علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
مولانا ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی سے پہلی شفاہی ملاقات
محمد ساجد کُھجناوری، مدیر ماہنامہ صدائے حق، گنگوہ
/channel/ilmokitab
مرشدی حضرت مولانا شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم کے پسرزادے عزیز گرامی مولوی عبدالسبحان سلمہ نے کل صبح دیوبند سے فون کرکے یہ مسرت آمیز اطلاع دی کہ آج مولانا مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب حضرت اباجی (دادا جان) کی زیارت و ملاقات کے لیے بوڑیہ آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو اس موقع پر آپ کی آمد اور وہاں رہنے سے مزید خوشی ہوگی۔
یہ موقع میرے لیے بھی بسا غنیمت تھا کہ اپنے ایک قلمی محسن (حضرت واجدی) کی یادیں اور باتیں سننے سنانے کا بہانہ ہاتھ لگ رہا ہے۔ مولانا ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی سے باقاعدہ شفاہی ملاقات پہلے سے طے شدہ میرے نظام کا حصہ تھی۔ اس حوالے سے ایک ناکام کوشش میں دیوبند کے ایک ہنگامی سفر میں آٹھ دس روز پہلے کر چکا تھا، مگر مولانا کی طرف سے ان کے حسب گنجائش جو وقت بتایا گیا تھا اس کا پالن کار دشوار تھا۔ اس لیے بادل نخواستہ گنگوہ کی راہ پکڑ لی تھی۔
حسن اتفاق کہ مفتی یاسر ندیم صاحب سے پہلی ملاقات بوڑیہ ضلع یمنانگر ہریانہ کے اسی روحانی دربار میں ہوئی جہاں آج سے تقریباً دو سال قبل بائیس دسمبر 2022 کو آپ کے نامور والد، بلند پایہ مصنف اور ترجمان دیوبند مولانا ندیم الواجدی رحمہ اللہ تعالی نے پہلے پہل قدم رنجہ فرمایا تھا۔ اس پہلے سفر میں بلکہ دوسرے میں بھی حضرت مولانا نے گنگوہ آ کر ناچیز کو اپنے ساتھ لیا تھا جس کا تذکرہ انھوں نے اپنے ایک مفصل مضمون میں بھی کیا ہے۔
گنگوہ اور بوڑیہ کے درمیان پچپن تا ساٹھ کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ نہیں ہے۔ اس لیے اپنے مدرسی امور نبھانے کے بعد بوڑیہ کے لیے نکلے تو ساڑھے بارہ بجے تک وہاں پہنچ گئے۔ حضرت جی بوڑیوی حسب معمول واردین و سالکین سے محو گفتگو تھے۔ رائے پور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد طاہر صاحب مظاہری اور وہاں کے مؤقر استاد جناب قاری رئیس احمد رام پوری وغیرہ حاضرین میں نمایاں تھے۔ بعد میں حضرت مولانا مفتی ابو جندل قاسمی بھی نعمت غیر مترقبہ کے طور پر یہیں مل گئے۔ ان سے بھی آج پہلی شفاہی ملاقات تھی۔
بہر کیف، اسی درمیان اطلاع ملی کہ مفتی یاسر ندیم صاحب پہنچنے والے ہیں۔ مدرسہ ضیاء القرآن خانقاہ کی نئی عمارت میں مفتی یاسر ندیم صاحب کی آمد ہوئی تو یہ ناچیز خیر مقدمی کلمات کہنے کے لیے موجود تھا۔ غائبانہ راہ و رسم پہلے سے تھی۔ علیک سلیک ہوئی تو مفتی صاحب نے شکل سے بھی جاننے کا برملا اظہار کر دیا۔
دار العلوم دیوبند میں مفتی یاسر ندیم الواجدی کی انتہائی تعلیم کا دورانیہ آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے۔ آپ نہایت ذہین و فطین، روشن فکر اور علم و مطالعہ کی جستجو رکھنے والے ہونہار طلبہ میں شمار ہوتے تھے۔ مشرق کے مناہل علم و عرفان سے سیرابی کرکے انھوں نے مغرب کی وادیوں میں صدائے حق بلند کرنے کا عزیمت والا سفر شروع کر رکھا ہے۔
رد الحاد کے موضوع پر نئی نسل انھیں رول ماڈل کی حیثیت سے جاننے اور پہچاننے لگی ہے۔ ان کی سب سے پہلی تصنیف "گلوبلائیزیشن اور اسلام" پر لاہور کے پروفیسر خورشید احمد نے اپنے تبصرہ میں جن توقعات کا اظہار کیا تھا، عملی طور سے وہ نظر آنے لگی ہیں۔
مولانا یاسر ندیم صاحب نے تقریباً پانچ گھنٹے خانقاہ فیضان مسیح الامہ کے ماحول میں گزارے۔ وہ انتہائی متواضع، خوش اخلاق اور اپنے والد گرامی کا پرتو نظر آئے۔ حضرت جی کے حکم پر آپ نے کچھ دیر مؤثر گفتگو بھی فرمائی جس سے مخاطبین کی کیفیت ما سوا تھی۔
دوران ملاقات کئی ایک موضوعات پر انھوں نے بے تکلف اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا۔ عصر کی اذان ہو چکی تھی۔ ہمیں بھی آگے کا سفر طے کرنا تھا۔ اس لیے نماز عصر ادا کرنے کے بعد جلدی ہی دوبارہ یہاں آنے اور ملاقات کی یقین دہانی کرا کے مفتی صاحب نے وطن اقامت دیوبند کی راہ لے لی۔
22/11/2024
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
یہ شارعِ عام نہیں ہے...- احمد حاطب صدیقی
ملک کے ایک ممتاز ادیب [مقیم کراچی]کو ایک روز چلتے چلتے اچانک خیال آیا:
’’ارے، میں تو شارع فیصل پر چلا جارہا ہوں‘‘۔
اُن کے دل میں خیال آیا تو ذہن میں سوال آیا:
’’اس شاہ راہ کو ’شارع‘ کا نام کیوں دیا گیا؟ شارع تو شریعت عطا کرنے والے کوکہتے ہیں‘‘۔
اُردو کا محاورہ ہے ’شرع میں کیا شرم؟‘مفہوم یہ کہ شرعی مسئلہ پوچھنے میں شرمانا نہیں چاہیے۔ چناں چہ اُنھوں نے بڑی بے شرمی سے اپنا یہ سوال ہمیں بھیج دیا۔ یہ نہ سوچا کہ بھلا ہمارا شرع سے کیا تعلق؟ ذرا شرم نہ آئی ہمیں شرمندگی میں مبتلا کرتے ہوئے۔
خیر، جب اُنھوں نے سوال بھیج ہی دیا تو شرما شرمی میں ہمیں بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔ سو، پہلا کام تو یہ کیا کہ لغات کھنگالے۔ لغت بازی سے فقط اتنا معلوم ہوا کہ ’شرع‘ قانون بنانے کو کہتے ہیں۔ اس کے آگے ’شرعی مرکبات‘ بنے ہوئے تھے، مثلاً شرعی پاجامہ، شرعی ڈاڑھی اور ’شرعی حیلہ‘ وغیرہ۔ ان حیلوں سے دل کو اطمینان نہیں ہوا۔ سو، اطمینانِ قلب کے لیے کچھ علما سے رجوع کیا۔ ’مرجوعین‘ سے ’شرع‘ کے مختلف معانی تو معلوم ہوئے، شرحِ صدر نہیں ہوا۔ بالآخر لغاتِ قرآنی کے شناور، شیخ القرآن و الحدیث فضیلۃ الشیخ خلیل الرحمٰن چشتی حفظہٗ اللہ کے حضور پہنچے اور اُن سے رجوع لائے۔ آپ کے جوابات سے آنکھیں بھی کھل گئیں، گرہیں بھی کھل گئیں اور راہیں بلکہ شاہ راہیں بھی۔ حتیٰ کہ شارع فیصل بھی خوب کھلی کھلی،کشادہ کشادہ اور روشن روشن نظر آنے لگی۔
پہلے تو آپ نے فرمایا:
’’آج ہی آپ کا ذکرِ خیر ہوا۔ سید مکرم علی صاحب تشریف لائے تھے۔ اُن سے بار بار آپ کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی‘‘۔
پھر اُردو میں بولے کہ ’’عربی عجیب و غریب زبان ہے۔ عربی کیا، ہر زبان ہی عجیب ہوتی ہے۔ اب دیکھیے آپ ہر ہفتے اُردو الفاظ کی تہ میں جاتے ہیں اور اُن کے مختلف معانی نکال کر لاتے ہیں، پھر ان معانی کو کھولتے ہیں۔ لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ اچھا یہ لفظ عربی کا تھا، عربی سے فارسی میں آیا۔ فارسی میں آکر یہ مفہوم دینے لگا، اُردو میں آیا تو یہ مفہوم دینے لگا۔ اس کی ہیئت ایسی ہوگئی۔ مفہوم ایسے بدل گیا، وغیرہ وغیرہ…‘‘
ان تمہیدی کلمات کے بعد چشتی صاحب نے’شرع‘ کے جو تفصیلی استعمالات بتائے اُنھیں ہم اپنے الفاظ میں اور اپنے نمک دان سے نمک مرچ چھڑک کر آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں۔
’ش ر ع‘ کے مادّے سے بننے والے الفاظ کے لاتعداد معانی ہیں۔ ان میں سے ایک معنی’ شروع ہونا‘ ہے (’شَرَعَ یشرَعُ‘ باب فَتَحَ سے ہے۔ بحکم خلیل الرحمٰن چشتی) نحو کی زبان میں کچھ افعال کو ’افعالِ شروع‘ کہتے ہیں۔ اُنھیں میں سے شَرَ عَ بھی ہے، جس کے لفظی معنی ہیں ’شروع کیا‘۔ یعنی ابتدا کی۔ ’شَرَع یَکْتُبُ‘ کا مطلب ہوگا ’اُس نے لکھنا شروع کیا‘۔ اُردو میں بھی ہم کہتے ہیں کہ ’’یہ کام ’شروع‘ کردیا‘‘ (گویا اُردو کے ’شروع‘ کو بھی ’شرع‘ سے شروع ہونے کا اعزاز حاصل ہے)۔ لفظ ’شروع‘ سے اُردو میں ایک لفظ ’شروعات‘ بھی استعمال کرنا شروع کردیا گیا ہے، جس سے مراد ابتدا یا آغاز ہی ہے۔ یہ لفظ جمع کے طور پر استعمال نہیں ہوتا، واحد ہی استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ افضالؔ احمد سید نے کسی ’سیدہ‘ کو دھمکی دیتے ہوئے استعمال کیا تھا:
بانوئے شہر سے کہنا کہ ملاقات کرے
ورنہ ہم جنگ کریں گے، وہ شروعات کرے
’’شَرَعَ الطریقہ‘ کا مطلب ہے ’اُس نے سڑک بنائی یا راستہ بنایا‘۔ ’شَرَعَ‘ کے ایک معنی کسی چیز کو اُٹھانا اور بلند کرنا ہیں۔ اسی سے کسی منصوبے کو اُٹھانے اور بلند کرنے کا خاکہ تشکیل دینے کے معانی بھی نکل آئے۔ لہٰذا اگر کوئی منصوبہ، مثلاً کسی عمارت کو تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جائے، اُٹھایا جائے یا کھڑا کیا جائے تو اُسے ’مشروع‘ کہتے ہیں۔ منصوبہ خاک میں ملا دینے کو خدا جانے کیا کہتے ہوں گے۔
شَرَعَ کے معنوں میں سے ایک اور معنی پانی میں داخل ہوجانا یا اوک سے (یعنی منہ لگا کر) پانی پینا ہے۔ ’شَرَعَ الوَارِدُ‘ یعنی اُس نے منہ لگا کر یا اوک سے پانی پیا۔ اسی طرح ’شَرَعَ المَاشِیۃَ‘ کے معنی ہوں گے ’’وہ مویشیوں کو لے کر پانی کے گھاٹ پر گیا‘‘۔ سورۃ الاعراف کی آیت 163میں مچھلیوں کے لیے ’شُرَّعاً‘ استعمال ہوا ہے۔ دریا کے کنارے یعنی گھاٹ اور گھر کی دہلیز کو بھی ’شریعہ‘ کہتے ہیں۔ البتہ حضرت مولانا ابوعمار زاہد الراشدی حفظہٗ اللہ کے رسالے کو ماہ نامہ ’’الشّریعہ‘‘ گوجراں والا کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ شرع کے مادّے سے بننے والے الفاظ اور اُن کے معانی کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس یک صفحی کالم میں سب سے مصافحہ نہیں کیا جا سکتا۔
سنہ 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد عوام کے جذبات اور احساسات کے پیش نظر ام کلثوم نے ایک نیا نغمہ تیار کیا۔ ان کی آواز سامعین کو سرخوشی میں مبتلا کرتی تھی مگر اس روز وہ جو نغمہ گا رہی تھیں وہ غیر روایتی نغمہ تھا۔ ’حدیث الروح‘ کے نام سے گایا جانے والا یہ نغمہ علامہ اقبال کی نظم ’شکوہ‘ کا عربی ترجمہ تھا۔شکوہ، جواب شکوہ کا یہ منظوم عربی ترجمہ الصاوی علی الشعلان نے کیا تھا اور اس کی موسیقی ریاض الضباطی نے ترتیب دی تھی۔
اللہ کے حضور مسلمانوں کی زبوں حالی کا یہ شکوہ کروڑوں عرب عوام کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ الصاوی علی الشعلان بینائی سے محروم تھے اور فارسی میں ایم اے کی سند کے علاوہ اردو پر بھی کمال دسترس رکھتے تھے۔
ان سے قبل پاکستان میں مصر کے سابق سفیر عبدالوہاب عزام نے بھی اقبال کے فارسی اور اردو کلام کو عربی میں منتقل کیا تھا مگر اہل عرب سے اقبال کا صحیح تعارف ام کلثوم کی بدولت ہوا۔
ام کلثوم کے اس نغمے کی شہرت جب پاکستان تک پہنچی تو حکومت وقت نے 18 نومبر سنہ 1967 کو انھیں ستارہ امتیاز عطا کرنے کا اعلان کیا جو دو اپریل سنہ 1968 کو انھیں ایک خصوصی تقریب میں مصر میں پاکستان کے سفیر سجاد حیدر نے عطا کیا"۔ام کلثوم کی خواہش تھی کہ اقبال کی فاطمۃ الزہراء پر نظم کو بھی اسی طرح اسٹیج پر پیش کرے۔ لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔
ایک زمانہ تھا کہ عالم عرب کے ریڈیو اسٹیشنوں سے ہر جمعہ کو ام کلثوم کی آواز میں گائے ہوئے قصائد، ولد الھدی، نھج البردہ، اشرق البدر باری باری براڈکاسٹ ہوتے تھے، ان میں سے ایک اقبال کی حدیث الروح بھی تھی، تین ہفتوں کے وقفے سے پابندی سے بروز جمعہ ظہر ایک بجے آتے جاتے ہوئے چائے خانوں میں ریڈیو دبی سے اسے بجتے ہوئے سالہاسال تک ہم نے دیکھا ہے۔
ان دونوں کے اشتراک سے ایک اور مجموعہ ((الاعلام الخمسہ للشعر الاسلامی)) کے عنوان سے بھی شائع ہوا تھا، اس میں عطار، سعدی، رومی ، حافظ اور اقبال کے منتخب اشعار کا عربی ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔
برصغیر میں استاد محمد حسن الاعظمی کی عربی زبان کے فروغ اور عالم عرب میں ہندوستانی مصنفین کے تعارف کے لئے کی گئی خدمات کا کماحقہ تعارف نہیں ہوا،ڈاکٹر محمد حسن الاعظمی کو اب شاذو نادر ہی جانا جاتا ہے، ان کی پانچ جلدوں میں لکھی المعجم الأعظم بھی شاید ایک سے زیادہ مرتبہ نہ چھپ سکی، اور وہ بھی طلبہ مدارس عربیہ میں زیادہ متعارف نہ ہوسکی۔
2024-11-21
#Abdul_Mateen_Muniri
*بات سے بات: علامہ اقبال کا عالم عرب میں تعارف*
* تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ہمارے مولانا سید متین احمد شاہ بڑے سلجھے ہوئے آدمی ہیں، موقر مجلہ فکر و نظر اسلام آباد کے مدیر بھی ہیں، سوشل میڈیا پربھی متحرک رہتے ہیں، اور سنجیدہ علمی چیزیں پوسٹ کرتے رہتے ہیں، گذشتہ دنوں آپ نے علامہ اقبال کے کلام کے عربی ترجموں کے تعلق سے ایک پوسٹ کی ہے، جس میں آپ نے ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ((اہل پاکستان کے لیے یہ بات باعث اعزاز ہے کہ اقبال کا کلام عربی میں مصر کے شاعر الصاوی علی شعلان نے منتقل کیا، تو اس کی ابتدائی معاونت انھیں ڈاکٹر محمود احمد غازی جیسے فرزند اسلام سے ملی))
متین شاہ صاحب نے غالبا یہ بات ڈاکٹر غازی کے ایک مضمون سے اخذ کیا ہے، جہاں تک ہماری معلومات ہیں ڈاکٹر صاحب الصاوی علی شعلان کے آخری دور کے معاونین میں سے ہیں،ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے تعاون سے الصاوی محمد شعلان نے اقبال کی کافی نظموں کا ترجمہ کیا ہے، معلوم نہیں کہ اس کلام کو چھپنا بھی نصیب ہوا ہے یا نہیں؟ کم از کم ہماری نظر سے یہ تراجم نہیں گذرے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے عالم عرب میں تعارف پر مزید کچھ روشنی ڈالی جائے۔
عالم عرب میں اقبال کے پہلے پہل تعارف کے سلسلے میں مولانا سید ابو الحسن ندویؒ کی کتاب روائع اقبال کو زیادہ تر کریڈٹ دیا جاتا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کے چند ایک مضامین اسلامی ادب کا شاہکار ہیں۔اور اپنی اثر انگیزی میں جواب نہیں رکھتے، روائع اقبال کا پہلا ایڈیش دارالفکر دمشق سے سنہ 1960ء میں شائع ہوا تھا۔اس مجموعے سے پہلے حضرت مولانا کا ااقبال پر ایک مختصر سا کتابچہ "شاعر الاسلام الدکتور محمد اقبال" کے عنوان سے 1951ء میں دارالکتاب العربی مصر سے شائع ہوا تھا۔
لیکن دونوں کتابوں سے بھی پہلے آپ کے رفیق مولانا مسعود عالم ندویؒ نے ہفت روزہ الرسالہ مصر کے شمارہ(861) مورخہ 8 نومبر 1948ء سے (( محمد اقبال شاعر الشرق والإسلام)) کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا، جو پانچ قسطوں پر مشتمل تھا، الرسالۃ استاد احمد حسن الزیات کی ادارت میں جاری عالم عرب کا سب سے معیاری ادبی پرچہ شمار ہوتا تھا، اس مجلے نے شیخ علی طنطاوی جسیے کئی عظیم ادیبوں کو دنیائے ادب سے روشناس کرایا تھاا، اس زمانے میں کسی ادیب کی شہرت اور اعتبار کے لئے اس مجلے میں شائع ہونا کافی سمجھا جاتا تھا، جس طرح ہمارے یہاں اردو مجلات میں مولانا صلاح الدین احمد کے ((ادبی دنیا )) لاہور کو کسی زمانے میں یہ حیثیت حاصل تھی، لیکن الرسالہ اپنے معیار میں اس سے کافی بلند تھا۔
مولانا مسعود عالم نے (43) سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کیا، وہ زندگی بھر دمے کے شکار رہے، اور بد قسمتی سے وہ ایک ایسی جماعت سے وابستہ رہے جس کے وابستگان کو عربی زبان وادب سے چندان سروکار نہیں ہے ،اور عربی زبان میں بانی جماعت کی کتابوں کے جن تراجم نے شہرت ومقبولیت پائی تھیں ان میں سے کئی ساری کتابیں مترجم کی حیثیت سے آپ کے نام کے بغیر بھی شائع ہوئیں، لہذا مولانا کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔
مولانا ندوی نے نقوش اقبال کے دیباچہ میں اپنے اس رفیق کے بارے میں لکھا ہے کہ " مولانا مسعود عالم صاحب کی اقبال کے بارے میں حمایت حمعیت تک پہنچی ہوئی تھی، وہ ان کے بڑے پر جوش مبلغ تھے۔ انہیں یہ بات کھلتی تھی کہ ٹیگور اقبال کے مقابلے میں بلاد عربیہ میں زیادہ روشناس ہیں"۔ مولانا مسعود عالم ندوی نے اپنے اسی احساس کے جذبے سے اقبال پر اپنے سلسلہ مضامین کا آغاز کیا ہے۔
اقبال خوش نصیب تھے کہ آپ کی زندگی ہی میں عبد الوہاب عزام کی شکل میں آپ کو عربی زبان کا ایک مترجم مل گیا، جس نے آپ کے فارسی کلام کوعربی نظم میں ڈھال کر عام کیا، عزام کے ترجموں کے بارے میں یہ عمومی احساس پایا جاتا ہے کہ اگر وہ عربی نثر میں اقبال کا ترجمہ پیش کرتے تو یہ زیادہ موثر ثابت ہوتا، اور اس سے اقبال کی بہتر ترجمانی ہوتی ،جس کا ایک نمونہ آپ کی نثر میں لکھی ہوئی کتاب" محمد اقبال سيرته وفلسفته وشعره" میں ملتا ہے۔
ویسے علامہ اقبال کی وفات سے تین سال قبل مصری مجلہ الرسالۃ میں مولانا سید ابو النصر احمد الحسینی کے پانچ سلسلہ وار مضامین ((الدكتور محمد إقبال
فلسفته، معالم الاتفاق والاختلاف بينه وبين فلاسفة الغرب)) کے عنوان سے مارچ 1935ء سے شائع ہوئے تھے، سید ابوالنصر غالبا بھوپال سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ان کے حالات زندگی ہمارے لئے پردہ اخفا میں ہیں۔
مرغا بننے کے طبّی فوائد
مرغا بننے سے کولہوں، ہیمسٹرنگز، اور پنڈلیوں کو کھینچتی ہے، رانوں اور گھٹنوں کو مضبوط کرتی ہے، ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط اور لچکدار رکھتی ہے، تناؤ، اضطراب، ڈپریشن، اور تھکاوٹ کو کم کرتی ہے، دماغ کو پرسکون کرتی ہے اور اعصاب کو سکون دیتی ہے، ریڑھ کی ہڈی، گردن، اور کمر میں تناؤ کو دور کرتی ہے، اور پیٹ کے پٹھوں کو فعال کرتی ہے۔
اپنے تمام اساتذہ اکرام کا شکریہ ادا کرتا ہو جنھوں نے ہمیں بچپن میں شاندار ایکسرسائز کروا کر ہمیں تندرستی کی راہ پر گامزن کیا
اس غوغائے تکفیر پر سال ۱۹۳۶ء کے جون ، جولائی، اگست ستمبر کے مجلات میں کافی مواد موجود ہے، اس زخم کو یہاں مزید تازہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، البتہ یہاں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی اس قضئے کے تعلق سے پڑھی ہوئی بات یاد آتی ہے کہ فرمایا تھا کہ میں براہ راست متعلقہ کتابیں اور مضامین پڑھے بغیر دستخط نہیں کرتا، لیکن مولانا مفتی کفایت اللہ ہمارے محترم اور معتمد ہیں، ان کے فتوی کی میں نے تصدیق کردی، اس وقت یہ بات تلاش پر نہیں مل رہی ہے۔ اگر اس کی تحقیق ہوجاتی ہے تو پھر ہمیں علمی رد وقدح میں ایک اہم اصولی قاعدے کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔
یہاں ایک نکتہ ہمیشہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ ہمارے مدرسوں کے حلقوں مین علماء کا منصب ومقام ان کے سینے میں محفوظ علم اور تفہیم وتدریس کی صلاحیتوں سے طے ہوتا ہے، کتابیں اور تصنیفات ابھی بھی کسی عالم دین کو وہ مقام نہیں دیتیں جو منصب تدریس انہیں دیتا ہے، جہاں تک ہمیں معلوم ہے علامہ رشید رضا کے ہندوستان آنے کے بعد ہمارے ایک عظیم عالم دین و محدث کے لئے امام کا لقب استعمال ہونے لگا تھا، ان کے قوت حافظے کی بھی بڑی شہرت تھی، اس ناچیز نے ہمارے بزرگ حضرت مولانا سید صبغۃٰ اللہ بختیاری رحمۃُ اللہ علیہ سے جو کہ حضرت مدنیؒ کے عاشق زار تھے، ان عالم دین کے حافظے کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے شیخ کا علم وحافظہ بھی کچھ کم نہیں تھا، لیکن ان کے علوم کو محفوظ نہیں کیا گیا۔
ہمارےیہاں کے مولانا حمید الدین فراہیؒ ہوں یا مصر کے شیخ احمد محمد شاکرؒجیسے علماء دین ، ان کی گوناگوں مصروفیات اور حالات نے انہیں اپنے منصوبوں کو پورا کرنے کا موقعہ نہیں دیا، ان کی چند ناقص کتابیں ان کی صلاحیتوں کی ہو بہو عکاسی نہیں کرتیں، جب القاب سے ان کے منصب ومقام کے تعیین کی بات ہوگی، تو کتابوں کے ساتھ ساتھ، ان کی زندگی کے دوسرے علمی و عملی پہلؤوں کو بھی غائر نظر سے دیکھنے کے بعد ہی ان سے انصاف ہوسکے گا۔
اللہ تعالی ہمیں عفت لسانی سے نوازے۔ واللہ ولی التوفیق۔
2024-11-19
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*بات سے بات: مولانا حمید الدین فراہی ؒ کے بارے میں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی رائے*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
دو روز قبل آپ کی اس بزم علم وکتاب میں ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب کے مولانا حمید الدین فراہی کو امام کے لقب سے یاد کرنے پر ایک بحث چھڑی تھی، جس پر ہم نے ایک مختصر تحریر لکھ کر اس قضیہ نامرضیہ پر بریک لگادی تھی۔ اس وقت ہماری خواہش تھی اس موضوع پر مزید تفصیل سے کچھ لکھا جائے۔
یہ ہمارے اہل علم کی عجیب مصیبت ہے کہ جب بھی سنجیدہ مسائل پر کوئی گفتگو شروع ہوتی ہے تو پھر اس کا رخ موضوع سے ہٹ کراپنی پسندیدہ اور غیرہ پسندیدہ شخصیات کی طرف موڑدیا جاتا ہے، اور پھر ایک جذباتی ماحول بن کر علمی بحثوں کو کسی نتیجے تک پہنچنے سے پہلےہی بند کردینا پڑتا ہے۔ ایک مرغ کی طرح جو اپنے بانگ نہ دینے پر صبح کے نہ ہونے کے دھوکے میں رہتا ہے، سنجیدہ علمی بحثوں میں کچھ ایسے افراد بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ جو اس قسم کی علمی بحثوں میں اپنی حاضری ثابت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اوروہ جب کسی شخصیت کو ناپسند کرتے ہیں تو پھر ان الزامات کے دائرے میں اپنی ناپسندیدہ شخصیات کے اساتذہ، اور اور کے اساتذہ کو بھی لپیٹ لیتے ہیں، اور وہی الزامات ان پر بھی عائد کرنے لگتے ہیں، جن سےعموما وہ بری ہوتے ہیں۔
اس وقت جاوید احمد غامدی صاحب بعض حلقوں کی چڑ بنے ہوئے ہیں، اور اس کی لپیٹ میں وہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، اور ان کے استاد مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مدرسۃ الاصلاح کے پورے حلقے کو لے آتے ہیں، اور ہمیں علمی امانت اور ذمہ داری کا کوئی خیال نہیں رہتا، اور یہ حکم خداوندی بھول جاتے ہیں کہ ﴿تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾
مولانا امین احسن اصلاحی کے بعض افکار وآراء سے ہمیں شدید اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن غامدی صاحب کے جملہ افکار وخیالات کو آپ کی طرف منسوب کرنا ہرگز ہرگز علمی دیانت نہیں ہے، مولانا اصلاحیؒ نے اپنے استاد مولانا فراہیؒ کے علوم کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، لیکن زیادہ تر اہل علم نے مولانا فراہی کا حقیقی جانشین وترجمان مولانا اختر احسن اصلاحیؒ کو قرار دیا ہے، جنہوں نے آپ کے بعد آپ کی مسند تدریس سنبھالی تھی، خود مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے جگہ جگہ مولانا فراہی کی تشریحات سے آپ سے رجوع کرنے کا ثبوت ملتا ہے، اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ مولانا فراہی کی رحلت کےبعد سے تسلسل کے ساتھ مدرسۃ الاصلاح میں جو اساتذہ سینہ بہ سینہ آپ کے علوم نسل در نسل پہنچاتے آرہے ہیں ان میں وہ تفردات اور شذوذ پائے نہیں جاتے جن کی نسبت مولانا اصلاحی کی طرف کی جاتی ہے۔ لے دے کے ہندوستان میں ایک مولانا عنایت اللہ سبحانی ہیں، جو مولانا اصلاحی کے تفردات کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن سبحانی صاحب اپنے ابتدائی دور کی کتاب رسول عربی سے زیادہ کم ہی علمی حلقوں مین متعارف ہیں، نجی مجلسوں یا مضامین میں ممکن ہے وہ اپنے تفردات کا اظہار کرتے ہوں لیکن اس کا اثر ہندوستان کے اصلاحی مکتب فکر پر شاذ ونادر ہی نظر آتا ہے۔
جہاں تک مولانا فراہی کو امام کے لقب سے موسوم کرنے کا مسئلہ ہے، تو مولانا تو ایک عظیم شخصیت تھے، علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد الماجد دریابادی جیسی شخصیات آپ کو اپنے استاد کا درجہ دیتی آئی ہیں، ہم تو ان سے کمترین شخصیات کو بھی بڑے بڑے القاب دینے کے عادی ہوچکے ہیں، اور جیسے جیسے علم کم ہوتا جارہا ہے، ان القاب کی ایک باڑھ سی الگی ہوئی ہے۔
جہاں تک مولانا فراہیؒ کے لئے لقب امام کا تعلق ہے، اس کا استعمال کافی پرانا ہے، ہمارا خیال ہے کہ علامہ رشید رضا کے اثر سے ہمارے یہاں امام کا لقب متعارف ہوا ہے، مصریوں کے یہاں اپنے محبوب علماء کو امام کا لقب رائج بات ہے، ان کے یہاں شیخ متولی الشعراوی اور شیخ ابوزہرہ جیسی شخصیات کے لئے یہ عام ہے، اور شیخ الازہر تو ان کے یہاں الامام الاکبر ہیں، اب ان کی دیکھا دیکھی ہمارے یہاں بھی یہ لقب رواج پارہا ہے۔
اس بحث میں ہمارے لئے یہ بات ایک انکشاف سے کم نہیں ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے مسترشد مولانا نجم الدین اصلاحی ؒ نے مولانا فراہیؒ کے لئے استاد امام کا لقب مکتوبات شیخ الاسلام (جلد دوم صفحۃ: ۳۸۹ ) میں استعمال کیا ہے، یہ مجموعہ الجمعیۃ پریس دہلی سے ۱۳۵۲ء میں حضرت مدنیؒ کی رحلت کے پانچ سال قبل شائع ہوا ہے، اسے مرتب نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے مرتب کیا ہے، اور اپنے موضوع پر مستند ترین مرجع شمار ہوتا ہے ۔
نہ کریں لیکن آپ انھیں صدقہ نہ سہی ہدیہ تو دے سکتے ہیں۔خیال رہے سعودی عرب میں جو امیر ہے وہ بہت امیر ہے اورجوغریب ہے وہ بہت ہی غریب ہے ،بلکہ مکہ مکرمہ میں مقیم بعض برمی حضرات مجھے ایسے ملے جو بہت محتاج ہیں ،اخراجات کی طویل فہرست اُن کے سامنے ہے ،حکومت کے بھاری بھرکم مطالبات کی ادا یئگی کو لے کرپریشان ہیں لیکن خود دار ہیں کہ وہ بھیگ نہیں مانگ سکتے ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات: مورخہ ۲۰/ نومبر
/channel/ilmokitab
ارشد سعید ، پروفیسرڈاکٹر شیخ 20/نومبر/2009ء
اقبال حسین جعفری 20/نومبر/2015ء
حمید اللہ نقشبندی، بابا 20/نومبر/1969ء
حمید زماں 20/نومبر/1999ء
شابانی ، پی کے (پریم کیول شابانی) 20/نومبر/2002ء
عبدالصمد مقتدری، مولانا 20/نومبر/1964ء
فیض احمد فیض 20/نومبر/1984ء
مفتی عزیز الرحمن 20/نومبر/1928ء
اسرار احمد آزاد 20/نومبر/1970ء
عز الدین قسام 20/نومبر/1936ء
غلام مصطفی جتوئی 20/نومبر/2009ء
صوفیہ کمال(بنگلہ دیش) 20/نومبر/1999ء
بنا رکھا ہے اور انسان کی حیثیت و مقام دیکھ کر بات کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے عوام و خواص کی بیشتر تعداد اس میں ملوث نظر آتی ہے– کسی اہلِ علم و دانش اور باکمال انسان کا اس طرح اپنے سے چھوٹوں کو عزت دینا اور ان کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کرنا؛ یہ کسی خاندانی، شریف، تربیت یافتہ، نیک طبیعت انسان کا کام ہی ہو سکتا ہے۔
ایک وقت میں کئی کام کرنے کے عادی
ہم نے اپنی زندگی میں ایسے بہت کم لوگ دیکھے ہیں کہ جو بیک وقت دو کام کرتے ہیں؛ لیکن قلمی دنیا میں دو شخصیتیں ہی ایسی دیکھی ہیں جو دوسرے کام بھی کرتے رہتے تھے اور لکھتے بھی رہتے تھے ایک جامعہ مظاہر علوم سہارن پور کے امین عام حضرت مولانا شاہد رحمہ اللہ اور دوسرے حضرت مولانا ندیم الواجدی رحمہ اللہ۔ ان کے پاس دار الکتاب میں متعلقین و مستفدین کی آمد و رفت رہتی تھی، حضرت مولانا رحمہ اللہ بڑے احترام واکرام کے ساتھ ان کو بٹھاتے تھے اور ان کی طرف کبھی چہرہ کر کے بیٹھ جاتے تھے اور کبھی مولانا کا چہرہ سامنے سڑک کی طرف ہوتا تھا۔ علیک سلیک اور خیریت معلوم کرنے کے کچھ دیر بعد اپنی کسی کتاب کا مسودہ اٹھاتے؛ اس کو دیکھتے رہتے تھے؛ اس کی نوک و پلک سنوارتے رہتے یا پھر کوئی مضمون لکھنا ہو تو اس کو لکھتے رہتے یا تصیح وغیرہ کرتے رہتے، ساتھ میں گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ایک تو بازار اور پھر کتابیں خریدنے والوں کا مستقل تانتا بندھے رہنا اور کونٹر پر بیٹھ کر رقم کا لین دین کرتے رہنا پھر دوسری طرف کرسی پر کوئی متعلق یا دوست بھی تشریف فرما؛ علمی و ذہنی استحضار کا یہ عالم کہ اپنے لکھنے پڑھنے کا کام بھی جاری۔ ورنہ عامۃً لکھنے والوں کا مزاج ایسا ہو جاتا ہے کہ شور وغل سے دور یکسوئی و تنہائی میں باقاعدہ ذہن بنا کر لکھا کرتے ہیں۔ یہ ان کے ساتھ فضل ربی تھا۔ جب اللہ کو کسی سے کام لینا ہو تو وہ اس کے لیے ویسا ہی مزاج و ماحول بنا دیتا ہے۔
معہد عائشہ صدیقہ قاسم العلوم للبنات دیوبند کے بانی
یہ ادارہ نہیں ایک تحریک ہے 1998ء میں اس کا آغاز ہوا، اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس وقت بنات کے لیے ایسے دینی اداروں کی شدید ضرورت تھی کیونکہ مسلمانوں کے یہاں یا تو لڑکیوں کو تعلیم دی ہی نہیں جاتی تھی یا پھر ان کا اسکول و کالج کی طرف رخ ہوتا تھا جس کی وجہ سے دینی و اسلامی رجحان کم ہوتا جاتا تھا اور نسلوں پر اس کا اچھا اثر نہیں ہوتا تھا۔ یہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی فکر کا نتیجہ تھا کہ یہ ادارہ وجود میں آیا۔ ہماری معلومات کے مطابق دیوبند و اطراف میں یہ لڑکیوں کا سب سے پہلا ادارہ تھا جس کو بنات المسلمین کے لیے قائم کیا گیا؛ تاکہ وہ دینی علوم سے آراستہ ہو کر مستقبل کے لیے ایسی نسلیں تیار کریں جس میں دینی غیرت وحمیت کا جذبہ ہو اور ان کے اخلاق و کردار سے اسلامیت جھلکے۔ چناں چہ ہزاروں لڑکیوں نے یہاں سے دینی، علمی، اصلاحی و تربیتی فیض حاصل کیا اور وہ اپنے اپنے علاقوں وبستیوں میں دینی وتعلیمی کام کر رہی ہیں اور بے شمار مسلم خواتین کے لیے نجات کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
قومی و ملی تنظیموں میں شرکت
حضرت مولانا رحمہ اللہ ایسی قومی و ملی جماعتوں کے رکن رہے ہیں کہ جو قوم وملت کے مسائل کے بارے میں متحرک رہتی ہیں جن میں سرفہرست ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے والا مشہور بورڈ –”مسلم پرسنل لا بورڈ“– ہے، حضرت مولانا رحمہ اللہ اس کے رکن رہے۔ اسی طرح ایک زمانے تک قومی و ملی مسائل پر کام کرنے والی تنظیم –”تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند“– کے مجلس عاملہ کے رکن رہے اور وطن عزیز کی سب سے بڑی و مشہور تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے تعلیمی بورڈ میں بھی کام کیا ہے، پھر ان کو صد سالہ کے قریب دار العلوم دیوبند کے تصنیف و تالیف کے شعبہ سے بھی وابستہ کر لیا گیا تھا۔ کئی ایک تنظیموں و جماعتوں کے افراد اور بااثر شخصیتوں کو بھی اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے تھے؛ گویا اہل اسلام کے قومی وملی، سیاسی و سماجی مسائل کے متعلق فکر مند رہتے تھے۔
بربان اکیڈمی، ایلجن، امریکہ کی خوشی
حضرت مولانا رحمہ اللہ کے صاحب زادے مولانا مفتی ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی زید مجدہ کی کوششوں سے امریکہ جیسے کفر و الحاد کے مرکز میں اسلامک اسکول کا قیام عمل میں آیا جو یقینا ان کی کامیابی کی دلیل ہے ایسی کامیاب اولاد کو دیکھ کر والدین کو جو خوشی ہوتی ہے، اس کو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں۔ جب ہم نے کئی روز تک مسلسل اس اسکول کے متعلق سوشل میڈیا پر خبریں دیکھیں تو دل سے صدا آئی کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کو خوشی کے اس موقع پر خط لکھا جائے۔ چوں کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ بھی امریکہ میں ہی تھے تو واٹس ایپ کے ذریعہ 5 ستمبر کو ایک خط لکھا، جس میں صاحب زادے محترم کی اس عظیم کامیابی کا ذکر تھا اور حضرت مولانا کے لیے بھی یہ باعثِ فخر و قابلِ رشک موقع تھا۔ اس لیے ان کو بھی مبارک باد پیش کی۔ کچھ گھنٹوں کے بعد حضرت مولانا رحمہ اللہ سے کال پر بات ہوئی اور یہ ہماری ان سے آخری
–”ترجمان دیوبند“– کا شور تھا؛ دوسری طرف اخباروں و رسالوں میں ان کے مضامین جگہ جگہ نظر آتے تھے، جب پرانے لوگوں کے سامنے ہماری یا ان کی زبانی حضرت مولانا رحمہ اللہ کا تذکرہ چل نکلا تو انھوں نے بتایا کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کا یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ ان کو قلم و کتاب کا بے تاج بادشاہ کہنے لگے تھے، ان کی علمی لیاقت و صلاحیت کو دارالعلوم دیوبند میں تسلیم کیا جا رہا تھا؛ اسی لیے اساتذۂ دار العلوم و دیگر صاحبِ فضل و کمال ہمیشہ ان کو عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ تیسرا دور وہ ہے کہ جب انھوں نے آخر میں یہ طے کر لیا تھا کہ انھیں علمی مضامین اور سیرت النبی صلی اللہ پر ہی لکھنا ہے اور اسی مبارک موضوع پر ان کی زندگی کا اختتام ہوا۔ ظاہر ہے یہ ان کی خوش نصیبی ہے۔ ویسے سفرِ حیات کے ہر دور میں ان کے قلم نے جولانیاں دکھائی ہیں اور وہ منزل بہ منزل آگے بڑھتا رہا اس میدان میں اس بلندی کو حاصل کیا کہ جو کم ہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے۔
معاصرین میں ممتاز
زمانۂ طالب علمی ہی میں ان کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ ایک ذہین و فطین علمی استعداد و صلاحیت کی حامل شخصیت ہے۔ اسی لیے دار العلوم دیوبند کے اندر دورۂ حدیث شریف میں ان کی اول پوزیشن آئی، جس کی وجہ سے ان کو تمام طلبہ میں امتیازی مقام حاصل ہوا۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے اس مقام و معیار پر باقی رہے اور اپنے علمی وتحقیقی کاموں کی وجہ سے معاصر اہل علم و فضل میں ان کا مقام موجود رہا۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی امیتازی شان کے ساتھ زندہ رہے۔ کئی ایک علمائے عصر نے ان کے علمی وتحقیقی کاموں کی تعریف بھی کی اور ان کو ایک باکمال مصنف تسلیم کیا، جس پر ان کی وفات کے بعد ان کی شخصیت پر لکھی گئی تحریریں، تذکرے، تعزیت نامے شہادت دیتے ہیں کہ وہ کتنی باکمال شخصیت تھی اور اس کو کیا امتیاز حاصل تھا۔
عظیم شخصیت کے مالک
کوئی بھی شخصیت صرف ظاہری حسن و کمال کی وجہ سے عظیم نہیں ہوتی بلکہ اس کے اوصاف و کمالات اس کو عظیم بناتے ہیں حضرت مولانا رحمہ اللہ کو اللہ نے جن خوبیوں سے نوازا تھا وہ عوام تو کیا! خواص میں بھی زیادہ تر نظر نہیں آتی ہیں؛ کیوں کہ آج کل اہل علم طبقہ میں یہ رواج عام ہے کہ انسان جتنا زیادہ اپنے آپ کو امپورٹنٹ شخصیت ظاہر کرے گا، لوگ اس کی اہمیت و عظمت اپنے ذہن و دماغ میں لیے پھرتے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ یہ بڑا آدمی ہے اس سے ملنے کے لیے باقاعدہ پہلے اس کے خادم سے بات کی جائے گی پھر وہ وقت بتائے گا۔ عین اسی وقت حاضر ہونا پڑے گا۔ ذرا تھوڑا سا کچھ پڑھنا لکھنا آیا یا پھر کچھ ذمہ داری آئی، ان تکلفات و تصنعات کا بھوت سر پر سوار ہو جاتا ہے؛ لیکن حضرت مولانا رحمہ اللہ باوجودیکہ اللہ نے بہت سے کمالات سے نوازا تھا اور ملک کی کئی ایک تحریک و اداروں سے بھی ان کا تعلق رہا لیکن وہ بے تکلف رہنے کے عادی تھے، ہر عام و خاص ان کے ساتھ یہ آسانی بات کر سکتا تھا اور اپنے دل کی کہہ سکتا تھا۔ کسی بھی شخصیت کی عظمت کو جاننے کے لیے اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ وہ علم و فضل کے بلند مقام پر فائز ہونے کے باوجود اس قدر بے تکلف ہو کہ اس سے کوئی بھی انسان اپنے دل کی بات کہہ سکتا ہے۔
مبالغہ آرائی سے دور
حضرت مولانا رحمہ اللہ اس معاملے میں بہت محتاط اور معتدل مزاج واقع ہوئے تھے جس کو جو مقام دینا چاہیے اس کا وہ پورا خیال رکھتے، شخصیت سے متعلق مناسب القاب و آداب استعمال کرتے، یہ ان کے یہاں بالکل نہیں تھا کہ کسی بھی شخصیت کے لیے چاپلوسی میں لپٹے ہوئے القاب استعمال کریں یا پھر ان کے لیے کوئی ایسی تحریر لکھیں جس سے تملق و چاپلوسی کی بو آئے جیسا کہ آج کل یہ رواج عام ہے، کسی سے قرب حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کی بے جا تعریف کی جائے اور اس کو بڑے بڑے القاب دیے جائیں، اسی طرح ان کی توصیف و تحمید میں تحریر لکھ دی جائے؛ لیکن حضرت مولانا رحمہ اللہ اس کو ناپسند کرتے تھے۔ ہمیں اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب کہ ہم نے پچھلے دنوں ان کے صاحب زادے مولانا مفتی یاسر صاحب کی مشہور کتاب –”گلوبلائزیشن اور اسلام“– پر تبصرہ لکھا اور حضرت مولانا کے پاس اس کو واٹس ایپ پر سینڈ کیا اور کہا کہ آپ اس کو دیکھ لیں تو حضرت مولانا رحمہ اللہ نے فرمایا اچھا ہے ہر چیز مناسب لکھی۔ زیادہ القاب و آداب اور تعریف و توصیف بھی اچھی نہیں لگتی یعنی جو جس کا حق ہے اس کو وہ ملنا چاہیے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کے یہاں شخصیات کے درجات تھے جو جس کا مستحق ہوتا اس کو اسی حیثیت سے دیکھنا، ان کا مزاج تھا اس میں اپنے و پرائے سب یکساں تھے۔
خوش اخلاق
حضرت مولانا رحمہ اللہ خوش اخلاق انسان تھے وہ جب کسی مجلس و محفل میں بیٹھتے تھے تو لوگ قدرتی طور پر ان کی طرف متوجہ ہوتے، اس کی ایک وجہ تو ان کے علمی کمالات تھے جن کی وجہ سے ان کی شخصیت دیگر سے ممتاز ہو جاتی تھی، دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اللہ نے ان کو کھلتا ہوا حسین چہرہ، مسکراتی ہوئی آنکھیں اور پرکشش پیشانی عطا کی تھی۔ مزید یہ کہ
اس موضوع پر لکھا ہے ہماری نظر میں اردو دنیا میں اس طرح شاید ہی کسی نے لکھا ہو حضرت مولانا کی اس کتاب کا نام ہے –”سیرت نگاری وسیرت کی کتابیں“–۔
سوانح نگار
حضرت مولانا رحمہ اللہ سوانح نگار بھی تھے ان کے سوانحی مضامین پڑھنے کے ہوتے تھے وہ جب کسی شخصیت پر لکھتے تھے تو اس کی زندگی کے ایسے پہلؤوں کو اجا گر کرتے تھے کہ جس سے شخصیت نکھرتی تھی اور شخصیت سے متعلق حالات و واقعات، نقوش و تاثرات کو تفصیل سے بیان کرتے تھے ان کا امتیاز یہ بھی تھا جو انھوں نے بندہ سے بارہا بیان کیا کہ میں کسی کی حیات میں نہیں بلکہ انتقال کے بعد ہی لکھتا ہوں۔ ان کے سوانحی مضامین کا مجموعہ –”خدا رحمت کند“– کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اسی طرح ان کی تحریر کردہ ان کے والد ماجد حضرت مولانا واجد صاحب رحمہ اللہ کی سوانح –”بے مثال شخصیت با کمال استاذ“– کے نام سے چھپ چکی ہے، اس میں نقوش و تاثرات کے عنوان کے تحت کچھ دیگر لوگوں کے مضامین بھی شامل ہیں جنھوں نے اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
عربی اور اردو کے ادیب
کسی بھی علمی شخصیت کے ذوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا پسندیدہ مصنف یا پسندیدہ استاذ کون ہے جس طرح کا رنگ اس میں نظر آئے گا وہی اس کا ذوق ہوگا حضرت مولانا رحمہ اللہ کے پسندیدہ استاذ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمہ اللہ تھے جو کہ مایہ ناز ادیب و باکمال مدرس تھے حضرت مولانا رحمہ اللہ ان کے صفات و کمالات بیان کرتے نہیں تھکتے تھے اور حضرت مولانا کے ادبی ذوق کی شہادت یہ بھی دیتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث شریف سے فراغت کے بعد تکمیلات و تخصصات میں عربی ادب کرنا پسند کیا جس کی وجہ سے عربی زبان میں مہارت حاصل ہوئی اس کے ثمرات یہ مرتب ہوئے کہ ان کے نوک قلم سے کئی ایک ایسی کتابیں بھی نکلیں کہ جو بہت سے مدارس میں درسی نصاب کا حصہ بنیں جن میں سر فہرست –”معلم العربیة“– کا نام آتا ہے۔ القراة الواضحہ از مولانا وحید الزماں کیرانوی اور مفتاح العربیة از مولانا نور عالم خلیل امینی کی طرح اس کو بھی خوب پسند کیا گیا اسی طرح ان کی ایک تصنیف –”التعبیرات المختارة“– جس میں منتخب تعبیرات کو بیان کیا گیا ہے، یہ کتاب ادب کا شاہ کار ہے اور اردو کی تحریروں میں ادبی ذوق جگہ جگہ پر نظر آتا ہے۔ ان کے شخصیات پر لکھے گئے مضامین میں بھی ادبی ذوق جھلکتا ہے، حضرت مولانا خشک موضوع پر بھی ایسے لکھتے تھے کہ ادب کی چاشنی اس میں بھی نظر آنے لگی تھی جیسے دفاع اسلام پر ان کی تحریریں ایسی ہوتی تھیں کہ وہ مشکل مضامین جن کی وجہ سے تحریر میں خشکی آجاتی ہے اور قاری کو اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے، حضرت مولانا رحمہ اللہ کی زبان کی مٹھاس اور روانی کی وجہ سے قاری کے لیے پڑھنا آسان ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا کے سفر نامے –”پھر سوئے حرم لے چل“– میں جو ان کے قلم نے ادبی جواہر پارے بکھیرے ہیں، کمال کا تسلسل اور غضب کی چاشنی ہے۔ اسی طرح –”ہندوستان کا تازہ سفر“– میں بھی اس کا نظارہ ہوتا ہے۔
تعمیری ذہن
حضرت مولانا رحمہ اللہ کا ذہن تعمیری تھا، وہ ہر کام میں مثبت پہلو ڈھونڈ نکالتے تھے، نامساعد حالات میں بھی انھیں خیر کا پہلو نظر آجا تا تھا ایسے افراد میں ایک کمال پایا جاتا ہے کہ کسی کی خوشی یا کامیابی ان کے اندر حسد و کینہ پیدا نہیں کرتی، بدظنی و بد گمانی کے گناہ سے بھی محفوظ رہتے ہیں؛ یہ سب چیزیں حضرت مولانا رحمہ اللہ میں بہ خوبی موجود تھیں اس لیے ان کی قلمی کاوشوں میں کہیں نہیں ملتا کہ وہ کسی شخصیت کے اعمال و کردار کو نشانہ بنائے ہوں بلکہ وہ جن لوگوں کے نظریات سے اختلاف رکھتے تھے تو وہ اپنی بات کو مدلل بیان کرتے تھے جیسے انھوں نے ایک کتاب لکھی –”قیامت کی نشانیاں اور مولانا وحید الدین خاں کے نظریات“– اس کتاب میں مولانا نے مولانا وحید الدین خاں کے نظریات کو دلائل کی روشنی میں رد کیا ہے لیکن مولانا وحید الدین خاں مرحوم کی شخصیت کا احترام بھی ملحوظ رکھا؛ یہی اہل علم وادب کا طریقۂ کار ہونا چاہیے؛ نہ یہ کہ نظریاتی یا فکری اختلاف کی وجہ سے ذاتیات پر اتر آئیں۔یہ اہل علم و ادب کی شان و وقار کے خلاف ہے۔ اکابر دیوبند کے افکار و نظریات کے مبلغ کسی بھی علمی قلمی شخصیت کے لیے یہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ باوجودیکہ مطالعہ کی وسعت رکھتی ہو اور بہت سے مکاتب فکر کی اس کو تحقیق ہو اور علمی دنیا پر راج کرنے والی شخصیات کے نظریات سے واقف ہو اور خود کے اندر لیاقت بھی ہو کہ وہ اپنے افکار ونظریات کو وجود بخشے لیکن اس کے باوجود اپنے اکابر پر اس قدر اعتماد و یقین ہو کہ وہ ہر اعتبار سے ہم سے زیادہ لائق و فائق، ذہین و فطین علم وعمل میں پختہ، اعلی افکار و نظریات کے حامل تھے اور اسی نہج پر قائم رہ کر ان کے افکار و نظریات کی تبلیغ کرتے رہنا مخلص و نیک بخت انسان کا کام ہی ہو سکتا ہے جو کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ ساری زندگی کرتے رہے۔ انھوں نے اکابر کے طریق سے ہٹ کر کوئی الگ ڈگر نہیں بنائی ان کی تحریروں میں جابجا
مثالی شخصیت و باکمال مصنف
(مولانا ندیم الواجدی رحمہ اللہ)
بہ قلم: مفتی محمد صادق مظاہری
/channel/ilmokitab
یہ تو یاد نہیں ہے کہ حضرت مولانا کا نام سب سے پہلے کب سنا یا ان کی تحریر سب سے پہلے کب پڑھی لیکن اتنا یاد ہے کہ غالبا 2010ء میں جب ہم مظاہر علوم سہارن پور میں تعلیمی مراحل طے کر رہے تھے تو دار العلوم دیوبند جانا ہوا دو پہر کا وقت تھا مسجد رشید کے سامنے ایک ہمارے ساتھی نے یک دم ہمیں متوجہ کیا کہ مولانا ندیم الواجدی جا رہے ہیں، ہم نے دیکھا تو ایک خوبصورت انسان دکھائی دیا، اس کے بعد نہ کبھی ملاقات اور نہ دیدار کچھ عرصہ بعد 2011ء میں ہمارے یہاں مظاہر علوم میں حضرت مولانا شاہد الحسنی رحمہ اللہ کی طرف سے ایک اعلان ہوتا ہے کہ آج حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے مواعظ و خطبات ترتیب از حضرت مولانا شاہد صاحب کا رسم اجرا ہوگا، سب طلبہ جامعہ کی مسجد میں تشریف لے آئیں پروگرام کا آغاز کر دیا گیا، کچھ ہی دیر کے بعد مہمانان کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، اسی میں ایک مہمان حضرت مولانا مرحوم تھے دور سے بیٹھے ہم دیکھتے رہے اور پروگرام کے اختتام پر مولانا مرحوم کی واپسی ہو گئی؛ یہ ہمارے دید و شنید کے ابتدائی مراحل تھے، حضرت مولانا کی بہت سی تحریریں اور کتابیں دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملتا رہتا تھا پھر ہوا یوں کہ ہم نے حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب بانی و مہتمم جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ گجرات کی سوانح لکھی –”ایک مرد آہن کی داستاں ہے“–۔ 2020ء میں اس کے اجرا کے لیے ہماری تشکیل ہمارے مشفق و کرم فرما، قلم و کتاب سے گہرا رشتہ رکھنے والی شخصیت مفتی محمد ساجد صاحب کھجناوری دامت برکاتہم نے کی، مشورے میں طے ہوا کہ دیوبند میں ہی اس کو انجام دینا زیادہ مناسب رہے گا، اس میں دو شخصیتیں ایک حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب رحمہ اللہ اور دوسرے حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ بطور مہمان خصوصی مدعو کی گئیں۔ یہاں سے ہمارا تعارف ان دونوں شخصیتوں سے ہوا اور ان کی محبت و شفقت اس قدر رہی کہ ان دونوں نے ان چند سالوں کے تعلق کو بڑے ہی حسن و خوبی سے نبھایا اور پھر مولانا رحمہ اللہ اور مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ سے اس قدر محبت ہوگئی تھی کہ ہفتہ میں ایک آدھ فون خیر خیریت کا میں کر لیا کرتا تھا اگر میں نہیں کرتا تو ان کی طرف سے آجایا کرتا تھا۔
حلیہ
میانہ قد، داڑھی سے پر حسین چہرہ، سرمگیں آنکھیں ان پر عمدہ چشمہ، گول سر اس پر گول ٹوپی، اگر شیروانی زیب تن ہو تو اسی کپڑے کی دیوبندی ٹوپی، کرتا پائجامہ ہمیشہ سفید کلف کا ہی پہنے ہم نے دیکھا ہے، عمدہ قسم کے چپل اور جوتے پہنتے تھے جب وہ اپنے انداز میں آہستہ آہستہ چلتے تو لگتا تھا کہ کوئی شہزادہ جار ہا ہے خاندانی نزاکت اور مزاج کی نفاست ان کی ایک ایک ادا سے ٹپکتی تھی اور عالمانہ و قار ان کے لب و لہجے سے جھلکتا تھا۔
قلم و کتاب سے رشتہ
ویسے تو انھوں نے ایسے خانوادے میں آنکھیں کھولیں تھیں کہ جن کا علم و کتاب سے گہرا رشتہ رہا ہے ان کے جد امجد ہوں یا والد ماجد یا یار و رشتے دار ہوں یا پھر معاصر اہل علم؛ بہت سے علمی لیاقت کے حامل افراد تھے اور علم و ادب کے حاملین دیوبند کے چپہ چپہ پر بکھرے پڑے تھے جہاں تک حضرت مولانا کا تعلق ہے تو بقول مولانا رحمہ اللہ ان کے قلم سے سب سے پہلی تحریر 13 سال کی عمر میں لکھی گئی اس کے بعد ان کا قلم اس رفتار سے چلا کہ ہم عصر لوگوں نے ان کی علمی لیاقت و قلمی صلاحیت کو تسلیم کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں ہی مولانا رحمہ اللہ کی تحریروں نے جو دارالعلوم کے جداریہ میں لکھی جاتی تھیں خاصی مقبولیت حاصل کی، اس کے بعد مسلسل لکھتے رہے۔ یہ وہ دور تھا جب کہ برقی لہروں کے ذریعہ ادھر سے ادھر منٹوں و سیکنڈوں میں تحریر میں منتقل نہیں ہوتی تھیں۔ اخباروں و رسالوں کے ذریعہ اپنے جذبات و احساسات، افکار و خیالات منتقل کئے جاتے تھے۔ ظاہر ہے آج کے مقابلے میں اس وقت قلم کی دنیا میں شہرت پانا یہ ایک مشکل کام تھا۔ اس وقت حضرت مولانا کی تحریریں نہ صرف یہ کہ کسی ایک اخبار بلکہ ملک کے کئی ایک اخباروں و رسالوں میں چھپتی تھیں اور ان کی تحریروں کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ ہندوستان کی سرحدوں کو پھلاند کر دوسرے ممالک تک جا پہنچی اور ان کو اردو سے وابستہ حضرات کئی ایک ممالک میں پڑھتے تھے۔
قلمی خوبیاں
ان کے یہاں قلم کی روانی کے ساتھ ساتھ سلیس زبان استعمال ہوتی تھی، عمدہ تعبیرات اور محقق بات کہی جاتی تھی، موضوع کا حق ادا کرنا ان کا مزاج تھا، بے تکلف و بے تکان لکھنا ان کا ذوق تھا؛ غرضیکہ ان کے یہاں ادب بھی تھا اور فکر بھی، علم بھی تھا اور تحقیق بھی۔ اللہ کی طرف سے اس طرح کی قلمی خوبیاں کم ہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہیں اور اتنا زیادہ لکھنے کے باوجود علم و ادب کے معیار پر قائم رہنا؛ فضل ربی کے بغیر ممکن نہیں ہے!
ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء!
علامہ شبلی نعمانیؒ کا منکسر المزاج ہونا
مولانا ڈاکٹر غلام محمد صاحب مرحوم لکھتے ہیں: میں نے اپنی آنکھوں سے حضرت (علامہ سید سلیمان ندویؒ) صاحب کی ایک چھوٹی سی ڈائری دیکھی، جس میں انہوں نے اپنے مرشد اقدس رحمۃ اللّٰه علیہ سے سنے ہوئے چند ملفوظات قلمبند فرمائے ہیں۔ پہلا ہی ملفوظ یہ ہے: (فرمایا حضرت تھانویؒ نے) کہ کانپور میں مولانا شبلیؒ کا لیکچر ہوا، اہلِ علم کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے، تاکہ اہم باتیں نوٹ کرلیں، اس محفل میں مولانا کے استاذ فاروق چریا کوٹیؒ بھی تھے، شبلی صاحب کا لیکچر اپنے انداز کا ہوا اور تحسین و آفریں، ہر طرف سے ہوئی، مگر جب وہ اپنے استاذ کے پاس آکر بیٹھے تو انھوں نے کہا کہ ذرا میرے پاؤں تو داب دو۔ مولانا شبلی بلا تکلف، اپنے معتقدین کے مجمع میں استاذ کے پاؤں دبانے لگے، اس سے معلوم ہوا کہ ان میں تکبر بالکل نہ تھا۔
ادیب، شبلی نمبر، ستمبر ١٩٦٠ء/صفحہ: ٣٣۴/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، شَرَعَ کے ایک معنی ’قانون بنانا‘یا ’ضابطہ بنانا‘ ہیں۔ جو قانون بن جائے اُسے ’شریعت‘ کہتے ہیں۔ اوپر جہاں ہم نے مویشیوں کو پانی کے گھاٹ اُتار دیا ہے، وہیں یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ جنگل کے قانون کو ’شریعۃُ الغاب‘ کہتے ہیں۔ اقبالؔ نے بے داغ شباب رکھنے والے اور ضربِ کاری لگانے والے جس جوان کو قبیلے کی آنکھ کا تارا قرار دیا ہے، اُس کی ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے:
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری
’الشّرْعُ‘ کا مطلب ہے سیدھا راستہ جو واضح ہو۔ اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے زیادہ واضح اور سیدھا راستہ کس کا ہوسکتا ہے؟ پس، اصطلاحاً ’شرع‘ سے مراد اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے، یعنی قوانینِ الٰہی کو ’شریعت‘ کہتے ہیں۔ شریعت دین کا ایک حصہ ہے پورا دین نہیں۔ سورۃ الشعرا کی آیت نمبر 13میں فرمایا گیا: ’’شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ…‘‘ ’’تمھارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر فرمایا…‘‘ یعنی دین ہمہ گیر نظام ہے اور شریعت محض ’ قوانین کا مجموعہ‘۔ ہر نبی کی شریعت الگ الگ رہی، دین سب کا ایک تھا۔ اب رہتی دنیا تک صرف ’شریعتِ محمدیؐ‘ کو اللہ کے قانون کی حیثیت حاصل ہے، باقی شرائع منسوخ۔ عربی میں قانون سازی کے عمل کو ’تشریع‘ کہتے ہیں اور قانون سازکو ’شارع‘۔
اُردو میں ’شَرَع‘ کا لفظ شریعت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اکبرؔ الٰہ آبادی نے چپکے سے یہ راز کی بات بتائی کہ
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اُجالے میں چُوکتا بھی نہیں
بنیادی طور پر شرع کا مطلب راستہ، منہاج اور طریقہ ہے۔ نہج اور منہاج بھی راستہ ہے، طریق اور طریقہ بھی راستہ ہے۔ شرع سیدھا راستہ ہے۔ شارع سیدھی سڑک اور بڑی سڑک ہے، جو راہی کو کسی خاص منزل تک لیے جاتی ہے۔ شارع کی جمع شوارع ہے۔ شارع سے مراد ’عام راستہ‘ بھی ہے۔ وہ راستہ جس پر ہر کس و ناکس چلتا چلا جاتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب خواص کسی راستے کو عوام پر بند کرتے ہیں تو اُس پرتختی لگا دیتے ہیں کہ ’’یہ شارعِ عام نہیں ہے‘‘۔ استاد قمرؔ جلالوی ایسی تختی دیکھ کر جلال میں آجاتے ہیں:
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
ایسے جلالی شعر کے بعد تو ہمیں شارع عام پر بیٹھ کریعنی اسے بند کرکے بک بک کرنے کا عمل فوراً بند کردینا چاہیے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
#Ahmed_Hatib
#وفیات مورخہ: ۲۲ نومبر
/channel/ilmokitab
ابوالفطرت میر زیدی (میروزارت حسین زیدی) 22/نومبر/1983ء
شیدا جبلپوری (سید احمد علی شاہ) 22/نومبر/1988ء
عبداللہ عبد، شیخ 22/نومبر/1973ء
فضل گلبرگوی (عبدالرحیم) 22/نومبر/1994ء
مجیب خیر آبادی(مجیب احمد) 22/نومبر/1997ء
ملک نورانی (عبدالملک) 22/نومبر/1987ء
وصال الدین 22/نومبر/1984ء
ولایت علی اصلاحی 22/نومبر/2012ء
مسٹر کینیڈی 22/نومبر/1963ء
علامہ سید سلیمان ندوی، ابو نجیب، انیس الحسن 22/نومبر/1953ء
حافظ حکمت اللہ 22/نومبر/1992ء
مہدی حسن افادی الاقتصادی 22/نومبر/1921ء
بسمل الہ آبادی ، سکھدیو پرشاد 22/نومبر/1975ء
مولانا سید احمد ہاشمی 22/نومبر/2001ء
عزرا قریشی 22/نومبر/2002ء
محمود طرزی (افغانستان) 22/نومبر/1933ء
سہیل غازی پوری 22/نومبر/2018ء
شوکت کیفی 22/نومبر/2019ء
ہماری ناقص رائے میں علامہ اقبال کی شاعری کو عالم عرب میں مقبول کرنے کا اصل سہرا، ڈاکٹر محمد حسن الاعظمی مرحوم کو جاتا ہے،کراچی میں 1949ء میں مؤتمر اسلامی کا اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اعظمی صاحب اس زمانے میں مؤتمر سے وابستہ تھے ۔ انہوں نے اس کا نفرنس کے انعقاد اور کامیابی کے لیے بھر پور کوششیں کی تھیں ۔آپ نے کانفرنس کے دوران عرب مندوبین کے لیے ترجمانی کا فریضہ انجام دیا۔ اس زمانے میں نواب زادہ لیاقت علی خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ اس کانفرنس میں سیدامین الحسینی مفتی اعظم فلسطین بھی شریک ہوئے ،اس وقت پاکستان نیا نیا بنا تھا۔ وزرا اور سیاسی قائدین قومی خدمت اور ملک کو ترقی دینے کے جذبے سے سرشار تھے۔ اسلامی نظریہ حیات کے بارے میں بھی بیشتر سیاست دان مخلص تھے۔ اعظمی صاحب قائدین کے نزدیک آ گئے اور انہوں نے ان حضرات کو عربی سیکھنے کی افادیت سے آگاہ کیا۔ سردار عبدالرب نشتر ،ڈاکٹرفضل الرحمٰن اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جو مرکزی کابینہ میں وزیر تھے، اور خود وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم اعظمی صاحب سے عربی سیکھنے لگے اور یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رہا۔
ڈاکٹر محمد حسن الاعظمی مورخہ 25 دسمبر 1922ء مبارکپور اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے تھے، اورآپ کی وفات مورخہ 8 ستمبر 1995ء کراچی میں ہوئی، آپ کی ابتدائی عربی زبان وادب کی تعلیم مبارکپور، الجامعۃ السیفیۃ سورت میں یمنی علماء ہاتھوں ہوئی تھی، جس کے بعد آپ نے جامعہ ازہر میں داخلہ لیا، اوریہاں سے 1938ء میں درجہ اول امتیاز کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، سند کی حصولیابی کے اس مقابلے میں عالم اسلام کے ایک سو گیارہ اسکالرز شریک ہوئے تھے، اوران میں سے صرف تیرہ اسکالرز کے حصے میں کامیابی آئی تھی، جن میں سے صرف آپ اکیلے غیر عرب تھے۔ یہ اعزاز پانے والے آپ پہلے ہندوستانی تھے،
ابھی علامہ اقبال زندہ تھے تو 1937ء ہی میں آپ نے آپ کے کلام کا عربی میں ترجمہ کرکے اسے عربی مجلات میں عام کرنا شروع کیا تھا، آپ کی زندگی کے دو ہی مقصد تھے، عربی زبان کی ترویج اور مسلمانوں میں آپسی بھائی چارہ ۔جس کے فروغ کے لئے آپ نے 1938ء میں جماعۃ الاخوۃ الاسلامیہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی ، جس کے صدر ڈاکٹر عبد الوہاب عزام ، اور ممبران میں مشہور مفسر قرآن طنطاوی جوہری اور شیخ الازہر مصطفی المراغی شامل تھے۔ طنطاوی جوہری نے وہ تمام کتابیں جو تفسیر الجواہر کی تصنیف میں استعمال ہوئی تھیں اس ادارے کے کتب خانے کو وقف کردی تھیں۔
آپ مسلکا بوہرہ اسماعیلی فرقہ سے نسبت رکھتے تھے، لیکن سلطان بوہرہ سیدنا برہان الدین کی شدید مخالفت کی وجہ سے آپ کو اپنے فرقہ سے نکال دیا گیا تھا۔
آپ نے سو سے زیادہ عربی و اردو تصانیف یادگار چھوڑیں،علاوہ ازیں 1939ء میں حکومت مصر کی ایما پر جامع ازہر کی ہزار سالہ تقریبات کی مناسبت سے آپ نے فاطمی حاکم امیر تمیم کا دیوان مرتب کیا،شاہ فاروق کے دور میں آپ کی تحریک پر ڈاکٹر طہ حسین کی دلچسپی سے جامعہ ازہر میں اردو زبان کا شعبہ پہلی مرتبہ کھولا گیا،پانچ جلدوں میں آپ کی عربی اردو لغت المعجم الاعظم بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
آپ نے پہلے پہل بانگ درا کے مشہور ترانوں اور نظموں کا عربی نثر میں ترجمہ کیا تھا، جسے آپ کے دوست الصاوی علی شعلان(1902ء ۔ 1982ء) نے شعر میں ڈھالا، اقبال کے اشعار میں الصاوی علی شعلان کی آپ کی نثر سے نظم میں ڈھالی گئی ان نظموں کو جو شہرت ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکی،ان میں سے چند اہم نظمیں یہ ہیں۔
شکوی جواب شکوی،
فاطمہ الزہراء
صوت إقبال إلى الأمة العربية
النشيد الإسلامي : الدِّينُ لَنَا وَالْعُرْبُ لَنَا وَالْهِنْدُ لَنَا وَالْكُلُّ لَنَا(چین وعرب ہمارا)
ان کے علاوہ بھی کئی ساری نظمیں ہیں جو ایک زمانے میں عرب بچوں کے نوک زبان تھیں۔اور ابتدائی اور ثانوی درجات میں کورس میں ترانے کی حیثیت سے گائی جاتی تھیں۔ ان نظموں کا مجموعہ ایک طویل عرصہ بعد ان دونوں کے اشتراک سے ((فلسفۃ اقبال والثقافۃ الاسلامیہ فی الھند والباکستان)) کے عنوان 1950ء میں عیسی البابی الحلبی سے شائع ہوکر مقبول عام ہوا۔ اس مجموعے میں اقبال کے کلام کے علاوہ علامہ شبلیؒ کا سیرت النبی کے شاہکار دیباچہ کا ترجمہ ، اور علامہ سید سلیمان ندوی کی سیرت عائشہ کا تعارف، اور دوسرے کئی سارے دلچسپ مضامین شامل ہیں۔
پروفیسر محمد حسن الاعظمی نے بانگ درا کی ان نظموں کو پہلے نثر میں ترجمہ کیا تھا، پھر اسے الصاوی علی شعلان نے نظم میں ڈھالا، اور یہ وہ نظمیں ہیں جن میں یہ احساس کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اقبال کی اردو نظم اور اس کے عربی ترجمے میں سے کون سی زیادہ پر جوش اور موثر ہے۔ان نظموں میں شکوی اور جواب شکوی جو جسے عربی زبان میں ((حدیث الروح )) نام دیا گیا تھا، مقبول ترین نظم ہے۔
اس کے سلسلے میں معروف محقق ڈاکٹر عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ:
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة إدام رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 188-186
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة إدام رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 184-185
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
مکتوبات شیخ الاسلام (جلد دوم۔ صفحہ ۳۸۸۔ مکتوب نمبر ۳۸۸) میں حضرت مدنیؒ کے مکتوب نمبر ۳۸۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مدنی کے دل میں مولانا فراہی کا کتنا بڑا مقام اور احترام تھا،
اس کا اظہار جناب اقبال احمد خان سہیل کے نام ایک خط میں حضرت مدنیؒ علیہ الرحمۃ نے ان الفاظ میں کیا ہے:
"مدرسۃ اصلاح سرائے میر سے مجکو کچھ قدیم سے تعلق ہے ، وہ آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے ، مدرسه مذکور کے روح رواں مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ تھے ، جو کہ قرآن شریف کے مسلم عالم تھے ، اور ایک خاص فکر و خیال رکہتے تھے ،ضرورت تھی کہ مدرسہ مذکور کے اساتذہ اور طلبہ مولانا مرحوم کی زندگی کو اپناتے اور سلف صالحین و اکابر اہل سنت والجماعت کے طریقہ کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے مولانا مرحوم کے اصول کے مطابق علمی جد وجہد جاری رکھتے" ۔۔۔ و السلام : ننگ اسلاف حسین احمد غفر له ٹانڈا ، فیض آباد ۴/ جولائی ۵۳ء
مکتوبات کے مرتب مولانا نجم الدین اصلاحیؒ نے اس خط کے حاشئے میں لکھا ہے کہ
"پھر عرصہ کے بعد علامہ شبلی نعمانی مرحوم نے اس (مدرسۃ الاصلاح) کے ابتدائی اغراض و مقاصد نصاب تعلیم اور طریقہ کار کا خاکہ تیار کیا ، اور استاد امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائے قیام سے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک بحیثیت ناظم اس کی خدمت کی اس کے ناتمام شعبوں کی تکمیل فرمائی اور اس کی خاطر دنیا کے تمام دوسرے مشاغل سے علیحدہ ہو گئے،اور مدرسہ کا پہلا دور آپ کی وفات ۱۹۳۰ء پرجا کر ختم ہو گیا ، انا للہ وانا الیہ راجعون، حضرت مولانا مدنی مدظلہ العالی کا مدرسہ مذکور سے پہلا تعلق تو یہ ہے کہ اس کا سنگ بنیاد ایک دیوبندی عالم اور شیخ الہند کے شاگرد نے رکہا ہے ، دوسرے یہ کہ مولانا فراہی اور مولانا مدنی کی پہلی ملاقات کلکتہ میں اس وقت ہوئی جب مولانا فراہی مدرسے کے کام سے رنگون تشریف لے جارہے تھے، اس کے بعد پھر ۱۹۳۳ء میں مدرسہ پر مولانا مدنی نظلہ العالی پہلی بار تشریف لائے اور پھر سیاسی مشاغل قید و بند کے مصائب سے تشریف لانا ممکن نہیں ہوا حسن اتفاق کہئے یا سوئےاتفاق کہ ۱۹۳۶ء میں مدرسے کے آرگن رسالہ الاصلاح فروری ۱۹۳۶ء میں شائع شدہ ایک ناقص تحریر کی بنا پر مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین فراہی رحمھما الله کی تکفیر کی گئی، اور انہیں کے تعلق سے مدرستہ الاصلاح کے اساتذہ کارکنوں اور تمام متعلقین اور ہمدردوں کو بھی کافر قرار دیا گیا، اور اس کا اثر مدرسہ پر بڑی تیزی سے پڑا، اطراف ودیار کے مسلمان مدرسے سے حد درجہ بد ظن اور سارے ضلع اور ملک میں اک آگ سی لگ رہی تھی ، ان حالات کو دیکھ کر شیخ الاسلام حضرت مولانا مدنی مدظلہ العالی نے مدرسہ پر ایک والا نامہ اس مضمون کا روانہ فرمایا کہ مولانا حمید الدین فراہی مرحوم ۔۔۔ اور مولانا شبلی مرحوم کی تکفیر الاصلاح فروری ۱۹۳۶ء کے جس مضمون کی بنا پر کی گئی ہے۔ اس کو میرے پاس روانہ کر دیا جائے، پر چہ روانہ کر دیا گیا اس کے بعد حضرت مولانا مدنی مدظلہ العالی نے تحریر فرمایا کہ میں فلاں تاریخ کو مدرستہ الاصلاح پہنچ رہا ہوں ، چنانچہ تشریف لائے الاصلاح کی جن عبارتوں پر تکفیر کی گئی تھی ان کو دیکھنے اور اساتذه مدرسہ سے چند استفسارات کے بعد حضرت مولانا مدنی ظلہ العالی نے مندرجہ ذیل بیان بغرض اشاعت عنایت فرمایا ۔
محترم المقام زید مجدکم السلام علیکم ورحمة الله و بركاته . آپ حضرات کے منسلکہ جوابات کو دیکھ کر مجھے اطمینان کلی ہو گیا اور جو شکوک شبہات مجھکو مولوی محمد فاروق صاحب کے کھلے معروضہ کو دیکھنے اور دیگر حضرات کے کلمات کی بنا پر پیدا ہوئے تھے وہ سب رفع ہو گئے مجھے سخت تعجب ہے کہ ان حضرات نے ایسے سخت گذار خطرناک راستہ یعنی تکفیر مومنین کو کیوں اختیار فرمایا ہے ، حالانکہ اس کے اور اس کے مماثل امور کے لئے نہایت شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں، کیا ((فقد باء باحدھما)) الحدیث اور ((كل المسلم على المسلم حرام)) الحدیث وغیرہ احادیث تو یہ ازجار کے لئے کافی نہیں ہیں ، کیا آپس کے نزاعات نفسانیہ اس کی اجازت دیتے ہیں کہ افتراآت اور بہتانوں کا طومار باندھ کر تکفیر کے فتاوی حاصل کئے جائیں ، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے مدرستہ الاصلاح کے پرچے دیکھے مجکوان میں ایسی کوئی چیز نہیں ملی، جس کا کوئی صحیح محل نہیں ہو سکتا ہے مجکو سخت افسوس ہے کہ مولانا فاروق صاحب اور انکے موافقین نے وہ ہی نا پاک طریقہ اختیار فرمایا ہے، جو کہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی اور ان کے ہمنواؤں کا تھا، اور ہے فالی اللہ المشتکی، آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہم کو اور ان حضرات کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور ان النفس الامارة بالسوء" کا مظہر بننے سے محفوظ رکھے، واللہ ولی التوفیق ۔ ننگ اسلاف حسین احمد غفرله ۱۰/صفر ۱۳۵۵ھ )
سلسلہ نمبر: 240
انتخاب مطالعہ
تحریر: *حضرت حکیم الامتؒ*
*عوام کے مجمع میں بیان کرنے میں ضروری احتیاط متوحش مضامین سے احتراز*
ﷲ تعالی نے حضور ﷺ کو تنگ دست یا تہی دست نہیں بنایا تھا ؛ آپ کا فقر و ترک اختیاری تھا،اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ :ﷲ تعالی نے حضورﷺ کو اہانت کی صورت سے بھی بچایا ہے ؛ اسی واسطے محققین نے مشورہ دیا ہے کہ کم فہم عوام جہلاء کے مجمع میں حضورﷺ کے فاقے وغیرہ کا بیان نہ کرے ؛ بل کہ ایسے عوام کے سامنے وہی مضامین بیان کرنا چاہئے جن میں حضور ﷺ کی شان و شوکت بیان ہوتی ہو! ان کے سامنے فقر و فاقہ کے مضامین بیان نہ کرنے چاہئیں ؛ کیونکہ اس میں احتمال ہے کہ ان کے قلوب سے حضور ﷺ کی عظمت نکل جائے۔
میرے ایک دوست ”مولوی منت ﷲ “ ہیں، انہوں نے ایک گاؤں میں یہ بیان کردیا کہ: ”حضور ﷺ کبھی کبھی نعلین (جوتے) مبارک کے ساتھ نماز پڑھتے تھے ،ایک مرتبہ جبرئیلؑ نے آپ ﷺ کو اطلاع دی کہ نعلین مبارک میں نجاست بھری ہے ،حضور ﷺ نے نعل نکال ڈالا“
فی نفسہ واقعہ تو صحیح ہے ؛ مگر لوگ بگڑ گئے کہ تو کیسا بدعقیدہ ہے؟ کہیں جناب ﷺکی مبارک نجس ہوسکتی ہے؟ خیر تھا تو ان کا جہل ؛ مگر ناشی ( پیدا ) تھا ،حضور ﷺ کی عظمت و اعتقاد سے مولوی صاحب نے مجھ سے شکایت کی میں نے کہا: ایسی جگہ آپ کو ایسی بات نہ کہنا چاہئے تھی ؛ اس میں فتنے کا احتمال ہے۔
غرض علمائے محققین نے تصریح کی ہے کہ عوام کے مجمع میں حضور ﷺ کے فقر و فاقہ کو نہ بیان کرنا چاہئے! تاکہ قلوب میں عظمت باقی رہے ؛ مگر جہاں فہیم ( سمجھ دار ) ہوں تو کچھ مضائقہ نہیں ( ضرور بیان کونا چاہئے) البتہ جہاں کے لوگ کم فہم ہوں وہاں ہرگز نہ بیان کرنا چاہئے ۔
جیسے بعض جہلاء کا قصہ سنا ہے کہ: کسی دیہات میں وہاں کے لوگوں سے پوچھا گیا : تم کون قوم ہو؟ کہا: مسلمان، کس کی امت میں ہو؟ کہا: ایک راجہ پچھاں میں گجرو ہے ( یعنی پچھم میں گزرا ہے ) ہم واکی ( اس کی ) امت میں ہیں، ان لوگوں کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ حضور ﷺ کی جائے پیدائش کیا ہے ؟اسم گرامی کیا ہے ؟۔اجمالا اتنا جانتے تھے کہ پچھاں میں راجہ ہوئے ہیں ،اگر ان نادانوں سے حضور ﷺ کے فقر و فاقہ کی حالت بیان کی جائے تو حو عظمت راجہ ہونے کے خیال سے ہے وہ بھی جاتی رہے گی ؛ اس لیے قوی احتمال ہے کہ اس قسم کے لوگ برائے نام بھی اسلام سے منحرف ہوجائیں گے۔
( *آداب تقریر وتصنیف، صفحہ: 73،طبع: مکہ کتاب گھر ،لاھور*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سنوسنو!!
حرمین شریفین میں گداگروں کا ہجوم
(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
گداگری ایک انٹرنیشنل پیشہ اختیار کرگیا ہے ،پاکستان کے گداگروں نے تو اس کاروبار کو ایسا پھیلا دیاہے کہ آپ کو حرمین شریفین میں بھی ہر جگہ مانگتے مل جائیں گے ، یہ میں سنی سنائی یا ہوا ہوائی نہیں بلکہ آپ بیتی لکھ رہا ہوں ، کبھی آپ سے بڑے پیار بھرے انداز میں کوئی شخص سلام کرے گا ، آپ خوش اخلاقی کے ساتھ اس کے سلام کا جواب دیں گے، وہ آپ سے قریب ہوکر اپنی عجیب و غریب مجبوریاں بتائے گا، کسی کاپورا سامان غائب ہوگیا ہے ، کوئی بے قصور جیل میں بھیج دیاگیااوراب بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیاہے، کسی کے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہے ، بعض کی پوری فیملی بھوکی ہے اور کھانے کے پیسے مطلوب ہیں، یعنی ایسے ایسے حالات اور بھیک کی وجوہات آپ کے سامنے بیان کریں گے کہ آپ مجبور ہوجائیں گے ، وہاں ریال چلتے ہیں اگر آپ نے دس ریال بھی دے دئے جوظاہر ہے وہاں کے حساب سے بہت معمولی رقم ہے لیکن یہ رقم آپ نے انڈین روپے سے بدلی ہے اس لئے آپ نے گویا ڈھائی سو روپے اس کو دے دئے پھر بھی اس کا شکوہ ہوگا کہ ابھی تو ایک خوراک کے بقدر بھی نہیں ہوئے۔
سعودی حکومت ایسے پیشہ ور گداگروں پرخاصی سختی کرتی ہے لیکن اب ہرشخص کے پیچھے تو پولیس والا تعینات نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی یہ شاطر قسم کے لوگ ایسا حلیہ بناکر رکھتے ہیں کہ شرطہ (پولیس) کوشک ہو ، یہ تو اتنے کھلاڑی ہوتے ہیں کہ آپ خودان کے سامنے اناڑی ثابت ہوسکتے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے سے یعنی بھیک مانگنے سے منع فرمایا ہے لیکن یہ لوگ وہاں اتنی بڑی تعداد میں گھومتے رہتے ہیں کہ اُن کا باقاعدہ فی صدنکل سکتا ہے،کبھی یہ مطاف میں مل جائیں گے اور کبھی مسعیٰ میں سعی کرتے ہوئے اپنی بات آپ سے بیان کرکے ریال اینٹھ لیں گے۔
ایک بار ایک شخص مجھے انڈین کشمیر کا ملا وہ بھی اس کے بقول انڈیا کے کشمیر سے تعلق رکھتا تھا ویسے ممکن ہے وہ جھوٹ بول رہا ہو اس کا کہنا تھا کہ اس کے گھرکو گرادیا گیا ہے اور پوری فیملی بے گھرہوچکی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ جو شخص سوال سے بچے اللہ بھی اسے بچائے گا ۔(بخاری)
بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گداگر جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔
ایک بار تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرما دیا کہ جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔
اسی لئے سعودی حکومت کے وزارت حج کی طرف سے تقریباً ہرسال ایک اعلان جاری ہوتاہے جس کامضمون تقریباً یہ ہوتاہے کہ کوئی صاحب حرمین شریفین یاسعودی عرب میں کہیں بھی کسی گداگر کو بھیک نہ دیں کیونکہ یہ مستحق نہیں ہیں بلکہ پیشہ ور قسم کے گداگر ہیں ۔یہی نہیں اگر کوئی گداگر رنگے ہاتھوں نقدی کے ساتھ پکڑا جاتا ہے یا کوئی شخص ان گداگروں کا تعاون کرتے ہوئے پکڑا جاتاہے تو یہ قانوناً سنگین جرم ہے اور پکڑے جانے پر کم ازکم ایک سال کی قید یا ایک لاکھ ریال جرمانہ کی سزا ہے۔اس کی مزید تفصیل آپ پبلک پراسیکیوشن کے ٹوئٹر پر دیکھ سکتے ہیں۔
سہارنپورکی ایک خاتون حج کرنے گئی وہاں کسی نے اس کومستحق سمجھ کراس کے ہاتھوں پر کچھ ریال رکھ دئے اس غیر متوقع مدد نے اس خاتون کو مزید حوصلہ دیا اور باقاعدہ ہاتھ پھیلانے لگی ،لوگ ارض حرم کے تقدس میں کچھ نہ کچھ مدد کرنے کو اپنی سعادت مندی اور کار ثواب سمجھتے ہی ہیں اس لئے اس خاتون کی اچھی خاصی آمدنی ہوگئی ،نتیجہ یہ ہواکہ یہ خاتون جب واپس سہارنپور پہنچی تو اس کو اس کے امیر بھائیوں نے باقاعدہ گداگری پر لگادیا اور اب بھی یہ خاتون مظاہرعلوم اوراس کے قرب وجوارمیں صبح سے شام تک بھیک مانگتے دیکھی جاسکتی ہے ۔یعنی گھرسے مالی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود اب گداگری کا کام اس کا شوق بن چکا ہے۔یاد رہے غیرمستحق کو زکوۃ کی رقم دینے سے زکوۃ ادانہیں ہوتی ہے ،دینے والے کوپہلے خودہی تحقیق کرلینا ضروری ہے ورنہ آپ خوش ہیں کہ زکوۃ نکال دی ہے اور اُدھر آپ کے نامۂ اعمال میں لکھا ہوگا کہ زکوۃ نہیں دی ہے۔
اگر آپ کو دینا ہی ہے توآپ مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کی ان خود دار اور غیور خواتین کو دیجئے جو مکمل پردے کے ساتھ چند چیزیں سڑک کے کنارے زمین پر بیچ رہی ہیں ، ان بچوں کو دیجئے جونہایت سستی چیزیں کسی گلی کوچہ میں بیچ کر اپنا پیٹ پال رہے ہیں ، زیادہ شوق ہے توگاڑی کرکے دہاتوں میں جائیں کیونکہ سعودی عرب کے بہت سے قبائل اور دہات اب بھی بہت ہی غریب ہیں لیکن خود دار اور غیورہیں اور بہت ممکن ہے کہ وہ آپ کی رقم غیرت کی وجہ سے قبول
صبح آزادی
کلام وآواز: فیض احمد فیض
وفات( ۲۰ نومبر)
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=subh-e-aazadi, Subh-E-Aazadi
مزید کلام سننے کے لئے
Faiz Ahmed Faiz » Urdu Audio
مرتبہ بات ہوئی، کئی منٹ بات کی جس میں وہ بہت خوش اور صاحب زادے کی طرف سے کافی مطمئن نظر آئے۔ فرمانے لگے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن محض اللہ کے فضل سے ہو گیا پھر فرمایا: ”آپ کا خط دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔“ باتیں تو کافی ہوئی تھیں ہمیشہ کی طرح، یہاں ان کو بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔
یادگار لمحے
ویسے تو بہت سی یادیں ہیں لیکن تین مواقع ایسے ہیں جو ہمیشہ یاد رہیں گے ایک جب ہماری کتاب –”ایک مرد آہن کی داستان“– کا اجرا ہوا تو اس موقع پر دلچسپ ملاقات رہی اور ایک جب دارالعلوم دیوبند کی دیوار کے نیچے –”محمود ہال“– میں حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ کی کئی ایک کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی اس پروگرام میں دیوبند کی کئی علمی شخصیتیں موجود تھیں ایک حضرت مولانا احمد خضر کشمیری دامت برکاتہم شیخ الحدیث دار العلوم وقف دیوبند اور ایک حضرت مولانا قاری ابوالحسن اعظمی صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا ندیم الواجدی رحمہ اللہ؛ تو اس موقع پر ہماری بھی تاثراتی تقریر ہوئی تھی، تقریر کے بعد جب میں کرسی پر بیٹھنے لگا تو حضرت مولانا رحمہ اللہ مسکرائے اور کہا ماشاء اللہ۔ پروگرام کے اختتام پر بہت سے حوصلہ افزا کلمات سے نوازا اور محبت بھرے انداز میں بہت سی باتیں کیں اور سب سے یادگار موقع تقریباً دو سال قبل میری دعوتِ ولیمہ میں حاضری کا ہے، تقریباً ڈھائی تین گھنٹہ پروگرام میں موجود رہے، بہت سی علمی وروحانی، سیاسی و سماجی شخصیات موجود تھیں وہ لوگ حضرت مولانا سے ملاقاتیں و باتیں کرتے رہے، جاتے وقت مجھے دعاؤں سے نوازا اور کہا آپ کے پروگرام میں بہت جی لگا، پھر جب بھی میری بات ہوتی تو یہ ہی کہتے کہ آپ کے پروگرام میں میرا بہت جی لگا۔
کچھ نقوشِ حیات خود ان کی زبانی
امریکہ جانے سے تقریبا ایک ماہ قبل ہماری بات ہوئی، بات سے بات نکلی تو کچھ اپنی آپ بیتی بتانا شروع کی، اس میں بہت سے سرد و گرم حالات کا ذکر تھا۔ کہنے لگے میرے پاس کچھ نہیں تھا، تعلیم سے فراغت کے بعد تقریباً ایک سال حیدر آباد رہا اور پھر حضرت مولانا وحید الزماں رحمہ اللہ کے مشورہ سے کتابوں کی تجارت شروع کی، اس کا آغاز بھی عجیب طرح ہوا کہ میں نے اینٹوں کا ایک چٹہ لگایا اور اس پر کتابیں رکھ کر فروخت کرنا شروع کی، بحمد اللہ بہت برکت ہوئی اور تجارت بڑھتے بڑھتے آج آپ کے سامنے ہے۔ اسی درمیان عرض کیا کہ ہمارے گھر کی صورت حال یہ تھی کہ ایک کمرہ تھا اس میں پنکھا بھی نہیں تھا، گرمی کے زمانے میں بہت پریشانی ہوتی تھی۔ شدید گرمی ہوتی تھی اور چراغ کی روشنی میں لکھنا ہوتا تھا اس سے بھی پہلے کی بات بتانے لگے، ہم بہت سارے بہن بھائی تھے حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کی آمدنی بہت کم تھی، آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیسے خرچ چلتا ہوگا، پھر فرمانے لگے یہ جو اچھی حالت میں مجھے لوگ دیکھ رہے ہیں وہ بہت بعد میں ہوا؛ ورنہ بہت سی پریشانیوں و مشکلوں سے گزرنا پڑا۔
آخرت کی طرف روانگی
حضرت مولانا رحمہ اللہ نے کامیاب زندگی گزاری، انسان کے لیے اس سے زیادہ خوش بختی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ زندگی کا بیشتر حصہ علمی و دینی کاموں میں صرف ہوا۔ مزید یہ کہ زندگی کا خاتمہ اس قدر اچھے انداز میں ہوا کہ بہت کم لوگوں کا ایسا نصیب ہوتا ہے۔ ادھر سیرت النبی صلی اللہ پر کام پورا ہوا اور ادھر امریکہ میں ایک تاریخی موقع برہان اکیڈمی کا افتتاح اور واپسی پر زیارتِ حرمین شریفین کا ارادہ۔ ساتھ میں اصلاح وسلوک کا وہ جذبہ جومسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمہ اللہ جلال آبادی کی مجلسوں اور ان کی شاگردی سے پیدا ہوا تھا، آخر میں بافیض شخصیت، بزرگ عالم دین، حضرت مولانا عبد الستار صاحب بوڈیوی دامت برکاتہم کے ہاتھ پر مکمل ہوا۔ اسی لیے حضرت بوڈیوی نے ان کو 28 جون 2023ء کو اجازت و خلافت سے بھی نوازا تھا۔ بس آپ اپنے الفاظ میں کہہ لیجیے کہ علمی و روحانی منازل طے کرنے کے بعد اب سفرِ آخرت کی طرف روانگی ہوئی۔ حضرت مولانا رحمہ اللہ نے 23/ جولائی 1954ء کو دیوبند میں آنکھیں کھولیں اور 14/ اکتوبر 2024ء کو زندگی کی 70 بہاریں دیکھ کر آخرت کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہم سب سے دُور امریکہ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا
30 / ربیع الثانی 1446ھ مطابق 3/ نومبر 2024ء
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
عمدہ لباس زیب تن کرتے تو ان کی شخصیت لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی تھی اور ان کا یہ انداز کہ چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کے ساتھ مسکرا کر ملنا اس میں مزید کشش پیدا کر دیتا تھا۔ ان کو بار ہا دیکھا دو ایک شادیوں کی محفلوں اور کئی ایک دینی و علمی مجلسوں میں کہ جہاں پر بڑے بڑے حضرات موجود ہوتے تھے اور حضرت مولانا رحمہ اللہ عام لوگوں کے ساتھ بھی اسی طرح ملاقات کر رہے ہوتے تھے جیسے خواص کے ساتھ؛ ورنہ ہم نے بعض شخصیتیں ایسی بھی دیکھی ہیں کہ ان کو ذرا سی کسی میدان میں اہمیت دی جانے لگی وہ ہوا میں اڑنے لگتی ہیں عوام تو دور کی بات اپنے ہی میدان کے اصاغر کو نظر انداز کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ لوگ ان کو آ کر سلام کریں، ان کو کسی کو سلام و مصافحہ نہ کرنا پڑے۔ ہماری رائے میں حضرت مولانا کی یہ خصوصیت تھی کہ جس نے ہزاروں لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت و عقیدت پیدا کر دی تھی۔
خوددار
خود داری حضرت مولانا رحمہ اللہ کے مزاج میں تھی، ان کے یہاں طمع و لالچ کا عنصر ناپیدا تھا۔ یہ ان کے بوڈی لینگویج اور تحریر و زبان سے بھی جھلکتا تھا، وہ اس بات پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے کہ کسی عہدے و منصب، دولت و ثروت کے لیے اپنے نظریہ یا اصول کو تبدیل کردیں اسی لیے انھوں نے وہی لکھا و بولا جو ان کو لکھنا و بولنا تھا۔ ان کے پاس اداروں و ملی تنظیموں کی طرف سے کئی ایک ایسی پیشکش تھیں کہ اگر وہ اپنی تحریروں میں اپنے نظریہ واصول سے ہٹ کر بات کرتے تو پھر وہ بہت سی تنظیموں کے ممبر ہی نہیں بلکہ اس کے اہم لوگوں میں ہوتے اور بہت سے اداروں کی شوری میں ان کو جگہ ملتی۔ لیکن خود دار انسان کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنے نظریہ کو پسِ پشت ڈال کر عہدہ و منصب، دولت و ثروت حاصل کر لے۔ اسی طرح ان کی خود داری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جس انسان سے بھی تعلق رکھتے اس سے مخلصانہ و محبانہ تعلق ہوتا کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں ہوتا تھا۔
سنجیده
سنجیدگی و متانت ان کی رفتار و گفتار ہر چیز میں نظر آتی تھی اور تحریروں میں بھی اس کا اثر دکھائی دیتا ہے کسی کو کوئی مشورہ دینا ہوتا تو نہایت اچھے انداز و سنجیدہ لب ولہجہ میں دیتے تھے، کئی ایک بار مجھے تحریروں کے تعلق سے کچھ رہنما باتیں بتلائیں لیکن محسوس نہ ہونے دیا کہ میری کوئی غلطی تھی بلکہ مثبت انداز میں ایسے سمجھایا کہ بات بھی ہو گئی اور برا بھی نہ لگا۔ اس طرح کے کچھ واقعات ان کے صاحب زادے مولانا و مفتی یاسر صاحب نے بھی ان کی وفات کے بعد یوٹیوب پر اپنے لائیو شو میں بیان کئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب میں نے سرجیکل اسٹرائک نامی شو کا آغاز کیا تو بہت لوگ اس کو پسند کر رہے تھے لیکن حضرت مولانا رحمہ اللہ نے بڑے ہی سنجیدہ و ہمدردانہ انداز میں فرمایا۔ اس سے آپ کے بارے میں یہ تصور پیدا ہو ر ہا ہے کہ آپ صحافی ہیں جب کہ آپ کا کام علمی ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس کو بند کر دیا جائے۔ مفتی یاسر صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو بند کر دیا اور پھر ردِ الحاد و ارتداد پر کام کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ بحمد اللہ آج سب کے سامنے ہے۔ اس طرح کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہایت سنجیدہ انسان تھے بات کہنا اور مشورہ دینا کوئی ان سے سیکھے۔
نفاست پسند
حضرت مولانا رحمہ اللہ انتہائی نفیس انسان تھے ایک نفاست تو انسان کے رہن سہن، لباس و پوشاک میں نظر آتی ہے جو ان کے یہاں دکھائی دیتی تھی لیکن ایک نفاست وہ ہے جو ان کے کردار واخلاق، معاملات و معاشرت سے پرکھی جاتی ہے۔ یہ بھی ان کے یہاں بحمداللہ پائی جاتی تھی۔ انھوں نے ایک طویل عرصے تک تجارت کی ہے؛ لیکن ہم نے ان کے اخلاق و معاملات کے متعلق کسی سے کوئی برائی نہیں سنی ان کا نام سب عزت و احترام سے ہی لیتے تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ ظاہراً بھی نفیس تھے اور باطناً بھی۔ یہ سلیقہ خدا وحدہ لاشریک کی طرف سے منتخب لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
اصاغر نواز
اصاغر نوازی ان کی ایسی خوبی تھی جس کی وجہ سے حضرت مولانا رحمہ اللہ نے نوخیز قلم کاروں و مصنفوں، ملی وتعلیمی میدانوں میں کام کرنے والے نو جوانوں کے قلوب میں جگہ بنائی تھی۔ ان کے پاس علمی و سیاسی، سماجی و تجارتی دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی نوجوان جاتا تو وہ اس کو نہ صرف یہ کہ وقت دیتے بلکہ اگر کسی کو طلب ہوتی تو مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔ ہمارے کئی ایک دوستوں نے ان کے ہم سے ایسے کچھ واقعات نقل بھی کئے ہیں۔ خود میرے ساتھ بھی حضرت مولانا رحمہ اللہ کا یہ طرزِ عمل رہا کہ علمی و تجارتی اعتبار سے بہت سی مرتبہ گفتگو ہوئی اور وہ بار بار معلوم بھی کرتے رہتے تھے کہ آپ کا فلاں علمی و تجارتی کام کہاں تک پہنچا۔ جب بھی ان کو لگتا یہ مشورہ دینا چاہیے وہ دیتے بھی تھے اور اگر کسی میدان میں کامیابی کا علم ہوتا تو اس پر خوشی کا اظہار بھی فرماتے تھے۔ آج کی دنیا میں – جب کہ ہر طرف پیسہ کی پوجا اور عہدہ و منصب کی حرص نے لوگوں کو اپنا غلام
اکابر دیوبند کی فکر و نہج کی ترجمانی نظر آتی ہے چناں چہ اس کے نقوش ان کی کتاب –”ملت اسلامیہ کے دھڑکتے ہوئے دل“– میں بہ آسانی مل جائیں گے۔
اشاعت اسلام و دفاع اسلام
حضرت مولانا رحمہ اللہ نے اپنے علمی قلمی دور میں تبلیغ اسلام کا بھی فریضہ انجام دیا اور دفاع اسلام پر بھی کام کیا ہے، جدید دور کے سیاسی، سماجی، معاشی انسانی مسائل کا حل اسلامی تناظر میں کیسے ہو سکتا ہے اس پر خوب لکھا ہے۔ اس سلسلے کی ان کی ایک ضخیم کتاب –”انسانی مسائل اسلامی تناظر میں“– موجود ہے اسی طرح اہل اسلام کی اسلامی رہبری ورہنمائی کے لیے –”اسلام اور ہماری زندگی“– چھپ چکی ہے اور وقتاً فوقتاً اپنی تحریروں کے ذریعہ اسلام کی حقانیت و صداقت کو بیان کرتے رہنا ان کا مزاج تھا۔ دفاع اسلام پر بھی ان کی کئی ایک کتابیں ہیں، ویسے تو ہر دور کے علما اپنے زمانے میں اسلام کے تعلق سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات، اعتراضات و اشکالات کے جوابات دیتے رہے ہیں، عربی و ارود میں اس پر بہت لکھا گیا ہے موجودہ دور میں بھی لکھا و بولا جا رہا ہے حضرت مولانا رحمہ اللہ بھی عصر حاضر کی ان علمی شخصیات میں سے تھے جنھوں نے اس موضوع پر لکھا ہے۔ ان کا امتیاز یہ تھا کہ جدید دور میں جس طرح سے لوگ اسلامی تعلیمات و ہدایات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں کی زبان میں ان کو جواب دینا؛ یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن حضرت مولانا رحمہ اللہ نے اس کو بہ خوبی انجام دیا خصوصاً ہندوستان میں جس طرح سے اسلام اور مسلمانوں سے عناد کی وجہ سے شکوک و شبہات پروپیگنڈے کے تحت پھیلائے جاتے ہیں حضرت مولانا رحمہ اللہ کے یہاں ان کو اس طرح بیان کیا جاتا تھا کہ اسلام کی حقانیت واضح ہو جاتی تھی۔ اس سلسلے کی ایک کڑی ان کی ایک کتاب –”اسلام حقائق اور غلط فہمیاں“– اور دوسری –”نئے ذہن کے شبہات اور اسلام کا موقف“– ہیں۔ اور اس پر لکھنے اور بولنے کے لیے نوجوان اہل علم و قلم کو بھی مشورہ دیتے تھے۔ ان کے صاحب زادے حضرت مولانا مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب اس پر شاندار کام کر رہے ہیں جو قابل تعریف و توصیف ہے۔ ظاہر ہے یہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی تربیت و توجہات کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے گلوبل لیول پر اپنی پہچان بنالی ہے۔
مغرب کے نقاد
اس موضوع پر ان کی تحریریں بہت زیادہ تو نہیں ہیں لیکن جو ہیں وہ بہت اچھی ہیں اور جب بھی کسی موضوع پر بات کی ہے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مغرب پر نقد کا انداز عمدہ اور اسلامی تعلیمات سے طرزِ استدلال نہایت شاندار ہوتا تھا، اس کو دیکھنے کے لیے ان کی کتاب –”لہو پکارے گا آستیں کا“– موجود ہے، جس میں بہت سے مضامین مغربیت اور اسلامیت سے متعلق مل جائیں گے۔
قرآن کریم کے واقعات کے مصنف
ویسے تو اس موضوع پر کئی ایک اہل علم و قلم نے زور آزمائی کی ہے اور کسی نے اس کو انبیا کے تذکرے کا نام دیا ہے تو کسی نے قرآنی واقعات سے موسوم کیا ہے لیکن اس موضوع پر اردو میں نہایت شاندار، جامع، محقق کتاب حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی –”قصص القرآن“– ہے، ان کے کیا کہنے! اس کتاب کو ہم نے بحمد اللہ کئی بار پڑھا، وہ بات دور کی کرتے ہیں اور بعض ایسے تفسیری نکات بیان کرتے ہیں کہ ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لئے ان کے لئے تو یہ ہی کہا جائے گا۔
أولئك آبائي فجئنی بمثلهم
اذا جمعتنا يا جرير المجامع
لیکن اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان کی یہ کتاب ایسے لوگوں کے لیے تو بہت اچھی ہے جو تفسیر کا شغف اور تحقیقی ذوق رکھتے ہوں لیکن جو قرآنی واقعات کو علمی وتحقیقی بحثوں سے یک طرف ہو کر بحیثیت واقعات کے پڑھنا چاہیں تو ایسے کام کی بہ ہر حال ضرورت تھی۔ بہت سے لوگوں نے اس پر کام کیا ہے؛ لیکن اس سلسلے میں ہمیں حضرت مولانا رحمہ اللہ کی کتاب –”قرآن کریم کے واقعات“– بہت پسند آئی، اس میں نہایت عمدہ زبان، وہی رواں اسلوبِ نگارش!! اور زیادہ علمی و تحقیقی بحثوں کو اس میں بیان نہیں کیا گیا۔ اللہ رب العزت نے ان سے قرآن کی تفسیر کا بھی کام لیا۔ کسی انسان کو قرآنی مضامین کو لکھنے کا موقع مل جائے، اس سے بڑا فضل اللہ تعالی کی طرف سے انسان کے اوپر کیا ہو سکتا ہے جو کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کے حصہ میں آیا۔
قلمی سفر کے تین دور
ایک دور ابتدا کا ہے کہ جب انھیں لکھنے کا شوق پیدا ہوا تو انھوں نے کم عمری میں ہی ایک تحریر لکھ کر مولانا وحید الدین خاں مرحوم کو الجمعيۃ کے لیے دی لیکن انھوں نے یہ کہہ کر کہ ابھی اور پڑھو اس کو الجمعیۃ میں جگہ نہ دی، اس کے بعد حضرت مولانا نے قلم کو ایسا سنبھالا کہ زمانہ طالب علمی میں ہی اپنا لوہا منوا لیا اور ہر موضوع پر خوب لکھا۔ دوسرا دور تعلیم سے فراغت کے بعد شروع ہوا اور وہ اس قدر لکھنے لگے کہ کوئی بھی مسئلہ ملی و قومی، سیاسی و سماجی ہوتا تو اس زمانے کے لوگ بتاتے ہیں کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی اس پر سب سے پہلے شاندار تحریر آجاتی تھی، لکھتے لکھتے ایک دور وہ آیا کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کا ایک طرف
رسالہ ترجمان دیوبند
حضرت مولانا رحمہ اللہ نے 2001ء میں ترجمان دیوبند نامی رسالہ کا آغاز کیا اس کے اندر مولانا کے قلم نے جو علمی و فکری جواہر پارے بکھیرے ہیں، اس سے ان کی شخصیت میں چار چاند لگ گئے اور یہ رسالہ ملک کے ان چند رسائل میں سے تھا کہ جو علم و معلومات سے پر اور عمدہ مضامین سے لبریز ہوتا تھا۔ گویا یہ دیوبند کا نہ صرف یہ کہ علمی وفکری بلکہ منہج دیوبند کا ترجمان بھی تھا۔ اس کی وجہ سے مولانا رحمہ اللہ کی تحریروں کو جو پذیرائی ملی ہے؛ علم و قلم سے وابستہ حضرات ان کو ترجمان دیوبند والے کے نام سے جاننے لگے تھے اور علمی قلمی دلچپسی رکھنے والے لوگ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور پڑھتے تھے۔
ملی و فکری ذہن کے حامل
ان کے قلم سے بہت سی تحریر میں ایسی نکلیں جن سے ان کے ملی وفکری ذہن کا اندازہ ہوتا ہے وہ ان مسائل پر بے لاگ لکھتے تھے، حق لکھنے میں ان کا قلم نہ کبھی رکا نہ جھکا اور نہ اس نے نظریات سے ہٹ کر ذاتیات کی طرف رخ کیا؛ بلکہ ایک سنجیدہ و باشعور اہل علم کی طرح بات کی اور دلائل کی دنیا میں بھی ان کے پاس کوئی کمی نہ ہوتی تھی، اسی طرح نظریات کو ثابت کرنے کے لیے تجربات و مشاہدات بھی بیان کیا کرتے تھے۔ ہم نے کئی مرتبہ ان سے بہت سے قومی و ملی، فکری و سیاسی مسائل پر بات کی تو بڑے سنجیدہ لب و لہجے میں بہت سی باتوں کا حل پیش کیا اس سلسلے کی ان کی ایک کتاب یہاں قابل ذکر ہے اور وہ ہے –”مسلمانوں کی ملی اور سیاسی زندگی“–۔ اس کتاب کو پڑھنے سے حضرت مولانا رحمہ اللہ کی فکری بلندی اور سیاسی سوجھ بوجھ کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ –”نگارشات“– میں بہت سی ایسی تحریریں مل جائیں گی جن سے قوم وملت کے لیے رہبری و رہنمائی کا سامان ہے اور –”آئینۂ افکار“– میں بھی اس کے نقوش نظر آجائیں گے۔
علم و تحقیق کے شناور
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی پوری زندگی علم وتحقیق میں گزری؛ یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کوئی انسان تجارت کرے اور اس کی بے پناہ مشغولیات و مصروفیات اور ذہنی الجھنوں و پریشانیوں کے باوجود علم وتحقیق کے دامن کو تھامے رکھے اور اس کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرے حضرت مولانا رحمہ اللہ نے تقریباً نصف صدی تک اس کو بڑی حسن و خوبی سے انجام دیا اور کئی ایک ایسے علمی و تحقیقی کام ان کے حصے میں آئے کہ جو بہت سے وہ حضرات بھی نہیں کر پاتے جو مدرسوں اور اداروں کی چہار دیواریوں میں رہ کر زندگی گزارتے ہیں۔ در اصل حضرت مولانا کے یہاں غفلت و سستی کا عنصر نہیں پایا جاتا تھا اور وقت کی پابندی بھی ان کے یہاں بڑی اہمیت کی حامل تھی اسی لیے وہ اپنے سارے کاموں کو آسانی کے ساتھ سمیٹ لیا کرتے تھے گویا علم وتحقیق کا ذوق اور لکھنے پڑھنے کا شوق ان کو اس بات پر مجبور کرتا تھا کہ وہ سارے کاموں کو مقدم و مؤخر کر کے علمی وتحقیقی کاموں میں مشغول ہو جائیں۔
ترجمہ نگار
امام غزالی رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ کتاب –”احیاء العلوم“– جس کا ڈنکا عرب و عجم میں بجتا رہا ہے جس کے بارے میں علماء اسلام کی رائے ہے کہ اگر دنیا سے تمام علوم مٹ جائیں تو صرف یہ کتاب کافی ہے۔ علامہ سبکی رحمہ اللہ اس کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ یہ ان کتابوں میں سے ہے جن کی حفاظت اور اشاعت مسلمانوں پر لازم ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مخلوق ہدایت یافتہ ہو۔ حضرت مولانا نے اس کا ترجمہ کیا اور یقینا یہ ایسا کام تھا جو محنت و جدوجہد کے بغیر ممکن نہ تھا چناں چہ ان کے اس ترجمہ کو گوں نا گوں خصوصیات و امتیازات کی وجہ سے اہل علم و فضل کی طرف سے خوب داد و تحسین ملی اور اس کی وجہ سے حضرت مولانا کی شخصیت نے علمی وتحقیقی دنیا میں اپنا ایک نمایاں مقام بنالیا اور بلا شک و شبہ اس ترجمہ کی وجہ سے احیاء العلوم کے مستفدین کے لیے آسانی ہوگئی۔
سیرت نگار
حضرت مولانا رحمہ اللہ نے آخر کے کچھ سالوں میں سیرت پر کام کیا ہے، ان کا ہفتہ واری کالم جمعہ کے روز روزنامہ انقلاب سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا تھا جس کو ہم نے ایک عرصہ تک پابندی کے ساتھ پڑھا ہے حضرت مولانا نے تین چار مہینے قبل مجھے بتایا تھا کہ وہ پورا ہو گیا اور وہ کام ہمارا جلد ہی منظر عام پر آئے گا یہ تو معلوم نہیں کہ وہ کتنی جلدوں میں آئے گا؛ لیکن وہ نہایت محقق و باحوالہ، بہترین اسلوب نگارش کے ساتھ سلیس زبان میں لکھا گیا ہے، اس سلسلے کی ایک کتاب مولانا رحمہ اللہ کی –”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی مہمات“– ہے جس میں دور نبوت کی جنگوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور یہ بہت مرتب ہے اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں واقعہ سے متعلق کسی بھی بحث کو گنجلک نہیں ہونے دیا۔ اسی طرح انھوں نے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے اس فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیرت نگاری تاریخ نگاری سے جدا فن ہے اور اس کی روایات کا مقام تاریخی روایات سے کہیں بلند ہے بہت سے سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں کے مقدمات میں اس نکتہ کی طرف اشارہ تو کیا ہے لیکن جتنی تفصیل سے حضرت مولانا نے
سلسلہ نمبر: 239
انتخاب مطالعہ
تحریر: *محمد آصف اقبال*
*مطالعہ نہ کرنے کا ایک عذر*
مطالعہ نہ کرنے والوں کا ایک عذر لنگ ”وقت کی تنگی“ اور ”عدیم الفرصتی“ ہے، جیسے: تجارت پیشہ افراد اپنی کاروباری مصروفیات کا بہانہ بناتے ہیں،کچھ اہل و عیال کی خدمت اور ضروریات زندگی کی فراہمی کو مطالعہ نہ کرسکنے کا سبب قرار دیتے ہیں اور بعض کے پاس تو کوئی کام نہ ہونے کی مصروفیت مطالعہ کے لیے وقت نکالنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔
ایسوں کی خدمت میں عرض ہے کہ: وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں! کیا واقعی ان کے پاس مطالعہ کا وقت بالکل نہیں ؟ تو جواب ضرور ”نہیں“ میں آئے گا ؛ کیونکہ ایسے اکثر و بیشتر افراد ٹی وی دیکھنے ،کرکٹ اور دیگر فضول کھیل کھیلنے یا دیکھنے یا ان کی کمنٹری سننے، ایف ایم سے مستفید ہونے، دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانے،دن رات انٹرنیٹ چیٹنگ اور فضول و عشقیہ ایس ایم ایس کرنے،فیس بک،یوٹیوب اور دیگر ویب سائٹز پر بلاوجہ گھنٹوں صرف کرنے،موبائل پیکیجز پر گھنٹوں باتیں کرنے، سرشام چوراہوں پر بیٹھ کر رات دیر گئے تک ”چبوترہ کانفرنس“ کرنے،ملکی و بین الاقوامی معاملات پر بے لاگ تبصرے کرنے اور سیر و تفریح کرنے وغیرہ ایسے کئی کاموں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں ؛ لہذا انہیں اپنی غیرمفید مصروفیات کو کم یا ختم کرکے مطالعہ کے لیے وقت نکالنا چاہئے! ہر شخص خواہ کتنا ہی مصروف ہو کم و بیش ایک گھنٹہ مطالعہ کے لیے آرام سے نکال سکتا ہے۔
ذرا سوچئے! اگر ایک شخص روزانہ ایک گھنٹہ مطالعہ کرے اور ایک گھنٹے میں بیس صفحات کا مطالعہ کرے ،تو ایک ماہ میں 600 صفحات کی کتاب پڑھ سکتا ہے اور ایک سال میں 7300 ( سات ہزار تین سو صفحات) کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ____ بالفرض ایک شخص کی عمر 65 سال ہو اور وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر 25 سال کی عمر میں مطالعہ شروع کرے،اس طرح وہ 40 سال مطالعہ کرے گا اور اس مدت میں 292000( دو لاکھ بانوے ہزار) صفحات پڑھ ڈالے گا،اوسطًا اگر ایک کتاب 80 صفحات کی ہو تو اس دوران تقریبا 3600 کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
اندازہ کیجیے! اتنی کتابوں کے مطالعے کے بعد آپ کے علم اور معلومات کی کیفیت کیا ہوگی؟ اور اس علم کا آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے بچوں،اقرباء، احباء،ہمسایوں اور ملک و ملت کو کس قدر فائدہ ہوگا۔ بصورت دیگر ایک بڑا ذاتی و عائلی اور قومی نقصان ہوگا،جس کی تلافی ممکن نہیں،پھر جب ہر شخص کے لیے وقت نکالنا ممکن ہے تو اب وقت نہ ملنے کے عذر کو ”عذر لنگ“ نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے؟ اور اگر مقدور بھر کوشش کے باوجود بھی کسی کو وقت نہ ملے تو کم از کم وہ اپنی زندگی کے ان چھوٹے چھوٹے اور بکھرے ہوئے لمحات ( جو دنوں ہفتوں اور سالوں کے درمیان صرف ہوتے ہیں ) سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اور صحیح ٹائم ٹیبل اور منصوبہ بندی کرکے ان اوقات کو زبردست نتائج اور ثمرات کے حامل لمحات میں بدل سکتا ہے۔
( *مطالعہ کیا کیوں اور کیسے؟ صفحہ: 45،طبع: نور شریعت اکیڈمی،لائٹ ہاؤس، کراچی*)
✍🏻 ... محمد عدنان وقار صدیقی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
/channel/ilmokitab
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة إدام رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 183-181
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255