علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
*علامہ سیّد انور شاہ اور ڈاکٹر محمد اقبالؒ*
–سید محمد ازہر شاہ قیصر رحمۃ اللہ علیہ
(یادگار زمانہ ہیں یہ لوگ: ص 132-138)
علامہ جلیل حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحبؒ اور اس دور کے ایک عظیم حکیم و فلسفی شاعر علامہ اقبال مرحوم کے درمیان تعارف و تعلق کے جو رشتے اور دوستانہ اخلاص و وفا کے جو روابط قائم تھے، سینکڑوں باخبر اشخاص ان پر آگاہ ہیں. یہ ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی ہمہ گیر اور حکیمانہ شاعری کے لئے جہاں قرآن حکیم کے مطالب و معارف اور کامیاب ترین مضامین کے گہرے مطالعہ کے علاوہ مثنوی حضرت مولانا روم اور اس پایہ کی دوسری وجدانی کتابوں کی مسلسل رہنمائی نے تریاق کا کام کیا وہاں نہ صرف علامہ مرحوم کی شاعری کے رخ کو پلٹنے بلکہ خود ان کی زندگی میں ایک خوشگوار تغیر اور ان کے مذہبی عقائد میں جزم و پختگی پیدا کرنے میں حضرت محترم مولانا انور شاہ کا بہت کچھ حصہ ہے. علامہ اقبال نے بہت موقعوں پر مولانا انور شاہ صاحب سے استفادہ کیا اور مذہبی معاملات میں ان کی رائے کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں مسرت محسوس کی ہے. یہ علامہ اقبال کی زندگی کا ایک مستقل باب ہے اور افسوس ہے کہ بہت زیادہ محتاجِ تعارف. تاریخ کے اس عظیم الشان شاعر اور ملت اسلامیہ کے اس بلند پایہ رہنما کے متعلق جرائد و رسائل کے سینکڑوں مضامین کے علاوہ اب مستقل کتابیں لکھی جا چکی ہیں، ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو تحقیق و تفصیل کے ساتھ اشاعت کی روشنی میں نہ آیا ہو، پھر پاکستان کے حساس اور اہل قلم نوجوان نے تو اپنے اس قومی شاعر کے کلام اور تاریخ حیات کی اشاعت کے لئے جس اولو العزمی اور جوش عمل کا ثبوت دیا ہے وہ ہماری توقعات کے عین مطابق اور ان کی حساس زندگی کے قیمتی احساسات کی آئینہ دار ہے، لیکن دو چار حضرات کے سوا علامہ اقبال کے متعلق اس قدر زیادہ لٹریچر میں ان کی زندگی کے اس اہم اور مبارک سانحہ کے متعلق کسی نے ایک حرف لکھنا بھی گوارہ نہیں کیا، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اپنے اس مختصر مضمون میں ان دونوں بزرگوں کے ان تعلقات کے نتائج پر روشنی ڈالنے کا موقع مل رہا ہے.
آسماں بار امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
*تعلقات کی ابتداء*
کم و بیش پچاس سال پہلے کی بات ہے کہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب رحمہ اللہ اپنی مجلس علمی کے بہت سے ارکان، جن میں مولانا حبیب الرحمن عثمانی مرحوم، مولانا شبیر احمد صاحب مدظلہٗ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، کی معیت میں مولانا احمد علی صاحب شیرانوالہ دروازہ لاہور کی مشہور دینی انجمن خدام الدین کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لئے لاہور تشریف لے گئے تھے، ان ہی دنوں حضرت علامہ کشمیری کے ایک شاگرد مولانا حبیب الرحمن صاحب مکی جو ایک ذہین اور خوش فہم عالم ہیں علامہ اقبال کے کلام سے طبعی مناسبت رکھنے اور ان کے کمالات کے فراخ حوصلہ قدردداں ہونے کی حیثیت سے خود ان کے دولت کدہ پر جا کر ملے تھے، علامہ اقبال اس سے پہلے مذہب کے برکات و فضائل کے قائل اور مذہبی روایات کے عاشق ہونے کے باوجود عصر حاضر کے علماء سے کوئی اچھا گمان نہیں رکھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت تک علامہ کے کلام میں مذہبی سوز و گداز نہ تو درجۂ کمال تک پہنچا تھا اور نہ ہی ان کی شاعری مذہبی طبقوں پر خاطر خواہ اثر ڈال سکی تھی. مولانا حبیب الرحمن صاحب موصوف سے مختلف مذہبی مسائل پر آپ نے تبالۂ خیال فرمایا اور اختتام گفتگو پر ان کی مذہبی آراء پر بہت حد تک اظہار اطمینان کیا. خود مولانا حبیب الرحمن صاحب نے ایک دفعہ مجھ سے یہ واقعہ بیان فرمایا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے اخیر میں علامہ سے گذارش کی اگر آپ میرے استاذ مولانا انور شاہ صاحب سے ملاقات فرمائیں تو ان شاء اللہ وہ آپ کے شکوک کا بہت مناسب طریق پر ازالہ فرمائیں گے. علامہ اقبال نے فرمایا کہ مجھے شاہ صاحب سے غائبانہ تعارف ہے اور میں کل ہی انہیں اپنے یہاں بلانے کا انتظام کروں گا.
دوسرے دن حضرت شاہ صاحبؒ علامہ اقبال کی دعوت پر ان کی کوٹھی پر گئے اور کئی گھنٹہ تک آپ الٰہیات اور دوسرے دقیق علمی مسائل پر آپس میں گفتگو کرتے رہے، یہ ان تعلقات کی ابتداء ہے جو اس دور کے دو حکماء کے درمیان اخیر زندگی تک بہت مضبوط طریقہ پر قائم رہے اور جنہوں نے ایک دوسرے کی علمی و عملی زندگی پر بہت مناسب اثر ڈالا. علامہ اقبال پھر رفتہ رفتہ حضرت شاہ صاحب سے بہت مانوس اور ان کے بے پناہ علم و فضل کی دل افروز دقیقہ سنجیوں اور دل کشا نکتہ سرائوں کے بے حد معترف ہوگئے تھے.
مدراس میں علامہ اقبال نے ایک دفعہ چند خطبات دئیے تھے جو انگریزی زبان میں مستقل کتابی صورت میں چھپ کر دور دور تک پہنچ چکے ہیں، ان خطبات کے مذہبی حصہ کے لئے علامہ اقبال نے حضرت شاہ صاحب سے مدد مانگی اور ان ہی خیالات کو حجت کے طور پر پیش کیا، جو حضرت شاہ صاحب نے ظاہر فرمائے تھے. خود علامہ اقبال نے اپنے اس استفادہ کا ان ہی خطبات میں برملا اعتراف کیا ہے.
*علامہ سیّد انور شاہ اور ڈاکٹر محمد اقبالؒ*
–سید محمد ازہر شاہ قیصر رحمۃ اللہ علیہ
(یادگار زمانہ ہیں یہ لوگ: ص 132-138)
/channel/ilmokitab
علامہ جلیل حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحبؒ اور اس دور کے ایک عظیم حکیم و فلسفی شاعر علامہ اقبال مرحوم کے درمیان تعارف و تعلق کے جو رشتے اور دوستانہ اخلاص و وفا کے جو روابط قائم تھے، سینکڑوں باخبر اشخاص ان پر آگاہ ہیں. یہ ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی ہمہ گیر اور حکیمانہ شاعری کے لئے جہاں قرآن حکیم کے مطالب و معارف اور کامیاب ترین مضامین کے گہرے مطالعہ کے علاوہ مثنوی حضرت مولانا روم اور اس پایہ کی دوسری وجدانی کتابوں کی مسلسل رہنمائی نے تریاق کا کام کیا وہاں نہ صرف علامہ مرحوم کی شاعری کے رخ کو پلٹنے بلکہ خود ان کی زندگی میں ایک خوشگوار تغیر اور ان کے مذہبی عقائد میں جزم و پختگی پیدا کرنے میں حضرت محترم مولانا انور شاہ کا بہت کچھ حصہ ہے. علامہ اقبال نے بہت موقعوں پر مولانا انور شاہ صاحب سے استفادہ کیا اور مذہبی معاملات میں ان کی رائے کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں مسرت محسوس کی ہے. یہ علامہ اقبال کی زندگی کا ایک مستقل باب ہے اور افسوس ہے کہ بہت زیادہ محتاجِ تعارف. تاریخ کے اس عظیم الشان شاعر اور ملت اسلامیہ کے اس بلند پایہ رہنما کے متعلق جرائد و رسائل کے سینکڑوں مضامین کے علاوہ اب مستقل کتابیں لکھی جا چکی ہیں، ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو تحقیق و تفصیل کے ساتھ اشاعت کی روشنی میں نہ آیا ہو، پھر پاکستان کے حساس اور اہل قلم نوجوان نے تو اپنے اس قومی شاعر کے کلام اور تاریخ حیات کی اشاعت کے لئے جس اولو العزمی اور جوش عمل کا ثبوت دیا ہے وہ ہماری توقعات کے عین مطابق اور ان کی حساس زندگی کے قیمتی احساسات کی آئینہ دار ہے، لیکن دو چار حضرات کے سوا علامہ اقبال کے متعلق اس قدر زیادہ لٹریچر میں ان کی زندگی کے اس اہم اور مبارک سانحہ کے متعلق کسی نے ایک حرف لکھنا بھی گوارہ نہیں کیا، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں اپنے اس مختصر مضمون میں ان دونوں بزرگوں کے ان تعلقات کے نتائج پر روشنی ڈالنے کا موقع مل رہا ہے.
آسماں بار امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
*تعلقات کی ابتداء*
کم و بیش پچاس سال پہلے کی بات ہے کہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب رحمہ اللہ اپنی مجلس علمی کے بہت سے ارکان، جن میں مولانا حبیب الرحمن عثمانی مرحوم، مولانا شبیر احمد صاحب مدظلہٗ کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، کی معیت میں مولانا احمد علی صاحب شیرانوالہ دروازہ لاہور کی مشہور دینی انجمن خدام الدین کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لئے لاہور تشریف لے گئے تھے، ان ہی دنوں حضرت علامہ کشمیری کے ایک شاگرد مولانا حبیب الرحمن صاحب مکی جو ایک ذہین اور خوش فہم عالم ہیں علامہ اقبال کے کلام سے طبعی مناسبت رکھنے اور ان کے کمالات کے فراخ حوصلہ قدردداں ہونے کی حیثیت سے خود ان کے دولت کدہ پر جا کر ملے تھے، علامہ اقبال اس سے پہلے مذہب کے برکات و فضائل کے قائل اور مذہبی روایات کے عاشق ہونے کے باوجود عصر حاضر کے علماء سے کوئی اچھا گمان نہیں رکھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت تک علامہ کے کلام میں مذہبی سوز و گداز نہ تو درجۂ کمال تک پہنچا تھا اور نہ ہی ان کی شاعری مذہبی طبقوں پر خاطر خواہ اثر ڈال سکی تھی. مولانا حبیب الرحمن صاحب موصوف سے مختلف مذہبی مسائل پر آپ نے تبالۂ خیال فرمایا اور اختتام گفتگو پر ان کی مذہبی آراء پر بہت حد تک اظہار اطمینان کیا. خود مولانا حبیب الرحمن صاحب نے ایک دفعہ مجھ سے یہ واقعہ بیان فرمایا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے اخیر میں علامہ سے گذارش کی اگر آپ میرے استاذ مولانا انور شاہ صاحب سے ملاقات فرمائیں تو ان شاء اللہ وہ آپ کے شکوک کا بہت مناسب طریق پر ازالہ فرمائیں گے. علامہ اقبال نے فرمایا کہ مجھے شاہ صاحب سے غائبانہ تعارف ہے اور میں کل ہی انہیں اپنے یہاں بلانے کا انتظام کروں گا.
دوسرے دن حضرت شاہ صاحبؒ علامہ اقبال کی دعوت پر ان کی کوٹھی پر گئے اور کئی گھنٹہ تک آپ الٰہیات اور دوسرے دقیق علمی مسائل پر آپس میں گفتگو کرتے رہے، یہ ان تعلقات کی ابتداء ہے جو اس دور کے دو حکماء کے درمیان اخیر زندگی تک بہت مضبوط طریقہ پر قائم رہے اور جنہوں نے ایک دوسرے کی علمی و عملی زندگی پر بہت مناسب اثر ڈالا. علامہ اقبال پھر رفتہ رفتہ حضرت شاہ صاحب سے بہت مانوس اور ان کے بے پناہ علم و فضل کی دل افروز دقیقہ سنجیوں اور دل کشا نکتہ سرائوں کے بے حد معترف ہوگئے تھے.
مدراس میں علامہ اقبال نے ایک دفعہ چند خطبات دئیے تھے جو انگریزی زبان میں مستقل کتابی صورت میں چھپ کر دور دور تک پہنچ چکے ہیں، ان خطبات کے مذہبی حصہ کے لئے علامہ اقبال نے حضرت شاہ صاحب سے مدد مانگی اور ان ہی خیالات کو حجت کے طور پر پیش کیا، جو حضرت شاہ صاحب نے ظاہر فرمائے تھے.
*ڈاکٹر اقبالؒ کی تعلیمات کے حقیقی عناصر*
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
آج کل ڈاکٹر اقبال کے نام سے متعدد رسائل نکل رہے ہیں اور مجلسیں قائم ہیں، یہ سب کو معلوم ہے کہ اشخاص بھی بتدریج ترقی کرکے منزلِ مقصود کے احاطہ میں داخل ہوتے ہیں اور ان کے خیالات بھی اسی تدریج کے ساتھ کمال کے مرتبہ پر پہنچتے ہیں۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ہر شے جو ڈاکٹر اقبال کے کلام کے فائل میں نکل آئے، وہ ان کی تعلیم ہے تو سراسر غلط ہوگا، بلکہ وہی چیزیں ان کی تعلیمات کی عناصر ہوں گی، جن پر ان کی قلم نے ایک مدت کی تلاش کے بعد آرام کی سانس لی اور جس منزل پر پہنچ کر ان کے خیال کے مسافر نے اقامت اختیار کی۔ اس بنا پر آج کل رسالوں کے کارخانوں میں جو مال بھی تیار ہوتا ہے اور اس پر ڈاکٹر اقبال کے نام کا مارکہ لگا کر جو دوکان داری کی جارہی ہے، وہ ہمت افزائی کے لائق نہیں:
کبھی فرصت سے سن لینا، بڑی ہے داستاں میری
شذراتِ سلیمانیؒ/حصہ: سوم/صفحہ: ۲۸۵/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اور لوگوں میں حج کااعلان کردے وہ تیرے پاس پیدل اور ہرلاغر و کمزور سواری پرآئیں گے جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی ۔
اب حالات اگرچہ بدل گئے ہیں ،لوگوں میں تمول آگیا ہے ، سواریاں بدل گئی ہیں، بھاری بھرکم ، لمبے چوڑے جہاز دندنانے لگے ، پانی والے جہاز تیرنے لگے ، کاریں موٹریں پھرنے لگیں ، پیادہ پا مکہ مکرمہ کی طرف بھاگنے لگے الغرض دنیا بھر سے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں ،کوئی افریقہ کے صحرا سے پہنچتاہے ،کوئی سوئزرلینڈکے کوہساروں سے نعرۂ مستانہ لگاتے آتادکھائی دیتاہے ،کوئی انڈونیشیا اور ملائشیاسے جھومتا آرہا ہے،کوئی بھارت اور پاکستان سے مست مئے عرفان پئے جاتا دکھائی دیتا ہے ،کوئی یورپ کے مرغزاروں اور امریکہ کے سبزہ زاروں سے صدائے لبیک بلند کرتاہوا آرہاہے ،کوئی ترکی اور مصری ہے کوئی یونانی اور تورانی ہے،کوئی عراقی اور شامی ہے ،کوئی دنیا کی سب سے بلندی پر رہنے والا مجنونانہ و مشتاقانہ آرہا ہے تو کوئی سطح سمندر سے بھی نیچے بسنے والا اپنی قسمت پرنازاں جھومتا ہوا آرہا ہے۔ہر رنگ، ہر نسل ، ہرقوم ، ہرمسلک یہاں پہنچ کر ایک مسلک ،ایک نظر اورایک نظریہ پرآکھڑا ہوتا ہے ،ایک ہی امام کی اقتداء اور اتباع میں طاعات و عبادات کے ذریعہ، دعا و مناجات کے ذریعہ ،آہوں اور آنسوؤں کے ذریعہ اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتاہے۔
آپ خوش نصیب ہیں کہ وہاں گئے ،اُن کے لئے بھی دعاکیجئے جو اَب تک وہاں نہیں گئے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
2003-02-10
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
اپنے دور کی برصغیر میں عظیم ترین ملی شخصیت کے یہ الفاظ ہم لوگوں کے لئے تمغہ امتیاز سے کیا کم تھے!،مولانا کے سامنے ہم لوگوں نے زبردست خوشی کااظہار کیا۔ مولانا بھانپ گئے کہ خودستائی ہمیں مسحور کررہی ہے، فرمانے لگے قاری صاحب تو ہمارے مہمان تھے، وہ بھی بامروت انسان، ایسا مہمان کیا کبھی اپنے میزبانوں کی مذمت کر سکتا ہے،لہٰذا مہمانوں کی تعریف کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئے،مدارس کے تعارف ناموں میں یہ علمائے کرام کی جو تصدیقیں ہوتی ہیں یہ بھی اسی خانے میں آتی ہیں ،ا ن تعریفوں کا درست ہونا ضروری نہیں۔
مولانا جب جامعہ آئے اس وقت یہاںپر درسگاہ اسلامی رامپور کا نصاب ساتویں جماعت تک رائج تھا ،وہی ہماری کتاب، آسان ریاضی ،عام معلومات، سچادین ،ہماری دنیا اور مارٹن کی انگریزی کتابیں وغیرہ۔ مولانا کا خیال تھا کہ دینی رحجان رکھنے والے مسلم ادارے جب پرائیوٹ کورس تیار کرتے ہیں تو دو تین سال تک بچوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہیں،پھر ان کا معیار بگڑ جاتا ہے، ہماری کتاب کے بارے میں آپ کی رائے تھی کہ قاعدہ اول دوم کامعیار بہت ہی اچھا ہے، لیکن بعد کے اجزاء میں اتنی محنت نہیں کی گئی۔ اسی طرح آسان ریاضی اور عام معلومات کو اپ ڈیٹ نہ کرتے رہنے کی آپ کو شکایت تھی، لہٰذا مولانا نے ہماری کتاب تو باقی رکھی،لیکن دیگر علوم میں سرکاری نصاب کو جاری کیا۔فن تعلیم و تربیت پر لکھی گئی کتابوں کے بارے میں آپ یہ رائے ظاہر کرتے تھے کہ ان میں زیادہ تر نظر یاتی امور سے بحث ہوتی ہے عملی وتجرباتی دنیا سے ان کا زیادہ سروکار نہیں ہوتا، یہ مصنفین اپنے سے بڑے عالم کیلئے یہ کتابیں تیار کرتے ہیں،فن تعلیم و تربیت میں جناب افضل حسین مرحوم نے جو باتیں لکھی ہیں ان میں سے بیشتر مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور میں لاگو نہیں کی گئی ہیں، جب کہ یہ درسگاہ اسلامی تعلیم و تربیت کے لئے ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتی تھی۔
دیگر درسی کتابوں کے تعلق سے بھی مولانا سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا،فقہ شافعی کی ایک کتاب ہے فتح المعین شرح قرۃالعین ، اسے ایک ملباری عالم زین الدین معبری نے لکھا ہے،اس کا شمار اس فن کی مشکل کتابوں میں ہوتا ہے، اس میں مندرج بعض مسائل کے تعلق سے خود مولانا کو بڑااشکال تھا ،چند اساتذہ اس کتاب کو شامل درس رکھنے کے خلاف تھے۔ لیکن مولانا اس کتاب کو نصاب میں رکھنے کے حامی تھے ،آپ کی رائے تھی کہ مشکل کتابیں داخل درس رہنی چاہئیں ان سے طلبہ کو فکرو تدبر کی عادت پڑتی ہے، مشکل عبارتوں کو سمجھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔طلبہ میں صرف لکچر نوٹ کرنے اور آسان کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی جائے تو پھر وہ مشکل کتابیں حل ہی نہیں کر پاتے، ان میں گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت ہی مفقود ہو جاتی ہے،لیکن بچوں کو مشکل عبارتیں رٹوانے، یا آٹھ دس سال کے بچے کو تقریری مقابلہ میں علامہ شبلی کا سیرت النبی کا دیباچہ ’’چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں ،چرخ نادرہ کونین نے وہ وہ رعنائیاں دکھائیں کہ تار ے خیرہ ہو کر رہ گئے وغیرہ‘‘ یاد کروانے کے حق میں نہ تھے۔بغیر تدبر کے رٹوانا ان کے کسی خانہ میں نہیں تھا،لہٰذا انہوں نے عوامی دلچسپی کے لئے طلبہ کے جلسہ جلوس کی تعداد بہت ہی کم کر دی۔
انہیں سنجیدہ طرز خطابت ہی پسند تھا۔ وہ کہتے نہر و اور بھٹو کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ساتھ ساتھ تقریریں ہوا کرتی تھیں، بھٹو کی تقریریں جذباتی اور ایکشن سے بھر پور ہوتی تھیں اور نہرو کی دھیمے لب و لہجہ میں، لیکن عالمی قائدین نے کبھی بھی نہر و کے مقابلہ میں بھٹو کی تقاریر کو اہمیت نہیں دی۔ معاصرین میں انہیں مولانا حبیب اللہ محو رانچوی اور مولانا بدرالدین اصلاحی مرحوم کی تقاریر پسند تھیں۔
مولانا کی سخن فہمی بہت بلند تھی، معاصرین میں حفیظ میرٹھی بڑے پسند یدہ شاعر تھے۔ایمرجنسی کے دوران قید میں شہادت سے قبل لکھی ہوئی مولانا حبیب اللہ محور انچوی کی یہ نظم بہت پڑھا کرتے تھے۔
یاد ان کی تسلی دیتی ہے
جب نائو بھنور میں ہوتی ہے
جامعہ آباد کی نئی آبادی میں جب جامعہ اسلامیہ منتقل ہوا تھا اس وقت یہ ایک ویرانہ تھی۔شہر کی قناتیں ابھی اس کی سرحدوں سے آکر نہیں ملی تھیں، تین چار کلو میٹر کی دوری تک آبادی کا کوئی نام ونشان نہیں تھا، بس دور دور تک لمبی لمبی گھانس اگتی نظر آتی، سورج جب بحر عرب کی پانیوں میں چھپ جاتا تو چاروں طرف ہو کا عالم ہوتا۔گیدڑ اور انواع واقسام کے جنگلی جانوروں کی آوازیں چارون طرف سے بلند ہونے لگتیں، تپتی دھوپ میں زمین سے حرارت اٹھنے لگتی تو سانپ بچھو بلوں سے نکل کر ادھر ادھر رینگتے نظرآتے ،یہاں سے گذرنے والے گنوار، دیہاتی راہگیر جن میں بڑی تعداد غیر مسلم محنت کشوں اور مچھیروں کی تھی ان کا کہنا تھا کہ جامعہ آباد میں شام ڈھلے ارواح خبیشہ کی چیخیں سنائی پڑتی تھیں، اذان کی تکبیروں نے ان صداؤں کو اب خاموش کر دیا ہے۔ مولانا نے اس ویرا نے کو آباد کیاتھا۔جامعہ میں مولانا کی شخصیت ایک مشفق باپ کی تھی۔ جس کا سایہ تپتی دھوپ میں ٹھنڈ ک دیتا ہے ،مولانا کی سرپرستی میں نہ صرف طلبہ نے بلکہ اساتذہ جامعہ نے بھی بہت کچھ سیکھا۔مولانا علم کے اتھاہ سمندر تھے جس کی سطح زیادہ گہرائی کی وجہ سے پرسکون رہتی ہے، اس کی تہ میں جا کر اپنے مقدور بھر ہر کوئی موتی چن کر لا سکتا ہے۔
مولانا جس دور میں جامعہ کے مہتمم بنے تھے خوش نصیبی سے یہی دور انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج میں ڈاکٹر سید انور علی کا دور پرنسپلی تھا۔ ڈاکٹر صاحب بھی جماعت اسلامی کے رکن تھے اور مولانا کے بڑے ہی قدر دان ، آپ کی ایما پر مولانا نے کالج میں ہر جمعہ کوبعد نماز عصر درس قرآن کا سلسلہ شروع کیاجس میں کالج کااسٹاف اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اچھی خاصی تعداد میں شریک ہوتا،حالانکہ مولانا کوئی جاذب نظرو اعظ و خطیب نہیں تھے، نہ ہی وضع قطع میں کوئی رکھ رکھاؤتھا، نہ الفاظ میں پیچ و خم کی عادت، سیدھی سادی زبان میں بس بے لاگ ولپیٹ دل کی بات کہتے، اس میں رنگ و روغن سے مبرا علمی دعوتی و تربیتی مواد ہوتا۔ باوجود اس کے مولانا کے سامعین کو بعد میں یہی کہتے سنا کہ پھر ایسا درس ہمیں سننے کو نہیں ملا۔
مولانا شاہ وصی اللہ الہ آ بادیؒ کے رسائل کا مجموعہ جب پہلے پہل چھپ کر آیاتو مولانانے اس کا تعارف کالج کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں کرایا۔ہم نے خودکالج کے پرنسپل کو ان کا مطالعہ کرتے اور ان رسائل کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے دیکھا ہے۔ یہ مولانا کی خوبی تھی کہ جماعت اسلامی سے وابستہ اپنے معاصرین کو مولانا شاہ وصی اللہؒ سے متعارف کرایا، اور علماء کے حلقہ کو اپنے استاد مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کے اوصاف حمید ہ سے ،آپ سے ہم نے کہتے سنا کہ جب مولانا محمدمنظور نعمانیؒ نے مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کے حالات و کوائف سنے تو بڑا افسوس کیا کہ ایسے اہل اللہ سے زندگی میں ملاقات نہ ہو سکی۔ اس طرح آپ نے یہ باور کرانے میں کسر نہ چھوڑی کہ اچھے لوگ کسی ایک جماعت یا گروہ کی جاگیر نہیں ہوا کرتے، متقی اور پرہیز گاروں سے یہ دنیا خالی نہیں ہے۔
جامعہ میں مولانا نے اساتذہ کی رہنمائی و تربیت کا خاص خیال رکھا۔مصنوعی اور تکلفانہ طرز زندگی سے انہیں دور رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ ابتدائی درجات کے بچوں پر ان کی خاص توجہ تھی، وہ ہر ہفتہ چھوٹے درجات میں تعلیمی رفتار کو دیکھنے ضرور آتے ،مولانا کے نظام تعلیم و تربیت میں استاد کو کلیدی اہمیت حاصل تھی، وہ بچوں کے سنورنے اور بگڑنے میں استاد کو زیادہ ذمہ دارٹھہراتے تھے۔ انہوں نے اساتذہ کو شفقت کرنا سکھا یا،انہیں انتقامی جذبات سے دور رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
مولانا کی عادت تھی کہ سہ ماہی اور ششماہی امتحانات کے بعد تمام اساتذہ کو یکجا کرتے، وہ نتائج کا گہرا مطالعہ کر کے آتے، انہیں معلوم ہوتا تھا کہ کو نسا استاد طلبہ پر محنت کرنے کے باوجود نمبرات دینے میں بخل سے کام لے رہے ہیں، وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ بچوں کی تربیت کے اصل زمہ دار اساتذہ ہیں، اگر والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کر سکتے تو اساتذہ کے پاس کیوں بھیجتے،انہوں نے جب اساتذہ پر اعتماد کیا ہے تو اساتذہ کو ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے۔وہ طلبہ کے والدین سے بھی ان کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے ربط رکھتے تھے۔وہ اساتذہ کی مجلسوں میں اس طرح مسائل کا احاطہ کرتے کہ بات عمومی ہونے کے باوجود ہر ایک کو آئینہ میں اپناچہرہ نظر آتا۔
مولانا کا اہم وصف کسی بھی شخصیت سے ان کی عدم مرعوبیت تھی۔ انہوں نے اپنے سے وابستہ افراد میں کسی کی اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی پیدا ہونے نہیں دی، آپ سے کوئی بے تکلف شخص آپ سے کسی شخصیت کا بے پناہ احترام دیکھ کر یہ امید رکھتا کہ مولانا کے سامنے اس شخصیت کے گن گاکر اور اس شخص کی زبرست مدافعت کر کے مولانا کی خوشنودی حاصل کرے گا ، تو عمومایہ اس کی خام خیالی ثابت ہوتی ،مولانا بت شکن تھے، وہ احترام و عزت کے تو پیکر تھے، لیکن اندھے عقیدت مند کسی کے نہیں تھے۔
وفیات مورخہ: ۹/ نومبر
/channel/ilmokitab
ابر احسنی گنوری ، احمد بخش 9/نومبر/1973ء
احمد شاہ رضوانی، شمس العلما ابو الصفا قاضی نومبر 9/نومبر/1901ء
سلطان محمد خان 9/نومبر/2010ء
سیٹھ جمال محمد مدراسی 9/نومبر/1949ء
سید ہ ریحانہ مدنی بنت حسین احمد مدنی 9/نومبر/1992ء
شاہد نقوی 9/نومبر/2002ء
مولانا شہباز اصلاحی 9/نومبر/2002ء
ضیاء اقبال شاہد 9/نومبر/2004ء
عبدالواحد عثمانی بدایونی، مولانا 9/نومبر/1975ء
غلام حیدر(موسیقار) 9/نومبر/1953ء
قیصر امروہوی(سید قیصر علی نقوی) 9/نومبر/1999ء
کوثر بشیر احمد، پروفیسر 9/نومبر/2006ء
کوکب شادانی(سید محمد ایوب علی زیدی) 9/نومبر/1994ء
لودھی ، اے کے (عبدالکریم) 9/نومبر/2011ء
محبوب امین نجمی (امین الاسلام فاروقی) 9/نومبر/2000ء
محشر بدایونی (فاروق احمد) 9/نومبر/1994ء
معین الدین، خواجہ (غلام خواجہ معین الدین) 9/نومبر/1971ء
نور الدین عبد الرحمن جامی 9/نومبر/1492ء
9 نومبر یوم اقبال کی مناسبت سے یہ کاوش آپ کی خدمت میں
،،اقبال نامہ ،،
سنو پیارے بچو کہانی سنو
یہ اک داستاں جاودانی سنو
کہانی ہے اک شہر پنجاب کی
کہانی ہے اقبال نایاب کی
خدا دار ایک شیخ جنت مقام
کہ نور محمد ہوا جن کا نام
خدا کی عطا ان کے دو لال تھے
کلاں تھے"عطا "خرد "اقبال" تھے
بلندی پہ تھا بخت اقبال کا
ستارہ منور تھا اس لال کا
اٹھارہ کا سن تھا ستتر کا سال
کہ پیدا ہوا یہ سراپا کمال
تھے استاد اک مولوی میر حسن
لیا آپ نے ان سے درس کہن
لگائی جو رہوار ہمت پہ چوٹ
چلے آئے لاہور از سیالکوٹ
تشفی کے لیکن بجھے جب دیے
تو لاہور سے کیمبرج چل دیے
براؤن ، نکلسن ، ٹگرٹ ، سارلی
نمایاں ملے ان کو استاد بھی
تھےسر آرنلڈ ان میں سب سےشہیر
وہ دنیاۓ علم و ادب کے امیر
بڑھی اور جب علم کی تشنگی
گئے بہر تعلیم تا جرمنی
رقم کی وہاں فلسفے پر کتاب
تو اس پر ملا ڈاکٹر کا خطاب
مگر تشنگی اور بڑھتی گئ
تو لندن سے کی پاس بیرسٹری
رہے شہر لندن میں ایسے مقیم
کہ دربار فرعون میں جوں کلیم
ولایت سے جب ڈاکٹر ہو گئے
نوازا حکومت نے ، سر ہوگئے
وہ انیس سو پانچ سے آٹھ تک
رہے ارض یورپ پہ بن کر فلک
مگر جب کھلے اس تمدن کے عیب
وہ حاضر کی دنیا یہ دنیائے غیب
ہوئے جب عیاں بھید سب ناشکیب
تمدن تفنن کے جھوٹے فریب
تو بیزار مغرب ہوئے اسقدر
پلٹ کر نہ دیکھا ادھر عمر بھر
اثر تھا یہ مغرب کے طوفان کا
مسلماں کو جس نے مسلماں کیا
غرض جب کھلاحق ، ہوئےشرمسار
کلام الٰہی پڑھا اشکبار
کھلے دل پہ اسرار ہائے ازل
تو پھر بحر عرفاں میں ڈوبی غزل
تو پھر عارض و زلف و لب کھوگئے
روایات کہنہ کے ڈھب کھو گئے
ہوئی شاعری پھر بلوغ المرام
قلم سے لیا تیر و نشتر کا کام
وہ پیغام مشرق زبور عجم "
رموز خودی بیخودی " کا علم
سنائی زمانے کو بانگ درا
کہ بیدار ہو نیند سے قافلہ
بتایا ہر اک راز تفصیل سے
اڑے عرش تک بال جبریل سے
خوشا ! ضرب مومن وہ ضرب کلیم
ہوجس ضرب سےقصر باطل دو نیم
دیا قوم کو ارمغان حجاز
وفا کا ترانہ محبت کا ساز
غرض کیا بتاؤں وہ کیا شخص تھا
وہ افکار قرآں کا اک عکس تھا
بالآخر ہوئی عمر اکسٹھ برس
بجا موت کے کارواں کا جرس
یہ خورشید انیس سو اڑتیس کو
چھپا صبح اپریل اکیس کو
قفس سے اڑا عندلیب حجاز
سوئے خلد ، مشرق کا دانائے راز
چراغ خودی کا نگہباں گیا
قلندر تھا اک شعلہ ساماں گیا
جو کہتا تھا لوگو مکاں اور ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور ہیں
وہ کہتا تھا تم صقر و شاہین ہو
تو پھر کیوں غلام سلاطین ہو
کہاں فکر عصفور شاہیں کہاں
خدا کا جہاں سب تمہارا جہاں
وہ کرتا تھااس ضرب مومن کی بات
گریں منھ کےبل جس سےلات و منات
روایات شیخ و برہمن سے بیر
وہ من کا مسافر حرم ہو کہ دیر
وہ تن کی رفاقت سے بیزار سا
وہ من کی تمازت سے تلوار سا
وہ دستور منصور و سرمد کا پاس
وہ ملبوسئ فقر سے خوش لباس
سکھائی زمانے کو نکتے کی بات
خودی کیا ہے بیدارئ کائنات
سپر عقل ہے عشق شمشیر ہے
یہ دنیا تو مومن کی جاگیر ہے
کہا جس نے بیباک انداز سے
" لڑا دو ممولے کو شہباز سے "
دعا کی کہ اے خالق بحر و بر !
جوانوں کو دے میری آہ سحر
عطا کر انھیں وہ جنون عمل
ہوں شق ان کی ٹھوکر سے دشت و جبل
نظر عشق و مستی میں سرشار کر
خرد کے تماشوں سے بیزار کر
وہ رستہ دکھا ان کو پروردگار
چلے جس پہ تیرے اطاعت شعار
ترا ہو کے رہنے کی توفیق دے
" دل مرتضی سوز صدیق دے"
خدا رحم فرمائے اقبال پر
جو روتا رہا قوم کے حال پر
محبت میں بزمی نے جو کچھ کہا
کہو پیارے بچو وہ کیسا لگا
سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستھان انڈیا
09772296970
اپنا پہناوا پہننے، اپنے ذہن سے سوچنے اور اپنی زبان میں اظہارِ خیال کرنے والا مردِخود آگاہ اپنے آپ کو جس قدر آزاد اور خودمختار محسوس کرتا ہوگا اتنا اعتماد اُس شخص کے دعوائے دانشوری میں نہیں ہوسکتا، جس کے متعلق پاک فضائیہ کے شاعر رحمٰنؔ کیانی مرحوم نے فرمایا تھا:
ذہن میں غیروں کی باتیں، منہ میں مانگے کی زباں
اس پہ دعویٰ یہ کہ صاحب ہم بھی فرزانوں میں ہیں
ذہنی، فکری، تہذیبی، ثقافتی، لسانی اور عملی آزادی کی مثال لینا ہو تو ’افاغنہ‘ سے لیجے۔ افغانی برطانیہ کے غلام رہے، نہ روس کے غلام ہوئے، نہ امریکہ کے غلام بنے۔ یہ مردانِ آزاد اپنے ذہن سے سوچتے ہیں، اپنی زبان بولتے ہیں، اپنا لباس پہنتے ہیں اور اپنی مرضی کرتے ہیں۔ آزاد اور خودمختار ہیں۔ اُنھیں کسی سے مانگا ہوا قرض ادا کرنے کی معذوری ہے نہ کسی سے بھیک مانگ کر ’ڈکٹیشن‘ لینے کی مجبوری۔ ہمارے حکمران اور دانشور جس کا کھاتے ہیں اُس کا گاتے ہیں۔ مگر وہ چوں کہ اپنا کھاتے ہیں، اس لیے اپنا ہی گاتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جوبھی اُنھیں پھانسنے آیا وہ خود پھنس گیا، اور جو بھی اُنھیں پیٹنے آیا وہ اپنا ہی منہ پِٹا کر اور پٹ پٹا کر سرپٹ بھاگا۔
کل یومِ اقبالؔ ہے۔ اقبال کا کلام ملت کو غیرت و خودداری کے ساتھ دنیا میں سربلند ہوکر جینے کا طریقہ بھی سکھاتا ہے اور حسنِ کلام کا سلیقہ بھی۔ اہلِ کلام یہ کہتے ہیں کہ اقبالؔ کا کلام بھی ’کلاموں کا بادشاہ‘ ہے۔ مگر اِس کلام سے کچھ سیکھنے کے لیے ’گیسوئے اُردو‘ کی چھاؤں کو تعلیمی اور نشریاتی اداروں تک بڑھانے کی ضرورت پڑے گی۔ پر یہاں تو ’گیسوئے اُردو‘ کی حجامت بنائی جارہی ہے۔ حجاموں کی اکثریت برقی ذرائع ابلاغ پر بیٹھی دونوں قسم کی قینچیاں چلا رہی ہے۔ ان میں شاہی حجام بھی ہیں اور نوکر شاہی حجام بھی۔ شاہی بھی کیا؟ یہ خود کسی ’شاہ‘ سے کم ہیں؟ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ ابلاغ کے بادشاہ اگر ’عوام‘ کو واحد مؤنث قرار دے ڈالیں تو عوام پورے ملک میں ’واحد مؤنث ہوجاتی‘ ہے۔ یہ اگر ’اقدام اُٹھانا‘ شروع کردیں تو حکومت سمیت سب ہی ’اقدام کرنے‘ سے باز آجاتے ہیں۔ ہزار بار ہزار لوگوں کو سمجھایا، مگر کسی کی ’’سمجھ میں نہ آیا‘‘ [کیوں کہ ان اداروں میں کسی کو ’’سمجھ نہیں آتی‘‘] کہ قدم اُٹھایا جاتا ہے اور اِقدام کیا جاتا ہے۔ اِقدام کا مطلب ہے ’پیش قدمی‘۔ اقدام ضد ہے پسپائی کی۔ اور یہ کہ عوام جمع مذکر ہیں، لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس ملک میں صرف عوام پس رہی ہے۔ درست تو یہ ہے کہ اس ملک میں صرف عوام پس رہے ہیں۔ باقی سب بادشاہ ہیں۔ چکی پر بیٹھے عوام کو پیس رہے ہیں۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
پیشِ نظر کتاب کے ہر باب کی ابتدا میں مضامینِ باب کا تعارفی خاکہ لکھا گیا ہے اور ہر باب کے ابتدائی عنوانات قرآنی تعلیمات سے شروع ہوتے ہیں اور باب کے آخر میں خلاصۂ باب موجود ہے۔ فاضل مؤلف نے موزوں اشعار بھی لکھے ہیں تاکہ ذوقیاتِ رسول ﷺ کے بیان میں کلامی تزئین کا عنصر شامل ہوجائے۔ کتاب کے آخر میں ماخذ و مراجع درج ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے سیرتِ نبویﷺ کے ضمن میں نئے مضامین سامنے آتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ
حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اِک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے
فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
اگر غلط ہے مگر دین سے متعلق نہیں تو خاموش رہو) (إحیاء علوم الدین،دار المعرفۃ، بیروت، ج۳، ص۱۱۷)، یعنی اگر دین سے متعلق ہو تو صحیح بات کو سامنے لانا ضروری ہوگا لیکن نیک نیتی سے صرف کوشش کی جائے گی، ڈنکے کی چوٹ پر خم ٹھونک کرسامنے والے سے منوا لینا ضروری نہیں، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا قول ہے: "لا تمار أخاك فإن المراء لا تفهم حكمته، ولا تؤمن غائلته، ولا تعد وعداً فتخلفه" (اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو؛اس لیے کہ جھگڑے میں اچھی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی، اس کے شر وفساد سے اطمینان نہیں کیا جاسکتا، اور جھگڑا نہ کرنا ایسا بھی نہیں کہ تم نے کوئی وعدہ کیا تھا جس کو توڑ رہے ہو )(جامع الأصول، ابن الأثير، الكتاب الثاني من حرف الجيم في الجدال والمراء، حدیث نمبر: ۱۲۶۲)حضرت ابو درداءؓ کا قول بھی اسی حکمت کی تائید کرتا ہے: "لا تكون عالماً حتى تكون مُتعلِّماً، ولا تكون بالعلم عالماً حتى تكون به عاملاً، وكفى بك إثماً أن لا تزال مخاصماً، وكفى بك إثماً أن لا تزال ممارياً، وكفى بك كذباً أن لا تزال محدثاً في غير ذات الله" (تم عالم نہیں بن سکتے جب تک کہ تم متعلم (سیکھنے والے) نہ بنو، اور علم کے ذریعہ عالم نہیں بن سکتے جب تک کہ اس پر عمل نہ کرو، تمہارے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ جھگڑالو بنے رہو، اور تمہارے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ مباحثوں میں پڑے رہو، اور تمہارے جھوٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ تم ہمیشہ ذات باری تعالی کو چھوڑ کردوسرے موضوعات پرباتیں کرتے رہو) (سنن الدارمي، كتاب العلم، باب من قال: العلم الخشية وتقوى الله، دار البشائر، بیروت، ص۱۵۷)۔
سچی بات یہ ہے کہ بحث ومباحثہ ایک ایسا زہر ہے جو انسان کو حقیقی علم اور حکمت سے دور کر دیتا ہے، ایک عالم کی زبان میں شائستگی اور گفتگو میں عاجزی ہونی چاہیے، آج کے دور میں، جب باتوں کو رد counter کرنے کا کلچر عام ہو چکا ہے، ہمیں سلف صالحین کے ان اقوال سے رہنمائی لینا چاہیے، علم کا مقصد دلوں میں محبت پیدا کرنا اور دانش وحکمت کو فروغ دینا ہے، نہ کہ بے جا بحث ومباحثہ میں الجھ کر اپنی علمی چابک دستی intellectual prowess کا اظہار کرنا، علم و دانش وہ زیور ہے جو انسان کو بہتر انسان بناتا ہے اور اسے دوسروں کے لیے آسانیاں فراہم کرنے والا بناتا ہے، ہمیں چاہیے کہ اپنی گفتگو کو حکمت، سچائی اور اخلاص سے مزین کریں، اور اپنے دلوں میں دوسروں کے لیے محبت اور شفقت کے چراغ روشن رکھیں، یہی علم کی اصل روح ہے اور یہی حقیقی کامیابی کا راز بھی، اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
2024-11-08 - أمثال_العرب _ العين بصيرة واليد قصيرة - قصة هذا المثل العربي الشهير!! - 25
Читать полностью…انتخاب مطالعہ/ ۲۱۵
انتخاب: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
تحریر: مولانا حفیظ الرحمن عمری
شیخ ناصر الدین البانی
مہینہ اور سنہ تو مجھے یاد نہیں، تاریخ اور دن بھی اس وقت ذہن میں نہیں، وہ جنوری ۱۹۶۲ء کا کوئی خوش گوار دن تھا، صبح بڑی سہانی تھی، ملک شام کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی ہوائیں ہڈیوں سے مزاج پرسی کر رہی تھیں، ہم کچھ ساتھی دھوپ سینکنے کے لیے درجے سے نکل کر برآمدے میں ٹھہرے ہوے تھے، دور سے ایک نئی شان دار (Opel) کار آئی اور درجے سے ذرا فاصلے پر رک گئی، جو شخصیت اس کار کو چلاتے ہوے آئی وہ بڑی دیدہ زیب تھی، قد و قامت بلند و بالا ، لباس پوشاک عربی مگر اس پر طویل اوور کوٹ (Chester)، جس میں بڑی بڑی بھری بھری جیبیں، چال ڈھال میں تمکنت تھی اور رفتار بڑی باوقار ، جب وہ شخصیت قریب آتی گئی تو اس کے خدو خال زیادہ نمایاں اور واضح ہوتے چلے گئے، سفید ڈاڑھی، بڑی بڑی مونچھیں، سرخ و سپید رنگت، نیلی آنکھیں تبسم برلب، ہمارے پرانے ساتھی انھیں دیکھ کر درجے میں داخل ہو گئے، ہم نئے ساتھی حیرت و استعجاب کی تصویر بنے انھیں دیکھتے رہے، ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون ہو سکتے ہیں، ہر طرح سے وہ انگریز ہی لگ رہے تھے، جب وہ بھی درجے میں داخل ہوئے تو ہم ان کے پیچھے داخل ہو گئے، ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب وہ استاد کی کرسی سنبھال کر خالص عربی لہجے میں خطبہ مسنونہ پڑھنے لگے، خطبے کے بعد اپنی بڑی بڑی جیبوں سے کتابیں نکالنا شروع کیں، کسی میں بلوغ المرام تھی، کسی میں سبل السلام اور کسی میں بہت سارے نوٹس، اس دوران ہم نے اپنے ساتھیوں سے اشاروں میں دریافت کیا تو پتا چلا کہ یہی ہمارے حدیث کے استاذ ہیں، جن کا نام نامی ہے: شیخ ابو عبد الرحمن محمد ناصر الدین الالبانی، اور جنھیں علمی دنیا ”ناصر السنہ“ کہتی ہے,
یہ تھا پہلا دیدار اس عظیم ہستی کا۔ ۱۹۹۹ء میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے میرے اچھے اساتذہ میں سے یہ بھی ایک عظیم اور نا قابل فراموش استاذ تھے، جن کی باتیں اور یادیں میرا سرمایۂ حیات ہیں۔
ہوش سنبھالنے کے بعد شیخ نے اپنے والد محترم سے گھڑی مرمت کرنے کا کام سیکھ لیا، جو مستقبل میں آپ کا مستقل ذریعہ معاش ثابت ہوا، خود فرمایا کرتے تھے:
*اللہ تعالیٰ نے مجھ پر دو بڑے احسان کیے، ایک میرے والد کا ملک شام کی طرف ہجرت کرنا، جس کی وجہ سے میں نے عربی زبان سیکھی ، اور دوسرے: میرے والد کا مجھے گھڑی مرمت کا ہنر سکھانا ، جس کی بدولت علوم کتاب وسنت کے لیے وقت نکالنا میرے لیے آسان ہو گیا“۔*
آپ کا وجود علمی سرمایہ ہی نہیں عمل و اخلاق کا سراپا تھا، بہت ساری پند و نصائح میں ایک بات یہ بھی فرماتے کہ حالات جیسے بھی ہوں، مومن کو شکوہ کی جگہ شکر ہی کا پہلو تلاش کرتے رہنا چاہیے، طلبہ نے پوچھا بھی: کیا یہ ہر حالت میں ممکن ہے؟ فرمایا: تجربہ کرکے دیکھو۔ بات آئی گئی۔ ایک رات جامعہ کے لکچر ہال میں طلبہ، اساتذہ سب تھے، کیمپس کے باہر وادی عقیق کے پل پر زور دار دھماکے کی آواز آئی، گھبرا کے سب دوڑے، دیکھا تو شیخ البانی کے صاحب زادے عبدالمصور کی کار حادثے کا شکار ہو گئی تھی، کار کا حال ابتر تھا، لڑکے کا حال بہتر تھا، مصاحبین نے شیخ سے افسوس کا اظہار کیا تو آپ نے اپنی وہی پرانی بات دہرائی کہ شکر کا پہلو دیکھو، بچہ ہر طرح محفوظ ہے، اللہ کا بڑا شکر ہے، ساتھیوں میں ایک نے پوچھ ہی لیا کہ بچہ بھی ختم ہو جاتا تو شکر کا پہلو کہاں؟ سوال سخت بھی تھا اور نا معقول بھی، مگر شیخ کا فوری جواب سنیے، فرمایا:*” بچے کو بھی کچھ ہو جاتا تو میں شکریہ ہی ادا کرتا کہ لکچر ہال میں میرے تین بچے تھے، صرف ایک کے ساتھ حادثہ ہوا اور دو کو اللہ نے بچالیا* ایمان و عمل کا یہ نمونہ اور فکر و نظر کا یہ احساس و انداز کتنے اہل علم کی زندگیوں میں جھلکتا اور چھلکتا ہوگا۔
طلبہ آپ سے بہت مانوس تھے اور آپ کو تھوڑی دیر بھی تنہا نہیں چھوڑتے تھے، ہمیشہ کسی نہ کسی حدیث پر گفتگو چلتی ہی رہتی تھی، تین سال کی بھر پور اور نا قابلِ فراموش خدمات کے بعد شیخ دمشق واپس جارہے تھے، ہم لوگ رخصت کرنے گئے، وہی مانوس و متبسم چہرہ، حزن و ملال اور فکر مآل کا کوئی اثر نہیں ہے۔
نہ گلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایتِ زمانہ
پوچھا: واپس پہنچ کر کیا کریں گے؟ فرمایا: وہی جو یہاں آنے سے پہلے کرتا تھا، آنے سے پہلے کیا کرتے تھے؟ فرمایا: *” گھڑی کی میری ایک چھوٹی دکان ہے، سویرے پہنچ جاتا ہوں، دو تین گھڑیاں آجاتی ہیں تو مرمت کر کے پیسے گھر بھیج دیتا ہوں اور دمشق کی مشہور زمانہ مخطوطات کی لائبریری مکتبہ ظاہریہ کا رخ کرتا ہوں*
خود علامہ اقبال نے اپنے اس استفادہ کا ان ہی خطبات میں برملا اعتراف کیا ہے.
*لاہور بلانے کی کوشش*
۱۳۴۵ھ میں جب حضرت علامہ انور شاہ بعض اختلافات کی بناء پر دارالعلوم کی صدارت عظمیٰ سے مستعفی ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گوشہ نشینی کا ارادہ فرما چکے تو علامہ اقبال نے انہیں لاہور بلانے اور لاہور کو ان کے درس قرآن و حدیث کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کی بہت کوشش کی، ادھر لاہور میں آپ نے علامہ انور شاہ کے شایان شان ان کے قیام کے انتظامات کئے اور ادھر دیوبند آپ علامہ انور شاہ کشمیری سے خط و کتابت کرتے رہے، انہیں دنوں آپ نے مولوی سعید احمد مدیر برہان دہلی سے مزاح و ظرافت کے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا تھا کہ دارالعلوم دیوبند سے اختلاف رہنے میں ہمارا فائدہ ہے کہ ہم حضرت شاہ صاحب کو لاہور لا سکتے ہیں، اس لئے بعض وقت تو یہ جی چاہتا ہے کہ علامہ انور شاہ کا یہ اختلاف باقی رہے (بحوالہ مہاجر مرحوم دیوبند، سالگرہ نمبر) جہاں تک یاد پڑتا ہے حضرت علامہ انور شاہ کے لاہور جانے کی یہ تحریک بہت حد تک کامیاب ہوچکی تھی اور لاہور کے ارباب عزت و اقتدار کے سامنے صرف حضرت شاہ صاحب کی وجہ سے ایک معیاری مذہبی یونیورسٹی کے قیام کی تجویزیں زیر غور و زیر عمل تھیں، مگر یکایک علاقہ بمبئی کے ایک ذرا سے گائوں "ڈابھیل" کی قسمت کا ستارہ چمکا اور حضرت شاہ صاحب کثیر التعداد طلبائے علوم الٰہی کے ساتھ ڈابھیل تشریف لے گئے.
*ان تعلقات کے نتائج*
ان تعلقات کا سب سے زیادہ مفید نتیجہ تو یہ پیدا ہوا کہ ڈاکٹر اقبال قادیانیت کے فتنۂ عظیم کے مفاسد و مکائد سے مطلع اور ان کی بیخ کنی کے لئے عملاً آمادہ ہوگئے. حضرت علامہ انور شاہ اس فتنہ کے تردید و ابطال کو اپنی زندگی کا مشن اور اپنا ایک عظیم و کبیر فرض سمجھتے تھے. انہوں نے ڈاکٹر اقبال کو بھی اسی رنگ میں رنگا اور پھر اقبال مرحوم نے اپنی تحریر و تقریر اور اپنی صحبتوں میں اپنے حکیمانہ انداز میں اس فتنہ کی چھپی ہوئی برائیوں کو یوں بے نقاب کرنا شروع کردیا کہ "بہشتی مقبرہ" میں دبی ہوئی مرزا غلام احمد کی بوسیدہ ہڈیاں بھی چٹخ اٹھیں. یہ علامہ انور شاہ ہی کا فیض نظر تھا جو "نبوت" کے سلسلہ میں ڈاکٹر اقبال کو یہ افکار عمیق، یہ لذت گفتار اور انداز بیان کی چبھن نصیب ہوئی، "ضرب کلیم" میں فرماتے ہیں:
میں نہ عارف نہ مجدد نہ محدث نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام
ہاں مگر عالم اسلام پہ رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پہ ضمیرِ فلکِ نیلی فام
عصر حاضر کی شب تار میں دیکھی میں نے
یہ حقیقت کہ ہے روشن صفت ماہِ تمام
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
آج سے چار پانچ سال پہلے ہندوستان کی اسلامی دنیا مذہبی احساس اور سیاسی شعور کی جس منزل پر کھڑی تھی اب وہ اس سے بہت دور ہے، جو حضرات ایک زمانہ میں قادیانیت کی تردید کے لئے بیش قیمت خدمات انجام دے رہے تھے، اب انہیں بھی سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے فرصت نہیں، مگر حضرت علامہ انور شاہ اور علامہ اقبال اس سلسلہ میں جو کام کر گئے ہیں وہ اپنی جگہ بہت قابل قدر اور ناقابل فراموش ہیں.
قادیانیت کے ان جھگڑوں سے قطع نظر، علامہ کشمیری کی روحانی طاقت نے اقبال مرحوم کی ساری زندگی کو شرابِ الست کی مستی، مجاہدانہ حرارت اور ایک سوزِ دروں سے معمور کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جن لوگوں نے اقبال مرحوم کے سارے کلام کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے وہ مانتے ہیں کہ اقبال کے دل میں ابتداء سے اسلام کی لگن اور ان کی شاعری میں شروع سے زندگی کے دریا میں کودے ہوئے مسلمان کے لئے نہنگ و طوفان کے خوف اور تلاطم و تموج کے ڈر سے بے پروا ہوجانے کا حیات افروز پیام تھا، مگر خود ان کی خاک میں چھپے ہوئے شرارہ کو جس شخص نے علم و عمل کی پھونکوں سے بھڑکایا، ان کی نگۂ بصیرت کو شوخی نظارہ اور ان کے فلک رس تخیل کو عرش پیما پرواز کی قوت دی وہ حضرت علامہ انور شاہ ہیں، اقبال مرحوم کی فارسی تصانیف کو جانے دیجئے کہ انہوں نے عام ہندوستانیوں میں زیادہ مقبولیت نہیں پائی مگر یہ "بانگِ درا"، "بالِ جبریل"، "ضربِ کلیم" تو آپ کے سامنے ہیں انہیں دیکھ کر فیصلہ کرلیجئے کہ اقبال کے کمالات شاعری میں درجہ بدرجہ کس قدر حیرت انگیز اضافہ ہوتا گیا ہے.
بانگ درا میں وہ ایک کامیاب شاعر اور کسی حد تک قومی اورمذہبی رہنما ہیں. پھر بال جبریل میں ان کی حیثیت پہلے سے کہیں بلند، ان کا انداز خالص الہامی، ان کی آواز صرف حجازی اور ان کی حکمت و قابلیت شباب کے راستہ پر آلگے ہیں اور ضرب کلیم نام ہے ان کے ان سارے کمالات کی حیران کن معراج کا.
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۲۰
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی حالات سے ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر آیا کہ مولانا نے اسرائیلیات اور اس کے متعلقات کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔مولانا کی تفسیر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ جوں جوں تفسیر کا مطالعہ کریں،قاری کو نئی نئی معلومات ملتی ہیں۔اب اس اقتباس ہی میں غور فرمائیں ہم ہمیشہ سے یہ سمجھتے رہے کہ سنہ عیسوی کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ہے،یہ بات تفسیر ماجدی کے ذریعے پہلی بار علم میں آئی کہ سنہ عیسوی جو اس وقت رائج ہے خود اسی تقویم کے قائم کرنے میں شروع ہی سے غلطی رہ گئی اور اس کا پتہ بعد کو چلا، چنانچہ سنہ عیسوی کا پہلا سال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سالِ ولادت نہیں، آپ کی ولادت کے چوتھے سال سے یہ سنہ جاری ہوا ہے ۔
انشائے ماجدی
”حضرت عیسی علیہ السلام ابن ِمریم بجائے والد کے اپنی والدہ کی جانب منسوب ہیں ،بنی اسرائیل کے آخری اور مشہور نبی ہوئے ہیں ۔آپ پر سلسلہ اسرائیلی رسالت کا بلکہ قومی و نسلی رسالت کا ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ ولادت صوبء یہودیہ( ملک شام) کے قصبہ بیت اللحم یا بیت المقدس میں حاکم شام ہیرود کے زمانے میں ہوئی۔ شام اس وقت روم کی شہنشاہی کا ایک نیم آزاد علاقہ تھا۔سالِ ولاد ت اغلباً
سنہ ۴ ق۔م ہے۔ یہ بات سننے میں بہت ہی عجیب معلوم ہوگی لیکن اس پر اتنی حیرت نہ کیجیے۔ سنہ عیسوی جو اس وقت رائج ہے خود اسی تقویم کے قائم کرنے میں شروع ہی سے غلطی رہ گئی اور اس کا پتہ بعد کو چلا، چنانچہ سنہ عیسوی کا پہلا سال آپ کا سالِ ولادت نہیں، آپ کی ولادت کے چوتھے سال سے یہ سنہ جاری ہوا ہے ۔آپ کی عمر غالبا ً ۳۳ سال کی تھی اورسنہ ۳۰ عیسوی تھا کہ اسرائیلیوں نے آپ کی تعلیم و تبلیغ سے نہایت درجہ آزردہ ہو کر آپ پر مقدمہ پہلے تو اپنی آزاد و خود مختار مذہبی عدالت میں چلایا اور پھر سرکاری قانون کا بھی مجرم بنا کر رومیوں کی ملکی عدالت میں پیش کیا ۔وہاں سے سزائے مو ت(بذریعہ صلیب) کا حکم صاد ر ہوا۔ کے بعد کیا گزری اس کا ذکر سورہ مائدہ کے تحت میں ان شاءاللہ آئے گا۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اوّل ،صفحہ نمبر۲۶۱)
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في صفة أکل رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 146-142
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
سنوسنو!!
حرمین شریفین سے واپس ہونے والو!
(ناصرالدین مظاہری)
/channel/ilmokitab
مرکز دعا یعنی محل دعا یعنی ایک ایسی جگہ جہاں دعا ہی دعا ہوتی ہیں ،جہاں رونا ہی رونا ہوتا ہے ،جہاں پہنچ کر لوگ خود کو بھول جاتے ہیں ،غیر توغیر ہیں اپنوں کو بھول جاتے ہیں بلکہ اپنے تواپنے ہیں خودکو بھول جاتے ہیں، رشتہ داروں سے ترک تعلق ہوجاتا ہے، بس ایک خدا کی پوجا ایک خدا کی یاد، اسی کا ذکر، اسی کا فکر پیدا ہوجا تاہے۔
آہ!آپ کتنے خوش نصیب ہیں کہ مستجاب الدعوات کی بستی میں مجیب الدعوات کے در اور گھر میں زندگی کے قیمتی اوقات کو مزید قیمتی بناکر واپس آئے ہیں، آپ کے چہرے سے وہاں کا نور محسوس ہوتاہے، آپ کی گفتگو سے وہیں کی یادیں وہیں کے مناظر مسموع ہورہے ہیں آپ کی ایک ایک ادا سے شہر بکہ یعنی شہر مکہ شہر کا مکرم و محترم عکس و نقش دکھائی دیتا ہے۔
اب آپ کی طاعات وعبادات میں مزید لذت و لطف پیدا ہوچکا ہوگا ،آپ کے رو نے اور گڑ گڑانے کی عادت میں مزید پختگی اور شگفتگی آگئی ہوگی؟ آپ کے معاملات اور معمولات میں مزید درستی اور چستی پیدا ہوگئی ہوگی۔
آپ وہاں سے آئے ہیں جہاں نبیوں نے آنسو بہائے ہیں ،جہاں تمام انبیاء نے سر جھکائے ہیں ،جہاں کفر کی ہوا ،شرک کی بو اور نفاق کی جو کا نام ونشان نہیں ہے، ہاں ہاں آپ مکہ مکرمہ یامدینہ منورہ سے آئے ہیں جہاں کوئی منافق نہیں رہے گا جہاں دجال گھس بھی نہ سکے گا تو پھر آپ بڑے بختاور، بڑے سعادت مند اور بڑے خوش نصیب ہیں کہ آپ دنیا بھر کی سب سے مقدس اور مکرم جگہ سے ہوکر آئے ہیں ،آپ کی وہاں کی دعاؤں میں دنیا کا ہر مظلوم یاد رہا ہوگا غازیانِ غزہ کو نہیں بھولے ہوں گے، نونہالان غزہ کی تڑپتی لاشوں کے تصور نے ضرور رُلایا ہوگا، بندگان الہٰی جو قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں اُن کے لئے ضرور ہاتھ اٹھے ہوں گے، پیاری بہنیں جو ارتداد کا شکار ہوچکی ہیں ،ان کے لئے آپ کی ہچکیاں عرش والے رب تک ضرور پہنچی ہوں گی؟ معصوم فرشتوں نے آپ کی ہر دعا پر آمین کہی ہوگی ،آپ نے وہاں بھی سجدے کئے جہاں حضرت آدم علیہ السلام سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام نبیوں نے سجدے کئے ہیں، آپ وہاں دوڑے ہوں گے جہاں امی ہاجرہ نے دوڑ لگائی تھی ،آپ نے وہ پہاڑ بھی دیکھا ہوگا جو دنیا کا سب سے پہلا پہاڑ کہلاتا ہے، وہاں بھی گئے ہوں جہاں سب سے پہلے قرآنی آیات نازل ہوئی تھیں اور وہاں بھی گزر ہوا ہوگا جہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار سے بچنے کی خاطر پناہ لیتے تھے۔
واہ واہ مکہ مکرمہ اور آہ آہ مدینہ:
اک طرف مکہ کی سرحد اک طرف شہرِ نبی
کاش ہوتا میرا گھر آدھا اِدھر آدھا اُدھر
وہاں سے واپس آنے والے بندوں سے دعائیں لینی چاہئیں کہ وہ ایسی بابرکت جگہ سے آئے ہیں جہاں کا ایک ایک لمحہ نور سے معمور ہوتا ہے، آپ معتمرین کے پاس صرف دعا لینے کے لئے جائیں ،دنیوی لالچ اور منفعت کے لئے نہیں، ہدایت حاصل کرنے جائیں ہدایا کے لئے نہیں، سنت کے احیاء کے لئے جائیں بازاروں بازاری باتوں کے لئے نہیں۔
اس بابرکت سرزمین سے آنے کے بعد آپ کی حالت پہلے سے بالکل بدل گئی ہوگی،ہمیں یقین ہے کہ حجر اسودجوایک کسوٹی ہے اس کے بوسے اوراستیلام سے آپ کے دل کی دنیا تبدیل ہوگئی ہوگی،میں کامل وثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ آپ ہرقسم کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے پاک وصاف ہوچکے ہیں،آپ ایسے واپس لَوٹے ہوں گے جیسے نومولودبچہ بوقت ولادت ہوتاہے۔
اس لئے اب آپ کی ذمہ داریاں بڑھ چکی ہیں،بہت سی پابندیاں آپ پرعائدہوچکی ہیں،آپ اپنی ذات سے لوگوں کودینی نفع پہنچانے کی کوششیں پہلے سے تیزکردیجئے۔
بہت سے لوگ ہیں جوآپ سے تعلق رکھتے ہیں اوربہت سے لوگ ہیں جن کوآپ سے کوئی تعلق نہیں ہے سب سے پہلے آپ اپنے قریب والوں کودین کی طرف لائیے،ان کے ڈگمگاتے قدموں کوثبات اور استحکام پہنچانے کی کوشش کیجئے، اسلام کو اس کی اصل شکل میں دل ودماغ کے ساتھ قبول کیجئے،اپنے دلوں میں بھی اوردوسروں کے قلوب واذہان میں بھی اسلام کی حقانیت ،اسلام کی شفافیت ،اسلام کی برتری اوراسلام کی تعلیمات اسوۂ رسول کے مطابق پہنچانے کے لئے قدم بڑھایئے ۔
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسی دنیا میں کوئی اور سرزمین نہیں ہے ،دیکھئے عیسائی ہرسال ایک جگہ جمع نہیں ہوتے، ہنودکے ہزاروں مراکز عبادت ہیں،یہود توخود اب تک ذلت وخواری کی مہریں اپنی پیشانیوں اوراپنی تقدیر پر لگوائے کاسۂ گدائی لئے پھررہے ہیں،بودھ دھرم کی بھی یہی حالت ہے لیکن اسلام کواللہ تعالیٰ نے یہ تفوق بخشاہے کہ وہ ایام حج میں دنیابھرکے گوشوں، قریوں، بستیوں، اوبڑ کھابڑ زمینوں، پہاڑیوں، ریگستانوں اور بیانوں سے کشاں کشاں اس ارض مقدس پہنچے ہیں ،جہاں صرف ہاتھ ہاتھ ہی سے نہیں ملتے دل بھی ملتے ہیں ، فکر ملتے ہیں، سینے ملتے ہیں اوراس طرح قولِ حق برحق دکھائی دیتاہے، سنائی دیتاہے: وأذن فی الناس با الحج یأتوک رجالاوَّعلی کل ضامریأتین من کل فج عمیق۔
دل ان کا سہارا ہوتا ہے
اور دور کنارا ہوتاہے
آپ علامہ اقبال کی شاعری کے بڑے معترف تھے، سلاست و فصاحت لسانی میں وہ اقبال کو غالب سے کم نہیں مانتے تھے، اس کی ان کے پاس دلیلیں بھی تھیں، وہ اس کے شواہد میں اقبال کے اشعار کی تشریح بڑی باریک بینی سے کرتے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تحفظات کے بغیر اقبال کے افکار کو قبول کرتے ہوں، ایک مرتبہ میں نے اقبال کے عقیدہ آخرت کے سلسلے میں مشہور مصری محقق ڈاکٹر محمد البھی کے اعتراضات کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اقبال کی شاعری پڑھنے کی چیز ہے۔نثر نہیں، اسی طرح میں نے اس بات پر رنج کا اظہار کیا کہ اقبال نے آخری عمر میں تشکیل الہیات جدید ہ کا جو پروگرام شروع کیا تھا اس کی تکمیل کا موقع انہیں ملتا تو بہت بڑا کارنامہ ہوتا، کہنے لگے کہ اللہ کی ذات بڑی حکمت والی ہے ، وہ علامہ اقبال اور مولانا ابو الکلام آزاد کے اچھے کاموں کی عزت باقی رکھنا چاہتے تھے، ان دونوں شخصیات کا امت اسلامیہ میں جو مقام تھا اس کی وجہ سے اقبال کا تشکیل الہیات جدیدہ کا پروجکٹ اور مولانا آزاد کی ترجمان القرآن مکمل ہو جاتے تو ان میں جو فکری انحراف پایا جاتا ہے وہ مستند ٹھہرتا اور عام ہو جاتا ، یہ دونوں مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان میں موجود افکار پر زیادہ تو جہ نہیں دی گئی۔ اور ان دونوں سے خیر ہی خیر پھیلا، آج ہم علامہ اقبال کے فرزند جاوید اقبال کو اپنے والد ماجد کی طرف منسوب جن افکار و خیالات کا، اپنے والد کی طرف منسوب کرتے ہوئے سنتے ہیں تو مولانا کی آج سے تیس سال قبل کہی ہوئی بات کی سچائی کا احساس ہوتا ہے۔
آپ نے اساتذہ کے لئے بعد نماز عصر امام غزالی کی احیاء العلوم کا درس شروع کیا تھا، مولانا کی یاد آتی ہے تو جامعہ آبادکے ابتدائی درو بام کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے، ہوسٹل کی عمارت ابھی آدھی کھڑی ہے،کل دو کمرے ، ایک آفس اور مطبخ، ہوسٹل کی خالی بنیادوں پر جھاڑ پھونس کے بنے چند درجات، ایک مختصر سی مسجد، سامنے چار کمرے وہ بھی نامکمل ۔ایک ملبہ نما پرانا گھر ، آٹھ ایکڑ پر پھیلے جامعہ آباد کی یہی کل کائنات تھی۔ ابھی شہر تک پختہ سڑک کہا ں بنی تھی۔ بس اور رکشا کا آنا جانا کیسے شروع ہوتا۔ جمعہ کے روز علی الصبح مولانا کبھی تنہا کبھی ایک دو مقیم اساتذہ کے ساتھ تیار ہو کر بھٹکل کے لئے نکلتے۔نماز جمعہ اور عصر درس قرآن کے بعد نور مسجد کے پاس آتے ،یہاں کبھی شکا کائی کے گھنیرے درختوں کے زیر سایہ سستانے کے لئے منڈیریں بنی ہوئی تھیں۔ طلبہ جامعہ جمعرات کی شب اپنے گھروں میں گذار کر عصر کے بعد یہاں جمع ہونا شروع ہو جاتے۔ یہاں سے مولانا کی قیادت میں پیدل قافلہ جامعہ آباد کے لئے روانہ ہوتا، نوائط کالونی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی جاتی، پھر قافلہ چل پڑتا ۔ جامعہ آباد پہنچ کر عشاء کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ،اسکو ٹروں کاروں اور وینوں کی ریل پیل میں وہ دن اب خواب ہو کر رہ گئے۔
مولانا کا معمول تھا کہ جب جامعہ آباد آغوش خواب میں گم ہو جاتا تو رات کی تنہائی میں مسجد میں عبادتوں میں مگن ہو جاتے،جب مولانا اچانک جامعہ سے جدا ہو گئے تو ایسے مناظر بار بار دیکھنے میں آتے تھے کہ آپ کے کسی چہیتے شاگرد یا ساتھی کا رات کی تنہائی میں مسجد کے پاس سے گذر ہوتا تو عجیب رقت و حسرت ویاس طاری ہو جاتی اور ماحول افسردہ ہو جاتا۔
۱۹۷۷ء میں مولانا دارالعلوم ندوۃ العلماء سے وابستہ ہوئے،بھٹکل سے جانے کے بعد مولانا کا جماعت اسلامی کے نظم سے بھی تعلق ختم ہو گیا۔ مولانا نے بھٹکل چھوڑنے کے بعد ربع صدی گذرنے کے باوجود کبھی یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ وہ بھٹکل کو بھول گئے ہوں،یا جامعہ کے فارغین سے محبت میں کوئی کمی آئی ہو، وہ ہمیشہ زائرین بھٹکل پر اپنی محبتیں نچھاور کر تے رہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مسجد کے سامنے کنویں کی منڈیر،عصر کے بعد آپ کی ملاقاتوں کا مرکز تھی۔ اب ندوہ میں نہ وہ کنواں رہا نہ جامعہ میں وہ قدیم چھوٹی سی مسجد، اب تو جامعہ آباد بھی شہر بھٹکل کا ایک محلہ بن رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کے باوجود مولانا کے چاہنے والوں کے دل میں جو جگہ تھی وہ تو آنکھ بند ہونے تک باقی رہے گی۔
ہم خوش قسمت تھے کہ زندگی کے اس مختصر پڑاؤمیں ایسی عظیم شخصیت کی رہنمائی میسر آئی جس نے آنکھوں سے نام و نمودور یا اور خود ستائی کی اہمیت گرا دی، آ پ میں جو خدادادصلاحیتیں،تدبرو باریک بینی کا ملکہ پوشیدہ تھا،ان سے کم تر صلاحیتوں کے مالک شہرت وناموری کے آسمان کو چھورہے ہیں۔ آپ کی تحریر میں بلا کی شگفتگی وبانکپن تھا۔ آپ کے خطوط ادب عالیہ کا بہترین نمونہ بن سکتے ہیں،لیکن اپنے پیر و مرشد مولانا اختر حسن اصلاحی کی طرح آپ بھی وہ مقام اس دنیا میں نہ پاسکے جس کے بجا طور پر اس کے وہ مستحق تھے لیکن شہرت و ناموری تو حقیقی کا میابی نہیں، آپ نے جو چراغ جلائے تھے ان کی لو تو ابھی روشن ہے، میدان کا رزار میں فتح تو دراصل گمنام سپاہی ہی دلاتا ہے۔
ایمرجنسی کا واقعہ ہے، جماعت اسلامی کے تمام اراکین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا، مولانا آخر سنت یوسفی سے کیسے بچتے ، آپ پر بھی مقدمہ چلا، آنے جانے کا آٹھ آٹھ دن کا سفر طے کرکے بھاگلپورپیشی کے لئے جاتے، اس وقت عام طور پرجماعت کے تئیں مسلمانان ہند کے جذبات ہمدردانہ تھے۔مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن ندویؒ نے حکومت کے اس ظلم سے دل برداشتہ ہو کر سرکاری ایوارڈ واپس کر دیا تھا، اور آپ نے کئی ایک گرفتار شدگان کی کفالت بھی کی تھی، اس وقت بازار میں ایک کتاب آئی عنوان تھا ’’فتنہ مودودیت ‘‘یہ کتاب دراصل مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور کے استاد تفسیر مولانا محمدز کریا قدوسی ؒ کے نام شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کا ندھلویؒ کا مراسلہ تھا، جس میں بانی جماعت اسلامی کے افکار و خیالات پر اعتراضات تھے۔ ہوا یوں کہ ہمارے دوست پر وفیسر عمر حیات خان غوری نے آپ کے رسائل کے مجموعہ’’ اسلام کا تصور زندگی‘‘ کی ایک عبارت مجھے پڑھنے کو دی۔ پھر اس میں سے قابل گرفت عبارت کی نشاندہی کرنے کو کہا، کیا پدّی کیا پدّی کا شوربہ میری اس وقت کیا بساط کہ بانی جماعت کی عبارت کی خامیاں تلاش کروں، پھر انہوں نے فتنہ مودود یت میں منقولہ یہی عبارت دکھائی،وہ عبارت ہمیں مکمل نظر نہیں آئی ،اس وقت مجلس اصلاح و تنظیم کی صدیق لائبریری میں ترجمان القرآن کی مکمل فائل موجود تھی۔ وہ میں نے اپنے نام نکالی اور فتنہ مودودیت سے منقولہ عبارتوں کا مواز نہ شروع کیا۔ پھر مولانا سے ناقص عبارتوں کے نقل کے تعلق سے حسب عادت اعتراض جڑ دیا، یہ حالات ایسے تھے کہ اگر مولانا اس کتاب پر اعتراض جڑتے اور اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے تو کچھ بعید نہ تھا ، مولانا نے ہماری فکر کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا،فرمانے لگے کہ اس کتاب میں ایک بات تو یہ ہے کہ ایک ہی مدرسہ کے دو بڑے اساتذہ ایک شیخ التفسیر اور دوسرے شیخ الحدیث کی ۱۹۵۱ء میں ہوئی ذاتی مراسلت ہے، اس درجہ کے دور فیق اپنی مراسلت میں دوسروں کے صفحے کے صفحے اور پوری عبارتیں تھوڑی نقل کریں گے، بلکہ سامنے والے کے معیار کو دیکھ کر اشاروں میں اکتفا کر لیں گے، شیخ الحدیث نے بھی اپنے خط میں اشارے دے دیئے ہیں تاکہ ان کا دوست ضرورت ہو تو اصل کتابیں دیکھ لے یہ خط تھا، کوئی تحقیقی کتاب تھوڑے تھی۔
دوسرے یہ کہ بانی جماعت کی عبارتیں ٹائیفائڈ کی گولی کی طرح ہیں، جس میں بخار ،سردرد، پیٹ درد سبھی بیماریوں کا علاج ہے لیکن بخار یا سر درد کے علاج کا مادہ گولی سے الگ کرنے کو کہا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ مولانا مودودیؒ ایک ماہر صاحب قلم ہیں، ان کی عبارتوں سے قابل اعتراض عبارتوں کو الگ کرنا کو کئی آسان کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی کتاب خطبات سے ایک ایک عبارت کاٹ کر اعتراض کرنا ممکن نہیں،لیکن مولانا نے اس کتاب میں عبادت کا جو وسیع مفہوم لیا ہے وہ درست نہیں۔خطبات کی عبارتوں سے یہ ثابت کرنا کہ مولانا مودودی کے نزدیک عبادت مقصود نہیں وسیلہ ہے آسان نہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقیقت جہاد پڑھنے کے بعد قاری یہ احساس لیکر اٹھتا ہے کہ ارکان خمسہ جہاد قائم کرنے کے لئے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نماز قائم کرنے کے لئے جہاد کیاجاتا ہے نہ کہ جہاد کے لئے نماز، ممکن ہے شیخ الحدیث قدیم طرز کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اردو میں اپنی بات نئے اسلوب سے واضح طور پر بیان نہ کر پائے ہوں ،لیکن عبادتوں میں نماز کے رمز ہونے کی جو حیثیت آپ نے متعین کی ہے وہی درست ہے، مولانا کا خیال تھا کہ مولانا مودودیؒ نے عبادت کے مفہوم کو جو وسعت دی ہے اس کے نتیجہ میں جماعت کے وابستگان میں بدنی عبادات ،فرائض وسنن کی پابندی، تہجد و اذکار کا وہ اہتمام نہیں پیدا ہو سکا جیسا کہ اللہ سے لگاؤ ہونے کے لئے ضروری ہے۔
مولانا پر تعریفی کلمات کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے تھے، اگر ان تعریفی کلمات کی چھینٹیں آپ پر پڑی ہوں تو ان کی اہمیت کم کرنے کا مولانا کا مخصوص انداز سامنے آتا تھا جو آپ کے وابستگان کو بڑا لطف دیتا، مولانا کے دوران اہتمام جامعہ کے ایک اور سر پرست مولانا سید ابرار الحق صاحبؒ خلیفہ حضرت تھانوی وغیرہ کئی ایک اکابر کی بھٹکل آمد ہوئی، مولانا فطری انداز میں ان کی آرام وراحت کا خیال رکھتے،آپ کے دور میں ۱۹۷۶ء میں حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیبؒ سابق مہتمم درالعلوم دیوبند کی بھی آمد ہوئی۔ آپ نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ طلبہ اور حضرات اساتذ کی سادگی اور نمائشی اندازوں سے بے نیازی بلکہ بیزاری جو علم کا پہلا اثر ہے اس جامعہ کیلئے نیک فال اور علوم نبوت کی نشرو اشاعت کی اعلی مثال ہے۔
*مولانا شہباز اصلاحی ---چند یادیں (وفات : مورخہ ۹/ نومبر ۲۰۰۳ء)*
* تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) *
ہم نیکی کے جا نباز سپاہی نیکی کو پھیلائیں گے
ہم مومن ہے ہم مسلم ہیں ہم نیکی پر مرتے ہیں
’’ہماری کتاب‘‘ میں شامل یہ ترانہ تو جامعہ اسلامیہ کے بچے بچے کی زبان پر تھا، لیکن مولانا شہباز اصلاحی کی بھٹکل آمد کے دو سال بعد ہاسن میں منعقدہ اجتماع جماعت اسلامی ہند کے حوالہ سے اخبارات میں مولانا کا نام شہباز ہندی کے طور پر شائع ہوا تو ہم نیاز مندوں کو پتہ چلا کہ اس مقبول عام ترانہ کے خالق کوئی اور نہیں ہمارے مولانا صاحب ہیں۔
نام و نمود، شہرت و ناموری سے کوسوں دور، ٹھوس خدمت کو اپنا شعار بنانے والی یہ عظیم شخصیت ۲؍رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ کی شام عمر کی پچھتر بہاریں اس دار فانی میں گذار کر لکھنو کے ایک اسپتال میں اپنے مالک حقیقی سے جاملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا بہار کے شہرسیوان سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ ہی میں حاصل کی اور شعور کی عمر میں مدرسۃ الا صلاح سرائے میر میں داخلہ لیا،جہاں آپ کو مفسر قرآن مولانا حمید الدین فراہی کے جانشین مولانااختر حسن اصلاحی کی شاگردی ورفاقت نصیب ہوئی،یہاں پر آپ اپنے پیر و مرشد کی خلوت و جلوت کے امین بن گئے۔
فراغت کے بعد آپ یہیں پر تدریس کے ذمہ داری سے وابستہ ہو گئے۔ جماعت اسلامی سے آپ کا تعلق الاصلاح میں داخلہ سے قبل ہی ہو گیا تھا۔ پیرو مرشد کی صحبت نے اس میں پختگی اور توازن پیدا کیا۔یہی وجہ تھی کہ جماعت کے نظم سے وابستگی کے باوجود جماعتی تعصب ،گروہ بندی اور شخصیت پرستی سے ہمیشہ فاصلہ پر رہے، ان حصاروں سے بلند ہو کر ہمیشہ انصاف کی بات کہی، ذاتی وابستگی اور روابط سے اٹھ کر دو ٹوک بات کہنے کی ایسی مثالیں اب خال خال ہی نظرآتی ہیں۔
الاصلاح میں دور ان قیام ہی مولانا شاہ وصی اللہ رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانوی سے رشتہ بیعت وارادت استوار ہوا۔بانی جماعت اسلامی سے عقیدت ووارفتگی اس تعلق میں آڑے نہیں آئی، نہ ہی آخر عمر تک آپ سے محبت میں سر مو فرق آیا۔
مولانا اختر احسن اصلاحی کی رحلت کے بعد مدرسۃ الا صلاح میں جب جماعت اسلامی سے وابستہ اساتذ ہ پر براوقت آیا تو مولانا جلیل احسن ندویؒ اور حبیب اللہ محورانچویؒ کے ساتھ چترپور میں قائم ایک شخصی دینی مدرسہ سے منسلک ہو گئے، یہاں تک کہ جامعۃ الفلاح بلریا گنج ایک چھوٹے مکتب سے ایک دارالعلوم بننے کی راہ پر رواں دواں ہوا تو مولانا اس ادارے سے وابستہ ہو گئے۔
مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادیؒ خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی رحلت کے بعد بیعت وارادت کا تعلق مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ سے قائم ہوا اور آخر تک یہ تعلق قائم رہا۔جماعت اسلامی کے نظم سے بھی آپ کا تعلق ۱۹۷۷ء تک قائم رہا۔ یہ تعلق بھی ایسا تھا کہ آپ کو قریب سے دیکھنے والے اور جماعت کے دیر نیہ کار کن مولانا عبد القدیر اصلاحی (ہاسن) نے ہم سے فرمایا کہ اپنی خدمات و صلاحیت کی بنیاد پر مولانا ابو اللیث اصلاحیؒ کے بعد آپ بجا طور پر امارت جماعت کے اہل تھے۔ کبھی کبھار ہم جیسے کو رعقلوں کو جماعت اور بیعت کے سنگم پر حیرت بھی ہوتی تھی، مولانا سے ہم نے پوچھا بھی کہ کیا جماعت کے نظم سے وابستگی کو ان بزرگوں نے دل و جان سے قبول کیا۔ تو مولانا کا کہنا تھا کہ ان اکا بر کو اختلافات سے سروکار نہیں تھا، ویسے بھی بانی جماعت کے افکار و خیالات کے بارے میں علمائے ہند نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے انہیں جماعت اسلامی ہند پراطلاق کرنا درست نہیں، مولانا عبد الماجد دریابادی جیسی شخصیات جن کی بانی جماعت پرنشترزنی مشہور ہے جماعت اسلامی ہند کی کارکردگی کے تعلق سے ہمیشہ کلمہ خیر کہتے تھے۔
مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی نظر کرم ابتدا سے جامعہ اسلامیہ بھٹکل پر رہی۔ ۱۹۶۷ء میں جامعہ کے اولین مہتمم مولانا عبد الحمید ندویؒ کی سبکدوشی کے بعد جامعہ کی رفتار گویارک سی گئی تھی، ۱۹۷۴ء میں نئی بستی جامعہ آباد میں اس کی منتقلی عمل میں آئی۔ ایک نئے حوصلہ کے ساتھ یہاں سے جامعہ کی اٹھان کے لئے سر پرست جامعہ کی نگاہ اپنے مرید باصفا مولانا شہباز اصلاحی پر پڑی، اور جامعہ نے جامعہ آباد منتقلی سے تھوڑے عرصے پہلے اپنے نئے مہتمم کے ساتھ تعمیر و ترقی کے عہد نو کا آغاز کیا، جو کہ ۱۹۷۷ء تک جاری و ساری رہا، یہ جامعہ کا عہدزریں تھا، تعلیمی و تربیتی نقطہ نظر سے ایسی بہار دوبارہ نہیں آئی۔ اس بہار سے لطف اندوز ہونے کاا س بندہ نا تراش کو بھی موقع نصیب ہوا، جب مولانا نے ’’مدرسہ جمالیہ‘‘ مدراس سے فراغت کے فورا بعد بحیثیت مدرس جامعہ میں میری تقرری کر دی۔ اس طرح دوران تعلیم میں جو نقص رہ گیا تھا مولانا کی سر پرستی میں اس کی بھر پائی کا موقع مل گیا، اس دوران ہم نے وہ کچھ سیکھا ،طالب علمی کے پر ہیجان ماحول میں جن سے محرومی رہی تھی۔
انتخاب مطالعہ/۲۱۶
انتخاب: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
تحریر: مولانا حفیظ الرحمن عمری
*شیخ ناصر الدین البانی(۲)*
ہم شیخ سے ملاقات کی خواہش کرتے تو دوشنبہ کی عصر کا وقت بتاتے، کیوں کہ اس روز حرم نبوی کے کتب خانہ "مکتبہ شیخ الاسلام عارف حکمت" کے لیے چھٹی رہتی تھی، شیخ کی باتیں، یادیں بہت ہیں، ہر ماہ ایک دو بار آپ کی قیادت و اشراف میں طلبہ کے ساتھ آپ کا رحلہ ہوتا تھا، دن رات قریب رہ کر آپ کی ایک ایک نیکی، خوبی، جفاکشی اور طلبہ سے آپ کی محبت و ہمدردی کی زندہ مثالیں دلوں میں نقش ہو جاتی تھیں، آپ البانیہ یورپ کے باشندے تھے، سرخ گال، سفید بال، نیلی آنکھیں، صحت وہمت سے بھر پور تنومند جسم، بڑی جیبوں والا گردن سے پنڈلی تک کوٹ، جس میں چھوٹی موٹی کئی ایک کتابوں کا وزن۔ رحلہ میں ریت اور صحرا میں جہاں بھی، جیسی بھی جگہ مل جاتی آرام سے بیٹھ جاتے، رات آتی لیٹ جاتے، سجدوں میں پیشانی خاک آلود ہو جاتی تو اس کا بھی ایک حسین منظر نکھر کر آجاتا، طلبہ کو فرش خاک میں اٹھنے بیٹھنے میں کچھ تکلف ہوتا تو ناصر السنہ حدیث رسول سنانے لگتے:
*اياك و التنعم، فان عباد الله ليسوا بالمتنعمين (احمد، بیہقی ، حسن ) اللہ کے بندو! عیش و عشرت کے مظاہر سے بچو، اللہ کے محبوب ناز و نعم کے دل دادہ نہیں ہوتے“۔*
شیخ بڑے سادہ مزاج تھے، اونچی تنخواہ ہونے کے باوجود آپ کے رہن سہن اور لباس پوشاک میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ تنخواہ کا ایک حصہ مدینہ کے غریب غربا اور طلبہ میں بڑی خاموشی سے تقسیم کر دیتے تھے، کار کے لیے ڈرائیور بھی نہیں رکھا، خود ہی چلاتے تھے، راستے میں کوئی بھی طالب علم ملتا تو اس کو ضرور اپنی گاڑی میں بٹھا لیتے، ہمیشہ آپ کی گاڑی طلبہ سے بھری رہتی۔
مکتبہ ظاہر یہ ملک شام میں مخطوطات کے عظیم ترین نادر ذخیرے کا مرکز ہے، چوں کہ آپ کے والد کا کتب خانہ آپ کی جولان گاہ کے لیے ناکافی تھا، اس لیے آپ نے مکتبہ ظاہریہ کارخ کیا، دمشق کا یہ مکتبہ آپ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، آپ ہر دن صبح دو تین گھنٹے اپنی گھڑی سازی کی دکان میں کام کرتے، جب گھر کا معمولی خرچ نکل جاتا تو پیسے گھر بھیج دیتے، اور آپ مکتبہ کا رخ کرتے، شروع میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک مطالعے میں مصروف رہنے لگے تھے، آپ کی جاں فشانی اور انہماک دیکھ کر مکتبے کے ذمے داروں نے آپ کے لیے ایک کمرہ مخصوص کر دیا، اور مکتبہ کی چابیاں بھی آپ کے حوالے کر دیں، اس کے بعد آپ بارہ بارہ گھنٹے یہاں مطالعے میں گزارنے لگے۔
علم مخطوطات کتنا مشکل فن ہے، اس کا اندازہ اسی کو ہوگا جو اس میدان میں کچھ شد بد رکھتا ہو، آپ نے یہاں سب سے زیادہ جو پڑھا وہ مخطوطات ہی سے تھا، آپ فرمایا کرتے تھے:
*مخطوطات کے مطالعے کے دوران میرے ساتھ ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ اگر میں بیان کر دوں تو لوگ انھیں کرامات سمجھنے لگیں، کبھی ایسا ہوتا کہ میں کوئی مخطوطہ پڑھتے پڑھتے کسی مشکل لفظ پر رک جاتا، حل کرنے کی کوشش میں گھنٹوں گزر جاتے مگر گتھی نہ سلجھتی، آخر اسی دھن میں گھر جا کر سو جاتا، رات خواب میں مجھے وہ لفظ بتا دیا جاتا، بعض اوقات وہ لفظ صبح میرے ذہن سے نکل جاتا تو دوسرے دن خواب میں مجھ سے کہا جاتا کہ یہ لفظ لکھ لو، تو میں کاغذ پر لکھ کر سوجاتا، صبح جب اپنا لکھا ہوا پا تا تو خود مجھے حیرانی ہوتی کہ کب میں نے اسے لکھا، اور پھر اسی لفظ کے ساتھ پڑھتا اور آگے بڑھتا، اس میں میرا کوئی ہنر یا کمال نہیں، یہ خالص اللہ کا فضل ہوتا۔*
۱۴۱۹ھ / ۱۹۹۹ء کے سال رواں میں مؤسسة الملك فيصل الخيرية “ نے خدمات حدیث پر شاہ فیصل ایوارڈ کے ذریعے آپ کو اعزاز بخشا مگر شیخ اس اعزاز واکرام سے بہت بلند و بالا اور بے نیاز تھے، اس ایوارڈ سے آپ کی شخصیت میں مزید اضافہ تو نہیں ہوا، البتہ ایوارڈ کو اس کا ایک صحیح حق دار دارمل گیا۔ میں یہ بات اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ آپ سے پہلے دکتور محمد مصطفیٰ اعظمی (استاذ جامعة الامام محمد بن سعود، ریاض) جنھیں حدیث نبوی کو کمپیوٹریز کرنے پر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا، تو انھوں نے اس خوشی کے موقع پر بڑے درد سے کہا تھا کہ *یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مجھے حدیث نبوی کی معمولی خدمت پر انعام دیا جا رہا ہے، جب کہ ایک بے مثال و بے نظیر حدیث نبوی کا ماہر اس روے زمین پر موجود ہے۔*
شیخ البانی طویل عرصے سے بیمار تھے۔ آخر ۲۲ / جمادی الاخری ۱۴۲۰ھ / ۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو مالک حقیقی سے جاملے۔ تدفین شہر عمان میں عمل میں آئی۔ آپ کی موت معمولی انسان کی نہیں، بلکہ:
سورج کی موت، چاند ستاروں کی موت تھی
وہ ایک کی نہیں تھی ، ہزاروں کی موت تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اساتذہ/۱۵۷. ۱۶۵
/channel/ilmokitab
آؤ ! سنیں ہمارے نبی ﷺ کیسے تھے؟
سلسلۂ آڈیو بک
کتاب کا نام : الشمائل المحمدیۃ (از : امام ترمذی رحمہ اللہ)
باب ما جاء في عیش رسول الله ﷺ
روایت نمبر : 141-139
عربی متن آڈیو ماخوذ از: Islamway.net
اردو ترجمہ: محمود الخصائل (از حضرت مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ)
پیش کش : دارالحمد اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، سورت
*غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ منہ میں مانگے کی زباں... احمد حاطب صدیقی*
ایک عربی مقولہ ہے:’’النّاسُ عَلیٰ دِینِ مُلُوکِھِم‘‘(لوگ اپنے ملوک کے طریقے پرچلتے ہیں)
اب ملوک تو رہے نہیں۔ بچے کھچے کچھ رہ بھی گئے ہیں تو وہ ملوک کم اور ’غلام‘ زیادہ ہیں۔ مگرصاحب! ملوکیت خوب پھل پھول رہی ہے۔ جو بندہ جس جگہ ہے وہیں بادشاہ ہے۔ کہنے کو یہ سلطانیِ جمہور کا زمانہ ہے مگرجمہور ہر جگہ مقہور ہیں۔ ایک سے ایک ’قاہر‘ جمہوریت کا ماہر بن کر ہمارا سلطان بنا بیٹھا ہے۔ ہر ’جمہوری بادشاہ‘ چاہتا ہے کہ باقی سب بادشاہ بس اُسی کی بادشاہی کے آگے سر جھکائیں۔ اقبالؔ تو اِس جمہوری تماشے کو ’دیوِ استبداد کی پاکوبی‘ ہی قرار دیتے رہے، ایسے دیوکا رقص، جو جمہور کی کمائی بالجبر ہتھیاکر خود ہڑپ کر جاتا ہے، وہ کہتے ہیں:
مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
کسان کے کھیت کی پیداوار کھا جانے والا ہی ’سلطان‘ ہے، خواہ یہ’کھاؤ ُ پیر‘ خسرو پرویز جیسا قاہربادشاہ ہو یا ’مجلسِ ملت‘ (پارلیمنٹ) جیسا قہرمان ’جمہوری ادارہ‘۔ حاصل کلام یہ کہ … ’وہ تیری صف میں ہو یا میری صف میں … مَیں ہر ظالم پہ لعنت بھیجتا ہوں‘۔
ملوک کا ذکر آہی گیا ہے تو کالم کی مناسبت سے ’کلامِ ملوک‘ کا بھی کچھ تذکرہ ہوجائے۔ عربی کا ایک اور مقولہ ہے: ’’کَلامُ المُلوک مُلوکُ الکلام‘‘۔ ’بادشاہوں کا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے‘۔ مگر ہمارے بادشاہ تو عجب بادشاہ ہیں۔ خواہ وہ حکومت کے بادشاہ ہوں، سیاست کے بادشاہ ہوں، صحافت کے بادشاہ ہوں یا سمعی و بصری ابلاغیات کے بادشاہ… ہمارے زمانے میں سب سے پست اور سب سے ناقص کلام اِنھیں بادشاہوں کا ہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں بادشاہت کے منصب پر فائز ہونے والے حسنِ کلام کا بہت خیال رکھتے تھے۔ یہ احساس رکھتے تھے کہ ان کا مقام بلند ہے، لہٰذا ان کا کلام بھی بلند ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے ہاں بھی ‘King’s English’ مثالی اور معیاری انگریزی مانی جاتی تھی۔ سرکار دربار میں قواعد و اِنشا ہی کا نہیں، لب و لہجے کا خیال رکھنا بھی آدابِ شاہی میں داخل تھا۔ برطانیہ کا چار بار وزیراعظم رہنے والا ولیم ایورٹ گلیڈ اسٹون اپنے وقت کا بہترین خطیب اور صاحبِ علم شخص تھا۔ جب وہ ملکہ وکٹوریہ سے تنہا ملاقات کے لیے جاتا تو ملکہ سے خوشامدانہ لہجے کے بجائے اپنے مخصوص عالمانہ اور خطیبانہ لہجے میں گفتگوکیا کرتا۔ اس پر ملکہ نے جو دلچسپ شاہانہ تبصرہ کیا وہ آج بھی ضرب المثل بنا ہوا ہے:
“He speaks to Me as if I was a public meeting.”
’’وہ مجھ سے ایسے خطاب کرتا ہے ، جیسے میں کوئی جلسۂ عام ہوں‘‘۔
جلسۂ عام سے خطاب کرنا ہو تو ہمارے سب بادشاہ اُردو بولنے لگتے ہیں،چاہے آئے یا نہ آئے۔ ورنہ وطنِ عزیز کے بگڑے بادشاہ بس انگریزی کو بادشاہوں کی زبان سمجھ کر بزعمِ خود انگریز بادشاہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں منہ ٹیڑھا ہوجاتا ہے، مگر انگریزی بگھارتے ہیں خواہ آئے یا نہ آئے۔ پوری قوم کو آئے دن یہ تماشے دیکھنے پڑتے ہیں۔ قوم تو ’انگریزی تماشا‘ نہیں دیکھنا چاہتی:
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
خدا جانے ہمارے بادشاہوں کی بدقسمتی ہے یا ہماری خوش قسمتی کہ ہمارا کوئی بادشاہ ہمارا کالم نہیں پڑھتا۔ ہمارے عزت مآب وزیر اعظم شہبازشریف کے نامِ نامی، اسمِ گرامی میں ’شہ‘ کا لفظ شامل ہے جو ’شاہ‘ کا مخفف ہے۔ ’شاہ‘ بادشاہ کا متبادل ہے۔ خفت ہمیں اُس وقت ہوتی ہے جب ہمارے وزیراعظم انگریزی بولتے ہیں۔کیا ضرورت ہے انگریزی بولنے کی؟ اُن کی اُردو اُن کی انگریزی سے کہیں بہتر ہے۔ شعری ذوق بھی رکھتے ہیں۔ حبیب جالبؔ کی نظمیں لہک لہک کر گاتے ہیں۔ اُردو ہماری قومی زبان ہی نہیں، آئین کی رُو سے ہماری سرکاری زبان بھی ہے۔ سرکار کو سرکاری زبان بولنے میں کیا امر مانع ہے؟ ایک مضحکہ خیز منظر دیکھ کر تو ہم اور بھی خفیف ہوجاتے ہیں۔ جب چین، ایران یا ترکی سے آئے ہوئے مہمان ہمارے ملک میں آکر اپنی اپنی قومی زبان میں خطاب کرتے ہیں اور ہمارے حکمران (کوٹ میں پھنس کے اور ٹائی کس کے) اُن کے خطاب کا جواب اُنھیں امریکی یا برطانوی زبان میں دیتے ہیں۔ مہمان تو مروتاً پوچھ نہیں پاتے، ہم پوچھے لیتے ہیں کہ
’’یور ایکسی لینسی! کیا پاکستان بے زبان ہے؟‘‘
لگے ہاتھوں یہ بھی پوچھ لینا چاہیے کہ ’’کیا پاکستان بے لباس ہے؟‘‘ قائداعظم محمد علی جناح، قائدِ ملت لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشترؔ سمیت پاکستان کے تمام ابتدائی حکمران ایک خاص قومی لباس پہنا کرتے تھے۔ کچھ دنوں تک وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھاتے وقت قومی لباس پہن کر اس روایت کی پابندی کی گئی۔ پھر آزادی اور تحریکِ آزادی کے اس علامتی لباس کو بھی ترک کردیا گیا، کیوں کہ اس لباس سے آزادی کی خوشبو پھوٹتی تھی، بوئے غلامی نہیں آتی تھی۔
رسول اللہ ﷺ کا ذوقِ جمال
- ڈاکٹر محمد سہیل شفیق -November 8, 2024
کتاب : رسول الله صلى لها السلام کا ذوق جمال
تحقیق وتخریج : مولانا محمد اسلم زاہد
تخریج کتاب : رسول الله قیمت : درج نہیں
صفحات : 352 ناشر : معارف ادب اسلامی پاکستان
www.adbeislami.com
خالقِ کائنات نے اپنی ساری مخلوقات میں انسان کو موزوں، بہترین اور حسین ترین ساخت میں پیدا کیا۔ اور انسانوں میں سب سے حسین و جمیل سرورِ دوعالم ﷺ کی ذاتِ والا صفات کو تخلیق کرکے نہایت نفیس ذوق سے نوازا۔ آپﷺ صاحب ِجمال ہی نہیں صاحب ِتجمیل بھی تھے… صاحبِ حسن ہی نہیں، صاحب ِتحسین بھی تھے، یعنی انسان کے ہر قول وفعل کو اللہ کے رنگ میں رنگنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس ماہ ِ کامل (ﷺ) نے قیامت تک کے لیے روشنی پھیلادی۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس کے سامنے سرِتسلیم خم کرکے اپنے قلب و جاں کو منور کریں۔ ایک امتی کے دل میں جب نبی کریمﷺ کی یہ شان واضح ہوجائے تو وہ اپنی دنیا اور دین کے سب کاموں میں نکھار لانے کے لیے سنت ِرسولﷺ کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی اتباعِ سنت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے سارا حسن و جمال اور کمال رکھا ہے۔
پیشِ نظر کتاب ’’رسول اللہﷺ کا ذوقِ جمال‘‘ ماہِ کامل (چودھویں کا چاند) کی نسبت سے درجِ ذیل 14 ابواب پر مشتمل ہے:
1۔ قرآن اور حسنِ کائنات میں نبیِ محترمﷺ کا تفکر، 2۔ انسانی آرائش و حسن ِ سنتِ رسولﷺ کے مظاہر، 3۔تطہیر و عبادات میں حضورﷺ کا ذوق ِنفیس، 4۔ حسنِ صورت و جمالِ سیرت کا خوبصورت امتزاج، 5۔اخلاقیات و نفسیات میں تحسینِ رسولﷺ، 6۔ تخلیق ِجمال اور اجتماعیات (ماحولیات کی خوشگواری میں اسوہ رسولؐ)، 7۔ تفریحات و ثقافت میں رحمت ِدو عالمﷺ کی جمال آرائی، 8۔ اقتصادیات میں حضورﷺ کا حسنِ تصور، 9۔ لسانیات وابلاغیات میں معلمِ انسانیتﷺ کی اصلاحات، 10۔ عطریات و خوشبویات اور حضور انورﷺ کا ذوقِ سلیم، 11۔ ملبوسات و مفروشات میں سنتِ رسولؐ اور حکمتِ الٰہی، 12۔ آرائشِ گیسو میں نبی اکرم ﷺ کا نفیس مزاج، 13۔ نسائیات وزیورات میں رسول اللہﷺ کا حسنِ خیال، 14۔ ماکولات و مشروبات میں سیرتِ مقدسہ کے دروس۔
صاحبِ کتاب مولانا محمد اسلم زاہد (رئیس التحریر، معارفِ ادبِ اسلامی پاکستان) رقم طراز ہیں:
’’دل کی بات یہ ہے کہ ذوقیاتی امور کا یہ مبارک موضوع اور سیدِ دوعالم ﷺ سے منسوب شوقی اعمال و اخلاق کی تلاش میرے لیے بہت مشکل کام تھا، لیکن جب شروع کیا تو اس کی وسعت پر نظر گئی اور متنوع دریچے کھلے تو اندازہ ہوا کہ ہر اسوہ رسولﷺ اور حکمِ حبیبﷺ کی انتہا میں حسن اور نور ہی نور دکھائی دیتا ہے ؎
داستانِ حُسن جب پھیلی تو لامحدود تھی
اور جب سمٹی تو تیرا نام ہو کر رہ گئی
آج سے چند سال پہلے مختلف جرائد میں احقر نے سیرت کے اس پہلو پر لکھنا شروع کیا، بعض احباب نے ان مضامین کو جمع بھی کیا، اس طرزِ نگارش کو پسند کیا گیا، اس لیے اب یہ کاوش کی کہ جمالِ یار کی یہ چند جھلکیاں ایک کتاب کی صورت میں ان کے ماننے والوں کو دکھائوں اور چند کلیاں ان کے عاشقوں کے لیے پیش کردوں جن کی خوشبو و عطر بیزی کے سہارے گلستانِ سیرت کے پھولوں تک وہ خود پہنچ جائیں گے اور انھیں بھی مصنف کی طرح ہر طرف نورِ محمدﷺ سے اجالا نظر آئے گا۔
بلاشبہ محبوب کی ہر ادا روشن قندیل ہے، جس کا ضیا بار نور آج بھی اپنا وجود منوا رہا ہے۔ اسی کو پھیلانے کے لیے یہ حقیر سی کوشش ہے جس کا موضوع یقیناً منفرد ہے، لیکن کسی بھی زبان میں مؤلف کو اتنا مواد یکجا نہ مل سکا، اس لیے اس نے کئی سال میں جو کچھ جمع کیا، اسے امتِ رسول کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔‘‘
ان مضامین کا ماخذ قرآن وسنت اور سیرتِ طیبہ کی مستند کتابیں اور ان میں موجود صحیح، حسن اور سیرت میں قابلِ قبول حدیثیں ہیں۔ اور طرزِ استدلال یہ ہے کہ سیدنا حضرت محمدﷺ قرآنی تعلیمات سے اللہ کے مقصود ِجمال کوکس طرح کشید کرتے اور کس انداز میں اپنے اسوہ حسنہ کا حصہ بنا لیتے تھے، اور بعض جگہ یہ منفرد ودلآویز نظریۂ تفکر قاری کا راہنما ہوگا کہ سیدنا محمدﷺ میں فطرتِ انسانی کے تمام محاسن اور خوبیاں ابتدائے عمر سے جمع تھیں جن کی بے شمار جھلکیاں لوگ اعلانِ اسلام سے پہلے دیکھ چکے تھے۔ طلوعِ اسلام کے بعد قرآنی آیتیں آپﷺ کی حسین و جمیل اداؤں کی تائید میں اتریں…
مثلاً: حضور اکرمﷺ اپنے بچپن اور عہدِ شباب میں ہمیشہ طوافِ کعبہ کے لیے جانے سے پہلے اپنے لباس اور جسم کو خوب صاف کرتے۔ قرآن کریم نے جب مساجد کے آداب بتانا شروع کیے تو ان میں یہ آیت بھی اتری: یٰبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: 31) (اے آدم کے بیٹو! تم ہر مسجد (یا عبادت) کے لیے جاؤ تو زینت اختیار کرو۔) یہ آیت خصوصی اوقات (عبادت) کے ساتھ دیگر اوقات میں بھی جمال و کمال ﷺ کی طرف راہنماہے۔
جمالِ دو عالم تیری ذاتِ عالی
دو عالم کی رونق تیری خوش جمالی
علم ودانش اور بحث ومباحثہ
ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
/channel/ilmokitab
انسانی طبیعت میں بحث و مباحثہ کا جذبہ اکثر اوقات ایک ناخوشگوار شکل اختیار کر لیتا ہے،حرف گیری، نکتہ چینی، باتوں کو بڑھانا، اور خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے زبان کا بےجا استعمال کرنا آج کی دنیا میں نہ صرف عام ہو چکا ہے، بلکہ "علم" اور"دانش" کا معیار بھی بن گیا ہے، خصوصاً وہ لوگ جو غیر مستند مآخذ سے کچھ تھوڑا بہت سیکھ کر "نیم مولوی" بن جاتے ہیں، یا خوان علم پر طفیلی ہوتے ہیں، ان میں بحث پر اترنے کا زیادہ جذبہ ہوتا ہے، اور وہ اہل علم کے ساتھ دنگل میں اتر کر دو دو ہاتھ کے لیے برجستہ تیار رہتے ہیں، اگر اہل علم بھی ان کی سطح پر اترآئیں تو یہ رویہ نہ صرف ان کا قد اور قدر گھٹا دے گا بلکہ ایسے کم علم لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے اور دلوں کی دنیا میں بھی نفرت و کدورت پیدا ہوگی، جس سے اصلاح کے بجائے دوریاں بڑھیں گی؛ اس لیے اصلاح کی نیت سے صحت مند تبصروں، ثمر آور مناقشوں اور مذاکروں کے آداب متعین ہیں جن کی رعایت عالمانہ وقار کا تحفظ کرتی ہے اور بدکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جانے میں مددگار ہوتی ہے، جہاں تک بحث و مباحثہ کا تعلق ہے، جسے عربی میں "المِراء" کہا گیا ہے، درحقیقت اس کی ایسی صورت ہے جس میں انسان حقیقت کو قربان کر کے کر اپنی جھوٹی برتری کا مظاہرہ کرتا ہے، دنیا میں اپنی برتری کے اظہار کا یہ طریقہ ان نادانوں کا شیوہ ہے جو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں جیسا کہ حفیظ میرٹھی نے کہا تھا:
پوچھے ہے یاں کون میاں ارباب علم ودانش کو
جو چلّا کر بولے ہے وہ محفل پر چھاجائے ہے
تاہم یہ خیال رکھنا بقول غالب ضروری ہے کہ:
گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اُس نے شکایت ضرور کی
جب مقصد حقائق کی تلاش نہ ہو بلکہ صرف اپنی علمی برتری intellectual superiority ثابت کرنا ہو، تو ایسے مباحثے انسان کی روحانی پاکیزگی کو تباہ کر دیتے ہیں،نبی کریمﷺ نے بھی اس بارے میں تنبیہ فرمائی ہے، ارشاد ہوا: "مَن طلب العلمَ ليُجاري به العلماء، أو ليُمَارِي به السُّفهاء، أو يصرف به وجوه النَّاس إليه، أدخله اللهُ النَّار" (جو شخص علم اس نیت سے حاصل کرے کہ علماء سے مناظرہ کرے، جاہلوں سے بحث کرے، یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے، اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا) (سنن الترمذي: أبواب العلم، باب ما جاء فيمن يطلب بعلمه الدنيا، حدیث نمبر: ۲۶۵۴) علم کا مقصد دل کی روشنی اور کردار کی درستی ہے، نہ کہ لوگوں کے سامنے برتری کا جھوٹا اظہار، یہ حدیث ان لوگوں کے لیے ایک سنگین انتباہ ہے جو علم کو اپنی انانیت کا ہتھیار بنا لیتے ہیں، علم تو محبت، فروتنی، اور دوسروں کی رہنمائی کا ذریعہ ہے، اور جب انسان ان اوصاف سے عاری ہو جائے تو یہی علم نما جہل انسان کو باطنی زوال کی طرف لے جاتا ہے، حضرت عمر بن خطابؓ کا حکیمانہ قول ہے: "لا تتعلم العلم لثلاث، ولا تتركه لثلاث: لا تتعلَّمه لتماري به، ولا لتتباهى به، ولا لتُرائي به، ولا تتركه حياءً من طلبه، ولا زهادةً فيه، ولا رضاً بالجهل منه" (علم اس نیت سے مت حاصل کرو کہ لوگوں سے جھگڑا کرو، اپنی بڑائی دکھاؤ، یا ریاکاری کرو، اور نہ ہی علم کو چھوڑو محض اس لیے کہ شرم آتی ہے یا اس سے بے رغبتی ہے یا جہالت میں سکون ہے) (إحیاء علوم الدین،دار المعرفۃ، بیروت، ج۳، ص۱۱۷)۔
یہ الفاظ ہمیں یادلاتے ہیں کہ علم کا حقیقی مقصد دل کو نرم اور زبان کو شیریں بنانا ہے، علم ہمیں اپنی حقیقت اور اپنی کمزوریوں کا ادراک عطا کرتا ہے، نہ کہ ہمیں دوسروں کو زیر کرنے پر آمادہ کرتا ہے، انسان جتنا علم حاصل کرتا ہے اسے اس بات کا ایقان ہوتا جاتا ہے کہ یہ ایک بحر نا پیدا کنار ہے جس سے بوس و کنار تو ممکن ہے اس کی شناوری اور غواصی بڑے حوصلہ مند لوگوں کا کام ہے، نابغۂ روزگار علماء محسوس کرتے تھے کہ علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے سامنے موج زن ہے اور وہ اس کے ساحل پر خزف ریزے چن رہے ہیں، ابھی سرِ دامن بھی نہیں بھیگ سکا، جگن ناتھ آزاد نے کہا تھا:
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
علم حقائق کا سنجیدہ اظہار سکھاتا ہے جس میں دلیلوں کا وزن ہو نہ کہ چیخ وپکار، چیلنج اور للکار، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "أنا زعيمٌ بِبَيتٍ في رَبَضِ الجنة لمن ترك المِرَاءَ وإن كان مُحِقّاً" (میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں گھر دیے جانے کی ضمانت لیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے) (سنن أبي داود: کتاب الأدب، باب في حسن الخلق، حدیث نمبر: ۴۸۰۰)، امام غزالیؒ نے "احیاء العلوم" میں بڑی بلیغ بات کہی ہے:" وترك المراءِ بترك الإِنكار والاعتراض، فكلُّ كلام سمعتَه: فإن كان حقّاً، فصدِّق به، وإن كان باطلاً كاذباً، ولم يكن متعلقًا بأمور الدِّين، فاسكت عنه" (جھگڑا چھوڑنے کا مطلب اعتراض اور تنقید سے باز آنا ہے، اگر کوئی بات سچی ہے تو اس کی تصدیق کرو، اور
جون ایلیا (وفات ۸ نومبر) پر مشتاق احمد یوسفی مرحوم کی زبانی آپ کی تحریر https://www.youtube.com/watch?v=GDwSTxVb0PE&list=PLjseW6sQdLXGON5OOR0gDfE4Ka86vJckh&index=5
Читать полностью…ہمیں یاد آیا کہ جامعہ آنے سے پہلے آپ کی مؤلفات میں آپ کے نام کے ساتھ "الساعاتی“ لکھا رہتا تھا، یعنی گھڑی ساز ،( ساز کہاں ، صرف مرمت اور درست کرنے والے )
جامعہ اسلامیہ میں جن لوگوں نے شیخ کی زندگی دیکھی، وہ سوچ بھی نہیں سکتے، وسیع وعریض مکان کے مکین، چمچماتی کار کے مالک و مسافر، ضرورت مند طلبہ کے مادی اور علمی معاون و مددگار، سب چھوڑ چھاڑ کر بازار دمشق کی ایک گم نام دکان میں گھڑی مرمت کرکے آل و اولاد کو روزگار میسر کرنے جارہے ہیں، تو کل و استغناء کی شان زبان و بیان سے نہیں چہرے مہرے سے بھی عیاں تھی۔
جامعہ چھوڑنے کے اندرونی اسباب کچھ بھی رہے ہوں، اخباروں نے اشاروں میں لکھا: انه خالف الامام احمد و شیخ الاسلام ابن تيميه في ثلاثين مسئلة۔ انھوں نے امام احمد اور شیخ الاسلام سے تیسں مسائل میں اختلاف کیا “۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اساتذہ/ ۱۵۵ تا ۱۶۶
/channel/ilmokitab
*دلیپ کمار، ایک تبلیغی کارگزاری*
مولانا احمد لاٹ صاحب مدظلہ نے فرمایا:
سورت سے کوئی آٹھ کلومیٹر دور ایک جگہ ہے، جس کا نام ہے، "اون"۔ اور وہاں ایک نوجوان، انگریزی کالج میں پڑھتا تھا، مگر اب جو اسے آگے پڑھنا تھا تو اس کی فیس بہت زیادہ تھی، اس کے پاس اتنی حیثیت نہیں تھی۔ دلیپ کمار (یوسف خان) اللّٰه اس کی مغفرت فرماوے۔ وہ اس لڑکے کو بمبئی ساتھ لے گیا۔ اپنے آفس میں لے جاکر مینجر سے کہا کہ اس لڑکے کی جب تک پڑھائی ہوگی، ہر مہینے اس کو اتنا دیتے رہنا، بمبئی میں تبلیغی مرکز ہے، دلیپ کمار نے اسے ایک نصیحت کی تھی کہ میری بات سن لے، کبھی جمعہ رات ناغہ مت کرنا، جمعہ رات کے اجتماع میں ضرور جانا، اس کی وجہ سے نوجوان نے ساری ڈگریاں بھی پاس کیں۔ اس کے بعد چار مہینے، چلّے اور نہ جانے کیا کیا۔ اللّٰه کی شان، ایک مرتبہ مسجدِ نبوی میں جہاں صُفّہ ہے، جہاں صحابہ بیٹھا کرتے تھے، اس نوجوان نے بتایا کہ مجھے بہت تعجب ہوا، ہم حج میں تھے تو دلیپ کمار (یوسف خان مرحوم) بھی آیا ہوا تھا اور وہ صُفّہ پر بیٹھا ہوا تھا اور رو رہا تھا۔ اللّٰه کے رسول، اللّٰه کے رسول۔ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔
مورخہ ۱/۱۱/۲۰۲۴ء بعد از مغرب، رائے ونڈ، سالانہ تبلیغی اجتماع سے خطاب/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی