ کے بعد وہ ساری مخلوق کا نچوڑ تھے خدا سے ڈرنے میں بھی اور انھوں نے جو ذمّہ داری اُٹھائی اس کو اس طرح پورا کر دکھایا کہ اس سے زیادہ کا تصّور ممکن نہیں۔ وہی ہیں وہ "ثانی" جن کا نام فوراً حضور ﷺ کے بعد آتا ہے اور دشواریوں میں ان کی رفاقت کو سراہا گیا ہے اور وہی ہیں وہ پہلے شخص جنھوں نے سب سے پہلے رسولوں کی تصدیق کی _____"
آغازِ اسلام کے چشم دید گواہ ، شاعر اسلام حضرت حسانؓ بن ثابت نے کبھی یوں حضرت ابو بکرؓ کے گُن گائے تھے ، یہ شاعری نہیں ٹھوس حقیقت تھی ۔ ٹھوس تاریخ تھی کہ "حقیقت" جیسے ہی ان کے سامنے آئی اس کے خیر مقدم اور پزیرائی میں اُنھوں نے فی الفور اپنا سینہ کھول دیا ، دل چیر کر رکھ دیا۔ حقیقت کے علم اور اعتراف کے درمیان یہاں سرے سے کوئی فاصلہ ہی نہیں جیسے سُورج کے طلوع اور روشنی کے پھیلاؤ میں کوئی فاصلہ نہیں۔ تین سو ساٹھ(۳۶۰) پتّھروں کو معبود ماننے والوں کے گروہ میں کھڑے ہوکر انھوں نے جوں ہی حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زبان سے یہ سُنا کہ "کوئی معبُود نہیں لیکن خداے یگانہ " اس دم انھوں نے اس اہم حقیقت کو شدّت سے محسوس کیا کہ خداے زندۂ جاوید ، خداے یگانہ سچ مچ انسان کی رگ بال سے بھی زیادہ نزدیک تر ہے ۔ نظریں اس کو نہیں چُھو سکتیں لیکن وہ قلب و نظر کی گہرائیوں تک کو چُھو لیتا ہے ____ اور انسان کے ظاہر و باطن پر اس کی ہستی راج کرتی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے گہرے دوست کی حیثیت سے ہمیشہ ان کے دوش بدوش چلنے والے ابو بکرؓ نے جیسے ہی آں حضرت ﷺ کی زبانِ مبارک سے رسالت کا مقدس دعوی سُنا، وہ ایک غلام کی سی عجز و انکساری کے ساتھ خُدا کے آگے جُھکے اور خدا کے رسولﷺ کے نقوشِ پا چومنے کے لیے برابر سے ہٹ کر ان کے پیچھے آگئے۔ دوستانہ برابری کے سالہا سال کے درجے کو رسالتِ محمدیﷺ میں فنا کر دینے کا یہ پُر شوق منظر دیکھنے کی چیز تھا ۔ خدا جانے خود اس شخص کے جذباتِ سپردگی کا کیا عالم ہوگا کہ جس کو دیکھنے والے شمع رسالتﷺ کے پروانے بن گئے۔ سوزِ توحید و رسالت کے اس منظر کو دیکھ دیکھ کر سراپا سوز و گداز ہو گئے اور کتنے ہی مکّے کے قیمتی لال خدا کے رسولﷺ کی طرف پروانہ وار بڑھے اور اس شمع حیات کے گرد طواف کرنے لگے ۔ ان میں زبیؓر بن عوام تھے عبدالرحمنؓ بن عوف تھے ۔ عثمانؓ بن عفان تھے ۔ سعدؓ ابن ابی وقاص تھے ۔ طلحہؓ بن عبداللہ تھے ____ اور نہ جانے دُوسرے کتنے ہی وہ حق پسند جلیل القدر انسان جو اسلام کے اُفق پر مہروماہ بن کے چمکے اور زیِر زمین جانے کے بعد بھی آج تک تاریخ کی وسعتیں ان کے نورسے جگمگا رہی ہیں ۔
حق و صداقت کی طرف بڑھنے والے اس عظیم انسانی گروہ پر جہاں رسالت کی مقناطیسی شخصیت سحر حلال کا اصل کام کر رہی تھی وہاں ان کے جذب و جنون کی آگ بھڑکانے میں ابو بکرؓ کی شانِ صدّیقیت کا بھی حصہ تھا۔ اس لیے خدا کے آخری پیغام کی اس اوّلین تصدیق کا صدیقی کارنامه در حقیقت ایک عظیم ترین ____ لامتناہی احسان ہے ان تمام پاک رُوحوں پر جو شروع سے آج تک خُدا اور اُس کے رسولﷺ پر ایمان لائیں اور جو رہتی دنیا تک ایمان لاتی رہیں گی ________________________________________ (جاری)
#Sham_Nawid_Usmani

Читать полностью…

علم و کتاب

شاعروں کی قصیدہ خوانی بیگم کی زبانی
کلام وآواز
واقف مرادآبادی(وفات ۱۶/ دسمبر ۱۹۶۹
لنک اردو اڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=shairoun-ki-shan-may-sana-khani-begum-ki-zabani, Shairoun ki shan may Sana khani Begum ki Zabani

Читать полностью…

علم و کتاب

اطہرفاروقی جے این یو کیسے پہنچے، یہ ہمیں نہیں معلوم، لیکن وہاں پہنچ کر ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا اور وہ خودکو ترقی پسندوں کی صف میں شمار کرنے لگے۔ہمیں کبھی کسی دانش گاہ میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا، اس لیے ہم دانشوری سے کماحقہ واقف نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے دوست اطہرفاروقی کی انگریزی پر بھی رشک آتا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ اچھی انگریزی جانتے ہیں اور ڈکشنری کے بغیر انگریزی لکھنے اور بولنے پر قادر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دوستوں کا دائرہ اردو سے زیادہ انگریزی دانشوروں تک ہے۔
ہم جب بھی کسی ترقی پسند دانشور سے ملتے ہیں تو ہمیں اپنے ایک پرانے دوست خورشید الحسن کی یادآتی ہے، جنھیں لذیذ کھانے بنانے کا شوق تھا اورکچھ عرصہ انھوں نے لندن میں گزارا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مشہور ومقبول پاکستانی شاعر احمدفراز لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہے تھے اور اسی کمپلیکس میں مقیم تھے جہاں خورشید صاحب رہتے تھے۔ دونوں میں دوستی ہوگئی اور احمدفراز خورشید صاحب کے دسترخوان تک پہنچ گئے۔ لذیذ کھانے کھاکر بہت متاثر ہوئے اور نئی نئی فرمائشیں کرنے لگے۔ ایک دن کھانے کے دوران انھوں نے خورشید صاحب سے کہا کہ ”اگلے اتوار کو آپ پسندے بنائیے گا۔“ اس پر خورشید صاحب نے معذرت کی کہ ہمیں ’پسندے‘ بنانے نہیں آتے۔ احمدفراز نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ ”کیسے علی گیرین ہیں کہ آپ کو ’پسندے‘بنانے نہیں آتے۔“ اس پر خورشید صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ”علی گڑھ میں دراصل ہم ’ترقی پسندے‘ بنایا کرتے تھے۔“
بات ہورہی تھی اطہرفاروقی کی اور پہنچ گئی ان کی دانشوری کے حوالے سے لندن۔ ہم پھر انجمن ترقی اردو کے دفتر واپس آتے ہیں، جو’اردو گھر‘ کی تیسری منزل پر واقع ہے۔ جب یہ عمارت تعمیر ہوئی تھی اور ڈاکٹر خلیق انجم اس ادارے کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے تھے تو یعقوب عامر نے ایک نظم کہی تھی۔اس کا ایک شعر کچھ یوں تھا
بنا ہے ساتویں آسماں پہ اردو کا گھر
قدم زمین پر رکھتے نہیں دلی والے
اس نظم کا عنوان تھا ”نہ تم دلی والے نہ ہم دلی والے“۔اس نظم کا روئے سخن ڈاکٹر خلیق انجم کی طرف تھا جو چھٹے ہوئے دلی والے تھے اور تاحیات انجمن کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ ایک دن مشہورنقاد، صحافی اور شاعر فضیل جعفری جب بمبئی سے دہلی آئے تو انھوں نے مجھے فون کرکے کہا جلدی آؤ، آج خلیق انجم کے پاس چلناہے۔میں دوڑا ہوا گیا۔ ہم دونوں اردو گھر پہنچے اور فضیل صاحب نے خلیق انجم کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا کہ ”یہاں کوئی اردو داں ہے؟“اس پر خلیق انجم نے مسکراکر ان کا استقبال کیا۔ فضیل صاحب ان کے سامنے خاموش بیٹھ گئے اور کچھ بھی بولنے سے معذرت کردی۔ خلیق انجم نے پریشان ہوکر ان سے پوچھا کہ آپ خاموش کیوں ہیں ، تو انھوں نے خلیق انجم کی میزپر رکھی ہوئی ایک نیم پلیٹ نما عبارت کی طرف اشارہ کیا جس پر لکھا تھا کہ ”یہاں بیٹھ کر میری سمجھ میں علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی گفتگو بالکل نہیں آتی ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں۔“ خلیق انجم نے فوراًوہ عبارت وہاں سے ہٹائی اور کہا کہ یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔اس طرح فضیل صاحب کی باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ اطہرفاروقی کی میز پر ایسی کوئی عبارت نہیں ہے لہٰذا آپ ان سے ہرقسم کی علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی گفتگو کرسکتے ہیں۔ اردو اور انگریزی دونوں میں۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

جانکار کہتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں اے آئی ٹیکنالوجی بہت ترقی کرے گی، اور زمانے کی ترقیوں کو دیکھ کریہ کچھ مشکل بھی نظر نہیں آتا، اس کے بہت مفید استعمالات ہیں، لیکن اس کے استعمال سے پہلے جس موضوع پر آپ کو مرتب مضمون یا رپورٹ درکار ہو، اس کے اور اس کے منہج کے بارے میں ضروری معلومات ہونی چاہئیں، کیونکہ جہاں اے آئی سے غلطی ہو، وہاں نقل نویس را عقل نہ باشد والا معاملہ نہ ہو۔ اس سلسلے میں بنیادی معلومات اور منہج آپ کے پاس ہونے کی وجہ سے آپ اس کی غلطی جان کر اس سے بچ سکیں ، کوئز کی معلومات کی طرح درمیان درمیان سے آدھی کچی معلومات کے رسیا نہ بن جائیں، یہ آدھی کچھی معلومات مخاطب پر دھونس جمانے کے لئے ہوتی ہیں، یہ حقیقت میں علم نہیں ہوا کرتیں۔
2024-12-15

Читать полностью…

علم و کتاب

جون ایلیا نے اپنے قیمتی اشعار کے مجموعے کو چھپوانے میں 30سال کا طویل عرصہ کیوں لگایااور وہ بھی ایک ایسے زمانے میں جب برائے نام شعراء نے اپنے درجنوں مجموعے چھپوا کر انعام واکرام کی بارش ہی نہیں کروائی بلکہ وہ ان مجموعوں کی ضخامت کو دیکھ کر شاعر قرار دے دیئے گئے۔ جون ایلیا نے اس کا جو سبب بیان کیا ہے وہ بھی کچھ کم کربناک نہیں ہے۔ وہ لکھتےہیں:
”موسم سرما کی ایک سہ پہر تھی۔ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ بابا مجھے شمالی کمرے میں لے گئے۔ نہ جانے کیوں وہ بہت اداس تھے۔ میں بھی اداس ہوگیا۔ وہ مغربی کھڑکی کے برابر کھڑے ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو۔ میں نے پوچھا۔ ”بتائیے بابا! کیاوعدہ؟“
انہوں نے کہا ”یہ کہ تم بڑے ہوکر میری کتابیں ضرور چھپواؤگے۔“
میں نے کہا۔ ”بابا میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں جب بڑا ہوجاؤں گا تو آپ کی کتابیں ضرور ضرور چھپواؤں گا۔“
مگر میں بابا سے کیا ہو ایہ وعدہ پور انہیں کرسکا۔ میں بڑا نہیں ہوسکا اور میرے بابا کی تقریباً تمام تصنیفات ضائع ہوگئیں۔ بس چند متفرق مسودے رہ گئے ہی۔ یہی میراوہ احساس جرم ہے جس کے سبب میں اپنے کلام کی اشاعت سے گریزاں ہی نہیں متنفر رہا ہوں۔“
جون ایلیا کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں ہر وقت علم کی گفتگو ہوتی تھی۔ علم ہیئت سے انہیں اور ان کے والد کو گہر اشغف تھا۔ بقول خود ان کے گھر میں عطارد، مریخ، زہرہ اور مشتری وغیرہ کا اتنا ذکر ہوتا تھا جیسے یہ سیارے ان کے افراد خانہ میں شامل ہوں۔ ان کے والد سید شفیق حسن ایلیا علم ہیئت کے ماہر تھے۔ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے جون ایلیا نے لکھا ہے کہ:
”جب میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح سے شام تک شاعری، تاریخ، مذاہب عالم، علم ہیئت (Astronomy) اور فلسفہ کا دفتر کھلا دیکھا اور بحث ومباحثہ کا ہنگامہ گرم پایا۔ اس تمام سرگرمی کا مرکز ہمارے بابا علامہ سید شفیق حسن ایلیا تھا۔ وہ کئی علوم کے جامع تھے اور کئی زبانیں جانتے تھے یعنی عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی اور سنسکرت۔ وہ صبح سے شام تک لکھتے رہتے تھے اور تقریباً اسی یقین کے ساتھ کہ ان کا لکھا ہوا چھپے گا نہیں۔“
جون ایلیا کی زندگی کا سفر 8نومبر 2002 کو کراچی میں تمام ضرور ہوگیا‘ لیکن انہوں نے جوعلمی و ادبی سرمایہ بطور میراث چھوڑا ہے‘وہ ان کو دنیا ئے شعر وسخن میں تادیرزندہ رکھے گا۔ ان کی قلندرانہ ادائیں چاہنے والوں کو ہمیشہ ستاتی رہیں گی۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے ہی اس شعر کی تعبیر بن کر دنیا سے رخصت ہوئے ؎
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب

معصوم مرادآبادی

/channel/ilmokitab

آج ممتاز شاعر جون ایلیا کا یوم پیدائش ہے۔ وہ 14 دسمبر 1930 کو مردم خیز سرزمین امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کی ہوائیں انھیں سرحد پار ضرور لے گئی تھیں، مگر انھیں اپنی مٹی سے بچھڑنے کا غم ساری عمر ستاتا رہا۔ وہ جب بھی کراچی سے امروہہ آتے تو اس کی خاک کو اپنے ناتواں جسم پر ملتے تھے۔ انھیں اپنی مٹی سے بچھڑنے کا جو غم تھا، اسے وہ ساری عمر فراموش نہیں کرسکے۔ وہ کہتے تھے کہ میں پاکستان آکر "ہندوستانی " ہوگیا۔
کوئی 36 سال اُدھر کا واقعہ ہے۔ دہلی میں عالمی اردو کانفرنس کے ایک مشاعرے میں پہلی بار جب جون ایلیا کو دیکھا تو میں انہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔ ان کی وضع قطع، لباس، چال ڈھال دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اپنی مٹی سے بچھڑا ہوا کوئی ایسا شخص ہو جسے تلاش وجستجو نے مجنونانہ کیفیات سے دوچار کردیا ہے۔بقول خود
ہم جو آدمی ہیں، پہلے کبھی
جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے
ان کی بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر کبھی کبھی اس بچے کا خیال آتا تھا جو اپنی ضد کے سامنے سب کو مجبور وبے بس کردے۔
جون ایلیا جب شعر پڑھتے تو ان پر حال طاری ہوتا تھااور ان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ سامعین بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوں۔ وہ داد جیسی بے معنی چیز کے تو طلب گار نہیں تھے لیکن سامعین کی توجہ پوری کی پوری چاہتے تھے۔ بقول خود
میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب
اس کا بے حد لحاظ کیجئے گا
اگر ہم اپنے عہد کے شعری منظرنامہ پر نظرڈالیں تو محسوس ہوگا کہ جون ایلیا نے سلطنت شعروشاعری میں اپنا جو سکہ چلایا وہ کسی دوسرے شاعر کا مقدر نہیں ہوسکا۔ رومانی شاعری میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ وہ مشکل ترین بحروں میں جس خوبصورتی سے شعر کہتے تھے وہ ان کا ہی خاصہ تھا۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیا، اپنی شاعرانہ عظمت کے سبب تو علمی حلقوں میں مقبولیت کی معراج کو پہنچے ہی اس کے ساتھ ہی انہیں نثر پر جو ملکہ حاصل تھا وہ بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا ۔ وہ زبان وبیان پر جتنی گرفت رکھتے تھے اس کی مثال اس عہد کے شاعرو ں میں بہت کم ملتی ہے۔ اپنی زندگی میں اتنی بے ترتیبی، لاابالی پن، بے چینی اور انتشار کے باوجود ان کے دماغ میں علم وفضل کا دریا موجزن تھا۔ جون ایلیا کی نفسیاتی الجھنوں اور زندگی کی بے ترتیبیوں کا سب سے برا اثر ان کی ازدواجی زندگی پر پڑا ۔ ان کی بیوی ہی نہیں بچوں نے بھی ان سے علاحدگی اختیار کی۔ جون کی شادی اردو کی ممتاز افسانہ نگار زاہدہ حنا کے ساتھ ہوئی تھی۔ جون نے کہا تھا
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
جون ایلیا کے اولین مجموعہ ”شاید“ میں ان کے منتخب کلام کے علاوہ چالیس صفحات پر مشتمل جودیباچہ ”نیازمندانہ“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے وہ ان کی ایک مختصر آپ بیتی ہے‘ جسے 200 صفحات سے گھٹا کر 40صفحات میں مختصر کیاگیا ہے۔اس میں انہوں نے زبان وبیان کے لحاظ سے جو موتی پروئے ہیں اسے پڑھتے ہی رہنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی واردات قلب کا اندازہ اس دیباچہ سے بخوبی ہوتا ہے جس کے ابتدائی جملے کچھ اس طرح ہیں۔
”یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رائیگاں گیا۔ مجھے رائیگاں جانا بھی چاہئے تھا۔ جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے بڑی دولت ہیں تو وہ رائیگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا۔“ (شاید صفحہ 11)
جون ایلیا 14دسمبر 1930 کو امروہہ کے ایک باوقار شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام جان اصغر تھا ۔ انہوں نے حضرت علی کے دوغلاموں جون اور ایلیا کے نام پر اپنا تخلص رکھا تھا۔ امروہہ جون ایلیا کا وطن بھی تھا اور ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی۔ باد حوادث نے انہیں سرحد پار پہنچا دیا تھا جہاں وہ وطن کی محبت میں ڈھیروں آنسو بہاتے تھے۔ وہ جب کبھی یہاں آتے تو امروہہ کی سرزمین پر قدم نہیں پیشانی ٹکاتے تھے۔ یہ وطن سے ان کی محبت کی حد تھی۔ لوگوں نے بارہا انہیں امروہہ میں اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرکے چیختے چلاتے دیکھا۔ کبھی کسی درخت کو لپٹ کر رورہے ہیں کہ میں بچپن میں اس کے نیچے گھنٹوں کھیلا کرتا تھا۔ کبھی بچپن کے کسی دوست سے یوں بغل گیر ہیں کہ اسے چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ انہوں نے امروہہ کو چھوڑ کر خود کو بدبخت سمجھا۔ بقول خود:
”میں دوآبہ گنگ وجمن کے حالت خیز، رمزیت آمیز اور دل انگیز شہر امروہہ میں پیدا ہوا۔ امروہہ میں نہ جانے کب سے ایک کہاوت مشہور چلی آرہی ہے کہ امروہہ شہر تخت ہے، گزراں یاں کی سخت ہے، جو چھوڑے وہ کم بخت ہے…… مجھے نہیں معلوم کہ شمالی ہند کے پہلے مثنوی نگار سید اسماعیل امروہوی، شیخ غلام ہمدانی مصحفی، نسیم امروہوی، رئیس امروہوی، سید محمد تقی، سید صادقین احمد، محمد علی صدیقی اور اقبال مہدی نے

Читать полностью…

علم و کتاب

اس کے بعد دار الکتب العلمیہ وغیرہ کے کمپوٹر پر کتابت شدہ ایڈیشن نکلے ہیں ، موڈ خراب ہونے سے بچانے کے لئے اس کا تذکرہ نہ کرنا ہی بہتر ہے،
مخطوطات کے سلسلے میں جب بات آئے تو یہ جاننا ضروری ہے، نقل کرنے والے نساخ آج کے زمانے کے ہوں یا کل کے زمانے کے ، یہ سبھی انسان تھے، نقل میں ان سے بھی فروگزاشتیں ہوتی تھیں جیسی آج ہوتی ہیں، اس کی روک تھام اور تحریف و تصحیف سے بچنے کے لئے علماء نے سماعات اور اجازات کا سلسلہ شروع کیا، اورقلمی نسخوں کی علمی قدر وقیمت اور صحت نقل کی پیمائش کے لئے قلمی نسخوں کے درجے مقرر کئے گئے، اب جو مخطوطہ مصنف کے ہاتھ سے لکھا ہوگا اہمیت میں وہ اولین ہوگا ، اس کے بعد ان کے کسی شاگر کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہوگا، پھر مصنف کے دور کا، یا پھر پرانے ادوار کے معتبر علماء کے ہاتھ کا لکھا، یا جس پر ان کی سماعات ہوں، وغیرہ وغیرہ۔
جب عالم اسلام میں پریس کا آغاز ہوا تو پہلےپہل سنگ مرمر پر براہ راست خطاط بائیں طرف سے الٹا لکھتے تھے، اسے خط معکوس کہا جاتا ہے۔ اس طرز کتابت کے برصغیر میں آخری کاتب خلیق احمد ٹونکی تھے۔
پھر لیھتو کا دور شروع ہوا، جس میں مصالحہ دار کاغذ پرکاتب لکھا کرتے، اور سنگ مرمر پر اسے چسپان کرکے چھپائی ہوتی تھی۔ اور اغلاط نامہ کتاب کے آخر میں دیا جاتا تھا ۔
پھر دور شروع ہولوہے وغیرہ سے بنے معدنی حروف کا، جسے ٹائپ پرنٹنگ کہا جاتا تھا، اس میں لوہے کے الٹے حروف ڈھالے جاتے تھے، ان حروف کے لئے مخصوص لکڑی کے خانے ہوتے تھے، جس کی خاص ٹریننگ دی جاتی تھی، اور کاریگر ان حروف کو اندازے سے ایک لوہے کی تختی پر جوڑدیتے تھے، اس میں خطاط کو ہاتھ سے لکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی تھی، حروف جوڑنے میں تصحیح کے باجود بہت ساری غلطیاں رہ جاتیں، جو بعض دفعہ ایک ایک جلد میں دس دس صفحات تک پہنچ جاتی تھیں۔
پریس میں کوئی کتاب جانے سے پہلے مصحح اپنے ہاتھ سے ایک نسخہ طباعت کے لئے تیار کرتا، پھر اس کی نقل لیتھو یا ٹائپ پریس پرچھپنے کے لئے تیار کی جاتی۔
آخری طریقہ طباعت میں غلطیاں بہ نسبت اولین دو طریقوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ حدیث وغیرہ کے لیتھو پر چھپے ایڈیشنوں کو موازنے کے لئے معاون قلمی نسخوں کی حیثیت بڑے بڑے محققین نے دی ہے۔
پریس کی ایجاد کے بعد جب قدیم قلمی کتابوں کی طباعت کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی تحقیق کئی ایک مرحلوں سے گذری، زیادہ تر یہ ہوتا کہ مطابع کے مصححین کسی کتاب کے ایک دو نسخے بہ مشکل حاصل کرتے، اور پھر ان کا موازنہ کرکے کسی ایک عبارت کو لے لیتے، عموما عبارت کس نسخے سے لی گئی ہے، یا کتاب کے کون کون سے مخطوطات ان کے سامنے ہیں، ان کا تذکرہ نہیں کرتے تھے، مصححیں کی صوابدید کو قبول کیا جاتا تھا، جبکہ ان مصححین کے نام تک قاری کو معلوم نہ ہوتے تھے۔
اس کے بالمقابل یورپ کے مستشرقین چونکہ عربی زبان کی اہلیت علماء کی طرح نہیں رکھتے تھے، انہوں نے اس نقص کو دور کرنے اور اپنی مطبوعات کے استناد کو مضبوط کرنے کے لئے مخطوطات کے موازنے کا طریقہ کار ایجاد کیا، اس میں جب کسی کتاب کی اولین اشاعت کا کام شروع ہوتا تو پھرکسی کتاب کے دستیاب تمام مخطوطات کو یکجا کیا جاتا، اور پھر ہر ایک مخطوط کو ایک علامتی نام دیا جاتا مثلا مخطوط (الف) مخطوط (ب) وغیرہ وغیرہ۔ نسخہ الف کو اصل بنا کر اسے متن میں لکھا جاتا، اور جہاں اس کی عبارتیں دوسرے مخطوطات سے مختلف ہوتیں ، ان اختلافی عبارتوں کو مخطوطے کی علامت کے ساتھ حاشئے میں نقل کیا جاتا، ہندوستان کی مطبوعات میں آپ اس کا نمونہ شیخ عبد الصمد شریف الدین کی تحقیق کردہ تحفۃ الاشراف اور السنن الکبری للنسائی اور اے اےفیضی کی دعائم الاسلام للقاضی ابو حنیفہ النعمان المغربی میں دیکھ سکتے ہیں۔ مخطوطات کی تحقیق کا یہ انداز مصر اور عالم عرب میں بہت بعد اپنایا گیا، خلافت عثمانیہ کے ترکی میں پریس کو تو غالبا اس کی ہوا بھی نہ لگی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في صفة مزاح رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 243-242

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

مجلہ نوائے ادب
شمارہ جنوری ۱۹۵۰
(پہلا شمارہ)
مدیر: ظہیرالدین مدنی
انجمن اسلام ۔ بمبئی
لنک علم وکتاب
https://archive.org/download/nawai-adab-1950-jan/Nawai%20Adab%201950-Jan.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

آٹھویں صدی ہجری میں صابریہ چشتیہ سلسلہ میں شیخ احمد عبدالحقؒ بہت ہی برگزیدہ بزرگ گزرے ہیں، ردولی ضلع بارہ بنکی میں ان کا مزار اقدس اب بھی مرجع عوام و خواص ہے، شاہ صاحب ان ہی کے خاندان سے تھے۔ شکل وجیہہ، چہرہ باوقار، اور داڑھی منور پائی تھی، پروفیسر خلیق احمد نظامی نے علی گڑھ میں ان کو پہلی دفعہ دیکھا تو بے ساختہ بول اٹھے کہ میں مولانا سید سلیمان ندوی کو تو نہیںدیکھ رہا ہوں، وہ جس مجلس میں شریک ہوتے محبت و عزت کی نظروں سے دیکھے جاتے، بڑی پاکیزہ زندگی بسر کی، مگر اپنی پاکیزگی میں خشکی نہیں آنے دی طبیعت کی شگفتگی برابر باقی رکھی، جب ۳۵ سال کے رہے ہوں گے، تو دوسری بیوی سے بھی دائمی جدائی ہوگئی، ۷۲ سال کی عمر پائی، مگر بقیہ زندگی تجرد میں گزار دی، دارالمصنفین ہی کو عروس بناکر اس سے ہمکنار رہے، معاملات کی صفائی کا بڑا خیال رکھتے، کسی کا حق اپنے ذمہ باقی نہیں رہنے دیتے، نجی زندگی میں تکلیف اٹھا کر ضرورت مندوں کی مالی امداد کرتے رہتے، دارالمصنفین کے ایک برآمدہ اور دو کمرے کی چھوٹی سی عمارت میں پوری زندگی بسر کردی، کہتے کہ اس میں جو راحت ملتی ہے وہ اپنے گھر میں بھی محسوس نہیں ہوتی، نماز باجماعت کی پابندی کا بڑا اہتمام کرتے، تہجد گزار بھی تھے، مناجات مقبول اور کلام پاک کی تلاوت روزانہ کرتے، موت سے سینہ سپر ہونے کے لئے ہمیشہ تیار رہے، حج کا شرف دو بار حاصل کیا، آخری بار گزشتہ سال حجاز کے شاہ فیصل کی طرف سے زیارت خانۂ کعبہ کے لئے مدعو کئے گئے، مرکزی حکومت ہند نے ان کے علم و فضل کا اعتراف عربی میں سند اور خلعت عطا کرکے کیا، اس سلسلہ میں ان کو تین ہزار سالانہ وظیفہ بھی ملتا تھا، مگر تین سال سے زیادہ نہ پاسکے ساری عمر دارالمصنفین سے جو قلیل تنخواہ ملتی اسی پر قانع رہ کر بسر کی، مدرسہ عالیہ کلکتہ اور جامعہ ملیہ دہلی سے ان کو خاطر خواہ تنخواہ پر مدعو کیا گیا، لیکن دارالمصنفین کی خدمت ہی کو اپنی زندگی کا اصل مقصد قرار دیا، سفر کرنے سے بہت گھبراتے، ملک کے مختلف حصوں سے صدارت اور بالمعاوضہ مقالہ خوانی کی دعوت آتی رہی، مگر ان کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہے، آخر عمر میں مولانا زکریا سہارنپوری سے بیعت ہوگئے تھے، تو اورادو وظائف میں بھی مشغول رہنے لگے تھے، گزشتہ نومبر میں ان کی خدمت میں سہارنپور حاضر ہوئے تھے، وہاں سے واپسی پر اپنے وطن ردولی میں انفلوائنزا میں مبتلا ہوگئے تھے، صحت یاب ہوکر دارالمصنفین واپس آئے تو چھٹے روز اپنے قدردانوں کو روتا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے، موت ان کے پاس ضرور آئی مگر دبے پائوں آئی، منھ چھپائے ہوئے آئی اور ان کے بربط ہستی کے سرور سے محض ہم آغوش ہونے آئی۔
راقم دارالمصنفین ان کے یہاں آنے کے گیارہ سال بعد آیا، مگر ہم دونوں چالیس سال تک لازم ملزوم، ایک جان دو قالب بلکہ عرض و جوہر بن کررہے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا کہ کون ملازم ہے، کون ملزوم، کون جان ہے اور کون قالب، امیر خسرو کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے، جس میں انھوں نے من و تو اور جان تن کی تفریق مٹا کر من دیگرم تو دیگری کا، سوال ہی ختم کردیا ہے، ہم دونوں دارالمصنفین کی زندگی میں اسی طرح رہے، انھوں نے اپنے کو میرے لئے اور میں نے اپنے کو ان کے لئے مٹایا، ان کے غصے پر مجھ کو پیار آتا اور میرے پیار پر ان کو غصہ آتا، ان کو کبھی زیادہ جھلاہٹ آجاتی تو تھوڑی دیر کے بعد ہی معذرت کرتے جس میں اظہار ندامت کے بجائے غیرمعمولی محبت ہوتی، اس کو میں اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ سمجھتا رہا، وہ دارالمصنفین کے ناظم ضرور تھے، مگر نظامت کے سارے فرائض میرے ذمہ کررکھا تھا، وہ خوش رہتے کہ میرے کام میں کوئی دخل نہیں دیتے، مگر میری خوشی اس کوشش میں رہتی کہ کوئی کام ان کے مزاج کے خلاف نہ ہو، ان کی حوصلہ افزائی ہوتی اور میری عملی سرگرمی وہ کوک دے دیتے تو میں گھڑی کے پرزوں کی طرح متحرک رہتا، وہ دارالمصنفین سے کچھ دنوں کے لئے باہر چلے جاتے تو مجھ کو محسوس ہوتا کہ وہ میری ساری علمی قوت اپنے ساتھ سمیٹ کرلیتے گئے ہیں، وہ گھر جاتے تو میرے لئے بے قرار رہتے، ان کی چہیتی لڑکی ان سے کہتی کہ وہ اپنے ساتھ اپنی روح کو بھی کیوں نہیں لاتے، مجلس انتظامیہ کے بعض ارکان کہتے کہ ہم دونوں مل کر ایک آدمی بنتے ہیں، دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوکر بے جان ہوجاتے ہیں، چالیس برس تک ہم دونوں کی یہی مثالی زندگی رہی، وہ اس دنیا سے خوش گئے ہوں گے کہ مجھ سے ان کو شکایت نہیں ہوئی، اور مجھ کو فخر ہے کہ میری ذات سے ان کو آخر وقت تک کوئی تکلیف نہیں پہنچی، مگر اب ان کے بعد اپنی بقیہ زندگی میں اپنی زبان حال سے کہتا رہوں گا۔
نہ دماغ ہے ، نہ فراغ ہے ، نہ شکیب ہے ، نہ قرار ہے
وہ میرے لئے سب کچھ تھے، افسراعلیٰ، محترم بزرگ، عزیز بھائی، مشیر، رفیق کار ہمدم رمساز، دوست اور کیا نہیں، اب وہ نہیں رہے، تو میں اپنے کو کچھ بھی نہیں پاتا،
فریاد کہ غم دارم و غم خوار ندارم

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی(وفات : ۱۲/ دسمبر ۱۹۷۴ء)
تحریر: صباح الدین عبد الرحمن
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

آہ شاہ صاحب !
جناب شاہ معین الدین احمد ندوی ناظم دارالمصنفین اور اڈیٹر معارف جو شاہ صاحب کے نام سے یہاں یاد کئے جاتے اب اپنے پاک دل، پاک ذات اور پاک صفات کے ساتھ آغوش رحمت الٰہی میں ہیں۔ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۷۴ء کو جمعہ کے روز اپنے تمام روزمرہ کے معمولات میں مشغول رہے، دس بجے دن کو بال بنوایا، غسل کیا، کھانا کھایا، جمعہ کی نماز پڑھی، ڈھائی بجے تک عاجز راقم سے ملاقات رہی، اخبار پڑھتے پڑھتے سوگئے، گہری نیند سوئے، چار بجے اٹھے، اپنے ایک دیرینہ ہم جلیس مولوی عزیز الرحمن صاحب کے ساتھ بیٹھے باتیں کرنے لگے، عصر کی نماز کے لئے وضو کا پانی منگوایا، کرسی سے اٹھ کر وضو کے لئے اٹھنا چاہتے تھے کہ زمین پر گرگئے، خیال ہوا کہ بے ہوش ہوگئے ہیں، ان کے دوست ڈاکٹر عبدالحفیظ انصاری بلائے گئے تو انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اﷲ کو پیارے ہوئے، وہ نہ بیمار پڑے نہ سکرات کی تکلیف ہوئی، نہ کسی کو کچھ خدمت کرنے کا موقع دیا، ایسا معلوم ہو (کہ زمین پر سے یکایک اٹھالئے گئے اور دارالمصنفین کے درودیوار کو اداس نہیں، بلکہ روتا چھوڑ گئے، ان کی وصیت کے مطابق ان کی میت، ان کے وطن ردولی دارالمصنفین کے کارکنوں اور ان کے قدر دانوں کے جلو میں لے جائی گئی، جہاں وہ چودھری خلیل احمد کی مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کئے گئے۔ اللھم اغفرلہ و الرحمۃ و ادخلہ الجنۃ۔
ان کی رحلت دارالمصنفین کے لئے حقیقی معنوں میں جانکاہ حادثہ ہے، استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی نے دارالمصنفین کو چھوڑا تو مولانا مسعود علی ندوی کا انتظامی سلیقہ، مولانا عبدالسلام ندوی کی علمی شہرت اور اس ادارہ سے خود جناب شاہ صاحب کی شیفتگی بروے کار رہی، عاجز راقم کو بھی اس کی خدمت میں گیارہ سال گزر چکے تھے، استاذی المحترم جناب سید صاحب خوش تھے کہ انھوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی زندگی کے بعد کے دارالمصنفین کا نقشہ دیکھ لیا، ان کے بعد اس علمی تاج محل پر چودھویں چاند کی چاندنی تو نہیں چھٹکی، مگر یہ برقرار رہا، ۱۹۵۷ء میں مولانا عبدالسلام ندوی داغ مفارقت دے گئے، تو ایک بڑا خلا پیدا ہوا جو پُر تو نہ ہوسکا، لیکن دارالمصنفین کی علمی سرگرمیاں بدستور باقی رہیں، ۱۹۵۴ء میں مولانا مسعود علی ندوی کی صحت خراب ہوئی تو ۱۹۶۷ء تک ان کی علالت کا سلسلہ جاری رہا، اپنے انتظامی امور کا بار اس راقم کے دوش ناتواں پر ڈالا، وہ بھی خوش رہے کہ انھوں نے بھی اپنی زندگی کے بعد کا نقشہ، دارالمصنفین دیکھ لیا، مگر شاہ صاحب کی وفات سے دارالمصنفین ایک زبردست آزمائش میں مبتلا ہے، وہ دارالمصنفین کی دو نسلوں کی جلاکے ترشے ہوئے ہیرے بن گئے تھے، اور اس کی انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے تھے اب یہ نگینہ نکل گیا، تو انگوٹھی بے رونق ہورہی ہے، ان کی جگہ کو پر کرنے والا اب کوئی نہیں، دارالمصنفین اپنی زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے، موت العالِم موت العالَم۔
وہ پچاس سال پہلے ۱۹۲۴ء میں ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فارغ ہوکر دارالمصنفین آئے، استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی نے ان کو قلم پکڑنا سکھایا، پھر تو یہ مضمون نگار بنے، شعر، ادب کے ادا شناس بھی، صحابہ کرامؓ کے سوانح نگار بھی، مورخ اسلام بھی، دین رحمت کے شارح بھی، معارف کے اڈیٹر بھی اور جو کرسی علامہ شبلیؒ نے حضرت سید صاحب کو عطا کی تھی، اس پر ناظم دارالمصنفین کی حیثیت سے بٹھائے گئے تو شبلی و سلیمان کی علمی روح و روایت کو برقرار رکھنے میں اپنی ساری علمی و ادبی صلاحیتیں صرف کیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

علی برادران کی والدہ ’بی اماں‘ پر کلیدی خطبہ

نئی دہلی، 10/دسمبر ( یو این آئی)

/channel/ilmokitab

"مولانا محمدعلی جوہر کی والدہ بی اماں نے نہ صرف جنگ آزادی کے دوعظیم مجاہدین کی پرورش وپرداخت کی بلکہ انھوں نے خود بھی آزادی کی جنگ لڑی۔وہ برقع پہن کر خواتین کے اجتماعات کو خطاب کرتی تھیں اور انھوں نے تحریک عدم تعاون کے دوران فروری 1922میں خلافت کمیٹی کے لیے صرف دربھنگہ شہر سے ساٹھ ہزار کا چندہ جمع کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر بھگوان داس نے انھیں ”بھارت ماتا“ کے خطاب سے نوازا تھا۔“
ان خیالات کا اظہار آج یہاں سینئر صحافی اور محقق معصوم مرادآبادی نے مولانا محمدعلی جوہر کے یوم پیدائش کی تقریب میں ’بی اماں‘ پر کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ اس تقریب کا اہتمام مولانا محمدعلی جوہر اکیڈمی نے کیا تھا۔واضح رہے کہ بی اماں کے انتقال کو گزشتہ نومبر میں ایک صدی پوری ہوگئی ہے۔ ان کا انتقال13/نومبر 1924کو دہلی میں ہوا تھا۔اس خطبہ کا اہتمام اسی مناسبت سے کیا گیا تھا۔معصوم مرادآبادی نے اپنے خطبہ میں کہا کہ ”بی اماں جیسی بہادر اور جری خواتین کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے، جنھوں نے سخت نامساعد حالات میں اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم مکمل کی۔ ان کے لافانی جذبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار جب علی برادران جیل میں تھے تو کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ دونوں بیٹے انگریزوں سے معافی مانگنے پر تیار ہوگئے ہیں تو کہلا بھیجا”دیکھو میں بوڑھی ہوگئی ہوں، لیکن اگر تم نے معافی مانگنے کا ارادہ کیا تو ابھی میرے ہاتھوں میں اتنی جان ہے کہ دونوں کا گلا گھونٹ دوں گی۔“مولانا محمدعلی جوہر کے آخری دنوں کے ساتھی مولانا عبدالملک جامعی نے بی اماں کے بارے میں لکھا ہے کہ ”شیروں کی ماں تھی، شیرنی تھی۔ دونوں بھائیوں کو دین کی حمیت اور غیرت ماں ہی سے ملی تھی۔ بی اماں کے گھر میں پہلی جنگ آزادی کے دوران سو نتھنیاں اتریں تھیں یعنی غدر کے دوران ایک ہی دن میں ان کے100 رشتے دار شہید ہوئے تھے۔“
معصوم مرادآبادی نے کہا کہ ”بی اماں کے والد کو جب انگریزوں نے سزائے موت دی تو بی اماں کی عمر محض پانچ سال تھی۔ان کی شادی رامپور میں ہوئی۔ شادی سے قبل وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھیں، لیکن شوہر عبدالعلی خاں تعلیم یافتہ تھے اور ان ہی کی صحبت میں بی اماں نے لکھنا پڑھنا سیکھا، لیکن افسوس جوانی میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ بی اماں نے اپنے بل بوتے پر چھ بچوں کی پرورش کی اور مولانا محمدعلی کواعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیجا۔مولانا محمدعلی جوہر کا بیان ہے کہ ”میری والدہ عملی طورپر بالکل ان پڑھ تھیں مگر مجھے زندگی میں جن لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، ان میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ملا جو میری والدہ سے زیادہ صاحب فہم ہو۔“مولانا محمدعلی یہ بھی کہتے تھے کہ وہ جو کچھ بھی ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے، وہ خدواندکریم نے انھیں ان کی والدہ کے ذریعہ پہنچا یا تھا۔“
معصوم مرادآبادی نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ ہم نے دیگر مجاہدین آزادی کے ساتھ علی برادران اور ان کی والدہ بی اماں کو بھی فراموش کردیا ہے۔ ضرورت اس بات کی آزادی کے ایسے سپاہیوں کی یادگاریں قایم کی جانی چاہئیں اور بی اماں پر ایک مستقل کتاب نیشنل بک ٹرسٹ کو تمام زبانوں میں شائع کرنی چاہئے۔ مولانا محمدعلی جوہر اکیڈمی کے صدر خواجہ محمدشاہد نے اس مطالبے کی تائید کی اور’یوم جوہر‘کی تقریب میں مولانا محمدعلی جوہر ایوارڈیافتگان کو مبارکباد پیش کی۔مہمان خصوصی کے طورپر دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے شرکت کی۔ جن لوگوں کو جوہر ایوارڈ سے نوازا گیا، ان میں سینئر ایڈووکیٹ انل نوریا، پروفیسر اخلاق آہن، پروفیسر وی کے ترپاٹھی،ڈاکٹر سحر قریشی اور صحافی یامین انصاری کے نام شامل ہیں۔ تقریب کی صدارت ڈاکٹر سید فاروق نے کی اور شکریہ جوہر اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری احمدندیم نے کیا۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۱/ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اسرا راللہ شاہ بقائی چشتی نظامی 11/دسمبر/1976ء
شاد جے پوری(سید انور علی) 11/دسمبر/1960ء
شاد سانبھری جے پوری (سید انور علی ) 11/دسمبر/1960ء
شاہ احمد نورانی، مولانا 11/دسمبر/2003ء
عمران فرحت (محمد شریف ) 11/دسمبر/2006ء
مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خاں شروانی 11/دسمبر/1992ء
مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خاں شروانی 11/دسمبر/1992ء
مولانا سید محمد ممتاز امین 11/دسمبر/1994ء
مولانا عبداللہ چھپر اوی 11/دسمبر/2005ء
مسیح الامت مولانا مسیح اللہ خاں شروانی 11/دسمبر/1992ء
شاہ احمد نورانی 11/دسمبر/2003ء
احمد سلیم، محمد سلیم خواجہ 11/دسمبر/2023ء
کوی پردیپ 11/دسمبر/1998ء

Читать полностью…

علم و کتاب

مجلہ الندوہ لکھنو۔ شمارہ جولائی ۱۹۱۴ء مرتبہ مولانا محمد اکرام اللہ ندوی https://archive.org/download/al-nadwa-1914-july-vol-10-01.pdf/Al-Nadwa%201914-July%20vol%2010-01.pdf.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

1914 ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی اور جرمنی کے حلیف کی حیثیت سے ترکی برطانیہ کے مقابلہ میں آگیا۔ ”کامریڈ“ اخبار نے ترکوں کی حمایت کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو تنقید وملامت کا نشانہ بنایا۔ یہ بات ہندوستان میں موجود غاصب انگریز حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھائی، لہٰذا حکومت کا قہر ان پر نازل ہوا اور مولانا محمد علی نظر بند کردیئے گئے۔ کامریڈ کی ضمانت ضبط ہوگئی۔
دسمبر 1919 میں انہیں قید سے رہائی ملی لیکن اس وقت تک ان کی بے باک صحافت اور قید وبند کی طویل صعوبتوں کی وجہ سے عوام میں انہیں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور یہیں سے بحیثیت لیڈر ان کی تعمیر کا عمل شروع ہوا۔ بعدازاں ان کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی تعداد امرتسر میں منعقد ہوئے کانگریس کے اجلاس میں شریک ہوئی ۔ اس طرح ایک صحافی سے بڑھ کر ایک سیاسی قائد کے طورپر ان کی شناخت پروان چڑھی۔
1919 میں ہی خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لئے جب مرکزی خلافت کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت علی برادران بیتل جیل میں قید تھے لیکن جب وہ رہا ہوئے تو خلافت کمیٹی پر چھاگئے۔ اس طرح مولانا محمد علی نے آہستہ آہستہ ایک کل ہند سطح کے لیڈر کی شناخت قائم کرلی اور ملک بھر میں گھوم گھوم کر مسلمانوں کو ترک موالات کا پیغام دیا۔ انہوں نے پوری قوم کے اندر ایک ولولہ اور جوش پیدا کردیا ہے۔ بقول خود ؎
خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی
ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی
نقد جاں نذر کرو سوچتے کیا ہو جوہرؔ
کام کرنے کا یہی ہے تمہیں کرنا ہے یہی
فروری 1920 میں وہ ایک وفد لے کر اس غرض سے انگلینڈ گئے کہ خلافت کے بارے میں مسلمانوں کے موقف سے برطانوی حکومت کو آگاہ کرسکیں۔ یہ وفد اکتوبر 1920 میں واپس ہندوستان آگیا اور واپسی کے بعد مولانا محمد علی نے اپنے ایک اور خواب کو عملی جام پہنایا، وہ تھا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام۔ 29 اکتوبر 1920 ء کو مولانا محمد علی نے مہاتما گاندھی کو ساتھ لے کرعلی گڑھ کالج کی مسجد کے ہال میں ایک نئے تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا جو سرکاری انتظام سے آزاد تھا۔ اس کا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ رکھا اور اس کا افتتاح دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمود حسن سے کرایا۔ مولانا محمد علی 22نومبر 1920 کو جامعہ کے اولین وائس چانسلر مقرر ہوئے مگر اس حیثیت سے وہ صرف چھ مہینے کام کرسکے اور اپریل 1921 میں مدراس جاتے ہوئے والٹائیر اسٹیشن پر گرفتار کرلئے گئے۔ جرم یہ تھا کہ انہوں نے کچھ دن پہلے کراچی میں ایک ایسی تقریر کی تھی جس سے مسلمان سپاہیوں کے دل میں انگریزی سرکار کے خلاف منافرت کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس قید سے انہیں اگست 1923 میں رہائی ملی۔
دسمبر1923 میں مولانا محمد علی جوہر کو کانگریس کاصدر منتخب کیاگیا لیکن وہ غالباً ایک برس کے عرصہ میں ہی اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے 1924 میں کامریڈ اور ہمدرد دوبارہ نکالنے شروع کئے۔لیکن انھیں اس میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔1926میں ”کامریڈ“ اور مارچ 1929 میں ”ہمدرد“ کی اشاعت بند ہوگئی ۔ جتنے عرصہ بھی یہ دونوں اخبار منظرعام پر رہے برطانوی حکومت کے ایوانوں میں ان کی گونج سنائی دیتی رہی۔ انہوں نے اپنے اخبار کے ذریعہ نہ صرف برطانوی سامراج کی چولیں ہلائیں بلکہ صحافت کو بھی ایک نیارنگ وآہنگ عطا کیا۔ ان اخبارات کی اشاعت کے پس پشت تجارتی مقاصد نہ تھے اور نہ یہ ذریعہ معاش کے درجے میں تھے بلکہ یہ ایک مشن کے طورپر آزادی کی تحریک کو پروان چڑھانے اور آزادی کے متوالوں میں نیا جوش وجذبہ پیدا کرنے کے لئے منظرعام پر آ ئے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر نے ان اخبارات سے اوزار حرب کا کام لیا۔
مولانا محمد علی اور شوکت علی نے گاندھی جی کے شانہ بشانہ تحریک آزادی کو پروان چڑھایا۔ تحریک خلافت میں گاندھی جی کی شرکت دراصل علی برادرن کی کوشش کا ہی نتیجہ تھی۔ 1915 سے 1920 تک کے سیاسی حالات کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ حقیقت پوری شدت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ علی برادران کی کوشش سے قوم میں مہاتماگاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ علی برادران جب بھی مسلمانوں میں جاتے وہ گاندھی جی کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ جامعہ ملیہ کے قیام کی تقریب ہو یا پھر کانپور کی مسجد کا افسوسناک واقعہ۔ علی برادران مہاتماگاندھی کو خاص اہمیت دیتے تھے اور یہ تینوں رہنما اس دور میں جنگ آزادی کے سرخیل کہلاتے تھے۔
مولانا محمد علی کا سب سے اہم کارنامہ تحریک خلافت کو قرار دیاجاسکتا ہے کیونکہ اس تحریک کے حامیوں نے ترکی کی زبردست حمایت کی اور ببانگ دہل انگریزوں کو وطن چھوڑنے کا حکم دیا۔ گاندھی جی نے ترک موالات کی تحریک کو تحریک خلافت کے ساتھ اشتراک عمل کرنے پر زور دیا اور دونوں تحریکیں انگریزوں کے لئے زبردست چیلنج بن گئیں۔ گاندھی جی اور مولانا محمد علی جوہر کے اس اشتراک عمل کے نتیجہ میں ہندو مسلم اتحاد ویگانگت کی خوشگوار فضا قائم ہوئی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

نقوش زنداں از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۶/دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
میاں اعجاز شفیع 16/دسمبر/2004ء
خان آصف(آصف شاہ خان) 16/دسمبر/2003ء
رضا میر 16/دسمبر/2002ء
شیخ عنایت اللہ 16/دسمبر/1982ء
قدرت نقوی (سید شجاعت علی ) 16/دسمبر/2000ء
نگہت سلطانہ (گلزار بیگم ) 16/دسمبر/2002ء
وصی اکبر آبادی (محمد وصی اللہ) 16/دسمبر/1977ء
مولانا سید محمد داؤود غزنوی 16/دسمبر/1963ء
مولانا محمد عثمان خاں 16/دسمبر/2012ء
مولانا عبدالرب گونڈوی 16/دسمبر/2014ء
آغا خلش کاشمیری، طفیل احمد 16/دسمبر/1970ء
دیا بریلوی، نارائن داس ٹنڈن 16/دسمبر/1970ء
مہاشہ سدرشن، بدری ناتھ 16/دسمبر/1967ء
واقف مرادآبادی،سید یعقوب حسن 16/دسمبر/1969ء
مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی 16/دسمبر/1992ء
شوکت صدیقی 16/دسمبر/2006ء
قدرت نقوی، سید 16/دسمبر/2000ء
شوکت صدیقی 16/دسمبر/2006ء
عزیز احمد۔، پروفیسر 16/دسمبر/1978ء

Читать полностью…

علم و کتاب

اطہرفاروقی کی "انجمن"

معصوم مرادآبادی

/channel/ilmokitab

کوئی کچھ بھی کہے ہمارے دوست اطہرفاروقی کی قیادت میں اردو نہ سہی "انجمن" خوب ترقی کررہی ہے۔ انجمن ترقی اردو کا نیا آڈیٹوریم تیار ہوگیا ہے۔ لائبریری بھی ڈیجیٹلائز ہوگئی ہے اور خود انجمن کے جنرل سیکریٹری کا کمرہ بھی بہت آراستہ ہوگیا ہے۔ وہاں رکھی ہوئی قدیم اشیاء کو بھی سلیقے سے سجادیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ بابائے اردو جس کرسی پر بیٹھا کرتے تھے اسے ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے تاکہ اس پر کوئی اورنہ بیٹھ سکے،خوداطہرفاروقی بھی نہیں۔ڈاکٹر خلیق انجم کے دورمیں بابائے اردو کی جو کرسی جنرل سیکریٹری کی پشت پررکھی ہوئی تھی وہ آگے آگئی ہے۔
بلاشبہ ہمارے پرانے دوست اطہرفاروقی بہت کام کے آدمی ہیں گرچہ انجمن میں ابھی تک ان کی صلاحیتوں کا پورا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک پروگرام میں 'اردو گھر' جانا ہوا تو اطہرفاروقی سے انجمن کی چھوٹی سی لفٹ ہی میں ملاقات ہو گئی۔ ان کے دائیں ہاتھ میں پلاسٹر بندھا ہوا دیکھ کر تشویش ہوئی۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کے آدمی ہیں اور ان کی ذہنی تربیت بائیں بازو کے دانشوروں کی سب سے بڑی پناہ گاہ جے این یو میں ہوئی ہے۔پرانی کہاوت ہے کہ ٹوٹا ہاتھ گلے کو آتا ہے۔ اطہرفاروقی کا ہاتھ بھی ان کے گلے کے نزدیک تھا۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے خاصی تفصیل سے اس فریکچر کا حال بیان کیا جس سے وہ پچھلے دنوں دوچارہوئے تھے۔ ان کی تفصیل جان کر مجھے طنز ومزاح کے مشہور شاعرعلامہ اسرار جامعی بہت یاد آئے۔ ایک دن وہ اوکھلا میں اپنے گھر کے آس پاس ٹہلتے ہوئے مجھے ملے تو ان کے بائیں ہاتھ میں پلاسٹر چڑھا ہوا تھا اور ان کا بھی ہاتھ گلے کو آیا ہوا تھا۔ میں نے جب ان سے اس کا سبب پوچھا تو وہ شرماکرکہنے لگے ”کچھ نہیں ، ہاتھ بھاری ہوگیا۔“
اسرار جامعی توطنز ومزاح کے شاعر تھے اور ان کی شاعری ہی نہیں گفتگو میں بھی ان کا فن جھلکتا تھا۔ مگر اطہرفاروقی کا طنز ومزاح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک سنجیدہ دانشور ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہوئے کچھ احتیاط بھی برتنی پڑتی ہے۔اردو سے زیادہ وہ انگریزی سے متاثر ہیں اسی لیے ان کے مزاج میں نزاکت اور نرگسیت دونوں ہیں۔ شروع شروع میں جب وہ انجمن کے جنرل سیکریٹری بنے تھے تو وہاں انھوں نے اپنے کام کا آغاز انگریزی سیمیناروں سے کیا تھا۔ ایسے ہی ایک سیمینار میں ہماری ان سے جھڑپ بھی ہوگئی تھی۔ جو بعد میں رفع دفع ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے بہت پرانے اور بے تکلف دوست ہیں۔
اطہرفاروقی سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ روزگار کی تلاش میں نئے نئے سکندرآباد سے دہلی آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم کتابت اور خطاطی کا فن سیکھ کر بعض اردو اداروں میں کتابت کررہے تھے۔غالباً 1982 کا سنہ تھا۔ پرانی دہلی کی گلی قاسم جان میں ماہنامہ ڈائجسٹ ”چہاررنگ“ کا دفتر مسلم ہوٹل کے دوکمروں میں واقع تھا۔ ایک میں ”چہاررنگ“ کے مالک و مدیر طارق مصطفی صدیقی بیٹھا کرتے تھے جو مولانا عبدالوحید صدیقی کے بیٹے تھے۔ہرقسم کی لت پالنے کا انھیں شوق تھا۔ہمارا کمرہ ہوٹل کی بالکونی کی طرف تھا جہاں سے ہم گلی قاسم جان کی رونقوں کا نظارہ کرتے تھے، جبکہ طارق صدیقی اپنی اسسٹنٹ کے ساتھ کمرہ بند کرکے تنہا بیٹھتے تھے۔ ایک دن وہ ہمارے کمرے میں آکر ادارے کے منیجر ضیاء الرحمن سے کہنے لگے ”ضیاء صاحب، سکندرآباد سے ایک لڑکا آیا ہے کام کی تلاش میں۔ ہے بہت خوبصورت۔ اردو بھی جانتا ہے۔رکھ لیں اسے۔" طارق صدیقی نے نئے مہمان کی خوبصورتی کاذکر اس انداز میں کیا کہ ہمارا بھی اسے دیکھنے کو جی چاہا۔ تھوڑی دیر میں طارق صدیقی اس لڑکے کولے کر ہمارے کمرے میں آئے تو ان کی بات درست نکلی۔ ضیاء صاحب نے نام پوچھا تو بتایا۔”اطہرفاروقی۔“
یہ اطہرفاروقی سے ہماری پہلی ملاقات تھی، جو ان کی خوبصورتی کے حوالے سے ہوئی تھی۔خوبصورت تو ماشاء اللہ وہ آج بھی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی عمر نے اس خوبصورتی پر بھی ڈورے ڈالے ہیں اور وہ ہماری طرح بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں۔پھرجب اطہرفاروقی کو اردو صحافت سے شغف ہوا تو ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا کہ ہماری جیب میں پیسے نہیں ہوئے تو اطہرفاروقی نے اپنی جیب سے چائے پلائی اور کبھی اطہرفاروقی کی جیب خالی ہوئی تو ہم نے انھیں چائے پر مدعو کیا۔ وہ بھی پرانی دلی کے چنڈوخانوں میں۔ ان سے بیشتر ملاقاتیں وہیں سڑک پر چلتے ہوئے یا پھر کسی اخبار یا میگزین کے دفتر میں ہوتی تھیں۔ اطہرفاروقی کی تعلیم تو جے این یو میں ہوئی ہے، لیکن ان کی ذہنی تربیت میں دولوگوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ان میں ایک نام ہے مشہورشاعر مخمور سعیدی کا اور دوسرانام ہے افسر جمشید کا۔ افسر جمشید ہر فن مولا قسم کے آدمی تھے۔ ”روبی“ میگزین کے ایڈیٹر تھے اور بجنور سے ان کا تعلق تھا۔ خوبی ان کی یہ تھی کہ وہ لوگوں کو نیند کے بغیر خواب دکھاتے تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: اے ائی کی افادیت
حریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

آج آپ کی اس بزم میں اے آئی ٹیکنولوجی کا خوب چرچا رہا، اور اس کے توسط سے دستیاب اس بزم علم وکتاب، اور مکتبۃ النور کے بارے میں اے آئی کی فراہم کردہ معلومات کا علم بھی ہوا، اس پر ہم اس کے علاوہ کیا کہ سکتے ہیں کہ اس نے آپ کی اس بزم کا جو تعارف پیش کیا ہے ، اللہ اسے ایسا ہی بنائے۔
رہی بات اے آئی کی افادیت کی تو اس بزم میں اس کے سلسلے میں ہم سے بہتر معلومات رکھنے والے دانشور موجود ہیں، ہم تو ٹہرے پرانی نسل کے آدمی ، اب بھی علم کے لئے کتابوں پر انحصار کرتے ہیں، ویسے ہماری نائطی زبان کی ایک کہاوت ہے، ((سو بلان لوکھڑی چی))، یعنی سوئی کا جب ذکر ہو تو اس کا مطلب ہے کہ یہ لوہے سے بنی ہوئی ہے۔ بہت کچھ نہیں تو ٹیکنالوجی کی دنیا میں اے آئی کے اس نئے جن کی کچھ نہ کچھ خبر ہم بھی رکھتے ہے۔ بہت ممکن ہے یہ خبر پکی نہ ہو۔
ہم لوگ مطالعہ اور کتب بینی کاذکر بہت کیا کرتے ہیں، جب کوئی قاری اس سلسلے میں مشورہ طلب کرتا ہے تو اسے اس بات کا اہتمام کرنے کو کہتے ہیں کہ کتاب شروع کرنے سے پہلے اس کا دیباچہ اور فہرست موضوعات مکمل پڑھ لے، تاکہ کتاب کا منہج اور اسلوب سمجھ میں آجائے۔
جب جب کچھ بھولے بھالے لوگ ہم جیسوں کو معلومات کا پٹارا سمجھ کر کوئز مقابلوں کے سوالات کے اوراق لے کر آتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ اس میدان میں تو ہم کورے ہیں، تو لوگ تعجب سے پوچھتے ہیں آپ تو کتابیں بہت پڑھتے ہیں،تو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ یہ کوئز کے سوالات علم میں اضافہ نہیں کرتے، کیونکہ یہ درمیان درمیان سے ہوتے ہیں، یہ کسی موضوع کے تسلسل اور منہاج کی بنیاد پر نہیں ہوا کرتے۔ علم کے مینار پر چڑھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے پائیدان پر ایک ایک قدم رکھ کر اوپر جاتے ہیں، پائیدان پر قدم رکھے بغیر علم کے مینار کی چوٹی پر نہیں پہنچا جاسکتا۔
کمپوٹر، انٹرنٹ، اے آی بنیادی طور پر معلومات کے جھیل اور دریا ہیں، اگران کے پانیوں سے آپ کو کھیتی سیراب کرنی ہو تو پھر آپ کو کھیتی تک ایک مربوط نالی یا پائپ کے ذریعہ پانی پہنچانا ہوگا، درمیان درمیان سے پانی نکال کر پانی کھیتی کو سیراب نہیں کیا جاسکتا۔
کمپوٹر، انٹرنٹ کا کام معلوما ت کو اکٹھا کرنا ہے، اور اے آئی کا کام انہیں ایک نالے اور پائپ کی طرح مرتب انداز میں آگے تک لے جانا ہے۔
اگر انٹرنٹ پر معلومات ہونگی، تو پھر مرتب انداز سے آپ تک معلومات پہنچ پائیں گی، اور اگر انٹرنٹ پر معلومات نہیں ہونگی تو پھر آپ تک درست معلومات نہیں پہنچ سکیں گی۔
اے آئی کے پاس اپنا کچھ نہیں ہوتا، بس اسے معلومات اور مرتب کرنے کا ایک سلیقہ سکھایا گیا ہے، جومصنوعی عقل کے نام سے جانی جاتی ہے۔ معلومات کے حصول میں اس کی رسائی وہاں تک بھی دی گئی ہے جہاں گوگل جیسے سرچ انجنوں کی سانس پھول جاتی ہے، اس پر سونے سہاگہ کا کام اس کی مصنوعی عقل کررہی ہے جو ان وسائل سے دستیاب معلومات کو مرتب کرکے پیش کرتی ہیں۔ اے ائی کا اصل کام معلومات کو مرتب شکل دینا ہے۔
اب یہی دیکھئے علم وکتاب کے بارے میں اسے مفید معلومات انٹرنٹ پر مل گئی، تو اس نے اسے مرتب کرکے آپ کے سامنے کیسے خوبصورت انداز سے پیش کردیا۔
لیکن مکتبہ النور کے بارے میں اسے جب پوچھا گیا تو اسے کافی مستند معلومات نہ مل سکیں، لہذا اسے جو ملا اپنی عقل کے مطابق ترتیب دے کر آپ کو بھیج دیا، اے ائی کو جب انٹرنٹ پر درست معلومات نہیں ملتی تو اس کا سر چکرا جاتا ہے، چونکہ اسے بہانہ کرنا نہیں آتا، ایک ملباری محنت کش کی طرح جو نوکری پر لگنے کے وقت عرب شیخ کے ہر سوال پر کہتا ہے کہ انا معلوم، اے ائی بھی خاموش نہیں بیٹھتا، اور کچھ نہ کچھ جواب دے ہی دیتا ہے، اس وقت اس کی حالت اس طالب علم کی ہوجاتی ہے جو ہر سوال کے جواب کا اختتام اس عبارت سے کرتا ہے کہ "اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہے۔ یہ صحراء کا جہاز کہلاتا ہے۔ اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔ لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں"۔ اے آئی کے جوابات میں اس صورت حال سے سابقہ ہر ایک کو پڑتا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

امروہہ کو چھوڑ کر اپنے آپ کو کم بخت محسوس کیا تھا یا نہیں مگر میں نے……بہرحال“
(”شاید“ صفحہ 14)
جون ایلیا کی پیدائش امروہہ کے جس خاندان میں ہوئی تھی وہاں شعر وشاعری اور علم وآگہی کے دریا بہتے تھے۔ یہ اپنے آپ میں انوکھی مثال ہے کہ ان کے گھر میں پیدا ہونے والا ہر شخص شاعر تھا۔ اس طرح وہ خاندانی شاعر تو تھے ہی‘ جس ماحول میں ان کی پرورش اور پرداخت ہوئی وہاں تنگ نظری کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ شعر وادب کا سلسلہ ان کے یہاں کئی پشتوں سے چلا آرہا ہے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا چار بھائی تھے اور چاروں کے چاروں شاعر تھے۔ ان کے دادا سید نصیر حسن نصیر بھی شاعر تھے اور پردادا سید امیر حسن امیر اردو اور فارسی دونوں میں شعر کہتے تھے۔ بقول جون ایلیا سید امیر حسن کے داداسید سلطان احمد، میر تقی میرؔ کے ارشد تلامذہ سید عبدالرسول نثاراکبرآبادی کے شاگرد تھے۔ خودجون ایلیا کو بھی میر سے عشق تھا۔ جون ایلیا کے قریبی دوست انیق احمد نے ان کی کیفیات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
”جون ایلیا اذیت پسند، اذیت رساں اور بے چین روح کا نام تھا۔ جون ایلیا کو تاریخ، عمرانیات،مذاہب عالم، فلسفہ، شاعری اور بے شمار علوم کا شغف نہیں، ان پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعری کرنا نہیں،شاعری میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ سرتا پاشاعر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص ان سے ہمیشہ علمی اور ادبی موضوعات پر گفتگو کرے۔ وہ اس عہد سے گلہ مند تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان سے ان کی خواہش معلوم کی جاتی تو وہ اس عہد میں پیدا ہونا ہی پسند نہ کرتے۔“
جون ایلیا کو شاعری کے ساتھ فلسفہ پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اشتراکیت کے ہمنوا ہوئے۔ جون ایلیا نے اپنی زندگی میں جس قدر نشیب وفراز کا مقابلہ کیا اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا تمام ہوگیا ہوتا مگر یہ علم کا فیضان ہی تھا کہ اس نے انہیں کبھی ٹوٹنے اور بکھرنے نہیں دیاوگرنہ وہ عمر کے ایک حصہ میں جن کیفیات سے دوچار رہے ہیں اس میں خود کو سنبھالنا اور یکجا رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ بے مثال شاعری کرنے کے باوجودتقریباً 30سال تک اپنے شعری مجموعے کی اشاعت سے فرار اختیار کئے رہے، حالانکہ اس کاسبب بھی تھا اور وہ بھی بڑاعجیب۔ ان کے کئی عزیزوں، دوستوں اور چاہنے والوں نے ان کے مجموعہ کلام کی اشاعت کے لئے انتھک کوششیں کیں لیکن جون نے کسی کو قابو نہیں دیا اور یہ کوششیں بے نتیجہ رہیں۔ انہوں نے ”شاید“ کے دیباچہ میں اس روئیداد کو کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے۔
”آپ سوچتے ہوں گے کہ میں نے اپنا کلام نہ چھپوانے میں آخر اتنا مبالغہ کیوں کیا۔ اس کی وجہ میرا ایک احساس جرم اور روحانی اذیت ہے ……میں جس اذیت ناک حالت میں مجموعہ مرتب کرنے پرمامور ہوا تھا اس حالت میں شاید ہی کسی شاعر نے اپنا مجموعہ مرتب کیا ہو۔ میں اس حالت سے کہیں زیادہ اذیت ناک حال میں تھا اور ہوں، جس میں دسویں صدی عیسوی کے عظیم المرتبت ادیب اور مفکر ابو حیان توحیدی نے اپنے حالات سے تنگ آکر اور اس عہد کے ”باذوق امراء“ کی خوشنودی حاصل کرنے کی ناگوار مشقت سے بیزار ہوکر اپنی ناکام زندگی کے آخری لمحوں میں اپنی تصنیفات کے مسودے جلوادیئے تھے۔“
جون ایلیا نے اپنی عمر کے تقریباً دس برس نہایت اذیت ناک نفسیاتی الجھنوں میں گزارے جس سے ان کے دل ودماغ پر گہرا اثر پڑا اور وہ اس عرصہ میں دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوگئے تھے۔ انہوں نے اس کیفیت کوجس انداز میں بیان کیا ہے اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”1986 کا ذکر ہے، میری حالت گزشتہ دس برس سے سخت ابتر تھی۔ میں ایک نیم تاریک کمرے کے اندر ایک گوشے میں سہما بیٹھا رہتا تھا۔ مجھے روشنی سے، آوازوں سے اور لوگوں سے ڈرلگتا تھا۔ ایک دن میرا عزیز بھائی سلیم جعفری مجھ سے ملنے آیا۔ وہ چند روز پہلے دبئی سے کراچی آیا تھا۔ اس نے مجھ سے کہاکہ جون بھائی، میں آپ کو فرار اور گریز کی زندگی نہیں گزارنے دوں گا۔ آپ نے مجھے لڑکپن سے انقلاب کے، عوام کی فتح مندی اور لاطبقاتی سماج کے خواب دکھائے ہیں۔ میں نے کہا۔ ”تجھے معلوم ہے کہ میں سالہا سال سے کس عذاب میں مبتلا ہوں؟ میرا دماغ، دماغ نہیں، بھوبل ہے آنکھیں ہیں کہ زخموں کی طرح تپکتی ہیں۔ اگر پڑھنے یا لکھنے کے لئے کاغذ پر چند ثانیوں کو بھی نظر جماتا ہوں تو ایسی حالت گزرتی ہے جیسے مجھے آشوب چشم کی شکایت ہو اور ماہ تموز میں جہنم کے اندر جہنم پڑھنا پڑھ رہا ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ میں اب بھی اپنے خوابوں کو نہیں ہارا ہوں۔ میری آنکھیں دہکتی ہیں مگر میرے خوابوں کے خنک چشمے کی لہریں اب بھی میرے پلکوں کو چھوتی ہیں۔“ (“شاید صفحہ 13)

Читать полностью…

علم و کتاب

لیکن اس میں شک نہیں کہ تاخیر سے سہی تحقیق کے اس انداز کو عرب علماء نے بام عروج تک پہنچادیا،جس کا سہرا مصری محدث ومحقق علامہ احمد محمد شاکر علیہ الرحمۃ کو جاتا ہے، آپ نے امام شافعی کے الرسالۃ کا محققہ ایڈیشن ۱۹۳۹ء میں پہلی مرتبہ پیش کیا، اور بعد میں آنے والے محققین اور قلمی کتاب شناسوں کے لئے علامہ احمد شاکر کا یہ محققہ نسخہ ایک آئیڈئل بن گیا، اور عرب جامعات خاص طور پر سعودی جامعات نے اس منہج کو بطور نمونہ اپنے اسکالروں کو لازمی قرار دیا، اس وقت عالم عرب سے تفسیر، حدیث فقہ، تاریخ وغیرہ علوم کی جو کتابیں پہلی مرتبہ چھپتی ہیں،یا ڈاکٹریٹ کے مقالات کے لئے منتخب ہوتی ہیں، ان میں دنیا بھر سے دستیاب قلمی نسخوں کو اکٹھا کرکے ان میں سے چند ایک نسخوں کو مختلف خصوصیات کی بنیاد پر موازنے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے، اور محقق حاشئے میں اختلاف نسخ کے ذکر کا اہتمام کرتا ہے، مذہب شافعی اس لحاظ سے بڑا خوش نصیب ہے ،تحقیق کے جدید معیارات کے مطابق جتنی محنت اس کی کتابوں پر ہوئی ہے، دوسرے مذہب کی کتابیں اس سے بہت پیچھے ہیں، حالانکہ صلاح الدین ایوبی کے مختصر دور کے علاوہ تاریخ میں مذہب شافعی کبھی بھی کسی ملک کا سرکاری مذہب نہیں رہا، نہ ہی کسی حکومت وسلطنت کی اسے سرپرستی حاصل رہی۔
المبسوط کی حیثیت مذہب حنفی کے انسائیکلوپیڈیا کی ہے، اور جن حالات میں یہ لکھی گئی ہے، اور جو قربانی مصنف نے اسے مرتب کرنے کے لئے دی ہے، اس کی مثال دوسروں کے یہاں شاید ہی ملتی ہو، لیکن اس کتاب کی بے قدری دیکھئے کہ آج تک تحقیق کے جدید معتبر معیارات کے مطابق اس کا کوئی قابل ذکر نسخہ شائع نہ ہوسکا۔
آج سے سواسوسال پہلے ایک مالکی المذہب ناشر نے اس کا اپنے وقت کے اعلی معیار مطابق جو ایڈیشن شائع کیا تھا وہ اپنے وقت کے لحاظ سے ممکن ہے اس کتاب کا اعلی ایڈیش ہو، لیکن ہرگز ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس عظیم کتاب کی قرار واقعی کوئی علمی وتحقیقی خدمت آج کی دنیا میں رائج اور معتبر تحقیقی و علمی معیارات پر کی گئی ہے، کتاب میں جو املائی غلطیاں بھری پڑی ہیں، اس پر ہمارے ایک دوست محقق نے کہا تھا، اس کی ان مطبوعہ عبارتوں کی بنیاد پر کوئی رائے دینا مشکل ہے۔
مولانا محمد طلحہ منیار صاحب نے جو نکتہ اٹھایا ہے ہماری رائے میں یہ مسئلہ المبسوط کی کسی دوسری روایت کا نہیں ہے، یہ مسئلہ دراصل تمام نسخوں کو سامنے رکھ اس کتاب کے کسی معیاری ایڈیشن کی عدم موجودگی ہے، اگر تمام دستیاب اہم قلمی نسخوں کے موازنے کے ساتھ کوئی محققہ ایڈیشن سامنے ہو، تب یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ المبسوط کی جس عبارت میں تعارض اور فرق نظر آرہا ہے یہ کہیں ناسخوں کی غلطی یا اس کتاب کی اشاعت کے موقعہ پر اس کے معیاری نسخوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے تو نہیں۔ جب دستیاب نسخوں کے موازنہ سے تصحیفات اور غلطیوں کی نشاندہی ہوگی، تب کتاب کی دوسری روایت کی تلاش مناسب ہوگی۔ ویسے ابھی تک مخطوطات کی فہرستوں میں المبسوط کی کسی دوسری روایت کی نشاندہی ہمیں نہیں ملی۔ وللہ ولی التوفیق۔
2024-12-13

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: کیا المبسوط للسرخسی کی دوسری روایت پائی جاتی ہے؟
تحریر: عبدا لمتین منیری (بھٹکل)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

ہمارے محترم مولانا محمد طلحہ منیار صاحب نے گجرات سے علم وکتاب گروپ پر امام سرخسی کی کتاب المبسوط کی ایک عبارت پر اشکال کرتے ہوئے دریافت کیا ہے کہ:"طالعت بعض مخطوطات المبسوط، فوجدت العبارة فيه مختلفة عما في المخطوطات الأخرى، فما أدري هل هناك روايتان للمبسوط؟"
جس کا مطلب ہے کہ المبسوط کے مختلف نسخوں میں میں ایک ہی مسئلے میں دو مختلف عبارتیں پائی جاتی ہیں، تو کیا المبسوط دو روایتوں سے منقول ہے؟
ہمارے خیال میں مولانا منیار صاحب سے بہترہماری اس بزم میں اس کا جواب شاید ہی کوئی اور دے سکے، البتہ ہماری بزم میں مولانا مفتی انوار خان قاسمی بھی موجود ہیں، وہ بھی اس سلسلے میں بہتر بتاسکتے ہیں، کیونکہ یہ ان کا بھی میدان ہے، اور انہیں المبسوط سے گہرا تعلق ہے۔
ویسے چھوٹا منہ بڑی بات یہ ناچیزتو اس میدان میں کودنے کا اہل نہیں، لیکن دخل درمعقولات کرتے ہوئے اس بحث کو مہمیز کرنے کی غرض سے اس میں شامل ہوجائے تو کیا حرج ہے؟
جہاں تک ہماری معلومات ہیں، امام سرخسی کی المبسوط کا ابھی تک کوئی معیاری ایڈیشن منظر عام پر نہیں آیا۔ کارل برکلمان نے اس کتاب کے سلسلے میں مندرجہ ذیل معلومات دی ہیں۔
( كتاب المبسوط في الفروع ) : هو فى الواقع شرح (كتاب الكافي ) لمحمد بن أحمد المروزى الحاكم الشهيد ، الذي هو مختصر ( كتاب الأصل ) للشيباني ( الترجمة العربية ٣ / ٢٤٨ ) : كتبه في السجن بأوزجند من الذاكرة وأتمه في فرغانة ، وهو في خمسة عشر مجلداً ( حاجي خليفة ، الطبعة الأولى ٥ / ۱۱۳۲۳ ) : المتحف البريطاني ثان ٢٧٦ - ۲۷۷ ؛ المكتب الهندى أول ٢٠٤ ، ١٥٢٣ ؟ تونس ؛ جامع الزيتونة ٤ / ۲۱۹ : ٤٥۹ ؛ إبراهيم باشا ٦٤٨ - ٦٥١ ؛ بني جامع ٥٤٢ - ٥٤٤ ؛ القاهرة أول ٣ / ١٠٩ : كلكتا ٣٤٩ ؛ الجمعية الآسيوية ص ۱۸ ؛ بوهار ۱۵۱ ؛ رامپور أول ٢٤٥ : ٥٠٥ . وطبع في عشرين جزءاً بالقاهرة سنة ١٣٢٤ – ١٣٣١
((تاریخ الادب العربی ۔ کارل بروکلمان ۳/۶۶۴))
بروکلمان نے اپنے زمانے تک کتاب کے قلمی نسخوں اور اس کے مطبوعہ ایڈیشنوں کے بارے میں معلومات دی ہیں۔
الفھرس الشامل للتراث العربی الاسلامی المخطوط کے مرتبین نے المبسوط کے (169) قلمی نسخوں کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے بعض 623 ھجری میں مصنف کی وفات کے دیڑھ سو سال کے اندر نقل کئے گئے ہیں۔
(الفھرس الشامل للتراث العربی المخطوط ۔ الفقہ واصولہ (۹/۲۲)

اور المعجم الشامل للتراث العربي المطبوع کے مطابق ۱۹۰۶ء سے ۱۹۸۰ء تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔
پہلا ایڈیشن محمد راضی الحنفی اور ان کے رفقاء کی تصحیح سے الحاج محمد افندی ساسی المغربی کے خرچے پر (۱۹۰۶ء سے ۱۹۱۲ء) کے دوران مطبعۃ السعادۃ قاہرہ سے شاؑئع ہوا۔
دوسرا ایڈیش ۱۹۷۰ء میں دار المعرفہ بیروت سے شائع ہوا،یہ ۱۹۰۶ء کے ایڈیشن کا عکس ہے، اس کے آخر میں ایک جلد میں المبسوط کی فہرست ہے، جس میں اطراف کی ترتیب پر آیات و احادیث، اور جملہ جلدوں کی فہرست موضوعات کتاب ہی کی ترتیب پر یکجا کی گئی ہیں۔ موضوعات کی الف بائی ترتیب کی زحمت گوارا نہیں کی گئی ہے۔ فہرست ساز کی حیثیت سے شیخ خلیل المیس کی اس میں کچھ زیادہ محنت نظر نہیں آتی، ویسے ایک ملاقات میں آپ نے اس ناچیز سے کہا تھا کہ انہوں نے کتاب کی تصحیح بھی کی ہے، لیکن ہماری ناچیز رائے میں نئی تحقیق کے بجائے پرانے ایڈیشن کے فوٹوپر معیاری انداز سے تصحیح ممکن نہیں ہے۔
تیسر ایڈیشن ۱۹۸۰ء دارالمعرفۃ ، المرکزی الالکترونی للخدمات الطباعیۃ بیروت سے۔ اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في صفة مزاح رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 238-241

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

اقبال کا خیال تھا کہ سوگواری کی ظلمات میں مرنے والوں کی یادوں کی، جبین اسی طرح چمکتی رہتی ہے، جس طرح اندھیری رات میں تارے چمکتے رہتے ہیں، معلوم نہیں کب تک میری آنکھیں دیکھتی رہیں گی کہ وہ آرہے ہیں، جارہے ہیں، خدا جانے کب تک میرے کان سنتے رہیں گے کہ وہ پکار رہے ہیں الجھ رہے ہیں، الجھ کر میری باتوں کو مان رہے ہیں، ان کی وجہ سے میرے لئے دارالمصنفین کی ہر صبح حسین اور ہر شام رنگین تھی، مگر اب ان کے بعد اس کی خاموش فضا بڑی غمگین اور اس کی سونی رات کی تاریکی، انتہائی اندوہ گیں ہوگئی ہے،اس کے احاطہ میں شام آتی ہے تو میرا دل مفلس کا چراغ بن کر بجھابجھا سا رہتا ہے، استاذ المحترم حضرت سید صاحب نے لکھنا پڑھنا تو سکھایا تھا، ماتم کرنا نہ سکھا سکے تھے، کیسے لکھوں کہ آہ! بزم شبلی کی قندیل کی آخری شمع بجھ گئی، سلیمان کی امانت کا بار اٹھانے والا آسمان پر اٹھایا گیا، دارالمصنفین کی شاندار رو کو سینے سے لگائے رکھنے والا سپرد خاک کردیا گیا، اور اپنے ایک ہمراز، ہم مشرب اور ہم پیالہ کی تنہائی اور بے چارگی پر دارالمصنفین کے پھول پتے، شجر اور حجر رونے کے لئے چھوڑ گئے، حالی نے اپنے استاد غالب کی وفات کے بعد بزم سلطانی تخت خاقانی، راح ریحانی، عقل رمانی، اور حسن کنعانی کو فانی پاکر ہستی کو محض سراب اور طلسم خیال پایا تھا، اب سے پہلے حالی کے ان جذبات کو محض شاعرانہ تخیل سمجھتا تھا، مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ یہ کیفیات حقیقت بھی بن جاتی ہیں، کاش میں تھوڑی دیر کے لئے بھی متمم بن نویرہ بن جاتا تو جس طرح وہ اپنے بھائی کی موت پر مرثیہ لکھ کر خود رویا، اور گلی گلی گھوم کر دوسروں کو رلایا، اسی طرح میں بھی پردرد نوحہ لکھ کر آتا اور لوگوں کو رلاتا۔
خوں شددلِ خسروز نگہداشتن راز

چوں ہیچ کسے محرم اسرار ندارم
دارالمصنفین کے مستقبل کی شب تاریک اور بیم موج و گرداب سے گھبرا اٹھا تو اضطرابی کیفیت میں دو تین روز لکھنؤ جاکر مولانا ابوالحسن علی ندوی کے ساتھ رہا، صحبت اولیاء اﷲ میں جو تاثیر ہوتی ہے وہ ان کی مجلس میں پائی، ان کی حوصلہ افزائی سے بڑا سہارا ملا ان کے ساتھ مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا حافظ عمران خاں ندوی نے دارالمصنفین کی دیرینہ روایات کو برقرار رکھنے کے سلسلہ میں باہمی مشورے کئے وہاں سے ردولی آیا، مرحوم کی لڑکی اور ان کے اعزہ کو دیکھ کر پھر غم امنڈ پڑا، ان کی قبر دیکھی نہ جاسکی، حضرت شیخ عبدالحق کی لحد مبارک پر حاضری دی، فاتحہ پڑھتے وقت سکون قلب کی دعا مانگی، اس وقت وہاں کے سجادہ نشین جناب شاہ آفاق احمد صاحب سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے مجھ کو دیکھتے ہی کہا:
اک عمر کا ساتھی چھوٹا ہے صبر آتے آتے آئیگا
یہ سن کر پھر غم تازہ ہوگیا، مگر انھوں نے یہ شعر بھی سنایا:
بہ گیتی گر کسے پایندہ بودے

ابوالقاسم محمدؐ زندہ بودے
اس مشہور شعر سے سوزشِ دل پر تسکین کے کچھ چھینٹے پڑے۔
انھوں نے علامہ شبلی اور سید صاحبؒ سے زیادہ عمر پائی، مگر اس وقت دارالمصنفین کو ان کی سربراہی اور رہنمائی کی شدید ضرورت اتنی ہی تھی جتنی کہ ایک محاذ پر ایک جوان سپہ سالار کی ہوتی ہے، اس لئے ان کی اچانک رحلت جوانمرگی سے کم المناک نہیں، دارالمصنفین اپنے سوزسینہ کے داغ سے بے چین اور درد و غم سے فگار ہوکر فلک سے کہہ رہا ہے کہ کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتے کوئی دن اور مگر مصلحت خداوندی اور مشیت ایزوی کا دامن تھام کر اسی کی بارگاہ میں اب صرف یہی دعا کرنا ہے کہ وہ اپنی خدا ترسی، دینداری، نیک نفسی، فرض شناسی اور اوصاف کی پاکیزگی کی بدولت کوثر کی موجوں اور تسلیم کی لہروں سے سیراب ہوں، آمین ثم آمین، الوداع اے شبلی کے علمی لشکر کے آخری رجز خواں! الوداع اے سلیمان کے کارناموں کے حدی خواں! الوداع اے جان جانان دارالمصنفین! سلام! شبلی کی روح کی طرف سے سلام! سلیمان کی سند علم کی طرف سے سلام! کارکنان دارالمصنفین کی طرف سے سلام! اور ہاں ایک مہجور مغموم، مخزوں، خستہ دل اور شکستہ خاطر رفیق کار کی طرف سے بھی سلام! ہزاروں سلام، لاکھوں سلام۔
(’’ص ۔ ع‘‘، جنوری ۱۹۷۵ء)

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرت سید صاحب ان کے ادب و انشا کے معترف رہے، انھوں نے دارالمصنفین کے سلسلۂ صحابہؓ کی تین جلدیں لکھیں جو اچھی زبان کی وجہ سے بہت پڑھی گئیں، وہ اردو شعر و ادب کے کسی پہلو پر کچھ لکھ دیتے تو یہ اس صنف کا قابل قدر اضافہ جاتا، ان کے مضامین ’’اردو شاعری میں ہندو کلچر اور ہندوستان کے طبعی و جغرافی اثرات‘‘ اور ’’اردو زبان کی لسانی، علمی اور تمدنی حیثیت‘‘ سے بڑی ادبی و تحقیقی رہنمائی ہوئی، جگرؔ، اصغرؔ، حسرتؔ، اور اقبالؔ پر جو ناقدانہ مضامین لکھے، وہ ادبی حلقے میں بہت پسند کئے گئے، ان کے ادبی مقالات کے مجموعہ نقوش ادب کو اردو کے تنقیدی ادب میں اہم جگہ حاصل رہے گی، تاریخ اسلام پہلے بھی بہت لکھی گئی، مگر ان کی چار جلدیں اپنے موثر اور دل نشین انداز کی وجہ سے اس برصغیر میں بہت مقبول ہوئیں، یہ یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہیں، دارالمصنفین کی مطبوعات میں سیرۃ النبیؐ کے بعد ان ہی کی مانگ بہت زیادہ ہے، اسلام اور عربی تمدن ایک عربی کتاب سے ترجمہ ہے، مگر محض ان کے اسلوب کی وجہ سے اصل سے کم نہیں، دین رحمت میں اسلام کی رواداری اور فراخدلی کو کچھ ایسے دلکش پیرایہ میں پیش کیا کہ اس کے ہندی ترجمے کی اجازت کئی جگہ سے مانگی گئی، آخر میں انھوں نے حیات سلیمان کی تکمیل برسوں کی محنت کے بعد کی، اس کی اشاعت پر ہرطرف سے داد و تحسین ملی، اور حیات شبلی ہی کے پایہ کی تصنیف قرار دی گئی، معارف میں ان کے کچھ مضامین ابھی چند مہینے پہلے مسائل حاضرہ پر شائع ہوئے، جو اس قدر پسند کئے گئے کہ ان کے ترجمے عربی زبان میں بھی کئے گئے۔
شبلی کا ایجاز، سلیمان کا وقار، پھر ان کی انفرادی سلاست، روانی، شگفتگی اور پختگی ان کے اسلوب کا امتیازی رنگ ہوگیا تھا، وہ اپنی تحریروں کی بے ساختگی میں عالمانہ رنگ اور عالمانہ رنگ میں وزن اور وزن میں نکھار پیدا کرتے رہے، اپنی تصنیف و تالیف میں دبستان شبلی کے انداز بیان اور مسلک کا پورا لحاظ رکھتے، اس کی نگرانی رفقائے دارالمصنفین کی تحریروں پر بھی رکھتے، مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم کو بھی ان کی ادبی خوش مذاقی اور تصنیفی خوش سلیقگی پر بڑا بھروسہ تھا، مولانا کی مشہور اور مقبول کتاب اقبال کامل کو جامع اور دلنشین بنانے میں ان کا بڑا حصہ رہا، میری تحریروں میں بڑی بے تکلفی سے ترمیم کردیتے، جس کو غور سے پڑھ کر میں خوش ہوجاتا، ان کو اپنی تحریر کو دکھانے میں لذت ملتی، اگر پسند کرلیتے تو اسی کو اپنی محنت کا اصلی صلہ سمجھتا، پھر فکر نہ ہوتی، کہ کوئی اور کیا رائے رکھے گا۔
معارف کے معیار کو برقرار رکھنے میں اپنی دوسری تصنیفی سرگرمیاں قربان کیں اور اس کے ہر مضمون کی نوک پلک کو شروع سے آخر تک درست کرتے، بعض اوقات پورے مضمون کو ازسرنو لکھ دیتے، حک و اصلاح اور خشو و زائد کو دور کرنے میں، ان کو بڑی مہارت تھی، معارف میں ان کے شذرات شوق سے پڑھے جاتے، حضرت سید صاحب نے ان کو پڑھ کر داد دی کہ اب ’’س‘‘ اور ’’م‘‘ میں کوئی فرق نہیں رہا، ملک کے اخبارات و رسائل میں برابر نقل ہوتے رہتے، کبھی ان کے لکھنے میں ان کا لب و لہجہ تیز و تند ہوجاتا، مگر ان کے شگفتہ انداز بیان کی وجہ سے تلخی پیدا نہیں ہونے پاتی، بلکہ ان کی سخت رائے مخلصانہ اور تعمیری سمجھی جاتی، اہم شذرات کے چھپنے سے پہلے مجھ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوتا، اس کے تیز لب و لہجہ سے اختلاف کرتا تو وہ اپنی شرافت، اخلاق سے اس میں ترمیم کردیتے، مگر خفا ہوکر کہتے کہ میری مصلحت اندیشی سے ان کا قلم رکتا ہے اور کبھی ترمیم کرنے پر یہ کہہ کر راضی نہ ہوتے کہ بعض اوقات تیز اور بے لاگ تحریر بھی مفید پڑجاتی ہے اور ضرور مفید پڑتی رہی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ : ۱۲ / دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اقتدارقدر(محمد اقتدار الدین حسن) 12/دسمبر/1994ء
امیر حسنین جلیسی بدایونی، سید 12/دسمبر/1988ء
زبیری، ایم اے 12/دسمبر/2010ء
ساقی امروہوی (قائم رضا) 12/دسمبر/2005ء
شہنشاہ حسین ایڈوکیٹ 12/دسمبر/1990ء
شیرخاں، میجر جنرل 12/دسمبر/1994ء
عبدالمجید صدیقی، پروفیسر 12/دسمبر/1979ء
محمد افتخار خاں، میجرجنرل 12/دسمبر/1994ء
محمد حسن علوی، مولانا 12/دسمبر/1981ء
مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی 12/دسمبر/1974ء
تمکین سرمست ،سید محمد قادر الدین - 12/دسمبر/1975ء
مولانا سید احمد، شمس العلما امام جامع مسجد دہلی 12/دسمبر/1911ء
مولوی خلیل احمد شمس العلما 12/دسمبر/1911ء
ڈاکٹر زین العابدین شمس العلما 12/دسمبر/1911ء
صفی اللہ سرحدی شمس العلما شفیع اللہ سرحدی مولانا 12/دسمبر/1911ء
سید عبد اللہ بن ادریس بن زید ادریس شمس العلما 12/دسمبر/1911ء
غلام سلمانی، شمس العلما 12/دسمبر/1911ء
کیقباد نوشیرواں شمس العلما سر دار دستور 12/دسمبر/1911ء
عبد القادر ملا (بنگلہ دیش) 12/دسمبر/2013ء
میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ 12/دسمبر/1968ء
فدوا طوقان (فلسطین) 12/دسمبر/2003ء
حیدر علییف (آزر بیجان) 12/دسمبر/2003ء
رشید چودھری(بنگلہ دیش) 12/دسمبر/1986ء
رامانند ساگر(فلیم پروڈیوسر) 12/دسمبر/2006ء
شاہ محمد سلیمان تونسوی 12/دسمبر/1850ء

Читать полностью…

علم و کتاب

جلوہ ہائے پابہ رکاب ( ۲۹ )۔۔۔ ہندوستانی مکتبات سے جامعہ اسلامیہ کے لیے اہم مخطوطات کی تصویر
تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

میں ۱۹۶۹ میں جامعہ اسلامیہ سے منسلک ہوا، میری ڈیوٹی شعبۃ اللغۃ العربیہ میں تھی جو دراصل غیر عربی طلبہ کو عربی زبان پڑھانے کا پروگرام تھا۔ یہ ادارہ انتظامی طور پر ہائی اسکول کے ماتحت تھا۔ کچھ عرصے بعد یونیورسٹی cadre میں شامل کیے جانے کی درخواست دی۔ اس زمانہ میں جامعہ کے مدیر (president) شیخ عبد المحسن عباد صاحب تھے، انہوں نے میری درخواست نامنظور کر دی۔ میں ان سے ملنے گیا۔ انہوں نے کہا: دنیا نظام سے چلتی ہے ، ہمارے یہاں بھی نظام ہے اور میں نظام کے خلاف نہیں جاسکتا۔
ان دنوں یونیورسٹی اپنے مکتبے کے لیے اسلامی علوم کے مخطوطات کی میکرو فلم جمع کر رہی تھی۔ ہر سال گرما کی چھٹیوں میں اساتذہ کے وفود مختلف ملکوں کو اس مقصد کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ جس سال میں نے یونیورسٹی cadre میں منتقل ہونے کی درخواست دی تھی، اس سال کی چھٹیوں میں ایک وفد ہندوستان جارہا تھا۔ یہ دور کنی وفد تھا، جس میں ڈاکٹر محمود میرہ کے ساتھ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر میرہ کا تعلق شام کے مشہور شہر حلب سے تھا۔ ان کا تخصص حدیث تھا۔ ابھی کچھ ماہ پہلے ریاض میں ان کا انتقال ہوا۔ رحمہ اللہ وغفر لہ۔ ہم لوگوں نے ہندوستان کے مشہور مکتبات کا دورہ کیا، مناسب مخطوطات کا انتخاب کیا، ان کی میکرو فلم بنوائی۔ جن مکتبات کا ہم نے دورہ کیا ان میں ذیل کے مکتبات شامل تھے: پٹنہ میں خدا بخش لائبریری، حیدر آباد میں دائرۃ المعارف العثمانية، مکتبہ آصفیہ اور لکھنو میں ندوۃ العلماء کی لائبریری وغیرہ۔ جب ہم اپنے کام سے فارغ ہوئے تو مخطوطات کی فہرست بنائی۔ ایک بڑا trunk خرید کر اس میں فلموں کو قرینے سے رکھا۔
ہم نے مدیر الجامعہ کو فون سے بتایا کہ ہم آپ کے دفتر کے قریب ہیں اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں، وہ بہت خوش ہوئے اور فورا دفتر میں بلا لیا۔ ہم دونوں ٹرنک لے کر داخل ہوئے۔ ٹرنک کو ایک طرف سے ڈاکٹر میرہ تھامے ہوئے تھے اور دوسری طرف سے میں۔ شیخ عباد کھڑے ہو گئے ، ان کی خوشی کی انتہانہ تھی۔ ہم نے ٹرنک کھولا۔ وہ فلموں سے بھرا ہوا تھا۔ فرط مسرت سے انہوں نے کہا (( جاء ناس بوعود، وجئتم بأفلام)) یعنی بعض لوگ صرف وعدے لے کر آئے اور تم فلمیں لے کر آئے۔
کچھ دیر تک عباد صاحب سفر کے احوال پوچھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے ٹیلیفون سے کسی کا نمبر ملایا، جن کو ٹیلیفون کیا تھا، ان سے کہا: «انقلوا ف. عبد الرحيم إلى الكلية» یعنی ف عبدالرحیم کا کالج میں ٹرانسفر کر دو۔ مجھے ان کا جملہ یاد آیا: " دنیا نظام سے چلتی ہے “۔ ہو سکتا ہے کہ مخطوطات کے حصول کے لیے میری کاوشوں نے نظام میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ کر دیا ہو۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا اکرام اللہ خان ندوی (وفات : مورخہ ۱۰ /دسمبر)*
*تحریر: مولانا معین الدین احمد ندوی*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

افسوس ہے کہ گذشتہ مہینہ ہندوستان اور پاکستان کے کئی اصحاب ِ علم وقلم نے وفات پائی، ان میں سب سے ممتاز شخصیت مولانا اکرام اللہ خان ندوی کی تھی، مرحوم دارالعلوم ندوۃ العلمأ کے دورِ اول کی پیداوار اور اپنی علمی وتصنیفی قابلیت کے اعتبار سے ممتاز حیثیت کے مالک تھے، ان کا وطن شاہجہان پور تھا، اور تعلیم ندوۃ العلمأ میں حاصل کی تھی، انھوں نے مولانا شبلی مرحوم سے باقاعدہ درس تو نہیں لیا تھا، مگر ان کی صحبت کے فیض یافتہ تھے، تعلیم سے فراغت کے بعد کئی سال تک دارالعلوم کے مشہور رسالہ الندوہ کے اڈیٹر رہے، اور کچھ دنوں تک ندوہ کے اہتمام کے فرائض بھی انجام دیئے تھے۔
غالباً ۱۹۲۰ء میں نواب صدر یارجنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی مرحوم نے اُن کو آل انڈیا مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کے اسسٹنٹ سکر یٹری کی حیثیت سے علی گڑھ بلالیا تھا، جس سے وہ آخر عمر تک وابستہ رہے، مولانا شروانی مرحوم کا قیام امور مذہبی کی صدارت کے سلسلہ میں حیدر آباد میں رہتا تھا، اس لئے کانفرنس کا سارا کام مولانا اکرام اللہ خان کے ہا تھوں میں تھا، جس کو انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے چلایا، کا نفرنس گزٹ کے اڈیٹر ی کے فرائض بھی وہی انجام دیتے رہے، اور کانفرنس کی تجویزیں اور سالانہ اجلاسوں کی رپورٹیں وغیرہ بھی وہی مرتب کرتے تھے، اور ۱۹۲۰ء سے لے کر ۱۹۵۱ء کامل ۳۰ سال تک کانفرنس انہی کی ذات سے عبارت تھی مرحوم کو ندوۃ العلمأ سے بھی گہرا تعلق تھا، اور وہ ہر زمانہ میں اسکی خدمت انجام دیتے رہے۔
طبعاً نہایت متین، خاموش، کم آمیز اور دنیاوی جاہ وشہرت سے بے نیاز تھے، اسی لئے علمی دنیا میں وہ شہرت حاصل نہ کرسکے، جس کے وہ حقیقتاً مستحق تھے، مگر مسلمانوں کی خاموش مفید علمی وتعلیمی خدمات انجام دیں، الندوہ اور کانفرنس گزٹ میں انھوں نے سیکڑوں علمی، تعلیمی اور اصلاحی مضامین لکھے، جن کا مجموعہ کئی جلدوں میں آئے گا، اُن کی مستقل قلمی یادگار نواب وقارالملک کی سوانح عمری ’’وقار حیات‘‘ ہے، جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے، وفات کے وقت ۶۴، ۶۵ سال کی عمر رہی ہوگی، مرحوم کی وفات سے نہ صرف ندوہ کی جماعت بلکہ ہندوستان کے علمی حلقہ میںایک ممتاز جگہ خالی ہوگئی، اللہ تعالیٰ اس خادم علم کو اپنی رحمت سے سر فراز فرمائے۔ (’’م‘‘، فروری ۱۹۵۲ء)

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا محمد علی اور شوکت علی کا نام خاص طورپر تحریک خلافت سے وابستہ ہے اور تحریک خلافت ہندوستان کی قومی تحریکوں کا ایک حصہ تھی۔ اس لئے خلافت کی تحریک کو ہندوستان کی تاریخ سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ بات صحیح ہے کہ خلافت عثمانیہ کا مرد بیمار بستر مرگ پر پڑا ہوا تھا اور خلافت اسلامیہ کا تحفظ دنیا کے مسلمانوں کے لئے ایک جذباتی مسئلہ بن چکا تھا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک خاص طورپر ہندوستان میں مسلمانوں کے ملی اور قومی جذبات کو بیدار کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی۔ جہاں تک جذباتیت کا تعلق ہے مولانا محمد علی جوہر اوران کے ہم عصر اکابرین کی مجبوری یہ تھی کہ وہ برطانوی استعمار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو ہر صورت میں روکنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں برطانوی سامراج عالم اسلام کی سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی شیرازہ بندی کو توڑدینے کی زبردست سازشیں کررہا تھا، اس لئے ان بزرگوں کے سامنے تحریک خلافت بھی برطانوی سامراج سے دنیا کو نجات دلانے کا ایک وسیلہ تھی۔ اب جہاں تک مذہبی جذبات واحساسات کا تعلق ہے مولانا محمد علی جوہر کے تمام ہم عصر اکابرین خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان سب کے سب مذہب کے نام پر قومی تحریکوں کو آگے بڑھارہے تھے یہاں تک کہ مہاتماگاندھی بھی ہندوستان میں رام راج یعنی آزادی اور انصاف کی حکومت کاتصور پیش کررہے تھے۔
آج آزاد ہندوستان میں بعض کوتاہ قلب اور تنگ نظر لوگ یہ سوال بڑی شدت سے اٹھاتے ہیں کہ مذہب بڑا ہے یا وطن؟ اس سوال کا سب سے بھرپور اور مدلل جواب مولانا محمد علی جوہر نے لندن کی گول میز کانفرنس کی اپنی معرکۃ الآرا تقریر میں کچھ یوں دیا تھا۔
”میرے پاس ایک تمدن ہے۔ ایک سیاسی نظام ہے۔ ایک نظریہ ہے زندگی ہے اور اسلام ان سب کا امتزاج ہے۔ جہاں تک احکام خداوندی بجالانے کا تعلق ہے میں اول بھی مسلمان ہوں، دوئم بھی مسلمان ہوں اور آخر میں بھی مسلمان ہوں، یعنی مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں، لیکن جہاں ہندوستان کا سوال آتا ہے جہاں ہندوستان کی آزادی کا سوال آتا ہے یا جہاں ہندوستان کی فلاح وبہبود کا سوال آتا ہے۔ میں اول بھی ہندوستانی ہوں اور آخر بھی ہندوستانی ہوں اور ہندوستان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں۔“
لندن ہی میں 4جنوری 1931کو مولانا نے داعی اجل کو لبیک کہا اور سرزمین بیت المقدس (یروشلم) میں دفن ہوئے۔ رسول اللہؐ کی معراج بھی بیت المقدس کے راستے ہوئی تھی، اس لئے علامہ اقبال نے اپنی فارسی نظم میں مولانا محمد علی کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیاکہ ؎
”سوئے گردوں رفت ازاں راہے کہ پیغمبر گزشت“
یعنی وہ آسمان پہ اس راستے سے گئے جو پیغمبراسلام کی معراج کا راستہ تھا۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے کہ "اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا کہ مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھارکر ایک قوت بنادیا تھا۔ انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی۔" بقول مولانا سلیمان ندوی”وہ شکست خوردہ فوج کا آخری سپاہی تھاجو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔ آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گراکہ پھر کھڑا نہ ہوسکا۔“
مولانا محمد علی کے وصال کو عرصہ بیت چکا ہے لیکن فضاؤں میں آج بھی ان کی یہ آواز گونج رہی ہے ؎
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

یوم پیدائش 10 دسمبر پر خاص مضمون

مولانا محمد علی جوہرؔ کی داستان حیات

معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab

آج رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کا یوم ولادت ہے۔ وہ 10 دسمبر 1878 کو رامپور میں پیدا ہوئے اور 4 جنوری 1931 کو لندن میں وفات پائی۔ وہ بیت المقدس میں مدفون ہیں۔اپنی وفات سے چند روز قبل انھوں نے لندن کی گول میز کانفرنس میں جو کچھ کہا تھا ، اسے سچ کر دکھایا۔ انھوں نے انگریز سامراج کو اسی کی سرزمین میں چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا:
”میں جس مقصد سے یہاں آیا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جاسکتا ہوں جب کہ میرے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ ہوگا، ورنہ میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں ایک غیر ملک میں جو اگر آزاد ہے، مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینی پڑے گی۔“
ان کی یہ آخری تقریر ہندوستان کی آزادی، ہندومسلم تعلقات، انگریزوں کے رویوں اور راہ کی مشکلات کی ایک مکمل اور بے مثال دستاویز ہے۔ مولانا محمد علی، بے باک، نڈر، حوصلہ مند اور جوش وجذبہ سے سرشار ایک ایسے رہنما تھے جن کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ خدا نے ان میں بیک وقت اتنی صلاحیتیں یکجا کردی تھیں جو عام طورپر کسی ایک انسان میں مشکل سے یکجا ہوپاتی ہیں۔ تحریر وتقریر، علمی لیاقت اور جرات و بہادری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم المرتبت رہنماؤں میں ان کی منفرد شناخت ہے۔
مولانا محمد علی جوہر، ان لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جدوجہد کی راہیں متعین کیں۔ ان کی سوچ بالکل صاف اور واضح تھی۔ وہ لاگ لپیٹ کے آدمی نہیں تھے، اسی لئے کبھی مصلحت نے ان کے قدموں کو نہیں روکا۔ وہ جو کچھ سوچتے سمجھتے تھے اسے جوں کا توں بیان کرنے یا اس کا عملی اظہار کرنے میں انہیں ذرا بھی تردد نہیں ہوتا تھا ۔ تحریک آزادی کے بعض کوتاہ نظر مؤرخین انہیں جوشیلا اور جذباتی قرار دے کر ان کی اہمیت کوکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا محمد علی نے اپنے جوش وجذبہ سے ملک کی آزادی اور وقار کی بحالی کے لئے جو کام لیا ہے وہ کوئی دوسرا نہیں لے سکا۔ وہ ایک بہترین ادیب، صحافی، شاعر، انشاء پرداز، مقرر اور مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خدا ترس، سچے اور نیک دل انسان بھی تھے۔
مولانا محمد علی جوہر کی پیدائش 10دسمبر 1878کو ریاست رام پور کے ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد عبدالعلی خاں، والی رام پور کے مصاحبین میں شامل تھے۔ محمد علی ابھی دوبرس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اردو فارسی کی ابتدائی تعلیم انہوں نے رام پور میں حاصل کی۔ 12سال کی عمر میں وہ باقاعدہ تعلیم کے لئے اپنی والدہ بی اماں کے ساتھ علی گڑھ آگئے اور یہاں سے انہوں نے 1898 میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی نے ان کی تعلیم وتربیت میں خاص دلچسپی لی اور انہیں انڈین سول سروسز کے امتحان میں شرکت کے لئے انگلینڈ بھیجا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ بعد کو دوبارہ انگلینڈ جاکر انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔
مولانا محمد علی کی شخصیت کی تعمیر میں ان کی والدہ بی اماں کا بنیادی کردار رہا۔ وہ ایک انتہائی سمجھ دار اور دوراندیش خاتون تھیں ۔ آزادی کی تڑپ ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اسی لئے انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں میں اس جذبہ کی ایسی شدت بھردی تھی کہ وہ ساری عمر اسی میں لگے رہے۔ اس دور میں جبکہ تحریک خلاف اپنے عروج پر تھی یہ مصرعے نوجوانوں کے حوصلوں اور امنگوں کو دوبالا کرتے تھے۔
"بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دینا
بوڑھی ماں کا کچھ غم نہ کرنا"
انگلینڈ سے واپس آکر مولانا علی نے کچھ عرصہ رام پوراور بڑودہ میں ملازمت کی لیکن وہاں ان کا دل نہیں لگا اور انھوں نے صحافت کی راہ اختیار کی۔11 جنوری 1911 کو انہوں نے کلکتہ سے انگریزی اخبار ”کامریڈ“ جاری کیا ۔ بعدازاں 1912 میں دہلی سے اردو اخبار ”ہمدرد“ کا اجراء کرکے دنیائے صحافت میں دھوم مچادی۔ ”کامریڈ“ بھی وہ کلکتہ سے جلد ہی دہلی لے آئے اور انہوں نے اس اخبار کے ذریعہ انگریز ی انشاء پردازی کے ایسے جوہر دکھائے کہ ایچ جی ویلز جیسا انگریزی ادیب یہ کہنے پر مجبورہوگیا کہ ”محمد علی نے برک کی زبان، مکالے کا قلم اور نیپولن کا دل پایا ہے۔“
مولانا محمد علی کو زبان و بیان پر بلا کی قدرت تھی اور ان کے قلم میں ایسا جادو تھا کہ وہ انگریزی ہو یا اردو جب بھی لکھتے، پڑھنے والے ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی ملک وقوم کی خدمت کے لئے وقف کردی اور خودان کی ذات ضرورتوں سے ماورا ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی ہوش مندی، بہادری، بے باکی، زورقلم وقوت گفتار کی تعریف کرنے کے لئے ایچ جی ویلز کو اپنے زمانے کے کیسے کیسے ناموروں کا سرمایہ زندگی سمیٹنا پڑا ۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel