علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة إدام رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 166-164
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
دیگر اسباق حاصل کرنے کے لیے لنک 👇🏻
/channel/shamail255
عربوں کا علمِ طب شام میں (جون ۱۹۲۶ء)، فقہ اسلامی کے مذاہب اربعہ (جولائی تا ستمبر ۱۹۲۶ء)، ترکی ادبیات پر ایک اجمالی نظر (جون ۱۹۲۷ء)، امام غزالی اور حکمائے یورپ (اگست ۱۹۲۸ء)، ابن رشیق صقلیہ میں (اپریل، اگست، ستمبر ۱۹۲۹ء)، خان اعظم تاتار خان (فروری ۱۹۳۲ء)، کیا عالمگیر کے عہد میں تاریخ نویسی قانوناً جرم تھی (مئی ۱۹۳۲ء)، ترجمان القرآن اور نجات و سعادت کی راہ (مارچ ۱۹۳۳ء)، اغلبیوں کا عدالتی نظام (دسمبر ۱۹۳۳ء)، سندھ کے اسلامی حملوں کے قیدی (مئی ۱۹۳۵ء)، سسلی میں مسلمانوں کا تمدن (ادارہ معارف اسلامیہ لاہور میں پڑھا گیا، ستمبر تا دسمبر ۱۹۳۵ء و جنوری ۱۹۳۶ء)، صفی ہندی (مارچ ۱۹۴۳ء)، عالمگیر کے عہد میں مندروں کا انہدام (ستمبر ۱۹۴۳ء)، کتاب العشر و الزکوٰۃ (اگست، ستمبر ۱۹۴۴ء) ،عہد اسلامی کا ہندوستان (مئی، جون، جولائی ۱۹۴۹ء)۔
معارف میں باب الاستفسار قائم کیا گیا تو اس میں بیرونی سوالات کے جوابات بہت ہی محنت سے لکھتے جو بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے۔
دارالمصنفین کے قیام میں ان کا اہم کارنامہ دو جلدوں میں تاریخ صقلیہ کی ترتیب و تدوین ہے، اس جزیرہ میں مسلمانوں کی حکومت کے کارناموں کو بالکل بھلا دیا گیا تھا، یہاں ان کی ڈھائی سوسال کی حکمرانی رہی، اس مدت میں انھوں نے اس کو جس طرح سنوارا، وہ مسلمانوں کی تاریخ کا بڑا شاندار کارنامہ ہے، اس کی پہلی جلد بقول مصنف مرحوم رزمگاہ ہے، جس میں یہاں کے سیاسی حالات اور مسلسل معرکہ آرائیاں دکھائی گئی ہیں، اور دوسری جلد بزمگاہ ہے جس میں صقلیہ کے اسلامی تمدن کے مناظر دکھائے گئے ہیں، اس طرح یہ دونوں جلدیں ایک ایسی تمدن آفریں قوم کی سرگزشت ہے جس کی تمدنی ترقیاں یورپ کی جدید ترقیوں کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے، مرحوم نے ان دونوں جلدوں کو جس محنت و ریاضت سے لکھا ہے، وہ دارالمصنفین کی علمی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ شمار کرنے کے لائق ہے، اس کو جن چند کتابوں پر ناز ہے، ان میں یہ دو جلدیں بھی شامل ہیں۔
ان کی ایک کتاب تاریخ اندلس جلد اول بھی ہے، یہ بھی دارالمصنفین کی مقبول کتابوں میں ہے اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہے، انھوں نے معارف میں اسلامی نظام تعلیم کے عنوان سے ایک سلسلہ مضمون بھی لکھنا شروع کیا تھا، جو بعد میں کتاب کی صورت میں شائع ہوکر مقبول ہوئی، اردو میں اس موضوع پر اس سے بہتر شائد کوئی اور کتاب نہیں، معارف میں ان کے جو مضامین ہندوستان پر نکلتے رہے، ان کا ایک مجموعہ ’’عہد اسلامی کا ہندوستان‘‘ کے نام سے شائع کیا۔
دارالمصنفین میں تقریباً ۱۴ سال رہنے کے بعد وہ مدرسہ شمس الہدیٰ کے پرنسپل کے عہدہ کے خواستگار ہوئے، وہاں ان کا انتخاب نہیں ہوسکا تو ان کو دارالمصنفین واپس آنے میں تامل ہوا، اس لئے وہ اپنے وطن گیا جاکر رسالہ ندیم کے مالک ہوگئے، ان کو خیال ہوا کہ وہ معارف کے اپنے ادارتی تجربے سے اس کے معیار کو اونچا کرکے معارف بنادیں گے۔ لیکن اس میں ان کو مایوسی ہوئی، ندیم کا ایک بہار نمبر تو اچھا نکالا، مگر اس کے بعد مالی پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے تو پھر دارالمصنفین واپس آگئے، یہ زمانہ ہندوستان کی سیاست میں بہت ہی پُر آشوب تھا، کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش سے ہندوستان کی سیاست بہت ہی مکدر ہورہی تھی، سید صاحب دارالمصنفین کو اس سیاسی الجھائو سے محروم رکھنا چاہتے تھے، مگر ریاست علی صاحب کھل کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے، جو سید صاحب کو پسند نہ آیا، ۱۹۵۰ء میں وہ دارالمصنفین کو چھوڑ کر شمس الہدیٰ کے پرنسپل ہوگئے تو وہاں نہ خود مطمئن رہ سکے، نہ وہاں طلبہ اور اساتذہ کو خوش رکھ سکے، اس لئے بہار عربک پرشین ریسرچ انسٹیٹیوٹ منتقل ہوگئے، جہاں سے ریٹائر ہوئے تو ان کو یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے کچھ تحقیقی کام کے لئے وظیفہ بھی ملا، مگر شائد مکمل نہ کرسکے، ان کا وطن آبگیلہ ضلع گیا تھا، وہیں زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باوجود سیاست ان کے لئے سازگار نہیں ہوئی، وفات سے کچھ دنوں پہلے ان کو موتیا بند ہوگیا تھا، اس لئے لکھنے پڑھنے سے مجبور ہوگئے، آپریشن کے بعد روشنی آگئی تھی، میرا اصرار تھا کہ وہ دارالمصنفین آکر تاریخ اندلس کی دوسری جلد مکمل کردیں، اس کے لئے وہ رضامند بھی ہوگئے تھے، ان کی آمد کا انتظار تھا، کہ یکایک ان کی رحلت کی خبر ملی، جس سے بڑا دکھ پہنچا، وفات کے وقت ان کی عمر غالباً ۷۴ سال تھی۔
وفیات مورخہ: ۱۴ نومبر
/channel/ilmokitab
مولانا سید ریاست علی ندوی 14/نومبر/1976ء
انیس احمد عباسی 14/نومبر/1975ء
برکت علی جوہرقادری نقشبندی، صوفی سید 14/نومبر/1988ء
مولانا جمال میاں فرنگی محلی 14/نومبر/2012ء
رسا بدایونی (مقبول غنی صدیقی) 14/نومبر/1967ء
زاہد حسین 14/نومبر/1957ء
مولانا ظہور الحسن درس 14/نومبر/1972ء
پروفیسر محمد نعمان 14/نومبر/2009ء
سید وصی احمد بلگرامی 14/نومبر/1976ء
مصباح الاسلام فاروقی 14/نومبر/1976ء
سلسلہ نمبر: 235
انتخاب مطالعہ
تحریر: *سید قاسم مؔحمود*
*مومن*
خودی،فقر اور عشق جس شخص میں جمع ہوں گے وہ اقبالیات کی اصطلاح میں ”مومن“ کہلائے گا، اپنی ایک فارسی غزل میں مؔومن سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”تجھ پر کمالِ حیرت ہے کہ آفاق تو تجھ سے روشن ہیں ؛ لیکن تیری ذات ہی درمیان سے غائب ہے،تم کب تک غفلت گمنامی و جہالت کی زندگی گزارتے رہوگے؟ تمہاری روشنی نے دنیائے قدیم کو روشن کیا اور تمہارا وجود ماضی کی تاریک رات کے لیے منارۂ نور بن کر رہا،تمہاری آستین میں ہمیشہ یدبیضا موجود رہا،تم آج گھروندوں میں گھوم رہے ہو ؛ لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ تم انہیں پھلانگ بھی سکتے ہو، تم تو اس وقت بھی تھے جب یہ کائنات نہ تھی اور اس وقت بھی رہوگے جب یہ نہ ہوگی ۔
اے مرد مومن! تو موت سے ڈرتا ہے حالاں کہ موت کو تجھ سے ڈرنا چاہئے! تمہیں جاننا چاہئے کہ موت آدمی کی روح کی جدائی سے نہیں ہوتی ؛ بل کہ ایمان کی کمی اور یقین سے محرومی سے ہوتی ہے۔
اے مرد مومن! تو ناموسِ ازل کا امین و پاسباں اور خدائے لم یزل کا رازداں ہے،تیرا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے،تیری اٹھان مٹی سے ہے ؛ لیکن تجھی سے اس عالم کا وجود و بقا متعلق ہے ؛ مے خانۂ یقین سے پی اور ظن و تخمین کی پستیوں سے نکل کر بلند ہوجا! فرنگ کی دل آویزی کی نہ داد ہے نہ فریاد ہے، جس نے عقل و دل دونوں کو مسحور و مخمور اور ناکارہ بنادیا ہے، فریاد ان بازی گروں سے جو کبھی ناز و ادا سے پکڑتے ہیں اور کبھی بیڑیوں میں جکڑتے ہیں،کبھی شیریں کا پارٹ ادا کرتے ہیں اور کبھی پرویز کا روپ بھرتے ہیں،دنیا ان کی تباہ کاریوں سے ویران ہوگئ ہے۔
اے مردِ مومن! اے بانیٔ حرم! اے معمارِ کعبہ! اور اے فرزند ابراہیم! ایک بار پھر دنیا کی تعمیر کے لیے اٹھ اور اپنی گہری نیند سے بیدار ہو!
( *پیامِ اقبال،صفحہ: 167، طبع: اقبال اکادمی،لاھور*)
✍🏻 ... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
وفیات مورخہ: ۱۳/ نومبر
/channel/ilmokitab
احسان محمد 13/نومبر/1986ء
تصور حیدرآبادی(سید محی الدین علی خان 13/نومبر/1989ء
فہمیدہ عتیق ، ڈاکٹر 13/نومبر/2004ء
محمد احسان 13/نومبر/1986ء
مولانا صدر الدین اصلاحی 13/نومبر/1998ء
مولانا عبدالسلام رامپوری 13/نومبر/2009ء
مولانا صدرالدین اصلاحی 13/نومبر/1998ء
مولانا مسیح اللہ خاں شروانی، مسیح الامت 13/نومبر/1992ء
مولانا مفتی مہربان علی بڑوتی 13/نومبر/1999ء
صلاح الدین کوبٹے 13/نومبر/2015ء
اسکندر مرزا 13/نومبر/1969ء
محمد حامد سراج 13/نومبر/2019ء
پی یم غفور 13/نومبر/2003ء
مکان سے چند گز کے فاصلے پر رہتے تھے اور دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ پہلے پہل پروفیسر تنویراحمدعلوی نے ہی ان کی صحافتی اور علمی خدمات پر ایک مضمون تحریر کیا تھا، جو 4/اپریل 1965کو دہلی پبلک لائبریری کے ایک اجلاس میں پڑھا گیا۔ اس اجلاس کا افتتاح ماہر غالبیات مالک رام نے کیا تھا اور صدارت گوپی ناتھ امن نے کی تھی۔اس مضمون میں پروفیسر تنویر علوی نے مولانا امداد صابری کی ادبی زندگی اور ان کی تصنیفات بشمول ’تاریخ صحافت اردو‘ کے بارے میں اپنی رائے بڑے مدلل انداز میں پیش کی ہے۔ یہ مضمون بھی اس مجلہ میں شامل ہے۔پروفیسر تنویر احمد علوی نے مولانا امداد صابری کے انتہائی ذی علم والد علامہ شرف الحق صابری کا بھرپورتعارف کرایاہے۔
میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جنھوں نے مولانا امداد صابری کو نہ صرف بارہا دیکھا بلکہ اپنی صحافتی زندگی کی ابتداء میں مجھے ان سے انٹرویو لینے کا بھی موقع ملا۔ اس یادگار انٹرویو کوبھی اس مجلہ میں شامل کیا گیا ہے۔
میں دہلی کی سرکردہ علمی شخصیت جناب عبدالعزیز کا ممنون ہوں جنھوں نے تمام ترمصروفیات کو پس پشت ڈال کرمیری گزارش پر مولانا امدادصابری پر نہایت معلوماتی مضمون تحریر کیااور مولانا سے اپنے تعلق کی داستان بیان کی۔ اب اس دہلی میں ایسے لوگ خال خال ہی ہیں جنھوں نے مولانا سے کسب فیض کیا ہو۔ میں معروف خطاط اور صحافی جناب جلال الدین اسلم کا بھی ممنون ہوں جنھوں نے اپنی بیماری اور نقاہت کے باوجود اس مجلہ کے لیے مولانا امداد صابری سے اپنے تعلق کی روئیداد قلم بند کی۔آخر میں ’عالمی یوم اردو‘ کے روح رواں ڈاکٹر سید احمد خاں کا بھی شکریہ جنھوں نے اس مجلہ کی ترتیب وتدوین کی ذمہ داری مجھے سونپی۔
رابطہ 9810780563
سلسلہ نمبر: 234
انتخاب مطالعہ
تحریر: *سید مختار الدین شاہ*
*حرارت بدن کی یکسانیت اور صورتوں کا اختلاف کیوں ہے؟*
یہ عام مشاہدہ ہے کہ: صحت مند آدمی کا درجۂ حرارت 98/½ درجہ Fahrenheit ( فارن ہیٹ ) ہے،سردی پڑے یا گرمی،بدن کا درجۂ حرارت جوں کا توں رہتا ہے،نہ اضافہ ہوتا ہے نہ کمی۔
افریقہ کے منطقۂ حارہ کے باشندے اور بحر الکاہل کے جزائر میں رہنے والی قومیں اس شدت کی گرمی میں زندگی گزارتے ہیں،جن کا حال سن کر آدمی گھبرا جاتا ہے،اس کے باوجود وہاں کے لوگ دھوپ میں چلتے پھرتے اور کام کاج کرتے رہتے ہیں ؛ لیکن ان کے بدن کی گرمی یا درجہ حرارت وہی 98 ½ درجے کا Fahrenheit فارن ہیٹ ہوتا ہے،جیسا کہ منطقہ معتدلہ میں رہنے والے انسانوں کا ہوتا ہے،جہاں چھ ماہ کا ایک دن اور چھ ماہ کی ایک رات ہو،جہاں سورج افق پر دیکھا جاسکتا ہو،وہاں سردی کی شدت کا کیا عالم ہوگا؟ درختوں کا نام و نشان تک نہیں، چاروں طرف برف ہی برف ہے اور ہر شے منجمد ؛ لیکن جو انسان اس ماحول میں زندگی بسر کر رہا ہے برف کے میدانوں اور پہاڑوں پر چلتا پھرتا ہے اور انہی برف کے تودوں کے اندر مکان بناکر رہتا ہے اس کے بدن کا درجۂ حرارت بھی وہی 98½ Fahrenheit فارن ہیٹ ہوگا۔
آب و ہوا میں اتنا اختلاف اور ماحول میں اتنا فرق کہ غذاء یکساں نہیں بود و باش الگ الگ رہن سہن الگ غرض بہت سی باتوں میں منطقۂ حارہ کے رہنے والے منطقۂ باردہ کے رہنے والوں سے مختلف ہیں ؛ مگر اتنے وسیع اختلاف کے ہوتے ہوئے بھی دونوں کے بدن کا درجہ حرارت یکساں ہے،کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ ایک ایسی ہستی ضرور موجود ہے جس نے زمین پر رہنے والے انسانوں کے فائدے اور ضرورت کے پیش نظر جہاں شکل و آواز میں فرق رکھا کہ زید بکر سے ممتاز ہوسکے اور دنیاوی کاروبار چلانے میں آسانی ہو وہاں درجۂ حرارت ہمیشہ اور ہرجگہ یکساں 98½ Fahrenheit فارن ہیٹ رکھا کہ درجہ حرارت کی وجہ سے بیماریوں کا تشخص ہوسکے۔
( *دہریت سے اسلام تک،صفحہ:19، طبع:القادر پرنٹنگ پریس*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
/channel/ilmokitab
ثانوی درسگاہ کے تذکرے کے ساتھ یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ عصری تعلیم کے بعد جب کوئی طالب علم دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو اللہ تعالی اس کے دل سے غیر کی مرعوبیت ختم کردیتا ہے، اس کے برعکس کوئی عالم دین فراغت کے بعد عصری تعلیم سے جڑ جاتا ہے تو وہ اپنی تعلیم کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہوکر غیر کی مرعوبیت کا شکار ہوجاتا ہے، استثنا ئ ہر قانون میں پایا جاتا ہے، حکم غالب پر ہوتا ہے ۔ ثانویہ کے فارغین نے دین کی بڑی خدمت کی، اور فکر اسلامی کو اپنی تصنیفات اور تحقیقات سے بہت کچھ مالا مال کردیا۔
ثانوی درسگاہ کا ذکر آیا ہے تو ایک واقعہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ثانوی درسگاہ کے ابتدائی طالب علموں میں سے ایک بزرگ تھے ڈاکٹر قاضی اشفاق صاحب جو سڈنی ( اسٹریلیا) میں مقیم تھے، آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے بی یس سی انجینیرنگ کی تعلیم ترک کرکے ثانوی درسگاہ میں داخلہ لیا تھا، وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:
( (درس گاہ میں داخلہ مل جانے کی منظوری کے بعد میں گھر آگیا۔ پروگرام تھا یہاں سے رام پور جانے کا۔ ہمارا علاقہ مولانا حسین احمد مدنیؒ کا عقیدت مند تھا اور مولاناجب بھی اس علاقے میں تشریف لاتے ان کے قیام کے انتظامات کی ذمہ داری ہمارے خاندان کی ہوتی تھی۔ میں جب گھر آیا تو ان دنوں مولانا تشریف لاۓ ہوۓ تھے اور حسب دستور قیام ہمارے یہاں تھا۔ ایک دن میں نے مولانا سے درخواست کی کہ میں تنہائی میں ان سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے فرمایا کہ ٹھیک ہے،البتہ ان کے ساتھ مولانا محمد زکریا اور مولانا عاشق الہی صاحبان بھی ہوں گے۔ خیر، ان حضرات سے ملاقات میں، میں نے عرض کیا: مولانا میں سخت مخمصے میں ہوں۔ جماعت اسلامی ہند نے یونیورسٹی گریجویٹس کے لیے ایک چار سالہ کورس تیار کیا ہے جس میں طلبہ کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی جارہی ہے۔ مجھے بھی وہاں جاکر علم دین حاصل کرنے کاشوق ہے۔ دوسری طرف جماعت اسلامی اور مولانامودودی کے خلاف آپ کے فتوے ہیں۔ میں فیصلہ نہیں کر پارہاہوں کہ وہاں جاؤں یا نہیں۔ میری بات سن کر مولانا نے فرمایا بیٹے، تم وہاں ضرور جاؤ اور تعلیم حاصل کر وہ اور خوب دل بھی لگا کر وہ تعلیم حاصل کر و،تم وہاں ضرور جاؤ میں تمہیں اس کی تاکید کرتاہوں۔اور جہاں تک فتوے وغیرہ کا تعلق ہے تو وہ اونچی باتیں ہیں، ابھی ان کی فکر نہ کر و، بعد میں سمجھ میں آجائیں گی۔ اس وقت تو تم وہاں جاکر پوری دلجمعی سے تعلیم حاصل کرو۔ زندگی رامپور جولائی ۲۰۲۰ء))
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے پھر مدرسۃ الاصلاح میں تعلیم مکمل کی، اور انہیں عربی زبان پر اتنا عبور ہوگیا تھا، کہ اسلام میں عدل اجتماعی کے نام سے ایک مشہور عرب ادیب ومفکر کی کتاب کا سلیس ترجمہ اور امام ابو یوسف کی کتاب الخراج کا عربی سے ترجمہ کیا۔ اور یہ دونوں ترجمے کافی مقبول ہوئے۔
مطالعات اسلامی کے شعبہ میں سنہ ۱۹۸۲ئ میں آپ کو باوقار شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ خالصتاعلمی و تحقیقی شخصیت کے مالک تھے، اور انہی میدانوں میں آپ نے قابل قدر خدمات انجام دے کر داعی اجل کو لبیک کہا۔
ہمیں آپ سے ایک مرتبہ اپنی طالب علمی کے دور میں سنہ ۱۹۷۳ئ میں چنئی جماعت کے آفس میں ملاقات کا موقعہ ملا،یہ آپ کی جوانی کا زمانہ تھا، آپ کی کتاب غیر سودی بنک کاری کی شہرت کا یہ زمانہ تھا، اس کتاب کی بنیاد پر ہمارے اساتذہ میں سے ماسٹر محمد شفیع شابندری سابق ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل وغیرہ کے رفقائ نے غیر سودی بنک کاری کا ابتدائی تجربے کا آغاز کیا تھا۔ڈاکٹر صاحب کی غیر سودی بنک کاری، ان حضرات کی میز پر ہمیشہ نظر آتی تھی، دنیا جیسے جیسے سود کی لعنت سے دور ہوتی جائے گی، اور اسلامی بنکنگ کا نظام فروغ پاتا رہے گا، ڈاکٹر صاحب جیسے مفکرین اور محققین کے اجر میں اضافہ ہوتا رہے گا، ان کی یہ خدمات بلندی درجات کا باعث بنتے رہیں گے ان شائ اللہ۔اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔
وفیات مورخہ: ۱۲ نومبر
/channel/ilmokitab
ابراہیم کے سی (خان محمد قاسم بھائی ابراہیم ) 12/نومبر/2007ء
ابصار عالم، پروفیسر 12/نومبر/1981ء
پرویز دستور، مسز 12/نومبر/2009ء
ظفر جونپوری، پروفیسر(سید مظفر حسین زیدی) 12/نومبر/1999ء
عقیلی، این ایم (نبی بخش محمدصایق) 12/نومبر/1996ء
نازبی بی ، سیدہ 12/نومبر/1992ء
نثار اکبر آبادی (نثار احمد) 12/نومبر/1984ء
نشاط امروہوی (سید آل مصطفٰے رضوی) 12/نومبر/1989ء
نوربریلوی(ماجد نورخان) 12/نومبر/2001ء
یوسف علی عزیز جے پوری، حافظ سید محمد 12/نومبر/1975ء
ابوریحان 12/نومبر/1996ء
پنڈت مدن موہن مالویہ 12/نومبر/1946ء
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی 12/نومبر/2022ء
شکیب جلالی 12/نومبر/1966ء
بی اماں، آبادی بانو بیگم(والدہ علی برادران) 12/نومبر/1924ء
محمود سرحدی، مرزا 12/نومبر/1968ء
زینت بیگم 12/نومبر/1966ء
سلسلہ نمبر: 233
انتخاب مطالعہ
تحریر: *محمد حسین جؔاہ*
*چاند تاروں کا کھیت*
شام ہوتے ہی درختوں میں قندیلیں آویزاں ہوئیں،نورانی ثمر ہر شجر میں لگے،گیند بلور کے لٹکائے گئے،بارہ دری میں ہانڈیاں،جھالے،کنولہائے جواہر آگیں روشن ہوئے،سقف بارہ دری پر نم گیرے زرتار کے،نیچے چاندنی دیکھنے کو خواجہ عمرو مسند پر جلوہ فرما ہوئے، چار سمت اس جگہ سے دریا بہتے نظر آئے،مثل رفتار معشوق لہراتے تھے،باغ میں سمن اندام و سیمیں تن خواصیں اور غلام مقیش اڑانے لگے،زمین کو ہم سر چرخ بریں بنانے لگے،گلہائے خوشبو کی بھینی بھینی بو دماغ شاہدان گلشن معطر کرتی تھی،زلف سنبل بوئے گل سے ایسی بسی تھی کہ مشام سبز رفتگان دہر معنبر کرتی تھی،ماہ تاباں کی چمک برگ اشجار زمردیں پر پڑی تھی،یا شاہد بہار چاندنی کی پات بالیاں پہنے تھی،زمین و زماں نو بیز تھا، عجیب جلوۂ عشرت خیز تھا...
یہاں تو یہ سامان راحت و فرحت خیز ہے ؛ مگر ملکۂ برّاں نے جو قلعہ ہفت رنگ میں تشریف فرما ہوئی حکم دیا کہ تمام شہر آئینہ بند ہو! سامان دل پسند ہو! ایک کام دار لباسِ زریں پہنے مکانوں پر چاندی سونے کا مصقلہ کیا جائے! نقش و نگار جواہر کار ہو! مذہب و مطلا کوچۂ بازار ہو! موتی باغ قلعہ مذکور کے مابین جو دریا واقع ہوئے ہیں اور بارہ دری سے دکھائی دیتے ہیں ان کے گھاٹ بھی طلائی اور نقرئی کے بنیں! ناؤ،بجرے،مورپنکھی،طاؤسان زریں چہرہ کے چہرے درست ہوکر کنارے لگائے جائیں! چنانچہ حسب الحکم ملکۂ عالم تمام سامان کارپردازان ستووہ شیم نے درست فرمایا، یعنی کنول ہائے زریں دریا میں چھوڑ دیے اور نمگیرے زر بفتنی کنارے کنارےفرہنگہائے فرنگ استادہ ہوئے، قبہ ہائے خیمہ قبۂ فلک سے سرکشی جتانے لگے، اپنے رو برو سر اس کا نیچا کردیا،خمیدہ قامت بنانے لگے، ناچ ہارگاہوں میں ہونے لگا،دریا بھی فرط خوشی سے موج میں آیا،مستوں کی طرح سے جھوم کر لہرایا،حباب چشم تماشائے بحر تحیر میں ڈوبے تھے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بدیدۂ حیرت یہ سیر دیکھتے تھے،فرط مستی و مسرت سے دریا بھی بلبلا نکلا تھا،حباب نہ تھے،بحر کے دل کا حوصلہ نکلا تھا،ہر ایک صدف بہر نثار گوہرِ آبدار لائی تھی۔
( *انتخاب طلسم ہوش ربا، صفحہ: 130،طبع: پورب اکادمی،اسلام آباد*)
انتخاب: محمد حسن عؔسکری
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
https://telegram.nme/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سچی باتیں (۱۵؍ستمبر ۱۹۳۳ء)۔۔ فن میں اختصاص
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
کسی نامور ڈاکٹر ،یا حاذق طبیب کے سامنے ، آپ نے یہ منظر کبھی دیکھا ہے، کہ کوئی اکّہ بان آکر طبّی مسائل میں بھِڑ گیاہو، اور اُن سے بحث ومباحثہ ، ردوقدح شروع کردیاہو؟ کوئی بڑے ماہر فن انجینیر ایک بڑی عمارت کا نقشہ تیار کررہے ہوں، اور بستی کے پاسی چمار آکر اُس پر ’’تنقید وتبصرہ‘‘ شروع فرمادیں، تو اُ س انجینیر کا کیا حال ہو؟ کوئی قابل بیرسٹر یا ایڈوکیٹ کسی قانونی نکتہ کی تشریح کررہے ہوں، اورمحلہ کے دو ایک جاہل، قصاب ونانبائی آکر اُس میں دخل درمعقولات کرنے لگیں، تو بیرسٹر صاحب کیونکر ضبط کرسکیں گے؟ ……یہ فرضی صورتیں ہیں اس قدر واقعیت سے دُور، اور انوکھی، کہ کبھی واقع کیوں ہونے لگیں، محض ان کے تصور ہی سے ذہن کو وحشت ہونے لگتی ہے۔
ان سب مثالوں کا حاصل کیاہے؟ محض یہ کہ’’اناڑی‘‘ اور صاحب فن کے درمیان کوئی نسبت، آپ کی عقل سلیم تسلیم ہی نہیں کرتی۔ تسلیم کرنا الگ رہا، فرض کرنے میں بھی آپ کو دشواری پیش آتی ہے! حالانکہ انسان یہ بھی ہے، انسان وہ بھی۔ جسے آپ ’’اناڑی‘‘ کہتے ہیں، اُس کا بھی گوشت وپوست، دل ودماغ ، انسانوں ہی کا ہے، اور جس کا نام آپ نے ’’صاحبِ فن‘‘ رکھاہے، وہ بھی بشریت سے الگ کوئی مخلوق نہیں۔ انسان دونوں ہی ہیں، مگر ایک کی حقارت، اور دوسرے کی عظمت، آپ کے دل پر جمی ہوئی ہے۔ یہ کیوں؟ اس لئے، کہ ایک نے اپنی عمر عزیز کا ایک معقول حصہ تحصیل فن میں صَرف کیاہے۔ اس کے متعلق پڑھاہے، سنا ہے، سیکھاہے، سوچاہے، بحثیں کی ہیں، سوالات کئے ہیں، جوابات دئیے ہیں، برسوں کا وقت اس لئے وقف رکھاہے۔ محنتیں کی ہیں، اُستادوں کی خدمت کی ہے، فن کے جاننے والوں سے صحبت رکھی ہ، امتحانات پاس کئے ہیں، تجربات حاصل کئے ہیں۔ دوسرے نے یہ کچھ بھی نہیں کیا، فن سے جاہل، اُستادان فن سے بیگانہ، محض ’’اناڑی‘‘۔ خالی خولی اٹکل کے تیر چَلانے والے۔
ہرعلم، ہرفن، ہر صنعت، ہر شعبۂ زندگی سے متعلق آپ یہ اصول قائم رکھے ہوئے ہیں، اور بلا تامل اس پر آپ کا عمل ہے۔ مگر ایک دین کے معاملہ میں آکر آپ کی یہ دانش بھی آپ کو جواب دے دیتی ہے، اور آپ یہ چاہنے لگتے ہیں، کہ ہر ابجدخواں، ہر جاہل مطلق، مذہبی مسائل پر اُسی آزادی سے رائے دے سکے، اُسی قطعیت سے فیصلے صادرکرسکے، جوحق تھا، امام ابو حنیفہؒ کا ، امام بخاریؒ کا، غزالیؒ کا، رازیؒ کا، اُن کا جنھوں نے مذہب کے مطالعہ میں اپنی پوری عمریں صَرف کردی ہیں! گویا مذہب کے مسائل میں نہ کسی غوروفکر کی ضرورت ہے، نہ کسی مطالعہ وتفحص کی، نہ وقت صرف کرنے کی، نہ اُستادوں کی صحبت میں بیٹھنے کی، نہ راتوں کو جاگنے کی، نہ کسی قسم کی محنت اُٹھانے کی۔ بلکہ صرف منہ میں زبان اور حلق میں آواز ہونا کافی ہے! آپ خود ہی انصاف کیجئے، کہ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کس آئین خرد، اور فتویٰ دانش کے مطابق ہے!
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
علی گڑھ کے قیام ہی کے زمانہ میں انھوں نے اقسام القرآن لکھی یعنی اس مشکل کا حل فرمایا کہ خدا نے قرآن مجید میں قسمیں کیوں کھائی ہیں، اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے امام رازی نے تفسیر کبیر میں جستہ جستہ فقرے لکھے تھے، پھر ابن القیم نے التبیان فی اقسام القرآن لکھی، مگر مولانا حمید الدین صاحب کی تحقیقات نے اپنی الگ شاہراہ نکالی، اور حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں انھوں نے ایسی داد تحقیق دی کہ تیرہ سو برس میں اسلام میں کسی نے نہیں دی، مولانا شبلی مرحوم نے اُن کے اس رسالہ کا خلاصہ نہایت مسرت اور خوشی کے ساتھ الندوہ اپریل ۱۹۰۶ء میں شایع کیا، اور عربی رسالہ اقسام القرآن کے نام سے الگ شایع ہوا اس کے بعد اس رسالہ کو مزید تحقیقات سے موید کرکے امعان فی اقسام القرآن کے نام سے علی گڑھ میں چھپوایا اس وقت ۴؎ سے لے کر آج تک مختلف مدعیان تحقیق نے اقسام القران پر جو کچھ کہا ہے وہ تمام تر مولانا کے خوانِ علم کی زلہ ربائی ہے۔
اس کے بعد اگست ۱۹۰۶ء میں اقسام القرآن کے علاوہ سورہ ابی لہب اور سورہ قیامت کی تفسیریں چھپیں اور اہل علم نے ان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا علامہ سید رشید رضا صاحب المنار مصر جو خود تفسیر لکھ رہے تھے، انھوں نے ان پر مداحانہ اور معترفانہ تفریظ لکھی اور تحسین کی۔
۱۹۰۴ء کے بعد جب مولانا حمید الدین صاحب کراچی یا علی گڑھ سے وطن آتے جاتے تو لکھنؤ میں بھائی کے پاس کچھ دن ٹھہر کر آتے جاتے، اور ۱۹۰۵ء سے مولانا خاص طور سے تقاضا کر کے بلواتے اور اپنے پاس ٹھہراتے، مقصود یہ تھا کہ ندوہ کے طلبہ ان سے فائدہ اٹھائیں، چنانچہ انھیں کے اصرار سے کئی دفعہ وہ ندوہ میں آکر رہے اور طلبہ کو کبھی فلسفہ جدیدہ اور کبھی قرآن کے سبق پڑھائے میں بھی اس زمانہ میں ندوہ کا طالب العلم تھا، مولانا کے ان درسوں سے مستفید ہوا۔
اس زمانہ میں مولانا ابوالکلام صاحب، مولانا شبلی مرحوم کے پاس ندوہ میں مقیم تھے اور الندوہ کے مددگار اڈیٹر تھے، وہ مولانا حمیدالدین صاحب کی ان صحبتوں سے مستفید ہوتے رہے، اور قرآن پاک کے درس و نظر کے نئے راستوں کے نشان پانے لگے، اور بالآخر الہلال کے صفحات میں اس جادہ پیمائی کے مختلف مناظر سب کی نظروں کے سامنے آئے، اسی زمانہ میں، ندوۃ العلماء نے ان کو اپنی مجلس انتظامی کارکن بنایا، اور آخر زمانہ تک وہ برابر رکن رہے۔
مولانا حمیدالدین صاحب علی گڑھ میں دو سال کے قریب رہے، اس کے بعد ۱۹۰۸ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے، کالج کے درس کے علاوہ بقیہ اوقات وہ تالیف و تصنیف میں صرف کرتے تھے، یہیں سے انھوں نے سورۂ تحریم کی تفسیر شایع کی، اور خالص فارسی میں یعنی عربی الفاظ کی آمیزش کے بغیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے مواعظ کا عبرانی سے فارسی نظم (مثنوی) میں ترجمہ شروع کیا تھا، مولانا کا الہ آباد ہی میں قیام تھا کہ ان کے اہل برادری میں ایک نئے عربی مدرسہ کے قیام کی تحریک پیدا ہوئی، مولانا شبلی اور مولانا حمید الدین صاحب مرحوم نے اس تحریک کی عنان اپنے ہاتھ میں لی اور ۱۹۱۰ء اعظم گڑھ میں مولانا حمیدالدین صاحب کے قریہ بہا سے ایک اسٹیشن بعد سر اے میر نام کے مقام میں آبادی سے باہر ایک باغ میں اس مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی،مولانا شبلی نے اس کی نظامت کا بارمولانا حمیدالدین صاحب کے کندھے پر رکھنا چاہا، ۱۹؍ اپریل ۱۹۱۰ء کے ایک مکتوب میں وہ لکھتے ہیں:
’’کیا تم چند روز سرائمیر کے مدرسہ میں قیام کرسکتے ہو، میں بھی شاید آؤں، اور اس کا نظم و نسق درست کردیا جائے، اس کو گروکل کے طور پر خالص مذہبی مدرسہ بنانا چاہئے، یعنی سادہ زندگی اور قناعت اور مذہبی خدمت مطمع زندگی ہو‘‘۔
اس مدرسہ نے رفتہ رفتہ ان دونوں بزرگوں کے زیر ہدایت ترقی شروع کی، اور یہ لوگ کبھی کبھی اس کو دیکھتے رہے۔
مولانا ۱۹۱۳ء تک الہ آباد میں رہے۔
۲۸ شعروں کا قصیدہ تھا، لوگوں کو پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی یہ فارسی یہ لطف زبان، یہ شیرینی، اور یہ شکوہ دیکھ کر سب کو تعجب تھا، مولانا شبلیؔ فرماتے تھے، کہ میں نے اس کو لیجاکر مولانا فاروقؔ صاحب کو دکھایا، اور پوچھا کہ آپ کے نزدیک یہ کس کا کلام ہے، انھوں نے فرمایا یہ تو نہیں بتاسکتا، مگر قد مامیں سے کسی کا معلوم ہوتا ہے، مولانا شبلیؔ نے فرمایا یہ حمیدؔ کا ہے، حیرت ہوگئی۔
مولانا حمید الدین صاحب فطرۃً نہایت ذہین نہایت طباع، اور نہایت دقیقہ رس تھے، ان کا ذہن نہایت صاف تھا، وہ اول ہی وہلہ میں بے کج و پیچ حقیقت کی منزل مقصود تک پہنچ جاتے تھے، ان کا تیر نظر مسائل کی تشریح اور مشکلات کے حل میں ہمیشہ نشانہ پر بیٹھتا تھا، دماغ اتنا سلجھا تھا، کہ کتنا ہی پیچیدہ مسئلہ ہو وہ اس کی اصل تہہ تک پہنچ جاتے تھے، اور اگر وہ مناظرہ پر اتر آتے تو کیسی ہی غلط بات ہو وہ اس کی ایسی عمدہ عمدہ دلیلیں پیش کرتے تھے کہ حریف ساکت ہوجاتا تھا، اور سمجھ لیتا تھا کہ یہ مولانا کی اصلی رائے ہے، مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ مسکرا کر فرماتے کہ یہ غلط تھا اصلیت یہ ہے۔
فارسی کے بعد مولانا نے عربی کی تعلیم شروع کی اور بھائی (مولانا شبلیؔ) سے عربی پڑھنے لگے، چنانچہ متوسطات تک مولانا شبلی ہی سے تعلیم پائی، مولانا شبلی جب یہاں سے باہر نکلے تو یہ بھی گئے، لکھنؤ جا کر مولانا حمید الدین صاحب نے فرنگی محل میں مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محل سے کچھ پڑھا، اس زمانہ میں لکھنؤ میں خواجہ عزیزالدین صاحب عزیز لکھنؤی (پروفیسر فارسی کیننگ کالج لکھنؤ و مصنف قیصر نامہ) لکھنؤ میں فارسی کے نہایت مستند استاد اور شاعر تھے انہی کی صحبتوں میں شرکت کا اتفاق ہوتا رہا، اور ان دونوں بھائیوں سے خواجہ صاحب کے اسی فارسی کے رشتہ سے تعلقات محبت عزیزانہ حیثیت تک پہنچ گئے تھے، لکھنؤ کے بعد مولانا نے لاہور جاکر مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری سے عربی ادب کی کتابیں پڑھیں، اس زمانہ میں یہاں نیا نیا اورینٹل کالج کھلا تھا، مولانا فیض الحسن صاحب اپنے عہد کے مشہور ادیب اس میں مدرس تھے، ان کا نام سن کر دور دور سے طلبہ پڑھنے آتے تھے، لیکن مولانا حمیدالدین صاحب نے مولانا فیض الحسن صاحب سے خارج میں پڑھا اور یہیں ان کی ملاقات مولوی وحید الدین صاحب سلیم پانی پتی سے ہوئی، اور وہ دوستی تک پہنچی، جو آخر تک قائم رہی اور اسی دوستی کی کشش تھی کہ مولوی وحید الدین صاحب سلیم جامعۂ عثمانیہ حیدرآباد تک پہنچے۔
مولانا بیس برس کی عمر میں ۱۳۰۰ھ؍ ۱۸۸۴ء میں عربی تعلیم سے فارغ ہوگئے، اور عربی ادب میں بھی وہ کمال حاصل کیا کہ سچ یہ ہے کہ وہ اس میں اپنے استادوں سے بھی گوئے سبقت لے گئے، ان کا عربی دیوان اس بیان کا شاہد ہے۔
انگریزی تعلیم: اس زمانہ میں انگریزی پڑھنا کفر سمجھا جاتا تھا، مگر یہ کفر مولانا نے توڑا، نج کے طور پر انگریزی کچھ پڑھ لینے کے بعد کرنل گنج اسکول الہ آباد میں داخل ہوگئے، انٹرنس کا امتحان پرائیویٹ طور پر دے کر ایم۔اے۔ او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے، یہ علی گڑھ کالج کے اوجِ شباب کا زمانہ تھا، سر سید اس کے ناظم اعلیٰ مسٹر آرنلڈ اوربک وغیرہ اس کے پرنسپل اور پروفیسر، اور مولانا شبلی اس کے مدرس، مولانا حالی وہاں کے مقیم و ساکن تھے ہر وقت علمی مسائل و تحقیقات کے چہچہے رہتے تھے، اور ان بزرگوں کی صحبتیں حاصل تھیں جنھیں ہر ہونہار طالب العلم کے فطری جوہر کے چمکنے کا موقع حاصل تھا، مسٹر آرنلڈ فلسفہ پڑھاتے تھے مولانا کو فلسفہ جدید کا ذوق انھیں کی تعلیم سے ہوا۔
اس زمانہ میں کالج کے ہر طالب العلم کو عربی و فارسی بھی لازماً پڑھنی پڑتی تھی، مگر سرسیدؔ نے ان کے متعلق مسٹر بک کو لکھ کر بھیجا کہ حمید الدین عربی و فارسی کے ایسے ہی فاضل ہیں جیسے آپ کے کالج کے استاد اور پروفیسر ہیں، اس لیے ان کو مشرقی علوم کے گھنٹوں سے مستثنیٰ کردیا جائے چنانچہ وہ مستثنیٰ کئے گئے۔
مولانا حمیدالدین صاحب کی تالیف و تصنیف کا عہد طالب العلمی ہی سے شروع ہوگیا تھا اور خود بزرگوں نے فرمایش کر کے شروع کرایا، اسی زمانہ میں علی گڑھ کالج کے دینیات کے لیے سرسید نے مولانا شبلی مرحوم سے عربی میں سیرۃ نبوی پر ایک مختصر رسالہ لکھوایا تھا، جس کا نام ’’تاریخ بدرالاسلام‘‘ ہے، پھر مولانا حمیدالدین صاحب سے اس کا فارسی میں ترجمہ کرایا استاد و شاگرد کے یہ دونوں عربی و فارسی رسالے اسی وقت چھپ گئے تھے۔
سر سید کو طبقات ابن سعد کا ایک ٹکڑا وفود نبوی کے متعلق کہیں سے ہاتھ آیا تھا، اس وقت تک یہ چھپی نہیں تھی، سر سید نے مولانا حمید الدین سے اس کا فارسی ترجمہ کراکے چھپوایا، اس کی زبان ایسی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد سامانی کا کوئی نثر نویس فارسی لکھ رہا ہے۔
غالباً ۱۸۹۲ء میں یا اس کے پس و پیش الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔اے کی سند حاصل کی۔
وفیات مورخہ: ٍ۱۰ نومبر
https://telegram.nme/ilmokitab
اقبال حیدر، سید 11/نومبر/2012ء
رشید آفتاب اقبال، بیگم 11/نومبر/2004ء
فضل احمد کشمیروالا، الحاج شیخ 11/نومبر/1976ء
مولانا حمید الدین فراہی 11/نومبر/1930ء
یاسر عرفات 11/نومبر/2004ء
شیخ محمد ابن صالح عثیمین 11/نومبر/2001ء
مولانا قاری محمد اصغر قاسمی ہاپوڑ 11/نومبر/2019ء
را جندر سنگھ بیدی 11/نومبر/1984ء
مسعود مفتی 11/نومبر/2020ء
حیدر دہلوی 11/نومبر/1958ء
مصطفی کمال اتاترک 11/نومبر/1938ء
خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، شیخ محمود حسینی 11/نومبر/1422ء
بیخود بدایونی 11/نومبر/1912ء
مولانا حافظ زیبر علی زئی 11/نومبر/2013ء
سلسلہ نمبر: 232
انتخاب مطالعہ
تحریر: *پنڈت جواہر لعل نؔہرو*
*لینن*
بعض دفعہ ایک آدمی کی قوت ارادی کروڑوں آدمیوں کی زندگی میں تبدیلی پیدا کرتی ہے.... لؔینن کو فوت ہوئے چار سال کا عرصہ گزرا،اس کی عمر پچاس سال سے کچھ اوپر تھی،جن میں سے تیس سال مسلسل جدوجہد اور تیاری میں صرف ہوگئے ہیں،جن میں مقدمے بازیاں،فراری اور سائبیریا میں جلاوطنی بھی شامل ہے، آخر میں اسے فتح حاصل ہوئی ؛ لیکن عمر بھر کے خطرات اور دشواریوں کو عبور کرنے کے بعد وہ گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا اور اسی زخم کا نتیجہ موت تھی ؛ لیکن مرنے سے پہلے وہ تمام دشواریوں اور خطرات پر غالب آچکا تھا،وہ اپنی فتح مندی کے احساس کے بعد مرا،آج اس کی لاش ممی کی صورت میں مؔاسکو کے خوبصورت چوک میں ایک سادہ مقبرے کے اندر (جو قصر کریملن کے نیچے واقع ہے ) رکھی ہوئی ہے،یہ معلوم ہوتا ہے کہ:وہ آرام کی نیند سویا ہوا ہے اور یہ باور کرنا مشکل ہے کہ وہ مرگیا ہے_ لوگ کہتے ہیں کہ: جب وہ زندہ تھا تو کچھ خوبصورت نہ تھا،وہ بالکل معمولی صورت شکل کا آدمی تھا اور شباہت سے روسی معلوم ہوتا تھا ؛ لیکن اس کا مُردہ نہایت خوبصورت ہے اور اس کے بُشرے سے امن و اطمینان ٹپکتا ہے، اس کے لبوں پر تبسم نمایاں ہے،جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے نہایت دشوار کام کیے، اور کامیابی حاصل کی، وہ وردی پہنے ہوئے ہے اور ایک ہاتھ کی مٹھی قدرے بند ہے،مردہ حالت میں بھی وہ ڈکٹیٹیر معلوم ہوتا ہے۔
لؔینن کے مقبرے کی زیارت کو لوگ دور دور سے آتے ہیں،ہر شام کو چند گھنٹوں کے لیے مقبرے کے دروازے کُھل جاتے ہیں اور کسانوں اور مزدوروں کی قطاریں مسلسل طور پر اس کے مزار کے سامنے سے گزرتی ہیں،جن کے لیے وہ زندہ رہا اور مرا اور جو اس سے محبت کرتے تھے،عیسائی مذہب روس میں زوال پذیر ہے ؛ لیکن لؔینن کی ہرجگہ پرستش ہورہی ہے ہر ایک دکان ؛ بل کہ ہر ایک کمرے میں اس کی تصویر یا اس کا مجسمہ موجود ہے ۔
میکثمِ گورکی (Maxim Gorky) لکھتا ہے کہ: وہ کسی مذہبی زمانے میں ہوتا تو لوگ اسے ولی سمجھتے اور ہندوستان میں تو ضرور اسے اوتار سمجھا جاتا ؛ لیکن سوویت کے حلقوں میں اولیاء یا مہاتماؤں کی کوئی قدر نہیں اور روسیوں نے اپنے میں سے ایک سمجھ کر محبت کرکے اس کی اعلی ترین عزت کی ہے، ہر ایک روسی کے نزدیک وہ ایک بھائی اور رفیق تھا جو ان کی حالت سے باخبر تھا اور ان کی بہتری کے لیے جد و جہد کرتا تھا اور جب انہیں کوئی تکلیف ہوتی وہ اسی کے پاس دوڑ کر جاتے تھے۔
گؔورکی،لینن کا ذکر کرتا ہوا لکھتا ہے: میں نے وہ آنکھیں دیکھی ہیں جو لوگوں کی مصیبتوں کے رنج میں ہمیشہ پرنم رہتی تھیں،یہ رنج آخر دم تک اس کے دل سے دور نہ ہوا، اس نے اسے غضبناک بنادیا اور اس کی قوت ارادی کو اس قدر مضبوط کردیا کہ وہ مستقل مزاج رہے اور آخر اس نے کامیابی حاصل کی ؛ لیکن اپنے ہم وطنوں کی تکلیف کے رنج نے اسے افسردہ خاطر یا چڑچڑا نہیں بنادیا تھا،اس کا دل زندگی سے لبالب بھرا ہوا تھا اور نہایت فکر و تشویش کے لمحوں میں بھی وہ پُرزور قہقہہ لگاسکتا تھا۔
.... وہ مزدوروں کا لیڈر دفعتًا نہیں بن گیا تھا ؛ اس نے پبلک میں تقریریں کرنے یا مضامین لکھنے کی بہت کم پرواہ کی ؛ بل کہ عوام الناس کے حالات کو سمجھنے اور ان کی تحقیقات کرنے میں مصروف ہوگیا، بعد کے برسوں میں مؤثر تقریریں کرنے والوں اور فصیح البیان مقرروں سے وہ سخت نفرت کرتا تھا،بہت سی باتیں بنانے والوں سے وہ گھبراتا تھا ؛ کیونکہ اس سے عملی کاموں میں فرق پڑتا ہے،اس کے نزدیک عمل ہی سب کچھ تھا، اس کا خیال تھا کہ انقلاب کی تجویزیں صرف کاغذ پر ہی لکھی نہ رہنی چاہئیں ؛ بل کہ انہیں عمل میں لانا چاہئے! اور سوویت اشیاء کی ہستی قائم رکھنے کے لیے ایک معمولی تجویز پر عمل کرنا بھی دس روزولیوشن پاس کرنے سے بہتر ہے۔
( *سیاحت روس، صفحہ: 54،طبع:لاجپت رائے اینڈ سنز،لوہاری گیٹ،لاھور*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ان کی اصل جگہ دارالمصنفین تھی، وہ ایک پرنسپل، ایک استاد اور ایک سیاست داں کی حیثیت سے تو بھلا دیئے جائیں گے لیکن ایک اچھے مصنف کی حیثیت سے برابر یاد کئے جائیں گے، اگر ان کی ساری عمر دارالمصنفین ہی میں گزرتی تو اپنے پیچھے مفید اور بلند پایہ تصانیف چھوڑ جاتے، انھوں نے پٹنہ میںادارۃ المصنفین قائم کرنا چاہا لیکن ناکام رہے، وہ خود کہتے کہ دارالمصنفین چھوٹا تو علم کا لبادہ بھی خودبخود اتر گیا، دارالمصنفین کی تاریخ کا یہ پہلو عجیب ہے کہ یہاں رہ کر اچھے سے اچھے مصنف تیار ہوئے، لیکن یہاں سے جانے کے بعد وہ علم و فن کے لئے کھوگئے، مرحوم دارالمصنفین چھوڑ رہے تھے تو سید صاحب کو دکھ تھا کہ ایک لائق، محنتی اور قابل قدر مصنف ان سے جدا ہورہا ہے، اس تحریر کے لکھتے وقت یہ خیال آرہا ہے کہ وہ یہاں آخر وقت تک رہتے تو دارالمصنفین کے علمی آسمان کے ایک اہم سیارہ اور ملک کے ایک قیمتی علمی سرمایہ بن کر رہتے۔
دعا ہے کہ اﷲ تبارک تعالیٰ ان کو اپنی آغوش مغفرت میں لے کر ہر قسم کی رحمتوں اور برکتوں سے سرفراز فرمائیں۔ آمین! (’’ص۔ ع‘‘، دسمبر ۱۹۷۶ء)
آہ! مولانا سید ریاست علی ندوی (وفات ۱۴ نومبر) تحریر: جناب صباح الدین عبد الرحمن
گزشتہ مہینہ پٹنہ کے اخبار صدائے عام میں دارالمصنفین کے ایک پرانے لائق خدمت گزار مولانا سید ریاست علی ندوی کی وفات کی خبر بڑے دکھ، اور درد کے ساتھ پڑھی، اسی وقت ان کی اہلیہ کے نام ایک تعزیتی تار بھیجا، پھر ان کے صاحبزادے سید ارشد علی کا یہ خط موصول ہوا:
آبگیلہ، ڈاکخانہ بنیادگنج، گیا۔
۱۹، دسمبر ۱۹۷۶ء
محترم چچا جان! السلام علیکم
بہت ہی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ والد محترم جناب مولانا سید ریاست علی ندوی صاحب ۱۴؍ نومبر ۱۹۷۶ء کو بروز اتوار بوقت سوانو بجے دن رحلت فرماگئے، موت حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئی، پہلا دورہ ۱۳؍ نومبر کو ۹ بجے دن کو ہوا، شہر کے مشہور ڈاکٹروں نے دیکھا، طبیعت سنبھل گئی، ہم لوگ کافی پر امید ہوگئے، احتیاط کی خاطر گیارہ بجے رات کو مقامی اسپتال میں داخل کردیا گیا، کبھی کبھی طبیعت کچھ بگڑ جاتی تھی، لیکن برابر ہوش میں رہے، اپنی وفات سے ایک منٹ پہلے ہنستے بولتے رہے، ہم لوگوں کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ہم لوگوں کو اس قدر جلد داغ مفارقت دے جائیں گے۔
ان کو اپنی غیر مطبوعہ کتابوں کی کافی فکر تھی، وہ اعظم گڑھ جانے کا ارادہ بار بار کرتے رہے، وہ دسمبر میں اعظم گڑھ ضرور پہنچتے، وہ اپنی چند کتابیں دارالمصنفین کو دینا چاہتے تھے۔ یہ بات اطلاعاً لکھ رہا ہوں، امید کہ جناب عالی مع الخیر ہوں گے‘‘۔
اس خط کو پڑھ کر آبدیدہ ہوا اور چالیس سال پہلے کے دارالمصنفین کی صحبتیں یاد آگئیں، میں یہاں ۱۹۳۵ء میں آیا، یہ اس کی شہرت کے شباب کا زمانہ تھا، اس وقت اس علمی کارواں کے سالار اور حدی خواں استاذی المحترم حضرت مولانا سید سلمان ندویؒ تھے، جن کے علم کا اعتراف علامہ اقبالؒ نے جوئے شیر اسلامیہ کافرہاد کہہ کرکیا تھا، اس وقت ان کی علمی بصیرت اور تحقیقی ژرف نگاہی سے پورا ہندوستان گونج رہا تھا، ہندوستان کے ہر گوشہ سے ان سے استفادہ کے لئے ارباب علم پہنچتے رہتے تھے، دارالمصنفین کے اندر مولانا عبدالسلام ندویؒ اپنے گزشتہ عافیت میں بیٹھ کر علم و ادب کے موتی بکھیرنے میں مشغول تھے، اس بیت الحکمت سے مولانا ابو ظفر ندوی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی، مولانا سید ریاست علی ندوی، جناب محمد عزیر صاحب ایم۔ اے، ایل۔ ایل۔ بی، اور ہاں مدراس سے آکر مولوی حافظ محمد یوسف کوکنی عمری وابستہ تھے، مولوی مسعود علی ندوی اہل علم نہ ہونے کے باوجود اس علمی مجلس کے رکن رکین بنے رہے، وہ اپنی دلچسپ باتوں اور بذلہ سنجیوں سے اس پر چھائے رہتے، میں یہاں پہنچا تو مجھ کو یہاں کا ہر ہر گوشۂ بساط دامانِ باغبان اور کفِ گل فروش نظر آیا۔
مگر یہی بزم جنت نگاہ اور فردوس گوش بنی ہوئی تھی، سرور و سوز، جوش و خروش سے خالی ہوتی گئی، پہلے تو استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی کی جدائی سے ان کے صریر خامہ کے نوائے سروش سے محروم ہوگئی، ان کے بعد مولانا عبدالسلام ندوی کے قلم کا خرام ناز اور نظارۂ جمال آنکھوں سے اوجھل ہوا، مولانا ابو ظفر ندوی بھی دارالمصنفین سے جاکر اﷲ کو پیارے ہوئے، پھر مولوی مسعود علی ندوی کی شیریں بیانی اور خوش گفتاری چھن گئی، جناب مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی دارالمصنفین کے وقار اور آبرو کے ضامن بنے ہوئے اس کی مسند پر متمکن تھے کہ یکایک اس کے ذرہ ذرہ کو سینہ کوبی کرنے کے لیے چھوڑ گئے، ڈاکٹر محمد عزیر ۱۹۴۰ء ہی میں دارالمصنفین چھوڑ کر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ چلے گئے تھے، مگر بفضل اﷲ تعالیٰ وہ بقید حیات ہیں اور کراچی میں عاقبت سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں، جناب مولوی حافظ محمد یوسف صاحب بھی پانچ سال یہاں رہ کر مدراس واپس ہوگئے، جہاں وہ مدراس یونیورسٹی میں عربی و فارسی اور اردو کے شعبوں کے صدر ہوئے۔
مولانا سید ریاست علی ندوی بھی ۱۹۵۰ء میں یہاں سے مستقل طور پر چلے گئے، مگر یہاں سے جانے سے پہلے دارالمصنفین کے بزم دوشین کی ایک روشن شمع وہ بھی تھے، مگر آہ وہ بھی اب خموش ہے،
وہ ۱۹۲۴ء میں جناب شاہ معین الدین احمد ندوی کے ساتھ ندوہ کی تعلیم ختم کرکے حضرت سید صاحب کی خواہش پر یہاں آئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں سید صاحب کو اپنی علمی ریاضت و محنت سے متاثر کیا، ۱۹۲۶ء میں ان کو اپنی نگرانی میں معارف کے مضامین کی ترتیب کا کام سپرد کیا، جس میں وہ اچھے اچھے مضامین کی تلخیص کرتے اور مطبوعات جدیدہ پر ریویو بھی لکھتے رہے، ۱۹۲۶ء سے ۱۹۵۰ء تک معارف میں ان کے اہم مضامین حسب ذیل عنوانات سے شائع ہوئے۔
مولانا گیلانی کا یہ سلسلہ مضامین آٹھ قسطوں پر برہان کے مختلف شماروں پر پھیلا ہوا ہے، جسے نکالنا وقت طلب ہے، جن احباب کو ان مضامین میں دلچسپی ہے وہ ایک ایک قسط پڑھ کر بقیہ قسطوں کی فرمائش کریں، ہمارے لئے ایک وقت میں اتنا سارا وقت ان مضامین کو نکالنے اور پوسٹ کرنے کے لئے دینا ممکن نہیں ہے، اور پتہ بھی نہیں کہ مضامین کی یہ فرمائش سنجیدہ بھی ہے ہے یا نہیں، اتنی محنت کے بعد پتہ چلے کے کہ محنت بے کار تھی، آپ ساتھ رہیں، اور مزید قسطوں کی فرمائش کریں ، تو ان شاء اللہ ان کی فراہمی میں ہمیں خوشی ہوگی، عبد المتین منیری
Читать полностью…مولانا صدر الدین اصلاحی(وفات ۱۳ نومبر) تحریر: ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی
Читать полностью…محترم معصوم مرادآبادی نے دہلی کی ایک بھولی بسری لیکن تاریخی شخصیت کو یاد کیا ہے، ۱۸۵۷ء کے بعد دہلی و آس پاس کے مسلمانوں پر جو بپتا پڑی اور وہ جس امتحان سے گذرے، اور انہوں نے ملک کی آزادی کی حفاظت کے لئے جد وجہد کی جو داستان رقم کی تھی اسے آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ رکھنے والوں میں امداد صابری کا نام سر فہرست ہے۔
یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ آج سے پچپن سال قبل جب کہ ابھی شعور بیدار ہورہا تھا، مولانا کی کتاب آثار رحمت تایا الحاج محی الدین منیری مرحوم کے کتابی ذخیرے میں پڑھنے کو ملی، اس کتاب کو ہمارے شیخ مولانا عبد الباری حاوی معدنی علیہ الرحمۃ سابق صدر المدرسین الکلیۃ العربیۃ الجمالیہ مدراس نے چنئی مین اپنے مکتبہ تاج بکڈپو سے شائع کیا تھا، یہ کتاب مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات زندگی پرمشتمل تھی، اور اس کی تیاری اور اشاعت کے لئے اس وقت مدرسۃ صولتیہ مکہ مکرمہ میں مولانا کے پوتوں وغیرہ نے خاص دلچسپی لی تھی، ایک تو موضوع دلچسپ دوسرے کتاب کی طباعت کا معیار بہت ہی بلند، کتاب کی جلد اور صفحات سفید براق، نہ جانے اس زمانے میں بے شعوری میں کتنی مرتبہ اس کتاب کی ورق گردانی کی ، مولانا عبد الباری حاوی مدرسۃ باقیات صالحات ویلور کے فاضل تھے، آپ نے بانی مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے شاگرد رشید وبانی مولانا عبد الوہاب ویلوری علیہ الرحمۃ کو دیکھا تھا۔ لہذا انہیں مولانا کیرانوی سے جذباتی تعلق ہونا ایک فطری سے بات تھی۔
اس کتاب کا ہمیں اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ بالکل کچی عمر میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور اس سلسلے کے بزرگوں کی عقیدت دل میں بیٹھ گئی، جس نے آئندہ زندگی الم غلم پڑھنے اور جاننے کے باوجود بہت سی خرابیوں سے محفوظ رکھا۔
ہم معصوم مرادآبادی صاحب کے تہ دل سے احسان مند ہیں کہ آپ نے آثار رحمت کے مصنف کے نام اور کام کو محفوظ رکھا، اللہ آپ سے تادیر اس قسم کی خدمت لیتا رہے، تاکہ ہم اپنی تہذیبی ثقافتی اور علمی جڑوں سے مضبوطی کے ساتھ جڑے رہیں۔
عبد المتین منیری
2024-11-12
علم وکتاب https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا امداد صابری پر یادگار مجلہ
معصوم مرادآبادی
اردو صحافت کے محقق اعظم مولا نا امداد صابری اس اعتبار سے ایک مظلوم شخصیت کہے جاسکتے ہیں کہ ان کے انتقال کو36 برس گزرنے کے باوجود آج تک ان پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا۔ انھوں نے مختلف اور متنوع موضوعات پر 76 کتابیں تصنیف کیں اور ان میں تحقیق وتنقید کے دریا بہادئیے، لیکن آج تک ہماری کسی دانش گاہ کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ ان پر کسی طالب علم کو پی ایچ ڈی کرائی جاتی۔ پی ایچ ڈی توکجا کسی یونیورسٹی نے ان پر ایم فل کا مقالہ بھی نہیں لکھوایا۔ یہ دراصل اردو صحافت اور صحافیوں کے ساتھ ان دانش گاہوں کے سوتیلے سلوک کا مظہر ہے۔صحافی خواہ کتنا ہی ذی علم اور باشعور کیوں نہ ہو، وہ اہل ادب کی نگاہ میں روزنامچہ نویس ہی رہتا ہے۔
اردو،یولپمنٹ آرگنائزیشن ہرسال علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر ’عالمی یوم اردو‘ کا اہتمام بڑے تزک احتشام کے ساتھ کرتی ہے۔ اس موقع پر ایک یادگار مجلہ بھی شائع کیا جاتا ہے۔ اب تک مختلف علمی اور ادبی شخصیات پر یہ مجلے شائع ہوچکے ہیں۔ اس مرتبہ اس مجلہ کو مولانا امداد صابری سے منسوب کرنے کی تجویز پیش کرتے وقت میرے ذہن میں ان کا وہ بیش قیمت کام تھا جو انھوں نے اردو صحافت کی تاریخ وتدوین کے ذیل میں کیا ہے۔پانچ جلدوں پر مشتمل تقریباً چار ہزار صفحات پھیلی ہوئی یہ کتاب اردو صحافت پر تحقیق کرنے والوں کے لیے بنیادی مآخذ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے اردو صحافت اور صحافیوں پر تقریبا تین ہزار صفحات لکھے۔
اردو اخبارات پر پہلی کتاب سید محمد اشرف کی ”اخترشہنشاہی‘ ہے ،جو 1888میں لکھنؤ سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے بعد دور تک خاموشی نظر آتی ہے۔مولانا امداد صابری واحد شخص ہیں جنھوں نے آزادی کے بعد اردو صحافت پر سب سے زیادہ کام کیا۔ اس کے بعد محمد عتیق صدیقی، عبدالسلام خورشید، جی ڈی چندن اور ڈاکٹر طاہر مسعود کے نام آتے ہیں ، لیکن ان سب کا مجموعی کام مولانا امداد صابری کے برابر نہیں ہے۔انھوں نے اردو صحافت اور صحافیوں پر انتہائی وقیع کتابوں کے علاوہ مختلف موضوعات پر پانچ درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔
مولانا امددصابری پر مجلہ کی صورت گری کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مجھے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی شخصیت اور کارناموں پر مواد کی تلاش میں اس قدر جانفشانی سے گزرنا ہوگا۔ مولانا امداد صابری کی کوئی کتاب اس وقت بازار میں دستیاب نہیں ہے۔لائبریروں میں ان کی کتابیں خستہ حالت میں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مولانا اپنی کتابیں خود ہی شائع کرتے تھے۔ وسائل کم یاب ہونے کی وجہ سے یہ کتابیں لیتھو کی کتابت وطباعت کے قدیم طرز پر شائع ہوتی تھیں۔کاغذ بھی معمولی قسم کا ہوتا تھا۔
میں نے مولانا امداد صابری کے بارے میں مواد حاصل کرنے کے لیے خود ان کی کتابوں سے ہی سب سے زیادہ استفادہ کیا۔ اس کام کے لیے مجھے دہلی اردو اکادمی کی داراشکوہ لائبریری، جامعہ کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری، غالب اکیڈمی لائبریری کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری سے رجوع ہونا پڑا۔ اس دوڑ دھوپ کے دوران سب سے اہم چیز جو میری ہاتھ آئی وہ مولانا امداد صابری کے دوست اور سیاسی جدوجہد کے ساتھی پنڈت ہرسروپ شرما کا لکھا ہوا 48 صفحات کا بیش قیمت رسالہ تھا۔ اس میں پنڈت جی نے مولانا امداد صابری کی سیاسی اور عوامی جدوجہد کی ولولہ انگیز داستان بیان کرنے کے ساتھ ان کے حالات زندگی اور علمی وادبی خدمات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ میں نے اس رسالہ کی تلخیص اس مجلہ میں شامل کردی ہے۔ مولانا امداد صابری نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے کچھ احوال بیان کئے ہیں، جن میں سب سے اہم آل انڈیا اردویڈیٹرس کانفرنس کے لکھنؤ اجلاس (منعقدہ نومبر 1973)میں اردو اخبارات کی نمائش کے موقع پر کی گئی ان کی صدارتی تقریر ہے، جوانھوں نے آنجہانی وزیراعظم اندرکمار گجرال کی موجودگی میں کی تھی۔گجرال صاحب اس وقت مرکزی وزیراطلاعات ونشریات کے عہدے پر فائز تھے۔ مولانا امداد صابری بے اپنی تقریر ان جملوں سے شروع کی تھی:
”میری کوشش یہ رہی ہے کہ علمی وادبی وتحقیقی طبقہ میں اخبارات ورسائل کی اہمیت بتائی جائے اور صحافیوں نے ملک وقوم کے لیے جو خاموش قربانیاں دی ہیں، ان سے واقفیت کرائی جائے، تاکہ یہ طبقے اخبارات ورسائل کی طرف توجہ دیں اور ان سے استفادہ کریں۔“
اس پوری تقریر کو اس مجلہ میں شامل کیا گیا ہے۔اس تقریر سے ان کے اپنے احوال کے علاوہ اردو اخبارات وجرائد کے لیے ان کے دل میں پائی جانے والی تڑپ اور بے چینی کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔
سچ پوچھئے تو مولانا امداد صابری کی تحقیقی اور علمی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز اردو صحافت ہی تھی جس کی ترقی کے لیے انھوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں استعمال کیں۔مگر افسوس انھیں بہت جلد فراموش کردیا گیا۔ان کے کارناموں کو اجاگر کرنے والی دوسری اہم شخصیت دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر تنویر احمدعلوی کی تھی۔ علوی صاحب چوڑیوالان میں ہی مولانا امدادصابری کے
سنو سنو !!
اذان جمعہ کے بعد خریداری
(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
"مجھے دو کلو سیب دے دو ، جی جناب میں تو دے دوں گا کیونکہ میں غیر مکلف ہوں ، ایمان کی دولت سے محروم ہوں لیکن آپ مسلمان ہیں آپ مکلف ہیں ، میں نے بڑے مولوی صاحب (حضرت مولانا محمد اسعداللہ ) سے سنا ہے کہ جمعہ کی نماز کے لئے جب پہلی اذان ہو جائے تو خرید و فروخت کرنا جائز نہیں ہے میں دو کلو سیب دے کر آپ کو گنہ گار نہیں کرنا چاہتا آپ پہلے مولوی صاحب سے ہی مسئلہ معلوم کرلیجیے"
یہ واقعہ بالکل سچا ہے ، حضرت مولانا محمد اسعداللہ رام پوری ناظم مظاہرعلوم کے بے شمار عقیدت مند ، ارادت مند ایسے تھے جن کے اعمال وافعال میں صحبت کی وجہ سے حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوچکی تھیں۔
اذان جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرنا مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے نہ تو سامان بیچے نہ سامان خریدے کیونکہ یہ امتناع حکم رب العالمین ہے چنانچہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ارباب افتاء نے درمختار کے حوالہ سے ایک جواب دیا کہ
"جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت چھوڑنا واجب ہے اور خرید و فروخت میں لگنا حرام ہے اور اس وقت کیاگیا سودا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے"
ایک اور سوال کے جواب میں لکھا کہ
"قرآنِ کریم میں سورۂ جمعہ کی آیت نمبر (۹) میں اللہ جل شانہ نے نمازِ جمعہ کی اذان پر خرید وفروخت اور کاروبار بند کرنے کا حکم دیا ہے، اس حکم میں اذان کے بعد کاروبار کرنے کی صاف ممانعت ہے"
سورہ جمعہ کی جس آیت کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے وہ آیت یہ ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(9)
اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
ہم لوگ اذان کے باوجود اپنے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں ، دکانیں جاری ہیں ، ہوٹلوں میں بھیڑ ہے ، شاپنگ سینٹروں میں ہجوم ہے کیا علماء کیا عوام کسی کو بھی احساس نہیں رہتا محسوس نہیں ہوتا دھیان نہیں رہتا کہ اللہ تعالی نے ہی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔
فقہاء کا کہنا ہے کہ محلہ کی مسجد کی اذان سن کر خرید و فروخت بند ہوگی اور اسی محلہ کی مسجد میں نماز کے بعد خرید و فروخت شروع کرنا درست ہے کیونکہ شہروں میں مساجد بہت ہوتی ہیں اوقات بھی مختلف ہوتے ہیں اس لئے اذانوں کا سلسلہ دیر تک رہتا ہے اس لئے محلہ کی مسجد کا اعتبار کیا جائے گا۔
بہرحال اس سلسلہ میں بڑی کوتاہی ہوتی ہے ائمہ کرام اس پہلو پر ضرور توجہ دلائیں۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*غیر سودی بنک کاری کے اولین داعی۔۔۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ*
*از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
آج ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کے انتقال سے اسلامی نظام معاشیات کے ایک عظیم داعی اور راہ رو سے دنیائے اسلام محروم ہوگئی، ۱۹۶۷ئ میں جب کہ اسلامی بنکنگ کا واضح تصور فقہائ و دانشوروں کے ذہن میں نہیں تھا،اور سودی بنک کاری کے متبادل کے طور پر اسلامی بنکنگ کے نظام کو کیسے پیش کیا جائے، اور سودی بنکوں میں مسلم کے نام کا اضافہ عام سے بات تھی، آپ نے اپنی کتاب غیر سودی بنک کاری کے ذریعہ سودی بنک کاری بند ہونے کی شکل میں اسلامی بنکنگ کا نظام کس طرح چلا یا جائے،اس موضوع پر زندگی رامپور، اور چراغ راہ کراچی میں سلسلہ وار مضامین شروع کئے تھے، جو بعد میں غیر سودی بنک کاری کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے، اس طرح ڈاکٹر صاحب کا پیش کردہ ابتدائی خاکہ آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے اسلامی بنکنگ کے مستقل نظام کی شکل میں سامنے آیا، اسلامی معاشیات آپ کی تحقیقات کا محور رہا اور آپ کے قلم سے اس موضوع پر بڑی قیمتی کتابیں سامنے آئیں، جس نے سود کی لعنت سے دنیا کو پاک کرنے کے لئے ایک نعم البدل کا واضح تصور پیش کیا۔
ڈاکٹر صاحب کے قلم سے بیسیوں کتابیں اور مقالات نکلے،جن کا زیادہ تر موضوع اسلامی نظام اقتصادیات اور معاشیات ہی تھا، انگریزی میں آپ کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں۔
Interest,Economic Enterprise in Islam,Riba,Bank Interest, Some Aspects of Islamic Economy, Recent Theories of Profit: A Critical Examination, Muslim Economic Thinking, Issues in Islamic banking : selected papers, Partnership and profit sharing in Islamic law, Insurance in an Islamic Economy, Teaching Economics in Islamic Perspective, Role of State in Islamic Economy,Dialogue in Islamic Economics, Islam’s View on Property
اور اردو میں,تحریک اسلامی عصر حاضر میں,اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی,مقاصد شریعت
اسلام کا معاشی نظام,مالیات میں اسلامی ہدایات کی تطبیق, معاش، اسلام اور مسلمان,اسلام کا نظریۂ ملکیت
غیر سودی بینک کاری,انشورنس اسلامی معیشت میں ،مشہور ہوئیں۔
آپ کی پیدائش سنہ ۱۹۳۱ئ گورکھپور میں ہوئی تھی، وطن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں ۱۹۶۶ئ میں معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اور پھر وہیں معاشیات اور اسلامی اسٹڈیز کے لکچرر مقرر ہوئے،کچھ عرصہ بعد آپ جدہ کی شاہ عبد العزیز یونیورسٹی سے پروفیسر معاشیات کی حیثیت سے وابستہ ہوئے، یہاں سے رٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں رہے، انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مینجمنٹ اسٹڈیز کے شعبہ میں پروفیسر ایمیریٹس بھی بنایا گیا تھا،۔
تقسیم ہند کے بعد جس زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی میں کمیونسٹ فکر سے وابستہ دانشوروں اور طلبہ کا غلبہ تھا ، آپ نے رفقائ کے ساتھ اس بہاؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور اسلامی فکر کو یہاں کے ماحول میں پنپنے کی راہ میں انتھک کوششیں کیں، اس زمانے میں آپ کے رفقائ میں ڈاکٹر ابن فرید، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی، ڈاکٹر سید انور علی، اور قاضی اشفاق وغیرہ قابل ذکر ہیں، یہ سبھی افراد جماعت اسلامی ہند سے وابستہ تھے، اور دینی نقطہ نظر سے ان کی کوششیں بہت ہی قابل قدر تھیں۔
تقسیم ہندکے بعد جب جماعت اسلامی ہند کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت جماعت کی قیادت نے طے کیا کہ جماعت سے وابستہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہونہار نوجوانوں کو باقاعدہ دینی تعلیم اور عربی زبان سکھانے کا نظم کیا جائے، اس مقصد سے ۱۹۵۰ئ تا ۱۹۶۰ئ تک رامپور میں ثانوی درسگاہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا، جس کے لئے ایک چار سالہ نصاب تعلیم تیار کیا گیا، جس کے مضامین عربی زبان وادب، قرآن و حدیث اور فقہ پرمشتمل تھے، اس کے ناظم مولانا صدر الدین اصلاحیؒ تھے، اور اساتذہ میں ناظم درسگاہ کے ساتھ ساتھ اس وقت کے امیر جماعت مولانا ابو اللیث ندویؒ، مولانا جلیل احسن ندویؒ، مولانا سید احمد عروج قادریؒ، مولانا عبد الودود ندویؒ، اور مولانا سید حامد علیؒ قابل ذکر تھے، درسگاہ کے سب سے پہلے طالب علم ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی اور ڈاکٹر عبد الحق انصاری (سابق امیر جماعت اسلامی ہند ) تھے۔ یہاں کے فارغین میں مولانا وحید الدین خان، مولانا عرفان احمد ، ڈاکٹر سید عبد الباری شبنم سبحانی ، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی جیسی علم ودانش کی نامور شخصیات کا نام آتا ہے۔اس زمانے کی بعض شخصیات سے ہم نے سنا ہے کہ اس درسگاہ کے قیام کا اصل باعث ڈاکٹر نجات اللہ ہی اس میں دلچسپی اور اصرار تھا، جن کے سامنے وسائل کی کمی کےباوجود جماعت نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا۔
*الصلوٰۃ علی ترجمان القرآن۔آہ! مولانا حمیدالدین*
تحریر : علامہ سید سلیمان ندویؒ
(مایہ ناز محقق ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی ندوی صاحب نے متوجہ کیاہے کہ مولانا حمید الدین فراہمی علیہ الرحمۃ کی تاریخ وفات کی مناسبت سے علم وکتاب پر کل علامہ سید سلیمان ندویؒ کا جو شذرہ پیش کیا گیا تھا اس سے قبل یہ شذرہ شامل ہونا چاہئے تھا، اس مشورہ پر ہم ڈاکٹر صاحب کے ممنون ومشکور ہیں)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
الصلوٰۃ علیٰ ترجمان القرآن (مفسر قرآن کی نماز جنازہ) وہ صدا ہے جو آج سے ساڑے چھ سو برس پیشتر مصرو شام سے چین کی دیواروں تک ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ کی نماز جنازہ کے لیے بلند ہوئی تھی، حق یہ ہے کہ یہ صدا آج پھر بلند ہو اور کم از کم ہندوستان سے مصر و شام تک پھیل جائے کہ اس عہد کا ابن تیمیہ ۱۱؍ نومبر ۱۹۳۰ء (۱۹؍ جمادی الثانیہ ۱۳۴۹ھ) کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا، وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں، جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی، عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ، زہد و ورع کی تصویر، فضل و کمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا سوقِ عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہانِ دانش، ایک دنیا ئے معرفت! ایک کائنات علم! ایک گوشہ نشین مجمعِ کمال، ایک بینواسلطان ہنر، علوم ادبیہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا دانائے رموز، دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے ردوقبول اور عالم کے داد و تحسین سے بے پروا، گوشہ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ، وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس و تعلیم میں محو، ہر شے سے بے گانہ، اور ہر شغل سے ناآشنا تھی، افسوس کہ ان کا علم ان کے سینہ سے سفینہ میں بہت کم منتقل ہوسکا، مسودات کا دفتر چھوڑا ہے، مگر افسوس کہ اس کے سمجھنے اور ربط و نظام دینے کا دماغ اب کہاں، جو چند رسالے چھپے وہ عربی میں ہیں، جن کے عوام کیا علماء تک ناقدرشناس، ان کی زندگی ہمارے لیے سرمایہ اعتماد تھا، اور ان کا وجود دارالمصنفین کے لیے سہارا تھا، افسوس کہ یہ اعتماد اور یہ سہارا جاتا رہا، اور صرف اسی کا اعتماد اور سہارا رہ گیا، جس کے سوا کسی کا اعتماد اور سہارا نہیں، اس سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ یہ ہستی آئی اور چلی گئی، لیکن دنیا ان کی قدر و منزلت کو نہ پہچان سکی اور ان کے فضل و کمال کی معرفت سے ناآشنا رہی،
تو نظیریؔ ز فلک آمدہ بودی چو مسیح
بازپس رفتی وکس قدرِ تو نشناخت دریغ
زندگی گمنامی میں گزاری، مرنے کے بعد بھی گمنامی کا گوشہ تلاش کیا، متھرامیں جہاں اپنے ایک ہموطن ڈاکٹر سے جو دس برس سے ان کے معالج خاص تھے، علاج کرانے تشریف لے گئے تھے، وہیں انتقال فرمایا، عمرشریف سرسٹھ (۶۷) برس کے قریب تھی، مگر دائمی دردِ سر کی شکایت کے سوا قویٰ بہت اچھے تھے۔
ہم گنہگار اور ان کی مغفرت کی دعا کیا مانگیں کہ ان کے انفاس متبرکہ ہمہ تن یادِ خدا، صبر و رضا، شکرو تسلیم میں صرف ہوتے تھے، ان کی نماز ہمہ تن لطف محویت ہوتی تھی، ان کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا، اپنی زندگی ہی میں اپنی مغفرت کے کئی خواب دیکھے تھے۔
خداوندا! ہمیں توفیق دے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر ہم بھی تیری مغفرت کے سزاوار و مستحق ٹھہریں اور مرنے والے کو اپنی رضا و محبت کی بہشت عطا فرما کہ وہ اسی کا طالب تھا۔
اواخر عمر میں مرحوم کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ وہ چند مستعد طلبہ کو اپنے مذاق کے مطابق تیار کریں، چنانچہ کم از کم دو طالب العلموں کی خاص طور سے انھوں نے دماغی تربیت کی، ہم سب کی دعا ہے کہ وہ مدرسہ اصلاح المسلمین کو سنبھال لیں۔ جو مرحوم کی سب سے بڑی مادی یادگار ہے، تفسیر کے اجزاء جو مکمل ہوں گے، ان کی اشاعت کی فکر کی جائے گی، مگر آہ! کہ اس ناقدر شناس دنیا میں ان جواہر ریزوں کی کون قدر کرے گا، اور کون سرمایہ بہم پہنچائے گا۔
رحمۃ اللہ علی ذاک الجسد (’’س‘‘، نومبر ۱۹۳۰ء)
صور من حياة الصحابة... وحشي بن حرب . بصوت الدكتور عبد الرحمن الباشا رحمه الله
Читать полностью…حیدر آباد دکن میں دارالعلوم کے نام سے ایک قدیم عربی مدرسہ تھا، جس نے حیدرآباد کی علمی و تعلیمی ترقی میں کار نمایاں انجام دیا تھا، اس کا الحاق مدراس یونیورسٹی کے شعبۂ مشرقیات سے تھا، غالباً ۱۹۰۸ء میں مدراس یونیورسٹی نے اس الحاق کو توڑ دیا، اب ریاست کے تعلیمی محکمہ کے ذمہ دار افسروں کو اس قدیم مدرسہ کے جدید انتظامات و تغیرات کی فکر لاحق ہوئی اور اس کے لیے نواب عماد الملک مرحوم سابق ناظم تعلیمات حیدرآباد دکن، اور مسٹر المالطیفی آئی۔سی۔ایس جو اس وقت ناظم تعلیمات تھے، اور مسٹر حیدری وغیرہ نے اہل فن کی مجلس بنائی جس کے ایک ممبر مولانا شبلی مرحوم تھے، مولانا نے اس کے لیے ایک اسکیم مرتب کی، اور ایک مشرقی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کی تجویز پیش کی، یہ تجویز اسی وقت الندوہ میں مولانا نے شایع بھی کردی تھی، مولانا شبلی مرحوم کا اس وقت کا تخیل یہ تھا کہ عربی زبان کی یہ ایک یونیورسٹی ہوگی جس میں جدید علوم کی بقدر ضرورت آمیزش ہوگی، یہ اسکیم مدت تک زیر بحث رہی، اس اسکیم کے مطابق دارالعلوم کو چلانے کے لیے مولانا حمید الدین صاحب کا انتخاب ہوا، اور وہ اس کے صدر (پرنسپل) بنائے گئے، اور ۱۹۱۴ء کے اوائل میں الہ آباد سے حیدرآباد چلے گئے۔
حیدرآباد جا کر اس نئی مشرقی یونیورسٹی کے خاکہ بنانے میں مصروف ہوئے، درس و تدریس کے علاوہ مدرسہ کی انتطامی نگرانی بھی ان کو کرنی پڑتی تھی، انھوں نے رفتہ رفتہ مدرسہ کی ظاہری و باطنی ترقیوں کی کوششیں شروع کیں، مسٹر المالطیفی سے ان کے خیالات کا اتحاد نہ ہوا، بالآخر ایک دو سال کے بعد مسٹر المالطیفی کی جگہ راس مسعود صاحب نے لی، اور انھوں نے ان کے ساتھ مل کر کام شروع کیا۔
مولانا شبلی مرحوم کی فرمائش سے نواب عماد الملک مرحوم نے قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ کا جو کام شروع کیا تھا، وہ نصف کے قریب انجام پاچکا تھا، مگر اس میں جابجا نقائص تھے، نواب صاحب نے مولانا حمیدالدین صاحب کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا، اور مدت تک یہ شغل جاری رہا کہ مولانا روزانہ صبح کو نواب صاحب کے یہاں جاتے، اور نواب صاحب باایں ہمہ ضعف پیری انگریزی ترجمہ پر مل کر غور کرتے اور مناسب مشورہ ملنے پر اصلاح و ترمیم کرتے، اس طرح اُن کے ترجمہ کے کئی پاروں پر نظر ثانی ہوئی، پھر یہ کام رک گیا، لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ نواب صاحب مرحوم کی وفات کے بعد یہ اصلاح شدہ اجزاء اس طرح کاغذات میں مل گئے کہ پھر ان کا پتہ نہ چلا، میں نے نواب صاحب مرحوم کے خلف الرشید نواب مہدی یارجنگ بہادر کو تحریری وزبانی کئی دفعہ ان کی تلاش کی طرف توجہ دلائی، مگر انھوں نے ان کے ملنے سے مایوسی ہی ظاہر کی۔
مولانا شبلی مرحوم اس وقت سیرۃ نبویﷺ کی پہلی جلد لکھ رہے تھے، یہود و نصاریٰ اور اہل کتاب کے مناظرانہ مسائل اور قرآن پاک کے استدلالات میں وہ برابر اپنے بھائی سے مشورے لیتے رہتے تھے، جو مکاتیب (۵۷۔ ۷۳) سے ظاہر ہیں، سیرت جلد اول کے مقدمہ میں حضرت اسمٰعیلؑ کی سکونت اور قربانی کے متعلق جو باب ہے، اس کا مواد مولانا حمیدالدین ہی نے بہم پہنچایا تھا، جس کو آئندہ چل کر مولانا حمید الدین صاحب مرحوم نے بڑھا کر اور پھر اور زیادہ استقصاء کر کے الرای الصحیح فی من ھوالذیح کے نام سے الگ شائع کردیا۔ (’’س‘‘، جنوری ۱۹۳۱ء)
۱۸۹۵ء میں عربی میں ایم۔اے کا امتحان دینا چاہا تھا، مگر نہیں دے سکے، ۱؎ ۱۸۹۶ء میں مدرستہ الاسلام کراچی میں مدرسی کی کوشش کی، سرسید نے سرٹیفیکٹ دیا، ۲؎ اسی زمانہ میں مسٹر آرنلڈ انگریزی میں عربی کی ایک مختصر کتاب کا ترجمہ کرانا چاہتے تھے، اس کے لیے مولانا ہی کا نام ان کے ذہن میں تھا۔ ۳؎
ملازمت: بہر حال مولانا کا تعلیمی عہد ختم ہوگیا، ۱۸۹۷ء وہ مدرستہ الاسلام کراچی میں مدرس مقرر ہوگئے یہ مسلمانوں کا ایک انگریزی کا بہت پرانا اسکول ہے، اس کی عمارت بہت شاندار، اور اسٹاف اعلیٰ ہے، اور سندھ میں اس کو کافی شہرت حاصل ہے مولانا اس میں ۱۹۰۶ء تک رہے، ۱۹۰۰ء میں امیر عبدالرحمان خان والی کابل ایک ترجمہ کا محکمہ قائم کرنا چاہتے تھے، اس میں ابن خلدون کا ترجمہ بھی پیش نظر تھا، اس کے لیے مولانا شبلی نے ان کا انتخاب کیا، مگر کسی وجہ سے یہ تجویز عمل میں نہ آسکی، اور وہ کراچی میں بدستور رہے اور درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف کا شغل جاری رکھا یہیں کے قیام کے زمانہ میں ۱۹۰۳ء میں انکا فارسی دیوان شایع ہوا، اور شبلی مرحوم کے بار بار کے تقاضے سے جیسا کہ مکاتیب شبلی جلد دوم میں ان کے خطوط سے ظاہر ہے، علمی مباحث پر نقد و نظر کی طرف توجہ فرمائی، اور خصوصیت کے ساتھ قرآن پاک کے نظم و بلاغت میں انہماک پیدا ہوا اور جمہرۃ البلاغت نام کا رسالہ لکھا جس کا خلاصہ مولانا شبلی مرحوم نے خود اپنے قلم سے الندوہ کے دسمبر ۱۹۰۵ء میں شایع کیا۔
اسی زمانہ میں (غالباً ۱۹۰۴ء میں) جب اُس وقت کے وائسرائے لارڈ کرزن نے سواحل عرب خلیجِ فارس کا سیاسی بحری سفر کیا تھا، اور سواحل کے عرب شیوخ اور امراء کو اپنی ملاقات کے لیے جمع کیا تھا، تو مولانا ہی کا انتخاب ترجمان کی حیثیت سے ہوا تھا، وہ اس سفر میں لارڈ کرزن کے ساتھ تھے عرب سرداروں کے سامنے لارڈ کرزن کی طرف سے جو عربی تقریر پڑھی گئی تھی، وہ انھیں کی لکھی ہے۔
۱۹۰۶ء میں گورنمنٹ نے علی گڑھ کالج کو ایک معتدبہ عطیہ عربی تعلیم کے لیے دیا تھا جس کے لیے شرط یہ تھی کہ اس کا پروفیسر کوئی یورپین ہو، چنانچہ جرمن فاضل یوسف ہارویز کا اس کے لیے انتخاب ہواساتھ ہی مولانا کا انتخاب مددگار پروفیسر کی حیثیت سے ہوا، اور وہ علی گڑھ چلے آئے علی گڑھ میں بھی وہ زیادہ دن نہیں رہے بہر حال جتنے دن بھی رہے، اپنے علمی کاروبار میں مصروف رہے، ہارویز صاحب مولانا سے اپنی عربی کی تکمیل کرتے تھے، اور مولانا ان سے عبرانی سیکھتے تھے، اور ساتھ ہی قرآن پاک کی تفسیر اور تفسیر کے مقدمہ کے اجزاء کی تالیف کا کام جاری تھا۔
مولانا شبلی مرحوم کے تعلق کے سبب سے، پھر خود مولانا حمید الدین صاحب کے ذاتی فضل و کمال کے باعث علی گڑھ کے علمی حلقہ سے ان کے روابط قائم ہوگئے تھے، خصوصاً نواب صدریار جنگ مولانا حبیب الرحمن خان شروانی رئیس حبیب گنج کی ذوق آشنا اور قدر شناس نگاہوں سے وہ کہاں بچ سکتے تھے، چنانچہ اکثر آمدورفت رہتی تھی، نواب صاحب ممدوح نے مولانا کی وفات کے بعد جو والانامہ مجھے لکھا ہے اس میں رقم فرماتے ہیں:
’’مجھ کو مولانا سے دیرینہ نیاز حاصل تھا، ابتدائی ملاقات کا ذریعہ علامہ شبلی مرحوم تھے، علی گڑھ کی پروفیسری کے زمانہ میں ملا، پھر حیدر آباد میں علی گڑھ کے دور میں بھی تدبر قرآنی کا شغف جاری تھا روزانہ ۳ بجے شب سے صبح کے نو بجے تک اس میں وقت صرف کرتے تھے، ملاقات کے وقت نتائج تحقیق بیان فرماتے، اس زمانہ میں دیگر کتب سماوی کا مطالعہ اور اس کی مدد سے مطالب قرآنیہ کا حل خاص کر پیش نظر تھا اس حالت میں علی گڑھ چھوڑا‘‘۔
اجزا جو لکھتے جاتے تھے وہ مولانا شبلی مرحوم کی خدمت میں بھیجتے رہتے تھے، اور مولانا اس کے متعلق اپنی رائے خطوط میں اور زبانی ظاہر فرماتے تھے، شروع شروع میں استاد کو اپنے شاگرد کے اس نظریہ سے اختلاف تھا کہ قرآن پاک کے مطالب و معانی مرتب و منظم ہیں، اور وہ مولانا حمید الدین صاحب کی اس کوشش کو رائگاں سمجھتے تھے لیکن جب انھوں نے ان کی تفسیر کے متعدد اجزا دیکھے تو قائل ہوتے چلے گئے اور آخر داد دینے لگے، اور حوصلہ افزائی کرنے لگے، اور آخر آخر میں تو وہ مولانا حمیدالدین کی نکتہ دانی کے اس درجہ قائل ہوگئے تھے کہ قرآنی مشکلات کے حل میں وہ ان سے مشورہ لینے لگے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’تفسیرابی لہب اور جمہرۃ البلاغہ کے اجزا بغور دیکھے، تفسیر پر تم کو مبارکباد دیتا ہوں، تمام مسلمانوں کو تمھارا ممنون ہونا چاہئے، بلاغت کے بعض اجزاء معمولی اور سرسری ہیں، ارسطوؔ کا رد البتہ قابل قدر ہے‘‘۔ (جون ۱۹۰۵ء)
*مولانا حمید الدینؒ فراہی(وفات: ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ء)*
تحریر : علامہ سید سلیمان ندویؒ
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
فغان کہ گشت نیوشندۂ سخن خاموش
وگرچہ گونہ تسلی کنم من این لب و گوش
اس سے پہلے ہندوستان کے جن اکابر علماء کا ماتم کیا گیا ہے وہ کل وہ تھے، جن کی ولادت اور نشوونما انقلاب زمانہ سے پہلے ہوئی تھی، آج سب سے پہلی دفعہ ہم نئے عہد کے سب سے پہلے عالم کی وفات کے ماتم میں مصروف ہیں ہم ایک ایسے گریجویٹ عالم کا ماتم کرتے ہیں جو اپنے علم و فضل، زہدو ورع، اور اخلاق و فضائل میں قدیم تہذیب کا نمونہ تھا، لیکن جو اپنی روشن خیالی، جدید علوم و فنون کی اطلاع و داقفیت اور مقتضیات زمانہ کے علم و فہم میں عہد حاضر کی سب سے بہتر مثال تھا، اس سے پہلے ان تمام علماء نے جو نئے علم کلام کا اپنے کو بانی کہتے اور سمجھتے ہیں، جو کچھ کہا اور لکھا، وہ دوسروں سے سنی سنائی باتیں تھیں لیکن اس جماعت میں یہ پہلی ہستی تھی، جس نے فلسفہ حال کے متعلق نفیاً یا اثباتاً جو کچھ کہا اور لکھا وہ اپنی ذاتی تحقیق اور ذاتی علم و مطالعہ سے!
آج ہمارے سامنے ایسے متعدد علماء کی مثالیں ہیں جنھوں نے عربی علوم کی تکمیل کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی، اور بی۔اے اور ایم۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی کی سندیں حاصل کیں، لیکن اس طرح کہ
جو پڑھا لکھا تھا نیاز نے اسے صاف دل سے بھلا دیا
نئے رنگ نے پرانے کو اتنا پھیکا کردیا کہ ان پر اس کا نشان بھی نظر نہیں آتا، لیکن آج ہم جس ہستی کا تذکرہ کررہے ہیں، اس کا یہ حال تھا کہ اس کے نئے رنگ کی شوخی سے اس کے پرانے رنگ کا گہرا پن اور بڑھ گیا تھا اور اس کو دیکھ کر یہ سمجھنا بھی مشکل تھا کہ یہ علی گڑھ کالج اور الہ آباد یونیورسٹی کا گریجویٹ ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ اس کی سادگی کو دیکھ کر عوام بظاہر اس کو عالم بھی بمشکل ہی باور کرسکتے تھے، مگر وہ تھی، جو ابناے زمانہ میں کوئی نہیں۔
ولادت: اعظم گڑھ سے دو اسٹیشن پہلے پھریہاؔ ایک گاؤں ہے وہی مولانا کا پدری وطن تھا، اسی پھریہاؔ کو عربی شکل دے کر مولانا اپنے نام کے ساتھ کبھی کبھی فراہی لکھا کرتے تھے، مولانا شبلی مرحوم اور مولانا حمیدالدین ممیرے پھپھیرے بھائی تھے مولانا حمیدالدین کے والد مولوی عبدالکریم صاحب مولانا شبلی کے ماموں تھے، دونوں بھائیوں کی پیدائش چھ برس آگے پیچھے ہوئی، مولانا شبلی ۱۲۷۵ھ؍ ۱۸۵۷ء میں پیدا ہوئے، اور مولانا حمید الدین صاحب ۱۲۸۰ھ؍ ۱۸۶۲ء میں، مولانا حمیدالدین کے حقیقی چھوٹے بھائی شیخ حاجی رشید الدین صاحب ہیں، جو علی گڑھ کالج کے پرانے تعلیم یافتوں میں ہیں اور سرسید کے عہد کے طالب العلم اُن سے اچھی طرح واقف ہیں۔
مولانا کا اصلی نام تو حمیدالدین تھا مگر وہ اس نام کو جو درحقیقت عربی قاعدہ سے لقب ہے، اپنے لیے معنوی حیثیت سے بلند سمجھتے تھے، اس لیے وہ عربی تصانیف میں اپنا نام عبدالحمید لکھتے تھے، اور تمام بڑے بڑے عالمانہ آداب و القاب کو چھوڑ کر صرف معلم کہلانا اپنے کو پسند فرماتے تھے، بنابرین، وہ اپنا نام المعلم عبدالحمید الفراہی کتابوں کی لوحون پر لکھا کرتے تھے۔
تعلیم: مولانا نے پہلے حفظ شروع کیا، اور قرآن مجید کے حافظ ہوئے، اور فارسی کی ابتدائی کتابیں اس ضلع کے ایک دیہات چتارا کے باشندہ مولوی مہدی حسین صاحب سے پڑھیں، اس زمانہ میں شرفا کی تعلیم کا فارسی ادب سب سے اہم جزو تھا، مولانا کو ادبیات سے فطری لگاؤ تھا، چنانچہ فارسی زبان اور فارسی ادب کا ذوق بچپن سے اُن میں نمایاں تھا، اس وقت مولانا شبلی مرحوم عربی کی اعلیٰ کتابیں اعظم گڑھ میں مولانا فاروق صاحب چریا کوٹی سے پڑھ رہے تھے، مولانا فاروق صاحب اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم ہونے کے ساتھ فارسی کے بھی بہت بڑے ادیب اور استاد تھے، مولانا حمید الدین صاحب کی آمدورفت یہاں بھی رہا کرتی تھی، اور یہ عالمانہ صحبتیں ان کو ملا کرتی تھیں۔
ابھی مولانا کی عمر سولہ برس کی تھی کہ فارسی کے سب سے مشکل گو شاعرخاقانی شروانی کے تبتع میں ایک قصیدہ لکھا جس کی ردیف آئینہ اور قافیہ جو ہر کیفر وغیرہ ہے، سلطان عبدالحمید خان کی مدح میں ہے، مطلع ہے۔
بے جلوۂ رخِ تو بود مضطر آئینہ
خار افگند بہ پیرہن از جوہر آئینہ
بعد کے شعر ہیں:
گیسوے ہمچو شب تو بیار اے وہم بصبح
فرماے تو بیادر واز خاور آئینہ
گستاخ دیدہ است بروے تو لاجرم
چشمِ سپید یافت بدیں کیفر آئینہ
آئینہ واگذار دبیادر دو دیدہ ام،
چشمِ بودز آئینہ بہتر ہر آئینہ
دربزم انس خویش چراجاے دادہ
تامی شود برابر تو اکثر آئینہ
کے باضمیر شاہ شود ہمسر آفتاب
کے روے ہمچو ماہ ترا ہمسر آئینہ
*بات سے بات: دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
محترم مولانا شاہ اجمل فاروق صاحب نے آج دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد کی مطبوعات کی یکجا فراہمی کے سلسلے میں استفسار کیا ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہماری معلومات کی حد تک دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد کی جملہ مطبوعات یکجا ملنی مشکل ہیں، بعض عالمی مکتبات مرکز جمعۃ الماجد دبی وغیرہ نے اس کی مطبوعات اکٹھا کرنے کی قابل ذکر کوششیں کی ہیں، لیکن ۱۹۸۰ء کی دہائی سے قبل ایک ایسے دور میں جبکہ کمپوٹر ایجاد نہیں ہوا تھا، اور پرانی ٹائپ مشینوں پر کتابیں چھپتی تھیں، عام طور پر اس قسم کی بڑی کتابیں ایک ساتھ نہیں چھپتی تھیں، کسی ایک کتاب کی تحقیق ختم ہوکر مکمل ہوتے ہوتے دسیوں سال گذر جاتے تھے، کبھی کبھار ان کتابوں کی جلدیں درمیان درمیان سے چھپتی تھیں، یہی حال جرمنی، لائیڈن، مصر اور ہندوستان کی مطبوعات کا تھا، دائرۃ المعارف العثمانیہ کا قیام ۱۸۹۱ء میں عمل میں آیا تھا، تقسیم ہند سے قبل نظام دکن کی حکومت نے اس پر بڑی دریادلی سے خرچ کیا، جب نظام دکن کی سلطنت ختم ہوئی، اور ۱۹۴۷ء کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم بنے تو آپ کی کوششوں سے یہ ادارہ مرکزی وزارت تعلیم کے زیر سرپرستی آگیا، اس ادارے کی مطبوعات سے ہندوستان کے علماء سے زیادہ باہر کے ملکوں میں پذیرائی ہوئی، جو ہماری حکومتوں کی نیک نامی کا سبب ہوئی،اس زمانے میں مرکز جمعۃ الماجد میں قسم مخطوطات کے ہمارے ڈاکٹر ممتازعراقی محقق ڈاکٹر محمد حاتم الضامن مرحوم جیسے اہل علم کو دیکھا کہ دائرۃ المعارف کی تحقیق شدہ کتابوں کی موجودگی میں کسی دوسرے ادارے کی تحقیق شدہ کتاب کو پسند نہیں کرتے تھے۔ انہیں وہ مصر وشام کی مطبوعات پر فوقیت دیتے تھے۔
لیکن ہندوستان میں مخطوطات کی تحقیق کے میدان میں ہمارے فارغین مدارس دینیہ کی عموما بے رغبتی کی وجہ سے تنہائی میں بیٹھ کر مخطوطات میں جان کھپانے والے ماہرین کی کمی ہونے لگی، اور اس میدان میں خالی جگہیں پرکرنے والے نہ رہے، تو پھر دوسرے اسباب اور مسلمانوں کی اس ادارے سے عمومی بے اعتنائی سے یہ ادارہ زوال پذیر ہوگیا، اور شاید یہ ادارہ اب صرف کاغذ پر رہ گیا ہے۔
کوئی بیس سال قبل ہمارا دائرۃ المعارف العثمانیہ جانا ہوا تھا، اس وقت شیخ ابوبکر الھاشمی مرحوم شعبہ تحقیق کے سربراہ تھے، اور ان کے رفیق مولانا سمیع اللہ صاحب(شیموگہ) تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس ادارے میں بہت ساری قلمی کتابیں ہونگی، جنہیں دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی، اس بارے میں استفسار پر مولانا نے فرمایا کہ یہ ایک جو ہال نظر آرہا ہے جس میں ہم بیٹھے ہیں، یہی کل دائرۃ المعارف العثمانیہ ہے،جس کی چار دانگ عالم میں شہرت ہے، دیکھ رہے ہیں یہاں دوچار میزین اور کرسیاں پڑی ہیں جن میں ہم دو تین افراد بیٹھ کر قلمی کتابوں کی مراجعت کرتے ہیں، سامنے جو الماریاں پڑی ہیں ان میں قلمی کتابوں کی زیروکس ہیں، ادارے کے پاس اپنا کوئی کتب خانہ نہیں ہے،چند ضروری مراجع ہیں، جب ضرورت پڑتی ہےکسی کتب خانے سے کتابیں منگوالیتے ہیں، ڈاکٹر محمد حمید اللہ جب تک توانا وصحت مند تھے تو ترکی وغیرہ سفرکرکے وہاں کے کتب خانوں سے ضروری مخطوطات کے فوٹو بھیجتے تھے۔ دائرۃ المعارف کا سو سال پرانا ایک ٹائپ پریس ہے جس پر اس کی کتابیں چھپتی ہیں، اس کے معدنی حروف اب کثرت استعمال سے گھس گئے ہیں، یہاں ہم دو افراد رہ گئے ہیں، جو قلمی کتابوں کی تحقیق کی ذمہ داری نبھارہے ہیں، ہماری آنکھیں بند ہونےکے بعد پھر اس کا اللہ ہی مالک ہے، تحقیق مخطوطات میں نئے لوگ نہیں آرہے ہیں، حکومت اور مسلمانوں کا رویہ اس کے ساتھ بے اعتنائی کا ہے۔ مولانا ابوبکر ہاشمی صاحب کی رحلت پر ایک عشرہ سے زیادہ ہوگیا ہے، آپ مولانا ابو الوفا افغانی جیسے محققین کی نشانی تھے، مولانا سمیع اللہ صاحب کو رٹائرڈ ہوئے بھی کافی دن بیت گئے، اب ان لوگوں کو جاننے والے بھی شاذ ونادر رہ گئے، ان کے بعد یہ ادارہ کن لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوا، اس کا ہمیں علم نہیں۔ چند سال قبل اس ادارے کے بند ہونے کی اطلاع آئی تھی، معلوم نہیں خبر کہاں تک درست تھی؟، اب ہم سرکاروں سے کیا شکایت کریں!۔ جبکہ خود ہم مسلمانوں نے اس قابل فخر ملی اثاثے سے اپنا رخ پھیر لیا ہے۔ جب قوموں میں ٹھوس علمی و تحقیقی کاموں کے بجائے شہرت وپبلسٹی کے کاموں کی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے،اور کمرے میں تنہا بیٹھ کر جان کھپانے والوں کی عزت نہیں رہتی،اور انہیں کوئی نہیں پہچانتا تو اس کے جسم میں صاف خون دوڑانے والے یہ ادارے اسی طرح یکے بعد دیگرے اپنی موت مرجاتے ہیں۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
*لاہور بلانے کی کوشش*
۱۳۴۵ھ میں جب حضرت علامہ انور شاہ بعض اختلافات کی بناء پر دارالعلوم کی صدارت عظمیٰ سے مستعفی ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گوشہ نشینی کا ارادہ فرما چکے تو علامہ اقبال نے انہیں لاہور بلانے اور لاہور کو ان کے درس قرآن و حدیث کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کی بہت کوشش کی، ادھر لاہور میں آپ نے علامہ انور شاہ کے شایان شان ان کے قیام کے انتظامات کئے اور ادھر دیوبند آپ علامہ انور شاہ کشمیری سے خط و کتابت کرتے رہے، انہیں دنوں آپ نے مولوی سعید احمد مدیر برہان دہلی سے مزاح و ظرافت کے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا تھا کہ دارالعلوم دیوبند سے اختلاف رہنے میں ہمارا فائدہ ہے کہ ہم حضرت شاہ صاحب کو لاہور لا سکتے ہیں، اس لئے بعض وقت تو یہ جی چاہتا ہے کہ علامہ انور شاہ کا یہ اختلاف باقی رہے (بحوالہ مہاجر مرحوم دیوبند، سالگرہ نمبر) جہاں تک یاد پڑتا ہے حضرت علامہ انور شاہ کے لاہور جانے کی یہ تحریک بہت حد تک کامیاب ہوچکی تھی اور لاہور کے ارباب عزت و اقتدار کے سامنے صرف حضرت شاہ صاحب کی وجہ سے ایک معیاری مذہبی یونیورسٹی کے قیام کی تجویزیں زیر غور و زیر عمل تھیں، مگر یکایک علاقہ بمبئی کے ایک ذرا سے گائوں "ڈابھیل" کی قسمت کا ستارہ چمکا اور حضرت شاہ صاحب کثیر التعداد طلبائے علوم الٰہی کے ساتھ ڈابھیل تشریف لے گئے.
*ان تعلقات کے نتائج*
ان تعلقات کا سب سے زیادہ مفید نتیجہ تو یہ پیدا ہوا کہ ڈاکٹر اقبال قادیانیت کے فتنۂ عظیم کے مفاسد و مکائد سے مطلع اور ان کی بیخ کنی کے لئے عملاً آمادہ ہوگئے. حضرت علامہ انور شاہ اس فتنہ کے تردید و ابطال کو اپنی زندگی کا مشن اور اپنا ایک عظیم و کبیر فرض سمجھتے تھے. انہوں نے ڈاکٹر اقبال کو بھی اسی رنگ میں رنگا اور پھر اقبال مرحوم نے اپنی تحریر و تقریر اور اپنی صحبتوں میں اپنے حکیمانہ انداز میں اس فتنہ کی چھپی ہوئی برائیوں کو یوں بے نقاب کرنا شروع کردیا کہ "بہشتی مقبرہ" میں دبی ہوئی مرزا غلام احمد کی بوسیدہ ہڈیاں بھی چٹخ اٹھیں. یہ علامہ انور شاہ ہی کا فیض نظر تھا جو "نبوت" کے سلسلہ میں ڈاکٹر اقبال کو یہ افکار عمیق، یہ لذت گفتار اور انداز بیان کی چبھن نصیب ہوئی، "ضرب کلیم" میں فرماتے ہیں:
میں نہ عارف نہ مجدد نہ محدث نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام
ہاں مگر عالم اسلام پہ رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پہ ضمیرِ فلکِ نیلی فام
عصر حاضر کی شب تار میں دیکھی میں نے
یہ حقیقت کہ ہے روشن صفت ماہِ تمام
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
آج سے چار پانچ سال پہلے ہندوستان کی اسلامی دنیا مذہبی احساس اور سیاسی شعور کی جس منزل پر کھڑی تھی اب وہ اس سے بہت دور ہے، جو حضرات ایک زمانہ میں قادیانیت کی تردید کے لئے بیش قیمت خدمات انجام دے رہے تھے، اب انہیں بھی سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے فرصت نہیں، مگر حضرت علامہ انور شاہ اور علامہ اقبال اس سلسلہ میں جو کام کر گئے ہیں وہ اپنی جگہ بہت قابل قدر اور ناقابل فراموش ہیں.
قادیانیت کے ان جھگڑوں سے قطع نظر، علامہ کشمیری کی روحانی طاقت نے اقبال مرحوم کی ساری زندگی کو شرابِ الست کی مستی، مجاہدانہ حرارت اور ایک سوزِ دروں سے معمور کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جن لوگوں نے اقبال مرحوم کے سارے کلام کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے وہ مانتے ہیں کہ اقبال کے دل میں ابتداء سے اسلام کی لگن اور ان کی شاعری میں شروع سے زندگی کے دریا میں کودے ہوئے مسلمان کے لئے نہنگ و طوفان کے خوف اور تلاطم و تموج کے ڈر سے بے پروا ہوجانے کا حیات افروز پیام تھا، مگر خود ان کی خاک میں چھپے ہوئے شرارہ کو جس شخص نے علم و عمل کی پھونکوں سے بھڑکایا، ان کی نگۂ بصیرت کو شوخی نظارہ اور ان کے فلک رس تخیل کو عرش پیما پرواز کی قوت دی وہ حضرت علامہ انور شاہ ہیں، اقبال مرحوم کی فارسی تصانیف کو جانے دیجئے کہ انہوں نے عام ہندوستانیوں میں زیادہ مقبولیت نہیں پائی مگر یہ "بانگِ درا"، "بالِ جبریل"، "ضربِ کلیم" تو آپ کے سامنے ہیں انہیں دیکھ کر فیصلہ کرلیجئے کہ اقبال کے کمالات شاعری میں درجہ بدرجہ کس قدر حیرت انگیز اضافہ ہوتا گیا ہے.
بانگ درا میں وہ ایک کامیاب شاعر اور کسی حد تک قومی اورمذہبی رہنما ہیں. پھر بال جبریل میں ان کی حیثیت پہلے سے کہیں بلند، ان کا انداز خالص الہامی، ان کی آواز صرف حجازی اور ان کی حکمت و قابلیت شباب کے راستہ پر آلگے ہیں اور ضرب کلیم نام ہے ان کے ان سارے کمالات کی حیران کن معراج کا.
Https://telegram.me/ilmokitab