ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

یکا یک آپ ﷺ کے اُداس چہرے پر رُوحانی خوشی کا نور پھیل گیا۔ موت اور خودکشی کی اس تاریک دنیا میں دُور سے زندگی کی آواز بھی آرہی تھی ۔ ان ویران کھنڈروں میں سامنے ہی ایک ایسا مکان بھی تھا جس کے دروبام پر ایک تابندہ رُوح کے روشن سائے خنک چاندنی کی طرح پھیلے ہوتے تھے جہاں خُدا کے ایک بندے کو نیندوں کے نرم و گرم بستر سے کہیں زیادہ پیاری وہ جائے نماز تھی جس پر سجدے میں گرتے ہی بندگی کی پُرسوز پیشانی اللہ کے قدموں کو چھو لیتی ہے۔ یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مکان تھا۔ بنی تمیم کا وہ خوش نصیب نرالا سود اگر جس نے خدا کی رضا اور حقیقت خریدنے کے لیے اپنا سب کچھ قیمت میں پیش کر دیا تھا۔ یہی تھا وہ مکان جس کی سمت میں آخری رسول ﷺ کے قدم اُٹھ رہے تھے ۔ یہی تھا وہ بندۂ مومن جس کے نصیب میں رفاقتِ رسول ﷺ کے آخری اعزاز کا فیصلہ مشیت کا قلم ازل ہی سے لوحِ تقدیر پر ثبت کر چکا تھا ایک بار پھر اس پیارے نام کو دہرانے دیجیے۔ ابو قحافہ کا بیٹا ابو بکر (رضی اللہ عنہ) ثانی اثنین ۔
"نہیں
! مجھے تمہاری پناہ نہیں چاہیے ۔ میرے لیے خدا اور رسول ﷺ کی پناہ کافی ہے ۔"
یہ فولادی عزیمت اور بے انداز یقین کے سانچے میں ڈھلے ہوئے واضح الفاظ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لبوں پر اس وقت اُبھرے جب قادہ کا سر بر آوردہ کا فر ! ابن الدغنہ یہ صبر آزما دھمکی دے رہا تھا کہ تم زمین والوں کو خفا کر کے آسمان والے کو خوش کرنا چاہو گے تو میں اپنی امان تمہارے سر پر سے اُٹھالوں گا۔ اس کے جواب میں پیکرِ صدق کے جو الفاظ زمین و آسمان کے درمیان گونجے تھے وہ کوئی کھو کھلا جذباتی نعرہ نہیں تھے ۔ غیرت بندگی نے ان الفاظ میں پُورا خونِ حیات نچوڑ کر رکھ دیا تھا اور دنیا کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ خوفِ خدا اور خوفِ دنیا آگ اور پانی کی طرح کبھی یکجا نہیں ہو سکتے ۔ حقیقت پسندی کا یہ ولولہ انگیز اعلان الفاظ کے اندر نہ سما سکا تو ٹھوس تاریخی واقعات کے سیلِ رواں میں ڈھل گیا، یہ اُسی انقلاب آفریں رات کی بات ہے جب رسالت (ﷺ ) کا "سراج منیر" کفر و شرک اور خوف و خطر کی گھٹاؤں کو چیرتا ہوا نکل رہا تھا ۔
جب آنحضرت ﷺ نے اُس خطرناک رات کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر جا کر یہ انکشاف کیا تھا کہ "آج رات میں خُدا کے حکم سے مکّہ سے جُدا ہو رہا ہوں" تو آنکھیں صاف دیکھ رہی تھیں کہ حضور ﷺ کے تعاقب میں کفر و شرک کی کیسی کیسی بلائیں چلی آرہی ہیں۔ لیکن ایک پل فکر دنیا پر ضائع کیے بغیر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے گڑ گڑا کر التجا پیش کی تھی "اے خدا کے رسول ! مجھے بھی ہم رکابی کی سعادت عطا ہو " وہ اس راہِ پُر خار پر وجد کرتے ہوئے چلے جو اُن کو ساری خُدائی سے دُور خدا کی طرف لے جا رہی تھی ۔ آخرت کا گھر بسانے کے لیے وہ گھر بار چھوڑ رہے تھے ۔ خدا کے رسول ﷺ کے مقابلے میں بیوی بچّوں کو خیر باد کہہ رہے تھے ۔ ایمان کے لیے دولتِ دنیا لٹا رہے تھے ۔ ساری دُنیا سے دامن جھٹک کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے وہ اس شخص (ﷺ )کے پیچھے ہو لیے تھے جو پوری قوت سے یقین دلا رہا تھا کہ "اے خدا کے بندو! میرے پیچھے پیچھے آؤ گے تو خدا سے جا ملو گے ۔"
(جاری)
----------***--------
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا ہم مسلمان ہیں (٣٢) آہ ! ___ وہ دونوں ( پہلی قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
کتنی خوفناک تھی وہ رات ، قتل و خوں ریزی کی انتہائی درد ناک اور انتہائی منظم سازش کفر و شرک کی سیاه کمین گاہ ۔ دارالنَّدوہ سے چلی اور جلوہ گاہِ رسالت(ﷺ) کی دیواروں کو چھونے لگی ۔ زہر ناک تلواریں میانوں سے باہر نکلی جاتی تھیں، نفرت و انتقام کا نا پاک خون آگ بھری آنکھوں سے باہر ٹپکا پڑتا تھا ، پتھروں کے پُجاری آج رات تہیّہ کر کے آئے تھے کہ سچّائی اور امانت کے پیکر کو آج نیست و نابود ہی کر کے دم لیں گے ۔
اب کیا ہو سکتا تھا؟
رسول ﷺ کے لیے زندہ سلامت نکل جانے کے تمام دروازے ایک ایک کر کے بند کر دیے گئے تھے چاروں طرف سے مکان انتہائی سفّاک قاتلوں کے نرغے میں تھا جہاں موت اپنے لہو آشام جبڑے کھولے زندگی کا راستہ روکے کھڑی تھی۔ کفر نے اپنی دانست میں آج کا ئنات کے سب سے زیادہ روشن اور مقدس چراغ کو گُل کر دینے کا پورا اہتمام کرلیا تھا۔
لیکن کہاں ! وہ بے خبر اور نادان دشمن یہ تو جانتے ہی نہ تھے کہ ابھی ایک سب سے بڑا دروازہ کُھلا ہوا ہے ۔ زندگی کے ایوان کا وہ صدر دروازہ جس کی محرابوں پر آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک بے شمار پیغمبروں کی پیشانیوں کا نور اور جگمگاتی ہوئی رُوحوں کی تابشیں کبھی نہ دُھندلے پڑنے والے نقوش کی شکل میں کندہ تھیں ۔ وہ دروازہ جس کی اینٹ، اینٹ پر یہ ازلی و ابدی کہانی نقش تھی:
"موت اور زندگی کا واحد مالک صرف ایک ہے صرف ایک وہی جس نے نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان سے نکالی، جس نے یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں بھی مرنے نہیں دیا ، جس نے موسی علیہ السلام کے لیے دریا کا سینہ شق کر دیا اور جس کے حیطۂ قدرت سے کائنات کا ایک ذرّہ بھی باہر نہیں ۔"
بے شک ننگی تلواریں ، خون آشام تیوریاں اور سفّاک جتھہ بندیاں آنکھوں کے لیے لرزہ خیز ہو سکتی ہیں مگر اُس کے دل کے لیے ان کی کوئی حقیقت نہیں جس کی اتھاہ گہرائیوں میں یہ عقیدہ جڑیں پھیلا چکا ہو گا کہ نفع و نقصان کا اختیار صرف اور صرف ایک ہستی کے ہاتھ میں ہے اور وہ خُدا کی ہستی ہے ۔
خدا کی قسم ! یہی تھا ایمان بالغیب کا وہ فولادی دروازہ جس کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا پر مکمل یقین و اعتماد رکھتے ہوئے کھولا اور خدا کا حکم پاتے ہی بے خوف و خطر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے باہر تشریف لے آئے ۔ یہ عقیدہ اگر معاذ اللہ کوئی بے بنیاد عقیدہ ہوتا تو سنگین حقائق سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا ہوتا یہ عقیدہ ایک حقیقت تھا جس کے آگے ساری دنیا ایک خواب پریشاں سے زیادہ کچھ نہ تھی ۔ سچائی پوری قوت سے سامنے آئی تو جھوٹ اور ظلم کی ساری طاقتیں تہ و بالا ہو کر رہ گئیں ۔ جو لوگ باہر جلّا دوں کی طرح بپھرے ہوئے کھڑے تھے وہ زندہ لاشوں اور بے حس و حرکت بتوں کی طرح کھڑے کے کھڑے رہ گئے ۔ وہ جنھیں خدا نظر نہ آتا تھا خدا کا رسول (ﷺ )بھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے اُن کی نظروں سے اوجھل رہا
اکڑے ہوئے سر بے جان لاشوں کی طرح کاندھوں پر ڈھلک گئے۔ آنکھیں خوف ناک اُونگھ میں پتھرا کر رہ گئیں۔ تلواروں کو اُٹھانے والے بازو شل ہو گئے۔ کیسی بے بس تھی وہ طاقت جس کے ساتھ خدا نہ تھا ! خدا کا رسول (ﷺ ) کفر کی اِس بے چارگی پر زیرِ لب مسکراتا ہوا اپنی راہ پر آگے بڑھ گیا ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في صفة إدام رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 180-175

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

اس نے اتنے سال بعد جب قتیل کو اپنے سامنے بیٹھے دیکھا تو دل کے سارے داغ اس کو یاد آ گئے۔ اس نے اپنے جذبات کو نغمات میں سجا کر اپنے سامنے بیٹھے محبوب کو سنانے شروع کر دیے۔
اپنی محرومی، ہجر اور دل کے افسانے کو سنانے کے لئے اس نے قتیل کی غزل کا ہی انتخاب کیا اور کیا خوب تان لگائی:
رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کر بھنور باندھ لئے پاؤں میں
قتیل نے بھی بے ساختہ غزل کے انتخاب کی داد دی۔ پھر گائیکہ نے قتیل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے غزل کا آخری شعر پڑھا۔
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
اس کے بعد گائیکہ نے اپنے شکوے کے اظہار کے لئے قابل اجمیری کی غزل منتخب کی۔
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے ؟
حاضرین میں سے سمجھنے والوں کو خوب سمجھ تھی کہ یہ شکوے شکایات کس سے ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد گائیکہ نے وہ مقبول غزل چھیڑی کہ جس کا ایک ایک لفظ محبوب کے ہجر اور بے وفائی کے بعد اس کے دل کی حالت کی تصویر دکھا رہی تھی۔
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
آج اس نے ٹھانی تھی کہ سارے بدلے شکوہ و غمزہ کی صورت میں لینے ہیں۔ اس نے قتیل کے اس گیت کا الاپ لیا جو قتیل نے بطورِ خاص اس کے لئے ہی لکھا تھا۔
تجھ بِن میرا من بے کل ہے
سو سو برس کا اک اک پل ہے
غم کا اندھیرا میرے من سے مٹا جا
اب کے ساون تو سجن گھر آ جا
یہ کہانی تھی معروف شاعر قتیل شفائی کی اور معروف غزل گائیکہ اقبال بانو کی۔ پچاس کی دہائی میں جب قتیل شفائی کی لکھی ہوئی فلمی غزل اقبال بانو نے فلم قاتل کے لئے گائی تو پورے برصغیر میں اس کی دھوم مچ گئی۔ اس وقت سے ہی قتیل اس باکمال گائیکہ سے بے حد متاثر ہو گئے اور کیوپڈ کا تیر چل گیا۔
الفت کی نئی منزل کو چلا تو بانہیں ڈال کے بانہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں....
اقبال بانو ناصرف بہت اچھی گائیکہ تھیں بلکہ انھوں نے ادیب فاضل کیا ہوا تھا اور اردو اور فارسی زبان پر بہت مہارت رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی گائیکی میں تلفظ کا خاص خیال رکھتی تھیں۔
حفیظ ہوشیارپوری کی غزل" محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے" سب سے پہلے اقبال بانو نے ہی گائی تھی اور اس میں وہ محبت نہیں بلکہ درست تلفظ کے ساتھ مَحبت کرنے والے کم نہ ہوں گے، گاتی ہیں۔۔
اپنی ان خوبیوں کی وجہ سے قتیل شفائی بانو سے اتنے متاثر ہوئے کہ بعد میں بانو نے جو بھی فلمی گیت گائے ان کے گیت نگار قتیل شفائی ہی ہوتے تھے۔ دوسری طرف اقبال بانو بھی قتیل شفائی کی بہت مداح تھیں اور ہر پروگرام میں قتیل کی غزلیں اور گیت ضرور گاتی تھیں۔
قتیل شفائی نے اپنی چاہت کے اظہار کے لئے طویل نظم پر مشتمل ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان تھا "مطربہ" یعنی گانے والی۔ اور اس میں سے ایک شعر تو خاص طور پر اقبال بانو کے لئے تھا۔
اب بھی مجھ کو بھیجتی ہے وہ چاہت کے پیغام
سانولی سی وہ عورت جس کا مردوں جیسا نام
یہ چاہت یہاں تک بڑھی کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ اس وقت بانو کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا اور قتیل شفائی کی بیگم اور بچے موجود تھے۔ قتیل شفائی کے ایک دوست کے گھر نکاح کا وقت طے ہوا اور اقبال بانو وقتِ مقررہ پر وہاں پہنچ گئیں۔ اور قاضی صاحب بھی آ گئے لیکن قتیل شفائی نہیں آئے۔۔
ہوا یوں تھا کہ عین وقت پر کسی نے قتیل صاحب کی بیگم تک یہ بات پہنچا دی تھی۔ وہ بہت سخت گیر خاتون تھیں انھوں نے خود کشی کی دھمکی دے کر قتیل کو روک دیا اور بانو وہاں دلہن بنی رہ گئیں۔
اس واقعے کے بعد کئی سال تک بانو اور قتیل میں نہ تو کوئی رابطہ ہوا اور نہ ہی آمنا سامنا ہوا۔
نوے کی دہائی کے شروع میں دبئی میں معروف اردو شاعر قابل اجمیری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں اقبال بانو کو گائیکی کی دعوت دی گئی اور قتیل شفائی کو بھی مدعو کیا گیا۔ اقبال بانو نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے دل کی ساری بھڑاس گائیکی کی صورت میں نکالی۔
مزے کی بات یہ تھی کہ اس پروگرام میں قتیل شفائی کے ساتھ ساتھ ان کا بیٹا اور بہو بھی موجود تھے اور وہ بھی اقبال بانو کی گائیکی کے بہت زیادہ مداح تھے۔
بقول قتیل شفائی اس پروگرام کے اختتام پر اقبال بانو اور قتیل کئی گھنٹے تک بیٹھے رہے اور ماضی کی باتیں کرتے رہے۔ اس طرح یہ پروگرام ان کے لیے بہت یادگار رہا۔

منقول ـ
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 238
انتخاب مطالعہ
تحریر: *ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی*

*صرف ایک لمحے کے لیے سوچیے!*

دنیا کے چند روزہ عارضی بادشاہ کے دربار میں کسی نے حاضر ہونا ہو تو وہ اپنے لیے کس قسم کا لباس زیبِ تن کرنا پسند کرے گا؟
لباس کے انتخاب اور زیب تن کرنے میں اس کی ترجیحات کیا ہوں گی؟
کیا وہ پھٹا پرانا،گندا، جا بجاپھٹا ہوا،چیتھڑوں والا،بدبودار،حقارت آمیز، مضحکہ خیز لباس پہن کر بادشاہ کے حضور پیش ہونا پسند کرے گا؟
اگرچہ اس کی اپنی حیثیت بادشاہ کے مقابل کچھ بھی نہیں ؛ لیکن پھر بھی وہ اپنی حیثیت اور شان کے مطابق عمدہ سے عمدہ حالت میں پیش ہونا چاہے گا آخر کیوں؟
سربراہ مملکت نے کسی دعوت میں سفراء، وزراء اور مملکت کے مقتدر اور اصحاب ذی وقار کو مدعو کیا ہوا ہے تو ایسی پرتکلف اور ہر دل عزیز دعوت میں ہر ایک کی کوشش یہی ہوگی کہ وہ عمدہ سے عمدہ لباس پہن کر جائے جو اس کی تہذیب ثقافت کا آئینہ دار بھی ہو اور اس کے اپنے وقار اور عظمت کے مطابق بھی ہو آخر کیوں؟
کسی ملک میں سائنس دانوں،انجینئروں، ڈاکٹروں،علماء،فضلاء، ماہرین فنون،اہل قلم و علم اور اصحاب ادب و ہنر کی عالمی کانفرنس منعقد ہورہی ہو تو شرکائے مجلس میں سے ہر ایک کی یہی کوشش ہوگی کہ وہ ایسا لباس زیب تن کرے جو اس کی عظمت پر دلالت کر رہا ہو آخر کیوں؟
”لوئر کورٹس“ سے لے کر ”سپریم کورٹ“ تک عدالتوں میں پیش ہونے والے انتہائی تعلیم یافتہ وکلاء،بیرسٹرز جب کرسیٔ عدالت پر فروکش جج حضرات کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو کالے رنگ کے کوٹ،کالی اچکن،کالی ٹائی اور کالے گون اور مخصوص لباس میں کیوں پیش ہوتے ہیں ؟اور اگر اپنے مخصوص لباس میں پیش نہ ہوں تو توہین عدالت آخر کیوں؟
یونیورسٹی اور جامعات میں منبع علوم پروفیسرز حضرات جن تشنگان علم کو بحر علم سے سیراب کرنے کے لیے کلاس رومز میں تشریف لاتے ہیں تو مخصوص لباس (جبہ) زیب تن کیے ہوتے ہیں آخر کیوں؟
فارغین اہل علم و فن کو تقسیم اسناد کے ”کانووکیشن“ میں سند وصول کرنے والے اہل علم سے لے کر تقسیم اسناد میں شریک پروفیسرز،وائس چانسلر اور سند تقسیم کرنے والے مہمان خصوصی تک سب کے سب مخصوص انداز مخصوص ہیئت اور مخصوص لباس میں آخر کیوں؟
بری،بحری اور فضائی افواج من جملہ رینجرز اور پولیس میں سے ہر ایک کی یونیفارم الگ الگ کیوں؟ ہر ایک کا رنگ مختلف کیوں؟ آخر وہ سب ایک ہی مشن ایک ہی مقصد ”دفاع وطن“کے جانثار سپاہی ہیں،تو پھر ہر ایک کی یونیفارم الگ الگ کیوں؟
ڈاکٹر حضرات جب شفاخانوں،ہسپتالوں اور آپریشن تھیٹرز میں جاں بلب مریضوں کو حیاتِ نو بخشنے کا سامان مہیا کر رہے ہوتے ہیں تو مخصوص لباس زیب تن کیے ہوئے آخر کیوں؟
سڑکوں اور چوراہوں پر بے ہنگم اور غبار آلود ماحول میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے والے مستعد اور جفاکش حضرات ایک ہی طرح کا لباس پہنے ہوئے آخر کیوں؟
فضاؤں اور ہواؤں کو چیرنے اور دیوقامت چنگھاڑتے ہوئے ہوائی جہازوں کو کنٹرول کرنے والے پائلٹ اور ان میں تھکے ماندے مسافروں کو راحت و سکون پہنچانے والے خدمت گزار خادمین و خادمات کا لباس اور ائرپورٹ پر رواں دواں عملہ کا مخصوص لباس اور ہر ایک کا الگ الگ آخر کیوں؟
لیکن جب بادشاہوں کے بادشاہ،حاکموں کے حاکم، امراء کے امیر كے حضور نماز کی حالت میں ہم اس عظیم ذات مقدسہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو ہماری ہیئت، ہماری حالت،ہمارا لباس، ہمارا انداز سر سے ننگے اگر ہے بھی تو مسجد سے اٹھائی ہوئی ٹوپی، گریبان چاک، کف کھلے ہوئے، آستینیں چڑھی ہوئی آخر کیوں؟ آخر کیوں ؟ آخر کیوں؟
( روز نامہ جنگ لاہور 22 جنوری 1997)

(*نشان راہ،صفحہ: 108،طبع: ادارہ نعیم المصنفین،گڑھی شاہو، لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B


/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*نجات*

مولانا محمد اشرف خان سلیمانی مرحوم لکھتے ہیں:

حضرت والا (علامہ سید سلیمان ندویؒ) ایک مرتبہ پشاور تشریف لائے۔ راقم نے عرض کیا: حضرت کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ ارشاد فرمایا: جی ہاں۔ ایک چیز کی ضرورت ہے۔ عرض کیا: ارشاد ہو۔ فرمایا: نجات۔

سلوکِ سلیمانی پر اجمالی نظر/صفحہ: ۱۱۵/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

Читать полностью…

علم و کتاب

سنو سنو!!

12 سال کے باوجود کوئی ہنر نہیں؟

(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab

دینی مدارس میں ہوشمند طلبہ کی کمی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے نصاب میں کتاب العتاق تو پڑھایا جاتا ہے کتاب التجارۃ کا کوئی باب نہیں ہے۔منطق و فلسفہ کی درجنوں کتاب پڑھا کر ہونہار بنادیا جاتا ہے لیکن اصول تجارت پر مشتمل ایک کتاب بھی داخل نصاب کرنے کی بات کی جائے تو ہمارے اخلاف اپنے اسلاف کو سامنے لاکھڑا کردیتے ہیں ۔ اسلاف کو وہ لوگ لاکر کھڑا کرتے ہیں جن کے گھروں میں دولت کی فراوانی ہے ، جن کے اپنے کاروبار ہیں ، جن کے اپنے کئی کئی روزگار ہیں ، جو شاندار گاڑیوں میں گھومتے اور ذرا ذرا سی بات پر جہازوں کے سفر کرتے ہیں۔

ان سے کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا کاروبار تجارت کا اختیار کیوں کیا، دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی زمیندار تھے پھر بھی کتابوں کی تصحیح کا کام باقاعدہ ملازم بن کر کیا ہے۔مظاہرعلوم سہارنپور کے بانی حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کا ایک بڑا طباعتی پریس تھا جہاں درجنوں علماء ملازمت پر اور بہت سے ملازمین طباعتی امور پر مقرر تھے۔

حضرت مولانا محمد ذکریا مہاجر مدنی کا اپنا ذاتی تجارتی کتب خانہ تھا جو مکتبہ یحیوی کے نام سے اب بھی مشہور موسوم ہے۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اپنے وقت کے بڑے زمیندار اور جدی رئیس تھے اور اس زمانے میں حضرت کے ناشتہ پر پانچ روپے یومیہ خرچ آتا تھا۔

اگر آپ مہتمم ہیں اور آپ خوش حال ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آپ کے ملازمین۔ بدحال ہیں، آپ کار میں گھوم رہے ہیں اور ملازمین ہتھی سائیکل یا موٹر سائیکل پر چل پھر رہے ہیں تو ہر مسلمان کو یہ پوچھنے کا حق ہے کہ یہ دولت کہاں سے آئی ورنہ تاریخ کے اس عظیم الشان واقعہ کو تاریخ کی کتابوں سے کھرچ کر پھینک دیجیے کہ عین مسجد نبوی میں جمعہ کے دن دوران خطبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مؤمن کامل نے پوچھ لیا تھا کہ جب مال غنیمت میں سب کو ایک ایک چادر ملی ہے تو آپ کے بدن پر دو چادریں کیوں؟

اور حضرت عمر نے بحیثیت خلیفہ ونائب کے تسلی بخش جواب دیا کہ ایک چادر میری ہے ایک بیٹے عبداللہ کی ہے۔

آپ اپنے فارغ بچوں کو زرق برق سند مت دیجیے انھیں روزگار کے مواقع دیجیے کشف الدرجات کو لے کر وہ کیا کریں گے آپ کشف التجارۃ دیجیے ، آپ تاریخ المیلاد دے کو کیوں بتانا چاہتے ہیں کہ تمہاری زندگی کے بیس پچیس سال ختم شد بلکہ آپ ان کو اس لائق بنائیے کہ اب آپ کو تعلیم مفت میں دینی ہے اور فلاں کمپنی یا فلاں فیکٹری میں فلاں عہدے کے لائق ہیں یا فلاں فلاں کاروبار کے لئے آپ کا علاقہ موزوں اورمناسب ہے۔

آپ کے پاس دنیا کی پہلی ایسی کمپنی ہے جہاں خام مال پر بھی پختہ کی مہر لگاکر دے دیا جاتا ہے یعنی آپ کا فارغ جس نے زندگی کے قیمتی دس بارہ سال لگائے ہیں پھر بھی وہ فارغ ہوتے وقت اپنے روزگار کو لے کر پریشان ہے،اس کی حالت اس شخص کی سی ہے جو شاعر نے بیان کیا کہ
گھر سے چلے آئے ہیں بازار کی جانب
بزار میں یہ سوچتے پھرتے ہیں کہ کیا لیں
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

*جلوہ ہائے پابہ رکاب (۲۷ )۔۔۔ ہائی اسکول کے زمانے میں گلستاں بوستاں کا درس*

ہائی اسکول کے زمانے میں میرے ایک نہایت مشفق استاذ تھے۔ ان کا اسم گرامی مولوی پیر عزیز الدین صاحب تھا۔ وہ وانم باڑی کی قدیم دینی درس گاہ "معدن العلوم " سے فارغ التحصیل تھے۔ مدراس یونیورسٹی سے ادیب کامل کا کورس بھی کیا ہوا تھا۔ وہ ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔
ظاہر ہے کہ انہوں نے دینی درسگاہ میں فارسی بھی پڑھی تھی۔ فارسی کے مضامین میں سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ کی دونوں مشہور تصانیف گلستاں" اور "بوستاں " شامل رہتی ہیں۔
ہمارے علمائے کرام کی دیرینہ روایت رہی ہے کہ وہ پڑھنے کے بعد پڑھاتے ہیں، گویا تعلم اور تعلیم ایک ہی عمل کے دو متلازم اجزاء ہیں۔
اس روایت پر عمل کرتے ہوئے میرے استاذ جناب پیر عزیز الدین نے مجھے فارسی پڑھنے کی دعوت دی۔ وہ بہت مشغول رہتے تھے۔ مدرسہ میں پڑھانے کے علاوہ وہ امامت بھی کرتے تھے۔ اس لیے ان کے پاس وقت کی کمی تھی۔ لیکن زندگی کی گہما گہمی میں کچھ لمحے تو نکالے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے مشفق استاذ نے کچھ لمحوں کا انتظام کر ہی لیا۔ ہر صبح پر چم کشائی اور کلاس پہنچنے کے درمیان جو دو چار منٹ ہوتے ہیں اس مختصر وقت میں وہ مجھے فارسی پڑھانے لگے۔
میں پرچم کشائی کے فورا بعد ان کے پاس پہنچ جاتا اور وہ چلتے چلتے مجھے فارسی پڑھاتے۔ ان کو فارسی کی کتابیں از بر یاد تھیں، وہ زبانی پڑھاتے جاتے، میرے ہاتھ میں کتاب ہوتی اور میں کتاب کی عبارت دیکھ کر ان کی باتیں سمجھ جاتا۔ اس طرح تعلیمی سال ختم ہونے تک میں نے "حکایات لطیفہ " اور "گلستان" کے اسباق پڑھ لیے۔
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے فارسی زبان سے میرا تعلق ابھی باقی ہے، میں نے فارسی میں کچھ اشعار بھی لکھے تھے ، جن میں سے یہاں پر ایک شعر لکھ رہا ہوں:
چرا مراقبه جانگداز و ذکر شبی
کلید باب لقا لا اله الا الله
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في صفة إدام رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 174-171

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۵ نومبر

/channel/ilmokitab

مولانا مفتی ظفر علی نعمانی 16/نومبر/2003ء
مشتاق گزدر 16/نومبر/2000ء
سید وہاب کاظمی 16/نومبر/2006ء
مولانا غلام رسول مہر 16/نومبر/1971ء
شیخ ابراہیم ذوق 16/نومبر/1854ء
مولانا ناظر حسین ہاپوڑ 16/نومبر/2008ء
مولانا عبد القادر قصوری 16/نومبر/1942ء
طالب دہلوی، شیش چندر سکسینہ 16/نومبر/1975ء
عنایت اللہ التمش 16/نومبر/1999ء

Читать полностью…

علم و کتاب

" فرمایا کہ آج کل یہ بھی خبط ( غلط نظریہ، بیہودہ خیال ) ہے کہ صاحب! ہمارا منہ دعا کے قابل نہیں، ایک صاحب نے مجھ سے یہی کہا، میں نے کہا کہ تم نماز پڑھتے ہو، کلمہ پڑھتے ہو؟؟ کہا: ہاں، میں نے کہا کہ جب تم نماز کے قابل، روزہ کے قابل، کلمہ کے قابل، تو دعا کے قابل کیوں نہیں؟! یہ سب شیطان کی رہزنیاں ( ڈکیتی، ڈاکہ زنی ) ہیں، وہ دعا سے محروم رکھنا چاہتا ہے، اور نفس کچھ کام کرنا نہیں چاہتا، اس لئے ہر چیز کا ایک بہانہ نکالتا ہے " ۔
( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: 16، صفحہ نمبر: 196 ) ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*مُردوں کو ایصالِ ثواب پہنچانے کی کوشش*

*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

دُنیا ٹی وی کے دینی نشریے ’’پیامِ صبح‘‘ کو جہاں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے ذریعے سے ناظرین تک درست دینی معلومات پہنچائی جاتی ہیں، وہیں اس پروگرام کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس نشریے میں درست اور معیاری زبان سننے کو ملتی ہے۔ اس محفل کے نظامت کار جناب انیق احمد نہایت عمدہ اور نفیس ادبی و لسانی ذوق رکھتے ہیں۔ وہ خود بھی شُستہ اور شائستہ زبان بولنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اُن کے مہمان بھی زبان و بیان کے اعتبار سے منتخب اور چنیدہ افراد ہوتے ہیں۔ غالباً کسی بھی نشریاتی ادارے سے نشر ہونے والا یہ واحد نشریہ ہے جس سے آپ اچھی باتیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ اچھی اُردو بھی سیکھ سکتے ہیں۔

ایسے معیاری نشریے میں اگرکوئی معمولی لغزش بھی ہوجائے تو سخت گراں گزرتی ہے۔ پچھلے ہفتے کے دن ایک مفتی صاحب ایک ناظر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے، قبرستان میں قرآن کی تلاوت کرکے مُردوں کو ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی تلقین کرتے رہے، ایک بار دو بار نہیں، بار بار۔ ممکن ہے مفتی صاحب کے دل میں دُبدھا ہو کہ محض ’ایصالِ ثواب‘ سے مُردوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا، لہٰذا زیارتِ قبور کرنے والوں کو ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی بھی کوشش کرنا چاہیے۔ ’ایصالِ ثواب‘ پر اکتفا کربیٹھنے والے لواحقین تو سُن کر پریشان ہوگئے ہوں گے۔

مگر آپ ہلکان نہ ہوں۔ ’ایصال‘ کا مطلب ہی ’ملانا یا پہنچانا‘ ہے۔ ’ایصالِ ثواب‘ کا مطلب ہے ’ثواب پہنچانا‘۔ ہمارے ہاں قرآن خوانی کرنے، گٹھلیوں پرکلمے کا وِرد کرنے، حلوے پر فاتحہ پڑھنے یا کوئی اور نیک کام کرنے کے بعد اس نیکی کا ثواب مرحومین کو پہنچانے کا رواج ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرحوم خود نیک نہیں تھے ’’کارِ ثواب چھوڑ کر کارِ گناہ میں رہے‘‘۔ لہٰذا اب کمک کے طور پر انھیں ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھئی جو نیکیاں اُنھیں کرنی تھیں وہ کر گئے۔ یہ تو لواحقین کی نکوکاری ہے کہ اُن کا کہا سُنا معاف کرکے انھیں ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی کوشش کررہے ہیں۔ شکر کیجیے کہ کسی مکتبِ فکر کے نزدیک ’ایصالِ گناہ‘ یا ’ایصالِ عذاب‘کی گنجائش نہیں، ورنہ آپ کی وفات پر یہ کام بھی شدّ ومد سے ہورہا ہوتا۔ مسرورؔ کو بھی مجبور ہوکر ’ایصالِ ثواب‘ ہی کی اصطلاح سے کام چلانا پڑا:

مدفنِ عُشّاق کو روندا کِیا
اُس نے ایصالِ ثواب اچھا کیا

’ایصال‘ کے لفظ کی اصل تو ’وصل‘ ہے۔ ’وصل‘ سے کون واقف نہیں؟ اس کا مطلب ہے ایک شے کا دوسری شے سے ملنا۔ یہ ’فصل‘ کی ضد ہے۔ فصل کا مطلب ہے دُوری یا فاصلہ۔ اس وجہ سے وصل ’ملاقات‘ کے معنوں میں استعمال ہوا۔ شاعری کی دنیا میں آیا تو محبوب سے مخصوص ملاقات کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا۔ اُردو شاعری کا محبوب وصل کے لیے اکثر ’قیامت‘ کا انتظار کرنے کو کہتا ہے۔ یعنی قیامت کی ‘Date’ دیتا ہے۔ مگر محبت کا فریب خوردہ شاعر ہر فریب کھا لیتا ہے، محبوب کے اس فریب میں نہیں آتا۔ سُن کر مُسکراتا ہے اور فرماتا ہے:

حشر کہتے ہیں جسے، وصل کا وہ دن ہی نہیں
کیوں کہ اس بھیڑ بَھڑکّے میں یہ ممکن ہی نہیں

’وصال‘ کے معنی ملاقات ہونے یا ملنے کے ہیں۔ خواہ ملاقات محبوبِ مجازی سے ہو یا محبوبِ حقیقی سے۔ اسی وجہ سے جب کوئی بندہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتا ہے تب بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ’’حضرت کا وصال ہوگیا‘‘۔خوشی کی شدت کی تاب نہ لا کر فوت ہوجانے کو ’شادی مرگ‘ کہتے ہیں یعنی’خوشی کے مارے موت‘۔دیکھیے امیرؔمینائی مرحوم نے ’وصال‘ کے دونوں معانی خوشی خوشی ایک ہی شعر میں کیسے سمودیے:

بہت ہوئے ہیں زمانے میں لوگ شادی مرگ
شبِ وصال ہے، اپنا کہیں وصال نہ ہو

وصال پر امیرؔ مینائی ہی کا ایک اور شعر یاد آگیا، جس میں جاگنے اور سونے کے متضاد الفاظ کو استعمال کیا گیاہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

رہا خواب میں اُن سے شب بھر وصال
مِرے بخت جاگے، میں سویا کیا

’وصال‘ کے قبیلے کا ایک لفظ ’وصول‘ بھی ہے۔ وصول کا مطلب ملنا یا پہنچ جانا ہے۔ہم اکثر اپنے خوش گمان قارئین سے داد وصول کرکے چاروں کھونٹ گھوم گھوم کر ’آداب، آداب‘ کہتے رہتے ہیں۔ یہ نہ کریں تو اور کیا کریں؟ بقول پروفیسر اقبالؔ عظیم:

ہم اہلِ سخن کی قیمت ہے اقبالؔ زبانی داد و دہش
کل محفل میں جو ہم کو ملی وہ داد نہ تھی مزدوری تھی

ہمارے لیے تو دوسرا مصرع یوں حسبِ حال ہوگا:’’کل ’فے بے پر‘ جو ہم کو ملی وہ داد نہ تھی مزدوری تھی‘‘۔ یہ ’ف ب‘کیا ہے؟ کسی نوجوان کو پکڑ کرپوچھ لیجے۔ قارئین اگر داد کے علاوہ کسی اور صورت میں بھی ہماری مزدوری ہمیں بھیجنا چاہیں تو ہم اسے بھی ’وصول‘ کرلیں گے، کیوں کہ رقم بے باق ہو جانے یا کسی کی بھیجی ہوئی کوئی چیز مل جانے کو بھی ’وصول ہو جانا‘ ہی کہتے ہیں۔ ہاں!جو مل گیا وہ ’موصول‘ ہوا۔

اگر کوئی چیز کسی دوسری چیز سے یا کوئی عمارت کسی دوسری عمارت سے ملی ہوئی ہو تو اسے ’مُتَّصِل‘ کہتے ہیں۔مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عزیر گل(وفات ۱۵ نومبر) تحریر مولانا زاہد الراشدی

Читать полностью…

علم و کتاب

اعلام القرآن ۔ مولانا ابو الجلال ندوی۔ طباعت انڈیا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*اقتصادی طاقت کے اصل معنیٰ*

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

اقتصادی طاقت کے معنیٰ، شخصی دولت مندی کے نہیں ہیں، بلکہ کسی نصب العین کے لیے قوم کی جماعتی مالی حالت کی بہتری اور اس سے زیادہ اس کے لیے ایثار اور اس کے حصول کی راہ میں ہر انفرادی ضرورت کی قربانی۔

شذراتِ سلیمانیؒ/حصہ سوم/ صفحہ: ۲۸۷/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

Читать полностью…

علم و کتاب

کتنی انقلابی اور کیسے درس عبرت و موعظت سے معمور تھی وہ ہولناک رات ! یہی تھی وہ رات جس کی متاعِ معرفت کا سب سے بڑا حصّہ ابو قحافہ کا بیٹا لے گیا وہ بیٹا جس کا نام لینے سے پہلے ملائکہ وضو کرتے ہیں ۔ وہ بیٹا جو کئی مہینوں سے اُس ساعتِ سعید کا منتظر تھا جب وہ اپنے گھر بار، اپنے رشتہ و پیوند اور اپنی پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ کر اپنے محبوب ، آقا، اپنے سردار محمد ابن عبداللہ (ﷺ )کے ساتھ خانہ ویرانی اور ترکِ وطن کی سنگلاخ راہوں میں چر کے اور زخم کھاتا چلا گیا۔ وہ بیٹا جس کا سارا وجود محبت اور اطاعت کے سانچے میں ڈھل کر ایک سجدۂ مجسّم بن گیا تھا جانتے ہیں آپ کون تھا وہ ؟ ابو قحافہ کا بیٹا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ! وہ پیکرِ صدق و تصدیق جس پر صداقت اور طمانیت ، سکینت اور ایقان قیامت تک ناز کرتے رہیں گے ۔ محمد ﷺ کے بعد سب سے بڑا انسان - ثاني اثنين اذھما في الغار۔
لیکن ابھی چند لمحے صبر کیجیے ۔ ابھی تو پُر خطر رات کے دامن میں وہ انسانِ کامل(ﷺ ) اکیلا ہی چلا جا رہا ہے ، جسے معلوم ہے کہ میں اکیلا ہو کر بھی اکیلا نہیں ہوں ، خدائے کائنات میرے ساتھ ساتھ ہے ۔ اس کے چہرے پر اس وقت بھی خوف کی کوئی سِلوٹ نہ تھی جب زمین اس کے قدموں کے لیے موت کے خطروں سے ہٹ کر تلوار کی دھار بن گئی تھی۔ خون کی گردش نہ تیز ہوئی تھی نہ سُست پڑی تھی ۔ جسم میں کوئی جُھرجُھری تک نہ آئی تھی ۔ ایمان ویقین کے لامتناہی انوار اس سیاہ رات میں بھی اس کے اس چہرے سے پُھوٹ رہے تھے جس کو دیکھ کر پہلی نظر میں بڑے بڑے کج کلاہ رعب و داب سے تھرتھرائے بغیر نہیں رہتے تھے مگر دوسری نظر میں جس کا جاں نواز تبسُّم ایک بھکاری کو بھی اِس طرح مانوس کر لیتا تھا جیسے وہ اپنے بہترین دوست کی پناہ گاہ میں آگیا ہو۔
قدم قدم پر اُجڑے ہوئے مکانات احتجاج اور صدمے کی خاموش کراہ بن کر اس کی صداقت کے قدم چوم رہے تھے ۔ مکینوں نے آخرت کے زبردست یقین پر یہ رنگینیوں سے بھر پور دنیا تج ڈالی تھی جو انسانی بستیوں سے محض اس لیے نکالے گئے تھے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی پرستش کیوں کرنا چاہتے ہیں
پتھروں کو پُوچ پُوچ کر انسانوں پر ظلم کیوں نہیں ڈھاتے؟ بچّیوں کو زندہ کیوں نہیں گاڑتے اور غلاموں کو اپنا جیسا انسان کیوں سمجھتے ہیں ؟ یہی تھے وہ لوگ جنھوں نے دوسروں کو لُوٹنے کے بجائے خدا کے نام پر خود لٹ جانا پسند کیا ۔ یہی تھے وہ لوگ ایمان جن کا نفسِ ناطقہ بن گیا تھا ۔ جو لذیذ دستر خوانوں اور سردو شیریں پانی کی جو ئے رواں کے عین کنارے بھوک اور پیاس سے جان تو دے سکتے تھے ، مگر جنھیں اپنے شیشۂ ایمان میں بال آنا گوارا نہ تھا ۔
اِن درد ناک مکانوں کے چاروں طرف دُور دُور تک وہ گھر پھیلتے چلے گئے تھے جہاں خدا کی زمین پر بسنے والے اپنے خدا کو بھول بیٹھے تھے ۔ جن کو زندگی کے جال میں پھنس کر خود اپنی موت بھی یاد نہ رہی تھی ، یہ تھے وہ مکانات جو مظلوموں کے اُجڑے ہوئے گھروں سے بھی زیادہ درد ناک تھے ۔ یہاں مکان آباد تھے لیکن مکینوں کے سینے اُجاڑ پڑے تھے۔ یہاں سے اگر زندگی کی کوئی آواز آرہی تھی تو وہ غفلت میں ڈوبے ہوئے خرّاٹوں کی آواز تھی یا پھر اِن گِنے چُنے مظلوم مسلمانوں کی کراہیں جن کو ظلم و ستم کی آہنی زنجیروں میں جکڑ کر خدا کی راہ میں سب کچھ قربان کر دینے سے بھی معذور کر دیا گیا تھا۔
انسانیت کے ان خوفناک ویرانوں سے گزرتے ہوئے حضور ﷺ کے مقدس چہرے پر گہرے درد کی کسک ہویدا تھی ۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ کا دِل خون ہو رہا تھا کہ مجھے خُدا نے جن انسانوں کو جگانے کے لیے بھیجا تھا ان کے گھروں سے روح و دل کی کیسی تاریکی اُبل رہی ہے ۔ جیسے آپ ﷺ کو یہ خیال تک نہ تھا کہ اس وقت خونخواروں کی ٹولی خود میرے تعاقب میں ہے ۔ جیسے آپ ﷺ کو صرف یہ رنج تھا کہ مجھ پر ظُلم ڈھانے والے خود اپنی جان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۹/ نومبر

/channel/ilmokitab

اصغر مہدی، سید 19/نومبر/2009ء
ثریا احمد پائی 19/نومبر/1973ء
حسن امداد ، سید 19/نومبر/2014ء
زاہد فتح پوری (سید کرار حسین) 19/نومبر/2001ء
سعید اے ہارون 19/نومبر/1981ء
واحد حسین خان، استاد 19/نومبر/2004ء
نواب سید محمد علی حسن خان 19/نومبر/1936ء
اشفاق حسین ، مولانا 19/نومبر/1992ء
 نواب علی حسن خان  19/نومبر/1936ء
 سلام مچھلی شہری ، عبد السلام 19/نومبر/1973ء
سید ین، خواجہ غلام السید ین 19/نومبر/1971ء
سید ین، خواجہ غلام السید ین 19/نومبر/1971ء
محوی صدیقی لکھنوی ، محمد حسین 19/نومبر/1975ء
مولانا محمد احمد مئوی 19/نومبر/1938ء
آوارہ سلطانپوری 19/نومبر/1987ء
شاہ عالم 19/نومبر/1806ء
مولانا خادم حسین رضوی 19/نومبر/2020ء
خان روشن خان 19/نومبر/1988ء
جسٹس مرزا حمید اللہ بیگ 19/نومبر/1988ء

Читать полностью…

علم و کتاب

آج معورف اسلامی اسکالر، علم وتحقیق کی شان، مولانا عبد المتین منیری حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی، انھوں نے ذرہ نوازی میں خاکسار کی رہائش گاہ آمد کی زحمت اٹھائی، میں ان کے ذوق کتب اور افتاد جستجو سے متاثر تھا اور اس کے خاص پس منظر کو جاننا چاہتا تھا، ملاقات میں انھوں نے یہ بتا کر میرا تجسس ختم کر دیا کہ وہ گذشتہ نصف صدی سے وزارت اوقاف میں ہیں اور طباعت کتب کی شاخ میں بر سرِ عمل ہیں، انسان کی خوش بختی کا منتہی یہ ہے کہ ذاتی شوق ہی روزگار بھی بن جائے، پھر اس میں خدمت، دین اور علم کا مذہبی ٹچ بھی شامل ہو تو یہی حیات طیبہ کی معراج ہے۔

ہمارے درمیان عمر کا فرق ایک نسل کے برابر ہے؛ مگر مولانا کی بے تکلفی نے مجھے بھی گستاخی کی حد تک آزاد رکھا، شگفتگی میں ناچیز نے زبان اور حافظے کے درمیان طلب ورسد کو کسی احتیاط کا پابند نہیں کیا اور گفتگو جس رخ پر گئی آخر تک گئی، حضرت مولانا نے بھی اپنی وسیع معلومات سے فیض یاب کیا، ملاقات کا بیشتر وقت دونوں تک محدود تھا؛ اس لیے حضرت نے بھی ہر حساس وغیر حساس موضوع پر اظہار رائے کیا۔

کتابوں سے طویل المیعاد اشتغال کی بنا پر مولانا کی نگاہ وسیع، معائنہ گہرا اور ناپ تول باریک ہے، وہ علمی شخصیات وآثار کی زمرہ بندی سے خاص مناسبت رکھتے ہیں اور اس ضمن میں ان کا اپنا معیار ہے، خلیجی سیاست کے منظر اور پس منظر سے خوب آگاہ ہیں، گرم سیاسی عناوین کو وہ ایک زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ ہر فکر حتمی نہیں ہوتی اور اختلاف کی گنجائش بہ ہر صورت ہوتی ہے؛ تاہم مولانا موصوف کے نکات دل چسپ تھے اور ان کی اپنی معنویت ہے۔

محمد فہیم الدین بجنوری
17 نومبر 2024ء

/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۲۱
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق تحویل ِ قبلہ سے ہے۔اس اقتباس میں تحویل ِقبلہ کس طرح ہوا اور اس کے بعد یہودِ مدینہ کا کیا منفی ردّ عمل سامنے آیا ،اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔
انشائے ماجدی
”انبیاء بنی اسرائیل کا قبلہ بیت المقدس تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قیامِ مکہ کے زمانے میں اسی قبلہ ءقدیم کے رخ پر نماز جاری رکھی بلکہ جب مدینہ ہجرت فرمائی جب بھی اسی قبلے کو برقرار رکھا۔ بیت المقدس مدینہ سے شمال سمت میں واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بار بار یہ چاہتا تھا کہ اپنے جدّ بزرگوار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بنائے ہوئے خانہ ءکعبہ کو قبلہ بنائیں لیکن حکم ِالہٰی اب تک یہ نہیں ہوا تھا، آخر ورود مدینہ کے 16 مہینے بعد تحویلِ قبلہ کا حکم ملا کہ اب نماز بجائے بیت المقدس کے خانہ ءکعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھی جائے۔ حکم کی تعمیل معاً ہوئی ۔خانہ ءکعبہ مکہ سے ٹھیک جنوب میں واقع ہے اور اس طرح مدینے کے نمازیوں کے رخ دفعۃً شمال سے جنوب کی جانب پھر گئے ۔
بیت المقدس یہود کا قبلہ تھا، اس کی منسوخی کا اعلان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہود کو بہت ہی ناگوار گزرا۔ وہ یوں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دشمن اور اپنے دین کا بیخ کن سمجھنے لگے تھے، تحویل قبلہ کے اس تازہ اعلان کو وہ اس سلسلے کی اہم کڑی سمجھے اور اس پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کرنے لگے ۔ان کے ہم نوا کچھ اور لوگ بھی منافقوں اور بد دینوں میں سے ہو گئے۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اوّل ،صفحہ نمبر۲۶۷)

Читать полностью…

علم و کتاب

سچی باتیں (۲۲؍ستمبر ۱۹۳۳ء) ۔۔۔ سب سے کمزور گھر
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
دُنیا کے عالموں، فلسفیوں، منطقیوں، ریاضی دانوں، ہیئت دانوں، مہندسوں، مؤرخوں، ادیبوں، نے سب سے زیادہ کس کے آگے سرجھکایاہے؟ اپنے ہی جیسے کسی فلسفی، ادیب، ریاضی داں کے سامنے، ارسطو کے ، بیکن کے، نیوٹن کے سامنے، یا اس کے برعکس مذہبی رہنماؤں کے سامنے، موسیٰ کلیم اللہ کے سامنے، مسیح روح اللہ کے سامنے، اورمحمد رسول اللہ کے سامنے؟ یہ کوئی بحث واختلاف والی چیز نہیں۔ ساری دنیا کا ، شروع سے اب تک جائزہ لے ڈالئے، کہ حکیموں اور داناؤں کی بہت بڑی اکثریت،مسلمانوں ، یہودیوں، عیسائیوں، اور ہادیانِ ہند کے ماننے والوں کی نکلتی ہے، یا لا مذہبوں اور دہریوں کی؟ پھر وہ نبی اور ہادی، جن کے یہ سب حکیم اور دانا، پَیرو ہوتے چلے آئے ہیں، اور جن کی پاکبازی، بے نفسی، اورراستبازی کی شہادت اُ ن کے مخالفین بھی دیتے رہتے ہیں، اُن کا بیان اللہ کے بارے میں کیا رہاہے؟ ان کی تعلیم خدا کے باب میں کیا چلی آئی ہے؟ خدا کا اقرار ، یہ حضرات کراتے آئے ہیں، یا ردّ وانکارَ؟ …اب آپ کی عقل کس راہ کو زیادہ قرین عقل پاتی ہے، اقرار کو یا انکار کو؟ جس علاج پر تمام اطبائے حاذقین اپنے تجربہ وتحقیق سے اتفاق کریں، وہ آپ کے نزدیک زیادہ قابل اعتمادہے، یا وہ، جس کا دعویٰ خال خال کسی ایک آدھ طبیب نے کیاہے، اور خود اُس طبیب کی حذاقت بھی معرض بحث میں ہو؟ کون سڑک، محفوظ وقابل اطمینان ہے، وہ جس پر ہزارہا قافلے امن وراحت سے سفر کرچکے ہیں، یا وہ جس کا تجربہ صرف ایک آدھ بھولے بھٹکے مسافر نے کیاہے، اور خود اُس کی روایت بھی مشتبہ؟
انبیاء ورسُل کی شہادت، پھر بھی بالواسطہ شہادت تھی۔ انھیں چھوڑئیے براہِ راست حکماء وفلاسفہ ہی کو لیجئے۔ یونان، مصر، چین، بابل، کلدانیہ، ہند، ایران ، اور خود آج کل کے یورپ کے، مسلّم ومعروف ائمہ فن کو لیجئے۔ اُنھوں نے کیا کیا ہے؟ فیثاغورثؔ، اور سقراطؔ، افلاطونؔ اور ارسطوؔ، نے کیا کیاہے؟ وجودِ باری سے انکار(معاذ اللہ) کیا بیکنؔ نے کیاہے؟ ڈیکارٹؔ نے کیاہے؟ نیوٹنؔ نے کیاہے؟ کینٹؔ نے کیاہے؟ ہیگلؔ نے کیاہے؟ الفرڈولیسؔ نے کیاہے؟ آلیور لاجؔ نے کیاہے؟ ولیم جیمسؔ نے کیاہے؟ بریڈلیؔ نے کیاہے؟ وارڈؔ نے کیاہے؟ یورپ اور امریکہ، جنھیں فلسفہ کا، سائنس کا، علم وحکمت کا امام سمجھ رہے ہیں، ان میں سے کس کس نے کیاہے؟ کیا بریڈلاؔ کو علماء وحکماء کی صف اول میں نہ سہی، صفِ آخر میں بھی کسی نے رکھاہے؟ کیا ریشنسلٹ پریس ایسوسی ایشن کی معدودے چند انکاری کتابیں ، فلسفہ وحکمت کی زبان کہی جائیں گی؟ کیا لے دے کے بس اسپنسرؔ وڈارونؔ کے سکوت، اور کہسلیؔ اور ٹنڈلؔ کے شک وارتیاب کو یورپ کے علمی دفتروں اور کتبخانوں کا نمائندہ قرار دے لیاجائے گا؟ اگر ایسا ہے، تو پھر دنیا کی کون سی چیز ہے، جو حکماء وفلاسفہ کی جانب منسوب نہیں کی جاسکتی، علم وحکمت کی سر نہیں چپکائی جاسکتی؟
آج ہندوستان کے چند کم علموں نے جو پروپیگنڈا شروع کررکھاہے، کہ اہلِ علم ودانش، وجودِ باری کے منکر ہیں، فلسفہ اور سائنس کے ماہرین علانیہ ملحد ہوتے ہیں آپ اس سے سہمے کیوں جاتے ہیں؟ اس دعوے میں کچھ بھی جان نہیں۔ جو یہ کہہ رہے ہیں وہ بیچارے جس طرح شریعت ومعرفت سے بے خبر ہیں، فلسفۂ وحکمت سے بھی تہی دامن ہیں۔ ان غریبوں کی رسائی خود ہی علوم جدیدہ کے قصروایوان تک نہیں بس اِدھر اُدھر کی سُنی سنائی باتیں ہیں ، جن سے اپنے الحاد، اور اپنی ’’روشن خیالی‘‘ کی دوکان چمکارہے ہیں۔ فما ربحت تجارتہم وما کانوا مہتدین۔اُٹھئے ، اور بغیر جھجکے ہوئے ، مردانگی سے ان کا مقابلہ کیجئے ۔ تاش کے پتوں کا قلعہ۔ مُنہ کی پھونک سے گِر کر رہتاہے۔ انَّ أوہن البیوت لبیت العنکبوت۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

شارجہ کا معرکۃ الآرا کتب میلہ

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
13 جمادی الاولی 1446ھ 16 نومبر 2024ء
/channel/ilmokitab

کل شارجہ کا عالمی شہرت یافتہ بین الاقوامی سالانہ کتب میلہ دیکھا، برسوں سے اس کا ذکر حسرت کی سماعت سے سنتا آرہا تھا، حسن اتفاق کہ اس کے انعقاد کا مقررہ وقت جاری ہے اور میں بالکل جوار میں فروکش ہوں، کل اس بازار حسن وشوق کا رخ کیا۔

دبئی میں ہفت اقلیم نظر آتے ہیں، بس عرب نہیں ملتے، بک فئیر میں صورت حال بر عکس تھی، نوے فی صد سے زیادہ عرب تھے، خواتین اور دوشیزائیں بھاری اکثریت میں تھیں، صنف نازک کا بیشتر ہجوم میلے کی مد میں تھا، کتب والا جزو نمائشی حیثیت میں محسوس ہوتا تھا؛ تاہم بنات حوا کی ایک تعداد کتابوں کی ورق گردانی اور خریداری میں بھی محو پائی گئی، یہ منظر خوشگوار حیرت والا تھا۔

رسمی اعداد وشمار کے مطابق یہاں ایک سو بارہ ملکوں اور ڈھائی ہزار ناشرین کی نمائندگی ہے؛ لیکن ہر سو عرب چھائے ہوے ہیں، میلے کے طواف میں آپ کو عربوں کا تناسب دیر ہضم محسوس ہوگا کہ خاک وخون میں محصور ہو کر بھی یہ قوم مدرسے میں ناقابل تسخیر ہے، مجھے انگریزی لٹریچر کی رینج کا علم نہیں؛ مگر گذشتہ شام کتابوں کی جو عربی راہداریاں دیکھی ہیں وہ حد تصور سے بھی قدرے آگے تھیں۔

قدیم کتابیں، مراجع ومصادر، ان کے نوع بہ نوع نسخے، عروسی لباس کی طرح آراستہ جلدیں، طلائی، زرد اور سبز رنگوں میں نہال زرق برق سیٹ، کلیدی کتابوں کی یادگار شروحات، نئے حواشی اور متعلقات، نادر کتابوں کی طباعتیں، نامعلوم پرانی کتابوں کے نظارے، شنیدہ رعنائیوں کی دیدہ تصویریں، نئی طبع آزمائی کے انبوہ، انوکھے موضوعات، نو دریافت مضامین، جدید لٹریچر کا سیلاب، دین ودنیا؛ دونوں سے متعلق ہر ممکنہ موضوع سخن کے جلوے؛ غرض بحر علم، یا صحرائے عشق، یا گلشن حسن کا لامحدود سی شان والا سلسلۂ کوہ قائم تھا۔

ایک دن کیا ایک ماہ بھی سیری کے لیے کوتاہ ہے؛ ہم کتنا چلتے اور کتنا دیکھتے اور پڑھتے، آخر توانائی ختم ہوگئی، انرجی کمک لازم ہوگئی، ٹوٹے دل اور تشنہ کامی کے جلو میں میلے سے باہر آئے، مولانا شفیق الرحمن خان جو آج کے میزبان تھے ان کو دستیابی کی اطلاع دی اور ان کے منتخب کردہ ریسٹورنٹ مطعم نجمہ کراچی میں پناہ گزین ہوے۔

بہت اچھا ہوا کہ خاکسار نے یہ میلہ دوہزار چوبیس میں دیکھا؛ جب کہ لیلائے کتاب سے وصال کا برقی متبادل دریافت ہوگیا ہے، ورنہ یہ وقتی رونمائی اور میلے کی نقاب کشائی مجھ جیسے طالب علم کے لیے جان لیوا تھی، ہم اس خیال سے زندہ بچ نکلے کہ موبائل ہے، لیپ ٹاپ ہے، پی ڈی ایف ہے، آرکائیو ہے اور کافی کچھ ہے، حسی ہم آغوشی نہ سہی کہربائی دیدہ بوسی تو ہمہ وقت میسر ہے!

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ابراہیم ذوق/ تحریر محمد حسین آزاد

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 237
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا محمد عبد الملکؒ جؔامعی*

*پہلے مذہب یا وطن*

آج آزاد ہندوستان میں بعض کوتاہ قلب اور تنگ نظر لوگ یہ سوال بڑی شدت سے اٹھاتے ہیں کہ مذہب پہلے ہے یا وطن ؟ اس سوال کا سب سے بھرپور اور مدلل جواب مولانا محمد علی جؔوہر نے لؔندن کی گول میز کانفرنس کی اپنی معرکۃ الآراء تقریر میں کچھ یوں دیا تھا:
”میرے پاس ایک تمدن ہے، ایک سیاسی نظام ہے، ایک نظریۂ زندگی ہے اور اسلام ان سب کا امتزاج ہے،جہاں تک احکامِ خداوندی بجا لانے کا تعلق ہے میں اول بھی مسلمان ہوں،دوئم بھی مسلمان ہوں اور آخر میں بھی مسلمان ہوں،یعنی مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں ؛ لیکن جہاں ہندوستان کا سوال آتا ہے،جہاں ہندوستان کی آزادی کا سوال آتا ہے یا جہاں ہندوستان کی فلاح و بہبود کا سوال آتا ہے:میں اول بھی ہندوستانی ہوں اور آخر بھی ہندوستانی ہوں اور ہندوستانی ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں“۔
لندن کی گول میز کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا:
”میں جس مقصد سے یہاں آیا ہوں وہ یہ ہے کہ:میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جاسکتا ہوں جب کہ میرے ہاتھ میں آزادی کا پروانہ ہوگا،ورنہ میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا،میں ایک غیر ملک میں (جو اگر آزاد ہے) مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی“۔
لندن ہی میں 4 جنوری 1931؁ء کو مولانؒا نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور سرزمین بیت المقدس ( یروشلم ) میں دفن ہوئے،رسول ﷲؐ کی معراج بھی بیت المقدس کے راستے ہوئی تھی ؛ اس لیے عؔلامہ اقبالؒ نے اپنی فارسی نظم میں مولانا محمد علیؒ کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیا کہ ؎
”سوئے گردوں رفت ازاں راہے کہ پیغمبر گزشت“
یعنی وہ آسمان پہ اس راستے سے گئے جو پیغمبرِ اسلام کا معراج کا راستہ تھا۔
پروفیسر خلیق احمد نؔظامی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ”اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا کہ مولانا محمد علیؒ نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھارکر ایک قوت بنادیا تھا،انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی،“ بقول مولانا سید سلیمان نؔدویؒ: ”وہ شکست خوردہ فوج کا آخری سپاہی تھا، جو اعداء کے نرغے میں تنہاء لڑ رہا تھا،آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوسکا“۔
مولانا محمد علیؒ کے وصال کو عرصہ بیت چکا ہے ؛ لیکن فضاؤں میں آج بھی ان کی یہ آواز گونج رہی ہے ۔
؎ دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتداء ہماری تری انتہاء کے بعد
پروفیسر رشید احمد صؔدیقی نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ”محمد علی کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ بڑے تھے ؛ لیکن ان کا کوئی کارنامہ نہیں ہے،یہ تنگ دلوں اور تنگ نظروں کا فیصلہ ہے،مرد غازی کے کارنامے کا اندازہ مقبولیت کی وسعت، مال غنیمت کی فراوانی،جشن و جلوس کی ہماہمی و طرب انگیزی،تمغہ و اسلحہ کی جنگ اور جھنکار سے نہیں کیا جاتا ؛ بل کہ اس کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ ٹوٹی ہوئی تلوار،بکھری ہوئی زرہ،بہتے ہوئے لہو،دہکتی ہوئی روح،دمکتے ہوئے چہرے اور ڈوبتے ہوئے سورج کے وقت اس نے جنگ کیسے کی“_ آگے لکھتے ہیں : ”کس بلا کے بولنے والے اور لکھنے والے تھے کہ بولتے تو معلوم ہوتا اؔبوالہول کی آواز مصر سے ٹکرا رہی ہے، لکھتے تو معلوم ہوتا کہ کیمپ کے کارخانے میں توپیں ڈھلنے والی ہیں یا پھر شؔاہجہاں کے ذہن میں تؔاج کا نقشہ مرتب ہورہا ہے،ملک و ملت کی جنگ اب بھی جاری ہے ؛ لیکن نعرۂ جنگ خاموش ہے“۔

( *مولانا محمد علی جوہر: آنکھوں دیکھی باتیں،صفحہ: 204،طبع: خبردار پبلی کیشنز، للتا پارک،لکشمی نگر،دہلی*)

مرتب: جناب معصوم مؔرادآبادی صاحب
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عبدالقادر صاحب قصوری۔۔(وفات مورخہ: ۱۶ نومبر)
تحریر: علامہ سید سلیمان ندوی
علم وکتاب https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

پنجاب کے نامور عالم اور وکیل و مجاہد سیاسیات مولانا عبدالقادر صاحب قصوری کی وفات کی خبر سے بڑا صدمہ ہوا، قصور ضلع لاہور ان کا وطن تھا اور وہیں وکالت کرتے تھے اور اچھے ناموروکیل تھے، عربی کے عالم، دینیات کے فاضل اور انگریزی سے واقف تھے، مولانا ابوالکلام کے الہلال والی تحریک سے ان کو ایسی دلچسپی تھی کہ اس کے لئے انہوں نے بہت کچھ نثار کیا، اپنے ایک صاحبزادہ کو ایک طرف عالم بنایا اور دوسری طرف کیمبرج کا گریجویٹ، اسی طرح اپنے دوسرے بیٹے کو بھی عربی و انگریزی کی تعلیم دلائی اور دونوں کو مع اپنی زندگی کے بہت سے سرمایہ کے دعوت و تبلیغ اسلام کے کاموں کی نذر کردیا، جس کا سلسلہ ایک زمانہ میں بمبئی سے لے کر مدراس تک جال کی طرح پھیلا تھا، خلافت کی تحریک میں کامیاب وکالت کو خیرباد کہہ کر قومی و سیاسی تحریکوں میں شامل ہوگئے اور اخیر تک اپنے عہد پر قائم رہے۔
مرحوم مسلکاً اہل حدیث تھے، نہایت دیندار، متواضع، ملنسار، پابندوضع، علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصانیف کے بڑے شائق تھے اور انہی کی تحقیقات پر ان کا عمل تھا، خلافت حجاز اور کانگریس میں بیش از بیش حصہ لیا اور اس عمر میں بھی جو غالباً اسی (۸۰) کے قریب ہوگی، وہ اپنے جذبات کے لحاظ سے ایسے ہی جوان تھے، ادھر سیاسیات کی عملی تحریکوں سے کنارہ کش تھے۔
مرحوم کو خاکسار سے گوناگوں تعلقات قلبی تھے، قومیات میں ہمیشہ ساتھ رہا خیالات میں بہت کچھ ہم آہنگی تھی، سب سے اخیر بات یہ کہ حجاز کے وفد خلافت میں جو ۱۹۲۴ء؁ میں جدہ تک جاسکا تھا وہ خاکسار کے ساتھ تھے، گو وفد کی صدارت برائے نام میرے نام تھی، مگر ان کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا تھا، جدہ کے نہایت پر خطر موقعوں پر جب جان کا خطرہ بھی تھا وہ برابر ہمت بڑھاتے رہتے تھے، مکلّا، سوڈان، جدہ اور قاہرہ میں ہر جگہ وہ ساتھ تھے، افسوس کہ اس وفد کے تین ممبروں میں دو مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا عبدالقادر قصوری چل بسے، اب صرف ایک باقی ہے، معلوم نہیں وہ بھی کتنے دن کے لئے۔ (’’س‘‘، دسمبر ۱۹۴۲ء)

Читать полностью…

علم و کتاب

*قرآن کریم میں مدعیانِ نبوت کا ذکر*

ایک طالب علم (مولوی ظہور الحق بجنوری) کے سوال پر علامہ شبیر احمد عثمانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ قرآن میں جیسے مدعیانِ الوہیت، فرعون وغیرہ کا ذکر ہے، اسی طرح مدعیانِ نبوت کا بھی ہے، کیونکہ فرمایا: وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ (الانعام: ۹۳) اگرچہ ان کا نام نہیں لیا ہے، کیونکہ اصل ذکر قرآن میں توحید کا ہے اور اسی پر زور ہے۔

افاداتِ علامہ کشمیریؒ و علامہ عثمانیؒ/صفحہ: ١٢٦/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

’’مزارِ اقبالؒ لاہور میں ہے اور بادشاہی مسجد سے متصل ہے‘‘۔
’اِتِّصال‘ کا مطلب ہے ملانا، پہنچانا، ملا ہوا ہونا یاکسی کام کا لگاتار ہوتے رہنا۔یہ ’انفصال‘ کی ضد ہے۔ ’انفصال‘ کا مطلب ہے فاصلہ کرنا۔ اُفق پر زمین و آسمان کا اتصال نظر آتا ہے۔ رشکؔ پر رشک آتا ہے کہ وہ گھر میں لیٹے لیٹے ہی مشاہدۂ اتصال کر لیا کرتے تھے:

کہنے کے واسطے ہے شبِ وصل اے فلک
دیکھا ہے اتصال یہیں صبح و شام کا

اسی خاندان کا ایک لفظ ’صلہ‘ بھی ہم عام بول چال یا تحریر و تقریر میں اکثر استعمال کرتے ہیں۔ ’صلہ‘ کے لفظی معنی ’باہم مل جانا‘ ہیں۔ صرف ’ملنے‘ یا پانے کے معنوں میں بھی ’صلہ‘ کا استعمال عام ہے۔ جوعطا، انعام، بخشش، بدلہ یا عوض ہمیں کسی سے ملتا ہے اُسے ہم ’صلہ‘ کہتے ہیں۔ رحمِ مادر کے تعلق سے جتنے رشتے بنتے ہیں اُن سب رشتوں کو ملا کر اور جوڑ کر رکھنا ’صلہ رحمی‘ کہلاتا ہے۔ اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔

جو دھات برقی رَو کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جانے، ملانے اور پہنچانے میں معاون ثابت ہوتی ہو ایسی دھات کو ہم مُوصِّل‘ کہتے ہیں۔ برقی رَو کا سب سے اچھا موصل سونا (Gold) ہے، اُس کے بعد تانبا۔ معیاری برقی آلات میں تانبے ہی کے تار استعمال کیے جاتے ہیں۔ موصل کو انگریزی میں ‘Conductor’کہا جاتا ہے۔ عراق کو ترکی و شام سے ملانے والا شہر بھی موصل کہلاتا ہے۔
کسی شہر کے ایک مقام کو دوسرے مقام سے ملانے کے لیے، یا ایک شہر کو دوسرے شہر سے ملانے کے لیے، یا ایک ملک کو دوسرے ملک سے ملانے کے لیے جتنے بھی ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں، نقل و حمل کے ان سب ذرائع کو ’مواصلات‘ کہا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں ہمارے ہاں ایک ’وزیرِ مواصلات‘ بھی ہوا کرتا تھا۔ اب نہیں ہوتا، کیوں کہ اسے معزول کرکے ہم نے ’کمیونیکیشن منسٹر‘ بھرتی کرلیا ہے۔
بات ’ایصال‘ سے چلی تھی، پہنچی ’مواصلات‘ تک۔ کہنا صرف اتنا تھا کہ ’ایصال‘ کا مطلب ہی پہنچانا ہے۔ محض ’ایصالِ ثواب‘ ہی سے ثواب پہنچ جاتا ہے۔ بزور ’پہنچانے‘ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ہمیں امید ہے، اب اگلی بار جب مفتی صاحب قبرستان پہنچیں گے تو قبرستان میں لیٹے ہوئے مُردوں کو ’ایصالِ ثواب پہنچانے‘ کی کوشش میں حیران و پریشان اور رطب اللسان نہیں ہوں گے۔
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟

سلسلۂ آڈیو بک

کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)

باب ما جاء في صفة إدام رسول الله ﷺ

روایت نمبر : 170-167

عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net

اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)

پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت

دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻

/channel/shamail255

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۵ / نومبر

/channel/ilmokitab

لطافت حسین بدایونی، قاضی 15 نومبر 1956
محمد ابو النصر گیلانی ، پیر سید 15 نومبر 1983
منظر عباس عظیمی 15 نومبر 1978
الحاج عبدالقیوم 15 نومبر 2001
اسیر مالٹا مولانا عزیر گل 15 نومبر 1989
مولانا سید حمید الدین ہنسوری 15 نومبر 1965
قاضی لطافت حسین بدایونی 15 نومبر 1956
فیروز نظامی 15 نومبر 1975
امیر یعقوب خان 15 نومبر 1923
محمد حسین طباطبائی 15 نومبر 1981
جسٹس محمد رستم کیانی 15 نومبر 1962
محمد فرید (مصر) 15 نومبر 1919

Читать полностью…

علم و کتاب

Photo from Adul Mateen Muniri

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 236
انتخاب مطالعہ
تحریر: *ڈاکٹر جمیل جؔالبی*

*اٹھارویں صدی کا شاہی مزاج*

اس تفصیل سے اٹھاروی صدی کے مزاج، اس کے طرز معاشرت، اس کے اخلاق اور اس کے کردار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے،بہادری، شجاعت اور عسکریت کے عناصر ضائع ہوچکے ہیں،عدم تحفظ کے احساس نے معاشرے کو بے عمل و مفلوج کردیا ہے ؛ اسی لیے یہ معاشرہ وہ راستہ اختیار کرتا ہے جس پر چل کر اس پُر آشوب زمانے کو وقتی طور پر بھلا سکے،اس خود فراموشی کے لیے وہ ایک طرف شراب پر تکیہ کرتا ہے،میلوں، ٹھیلوں،عرس،چراغاں، گانے بجانے اور عیش کوشی میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور دوسری طرف تلاش سکون میں تصوف اور پیری مریدی کا سہارا لیتا ہے،بادشاہ سے لے کر عوام تک سب یہی کر رہے ہیں،اس معاشرے نے بزم آرائی،صہبا پرستی، اور عیش کوشی کو تصوف سے ملاکر اسے بھی اپنے لیے مفید مطلب بنالیا ہے ۔
بہ معاشرہ ثنویّت کا شکار ہے،اس کی شخصیت اور مذہبی وحدت دو ٹکڑے ہوگئ ہے،عورت اور مرد دونوں اسے محبوب ہیں،عشق مجازی اور عشق حقیقی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، صوفی بزرگ شاہ تؔرکمان کے مزار کو شرابِ ناب سے غسل دیا جارہا ہے، ایک طرف مجازی و حقیقی معنی کو ملا کرصنعتِ ابہام کو اس نے اپنا محبوب تخلیقی رجحان بنالیا ہے،
اور دوسری طرف ضلع جگت سے محفلیں زعفران زار بن رہی ہیں، ان تمام مشاغل میں وہ روح موجود نہیں جس سے معاشرہ آگے بڑھتا ہے، اس کے سامنے نہ کوئی جہت ہے نہ عظیم اجتماعی مقاصد ۔
قوم و ملت کی فلاح و ترقی کا تصور فرد کے ذہن سے معدوم ہوچکا ہے ؛ اسی لیے اس صدی میں ہمیں سورما اور بہادر نظر نہیں آتے ؛ بل کہ ان کی جگہ سازشی، سفلے،بانکے،رنڈی،بھڑوے اور خواجہ سرا ملتے ہیں!جنہوں نے سرکار دربار پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے،معاشی حالات ابتر ہیں،خزانہ خالی ہے، تجارت بحران کا شکار ہے،کاشتکار اور کاریگر پریشان حال ہیں،کسان کے لیے پیٹ پالنا اور محصول ادا کرنا ناممکن ہوگیا ہے،ملک کی دولت غیر مفید اور غیر پیداواری کاموں پر صرف ہورہی ہے،ذرائع پیداوار اس طور پر ناکارہ ہوگئے ہیں کہ نیے ذرائع پیداوار کی تلاش وقت کی ضرورت بن گئ ہے۔


( *تاریخ ادب اردو،جلد: دوم،صفحہ: 14،طبع: مجلس ترقی ادب،کلب روڈ،لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…
Subscribe to a channel