ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

باری علیگ
وفات(۱۰/ دسمبر)
تحریر: اے حمید
لنک علم وکتاب
https://archive.org/download/bari-alig-bay-a-hameed/Bari%20Alig%20Bay%20A%20Hameed.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۲۳
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات کا خالق اور مالک صرف ایک ہی ہے ۔مولانا نے یہاں بڑے موثر و مدلل انداز میں ثابت کیا ہے کہ اگر اس کائنات کے خالق ایک سے زیادہ ہوتے تو اس سے ثابت ہوتا کہ صرف ایک خالق ان تمام کائنات کے امور کو چلانے کےلیے کافی نہ تھا ،یہ بات بجائے خو د خالق و مالک کے عجز کو ثابت کرتی چنانچہ عقلی دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ واحد و یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔
انشائے ماجدی
”زمین و اسمان کے یہ سارے کارخانے جو دنیا کے ہرطلسم سے بڑھ کر حیرت انگیز اور انسانی سائنس کے ہر شعبے سے عجیب تر ہیں بجائے خود اس کی دلیل ہیں ہ نہ یہ اپنے آپ وجود میں آ سکتے ہیں نہ باقی رہ سکتے ہیں جبتک کوئی صاحبِ شعور ،صاحب ِارادہ قادر مطلق ہستی ان کی صانع و خالق نہ ہو۔ ان سارے مظاہرِ فطرت کا تسلسل و استمرار ان کی یک رنگی و باقاعدگی، ان کا نظم و انضباط ہر عقلِ سلیم کو مجبور کر رہے ہیں کہ ان کے عقب میں ایک ذی اختیار فعّال کا ہاتھ تسلیم کیا جائے۔ اسی عقلِ سلیم کو جو ایک معمولی سی گھڑی کو بھی بغیر کسی ماہرِ فن اور صنّاع گھڑی ساز کے تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہے ۔ یہ خلّاق ہستیاں اگر بصیغہء جمع یعنی ایک سے زائد فرض کی جائیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک خالق ان سارے امور کے لیے کافی نہ تھا، اس سے اس کا عجز ثابت ہوا اور جو عاجز کسی بات میں ناقص ہے وہ خالق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اگر کسی کی ربوبیّت اور خالقیت پر اعتقاد ہے تو اسے لامحالہ واحد و یکتا بھی ماننا پڑے گا۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اوّل ،صفحہ نمبر۲۹۷)

Читать полностью…

علم و کتاب

عرب کے کُنور
(نعت پاک علی صاحبہ الصلاۃ والسلام)
💐💐💐

سراجِ ہدایت عرب کے کُنور
چراغِ جہاں تاب خیر البشر

تری رحمتیں دو جہاں کے لیے
ہیں ممنون تیرے سبھی خشک وتر

ترے حسن پر ہیں دو عالم فدا
ظہورِ سعادت طلوعِ سحر

اندھیروں میں تو روشنی کا سفیر
مثالِ رخِ پاک نورِ قمر

تخیل کی صورت نکھرنے لگی
جمالِ رخِ یار کو دیکھ کر

ہتھیلی ہے گویا کفِ گل فروش
معطر رہے اس سے جاں عمر بھر

تری ناک ستواں تھی عظمت نشاں
تری ذات میں رفعتیں سر بسر

تری زلفِ مُشکِیں گلِ یاسمیں
رفاقت تری خوشبوؤں کا سفر

سلاست فصاحت حلاوت اثر
لطافت میں الفاظ لعل وگہر

تری گفتگو میں وہ تاثیر تھی
کہ دنیائے دل اس سے زیر وزبر

مرے ساقیا! بھر دے ساغر مرا
عطا ہو مجھے بس تری اک نظر

معطر بھی ہے اور پرنور بھی
ترے نقش پا سے مری رہ گزر

جبینِ سخنؔ بھی ہے تیری رہین
تجھی سے ہے اس کا جہاں معتبر

(از خاک پائے مصطفیٰ: محمد سمعان خلیفہ ندوی۔ بھٹکل۔ انڈیا)
💐💐💐
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ساحر لدھیانوی کے آخری جگری دوست امرناتھ ورما کا آج صبح دہلی میں انتقال ہوگیا۔ میں نے گزشتہ سال اسی دسمبر ماہ میں ان سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں:

/channel/ilmokitab

ساحرؔ لدھیانوی کے جگری دوست امرناتھ ورما سے ایک ملاقات

ملاقاتی: معصوم مرادآبادی

فلمی و ادبی دنیا کے ممتاز شاعر ساحر لدھیانوی کے نام اور کام سے کون واقف نہیں۔اپنے گیتوں سے اردو زبان کو مقبول عام بنانے میں جو کردار ساحر نے اداکیا ہے، وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکا۔ ساحر کے انتقال کو 43 برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کے چاہنے والے آج بھی انھیں اسی طرح یاد کرتے ہیں، جیسا کہ ان کی زندگی میں کیا کرتے تھے۔ان دنوں ہر طرف ساحر کے چرچے ہیں اور کیوں نہ ہوں، ان کی پیدائش کی صدی تقریبات جومنائی جارہی ہیں۔ساحر یارباش قسم کے شاعر تھے۔ انھوں نے شادی نہیں کی تھی، ا س لیے نہ تو ان کے آل اولاد تھی اور نہ کوئی دوسرا جھنجٹ۔ہاں وہ ناکام عاشق ضرور تھے۔ناکام اس لیے کہ جن سے انھیں عشق تھا، ان سے شادی نہیں ہوئی، لہٰذا انھوں نے مجرد زندگی گزاری۔اس غم کو غلط کرنے کے لیے وہ اکثر اپنے دوستوں میں مگن رہا کرتے تھے اور خوش گپیاں کرتے تھے۔ ساحر لدھیانوی کو قریب سے جاننے والے بھی اب دنیا چھوڑ چکے ہیں، صرف ایک شخص زندہ ہیں اور وہ ہیں امرناتھ ورما، جن کا شمار ہندستان کے سرکردہ پبلشروں میں ہوتا ہے۔
اسٹار پبلی کیشن کے بانی اور مالک امرناتھ ورما اس وقت عمر کے آخری پڑاؤ پر ہیں، لیکن انھیں کریدئیے تو وہ ساحر کی ایسی یادیں تازہ کرتے ہیں کہ انھیں سننے اور سمجھنے کو جی چاہتا ہے۔گزشتہ ہفتہ میں نے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا، اور ان کے دامن میں ساحر کی یادو ں کے جو موتی ہیں،وہ آپ کے لیے چن کر لا لایا ہوں۔
امرناتھ ورما کو ادبی دنیا میں امر ورما کے نام سے جانا جاتا ہے۔اب سے کوئی چالیس برس پہلے انھوں نے ایک فلمی وادبی ماہنامہ ”مووی اسٹار“ جاری کیا تو یہ خاکسار بھی اس کی ٹیم کا ایک حصہ تھا۔ میں اسی دور سے انھیں جانتا ہوں، تبھی یہ بھی جانا کہ ساحر کے ساتھ ان کا کتنا قریبی تعلق تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسٹار پبلی کیشنز نے اسٹارپاکٹ بکس کے نام سے شاعری کی جیبی کتابوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ صرف ایک روپے میں دستیاب یہ پاکٹ بکس لاکھوں میں فروخت ہوئیں اور ان کے ذریعہ ہی امرناتھ ورما کی ساحر سے شناسائی ہوئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ساحر سے ان کی پہلی ملاقات 1958 میں اس وقت ہوئی جب وہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے دہلی آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ جاں نثار اختر اور کچھ دیگر دوست بھی تھے۔امر ورما ان سے ملنے جامع مسجد علاقہ میں واقع فلورا ہوٹل پہنچے۔ اسی دور میں انھوں نے پاکٹ بکس کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس کا آغاز وہ ساحر کی کسی کتاب سے کریں۔ جب انھوں نے ساحر کے روبرو اپنا مدعا بیان کیا تو ساحر نے کہا کہ ”دوسرے پبلشر میری کتابوں کو مجھ سے پوچھے بغیر شائع کررہے تو آپ کو کیا قباحت ہے۔“
ساحر نے امر ورما کو اپنے گیتوں کا مجموعہ ”گاتا جائے بنجارا“ شائع کرنے کے لیے دیا۔امرورما بتاتے ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کی ایک ہزار جلدیں شائع کیں اور بہت ہچکچاتے ہوئے بطور رائلٹی ساڑھے باسٹھ روپے کا چیک انھیں بھیج دیا۔ وہ ڈررہے تھے کہ کہیں اتنی معمولی رقم کا چیک دیکھ کر ساحر ناراض نہ ہوجائیں، لیکن چند ہی روز بعد امر ورما کو ساحرکا ایک خط موصول ہوا،جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ”آپ پہلے اردو پبلشر ہیں، جو مصنف کو رائلٹی دینا بھی جانتے ہیں۔“ امر ورما کہتے ہیں کہ ”یہ طنزتھا یا تعریف، میری سمجھ میں نہیں آسکا۔ کچھ عرصے بعد میں بمبئی گیا تو وہاں کے اردو ادیبوں نے مجھے بتایا کہ ساحر لدھیانوی آپ کے ادارے کی بہت تعریف کرتے ہیں، کیونکہ آپ رائلٹی بھی دیتے ہیں جو آج اردو پبلشروں کے ہاں عنقا ہے۔اس کے بعد جب ان کی ملاقات ساحر سے ہوئی تو انھوں نے ان کی بہت خاطر مدارات کی۔وہ بتاتے ہیں کہ ساحر کی مہمان نوازی کو میں آج تک نہیں بھول پایا ہوں ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ساحر نے ساڑھے باسٹھ روپے کا وہ چیک کیش نہیں کرایا بلکہ ایک یادگار کے طورپر اپنے پاس رکھا۔
امرورما بتاتے ہیں کہ”اپریل 1974میں ہمارے ادارے ہندی پاکٹ سیریز کی دسویں سالگرہ منائی گئی تو اس میں شرکت لیے ساحر بطور خاص دہلی آئے اور اپنے دوست اندرکمار گجرال کی صدارت میں مشاعرے میں شریک ہوئے۔ وہ کئی روز دہلی میں رہے اوران کا زیادہ تروقت میرے ساتھ ہی گزرا۔ اس دوران وہ کئی بار میرے غریب خانہ پر بھی تشریف لائے اور میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ ایک ہفتہ تک تقریباً روز ہی ان کے اعزاز میں ایک پروگرام ہوتا تھا۔ساحر کی بدولت کئی ممتاز ہستیوں سے میری شناسائی ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں ساحر کے بے تکلف دوستوں میں شامل ہوگیا۔“

Читать полностью…

علم و کتاب

فیروز خان نون(وفات مورخہ ۹/دسمبر) تحریر : آصف جیلانی ( بی بی سی) https://archive.org/download/firoz-khan-noon.-asaf-jilani/Firoz%20Khan%20Noon.%20Asaf%20Jilani.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

سچی باتیں (۳؍نومبر ۱۹۳۳ء)۔۔۔ عقلی دلائل
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

ایک مریض، حاذق الملک ومسیح الملک حکیم اجمل خاں دہلوی کی خدمت میں جاتاہے، حکیم صاحب خاص توجہ وشفقت سے اُسے دیکھتے ہیں، اور اس کے مرض ومزاج سے رتّی رتّی واقف ہو ، اُسے ایک نسخہ لکھ کر دیتے ہیں۔ اُن مریض صاحب کو اس کی مطلق قدر نہیں ہوتی، نہ حکیم صاحب کے حذاقتِ فن کی، نہ خاص توجہ وشفقت کی، بلکہ بے دلی اور بے پروائی کے ساتھ نسخہ لئے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں، پھاٹک پر حکیم صاحب کے مکان کا پہرہ دار، ایک گنوار سا آدمی، نہ پڑھا نہ لکھا، نہ طبیبوں کا صحبت یافتہ، ملتاہے۔ یہ مریض صاحب اُس سے پوچھتے ہیں، کہ کیوں جناب، آپ کی رائے عالی میں یہ نسخہ کیساہے؟ وہ بلا سوچے سمجھے، بغیر ادویہ، اور اُن کے اوزان کو سُنے، یوں ہی سرہلاکر کہہ دیتاہے، کہ ہاں اچھاہے۔ مریض صاحب اس کی زبان سے یہ سُن باغ باغ ہوجاتے ہیں اور گھر والوں سے خوش ہوہوکرکہتے ہیں، کہ بڑی بات یہ ہے کہ اس ڈیوڑھی بان نے تصدیق کردی ……آپ ایسے مریض کی سلامتی عقل، وصحتِ دماغ سے متعلق کیا رائے قائم کریں گے؟ ایسے شخص کے، حکیم صاحب کے ساتھ، دعوے اخلاص وعقیدت کو کس حد تک قبول کریں گے؟ خود حکیم صاحب ایسے ناقدرے اور بد مذاق سے کہاں تک خوش رہیں گے؟
ایک امیدوار ملازمت کا بڑی تمناؤں اور آرزوؤں کے بعد نصیب جاگتاہے، حوصلہ اور اندازہ سے بڑھ کر کامیابی یہ ہوتی ہے، کہ کلکٹر اور کمشنر نہیں، لاٹ صاحب کے ہاں باریابی ہوتی ہے۔ ہز اکسلنسی گورنروقت مکّال متوجہ ہوتے ہیں، جو استدعا تھی اُسے بہ تمام وکمال، مع شیء زائد ، منظور کرتے ہیں، اور بکمال عنایت، خود ایک فرمان اپنے دستخط اور سرکاری مُہر کے ساتھ عطافرماتے ہیں۔ اس بدگمان کو اب بھی اپنی کامیابی پر یقین نہیں ہوتا، اپنی خوش نصیبی پر خوشی نہیں ہوتی، اتنے میں لاٹ صاحب کا چپراسی، جو ایک طرف ادب سے دست بستہ کھڑاہواہے، اپنا سرہلا کر اشارہ کرتاہے، کہ ’’ہاں ٹھیک ہے‘‘ معًا ان امیدوار صاحب کی تشویش، جمعیت خاطر سے، بے اطمینانی، اطمینان سے ، اور پریشان، بشاشت سے بدل جاتی ہے، اور گھر آکر اپنے لوگوں سے فرمانے لگتے ہیں، کہ ’’لاٹ صاحب کا فرمان ورمان تو خیر، بڑی بات یہ کہ جس وقت لاٹ صاحب فرمان پر دستخط کررہے تھے، اُن کے جمعدار صاحب کی گردن اور داڑھی ہلی، اور بس میرا دل پورا ہوگیا‘‘……آپ ان بزرگوار کے عقل وفہم، ہوش وخرد سے متعلق کیا اندازہ کرتے ہیں؟ یہ ہیں اس قابل کہ دوبارہ انھیں گورنمنٹ ہاؤس میں گھُسنے بھی دیاجائے؟
دوسروں پر ہنسی ہوچکی۔ اب اپنے کو دیکھئے، سوچئے، ٹٹولئے۔ یہ ہم میں، آپ میں، مذہب وشریعت کے ہر حکم کو ’’عقلی دلائل‘‘ سے سمجھنے کا جو مرض پیدا ہواہے، ان فرضی مثالوں سے ، کچھ کم، قابلِ مضحکہ ہے؟ جو لوگ سرے سے مذہب ہی کے قائل نہیں، یہاں خطاب اُن سے نہیں، اُنھیں دوسرے دلائل سے قائل کیاجائے گا، یہاں مخاطب صرف وہ حضرات ہیں، جو مذہب کو مان چکے ہیں، اپنے کو مسلمان کہتے ہیں ، توحید ورسالت پر ایمان لاچکے ہیں۔ کیا اُن کے اطمینان وتشفی کے لئے یہ کافی اور بالکل کافی نہیں، کہ فلان حکم مذہب کا ہے، شریعت کا ہے، خدا کا یا اُس کے رسول کا ہے؟ کیا کسی مذہبی حکم میں قوت اس سے ذرہ بھر بھی بڑھ جائے گی، کہ عقل ، بھی اس کی تائید کرتی ہے؟ کسی حکم کے مذہبی ہونے ہی میں گفتگو ہو، تو اور بات ہے۔ اس کی جانچ ، پرتال، پرکھ، تول، ہرطرح کی جاسکتی ہے کہ آیا وہ حکم مذہب کا ہے بھی۔ لیکن جب ایک بار اس کا مذہبی ہونا ثابت ہوجائے، تو پھر اب اُس کی تائید میں کسی ’’عقلی‘‘ دلیل کے تلاش کرنے کے معنی سوااس کے اور کیا رہ جاتے ہیں، کہ لاٹ صاحب کے فرمان کے ساتھ، ان کے جمعدار کی داڑھی بھی تو ہلے؟ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے منطقی، فلسفی، حکیم، طبیب، مہندس، مقنّن، کی ’’عقل‘‘ رسول کی ’’نقل‘‘ کے سامنے کچھ بھی وزن رکھتی ہے؟
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا ہم مسلمان ہیں (٣٢) آہ ! ___ وہ دونوں ( تیسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
"فکر مت کرو!" حضور ﷺ نے نہایت سکون و استقلال سے تسلّی دی "فکر مت کرو! خدا ہمارے ساتھ ہے ۔" وہ ہونٹ جن کے لعاب سے سیاہ ناگ کا زہر ہلاہل پانی پانی ہو گیا تھا ان ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے تھے یہ الفاظ ہر خوف و خطر کے احساس تک تریاق بن کر پہنچے اور فی الفور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا غار کی بوسیدہ دیواریں آہن و فولاد کے قلعے میں ڈھل گئیں جہاں کوئی بڑے سے بڑا خطرہ پر نہیں مار سکتا ۔ ادھر ان کی رُوح سے وہی پُکار اٹھی کہ "میرے لیے خُدا اور خدا کے رسول کی پناہ کافی ہے۔" اور اُدھر اُنھوں نے دیکھا کہ غار کے کُھلے ہوئے مُنہ تک آپہنچنے والے قدم پلٹے اور ان کی چاپ دشت و صحرا میں گرد کی طرح بکھر کر گُم ہوگئی ۔ وہ قدم جو پیغمبر ﷺ کی تلاش میں جنگل جنگل کی خاک چھان چکے تھے ۔ جب خدا نے ان کو روکا تو "ایک نظر" کا فاصلہ طے نہ کر سکے ! ابو بکر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ رہے تھے اور وجد کر رہے تھے کہ حضور ﷺ کی پیغمبرانہ شخصیت اپنی مکمل ترین رعنائیوں کے ساتھ ان کی نظروں تنہا ان کی نظروں کے سامنے جلوہ افروز ہے وہ انسانِ کامل( ﷺ) کو ان لا متناہی بلندیوں پر دیکھ رہے ہیں جہاں انسان اور خدا کے درمیان سے زمین و آسمان کی ہر شے ہٹ گئی ہے اور پیغمبر ﷺ کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ اسباب وعلل کے تمام پردے اُٹھا کر خُدا کی زبردست قدرت بےحجاب ہو گئی ہے ۔
تین دن تک سچ مچ خدا کے سائے میں بسر کرنے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوشِ پا چومتے ہوئے غارِ ثور سے باہر نکلے تو انھیں محسوس ہوا کہ یہ تنگ و تاریک غار نہیں بلکہ ایک نا پیدا کنار دنیا تھی جہاں قدم قدم پر خدا کی قدرت اور انسان کی بندگی کُھلی آنکھوں سے نظر آتی رہی تھی وہ غار میں ایمان بالغیب لے کر گئے تھے لیکن باہر آئے تو ایمان بالغیب صدیوں کا فاصلہ تین دن میں طے کر کے عین الیقین اور مشاہدے میں تبدیل ہو چکا تھا ۔ جس انسان ( ﷺ ) کو اُنھوں نے رُوح و دِل کی شہادت سے نبی مانا تھا اس غار میں ان کی آنکھیں اس نبوت کا سراپا دیکھ رہی تھیں ۔ غار سے با ہر انھوں نے جس خدا کا یقین کیا تھا غار میں وہ خدا خود اپنا یقین دلاتے ہوئے اپنی لا متنا ہی قدرت کے چہرے سے حجاب پر حجاب اُٹھا رہا تھا ۔ لیکن شاید اس عرفانِ حق کی تکمیل میں ابھی کچھ کسر باقی تھی۔ ابھی ایک ایسا واقعہ بھی پیش آنا باقی تھا جہاں مجرم انسان کی طاقت کے درمیان غار کی دیواریں اور دنیا کی کوئی ظاہری رکاوٹ بھی حائل نہ ہو ۔ پس منظر میں گرد و غبار کا بادل اُٹھا اور ایک زہر ناک تلوار کی بجلی چمک کر سر پر آگئی۔ قریش کا ایک جنگ آزمودہ ہرکارہ سراقہ بن جعشم کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین دہلنے لگی یہی تھا وہ بے رحم دشمن جس کو سو اونٹوں کا حقیر انعام ایک پیغمبر (ﷺ) کا مقدس سر حاصل کرنے کی دُھن سے پاگل کیے دے رہا تھا۔ خطرے کی زبردست بجلی سر پر ٹوٹ پڑنا چاہتی تھی اور پیغمبر ﷺ کی جانِ گرامی اس بے پناہ خطرے کی ٹھیک زد میں آچکی تھی ۔ حُبِّ رسول ﷺ کے متوالے کو ایک بار پھر اس بے چارگی نے تڑ پایا کہ میں خدا کی عظیم امانت کوبچانے کی کوشش میں بالکل بےبس ہوا چاہتا ہوں
"اے خدا کے رسولﷺ !" وہ جاں نثاری کی حسرت میں پُکار اُٹھے، دشمن سر پر آپہنچا ہے____"
لیکن خدا کے رسول(ﷺ) کو خطرہ تو کیا خطرے کا یہ احساس بھی گوارا نہ ہوا ____
سکونِ دل نے ایمان ویقین کے جلال کی شکل اختیار کرلی اور فرمایا "اے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) تو کیا سمجھ رہا ہے ان دو کو جن کا تیسرا اللہ ہے
؟ قدم قدم پر نبی ﷺ کی تصدیق کرنے والے اسی دم نبی ﷺ کے اس اشارے کی تصدیق کی اور کامل سکون و اطمینان کے عالم میں ان کی نظر انسانی ساز و سامان سے ہٹ کر خدا کی قدرت پر مرکوز ہوگئی۔ انھوں نے دیکھا کہ اِدھر خدا کے رسول ﷺ نے اپنے خدا کے سامنے دُعا کے لیے ہاتھ پھیلائے اور اُدھر زمین شق ہوئی اور سراقہ کے گھوڑے کے دونوں اگے پاؤں اس کے اندر دھنستے چلے گئے مُنہ کے بل گرنے والا کا فر اُٹھا اُٹھ کر چلا اور پھر گرا آسمان والے کا اشارہ پاتے ہی زمین نے اس "مجرم" کو آگے بڑھنے کے لیے راہ دینے سے انکار کر دیا تھا جو بہت جلد "اعترافِ جرم" اور پھر اعترافِ حق تک پہنچنے والا تھا۔ بار بار مُنہ کے بل گرنے والا سراقہ اُٹھا اور ہاتھ جوڑ کر جان کی امان مانگی ۔ جو شخص ظاہری طاقت کے بل پر جان لینے کے لیے آیا تھا وہ خدا کی طاقت سے سہما ہوا خدا کے رسول ﷺ سے زندگی کی بھیک دامن میں لیے واپس جا رہا تھا ۔ دِل سے خدا کو قادرِ مطلق ماننے والے بندۂ مومن نے آنکھوں سے دیکھا کہ خدا قادرِ مطلق ہے جس کے ایک اشارے پر سب کچھ ہو سکتا ہے وہ سب کچھ جس کا تصّور بھی آدمی پہلے سے نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد یہ قافلہ سوئے یثرب روانہ ہوا ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا مرغوب الرحمن بجنوریؒ
سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند
وفات (۸/ دسمبر)
تحریر: مولانا مفتی محمد ساجد کھنجاوری
لنک
https://archive.org/download/moulana-marghubur-rahman-bijnori-by-mufti-m-sajid-bijnori/Moulana%20Marghubur%20Rahman%20Bijnori%20By%20Mufti%20M%20Sajid%20Bijnori.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا ظفر احمد عثمانی(وفات ۸/ دسمبر ) تحریر مولانا سید محمد یوسف بنوری

Читать полностью…

علم و کتاب

اس حال میں بھی نماز باجماعت کی پابندی۔چلتے پھرتے زبان پر تلاوتِ قرن اور تسبیح و اذکار ۔چال ڈھال میں کامل تقوی آپ کی شناخت رہی۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی قبر کو نور سے بھر دے۔ سیئات سے درگزر فرمائے۔ درجات بلند فرمائے ۔جنت میں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان، تمام محبین،مخلصین، آپ کے تلامذہ کو آپ کے نقوش پااور ہدایات کے مطابق چلتے رہنے اور زندگی گزارنےکی توفیق نصیب فرمائے
7/12/2024


https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ثانویہ سے کوئی جلسے میں شرکت کے لیے نہیں جائے گا۔ہم بڑے پریشان ہوئے؛ کیونکہ ہمارے ساتھ کئی ساتھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے تیاری کر چکے تھے۔ نادانی غالب آئی ۔ایک تختۂ سیاہ پر عربی میں اعلان لکھ دیا اور عنوان بنایا
"رحلۃ الی دہلی "
کل صبح دارالعلوم ایکسپریس سے جمیعت علما ہند کے اجلاس عام میں شرکت کے لیے جو طلبہ جانا چاہیں جا سکتے ہیں ۔
یہ تختۂ سیاہ مدرسہ ثانویہ کے صدر گیٹ پر پہلے گھنٹے سے پہلے اس طرح رکھدیاگیاکہ ،جو بھی استاذیاطالب علم آئیں اس کو پڑھے بغیر نہ گزریں۔طلبہ و اساتذہ سب نے اس اعلان کو پڑھا اوردرسگاہوں میں خاموشی سے آگئے۔ جب حضرت مولانا محمد احمد صاحب تشریف لائے، تو معاملہ الگ ہو گیا ۔آپ نے اول وہلہ میں اس بورڈ کو ہٹوایا ۔اور پھر پوچھ گچھ کی، کہ کس نے یہ اعلان لگایا ہے۔ کئی دن بعد معلوم ہوا کہ، اس میں میرا بھی عمل دخل ہے۔ تو مولانا مرحوم نے مجھے بلایا۔ پوچھا کہ:
اعلان لکھنے میں تم شامل ہو ؟
میں نے اقرار کیا ۔
وجہ پوچھی ۔
میں نے کہا کہ:
ہر دفعہ دہلی جانے کے لیے چھٹی کا ماحول ہوتا ہے۔سوچا کہ اب کے اس طرح ماحول بن جائے گا۔حضرت نے فرمایا کہ آپ کی سوچ بہت بچکانہ ہے۔ہمارے یہاں اتنی آسانی سے چھٹی نہیں ملتی۔ آئندہ اس طرح غلطی جب کرو تو پہلے مشورہ کر لینا۔ اس کے بعد یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ:
پڑھنے والے طالب علم ہو ،اس لیے چھوڑ رہا ہوں۔ ورنہ سزا کے مستحق تھے۔

شفقتوں سے معمور مثالی استاذ

ہفتم عربی میں ہدایہ جلد ثالث میں آپ سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا۔درس کی پابندی کے ساتھ افہام و تفہیم کا خاص ملکہ آپ کو حاصل تھا۔عبارت کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑتے تھے ۔آواز بالکل صاف تھی۔ ہر ممکن یہ کوشش کرتے کہ طالب علم پورے طریقے سے سبق کو سمجھ جائے۔یہاں بھی درس کی پابندی کرنے والے اور ذہین و محنتی طلبہ پر آپ کی خصوصی توجہ رہتی۔
میں بالکل اگلی صف میں آگے والی تپائی پر بیٹھتا تھا اور درس کا پابند بھی تھا۔ اس لیے میرے ساتھ اس جماعت میں بھی آپ کے الطاف و عنایات اور توجہات کا سلسلہ قائم رہا۔ بعض اوقات سبق کے کچھ گوشے سمجھ میں نہیں آۓ، تو گھر حاضر ہوا اور حضرت والا سے سبق سمجھا ۔
اعتراف ہے کہ: گھر پر حضرت نے پوری بشاشت، دلجمعی اور خوشی کے ساتھ مجھے سبق سمجھایا اور اس طرح میرے گھر پہنچ کر سبق سمجھنے پر کافی مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ: مجھے اس طرح کے طالب علموں سے دلی خوشی ہوتی ہے۔

طلباء کے ساتھ ہمدردی ۔ایک خاص واقعہ

بعض طلبہ دوران تعلیم جسمانی ورزش کے لیے کراٹے کی مشق کرتے تھے۔ میں بھی انھیں میں شریک تھا ۔ایک دفعہ ورزش کرتے ہوئے پاؤں میں چوٹ لگی۔ چوٹ ایسی لگی کہ چلنا پھرنا مشکل ہو گیا، سبق میں حاضری بھی نہ ہوسکی۔ حضرت نے درسگاہ میں طلبہ سے پوچھا کہ:
خلیل کہاں ہیں؟
طلبہ نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دوسرے دن فجر کے بعد حضرت ہمارے گھر محلہ خانقاہ میں حال چال معلوم کرنے کے لیے تشریف لے آئے۔ اور خیریت دریافت کی۔ ساتھ میں دعاؤں سے بھی نوازا۔آپ نے حضرت والد محترم سے کہا کہ: خلیل درس کے پابند ہیں اور سمجھ کر پڑھتے ہیں۔درسگاہ میں نظر نہیں آئے، تو پریشان ہوا اس لیے صبح ہی گھر آگیا ۔
اللہ اکبر! ایسی شفقتیں اور عنایتیں اب کہاں ملیں گی۔یقین جانیے! یہ سطور لکھ رہا ہوں اور آپ کی شفقتوں اور کرم فرمائیوں کو یاد کر کے رو رہا ہوں ۔اُس وقت میں ایک عام سا طالب علم تھا اور حضرت والا عظیم المرتبت استاذ حدیث و فقہ اور دارالعلوم دیوبند کے ناظم تعلیمات۔اور میرے ساتھ یہ مراحم خسروانہ ۔
آپ کی تواضع ہمدردی اور رحم و کرم والے جذبات کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔نیز طلبہ کے ساتھ آپ کی بے لوث خیر خواہی ،ان کی نگہداشت، کوتاہیوں پر نگاہ، اور پھر ان کی اصلاح والا رویہ بھی، اس واقعے سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔

تربیت واخلاق سازی

خدا نے آپ کی ذات میں تدریس کے ساتھ تربیت اور اخلاق سازی کا ہنر بھی رکھا تھا۔ آج ایسے معلموں کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

آپ کے یہاں اصول و ضابطے کی بہت اہمیت تھی۔ آپ خود بھی اصول وضابطے کے پابند تھے اور دوسروں کے لیے بھی اصول کی پابندی ضروری سمجھتے تھے ،ان کے یہاں کسی بھی طرح کی بے اصولی ناقابل معافی جرم تھا۔آج بہت سے علماء آپ ہی کی تربیت کے اثر سے، بااصول زندگی گزار رہے ہیں اور وہ بہت کامیاب لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔

نصائح غالیہ

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اس عاجز کا تقرر اتراکھنڈ کے مشہور مدرسے دارالعلوم اسعدیہ ایکّڑہری دوار میں بحیثیت عربی مدرس کے ہوا۔ جانے سے پہلے الوداعی ملاقات کے لیے،جب میں حضرت مولانا محمد احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کے پاس حاضر ہوا،توآپ نےکچھ نصیحتیں فرمائیں،جوبلا شک!بہت عظیم نصیحتیں تھیں۔ ہر عالم اور مدرس کو ان نصائح پر عمل کرنا چاہیے وہ ان کو کامیاب اور کارآمد مدرس بنا دیں گی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی دیوبند میں مولانا مرحوم سے متعلق دورۂ حدیث کی مشہور کتاب ’’موطا امام محمد‘‘ کا درس تھا، چناںچہ انھوں نے طلبہ کی سہولت اور خدمت حدیث کی نیت سے اس کتاب کی شرح تحریر فرمائی جس پر مشہور ومعروف عالم دین، علم حدیث میں اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھنے والی شخصیت حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم کے تائیدی کلمات اسے اعتبار بخشتے ہیں۔ یہ کتاب چند سال قبل اشرفی بک ڈپو دیوبند سے شائع ہوئی۔

انوارالطحاوی شرح اردو طحاوی شریف
مسلک احناف کی جانب منسوب اداروں میں دورۂ حدیث شریف میں پڑھائی جانے والی ایک اہم کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ ہے جس میں مصنّف کتاب امام ابوجعفر احمد مصری جہاں ایک طرف فقہی ابواب کی ترتیب پر احادیث پیش کرتے ہیں، وہیں مختلف مسالک کی جانب سے روایات و آثار پیش کرنے کے بعد جو محاکمہ اور اپنی ’’نظر‘‘ قائم کرتے ہیں وہ خاصے کی چیز ہے جسے سمجھنا اور اُس کی تہہ تک جانا فہیم و ذکی طلبہ کے لیے تو بڑی دلچسپی کا سامان ہے، لیکن متوسط اور غبی طلبہ کے لیے اُس کا سمجھنا بسااوقات کافی دشوار ہوجاتا ہے، اسی لیے طحاوی شریف کی شروحات ہمیشہ طلبہ کی منظورِ نظر رہی ہیں۔ مذکورہ کتاب بھی مولانا مرحوم نے اشرفی بک ڈپو دیوبند کے لیے تحریر فرمائی تھی اور اس پر بھی تائیدی کلمات شارحِ ترمذی حضرت مولانا مفتی عبداللہ معروفی مدظلہ العالی کے ہیں۔

تسہیل الادب شرح نفحۃ الادب
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی کی مرتب کردہ کتاب ’’نفحۃ العرب‘‘ عموماً مدارس میں عربی سوم میں پڑھائی جاتی ہے، حکایات ولطائف، واقعات و اشعار اور دلچسپ و سب آموز اسباق پر مشتمل اس کتاب کو اگرچہ بعض حضرات نے ’’ملخص‘‘ کیا ہے اور کچھ مدارس میں وہ تلخیص شدہ حصہ بھی پڑھایا جانے لگا ہے، تاہم اکثر مدارس میں مکمل کتاب ہی شاملِ نصاب ہے۔ جماعت سوم کے طلبہ چوں کہ عربی تمرین و مشق کے ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں اس لیے بہت سے مقاما ت پر اس کتاب کے مغلقات بالخصوص عربی اشعار ان کے لیے دشواری کا سبب بن جاتے ہیں، اسی وجہ سے یہ کتاب مولانا مرحوم نے مشہور ناشر’’ کتب خانہ نعیمیہ‘‘ کے لیے تحریر فرمائی تھی۔

تنویر القدوری شرح اردو قدوری
فقہ حنفی میں قدوری کا متن نہایت اہمیت کا حامل ہے، مختصر سی عبارت میں بسا اوقات بہت سے جزئیات، اور اس کی قیود و شرائط میں بہت سے نکات پنہاں ہوتے ہیں۔ مولانا مرحوم نے دیوبند کےمختلف کتب خانوں کے لیے تحریری خدمت انجام دینے کے بعد یہ شرح اپنے اشاعتی ادارے ’’مکتبہ عائشہ دیوبند‘‘ سے شائع کرنے کا ارادہ کیا، چناںچہ سالِ گزشتہ ہی اس کی جلد اوّل منظر عام پر آئی تھی، مولانا کی متحرک و فعال شخصیت سے راقم کو یہی امید ہے کہ وہ یقیناً دوسری جلد کا بھی کافی حصہ تحریر کر چکے ہوں گے، تاہم وہ ہمارے سامنے نہ آسکا۔

کچھ اصلاحی کتابیں
درسی شروحات کے علاوہ مولانا مرحوم نے کچھ عوامی اور اصلاحی کتابیں بھی تحریر فرمائیں، مثلاً فضائل محرّم اور بدعاتِ مروّجہ، مسلمانوں کے چھ حقوق وغیرہ۔ اوّل الذکر کتاب عوام کی اصلاح اور ان میں رائج بدعات و رسومات کے خاتمے کے لیے مفید ہے جب کہ ثانی الذکر میں مسلمانوں کے مسلمانوں سے متعلق چھ حقوق کو کافی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

اپنے وطن میں وفات
راقم کو مولانا مرحوم کی شدید علالت کا علم دو تین روز قبل ہی ہوا تھا اور آج ۶؍دسمبر کو یہ دردناک اطلاع بھی ہم تک پہنچ گئی۔ تسلی کا پہلو یہ رہا کہ مولانا مرحوم کی وفات ان کے آبائی وطن ضلع بھاگلپور بہار میں ہوئی جہاں تمام اعزّہ و اقارب اور اہل خانہ اوّلاً ان کی عیادت اور پھر باہم تعزیت و تسلی کے لیے موجود تھے۔
مجھے مولانا کا مسکراتا ہوا چہرہ، ان کی معصومیت بھری گفتگو، ہمہ وقت تحریری مصروفیات، ایک کام پورا ہوتے ہی اگلے کام میں لگ جانے کا جذبہ اور ان کی متواضعانہ زندگی ہمیشہ یاد رہے گی۔
یہ مضمون دراصل ان کی چند خوشگوار ملاقاتوں کا ثمرہ اور تأثر ہے، ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نئی نسل کے سامنے پیش کرنا ان کے معاصر ین، احباب و رفقاء اور تلامذہ کی اہم ذمہ داری ہے جسے امید ہے کہ رفتہ رفتہ سامنے لایا جائے گا۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ انھیں جنّت الفردوس میںاعلیٰ مقام بخشے، ان کی اہلیہ محترمہ اور بچیوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ، ان کے فیض یافتگان اور ان کی تصنیفات کو ان کے لیے بہترین صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في ضحك رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 235-234

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

ترقی کے حقیقی معنیٰ

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

اس عہدِ جدید کا سب سے پامال لفظ، ترقی ہے، ترقی ترقی کی پکار سے ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں اور ذرا غور نہیں کرتے کہ اس لفظ سے ہمارا مقصود کیا ہے اور اس کے حصول کی تدبیر کیا ہے؟ ترقی کے معنیٰ کسی قوم کا دنیا میں ذہنی و جسمانی، فکری و معاشی اور علمی و عملی ہر حیثیت سے ممتاز و فائق ہوجانا ہے اور اس کے حصول کی تدبیر صرف ایک ہے، پوری قوم کا کسی ایک بلند ذہنی تخیل، یعنی ایمان پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ متفق ہوکر ایک ہوجانا اور اس کے لیے ہر قسم کا ایثار، قربانی اور کوشش کرنا۔ اسی آگ میں اختلافات کے تمام خس و خاشاک جل کر راکھ ہوجاتے ہیں اور وحدتِ ایمان و وحدتِ عمل کی ناقابلِ شکست قوت پیدا ہوکر، جمود کو روانی، سکون کو حرکت، خود غرضی کو ایثار اور حیاتِ فردی کو حیاتِ اجتماعی سے بدل دیتی ہے۔ تمام اقوام کی ترقیاں، اسی ایک اصول پر ہوئی ہیں، ہوتی ہیں اور ہوں گی۔

(معارف، مارچ ۱۹۳۴ء)

(شذراتِ سلیمانی/حصہ: سوم صفحہ: ۴۸/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی)

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفایت مورخہ: ۷ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اکرم علی شاہ عرف بنگالی بابا، صوفی سید 7/دسمبر/1968ء
تحسین سروری (میرکاظم علی) 7/دسمبر/1976ء
تشنہ بریلوی (عبدالقوی شکور) 7/دسمبر/2015ء
حسن محمود عروج 7/دسمبر/1972ء
حسین بخش سروری 7/دسمبر/1976ء
غلام محمد دادا بھائی 7/دسمبر/1993ء
محبوب جمال زاہدی 7/دسمبر/2008ء
مفتی زرولی خان 7/دسمبر/2020ء
مولانا اسرار الحق قاسمی 7/دسمبر/2018ء
مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی 7/دسمبر/1990ء
واجدہ تبسم 7/دسمبر/2011ء
عطاء الرحمن خان (بنگلہ دیش) 7/دسمبر/1991ء
احمد چشتی دہلوی 7/دسمبر/1967ء

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۰/دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
عبدالقادر سرفراز، شیخ، سید 10/دسمبر/1952ء
اعجاز حسن صادق پوری 10/دسمبر/1980ء
روشن علی بھیم جی 10/دسمبر/1998ء
محمد طفیل نقشبندی، شیخ 10/دسمبر/1978ء
مقبول مصظفٰے خاں، میجر جنرل شیخی 10/دسمبر/1987ء
میر غلام بھیک نیزنگ 10/دسمبر/1952ء
شیخ عبالقادر سرفراز 10/دسمبر/1952ء
مولانا اکرم اللہ خان ندوی 10/دسمبر/1952ء
ملارموزی (احمد صدیق) 10/دسمبر/1952ء
مولانا حیدر زمان صدیقی 10/دسمبر/1952ء
پروفیسر شیخ عبد القادر 10/دسمبر/1952ء
عبدالقادر سرفراز، شیخ،سید 10/دسمبر/1952ء
عبد اللہ یوسف علی 10/دسمبر/1953ء
پر و فیسر شیخ عبد القادر 10/دسمبر/1952ء
مولانا حکیم محمد انصاری دیوریاوی 10/دسمبر/1930ء
مولانا عبد العزیز روانوی 10/دسمبر/1917ء
فرزند علی درانی (ماہر آثار قدیمہ) 10/دسمبر/2003ء
باری علیگ 10/دسمبر/1949ء
بیگم عابدہ احمد (فخر الدین علی احمد) 10/دسمبر/2003ء
میر انیس 10/دسمبر/1874ء

Читать полностью…

علم و کتاب

صور من حياة الصحابة
ميسرة مسروق العبيسي
بصوت الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا
https://archive.org/download/2024-12-09-maisarh-masruq-al-absi/2024-12-09%20%20Maisarh%20Masruq%20Al%20Absi.mp3

Читать полностью…

علم و کتاب

امرورما بتاتے ہیں کہ”جون 1975میں جب وہ دوبارہ دہلی آئے تو میں نے ان کے اعزاز میں اپنے گھر پر ایک نشست کا اہتمام کیا۔اس میں ساحر کے ساتھ امرتا پریتم، وزیراطلاعات اندر کمار گجرال اور کرشن موہن کے علاوہ اردو ہندی کے کئی شعراء شریک ہوئے۔اس نشست میں گجرال صاحب نے اس وقت کے سیاسی حالات پر گفتگو کی تو ان کی کئی باتوں سے ساحرنے اختلاف کیا۔ یہ کام ساحر جیسا بے باک انسان ہی کرسکتا تھا۔چند دنوں بعد ہی ملک میں ایمر جنسی لگ گئی تو ساحر نے ایمر جنسی کے خلاف بھی اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا۔“
امر ورما بتاتے ہیں کہ وہ جب بھی بمبئی جاتے تو اکثر شامیں ساحر کے ساتھ ہی گزرتی تھیں۔ان کی وجہ سے انھیں ہندوپاک کی کئی مایہ ناز ہستیوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کی چاروں کتابیں ’تلخیاں‘، ’پرچھائیاں‘،’آؤکہ کوئی خواب بْنیں‘اور ’گاتاجائے بنجارا‘میرے ادارے سے شائع ہوئیں جن سے میرے ادارے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے میری جو رہنمائی کی اور مجھے آگے بڑھایا، اسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔
امر ورما بتاتے ہیں کہ ساحر جب بھی دہلی آتے تو اپنے دوستوں میں سارا وقت گزارتے تھے۔ علی سردار جعفری، جاں نثار اختر، رام پرکاش اشک یا کوئی اور دوست ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنے دوستوں کی جتنی مدد کی، اتنا شاید ہی کوئی دوسرا کرسکے۔وہ بتاتے ہیں کہ ساحر کی نجی زندگی محض اپنی ماں اور بہن تک محدود تھی۔ ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ ساحر شادی کرلیں تاکہ ان کے گھر میں بچوں کی رونق ہو، لیکن اس سے وہ محروم ہی رہیں۔
امرورما بتاتے ہیں کہ ”میں17اکتوبر1980کو امریکہ اور جرمنی کے دوہفتے کے سفر کی تیاری کررہا تھا اور اگلی صبح مجھے دہلی سے روانہ ہونا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔یہ ٹیلیفون بمبئی سے تھا۔ ساحر کی بہن انور نے مجھ سے کہا کہ ”ساحر صاحب بات کرناچاہتے ہیں۔“دوسرے ہی لمحے ساحر مخاطب تھے”امرناتھ جی ’تلخیاں‘کا پچیسواں ایڈیشن چھاپنے کی تیاری کیجئے، کیونکہ اس کے لیے ایک تقریب کی پیشکش ہے، جس کی صدارت مرکزی وزیراطلاعات (گجرال صاحب)کریں گے۔“دراصل ’تلخیاں‘کے کئی ایڈیشن میں نے ہی شائع کئے تھے اور عرصے سے یہ ایڈیشن نایاب تھا۔انھوں نے چند روز پہلے ہی کچھ ترمیم وتنسیخ کے ساتھ نئے ایڈیشن کا مسودہ مجھے بھجوایا تھا جس کی کتابت ہورہی تھی۔ان کی تجویز میرے لیے خوشی کی بات تھی، لہٰذا میں نے اس پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ ”25/اکتوبر کو میری واپسی ہے اور تبھی اس پروگرام کی تفصیلات طے لرلیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ امریکہ سے کچھ منگاناچاہیں توبتائیں، انھوں نے ایک خاص کریم لانے کو کہا۔ انھوں نے مجھ سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ جنوری میں میرے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لائیں گے۔
امرناتھ ورماکہتے ہیں کہ”25/اکتوبر کی دوپہر امریکہ سے میری واپسی ہوئی۔ سفر کی تھکن کی وجہ سے انھیں فون نہیں کرسکا۔ارادہ تھا کہ اگلے روز فون کروں گا، لیکن 25/اکتوبر کی درمیانی شب میں ہی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے نیند کی حالت میں ہی فون اٹھایا تو آواز آئی ”امرناتھ جی ایک بری خبر ہے۔ ساحر لدھیانوی رات دس بجے انتقال کرگئے۔بمبئی سے جے دیو نے یہ اطلاع آپ تک پہنچانے کے لیے مجھ سے کہا ہے۔“ان چند الفاظ نے میری نیند نچوڑ لی، میں ایک دم گم سم ہوگیا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ المناک خبر صحیح ہوگی۔میرے آنسو چھلکنے لگے اور آنکھوں میں گزشتہ بیس بائیس برسوں کی رفاقت کے وہ واقعات گردش کرنے لگے جب میں نے ساحر سے جی بھر کے باتیں کی تھیں۔ بارہا ان کے ساتھ دہلی اور بمبئی میں اپنی شامیں گزاری تھیں۔“

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

شام کا مستقبل

خلیل الرحمٰن چشتی
5 جمادی الثانی 1446ھ
8 دسمبر 2024ء
اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
/channel/ilmokitab

1970ء کے بعد کے 54 سال شام کی تاریخ کے غالبا ںدترین ایام تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج
" نُصیریوں" کے دور کا اختتام ہورہا ہے۔

فرانسیسی استعمار نے شام میں اقلیتوں کو مضبوط کیا اور پھر بالآخر 1970 میں نُصیریوں کو " عَلَـوِی" نیا نام دے کر مسلط کیا۔

تاریخ کے اس نازک موڑ پر جب غزہ اور لبنان لہولہان ہیں ، شام میں تبدیلی سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھی جاسکتیں۔

مغرب کسی سنی کو کبھی خوشی سے مسلط نہیں کرے گا ، الایہ کہ وہ لبرل ہو ، یا ان کی مجبوری ہو۔ اس کی ترجیح اسمعیلی ، دروز ، علوی ، نصیری ، بہائی ، قادیانی وغیرہ جیسی اقلیتیں ہوتی ہیں۔ جیسے الفتح کا فلسینی صدر محمود عباس ، جو بہائی ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ باطنیہ کی اسلام دشمن زندیق تین بڑی شاخیں شام میں سرگرم ہیں۔
3% اسمعیلی ہیں۔ تین فی صد دروز ہیں۔
اور 5 فی صد علوی نصیری ہیں۔ یہ سب مل کر دس فی صد سے زیادہ ہیں۔
جعفری اثنا عشری شیعہ بہت کم ہیں۔ ڈھائی کروڑ کی کل آبادی میں تقریبا 80 فی صد سے کچھ کم سنی مسلمان ہیں جن کی اکثریت حنفی ہے۔ عیسائی دس فی صد ہیں۔
محمد بن نصیر النمیری ، جو نصیریہ کا بانی تھا ، حضرت حسن عسکری کا ملاقاتی تھا۔ اس پر انہوں نے لعنت فرمائی۔ یہ فرقہ مسلمان نہیں۔ ان کے اپنے روزے اور اپنی عیدیں ہیں۔ نصیری / علوی زیادہ تر شمالی ساحلی علاقوں لطاقیہ ، طرطوس وغیرہ میں ہیں۔ دروز بھی جنوبی پہاڑیوں پر ہیں۔

تاریخ دان جانتے ہیں کہ سالمیہ Salimiyyah اسمعیلی باطنیوں کا مرکز تھا اور اب بھی ہے۔

ہمارا پختہ یقین ہے کہ عقائد میں تو سنیوں اور شیعوں میں کبھی تا قیامت اتفاق و اتحاد نہیں ہوسکتا ، لیکن اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ "مشترکات" پر کفر و الحاد اور مغرب کے خلاف ان میں سیاسی اتحاد ضرور ہونا چاہیے۔

بد قسمتی دیکھنے کہ
400ھ میں بغداد کے سنی اور اثنا عشری شیعہ علماء نے متفقہ طور پر نصیریوں کو خارج از اسلام قرار دیا ،
اس کے باوجود
ایران اور حزب اللہ نے سنیوں کے خلاف بشَّار الاسد کی ہر طرح مدد کی۔

دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ
ایران نے سنیوں کے خلاف یمن کے زیدیوں کو اثنا عشری بنانے اور انہیں عسکری تربیت دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
شام میں دس فی صد کرد بھی ہیں۔ کرد اچھے سنی ہوتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اور امام ا بن تیمیہ بھی کرد تھے۔
ترکیہ باغیوں کی حمایت کررہا ہے۔
بشَّار الاسد کے جانے کے بعد یہ نہ سمجھیے کہ شام میں امن قائم ہوگا۔

امریکہ کہ خواہش ہوگی کہ شام کی مزید تقسیم ہو۔ شام عسکری قوت نہ بنے۔ اسلامی اتحاد میں شامل نہ ہو۔ اسرائیل کو مزید مضبوط کیا جائے۔ مزید وسعت دی جائے۔
اس وقت امریکہ بظاہر غیر جانب دار ہے ، لیکن بہت جلد وہ اہم کردار ادا کرے گا۔

روس یوکرین میں پوری طرح پھنسا ہوا ہے۔ اب وہ شام سے بہت حد تک بتدریج لا تعلق ہوتا جائے گا ، لیکن اس کی وہاں جڑیں گہری ہیں ۔ 50 سال کی انوسٹمنٹ ہے۔اب امریکہ اسرائیل کی مدد سے اپنی جڑیں مضبوط کرے گا ۔
امارت والے وہی کریں گے جو امریکہ چاہے گا۔
سعودی عرب کچھ حد تک شامیوں کی مدد کریں گے ، لیکن وہ بہر حال امریکہ کے ہاتھوں مجبور ہیں۔
ہمیں موجودہ صورتحال پر اللہ کا شکر ادا چاہیے کہ ہمیں درمیانی مدت کے لیے ریلیف ملا ہے ، لیکن مستقبل میں سخت معرکے درپیش ہیں۔
قیامت کے لیے لوگ شام ہی میں جمع ہوں گے۔
یہی میدان حشر بنے گا۔
قیامت کی تیاری کیجے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: مورخہ ۹/دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
یوسف، محمد، خواجہ، جسٹس 9/دسمبر/2004ء
اقبال مرزا(اقبال احمد) 9/دسمبر/2014ء
قاتل شاہ اجمیری(سید میر محمد احمد صدیق 9/دسمبر/1950ء
محبوب رضا خان رضوی، مفتی قاری 9/دسمبر/1991ء
جسٹس خواجہ محمد یوسف 9/دسمبر/2004ء
ملک فیروز خان نون 9/دسمبر/1970ء
یوسف، محمد، خواجہ، جسٹس 9/دسمبر/2004ء
مولانا عبدالرحیم متالا 9/دسمبر/2012ء
ابو ریحان البیرونی 9/دسمبر/1948ء
سید علی رضا نقوی 9/دسمبر/2017ء
عنایت اللہ نسیم سوہدری 9/دسمبر/1994ء

Читать полностью…

علم و کتاب

"ہائے یہ قافلہ!" حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا غلام عامر بن فہیرہ سوچ رہا تھا۔ جس کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے راہ دکھانے کے لیے اپنے پیچھے اُونٹ پر بٹھا لیا تھا ۔ "ہائے یہ نرالہ قافلہ جس میں دو انسان اور ایک خدا ہے ! دنیا پوری قوّت کے ساتھ اِس قافلے کا پیچھا کر رہی ہے لیکن اس کے نزدیک پہنچ کر بھی اس کو چھو نہیں پاتی ـــ ! " اور یہ قافلہ خدا کی قدرت و رحمت کی سینکڑوں نشانیوں سے گزرتا ہوا نفرت و انتقام کی شیطانی طاقتوں سے بچتا ہوا ۱۲ / ربیع الاوّل ســـــــــہ۱۴ نبوی میں یثرب سے کچھ فاصلے پر قبا کے دامن میں پہنچا تو حق و صداقت کے پروانے شمعِ رسالت ﷺ پر نثار ہونے لگے ۔ یہ تھے وہ لوگ جو خُدا اور اس کے رسول کے قدموں پر جاں نثار کرنے کی پُر سوز تمنّا پر سر دھن رہے تھے۔ جنہوں نے خدا کے لیے ساری دنیا سے جنگ مول لی تھی ۔ اپنی ساری دنیا داؤ پر لگا دی تھی ۔ لیکن ان پروانوں میں سب سے زیادہ نمایاں اور سب سے زیادہ سپردگی و ایثار کی تپش سے سُلگتا ہوا پروانہ وہی شخص تھا جو ہجرت کی پُر خطر گھاٹیوں میں رسالت کے قدموں کو خونِ دل و جگر سے نکھارتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا اور جس کی زندگی کا ایک ایک سانس رسولِ خدا ﷺ کی حفاظت میں سینہ سپر رہنے پر صرف ہوتا آیا تھا وہ یہاں بھی چادر تھامے ہوئے حضور ﷺ پر سایہ کیے ہوئے ساری دنیا سے مُنہ پھیر کر محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے حسین چہرے کو والہانہ سپردگی کے ناقابلِ بیان عالم میں تک رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ تنہا اس "ایک چہرے کو دیکھ دیکھ کر جی سکتا ہے جیسے اس چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ ساری دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے جیسے اسے خود اپنے وجود کی طرف بھی ایک نظر اُٹھانے کی فرصت نہیں رہتی ۔
____________

اور ____ آج جب وہ چہرہ نظروں سے اوجھل ہے ہماری نظریں ایک بار پھر دُنیا اور متاعِ دنیا کی طرف جم کر رہ گئی ہیں۔ اسلام کو خطرات میں گھرا ہوا چھوڑ کر ہم لوگ اپنے اپنے گھروں کی پناہ گاہوں میں چُھپ کر جان بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ ہمیں تمام مادّی وسائل سے اُمیدیں ہیں لیکن اُس واحد ذات سے کوئی اُمید نہیں جو تمام اُمیدوں کا ملجا و ماویٰ ہے کہنے کو دُعائیں اسی سے کرتے ہیں لیکن عمل تمام تر ایسا ہی ہے جو اس کی رحمت و نصرت کو نہیں غیظ و غضب ہی کو آوازیں دیتا رہتا ہے ۔ خدا کی پناہ ! کہاں وہ اسلام جو گوشت پوست کے انسانوں کو ایک سجدۂ مسلسل میں ڈھال گیا تھا اور کہاں یہ ہمارا اسلام جو پیہم بغاوت اور نافرمانیوں کی ایک غیر مختتم کہانی ہے!
*__

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في ضحك رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 236

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا ظفر احمد عثمانی(وفات : ۸/دسمبر ۱۹۷۵ء) تحریر: مولانا ضیاء الدین اصلاحی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
۸؍ دسمبر ۱۹۷۴ء؁ کو نامور عالم مولانا ظفر احمد عثمانی تھانوی نے ۸۵ سال کی عمر میں وفات پائی وہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حقیقی بھانجے اور ہم زلف تھے، ان کی ولادت ۱۳۱۰ھ میں دیوبند میں ہوئی، ان کے والد شیخ لطیف احمد عثمانی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے عزیز تھے، ان کی ابتدائی تعلیم دارلعلوم دیوبند میں ہوئی، پھر حکیم الامت نے ان کو تھانہ بھون بلالیا، یہاں فارسی کی تکمیل اور عربی کی کچھ کتابیں پڑھیں، مولانا تھانوی سے بھی مثنوی مولانا روم اور عربی کے چند اسباق پڑھے، یہاں سے مولانا نے ان کو مدرسہ جامع العلوم کانپور بھیج دیا، پھر مظاہر العلوم سہارنپور جاکر تعلیم مکمل کی، ۱۳۳۸ھ؁ میں یہیں مدرس مقرر ہوئے، وہ تھانہ بھون میں درس وافتا کی خدمت پر بھی مامور رہے۔ ۱۳۴۹ھ؁ سے رنگون گئے، جہاں درس و تدریس کے علاوہ وعظ و ارشاد کا بھی مشغلہ جاری رکھا، مولانا ۱۳۵۸ھ؁ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے استاذ دینیات مقرر ہوئے، یہاں ایک مدرسہ اشرف العلوم قائم کیا، اس میں بلامعاوضہ درس دیتے تھے، ۱۹۵۴ء؁ میں دارالعلوم ٹنڈوالہ یار (سندھ) میں شیخ الحدیث ہوئے اور آخر تک اسی سے تعلق رہا۔
درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کا بھی سلسلہ جاری رکھا، اردو عربی میں بہت سی کتابیں لکھیں، حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ سے گہرے تعلقات تھے، معارف میں بھی ان کے عالمانہ مضامین شائع ہوتے رہے، حکیم الامت کے اکثر مواعظ قلمبند کئے، ان کی تفسیر بیان القرآن کا خلاصہ کیا، ان کا سب سے اہم کارنامہ بیس جلدوں میں اعلاء السنن کی ترتیب و تالیف ہے، اس میں حنفی مذہب کی موید حدیثوں کو بالاستیعاب جمع کرکے اس غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے کہ حنفی مسلک کی تائید میں احادیث بہت کم ہیں، حواشی میں محدثین اور علمائے فن کی تحقیقات درج ہیں، اس کا مقدمہ مستقل کتاب کی صورت میں علیحدہ ایک جلد میں شائع ہوا ہے، یہ جلدیں حضرت تھانویؒ کی نگرانی میں دیدہ ریزی، وسعت نظر اور تحقیق و تنقید سے مرتب کی گئی ہیں، حنفیہ نے جو مسائل قرآن سے مستنبط کئے ہیں ان کو احکام القرآن کے نام سے جمع کرنا شروع کیا تھا، شعبہ تاریخ ادبیات پنجاب یونیورسٹی لاہور کی فرمائش پر خودنوشت حالات نورالنظر فی آثار الظفر کے نام سے لکھے، شعروسخن کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے، اردو عربی دونوں میں دادسخن دیتے رہے۔
وہ علوم ظاہر کی طرح علوم باطن سے بھی مالامال تھے، حضرت مولانا تھانویؒ سے رشتہ و قرابت ہی کا نہیں بلکہ دینی و روحانی تعلق بھی تھا ان کی نماز جنازہ بھی پڑھائی تھی، کئی بار حج و زیارت کعبہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
مزاج میں تشدد و انتہاپسندی کے بجائے حق پسندی تھی، ہر طبقہ و مسلک کے لوگوں کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے، جائز اور حق بات کہنے میں جماعتی عصبیت مانع نہ ہوتی تھی، اس کا ثبوت ان کی معرکۃ الارا تصنیف اعلاء السنن ہے، ان کے بقول اس میں تقلید جامد کے بجائے تحقیق فی التقلید سے کام لیا گیا ہے، جس مسئلہ میں حنفیہ کی دلیل کمزور تھی، وہاں صاف طور سے ضعف دلیل کا اعتراف کیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب کی قوت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
ان میں علم و سیاست دونوں کا اجتماع تھا، علمی و دینی خدمات کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی نمایاں حصہ لیتے تھے، تحریک پاکستان کے بڑے حامی تھے اور اس کے لئے ملک کے مختلف مقامات کا دورہ بھی کیا، تحریک کے شباب کے زمانہ میں اعظم گڑھ بھی تشریف لائے تھے، یہاں ان کا بہت بڑا جلوس نکالا گیا تھا، جس کی یاد یہاں کے لوگوں میں اب تک باقی ہے، مولانا علم و عمل اور اخلاق و عادات میں علمائے سلف کا نمونہ تھے، ایسے صاحب کمال اور بلند پایہ علماء مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ قوم و ملت اور علم و دین کے اس خادم کے درجات بلند کرے اور اپنے دامن رحمت میں جگہ دے۔ (’’ض‘‘، مارچ ۱۹۷۵ء)

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۸/ دسمبر
/channel/ilmokitb

اثر ہاپوڑی (سید احمد علی) 8/دسمبر/1980ء
امراؤ طارق (سید طارق علی) 8/دسمبر/2011ء
سلطان خان 8/دسمبر/1994ء
عبدالرحیم رحمانی، صوفی شاہ محمد 8/دسمبر/1987ء
مولانا ظفر احمد عثمانی 8/دسمبر/1974ء
مولانا مرغوب الرحمن بجنوری 8/دسمبر/2010ء
حفیظ نعمانی 8/دسمبر/2019ء
مولانا عبد اللہ قریشی الازہری 8/دسمبر/2015ء
محمد حسین ہیکل 8/دسمبر/1956ء

Читать полностью…

علم و کتاب

آپ نے پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ:
امور مفوضہ میں کوتاہی نہ کرنا اور دوسروں کے کام میں کبھی دخل نہ دینا اس سے بہت عافیت رہے گی۔

دوسری نصیحت فرمائی کہ:

طلباء کی تعلیم پر پوری توجہ رکھنا۔ جہاں تک ہو سکے ترغیب و تشویق ہی سے کام چلانا۔ضربی تادیب کا درجہ بالکل آخری ہونا چاہیے۔ نہ ہو تو بہتر ہے ۔
تیسری نصیحت فرمائی:

ذمہ داروں سے نہ بہت زیادہ دور رہنا۔ نہ بہت زیادہ قریب۔

چوتھی نصیحت فرمائی:

طلباء سے جسمانی خدمت ہرگز نہ لینا۔
کم عمر طلبہ کو تنہائی میں اپنے کمرے میں نہ بلانا۔ بات کرنا ضروری ہو، تو باہر آجانا ۔ اندر بلانا ہو، توساتھ میں کوئی اور ہونا چاہیے۔
مدرسین اور اساتذہ کے لیےیہ نصیحتیں ایسی ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے بہت سے فتنوں سے محفوظ رہا جاسکتاہے اور یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنے میں معین ہیں۔

نوع بنوع خوبیاں اور امتیازی وصف

حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ ایک کامیاب استاذ،کامیاب معلم اخلاق اوراخلاص سے بھرے ہوئے مربی تھے۔ایک معلم و مربی میں،جن اخلاق و صفات کا ہونا ضروری ہے، وہ تمام اخلاق و صفات مولانا مرحوم میں بدرجۂ اتم موجود تھیں:
عمل میں پختگی، قوت ارادی، اعلی درجے کا عزم ،غیر معمولی قوت تنفیذ، انتظام و انصرام میں شفافیت اور عمدہ نگرانی آپ کے امتیازی اوصاف تھے۔

یہ بات صحیح ہے کہ حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کی طبیعت میں حدت تھی۔ جلالی رنگ غالب تھا۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات ان کی تنبیہ و تادیب غصے کے انداز میں ظاہر ہوتی تھی؛مگر چونکہ آپ مخلص اور بے لوث تھے،اس لیے آپ کی باتوں اور تنبیہات میں اثر ہوتا تھا ۔

تربیت کے حوالے سے آپ کی ایک بات ،آپ کے خاص شاگرد حضرت مفتی اجمل صاحب استاد مدرسہ شاہی نے نقل کی ہے۔وہ بات ہم اپنے والد محترم سے بھی سن چکے ہیں۔

آپ کہا کرتے تھے :
پہلے اساتذہ طلبہ کے ساتھ دار الاقامہ میں ہی رہا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ اساتذہ سے مربوط رہتے تھے۔ اس سے طلبہ کی تربیت خوب ہوتی تھی۔ پھر جب اساتذہ کی ضرورت کے لیے فیملی کوارٹرز کا نظام بنا۔ تو طلبہ اور اساتذہ میں دوری ہو گئی،اس سے اساتذہ کی تو ضرورت پوری ہو گئی، مگر طلباء کی تربیت پر اس کا منفی اثر پڑا۔

کامل و حاذق طبیب

حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ ماہر حکیم اور طبیب حاذق تھے۔ صرف نبض اور چہرے کے خد و خال کو دیکھ کر بیماری کا پتہ لگا لیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا، تو صرف چہرہ دیکھ کر کہا کہ:
آپ کےگردے میں پتھری ہے ۔اس کا علاج کراؤ !اس وقت واقعی میرے گردے میں پتھری تھی۔ رہ رہ کے شدید درد اٹھتا تھا ۔ اس کا میں ایلوپیتھک علاج بھی کرا رہا تھا۔
حضرت والا نے صرف چہرے کےخدوخال کو دیکھ کر میری اس تکلیف کا اور بیماری کا پتہ لگایا اور بتایا۔اس کوہم نےفن طبابت میں آپ کی مہارت اور حذاقت کی بڑی دلیل سمجھا۔
میری اہلیہ محترمہ سلمہااللہ تعالی کو بدن میں کئی طرح کے درداورکمزوری کی شکایت تھی۔ میں نے حضرت سے عرض کیااورنبض دیکھنے کی گذارش کی۔حضرت گھر تشریف لے آئے ۔نبض دیکھی اورتشخیصِ مرض کے بعد دوا تجویز کی۔ چند ماہ دوا کھانے کے بعد ،وہ مرض بالکل ختم ہو گیا اور صحت اعتدال پر آگئی۔
ایک دفعہ حاضر ہوا،تو چہرہ دیکھ کر کہنے لگے:
آپ کو مرضِ معدہ ہے۔ آپ کا پیٹ درست نہیں رہتا۔
میں نے کہا :
جی حضرت !
تو کہا :کھانا کھانے کے درمیان اور فورابعد پانی نہ پیا کرو!پونے دو گھنٹے کے بعد پانی پیا کرو!
پیاس لگے یاضرورت ہو تو ایک دو گھونٹ پینے میں کوئی حرج نہیں۔میں نے اس پر عمل کیا، تو میرا مرض کافی حد تک ختم ہو گیا۔آپ نے اس علاج کو مشکاۃ شریف سے ایک حدیث نقل کر کے مستدل بھی کیا تھا۔
طویل اور لاعلاج قسم کی بیماریوں میں بھی ،بہت سے طلبہ اور دیگر حضرات، آپ سے رجوع کرتے۔ تو خدا آپ کے ذریعے سے ان کو شفا عطا فرماتا۔ایسے بہت سے واقعات مشہور ہیں ۔

تقوی و طہارت اور اعلی درجے کا تدین

تقویٰ وطہارت اور تدین میں، آپ بزرگانِ دیوبند اور اسلاف کی یاد گار تھے ۔اولیاء کے سلسلۃ الذہب کی ایک خوبصورت کڑی تھے۔اسی کا اثر تھاکہ:آپ خلافِ شریعت کاموں پر بہت خفا ہو جاتے ۔مقطوع اللحیہ طلباء کے خلاف بڑے سخت رہتے۔ نماز چھوڑنے والوں پر سخت تادیبی کاروائی کرتے ۔ بعض مرتبہ ان کی جائے قیام منسوخ کر دیتے۔ یا۔ مطبخ سے طعام کا سلسلہ موقوف کرادیتے۔
ان کی اپنی ذاتی زندگی میں بھی شریعت پر عمل آوری کا بے حد اہتمام تھا۔ سنتوں کی اتباع اور دین کا احترام تھا ۔آخری وقت میں جب آپ کو سبق پڑھانے میں ذہول کاسامنا ہوا، تو دیانتا آپ نے تدریس کتب سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ کے استعفےکومنتظمین منظور کرنا نہیں چاہتے تھے ۔آپ نے اصرار کے ساتھ استعفیٰ قبول کروایا اور دارالشفاء میں بحیثیت حکیم کے خدمت انجام دینے لگے ۔اس سے پہلےعلیاء درجے سے ادنیٰ درجے کے مدرسی گریٹ میں آنے کی درخواست دی تھی۔ حضرت مہتمم صاحب اس کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔بعد ازاں صرف مطب میں آگئے ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

اصول پسند منتظم ۔ کامیاب معلم ۔فرض شناس عالم ربانی

حضرت مولانا محمد احمد صاحب فیض آبادی، سابق استاذ حدیث و ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند

خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347

/channel/ilmokitab

25 فروری 2024مطابق 16 شعبان 1445 ہجری کو یہ اطلاع ملی تھی کہ استاذ محترم حضرت مولانا محمد احمد صاحب سابق استاذ حدیث وناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند رحلت فرما گئے۔ میرےلئےان کےانتقال کی اطلاع ذاتی حادثےسےکم نہیں تھی۔بہت رنج ہوا ۔افسوس ہوا؛ مگر بعض ذاتی قسم کے حالات ایسے تھے کہ میں حضرت کے تعلق سے کچھ لکھ نہ سکا۔
آج اچانک ایک جگہ حضرت کا ذکرجمیل چل رہا تھا تو،حضرت کی بہت شدت سے یادآئی۔
حضرت کی شفقتیں،مہربانیاں،کرم فرمائیاں،ان کی حوصلہ بڑھانے والی باتیں، تربیتی انداز، سبق میں ان کے پڑھانےکااسلوب،سمجھانےکا طریقہ،افہام و تفہیم،سب کچھ سامنےآگیا۔یادوں کا ایک سیل رواں تھا جس کو روکنا میرے بس سے باہر تھا،اس لیے جنبشِ قلم کا سہارا لیا، تاکہ کچھ ایسی یادیں جو ضروری باتوں پر مشتمل ہیں تحریر میں آجائیں۔

مثالی کردار

حضرت مولانا محمد احمد صاحب قدس سرہ میرے بہت ہی عزیز محبوب اور مشفق ترین استاذ تھے ۔ حقیقت میں وہ میرے استاذکم اور مربی زیادہ تھے۔عالم با عمل، اعلی درجے کی متقی، ولی ِکامل، اور متبعِ سنت بزرگ تھے۔سادگی ،اصول پسندی اور فرض شناسی میں ضرب المثل تھے۔

راقم نے مدرسہ ثانویہ دارالعلوم دیوبند میں چہارم تک کی تعلیم، آپ ہی کی زیر نگرانی حاصل کی ہے۔ اس وقت آپ مدرسہ ثانویہ کے اعلی ذمہ دار تھے۔آپ نے اس ذمہ داری کو اس خوبی سے نبھایا کہ ثانویہ کی تعلیم مثالی بن گئی۔ آپ وقتِ مقررہ پر ثانیہ کے دفترِ تعلیمات میں تشریف لے آتے ۔اور تاخیرسے آنے والوں پر نگاہ رکھتے۔ آپ کی طرف سے یہ تاکید تھی کہ وقتِ مقررہ پر ہر کوئی، مدرسہ ثانویہ میں داخل ہو کر درسگاہ میں حاضر رہے۔ دیر سے آنے والے طلباء کی سرزنش کرتے۔ اور تادیب و تنبیہ سے کام لیتے۔بعض مرتبہ صدر دروازہ بند کروا دیتے،جس کی وجہ سے تاخیر سے آنے والے طلباء کو شرمندگی کا سامنا ہوتا اور وہ دیر حاضری والے عمل سے آئیندہ کے لیے رک جاتے۔ آپ کے اس عمل سے اساتذہ بھی وقت کا خیال رکھتے۔
مدرسہ ثانویہ میں آپ کے عمل دخل سے پہلے مشہور تھاکہ: ثانویہ کے نظام تعلیم کو کوئی سدھار نہیں سکتا۔یہ بات بھی کہی جارہی تھی کہ:مولانا وحید الزماں صاحب رحمہ اللہ جیسے مدبر اور اصول پسند منتظم بھی ثانویہ کے نظام کو درست کرنے میں ناکام رہے تھے؛مگر جب یہ نظام حضرت مولانا قدس سرہ سے وابستہ ہوا، تو اس نظام میں ایسی بہتری اور شفافیت آئی کہ؛ دارالعلوم کی ابتدائی تعلیم چہارم عربی تک مثالی اور قابل تقلید بن گئی ۔

وسعت ظرفی

یہ درست ہے کہ آپ کی اصول پسندی انتہا پسندی کے درجے تک پہنچی ہوئی تھی؛ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کے یہاں، وضعداری اور درگزر کا بھی خاص گوشہ موجود تھا۔محنتی اور پڑھنے والے طلباء کو ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر تنبیہ تو کرتے ؛مگر وہ تنبیہ اور وہ کارروائی ،جو کم محنتی طلباء کےساتھ آپ کی ہوتی تھی،محنت کرنے والے طلباء کے ساتھ نہیں ہوتی تھی۔ آپ محنتی اور پابند طلباء کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور ان کو سمجھا بجھا کر معاف کر دیا کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ پوری توجہ اور خلوص کے ساتھ ان پر نگاہ بھی رکھتے تھے ۔

تربیت کا خاص انداز

دارالعلوم دیوبند اور جمیعت علمائے ہند کا ربط ،سب کو معلوم ہے؛ اسی ربط کی بنیاد پر جمعیت علماء ہند کے جلسے، جلوسوں میں دارالعلوم کے اساتذہ وطلباء کی کھل کر شرکت ہوتی تھی۔ ایک عمومی ماحول بنا دیا جاتا تھا کہ جب بھی کوئی اجلاس عام ہوتا ،طلبہ اس میں شرکت کریں ۔اس طرح کے مواقع پر دارالعلوم کی تقریبا چھٹی معلوم ہوتی تھی۔ ہمیں آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ چھٹی کا باقاعدہ اعلان بھی نہیں ہوتا تھا اور چھٹی سمجھ لی جاتی تھی۔ اس سے دارالعلوم کے تعلیمی ماحول پر جو اثر پڑتا تھاوہ ظاہر ہے،یہاں تک کہ علی الصباح دیوبند سے دہلی کو جانے والی فاسٹ پسنجر ٹرین کا نام طلبہ نے دارالعلوم ایکسپریس مشہور کر رکھا تھا۔اسی مناسبت سے کہ جب بھی دہلی میں جمیعت کا کوئی اجلاس ہوتا ،تو وہ ٹرین پوری کی پوری طلبہ سے بھری ہوتی تھی اور اس وقت دارالعلوم میں چھٹی کا ایک عام سا ماحول بن جاتا تھا ۔

ایک موقع پر جب ہم سوم عربی مدرسہ ثانویہ کے طالب علم تھے۔جمیعت علمائے ہند کی طرف سے دہلی میں ایک اجلاس عام کا اعلان ہوا۔ یاد رہے کہ اس وقت جمعیت کے صدر محترم فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ تھے۔ اس موقعہ پر مدرسہ ثانویہ میں مولانا محمد احمد صاحب نور اللہ مرقدہ کی طرف سے بہت سختی کے ساتھ یہ پیغام عام کیا گیا کہ:

Читать полностью…

علم و کتاب

ایک بااخلاق اور متواضع عالم دین
جناب مفتی اشفاق عالم بھاگلپوریؒ
استاذ جامعۃ الشیخ حسین المدنی دیوبند


بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

/channel/ilmokitab

وفات کی اطلاع
آج ایک مرتبہ پھر ۶؍دسمبر کی صبح ایک افسوسناک اور غم انگیز خبر لے کر آئی، ویسے تو یہ تاریخ ہر سال پوری امت مسلمہ کے لیے بالعموم اور مسلمانانِ ہند کے لیے بالخصوص ایک ملی حادثے کی یاد دلاتی ہے، جس کا کرب کم و بیش ہرصاحب ایمان محسوس کرتا ہے لیکن اس مرتبہ یہ تاریخ ایک افسوسناک واقعہ کے سبب دیوبند سے مربوط طلبہ و علماء کو دوہرا رنج دے گئی، سوشل میڈیا سے معلوم ہوا کہ جامعہ عربیہ مرادیہ مظفرنگر اور جامعہ فلاحِ دارین بلاسپور ضلع مظفرنگر کے سابق استاذ، دیوبند کے معروف تعلیمی ادارے جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی کے مخلص مدرّس، محترم جناب مولانا مفتی محمد اشفاق عالم قاسمی صاحب علیہ الرحمہ اپنے آبائی وطن ضلع بھاگلپور، بہار میں رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

متواضع اور با اخلاق شخصیت
مولانا مرحوم سے راقم کا تعلق دو انداز کا تھا، پہلا کچھ یوں کہ وہ میرے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ سے کافی مخلصانہ و عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے،۲۰۱۸ءمیں جب والد گرامی پر لقوہ کا اثر ہوا اور ان کی قوت گویائی متاثر ہوئی تو مولانا مرحوم مجھ سے ہمیشہ والد گرامی کی خیریت دریافت کرتے اور ان کے لیے دعا گو رہتے، یہ بلاشبہ ان کے عالی اخلاق کا ہی مظاہرہ تھا، والد گرامی اُن کے استاذ نہ تھے لیکن اُن کی اس مزاج پرسی میں ہمیشہ خیرخواہی، عظمت اور عقیدت محسوس ہوتی۔
دوسرا تعلق میری معاشی مصروفیت مکتبہ النور اور نور گرافکس کی وجہ سے تھا، متعدد مرتبہ ان سے دورۂ حدیث کی خصوصی سند اور مختلف کتابوں کے سرورق بنانے کے لیے واسطہ پڑا، اس دوران ان میں خوش اخلاقی، تواضع اور صفائی معاملات جیسی خوبیاں محسوس کیں۔ حالاںکہ وہ جامعۃ الشیخ حسین احمد المدنی کے ایک سینئر استاذ تھے، دورۂ حدیث شریف اور تکمیل افتاء کے اسباق بھی آپ سے متعلق تھے، اس کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی کر و فر اور حشم و خدم والا معاملہ نہ تھا، چھوٹے سے چھوٹا کام کرانے کے لئے وہ بارہا مکتبہ النور یا نور گرافکس بذات خود تشریف لاتے۔

محنت و جفا کشی
مدارس اسلامیہ ہندیہ کے نظام کی اسے خامی کہا جائے یا کچھ اور عنوان دیا جائے کہ بیشتر اداروں میں وسائل ہونے کے باوجود مدرسین و کارکنان کی تنخواہیں ان کی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر پاتیں، ایسے میں تین طرح کے لوگ عموماً سامنے آتے ہیں۔ پہلے نمبر پر وہ فضلاء ہیں جو کچھ عرصے مدارس یا مساجد میں دینی خدمات انجام دینے اور وہاں کی انتظامیہ کے ناقابل ذکر رویے کی وجہ سے اس عظیم خدمت کا راستہ نہ چاہتے ہوئے بھی تبدیل کر دیتے ہیں اور اہل خانہ کی کفالت وغیرہ کے لئے تجارت وغیرہ کی کوئی اور راہ اختیار کر لیتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس سند فضیلت کے علاوہ کوئی اضافی ہنر یا خارجی مواقع نہیں ہوتے، چناںچہ وہ اسی تنخواہ پر قناعت کرتے ہیں۔
جب کہ تیسرے نمبر پر وہ افراد آتے ہیں جو اپنے اضافی ہنر یا مواقع کابہترین استعمال کرکے دن رات جدوجہد کرتے ہیں، اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرتے ہیں، تشنہ لبی کا شکوہ کرنے کے بجائے کنواں کھودتے ہیں اور محنت کے پانی سے سیرابی کو اپنا شعار بناتے ہیں۔
میرے خیال میں مولانا مرحوم کا تعلق آخر الذکر طبقے سے ہی تھا۔ چناںچہ دیوبند کے کئی کتب خانوں کے لیے انھوں نے مختلف الجہات خدمات انجام دیں، کتابوں کی تصحیح کی، نظر ثانی کا فریضہ انجام دیا، متعدد درسی کتابوں کی کئی مقبول شروحات تحریر کیں۔ ان سے ہونے والی ہر ملاقات میں وہ اپنی تحریری سرگرمیوں کا ذکر کرتے اور کام مکمل ہونے پر خوشی و اطمینان کا اظہار بھی، بلاشبہ یہ کتابیں ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہیں۔
ذیل میں ان کی چند اہم کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے:

تنویر الوقایہ شرح اردو شرح الوقایہ
درجہ چہارم میں پڑھائی جانے والی یہ کتاب اپنا ایک اہم مقام رکھتی ہے، تاہم بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں طویل فقہی مباحث ہیں، اختلافاتِ ائمہ کا ذکر ہے اور پھر ہر ایک کے دلائل اور ان کا جواب بھی، بسا اوقات یہ طویل بحث پیچیدگی اختیار کر لیتی ہے، مبتدی طلبہ کے لیے جس کا سمجھنا کافی دشوار ہوتا ہے۔ یہ کتاب حل کتاب میں کافی معاون ہے جو مولانا مرحوم نے دیوبند کے مشہور اشاعتی ادارے فیصل پبلی کیشنز کے لیے تحریر فرمائی، دو جلدوں پرمشتمل یہ کتاب مدارس میں اپنی شناخت بنا چکی ہے۔
الکلام المسند شرح اردو موطا امام محمد

Читать полностью…

علم و کتاب

جامعہ دارالسلام عمرآباد ، تمل ناڈو
تاریخ قیام : 10 جمادی الاولی 1343ھ مطابق 7 دسمبر 1924

عیسوی تقویم کے اعتبار سے آج جامعہ دارالسلام عمرآباد کو قائم ہوے سو سال پورے ہوگئے... الحمدللہ...
دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو صدوسی سال سلامت رکھے اور اس سے دین وملت کی وقیع خدمات لیتا رہے... آمین

Читать полностью…

علم و کتاب

شہر ممنوع کی واجدہ تبسم
(وفات : ۷ دسمبر ۲۰۱۱ء)
تحریر: ندیم صدیقی
لنک علم وکتاب
https://archive.org/download/wajidah-tabassum-by-nadeem-siddiqui/Wajidah%20Tabassum%20By%20Nadeem%20Siddiqui.pdf

Читать полностью…

علم و کتاب

یہاں ہمیں شَق سے مُشتق ایک اور لفظ یاد آگیا۔ اس لفظ یا اس اصطلاح کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہماری کم سِن اُردو زبان اُن تمام ترقی یافتہ اور بوڑھی زبانوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، جن میں جدید سائنس کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ افسوس کہ انگریز اور انگریزی کے غلاموں نے ہمارے ذہین بچوں کے اذہان پر زبردستی وہ زبان مسلط کر رکھی ہے جس کی ایک بھی اصطلاح ہمارے اِس پورے خطے کی زمین کا پودا نہیں۔ ہمارا بچہ اپنی تمام تعلیمی عمر ایسی اجنبی زبان کے نامانوس الفاظ رٹنے میں گزار دیتا ہے جس کی پیدائش و پرورش سات سمندر پار ہوئی ہے۔ بچہ جس زبان میں سوچتا ہے، جس زبان میں آرزو کرتا ہے اور جس زبان میں [ترقی کے] خواب دیکھتا ہے، اُس زبان میں علم حاصل کرنے سے اُسے روک دیا گیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس گونگے نوجوان سے گلہ بھی کیا جاتا ہے وہ ایجادات نہیں کرتا، تحقیق نہیں کرتا، دنیا سے پیچھے، پست اور پس ماندہ رہ گیا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں حصہ نہیں لیتا۔کیسے حصہ لے؟ اس کے منہ سے اس کی زبان چھین لی گئی، اس کا نطق گُنگ کردیا گیا، اس کا گلا گھونٹ دیا گیا، اس کا دماغ ماؤف کرکے اسے اپاہج بنادیا گیا اور کہا گیا کہ یہی ’ترقی کا راستہ‘ ہے۔

جوہری بم (Atomic Bomb)کیسے پھٹتا ہے؟ جب سرکاری تعلیمی اداروں (یعنی پیلے اسکولوں) میں علمِ طبیعیات اور ’جوہری طبیعیات‘ کا درس ہمیں ہماری قومی زبان میں دیا جاتا تھا تو بتایا جاتا تھا کہ جوہر کا مرکزہ شَق کرکے دو یا دو سے زائد چھوٹے چھوٹے مرکزوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ شَق کرنے کے اس عمل کو ’عملِ اِنشقاق‘ کہتے ہیں۔ یعنی ’اِنشقاق‘ بھی شَق سے مُشتق ہے۔ جب اِنشقاق کا زنجیری عمل شروع ہوتا ہے تو برق مقناطیسی تابکاری اور حرارتی تعامل سے بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ توانائی کا یہ اخراج وسیع پیمانے پرتباہی کا سبب بنتا ہے۔ اس تباہ کاری کے ضمن میں جوہری طبیعیات کا علم رکھنے والے ایک شاعر، ایک جوہری عاشق سے اس کا حالِ دل بھی سن لیجے:

جوہر شکن نگاہ پڑی دل پہ جب مِرے
فوراً ہی میرے دل کا ہوا یارو اِنشقاق

اُردو میں سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والوں نے سائنسی اشعار ہی نہیں کہے، سائنسی کہانیاں اور سائنسی افسانے بھی تخلیق کیے۔ ہمارے پاس نہایت گراں قدر’سائنسی ادب‘ کا ذخیرہ موجود ہے۔مگراب نئی نسل کو اپنے ان علمی اور ادبی ذخائر سے استفادہ کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ وہ انھیں پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ تخلیق تو دُور کی بات ہے۔اگر ذریعۂ تعلیم اُردو ہوتا اور تمام سائنسی علوم کی تعلیم ابتدا سے اُردو میں دی جاتی توبرقی آلات اور گاڑیاں ٹھیک کرنے والے کاری گر اور اُن کی دُکانوں پر کام کرنے والے ’چھوٹے‘ بچے ’جُگاڑو‘ نہ کہلاتے۔ ذہانت اور مہارت کا مظاہرہ کرنے والے یہ لوگ اگر چین،جاپان، جرمنی اور کوریا کے لوگوں کی طرح اپنی قومی زبان میں سیکھنے کی سہولت پاتیتو انھیں ممالک کے لوگوں کی طرح موجد اور مہندس کہے جاتے۔اپنی ایجادات اور اپنی کاری گری سے ملک کو مشینی اور صنعتی ترقی کے عروج پر لے جاتے۔ مگرمحض انگریزی سے نا بلد ہونے کی وجہ سے یہ ’ان پڑھ اور جاہل‘ کہے جاتے ہیں۔ان میں سے اکثر انگریزی ذریعۂ تعلیم کی وجہ سے تعلیم سے بھاگے ہیں۔ملک کے ہر شہر میں اِن بھگوڑوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔مگر جو لوگ انگریزی ذریعۂ تعلیم کے باوجود تعلیم چھوڑ کر نہیں بھاگے، اُن کے پاس کون سا علم ہے؟ اُن کے پاس محض اسناد ہیں، ڈگریاں ہیں اور تقلید کی روش ہے۔

معلمہ کے سوال کی بدولت علم الاشتقاق سے تعلیم و تعلّم کے عملِ انشقاق تک آج کا کالم جا پہنچا۔ حاصلِ کلام یہ کہ اوپر لفظ ’اشتقاق‘ کا کھوج لگانے، اس کا مصدر معلوم کرنے اور اس مصدر سے بننے والے دوسرے الفاظ جاننے کے لیے جو مشقت کی گئی ہے، اسی کو ’علم الاشتقاق‘ کہتے ہیں۔ یہ علم انگریزی زبان میں “Etymology”کہلاتا ہے۔ انگریزوں نے کس زبان سے اس لفظ کا اشتقاق کیا ہے؟

Читать полностью…
Subscribe to a channel