ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 231
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا منظور نؔعمانیؒ*

*خون جلا کر شرح اس کی کرتے رہے*
*تیرے سچے صحیفے میں جو تھا رقم*


آپ امت میں کسی بڑے سے بڑے امام کو ایسا نہ پائیں گے کہ اہل ہوٰی و ہوس نے اس کی مخالفت و ایذا رسانی کی کوشش نہ کی ہوگی ۔
علامہ تاج الدین سؔبکیؒ ”طبقات الشافعیہ“ میں فرماتے ہیں: ما من امام الا وقد طعن فیہ طاعنون وھلک فیہ ھالکون
”کوئی امام ایسا نہیں ہے کہ: زبان درازوں نے اس کے حق میں زبان درازی نہ کی ہو اور تباہ ہونے والے اس کے بارے میں ہلاک نہ ہوئے ہوں،“ بالخصوص ﷲ کے جس نیک بندے نے لوگوں کی نفسانی خواہشات اور رواج یافتہ بدعات کے خلاف کبھی جہاد کیا ہے، اس پر تو بندگان ہوٰی و ہوس اور فریفتگانِ بدعت و ضلالت نے ایسی ایسی افتراء پردازیاں اور بہتان طرازیاں کی ہیں کہ بس الامان و الحفیظ۔
حاملِ لواء سنت، ماحی بدعت و ضلالت،امام علامہ ابواسحاق شؔاطبی غرناطیؒ ( متوفی 790ھ) اپنی کتاب ”الاعتصام“ میں خود آپ بیتی لکھتے ہیں کہ: ”جب میں نے سنت کی ترویج و حمایت اور بدعت کی تردید و مخالفت میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو ابنائے زمانہ نے مجھ پر ایک قیامت برپاکردی،مجھ پر ملامتوں کی بارش اور عتاب کی بوچھار شروع ہوگئ،مجھے گمراہ اور بد مذہب کہا جانے لگا،مجھے جاہل اور احمق بتایا گیا اور بسا اوقات میرے نیک مقصد کے خلاف ایسی ایسی افتراء پردازیاں کی گئیں کہ جن سے دل لرزتا ہے اور میری مذہبی پوزیشن خراب کرنے کے لیے بے خطر جھوٹی شہادتیں دی گئیں، جو یقینا ﷲ کے فرشتوں نے لکھی ہیں اور ضرور بالضرور قیامت میں ان کے متعلق ان کذابوں سے باز پرس ہوگی ... العظمۃ للہ کبھی مجھے صحابہؓ کا دشمن اور رافضی بتلایا گیا اور کبھی باغی اور خارجی کہا گیا اور چونکہ میں نے بعض بدعتی صوفیوں کی گمراہیوں سے لوگوں کو آگاہ کیا تھا ؛ تاکہ وہ ان کے فریب میں نہ آئیں ؛ اس لیے میرے متعلق یہ بھی کہا گیا کہ یہ اولیاء ﷲ کو نہیں مانتا اور ان کا دشمن ہے اور یہ بھی اڑا گیا کہ یہ اہل سنت و جماعت کا مخالف ہے _ اور ﷲ کو علم ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا اور بے اصل وہم _ اور اس وقت میری حالت مشہور امام حافظ الحدیث عبد الرحمن بن بطہؒ کی سی تھی وہ خود ناقل ہیں کہ:
میں مختلف مقامات پر جتنے لوگوں سے ملا ان میں سے اکثر نے مجھے کچھ نہ کچھ بناڈالا، اگر کسی کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے میں نے کہاکہ: قرآن و حدیث میں اس کے خلاف وارد ہوا ہے تو جھٹ اس نے مجھے خارجی بنادیا اور اگر میں نے مسائل توحید میں کوئی حدیث پڑھی تو اس نے مجھے بے دریغ مشبِّہ میں سے کہہ دیا اور اگر ایمان کے متعلق میں نے اظہار خیال کیا تو اس نے مرجیہ میں داخل کردیا اور اگر اعمال کے بارے مِیں مَیں نے کچھ کہا تو مجھے قدریہ بنادیا گیا اور ابوبکرؓ و عمرؓ کے فضائل میں میں نے کوئی حدیث پڑھی تو مجھے خؔارجی اور نؔاصبی کہہ دیا گیا اور جب اہل بیت کے فضائل کا میں نے اظہار کیا تو مجھے رافضی بتایا گیا ___ علی ہذا... کبھی مجھے ظؔاہری کہا گیا،کبھی بؔاطنی،کبھی اؔشعری،کبھی مؔعتزلی، غرض جو جس کے منہ میں آیا اس نے بے دریغ وہ کہہ ڈالا اور حال یہ ہے کہ وانی متمسک بکتابﷲ والسنہ واستغفر ﷲ الذی لا الہ الا ھو وھو الغفور الرحیم ( الاعتصام ص:12) الحمد للہ میں کتاب و سنت سے وابستہ ہوں اور ﷲ وحدہ لاشریک سے بخشش چاہتا ہوں اور وہی غفور رحیم ہے ۔“
درحقیقت حق گوئی اور امر بالمعروف ایسی ہی چیز ہے کہ جس نے اس فریضے کو کما حقہ انجام دیا اس کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہوئے ۔

( *حضرت شاہ اسماعیل شؔہیدؒ اور معاندین اہل بدعت کے الزامات،صفحہ: 9،طبع: الفرقان بکڈپو،لکھنؤ*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

/channel/ilmokitab



https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مولوی ذکاء اللہ(وفات: ۷ نومبر) تحریر: ضیاء الدین احمد برنی

Читать полностью…

علم و کتاب

سچی باتیں (۸؍ستمبر ۱۹۳۳ء)۔۔۔ ترقی کا معیار
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
ڈسٹرکٹ بورڈ، اور پھر آزاد ، یعنی سرکاری افسروں کی صدارت سے آزاد، ڈسٹرکٹ بورڈ، سواراج کے ہراول، اور حکومت خود اختیاری کے مقدمۃ الجیش ہیں۔ پچھلے سرکاری سال یعنی ۳۱ء تا ۳۲ء میں، صوبۂ متحدہ کے اندر، ہردوئی، شہاجہانپور، بلیا، میرٹھ، بجنور، بلند شہر، بنارس، سہارنپور، مین پوری، اتنے شہروں کے ڈسٹرکٹ بورڈوں میں ہرطرح کی بے ضابطگیاں پائی گئیں، اور شاہجہاں پور، میرٹھ، سہارنپور، بجنور، بلند شہر،بہرائچ، بدایوں، بستی، اٹاوہ، پیلی بھیت، اتنے مقامات میں تو پوری طرح غبن ثابت ہوا! یہی نہیں، بلکہ جن کارکنوں پر خیانت بالکل ثابت ہوئی بھی ، اُنھیں صاف بچادیاگیا، یا برائے نام سز ا ملی۔ اور قاعدہ قانون کے خلاف، ہر جگہ من مانی کارروائیاں ہوتی رہیں، خود غرضیوں کا زور رہا، ہرجگہ دودو پارٹیاں رہیں، اور ساری قوت باہمی کشمکش اور سازشوں کی نذر ہوتی رہی۔
یہ خلاصہ ہے اُس سرکاری بیان (گورنمنٹ رزولیوشن) کا ، جو صوبہ کے ڈسٹرکٹ بورڈوں سے متعلق ابھی شائع ہواہے۔ ڈسٹرکٹ بورڈوں ہر پر منوسپل بورڈوں کو بھی قیاس کیجئے، اور صوبہ کو سارے ہندوستان کا نمونہ سمجھئے۔ اختیارات، تھوڑے یا بہت، جو کچھ بھی آپ کو ملے، اس کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا؟حکومت، ایک محدود پیمانہ پر ، جس حد تک بھی آپ کے ہاتھ میں آئی، اسے کس طرح آپ نے برتا؟ بددیانتی اور خیانت، غبن اور تغلب، خودغرضیاں اور سازشیں، پارٹی بازیاں اور بے ضابطگیان، یہ کُل حاصل نکلا آپ کے کارناموں کا! اسی کا نام ’ترقی‘ ہے؟ سالہا سال کی انگریزی تعلیم کا یہی ثمرہ نکلاہے۔ اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ پڑھ کر یہی آپ نے سیکھا؟ عربی تعلیم سے، تو اب تک یہ سناتھا، کہ آدمی نکمّا، کاہل، بیکار اور سُست ہوجاتاہے، انگریزی تعلیم کے فیوض، برکات، تجربہ ومشاہدہ سے کیا ثابت ہورہے ہیں؟
شخصی وذاتی محاسن کو چھوڑئیے۔ یہ تو آپ سے مدت ہوئی رخصت ہوچکے۔ عفت، حیاء، ایثار، قناعت۔ وغیرہ شخصی اوصاف (Private Virtue) توآپ خود تسلیم کرتے ہیں، کہ ’صاحب‘ کے قدم آتے ہی، آپ کے درمیان سے اُٹھ چلے، البتہ قومی محاسن (Public Morals) میں آپ کا دعویٰ تھا، کہ یورپ آپ سے کہیں آگے بڑھا ہواہے، اور مدتوں آپ کو سبق سکھاسکتاہے۔ لیکن اب ارشاد ہو، کہ اس معیار سے بھی یورپی تعلیم کہاں تک نتیجہ خیز وبابرکت ثابت ہوئی؟ بس یہی نہیں، کہ جعلسازی کے نئے نئے طریقے معلوم ہوگئے، رشوت کی گرم بازاری ہوگئی، سود کا چرچا گھرگھر ہونے لگا، بددیانتی کا رواج عام ہوگیا، اور غبن وخیانت کے واقعا ت روزمرہ صادر ہونے لگے!……دوسروں نے جو کچھ بھی لیاہو، یہ ارشاد ہو کہ آپ کی قسمت میں یورپ کے (Public Morals) کے سیکھنے اور اُس کی راہ پر چلنے سے کیا آیا؟
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*امام بخاریؒ کی ایک خاص عادت اور ثبوتِ جرح میں بعض محدثین کا عجیب طریقہ*

مولانا احمد رضا بجنوری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: امام بخاریؒ کی خاص عادت ہے کہ راوی کے لقاء کے لیے "سمعت" کا لفظ ضروری سمجھتے ہیں اور محدثین نے جب کسی لقاء کو مجروح کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ "سمعت" کیوں نہیں کہا۔ غرض اس قسم کی چیزیں پیش آتی ہیں، کبار محدثین کو، رجال والے محض شہرت پر ہی مدار کر دیتے ہیں، سینکڑوں کوفہ والوں کو مرجۂ کہہ دیا ہے، بڑی تعریفیں زہد و عبادت کی لکھ کر پھر بھی کہتے ہیں: افسوس کہ مرجۂ تھا، حالانکہ مرجۂ کسے کہتے ہیں؟ یا وہ ان اوصاف کا ہے بھی، یا نہیں، کچھ تحقیق نہیں ہوتی۔ علامہ ذہبیؒ کو معقول نہیں آتی تھی، ان کے شاگرد ہی نے بیان کیا ہے کہ نہ ذہبیؒ نے معقول پڑھی تھی اور نہ سمجھ سکتے تھے۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے تو معقول پڑھنے کی حرمت پر مستقل ایک رسالہ لکھا، اور وہ حرام ہی سجھتے تھے۔ غرض بہت سے ایسے تھے کہ فلسفہ، معقول، علم کلام کو شجرۂ ممنوعہ سمجھتے تھے، کوئی واقفیت نہ تھی اور یہ سب جرح کرنے میں پیش پیش ہیں، ان کو چاہیے تھا کہ ان فنون کے ماہروں سے ہی امداد لیتے۔ (١٦ جون ۱۹۳۲)

افاداتِ علامہ کشمیریؒ و علامہ عثمانیؒ/صفحہ: ٢٦/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 230
انتخاب مطالعہ
تحریر: *حقانی اؔلقاسمی*

*وہ ذرا سی عنایت بھی کیا قیامت تھی*

شؔہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے بیٹے اور شہزادہ خرم ( شاہ جہاں ) کے باپ شاہ سلیم شہنشاہ نور الدین جؔہاں گیر کی ملکہ نؔور جہاں نے دو انگریز تاجروں تؔھامس اور وؔلیم پر ترس کھاکر تجارت کی اجازت کیا دی،کہ پورے ملک اور پوری قوم کے لیے قہر بن گئ ؛ انگریزوں نے مہربانیوں کا یہ صلہ دیا کہ خود ملک پہ قابض ہوتے گئے اور مغلوں کے خلاف سازشیں شروع کردیں،پؔلاسی کی جنگ ہوئی، بؔکسر کی لڑائی ہوئی،ہزاروں محبان وطن شہید ہوئے،انگریزوں کی عیاری رنگ لائی اور ملک غلام ہوگیا،

لؔارڈ کلائیو نے بؔنگال کے ساحل پہ گوری حسیناؤں کو اتار کر پورے ملک کو ان کی سیاہ زلفوں کا اسیر بناکر ملک کی تقدیر میں تاریکی لکھ دی ۔
نیل،افیم،کالی مرچ،دار چینی کی خاطر پورے ملک کو ہی بیچ ڈالا،ملک میں کئی ملک بنانے کی کوششیں کیں،1857ء میں جب ارباب وطن نے ہوش مندی کا ثبوت دیا تو انہیں تہ تیغ کیا گیا،انگریزوں کا تسلط بڑھتا گیا اور ہندوستانی قوم غلام ہوتی گئ،وہ ذرا سی عنایت بھی کیا قیامت تھی کہ ہماری مٹی نے وہ ساری قیامتیں دیکھ لیں جو کوئی اور مٹی شاید کبھی دیکھ سکے۔
ہمارے ملک میں قیامتیں بہت سی آئیں ؛ مگر انگریز تاجر اپنی آستینوں میں جو قیامتیں چھپاکر لائے تھے وہ قیامت اور ہی طرح کی تھی،یہاں تو سؔکندر بھی آیا،تؔرک افغان بھی آئے،جنگیں ہوئیں،مٹی لہولہان ہوئی،زمین قبرستان بنی ؛ مگر انگریزوں کے سوا سبھوں نے اس مٹی سے پیار کیا،اسے اپنا وطن جانا،اس ملک کی وحدت پر آنچ آنے نہیں دی،ہمارا دیش وِشال رہا،ملک خوش حال رہا،نہ کسی نے یہاں تؔرکستان بنایا، نہ کسی نے اؔفغانستان اور نہ کسی نے اؔسلامستان،جب کہ اس کے وافر مواقع مہیا تھے ؛ مگر انگریزوں کی نیت میں فتور تھا،انہوں نے ذہن اور زمین کو تقسیم کیا اور پھر ساری دولت لوٹ کر ملک کو کنگال بناکر ہمارے ہاتھوں میں بھیک کا کشکول تھما دیا ۔

شکیب جؔلالی نے سچ کہا ہے:

؎ دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
پیروں میں زنجیریں ڈالیں، ہاتھوں میں کشکول دیا

انگریزوں نے ملک کا نقشہ بدلا،مٹی کا چہرہ بدلا،اس کی رنگت بدلی،اسے سمندر سے کوزہ بنادیا،نہ کبھی ہمارے قومی جذبات کا احترام کیا،نہ ہمارے آنسؤوں کی قدر کی ؛ بل کہ ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ آج بھی زمین تھر تھرا اٹھتی ہے اور مٹی لرزنے لگتی ہے۔
انگریزوں نے ہمارے اجتماعی وجود کو چھلنی چھلنی کردیا، ہماری رگوں میں نفرت کا زہر بھر دیا،ہمیں ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کردیا،پھر بھی وہ ہمارے لیے مقتدر و محترم ہیں اور وہ مغلیہ سلاطین جنہوں نے نہریں بنوائیں،سڑکیں تعمیر کیں،تالاب کنویں بنوائے،باغات لگائے،فن تعمیر شاہکار دیے،چمن بندی کی، اور ہندوستان کو جنت نشاں بنایا،وہ آج بھی مطعون و معتوب ہیں ۔
مؔحمد بن قاسمؒ نے ایک غیر مسلم کو وزارت کا اعلی ترین عہدہ دیا،پھر بھی وہ ظالم ہے، مؔحمود غزنویؒ نے سؔومنات کا مفتوحہ علاقہ راجہ سکھ پال کو عطا کیا اور سکہ پر ایک طرف سنسکرت اور دوسری طرف عربی کی عبارت نقش کرائی،اپنی فوج میں تلک سندر اور بیج ناتھ کو جنرل کا عہدہ دیا،پھر بھی وہ جابر ہے اور لطف تو یہ ہے کہ کَچھ کی رانی اور سینکڑوں عورتوں کی عزت بچانے والا اورنگ زیب عالم گیر کؔاشی کا مندر شکن اور ظالم ٹہرا،جب کہ وہ مندر بام مارگ کا اڈہ بدکاریوں اور سازشوں کا گڑھ بن گیا تہا اورنگ زیب مندر کو مصارف دے کر بھی معتوب ہے،تو قصور کس کا ہے؟ مغل حکمرانوں کی یہ ساری عنایتیں بھی رائگاں گئیں،یہ عنایت بھی ایسٹ انڈیا کی طرح قیامت ڈھارہی ہے اور ایسی عنایتوں کا حشر تو خود تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا ہے اور اب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں...
سات سمندر پار سے آنے والی زہریلی ہوائیں ہماری قومی، اجتماعی،معاشرتی،سیاسی، ملکی صحت و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں،مندر،مسجد اور ذبیحہ کی زہریلی ہوا بھی ادھر سے ہی آئی تھی،جس میں گھٹ گھٹ کر کروڑوں لوگ اب تک شہید ہوچکے ہیں اور ہزاروں لاکھوں اب بھی قطار میں ہیں۔


( *تکلف برطرف،صفحہ: 116، طبع: الخلیل میموریل لائبریری، یتیم خانہ کمپلیکس، ارریا،بہار*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

شیوا بریلوی(وفات ۶ نومبر ۱۹۷۵) تحریر: ڈاکٹر محمد ایوب بریلوی

Читать полностью…

علم و کتاب

حقيقة الشهادة الجامعية عند محمود شاكر
الحقيقة بعينها
قال رحمه الله:
" ﻭﺍﻟﺸﻬﺎﺩﺓ ﻣﺎ ﻫﻲ ﺇﻻ ﺇﺟﺎﺯﺓ ﺍﻟﺪﻭﻟﺔ ﻷﺣﺪ ﻣﻦ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﺗﺤﺮﺭ ﻣﻦ ﻃﻠﺐ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﺍﻷﺩﺏ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻘﻴﻮﺩ ﺍﻟﺘﻲ ﺗﺘﻘﻴﺪ ﺑﻬﺎ ﺍﻟﻤﺪﺍﺭﺱ ﻭﺍﻟﺠﺎﻣﻌﺎﺕ ﻓﻲ ﺃﻧﻮﺍﻉ ﺑﻌﻴﻨﻬﺎ ﻣﻦ ﺍﻟﻜﻼﻡ ، ﻭﺃﻧﻪ ﻗﺪ ﺣﺼﻞ ﻓﻲ ﻭﺭﻗﺔ ﺍﻻﻣﺘﺤﺎﻥ ﻣﺎ ﻓﺮﺽ ﻋﻠﻴﻪ ﺗﺤﺼﻴﻠﻪ ﺑﺎﻟﺬﺍﻛﺮﺓ ، ﺛﻢ ﺗﺮﻓﻊ ﺍﻟﺸﻬﺎﺩﺓ ﻳﺪﻫﺎ ﻋﻦ ﻣﻌﺮﻓﺔ ﻣﺎ ﻭﺭﺍﺀ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺘﺤﺼﻴﻞ ﻭﻣﺎ ﺑﻌﺪﻩ ﻭﻣﺎ ﻳﺼﻴﺮ ﺇﻟﻴﻪ ﻣﻦ ﺍﻻﻫﻤﺎﻝ ﺃﻭ ﺍﻟﻨﺴﻴﺎﻥ ﺃﻭ ﺍﻟﻀﻌﻒ ﺃﻭ ﺍﻟﻔﺴﺎﺩ .

ﻓﺤﻴﻦ ﻳﻐﺎﺩﺭ ﺃﺣﺪﻫﻢ ﺍﻟﺠﺎﻣﻌﺔ ﺣﺎﻣﻼً ﺷﻬﺎﺩﺗﻪ ﻣﻨﺪﻣﺠﺎً ﻓﻲ ﺯﺣﻤﺔ ﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺔ ﺗﻔﻘﺪ ﺍﻟﺸﻬﺎﺩﺓ ﺳﻠﻄﺎﻧﻬﺎ ﺍﻟﺤﻜﻮﻣﻲ _ ﺃﻭ ﻫﻜﺬﺍ ﻳﺠﺐ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ _ ﻭﻻ ﻳﺒﻘﻰ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺇﻻ ﻟﻠﺮﺟﻞ ! ﻭﺃﻳﻦ ﻳﻘﻊ ﻫﻮ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﺃﻭ ﺍﻷﺩﺏ ﺃﻭ ﺍﻟﻔﻦ ؟ ﻭﻫﻞ ﺃﺻﺎﺏ ﺃﻭ ﺃﺧﻄﺄ ؟ ﻭﻫﻞ ﺃﺟﺎﺩ ﺃﻭ ﺃﺳﺎﺀ ؟ ﻭﻫﻜﺬﺍ ﻓﻬﻮ ﻻ ﻳﻨﻈﺮ ﺇﻟﻴﻪ ﺇﻻ ﻣﻐﺴﻮﻻً ﻏﻔﻼً ﻣﻦ [ ﻣﻜﻴﺎﺝ ] ﺍﻟﺪﺑﻠﻮﻡ ﻭﺍﻟﻠﻴﺴﻨﺲ ﻭﺍﻟﻤﺎﺟﺴﺘﻴﺮ ﻭﺍﻟﺪﻛﺘﻮﺭﺍﻩ . . ﻭﻣﺎ ﺇﻟﻴﻬﺎ ..

ﻭﺇﺫﻥ ؛ ﻓﺄﻭﻟﻰ ﺃﻻ ﻳﻨﻈﺮ ﺇﻟﻴﻪ ﻋﻦ ﺷﻬﺎﺩﺓ ﻗﻮﻡ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﺳﺒﻴﻠﻬﻢ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺘﺤﻜﻢ ﻓﻲ ﺃﺳﻮﺍﻕ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﺍﻷﺩﺏ ﺇﻻ ﺍﻟﺸﻬﺎﺩﺍﺕ ﺍﻟﻤﺴﺘﺤﺪﺛﺔ ، ﻭﺍﻟﺸﻬﺮﺓ ﺍﻟﻨﺎﺑﻐﺔ ﻋﻠﻰ ﺣﻴﻦ ﻓﺘﺮﺓ ﻭﺿﻌﻒ ﻭﺍﺧﺘﻼﻁ ﻭﺟﻬﻞ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﺍﻷﻣﺔ ، ﺣﻴﻦ ﻛﺎﻥ ﺃﻗﻞ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﺃﺷﻒ ﺍﻷﺩﺏ ﻳﺮﻓﻌﺎﻥ ﺻﺎﺣﺒﻬﻤﺎ ﺩﺭﺟﺎﺕ ﻣﻦ ﺍﻟﺘﻘﺪﻳﺮ ﻭﺍﻹﺟﻼﻝ ﻭﺍﻟﻜﺮﺍﻣﺔ "
#محمود_محمد_شاكر

Читать полностью…

علم و کتاب

*فلسفہ اور علومِ نبوت میں بنیادی فرق*

حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: فلسفۂ یونان اور فلسفۂ یورپ وغیرہ سب تخیلات کا مجموعہ ہیں اور کچھ نہیں۔ حقائق پر مبنی پیغمبروں کے علوم ہوتے ہیں اور فلسفہ و علومِ نبوت میں فرق و تمیز کرنا ضروری ہے۔ جو فلسفہ کے پورے حاذق نہیں ہوتے، وہ اکثر ہر دو میں فرق نہیں کرتے۔

افاداتِ علامہ کشمیریؒ و علامہ عثمانیؒ/صفحہ: ۵۱/انتخاب: طارق علی عباسی
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 228
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا عبید ﷲ سندھی*


*توکل اور صبر کیا ہے*

ہم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا ہے اور اس وجہ سے ہماری حالت خراب ہوگئ ہے ،تو خود قرآن مجید کے الفاظ کے مفہوم ہی بدل گئے ،مثال کے طور پر میں توکل اور صبر کو پیش کرتا ہوں:

*توکل کیا ہے؟*
آج کل ہمارے یہاں توکل کے معنی ہیں ”ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جانا اور کچھ کام نہ کرنا ،اس کو کہتے ہیں توکل“
اس کے لیے ایسے قصے بھی مشہور ہیں کہ :ایک صاحب نے اس طرح توکل کیا کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہے اور خدا سے کہا: میں خود کھانا نہیں کھاؤں گا کہ جب تک خود بخود کہانا میرے منہ میں نہ آجائے گا، اس طرح وہ کچھ عرصے تک بیٹھے رہے،اس کے بعد کھانے کا ایک خوان ان کے سامنے موجود ہوگیا،وہ سمجھے بس کام ہوچکا اور اپنے ہاتھ سے کھانے لگے، اتنے میں آواز آئی تو جلدی کرگیا ،اگر کچھ دیر اور منتظر رہتا تو خود بخود تیرے منہ میں کھانا پہنچ جاتا اور چونکہ قرآن میں توکل کی تعریف ہے ؛ اس لیے نکموں کی تعریف کی جاتی ہے کہ فلاں صاحب تو کچھ کام نہیں کرتے، گھر سے باہر نہیں نکلتے وہ بڑے متوکل ہیں ۔
حالانکہ قرآن مجید میں تو توکل کا مفہوم یہ ہے کہ :”نہایت مشکلات کی حالت میں پوری ہمت سے کام کرنا اور نتیجے کی طرف سے خائف ہوکر کام نہ چھوڑنا ؛ بلکہ نتیجے کے بارے میں خدائے تعالی سے کامیابی کا بھروسہ رکھنا“...

*صبر کا مفہوم*
صبر كے معنی آج کل یہ لیے جارہے ہیں کہ :”اگر کسی نہ کسی وجہ سے کوئی مصیبت آ پڑے تو غم کا اظہار نہ کریں! نیز یہ کہ ذلتیں برداشت کریں اور چپ بیٹھے رہیں، پٹتے جائیں اور اف تک نہ کریں!“ ایسے نالائقوں اور بے حمیتوں کی تعریف کی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر عامل ہیں اور قرآن میں صابروں کی تعریف ہے ؛ لہذا ایسے اصحاب کی بھی تعریف اور وقعت ہونی چاہئے حالانکہ قرآن مجید میں صبر کا مفہوم ہے کہ ”صحیح اصول پر کام کرنے میں جو دقتیں پیش آئیں ان کو برداشت کرنا اورکام جاری رکھنا اور نباہنا اور دقتوں سے گھبراکر کام کو نہ چھوڑنا“... کلام مجید میں صابروں سے توقع کی جاتی ہے کہ ”کم سے کم اپنی دوگنی قوت پر وہ غالب ہوجائیں گے“۔

( *قرآن کا مطالعہ کیسے کیا جائے،صفحہ: 71،طبع: سندھ ساگر اکیڈمی،لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

/channel/ilmokitab


https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

آپ ﷺ یہ جواب سن کر خیمے سے باہر نکلے تو جلال و جمال کی ایک عجیب نیرنگی نے آپ ﷺ کے سراپا میں عظمت و دل کشی کی انتہائیں سمیٹ دی تھیں ۔ اور جب سب لوگ آپ ﷺ کے چاروں طرف پروانہ وار جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے الفاظ میں حقیقت اور جذبات کو اس طرح اُنڈیلنا شروع کیا:
"کیا یہ سچ نہیں کہ تم بھٹکتے پھر رہے تھے تو خدا نے تمہیں میرے ذریعے سیدھی راہ دکھائی ؟
کیا تم سب کا شیرازہ بکھرا ہوا نہ تھا اور خدا نے تمہیں میرے ذریعے محبّت اور اخوت کی نعمت عطا کی ؟ کیا تم لوگ نادار نہ تھے اور خدا نے تمہیں میرے ذریعے دولتِ دنیا بھی عطا فرمائی ؟"
آپ ﷺ درد میں ڈوبی ہوئی آواز سے یہ فرمارہے تھے اور ہر بار انصار کی طرف سے عجز و عقیدت سے سرشار یہ پکار بلند ہوتی رہی "بے شک خدا کا رسول ﷺ سچ کہتا ہے____ ہمارے سر خدا کے رسول ﷺ کے احسانات سے جھکے ہوئے ہیں۔"
"نہیں" یکا یک آپ ﷺ کا حسین چہرہ مقدس جذبات سے تمتما گیا ”نہیں“ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اے محمد ﷺ ! جب تجھ کو لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے تیری بات مانی _جب لوگوں نے تیرا ساتھ چھوڑا تو ہم تیرے دوش بدوش رہے _ تو خالی ہاتھ آیا تھا تو ہم نے تیری دست گیری کی ____"
یہ جذبات کا نقطہ عروج تھا حضور ﷺ کو اس طرح دل چیر کر دکھاتے ہوئے دیکھ کر رسالت کے پروانے بے قرار ہو گئے ؟ سیکڑوں دل کانپ رہے تھے سیکڑوں سینے ضبط کی کوشش سے پھٹے جا رہے تھے ، سیکڑوں آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں تھیں ۔ جذبات کے طوفانی تھپیڑے کھاتی ہوئی اس چند لمحاتی خاموشی کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا اور اب آپ ﷺ کی آواز میں جوش نہیں سوز تھا تلاطم نہیں پُر سکون ٹھیراؤ تھا _
"تم لوگ یہ کہتے جاؤ اور میں یہ کہتا جاؤں گا کہ ہاں تم سچ کہتے ہو؟____
لیکن _ اے انصاریو ! سچ بتاؤ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ اور لوگ مالِ غنیمت کے اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم محمد ﷺ کو لے کر اپنے گھر جاؤ ؟!_" محمد عربیﷺ کے یہ آخری الفاظ تھے۔ ان آخری الفاظ کی ابھی گونج بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ اسلامی لشکر کی طرف سے ایک اور آواز آئی۔ یہ فرطِ غم سے سینے پھٹ جانے کی آواز تھی۔ یہ عقیدت وشوق کی شدّت میں دلوں نے زبان پر آکر چیخ ماری تھی ۔ یہ رُوحیں تڑپ گئیں تھیں ___نوجوان آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اُٹھائے ہوئے کھڑے کھڑے تھر تھرا رہے تھے۔ بڑے بڑے سردار حضور ﷺ کے قدموں کو پیار کرنے کے لیے زمین پر ڈھیر ہوگئے تھے۔ بڑھے بچوں کی طرح ہوک مار کر رو رہے تھے۔ داڑھیاں سچ مچ آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ دل کی دھڑکنیں سچ مچ اتنی تیز ہوئیں کہ پورےجسم کپکپا نے لگے۔
اور محمدﷺ کے بہترین چاہنے والے یہ جاں باز، جاں نثار اشک آلود آنکھیں ، کانپتے ہوئے ہاتھوں اور تھر تھراتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ محمد ﷺ کے جاں نواز بشرے پر وارفتگی سے نظر جمائے ہوئے پُکار اُٹھے:
""ہمیں کچھ نہیں محمد ﷺ چاہیے! محمد ﷺ ! صرف محمد ﷺ !!
اگلے دن جب ثقیف و ہوازن کا وفد قیدیوں کو چھڑانے کے لیے آیا تو آپ ﷺ نے اپنے حصے کے قیدی آزاد کر دیے اور "محمد ﷺ صرف محمد ﷺ " کے ان چاہنے والوں نے اپنے اپنے ہزاروں قیدیوں کو آزاد کر کے مالِ غنیمت کا وہ حصّہ بھی اس شخصیتِ جمیل ﷺ کےایک اشارے پر لُٹا دیا جس میں کبھی اضافے کی مانگ کی جارہی تھی کیسی دل کش ، کیسی کارگر کتنی دل رُبا اور بے پناہ تھی یہ شخصیت جس کے اشارے پر ان انسانوں کے جذبات حرکت کرتے تھے جنھوں نے صدیوں تک بغاوت، وحشت اور لوٹ مار کی گود میں پرورش پائی تھی!__ کون ہے جو اس تاریخ کو پڑھے اوربے تابانہ پُکار نہ اُٹھے "میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد عربی ﷺ خُدا کے بہترین اور آخری فرستادہ تھے!
میں گواہی دیتا ہوں کہ اسلام زمین کی کوئی انقلابی تحریک نہیں آسمان کا خالص آسمانی پیغام ہے؟ _ میں گواہی دیتا ہوں کہ زندگی وہی ہے جو محمد عربی ﷺ کے نقشِ قدم اپنے خون دل و جگر سے اُجا گر کرتی ہوئی چلے __چلتی رہے اور اسی حالت میں موت اسے اپنے آغوش میں لے لے ۔
ہم یہی گواہی دینے کے لیے اس دُنیا میں بھیجے گئے تھے ۔ ہم اسی بات کی عملی گواہی دے نہ سکنے کے سب سے بڑ ے مجرم ہیں۔
اور ہم _"مسلمان" ہیں ؟ خدارا ایک بار __ صرف ایک بار تو سوچیے "کیا ہم مسلمان ہیں ؟"

Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۴ نومبر

/channel/ilmokitab

احمد مقصود حمیدی 4/نومبر/2007ء
سید اشتیاق اظہر 4/نومبر/1999ء
اقبال جعفری 4/نومبر/2010ء
انور دہلوی(محمد انوار الحسن ) 4/نومبر/1994ء
بلخ شیر مزاری 4/نومبر/2022ء
ڈاکٹر سید عبد اللطیف 4/نومبر/1971ء
عبد الستار افغانی 4/نومبر/2006ء
غلام قادر وانی 4/نومبر/1998ء
قطب الدین ایبک 4/نومبر/1210ء
مولانا سید احمد ہاشمی 4/نومبر/2001ء
مولانا سید محمد مرتضٰی مظاہری 4/نومبر/1995ء
نثار احمد فاروقی، پروفیسر 4/نومبر/2004ء

Читать полностью…

علم و کتاب

"اخبار الوفیات" (1870ء تا 1970ء)
تحقیق و تالیف : محمد ثاقب رضا قادری،
ناشر:ورلڈ ویو پبلشرز لاہور، صفحات: 624
قیمت:3000 روپے، رابطہ نمبر:03333585426
تبصرہ نگار: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

وفیات نگاری (دنیا سےگزرے ہوئے لوگوں کی باتیں، گزرجانے والے دوست احباب بالخصوص مشاہیر کا ذکر) کا شمار تاریخ کے اہم ماخذ میں ہوتا ہے۔وفیات نگار ی کی روایت کا آغاز عربی زبان میں ہوا اور اس نے دوسری زبانوں فارسی، ترکی اور اردو کو بھی متاثر کیا۔ اسلامی تاریخ میں وفیات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو حاصل ہوئی وہ ابوالعباس شمس الدین احمد المعروف ابن خلکان (م۶۸۱ھ/ ۱۲۸۲ء )کی وفیات الاعیان وانباء الزمان ہے۔ ابن خلکان نے اس کتاب میں مختلف طبقات الناس ، علماء ، شعراء اور وزراء کے حالات جمع کیے ہیں۔ علاوہ ازیں وفیات کے عنوان پر لکھی جانے والی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے جن سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں۔
مسلمانوں کی اس علمی روایت کوآگے بڑھانے میں اردو کے علمی ودینی جرائد نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جرائد میں شائع ہونے والی وفیات کی مدد سے تاریخ کی اس صنف پر بہت سی کتابیں مرتب و مدون ہوئی ہیں۔ایسی ہی ایک کتاب "اخبار الوفیات" پیشِ نظر ہے۔اخبار الوفیات میں معاصر اخبارات اور جرائد و رسائل سے ماخوذ برصغیر پاک و ہند کے پانچ سو سے زائد مشاہیرکی وفیات سے متعلق اطلاعات،نظمیں اور قطعاتِ تواریخ جمع کیے گئے ہیں۔ جس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بعض ایسی شخصیات جن کی تاریخِ وصال کے بارے میں کوئی اطلاع نہ تھی یا کتب ِ تاریخ و تذکرہ میں تاریخِ وصال کا غلط اندراج ہوگیا ہے، اس کی تصحیح و تعین بارے مستند شواہد میسر آگئے ہیں ۔جس کی کئی مثالیں فاضل محقق نے اپنے "افتتاحیہ" میں درج کی ہیں۔
بعض ایسی شخصیات کا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل ہے جن کے احوال کسی دوسری کتاب میں درج نہیں ہیں یا اگر کہیں مذکور بھی ہیں تو بالکل مختصر۔ مثلاً: مولانا عبیداللہ پائلی ( مصنف تحفۃ الہند) کے کوائف بہت کم ملتے ہیں، جس قدر ان کی تالیف معروف ہے اتنا ہی ان کے احوال کم کم میسر ہیں، اندریں حالات ان کے وصال کی خبر اور مختصراحوال بھی اہم اور غنیمت ہیں۔اسی طرح خلیفہ حمید الدین لاہوری(بانی انجمن حمایت اسلام لاہور و مدرسہ حمیدیہ لاہور) کا مفصل تعارف معروف کتب ِ تذکرہ میں نہیں ملتا ۔ اس کتاب میں انجمن حمایت اسلام کے ماہواری رسالے سے ان کے وصال کی خبر اور تعارف وغیرہ شامل کیا گیا ہے جس سے خلیفہ حمیدالدین لاہوری کے بارے میں مزید معلومات کے حصول میں رہنمائی مل سکتی ہے۔ بعض مشاہیر کے خاندان کی خواتین کی وفیات بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔
اخبار الوفیات کے بنیادی ماخذ ہفت روزہ سراج الاخبار (جہلم)، ہفتہ روزہ اخبار اہل فقہ (امرتسر)، ہفت روزہ اخبار الفقیہ(امرتسر)، روزنامہ پیسہ اخبار(لاہور)، روزنامہ زمیندار (لاہور)، منشور محمدی (بنگلور)، ہفت روزہ دبدبہ سکندری (رام پور)، ہفت روزہ اودھ اخبار (لکھنو)، اخبار الہدایت (دہلی) ، ماہنامہ انوارالصوفیہ (لاہور)، ماہنامہ الرضا (بریلی)، ماہنامہ تحفہ حنفیہ (پٹنہ)، ماہنامہ السواد الاعظم(مراد آباد)، ماہنامہالہدیٰ (لاہور)، انجمن نعمانیہ کا ماہواری رسالہ (لاہور)، انوار الصوفیہ (سیال کوٹ، لاہور) اور روزنامہ انقلاب (لاہور) وغیرہ ہیں۔پہلی خبر 1870ء جب کہ آخری خبر 1970ء کی ہے۔
اس کتاب کی تحقیق وتالیف کا فریضہ نوجوان محقق محمد ثاقب رضا قادری (پ:1984ء) نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ فاضل محقق و مولف نے کہیں کہیں مختصر لیکن مفید حواشی بھی تحریر کیے ہیں اور جن شخصیات کے حالات کسی کتاب یا رسالے میں دستیاب ہیں ، حاشیے میں اس کی نشاندہی بھی کی ہے۔624 صفحات پر محیط یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ زمانہ ماضی قریب کے کتنے ہی اہلِ علم و دانش اور نابغہ روزگار شخصیات ، آج جن کے ناموں سےبھی لوگ واقف نہیں ہیں، کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے۔ امید ہے وفیات پر یہ کتاب تاریخ کا ایک اہم ماخذ ثابت ہوگی اورمستقبل کے مورخ کے لیے حوالے کا کام دے گی۔
محمد ثاقب قادری دینی و عصری علوم سے آراستہ ہیں اور بہت سنجیدگی، خاموشی اور مستقل مزاجی سےکام کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ اس سے قبل متعدد اہم علمی و تحقیقی نوعیت ے کے کام انجام دے چکے ہیں جن میں"رسائلِ حسن"(حضرت حسنؔ بریلوی کے نثری رسائل کا مجموعہ)، "کلیات حسن"(حضرت حسنؔ بریلوی کی منظومات کا مجموعہ)، "رسائل محدث قصوری" (مفتی غلام دستگیر قصوری کے 16 رسائل کا مجموعہ)، "مفتی سید غلام معین الدین نعیمی(حیات و خدمات)"، "احوال و آثارِ فیضی" (مولانا محمد حسن فیضی کے احوال و آثار اور تحقیقی مقالات و منظومات کا مجموعہ)، "حسن رضا بریلوی۔ فن اور شخصیت"، "تاریخ مباحثہ لاہور" (پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی اور مرزا غلام قادیانی کے مابین طے پانے والے مناظرے کی مستند تاریخی روداد)، "تحریکِ ختمِ نبوت اور نوائے وقت"، "ردِ قادیانیت اور سنی

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 227
انتخاب مطالعہ


*طلبہ سے باتیں*

DEAR

عزیز طلبہ! یہ عنوان دیکھ کر آپ چونک گئے ہوں توآپ کا چونکنا غلط نہیں ؛ مگر ہم نے اسے عنوان اس لیے بنایا ہے ؛ تاکہ آپ کو بتاسکیں کہ اگر اسے مختلف طور پر استعمال کریں تو اس کا ”لانگ فارم“ یہ ہوسکتا ہے :« Drop Everything And Read» ”یعنی اپنی تمام مصروفیتوں کو بالائے طاق رکھ کر مطالعہ کیجیے“ ۔
واضح رہے کہ یہاں Read کہاگیا ہے Study نہیں کہا گیا، ان دونوں الفاظ کا فرق آپ جانتے ہیں،ریڈ کا معنی ہے پڑھو! یعنی ایسی کتاب پڑھو جس سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہو،جس سے ذہن کو روشنی ملے، جس سے بشاشت اور خوشگواری کا احساس ہو،یعنی پڑھ کر اچھا لگے اور آپ کی تخلیقی و تنقیدی صلاحیت نیز علم میں اضافہ ہو۔
اسٹڈی کا جہاں تک تعلق ہے، اس کا مفہوم روز مرہ کی پڑھائی اور امتحان کی تیاری سے ہے،اس اعتبار سے دیکھیں تو اسٹڈی بہت اہم ہونے کے باوجود معنویت اور افادیت کے اعتبار سے ریڈنگ یعنی مطالعہ کا تقابلی مقابلہ نہیں کرسکتی، اسٹڈی ایک عمر تک ہی ہوتی ہے، ریڈنگ زندگی بھر جاری رہتی ہے،اسٹڈی ایک خاص مقصد ( جیسے امتحان دینا ) ہی کے لیے ہوتی ہے،ریڈنگ کئی مقاصد کے لیے ہوتی ہے،اس کے علاوہ بھی اسٹڈی اور ریڈنگ میں کئی فرق ہیں جن پر روشنی ڈالنا اس تحریر کی طوالت کا باعث ہوگا؛اس لیے ہم مزید کچھ لکھنے سے قاصر ہیں اور پھر ہمیں DEAR پر مزید روشنی بھی ڈالنی ہے ۔
عزیز طلبہ! کیا آپ نے سوچا کہ: DEAR میں ریڈ یا ریڈنگ ہی کی بات کیوں کہی گئ ہے؟ ”ڈراپ ایوری تھنگ اینڈ ریسٹ“ (Drop Everything And Rest بھی کہا جاسکتا تہا ؛ مگر وہ نہیں کہاگیا؛ کیونکہ ریڈ کا وقت تو طے ہوتا ہے،انسان ریسٹ نہ کرے تو دوسرے دن کی سرگرمیاں قاعدہ سے انجام نہیں دے سکتا ؛ اس لیے یہ بالکل فطری ہے،ریڈ اس لیے کہا گیا ہے کہ:انسان اپنی دن بھر کی مصروفیتوں میں اس قدر کھوجاتا ہے کہ ریڈنگ کے لیے وقت نہیں نکال پاتا،آج کے دور میں بہت سے طلبہ نے ”نیٹ سرفنگ“ کو ریڈنگ کا نعم البدل سمجھ لیا ہے،وہ سمجہتے ہیں کہ سرفنگ کے دوران جہاں جہاں پڑھنے کے لائق کوئی تحریر نظر سے گزرتی ہے وہ ہم پڑھ لیتے ہیں اور اس طرح ہمارا نالج بڑھتا رہتا ہے،پھر کتاب کا مطالعہ کیوں کریں؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ: انسان بازار جائے اور بہت سی اشیاء دیکہتا رہے،پھر کچھ سمجھ میں آئے تو خرید لے اور سمجھ میں نہ آئے تو خالی ہاتھ واپس آجائے،تو آپ اس عمل کو کیا کہیں گے ؟ اس کے برعکس انسان سوچ سمجھ کر کہ اسے کیا اور کہاں سے خریدنا ہے، بازار جائے تو وہ خالی ہاتھ واپس نہیں آئے گا،یہی فرق ہے موبائیل کی سرفنگ اور کتاب کے مطالعے میں، ایک گھنٹے تک موبائیل کی سرفنگ سے اکثر اوقات کچھ نہیں ملتا،جبکہ آدھ گھنٹہ کتاب کا مطالعہ بہت کچھ عطا کرتا ہے،چلتے چلتے بتادیں کہ مطالعہ سے جو حاصل ہوتا ہے اسے حاصل مطالعہ کہتے ہیں۔


( *روزنامہ انقلاب،صفحہ: 2، تاریخ: 01 نومبر 2024، جمعہ*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صديقي

/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

رپورتاژ:
"مصنوعی ذہانت ورکشاپ" – اسلامی تحقیق میں جدید ٹیکنالوجی کا سنگ میل
📝 ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
/channel/ilmokitab

حیدرآباد، 29 ربیع الثانی 1446ھ / 02 نومبر 2024ء – المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کی علمی فضاء میں ایک نیا باب کھلا، جب ایک شاندار اور کار آمد محاضرہ بہ عنوان "مصنوعی ذہانت: ایک تعارف" پیش کیا گیا، بعد نماز مغرب ہونے والے اس مختصر ورکشاپ کا مقصد اسلامی علوم میں جدید تکنیکی وسائل کے مؤثر استعمال اور علمی تحقیقات کو وسعت دینے کے امکانات پر روشنی ڈالنا تھا۔

اس بامقصد نشست کے انعقاد کو حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد اور مولانا محمد عمر عابدین قاسمی مدنی نائب ناظم المعہد کی اس سلسلہ میں توجہات نے ممکن بنایا، جو ایسے پروگراموں کے لیے ہمیشہ فکر مند اور کوشاں رہتے ہیں، معہد کے مؤقر اساتذہ کرام، بشمول مولانا احسان الحق مظاہری، مولانا ناظر انور قاسمی، مولانا محمد انظر قاسمی، اور مولانا محمد ارشد قاسمی وغیرہ نے سو سے زائد طلبہ کے جھرمٹ میں اپنی شرکت سے مجلس کو وقار بخشا۔

جناب سید شہباز صاحب، جو ٹیک زون اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں، نے مصنوعی ذہانت کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی، انہوں نے TensorFlow، PyTorch، OpenCV اور GEMINI جیسے جدید AI ٹولز کے استعمال کو اسلامی تحقیق میں نئی جہات عطا کرنے کے ضمن میں گفتگو کی اور اس کی عملی اہمیت پر زور دیا، پروگرام میں ان کے ہمراہ ایک تکنیکی ٹیم بھی موجود تھی، جس نے عملی طور پر مکمل تعاون فراہم کیا، اس پروگرام کا ایک دلچسپ پہلو Google Colab اور Jupyter Notebooks پر AI کے عملی استعمال کی مشق تھی، جس نے طلبہ کو براہ راست ان ٹولز کے استعمال کا تجربہ دیا، اس مشق نے بحث وتحقیق میں مصنوعی ذہانت کی طاقت کو مزید اجاگر کیا اور طلبہ کے لیے اسلامی تعلیم وتحقیق میں جدید تکنیکی وسائل سے استفادہ کے نئے امکانات روشن کیے۔

محاضرہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ کس طرح مصنوعی ذہانت اسلامی اسکالرز کے لیے نئے راستے کھولتی ہے، مثلاً، خطبات اور دروس کو آڈیو میں تبدیل کرکے پوڈکاسٹ کی صورت میں نشر کیا جا سکتا ہے، جس سے علم کی ترویج میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، آڈیوز اور ویڈیوز کو خودکار طریقہ سے تحریر میں منتقل کرنے کے ٹولز کے ذریعے اسکالرز اپنی تقریروں اور خطبات کو فوری طور پر تحریری شکل دے سکتے ہیں، جو تحقیق اور تراجم کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتی ہے، اسی طرح، پاورپوائنٹ اور دیگر پریزینٹیشنز بنانے اور گرافکس میں بھی AI کا استعمال اسلامی اسکالرز کو تعلیمی اور تحقیقی مواد کے پیش کرنے میں آسانی فراہم کر سکتا ہے، تصنیف وتالیف اور ترجمہ وتعلیق میں تو اس کا استعمال حیران کن نتائج کا حامل ہے۔

فاضل محاضر نے بتایا کہ کس طرح جدید AI ٹیکنالوجی، جیسے NLP، قرآنیات کے تجزیے، احادیث کی درجہ بندی، جدید فقہی مسائل کی تحقیق اور دینی متون کے متعلقات کو ممکن بناتی ہے، AI پر مبنی تصویری اور ویڈیو پروڈکشن ٹولز کے ذریعہ اسکالرز اسلامی تعلیمات کی مؤثر انداز میں ترویج کے لیے بہترین مواد تیار کر سکتے ہیں۔

محاضرہ کے اختتام پر Techzone academy کی جانب سے ایک نئی ویب سائٹ اور ایپ کے بہت جلد آغاز کا اعلان بھی کیا گیا، جس کا نام "AI Buddy" ہے، جس میں مصنوعی ذہانت کے متعلق جامع معلومات فراہم کی جائیں گی، یہ ایپ مصنوعی ذہانت سے متعلق ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا اور علم کے نئے دروازے وا کرے گا، یوں یہ مجلس ایک علمی اور فکری پیش رفت ثابت ہوئی، جس نے اسلامی تعلیم وتحقیق میں جدید علوم سے استفادہ کی راہیں کھول دیں، ڈاکٹر محمد اعظم ندوی نے اینکر کے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی تعارفی گفتگو میں کہا:
"مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسان کی نقل کرتے ہوئے اس جیسی ذہانت اور فہم کا حامل ایک زبردست سسٹم وجود میں لانے کی کوشش کرتی ہے، یہ ٹیکنالوجی کمپیوٹرز اور مشینوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ انسانوں کی طرح سوچ سکیں، فیصلہ کر سکیں، اور کچھ کام خود بخود انجام دے سکیں، مصنوعی ذہانت کی مختلف شاخیں ہیں، جیسے:
1. مشین لرننگ - جس میں کمپیوٹر خود سے سیکھتا ہے اور نئے تجربات سے نتائج اخذ کرتا ہے۔
2. ڈیپ لرننگ - جو اعصابی نظام کی نقل کرتے ہوئے پیچیدہ فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
3. نیچرل لینگویج پروسیسنگ (NLP) - جس کے ذریعہ کمپیوٹر زبان کو سمجھتے اور جواب دیتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے فوائد بے شمار ہیں، جیسے صحت، تعلیم، صنعت، اور کاروبار کے شعبوں میں انقلاب برپا کرنا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جیسے انسانی روزگار پر اس کا اثر، اور اخلاقی سوالات کہ کیا ایسی ذہانت انسان کی مرضی کے تابع رہے گی یا نہیں"۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سنو سنو!!

طواف ، مطاف اور مطوِّف

(ناصرالدین مظاہری)

’’گارے میں اٹے ہوئے اور بدبو دار سڑی ہوئی کیچڑ میں لتھڑے ہوئے سُوَرسے ٹکراجانا توگوارا کیاجاسکتاہے لیکن یہ گوارا کرنے کی بات نہیں ہے کہ کسی مرد کے شانے کسی اجنبی عورت سے ٹکرائیں‘‘

رونگٹے کھڑے کردینے والے یہ الفاظ میرے نہیں ہیں بلکہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک حدیث شریف ہے۔

فروری ۲۰۲۳ میں حرمین شریفین حاضری کی سعادت ملی ، مطاف میں طواف کے لئے ایک دوست کاساتھ ہوگیا، وہ دوست میرا ہاتھ پکڑ کر بڑی تیزی کے ساتھ مجمع میں گھستا چلا جاتا، میں خواتین سے بچنے کی کوشش کرتا اور وہ میرا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کرتا ،مجھے خطرہ ہونے لگتا کہ کہیں کسی خاتون سے نہ ٹکراجاؤں اس لئے میں نے ان سے کہا کہ میرا ہاتھ چھوڑدیں ،مجھے طواف آرام سے آہستہ آہستہ کرنا ہے ،میرا ہاتھ کھینچنے کی وجہ سے مجھے خطرہ ہونے لگتا ہے کہ کسی خاتون کاجسم میرے جسم سے نہ ٹکرائے ، وہ بولے کہ اس طرح تو بہت وقت لگ جائے گا۔میں نے کہاکہ آپ اپنا کام پورا کرکے میرا انتظار کئے بغیر چلے جانا میں خود ہی آجاؤں گا۔

کچھ لوگ طواف اتنی جلدی جلدی کرتے ہیں کہ لگتا ہے اپنے سر سے بوجھ اتار رہے ہیں حالانکہ خود اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ واتموا الحج والعمرۃ للہ ،یعنی حج وعمرہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرو۔(بقرہ)

طبرانی کی روایت ہے کہ حج اور عمرے کے لئے جانے والے خدا کے خصوصی مہمان ہیں وہ خدا سے دعا کریں توخدا قبول فرماتا ہے اور مغفرت طلب کریں تو بخش دیتا ہے ۔

سوچیں اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفرکے دوران تقویٰ کو ہی بہترین زاد سفر فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے وتزدوا فان خیرالزاد التقویٰ ۔ اور زاد راہ ساتھ لو اوربہترین زاد راہ تو تقویٰ ہے۔

اس کے باوجود اگر ہم مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران کسی اجنبی مرد یا عورت کو دیکھیں،کسی اجنبی مرد یاعورت سے بات کریں ، کسی غیر محرم مرد یا عورت سے طواف یا سعی یا کسی اور موقع پر دیدہ و دانستہ لمس اور مس کی کوشش کریں تو نہ تو ہمارا حج حج ہے نہ ہمارا عمرہ عمرہ ہے بلکہ یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ بہت سے لوگ اِن بابرکت مقامات پرجانے سے پہلے کم گنہ گار ہوتے ہیں اور وہاں پہنچنے کے بعد ایسی ذلیل حرکتوں اور غلط کاریوں کے باعث پہلے سے زیادہ گنہ گار ہوکر واپس ہوتے ہیں۔جس طرح ان مقدس مقامات میں ہرنیکی بڑھ جاتی ہے ،ہرنماز کاثواب بڑھ جاتاہے توجان بوجھ کرکیاجانے والا ہرگناہ بھی بڑھ جاتاہے۔

اپنے ہوٹل میں ہوں یا راستوں میں،بیت اللہ میں ہوں یا مدینہ منورہ میں ہرجگہ عورتوں کے اختلاط ورنہ کم ازکم عورتوں کے جسم سے ٹچ ہونے سے سو فیصد بچنے کی کوشش کریں۔

میں نے دیکھا ہے کہ لوگ طواف کے بعد دو رکعت واجب طواف کی ادائیگی کے لئے مقام ابراہیم کی طرف ایسی جگہ نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں جن کے دائیں بائیں آگے پیچھے عورتوں کی بھیڑ ہوتی ہے سوچیں جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجنبی عورتوں کے پاس نماز پڑھنے سے منع فرمایاہے تویہاں یہ عمل کیسے جائز ہوسکتا ہے اور کیونکر آپ کی یہ دورکعت عنداللہ وہ مقام حاصل کرسکتی ہیں جومطلوب ہیں۔

آپ حرم محترم میں ہوں اورا کڑ کرچلیں، یا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ایک دوسرے کو پچھاڑتے اور دھکے مارتے ہوئے چلیں یا آپ کے چلنے سے کسی اور کو کوئی تکلیف پہنچے یا آپ کے اس چلنے کی وجہ سے راہ گیروں کو پریشانی اور تکلیف کاسامنا کرنا پڑے تویاد رکھیں یہ سب چیزیں سنت نبوی کے خلاف ہیں جس کی وجہ سے آپ نیکیاں نہیں برائیاں اپنے نامۂ اعمال میں بڑھارہےہیں۔

مکہ مکرمہ تجلیات ربانی کامرکز ہے یہاں توچلتے وقت ہمارے جسموں پرلرزہ طاری ہونا چاہئے،ہماری نظریں اعتراف ذنوب وقصور میں جھکی ہونی چاہئیں، ہم تکلیف دہ چیزوں کواٹھا اٹھا کر کوڑے دان میں ڈالتے چلیں، مسنون دعائیں پڑھتے ہوئے آگے بڑھیں، غلط کام کرنے والوں کوقرآن کریم یاحدیث نبوی سناتے چلیں، کمزوروں، ضعیفوں اور مصیبت کے مارے ہوئے لوگوں کی مدد کرتے چلیں، اپنی عورتوں کو تاکید کرتے رہیں کہ بھیڑ میں گھسنے سے بچیں، مسنون طریقے پرچلیں، وہ اسلامی ملک ہے وہاں چلنے کے لئے دائیں راستے کواختیار کرنے کاحکم ہے اس لئے مخالف سمت میں چل کرڈسپلن شکنی نہ کریں ،حتی الامکان پردے کااہتمام رکھیں،حالت احرام میں بھی مخصوص قسم کاہیٹ بازار سے ملتاہے اس کوپیشانی پر رکھ کر اپنے چہرے کے سامنے پردہ ڈال لیں تاکہ پردہ چہرے سے مس نہ ہو، یوں کھلم کھلا طواف کرنا، کھلے چہرہ کے ساتھ محابا کہیں بھی گھس جانا،خاص کرحجر اسود، مقام ابراہیم، ملتزم اور حطیم میں بے دھڑک مردوں کودھکے مارتے ہوئے جانا اور نیکیاں کمانا یہ کہاں کی تعلیم ہے۔ سچ کہتاہوں حجر اسود کے بوسہ کے وقت ہماری بہنوں کی جس قدر بے پردگی ہوتی ہے اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا اورحال یہ ہے کہ حجر اسود کابوسہ لینا نہ فرض ہے ،نہ واجب ہے،نہ موکدہ ہے ، ایک مستحب کی خاطر لوگوں کو اپنی

Читать полностью…

علم و کتاب

گلبرگہ سے یہ افسوس ناک خبر آرہی ہے کہ مولانا ڈاکٹر سید خسرو حسینی کچھ دیر پہلے وفات پاگئے. إنا للہ وانا الیہ راجعون.
وہ خانقاہ حضرت خواجہ بندہ نواز کے سجادہ نشین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر تھے. نہایت باوقار شخصیت کے مالک تھے. وہ ایک عظیم مرشد، مصنف، شاعر اور سنجیدہ فکر کے حامل مربی تھے. انھوں نے درگاہ کے تحت خواجہ بندہ نواز یونی ورسٹی قائم کرکے ملک بھر کی درگاہوں کے لیے مثالی نمونہ قائم کیا. کئی درجن تعلیمی، دینی اور ملّی اداروں کی سرپرستی بھی فرمائی.
اراکین بزم سے اپنے اپنے طور پر دعائے مغفرت کی گزارش ہے.
اجمل فاروق

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۷/ نومبر
Https://telegram.me/ilmokitab

ابراہیم خان فنا ناگپوری 7/نومبر/1994ء
ایم بی نقوی (محمد باقر) 7/نومبر/2009ء
بہادر شاہ ظفر 7/نومبر/1862ء
ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری 7/نومبر/1918ء
راؤ عبد الرشید 7/نومبر/2007ء
شمس الحسن ، سید 7/نومبر/1981ء
فہمی الٰہ آبادی 7/نومبر/2005ء
کرار حسین، پروفیسر 7/نومبر/1999ء
مفتی محمد عبد اللہ ٹونکی 7/نومبر/1920ء
مہابت خانجی سوم رسول خانجی، نواب سر محمد) 7/نومبر/1995ء
مولانا غلام نبی کشمیری 7/نومبر/2019ء
مولانا محمد مجاہد الحسینی 7/نومبر/2014ء
مولوی ذکاء اللہ 7/نومبر/1910ء
نورالدین سلیم جہانگیر 7/نومبر/1627ء

Читать полностью…

علم و کتاب

انتخاب مطالعہ/۲۱۴
انتخاب: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
تحریر: مولانا حفیظ الرحمن عمری

*کیا میری ہی قسمت میں کوئی جام نہیں ہے*

نومبر ۱۹۶۱ء میں جامعہ اسلامیہ کی تاسیس عمل میں آئی تو یونی ورسٹی کے چانسلر فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ (1969-1893) کی نظر انتخاب آپ ( شیخ ناصر الدین البانی) پر پڑی ، اور آپ فن حدیث کی تدریس کے لیے مدعو کیے گئے ۔ اس وقت جامعہ اسلامیہ کے اکثر اساتذہ اگلے وقتوں کے تعلیم یافتہ تھے، روایتی سند کسی کے پاس نہیں تھی؛ لیکن ان کے پاس جو علم تھا وہ محاورے میں سمندر نہیں، حقیقت میں سمندر تھا، بعد میں جب سند کا چلن آیا تو یہ اساتذہ صرف سند نہ ہونے کی وجہ سے نا اہل قرار دیے گئے، دنیا آج جن خود ساختہ اصولوں میں گرفتار ہے، جن میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ جامعات میں علم نہیں سند معیار ہے، اور ہر سند کی ایک الگ الگ تنخواہ مقرر ہے۔
مجھے اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے، آج سے تقریبا سوا سو سال پہلے ملک شام کے ایک دیہات میں ایک پڑھے لکھے صاحب آئے، جن کا نام تھا محی الدین سفر جیلانی اس وقت اس بستی کا کوئی بھی آدمی پڑھا لکھا نہیں تھا، اس ماحول کو دیکھ کر آپ بہت دکھی ہوے اور آپ نے بدووں کو پڑھانے کی ٹھان لی۔ چناں چہ اپنے گھر کے ایک کمرے کو مکتب بنا دیا اور سر پرستوں سے منت سماجت کرکے بچوں کو جمع کرنا اور پڑھانا شروع کر دیا، جو بچے آوارہ گھومتے انھیں چاکلیٹ، ٹافی دے کر تعلیم کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہو گئے، رفتہ رفتہ تعداد بڑھتی گئی، جہالت کافور ہوتی گئی اور علم کی روشنی عام ہونے لگی، اسی حال میں عمر عزیز کے ستر سال گزر گئے، نوے سال کو پہنچے تھے کہ ایک دن معمول کے مطابق بچوں کو پڑھا کر تھکے تھکے سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ڈاکیہ ایک خط لا کر دیا، کھولا تو معلوم ہوا کہ یہ خط ملک شام کی وزارت تعلیم کی طرف سے آیا ہے، دو چار سطروں کے خط کا مضمون کچھ یوں تھا:
*ملک کا یہ قانون ہے کہ جس شخص کے پاس تعلیمی سند ہو، وہی مدرسہ چلا سکتا ہے۔ چوں کہ آپ کے پاس سند نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اس لیے فوراً اپنا مدرسہ بند کیجیے، ورنہ قانونی کارروائی کی جائے گی، سند کے بغیر مدرسہ چلانا بہت بڑا جرم ہے۔*
دستخط کے ساتھ جو نام لکھا ہوا تھا اسے شیخ نے غور سے پڑھا تو کچھ مانوس لگا، دفتر نکال کر دیکھا تو نہ صرف وہ افسر اس مکتب کا طالب علم تھا، بلکہ اس کے باپ اور دادا تک بھی اسی کے فیض یاب تھے، شیخ سفر جیلانی نے ایک سرد اور طویل آہ کھینچی، ستر سالہ خدمات کے نتیجے اور انعام نے دل پر ایسا وار کیا کہ وہ اسی مکتب کے پیوند بن کر رہ گئے:
میں نے ہی تو مے خانے کو مے خانہ بنایا
کیا میری ہی قسمت میں کوئی جام نہیں ہے
بہر حال! کہنا یہ ہے کہ ان بے سند اساتذہ میں عالم ربانی، عارف قرآنی علامہ ابن باز اور مجدد علوم حدیث شیخ البانی بھی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اساتذہ/ ۱۵۸

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

بڑوں کے لیے چھوٹی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں
(سفرنامہ جنوبی افریقہ ۱۲):-
/channel/ilmokitab

زیمبالی اسٹیٹ میں قیام کے دوران میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ اللہ کے نیک بندے کس قدر چھوٹی چھوٹی باتوں کا لحاظ کرتے ہیں، اس موقع پر میرے مخدوم ومربی مولانا عبد اللہ حسنی مرحوم بہت یاد آئے جو اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بڑے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے ہیں، یہی علامت ہے ان کی بڑائی کی، جب کہ چھوٹے لوگوں کو بڑی بڑی چیزیں بھی نظر نہیں آتیں، مثال دے کر فرماتے گویا ایک طرف ترقی یافتہ ممالک کے ہوائی اڈے کا رن وے کہ جس پر چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نظر آجائیں تو دوسری طرف یہاں کی سڑکیں کہ جن پر بنے گڈھے بھی بعض اوقات نگاہوں کی دست رس میں نہیں آپاتے۔
خیر، واقعہ یہ پیش آیا کہ زمبالی کے جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا وہاں شام کے وقت جب ہم واپس پہنچے تو دنیا بدلی ہوئی تھی، کھانے پینے کی چیزیں شکر، شربت وغیرہ سب کچھ گرا پڑا، برتن اوندھے، گویا کوئی مخلوق آکر یہ کارنامہ انجام دے گئی اور اپنے مطلب کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرگئی، اندازہ ہوا کہ یقینا یہ حرکت بندروں کی ہوگی۔ مگر تعجب اس پر تھا کہ کس طرح وہ اندر داخل ہوئے جب کہ ہر دروازہ بند اور اس پر قفل چڑھے ہوئے، ہاں ایک کھڑکی کھلی تھی تو یقین ہوا کہ ہو نہ ہو یہی ان کا باب الداخلہ ٹھہرا۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ شکایت کی جائے مگر پانچ بجے کے بعد ریسیپشن آفس بند ہوجاتا ہے تو جھنجھلاہٹ بہت ہوئی اور غصہ بھی آیا کہ اس بڑے ہوٹل میں کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
مگر کمال تو مولانا موسیٰ نے کیا کہ عمر رسیدہ بھی اور عظیم المرتبت بھی، لیکن کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے ہر چیز صاف کی، اور ہمیں پتہ بھی نہ چلنے دیا۔ بعد میں جب ہم نے دیکھا تو بہت تعجب بھی ہوا اور قدر بھی آئی، ہم نے عرض کیا کہ مولانا! آپ نے خواہ مخواہ زحمت کی، یہاں کسی سے کہہ دیتے تو وہ لوگ صاف کردیتے، تو مولانا نے فرمایا کہ اس میں کون سی بڑی بات ہے، پانچ منٹ بھی تو نہیں لگے، اور دوسری بات یہ کہ اگر ہم ہوٹل کی انتظامیہ سے اس چھوٹی سی چیز کی شکایت کردیتے تو بے چارے ملازموں کی جان پر بن آتی اور ان کی ملازمت خطرے میں پڑجاتی، اور ان کے ذہن میں بھی ہم مسلمانوں کے تعلق سے پتہ نہیں کیا شبیہ ابھرتی! بہت ممکن ہے ہم میں سے کسی نے صبح کے وقت کھڑکی کھولی ہو اور اسے بند کرنا بھول گیا ہو۔
اس سے ایک طرف مولانا کا تواضع اور جذبۂ فنائیت ظاہر ہوا تو دوسری طرف ان کے اندر پوشیدہ خدمت کا جذبہ، رفیقوں کی رفاقت کا لحاظ، خادموں اور نوکروں کو ممکنہ خطرات سے بچانے کی فکر۔
مولانا زندہ دل بھی ہیں، باغ وبہار شخصیت کے مالک بھی، روحانی اعتبار سے بڑے مقام پر ہونے کے باوجود چھوٹوں کے ساتھ چھوٹے بن کر رہنے والے۔
عمر کی سات دہائیاں مکمل کرنے کے باوجود ماشاء اللہ چاق وچوبند ہیں، ہفتے بھر میں دو ڈھائی ہزار کیلومیٹر کے سفر میں خود ڈرائیونگ کی، اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔
ڈربن کا آخری ناشتہ مولانا موسیٰ کے مرحوم دوست کے بیٹے حافظ احمد کے یہاں ہوا۔ ان کے مکان کا جائے وقوع بڑا خوب صورت اور دل آویز ہے، پہاڑ کے اوپر ایک خوب صورت محلے میں دیدہ زیب عمارتوں اور شاداب اور دل فریب کہساروں کے بیچوں بیچ گویا شیش محل ہو۔
یہاں ناشتے سے فارغ ہوکر ہمیں واپس جوہانسبرگ کے لیے روانہ ہونا ہے، راستے میں کئی ایک مدارس کی زیارت بھی کرنی ہے، سو ہم نکل پڑے اور اگلی ساعتوں میں دار العلوم نعیمیہ، کیمپا ڈاؤن پہنچ گئے، نام تو بہت پہلے سے سن رکھا تھا اور یہاں ہمارے بورونڈی کے کرم فرما مولانا خلیل کے دست راست مفتی امین پالن پوری کے دو صاحب زادے بھی زیر تعلیم ہیں، اس لیے بھی خواہش اس کی زیارت کی تھی، پہاڑوں کے اوپر دل فریب نظاروں کے بیچ میں اس مدرسے کی عمارتیں واقعی دامن دل کو کھینچ لیتی ہیں، آج کچھ زیادہ ہی رونق اور چہل پہل تھی، ہوائیں بھی ترانے گارہی تھیں، کیوں نہ ہو کہ یہاں دو چار دنوں میں دعوت وتبلیغ کا عظیم الشان اجتماع منعقد ہونے والا تھا، جس میں افریقی ممالک کا جم غفیر جمع ہونے والا تھا، مختلف جماعتیں یہاں اجتماع کی تیاریوں میں بھی سرگرم تھیں۔
مدرسے میں مختلف ممالک کے تقریبا 258 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مہتمم مولانا زکریا دیسائی اور ناظم تعلیمات مفتی محمد کڈوا ہیں۔ مدرسے کا تعلیمی وتربیتی نظام قابل رشک ہے۔ مفتی صاحب شریف اور متواضع ہیں، اپنی ساری توانائیاں مدرسے کی ترقی میں لگارہے ہیں، جس کی بنا پر جنوبی افریقہ میں اس مدرسے کی ایک شناخت بن چکی ہے۔ نصف گھنٹے کی ملاقات رہی اور سفر کے مقاصد اور تعلیمی نصاب وغیرہ کے متعلق تبادلۂ خیال ہوا، بھٹکل کا نام سن کر مفتی صاحب نے فرمایا کہ بھٹکل سے قریب شہر اڈپی میں آپ سن چوراسی میں تراویح سنا چکے ہیں۔

(سخنؔ حجازی۔ کیمپا ڈاؤن سے سدارہ کے راستے میں۔ چودہ اکتوبر۔ 2024)۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

صور من حياة الصحابة. يزيد ابن أبي سفيان بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۶ / نومبر
https;///channel/ilmokitab

شیوا بریلوی(صابر حسن) 6/نومبر/1975ء
پروفیسر عتیق احمد 6/نومبر/2006ء
گل حسن ابڑو 6/نومبر/1986ء
لطیف ابراہیم جمال 6/نومبر/2004ء
مجاہد کاظمی 6/نومبر/1972ء
محمد یٰسین علی خان ملیح آبادی 6/نومبر/1977ء
وحید قریشی 6/نومبر/1966ء
حافظ علی بہادر خان 6/نومبر/1967ء
عبد العلی خاں 6/نومبر/1962ء
شیوا بریلوی 6/نومبر/1975ء
قاضی شہاب الدین دولت آبادی 6/نومبر/1445ء
محمود عبد اللہ ہارون 6/نومبر/2008ء
جسٹس میاں عبد الرشید 6/نومبر/1981ء

Читать полностью…

علم و کتاب

/channel/ilmokitab

سلسلہ نمبر: 229
انتخاب مطالعہ:
تحریر: *عؔلامہ سید سلیمان ندویؒ*

*آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاء داری*

کسی حسین اور محبوب چیز کی نسبت اگر اس کے عاشقوں اور محبت کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ اس کی کونسی ادا تم کو پسند آئی ؟ اس کے کس حصے میں تم کو حسن و جمال کا مظہر نظر آتا ہے؟ اس کے کس حسن و خوبی نے تم کو فریفتہ کیا ہے؟ تو یقینًا پوری جماعت کا ایک ہی جواب نہ ہوگا ؛ کوئی کسی حصے کا نام لے گا،کوئی کسی ادا کی تعریف کرے گا،کوئی کسی خوبی کا اپنے کو شیدا بنائے گا،اسی طرح دنیا میں جو پیغمبرؑ آئے وہ کئی قسم کے تھے: ایک وہ جن کی آنکھوں کے سامنے خدا کے صرف جلال و کبریائی کا جلوہ تھا اور اس لیے وہ صرف خدا کے خوف و خشیت کی تعلیم دیتے تھے،مثلا: حضرت نوحؑ اور حضرت موسیٰؑ، دوسرے وہ جو محبت الٰہی میں سرشار تھے اور وہ لوگوں کو اسی خمخانۂ عشق کی طرف بلاتے تھے، مثلا : حضرت یحییٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ۔
لیکن ان پیغمبروں میں ایک ہستی آئی،جو برزخِ کبریٰ،منبع جلال و جمال اور جامع مستی اور ہوشیاری تھی ،یعنی محمد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم
ایک طرف آپ کی آنکھیں خوف الہی سے اشک آلود رہتی تھیں، دوسری طرف آپ کا دل خدا کی محبت اور رحم و کرم سے مسرور تھا، کبھی ایسا ہوتا کہ ایک ہی وقت میں یہ دونوں منظر لوگوں کو نظر آجاتے،چنانچہ جب راتوں کو آپ شوق اور ولولے کے عالم میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے قرآن مجید کی لمبی لمبی سورتیں زبان مبارک پر ہوتیں ہر قسم اور معنی کی آیتیں گزر جاتیں،جب کوئی خوف و خشیت کی آیت آتی، پناہ مانگتے اور جب کوئی مہر و محبت اور رحم و بشارت کی آیت آتی تو اس کے حصول کی دعا مانگتے۔

(*سید سلیمان نؔدویؒ کے چند نادر خطبات و رسائل کا مجموعہ، صفحہ: 100، طبع:مجلس نشریات اسلام،کراچی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

" ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جن کو دین حاصل ہوگیا اور اہلٍ دین کی صحیح معنوں میں صحبت نصیب ہوگئی، ان میں تو تہذیب پیدا ہوجاتی ہے، ورنہ اس کے پیدا ہونے کا اور کوئی ذریعہ نہیں، اور یہ جو آج کل کے بد دینوں کی تہذیب ہے، اس کو میں کہاں کرتا ہوں کہ یہ سب تہذیب نہیں، تعذیب ( عذاب، سزا ) ہے، بڑی تکلیف ہوتی ہے " ۔

( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: 7، صفحہ نمبر: 100 ) ۔

Читать полностью…

علم و کتاب

انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۱۹
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق قرآن مجید کی ایک ایسی آیت ہے جو مولانا دریابادی کی نظر میں پورے کا قرآن کا لبّ لباب ہے ۔ اس آیت کے بارے میں مولانا کے جو دلی جذبات تھے وہ انھوں نے بڑے موثر انداز میں تفسیر ماجدی کے درج ذیل اقتباس میں بیان کیے ہیں۔
انشائے ماجدی

”دین کے مطالبات میں بس ایک ایمان ہی کا مطالبہ ایسا ہے جو ہمہ وقتی اور ہمہ حالی ہے ورنہ اعمال جتنے بھی ہیں، سب حالات کے تابع ہیں اور حالات خود تغیر پذیر ہیں۔ ضمناً اہلِ کتاب کو بھی فہمائش ہو رہی ہے کہ تم جس دین کو نیا اجنبی اور انوکھا سمجھ کر اس سے بدکتے اور بھڑکتے ہو ،وہ نو پیدا نہیں وہ تو عین تمہارے ہی بزرگوں کا تعلیم کیا ہوا دین و آئین ہے( راقم میںسطور نامہ سیاہ سے اگر فرمائش کی جائے کہ سارے قران مجید سے کسی ایک آیت کا اپنے لیے انتخاب کر لے تو اس کی نظر ِانتخاب اسی آیت بلکہ اس کے آخری جز پر پڑے گی اِنّ اللہ اصطَفیٰ لَکُم الدّینَ فَلَا تَمُو تَنّ وَ اَنتُم مُسلِمُونَ۔جی میں ہے کہ زندگی کی ہر ساعت میں یہی آیت وردِ زبان رہے اور دل میں اسی کے معنی کا استحضار رہے، موت کے وقت یہی دل و زبان پر جاری ہو اور بعد موت یہی کفن پر لکھ دی جائے اور قبر کے کندھے پر بھی کندہ کر دی جائے۔بارہا اس آیت پر وجد طاری ہو چکا ہے ،بارہا اس آیت پرآنسو جاری رہ چکے ہیں اور دل یہ کہتا ہے کہ احکام کی حد تک سارے قرآن مجید کا لبّ لباب یہی آیت ہے۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اول ،صفحہ نمبر۲۵۶)

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا ہم مسلمان ہیں (٣١ ) ۔۔۔ ہمیں دنیا نہیں محمد ﷺ چاہیے (دوسری قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی

دُعا کی ، ان سفّاک انسانوں کے لیے جو خُدا کی زمین کو بہترین انسانوں کے خون سے رنگین کرنے پر کمربستہ تھے ، دعا کی ان ظالموں کے لیے جن کے جذبات میں پتھروں کی سی بے حسی اور فولاد کی سختی تھی ، دعا کی ان خونخواروں کے لیے جو پیغمبرﷺ کے لہو سے نفرت وانتقام کی ہولی کھیلنا چاہتے تھے انسانی ستم کاریوں پر عفو و درگُزر سے مُسکرانے والے دعا کی ۔ جلنے والوں کے لیے خدا کے آگے رونے والے نے دعا کی۔ جو محمدﷺ کے لیے زمین تنگ کرنے کی قسم کھا رہے تھے مُحَمَّد(ﷺ) ان کے لیے خُدا سے اِلتجا کر رہا تھا کہ ان کو وہ جنّت عطا کر جس کی وسعتوں میں آسمان و زمین کی پنہائیاں ذرّوں کی طرح گُم ہو جائیں ۔
آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے مجاہد جوشِ انتقام میں چیخ اُٹھے تھے اور بد دعا کی درخواستیں کر رہے تھے اور آپ ﷺ ہاتھ پھیلائے دامن پسارے ہوئے خالقِ کائنات سے کہہ رہے تھے:
"اے خُدا ، ثقیف کو سیدھا راستہ دکھا اے خُدا ان کو میرے نہیں اپنے دین کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کر دے"
جان دے دینا! کسی بڑے مقصد کے لیے جان دے دینا بہت مشکل اور بڑا حسین کام ہے لیکن جان لینے والوں کی بلائیں لینا اس سے بھی کہیں زیادہ دشوار اور دل کش ادا ہے __ کمانوں سے نکلے ہوئے زہر یلے تیر اپنے بہترین تیراندازوں کو مایوس کر چُکے تھے لیکن زبان دل سے چھوٹا ہوا یہ "ناوکِ دعا" خالی نہ جاسکا ٹھیک ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور دو ہی سال کے بعد یہ دعا ایک شان دار حقیقت بن کر تاریخ کے سامنے آگئی ۔
حُنین کے محاذ پر خُدا کا رسول ﷺ ایک ولولہ انگیز جلال بن کر نظر آیا تھا تو طائف میں یہ شخصیت پیکرِ جمال کے قالب میں ڈھل گئی ۔ اور اب وہ جعرانہ کے تاریخی مقام پر تھا جہاں یہ جلال اور جمال کی مقدس ادائیں مل کر ایک حسین ترین منظر پیش کرنے والی تھیں ۔
جعرانہ کے مقام پر وافر ترین مالِ غنیمت کے ڈھیر تقسیم کیے جا رہے تھے ۔ ان میں چھ ہزار قیدی تھے _ چوبیس ہزار اونٹ تھے _ چالیس ہزار بکریاں تھیں ۔اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی ۔ انسانیت کا بہترین دردشناس خُدا کا پیارا رسول ﷺ ان دشمن قیدیوں کی طرف درد و گداز کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ آپ ﷺ کا جی چاہتا تھا کہ یہ لوگ انسانی قید سے نکل کر اپنے مالک کی حلقہ بگوشی قبول کر سکیں ۔ آپ ﷺ ان کو آزاد کر کے اسلام کے سینے میں جوش مارتی ہوئی خدا کی رحمت دُنیا کو دِکھانے کے لیے بے تاب تھے ۔ مالِ غنیمت کی تقسیم مُلتوی کردی گئی اور کئی دن تک یہ انتظار کیا گیا کہ ہوازن اور ثقیف کے سردار اپنے ان اسیروں کو چھڑانے کے لیے آئیں۔ لیکن حق سے ٹکرانے والے شکست کا زخم کھا کر ایسے گرے کہ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کا فرض بھی بروقت نہ ادا کر سکے ۔ آخر یہ مالِ غنیمت اسلامی لشکر پر تقسیم کیا گیا۔
اس تقسیم کے وقت بھی انسانی جذبات کی پاس داری ملحوظ تھی ۔ اس میں سے ان نو مسلموں کو دل کھول کر کثیر حصہ دیا گیا جو ابھی نئے نئے آغوش اسلام میں آتے تھے اور اس کی فیّاضی اور دل جوئی کی شان سے ناواقف تھے ۔ یہ جہادان کا پہلا جہاد تھا۔ اس لیے جاں نثاری کی یہ پہلی کوشِش فطری طور پر دل جوئی اور ہمت افزائیوں کا نفسیاتی تقاضا کر رہی تھی ۔
اپنی بدترین شکست پر شکست کھانے والا شیطان تیزی سے حرکت میں آیا منافقوں کو آلۂ کار بناکر انصار کے کچھ نوجوانوں کے دماغ میں یہ فتنہ ساماں شوشہ چھوڑ دیا کہ ” مال غنیمت کی تقسیم میں رسول خدا ﷺ نے مکّے کے مقابلے میں مدینے کو نظر انداز فرما دیا _ مکّے کے نو مسلموں کو مدینے کے پرانے جاں نثاروں پر ترجیح دی!___"
آخر کچھ انصار نوجوان بے قابو ہو کر کہ اُٹھے:
"یہ وہی تو مکّے والے ہیں جنھوں نے مسلمانوں کاخون بہایا اور یہ خون ابھی تک ان کی تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن پھر بھی انعام ان کے لیے اور مشکلات ہمارے لیے! نفع اٹھانے کے وقت وہ ہیں اور مشقّت اٹھانے کے لیے ہمیں یاد کیا جاتا ہے!____"

یہ جذباتی آواز یں بھٹکتی ہوئی رسول خدا ﷺ کے کانوں تک پہنچیں ایک انتہائی بے لوث محسن اپنے بہترین دوستوں کی طرف سے آخری درجہ کی دل آزاریوں کی زد میں تھا ۔ لیکن آدمیوں کی کمزوریوں پر ترس کھانے والے انسانِ کامل ﷺ نے اپنے مجروح جذبات کا گلہ گھونٹ دیا _آپ خون جگر کے خونیں آنسو پی گئے ۔ اور سکون ومتانت کی ایک درد بھری آواز میں انصار کو آواز دی ۔
"جانتے ہو آج میرے متعلق لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟"
"اے خدا کے رسول ﷺ !" انصار کے بزرگ گڑ گڑائے "یہ چند نا پختہ کار لونڈوں کی جذباتی حرکت ہے جس کے ساتھ ہمارے بزرگوں اور سر برا ہوں میں سے کوئی نہیں!"

Читать полностью…

علم و کتاب

صحافت" (تین جلدیں) ، "تحریکِ ختمِ نبوت 1974ء"، "غازیانِ ناموسِ رسالت" اور "مرزا قادیانی حاضر ہو" (مرزا قادیانی کے مقدمات کی روداد) بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے ۔ آمین

Читать полностью…

علم و کتاب

*مانگے کا اجالا*
ﺁﺝ ﮐﻞ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯾﺎﮞ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﻧﮑﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ - ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮯ ﺗﮑﻠﻔﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﮧ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺑﻨﺪﮦ سمجھ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﺷﺨﺺ ﻣﯿﺎﮞ ﮨﮯ ﯾﺎ کچھ ﺍﻭﺭ -
ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺑﻮﻟﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ " ﺍﯾﺎﺯ " ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﮞ . ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ - ﺍﺗﻨﺎ ﮔﻨﺪ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺣﺸﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ -
ﮨﻢ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﮯ " ﺑﺲ ﺟﯽ ﺁﺝ ﮐﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﮯ ﮨﯽ ﻧﮑﻤﯽ " -
ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺑﮕﮍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯿﮟ " ﮨﺎﺋﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﯾﺎﺯ ، ﺍﻭﻻﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ ﮨﯿﮟ " -
ﺁﭖ ﮨﯽ ﺑﺘﺎؤ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺟﻮ ﻟﮕﺎ , ﺳﻮ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ -
ﺁﺝ ﮐﻞ ﻣﯿﺎﮞ ، ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺎﺻﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﻻﮈ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ -
ﻣﺎﺋﯽ ﺑﮯﺑﯽ ، ﻣﺎﺋﯽ ﻣﻮﻧﺎ ، ﻣﺎﺋﯽ ﺳﻮﺋﭩﻮ ، ﺷﻮﻧﻮ ﻣﻮﻧﻮ
ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ
" ﺑﮯﺑﯽ ﺗﻢ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎؤ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ "
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩیکھ ﮐﺮ ﺍﺯﺭﺍﮦ ﮨﻤﺪﺭدﯼ ﮐﮩﺎ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ " ﺑﮯﺑﯽ " ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ -
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﺎ ﭘﮍﺍ ۔ ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ۔
ﺟﺐ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺁﺋﯽ ﺗﻮﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﻥ صاحب ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻔﺘﮧ ﭘﮩﻠﮯ ہی ﮨﻮﺋﯽ تھی۔
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

گفتگو کا ماحصل یہی رہا ہے کہ انسانی ذہانت سے بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا ہے، لیکن جو انسان مصنوعی ذہانت سے بے نیازی ظاہر کرے گا مستقبل میں وہ ماضی کا انسان بن جائے گا۔

فاضل محاضر نے معہد کے طلبہ کی ٹیکنالوجی سے واقفیت اور ان کے ریلونٹ سوالات پر تحیر آمیز خوشی کا اظہار کیا اور ایک پورے ہفتہ پر محیط ورکشاپ کا وعدہ کیا جس کا انعقاد ان شاء اللہ حضرت ناظم صاحب کے ایما اور حکم کے مطابق جلد ہی کیا جائے گا، واللہ من وراء القصد۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ذات سے تکلیف پہنچانا تو ویسے بھی حرام ہے۔ بہت سے لوگوں کے احرام پھٹ جاتے ہیں، نیچے والی چادر ہٹ جاتی ہے ،بے پردگی ہوجاتی ہے ، لوگوں کی گردنیں گھُٹ جاتی ہیں، عجیب نفسانفسی کاعالم ہوتا ہے ۔ایسا بوسہ نہ تومحبوب ہے نہ محمودہے نہ ہی خیرالقرون میں اس کی کوئی نظیرپیش کی جاسکتی ہے۔

اخیرمیں ایک اہم حدیث شریف پیش کرکے اپنی بات کوختم کرتاہوں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے نکلتے وقت ایک دعا کی تعلیم فرمائی کہ اللهم إنا نعوذ بك أن نَضِل أو نُضَـل أو نَذِل أو نُــذَل أو نَظْلِم أو نُظْلم أو نَجهل أو يُجهل علينا۔ (میں نے اللہ تعالیٰ کے نام سے گھرسے باہرقدم رکھا) اسی پرمیرا بھروسہ ہے ،اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے ہم لغزش کھاجائیں یا کوئی اور ہمیں ڈگمگا دے، ہم خود بھٹک جائیں یا کوئی اور ہمیں بھٹکادے،ہم خود کسی پر ظلم کر بیٹھیں یا کوئی اور ہم پر زیادتی کر بیٹھے ،ہم خود نادانی پر اتر آئیں یا کوئی دوسرا ہمارے سا تھ جہالت کابرتاؤ کرے۔ (ترمذی)

اگرآپ غور کریں تو سفرحج وعمرہ کے دوران رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سراپا رشاد میں وہ ساری چیزیں آگئی ہیں جن کا امکان ہے ۔اس لئے بہتر ہے کہ یہ دعا یادکرلی جائے،دعا یادنہ ہو تو کم ازکم اردو میں ہی ان الفاظ کودہرالیاجائے اورہمیشہ دھیان رکھا جائے کہ آپ کسی پکنک پوائنٹ پرنہیں بلکہ حرمین شریفین پہنچے ہوئے ہیں جہاں کا چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عظمت وکبریائی اورجبروت کاشاہداورمرکزتجلی ہے۔یہاں پہنچ کربڑے بڑوں کے پتہ پانی ہوگئے ہیں،انبیائے کرام، صحابہ اور اولیاء واتقیاء نے یہاں رو رو کر آنکھیں خشک کرلی ہیں اور ہم ہیں کہ ہمیں بے پردگی کے ساتھ مارکیٹوں، شاپنگ سینٹروں، سیاحتی جگہوں اورخوان وپکوان اور تعیش سے ہی ہمیں فرصت نہیں ملتی۔فیاللعب

(30/ربیع الثانی 1446ھ)

Читать полностью…

علم و کتاب

یاد رکھو، زندگی میں کوئی سبق مفت نہیں ملتا، ہر سبق کی قیمت چکانی پڑتی ہے ،،،، ایک دانا سے استفسار کیا گیا:
"آپ اس عظیم فہم و شعور کے مقام تک کیسے پہنچے؟
کون سی کتابوں نے آپ کو یہ فکری بلندی عطا کی؟"
دانا نے جواب دیا:
"میں نے کتابوں سے نہیں، بلکہ زندگی کے نشیب و فراز سے سیکھا ہے۔
پچاس زخموں کی گہرائی میں اتر کر، ستر جھگڑوں کی سختیوں میں گِھر کر اور بے شمار مصیبتوں کے بوجھ تلے دب کر شعور کی منازل طے کیں۔
اپنوں کی آنکھوں میں جب غداری کی جھلک دیکھی، تو احتیاط کا ہنر سیکھا۔
جن سے محبت کی، ان کی نظروں میں جب بے دردی دیکھی، تو خاموشی اختیار کرنا سیکھا۔
دوست کہلانے والوں کے ہاتھوں بے وفائی کا زخم کھایا، تو رخصت ہونے کا ہنر اپنایا۔
اور جب بار بار اپنے پیاروں کو سپردِ خاک کیا، تو یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی کہ محبت وہ اثاثہ ہے جسے جینا لازم ہے۔
اگر سیکھنا ہے تو دنیا کو پڑھو؛ یہ وہ کتاب ہے جس کی وسعتیں لامحدود ہیں۔
یاد رکھو، زندگی میں کوئی سبق مفت نہیں ملتا، ہر سبق کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔"
(منقول )

Читать полностью…
Subscribe to a channel