علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
* غلطی ہائے مضامین۔۔۔ کہ میرے نالوں سے شَق نہ ہو سنگِ آستانہ...احمد حاطب صدیقی*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
کراچی کے ایک سلسلۂ مدارس کی صدر معلمہ اور ممتازماہرِ تعلیم محترمہ شائستہ صغریٰ نے سوال کیا ہے:
’’علم الاشتقاق کے معنی کیا ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔ میں نے گُوگل کیا تو جو جواب آیا وہ سمجھ میں نہ آیا‘‘۔
سوال سُن کر سکون ہوا کہ الحمدللہ! ہماری معلّمات میں بھی علم حاصل کرنے کا اشتیاق بڑھ گیا ہے۔ بالخصوص ’علمِ اشتقاق‘ حاصل کرنے کا۔ اُمید ہے کہ اُن کے طلبہ و طالبات بھی اب علم الاشتقاق سمیت دیگر علوم سے بِلا گوگل بہرہ مند ہوسکیں گے۔
علّامہ ’گُوگل‘ سے علم حاصل کرنے کو ’گُوگل کرنا‘ کہا جانے لگا ہے ۔ حضرت علّامہ کے شاگردوں کی تعداد کروڑوں بلکہ اربوں تک تو پہنچ ہی گئی ہوگی۔ تاہم ابھی تک مصنوعی ذہانت یا گُوگل سے حاصل ہونے والے علم کو کوئی سند حاصل ہوئی نہ مستند گردانا گیا۔ کسی لفظ سے متعلق معلومات تلاش کیجیے تو مختلف بلکہ متضاد قسم کے کئی ہزار جوابات کی اتنی بھرمار ہوجاتی ہے کہ بابا بلھے شاہ کو اُٹھ کر اپنا عصا لہرانا پڑتا ہے:
علموں بس کریں او یار!
’علم الاشتقاق کے کیا معنی ہیں؟‘ سہل اورسادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجے کہ یہ وہ علم ہے جس کے تحت کسی ’لفظ‘ کی جڑ، بنیاد، اصلیت، مصدر، منبع اور تاریخ وغیرہ دریافت کی جاتی ہے۔ علم الاشتقاق، علمِ لسانیات (زبانوں کے علم) کی ایک شاخ ہے۔ زبانیں کیسے وجود میں آئیں؟ اس سوال کا جواب علمِ لسانیات سے ملتا ہے۔ علم الاشتقاق میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی زبان کا کوئی لفظ کیسے بنا، کہاں سے شروع ہوا، پہلے پہل استعمال ہوا تو اس کے کیا معنی تھے اور بار بار کے استعمال سے معانی میں کیا کیا تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ نیز یہ کہ تاریخی طور پر یہ لفظ کب سے استعمال ہورہا ہے، کہاں سے چلا اور کہاں کہاں تک پہنچا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک یا ایک زبان سے دوسری زبان میں پہنچنے کے بعد تلفظ میں کیا تبدیلیاں آئیں اور معانی میں کیا کیا تغیر ہوا؟ اس قسم کے بہت سے سوالات کا جواب ہمیں ’علم الاشتقاق‘ سے ملتا ہے۔
مثال کے طور پر لفظ ’اشتقاق‘ ہی کو لے لیجے۔ اس لفظ کی اصل ’شَق‘ ہے۔ شَق کے بہت سے معانی ہیں۔ کاٹنا، پھاڑنا اور جدا جدا کرنا۔ پھٹ جانا، شگاف پڑجانا یا دو ٹکڑے ہوجانا۔ پارچہ، ٹکڑا، چاک، دراڑ اور پھانک وغیرہ۔ ’’شَق القمر‘(چاند کے دو ٹکڑے ہوجانے) کے معجزے سے سب واقف ہیں۔ ایک دن اقبالؔ نے ضمیرِ مشرق کو راہبانہ قرار دے ڈالا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اُنھیں کی زبانی سنیے:
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
اُنھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شَق نہ ہو سنگِ آستانہ
فرض کیجیے کہ اقبالؔ کے نالوں کے بغیر ہی کوئی سنگِ آستانہ شَق ہوجائے تو اُس کے دو ٹکڑے ہوں گے، ایک دایاں ٹکڑا ایک بایاں۔ دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کے حریف، مقابل یا مخالف ہوں گے۔ ’شِقاق‘ کا مطلب مخالفت اور دشمنی ہے۔ کسی مخالف کی بات سن کر دل شَق ہوجائے تو بات دل پر’شاق‘ گزرتی ہے۔ دشمن ’شقی‘ ہوتا ہے، ’شقاوت‘ دکھاتا ہے۔ شقی کی جمع ’اشقیا‘ ہے۔ دو حصوں میں بٹی ہوئی چیز کو ’شقیق‘ یا ’شقیقہ‘ کہتے ہیں۔ آدھے سر کا درد اس وجہ سے ’شقیقہ‘ کہلاتا ہے کہ وہ سر کو دوحصوں میں تقسیم کردیتا ہے، ایک پُردرد اور ایک بے درد۔ ایک ہی ماں باپ کے دو جگر گوشے بھی ایک دوسرے کے ’شقیق‘ اور ’شقیقہ‘ کہلاتے ہیں۔ شین کو زیر لگاکر بولیے تو ’شِق‘ کے معنی ہوں گے کسی چیز کا ٹکڑا، آدھا حصہ یا ایک حصہ، ایک جزو۔ مثلاً: ’’آپ نے اجلاس کے کارروائی نامے کی ایک شِق پر بحث کی، ایک چھوڑ دی‘‘۔
عربی میں ’اِشْتَقَ‘ کے معنی ہیں آدھا لینا یا ایک ٹکڑا حاصل کرنا۔ پس ’اشتقاق‘ وہ عمل ہے جس سے ہم کسی ایک ’ لفظ‘ کو توڑ تاڑ کر یا جوڑ جاڑ کر اُس سے کئی الفاظ بنا لیتے ہیں۔ جو لفظ بنایا جائے یا جو لفظ مصدر سے نکالا جائے وہ ’مُشتق‘ ہوتا ہے۔ کہتے ہوئے قے نہ ہونے لگے تو آپ حلق کی گہرائیوں سے کہہ سکتے ہیں کہ ’’اِشتقاق شَق سے مُشتق ہے‘‘۔
تین گنبدوں پر مشتمل مسجد کے اندرونی حصہ میں تین صفیں ہیں اور اس کی ہر صف میں 120آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح مسجد کے صحن میں اتنی ہی بڑی چار صفیں ہیں۔ مسجد کے اندرونی حصے اور صحن میں مجموعی طورپر 700 افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔اندرونی حصہ میں سفید پتھر کی جا نمازیں بنی ہوئی ہیں۔درمیانی گنبدکے نیچے لکڑیوں کے اسٹیج نماتین فریم بنائے گئے ہیں جن میں پتھر کی صرف ایک مورتی رکھی ہوئی ہے اور باقی تصویریں شیشے کے فریموں میں رکھی ہیں۔ان میں رام چندر جی ہنومان جی، گنیش جی اور گرو گووندسنگھ کی وغیرہ کی تصویر ہیں۔ مسجد کے منبر کی اوپر والی سیڑھی پر بھی ہنومان جی کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔اس درمیانی گنبد کے اندرونی حصہ کو جس کے نیچے یہ تصویریں اور پتھر کی مورتیاں ہیں لال کپڑے سے ڈھک دیا گیا ہے۔عقیدت مند سات فٹ کی دوری سے ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکا کر ان مورتیوں کے درشن کرتے ہیں۔حد بندی کے لئے لکڑی کا ایک حالہ بنا یا گیا ہے۔یہیں لکڑی کی تقریباًچار فٹ لمبی ایک گولک رکھی ہوئی ہے جس میں دان ڈالا جاتا ہے۔اس گولک کے دائیں جانب ایک پجاری بیٹھا ہوا ہے جو درشن کرنے والوں کو ایک چھوٹے سے چمچے میں گنگا جل دیتاہے جسے لوگ بڑی عقیدت سے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ یہاں بھی سی آر پی کا ایک مسلح جوان تعینات ہے۔
درمیانی گنبد کے حصہ میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب دیوار پر ہنومان جی کی ایک تصویر پینٹ کی گئی ہے۔ اسی طرح بائیں گنبد کی دو دیواروں پر شہید بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد کی تصویریں پینٹ ہیں ۔اندر ونی حصہ کی دیواروں پر کوئلے اورچاک سے کچھ لکھا گیا تھا جسے صاف کردیا گیا ہے۔دائیں جانب تیسرے گنبد کے نیچے بھی فریم کی ہوئی چند تصویریں رکھی ہیں۔مسجد کے صحن میں بندر آزادانہ اچھلتے کودتے نظر آتے ہیں۔
مسجد کے پیچھے کی دیوار بھی خستہ حالت میں ہے۔پیچھے کی جانب بھی دیواروں میں پودے اُگ آئے ہیں۔ مسجد کی پشت سے متصل ایک پرانی دیوار تعمیر ہے جس کے ارد گرد سی آرپی کے مسلح جوان پہرہ دیتے ہیں۔ہر چند کہ مسجد کے اندرونی حصہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے لیکن سالہاسال سے مرمت نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی عمارت خستہ حالت میں ہے۔مسجد کے تین جانب صوبائی حکومت کی جانب سے ایک باؤنڈری بنائی جارہی ہے جو اس کام کی نگرانی کرنے والوں کے بقول مسجد کو کسی بھی امکانی حملے سے محفوظ رکھے گی۔عجیب وغریب بات یہ ہے کہ مسجد کی حفاظت کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کرکے باؤنڈری تو بنائی جارہی ہے مگر خستہ مسجد کی مرمت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت نے اجودھیا کو خوبصورت بنانے اور اسے ہندوؤں کا سب سے مقدس مذہبی مقام بنانے کا پروگرام بنایا ہے اور اس کے لئے 50 کروڑ کی رقم مخصوص کی گئی ہے۔
با بری مسجد کو عملی طورپر مندر بنائے جانے کی سازش میں صوبائی حکومت کی شرکت کی بات روز اوّل سے کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں اجودھیا کے مسلمانوں نے ہمیں کئی اہم باتیں بتائیں۔ فیض آباد سے کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ نرمل کھتری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے علاقے کے ہندوؤں سے کھلے عام یہ کہا تھا کہ اگر وہ پارلیمنٹ کا الیکشن جیت گئے تو جنم بھومی کا تالا کھلوا دیں گے۔ اسی موضوع پر وہ کامیاب بھی ہوئے تھے۔نرمل کھتری کے والد نارائن داس کھتری بابری مسجد کے مقدمے میں سرکاری وکیل ہیں۔ان کا کردار بھی اس سلسلے میں واضح نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسٹر کھتری نے بظاہر امیش چند پانڈے کی اس درخواست کی مخالفت کی تھی جس پر عدالت نے بابری مسجد کا تالا کھولنے کا حکم دیا مگر بالواسطہ طور پر مسٹر کھتری نے امیش چند پانڈے کی درخواست کی تائید کی اور کیس کی صحیح نوعیت عدالت کے سامنے پیش نہیں کی۔بعض کاغذات جو اپنی درخواست کے ساتھ مسٹر پانڈے داخل نہیں کرسکے تھے‘وہ مسٹر کھتری نے سرکاری وکیل کی حیثیت سے داخل کئے جن کا مقصد امیش چند کی درخواست کی تردیدکرنا بتایا جبکہ ان کاغذات سے امیش چند کو فائد ہ پہنچا اور عدالت نے آسانی سے تالا کھولنے کا فیصلہ صادر کردیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل،جنم بھومی مکتی سیوا سمیتی اور ریسیور کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ یہ کامیابی ہمیں کانگریس کی حمایت سے ملی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ شری پت مصرا نے اپنی اجودھیا آمد پر تالا کھولنے کی مانگ کرنے والوں سے اسٹیج سے یہ بات کہی تھی کہ کوئی چیز مانگنے سے نہیں ملتی۔ لینا ہے تو ہاتھ بڑھا کر لے لو۔ چنانچہ اس حقیقت کو تسلیم کرلینے کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ وہ حکومت جو فی الوقت اس مسئلے کو عدالت کا معاملہ قرار دے کر اپنا دامن بچا رہی ہے‘تالا کھلوانے میں برابر کی شریک تھی۔
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في ضحك رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 233-232
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب کیف کان کلام رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 228
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
وفیات : مورخہ ۶/ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اشفاق حسین اشفاق، سید 6/دسمبر/2010ء
افضال حسین قادری، پروفیسر ڈاکٹر محمد 6/دسمبر/1974ء
امبیڈکر، بھیم راو، رامجی 6/دسمبر/1956ء
آدم علی علوی 6/دسمبر/1976ء
تنکو عبد الرحمن 6/دسمبر/1990ء
توقیر فاطمہ 6/دسمبر/1969ء
جی اے مدنی (غلام احمد) 6/دسمبر/1979ء
حسن ظہیر شہید، کیپٹن سید 6/دسمبر/1971ء
سید علی عباس جلالپوری 6/دسمبر/1998ء
شمیم جاوید 6/دسمبر/1994ء
ظہیر الدین صدیقی، پروفیسر 6/دسمبر/1982ء
عزیز میاں قوال 6/دسمبر/2000ء
علی جواد زیدی 6/دسمبر/2004ء
غلام صمدانی 6/دسمبر/1994ء
فروغ علوی کاکوروی(ڈاکٹر یونس حسن ) 6/دسمبر/1968ء
قطب الدین عزیز، سید 6/دسمبر/2015ء
کیف بنارسی (سید یاور حسین ) 6/دسمبر/2003ء
محمد مقتدی خان شیروانی 6/دسمبر/1968ء
محمود احمد مدنی 6/دسمبر/2002ء
مسعود عثمانی، ڈاکٹر (مسعود الدین حسن) 6/دسمبر/1986ء
مظفر احمد دہلوی، مفتی 6/دسمبر/1971ء
منشی اقبال احمد 6/دسمبر/1988ء
مولانا محمد اقبال قاسمی، شیخ الحدیث 6/دسمبر/2015ء
میجر شبیر شریف 6/دسمبر/1971ء
میر گل خان نصیر 6/دسمبر/1983ء
ناشا دانبالوی(نذیر حسین ) 6/دسمبر/1960ء
ناصر جہاں (نعت خواں) 6/دسمبر/1990ء
نبی بخش خان بھٹو 6/دسمبر/1965ء
وحید الدین حسن عثمانی ، ڈاکٹر 6/دسمبر/1986ء
*بات سے بات: محترم شخصیات کا ایک رخ*
ہماری اس بزم علم وکتا ب میں میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی طرف منسوب ملکہ وکٹوریہ کی تعریف میں ایک قصیدہ اور اس پر تبصرے کے تناظر میں ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ موضوع بہت ہی حساس ہے، اس میں تھوڑی سی بھی لغزش کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہے۔
ہندوستان میں برطانوی دور کا تجزیہ کرتے ہوئے کئی ایک چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے،ان میں سے ایک کہ یہ دوردو ادوار پر منقسم ہے، پہلا دور ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور ہے، اور دوسرا وکٹورین دورجس میں برطانوی پارلمنٹ نے کمپنی سے حکومت لی تھی، وکٹورین دور میں وہ بہت سی باتیں نہیں تھیں، جو کمپنی بہادر کے دور میں تھیں۔
بہت سی وہ شخصیات جنہیں ہم بڑے عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سر، خان بہادر، اور شمس العلماء کا خطاب لیتے ہوئے ہمیں بڑے ہی محترم اور چوٹی کے افراد نظر آتے ہیں۔
مولانا مسعود عالم ندوی کی کتاب *ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک* اور شورش کاشمیری کی *تحریک ختم نبوت* جیسی کتابیں جب مطالعہ سے گذری ہیں تو ہمیں چند ایک دینی شخصیات اور تحریکوں کے سلسلے میں شک وشبہ ہونے لگتا ہے، ایک زمانے تک اس ناچیزکے دل ودماغ پر اس کا اثر دل باقی تھا، لیکن جب ہم نے تاریخ کے سمندر میں مزید غوطہ زنی کی تو محسوس ہوا کہ کسی جماعت کو کلی طور پر کسی بھی ملی واجتماعی موقف میں مورد الزام ٹہرانا درست نہیں، انصاف پر مبنی کوئی رائے قریب کرنے کے لئے اس ماحول اور اسباب وعلل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ بھی ضروری ہے، اور حسن ظن کے لئے کوئی معمولی سرا بھی ملتا ہو تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔
وکٹورین دور میں ہمیں کئی ساری محترم ملی وقومی شخصیات کے ناموں کی فہرست ملتی ہے جنہوں نے حکومت وقت سے شمس العلماء، سر، اور خان بہادر کا خطاب لیتے ہوئے فخر محسوس کیا،کئی موقر اداروں نے حکومت سے امداد بھی لی، اور یہ کہنا مشکل ہے کہ جب یہ خطابات لئے جارہے تھے تو ان کی قدرومنزلت ان شخصیات کے دلوں میں نہیں تھی، اس فہرست میں اس دور کے ان عظیم الشان ملی اداروں کے ذمہ داران مہتممین وغیر ہ کے نام آتے ہیں، جنہیں ہم انگریزی سامراج کے کٹر مخالفت سمجھتے آرہے ہیں۔
ہمارے ذہن میں بچپن سے مغل شہنشاہ اکبر کے دین الہی کے سلسلے میں منفی خیال پنپ رہا تھا، لیکن مرکز جمعۃ الماجد میں مخطوطات کنگھالتے ہوئے شیخ محمد طاہر محدث پٹنی کی ایک تحریر گذری جس میں آپ نے اکبر اعظم کو قامع البدعۃ جیسے القاب سے یاد کیا ہے، اور دین کی حفاظت کے لئے اس کے کردار اور کوششوں کی بے حد تعریف کی ہے۔
اسی طرح کچھ عرصہ پہلے علمائے دیوبند کے بڑے ہی معتقد ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری مرحوم کی مولانا عبید اللہ سندھی کے پر ایک تحریر نظر سے گذری، اس میں آپ نے ہماری چند محترم اور ذمہ دار شخصیات اور اداروں کے سلسلے میں جو لکھا ہے، وہ حیران کن ہے۔
اداروں اور شخصیات پر عمومی نقد وتبصرہ سے قبل ہمارے ذہن میں تاریخ کے مختلف پہلو سامنے رہنے چاہئیں، مثلا یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ تحریک مجاہدین کو ایک طویل عرصہ تک زندہ رکھنے والے علمائے صادق پور مسلک اہل حدیث کی طرف مائل تھے، پنجاب کے اہل حدیث شخصیات میں سے غزنوی خاندان اور قصوری خاندان کے چوٹی کے افراد جیسے مولانا داؤد غزنوی اور مولانا عبد القادر قصوری کی تحریک آزادی میں بڑی قربانیاں ہیں، اور یہ جمعیت علمائے ہند، تحریک خلافت میں پیش پیش رہے۔ ان کی وابستگیاں لیگ کے بجائے کانگریس کے ساتھ رہیں۔ تحریک آزادی کے قد آور رہنما مولانا ابو الکلام آزاد بھی اہل حدیث مسلک کی طرف میلان رکھتے تھے۔
ہمیں ان علماء واکابر کی بے حد قدر کرنی چاہئے جنہوں نے یکسوئی کے ساتھ مسند تدریس ، خدمت قرآن و حدیث، اور اصلاح وارشاد کو تھامے رکھا، اورانہیں سیاست سے سروکار نہیں رہا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے برصغیر میں علم دین ،تحقیق وتصنیف کی شمع کو روشنی بڑھائے رکھی، ہم جن اداروں کی علمی وتحقیقی خدمات پر فخر سے اپنا سر اٹھاتے ہیں، ان اداروں کے علمی شناخت اور شہرت میں ان بوریہ نشینوں کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
عبد المتین منیری
2024-12-05
Https://telegram.me/ilmokitab
تعارف "براۃ حضرت تھانوی "
فتنہ قادیانیت اپنے آغاز سے ہی دجل و فریب سے مسلمانوں میں شکو ک و شبہات پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ،آئے دن اپنے دجل و فریب سے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی مذموم کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اسی کی دہائی میں قادیانیوں کی جانب ایک مذموم چال چلی گئی ، قادیانیوںنے حضرت تھانویؒ پر یہ الزام لگایا کہ کہ انہوں نے اپنی ایک کتاب کی بعض عبارتیں مرزا غلام قادیانی کی کتب سے سرقہ کی ہیں ۔ حالانکہ حضرت تھانویؒ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس بات کو واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کی کتاب ’’المصالح العقلیہ‘‘ کے بہت سے مضامین کسی اور مصنف کی کتاب سے لیے گئے ہیں مگر کتاب کا ذکر اس لیے نہیں کیا کیوں کہ اس میں رطب و یابس سب جمع کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ صاحب نے اصل کتاب کا سراغ لگایا اور ثابت کیا کہ حضرت تھانویؒ نے جس کتاب سے مضامین اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں وہ کتاب مرزا غلام احمد قادیانی کی نہیں بلکہ ایک اورمصنف مولوی محمد فضل خان کی کتاب سے لیے گئے ہے ہیں،علامہ خالد محمود رحمہ اللہ کی یہ تحقیق ـ انیق ملک کے بہت سے اردو مجلات میں شائع ہوئی ،بعد میںیہ تحقیقی مضامین الگ سے رسالہ کی شکل میں ’’براء ت حضرت تھانوی‘‘ کے نا م سے شائع ہوئے۔ اس رسالہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا یوسف لدھیانوی ؒشہید لکھتے ہیں کہ :۔
’’ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒکی کتاب ''المصالح العقلیہ'' ۱۳۳۵ھ میں لکھی گئی، اور اس وقت سے آج تک اس کے نامعلوم کتنے ایڈیشن نکل چکے ہیں لیکن ستر سال بعد قادیانیوں نے انکشاف کیا کہ اس میں پانچ جگہ مرزا غلام احمد قادیانی کی پانچ کتابوں سے عبارتیں لفظ بہ لفظ نقل کی گئی ہیں۔ یہ انکشاف پہلے محمد شاہد قادیانی کے نام سے ۵ اور۷ مئی ۱۹۸۴ء کے الفضل ربوہ میں کیا گیا، اس کے بعد قادیانی ہفت روزہ لاہور نے اسے شائع کیا، اور پھر کسی عبداللہ ایمن زئی نامی شخص کے نام سے ایک کتابچہ’’ کمالات اشرفیہ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا، جس میں بڑی تحدی سے یہ دعوی کیا گیا کہ حضرت تھانویؒ نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں سے کسب فیض کیا ہے۔ حالانکہ قادیانیوں میں اگر عقل وانصاف کی ذرا بھی رمق ہوتی تو حضرت تھانوی ؒکی کتاب کا مقدمہ اصل حقیقت کے اظہار کے لیے کافی تھا، چنانچہ حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں: ’’اس وقت بھی ایک ایسی کتاب جس کو کسی صاحب قلم نے لکھا ہے مگر علم وعمل کی کمی کے سبب تمام تر رطب و یابس وغث و سمین سے پر ہے، ایک دوست کی بھیجی ہوئی میرے پاس دیکھنے کی غرض رکھی ہوئی ہے.... احقر نے ثابت بے تعصبی سے اس کتاب (المصالح العقلیہ) میں بہت سے مضامین کتاب مذکورہ بالا سے بھی۔ جو کہ موصوف بصحت تھے۔ لے لیے ہیں‘‘
اس عبارت کے پیش نظر قادیانیوں کو بھی معلوم تھا کہ حضرت تھانویؒ نے مرزا غلام احمد کی کتابوں سے نہیں، بلکہ اس کتاب سے بعض مضامین لیے ہیں جس کا ذکر انہوں نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے، مگر قادیانیوں کو اطمینان تھا کہ جو کتاب حضرت تھانوی ؒکا اصل ماخذ ہے اور جس کا حوالہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں دیا ہے، اب دنیا سے نایاب ہو چکی ہے، نہ کوئی اس کتاب کو تلاش کرسکتا ہے، نہ حضرت تھانویؒ کے اصل ماخذ کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، اور نہ کوئی اس شخص کا نام بتا سکتا ہے جس کا حضرت تھانویؒ نے حوالہ دیا ہے، اس لیے اس تاریکی سے فائدہ اٹھا اور مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کو سہارا دینے کے لیے ایک جھوٹ اور گھڑ ڈالو کہ حضرت تھانویؒ نے مرزاغلام احمد کی کتابوں پر اعتماد کیا ہے۔حق تعالی شانہ جناب علامہ ڈاکٹر خالد محمود کو جزائے خیر عطا فرمائیں، انہوں نے حضرت تھانویؒ کے حوالہ کی کتاب ڈھونڈ نکالی اور قادیانی مکروفریب کا ساراطلسم چاک کردیا۔یہ کتاب جو حضرت تھانوی ؒکا اصل ماخذ تھی، مرزا قادیانی کے ایک ہم عصر مولوی فضل محمد خان کی کتاب اسرار شریعت ہے، جو تین جلدوں میں ۱۳۲۷ھ میں شائع ہوئی۔علامہ صاحب نے اپنے مضمون میں (جو پہلے الخیر ملتان میں اور پھر ماہنامہ ’’بینات‘‘ بنوری ٹاؤن کراچی بابت ماہ صفر المظفر۱۴۰۵ ھ میں شائع ہوا) یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت تھانویؒ کی عبارتیں من وعن اسرار شریعت میں موجود ہیں، اور یہ کہ مرزا قادیانی نے نقل کرتے ہوئے عبارتوں میں قدرے تصرف کیا ہے۔علامہ خالد محمود صاحب کا مضمون مطالعہ کے لائق ہے، اس کے ملاحظہ سے اس یقین میں مزید پختگی پیدا ہوگی کہ قادیانی لیڈروں کے پاس دجل وفریب اور مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں: وفی کل شیء لہ آیۃ تدل انہ کاذب! اللہ تعالی ان لوگوں کوعقل وفہم نصیب فرمائیں تا کہ یہ لوگ سوچیں کہ جس مذہب کی گاڑی ہی مکر و فریب سے چلتی ہے، دنیا و آخرت میں رسوائی کے سوا کیا دے سکتا ہے. اس لیے تاریخ کی درستگی اور قادیانی دجل تلبیس کا پردہ چاک کرنے کے لیے حضرت علامہ خالد محمود صاحب کے اس مضمون کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔( ہفت روزہ ختم نبوت، کراچی، ج:۳ ش:۲۴) ‘‘
یہ قصیدہ تو شاید میاں نذیر حسین دہلوی کا نہیں ہوگا لیکن آپ کی سوانح "الحیاۃ بعد المماۃ" میں ملکہ وکٹوریہ اور گورنمنٹ انگلشیہ کی حمایت و وفاداری کے بہت سے مضامین ہیں جنھیں پڑھ کر مذکورہ بالا قصیدہ کے متعلق بھی تقریباً ہر ایک کا ذہن میاں صاحب ہی طرف جائے گا
Читать полностью…مجاز کے بعد کی رات
تحریر: اخلاق احمد دہلوی
اسرار الحق مجاز لکھنوی کی وفات مورخہ ۵ دسمبر ۱۹۵۵ء پر لکھا ہوا خاکہ
لنک
https://archive.org/download/asrarul-haq-majaz-bay-akhlaq-ahmed-dehlvi/Asrarul%20Haq%20Majaz%20Bay%20Akhlaq%20Ahmed%20Dehlvi.pdf
علم وکتاب گروپ
وفیات مورخہ: ۵ دسمبر
Https://telegram.me/ilmokitab
پروفیسر خلیق احمد نظامی 5/دسمبر/1997ء
اروند گھوش 5/دسمبر/1950ء
اللہ بخش خدا بخش گبول 5/دسمبر/1972ء
پطرس بخاری، احمد شاہ 5/دسمبر/1958ء
جے للتا 5/دسمبر/2016ء
حسین شہید سہروردی 5/دسمبر/1963ء
خان حبیب اللہ خان 5/دسمبر/1978ء
ذکی حسن پریمی 5/دسمبر/1974ء
روشن آراء بیگم 5/دسمبر/1982ء
شریف ، ایس ایم 5/دسمبر/1972ء
شیرباز خان مزاری 5/دسمبر/2020ء
عبد اللہ رفیق 5/دسمبر/2021ء
عبد الوہاب الشعرانی 5/دسمبر/1565ء
غلام دستگیر عالم 5/دسمبر/2000ء
غلام ربانی خان 5/دسمبر/1991ء
مجاز لکھنوی، اسرار الحق 5/دسمبر/1955ء
مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی 5/دسمبر/1990ء
مولانا حبیب الرحمن عثمانی 5/دسمبر/1929ء
مولانا خالد کمال مبارک پوری 5/دسمبر/1999ء
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی 5/دسمبر/2019ء
میرزا عبد القادر بیدل 5/دسمبر/1720ء
ناشاد کانپوری، سری دھر پرشاد نگم 5/دسمبر/1970ء
نیلسن منڈیلا 5/دسمبر/2013ء
ہاشم الاتاسی 5/دسمبر/1960ء
وصی فیض آبادی(مرزا وصی حیدر) 5/دسمبر/1969ء
محمدعلی روڈپر واقع اسمعیل بیگ محمد ہای اسکول بھی بند ہو گیا۔۔۔۔۔
١٩٤٦ میں بیگ محمدٹرسٹ نے قایم کیا تھایہ اسکول۔۔
کیسے کیسے اساتذہ۔۔۔۔۔کیسے کیسے طلبا۔۔۔۔
تاریخ بن گیے۔۔۔۔۔۔
آج کا بھنڈی بازار۔۔۔۔اردو کتابوں کی دکانیں۔۔۔۔اردو اخباروں کے اسٹالس۔۔۔۔اور اب ۔۔اردو اسکول۔۔۔؟؟۔
اسی اسمعیل بیگ محمد اسکول کے سامنے تاج آفس کا بھی کبھی بہت بڑا شو روم ۔۔کتب خانہ ہواکرتاتھا ۔۔۔
بیگ محمدباغ۔۔۔بیگ محمد پارک میں ملی سماجی دینی سیاسی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
سب کچھ بدل رہا ہے۔۔۔۔۔سبکچھ بدل گیا ہے۔۔۔۔۔۔
اسمعیل بیگ محمد ہایی اسکول پرنسپل سہیل لوکھنڈوالا کے زمانہ تک عروج پر تھا ۔۔
پھر انکے بعد بتدریج یہ اسکول زوال پذیر ہو گیا۔۔
اب اس کی اس شاندار عمارت کا کیا ہوگا ؟؟
وفیات مورخہ : ۴/ دسمبر
/channel/ilmokitab
دین محمد برکی 4 دسمبر 2000
شکیل نشتر (سید محمد شکیل) 4 دسمبر 1993
محمد اختر جونا گڑھی، قاضی 4 دسمبر 2015
محمد صلاح الدین 4 دسمبر 1994
وفا براہی، احمد(سید محمود عالم) 4 دسمبر 1992
مامین خان، محمد 4 دسمبر 2008
محمد صلاح الدین (تکبیر کراچی ) 4 دسمبر 1994
حکیم عبد القیوم ڈیانوی ،مولانا 4 دسمبر 1957
محمد صلاح الدین 4 دسمبر 1994
ظفر عمر 4 دسمبر 1949
علی عبد اللہ صالح ( یمن) 4 دسمبر 2017
خلیق احمد نظامی 4 دسمبر 1997
رفیع محمد چودھری 4 دسمبر 1988
ششی کپور (ایکٹر) 4 دسمبر 2017
یار محمد بندیالوی 4 دسمبر 1947
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب کیف کان کلام رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 227-226
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
قطب اللہ: چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
لکھنؤ کی صحافتی کہکشاں کا ایک اورستارہ غروب ہوگیا۔ ’قومی آواز‘ کے سابق صحافی قطب اللہ نے بھی آنکھیں موند لیں۔ ابھی عالم نقوی کی جدائی کو دن ہی کتنے ہوئے تھے کہ ایک اورکاری زخم لگا۔ ہفتہ بھر کی مختصر علالت کے بعدقطب اللہ نے آج صبح(2 دسمبر 2024) لکھنؤ کے ایرامیڈیکل کالج میں آخری سانس لی۔ یوں تو بیماریوں سے ان کاپرانا رشتہ تھا اور وہ بائی پاس سرجری جیسے مشکل مرحلہ سے بھی گزرچکے تھے،برین ہیمریج کا بھی دوسرا حملہ تھا،لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی عجلت میں ہیں۔ قطب اللہ نے پوری زندگی اردو صحافت کے بال و پر سنوارنے میں صرف کی اور وہ آخری وقت تک پوری تندہی کے ساتھ لکھتے رہے۔
رواں سال کے فروری ماہ میں جب میری کتاب ’بالمشافہ‘ کے اجراء کی تقریب اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں بردارم اویس سنبھلی اور عمیرمنظر کے اصرار پر عمل میں آئی تو اس میں لکھنؤ کی بیشتر سرکردہ علمی اور ادبی شخصیات شریک ہوئیں۔یہیں قطب اللہ سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ انھوں نے اس محفل میں ’بالمشافہ‘ پر کوئی آدھا گھنٹے نہایت کارآمد گفتگو کی اور پوری کتاب پڑھ کر اس پر اپنے قیمتی ریمارکس دئیے تھے۔ عام طورپر اجراء کی محفلوں میں مقررین کتاب کا سرسری مطالعہ کرکے تقریر کرتے ہیں، لیکن قطب اللہ نے کتاب پڑھ کر تبصرے کا حق اداکیا تھا، جو ان کی صحافتی اورعلمی دیانت داری کا ثبوت تھا۔ قطب اللہ ایک سچے، ایماندار، راست باز اور کھرے انسان تھے۔ ان کی شخصیت اودھی تہذیب اورشرافت میں ڈھلی ہوئی تھی۔ ایسے لوگ اب لکھنؤ میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔وہ اکثر اپنے کاندھے پر ایک بیگ ٹانگے رہتے تھے اور اسی میں لکھنے پڑھنے کا سامان بھی رکھتے تھے۔ میں جب بھی لکھنؤ جاتا تو قطب اللہ سے کہیں نہ کہیں ملاقات ہوجاتی تھی۔ وہ بڑی محبت سے پیش آتے اور گھر چلنے پر اصرارکرتے تھے۔ ان کی رہائش نئے لکھنؤ کے’پترکارپورم‘میں ضرور تھی، لیکن ان کا دل پرانے لکھنؤ ہی میں لگتا تھا، جہاں انھوں نے طویل عرصے تک اردو ادب اور صحافت کی بے لوث خدمت کی۔پرانے لکھنؤ کے قیصر باغ علاقہ میں ہی روزنامہ ”قومی آواز‘کا دفتر واقع تھا، جو کسی زمانے میں لکھنؤ کے تمام بڑے صحافیوں کی پناہ گاہ تھا۔وہ ان صحافیوں میں بہت نمایاں تھے جنھوں نے ’قومی آواز‘ کے مدیران حیات اللہ انصاری، عشرت علی صدیقی اور عثمان غنی جیسے جیدصحافیوں کی صحبت اٹھائی اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اب قطب اللہ کی صف کے لوگوں میں احمدابراہیم علوی، عبیداللہ ناصراور سہیل وحید ہی باقی ہیں، جنھیں دیکھ کر ’قومی آواز‘ اور اس کی اجلی صحافت کا دور یاد آتا ہے۔خدا انھیں تادیر سلامت رکھے۔ ’قومی آواز‘ سے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کو قطب اللہ نے ایک تفصیلی مضمون میں قلم بند کیا ہے، جو ’نیادور‘ کے ’اردوصحافت نمبر‘ میں شائع ہوا تھا۔ قطب اللہ نے پوری زندگی عملی صحافت میں گزاری، لیکن اسے کبھی غیرضروری تام جھام اکٹھا کرنے کا وسیلہ نہیں بنایا۔ وہ اردو کے ایک مخلص اور محنت کش صحافی تھے اور صحافت کی اعلیٰ قدروں کے پاسدار بھی تھے۔ انھوں نے صحافتی تحقیق کے میدان میں بھی نمایاں کام کیا۔ انھوں نے آزادی کے بعد کی اردو صحافت پر بڑی عرق ریزی کے ساتھ پی ایچ ڈی کی تھیسس مکمل کی تھی مگر وہ بوجہ منظور نہ ہوسکی۔
1988میں مولانا آزاد صدی تقریبات کے موقع پر کئی کتابیں شائع ہوئیں لیکن ان میں قطب اللہ کی کتاب "مولانا آزاد کا نظریہ صحافت " اس اعتبار سے منفرد تھی کہ یہ مولانا آزاد کی صحافتی خدمات کے حوالے سے اکلوتی کتاب تھی۔ اس کتاب کو اترپردیش اردواکادمی نے شائع کیا تھا ۔ کتاب کی ضخامت تو زیادہ نہیں ہے، لیکن اس کا مواد بہت قیمتی ہے اور مولانا آزاد کے صحافتی ورثے پر ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
قطب اللہ ان صحافیوں میں سے نہیں تھے جو حادثاتی طورپر اردو صحافت سے وابستہ ہوتے ہیں اور صحافت ہی کو ایک حادثے میں بدل دیتے ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد عقیدہ صنفی کے ساتھ اردو صحافت میں داخل ہوئے تھے اور تمام عمراس عقیدے کی پیروی کی۔’مولانا آزاد کے نظریہ صحافت‘ کے پیش لفظ میں انھوں نے خود اپنا صحافتی نظریہ بھی واضح کیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا:”میں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد ’اردو صحافت1947کے بعد‘کے عنوان سے بحیثیت ریسرچ اسکالر رجسٹریشن کرایا تھا۔ اپنے تحقیقی مقالے کے سلسلے میں، میں نے ملک کی مشہور لائبریروں سے استفادہ کیا۔ گزشتہ گیارہ برسوں سے روزنامہ ’قومی آواز‘ میں بحیثیت ایک صحافی کام کررہا ہوں، نیز کارکن صحافیوں کی تحریک سے بھی وابستہ ہوں اور صحافیوں کے مسائل سے متعلق جدوجہد میں میری حیثیت ایک سرگرم خادم کی ہے۔“(’مولانا آزاد کا نظریہ صحافت‘ ص24اشاعت1988)
کفر دروازے پے کھڑا ہے
✒️صادق مظاہری
/channel/ilmokitab
اس وقت جو ہم مسلمانوں کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ یہ ہوتا ہے کہ کفر دروازہ پے کھڑا ہے کیونکہ ہم مسلمانوں کا جس اعتبار سے بھی جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں عقائد کا فساد ، معاملات کا بگاڑ اور اخلاق کی گراوٹ نظر آتی ہے ، عقائد کی پختگی سب سے اہم چیز ہے لیکن آج کل یہ دیکھا جارہا ہے کہ بہت سے بابے ایسے مشہور ہیں کہ ان کے آس پاس اتنی بھیڑ ہے کہ ملنے کے لۓ وقت لینا پڑتا ہے اور جب ذرا قریب سے دیکھا تو ہمیں جھوٹ وفریب کے سوا کچھ نظر نہ آیا وہ رات دن لوگوں کو بے وقوف بناکر پیسہ اینٹھ رہے ہیں ، کبھی کبھی لوگوں کی اس طرح کی حرکتیں دیکھ کر مجھےلگتا ہے کہ احمقوں وبے وقوفوں کی کوئ کمی نہیں ہے ذرا سے حالات آۓ کسی بھی بابے کے پاس چل دئیے کہ معلوم نہیں کیا رکاوٹ ہورہی ہے یا کسی نے کیا جادو وسحر کرادیا ہے وہ جھوٹ میں لپٹی ہوئ ہفوات بکتا ہے اور لوگ اس کو ہاتھوں ہاتھ لے کر لقمہ بناتے ہیں اور نگل جاتے ہیں کوئ بتاۓ گا کہ کیا کوئ جھوٹ پر مبنی تعویذ سے کام عروج پر پہنچ سکتا ہے یا یہ شرکیہ عمل نہیں ہے کہ لوگوں کا اعتماد وعقیدہ یہ بنتا جارہا ہے کہ عبادات وطاعات کرنے کے بجاۓ کسی بابے سے تعویذ لے آؤ اس سے مسائل حل ہوجائیں گے اللہ سے مانگنے کے بجاۓ بابے پر یقین رکھے ہوۓ ہیں کہ وہ کام بنادے گا افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب بہت سے مسلمان کہے جانے والے لوگ ہندو سادھوؤں کے پاس جاتے ہیں اور ان کے بتاۓ ہوۓ شرکیہ وکفریہ کلمات کہتے ہیں کیا ان کا ایمان محفوظ ہے اور ان کے نکاح باقی ہیں اور ان کی اولاد حلال کہلاۓ گی ؟ یہ تو منظر نامہ ہے جو اہل اسلام خود انجام دے رہے ہیں اور اس کو غلط کہنے کو تیار نہیں ہے اور بہت سے پیشہ ور بابے بھی اپنے حق میں بہت سی تائیدات وتوثیقات لے آتے ہیں ۔۔۔ دوسرے وہ ہے جو اہل باطل کی طرف سے مسلم معاشرہ کو لاحق ہے اس وقت فکری ارتداد جس برق رفتاری سے بڑھ رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اہل باطل اسکول سے لے کر بازار تک اور گھر سے لے کر چوراہے تک ہر جگہ پر ایسی چیزیزیں داخل کرتے جارہے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایمان کے تقاضے پر عمل کرنا دشوار ہوتا جارہا ہے ذہن سازی کچھ اس طرح کی جارہی ہے کہ لوگوں کے دماغوں پر دولت کا نشہ اور دنیا کا بھوت سوار ہے سوشل میڈیا پر بے شمار ایسے موٹیوشنل اسپیکرس ہیں جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دنیا میں پیسہ کماؤ اور انجواۓ کرو اور اس میں حلال وحرام کا کوئ امتیاز نہیں ہے ، اس کا اثر نوجوان نسل یک دم قبول کر رہی ہے اور اس کی آڑ میں ایمان واسلام کا سودا کرنا پڑے تو کیا جارہا ہے اور جو تعلیم یافتہ کچھ عقل وشعور رکھتا ہے ان کو کچھ ایسے نام نہاد سوشل میڈیا کے اسلامی اسکالر کی نظر لگ گئ ہے کہ جو وہ کام کر رہے ہیں جو پہلے مستشرقین کیا کرتے تھے اسلامی تعلیمات وہدایات میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا کرنا وغیرہ اور اسلام کو ماڈرن بناکر پیش کرنا اور اس کو لبرل کا لبادہ اڑھادینا جب کہ اسلام کا ماڈرن دنیا سے کوئ تعلق نہیں ہے اس سے نئ نسل کا ذہن اس قدر خراب ہورہا ہے کہ اسلام پر سے ان کا اعتماد اٹھتا چلا جارہا ہے جیسے یہ ہی کہ بعض نام نہاد اسلامک اسکالر کہے جانے والے لوگوں نے اسلام کو ماڈرن ثابت کرنے کے لۓ عقل پر قرآن وحدیث کو پرکھا تو پہلے بہت سی احادیث کا انکار کیا پھر قرآن کے کئ ایک آیات کے مقصد ومطلب کو توڈ موڈ کر پیش کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے معراج کے واقعہ کا انکار کردیا ۔۔۔ یا کم از کم ان کے اس طرز عمل سے نئ نسل کے ذہن سے اسلام کا امتیاز وتشخص ختم ہوتا جارہا ہے اس کے علاوہ مغربیت نے جس طرح سے معاشرہ پر اپنا اثر چھوڑا ہے اس کی وجہ سے مسلم معاشرہ کی روح نکل گئ ہے اس وقت لوگ صرف دکھاوے کا عمل کر رہے ہیں ورنہ جن اعمال پر اہل اسلام کو ثابت قدم رہنا تھا وہ تقریبا ختم ہوچکے ہیں اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قرض ہی کو لے لیجۓ نہ قرض دینے والا مخلص اور نہ لینے والا وعدہ کا پابند۔۔۔میں زیادہ تر یہ دیکھ رہاہوں کہ لوگ قرض ایسے لوگوں کو دیتے ہیں جن سے کچھ مفاد وابستہ ہو اسلام میں جس کو قرض حسنہ کہا گیا ہے اس سے اس قرض کا دور دور تک تعلق نہیں ہوتا ہے اور جو لے رہا ہے اس کے یہاں صورت حال یہ ہے کہ وہ دینے کو تیار نہیں ہوتا ہے اسی طرح ہم مارکیٹ میں تاجروں کا حال دیکھتے ہیں کہ جھوٹ ، فریب ، بد دیانتی عام ہے وہ پیسہ کے لۓ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ایک طبقہ ہمارے معاشرہ میں وہ بھی رہتا ہے جو تنگ دست ، فقروفاقہ سے مجبور ، حالات کا مارا ہوا ایسے لوگوں کا نہ کوئ پرسان حال نہ کوئ مددگار ۔۔۔ مجال ہے کوئ دو چار ہزار قرض بھی دیدے یا اس کی مدد کردے اگر کوئ مدد کرنے آرہا ہے تو ساتھ میں موبائیل سے ویڈیو بنارہا ہے اور اس کو سوشل میڈیا پر ڈال کر اس کی عزت نفس کا سودا کر رہا ہے بھلا کوئ باغیرت شخص کیسے اپنی عزت نفس کو پیچ سکتا ہے ۔۔۔اور حرام کے مال سے تو
ہم نے اجودھیا کے محلہ قضیانہ میں رہائش پذیر 80سالہ حاجی عبدالغفارسے بھی ملا قات کی جنہوں نے 1930 سے 1949 تک بابری مسجد میں بحیثیت امام ذمہ داریاں انجام دی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1901سے 1930ء تک ان کے والد مولوی عبدالقادر نے بابری مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیئے تھے جبکہ اس سے پہلے 1870 سے 1900کے درمیان ان کے ماموں حاجی عبدالرشید بابری مسجد کے امام تھے۔حاجی عبدالغفار کی پیدائش اجودھیامیں ہی ہوئی۔ انہوں نے ”گم گشتہ حالات اجودھیا اودھ“کے نام سے ایک کتاب بھی ترتیب دی ہے جس میں اجودھیا کے بزرگوں اور یہاں کی مسجدوں اور مقبروں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ نے 1978سے 1980 کے درمیان با بری مسجد کی بنیادوں اور اجودھیا کے دوسرے مقامات کی کھدائی کی تاکہ اسے زمین کے اندر سے رام چندر جی کے عہدکے کچھ آثار بر آمد ہوجائیں مگر اسے اس وقت سخت مایوسی ہوئی جب یہاں مسلمانوں کی قدیم ترین آبادی کے نشانات ملنے شروع ہوئے۔ان نشانات کو انتہائی خاموشی کے ساتھ غائب کردیا گیا۔ اس بات کے وافر ثبوت موجود ہیں کہ اجودھیا قدیم ترین زمانے سے مسلمانوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں درجنوں ایسے بزرگ آسودہ خواب ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ یہاں حضرت آدم ؑکے بیٹے حضرت شیث ؑ کی قبر بھی ہے۔ اسی طرح حضرت نوحؑ کے زمانے کی ایک اور قبر بھی اجودھیا میں موجود ہے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ مسئلہ محض ایک مسجد کا نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی برسوں سال پرانی تاریخ و تہذیب اور ان کے تشخص کی بقا ء کا مسئلہ بھی ہے۔
(خاکسار کی کتاب " بابری مسجد: آنکھوں دیکھا حال " سے )
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
میں نے بابری مسجد میں کیا دیکھا؟
معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ملک میں عجیب و غریب صورت حال تھی۔ مسجد میں پوجا پاٹ کے مناظر لوگوں کے مذہبی جذبات کو چھلنی کر رہے تھے۔ ہر کسی کی نظریں بابری مسجد پر مرکوزتھیں۔ میں نے بابری مسجد میں داخل ہوکر وہاں کے حالات جاننے کا فیصلہ کیا۔ یکم فروری 1987 کو جبکہ پورے ملک میں مسلمان بابری مسجد کی بے حرمتی کے خلاف اپنے کاروبار بند رکھ کر احتجاج کر رہے تھے تو میں بابری مسجد کی اندرونی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وہاں موجود تھا۔ میں بابری مسجد میں بھیس بدل کر داخل ہوا تھا کیونکہ 1949 کے ایک ایکزیکٹیو آرڈر کے مطابق بابری مسجد کے اردگرد پانچ سو میٹر تک کسی مسلمان کا داخلہ ممنوع تھا۔ مجھے بطور صحافی اپنا فرض ادا کرنے کے مجبوری میں بھیس بدلنا پڑا تھا۔ اتنے برسوں بعد جب میں ان حالات کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ اس واقعہ کو 37 سال گزرنے کے باوجود سب کچھ میری یادوں میں تازہ ہے۔ ملاحظ کیجئے 37 سال پرانی آنکھوں دیکھی یہ رپورٹ:
بابری مسجد کے صدر دروازے تک جانے والی سڑک کے دونوں طرف بڑی بڑی مندر نما عمارتیں نظر آتی ہیں جنہیں مانس بھون کہا جاتا ہے۔یہ عمارتیں 1949میں مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد تعمیر ہوئی ہیں اور ان میں درشن کے لئے آنے والوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔با بری مسجد کے تین جانب صرف شمال کو چھوڑ کر 7بیگھہ قبرستان کی اراضی ہے۔یہ عمارتیں بھی قبرستان پر ہی تعمیر ہوئی ہیں۔ان عمارتوں کے ختم ہونے کے بعد بائیں جانب اونچائی پر ایک چھوٹا راستہ بابری مسجد کے صدردروازہ تک جاتا ہے۔
اس راستہ کے بائیں جانب دوکانوں پر عقیدت مندوں کی دلچسپی کی اشیا فروخت ہوتی ہیں اور دائیں جانب پولیس چوکی قائم ہے۔ صدر دروازے سے متصل مٹھائی کی کئی دوکانیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ مٹھائی اصلی گھی اور ماوے سے تیار کی جاتی ہے۔ عقیدت مند اسے اندر لے جا کر چڑھاتے ہیں۔دوکانوں سے پہلے ہی ایک مقام پر جوتے اتارنے پڑتے ہیں۔ مسجد کے صدر دروازے پر ہندی میں ”رام جنم بھومی“ تحریر ہے اور یہیں سی آر پی کے تین مسلح جوان اندر جانے والوں کی تلاشی لیتے ہیں۔ صدر دروازہ کے اوپر ہی ہیڈ پجاری لال داس کی جانب سے ہندی میں یہ وارننگ تحریر ہے ”فوٹو لینا سخت منع ہے“عقید ت مند لائن بنا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے مسجد کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ صدر دروازہ پر دوجگہ لفظ ”اللہ“ نمایاں انداز میں کندہ ہے۔
صدر دروازے سے اندر داخل ہونے کے بعد بائیں ہاتھ کو تقریباً چھ فٹ اونچا ایک پختہ چبوترہ ہے جس کے مختلف گہرے خانوں میں پتھر کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں نصب ہیں۔چبوترے کا حصہ 1949ء سے ہی تالا لگنے کے بعد مندر کے طورپر استعمال ہوتا رہا ہے اور عقیدت مند یہیں سے لوہے کی سلاخوں سے مسجد کے اندر رکھی مورتیوں کا درشن کرتے تھے۔
چبوترے پر اور اس کے آس پاس مختلف ناموں کے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے پتھر نصب ہیں۔ یہ ان دولت مند لوگوں کی طرف سے بطور یاد گار لگائے گئے ہیں جو 1949ء کے بعد یہاں درشن کرنے کے لئے آئے اور جنہوں نے مقدمہ لڑنے اور مندر بنانے کے لئے کثیر رقمیں فراہم کیں۔ چبوترے کے پیچھے کی جانب دیوار کے دونوں کونوں میں پتھر کی کئی مورتیاں نصب ہیں۔ لیکن عقیدت مندوں کی دلچسپی کا اصل مرکز مسجد کے اندرونی حصہ میں رکھی ہوئی مورتیاں ہیں اور وہیں درشن کرنے والوں کا تانتابندھارہتا ہے۔چبوترے اور دیوار پر نصب مورتیوں کا درشن لوگ کم ہی کرتے ہیں۔ اسی احاطہ میں صدر دروازے کی دیوار سے لگی لکڑی کی ایک لمبی کوٹھری ہے جس میں پجاریوں کا سامان اور گنگا جل رکھا رہتا ہے۔اسی احاطے کے دائیں جانب مسجد کے صحن سے متصل ایک اور مقام پر فریم کی ہوئی چند مورتیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اس مقام کو سیتا کی رسوئی کہا جاتا ہے اور یہاں پر مسجد میں داخلہ کے لئے ایک اور دروازہ ہے۔
مسجد کے صحن میں داخلہ کے اس دروازے پر بھی سی آر پی کا ایک مسلح جوان تعینات ہے۔ صحن میں داخل ہوتے ہی تین گنبدوں پر مشتمل مسجد کے اندرونی حصہ کی پیشانی پر عربی رسم الخط میں تین فارسی اشعار کندہ ہیں جن میں مسجد کی تعمیر کی تاریخ درج ہے۔ ان اشعار کے دونوں جانب ابھرے ہوئے الفاظ میں گول دائرے کے اندر لفظ ”اللہ“کندہ ہے۔یہ تحریر خستہ حالت میں ہے۔صحن کے بائیں جانب گنبدوں تک پہنچنے کے لئے ایک خستہ حال زینہ ہے‘ جسے لکڑی کے تختے لگا کر بند کردیا گیا ہے۔مسجد کی پیشانی اور آگے کی دیوار بھی خستہ حالت میں ہے۔خستہ دیوار کے اندر سے اگنے والے پودوں نے جو عام طور پر قدیم عمارتوں پر اُگ آتے ہیں‘اب چھوٹے درختوں کی شکل اختیار کرلی ہے اور عمارت کو کمزور کررہے ہیں۔
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في ضحك رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 231-229
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
ان کی آنکھوں میں تجلی
کلام وآواز
کیف بنارسی(وفات ۶/دسمبر ۲۰۰۳ء)
لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=unki-aankhou-me-tajalli, Unki Aankhou Me Tajalli
*بات سے بات : گمراہ فرقوں کی کتابوں سے استفادہ*
مولانا عبد الستار اعظمی سابق شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو، تقسیم ہند سے قبل کے مناظروں کو دیکھے ہوئے تھے،یہ مناظرے آریہ سماجیوں، قادیانیوں اور عیسائیوں کے ساتھ زیادہ تر ہوا کرتے تھے،ان مناظروں کا مرکز مشرقی پنجاب سے دہلی تک کا علاقہ تھا، جہاں مسلک اہل حدیث سے وابستہ علماء بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے،اور انہیں ہی ان سے زیادہ سابقہ پڑتا تھا، لہذا میدان مناظرے میں ان کا بڑا نام تھا، ان مناظرین میں مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اور میر ابراہیم سیالکوٹیؒ نمایاں حیثیت رکھتے تھے، ویسے اول الذکر مناظرین اسلام کی سرخیل مانے جاتے تھے، لیکن مولانا عبد الستار علیہ الرحمۃ کی رائے میں مناظروں میں مولانا سیالکوٹیؒ کی گرفت اول الذکر سے زیادہ سخت ہوتی تھی۔ وہ فرماتے تھے کہ مولانا امرتسریؒ کو مخالف فرقے کا مناظر دوسری بحثوں میں الجھاتا تو وہ الجھ جاتے،اور دوسرےموضوعات میں بحث منتقل کرتے، اس کے بالمقابل مولانا سیالکوٹیؒ کسی ایک نکتہ کودانتوں سے پکڑتے تو پھر فریق مخالف اس کو چھڑا کربھاگ نہیں پاتا، اس کی گردن ایسے دبوچ لیتے کہ جب تک حق کا فیصلہ نہ ہوجائے اس وقت تک ایک مسئلے سے دوسرے مسئلے میں منتقل نہیں ہو پاتا۔
یہاں یہ بات اس لئے یاد آئی کہ قادیانیت کے سلسلے میں پڑوس میں زیادہ حساسیت پائی جاتی ہے، اسباب واضح ہیں، اس ناچیز کو بھی گذشتہ (۴۵) سالوں کے دوران ان مسائل سے سابقہ پڑتا رہا ہے، جب قانون کی بات ہو تو پھر جذباتیت موقف کو کمزور بنادیتی ہے۔ اسباب ایسے ڈھونڈنے پڑتے ہیں، جن کے سلسلے میں دو رائے نہ ہو، اور اس کی تاویل نہ کی جاسکے۔
یہاں مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کا محمد علی لاہوری کی تفسیر بیان القرآن پر ایک تبصرہ یاد آتا ہے ، فرمایا کہ اس میں احمدیت سے زیادہ احمد خانیت غالب ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ قادیانیوں سے ہمارے اختلاف کی اصل بنیاد عقیدہ ختم نبوت اور حضرت عیسی علیہ السلام، اور مہدی موعود سے متعلق اس سے وابستہ عقائد ہیں، باقی دینی وفقہی مسائل میں اختلاف بہت کم پایا جاتا ہے۔ آج کل کا مجھے زیادہ علم نہیں، سر ظفراللہ خان کا ترجمہ قرآن ، ترجمہ ریاض الصالحین، اور محمد علی لاہوری کی سیرت محمد رسول اللہ اوراس سلسلے میں بہت سارا اوریجنل لٹریچر ہماری نظر سے گذرا ہے، آخر الذکر کتاب تو عالم عرب میں بہت زیادہ مقبول رہی ہے۔
عقیدہ رسالت میں ہمارا ان کا بنیادی اختلاف ہے، لیکن جہاں تک عقیدہ الوہیت اور آخرت کا تعلق ہے تو ان میں ہمارے اختلافات بہت کم ہیں،صرف عقیدے کے ان دو بنیادی ارکان میں اختلاف کی بنیاد پر قادیانیوں کو کافر قرار دینا بہت مشکل ہے۔
شیعوں کے ساتھ ہمارے اختلافی مسائل زیادہ ہیں، لہذا ان دونوں فرقوں کے مصنفین کی کتابوں میں توحید اور آخرت کے سلسلے میں ایسا بہت سارا مواد ملتا ہے جو جدید ذہن کے منکرین کو متاثر کرتا ہے، قادیانی کذاب کی اپنی دعوت میں کامیابی کا اصل راز یہی تھا، ان موضوعات میں اس نے عیسائیوں اور آریا سماجیوں سے مناظرے کئے، اور اور جب لوگ متاثر ہونے لگے تو اپنی جھوٹی نبوت کا دعوی کردیا۔
لہذا اگر حضرت تھانویؒ نے ان کی کتابوں سے کچھ نکات لئے ہوں تو یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، لیکن اگر حضرت تھانویؒ ان کتابوں کا حوالہ دیتے، اور لوگ ان باتوں کو پڑھنے کے بعد متاثر ہوکر ان کتابوں کی تلاش کرتے تو یہ بڑے خطرے کی بات تھی۔
ایک زمانے میں عمان میں اباضی فرقہ کے جلیل القدر عالم ومتکلم شیخ احمد الخلیلی صاحب نے شیخ عبد العزیز بن بازؒ کو اباضی اور اہل سنت کے مابین متنازع مسائل عقیدہ میں ٹیلویژن پر مناظرے کی دعوت دی، تو شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس سے ان سے اور ہماری برابری ہوگی، اور یہ ان کی شخصیت کا اعتراف ہوگا، اور ان کی باتیں ان لوگوں تک پہنچیں گی، جو ابتک ان سے نابلد تھے، اور ممکن ہے بہت سے لوگ ان کی باتوں سے متاثر ہوجائیں۔
لہذا کوئی عقیدہ اورکلام پر متمکن شخص دوسروں سے دین حق کی تائید میں دلائل ونکات لے لے، اور ان کا حوالہ دینا ضروری نہ سمجھے تو یہ کوئی زیادہ اہم بات نہیں، اسے سرقہ کہنا ایک طرح سے زیادتی ہوگی۔
عبدالمتین منیری
2024-12-05
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
حضرت علامہ خالد محمودؒ کامضمون جب شائع ہوا تو اس کے بعد قادیانی حلقوں میں خاموشی چھا گئی۔ اس کے تقریبا ۲۰ سال دوبارہ سے حضرت تھانویؒ پر سرقہ کا الزام سنائی دینے لگا۔ تفصیل اسکی یہ ہے کہ جامعہ کراچی سے ایک سہ ماہی مجلہ’’ جریدہ‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے جس نے اپنی ایک خصوصی اشاعت ’’چہ دلاور است ‘‘ کے نام سے شائع کی جس میں مشرق اور مغرب میں سرقہ بازی کی تاریخ کا محاسبہ کیا گیا ہے۔ مجلہ کے ذمہ داران کی لاپرواہی کہیں یا کچھ اور، قادیانیوں کے حضرت تھانویؒ پر سرقہ کے الزام کو اپنے مجلہ میں جگہ دے دی۔حالانکہ اگر تھوڑی سی ہمت کر کے کتاب کے مقدمہ کوایک نظر دیکھ لیا جاتا تو اس الزام کی نوبت نہ آتی۔ بعد میں جرید ہ کے ذمہ داران کو غلطی کا احساس ہوا اور دوسری اشاعت میں سے حضرت تھانوی ؒپر الزام والے مقالے کو نکال دیا گیا ، ایک مختصر اور ناکافی معذرت شائع کر دی گئی ۔خصوصی اشاعت کے دوسرے ایڈیشن میں مقدمہ نگار لکھتے ہیں کہ:
’’اس سرقے کے ضمن میں علامہ خالد محمود نے جامعہ اشرفیہ کے رسالے الحسن میں سرقے کے الزام کو رد کرنے کے لیے ایک سیر حاصل مضمون لکھا ہے جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرزا غلام احمد نے ایک اور اہل حدیث مصنف کی تحریروں سے یہ سرقہ کیا تھا اور مولانا تھانوی کے پیش نظر اس مصنف کی اصل تحریریں تھیںجب کہ مرزا صاحب نے سرقہ کیا ہے۔ یہ موقف بہ ظاہر وزنی ہے لیکن مزیذ تحقیق کا متقاضی ہے(جریدہ اشاعت خصوصی:چہ دلاوراست، اشاعت دوم)‘‘
جس طرح یہ قصیدہ ان کا نہیں اسی طرح کتاب میں ان سے متعلق بہت سے منسوبات بھی درست نہیں۔ ان شاء اللہ تذکرہ نذیریہ میں ان سب اتہامات کا ازالہ ہو گیا ہے۔
ویسے الزامات و اتہامات سے تو شاید ہی کوئی مشہور و مقدس عالم بچا ہو۔ مسلکی جذبات سے بالا تر ہو کر دیکھا جائے تو دوسرے مسلک کے علماء کا دامن بھی بے داغ نظر آ سکتا ہے۔
ایک گروپ میں مولانا تھانوی پر مرزا قادیانی سے سرقہ کرنے کے الزامات مع شواہد پیش ہوئے تو میں نے اس کی سختی سے تردید کی بعض دفعہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اس کی اصل حقیقت پر کچھ حوالے و نکات جمع بھی کیے ارادہ ہے مولانا تھانوی کی بریت پر ایک مختصر رسالہ بھی لکھ دیا جائے۔ وبیدہ التوفیق
کیوں کہ اس مسئلے پر ان کی مخالفت میں کتابچہ مطبوع ہے۔
*انسانی اختیارات سے بالاتر حقیقی اختیار، اللّٰه تعالیٰ ہی کو ہے*
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
"عرفت ربی بفسخ العزائم" ایک مشہور مقولہ ہے، جس کو کسی نے غلطی سے حدیث کہہ دیا ہے اور بعضوں نے حضرت علی المرتضی رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کی طرف اس کو منسوب کردیا ہے، مگر بہرحال یہ فقرہ، بے حد فلسفیانہ ہے، اس چھوٹے سے فقرہ میں قضا و قدر کے سب سے مشکل مسئلہ کو سب سے آسان طریقہ سے، نہ صرف حل کردیا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کو مدلل بھی کردیا ہے۔ انسان اپنے کو آزاد اور خود مختار سمجھتا ہے اور کسی مقصد کو سامنے رکھ کر، اس کے حصول کی تدبیریں کرتا ہے، تمام اسباب مہیا کرتا ہے، سارے عوائق کو اپنے مقدور بھر ہٹاتا ہے اور جب یہ امید کرتا ہے کہ اب نتیجہ سامنے آنا چاہتا ہے کہ دفعۃً معلوم ہوتا ہے کہ جمع کردہ اسباب میں، کسی سبب کی کمی رہ گئی تھی، یا کوئی ایسا عائق سامنے آگیا ہے، جس کا پہلے سے وہم و گمان نہ تھا اور اس وقت یہ یقین ہوتا ہے کہ ہمارے اختیارات سے بھی بالاتر کوئی اختیار ہے۔ دراصل اس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے:
"دردست دیگرے است سیاه سپیدما"
شذراتِ سلیمانیؒ/حصہ: دوم/صفحہ: ۲۲۵/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا
کلام وآواز: اسرار الحق مجاز لکھنوی
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=tujhko-khabar-hai-ham-kia-kia, Tujhko Khabar hai Ham kia kia
شاعر کی آواز میں مزید کلام کی لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?c=&s=&t=&q=majaz
سلسلہ نمبر: 247
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا سید ابوالحسن علی نؔدویؒ*
*انسان کی تلاش*
تؔرکی کی حدود میں ایک بڑے مشہور شاعر اور حکیم گزرے ہیں،جن کا نام مؔولانا رومؒ ہے، انہوں نے اپنی مؔثنوی میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے: ”کہ کل رات کا واقعہ ہے کہ ایک ضعیف العمر آدمی چراغ لیے شہر کے گرد گھوم رہے تھے اور اندھیری رات میں کچھ تلاش کر رہے تھے،میں نے کہا: حضرت سلامت!آپ کیا تلاش کر رہے ہیں ؟ فرمانے لگے: مجھے انسان کی تلاش ہے،میں چوپایوں اور درندوں کے ساتھ رہتے رہتے عاجز آگیا ہوں،میرا پیمانۂ صبر لبریز ہوچکا ہے،اب مجھے ایک ایسے انسان کی تلاش ہےجو خدا کا شیر اور مرد کامل ہو میں نے کہا: بزرگوار! اب آپ کا آخری وقت ہے،انسان کو آپ کہاں تک ڈھونڈیں گے، اس ”عنقاء“ کا ملنا آسان نہیں ؛ میں نے بھی بہت ڈھونڈا ہے ؛ لیکن نہیں پایا،ان بزرگ نے جواب دیا:میری ساری عمر کی عادت ہے کہ:جب کسی چیز کو سنتا ہوں کہ وہ نہیں ملتی تو اس کو اور زیادہ تلاش کرتا ہوں، تم نے مجھے اب اس بات پر آمادہ کردیا کہ میں اس گم شدہ انسان کو اور زیادہ ڈھونڈوں اور اس کی تلاش سے کبھی باز نہ آؤں“ ۔
یہ ایک شاعر کا مکالمہ ہے،آپ کو شاید تعجب ہو کہ ایسا بھی وقت تھا کہ انسان بالکل نایاب ہوگیا تھا،مولانا رومؒ نے ہمارے دل میں ایک سوال پیدا کردیا کہ ہر انسان انسان نہیں ہے اور کیا انسانوں کی بڑی بڑی آبادیوں میں بھی انسان نایاب ہے؟ ہم تو سمجہتے تھے کہ انسان کی ایک ہی قسم ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جو دیکھنے میں انسان ہے ؛ لیکن حقیقت میں انسان نہیں اور دنیا میں ہمیشہ انہی لوگوں کی کثرت رہی ہے____ دوسرے وہ جو انسان ہیں اور وہ کبھی ایسے گم ہوجاتے ہیں کہ ان کو چراغ لے کر ڈھونڈنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
( *آدمیت سے بغاوت، صفحہ: 1،طبع: صدیقی ٹرسٹ،نشتر روڈ، کراچی*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ظفر عمر(مصنف نیلی چھتری) وفات ۰۴/ دسمبر
تحریر: حمیدہ اختر حسین رائے پوری
لنک علم وکتاب
https://archive.org/download/zafar-umer-by-hamida-akhtar-husain-raipuri/Zafar%20Umer%20By%20Hamida%20Akhtar%20Husain%20Raipuri.pdf
انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۲۲
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق صبر کے قرآنی مفہوم سے ہے ۔اس موضوع پر مولانا دریابادی نے بڑے موثر اور دل نشیں انداز سے اس کی درج ذیل الفاظ میں وضاحت کی ہے۔
انشائے ماجدی
”روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ کسی بڑی اور پر قوت ہستی سے تعلق قائم ہو جانے سے دل کو کتنی تقویت حاصل ہو جاتی ہے ۔خطرے کے وقت پولیس کے پہنچ جانے سے کسی بڑے حاکم کے آجانے سے دل کو کیسی ڈھارس بندھ جاتی ہے۔ شدید بیماری کے وقت کسی نامور طبیب کے آجانے سے ٹوٹی ہوئی آس کیسی جڑ جاتی ہے۔ پھر جب پھر جب دل کا ربط ہمہ بیں و ہمہ داں ناصرِ حقیقی و محافظ حقیقی سے قائم ہو جائے تو انسان بے بنیان کی تسکین خاطر و تقویت قلب کا کیا پوچھنا۔
دنیا میں رہ کر زندگی کی کشمکش میں پڑ کر مشکلات و مصائب کا پیش آتے رہنا ناگزیر ہے افراد کو بھی اور امت و جماعت کو بھی اور وہ دستور العمل ناقص ہے جو مشکلات کے دفاع اور مصائب سے مقابلے کا طریقہ نہ بتائے۔ قرآن مجید نے بجائے غیر ضروری اور نامتناہی تفصیلات میں جانے کے یہاں اشارہ اصل اصول کی جانب کر دیا :صبر کے لفظی معنیٰ تنگی وہ ناخوشگواری کی حالت میں اپنے کو روکے رکھنے کے ہی اور اصطلاح شریعت میں اس کے معنی ٰیہ ہے کہ نفس کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور قدم دائرہ شریعت سے باہر نہ نکالے جائیں۔ صبر کے یہ معنی نہیں کہ جو امور طبعی و بشری ہیں ان کے آثار کو بھی اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیا جائے ۔بھوک کے وقت مضمحل اور نڈھال ہو جانا، درد کی تکلیف سے کراہنا ،رنج کے وقت آہِ سرد بھرنا ،عزیز وں قریبوں کی موت پر آنسوؤں سے رونا۔ ان میں سے کوئی بھی شے صبر کے منافی اور بے صبری میں داخل نہیں ہے۔ قرآنی فرمان کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ہجومِ مشکلات کے وقت گھبرا نہ جاؤ ثابت قدم رہو دل قابو میں رکھو، خود دل کے بس میں نہ آ جاؤ۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اوّل ،صفحہ نمبر۲۸۴)
قطب اللہ کی پہلی کتاب ان کے افسانوں پر مشتمل تھی،جو ’ویزا‘ کے عنوان سے1984میں شائع ہوئی تھی۔یہ ان کے تیرہ افسانوں کا مجموعہ ہے اور ان کے ذاتی مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہے۔ اس افسانوی مجموعہ کا دیباچہ ممتاز افسانہ نگار اور صحافی عابد سہیل نے لکھا تھا اور ان کے مستقبل کے بہترین افسانہ نگار بننے کی پیشین گوئی بھی کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ وہ صحافت کے پیشے میں افسانہ طرازی سے دور ہوکر حقیقت کی دنیا میں کھوگئے۔ اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی نے لکھا تھا۔قطب اللہ کی صحافتی تحریروں کا محور مغربی ایشیا اور مشرق وسطی تھا۔ انھوں نے ان موضوعات پر نہایت مدلل اور معلوماتی مضامین لکھے۔ انھوں
نے فلسطینی کہانیوں کااردو ترجمہ بھی کیا تھا جو باقاعدہ کتابی شکل میں شائع ہوا۔ قطب اللہ نے پوری عمر اردو صحافت اورصحافیوں کی خدمت کرتے ہوئے گزاری۔ انھوں نے ہمیشہ قلم وقرطاس سے اپنا رشتہ برقرار رکھا اور ساتھ ہی کارکن صحافیوں کے حقوق کی جنگ بھی لڑتے رہے۔ انھوں نے آخری وقت تک قلم کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ان کا آخری مضمون گز شتہ ہفتہ ’انقلاب‘ میں شائع ہوا تھا۔ قطب اللہ کی پیدائش23/مارچ 1951 کو ضلع بستی کے قصبہ بڑھنی میں ہوئی تھی۔ان کی ابتدائی تعلیم جامعہ سلفیہ جھنڈا نگر میں ہوئی اور فراغت ندوۃ العلماء لکھنؤ سے1970میں ہوئی۔1974 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور1976میں ایم اے کرنے کے بعد انھوں نے1978 میں ایل ایل بی کیا۔1980میں عربی میں ایم اے کرنے کے بعد وہ روزنامہ ’قومی آواز‘ سے وابستہ ہوگئے اور1997میں اس کے بند ہونے تک وابستہ رہے۔1998 میں انھوں نے روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ سے وابستگی اختیار کی اوراس کے گورکھپور، پٹنہ اور کلکتہ ایڈیشن کے انچارج رہے۔ 2012 میں راشٹریہ سہارا سے سبکدوش ہونے کے بعد ’عوامی سالار‘، ’اخبارمشرق،’سالار‘ بنگلور اور روزنامہ ’انقلاب‘ سے بطورکالم نگار وابستہ رہے۔1995میں انھیں جدہ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’اردو نیوز‘کا یوپی اور بہار کا نمائندہ مقرر کیا گیا تھا۔ گزشتہ13/برس سے وہ ندوہ میں صحافت کا درس دے رہے تھے۔ ان کی زندگی اور صحافتی سرگرمیوں پر حکیم وسیم احمداعظمی نے اپنی حالیہ کتاب ’حفیظ نعمانی اوران کا عہد‘ میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔2/دسمبر 2024 کو لکھنؤ کے ایرامیڈیکل کالج میں وفات پائی اور اسی روز اپنے وطن میں مدفون ہوئے۔ان کے انتقال پر جمال احسانی کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
عوام کیا بہت سے خواص بھی بچے ہوۓ نہیں ہیں جہاں کرور دو کرور روپئے دیکھے ان کا علم دھرا رہ جاتا ہے اور اس کا ایمان واسلام اس کو نہیں روک پاتا ہے یہ سب اس لۓ ہوا کہ ہمارے سامنے ایمان واسلام سے زیادہ قیمتی چیز دنیا ودولت بن گئ ہے ۔۔۔۔ آج ہی ہم نے ایک تحریر پڑھی اس کو پڑھ کر جو احساس ہوا اس کو ہم نہیں کرسکتے کہ مہاراشٹر کے ایک گاؤں میں جو کہ پورا مسلمانوں کا ہے سب کے نام ہندو ہیں اور انھوں نے اپنے ہندو نام صرف پیسوں کے لۓ رکھے ہوۓ ہیں ان کو متشدد اسلام مخالف تنظیم آر ایس ایس دس ہزار یا پانچ ہزار روپۓ دے دیتی ہے اور اپنے اسکول میں ان کے پچوں کا ایڈمیشن بھی کرلیتی ہے مجھے بتائیے کیا یہ بچے آنے والے وقت میں مسلمان بچ سکیں گے جن کے والدین معمولی رقم کے لۓ اپنے نام بدل رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ کل یہ لوگ موٹی رقم کے لالچ میں اپنے ایمانوں کا سودا نہ کرلیں ۔۔ اور کل قیامت کے دن ہم جیسوں سے اللہ نے سوال کرلیا تو ہم کیا جواب دیں گے ہم نے خود٢٠١٣ ء میں کرناٹک کی ایک بستی میں دیکھا تھا کہ وہاں پر مسلمانوں کے نام بھی ہندؤں رکھے ہوۓ تھے اور کچھ لوگوں نے بتایا تھا کہ وہ ہندؤں کے سارے تیوہار پر ایسے ہی خوشی مناتے ہیں جیسے ہندو ۔۔۔ اگر پورے ملک کا جائزہ لیا جاۓ تو نہ جانے کتنے علاقے وبستیاں ایسی مل جائیں گی کہ جو ہیں مسلمان لیکن اعمال و افعال ، عقائد ومعاملات میں ان کا اسلام سے کوئ تعلق نہیں ہے یہاں تک کہ ان کے نام بھی مسلمانوں والے نہیں ہیں جہاں تک تعلق ہے اخلاقی بگاڑ کا تو مت پوچھئے بات کہاں تک جا پہنچی ہے وہ بد زبانی سے شروع ہوکر بد کرداری تک پہنچتی ہے مجھے تو اس وقت یہ کہنے میں کوئ تردد نہیں ہوتا کہ کردار وکیریٹر نام کے صرف الفاظ رہ گۓ ورنہ حالات انتہائ نا گفتہ بہ ہیں اس لۓ ضرورت ہے کہ ہمیں دروازہ پر کھڑے اس کفر سے نجات حاصل کرنی ہوگی اور خود کی اور اپنی نسلوں کی ایمان واسلام کی حفاظت کرنی ہوگی اور اس کے لۓ کیا تدبیریں ہوسکتی ہیں اس پر محنت کرنی ہوگی ۔۔۔
جاگۓ اور اپنے ایماں کی حفاظت کیجۓ
کفر دروازے پے دستک دے رہا ہے آپ کے
٢ دسمبر ٢٠٢٤ ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ایک پٹھان نے اپنی بیوی کو گولی مار دی ۔ ۔ ۔
حالانکہ اُس کی بیوی نے صرف اتنا کہا تھا کہ : میں اپنی زندگی شان اور شوکت کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں ۔
اب پٹھان شان اور شوکت کو ڈھونڈ رہا ہے