ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

اس سے بچپن اور لڑکپن کی بہت سی یادیں جو وابستہ ہیں۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*صناعت و حرفت کے شعبوں میں بھی آگے بڑھنا چاہیے*

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کے بدیر رواج پانے اور نئی تعلیم میں پیچھے رہ جانے کا سبب، مدتوں تک یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ علمائے کرام نے اس کی سخت مخالفت کی تھی، لیکن چند سال کے بعد جب مسلمان صنعتی تعلیم میں پیچھے رہ جائیں گے، تو معلوم نہیں، اس کا الزام، کس کے سر دھرا جائے گا، کیوں کہ معلوم رہے کہ علمائے کرام نے صنعتی تعلیم کے کسی شعبہ کی تعلیم کو ابھی تک، حرام قرار نہیں دیا ہے۔ باایں ہمہ، سرکاری منصب کے خواہش مندوں کی جماعت میں ابھی تک ادھر، توجہ نہیں کی جارہی ہے۔

شذراتِ سلیمانی/حصہ سوم/صفحہ: ۱۲۴/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

جامع مسجد سنبھل کا قضیہ

معصوم مرادآبادی

/channel/ilmokitab

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کا حکم دے کر نچلی عدالت نے جو انتشار پھیلایا تھا، اس پر سپریم کورٹ نے عبوری روک لگادی ہے اور اس معاملے کو ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے بھیج دیا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کو تنبیہ کی ہے کہ”امن اور ہم آہنگی کو ہرحال میں برقرار رکھا جانا چاہئے۔“سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد سنبھل کے عوام نے چین کا سانس ضرور لیا ہے، لیکن وہاں ابھی تک پولیس کے ظلم وستم کا سلسلہ تھما نہیں ہے اور بے گناہوں کی گرفتاریوں کے لیے مسلسل دبش دی جارہی ہے۔حالانکہ سنبھل کاسانحہ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی جانبداری اور فرض ناشناسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سنبھل کے بعد اجمیر کی ایک عدالت نے وہاں کی شہرہ آفاق درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کے ’شیومندر‘ہونے کا دعویٰ کرنے والی ایک عرضی کو سماعت کے لیے قبول کرکے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے۔ اب یہ سنگین سوال کھڑا ہوگیاہے کہ کیا اب ملک میں چپے چپے پر کھدائی ہوگی اور یہ پتہ لگایا جائے گا کہ کس کے قدموں کے نیچے کیا ہے۔
ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد وہاں عالیشان مندر کی تعمیر نے فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کو جو حوصلہ بخشا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ہر تاریخی مسجد کے نیچے ایک مندر تلاش کرنے کی مہم چل رہی ہے اور اس معاملے میں نچلی عدالتیں انصاف اور قانون کا پاس ولحاظ کرنے کی بجائے ظلم وناانصافی کرنے والوں کی ہم نوا نظر آرہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں کئی تاریخی مسجدوں کے خلاف عرضیاں عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ان میں بنارس کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ،لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد،مدھیہ پردیش کی بھوج شالہ مسجد کے بعد اب نیا نام سنبھل کی شاہی جامع مسجد اور خواجہ اجمیری کی درگاہ شامل کا شامل ہوا ہے۔
سنبھل کی پانچ سوسالہ قدیم جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے گزشتہ ہفتہ جو کھیل کھیلا گیا، وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک تھا۔ ایک طرف ہم ملک میں آئین کی 75 ویں سالگرہ منارہے تھے اور دوسری طرف سنبھل میں آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں۔ ملک کا وہ سیکولر جمہوری آئین جو ہر شہری کو یکساں انصاف اور مساوات فراہم کرنے کی گارنٹی دیتاہے، جب اس کے نفاذ کی قسمیں کھانے والے ہی آئین کی روح کا خون کرنے لگیں تو پھر اس ملک میں کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا ۔ سنبھل کی جامع مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے بھی وہی سب کچھ کیا گیا جو اس سے پہلے بنارس کی گیان واپی مسجد میں کیا گیا تھا۔ جس طرح بنارس میں ذیلی عدالت نے آناً فاناً گیان واپی مسجد کے سروے کے نام پر اس کے حوض میں نام نہاد’شیولنگ‘ تلاش کرکے پوری مسجد ہی کومتنازعہ بنادیا تھا، ٹھیک وہی سازش سنبھل کی جامع مسجد میں بھی رچی جارہی تھی۔ یہاں بھی سروے کے دوران حوض خالی کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ انتظامیہ کی بدنیتی بھانپ کر جب مسلمانوں نے مزاحمت کی توانھیں اس کا جواب گولیوں سے دیا گیا اور پانچ بے گناہ مسلم نوجوان شہید ہوئے۔ یہ دراصل اپنی عبادت گاہ کے تقدس کے لیے دی جانے والی ایسی قربانی ہے، جس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
بلاشبہ اگر سنبھل کے مسلمان مزاحمت نہ کرتے تو اب تک ان کی جامع مسجد کے حوض میں بھی ایک عدد شیولنگ تلاش کرکے عدالت اسے سیل کردیتی۔پھر وہاں کے مسلمان برسوں عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے اور وہاں سے انھیں ایسا ہی انصاف ملتا جو ملک کی سب سے بڑا عدالت کے جج نے رام چندرجی کی مورتی سامنے رکھ کر ایودھیا معاملے میں کیا تھا۔سچ پوچھئے تو اس وقت ملک کے اندر مسجدوں اور درگاہوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کی جو مہم چل رہی ہے، اس کے لیے پوری طرح سابق چیف جسٹس چندرچوڑ ہی ذمہ دار ہیں جنھوں نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مجریہ1991کی گمراہ کن تشریح کی تھی۔ انھوں نے مئی 2022میں کہا تھا کہ ”کسی مذہبی مقام کا کردار تو تبدیل نہیں کی جاسکتی، لیکن اس کی اصلیت کی جانچ کرنے سے قانون ہمیں نہیں روکتا۔“
دراصل یہی وہ زبانی تبصرہ تھا جس نے مسجدوں کے خلاف تنازعات کا پٹارہ کھول دیا ہے اور اب اسی کی آڑلے کر تمام تاریخی مسجدوں کے سروے کے لیے ذیلی عدالتوں میں عرضیاں داخل کی جارہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ عدالتیں کچھ سوچے سمجھے بغیر سروے کے احکامات جاری کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب1991میں یہ قانون پاس ہوچکا ہے کہ آزادی کے وقت یعنی 1947میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی تو پھر ذیلی عدالتیں عرضی گزاروں کی نیت کو کیوں نہیں بھانپ رہی ہیں۔حال ہی میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجیو رام چندرن نے نئی دہلی میں منعقدہ ساملہ کے ایک پروگرام کے دوران کہا ہے کہ”اس وقت ملک میں قدیم مسجدوں اور مذہبی مقامات میں مندر تلاش کرنے کی فرقہ پرست عناصرنے جومہم شروع کررکھی ہے، اس کے لیے سپریم کورٹ ذمہ دار ہے جس نے گزشتہ سال بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد میں سروے کی اجازت دے کر

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في تعطر رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 225-220

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ ۲/ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اللہ بخش سومرو 2/دسمبر/1993ء
ثاقب جالندھری (حکیم سید شریف احمد) 2/دسمبر/1963ء
مولانا خلیل احمد بھاگلپوری 2/دسمبر/2009ء
فرید جاوید 2/دسمبر/1977ء
منشی ہرسکھ رائے (صحافی) 2/دسمبر/1890ء
نامق کمال 2/دسمبر/1888ء
نور الدین اتاسی 2/دسمبر/1992ء
دیون ورما (ایکٹر) 2/دسمبر/2014ء
رئیس احمد علوی 2/دسمبر/2021ء
شیرین جناح 2/دسمبر/1980ء
ظفر اللہ جمالی 2/دسمبر/2020ء
چودھری محمد علی 2/دسمبر/1982ء
عبد الرحمن انتولے 2/دسمبر/2014ء
عبد الصمد خان اچکزئی 2/دسمبر/1973ء
عبد المجید خواجہ 2/دسمبر/1962ء

Читать полностью…

علم و کتاب

سچی باتیں (۱۳؍اکتوبر۱۹۳۳ء۔۔۔ عہدہ قضاء کی ذمہ داری
عبد الماجد دریابادی

عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال من جعل قاضیًا بین الناس فقد ذبح بغیر سِکّین۔ (ترمذی وابن ماجہ )
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ جو شخص لوگوں پر قاضی (حاکم) بنایاگیا، وہ بغیر چھری کے ذبح کردیاگیا۔
قاضی( مجسٹریٹ اور جج)کا عہدہ،اسلامی حکومت میں ایک اعلیٰ عہدہ ہے۔ اسی منصب کی ذمہ داریوں کا گویا پورا نقشہ، زبان نبوت نے ان مختصر ، جامع، وبلیغ لفظوں میں کھینچ کردکھادیاہے۔ اس کے پیش نظر ہوجانے کے بعد کسی صاحبِ ایمان کو اس کی ہوس باقی رہے گی؟ کوئی ، رسول کی بات پر یقین رکھنے والا، اب اس کی جانب از خود لپکے گا؟ شارحین کہتے ہیں، کہ معناہ التحذیر من طلب القضاء والحری علیہ اس سے مقصود لوگوں کو عہدۂ قضاء کی حرص اور طلب سے روکناہے۔ ایک دوسری حدیث میںمضمون اس سے بھی زیادہ صاف وواضح ہے،
عن أنس بن مالک قال قال رسول اللہ ﷺ من سأل القضاء وکل علی نفسہ ومن جبر علیہ نزل الیہ ملک فسددہ۔ (ایضًا)
حضرت انسؓ بن مالک رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں، کہ جو شخص عہدۂ قضاء خود طلب کرکے لیتاہے، وہ بس اپنے ہی اوپر چھوڑدیاجاتاہے۔ اورجسے بلاطلب، زبردستی اسی عہدہ پر فائز کردیاجاتاہے، اس کی امداد واعانت کے لئے ایک فرشتہ نازل کردیاجاتاہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بڑے پایہ کے صحابی تھے۔ احتیاط وخشیت میں ممتاز ومشہور۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانہ میں انھیں قاضی مقرر کرناچاہا، صاف معذرت کردی، اور کہاکہ امیر المومنین، میرے اوپر رحم فرمائیے، اور اس خدمت سے مجھے معاف ہی رکھئے۔ حضرت سلمان ؓ فارسی اور حضرت ابودرداءؓ سے متعلق بھی،عہدۂ قضا سے ایساہی خوف منقول ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کا درجہ، کمال واحتیاط ورتقویٰ کے لحاظ سے، پھر بہت اونچاتھا۔ صدیوں بعد کے فقہاء کو لیجئے۔ ان کے ہاں بھی تصریحات موجود ہیں ، کہ قاضی ایسے شخص کو بنایاجائے، جو عہدۂ قضا کی خواہش نہ دل میں رکھتاہو،
لایطلب القضاء بقلبہ ولا یسألہ بلسانہ۔ (درمختارؔ)
اور نہ زبان سے اس عُہدے کی طلب کرے!
ولا ینبغی أن یطلب الولایۃ ولا یسألہا ۔ (ہدایہؔ، فتح القدیرؔ، وغیرہا)
نہ چاہئے کہ عہدہ کی خواہش کرے، اور اس کے لئے درخواست کرے۔
فقہ کا تعلق اصلاح باطن سے نہیں، محض احکام ظاہر سے ہے۔ مگر یہ ’’خشک‘‘ فقہاء تک لکھ گئے ہیں، کہ عہدہ کے لئے سعی وطلب، دوڑدھوپ کرنا، سفارشیں اُٹھوانا، درخواستیں دینا، الحاح وزاری کرنا، اپنے حقوق پیش کرنا، ……جائز نہیں! اہل باطن کا تو ذِکر ہی نہ کیجئے۔
ایک عالَم یہ تھا۔ خیالی نہیں، عملی۔ لفظی نہیں، تجربی، موہوم نہیں، موجود فی الخارج۔ فقیہوں کے سرور وسرتاج، ابو حنیفہؒ کو بادشاہ اسلام خُود بلاکر قضاء ت اعلیٰ کا عہدہ سپرد کررہاہے، وہ انکار کرتے ہیں، بادشاہ انکار سے ناراض ہوجاتاہے، سختیاں کرتاہے، قیدخانہ میں ڈلوادیتاہے۔ یہ سب گوارا، پر اس ذمہ داری کا اُٹھانا گوارا نہیں!ایک عالَم یہ تھا، ایک دنیا آج کی ہے، ہماری آپ کی ہے، لندنؔ اور پیرسؔ کی ہے، برلنؔ اور ویاناؔ کی ہے! کوئی ایک عہدہ خالی ہو، تواُس پر سیکڑوں مل کر ٹوٹ پڑئیے! اپنی ’’قابلیت‘‘ اور اپنے ’’کارنامے‘‘ اپنی زبان سے، خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیجئے، اپنے مناقب کی قصیدہ خوانی خود کیجئے، دوسروں کو نالائق محض، اور اپنے کو قابل ترین،ثابت کیجئے! اسمبلی میں، کونسل میں، منوسپل بورڈمیں، ڈسٹرکٹ بورڈ میں، کوئی جگہ خالی ہو، تو اپنے حق میں اعلان چھاپئے، ’’مینفسٹو‘‘ شائع کیجئے، لکچر دیجئے۔ ’’کمترین‘‘ اور ’’خاکسار‘‘ خدانخواستہ آپ کیوں ہونے لگیں، یہ ہوں گے آپ کے دشمن۔ آپ تو ماشاء اللہ خود اپنے ممدوح ، خود اپنے قدرداں، خود اپنے قصیدہ خواں، اور بڑے سے بڑے منصب، بڑے سے بڑے مرتبے، بڑی سے بڑی جاہ کے مستحق ہیں!……دونوں عالَموں میں کوئی مناسبت ہے؟
علم وکتاب https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
#Abdul_Majid_Daryabadi

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر میرولی الدین
افسوس ہے کہ یکم دسمبر ۱۹۷۵ء کو نامور فلسفی و صوفی اور مشہور مصنف و معلم ڈاکٹر میرولی الدین صاحب نے اپنے وطن حیدرآباد میں انتقال کیا، وہ اسی (۸۰) کے پیٹے میں تھے، ایک سال سے ان کی علالت کا سلسلہ جاری تھا، مرحوم کی تعلیم جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں ہوئی، یہاں سے فلسفہ میں ایم۔اے کرنے کے بعد لندن تشریف لے گئے، بیرسٹری کی تعلیم کے ساتھ کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی، ۱۹۳۳ء میں جامعہ عثمانیہ میں فلسفہ کے استاذ مقرر ہوئے اور پھر اسی شعبہ کے صدر ہوکر ۱۹۶۰ء میں ریٹائر ہوئے اور کئی سال سے خانہ نشین ہوگئے تھے، تاہم تصنیف و تالیف کا مشغلہ جاری تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے اردو اور انگریزی میں بہت سی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں، انگریزی اور عربی کی بعض کتابوں کے ترجمے بھی کئے ان کو دارالمصنفین سے بھی بڑا تعلق تھا، ایک زمانہ میں ان کے مضامین معارف میں برابر شائع ہوتے رہے، ان کی پہلی کتاب ’’فلسفہ کی پہلی کتاب‘‘ یہیں سے چھپی تھی۔ یہ ریپوپارٹ کی پرائمر آف فلاسفی کا اردو ترجمہ ہے جس کو انھوں نے جامعہ عثمانیہ کے سلسلہ نصاب تعلیم کے لئے تیار کیا تھا، ’’رسالہ اخلاقیات‘‘ کے نام سے بھی ایک کتاب میڑک کے نصاب کے لئے لکھی تھی، ’’مراقبات‘‘ ان کی اہم کتاب ہے، یہ بظاہر تو حزب و اور ادکی کتاب معلوم ہوتی ہے مگر نفسیات کے اس مسلمہ اصول کے مطابق کہ انسان پر جس قسم کے خیالات کا غلبہ ہوتا ہے، اسی قسم کے اثرات اس کے خارجی اور باطنی وجود میں بھی لازماً ظاہر ہوتے ہیں، انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ دینی تعلیمات اور ایمانیات و عقائد پر پختہ یقین و ایمان نہ صرف مذہبی عقیدت کے لحاظ سے بلکہ نفسیاتی اصول سے بھی انسان کی اخروی فلاح اور دنیاوی و مادی کامرانیوں کا ضامن ہے، گو بعض صوفیہ نے بھی اس نکتہ کی جانب اشارہ کیا ہے، مگر جدید نفسیات کی روشنی میں سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب ہی نے اس حقیقت کو شرح وبسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا اصل موضوع فلسفہ تھا، مگر حقیقتاً وہ ایک مرد مومن اور عارف باﷲ تھے، اس لئے وہ فلسفہ کے برے اثرات و نتائج سے ہمیشہ محفوظ رہے، ان کی فلسفیانہ تحریریں بھی ایمان کی لذت و لطافت سے معمور ہوتی ہیں اور خالص فلسفہ کی کتابوں میں بھی پہلے قرآنی فلسفہ بیان کرتے ہیں، کیونکہ قلب حکمت ایمانی سے منور ہونے کے بعد عقل خودبین کا غلام نہیں بن سکتا، تصوف اور قرآنیات پر ان کی کتابیں بڑی پرمغز ہیں جیسے قرآن اور تصوف، قرآن اور تعمیر سیرت، علاج خوف و حزن اور انگریزی میں 'Love of Lord' وغیرہ ان میں اسلامی تصوف و احسان کی وضاحت کرکے تصوف اور صوفیہ پر اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے اور اس کی تائید میں قرآن و حدیث سے سندیں اور اکابر صوفیہ کے اقوال بھی پیش کئے گئے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی ذات قدیم و جدید کا سنگم تھی، وہ جدید علوم و فلسفہ سے پوری طرح باخبر تھے، اس لئے ان کی کتابوں میںعلمی و کلامی بحث و استدلال بھی ہوتا ہے اور وہ عام صوفیانہ کتابوں کی طرح ضعیف روایتوں اور حکایتوں سے بڑی حد تک خالی ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے انداز بیان کی شگفتگی و دلکشی نے فلسفہ کے خشک اور دقیق موضوع میں شعروادب جیسی لطافت و دلآویزی پیدا کردی ہے تصوف میں ذوقی اور وجدانی باتیں ہوتیں ہیں اور کیفیات و ذوقیات کو تعقلات کی زبان میں ادا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر ان مباحث کو بھی وہ اس قدر سلجھے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ عام قاری کو ان کے سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر صاحب صوم و صلوۃ کے نہایت پابند اور تہجد گزار تھے، تہجد کے بعد فجر تک اورادو وظائف میں مشغول رہتے، حضرت مولانا محمد حسین صاحبؒ حیدرآبادی سے بیعت و ارادت کا تعلق تھا، ان کے نام اپنی اکثر کتابیں بڑی عقیدت سے معنون کی ہیں، ڈاکٹر صاحب کی صحبت سے بھی بہت سے لوگوں کو فیض پہنچا، زندگی کے ہر دور میں ان کی پختہ دینداری قائم رہی، لندن کے مناظر بھی ان کی نگاہوں کو خیرہ نہ کرسکے، ان کا دماغ فلسفہ جدیدہ سے روشن تھا مگر دل ہمیشہ ایمان سے منور رہا، اب ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جو حکیمانہ دماغ و فلسفیانہ ژرف نگاہی کے ساتھ دل آگاہ اور چشم بینا بھی رکھتے ہوں، اﷲ تعالیٰ اپنے اس دیندار بندے اور علم کے خادم کو اپنی رحمت کاملہ سے نوازے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)
(’’ض‘‘، جنوری ۱۹۷۶ء)

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱/ دسمبر
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

ڈاکٹر میرولی الدین 1/دسمبر/1975ء
اظہار ملیح آبادی 1/دسمبر/1968ء
ڈاکٹر انعام اللہ خان 1/دسمبر/1997ء
زہرہ بانو 1/دسمبر/1977ء
شمشاد لاری 1/دسمبر/1995ء
شمیم حیدر 1/دسمبر/1994ء
ڈاکٹرعطاء رحیم 1/دسمبر/2000ء
فضل الٰہی 1/دسمبر/1961ء
محمد شفیع، الحاج شیخ 1/دسمبر/1987ء
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری 1/دسمبر/2006ء
ڈاکٹر میر ولی الدین 1/دسمبر/1975ء
پروفیسر احتشام حسین 1/دسمبر/1972ء
مولانا عبدالحلیم شرر 1/دسمبر/1926ء
ڈاکٹر محمد دین تاثیر 1/دسمبر/1950ء
ڈاکٹر سید احتشام حسین 1/دسمبر/1972ء
چودھری محمد علی 1/دسمبر/1980ء
حمزہ علوی 1/دسمبر/2003ء
میاں کفایت علی 1/دسمبر/1994ء
وجے لکشمی پنڈٹ 1/دسمبر/1990ء

Читать полностью…

علم و کتاب

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

فتنۂ ارتداد اور اس کا سد باب

✍️ محمد ارشد دیوبندی
26/11/2024

/channel/ilmokitab

انسانوں پر فتنوں کی آمد کا سلسلہ تقریباً اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ دنیا میں بنو آدم کا وجود، حضرتِ آدم علیہ السلام کے دنیا میں آنے کے آٹھ سو سال کے بعد حضرتِ نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں سب سے پہلا اور پُر خطر فتنہ کفر و شرک کا فتنہ ہے جسکی ابتداء آج سے ہزاروں سال قبل حضرتِ نوح علیہ السلام کے دورِ نبوت میں ہوچلی تھی ، دستورِ خداوندی کے مطابق جب حضرتِ نوح علیہ السلام دنیا میں بھیجے گئے اور انکو خدا تعالٰی کی جانب سے احکامِ خداوندی کی تبلیغ پر مامور کیا گیا اور حضرت نُوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک اپنے فریضۂ نبوت کو ادا کرتے رہے مگر بجز چند افراد کے جنکی تعداد اسّی تھی قوم ایمان نہ لائی اور کفر و شرک کی گہری کھائی میں گرتی گئی یہاں تک کہ انکے کفر و شرک اور بت پرستی جیسے اعمالِ قبیحہ کو دیکھ دیکھ کر رسولِ خدا حضرتِ نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان پر ان کافرین کا وہ انجامِ بد جاری کرادیا گیا جو انکا مقدر تھا چنانچہ قرآن نے اس کفر و شرک کی کڑھن اور بےچینی حضرتِ نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے یوں کہلوائی
"رب لا تذر على الارض من الكافرين ديارا" اور آخرکار پروردگارِ عالم کا غضب یوں آیا کہ آسمان سے ہلاکت خیز شدید بارشیں شروع ہوئیں اور زمین سے پانی نکلنا شروع ہوا اور شدید ترین ہولناکیوں کے ساتھ قوم اس طوفانی عذاب میں غرق کردی گئی، قرآن کریم میں حضرتِ نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام اور انکی قوم کا یہ واقعہ جو کہ قرآن کریم میں چالیس مرتبہ سے زیادہ آیا ہے اپنے اندر انسانوں کے لیے کافی سامانِ عبرت رکھتا ہے کہ اگر انسان اپنے خالق ومالک سے منہ موڑے اور اس کے احکام کو توڑے تو عذابِ خداوندی اسکا مقدر بن کر عذاب کے کوڑے اس پر برسنے لگتے ہیں،
آج کے اس پر آشوب اور پرفتن دور میں جبکہ عموماً پوری انسانیت ہی علم و عمل سے دور ہوجانے کی وجہ سے سسک رہی ہے کراہ رہی ہے اور خصوصاً عالمِ اسلام دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے نت نئے فتنوں سے دوچار ہے اور ہندوستان میں بالخصوص فتنۂ ارتداد کی آندھی دلوں سے ایمانوں کو کھرچ کھرچ کر نکالے جارہی ہے،اور حالات اتنے سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں کہ مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں اپنے ارتداد کا برملا اظہار بھی کر رہی ہیں اور علی الاعلان اسلام سے بیزاری بھی جتا رہی ہیں ایسے سنگین حالات میں دو بنیادی کام کرنے کے ہیں
ایک تو یہ غور کرنا کہ اس فتنے نے اپنے بال وپر اتنے وسیع پیمانے پر کیوں کر پھیلا لیے ہیں ، اور دوسرا یہ کہ اب اس فتنے کے مقابلے کی کیا صورتیں اختیار کی جائیں آیئے قرآن واحادیث کی روشنی میں اس خطرناک فتنے سے بچنے کی سبیل تلاش کریں
1: تعلیم کا فقدان،
قرآن مجید کی سب سے پہلی وحی "اقرأ" ہمیں باور کراتی ہے کہ
تعلیم کا فقدان یا تعلیم کی کمی انسان کے لیے سب سے بڑا عیب ہے کیونکہ علم ہی وہ شئ ہے جو انسان کو حیوان سے ممتاز بناتی ہے وگرنہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے، حدیث کی معتبر کتابوں میں اور اسلامی لٹریچر میں علم اور علماء کی بہت زیادہ فضیلتیں آئی ہیں حتیٰ کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی "رب زدني علماً" کے الفاظ تلقین کرکے علم کی اہمیّت کو اجاگر کیا گیا ہے نیز اسلامی علوم کے حصول کا اہم مقصد یہ ہے انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعارف ہوجائے، اسلیے تعلیم از حد ضروری ہے،
اسلیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولادوں کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے کم از کم دین کی بنیادی باتیں اور عقائد سیکھنے کا انتظام ضرور کریں تاکہ انکی زندگیاں نورِ ایمان سے خالی نہ رہیں،

2 مخلوط نظامِ تعلیم:
مغربی طرزِ تعلیم جہاں کہیں بھی اختیار کیا گیا ہے وہاں کا جائزہ لیجیۓ تو کما حقہ تعلیم تو درکنار عصمتیں بھی محفوظ نہیں رہ سکی ہیں، جبکہ احادیث میں عورتوں کی قدر ومنزلت اور حقوقِ نسواں بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں،
اسلام کی آمد سے قبل عورتوں کو زندہ رہنے تک کا حق نہیں دیا جاتا تھا ، لیکن اسلام نے انکو سب سے پہلے جینے اور زندہ رہنے کا حق دیا ، وراثت میں حقوق دیے، معاشرتی اور تمدنی حقوق دیے اور عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت وحسن سلوک کا حکم دیا، اور حضور صلی اللہ علیہِ وسلم نے ماں کا مرتبہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے
الجنة تحت أقدام الأمهات
جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے، اب ہماری وہ لڑکیاں جنکو آگے چل کر مائیں بن کر نسلوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دینا ہے ظاہر ہے کہ پہلے خود انکی تعلیم و تربیت اچھی ہوئی ہو تبھی یہ بیٹیاں نونہالانِ امت کی اچھی اور سچی پرورش کر سکیں گی

Читать полностью…

علم و کتاب

"کچھ نہیں اے خدا کے رسول ﷺ " عقیدت و شوق سے لبریز اور درد سے کا نپتی ہوئی آواز میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا " میرے پاؤں میں سانپ نے ڈس لیا ہے آواز درد کے مارے کانپ رہی تھی لیکن اس میں شکایت نہیں تھی۔ مایوسی نہیں تھی حضور ﷺ نے فوراً اپنا لعابِ مبارک اس جگہ لگا دیا جہاں سیاہ ناگ نے ڈس لیا تھا اور فوراً زہر کا اثر کافور ہو گیا ۔ یہ اس ہستی ﷺکے لعابِ دہن کا خدا داد اعجاز تھا جس کے منہ سے وحی کے پُھول جھڑتے اور پیغام خداوندی کے انوار ٹپکتے تھے۔
جسمانی آزمائش کے ایمان افروز خاتمے پر ابھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رُوح سجدۂ شکر ہی میں پڑی تھی کہ غار کے دہانے پر ایک اس سے بھی بڑی ایمانی آزمائش کی جھلک نظر آنے لگی ، انھوں نے دیکھا کہ حضور ﷺکے جانی دشمن غار کے کنارے تک آپہنچے ہیں۔ سانپ کے پھن مارنے کے بعد بھی جو انسان اپنی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مُسکرا سکتا ہو وہ خدا کے رسول ﷺ کو خطرے کی زد میں کر اس بے چارگی کے احساس سے نیم جاں ہو گیا کہ اِس خطرے کو میری جان کی قربانی بھی نہیں ٹال سکتی۔ انھوں نے انتہائی تشویشناک نظریں حضور ﷺ کی طرف اُٹھائیں اور غار کے دہانے پر نظر آنے والے قدموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی کی "اب ....... کیا ہوگا ...... اے خدا کے رسول( ﷺ) ؟ یہ لوگ اگر ذرا جُھک کر دیکھیں گے تو ہم صاف نظر آج ائیں گے ۔"
کتنی حسین تھی وہ "بے خوفی “ جو خدا اور خدا کے رسول ﷺ کے قدموں پر جان ومال اور اہل وعیال کو قربان کر دینے کے جذبۂ بے اختیار نے اس انسان کے چہرے پر ایمان کا نور بنا کر پھیلا دی تھی اور کیا شان دار تھا وہ "خوف" جو خدا کے رسول ﷺ کی جان کو بے پناہ خطرے میں دیکھ کر اس کے خون کی گردش اور دل کی دھڑکنوں کو نڈھال کیے دے رہا تھا ۔ لیکن ٹھیک اس وقت جب ابو بکر رضی اللہ عنہ جیسے بندۂ مومن کی نظر انسانی بے چارگی کی طرف گئی تھی خدا کا رسول ﷺ صرف خدا اور خدا کی قدرت کی طرف آنکھیں اُٹھائے ہوئے تھا ۔ حضور ﷺنے بھی اس خطرے کو دیکھا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے الفاظ سُنے حضور ﷺ بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ جو خطرہ سر پر آگیا ہے وہ غار میں داخل ہو جائے تو اس بند غار میں نہ مقابلے کا موقع ہے اور نہ فرار کی کوئی راہ لیکن انھیں یقین تھا کہ میں اس وقت بھی قادرِ مطلق کے سایۂ رحمت میں ہوں جس کی مٹّھی میں ساری کائنات ایک ذرۂ بے مقدار سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی ۔
"فکرمت کرو!" حضور ﷺ نے نہایت سكون واستقلال سے تسلّی دی "فکر مت کرو!
خدا ہمارے ساتھ ہے-"
(جاری)
----------***--------
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

کچھ رفعت سروش کے بارے میں

معصوم مرادآبادی

آج مشہور ترقی پسند شاعر، ادیب اور براڈ کاسٹر رفعت سروش کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے30 نومبر 2008 کو دہلی میں وفات پائی۔جن لوگوں کو ریڈیو کے عروج کا زمانہ یاد ہے، ان کے لیے رفعت سروش کا نام نیا نہیں ہے۔یوں تو وہ ایک زود نویس ادیب،شاعر اور ڈرامہ نگارتھے، لیکن ان کی سب سے مضبوط شناخت ایک براڈ کاسٹر کی ہے۔انھوں نے برسوں ریڈیو کے شائقین کو ضیافت طبع کا سامان فراہم کیا۔ ایک زمانے میں ان کی آواز ریڈیو کی شناخت بن گئی تھی۔ یہ شنا خت انھیں آل انڈیا ریڈیو کے مشہورزمانہ پروگرام’اردو مجلس‘نے دی، جو ہرروز شام کو پونے آٹھ بجے اپنی مخصوص موسیقی کے ساتھ شروع ہوتا تھا۔ اس پروگرام کی دھن ہی مقبول نہیں تھی بلکہ اسے پیش کرنے کارفعت سروش کا اندازبھی نرالا تھا۔
رفعت سروش کو شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی پر عبور حاصل تھا۔ ان کی زود نویسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اردوشعر و ادب کو 87کتابیں دیں جبکہ 84سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ شاعری، افسانہ، تنقید، ڈرامہ اور تاریخ جیسے موضوعات پر ان کی کتابیں آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ان میں ’جہان رقص ونغمہ‘(مجموعہ کلام)’پتہ پتہ بوٹا‘(آپ بیتی)’شعور آگہی (منظوم ڈرامے)’پانی پت (اشاعت1997)’قلم کے صفیر‘(1990)‘حرف حرف بمبئی‘(2008)’ڈگر پنگھٹ کی‘(1991)’آنسوؤں کے چراغ‘(2008)’بمبئی کی بز م آرائیاں‘(1986)’شاخ گل‘ان کی معروف کتابیں ہیں۔ ا ن کے علاوہ ان کی ادبی خدمات پر جوکتابیں شائع ہوئی ہیں، ان میں ڈاکٹر رضیہ حامد کے معروف جریدے ”فکر وآگہی“ کے دو خصوصی شماروں کے علاوہ ساہتیہ اکیڈمی نے ان کا ایک مونوگراف بھی شائع کیا ہے جو مرحومہ ڈاکٹر وسیم بیگم نے مرتب کیا تھا۔رفعت سروش پر شائع ہونے والی دیگر کتابوں میں محمدسالم کی ”بہارنوبہار: رفعت سروش“۔ ڈاکٹر عطیہ سلطان کی ”رفعت سروش“ شامل ہیں۔ایک کتاب ان کی بیٹی ڈاکٹر شبانہ نذیر نے ترتیب دی ہے جس کانام ہے ”نذررفعت سروش“۔ ڈاکٹر شبانہ نذیر اردو کی معروف شاعرہ ہیں اور آج کل دہلی اردواکادمی کی گورننگ کونسل کی سرکردہ ممبر ہیں۔
رفعت سروش کی علمی اور ادبی فتوحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ہمہ جہت فنکار تھے، لیکن افسوس کہ ان کے شعری اور فنی محاسن پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ صحیح معنوں میں مستحق تھے۔رفعت سروش شاعر، سوانح نگار، انشائیہ نگار، ادیب وصحافی اور سب سے بڑھ کر ایک معروف ڈرامہ نگار تھے۔خصوصاً انھوں نے ”اوپیرا“ کو جس بلندی پر پہنچایا وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ان کی نثر انتہائی سادہ اور شگفتہ ہے۔ تین حصوں پر مشتمل انھوں نے اپنی سوانح عمری میں زندگی کے نشیب وفراز کی پوری داستان سپرد قلم کی ہے۔
رفعت سروش کا اصل نام سید شوکت علی تھا اوران کی ولادت2 جنوری 1926کو ضلع بجنور کے نگینہ میں ہوئی تھی۔ وہی بجنور جہاں سجادحیدر یلدرم، عبدالرحمن بجنور ی اور اخترالایمان جیسے مایہ ناز ادیب اور شاعر پیدا ہوئے۔ان کا تعلق نگینہ کے سید خاندان سے تھا۔ ان کے والد کا نام سیدمحمدعلی اور والدہ کا کنیز فاطمہ تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم نگینہ اور موانہ (میرٹھ)میں ہوئی۔ موانہ سے انھوں نے 1935میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ بمبئی چلے گئے اور وہاں ہندی ودیا پیٹھ سے ’بھاشا رتن‘کا امتحان پاس کیا، جو بی اے کے مساوی تھا۔1945 میں انھوں نے اپنے کیریر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو بمبئی سے کیا اور وہاں اپنے دور کے عظیم ادیبوں اور شاعروں کی صحبت اٹھائی۔ اس کا تذکرہ دلچسپ انداز میں انھوں نے اپنی کتاب ”بمبئی کی بزم آرائیاں“ میں کیا ہے۔ وہ 13سال آل انڈیا ریڈیو بمبئی سے وابستہ رہنے کے بعد دہلی آگئے اور یہاں 26 سال ریڈیو میں ملازمت کی۔میں نے 1982میں جب آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’آواز‘ سے اپنا کیریر شروع کیا تو انھیں اردو مجلس میں کام کرتے ہوئے دیکھا۔وہ مجموعی طورپر 39برس آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہ کر31جنوری 1984کو سبکدوش ہوئے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ”وادی گل“ 1963میں منظرعام پرآیاجبکہ دوسرا مجموعہ ”ذکر اس پری وش“ کا 1966میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کی زندگی میں بڑاسانحہ 15/دسمبر1987 کو پیش آیا جب ان کی اہلیہ صبیحہ سروش کا انتقال ہوا۔یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا غم تھا۔ باقی ماندہ زندگی انھوں نے اسی غم کے سہارے گزاری۔30نومبر 2008کو ان کی وفات ہوئی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: مبلغ دیوبند مولانا ارشاد احمد فیض آبادی*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

بنگلور سے ہمارے مولانا خلیل الرحمن قاسمی برنی صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے ایک قابل فخر سپوت حضرت مولانا ارشاد احمد مبلغ دیوبند کا تذکرہ چھیڑا ہے، آج کی نسل تو مولانا کو بھول سی گئی ہے، لیکن جب آپ زندہ تھے تو آپ کا توتی چار سو بولتا تھا، آپ کے مناظروں کی بڑی دھوم تھی،اورآپ کے مخالفین کو دئے جانے والے دندان شکن دلائل کا ایک دبدبہ تھا، لیکن جیسا کہ ہماری تاریخ میں دوسرے عظیم المرتبت مناظرین کے ساتھ جو سلوک ہوا کہ ان کی بیانات ومناظرے فضاؤوں میں گھل جاتے ہیں، اور پھر صرف ان کا نام رہ جاتا ہے، آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا، آپ کے مجلسیں، آپ کے علمی نکات جو مخالفین کی زبانین گنگ کردیتے تھے، وہ لوگوں کو یاد بھی نہ رہے۔ اور انہیں دیکھنے والوں کی زبانی یاد کرنے کے لئے آپ کا صرف نام رہ گیا۔
1954ء میں بھٹکل کے ایک تاجر جناب محمد اسماعیل کوبٹے مرحوم نے جو حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کے زبردست عقیدت مند تھے،اور ہبلی (کرناٹک) میں ایک ہوٹل چلاتے تھے، یہاں پر اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے اور جہالت وبدعات کو ختم کرنے کے لئے ادارہ انجمن درس قرآن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا، اور حضرت حکیم الاسلامؒ سے رابطہ کرکے یہاں پر دیوبند کے ایک ترجمان عالم دین کی ضرورت سے آگاہ کیا تھا، جس پر آپ دیوبند سے مولانا ارشاد احمد کےچھوٹے بھائی مولانا ریاض احمد فیض آبادی کو اپنے ساتھ ہبلی لے آئے تھے، اس وقت ہبلی میں مسلم قبرستان میں قادیانیوں کی تدفین کا مسئلہ زور وشور سے اٹھا تھا، جس کے خلاف ریاض احمد صاحب نے محاذ قائم کرکے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا، اس وقت ہبلی میں آپ کی طرف منسوب ریاض العلوم در اصل اسماعیل کوبٹے صاحب کے قائم کردہ ادارہ انجمن درس قرآن ہی ہے ، جس نام بدل دیا گیا ہے، بعد میں مولانا ریاض احمد کے بھائی اعجاز احمد بھی ازہر سے پڑھ کر یہاں آگئے تھے۔
یہیں سے مولانا ارشاد احمد کی ہبلی اور کرناٹک کے اس علاقے میں آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا بھٹکل تک دراز ہوا۔
حکیم عزیز الرحمن اعظمی مرحوم (بانی طبیہ کالج دیوبند) فرمایا کرتے تھے کہ آزادی ہند سے کچھ قبل تقسیم ہند کے ہنگامے اور اس وقت کے جذباتی ماحول میں جب حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی علیہ الرحمۃ نے دارالعلوم کی سرپرستی سے استعفا دے دیا ، تو اس سیاسی ماحول میں دیوبند سے تھانہ بھون طلبہ و مدرسین کی مختلف اسباب سے آمد و رفت کچھ کم ہوگئی، اس طرح آپ سے بیعت وارشاد کا وہ تعلق بھی نہ رہا،حضرت حکیم الامتؒ کی وفات اور تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد حکیم صاحب کا تعلق حضرت مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری خلیفہ حضرت حکیم الامت علیہ الرحمۃ سے ہوگیا، تو اچانک ایک روز حضرت نے حکیم صاحب کو بلا کر اپنی خلافت سے نوازا، اس وقت حکیم صاحب نے حیرانی سے آپ سے کہا کہ میں تو ایک ہنسوڑ قسم کا غیر سنجیدہ سا آدمی ہوں، مجھے بیعت وخلافت سے کیا کام؟۔ تو حضرت مصلح الامت علیہ الرحمۃ نے جواب دیا کہ اللہ تعالی آپ سے بڑا کام لے گا، اور واقعتاً اللہ تعالی نے مجھ سے بہت بڑا کام لیا، کیونکہ حضرت تھانویؒ کے ساتھ تعلق کو ازسر نو مضبوط کرنے اور اسے جوڑنے کا میں ذریعہ بن گیا، اس واقعے کے بعد ہی حضرت شاہ کے استاد علامہ ابراہیم بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نے اپنے اس شاگرد سے بیعت وارشاد کا تعلق قائم کیا تھا ، اسی طرح حضرت مولانا معراج الحق رحمۃ اللہ علیہ سابق نائب مہتمم ، اور مبلغ دیوبند مولانا ارشاد احمد علیہم الرحمۃ وغیرہ نے بھی آپ سے بیعت وارشاد کا تعلق قائم کیا۔اور یہ سنہری سلسلہ پھر سے چل پڑا۔ حکیم صاحب بتاتے تھے کہ پھر ایسا بھی ہوا کہ اصلاح کی غرض سے مولانا ارشاد احمد جیسی عظیم شخصیت حضرت مصلح الامتؒ کی مجلس میں آتی تھی، تو حاضرین مجلس کی جوتیاں سیدھی کرتی نظر آتی تھی۔
مولانا ارشاد احمد علیہ الرحمۃ کا بھٹکل کے ساتھ بھی خاص تعلق تھا، ایک تو اسماعیل صاحب انہیں اور ان کے بھائیوں کو اس علاقے میں لانے کا ذریعہ بنے تھے، دوسرے حضرت ڈاکٹر علی ملپا صاحب جنہوں نے حضرت حکیم الامت علیہ الرحمۃ کے خلفاء میں سے یکے بعد دیگرے مولانا عیسی الہ آبادی (ف ۱۹۴۴ء) حاجی حقداد خان لکھنوی (ف ۱۹۵۰) علامہ سید سلیمان ندوی (ف ۱۹۵۳ء) سے اصلاحی تعلق قائم کرنے کے بعد علامہ ہی کے مشورے سے مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری (ف ۱۹۶۷ء) سے مربوط ہوئے تھے، مولانا ارشاد احمد فیض آبادیؒ کے حضرت مصلح الامت علیہ الرحمۃ سے تعلق آپ سے بھی خاص تعلق کا سبب بنا۔اور جب ۱۹۶۲ء میں بھٹکل میں جامعہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا تو بانی جامعہ ڈاکٹر ملپا صاحب نے اس کے آغاز اور بسم اللہ خوانی کے لئے آپ کو دعوت دی تھی، جس کی دلچسپ روداد ہم استاد

Читать полностью…

علم و کتاب

*دارالعلوم دیوبند کےمبلغ اعظم*
حضرت مولانا سید ارشاد احمد صاحب رحمہ اللہ

*خلیل الرحمن قاسمی برنی* 9611021347

/channel/ilmokitab

میری عمر پانچ یا چھ برس کی تھی ، اس وقت والد محترم حضرت مولانا قاری شفیق الرحمن صاحب بلند شہری دارالعلوم دیوبند میں معین المدرسین تھے ۔میں نے بارہا دیکھا کہ: والد محترم ظہر کی نماز کے بعد ایک بہت ہی وجیہ و شکیل بزرگ کا ہاتھ تھامے مسجد سے احاطہء مولسری میں آتے اور مولسری کے کنویں کے بازو میں واقع، ان کے حجرے میں لے جاتے۔ پھر جب تعلیمی گھنٹہ بجتا، تو والد محترم درسگاہ تشریف لے آتے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بزرگ حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب قدس سرہ ہیں، جو دارالعلوم دیوبند کے عظیم المرتبت اور قابل احترام مبلغ تھے اور حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمہ اللہ کے خلیفہ و مجاز تھے ۔

والد محترم روزانہ ظہر کے بعد ان کے لیے چائے بناتے، انہیں پلاتے اور پھر درسگاہ آتے، میری نگاہوں میں اب تک ان کی بزرگانہ تصویر ،خوبصورت شکل، وجاہت سے بھرپور اور بارعب چہرہ ،سرخ و سفید رنگت اور والد محترم کے ساتھ مسجد سے حجرے تک آنے کا پورا نقشہ محفوظ ہے۔

والد محترم ہی کی زبانی ان کے بہت سے کمالات سنے تھے ،مگر چونکہ شعور کا زمانہ نہیں تھا، اس لیے وہ سب کچھ نہ سننے کی طرح ہی رہا۔بعد میں جب شعور کا زمانہ آیا اور عمر کے لحاظ سے ہم بڑے ہوئے،تو ان کی خدمات کا وسیع سمندر سامنے آیا۔سمجھ میں آیا کہ:وہ بہت عظیم اور صاحب حال و قال عالم ربانی تھے۔ بہت سی خوبیوں میں ان کی اپنی ہی شان تھی۔ اعلی درجے کے مناظر،بے باک خطیب،محققانہ تقریر اور یگانہ طرز استدلال میں ماہرولاثانی تھے۔ انہوں نے ملک کے دور دراز مقامات میں جا کر مسلک حق کی ترجمانی کا فریضہ جس طرح کی مشقتوں اور مجاہدوں کے ساتھ انجام دیا، وہ بس انہی کا حصہ تھا۔ احقاق حق اور رد بدعت میں ان کی لازوال قربانیاں بہت کثیر اور ناقابل فراموش ہیں۔ یہ محنت بھرا کام اور دعوت و اصلاح کا مبارک فریضہ، انہوں نے اس کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا کہ، بہت سی جگہ بدعات نے دم توڑ دیا، خرافات نے جنم لینا چھوڑ دیا، اور باطل رسومات کے بیخ بن جڑ سے اکھڑ گئے ۔

حضرت مولانا قدس سرہ کی خدمات کے روشن نقوش ملک کے چپے چپے پر ثبت ہیں۔وسط ہند اور جنوب ہند کے شہروں میں آپ کی مستحکم خدمات کے اثرات زیادہ نظر آتے ہیں۔ آج بھی بنگلور میں گاہے بگاہے ایسے کئی عمر دراز حضرات مل جاتے ہیں جو حضرت کی تقریروں کو یاد کر کے ان کی مصلحانہ و مخلصانہ کوششوں کو سراہتے ہیں۔ کئی ایسے حضرات بھی ملے ،جنہوں نے اعتراف کیا کہ بدعات سے توبہ کی توفیق حضرت ہی کی تقریر سن کر ہوئی ہے۔

*رد فرق باطلہ*

حضرت مولانا قدس سرہ کا،زیادہ تر کام باطل فرقوں کے رد اور ان کے تعاقب کے سلسلے میں متعارف ہے، لیکن خاص طور پر انہوں نے جس فرقے کو اپنے رد کا خاص ہدف بنایا، وہ فرقہء اہل بدعت ہے۔آپ نے اس فرقے کا پوری مضبوطی کے ساتھ تعاقب کیا اور اس کے رد میں ایسی محنت کی کہ اس فتنے کے تار و پود کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ رد بدعت، رد رضا خانیت میں آپ کو ملکہ تامہ حاصل تھا ۔اس معاملے میں آپ کے یہاں کسی مصلحت اور رعایت کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ مضبوط و قوی استدلال ،گرجدار آواز اور موثر اسلوب کے ساتھ، جب آپ مسلک حق کی تائید وترجمانی اور باطل کی تردید پر تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوتے تو بڑے سے بڑا اہل باطل کا گرو آپ کے سامنے ڈھیر ہو جاتا کئی بڑے اہل باطل کے ترجمان آپ کے سامنے سرنگوں ہوئے اور انہوں نے شکست فاش تسلیم کی۔ آپ کے دلائل کے سامنے اہل باطل ٹھہر نہیں سکتے تھے۔خدا نے آپ کے ذریعے سے ملک کے بہت سے خطوں میں حق کا بول بالا کیا۔برائیاں ختم ہوئیں اور عقیدوں کی اصلاح ہوئی۔

*نماز باجماعت پر مثالی مواظبت*

حضرت مولانا رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے انتہائی باوقار ،بافیض، جید الاستعداد قابل اور صاحب علم و کمال مبلغ تھے۔ دعوت و تبلیغ اور مسلک حق کی ترجمانی کے لیے آپ زیادہ تر سفر میں رہتے،اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے زندگی کا بیشتر حصہ تبلیغی اسفار میں ہی گزارا ہے، تو غلط نہ ہوگا ۔

حیرت ہوتی ہے کہ آپ اس قدر اسفار میں بھی نماز باجماعت کا مکمل اہتمام فرماتے اور اس سلسلے میں آپ کا کردار مثالی اور قابل رشک تھا۔آپ سفر کا نظام اس طرح سے بناتے کہ مسجد کی جماعت چھوٹنے نہ پائے ۔ قابو کی سواری میں تو جماعت چھوٹنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اس سلسلے میں آپ کو سفر میں اگر تاخیر کا بھی سامنے ہوتا تو برداشت کرتے۔

سفر میں آپ کا یہ اہتمام جماعت ،بعض رفقاء کو گراں بھی گزرتا تھا، مگر آپ اس کی پرواہ نہ کرتے۔

صوبہ کرناٹک کے شہر ہبلی میں آپ کے ایک بھتیجے ہیں،حضرت مولانا احمد سراج صاحب مدظلہ، جو ایک بافیض عالم دین ہیں ۔انہوں نے ایک موقع پر مجھ سے کہا تھا کہ مولانا ارشاد احمد صاحب رحمہ اللہ کی سب سے بڑی خوبی مسجد میں نماز باجماعت کی پابندی اور اس پر حیرت ناک مواظبت تھی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

امام المحدثین مولانا وصی احمد محدث سورتی کا یہ تذکرہ ایک جامع اور مستند تذکرہ ہے جس کے تمام پہلوؤں کا بہت خوبی کے ساتھ خواجہ صاحب نے احاطہ کیا ہے۔ اس میں محدث سورتی کے خاندانی حالات، تعلیم، بیعت و خلافت، تدریس، خدمات، اسفار، معمولات اور وصال کا تفصیلی بیان بھی ہے اور آپ کی اولاد و امجاد، براردِ خورد، تلامذہ، معاصرین اور تصانیف کا تذکرہ بھی۔ اس ضمن میں کئی ایسی شخصیات کے بھی تفصیلی حالات اس کتاب میں ملتے ہیں جن کے بارے میں دیگر ماخذ میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل

Читать полностью…

علم و کتاب

’سرائے کی موری‘

معصوم مرادآبادی

/channel/ilmokitab

نام اس کا کس نے رکھا تھا، یہ توہمیں نہیں معلوم مگر محلے والے اسے ”سرائے کی موری“ ہی کہا کرتے تھے۔ شاید اپنی تنگ دامانی کی وجہ سے اس کا نام موری رکھاگیا ہو، لیکن وہ نکلتی تھی سرائے میں، اس لیے سب اسے اسی نام سے جانتے تھے۔خوبی اس کی یہ تھی کہ یہ ہرمحلہ والے کی ضرورت تھی اور آج بھی ہے، کیونکہ مرادآباد میں ہمارے محلہ کٹار شہید میں چاند والی مسجد کے پیچھے سے دوسرے محلوں میں جانے کا یہ سب سے مختصر راستہ تھا،جو سرائے پختہ سے گزر کر سنبھلی گیٹ، منڈی چوک، امروہہ گیٹ اور کٹرے سے ہوتا ہوا نہ جانے کہاں کہاں جاتا تھا۔یہ ایک بہت مختصر گلی تھی جس میں ایک پرانی چوکھٹ بھی لگی ہوئی تھی، جو کثرت استعمال سے اپنی اصل سے محروم ہوچکی تھی۔ابّو جب بھی مہینہ بھر کے سامان کی خریداری کرنے کٹرہ یا بانس منڈی جاتے تو میں ان کی انگلی پکڑ کر اسی سرائے کی موری میں ہوتا ہوا جاتا تھا اور اسے بڑی حیرت کی نظروں سے دیکھتا تھا۔یوں تو سرائے پختہ میں داخل ہونے کے تین بلند دروازے تھے، جن میں ایک محلہ کھوکران کی طرف، دوسرا سنبھلی گیٹ کی طرف اور تیسرا داداوالی مسجد کی طرف نکلتا تھا۔ ان بلند دروازوں کے مقابلے موری کا راستہ بہت چھوٹا تھا اور اس میں سائیکل سمیت داخل ہونا مشکل تھا۔ سرائے دراصل پرانے زمانے میں مسافروں کے ٹھہرنے کا ایک ٹھکانہ تھا جس کا اصل نام سرائے پختہ تھا، لیکن مجھے اپنے بچپن میں یہاں کوئی پختگی نظر نہیں آئی۔اس قسم کی سرائیں ہرشہر میں ہوتی تھیں جہاں مسافر قیام کرتے تھے۔ بعد میں ان سراؤں نے مسافرخانوں کی شکل اختیار کی اور اس کے بعد گیسٹ ہاوسوں یا ہوٹلوں میں بدل کر بے نام ونشان ہوگئیں۔ مگر نام ابھی تک ان کے وہی پرانے چلے آتے ہیں۔ہماری اس پختہ سرائے کا تو معاملہ یہ ہے کہ یہاں ایک بار اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا اسداللہ خاں غالب نے بھی قیام کیا اور یہاں سے بیمار ہوکر نکلے۔
یوں تو پہلی بار غالب 1860 میں مرادآباد آئے تھے۔ منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ان کے ایک مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ غالب 19/جنوری 1860کو دہلی سے رامپور کے لیے روانہ ہوئے۔21جنوری کو میرٹھ میں قیام کے بعد پچیس وچھبیس جنوری کو مرادآباد میں رہے اور اس کے بعد یہاں سے رامپور گئے۔ رامپور سے واپسی پر انھوں نے پھر مرادآباد کا رخ کیا اور یہاں سرسید کے مہمان رہے جو اس زمانے میں مرادآباد میں صدرالصدور تھے۔دوسری بار غالب 7 اکتوبر 1865کو دہلی سے روانہ ہوئے اور غازی آباد، بابو گڑھ اور ہاپوڑ ہوتے ہوئے مرادآباد پہنچے اور یہاں پانچ دن مقیم رہے۔مرادآباد سے 12/اکتوبر 1885کو رامپور گئے اور وہاں دوماہ قیام کرنے کے بعد 28/دسمبر 1865کو پالکی میں سوار ہوکر رامپور سے روانہ ہوئے۔ شدید بارش کی وجہ سے دریائے رام گنگا طغیانی پر تھا۔ غالب کی پالکی جب کشتیوں کے بنے عارضی پل کو پارکرچکی تو پل ٹوٹ گیا، نتیجتاً ان کا مال واسباب اور زاد راہ پیچھے رہ گیا۔ مرزا غالب کو مجبوراً بغیرکچھ کھائے پئے اوربغیر بستر کے مرادآباد کی اسی سرائے (سرائے پختہ) میں رات گزارنا پڑی۔ اس وقت غالب کی عمر70برس تھی، لہٰذا کمزوری کی وجہ سے سردی کی تاب نہ لاسکے اور بیمار پڑگئے۔
بات ہورہی تھی’سرائے کی موری‘ کی اور وہ دراز ہوگئی مرزا غالب تک۔ بتانے کامقصد یہ تھا کہ شاید یہ ہمارے شہر مرادآباد کی سب سے مختصر اور تنگ وتاریک گلی تھی جو آج بھی اسی حالت میں جوں کی توں موجود ہے۔اس کی تنگی کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی مرد دوسری طرف سے آرہا ہوتا تو خواتین اس کے پار ہوجانے کا انتظار کرتیں اور اگر کوئی خاتون دوسری طرف سے آرہی ہوتی تو مرد وہیں رک کراس کے گزرنے کا انتظار کرتے۔ ہم جیسے کمسن بچے توراہ گیروں کی ٹانگوں سے ہوتے ہوئے بہت جلدی میں اس موری کو پار کرلیا کرتے تھے۔ بہت بعد میں جب ہم نے ادب کا مطالعہ شروع کیا اور ہماری رسائی اپنے عہد کے سب سے بڑے نثرنگار مشتاق احمدیوسفی کی شگفتہ تحریروں تک ہوئی تو یہ پڑھ کر دنگ رہ گئے کہ ”لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ ان میں اگر ایک طرف سے مرداور دوسری طرف سے عورت داخل ہوجائے تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش باقی رہتی ہے۔“ سچ پوچھئے مشتاق احمد یوسفی کا یہ بلیغ جملہ پڑھ کر ہمیں اپنا بچپن یاد آیا اور اس کے ساتھ یاد آئی سرائے کی موری بھی۔ لڑکپن میں جب ہم نے اپنے وطن مرادآباد کو خیرباد کہا تو ذرا بھی یقین نہیں تھا کہ میروغالب کے اس شہر دہلی میں ہمیں سرائے کی موری سے زیادہ تنگ وتاریک گلیوں سے واسطہ پڑے گا۔ ہمارا اوّلین ٹھکانہ شاہجہانی جامع مسجد کا علاقہ تھا جس کے اردگرد ایسی ہی گلیوں کا ایک جال سا بچھا ہواہے ۔ ان گلیوں میں داخل ہونا اوران سے صحیح سلامت باہر نکلنا آج بھی بڑی ہمت کا کام ہے۔یہ پرانی دہلی والوں کا ہی جگرا ہے کہ وہ ان تاریک گلی کوچوں میں صحیح سلامت ہیں۔ بیشتر پرانے شہروں میں ایسی ہی گلیوں کا جال بچھا ہوا ہے، لیکن ہماری سرائے کی موری کی بات ہی کچھ اور ہے کہ

Читать полностью…

علم و کتاب

اس شرانگیز مہم کا دروازہ کھولاہے۔“ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جسٹس چندرچوڑ کے جس بیان کو نظیر بنایا جارہا ہے وہ کوئی عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ محض زبانی تبصرہ تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں عبادت گاہ تحفظ ایکٹ سے متعلق کئی عرضیاں التوامیں ہیں۔2022میں جسٹس یو یوللت کی بنچ نے اس معاملے میں مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا، جواسے ابھی تک نہیں ملا ہے۔حکومت کی پراسرار خاموشی اور نچلی عدالتوں کی ضرورت سے بڑھی ہوئی سرگرمی سے ملک کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ عبوری حکم جاری کرنے کی بجائے نچلی عدالتوں کو ایسے معاملوں سے نمٹنے کے لیے واضح ہدایات جاری کرے، ورنہ یونہی ملک میں انتشار پھیلتا رہے گا۔
اس معاملے میں ذیلی عدالتیں کتنی عجلت میں ہیں اس کا اندازہ سنبھل کی جامع مسجد کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جہاں فریق مخالف کو سنے بغیر عدالت نے شاہی جامع مسجد کے سروے کا یک طرفہ حکم دے دیا۔ 19 نومبر کو سول جج (سینئر ڈویژن)آدتیہ سنگھ کی عدالت میں صبح گیارہ بجے ایک مقدمہ دائر ہوتا ہے۔ دوپہر ایک بجے سماعت ہوتی ہے اور شام چاربجے کورٹ کمشنر کا تقرر بھی ہوجاتا ہے۔شام چھ بجے کورٹ کمشنر کی سربراہی میں سروے ٹیم جامع مسجد پہنچ جاتی ہے۔ شام ساڑھے سات بجے سروے کاکام کا مکمل ہوجاتا ہے۔ مسجد کے نمازی اور انتظامیہ کمیٹی عدالت کے حکم کا احترام کرتے ہوئے کوئی مزاحمت نہیں کرتے۔اتوار 24/نومبر کی صبح سات بجے جبکہ نمازی فجر اور اشراق سے فارغ ہورہے تھے تو سروے ٹیم دوبارہ وہاں پہنچ جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ وہ اکیلے نہیں پہنچتی بلکہ اس کے ساتھ شرپسندوں کا ایک ہجوم ہے جو’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگارہا ہے۔
سروے ٹیم کی پیش قدمی کی ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سروے کرنے نہیں بلکہ مسجد کو فتح کرکے وہاں ہری ہر مندر بنانے کے لیے آئے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جوپولیس احتجاجی مسلمانوں پر گولیاں چلاتی ہے، وہ سروے ٹیم کے ساتھ چل رہے شرپسندوں کو پورا تحفظ فراہم کرتی ہے۔اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ پولیس کی نیت وہاں امن قایم کرنے کی نہیں بلکہ شرپسندوں کے عزائم پورے کرنے کی تھی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ جن نوجوانوں کی موت ہوئی ہے، ان کے جسم میں دیسی کٹوں سے چلائی گئی گولیاں ملی ہیں۔جبکہ ایسی کئی ویڈیو ز موجو د ہیں، جن میں پولیس فائرنگ کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔جن پانچ مسلم نوجوانوں کی موت واقع ہوئی ہے، ان میں سے تین کے سینوں میں گولیاں لگی ہیں اور یہ کام پولیس کے علاوہ کسی اور کا نہیں ہے۔سنبھل کی جامع مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر ظفرعلی ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے پولیس کو گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا۔ ظفرعلی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ”اتوار کی صبح جوسروے ٹیم مسجد پہنچی تھی اس نے حوض خالی کرانے کے لیے کہا تھا، جس کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوئے۔ جب لوگوں کو پتہ چلاکہ حوض خالی کرایا جارہا ہے تو انھیں ایسا محسوس ہوا کہ سروے کے ساتھ مسجد کی کھدائی ہورہی ہے۔اسی وجہ سے ماحول خراب ہوا۔“
سنبھل کے واقعہ میں پولیس اور انتظامیہ کا کردار انتہائی مشکوک ہے اور اس کی اصلیت اسی وقت بے نقاب ہوگی جب اس معاملے کی غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیقات ہوگی، لیکن یوگی سرکار میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ جن لوگوں نے سنبھل کی جامع مسجد کے خلاف عدالت میں عرضی داخل کی تھی، ان میں یوپی سرکار کا ایک اسٹینڈنگ کونسل بھی شامل تھا، جو حکومت سے ماہانہ18 ہزار روپے کی تنخواہ لیتا ہے۔یہی وہ سچائی ہے جو سنبھل فساد میں سرکاری مشنری کی شمولیت کا پردہ چاک کرتی ہے۔ یوگی سرکار نے اس واقعہ کی عدالتی جانچ کے لیے ہائی کورٹ کے سابق جج دیویندر کمار اروڑہ کی قیادت میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جسے دوماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔البتہ مرکزی حکومت اس معاملہ میں قطعی خاموش ہے اور وہ پارلیمنٹ میں سنبھل معاملہ پر بحث سے دامن بچارہی۔فی الحال مودی سرکار کو اپنے ملک کی اقلیتوں سے زیادہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی اقلیت کی فکر ستارہی ہے۔اقلیت کسی بھی ملک کی ہو، وہ یکساں انصاف کی مستحق ہوتی ہے۔ اپنی اقلیت کے کرب کو نظرانداز کرکے پڑوسی ملک کی اقلیت کے حالات پر احتجاج کرنا کون سی ڈپلومیسی ہے، ہمیں نہیں معلوم۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في صفة شرب رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 219-214

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في صفة شرب رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 213-210

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

اشعار مرزا سودا۔۔۔ آواز/ محمد ضیاء محی الدین https://archive.org/download/2024-12-01-aashaar-mirza-sauda/2024-12-01%20Aashaar%20%20_%20Mirza%20Sauda%20_%20Zia%20Mohyeddin%20Ke%20Sath%20Aik%20Shaam%20Vol.11.mp4

Читать полностью…

علم و کتاب

مانگے کا اجالا
لائل پور کاٹن مل میں ملک گیر طرحی مشاعرہ ہوتا تھا۔ 1958ء میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھا،سجدہ گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں،مختلف شعراء کے بعد ساغر صدیقی نے اپنی یہ غزل سنائی،یہ غزل سن کر جگر جھوم اٹھے اور حاضرین محفل نے خوب داد دی ۔ جگر مرادآبادی نے اپنی باری آنے پر کہا کہ میری غزل کی ضرورت نہیں حاصل مشاعرہ غزل ہو چکی اور اپنی غزل کو اسیٹج پر ہی پھاڑ دیا

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

جی میں آتا ہے الٹ دیں ان کے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں

اب تو مدت سے رہ و رسم نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں

ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقام خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں

بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہ گزار عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں

ساغر صدیقی

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 246
انتخاب مطالعہ
تحریر: *علی سفیان آفاقی*


*ہے اپنی زبان میں مزہ کچھ اور*

فرانس والوں کی خوش گفتاری اپنی جگہ ؛ مگر یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی زبان کے سوا دوسری زبان بولنا کسر شان سمجھتے ہیں،خاص طور پر انگریزی سے تو انہیں کد ہے،اگر سننے والا فرانسیسی نہ جانتا ہو تو وہ ان کا منہ ہی دیکھتا رہ جائے گا،پلے کچھ نہیں پڑے گا،بعد میں ہم نے فرانس کے اور بھی سفر کیے اور وہاں آنے جانے والوں سے بھی تبادلۂ خیال ہوا ،سب کا یہی خیال ہے کہ :فرانس والے زبان اور کلچر کے معاملے میں بہت متعصب ہیں ،انگریزی تو جان بوجھ کر نہیں بولتے ،ان کی کوشش اور خواہش یہی ہوتی ہے کہ:ان کے ملک میں آنے والا ان کی زبان سے واقف ضرور ہو ؛ ورنہ اپنے رسک پر آئے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ:فرانس میں دنیا بھر سے سیاح بہت بڑی تعداد میں آتے ہیں اور ان کے لیے بہت بڑی کمائی کا ذریعہ بھی ہیں ؛ لیکن فرانس کے لوگ کاروباری مصلحت کے پیش نظر بھی انگریزی سیکھنا یا بولنا ضروری نہیں سمجہتے،اکثر یہ بھی دیکھا کہ ایک صاحب انگریزی جانتے ہیں ؛ مگر جان بوجھ کر فرانسیسی بول رہے ہیں اور جب آپ ان سے انگریزی میں مخاطب ہوتے ہیں تو شانے اچکا کر کہہ دیتے ہیں: ”میخسی“ فرانس کی سرزمین پر قدم رکہتے ہی یوں تو سر تا پا فرانسیسی زبان سے شرابور ہونا پڑتا ہے ؛ مگر سب سے زیادہ جس لفظ سے واسطہ پڑتا ہے وہ یہی ہے یعنی ”میخسی“ یہ در اصل انگریزی لفظ MERCY ہے،جو فرانسیسی میں بھی مستعمل ہے ؛ مگر یہ لوگ ”راء“ بھی بڑی مشکل سے بولتے ہیں ؛ اس لیے راء کی جگہ ”خا“ کی آواز نکلتی ہے ،چنانچہ مرسی تبدیل ہوکر میخسی ہوگیا ہے ،یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے یعنی انگریزی کے ”ایکسیکیوزمی“ کی جگہ بھی یہی، ”معاف کیجیے گا“ کی جگہ بھی یہی، ”سوری“ کی جگہ بھی یہی، ”مجھے نہیں معلوم “ کی جگہ بھی یہی، ”زحمت فرمائیے“ کی جگہ بھی یہی، غرضیکہ اس کے معنی بےشمار ہیں ،فرانس والے اس لفظ کو اتنی خوبصورتی سے ادا کرتے ہیں کہ جی خوش ہوجاتا ہے ۔

فارسی کی مانند فرانسیسی بھی میٹھی اور شائستہ زبان ہے اور جدید فارسی کی طرح اس زبان کی ادائگی اور لب و لہجہ بھی انتہائی شیریں اور ملائم ہے ،ہمارا تو یہ عالم تہا دو خواتین یا مرد آپس میں بحث کر رہے ہیں یا جھگڑ رہے ہیں اور ہم کھڑے سن رہے ہیں اور لطف اندوز ہورہے ہیں، عام طرر پر لوگ نرم اور دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہیں ،اکثر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سرگوشی میں راز و نیاز کر رہے ہیں ؛ مگر یہ ان کا مخصوص انداز ہے، کاروبار کی گفتگو بھی اسی انداز میں کی جاتی ہے۔

(*ذرا انگلستان تک، صفحہ: 59،طبع: مقبول اکیڈمی ،چوک انار کلی، لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B


/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*مذہبی تعلیم نہ جاننے کا نتیجہ*

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

ہندو بننے کے لیے کچھ جاننے کی ضرورت نہیں، لیکن مسلمان بننے کے لیے کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔ ہندومت ایک سلبی حقیقت ہے اور اسلام ایجابی، اگر ہندو، اپنی نسبت کچھ نہ جانے گا، تب بھی ہندو ہی رہے گا، لیکن اگر مسلمان، اپنی نسبت کچھ نہیں جانے گا تو وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ اس لیے مذہبی تعلیم کا فقدان، ہندو کی ہندویت میں خلل انداز نہیں، لیکن مسلمان ہونے میں خلل انداز ہوگا۔ حتیٰ کہ چند نسلوں کے بعد (خاکم بدہن) مسلمان نام کا مسلمان بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے:

"گر کردن است چارۂ مجنوں کنوں کنید"

شذراتِ سلیمانی/حصہ سوم/صفحہ: ۱۵۹/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اسلیے
اسلام کی ان شہزادیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خود مسلمانوں پر/ اور انکی ملی تنطیموں پر واجب ہے کہ ان کے لیے الگ اسکول اور کالجز کا معقول انتظام کیا جاۓ جہاں لڑکیاں عالمات اور صالحات بنائی جائیں جس کے لیے تین باتوں کا التزام کیا جاۓ، ١: ہوسٹل نہ ہو بلکہ تعلیمی اوقات سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھروں میں والدین کی نگرانی میں اُمورِ خانہ داری میں بھی ماہر بنیں،

٢: پڑھانے والی صرف استانیاں ہوں، مرد حضرات پردے کے باوجود بھی نہ پڑھائیں، کیوں کہ قرونِ اولیٰ اور وسطیٰ میں عورتوں کے مردوں کو پڑھانے کی نظیریں تو ملتی ہیں چنانچہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے صحابہ کو پڑھایا ہے مگر مردوں کے عورتوں کو پڑھانے کی نظیریں نایاب ہیں

٣: عالمات سے زیادہ صالحات بنانے کی فکر دامن گیر ہو،

3: ارتداد کا ایک اور بڑا سبب مخلوط ملازمتیں ہیں،
جیسا کہ پچھلی سطور میں بتایا گیا ہے کہ سب سے بڑا عیب جہالت ہے مگر اس عیب کو دور کرنے کے لیے اگر کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا چاہتا ہے تو وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے مخلوط سسٹم کے ذریعے ڈگریاں لیتاہے اور ایسی ڈگریاں عورتوں کے اندر یہی جذبہ پیدا کرتی ہیں کہ وہ بھی مردوں کی طرح دنیا جہان کے کاروبار میں اور ملازمتوں میں حصہ دار بنیں، مگر کوئی ٹھنڈے دل سے ذرا غور کرے کہ یہ کیسا فلسفہ ہے کہ عورت اپنے گھر کی چہار دیواری میں محفوظ رہ کر اُمورِ خانہ داری کو انجام دے تو دقیانوسیت اور وہی باہر نکل اجنبی مردوں کے لیے سروسز دے تو ایجوکیٹڈ اور تعلیم یافتہ کہلاۓ،
یاد رکھیے ! اسلام نے عورت ذات کے کاندھوں پر کمائی کا جُوا نہیں رکھا ، بلکہ عورت کے لیے کمائی کی ذمہ داری باپ پر، شوہر پر اور بیٹوں پر رکھی ہے،

4: انٹرنیٹ کا غلط استعمال؛
جب شیطان لعین نے اپنی کرتوت کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہوکر اپنے ارادۂ بد کا اظہار کیا تھا اور ("لأغوينهم أجمعين" میں ان سب کو گمراہ کروں گا)
کہا تھا، تاریخ گواہ ہے کہ انسان کو اسکے مقصدِ اصلی سے ہٹانے اور اسے گمراہ کرنے کے لیے یا تو آلاتِ لہو و لعب کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر فحاشی و عریانیت کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم میں سے کون ہے جو نہیں جانتا کہ آج انٹرنیٹ کی دنیا کی سیر کرنے والا نوجوان آلاتِ لہو و لعب اور فحاشی و عریانیت کی کن کن وادیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے إلا ماشاءالله، شیطان لعین کو اب سے پہلے انسانوں کو گمراہ کرنے کا اتنا بڑا ہتھیار کبھی ہاتھ نہیں لگا تھا جتنا کہ اس دور میں انٹرنیٹ کی شکل میں لگا ہے
اسلیے والدین پر/اساتذہ پر/ اور مربیین پر واجب ہے کہ اپنے ماتحتوں کی ہمہ وقتی اور ہمہ جہتی نگرانی ضرور کریں اسلیے کہ انٹرنیٹ کی بدولت ہی ناجائز دوستیاں اور تعلقات بناۓ جارہے ہیں جو کہ ارتداد کے دہانے تک جاتے ہیں ، لہذا اگر ارتداد سے بچنا ہے اور اپنی شہزادیوں کو بچانا ہے تو انکی اچھی تعلیم کے لیے اسلامی اسکولوں کا قیام کرنا ہوگا اور مخلوط تعلیمی سسٹم سے انکو دور رکھنا ہوگا اور انکو یہ یقین دلانا ہوگا کہ آپ اسلام کی غیرت مند شہزادی ہو، حیا اور پاکدامنی آپ کا اصلی زیور ہے، آپ کی حیا کی بدولت ہی ایک غیور معاشرہ تشکیل پاۓگا اور اگر خدانخواستہ دامنِ حیا ہاتھ سے جاتا رہا تو معاشرہ ناہنجار اور دین سے بیزار ہی رہےگا،

5 : کمزور مسلمان کی تعلیمی امداد؛

مسلمانوں کی زبوں حالی کا جتنا رونا رویا جاۓ کم ہے ،
آج کا مسلمان مالی اعتبار سے ، سماجی اعتبار سے اور سیاسی اعتبار سے بالکل نچلی سطح پر زندگی گزار رہا ہے اور مسلم کمیونٹی کی یہ کمزوریاں بھی فتنۂ ارتداد میں پڑجانے میں بہت زیادہ رول ادا کرتی ہیں ، اسلیے صاحبِ استطاعت مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ صدقہ و خیرات کے علاوہ کمزور مسلمانوں کی تعلیمی امداد بھی کریں، مثلاً کسی غریب بچے کی سال بھر کی تعلیم کا صرفہ اپنے ذمے اگر لے لیا کریں تاکہ غریب باپ کم از کم تعلیمی اخراجات سے بے فکر ہوکر اپنے بچّوں کے ایمان و یقین کی بقاء تسلسل کے ساتھ قائم رکھے اور پھر یہ تسلسل آگے بآسانی منتقل ہوسکے اور راہِ راست سے بھٹک جانے پر قدغن لگے وگرنہ کتنے ہی غریب بچے اپنی غربت کے مارے مدارس اور اسکولوں سے محض اسلیے اٹھا لیے جاتے ہیں تاکہ تلاشِ معاش میں غریب باپ کا ہاتھ بٹائیں اور پھر نتیجہ یہی ہوتا ہے جو آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کا فیصد بمشکل دو پرسنٹ ہی ہے، جسکا نقصان راقم الحروف نے بچشمِ خود یہاں تک دیکھا ہے کہ ہندوستان کے اسکولز اور کالجز چھوڑئیے اسلامی ممالک میں بھی انڈین اسکول کے ناموں سے چلنے والے اداروں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے مذہبی قصوں کو نصاب میں خوب جگہ ملی ہوئی ہے اور اسی فیصد مسلمان بچے ان کو پڑھتے ہیں اور غضب یہ ہے کہ ان کے والدین اس بے ایمانی سے خوب واقف بھی ہیں،

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کی اور ارتداد اور بے دینی کے جو بھی اسباب ہیں ان سب سے بچنے کی توفیق عطافرمائے (آمین)

Читать полностью…

علم و کتاب

مدرسہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ میں ماہرِ تجوید وقراءت سبعہ وعشرہ حضرت مولانا قاری رفیق احمد ملی صاحب دامت برکاتہم کی آمد اور قراءات عشرہ کے طلبہ کے درمیان متن شاطبیہ کا افتتاحی درس

/channel/ilmokitab

متن شاطبیہ جسے علامہ قاسم بن فِيْرُّه شاطبی رحمۃ اللہ علیہ (٥٣٨ - ٥٩٠ هـ) نے قراءات سبعہ میں مرتب فرمایا ہے ، اصحابِ علم وفن سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ یہ بہت ہی بابرکت ، عظیم الشان اور نہایت ہی عمدہ کتاب ہے ، جس میں اشعار کی شکل میں علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے قراءات سبعہ کے اصول وفروع کو بیان فرمایا ہے .

الحمدللہ مدرسہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر اہتمام قراءات عشرہ کی کلاس شروع کی گئی جو کہ بفضلہ تعالی جاری و ساری ہے ، ابتداءً استاذ گرامی حضرت مولانا قاری رفیق احمد ملی صاحب دامت برکاتہم کے ایماء پر اور انہی کے اختیار کردہ آسان طریقۂ تدریس کے مطابق درس کا یہ انداز اختیار کیا گیا کہ طلبہ کے سامنے ایسے ہی مباحث کو ذکر کیا جائے جو کہ آسان اور قابل فہم ہوں اور کچھ نوٹس وغیرہ کے ذریعے سے طلبہ کی قراءات عشرہ کی تعلیم شروع کی گئی ، لیکن جیسے جیسے طلباء کو اس فن سے مناسبت ہوتی گئی اور اس بات کو محسوس کیا گیا کہ اب باقاعدہ اس فن کی اہم کتابوں کی تدریس طلبہ کے درمیان ہونی چاہیے ، تو استاذ گرامی قدر حضرت مولانا قاری رفیق احمد ملی صاحب مدظلہ العالی کو 23 نومبر 2024ء بروز سنیچر بعد نماز عصر مسجد حاجی مرتضی رمضان حسن پورہ نورنگ کالونی میں مدعو کیا گیا اور آپ نے متن شاطبیہ کے ابتدائی اشعار کا درس دیا ، ہم حضرت قاری صاحب کے بھی ممنون و مشکور ہیں ، اسی طرح مدرسہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ناظم اعلی حضرت مولانا عقیل احمد ملی قاسمی صاحب دامت برکاتہم بھی شکریہ کہ مستحق ہیں کہ موصوف مسلسل دین وعلم کی خدمات میں مشغول رہتے ہیں ، اور قراءات عشرہ کلاس کے لیے ہمہ وقت ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ تمام ہی حضرات کو اپنی شایان شان اجر جزیل عطا فرمائے .

آخر میں اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ جس طرح اپنے فضل وکرم سے یہ سلسلہ شروع فرمایا ہے ہمیں اس کی تکمیل کرنے کی اور کما حقہ اس فن کی ہم سب کو قدر کرنے کی توفیق عنایت فرمائے.
آمین یا رب العالمین !

ابو اسامہ ملی
(خادم التدریس جامعہ دار القرآن والسنۃ ومدرسہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
٣۰/نومبر/۲۰۲٤ء
۲٧/جمادی الاولی/١٤٤٦ھ


https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا ہم مسلمان ہیں (٣٢) آہ ! ___ وہ دونوں ( دوسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی #Shams_Nawid_Usmani
غارِ ثور کے دہانے پر وہ دونوں اپنے اپنے اُونٹوں سے اُترے ۔ غار اپنی ہولناکیوں کے ساتھ منہ کھولے ہوئے تھا۔ لیکن وہ دونوں اس غار میں داخل ہونے والے تھے جن کو خوب یقین تھا کہ ہمارا خدا ہر جگہ ہے اور جہاں خدا ہے وہاں کوئی خوف نہیں ۔ خدا اور خدا کے رسول ﷺ پر جاں نثار کرنے والا بے تابانہ آگے بڑھا اور بے محابا غار میں کود پڑا ۔ اندر سے یہ والہا نہ آواز آرہی تھی ” میرے ماں باپ آپؐ پر صدقے ! ذرا ٹھہریے ! میں اس غار کو درست کر دوں !" فرطِ شوق میں اس نے جیب وگریباں کی دھجّیاں کرلیں ۔ ان دھجّیوں سے غار کے ایک ایک سُوراخ کو بند کیا اور جب خوب مطمئن ہو گیا کہ حضور ﷺ کی جانِ گرامی کو اب کسی اندرونی گزند کا اندیشہ نہیں تو محض خدا کے در کا بھکاری جسم پر دھجّیاں لگائے ہوئے دیدہ و دل میں خدا کی اس انمول امانت کو سمائے غار میں داخل ہوا۔
ذرا ٹھہریے کیا ہم جیب و داماں کی ان دھجیوں کی قیمت کا کوئی اندازہ لگا سکتے ہیں جو عقیدت اور جاں نثاری کے پیکر نے غار کے سوراخوں میں اس لیے بھردی تھیں کہ کوئی موذی جانور اس کے جان سے زیادہ عزیز آقا ﷺ کو ایذا نہ پہنچا سکے قیمت ! العظمته اللہ ۔ سورج کی ساری کرنیں مل کر بھی تو فقط ایک دھاگے کا مول نہیں بن سکیں گی ۔ آسمانوں کے تمام ستارے ، ساری کہکشائیں ، نورو ضیا کے سارے مخازن ایک پلڑے میں رکھ دو اور پھر غارِ ثور والے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دامن کی ایک دھجّی دوسرے پلڑے میں رکھو تو تم دیکھو گے کہ دوسرا پلڑا ہی جھکا ہوا ہے۔
یہی تھا وہ شخص جس کے بیوی بچّے ایک خوفناک آتشِ انتقام کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں گھرے ہوئے دُور مکّے میں پڑے تھے نہ صرف بیوی بچّے بلکہ اس کی عمر بھر کی پونجی جوالا مکھی کے دہانے پر ڈھیر تھی ، لیکن یہی تھا وہ شخص جس کے دل میں عین اس وقت بھی خدا اور خدا کے رسول ﷺ کے سوا کسی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ جب دنیا بھر کی قیمتی چیزیں اس کے دل کا دروازہ پیٹ رہی تھیں۔ جس کے زانو کو محبوبِ خدا ﷺ کا تکیہ بننے کی سعادت نصیب ہوئی تھی ۔ اللہ اللہ ۔ وہ خدا کی سب سے قیمتی امانت جو آج ساری دنیا سے چھین لی گئی تھی وہی ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دامن میں ڈال دی گئی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے زانو پر حضور ﷺ کی شکل میں خدا کی قدرت بے حجاب ہو گئی ہے _ بے اختیار ان کی رُوح پکاری "ہاں میں نے گواہی دی تھی کہ اے محمد ﷺ ! آپ یقینا خدا کے آخری رسول ﷺ ہیں اور اے غارِ ثور کی دیوارو سُن لو کہ ایک بار پھر یہی گواہی دینے کے لیے میرا دل تڑپ کر میرے ہونٹوں پر آگیا ہے ہاں خدا کی قسم ! میرے لیے خدا اور رسول ﷺ کی پناہ کافی ہے ____"
شہادتِ حق کی اِدھر یہ پکار اُٹھی اور اُدھر خد کی اٹل سنّت کے مطابق ایک زبر دست قربانی نے مُنہ کھولا غار کی چھلنی دیواروں میں جو ایک سُوراخ باقی رہ گیا تھا اسی کے اندر سے ایک سیاہ ناگ کا پھن نمودار ہوا ، لیکن جان لیوا خطرے کی صورت دیکھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا جذبۂ ایثار کچھ اور جاگ اُٹھا وہ جسم و جان جو تھکن سے چور اعصاب کے ساتھ رسُولِ خدا ﷺ کو راحت پہنچا کر خوشی اور کیف سے سردھن رہے تھے جسم و جاں کی قربانی کے لیے بے قرار ہو گئے ۔ یہ بات ان کے لیے موت سے زیادہ شاق تھی کہ رسولِ خدا ﷺ کی راحت میں فرق پڑ جائے۔ اس لیے ذرا سی حرکت کیے بغیر انھوں نے اپنے پاؤں سے اس خوفناک بل کا منہ بند کر دیا جس سے ناگ سر نکال رہا تھا۔ آزمائش کی ایمان افروز یاں تیز سے تیز تر ہوئیں ۔ سانپ نے زہر چکاں دانت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے تلوے میں گاڑ دیے اور سارے خون کو زہر کی کربناک لہروں میں بدل دیا لیکن محبّت اور فرض کے محاذ پر جو قدم پہاڑ کی طرح جم گیا تھا وہ ٹس سے مس کیسے ہوتا ۔ زہر کی آتشیں لہریں پورے جسم کو کانٹوں اور شعلوں پر گھسیٹ رہی تھیں لیکن ایمان کے تقاضے پھولوں کی سیج بن کر رہ گئے تھے۔ غیرتِ ایمانی سے ہونٹ سِل گئے تھے ایک سُبکی بھی تو نہ نکلی ۔ ایک جُھر جُھری بھی تو نہ آئی۔ صرف ایک آنسو ٹپکا ___ ہائے وہ قیمتی آنسو جس کی تقدیر میں یہ اعزاز لکّھا تھا کہ وہ خدا کے رسول ﷺکے مقدس رُخسار کو چومے ۔ اس پر پھیل جائے ۔ سارے سمندر مل کر بھی زور لگائیں تو ایسا بیش بہا موتی کبھی پیدا نہ کر سکیں گے ۔
اس اشکِ بے اختیار کے جواب میں رحمتِ خداوندی کو جوش آگیا۔ حضور ﷺ تیزی سے چونک کر اُٹھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اشک آلود آنکھوں سے وہ آنکھیں چار ہوئیں جن میں انسانیت کی حلاوت اور خدا کی رحمت ستارہ بن کر جگمگایا کرتی تھی ۔
"کیا بات ہے ___ اے ابو بکر (رضی اللہ عنہ) ؟" انسانیت کے درد سے انتہائی بے قرار آواز حضور ﷺکے ہونٹوں پر طلوع ہوئی تو ایک ساعت کے لیے ابو بکر رضی اللہ عنہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ کس کرب سے دو چار ہیں-

Читать полностью…

علم و کتاب

محترم مولانا ملا محمد اقبال ملا ندوی مرحوم پر ہمارے مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب جامعہ آباد کی نئی بستی میں جامعہ کی منتقلی ہوئی تو اس اہم موقعہ پر بھی آپ کو یاد کیا گیا، جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ فقہی مسلک میں جامعہ امام شافعی کے مسلک کی اتباع کے ساتھ ساتھ عقیدے میں اس ادارے کی نسبت حضرت تھانوی اور اکابر دیوبند سے ہے۔
۱۹۷۴ء میں آپ کی بھٹکل آمد پر آپ کی شخصیت کے چند ایک پہلو خاص طور پر کھل کر سامنے آئے، مثلا روٹی اور چاول سے پرہیز، جس نے بعض موقعون پر ہمارے معاشرے میں میزبانی کی بعض خامیوں کو خاص طور پر اجاگر کردیا، ہمارے لوگوں میں میزبانی کا عمومی تصور یہ ہے کہ مہمان کو اس کے مزاج اور طبیعت کو دیکھے بغیر خوب کھلایا جائے،اس مناسبت سے اس وقت کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ بھٹکل سے کوئی تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے ولکی، جو دریائے شراوتی کے کنارے آباد ہے،اس زمانے میں وہاں آمد ورفت کے ذرائع محدود تھے، مکانات بھی کم تھے، اور ضروریات زندگی کے لئے چھوٹی سی ایک دو دکانیں پائی جاتی تھیں ، اس زمانے میں وہاں عام لوگوں کو وہاں جانے کا واحد ذریعہ ہناور سے ہاتھ کے چپو اور بانس کے زور سے چلنے والی کشتیاں تھیں، جو کئی گھنٹوں میں گاؤں تک پہینچاتی تھی، کوئی بس اڈہ نہیں تھا، اور کاروں سے پہنچنے کے لئے یہاں ایک بہت کچی سی سڑک تھی، مولانا رات نوبجے کے بعد یہاں پہنچے تھے، گاؤں کے لوگوں نے اپنی بساط سے زیادہ آپ کی میزبانی کے لئے بریانی وغیرہ مرغن چیزیں پکا رکھی تھیں، لیکن مولانا چونکے شوگر کے مریض تھے لہذا وہاں ابلے انڈوں کا تقاضا کردیا، اور اس وقت انہیں فراہم کرنے کی کوئی گنجائش یہاں نہیں تھی، جس سے میزبانوں کو بڑی سبکی ہوگئی۔
مولانا شریعت کی پابندی کے معاملات میں سخت تھے، میز اور ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا نہایت ناپسند کرتے تھے، علاوہ ازیں جائےنماز پر کعبہ کی تصویر کو یہودیوں کی سازش اور کعبہ کی عظمت دل سے نکالنے کا سبب سمجھتے تھے۔ جس کا تذکرہ آپ نے جگہ جگہ کیا تھا۔
مولانا کی رحلت کے بعد پھراس مرتبہ کی کسی مناظر اور مسلک دیوبند کے ترجمان کا تذکرہ سننے میں نہیں آیا، ویسے دنیا کبھی ایسوں سے خالی نہیں ہوتی، لیکن کم ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی صلاحیتوں اور محنتوں کی خوشبو مشک کی طرح چار سو پھیل جائے، مولانا بھی انہی خوش قسمت لوگوں میں تھے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں مولانائے مرحوم کا اچھے لفظوں میں تذکرہ ہو، مناظروں ، مجلسوں میں مخالفین کو دندان شکن جواب دے کر منہ بند کرنےو الے افادات کو محفوظ کرکے انہیں نئی نسل تک پہنچانے کا کوئی نظم کیا جائے، یہی ان کے لئے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
2024-11-30

Читать полностью…

علم و کتاب

اس سلسلے کا ایک واقعہ سنایا کہ: ایک دفعہ ہم لوگ فیض اباد سے دیوبند کے لیے چلے ،اپنی مرضی کی سواری تھی، جو کرائے پر لی گئی تھی،ایک ڈرائیور تھے ،جن کا نام شمیم احمد تھا، ٹانڈے سے چل کر فیض اباد آئے، تو ظہر کے لیے مسجد میں ٹھہرے،پھر لکھنو آئے تو عصر کے لیے مسجد میں ٹھہرے ،اور ہر جگہ نماز کے لیے مسجد میں ٹھہرتے رہے، اس ٹہرنے میں تقریبا ایک ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا تھا،دوسرے دن جمعہ تھا ،ڈرائیور سے کہا کہ :اگر تم نے جمعہ کی نماز میرٹھ میں پڑھائی، تو ہم پیسے دیں گے، ورنہ نہیں۔ خیر! ڈرائیور نے فجر کے بعد سے مسلسل گاڑی چلا کر جمعہ میرٹھ میں پڑھوا دیا۔
جب ڈرائیور کو واپس بھیجا جا رہا تھا، تو مولانا احمد سراج صاحب نے اس سے کہا کہ بھائی! جو غلطی یا اونچ نیچ ہوئی ہے ،معاف کر دینا! تو اس نے کہا کہ صاحب! سب معاف ہے۔ مگر ہاں! ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا:
اگر کل قیامت کے دن اللہ تعالی مجھ سے یہ کہے کہ جنت میں مولانا ارشاد صاحب کے ساتھ جاؤ، تو میں جنت میں ان کے ساتھ نہیں جاسکتا ۔اللہ پاک سے عذر کر دوں گا۔اس لیے کہ یہ وہاں بھی جاتے جاتے اتنی نمازیں پڑھائیں گے کہ تاخیر کی وجہ سے پھر جنت جنت نہیں رہے گی ۔

دیوبند کے قیام کے زمانے میں مدنی مسجد یا دارالعلوم کی قدیم مسجد میں امام کے عین پیچھے نماز پڑھنے کا اہتمام فرماتے تھے اذان سے پہلے یا اذان پر مسجد میں حاضر ہو جاتے اور سنن و نوافل میں مشغول ہو جاتے سنن سے فراغت پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔

*تلاوت قران سے شغف*

حضرت مولانا قدس سرہ کو، قرآنِ کریم اور خدام قرآن سے بہت لگاؤ تھا ۔تلاوت کثرت سے کرتے اور دوسروں کو بھی تلاوت کی تلقین کرتے ۔مسجد میں جلد آنے کی عادت تھی ،اس لیے سنن و نوافل سے فارغ ہونے کے بعد، تلاوت قران کرتے رہتے، چلتے پھرتے بھی قران کریم پڑھنے کی عادت تھی روزانہ 10 پارے قران کریم پڑھنے کا معمول تھا۔والد محترم کے ساتھ ان کا مشفقانہ برتاؤ اور کریمانہ سلوک قرآن سے محبت و تعلق کی بنیاد پر تھا۔

*پوری عمر روٹی چاول سے پرہیز*

حضرت تھانوی علیہ الرحمہ اخیر عمر میں بھی کافی صحت مند تھے اور اخیر تک اپنے معمولات درست طریقے سے انجام دے رہے تھے ۔کسی نے پوچھا کہ حضرت کی صحت کا راز کیا ہے ؟تو فرمایا دو چیزیں:
ایک صبح کی چہل قدمی کا اہتمام ۔دوسرےڈاکٹر نے جس چیز کا پرہیز بتا دیا اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔
حضرت مولانا ارشاد صاحب رحمہ اللہ نے بھی اپنے دادا پیر کے اس عمل کی مکمل پیروی کی وہ جب شوگر کے مرض میں مبتلا ہوئے تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ غلہ جات روٹی چاول وغیرہ اس مرض میں نقصان دہ ہے اس کے بعد انہوں نے روٹی چاول کو ہاتھ نہیں لگایا گوشت اور مغزیات وغیرہ کے سہارے زندگی گزار دی ۔حضرت مولانا کا یہ پرہیز بہت مشہور ہوگیا تھا۔پرہیز میں ان کی یہ پختگی زبان زد عام و خاص تھی اور ضرب المثل بن گئی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عزم و استقلال کے پیکر اور مضبوط قوت ارادی کے حامل تھے۔

مولانا مرحوم سنتوں کے عاشق اور کامل متبع سنت بزرگ تھے۔ وہ محی السنہ اور ماحی بدعت تھے ۔ان کی پوری زندگی دینِ حق کی اشاعت مسلکِ حق کی اعانت و حفاظت اور بدعت کی بخیہ ادھیڑنے میں گزری ۔زندگی بھر کوئی نماز قضا نہیں ہوئی اور جب موت آئی تو حسن خاتمہ کے ساتھ آئ۔ عصر کی نماز کی تیاری میں تھے اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی 18 رجب 1409 ہجری میں یہ حادثہ دیوبند میں واقع ہوا
رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

‏مشاعرہ ہو رہا تھا، لکھنوی انداز کے ایک منحنی سے شاعر کو دعوت کلام دی گئی
منہ میں پان، سر پر مخصوص ٹوپی، چوڑی دار پاجامہ اور سیاہ اچکن زیب تن کیے وہ مائیک پر تشریف لائے۔
اور "مطلع عرض کیا ہے" کہہ کر مصرع پڑھا:

وہاں سے کوئی نہیں گزرا جہاں سے ہم گزرے

ہال میں سے واہ واہ کی آواز آئی، انہوں نے پھر وہی مصرع پڑھا:

وہاں سے کوئی نہیں گزرا جہاں سے ہم گزرے

یہ پڑھتے ہی داد کا شور پھر بلند ہوا، پیچھے سے آواز آئی "بہت خوب کہا پھر پڑھیے، مکرر." وہ پھر گویا ہوئے:

وہاں سے کوئی نہیں گزرا جہاں سے ہم گزرے

جونہی تیسری مرتبہ انہوں نے مصرع پڑھ کر مکمل کیا، حاضرین کی پچھلی نشستوں میں سے ایک صاحب جو بالکل انہی کی وضع قطع کے لگتے تھے، مخصوص لکھنوی انداز سے اٹھے اور پوچھنے لگے

میاں ...!!! اکلوتے ہو کیا؟؟؟؟

ریختہ سے انتخاب

Читать полностью…

علم و کتاب

تذکرہ محدث سورتی - ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

کتاب : تذکرہ محدث سورتی
مولف : خواجہ رضی حیدر صفحات :
400 قیمت : 1000 روپے
ناشر : الحقائق پبلی کیشنز لاہور 03001090045
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راندیر (ضلع سورت، بھارت) میں پیدا ہونے والے امام المحدثین مولانا وصی احمد محدث سورتی ؒ (1836ء۔1916ء) حدیث و فقہ کے جید عالم اور اپنے زمانے کی معروف علمی شخصیت تھے۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت علیؓ کے غیر فاطمی بیٹے محمد بن حنیفہ ؒ سے ملتا ہے، اسی لیے آپ اپنے نام کے ساتھ ’’حنفی‘‘ اور ’’حنیفی‘‘ لکھا کرتے تھے۔ آپ کی عملی زندگی کا آغاز 1857ء کے جہادِ آزادی کے بعد سورت سے ہجرت اور دہلی میں قیام سے ہوتا ہے۔
مولانا وصی احمد سورتی کے اساتذہ میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور مولانا احمد علی محدث سہارنپوری جیسے استادانِ کامل شامل تھے۔ آپ کو مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی کی صحبت سے مستفید ہونے اور بیعت و خلافت سے سرفراز ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپ نے مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت (اتر پردیش، ہند) قائم کیا اور وہیں تقریباً 40 سال تک درسِ حدیث دیتے رہے، اور علما، فقہا، مفسرین اور محدثین کی ایک بڑی جماعت تیار کی۔
محدث سورتی کے بہت سے تلامذہ صاحبِ فضل و کمال ہوئے جن میں مفتی امجد علی انصاری اعظمی (مصنف: بہار شریعت)، علامہ سید محمد محدث کچھوچھوی (مصنف: تفسیر اشرفی)، پروفیسر علامہ سید سلیمان اشرف بہاری (مصنف: النور)، علامہ سید ظفرالدین محدث بہاری ؒ (مصنف: صحیح البہاری)، علامہ ضیاء الدین مہاجر مدنی، مولانا عبدالاحد محدث پیلی بھیتی، مولانا عبدالعزیز خاں محدث بجنوری، مولانا سید خادم حسین محدث علی پوری، مولانا عبدالحق محدث پیلی بھیتی، مولانا مشتاق احمد کان پوری، مولانا نثار احمد کان پوری، مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی اور مفتی عبدالقادر لاہوری بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔
آپ نے اصولِ حدیث اور مسائل فقہ کو عام کرنے اور عوام کے عقائد کی اصلاح کے لیے متعدد مذہبی کتابوں پر حواشی لکھے اور مختلف مسائل پر فتاویٰ رسائل کی صورت میں شائع کرائے۔ آپ کی تصنیفات، تالیفات اور تعلیقات میں حاشیہ مدارک، حاشیہ بیضاوی (قلمی)، حاشیہ جلالین (قلمی)، تعلیقات سنن نسائی، حاشیہ شرح معانی الآثار، تعلیقات شروح اربعہ ترمذی، شرح السنن ابی داؤد (قلمی)، شرح مشکوٰۃ المصابیح (قلمی)، افاداتِ حصن حصین، التعلیق المجلی لما فی منیۃ المصلّی جیسی مایہ ناز کتابیں شامل ہیں جن کے حواشی و تعلیقات سے گزشتہ ایک صدی سے طالبانِ علومِ دینیہ استفادہ کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
محدث سورتی علم و معرفت کے میدان ہی کے شہسوار نہ تھے بلکہ سیاست میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ برطانوی عہدِ حکومت میں ملک و ملت کو نقصان پہنچنے کے پیشِ نظر آپ نے اکابر علماء کے ایک وفد کی قیادت فرمائی جس نے مسلسل تین ماہ پورے ملک کا دورہ کرکے دینی اور مذہبی مدارس کا ایک نظام قائم فرمایا۔ سیاسی اور مذہبی گھٹن کے دور میں علماء کی یہ جماعت امید کی پہلی کرن ثابت ہوئی، کیونکہ اس جماعت کا پورے ہندوستان میں جس طرح استقبال کیا گیا اور جماعت کو اپنے مقاصد میں جو کامیابی حاصل ہوئی اس نے محکوم مسلمانوں کے حوصلے جوان کردیے۔ تحریکِ اصلاحِ ندوۃ العلماء میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے جوقومی و ملّی خدمات انجام دیں اس کا ذکر کئی مقامات پر مولانا احمد رضا خان فاضلِ بریلیؒ نے بھی بہت توصیفی انداز میں کیا ہے اور محدث سورتی ؒ کو فاضلِ کامل، کوہِ استقامت و کنزِ کرامت اور ہمارے دوست اور محبوب کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
پیشِ نظر کتاب مولانا وصی احمد محدث سورتیؒ کے احوال اور ان کے کارناموں پر مشتمل پہلی کتاب ہے، جسے ممتاز مؤرخ، محقق، دانشور، قائداعظم اکادمی کے سابق ڈائریکٹر اور نبیرہ محدث وصی احمد سورتی، خواجہ رضی حیدر صاحب نے تالیف و ترتیب دیا ہے۔ یہ تذکرہ علم و تحقیق کی پاسداری، زبان و بیان کی سلاست و شائستگی اور اصولِ تذکرہ نویسی کے اعتبار سے ایک مثالی تذکرہ ہے۔ مولانا وصی احمد سورتیؒ کے اذکار سے تاریخ کے اوراق ایک عرصے سے خالی تھے۔ یہ اہلِ قلم پر ایک قرض تھا جسے خواجہ رضی حیدر نے بحسن و خوبی ادا کیا ہے۔
اس تذکرے کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی تالیف میں خواجہ صاحب نے صرف اور صرف معروضی حقائق اور تاریخی سچائیوں کو پیش ِ نظر رکھا ہے اور خو د کو عصبیتوں، مخصوص فکری اور ذہنی رویوں سے بالا رکھا ہے۔ کسی بھی مقام اور کسی بھی مرحلے پر اس تذکرے کو غلط بیانیوں، ستائشِ بے جا اور مصلحتوں سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ کیونکہ خواجہ صاحب کے نزدیک علماء کی حیات اور ان کے علم و فکر پر قلم اٹھاتے ہوئے بہت صادق رہنے کی ضرورت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں کوتاہی یا غلو عاقبت میں عذاب سمیٹنے کے مترادف ہے۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel