علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
خطیب یا امام اس طریقہ کے خطبہ کی جرأت نہیں کرسکتا۔
عید کی نماز سے سوا پانچ بجے فارغ ہوگئے اور گھر آکر چادر اوڑھ کر لمبی تان کر سوگئے۔ نمازِ ظہر کے بعد ہمارے دوست ڈاکٹر صفدر خاں مرحوم (متوفی ۱۶؍اپریل ۲۰۲۳ء) کی بیٹی آفرین اور داماد سبحان میاں نے اپنے گھر پر مدعو کر رکھا تھا، وہاں پُرتکلف ظہرانہ سے لطف اندوز ہوئے، رات میں منیب میاں کے ایک اور دوست ندیم صاحب کے گھر پر وَن ڈِش پارٹی تھی، جس میں منیب کے حصہ میں کوئی میٹھا لے جانا تھا، وہ تیار کرکے لے گئے اور عید کی یادوں کو ذہن میں سمو کر دیر رات واپس آئے۔
۱۷؍جون کو منیب میاں نے اپنے گھر پر سبھی بے تکلف دوستوںکے ظہرانہ کا پروگرام بنایا تھا، اس میں مصروفیت رہی۔ الحمد للہ منیب میاں کے سبھی دوستوں سے جن میں زیادہ تر کا تعلق اترپردیش کے مختلف اضلاع سے ہے،بھرپور بے تکلف گفتگو اور قطر کے حالات پر تبادلۂ خیالات ہوتا رہا۔
۱۸؍جون کی رات میںبچوں کے ساتھ قطر کی قدیم بندرگاہ پر سیر و تفریح کے لئے گئے۔ یہ بہت بڑا تفریحی علاقہ ہے۔ سمندر کے کنارے بہت بڑے علاقے میں سبزہ زار ہے، جہاں بچوں کے کھیلنے، کودنے کے مواقع میسر ہیں۔ سائڈ میں بہت سی بینچز ہیں، جن پر تکان دور کرنے کی غرض سے بیٹھا جاسکتا ہے۔ پہلے پانی کے جہاز اسی بندرگاہ سے عوامی آمد ورفت کا ذریعہ بنے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے یہ علاقہ بہت زیادہ آباد تھا، لیکن ہوائی جہاز کی سہولیات نے پانی کے جہاز کو صرف مال برداری تک محدود کردیا۔ اس علاقہ کو سیاحتی مقام بنادیا گیا۔ بہت سے سرکاری دفاتر اس علاقہ میں موجو دہیں، جو اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ان میں آبی راستوں سے آنے والے سامان کی نقل و حمل کے دفاتر بھی ہیں اور دوسرے دفاتر بھی۔ شدید گرمی کی وجہ سے زیادہ لطف نہیں آیا، لیکن معلوم ہوا کہ جب موسم سازگار ہوتا ہے تو یہاں کی رونق قابل دید ہوتی ہے۔
۱۹؍جون کی رات میںدیوبند کے قاری سلیم صاحب (ابن قاری اخلاق صاحب مرحوم، ادارہ درس قرآن، دیوبند) نے اپنے گھر سلالہ ام محمد (خرطیات) میں عشائیہ پر بلایا تھا، جس میں دیوبند کے کئی ساتھیوں مولانا اطہر گل (ابن محمد احمد گل مرحوم)، قاری حسین احمد (ابن قاری عبدالحفیظ صاحب مانکی والے)، مولانا اشرف صاحب (ابن مولانا احمد سعد صاحب)، مولانا عبدالمالک جودھپوری، مولانا فوزان الحق (ابن مولانا برہان الحق صاحب) اور دوسرے بہت سے حضرات شریک تھے۔ دیوبند کی یادیں تازہ ہوتی رہیں، وہیں کے قدیم و جدید کمروں، دارالعلوم کی طالب علمی کے دور کے بہت سے واقعات گفتگو کا موضوع رہے۔ رات گئے مجلس ختم ہوئی۔ یہ معلوم ہوکر خوشی ہوئی کہ ماشاء اللہ دیوبند و اطرافِ دیوبند کے بہت سے جوان علماء، قطر میں دینی سرگرمیاں پورے انہماک کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔
۲۰؍جون کی دوپہر میں ہوٹل شیزان میں دوحہ قطر کی ’’بزم اردو‘‘ کی طرف سے اردو کے معروف فکشن نگار جناب غضنفر صاحب اور راقم کا اعزاز کیاگیا۔ اس موقع پر محترم غضنفرصاحب نے اپنی تازہ تصنیف ’’صورتیں‘‘ سے میر تقی میر پر خاکہ پیش کیا جب کہ خاکسار نے غالب کی ایک فارسی نعت کا تعارف اور اس کا ترجمہ و تجزیہ پیش کیا۔ جب کہ بزم کے چیرمین ڈاکٹر فیصل حنیف نے اپنے ایک ساتھی، جو اس محفل میں شریک تھے افتخار راغب صاحب پر بہت دلچسپ خاکہ پیش کیا۔
پروگرام سے قبل جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد عبدالوہاب کا انتخاب کیا گیا، جو جدید تعمیراتی فن کا حسین شاہکار ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے ۹۹؍گنبد ہیں، جس کی وجہ سے عرف عام میں یہ مسجد ’’۹۹ڈومس‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ بہت وسیع و عریض مسجد، بلند و بالا منبر پر امام صاحب نے خطبہ شرع کیا، جس میں ان آیات کی تلاوت کی گئی جو انسان کو تقویٰ کے لئے ابھارتی ہیں۔ مسجد کے تین طرف بلند قامت، خوبصورت دروازے ہیں، اندرونی حصہ میں کم از کم آٹھ دس ہزار افراد کی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ عیدین کے موقع پر نمازیوں کی تعداد اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ مسجد کی خوبصورت صاف شفاف، سرخ دبیز صفیں، سینٹرل ایئرکنڈیشنڈ ، ہر ہر چیز اپنی تعریف خود کر رہی تھی۔ صفائی، سلیقہ، امام صاحب کی حفاظت کے لئے دونوں طرف مستعد جوان مامور تھے جو صرف احتیاطی طور پر خدانخواستہ کسی غیرمتوقع حادثہ سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
قطر کی ادبی سرگرمیاں
شیزان ہوٹل میں پروگرام سے فارغ ہو کر مظفرنایاب صاحب کی معیت میں قطر کی ایک اور ادبی شخصیت ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کے دولت کدہ پر حاضری ہوئی، محترم موصوف شیزان ہوٹل کے عقبی علاقہ میںرہتے ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں قطر کی دفاعی وزارت میں ملازمت اختیار کی، چار دہائیوں سے زیادہ کا سفر یہیں مکمل کیا۔ ندوۃ العلماء سے فارغ ہیں۔ الحمد للہ باصلاحیت و ذی استعداد ہونے کی وجہ سے قطر میں ملازمت کے دوران ہی ایم اے اور پھر اردو زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ماشاء اللہ صاحب ذوق ہیں، اردو شعر و ادب سے عشق کی حد تک لگائو ہے۔ شعر فہمی کا ملکہ اللہ نے بھرپور ودیعت کیا ہے۔ خود بھی شعر کہتے ہیں۔
کبھی ہماری خواہش کے پیش نظر اور کبھی اپنی فرمائش پر قطر کے سبھی علاقوں کی زیارت کرائی۔
یکم جون کو صبح ’’سوق وکرہ‘‘ کے یمنی ہوٹل میں پہنچ کر صبح کا ناشتہ کیا، شکشکا اور دوسرے کئی یمنی کھانوں سے لطف اندوز ہو کر واپس ہوئے۔ اس درمیان مختلف علاقوں میں منیب میاں لے گئے، کئی دوستوں کے یہاں پر تکلف ضیافتوں کا مزہ لیا۔
مورخہ ۳؍جون کو ’’بزمِ اردو‘‘ قطر کی جانب سے پاکستان سے تشریف لائے ہوئے شاعر توقیر شریفی صاحب کے اعزازمیں ہوٹل مازا میں عشائیہ کی دعوت کے ساتھ ایک شعری نشست کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت راقم (عبیداقبال عاصم) کو سونپی گئی۔ جناب شاد اکولوی صاحب نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ محترم فیصل حنیف صاحب چیرمین بزم اردو نے ’’غالب کے خطوط ‘‘ کے طرز پر اپنا ایک خط پڑھ کر سنایا جو خاکہ نگاری کا اعلیٰ نمونہ تھا۔
محترم سہیل وفاؔ، مہندرناتھ منٹوؔ، طاہر جمیل، فیاض بخاری، جمشید انصاری، قیصر سعود، اصفر گردیزی، آصف شفیع، مظفرنایاب، منصور اعظمی، افتخار راغب، شاداکولوی و عدیل اکبر صاحب نے اس موقع پر اپنا کلام پیش کرکے دادِ تحسین وصول کی۔ آخیر میں مہمان خصوصی جناب توقیر شریفی صاحب نے اپنی شاعری کے مختلف نمونے، قطعات، رباعیات، غزل و نظم کی صورت میں پیش کئے۔ اس موقع پر ان کی نظموں کے مجموعہ ’’یکسوئی‘‘کی رسم اجراء بھی عمل میں آئی۔
ٍ صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے راقم نے اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ اردو زبان و ادب کی جڑیں خلیجی ممالک میں گہری ہوتی جارہی ہیں جو اردو کے چاہنے والوں کے لئے پیغام جاںفزا ہے۔ شاعری کے جو انداز اور کلام کا انوکھا پن اس مختصر سی شعری نشست میں سننے کو ملا وہ اردو کے مستقبل کے درخشاںہونے کی علامت ہے۔رات تقریباً گیارہ بجے یہ نشست اختتام کو پہنچی اور اپنی خوشگوار یادیں ذہنوں پر نقش کر گئی۔
۴؍جون کو عدیلہ کی علی گڑھ کی دوست شگوفہ کے گھر پر، پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام تھا، ان کی رہائش مطار قدیم (Old Airport) علاقہ میں انصار گیلری کے عقب میں واقع ہے۔ دیر رات میں واپس آکر آرام کیا۔
۶؍جون (جمعرات) کی شب میں منیب میاں بچوں کے ساتھ ایک اور ساحلی علاقہ پر لے گئے۔ یہ علاقہ بھی وکرہ میں ہی ہے۔ یہاں بچوں کے کھیلنے کا معقول انتظام ہے، جمعہ کے دن شدید گرمی کی وجہ سے کہیں جایا نہیں جاسکا۔ کمپاؤنڈ کی مسجد (یزدان) میں جمعہ کی نماز ادا کی۔
سخت گرمی اور جھلسا دینے والی لو کی شدت کا یہ عالم ہے کہ خواہش کے باوجود بھی کہیں آنے جانے کی ہمت نہیں ہوپاتی۔ دن میں تو غضب کا درجۂ حرارت اور رات کو اگر ہوا چلتی بھی ہے تو وہ بھی گرم ترین، جس کے اثرات یہاں کی سماجی زندگی پر بہت زیادہ مرتب ہوتے ہیں، انہیں وجوہات سے یہ ہفتہ گھر پر گزارنے میں ہی عافیت سمجھی۔
۱۳؍جون کو ’’حلقہ ادب اسلامی ،قطر‘‘ کی ماہانہ نشست میں حاضری دینی تھی، جس میں راقم کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہونا تھا۔ مذکورہ تنظیم کے زیر اہتمام گذشتہ سال (۱۰؍اگست ۲۰۲۳ء) کی نشست میں بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ اس سال بھی اس کے موجودہ صدر محترم مظفرنایاب صاحب کی خواہش تھی کہ میں اس میں شریک ہو کر کسی بھی عنوان سے اپنا کوئی نثری مضمون پیش کروں۔ تعمیل حکم کے سواکوئی چارہ نہیں تھا، سو حکم مان لیا گیا۔ حلقہ ادب اسلامی، قطر میں رہائش پذیر ہندوستان کے اردو شعراء، ادب اور تصنیف و تالیف سے دلچسپی رکھنے والے مختلف علاقوں کے رہائش پذیر افراد کی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم ۱۹۹۲ء میں قائم ہوئی تھی، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اپنے قیام سے تاہنوز اس کی اُن ماہانہ نشستوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے جو ہر مہینہ کی دوسری جمعرات کو ہوتاہے، اس میں بالعموم نثر و نظم دونوں کا ہی اہتمام ہوتا ہے۔ نثر میں کوئی صاحب ادب و سیاست، شعر و شاعری، تنقید نگاری یا حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں کوئی مضمون پیش کرتے ہیں جب کہ شعری نشست میںموجود سبھی شعراء اپنا تازہ کلام سناتے ہیں۔ اس تنظیم کے موجودہ صدر مظفرنایاب صاحب ہیںجو اردو حلقوں میں علم الاعداد سے دلچسپی کے باعث نہ صرف برصغیر بلکہ دوسرے ممالک میں بھی نہایت قدر و احترام کی نظروںسے دیکھے جاتے ہیں۔ تاریخی قطعات لکھنے میں اللہ تعالیٰ نے پوری مہارت عطا کی ہے۔ گزشتہ سال اس تنظیم کے صدر فتح اللہ شریف صاحب تھے جن کی صدارت میں یومِ آزادی کی تقریبات قریب ہونے (۱۰؍اگست ۲۰۲۳ء) کے باعث راقم کو ’’ہندوستان کی آزادی‘‘ کے عنوان سے مضمون پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔
۱۳؍جون کی مذکورہ نشست محترم رفیق شاد اکولوی صاحب کی زیر صدارت منعقدہوئی، نظامت کے فرائض مظفرنایاب صاحب نے انجام دئیے۔ نشست کا آغاز عامر شکیب صاحب کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔ مبصر ایمان نے نعت کا نذرانہ پیش کیا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب نے قربانی کے عنوان سے جناب سرفراز بزمی صاحب کی بڑی خوبصورت مرصع غزل پیش فرمائی۔ راقم نے ۱۰؍ذی الحجہ قریب ہونے کی مناسبت سے ’’حقیقت قربانی‘‘ کے عنوان سے پندرہ منٹ پر مشتمل ایک مضمون پیش کیا، جسے سامعین
گاڑیوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ پارک، بچوں کے کھیل کی جگہ، سوئمنگ پول وغیرہ ہر چیز قابل دید ہے۔ اسی مقام پر ایک بہت بڑی وسیع، کشادہ مسجد ہے جس میں بہ یک وقت تین ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ الحمد للہ اسی دن نماز پڑھنے کے لئے مسجد کا رخ کیا، قطر ہی میں بلکہ تمام عرب ممالک، نیز دنیا کے بیشتر ممالک میں عصر کی نماز شافعی وقت کے مطابق اول وقت میں ادا کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے نمازیوں کو عصر کے بعد کافی وقت مل جاتا ہے۔ مسجد بہت ہی پرسکون و آرام دہ ہے، مقتدیوں کی تمام ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے، مسجد پہنچ کر نماز ادا کی، اللہ کا شکر ادا کیا جس نے سہولت و آرام کے ساتھ اس سفر کو مکمل کرایا۔ سفر کی تکان اتارنے کے لئے وہ دن آرام میں ہی گذرا۔گزشتہ سال دوحہ میںجس جگہ قیام تھا، اس کو ’’اُمِّ غویلینہ‘‘ کہا جاتا ہے جو تلفظ میں ’’مُغلینہ‘‘ سمجھ میں آتاہے۔ یہ دراصل شاہی خاندان کی کسی خاتون کا نام ہے،ان کویہ علاقہ شاہی فرمان کے بموجب ملا ہوا ہے۔ اب اس جگہ گنجان آبادی ہوگئی ہے۔ ام غویلینہ علاقہ کی جو مسجد ہماری رہائش گاہ سے قریب تھی وہ زیادہ بڑی نہیں تھی، البتہ نمازیوں کی تمام ضروریات کا لحاظ اس میں بھی موجود تھا۔ ’’یزدان -۱۳‘‘ کی جس مسجد میںنماز پڑھی گئی وہ وسیع و عریض علاقے میں مستقبل کی آبادی کو پیش نظر رکھ کر بنائی گئی ہے، جس میں تمام سہولیات بھی اسی لحاظ سے فراہم کی گئی ہیں۔ بہرحال نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور گھر کی راہ لی۔ یہ دن آرام کرنے میں ہی گزرا۔
۲۱؍مئی کی شام کو حلقۂ ادب اسلامی، قطر کے صدر عزیز دوست محترم مظفرنایاب صاحب ملنے کے لئے تشریف لائے، گزشتہ سال راقم کی قطر آمد پر بھی اس تنظیم کے اراکین نے اعزاز سے نوازا تھا اور اس کے زیر اہتمام ہونے والی ماہانہ ’’شعری نشست‘‘ میں خاکسار کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ اس سال جب مظفر نایاب صاحب کو معلوم ہوا تو موصوف پہلی فرصت میں ملاقات کے لئے تشریف لے آئے اور حلقۂ ادبِ اسلامی کی سرگرمیوں سے متعارف کرایا۔ دو گھنٹے کی ملاقات میں ملکی و بین الاقوامی مسائل پر گفت و شنید ہوتی رہی۔ حلقۂ ادب اسلامی کی اگلی ماہانہ نشست کے لئے مدعو کیا اور وعدہ کرنے پر ہی رخصت ہوئے۔
۲۲؍مئی کی شام میں منیب میاں ہمیں قطری حکومت کے اُس مرکز صحت لے گئے جہاں کی رپورٹ کے بعد ہی ویزا کی توسیع ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑے علاقے میں واقع ہے۔ خواتین و مرد حضرات کی صحت کی جانچ الگ الگ جگہوں پر ہوتی ہے، تقریباً ایک گھنٹہ کی مشق کے بعد یہ مرحلہ تکمیل کو پہنچا اور ہم گھر واپس ہوگئے۔ دن میں یہاں ہونے والی گرمی کی شدت کی وجہ سے کہیں آنا جانا مشکل معلوم ہوتا ہے، اس لئے جہاں کہیں بھی جانا ہوتا ہے اس کے لئے شام کا ہی پروگرام بنایا جاتاہے۔
۲۳؍مئی کی شام کو منیب میاں ہمیں قطر کی مشہور جگہ ’’کوستاکافی‘‘ لے گئے، یہ سمندر کا ساحل (Beatch) ہے جو کئی کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔مرکزی علاقہ وہ کافی ہائوس ہے، جسے ’’کوستاکافی‘‘ کہا جاتاہے۔ اس علاقہ میں قطر کی بلند وبالا خوبصورت، قابل دید پُرکشش عمارتیں واقع ہیں، جن میں زیادہ تر سرکاری دفاتر ہیں، یہاں رات کو لوگ تفریح کے لئے آتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں جگہ ملنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔ بعض اوقات کار پارکنگ میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ آدھے آدھے گھنٹے تک کار پارکنگ کی جگہ نہیں ملتی۔ یہاں آنے والے رات گئے تک سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔ تھوڑی دیر قدرت کی بحری عجائبات کا لطف ہم نے بھی لیا اور کچھ دیر بعد گھر واپسی ہوئی۔
۲۴؍مئی کو جمعہ کا دن تھا، پہلے ہی یہ پروگرام بنایا گیا تھا کہ اس جمعہ میں ’’قطر ایجوکیشن سٹی سینٹر‘‘ کی مسجد میں نماز پڑھی جائے گی۔ پروگرام کے مطابق مسجد جانا ہوا، یہ مسجد ماشاء اللہ دنیا کی خوبصورت مسجدوں میں سے ایک ہے۔ بہت ہی وسیع و کشادہ، جدید ترین تمام ہی سہولیات سے آراستہ اس مسجد کی تعمیر ایک حسین شاہکار ہے۔اس قسم کی مسجد کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں، جس کی بناوٹ درمیان میں سے بہت اونچی اور تمام اطراف سے بہت نیچی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ مسجد میں داخل ہو کر معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم کسی گنبد کے اندر نماز ادا کر رہے ہوں۔ سیکڑوں صفوں پر مشتمل اس مسجد کی ہر صف میں دو سو سے زائد آدمی ایک قطارمیں کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اوپر کا حصہ خواتین کے لئے مخصوص ہے، سیکڑوں بیگہ آراضی پارکنگ کے لئے مختص ہے۔ الغرض مسجد جدید ترین تعمیرکا شاہکار ہے۔ قطر بلکہ تمام عرب ممالک میں تمام نمازوں کو اوّل وقت میں ادا کرنے کا اہتمام ہے۔ جمعہ یا ظہر کی نماز زوال کا وقت ختم ہونے کے فوراً بعد ہوجاتی ہے۔ جمعہ کی اذانِ اوّل ہی اذانِ ثانی بھی ہوتی ہے۔ سنتوں کا وقفہ نہیں ہوتا اور کمال یہ ہے کہ زوال کا وقت بہت پہلے ہوجاتا ہے۔ فقہی اعتبار سے حنفی حضرات کو اس پر شرحِ صدر نہیں ہے، لیکن وہاں کسی بھی طرح کی کسی مداخلت سے انتظام کو متأثر نہیں کیا جاسکتا۔ نماز سے
سلسلہ نمبر: 243
انتخاب مطالعہ
تحریر: *حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی ،مہتمم دار العلوم وقف،دیوبند*
*وقت میں برکت*
انسانی زندگی کے مقاصد میں شخصیت کی تعمیر اور استحکام نہایت اہمیت کا حامل مقصد ہے،جیسے حیات انسانی اپنے پیچھے ہزاروں برس کے مختلف مراحل چھوڑ آئی ہے، اسی طرح اس کے آگے بھی زندگی کے ابد تک پھیلے ہوئے مختلف امکانات ہیں اور انسان ان دونوں کے درمیان نہایت ہی مختصر ترین ؛ مگر ساتھ ہی ساتھ نہایت نازک اور اہم ترین کڑی ہے ۔
ہزاروں برس کی سابقہ زندگی اور اسی طرح تا ابد پھیلی ہوئی آئندہ زندگی کے مقابلے میں فرد انسان کی ساٹھ ستر سالہ حیات ناپائیدار کی وہی حیثیت ہے جو پوری انسانی زندگی میں ایک سیکنڈ کے ہزاروے حصے کی ہو ؛ بل کہ شاید اس سے بہت ہی کم ؛ در اصل یہ کہنا بھی محض سمجھنے سمجھانے کے لیے ہے ،ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ محدود کو غیر مختتم سے کوئی نسبت ہی نہیں ؛ تاہم فرد کی اس اقل ترین مدت حیات کی اہمیت ملاحظہ ہو کہ اس ایک سیکنڈ کے ہزاروے حصے کی حیات سے مرتب شدہ نتائج پر ہی ہمیشہ ہمیشہ کامیابی و ناکامی کا دار و مدار ہوتا ہے اور جب حق تعالی جل مجدہ کا خصوصی فضل و کرم کسی پر سایہ فگن ہوتا ہے تو اس محدود ترین لمحۂ حیات میں اس سے ایک ایسا رفیع الشان اور تاریخ ساز کارنامہ انجام دلوایا جاتا ہے کہ سنت ﷲ کے مطابق فرد تو رخصت ہوجاتا ہے ؛ تاہم اس کے ذریعے انجام شدہ کارنامہ نسل بہ نسل صدیوں پر محیط فیض رسانی کا ذریعہ بن جاتا ہے،یہی وہ کیفیت ہے جس کو ”وقت میں برکت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
( *خامۂ گل ریز،صفحہ: 293،طبع: حجۃ الاسلام اکیڈمی،دارالعلوم وقف، دیوبند*)
✍🏻 ... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا شوکت علی(وفات ۲۶ نومبر) تحریر مولانا عبد الماجد دریابادی
Читать полностью…صور من حياة الصحابة. نعيم بن مسعود الأشجعي. بصوت الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا رحمه الله
Читать полностью…آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في قول رسول الله ﷺ قبل الطعام و بعد مایفرغ منه
روایت نمبر : 198-195
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في قول رسول الله ﷺ قبل الطعام و بعد مایفرغ منه
روایت نمبر : 194-192
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
سنو سنو!!
مٹی کے برتن
(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
پہنچنا وہیں ہے جہاں سے شروعات ہوئی تھی ، نوعیت اور ماہیت کتنی ہی بدل لیں، نام بدل لیں ، کام بدل لیں ، جام و سبو بدل لیں ، خم و خمخانہ بدل لیں، مث ومے خانہ بدل لیں، گھر سے مٹی کے گھڑے ، مٹی کے کوزے ، مٹی کی کوٹھیاں اور مٹی کے برتن جدیدیت اور نئی نئی دولت کے زعم میں نکال باہر کریں مگر ایک وقت آتا ہے جب انسان پرانی چیزوں کی افادیت کو بدرجہ اتم سمجھ لیتا ہے تو پھر واپس اپنی اصل پر پہنچ جاتا ہے۔ خود ہی دیکھ لیجیے دھوپ سے بچنے کے لئے چھپر بنا چھپر کے بعد مٹی کی چھت بنی یہ مٹی کی چھت پختہ بنی، پختہ چھت میں سلنگ کی جدت پیدا کرلی پھر پنکھے کولر اور اخیر میں اے سی کی جگمگ اور آمد کے بعد جب جسم انسانی نے طبعی موسم وماحول سے متاثر ہونا شروع کیا تو ڈاکٹروں کے چکر اور کل شئی یرجع الی اصلہ یعنی پہنچا وہیں پہ خاکی جہاں کا خمیر تھا یعنی ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ جناب آپ کو روزانہ صبح خیزی کرنی ہے، ننگے پاؤں گھاس پھونس پر پیدل دوڑنا ہے دوپہر میں دو تین گھنٹے دھوپ میں بیٹھنا ہے ، کھانے میں بہت ہی ہلکی پھلکی سبزیاں اور سادہ زندگی غذائیں لینی ہیں، کپڑے ململ ومخمل کے نہیں پہن سکتے، بالکل سادہ کھدر اور کاٹن کا ہونا چاہیے ، بجلی سے دوری بنائیں، قدرتی ماحول اور موسم میں سانس لیں ، مٹی کے برتنوں میں کھانا پکوائیں ، مٹی کے برتنوں میں کھانا کھائیں ، مٹی کے بنے ہو، مٹی میں ملو گے ،مٹی سے دوری اختیار مت کرو ، مٹی کو چہرے پر ملنے سے چہرہ نکھرتا ہے ، مٹی جسم پر ملنے سے جسم کے فاسد مادے نکلتے ہیں، مٹی پر چلنے اور مٹی پر سونے کے بے شمار فوائد ہیں ، مٹی مٹی ہے چاہے ملتانی ہے چاہے ہندوستانی ہو لیکن ہاں کنکر پتھر کو تو جسم سے رگڑا نہیں جاسکتا اس لئے جسم کے لئے جہاں اچھی چکنی یا غیر چکنی مٹی ہے وہ ہی مفید ہے اور جہاں مٹی نہیں ہے تو وہاں جھرنوں پہاڑوں کے آبشاروں اور جھیلوں کا پانی بہت مفید ہے۔
میرے والد ماجد تو مٹی کو زخم کے علاج کے لئے تیر بہدف بتاتے تھے ، زخم کے بہتے خون پر مٹی ڈال لیتے تھے ، پھوڑے پھنسی کے لئے مٹی بہت مفید ہوتی ہے، ٹشو پیپر کی جگہ مٹی سے ہاتھ دھوتے تھے، مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا تو ماضی قریب تک خوب ہوتا تھا اور تو اور میری ماں خدا جانے کہاں سے مٹی بٹور لاتی تھیں اور اس مٹی سے کپڑے دھولیتی تھیں ، مٹی کھانا حرام ہے لیکن اس کے بیرونی استعمال سے جسم کو آرام ہے۔
میں نے خود گاؤں کی مسجد میں مٹی کے لوٹے رکھے دیکھے ہیں جن کو علاقہ میں بدھنا کہا جاتا تھا ، میرے گھر میں میری والدہ مٹی کے بڑے بڑے گھڑے بنالیتی تھیں جن میں چاول اور آٹا رکھا جاتا تھا ، مٹی کی کوٹھیوں میں کچا غلہ رکھا جاتا تھا ، شادی بیاہ میں میں نے بھی مٹی کی رکاپی میں کھانا کھایا ہے اور یہ خوب یاد بھی ہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال میں مٹی اور مٹی کے برتنوں کا ذکر ملتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیشہ ، لکڑی وغیرہ کے برتن تو استعمال فرمائے ہی ہیں مٹی کے برتنوں کا استعمال بھی فرمایا ہے۔
مٹی کے برتن جن گھروں میں ہوتے ہیں وہاں بناوٹ نہیں ہوتی ، وہاں دکھاوا نہیں ہوتا ، وہاں اپنی دولت و ثروت کی تحسین اور جھوٹی تعریف کے پل نہیں ہوتے ، مٹی والے گھر کل بھی خود دار تھے ، آج بھی خود دار ہیں، جلال پور کے انور شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
سوتے ہیں بہت چین سے وہ جن کے گھروں میں
مٹی کے علاوہ کوئی برتن نہ ملے گا
ویسے تو آپ کہہ سکتے ہیں دنیا میں نظر آنے والی ہر چیز مٹی سے نکلی ہے اور اس کا انجام پھر وہی ہے کل تک ورلڈ ٹریڈ سینٹر آسمان کو دیکھ کر مسکراتا تھا آج برج خلیفہ نے اس کی جانشینی اختیار کرلی ہے ممکن ہے کل جدہ ٹاور برج خلیفہ کا جانشین بن جائے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ نہیں ہے ، یہ اونچے اونچے محل اور محلات در اصل مٹی ہی کے ذرات ہیں ان کی اصل پر دھیان دیجیے تو جسم پر جھر جھری طاری ہوجاتی ہے۔
کامیاب وہی ہے جو مٹی میں ملنے کی تیاری کرلے جو موتوا قبل ان تموتوا پر عمل پیرا رہے کیونکہ یہ مٹی وہ مٹی ہے جو ہر چیز کوماں کی آغوش کی طرح اپنے اندر سمو لیتی ہے۔
کیوں نہ خوئے خاک سے خستہ رہے میری انا
پا بہ گل ہوں اور خمیر معتبر مٹی کا ہے
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
عربک کالج کے فاضل تھے اور اس درس گاہ سے یقیناً بڑے بڑے علما کا تعلق رہا ہے مگراس مدرسے کے سابق طالب علم کی حیثیت سے ادبی دُنیا میں امتیازی تشخص بنانے وا لا واحد نام ’ ظ انصاری‘ ہے ۔
ظ انصاری اُس دور میں جب ایک سے ایک جید اہل ِادب موجود تھا اپنے ادبی اوصاف میں یکتا تھے، اُن کی تحریر ، اُن کی تقریر میں کوئی بُعد نہیں تھا وہ جیسا پر کشش لکھتے تھے ویسی پُرکشش اُن کی تقریر بھی ہوتی تھی، یہ وصف کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔
مَیں اس کا عینی گواہ ہوں کہ انہوں نے واقع قلابہ میں اپنی رہائش ’ شیریں‘ میں مارکسسٹ نظریات سے توبہ کی ۔
یہ امر باعثِ خوشی ہے کہ اُن کی رِحلت کے کوئی تیس برس بعد ظ صاحب کے شایانِ شان برادرِ عزیز ندیم صدیقی نے دنیائے ادب کے سامنے ایک
کتاب ’ ظ: اک شخص تھا‘پیش کردی اور سید منظر زیدی نے اس قدر شاندار تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ ہر چند کہ اس طرح کے ادبی جلسے اب معدوم سے ہوگئے ہیں میرا گمان تھا کہ اس تقریب میں کوئی تیس چالیس افراد ہی جمع ہوپائیں گے مگر حیرت ہے کہ خلافت ہاؤس کی تمام نشستوں پر شائقین نہ صرف موجود ہیں بلکہ کئےگھنٹے سے متحرک تصویر بنے ہوئے ہیں،یہ ’ ظ ‘ مرحوم سے لوگوں کی اُنسیت و محبت کا ایک نتیجہ بھی کہی جاسکتی ہے، ایک مدت بعد ایک خالص ادبی تقریب میں شرکت کر کے مجھے انتہائی مسرت محسوس ہو رہی ہے اور اس کی ساری کریڈٹ ظ مرحوم کے اخلاص کو دی جانی چاہیے کہ ادب کے اپنے مشمولات میں ان کاخلوص انتہا پر تھا ، ظ صاحب کی ادبی نگارشات اور یہ تقریب اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ خدا کسی کی سعی کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔‘‘
ڈاکٹر ظؔ انصاری کے فرزند سوئم’ علی انور‘ بھی اس تقریب میں شریک تھے تو دوحہ قطر کے مشہور اُردو دوست حسن چوگلے نے بھی جلسے کو حسنِ شرکت بخشا۔
کتاب کی رونمائی کرنے والوں میں مرکزی کردار پونے سے آنے والے فارسی کے اُستاد راجندر جوشی تھے، جنہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ظ صاحب کو انہوں نے پونے کے ملٹری کالج میں سنا تھا جہاں وہ اکثر لکچر کے لیے مدعو کیے جاتے تھے اُن کی لفظ شناسی کا شگفتہ اظہار مثالی تھا، ان کے مذکورہ لکچر ملٹری کالج(پونے) کے آثارِ قدیمہ میں یقیناً ہونگے کاش کوئی انھیں حاصل کر کےکاغذی پیرہن دیدے تو ظ صاحب کا ایک بیش قیمت تقریری مواد یادگار ہوجائے گا جو ہماری آئندہ نسل کے کام آسکتا ہے۔ ظ صاحب کےتراجم اُردو زبان میں ایک گراں قدر سرمایہ ہیں اگر ان کا ایک کلیات چھپ جائے تو تراجم کے شعبے میں ایک اچھا اضافہ ہوگا۔
محترم علی ایم شمسی نے بھی حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ظ صاحب سے اپنی ملاقاتوں کو یاد کیا اور کہا کہ’’ قیصر الجعفری کی ایک شعری کتاب کی اجرائی تقریب میں انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ، شمسی صاحب !ہم یوپی والوں کے ہاں دُلہن جب سسرال آتی ہے تو اسے منہ دکھائی دی جاتی ہے، ہم لوگ تو لکھنے پڑھنے والے قلاش لوگ ہیں اور آپ بینک سے وابستہ ہیں اور آپ کے پاس کھنکتے ہوئے سِکّے ہیں تو آج آپ کو کتاب کی منہ دکھائی دینی چاہیے۔ جس پر نہرو سینٹر حاضرین کی تالیوں سے گونج اُٹھا تھا، ظ صاحب کا بات سے بات کرنے کا انداز منفرد تھا، اب یہ خوبی نظر نہیں آتی، جس پر کلمۂ استرجاع پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
اس تقریب میں دور درازمالیگاؤں سے بھی شائقین ادب نے بہ نفسِ نفیس شرکت کی جس میں شکیل حسن مومن ، ڈاکٹر سعید فارانی اور جواں سال صحافی امتیاز خلیل اور پونے سے آنے والے انقلاب کے سابق رکن عظمت اللہ صدیقی بھی شامل تھے، امتیاز خلیل نے اپنی تقریر میں ’ظلِ حسن زیدی‘ سے ظ انصاری بننے پر اپنے انداز سے روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ زمانہ جب کہ ہمارے مسلم معاشرے میں بھی ذات پات کی تفریق’ اشراف و اجلاف‘ کے تصور کے ساتھ موجود تھی، ایک سید زادے ظل ِ حسن زیدی نے طبقۂ اجلاف سے تعلق (یعنی انصاری بننے )کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ اپنی عمر کے آخر آخر تک ’ انصاری‘ ہونے پر اٹل رہے ،جس کی پتھریلی گواہی قبرستانِ
رحمت آباد( ممبئی) میں انکی قبر کا کتبہ آج بھی دے رہا ہے۔
برہانی کالج کے سابق اُستاد ، شاعر اور شہر کی اکثر تقریبات کے مثالی ناظم ڈاکٹر قاسم امام نے بھی ظ صاحب سے متعلق کتاب کی ورق گردانی کی روداد سناتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ اس کتاب نے مجھے باخبر کیا کہ ظ صاحب بر جستہ گوئی پر کس درجہ قادر تھے کہ(برسہا برس قبل جب) ممبئی کےمومن پورے میں کپڑا بُننے والےمارکسٹوں نے ’ عوامی ادارہ‘ قائم کیا تو اُس وقت کے تمام جیّدترقی پسند مارکسسٹ شاعروں ادیبوں کو بھی مدعو کیا اور اُن سب کی گُل پوشی نہیں بلکہ اُن کے گلے میں سٗوت کے ہار ڈالے گئے ، اُس تاسیسی جلسے کے مقررین میں ڈاکٹر ظؔ انصاری بھی شامل تھے، سٗوت کے ہار ایک غیر متوقع پیش کش تھی اور اس غیر متوقع واقعے کو جس طرح ظ انصاری نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس احساس کا عجب برمحل اظہار کیا کہ مومن پورے کی
’’ ظؔ انصاری کے اِجمالی قول و عمل کا ایک نمونہ اُنکایَک حرفی نام ’ ظ‘ بھی ہے‘‘: خالد اگاسکر
خلافت ہاؤس(ممبئی) میں ندیم صدیقی کی کتاب ’ ظ: ایک شخص تھا‘ کی خالص ادبی تقریبِ رونمائی
ممبئی: (اعظم شہاب) آج ذرائع ابلاغ کی نجانے کس کس نام سے شکلیں ہمارے سامنے ہیں اور اکثر لوگ صحافی کا کردار ادا کرنےمیں سبقت لے جانے کی سعیٔ بلیغ کی’ ضد ‘ بنے ہوئے ہیں اس کے بر عکس سنجیدہ طبع لوگ ’ اچھی گفتگو‘ کے لیے ترستے ہیں۔ اس پس منظر میں اسی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ مغرب کے مشہور فکشن نگار اور پنڈت نہرو کے دوست فارسٹرؔ کو بھی یہ شکوہ تھا کہ بات بنانے والے تو افراط ہیں مگر اچھی گفتگو کرنے والوں سے ہمارا معاشرہ خالی محسوس ہوتا ہے۔
اسی تقریر میں اپنے وقت کے ممتاز مارکسسٹ دانشور اقبال احمد کو بھی یاد کیا گیا کہ’’ جب یہ کامریڈ امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنے وطن(پاکستان) گئے تو اُس وقت کے صحافیوں نے اُن سے تفصیلی انٹرویو کیا جس میں اُ س زمانے کے حالات پر سوا ل کیے تو جواب میں مارکسسٹ اقبال احمد شاکی تھے کہ یہاں کچھ لوگ مجھے مذہب کی طرف کھیچنا چاہتے ہیں تو بعض حضرات سیاست کے جوہڑ میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر عام آدمی کے حالات پر کوئی گفتگو نہیں کرتا، جس کے لیے مَیں ترس رہا ہوں اور اچھی گفتگو تو جیسے عنقا ہو رہی ہو۔‘‘
گزشتہ سنیچر16 نومبر کی شام ممبئی کی ایک تاریخی جگہ ’ خلافت ہاؤس‘ میں ندیم صدیقی کی کتاب ’ ظ: ایک شخص تھا‘کی’ ایکسس سافٹ میڈیا ڈاٹ کام‘ کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب ِ رونمائی میں ممبئی کے ممتاز اُستاد اور مقبول کالم نگار پروفیسر سید اقبال نے مندرجہ بالا باتیں کیں تو شروع میں لوگوں نے محسوس کیا کہ پروفیسر موصوف جلسے کے اصل موضوع سے دور ہورہے ہیں مگر انہوں نے جب اپنی اس گفتگو کو ڈاکٹر ظ انصاری کی خوش بیانی سے جوڑا تو خلافت ہاؤس کا پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ پروفیسرسید اقبالؔ نے ظ ؔانصاری سے اپنی پہلی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ مَیں نے انھیں اپنی درس گاہ سینٹ زیوئرس کالج میں سنا تھا ، عجب دلکش اندازِ گفتگو تھا کہ پورا مجمع جیسے اُن کی گفتگو میں بہہ گیا تھا، تقریر کے بعد جب مَیں اُن سے ملا تو انہوں نے نہایت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے یونی ورسٹی کلب ہاؤس (چرچ گیٹ۔ ممبئی)میں واقع فارن لینگویج کےشعبے میں آنے کو (واضح رہے کہ ظ انصاری مذکورہ شعبے کے صدر تھے) کہا تو کئی بار اُن سے مستفیض ہونے کےلیے مَیں نے اُن کی کلاس میں حاضری دِی۔
کامریڈ ظؔ انصاری کے آخری دنوں میں مارکسزم سے رجوع ہونے کی روداد بھی ( ضمناً) اس جلسے میں بیان ہوئی، اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پروفیسر سید اقبال نے جس سلیقے سے اپنی گفتگو کو ظ صاحب کی’ توبہ‘ سے جوڑا، جس پر تمام حاضرین نہ صرف لطف اندوز ہوئے بلکہ میرے قریب بیٹھےہوئے ایک سامعاور مشہور صحافی محمد رفیع خان نے ہم سے کہا
کہ ’ اچھی گفتگو‘ کسے کہتے ہیں سید اقباؔل نے اپنی تقریر میں اس کی بہترین جھلک بھی حاضرین کو دِکھلا دِی۔ پروفیسرسید اقبال کی گفتگو بلکہ ’ اچھی گفتگو‘ کسے کہتے ہیں کا ایک نمونہ بھی حاضرین کے سامنے رکھ دِیا:
’’۔۔۔ روز ِ حشر ،سب اپنے اپنے اعمال کے ساتھ خدا کے سامنے ہونگے مثلاً جب سرسید احمد خان کی پیشی ہوگی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور یہ کہیں کہ مَیں کچھ اور تو نہیں لایا ، مگر مَیں نے الطاف حسین حاؔلی سے مسدسِ مدو جزر لکھوائی تھی شاید میرے حق میں وہ ربِ کریم کی خوش نودی کا سبب بن جائے، اسی طرح جب بیگم سلطان جہاں( نواب آف بھوپال) کی حاضری ہوگی تو وہ کہیں گی، اے میرے ربِ کریم ! مَیں کچھ نہیں کر سکی مگر شبلی سے میں نے’ سیرت النبی‘ لکھوا لی اور نواب حامد اللہ یہ کہتےہوئے سنے جائیں گے کہ مَیں نے علامہ اقبال سے’ضربِ کلیم‘ کہلوائی تھی اسی طرح یہ ہماری زبان کے ہمہ جہت ادیب و خوش بیان خطیب ڈاکٹر ظ ؔانصاری یہ کہتے ہوئے محشر میں نظر آئیں گے کہ’ میری تیس سے زاید ترجمہ شدہ کتابیں، روسی اُردو ۔۔۔ اُردو روسی لُغَت کی دو جِلدیں،متعدد اخباروں کی فائلیں، روزنامہ انقلاب(ممبئی) کے مقبولِ عام اداریوں کا مجموعہ’ کانٹوں کی زبان ‘ میرے ایڈیٹ کردہ رِسالوں کے شمارے تو اللہ کے حضورکسی اعتنا کے حامل نہیں ہو سکتے مگر مَیں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے اور مارکسی نظریے سے تائب ہوگیا ہوں اور مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ مارکسی نظام ایک فریب ہے اور اس نظام سے مَیں الگ ہو گیا ہوں، یہ دُنیا دھوکے کی ایک ٹٹّی ہے اور مَیں(مارکسز م سے متعلق) اپنی تمام تحریروں سے رُجوع کرتاہوں۔‘
سچی باتیں (۶؍اکتوبر۱۹۳۳ء)۔۔۔ دنیا کی بے ثباتی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
۲۸؍سال اُدھر،ہنگریؔ کے ملک میں، ایک وزیر سلطنت کے گھر میں ایک صاحبزادی تولد ہوئیں۔ حُسن وجمال کی تصویر، رعنائی ونزاکت میں نے نظیر، اُٹھتی جوانی، قدردانوں کی کثرت، دار الحکومت میں ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ ہرسوسائٹی میں ان کی مانگ، ہر کلب میں ان کے چرچے، ہر اونچے ہوٹل میں ان سے زینت۔ گھر بار چھوڑ ،ہوٹلوں میں مستقل قیام، انگریزی، فرنچ، جرمنی، ہرزبان میں برق۔ کمالاتِ رقص کی ماہر۔ ۲۴سال کی عمر میں شادی کی، چند ہی روز بعد طلاق! لندن تشریف لائیں، سارا لندن گرویدہ۔ پھر پیرس چلی گئیں، سارا پیریس فریفتہ۔ بڑے بڑے مبصر اس بیان پر متفق، کہ ایسا حُسن وجمال تو خود پیرس کے پرستان میں بھی عنقا ! ۲۵۔ ۲۶سال کی عمر میں زندگی سے ایسا اُکتائیں، کہ زہر کھالیا۔ ڈاکٹروں کی دوڑ دھوپ جان بچانے کا بہانہ بن گئی۔ اٹھائیسویں سال، قلب پر پھر یاس کا دورہ پڑا۔ اعلیٰ لباس پہن، ہوٹل سے نکل بھاگیں۔ چوتھے دن معلوم ہوا ، کہ جہاں شہر کے اپاہج اور ٹکڑ گڈے پڑے رہتے ہیں، اُن کے محلہ میں کچھ کھاکر ہمیشہ کے لئے سو گئیں!……واقعہ اسی اگست ۳۳ء کا ہے۔ حسن وجمال ، نازوادا، کا آخری انجام آپ نے دیکھ لیا؟
جنگ عمومی میں، فرانسؔ اور برطانیہؔ، اور ان کے سارے حلیفوں کو، امریکہ کی شرکت کی کیسی کیسی آرزوئیں تھیں، کیا کیا تمنائیں تھیں! بیری کالنزؔ پہلا امریکی تھا،جو جنگ میں شریک ہوا۔ ایک دھوم مچ گئی۔ برطانیہ اور فرانس، اور بلجیم اور اٹلی اور سرویا، بلکہ خود امریکہ میں ہرزبان پراسی محبت وطن جانباز کا نام! ہر اخبار میں اس کی تصویر۔ سرویہؔ نے انعام دیا، فرانسؔ نے تمغہ سے سرفراز کیا۔ لڑائی ختم ہوئی، اور رفتہ رفتہ کالنزؔ کی شہرت وناموری بھی۔ جس کو سب جانتے تھے، وہ اب گمنام تھا! نوکری چھُٹی، روزی گئی۔ فرانس سے ایک خاتون بیوی بن کر آئی تھیں، وہ بھی رخصت ہوئیں، ایک معذور اپاہج کا آخر کہاں تک ساتھ دیتیں! یونیورسٹی کا گریجویٹ، محبِ وطن جانباز، ۱۷ء کا ہیرو، اب بے روزگارتھا، بے معاش تھا! حکومت آخر کتنوں کا پیٹ بھرسکتی ہے؟ نوبت فاقہ کشی کی آئی، اور اسی اگست کے مہینہ میں دیکھاگیا، کہ اُس نامور گمنام کا لاشہ، بے گوروکفن ، بوسٹنؔ کے ایک غریب محلہ میں پڑاہواہے!……جاہ وشہرت، عزت وناموری، وطن پرستی اور جانبازی کی منزلوں کا آخری انجام، نظر کے سامنے آیا؟
مارکوئیس آف پینڈو، اٹلی کا امیر کبیر، ہوابازی اور ہوابازوں کا بادشاہ، اپنے مخصوص طیارہ پر سوارہوا، اسی اگست کے آخر میں ، امریکہ سے بغداد ، طویل مسافت کی اُڑان کا ریکارڈ توڑنے، اوراپنا ’’ریکارڈ‘‘ قائم کرنے روانہ ہوا۔ طیّارہ زمین پر گھسٹتاہوا، دوہزار فت تک گیا، اور پھر ایک سرکاری عمارت سے، زور سے ٹکراکررہا۔ معًا آگ لگ گئی، طیارچی نے کودنا چاہا، نہ ممکن ہوا۔ دُور دُور کے لوگ، بے تحاشا چیخوں کی آواز سُن کردوڑے، پہونچے، تو طیارہ جل کر خاک ہوہی چکاتھا، خود مارکوئیس کا لاشہ بھی جلے ہوئے کوئلہ کے ڈھیر سے زائد نہ تھا!……دماغ کی خوش تدبیریاں، عقل کی بلند پروازیاں، سائنس کی فلک پیمائیاں، سب ’’مقررہ گھڑی‘‘ کے ٹالنے میں شاید ابھی تک ویسے ہی بے بس ہیں، جیسے عوام بیچاروں کی عقلین ہوتی ہیں!عقل انسانی کیسی کیسی بودی چیزوں کاآسرا پکڑتی ہے، اور کیسی بے ثبات اور بے حقیقت چیزوں میں ثبات وپائداری ڈھونڈتی ہے
علم وکتاب https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اشرف البلاد کو ارذل البلاد میں بدلتے دیکھنے کا دُکھ
مولانا عمیر الصدیق ندوی دریابادی صاحب مدظلہ، رواں ماہ کے شذراتِ معارف میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
"ہمارے بزرگوں نے تقسیمِ ملک کے بعد، اقلیتی قوم کی دو نسلوں کے فرق کی طرف اشارہ کیا کہ نئی نسل کو اپنے دین و مذہب، عقائد و اعمال، اپنی تاریخ و تہذیب اور تمدن و ثقافت سے کوئی واسطہ نہیں رہ گیا، بلکہ ایک ایسی نسل سامنے آنے لگی، جس کے لیے اپنی روایات، قومی و ملی تشخص، اپنی تعلیم اور سب سے بڑھ کر اپنی زبان ہی بیگانہ ہوگئی۔ معارف نے اس دور کو "ظلمتِ ایام" کا نام دیا، جہاں راتیں ہی سیاہ نہیں، دن بھی کالے ہوگئے۔ پھر اس تاریکی اور سیہ بختی میں اپنی تعمیر و ترقی کی تدبیریں، مذہبی و گروہی اختلافات کے خاتمہ کی سبیلیں، تعلیم کے ذریعہ بلند مقاصد کو پانے کی راہیں اور سیاسی شعور و بصیرت اور وقت کے مطابق صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیتیں کیا نظر آئیں۔ قیادت کے نام پر مذہب وملت کی خیر خواہی کے چند جملوں کی مدد سے جہاں دیکھئے، کوئی طالع آزما، زبان و بیان سے اپنا تعارف یوں کراتا ہے کہ اس کو خود قتیل شیوۂ آزری اور ہلاک جادوئے سامری ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ دوسری جانب جو لوگ اشک سحر گاہی سے وضو کرتے اور دعائے نیم شبی میں لبوں کو لرزشِ مخفی و جلی سے آشنا کرتے ہیں، وہ ملت کے مزید انتشار کے خدشے سے لبوں کو سی لینے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ دل کا درد ایسا کہ وہ اپنے وجود کا اعلان بھی نہیں کرپاتے۔ یہ وہ اہل نظر ہیں، جن کو اپنی آبرو کی فکر ہے، دوسری طرف ہر بوالہوس کو دعوائے حُسن پرستی ہے۔ وقتی، مقامی اور محدود مفادات کی حریص سیاست نے جو رنگ دکھائے، اس کا خمیازہ صرف ایک قوم کو بھگتنا پڑتا تو بھی اتنا غم نہ ہوتا، دکھ اس سے زیادہ اشرف البلاد کو ارذل البلاد میں بدلتے دیکھنے کا ہے۔"
معارف، نومبر: ۲۰۲۴ء/صفحہ: ۴/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
خوب دھیان رکھیں کہ آپ جس کے پاس جارہے ہیں اس کی مصروفیات کیاہیں ؟ اگر آپ نے اپنے وقت کو ملحوظ رکھ کر وہاں جانے کی کوشش کی تو ممکن ہے ملاقات نہ ہو، ملاقات ہوبھی گئی توممکن ہے بات چیت نہ ہو اوران کے آرام وراحت میں خلل اوردخل کا باعث آپ ہی ہوں گے۔
مثلاً آپ دینی مدارس کے اساتذہ اورذمہ داران ہی کو لے لیجئے یہ لوگ فجرسے پہلے اٹھتے ہیں ،فجر کے بعدسے پڑھانا شروع کردیتے ہیں ،یہ لوگ مسلسل چھ سات گھنٹے پڑھاکرتھک کونڈھال ہوجاتے ہیں اور جب دوپہرمیں ان کو تھوڑا سا وقت آرام اورقیلولہ کے لئے ملتاہے ٹھیک اس وقت آپ انٹری مارتے ہیں سوچیں ان کے دل پرکیاگزرے گی ؟دنیامیں وہی کامیاب شخص ماناجاتاہے جودوسروں کی راحت رسانی کاذریعہ بن کراپنے لئے راحتوں اورمسرتوں کے اسباب تلاش کرلیتاہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کل قیامت کے دن وقت کی بابت بھی سوال ہوگا کہ کہاں خرچ کیا، دنیامیں سب سے زیادہ وقت کی ناقدری ہم مسلمان کرتے ہیں ،میزان عدل مسلمانوں کے لئے ہی لگایاجائے گا،جنت مسلمانوں کے لئے ہی بنائی گئی ہے ، اورجنت میں صرف وہی شخص جاسکے گا جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکامات اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق گزار کر رضائے الٰہی کامستحق ٹھہرا ہو۔
اپنے وقت کو پہچانئے ، اس کی قدر کیجئے ، نہ اپنا وقت ضائع کیجئے نہ دوسروں کا،اپنی افادیت ثابت کیجئے ،یہ رازیؒ، غزالیؒ، گنگوہیؒ ونانوتویؒ، تھانوی ؒو سہارنپوریؒ ، کشمیریؒ و مدنیؒ، بخاریؒ و کاندھلویؒ و غیرہم یوں ہی نہیں چمکے ،ان کودنیا سے گئے ہوئے زمانہ گزر گیا ہے پھربھی یہ لوگ اپنی مکمل خدمات اور کارناموں کے ساتھ ہمارے درمیان میں کیوں زندہ ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وقت کی قدردانی نے اِن لوگوں کو زندہ و جاوید کردیا ہے۔
مشاعرے میں جب وہ اردو اخباروالا شعر پڑھ رہے تھے تو پس منظر میں گبر سنگھ کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔ ان کی شاعری سنتے ہوئے اکثر ہمیں کبن مرزا کی آواز میں گائی ہوئی یہ غزل یاد آتی ہے۔
آئی زنجیر کی آواز خدا خیر کرے
کوئی کچھ بھی کہے تحسین منور یاروں کے یار بلکہ یار غار ہیں۔ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر ہنسا جایا سکتا ہے۔ بشرطیکہ کرنے کو اس سے بہتر کوئی کام نہ ہو، لیکن کبھی کبھی وہ اپنے دوستوں کا امتحان بھی لیتے ہیں۔ کئی برس کا قصہ ہے کہ ہم دونوں ماکھن لال چترویدی یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں شریک ہونے بھوپال گئے۔رات کو تھکے ماندے جب ہوٹل پہنچے تو دونوں کو ایک ہی کمرے میں ٹھہرایا گیا۔بستر پر دراز ہوتے وقت تحسین منور نے کہا کہ ”ہمارے کچھ خراٹے آپ کی نیند میں خلل ڈال سکتے ہیں۔“ ہم نے سوچا کہ یونہی حسب عادت مذاق کررہے ہیں، لیکن جوں ہی تحسین کی آنکھ لگی تو ہماری آنکھ خود بخود کھل گئی۔ خراٹوں کی آوازوں کے اتنے زیروبم تھے کہ انھیں پوری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک خراٹا آتا تھا اور دوسرا کئی خراٹوں کو ساتھ لاتا تھا۔ اتنی انواع واقسام کے خراٹے ہم نے زندگی میں پہلی بار سنے تھے۔ اس میں موسیقی بھی تھی۔راگ بھیروی بھی تھا۔ راگ ڈوگرا بھی تھا۔ جیسے جیسے تحسین کے خراٹوں کا جہاں آباد ہوتا رہا ہماری نیند کا جہاں برباد ہوتا چلاگیا۔ پوری رات ہم نے جاگ کر گزاری اور تحسین نے آرام سے سوکر۔صبح ہونے کے بعد بولے آپ کو نیند میں کوئی زحمت تو نہیں ہوئی۔ خراٹوں کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ خود خراٹے لینے والے کو سنائی نہیں دیتے۔ ان کا لطف دوسروں کو آتا ہے۔
بہرحال بات شروع ہوئی تھی سرسید پر ڈاکٹر سعید عالم کے سولو پلے میں تحسین منور کے رول پر، جو انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ ڈائیلاگ کی ادائیگی اور اداکاری دونوں لاجواب تھی۔تھیٹر کی دنیا کی ممتاز ومعروف شخصیت ڈاکٹر سعید عالم نے اس سولو پلے کو نہ صرف بڑی محنت سے لکھا ہے بلکہ ان کی ہدایت کاری بھی لاجواب ہے۔تحسین منورکو سرسید کے کردار میں دیکھ کر اچھا لگا۔ اس سے پہلے انھیں ایک ڈرامہ میں چنے بیچتے ہوئے اور ایک دوسرے ڈرامہ میں جھاڑو لگاتے ہوئے دیکھ کر جو تشویش ہوئی تھی سرسید کے کردار نے اس کا ازالہ کردیا۔ بس ایک بات اپنے دوست ڈاکٹر سعید عالم سے کہنی ہے کہ وہ اگلی بار جب یہ سولو پلے پیش کریں تو سرسید کی داڑھی کسی اچھے زلف تراش سے بنوائیں یا پھر تحسین منور سے کہیں کہ جب تک وہ سرسید کا کردار اداکریں اپنی داڑھی چھوڑ دیں مگر اس کے لیے انھیں زہرہ بھابھی سے اجازت لینی ہوگی۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
نے توجہ و انہماک سے سنا۔ الحمد للہ بہت زیادہ پسند کیاگیا۔ مضمون کو تاریخی بنانے کے لئے راقم نے ’’خوشنودیٔ رب‘‘ کا اضافہ کردیا تھا، ’’حقیقت قربانی، خوشنودیٔ رب‘‘ کے ابجدی اعداد ۱۴۴۵ھ ہوتے ہیں۔ ایک اور عنوان ’’حقیقت قربانی، قربانی اسم‘‘ بھی تجویز کیا گیا تھا، اس کے اعداد بھی ۱۴۴۵ھ ہوتے ہیں۔ مضمون کے درمیان میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذکرمیں ’’ذبیح، فردِ عظیم‘‘ کے اعداد (۲۰۲۴ء) سے بھی مضمون کے سن عیسوی کی تخریج ہوتی ہے۔ نثری حصہ کی قراء ت کے بعد شعری نشست کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں مہندر ناتھ منٹو، عامر شکیب، فتح اللہ شریف، منصو ر اعظمی، جمشید انصاری، افتخار راغب، یوسف کمال، مبصر ایمان، نظامت کے فرائض انجام دے رہے مظفرنایاب اورمسند صدارت پر متمکن محترم شاد اکولوی صاحب وغیرہم نے اپنا کلام پیش کیا۔ دریں اثناء محترم نایاب صاحب نے ہر شاعر کی تمہید میں واقعہ قربانی میں حضرت ابراہیم کے جذبۂ قربانی اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جذبۂ ایثار کا وہ منظوم حصہ جو حفیظ جالندھری کے شاہنامۂ اسلام کا حسین ترین شاہکار ہے، بالاقساط پڑھا کر سنایا، جس نے اس شعری نشست کا لطف دوبالا کردیا۔
بحیثیت مہمان خصوصی راقم نے جزیرۃ العرب میں گونجنے والی صدائے اردو پر حلقۂ ادب اسلامی قطر کے منتظمین کی کوششوں کو سراہا، جنہوںنے اپنی تہذیبی و ثقافتی شناخت کو قائم رکھنے کے لئے ہرممکن جدوجہد کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں شاد اکولوی صاحب نے راقم کے مضمون کی بہت زیادہ مدح سرائی کی جو ان کے حسنِ سماعت کی دلیل ہے۔ رات دیر گئے نشست کا اختتام ہوا اور ہم اپنے مستقر واپس آگئے۔
۱۴؍جون جمعہ کا دن تھا، اس دن منیب میاں سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں اُس مسجد میںنماز ادا کرنی تھی جو یہاں کے سرکاری دفاتر کے علاقہ ’’پرل‘‘ میں ترکی طرزِ تعمیر کے سبب ’’ترکی مسجد‘‘ کہلاتی ہے۔ ہماری رہائش گاہ سے قدرے فاصلے پر واقع اس مسجد میںنماز کے لئے کافی پہلے نکلنا ہوا۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وہاں پہنچے، مسجد کے بیسمنٹ میں بہت بڑی پارکنگ ہے، جہاں ہزارہا گاڑیاں کھڑی ہوسکتی ہیں۔ سیکورٹی کا چست درست نظام،مجال نہیں جو ایک گاڑی بھی ادھر سے ادھر کھڑی ہو کر دوسری گاڑیوںکے لئے مسئلہ بن جائے۔بہت ہی خوبصورت،عالی شان، جدید آرائشی و زیبائشی اشیاء سے سجی دھجی اس مسجد کا ایک ایک حصہ اپنے حسن کو بیان کر رہاتھا۔ صفائی و ستھرائی اس پر مستزاد، بلند و بالا، کشادہ، مسجد میں روشنی و ہوا کا مصنوعی نظم اپنی جگہ، بذاتِ خود اس میںصفائی ، روشنی وقدرتی ہوا کا بہرطور خیال رکھاگیا ہے۔
بہت ہی سکون و اطمینان کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرکے گھر واپس ہوئے۔ راستہ میں قطر کی بلند و بالا مختلف النوع عمارتوںکے بارے میں منیب میاں تفصیلات فراہم کرتے رہے، بیشتر عمارات میں سرکاری و نجی دفاتر ہیںجو قطر کی ہمہ جہتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ رات میں بچوں کے ساتھ ’’سوق وکرہ‘‘ گئے، یہاں پر مچھلی، مندی، بریانی سے لطف اندوز ہوئے۔
۱۶؍جون کو عید الاضحیٰ (۱۰؍ذی الحجہ) کی نماز کے لئے کہیں اور جانے کا پروگرام ذہن میں تھا، لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ یہاں طلوعِ شمس کے فوراً بعد عیدین کی نماز کا رواج ہے، تو ہم نے کہیں بھی جانے کا منصوبہ ترک کردیا۔ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرنے کے بعدمسجد میں مائک پر بہ آواز بلند تکبیر تشریق کا سلسلہ جاری ہوگیا، جو تقریباً ایک گھنٹہ چلنے کے بعد اشراق کے اولین وقت میں عید الاضحی کی نماز پر منتہی ہوا۔ نماز کے بعد امام صاحب نے خطبہ مسنونہ پیش کیا جس میں توحید و تقویٰ کی حقیقت بڑے ہی مؤثر انداز میں پیش کرنے کے بعد امام مسجد نے تکبیر تشریق کی حقیقت سے بھی سامعین کو واقف کرایا۔ موصوف نے انتہائی جوشیلے لہجہ میں کہا کہ ’’ایک مومن جب الحمدللہ کہتا ہے تو فی الحقیقت اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اللہ رب العزت ہی ہر چیز کا مالک وقابض ہے اور دنیا کی ہر شئے اس کے سامنے قاصر و مجبور ہے، صرف اور صرف وہی ذات عبادت کے لائق ہے۔‘‘ اس خطبہ میں انہوںنے ان عربوں کی غیرت کو بھی للکارا جو موجودہ حالات میں امریکہ کی غلامی کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں۔ امام صاحب نے اسے ایمان کی کمزوری قرار دیا۔ اسرائیل کے ظالمانہ، وحشیانہ حملوں کی مذمت اور فلسطینی معصوم و مظلوم، بے سہارا، نہتے مسلمانوں کی ہمدردی و غمگساری کے جتنے موثر الفاظ ہوسکتے تھے اُن کو آپ نے اپنے خطاب میں استعمال کیا۔
خطبہ سنتے ہوئے میں سوچ رہا تھاکہ عربوں کے تعلق سے جو شبیہ ہمارے ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہے کہ وہ مظلوموں کے ہمدرد نہیں ہیں، یہ بات پوری طرح درست نہیں کہی جاسکتی، کیوںکہ یہ خطیب مصری عرب ہی تھے، جو حالات حاضرہ پر بے تکلفی، روانی اور پرجوش الفاظ میں اپنے بھائیوں کو حمیت و غیرت کا ’’فراموش کردہ‘‘ سبق یاد دلارہے تھے۔ اس خطبہ سے متاثر بہت سے حضرات کا یہ کہنا تھا کہ پورے بلادِ عرب میں صرف اور صرف قطر میں ہی اس قسم کا خطبہ دیا جاسکتا ہے، باقی دوسرے ممالک میں
کافی پہلے ہم لوگ مسجد میں داخل ہوئے، گیٹ پر امام صاحب کے خطبہ کا انگریزی، فرانسیسی یا دوسری زبانوںمیں ترجمہ سننے کے لئے سماعی آلات کا نظم ہے جو اپنی آئی ڈی جمع کرنے پر فراہم کیا جاتا ہے۔ امام صاحب کے خطبہ کا اشاراتی ترجمہ کرنے کے لئے بھی ایک صاحب اپنی حرکات و سکنات سے مفہوم ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خطبہ عربی زبان میں تھا۔ اس ہفتہ کا موضوع ’’سچائی اور حق پر ثابت قدمی‘‘ تھا۔ خطبہ و نماز سے فارغ ہو کر مسجد کے باہر قطر ایجوکیشن سوسائٹی کی جھلک دیکھنے کے لئے الیکٹریکل ٹرامب کا سفر کیا گیا، جو پوری طرح ایئر کنڈیشنڈ ہے اور اس ٹرامب کا کوئی کرایہ نہیں ہے، یہ صرف قطر یونیورسٹی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ بہت آرام دہ نشستیں ہیں، تھوڑی دیر اس کا لطف لے کر ہم یزداں۱۳ (اپنی رہائش گا پر) واپس ہوئے۔
ہماری رہائش گاہ والے کمپائونڈ میں جو مسجد ہے وہ ابھی حال ہی میں تعمیر ہوئی بلکہ یہ پورا کمپائونڈ ہی جدید تعمیر شدہ ہے۔ اس مسجدمیں نماز کی شروعات گزشتہ رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ مطابق مارچ ۲۰۲۴ء میں ہوئی ہے،ماشاء اللہ یہ بھی بہت بڑی مسجد ہے، مسجد کے دو حصے ہیں، اندرونی آخری حصہ میں ۲۹؍صفیں ہیں، جن میں ہر صف میں تقریباً ایک سو آدمی بہ آسانی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اندرونی اول حصہ میں دونوں طرف کم و بیش ایک تہائی جگہ عورتوں کے لئے مخصوص ہونے کے باعث چھوٹا معلوم ہوتا ہے، لیکن اس میں بھی گیارہ صفیں ہیں جن میں ہر صف میںچالیس آدمی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے باہر کھلا حصہ ہے، جس میں ایک طرف وضوخانہ ہے، بیرونی حصہ میں چاروں طرف پارکنگ ہے، جس میں کئی سو کاریں کھڑی ہوسکتی ہیں۔امسال اسی علاقہ میںرہائش تھی، یہ بالکل نئی آبادی ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سے علاقوںمیں جانے کا اتفاق ہوا، بحیثیت مجموعی تمام مسجدوں کی ایک خصوصیت یہ دیکھنے کو ملی کہ مقتدیوں کا رویہ بچوں کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ و مربیانہ ہوتاہے۔ بچے نماز کے درمیان کھیل کود، دھینگا مشتی کرتے رہتے ہیں لیکن بڑے اُن کو کچھ نہیں کہتے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اگر کسی بات کو لے کر دو افراد کے درمیان اختلاف، بحث و مباحثہ، تلخ کلامی ہوجائے تو اگلی نمازمیں دونوں ہی فریق ایک دوسرے سے معافی تلافی کرلیتے ہیں۔
مسجد میں روشنی، اے سی کا زبردست انتظام ہے، اوسکر کمپنی کے بہت خوبصورت جدید ترین ٹیکنک سے آراستہ جہازی سائز کے تقریباً چالیس اے سی اندرونی حصہ میں ہیںجن میں ہر ایک کا حجم ساڑھے پانچ ٹن ہے، بالائی حصہ میں مستورات کے لئے نماز باجماعت کا اہتمام ہے، وہاںبھی تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔
مذکورہ مسجد کے امام مصر کے باشندہ ہیں، جن کا نام شیخ محمد ابراہیم ہے۔ بڑی مسجد میں نمازی زیادہ ہونے کے باوجود بھی کم ہی نظر آتے ہیں۔ نماز میں بچوں کا شور و شغب بھی رہتا ہے، جسے کوئی بھی نہیں روکتا۔ عرب بچے تو مسجد میں آکر خوب دھما چوکڑی مچاتے ہیں۔ امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی بچوں کی ٹولیاں کھیلتے کودتے امام صاحب کے پاس جا کر سلام کرتے ہیں، جس کا وہ مسکرا کر جواب دیتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر ہر نماز کے بعد بچوں کو ٹافیاں تقسیم کرتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اُن کی خوش اخلاقی بچوںکومسجد لے آتی ہے ، ان شاء اللہ مستقبل کے پختہ نمازی بننے کی انہیں بچوںسے توقع ہے اور وہ بھی غالباً یہی سوچ کر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے۔ ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے فوراً بعد امام صاحب بہ آواز بلند قنوتِ نازلہ کا اہتمام کرتے ہیں، جس میں مسلمانوں کی سربلندی، یہود و نصاریٰ کی شکست، فلسطین، سوڈان اور دوسرے علاقوںمیں مسلمانوں پر کئے جانے والے ظلم سے نجات عطا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور صدقِ دل سے دعا مانگتے ہیں جس پر سبھی نمازی آمین کا اعادہ کرتے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ پورے کمپاؤنڈ میں جو تقریباً چھوٹے بڑے آٹھ سو گھروں اور کشادہ سڑکوں، پارکنگ، بچوں کے لئے بیسمنٹ میں کھیلنے کی سہولیات، سوئمنگ پول وغیرہ سے آراستہ ہے، یہاں پر سرکاری طور پر نہ تو بجلی ہے اور نہ ہی پانی، کسی بھی بلڈنگ کی چھت پر کوئی پانی کا ٹینک نظر نہیں آتا اور نہ ہی کوئی بورنگ کی علامت۔ اس کے باوجود کسی لمحہ بھی یہ تصور نہیں ہے کہ یہ دونوں چیزیں (بجلی و پانی) ایک سیکنڈ کے لئے اپنی متعینہ خدمت سے غافل ہوئی ہوں۔ الحمد للہ کمپنی نے اپنے اجارہ داروں کو جتنی سہولیات فراہم کر رکھی ہیں اُن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ہمہ وقت بجلی کے لئے بڑے بڑے جنریٹر اور پانی کے لئے مسلسل بڑے بڑے ٹینکروں کے ذریعہ پانی کے ذخیرے سے یہاں رہنے والوں کو بجلی و پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مکینوں کو سہولیات فراہم کرنا سرکاری طور پر کمپنیوں کی ذمہ داری ہے جس میں غفلت ہونے پر اُن کا لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔ تفریحی مقامات اگر چہ زیادہ دور نہیں ہیں لیکن ملازمین کی اپنی مجبوریوں کے باعث یہ ممکن نہیں کہ بیس پچیس کلو میٹر کے فاصلوں پر روز جایا جائے۔ اس کے باوجود الحمد اللہ منیب میاںنے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیاحتِ قطر
ڈاکٹر عبید اقبال عاصم
/channel/ilmokitab
قطر ایک ایسی ریاست ہے جو ۱۷۶۰ء تک خالص بدوؤں کا علاقہ تھا۔ ۱۸۶۸ء تک یہ برطانیہ کی زیر اثر حکومت میںتھا۔ ۱۸۶۸ء میں آل ثانی نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرلی اور اسے آزاد ریاست کا درجہ دے دیا۔ بیسویں صد میںسلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد یہ پھر سلطنتِ برطانیہ کے قبضہ میں آگیا، لیکن ۱۹۷۱ء میں اسے مکمل آزادی حاصل ہوگئی۔ اس ملک پر آلِ ثانی خاندان کی حکومت ہے۔ یہاں پر اسلامی قانون نافذ ہیں۔ تیل کی برآمد کے بعد یہ ملک دنیا کا سب سے زیادہ فی کس آمدنی والا ملک ہے۔ قدرتی ذخائر سے مالامال اس ملک کی اپنی آبادی محدود ہے۔ ہند، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کی ایک بڑی تعداد بہ سلسلۂ روزگار اس چھوٹے سے ملک میں آباد ہے، جس کی وجہ سے ان کے اقرباء کی آمد و رفت اس ملک میں رہتی ہے۔ میری بیٹی اور داماد اپنے بچوں کے ساتھ اس ملک کے مکین ہیں، اس لئے گزشتہ سال چند دن کے لئے اور امسال دو ماہ قطرمیں رہنا ہوا۔قطر کے بہت سے علاقوں، وہاں کی تہذیب و ثقافت کو جاننے، سمجھنے کا موقع ملا، اس ملک میں آباد اردو خواں حضرات کی ادبی سرگرمیوں سے واقفیت ہوئی، تاریخی مقامات کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ہمارا سفر ۲۰؍مئی ۲۰۲۴ء سے شروع ہو کر ۱۷؍جولائی کو اختتام پذیرہوا۔
مورخہ ۲۰؍مئی ۲۰۲۴ء کی صبح چار بجے علی گڑھ سے دہلی کے لئے عزیزم عمر سلمہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اور اہلیہ کو دہلی ایئرپورٹ چھوڑنے جا رہے تھے تومیں اپنے خیالات کی دنیا میں گم، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی اس قدرت کے بارے میں غور و فکر کر رہا تھا جو اس نے ’’خاک کے پتلے‘‘ کے دماغ میں ’’عقل‘‘ کے نام سے رکھی ہے۔ یہ غیر مرئی ’’نعمت غیر مترقبہ‘‘ کا ہی کمال ہے کہ انسان نے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اسے جس طرح چاہا زیر کرلیا، اب سے پچاس ساٹھ سال قبل تک جس ہوائی سفر کے واقعات انسانی دنیا میں ’’عجوبہ‘‘ سمجھے جاتے تھے وہ آج اُس کے روز مرہ کے معمولات میں شامل ہوگئے ہیں۔ سڑکوں پر تیز رفتار دوڑ تی گاڑیوں کو کبھی ’’حیرت سرائے‘‘ کی کہانیوں کے ضمن میں شمار کیا جاتا تھا لیکن آج اکثر و بیشتر انسان اس کے اسٹیرنگ پر بیٹھ کر ہفتوں کا سفر دنوں میں اور دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال میں لا کر انسان نے ہوائی راستوں کو مسخر کیا تو ہزارہا میل کی مسافت کو چند گھنٹوں میں مکمل کرنا اس کا شعار بن گیا۔ الغرض اسی قسم کے خیالات کی دنیا میں مگن علی گڑھ سے دہلی کا ایئرپورٹ تک کا سفر محض ڈھائی گھنٹہ میں تکمیل کو پہنچا، تو ہم لوگ ساڑھے چھ بجے صبح اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے احاطہ میں داخل ہوگئے جہاں ہمیں قطر ایئرویز کے طیارے QR571 کے ذریعہ دس بج کر پینتیس منٹ پر دوحہ کے لئے پرواز کرنا تھا۔
ایئرپورٹ کے احاطہ میں داخلہ تو پاسپورٹ اور ٹکٹ دکھا کر آسانی سے مل گیا، لیکن چیک ان کی لائن میں ہمیں پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب ہمارے ویزے اور واپسی ٹکٹ کی تاریخوں میں واضح فرق تھا۔ ایئرلائن کے اصول کے مطابق ہماری واپسی ویزا مدت کے اندر اندر ہونی چاہئے تھی جو کہ اُس مدت سے باہر تھی۔ بہرحال صورت حال اتنی غیرمتوقع بھی نہیں تھی۔ عملہ کا سلوک ہمدردانہ تھا، ہم نے عمر میاں کو فون کیا، جو ابھی ایئرپورٹ سے زیادہ دور نہیں گئے تھے۔ انہوںنے آدھے گھنٹے کے اندر اندر دوسرا ٹکٹ فراہم کرکے ہمیں میل کردیا۔ ہم نے ذمہ داران کو دکھایا اور انہوںنے ہمیں جہاز میں بیٹھ کر قطر جانے کی راہ ہموار کردی۔ امیگریشن، سیکورٹی چیک وغیرہ کے مراحل طے کرکے ہم گیٹ نمبر۳ کے اُس لائونج میں جا بیٹھے جو QR571 کے مسافرین کے لئے مخصوص تھا۔ آدھا گھنٹہ قبل ہم جہاز میں بیٹھے اور وقت متعینہ پر طیارہ نے زمین سے جدائی کے لئے قلانچیں بھرتے ہوئے فضا میں اڑنا شروع کردیا، کم و بیش چار گھنٹوں کی مسافت کے بعد قطر کے وقت کے مطابق سوا بارہ بجے (ہندوستانی وقت دو بج کر پینتالیس منٹ) ہمارے جہاز کے پہئے دوحہ کی سرزمین کو چھو رہے تھے۔ قطری وقت کے حساب سے ہم ایک بجے دوحہ ایئرپورٹ سے باہر تھے، جہاں ہماری بیٹی عدیلہ عاصم اور اُن کے شوہر منیب غازی دنوں بچوں حمّاد و عمار کے ساتھ گاڑی لئے ہوئے ہماری آمد کے منتظر تھے۔ گاڑی میں بیٹھ کر سکون ہوا اور بیس پچیس منٹ بعد ہی اپنے مستقر یزدان ۱۳ (جہاں منیب میاں کی رہائش ہے) پہنچ گئے۔یہ علاقہ ’’الحدائق الجنوب‘‘ یا جنوب گارڈن کے نام سے جانا جاتا ہے۔۲۰۲۲ء میں فیفا کے وقت جو آٹھ اسٹیڈیم تعمیر کئے گئے تھے، اُن میں سے ایک ’’جنوب گارڈن‘‘ کہلاتا ہے، وہ اسی علاقہ میں ہے۔ یزدان ۱۳ بہت خوبصورت علاقہ ہے جہاں کی رہائش بہت آرام دہ ہے، کئی سو مکانات پر مشتمل اس کیمپس کی اندرونی سڑکیں بہت زیادہ کشادہ ہیں، صفائی ، ستھرائی قابل دید ہے، کیمپس کے اندر بیسمنٹ میںبہت بڑی پارکنگ ہے جس میں کیمپس میں مقیم سبھی کمپنیوں کی
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في قدح رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 200-199
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
وفیات مورخہ: ۲۶/ نومبر
Https://telegram.me/ilmokitab
رشید احمد، سید 26/نومبر/2005ء
شجاع احمد زیبا، پروفیسر 26/نومبر/1995ء
عرش تیموری(مرزا حمد سلیم شاہ) 26/نومبر/1964ء
کمال جبلپوری 26/نومبر/1983ء
محمد حسن پال، میجر جنرل 26/نومبر/1993ء
مولانا شوکت علی 26/نومبر/1939ء
حافظ سعید احمد پالن پوری 26/نومبر/2019ء
مولانا عبد اللہ محدث غازی پوری 26/نومبر/1918ء
ثمرچھپرپوی، عبد الحفیظ صدیقی 26/نومبر/1974ء
مولانا عبد اللہ محدث غازی پوری 26/نومبر/1918ء
چاند عثمانی (ایکٹرس) 26/نومبر/1989ء
حرمین شریفین سے واپسی
(ناصرالدین مظاہری)
حج یا عمرہ سے فارغ ہوکر آپ وطن واپسی کے لئے جب تیاری کریں تو درج ذیل باتوں پر ضرور دھیان دیں۔
سب سے پہلے اپنے ٹکٹ پر بیگ کی تعداد اور وزن دیکھ لیں پھر اسی کے لحاظ سے خریداری کریں۔ بہت لوگ ڈھیر سارا سامان خرید لیتے ہیں پھر ایئرپورٹ پر ضابطہ سے زیادہ سامان پھینکنا پڑتا ہے۔ کھانا یا ناشتہ کا وقت ہو تو یہیں سے فارغ ہوکر ائیرپورٹ جائیں اگر ایئرپورٹ پہنچ کر کھانے کا وقت ہونے کا امکان ہو تو اپنے ٹور ٹریول والے سے صاف صاف کہئے کہ کھانا پیک کرکے دیدے تاکہ ائیرپورٹ پر کھایا جاسکے۔
ایک صاحب کا آٹھ کلو سامان زیادہ تھا سامان پھینکنا منظور نہیں تھا اس لئے ساڑھے تین سو ریال دے کر رسید حاصل کی۔
ایک دوست نے ہینڈ بیگ میں چودہ کلو سامان رکھ لیا حالانکہ سات کلو کی اجازت ہے نتیجہ یہ ہوا کہ سات کلو سامان وہیں چھوڑ دینا پڑا۔
ہینڈ بیگ اگر حجم کے اعتبار سے بڑا دکھائی دے گا تو ایئرپورٹ والے وزن کرلیتے ہیں اس لئے ہینڈ بیگ میں ایسا سامان رکھیں جو وزنی تو ہو لیکن جگہ کم گھیرے مثلا آپ کھجور رکھ لیں ، کھجور جگہ کم گھیرے گی اور حجم بھی محسوس نہیں ہوگا۔
ایئرپورٹ والوں سے الجھنا بالکل نہیں ہے نرمی اور سادگی پر وہ بہت شفیق ہو جاتے ہیں سختی اور بداخلاقی پر وہ پتھر دل بن سکتے ہیں۔
جدہ ائیرپورٹ پر پہنچنے سے پہلے اپنا ٹرمنل چیک کریں ،سب سے پہلے ٹرالی لے کر اپنا سامان لوڈ کرلیں۔
جدہ کا ٹرمنل بہت بڑا ہے آب اے بی سی کے حساب سے اپنا گیٹ نمبر چیک کرلیں ، آپ کے گیٹ کے سامنے ہی بیرونی حصہ میں زمزم کی پانچ لیٹر بوتل فی پاسپورٹ ساڑھے بارہ ریال میں حاصل کرلیں دھیان رہے یہ پانی خادم الحرمین شریفین کی طرف سے گفٹ ہے ، ساڑھے بارہ ریال پانی کی اجرت نہیں ہے اس کی پیکنگ اور سروس چارج اور ٹرانسپورٹ کا صرف ہے، اسی لئے پانی وزن میں شامل نہیں ہے۔
ٹرمنل پر اپنے مقررہ گیٹ سے اندر پہنچ کر اپنی ائرلائن کے کاؤنٹر کو تلاش کریں اور لائن میں لگ کر آگے بڑھیں کاؤنٹر پر آپ کا پاسپورٹ ٹکٹ ویزہ چیک ہوگا بڑا سامان جو لگیج میں جانا ہے وہ لے لیا جائے گا پانی کی بوتل بھی لے لی جائے گی اور یہ سامان آپ کو آپ کے ملک کے ایئرپورٹ کی بیلٹ پر ملے گا۔اس لئے آپ اپنے سامان پر کوئی ایسی واضح علامت لگالیں جو وہاں دور سے پہچاننے میں آسانی ہو۔
یہاں بورڈنگ پاس مل جائے گا اب اپنے کاغذات لے کر آگے بڑھیں ایک جگہ آپ کی اور آپ کے ہینڈ بیگ کی اسکیننگ ہوگی ، اس سامان میں پانی ، سیال اشیاء، نوک دار یا دھار دار اور غیر قانونی چیزیں بالکل نہ رکھیں ورنہ پریشانی ہوسکتی ہے۔
اب آپ بورڈنگ پاس میں اپنا گیٹ نمبر دیکھ کر گیٹ تک پہنچیں اور کرسیوں پر بیٹھ کر جہاز کے عملہ کے آنے اور کام شروع ہونے کا انتظار کریں۔
یہاں آپ کا بورڈنگ پاس دیکھا جائے گا اور جہاز میں بٹھانے کے لئے بس یا ریمپ کا انتظام کیا جائے گا۔
اپنے جہاز میں اپنی ہی سیٹ پر بیٹھیں اور اپنا ہینڈ بیگ اپنے سر کے اوپر والے کیبن میں ایسی جگہ رکھیں جہاں سے کچھ نکالنا ہو تو نکال سکیں۔
جہاز دو طرح کے ہوتے ہیں بعض کھانا و ناشتہ دیتے ہیں بعض کچھ نہیں دیتے اگر آپ کا ٹکٹ سستا خریدا گیا ہے تو کھانا ناشتہ تو دور پانی ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔بہتر ہے کہ اپنا کھانا اپنے ساتھ لائیں کیونکہ ویسے بھی جہازوں میں جو کھانا ملتا ہے وہ عموما انڈین کو پسند نہیں آتا ہے۔
ائیرپورٹ پر اگر نمازگاہ تک رسائی ہو جائے تو قضا یا ادا نماز ادا کرلیں ورنہ دو رکعت شکرانے کی پڑھ لیں۔
اپنے ملک پہنچ کر صرف ایک کاؤنٹر پر آپ کا پاسپورٹ چیک ہوگا، فنگر کا نشان لیا جائے گا اور بس ۔اب آپ بیلٹ سے اپنا سامان وپانی لے کر باہر آجائیں۔
عزم و ہمت کا نسخہ
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
میں نے ایک دفعہ ١٩٢٦ء میں خلافت کانفرنس دہلی کے صدارت نامہ میں، جو جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ کے درمیان والے میدان میں منعقد ہوئی تھی، یہ کہا تھا کہ اگر شاہ جہاں کی طرح، لال قلعہ کے تختِ طاؤس پر بیٹھنے کی ہوس ہے، تو پہلے بابر کی طرح، بارہ برس ترکستان و افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکراؤ، بدر و حنین کے بغیر فتوحاتِ فاروقی سے لطف اٹھانے کا خیال، خوابِ شیریں سے زیادہ نہیں۔
شذراتِ سلیمانیؒ/حصہ سوم/صفحہ: ٢٢٩/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سلسلہ نمبر: 242
انتخاب مطالعہ
تحریر: *ڈاکٹر محمد امین*
*صنعت*
مغرب کی پالیسی یہ رہی ہے کہ مسلمان ممالک میں بنیادی اور اہم صنعتیں مثلا: بھاری مشینری اور اسٹیل کے کارخانے الیکٹرونکس اور کمپیوٹر وغیرہ کی صنعتیں پروان نہ چڑھنے دی جائیں۔
مسلم ممالک کو صنعتوں کا بنیادی ڈھانچہ ( انفراسٹرکچر) اور بنیادی مہارتیں نہ مہیا ہونے دی جائیں؛ تاکہ مسلم ممالک صنعتی ترقی میں خود کفیل نہ ہوجائیں ؛ بل کہ ان سے خام مال خرید لیا جائے اور انہیں تیار شدہ چیزیں بیچی جائیں ؛ تاکہ مغربی پروڈکٹس کو مارکیٹیں ملتی رہیں اور ان کی اشیاء مہنگے داموں بکتی رہیں، ان کے کارخانے چلتے رہیں، ان کے مزدور روزگار پر لگے رہیں اور مسلم ممالک محض صارف (Consumers) کا کردار ادا کرتے رہیں ۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے مغرب اور یہود کی دور رس پالیسی یہ رہی ہے کہ مسلم ممالک کو آئی - ایم -ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے قرضوں کے جال میں جکڑدیا جائے،ان کی معیشت کو برباد کردیا جائے، سیاسی عدم استحکام کے ذریعے حکمرانوں کو اپنے ماتحت رکھا جائے اور مسلم ممالک میں ایسے لوگ برسر اقتدار لائے جائیں جو اقتدار میں رہنے کے لیے مغربی آشیرواد اور حمایت کے محتاج ہوں،جو مغرب کے پڑھے ہوئے اور تربیت یافتہ ہوں،اس کی تہذیب کے رسیا ہوں،اس کی ترقی سے مرعوب ہوں،ان کے ماہرانہ مشوروں کو اہمیت دیں اور ان کی ترقیاتی حکمت عملی کو سینے سے لگائیں۔
مغرب کی یہ پالیسی کامیاب رہی ہے اور آج کوئی مسلم ملک بھی کامیاب صنعتی ملک نہیں ہے،کوئی مسلمان ملک بھی بنیادی صنعتوں میں خود کفیل نہیں ہے ؛ بل کہ ہر مسلم ملک اپنا قیمتی زرمبادلہ مغرب سے چھوٹی چھوٹی اشیاء در آمد کرنے میں لگادیتا ہے ۔
اس کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک میں ایسے آزاد علمی و تحقیقی ادارے ( تھنک ٹینک) نہیں ہیں جہاں ایسے آزاد ذہن ہوں جو مغربی پالیسیوں کا تنقیدی اور تحلیلی مطالعہ کرسکیں اور مسلم عوام اور حکمرانوں کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرسکیں اور بالفرض کوئی اکا دکا دانشور،محقق یا سیاستدان اس طرح کی باتیں کرے بھی تو وہ ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں،ان کو بے وزن بے تکا بے وقت کی راگنی وغیرہ قرار دیدیا جاتا ہے اور اس کی آواز خاموش کرادی جاتی ہے۔
( *اسلام اور تہذیبِ مغرب کی کشمکش،صفحہ: 196،طبع: بیت الحکمت،لاھور*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
پوری’مومن برادری‘ شاداں و فرحاں ہو گئی، ظ صاحب کی تمام تقریر’ سٗوت‘ اور سٗوت سے متعلق برادری پر محیط تھی کاش اُس زمانے میں بھی موبائیل ہوتا اور ظ صاحب کی’ سٗوتی تقریر ‘ریکارڈ بن جاتی، نہیں بن سکی مگر بھائی ندیم صدیقی کی اس کتاب میں یہ سٗوتی واقعہ ایک تاریخ کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کےلیے درج ہوگیا ہے ۔
خلافت ہاؤس میں منعقد ہونے وا لی اس تقریب کے معاونین میں شہر کے ممتاز روزنامہ’ ہندستان ‘کے مدیر سرفراز آرزو کا کردار بھی شامل حال تھا ، انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ظ صاحب کو اپنے طالب ِعلمی کے دور میں بارہا سنا اور پھر انقلاب میں اُن کے اداریوں کو سبقاً سبقاً پڑھا ہے، یہ اسباق میرے لیے آج بھی مینارۂ نور سے کم نہیں ، سچ تو یہ ہے کہ میری عمر کے اکثر صحافیوں کو انھیں اپنا اُستاد ماننا چاہیے۔
روزنامہ’ ممبئی اُردو نیوز‘ کے ایڈیٹر شکیل رشید نے کہا کہ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع تو میسر نہیں ہوا مگرظ صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی یا انھیں کہیں سنا تو اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملا، اُن کے اداریے میں نے بھی ایک نصاب کی طرح پڑھے ہیں، اُن کے مشفقانہ کردارکو میں فراموش نہیں کر سکتا۔
اس تقریب کےصدر ، جو بہت سی فلموں کے رائٹر بھی ہیں یعنی جاوید صدیقی کو ادبی دُنیا’ روشن دان‘ ۔۔۔ لنگر خانہ اور’ مٹھی بھر کہانیاں ‘ہی نہیں ’اجالے‘ جیسی کتابوں کے حوالے سے نہ صرف جانتی ہے بلکہ اُن کی خاکہ نگاری کے سبب دل کی گہرائیوں سے انھیں مانتی بھی ہے، موصوف نے ظ انصاری کی ’ادبی ضد‘ اور ان کے علم و فضل پر کلام کرتے ہوئے اس تہنیتی تقریب کی صدارتی تقریر کو’ تنقیدی رنگ‘ دیتے ہوئے ظؔ صاحب سے مارکسی نظریات سے تائب ہونے پر اپنے اختلاف کا واضح اظہار بھی کیا اور کہا کہ مارکسی حکومت یقیناً ناکام ہو گئی یا ہو سکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مارکسی نظریات ناکام ہوگئے۔ موصوف نے ندیم صدیقی کی کتاب کے نام سے بھی اختلاف کیا کہ اس کتاب کا نام’ ظ کی شخصیت اور شخصیت‘ ہونا چاہیے تھا اسی کے ساتھ جاوید صدیقی نے یہ بھی کہا کہ’ ندیم میاں نے اپنی پنسل ٹارچ سےظ صاحب پر وہ روشنی ڈالی ہے، جو بڑی بڑی سرچ لائیٹ والے بھی نہ ڈال سکے۔‘
اس تقریب کے اوّلین دعوت نامے میں مدعومقررین کی جو فہرست شائع ہوئی تھی اُس میں محترمہ رفیعہ شبنم عابدی کا نامِ نامی اسم گرامی بھی شامل تھا مگر تقریب میں وہ اپنی گھریلو مجلس کے سبب نہ آسکیں، ظاہر ہے مجلس ِ عزاکا ثواب، ادبی محفل تو نہیں دے سکتی۔ کاش وہ ہوتیں تو ظ صاحب کے بارے میں ایک بہن کی زبان سے ہم کچھ اور محاسنِ ظوئے سنتے۔!!
اس تقریب کی نظامت شہر کے ممتاز شاعر عرفان جعفری نے اپنے دلچسپ انداز سے کی کہ اس نظامت میں انہوں نے تکلم عرفانی سے حاضرین کےلبوں پر ٔتبسم کے گُل کھلانے کی سعیٔ جعفری کا بھی خوبی سے مظاہرہ کیا ۔
مفتی عزیز الرحمان فتح پوری جو ایک پُر گو شاعر بھی ہیں، انہوں نے بتایا کہ ظ صاحب کے دورِ ادارت ہی میں انقلاب میں میرے فتوے کا کالم شروع ہوا تھا جو ابتک جاری وساری ہے بعدہٗ مفتی صاحب نےایک قطعے میں ظؔ صاحب کو اس طرح یاد کیا:
کینہ تھا، کدورت تھی نہ دلآزاری
اس شخص کی ہر بات رہی معیاری
دُنیائے ادب کے لیے اِک نقشِ جمیل
کہتے ہیں کہ’ اِک شخص تھا ظ انصاری‘
مفتی عزیز الرحمان کی دُعائے قلبی کے بعد تمام حاضرین کےلیے عشائیے کے اہتمام پر یہ شاندارتقریب اختتام کو پہنچی۔🌟
پروفیسر سید اقبال نے اپنی ’ اچھی گفتگو ‘اس حسنِ ظن پر تمام کی کہ یقین ہے ڈاکٹر ظؔ انصاری کی تجدیدِ ایمانی کی یہ چھوٹی سی گواہی اللہ کو پسند آجائے اور وہ اُن کی مغفرت کردے ۔
اس پروگرام کو ’تقریبِ رونمائی‘ کا نام دیا گیا تھا، جس پر مہمان خصوصی عبد المعید پھولپوری نے ندیم صدیقی سے سوال کیا کہ اس تقریب کا نام تو ’تقریبِ اجرا‘ ہونا چاہیے تھا تو ندیم صدیقی نے بتایا کہ میرے کرم فرما اور شہر کی ایک مشہور سماجی و فلاحی شخصیت کے حامل محترم علی ایم شمسی کو فون پر اس کتاب کی اجرا کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے اپنی کِبرِ سِنی اور ضعف کے سبب خلافت ہاؤس آنے سے معذرت کر لی تھی ، چونکہ شمسی صاحب سے میرے(ندیم صدیقی کے) کوئی پچاس برس کے بے لوث مراسم اور تعلقات ہیں تو مَیں نے یہ کیا کہ ایک شب بلا اطلاع شمسی صاحب کے ’ کنجِ عافیت‘ پر دستک دیدی، ملاقات ہوئی اور اس گھریلوملاقات کو مَیں نے ایک ’اجرائی تقریب ‘میں یوں بدل دیا کہ مذکورہ کتاب(ظ: اک شخص تھا) کو زرّیں کاغذ میں سجا کر شمسی صاحب کو پیش کی اور انہوں نے اخلاص ِ شمسی کے ساتھ سنہرے کاغذ میں لپٹی ہوئی کتاب کا’ کنجِ عافیت‘ میں اجرا کیا جس کو باقاعدہ ڈاکٹر ظہیر انصاری نے فوٹو لے کر مستند کر لیا، رخصت کے وقت شمسی صاحب کہنے لگے : ندیم میاں! آپ نے غیر متوقع طور پر میرے یہاں آکر صحیح کیا اور اب مَیں آپ کی کتاب کی تقریب میں ضرور آؤں گا، اور وہ آئےاخیر تک تقریب کا وقار بنے رہے۔ کسی بھی کتاب کا اجرا ایک ہی بار ہو نا چاہیے لہٰذا خلافت ہاؤس کی عوامی تقریب کو’ رونمائی‘ کا نام دیا گیا اور ایک خاص بَینر نما کے ذریعے حاضرین کے سامنےکتاب کے جاذب نظر سرورق کی نمائش کی گئی۔
ممبئی کے معروف اُستاد ، بینکر اورفکشن کے نامور شخص، ’ کتھا‘ جیسی کتاب کے مصنف، ساہتیہ اکادیمی کے اعزاز یافتہ خالد اگاسکر جو اِدھر ایک مدت سے اپنی علالت کے سبب گوشہ نشین تھے انھیں بھی کسی طور اس تقریبِ رونمائی میں شرکت پر آمادہ کیا گیا تھا، موصوف نے اپنی تقریر میں ظ صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا :’’ لوگ ظ صاحب کے جتنے مداح تھے تو اتنے ہی ان سے شاکی بھی رہتے تھے کہ وہ برسرِ عام کھوٹے کو کھوٹا اور کھرے کو کھراکہنے کا وصفِ جرأت رکھتے تھے۔ ظ صاحب کی تحریر اِجمال میں تفصیل کی ایک بہترین تصویر ہوتی تھی وہ کم سے کم لفظوں میں سماجی ، سیاسی ادبی صورتِ حال پر اپنا تاثر ایک شگفتگی کے ساتھ بیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے جس سے ملت و قوم اور ادبی صورت ِحال واضح ہو جاتی تھی، اُن کے اِجمالی قول و عمل کا ایک نمونہ اُن کایک حرفی نام ’ ظ‘ بھی ہے جو موصوف کی شخصیت کا بہت خوب مظہر ہے۔
ظ صاحب کم از کم ممبئی جیسے شہر میں لفظ و معنیٰ کے جیسے پارکھ تھے وہ بھی ایک یکتائی ہے، اسے حسنِ اتفاق کہا جائے کہ ندیم صدیقی جواِس کتاب کے مصنف یا مؤ لف ہیں اُن کے ہاں بھی یہ قدر، مشترک ہے۔ یہ کتاب ظؔ صاحب جیسے شخص کے تعلق سے ایک حوالے کی کتاب ہے، جو لوگ ریسرچ ورک کرتے ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اس کتاب میں دیکھیں کہ اِجمال میں ریسرچ کیسے کی جاسکتی ہے، پوری ذمے داری کےساتھ کہہ رہا ہوں
ہے کہ’ ظ شناسی‘ جیسے موضوع پر ندیم صدیقی کی یہ کتاب ریسرچ کرنے والوں کی راہیں روشن کر نے کا خاصا مواد رکھتی ہے۔‘‘
تقریب کی ابتدا ڈاکٹر ظہیر انصاری نے اپنی تحریر سے کی جس میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے تعلق سے باتیں کی گئیں، اُن کے بعد شہر کے معروف شاعر اور اُستاد سید ریاض رحیم نے بھی اپنی لکھی ہوئی باتیں حاضرین کو سنائیں ، دور ِ حاضرجس میں ہمارے لکھنے پڑھنے والے بھی فلمی لوگوں کی طرح اپنےنام ونمود کے خواہاں نظر آتے ہیں، ا س تقریب میں اس کے بر عکس ایک بات ایسی ہوئی جس کو راقم ہی نہیں سنجیدہ اشخاص نے بھی نوٹ کیا، وہ بات یہ تھی کہ ناظم تقریب عرفان جعفری کو صاحبِ کتاب ندیم صدیقی نے چند لمحے کےلیے مائیک سے دور کرتے ہوئے تمام مقررین و حاضرین سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی کہ یہ کتاب اوریہ جلسہ ڈاکٹر ظ انصاری سے منسوب ہے، بیشک یہ کتاب مَیں نے پیش ضرور کی ہے مگر چاہتا ہوں کہ ہمارے مہمان مقرر حضرات، ظ صاحب اور ظ صاحب ہی سے متعلق اس کتاب پرگفتگو کریں میرے تعلق سے زحمت نہ فرمائیں کہ ہم سب آج ظ صاحب کو یاد کرنے اور اُن کے محاسن کےبارے میں سننے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔
مسلم حلقوں میں ایک امتیازی تشخص کے حامل جو ماضی قریب میں شہر کے اکثر ادیبوں اور شاعروں کے دوست بلکہ’ خیاباں پبلی کیشنز‘ کے روح رواں بھی رہے ہیں جنہیں لوگ مولانا ظہیر عباس رضوی کے نامِ نامی اسم گرامی سے یاد کرتے ہیں موصوف کی شرکت بھی اس تقریب کی مظہر ِ روشن بنی ہوئی تھی، مولانا موصوف نے ممبئی کے مکتبہ جامعہ کے اُس سنہرے زمانے کو یاد کرتے ہوئے ظ صاحب سے ملاقاتوں کو اپنی تقریر میں تصویر کرنے کی سعیٔ ظہیر کی اور بتایا کہ وہ میرٹھ کے مشہور شیعی دِینی درس گاہ’ منصبیہ
وفیات مورخہ: ۲۴ / نومبر
Https://telegram.me/ilmokitab
اردشیر کاؤس جی 24/نومبر/2012ء
افضل الفت 24/نومبر/2007ء
جمال زبیری 24/نومبر/2013ء
طاہر شیخ 24/نومبر/2001ء
عبدالجلیل بسمل، محمد 24/نومبر/2009ء
عبرت الٰہ آبادی(سید ظفر حسن) 24/نومبر/1963ء
فاروق نثار 24/نومبر/2004ء
مجید احمد فاروقی 24/نومبر/1990ء
نعیم امجد سلیمی، مولانا 24/نومبر/2005ء
شاہ اسد الرحمٰن قدسی 24/نومبر/1979ء
فضیلۃ الشیخ عبد الله العزام 24/نومبر/1989ء
مولانا محمد طاہر کلکتوی 24/نومبر/1994ء
تاب حیدر آبادی، عبداللہ بن احمد 24/نومبر/1973ء
ابراہیم ڈیسائی، مولانا 24/نومبر/1980ء
علی ابراہیم سمنی، مولانا 24/نومبر/1980ء
عمر آدم دہالوی، مولانا 24/نومبر/1980ء
بھائی عبدالرشید 24/نومبر/1980ء
مولانا یعقوب صاحب 24/نومبر/1980ء
فصیح بخاری 24/نومبر/2013ء
شیخ محمود الطحان 24/نومبر/2022ء
شاہ اسماعیل صفوی ثانی 24/نومبر/1517ء
شیخ عبد اللہ السالم الصباح(الکویت) 24/نومبر/1965ء
سلسلہ نمبر: 241
انتخاب مطالعہ
تحریر: *ڈاکٹر محمد مظفر الدین فاروقی*
*اس گھر کو آگ لگ گئ*
ہندوستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ جہاں ہزاروں افراد نے آزادیٔ وطن کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دی وہیں سینکڑوں ایسے غدار بھی پیدا ہوئے جنہوں نے دولت و اقتدار کی ہوس میں دشمنوں سے ساز باز کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کی _ اؔلہی بخش انہی میں کا ایک سیاہ باطن کردار ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے غاصبانہ اقتدار اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کے لیے جن لوگوں نے تلوار اٹھائی ان میں جہاں سراج الدولہ، حیدر علی، ٹیپو سلطان، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد ﷲ شاہ،جنرل بخت خان،نانا صاحب،تانیتا ٹوپے، شہزادہ فیروز شاہ،مولانا فضل حق خیرآبادی،مولوی عظیم ﷲ خان، علی نقی خان،بیگم حضرت محل اور رانی جھانسی جیسے جانباز موجود تھے،وہاں ہر دور میں غداروں کا ایسا طائفہ بھی موجود رہا جو آستین کے سانپ کا کردار ادا کرتا رہا ہے _ خاص طور پر 1857 کی جنگ آزادی میں اگر غداروں کی جماعت ایک طرف براہ راست انگریزوں کی عسکری مدد اور دوسری طرف شاہی دربار اور مجاہدین کا اعتماد حاصل کرکے ان کی جنگی مشاورتی کونسل میں شامل ہوکر ان کے منصوبوں کی اطلاع انگریزوں کو فراہم نہ کی ہوتی تو اس جنگ کا نقشہ شاید کچھ اور ہی ہوتا۔
انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ اپنی عسکری قوت کی برتری کی بنا پر نہیں کیا ؛ بل کہ سازشوں اور جاسوسی کے بہتر نظام کے بل پر کیا تھا، خاص طور پر 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی کامیابی میں چند بااثر اور بہتر قوت والے دیسی والیان ریاست کی مدد اور غداروں کی ٹولی کا بہت بڑا ہاتھ ہے __ والیان ریاستوں میں پنجاب کی ریاستیں،کشمیر کے ڈوگرا حکمران، گلاب سنگھ ابتداء ہی سے انگریزوں کی مدد کرتے رہے، بعض نے انگریزوں کا پلڑا بھاری ہونے کے بعد ان کا ساتھ دیا جیسے: جیاجی راؤ سندھا،نواب رام پور،وسط ہند کے رجواڑے اور حیدرآباد دکن کے نواب افضل الدولہ اور ان کے وزیر سالار جنگ_ متعدد انگریز مؤرخوں نے اعتراف کیا ہے کہ اگر پنجاب وسط ہند گوالیار اور دکن انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو کمپنی بہادر کی حکومت 1857 میں ختم ہوجاتی۔
غداروں کی ٹولی اور اس کے شرمناک جاسوسی کارناموں کے بارے میں ایک اہم کتاب 1993 میں منظر عام پر آئی ہے،جناب سلیم قریشی اور مشہور شاعر عاشور کاظمی صاحبان نے انڈیا آفس لائبریری سے غداروں کے خطوط جمع کرکے ''اس گھر کو آگ لگ گئ ''کے عنوان سے کتاب شائع کی ہے،جس سے 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کا نیا زاویۂ نظر سامنے آتا ہے،
اس کے ایک اقتباس سے غداروں کے شرمناک کارناموں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ___ میر صادق،میر غلام علی،قاسم علی اور دیوان پورنیا جیسے غدار نہ ہوتے تو ناممکن نہ تہا کہ ٹیپو سلطان ہی اپنی فوجی طاقت اور حکمت عملی کے بل پر پوری انگریزی فوج کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ۔
1857 میں انگریزوں کو فتح اپنی طاقت کے بل پر نہیں ؛ بل کہ مرزا الہی بخش، مولوی رجب علی،گوری شنکر،جیون لال، تراب علی، مان سنگھ، لطافت علی،جواہر سنگھ،امی چند،میر محمد علی،محبوب خان،ہرچند،پربھو،میگھ راج، رستم علی،راجن گوجر وغیرہ کی جاسوسی اور وطن دشمنی کی وجہ سے ہوئی۔
عاشور کاظمی صاحب نے سرجان ولیم کے کی کتاب (Sepoy War In India) سے ایک اقتباس پیش کیا ہے جس میں 1857 کے انقلاب کو ناکام بنانے میں غداروں کے رول کا اعتراف کرتے ہوئے جان ولیم نے لکھا ہے: ”حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان میں ہماری بحالی کا سہرا ہندوستانی پیروکاروں کے سر ہے،جن کی ہمت و جسارت نے ہندوستان کو اپنے ہم وطنوں سے لے کر ہمارے حوالے کردیا“۔
( *ہندوستان میں مسلم دور حکومت کا خاتمہ،صفحہ: 78، طبع: ایم آر پبلیکیشنز،گلی کالے خاں،کوچہ چیلان،دریا گنج،دہلی*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في قول رسول الله ﷺ قبل الطعام و بعد مایفرغ منه
روایت نمبر : 194-192
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
*سنوسنو!!*
*بے کار مباش کچھ کیا کر*
*ناصرالدین مظاہری*
یہ ایک مستقل کہاوت ہے، کہاوت کا دوسرا حصہ ہے کہ ’’کپڑے ادھیڑ کر سیا کر‘‘یعنی کسی انسان کو خالی بیٹھ کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے ،اسی کو فارسی میں کہاجاتا ہے ’’بے کار مباش ہرچہ خواہی کن‘‘یعنی بے کارمت رہو جو چاہے کرو۔
اِس زمانے میں جوں جوں بے روزگاری اور تعلیم سے دوری بڑھتی جارہی ہے، لوگ سمع خراشی اور وقت گزاری کے لئے پورے طور پر فارغ ہوتے جارہے ہیں ، خالی اور ٹھالی لوگ ہی مفید اور کارآمد لوگوں کی سمع خراشی کا زیادہ تر ذریعہ بنتے ہیں یعنی ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ لوگوں کے پاس اس قدر فالتو وقت اور فرصت ہے کہ وہ آپ کے پاس گھنٹوں گھنٹوں بیٹھ کر ضائع کردیں گے۔
*اپنے والدین کے پاس*
میں فالتو بیٹھنے کا بس اتنا قائل ہوں کہ انسان اگر فالتو ہی بیتھنا ہے تو اپنے والدین کے پاس بیٹھے کیونکہ والدین کے پاس بیٹھنا موجب رحمت تو ہے ہی خود والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد بلاکسی لالچ اور دباؤ کے اپنی مرضی سے میرے پاس آکر بیٹھے ،بولے چالے ،حال احوال لے اور اپنا حال چال بتائے اور اس طرح ایک دوسرے کے احوال سے آگہی اور آگاہی کے بعدکچھ نئے مشورے اورکچھ نئی راہیں نکل آتی ہیں۔
*اپنے اساتذہ کے پاس*
اگر بیٹھنا ہی ہے کہ تو اپنے اساتذہ کے پاس ان کے خالی وقت میں جائیں اور ان کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں ،سچ کہتاہوں یہاں آپ کو ایسے ایسے تجربات اور ایسی ایسی راہیں ملیں گی جوآپ کو نہ کتابوں میں ملی ہیں نہ کہیں اورملنے کی توقع ہوسکتی ہے۔
*اساتذہ کا طبقہ*
اساتذہ کا طبقہ آپ کے لئے سب سے زیادہ مخلص ہوتاہے ، یہی طبقہ ہے جس کے اندر آپ کے لئے کوئی بھی حسد نہیں ہوتا ہے، یہی طبقہ ہے جو آپ کے لئے دن رات دعائیں کرتا ہے ،یہ طبقہ آپ کو اپنے سے بھی زیادہ ترقی اورعہدے پردیکھنا چاہتا ہے ،یہ طبقہ آپ کے لئے آپ کے کہے بغیر دست بہ دعا رہتا ہے ،یہ وہ طبقہ ہے جس کی نظروں میں آپ ہمیشہ چھوٹے اور لاڈلے رہتے ہیں ،اس طبقہ سے آپ کوکبھی دھوکہ نہیں مل سکتا، فریب نہیں مل سکتا، یہ ہمیشہ آپ کو نوازتا ہی رہتا ہے ،مشوروں کے ذریعہ،دعاؤں کے ذریعہ اور اپنے اہل تعلق سے آپ کے لئے گفگتوکے ذریعہ۔یہاں سے آپ کبھی بھی ناکام اور نامراد نہیں لوٹ سکتے ہیں ہمیشہ کامیاب اور فائزالمرام ہی واپس ہوں گے۔
*اکابر اہل اللہ کے پاس*
اگر آپ کوسمع خراشی کرنی ہی ہے توکسی بزرگ اللہ والے کی جوتیاں سیدھی کیجئے، ان کی صحبت کو لازم پکڑیئے ، ان کے پاس بیٹھئے اوران کے اقوال وملفوظات اوران کے تجربات ومشاہدات سے فائدہ اٹھایئے ،یہ طبقہ آپ کودینی اورروحانی ہی نہیں آپ کے کاروبارکے لئے ایسامشورہ دے گاجوآپ کے لئے بہترہو،استفاضہ بھی ،استفادہ بھی اورافادہ بھی ۔
ہر کہ خواہد ہم نشینی باخدا
او نشیند .. در حضور اولیاء
ترجمہ: جو بهی خدا کی ہم نشینی چاہتا ہے اسکو کہو کہ اولیاء کے حضور بیٹھا کرے۔
بیں کہ اسرافیل وقت اند اولیاء
مردہ را ذی شان حیات است ونما
ترجمہ: یاد رکهو کہ اولیاء اپنے وقت کے اسرافیل ہوتے ہیں، مردہ قلوب میں روح پهونک کر زندہ و تابندہ کر دیتے ہیں جیسے اسرافیل صور پهونک کر مردہ جسدوں کو زندہ کرتے ہیں۔
.
مسجدے کو اندرون اولیاء است
سجدہ گاہے جملہ است آنجا است
ترجمہ : ه مسجد جو اولیاء کے اندر ہے وہ تمام مخلوقات کی سجدہ گاہ ہے کیونکہ وہاں خدا موجود ہے۔
مولانا روم ہی کا مشہور شعر ہے :
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
*کارخانوں میں جائیں*
اگر آپ کوبیٹھنا ہی ہے توکسی کارخانے پہنچیے اور وہاں کی تکنیک اور طریقہ کو سمجھنے کی کوشش کیجیے، فیکٹری پہنچیں اور کام کی راہیں تلاش کریں، کسی ماہر تجربہ کار کے پاس جائیں اوراس سے زندگی کو خوش گوار بنانے کے گُر اور حکمتیں سیکھیں ،جس سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوسکتا ہو وہاں جائیں تو یقین جانیں ایسے لوگوں کی ہر نشست آپ کے لئے کسی محاضرہ اور کسی سبق سے کم نہیں ہوگی۔ اپنے وقت کو بے کاری اوربے گاری میں ضائع کردینے والے دنیامیں کچھ کرتونہیں سکتے بس حسدکرسکتے ہیں،جل بھن کرکباب ہوسکتے ہیں،آپ کی ترقی دیکھ کردشمنی پر آمادہ اور ایذا رسانی پر کمربستہ ہوسکتے ہیں، یہ لوگ اس لائق ہوتے ہی نہیں کہ آپ ان کو اپنی مجلس یااپنے پاس بیٹھنے دیں ،کیونکہ یہ زمین کابوجھ توہیں ہی آپ کے لئے بھی بوجھ بن سکتے ہیں۔
*دھیان رکھیں*
آپ دھیان رکھیں جب تک کسی کی مجلس میں آپ کی باتیں توجہ اوردلچسپی کے ساتھ سنی جاتی رہیں اسی وقت تک وہاں رہیں اورجیسے ہی محسوس ہوکہ آپ کی باتوں سے لوگوں کو دلچسپی نہیں رہی ،یالوگ اپنے موبائل یا کسی اورچیزمیں مصروف ہونے لگے تو آپ کی عزت کی سلامتی اسی میں ہے کہ آپ چپ چاپ وہاں سے رخصت ہوجائیں ۔
طنزومزاح
تحسین منور‘ سرسید کے بھیس میں
معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
سردی کے موسم میں تحسین منور کاتذکرہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ جاڑوں میں ٹھنڈے پانی سے نہانا۔ تحسین منور نہ جانے کب سے اپنے دوستوں کو سردی میں نہ نہانے کے فائدے سمجھا رہے ہیں، لیکن ان کے دوست ہیں کہ شدید سردی میں بھی نہائے جارہے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ پچھلی سردیوں میں تحسین منور نے غسل خانے کا رخ تک نہیں کیاتھا اور سردی کاپورا موسم بغیرنہائے گزاردیا تھا۔ انھیں دیکھ کر مجھے اکثر اپنے ایک عزیز یاد آتے ہیں، جنھیں میں نے بچپن میں خوب دیکھا۔ وہ سردیوں کے موسم میں لوٹا بھرکے پانی بیت الخلاء لے جاتے تھے اور وہاں سے بھرا ہوا لوٹا ہی واپس لاتے تھے۔ جب ان سے اس کا سبب پوچھا جاتا تو وہ کہتے کہ ”سردی بہت ہے۔“ یوں لگتا ہے کہ تحسین منور کو سردی میں پانی سے دور رہنے کا مشورہ کسی حکیم نے دیا ہوگا۔ غالب گمان ہے کہ یہ مشورہ حکیم ہری کشن لال کا رہا ہوگا،جو پرانی دہلی کے لال کنواں علاقہ میں اپنا مطب کرتے تھے اورجن بیماریوں کا علاج کرتے تھے، ان میں مریض کے صحت یاب ہوجانے کے بعد اس پر غسل واجب ہوجایا کرتا تھا۔
ڈاکٹر سعید عالم کے سولو پلے میں تحسین منور کو سرسید کا کردار اداکرتے ہوئے دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ آخر اتنے دنوں سے نہ نہانے کی وکالت کیوں کررہے تھے۔ اس عمل کے نتیجے میں ان کا جو وزن بڑھا ہے، وہی دراصل سرسید کا کردار نبھانے میں ان کے کام آیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ یہ مشورہ انھیں ڈاکٹر سعید عالم نے اپنا پلے کامیاب بنانے کے لیے قبل از وقت دیا ہو۔ سرسید کا کردار نبھانے کے لیے ایسے ہی جصے کی ضرورت تھی۔ تاریخ میں کہیں پڑھاہے کہ سرسید جب دہلی کے آثارقدیمہ پر اپنی معرکۃ الآراء کتاب ”آثار الصنادید“ لکھ رہے تھے تو انھیں اس کی اتنی دھن سوار تھی کہ ان عمارتوں پر لکھی ہوئی عبارتوں کو پڑھنے کے لیے انھوں نے ایک جھولا بنوایا تھا جس پراپنے بھاری بھرکم جسم سمیت لٹک کر وہ عبارتیں پڑھا کرتے تھے۔سرسیدکے خیرخواہ اس عمل سے خائف بھی رہتے تھے کہ کہیں وہ گرنہ جائیں، مگر انھوں نے یہ عمل جاری رکھا۔اچھا ہوا کہ ڈاکٹر سعید عالم نے اپنے پلے میں ’آثارالصنادید‘کا ذکر نہیں کیا ورنہ تحسین منور کو بھی اسی عمل سے گزرنا پڑتا اور ہم جیسے ان کے دوستوں کو ان کی فکر لاحق ہوتی۔
سرسید کے کردار کی ادائیگی میں جس چیز نے تحسین منور کا سب سے زیادہ ساتھ دیا وہ ان کا باوزن ہونا ہی تھا۔ حالانکہ وہ پچھلے کئی برس سے ’بے وزن‘ ہونے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ جس زمانے میں ریلوے کے مرکزی وزیر لالو پرشاد یادو کے میڈیا ایڈوائزر تھے اور’ریل بھون‘ میں بیٹھا کرتے تھے تو تقریباً روزانہ شام سے پہلے راج پتھ پر واک کرنے جاتے تھے۔ ایک دن میں نے ان کا تعاقب کیا تو پایا کہ ان کی رفتاریوم جمہوریہ کے موقع پر راج پتھ پر نکلنے والی پانڈیچری کی جھانکی سے زیادہ نہیں تھی۔ البتہ واپس آکر وہ دفتر میں سب کو یہی بتاتے تھے کہ آج بہت تیز دوڑے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لالو پرساد پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کو اورتحسین منور’ریل بھون‘ میں صحافیوں کو ہنسانے کے کام پر مامور تھے۔ہنسنے ہنسانے کے اس عمل میں کچھ صحافیوں کے ٹکٹ بھی مفت میں کنفرم ہوجایا کرتے تھے۔یہ تحسین منور کا کمال تھا۔
تحسین منور بڑے کمال کے آدمی ہیں۔ وہ اس کے علاوہ شاعر، ادیب، صحافی، براڈکاسٹر اور تھیٹر کے اداکار بھی ہیں۔ یوں سمجھئے کہ وہ ہرفن مولا ہیں اور نجی محفلوں میں دوستوں کو ہنسانے کاکام بلا معاوضہ انجام دیتے ہیں۔تحسین منور سے ہمارا برادرانہ رشتہ ہے کیونکہ وہ ہمارے صحافت کے استاد پروانہ ردولوی کے بیٹے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا اپنے والد کے ساتھ ہمیشہ چھتیس کا آنکڑا رہا۔ وہ انھیں اپنی ناخلف اولاد شمار کرتے تھے، لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ بڑا ہوکر یہی ناخلق بیٹا ان کا نام روشن کرے گا۔پروانہ ردولوی اردو کے بڑے مشاق صحافی تھے۔ ہم نے ان جیسا مترجم اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ وہ انگریزی مضامین کا ترجمہ بڑی مہارت اور چابک دستی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ایسے ہی جیسے تحسین منور ہندی سے اردو اور اردو سے ہندی کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ان کے بارے یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب اردو سے ہندی کے یا ہندی سے اردو کے قالب میں ڈھل گئے۔
یادش بخیر! انھیں ہم نے اب سے کوئی تین دہائیوں قبل اس وقت دیکھا تھا جب وہ انقلابی قسم کے نوجوان تھے اور ان کی گردن میں مولویوں والا رومال بندھا رہتا تھا۔یہ وہ دور تھا جب وہ دوردرشن کے سری نگر اسٹیشن پر خبریں پڑھنے پر مامور تھے۔ ان کی آواز میں ایک خاص قسم کی گھن گرج تھی اور شاید اسی لیے اس کام کے لیے ان کا انتخاب بھی کیا گیا تھا۔ وہ جب خبریں پڑھتے تو وہاں کے حالات کے مطابق ان کی آواز میں بڑی کچھ اور آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ اس کے بعد جب انھوں نے شاعری شروع کی تو وہاں بھی آواز کے اس زیروبم کو برقرار رکھا۔ایک روز لال قلعہ کے