ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

ریزرویشن پالیسی کو رد کردیا۔ اس وجہ سے مسلم یونیورسٹی اور مرکزی حکومت نے2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔
اس معاملے میں 2016میں اس وقت ایک موڑ آیا جب2014میں نریندر مودی کی قیادت میں بنی این ڈی اے سرکار نے2016 میں اس فیصلے کے خلاف یوپی اے حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل واپس لے لی، لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے متعلق دیگر تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ جاری رکھا۔2019 میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بینچ نے اس معاملے کو سات ججوں کی بینچ کے روبرو نظرثانی کے لیے بھیجا۔12/اکتوبر2023چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے سات ججوں کی بنچ تشکیل دی۔سماعت9/جنوری 2024کو شروع ہوئی۔ یکم فروری 2024کو سپریم کورٹ نے آٹھ دن کی سماعت کے بعدمسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔ سات ججوں کی دستوری بینچ اس بات پر غور کررہی ہے کہ کیا مسلم یونیورسٹی دفعہ 30کے تحت اقلیتی ادارے کے طور تسلیم کئے جانے کااہل ہے۔ دستور کی دفعہ ۰۳ کہتی ہے کہ مذہبی اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قایم کرنے اور ان کا انتظام چلانے کے حق دار ہیں۔ سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بینچ 1967کے دستوری بینچ کی طرف سے عزیزباشا بنام ہندوستانی حکومت پر دئیے گئے فیصلے پر بھی دوبارہ غور کررہی ہے، جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل نہیں ہے کیونکہ اس کا قیام برطانوی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آرڈی نینس 1920کے ذریعہ کیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ1981میں مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال کرتے ہوئے آرڈی نینس میں جو تبدیلی کی گئی تھی اس میں واضح طورپر یہ کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ”ہندوستانی مسلمانوں“ نے کیا تھا۔ عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے کہ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی ترقی کے ارادے سے 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹیل (ایم اے او)کالج قایم کیا تھا۔اے ایم یو آرڈی نینس 1920کے پاس ہونے کے بعد اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بدل دیا گیا۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد مسلم یونیورسٹی نے اپنا اقلیتی کردار چھوڑ دیا۔ انھوں نے دلیل دی ہے کہ مسلمانوں نے یونیورسٹی کا کنٹرول برٹش سرکار کو سونپ دیا، اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے بانی برٹش سرکار کے تئیں وفادار تھے اور انھوں نے اپنا مذہبی درجہ انگریزوں کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کے مطابق کئی اداروں نے برٹش سرکار کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا،جنھیں مسلم یونیورسٹی کے برخلاف آج اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل ہے۔سالیسٹر جنرل نے اپنی بات کے حق میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مثال دی۔ حکومت ہند نے عزیزباشا فیصلے پر بھی اعتماد کیا، جس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اے ایم یو آرڈی نینس کے ذریعہ اے ایم یو میں تبدیل ہونے کے بعد ایم اے او نے اپنی مذہبی حیثیت کھودی ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۱۷
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق یہود و نصاریٰ کے ایک اہم جرم یعنی عصمت انبیاعلیہ السلام کے حوالے سے ان کی گستاخی سے ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں انبیائے سابقین کا ذکر آیا ہے قرآن نے ان کی نصرت و حمایت کا فرض ادا کیا ہے ۔
انشائے ماجدی

”یہود و نصاریٰ نے اہل کتاب ہونے اور نبوت وسلسلہ ءوحی پر ایمان رکھنے کے باوجود اپنے نوشتوں میں کوئی کسر عصمت انبیاء علیہ السلام کے داغدار بنانے میں اٹھا نہیں رکھی، اس لیے قرآن مجید جہاں جہاں انبیاء سابق کا ذکر کرتا ہے اکثر ان حضرات کی اخلاقی وروحانی عظمت پر بھی زور دیتا ہے اور اس طرح انبیائے برحق کی نصرت و حمایت کا فرض توریت و انجیل کی عائد کی ہوئی فرد جرم کے مقابلے میں ادا کرتا جاتا ہے ۔یہ عجیب و غریب اہل کتاب، نبی اور نبوت کے قائل گویا ان الفاظ کے صرف لفظی معنی میں تھے یعنی نبی وہ ہے جو کاہنوں،جوتشیوں کی طرح غیب کی خبریں دے سکے اور اس سے انہیں کوئی بحث ہی نہ تھی کہ اس کے اخلاق کا کیا عالم تھا ،اس کے روحانی کمالات کس درجے کے تھے، اس کی تعلیمات کیا تھیں وقس علیٰ ھذا۔ ابراہیم علیہ السلام خلیل تو اکثر انبیاء علیہ السلام کے ابو لآبا ہیں ۔آپ کی عصمت کے تحفظ کا تو قرآن میں اور زیادہ اہتمام رکھا ہے۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اول ،صفحہ نمبر۲۵۳)

Читать полностью…

علم و کتاب

مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر فیصلے کی گھڑی

معصوم مرادآبادی
/channel/ilmokitab
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندرچوڑ آئندہ ہفتہ سبکدوش ہونے والے ہیں۔ سبکدوشی سے قبل انھیں جن مقدمات پر اپنا فیصلہ صادر کرنا ہے، ان میں ایک اہم مقدمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا بھی ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ اس فیصلے کی آمد سے پہلے علی گڑھ برادری میں خاصا تجسس پایا جاتا ہے، کیونکہ مودی سرکار نے اس حلف نامہ کو واپس لے لیا ہے، جو پچھلی یوپی اے سرکار نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حق میں سپریم کورٹ میں داخل کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی ہے، اس لیے سب کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مرکوز ہیں۔ اس دوران راجیہ سبھا میں سماجوادی پارٹی کے سرکردہ ممبر رام جی لال سمن نے راجیہ سبھا میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ دسمبر1981میں مرکزی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پاس کئے گئے ایک ترمیم شدہ آرڈی نینس کے توسط سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا گیا تھا، لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے 2005 میں اپنے ایک فیصلے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو خارج کردیا۔ عدالت عالیہ نے 1967 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا۔ رام جی لال سمن کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے پیش کیا گیا بل دراصل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمانوں نے چونکہ انگریز سرکار کو تیس لاکھ روپے کی رقم جمع کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قایم کی تھی، اس لیے یہ واضح ہے کہ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ قایم کی گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1977 اور1979 کے لوک سبھا چناؤ کے جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت باجپئی اور اڈوانی سمیت بی جے پی کے بیشتر لیڈران جنتا پارٹی کے ممبر تھے۔اگر عدالت نے اپنا فیصلہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف صادر کیا تو یہاں سے ایک عجیب وغریب صورتحال جنم لے گی۔ وقف ترمیمی ایکٹ سے جوجھ رہے مسلمانوں کے سامنے ایک نیا چیلنج ہوگا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہے۔عظیم مسلح قوم سرسیداحمد خاں کی قائم کردہ اس دانش گاہ کی اہمیت وافادیت پوری دنیا پر عیاں ہے۔ اس کا وسیع وعریض کیمپس ہرشخص کو متاثر کرتا ہے۔ یہاں اتنی کشش ہے کہ اسے دیرتک دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔درحقیقت اتنا روحانی سکون کسی اور کیمپس میں نہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہے۔یہ ان عظیم انسانوں کی قربانیوں کا فیض ہے جنھوں نے قوم کی تعلیم وتربیت میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ سرسیداحمد خاں اس کے سرخیل تھے،جنھوں نے اب سے ڈیڑھ سوسال پہلے اس دانش گاہ کا خواب دیکھا تھا۔آج ان کا یہ خواب ایک زندہ جاوید تعبیر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ سرسید کے بنائے ہوئے اس ادارے کو نقصان پہنچانے اور ختم کرنے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں، لیکن تمام یورشوں کے باوجود سرسید کا یہ چمن لہلاتا رہا ہے۔
میں نے گزشتہ ہفتہ یوم سرسید کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی روز قیام کرکے وہاں کی رونقوں کا مشاہدہ کیا اور میں یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکا کہ اس دانش گاہ سے مسلمانوں کو جو جذباتی لگاؤ ہے وہ کسی اور دانش گاہ سے نہیں ہے۔اس لیے مسلمان یہاں کی ہر نقل وحرکت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے اقلیتی کردار کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی آمد سے قبل مسلمانوں میں پھیلی ہوئی تشویش کی لہر کو خوب محسوس کیا۔یہ ایک ایسی مرکزی یونیورسٹی کے جس کے کیمپس مرشدآباد(معربی بنگال)کشن گنج (بہار)اور ملاپورم (کیرل)میں بھی موجود ہیں۔یہ صرف مسلمانوں کو ہی تعلیم نہیں دیتی بلکہ یہاں بڑی تعداد میں غیر مسلم طلباء اور طالبات بھی زیرتعلیم ہیں۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں تو غیر مسلم طلباء کی اکثریت ہے۔
واضح رہے کہ 1965 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے وزیرتعلیم عبدالکریم چھاگلہ کے ذریعہ اسے ختم کرایا تھا۔علی گڑھ برادری نے اس کے خلاف ایک تحریک منظم کی جو پورے ملک میں 1980تک چلی۔اس تحریک کے نتیجے میں دسمبر1981 میں مرکزی حکومت نے ایک آرڈی نینس کے ذریعہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا، لیکن بدقسمتی سے 2005میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کودوبارہ ختم کردیا۔دراصل 2005میں مسلم یونیورسٹی نے اپنے میڈیکل کورسز میں مسلم طلباء کے لیے پچاس فیصد سیٹیں مختص کی تھیں۔ اس کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر نریش اگروال بنام حکومت ہند(2005)میں چیلنج

Читать полностью…

علم و کتاب

ابھی تعلیم جاری ہی تھی کہ تقسیم ہند کا واقعہ پیش آیا، گھر کے حالات اچھے نہیں تھے، نانِ شبینہ کی ضرورت پوری نہیں ہورہی تھی، نوزائیدہ مملکت کی شہرت سن کر گھر میں کسی کو بتائے بغیر 1954ء میں پاکستان کا رخ کیا۔ یہاں آپ کو چند سال تلاشِ معاش کے لیے جدوجہد کرنی پڑی، جس کے بعد 1958ء میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی میں آپ کو ملازمت ملی۔ اس ملازمت میں آپ نے پچیس سال گزارے۔ تنخواہ اچھی تھی، زندگی خوش و خرم گزر رہی تھی، گھر کی تربیت بھی اچھی تھی، اسکول میں ٹیچر بھی بہترین اور ہمدرد ملے تھے، وہ تعلیم و تربیت کے ہنر سے آگاہ تھے، ان میں آپ کی دادی کی ماموں زاد بہن قمر جہاں بھی تھیں، جو اسکول میں نمازوں اور وضع قطع وغیرہ کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ان کے اندازِ تربیت کی ایک مثال یہ تھی کہ ایک مرتبہ ڈرل کا کوئی مظاہرہ تھا، آپ کے کرتے کا بٹن ٹوٹا ہوا تھا، قمر جہاں صاحبہ نے ایک روپیہ اس بچے کو دے کر بٹن بنوانے کو بھیجا،چالیس کی دہائی میں یہ بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔ ایسی ہی تربیت تھی کہ سگریٹ فیکٹری میں طویل ملازمت کے باوجود کبھی آپ نے سگریٹ منہ کو نہیں لگایا، حالانکہ مفت میں معیاری سگریٹ یہاں بہت دستیاب تھے۔
انہی دنوں آپ نے کراچی سے اردو فاضل کا امتحان پاس کیا، شاعری کی لت انڈیا ہی میں لگ چکی تھی، جہاں آپ فلمی طرز پر کلام پڑھتے تھے، کراچی میں آپ کے والد کے ماموں فلاح جلالوی صاحب، عالم فاضل آدمی تھے، انہوں نے آپ کو مشاعروں میں کلام پڑھنے پر آمادہ کیا، اور اُس دور میں اردو کے اعلیٰ پائے کے استاد شاعر قمر جلالوی سے کلام کی اصلاح کے لیے ملوایا۔ کچھ مدت یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن پھر اس کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ شعری ملکہ اللہ نے گھٹی میں ڈال رکھا تھا۔ قمر جلالوی صاحب کا انتقال 1968ء میں ہوا، جس کے بعد آپ کے کئی شاگردوں نے اصلاح کے لیے آپ سے رجوع کیا۔ اعجاز رحمانی کا پہلا مجموعہ کلام استاد کی رحلت کے پانچ سال بعد 1973 ء میں ”اعجازِ مصطفیٰ ؐ“کے نام سے منظر عام پر آیا۔1970ء میں الیکشن کے موقع پر آپ کی فکری وابستگی جماعت اسلامی سے ہوئی، 1972ء میں جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو اعجاز رحمانی جماعت اسلامی کی زبان بن گئے، اُس وقت ان کے کئی اشعار زبانوں پر عام ہوئے جن میں سے ایک شعر یہ بھی تھا:
جھوٹے ہیں سب دعوے ان کے، طوفان کا رخ موڑیں گے
دل تو ہمارا توڑ رہے ہیں کیا وہ ستارے توڑیں گے
اعجار رحمانی نے غزل، نظم سمیت ہر صنفِ سخن میں مشق آزمائی کی اور کامیاب ہوئے۔ آپ کی نظموں اور غزلوں کو مشاعروں میں ہمیشہ پذیرائی ملی۔ آپ نے بڑے بڑوں کی موجودگی میں خود کو منوا لیا، مثلًا1980ء میں ابوظہبی کانٹی نینٹل ہوٹل کے افتتاح کے موقع پر جو مشاعرہ ہوا تھا، اُس میں میزبان انہیں اہمیت نہ دے کر کنارے کررہے تھے، نعت کا مشاعرہ ہونے کے باوجود آپ کو موقع نہیں مل رہا تھا، اُس وقت آپ نے آگے بڑھ کر اپنی نظم پیش کی تھی، جس نے مشاعرے میں دھوم مچائی اور باربار اسے پڑھنے کی درخواست کی گئی تھی، اس کا مطلع یوں تھا:
چپ رہنے میں جاں کا زیاں تھا، کہنے میں رسوائی تھی
ہم نے جس خوشبو کو چاہا، وہ خوشبو ہرجائی تھی
آپ نے کامیابیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔ ”خوشبو کا سفر“، ”سلامتی کا سفر“، ”لہو کا آبشار“، ”جذبوں کی زبان“، ”آخری روشنی“، ”پہلی کرن“، ”اعجازِ مصطفیٰؐ“،” کاغذ کے سفینے“،”افکار کی خوشبو“ ، ”غبارِ انا“، ”لمحوں کی زنجیر“،”چراغِ مدحت“، ”گلہائے سلام ومنقبت“ کے عنوان سے نعتوں اور غزلوں مجموعے شائع ہوئے، اور حمد و نعت اور کلام کی کئی کلیات شائع ہوکر مقبول ہوئیں۔ آپ کے ترانوں کو بھی بڑی مقبولیت ملی۔ آپ نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منظوم پیرائے میں ڈھالا، اور سیرت پر ایک ضخیم کتاب لکھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منظوم سیرت ”رفیقِ رسولؐ“، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ”دعائے رسولؐ“، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ”ضیائے رسولؐ“ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ”برادرِ رسولؐ“ کے عنوان سے مرتب کیں۔ امہات المومنین کی منظوم سیرت پر کام جاری تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر کئی سو بند تیار ہوگئے تھے۔ بعد میں اس کی اطلاع نہیں ملی۔ہمیں ایک طویل عرصے تک اعجاز صاحب سے ملاقات کا موقع نہیں ملا، البتہ جسارت وغیرہ میں آپ کے قطعات پر نظر پڑتی تھی، لیکن 1986ء میں نشتر پارک کے اجلاس میں پڑھی ہوئی نظم نے ہمیں آپ کا گرویدہ بنایا، اس کے ابتدائی بند کو ہماری ترتیب کردہ ویڈیو سیریز کی نمبرنگ میں بطور ٹائٹل استعمال کیا گیا ہے۔ نظم یہ تھی:
امن و اخوت، عدل، محبت
وحدت کا پرچار کرو
انسانوں کی اس نگری میں
انسانوں سے پیار کرو
آگ کے صحرائوں سے گزرو
خون کے دریا پار کرو
جو رستہ ہموار نہیں ہے اس کو بھی ہموار کرو
دین بھی سچا ،تم بھی سچے
سچ کا ہی اظہار کرو
تاریکی میں روشن اپنی عظمت کے مینار کرو
نفرت کے شعلوں کو بجھادو
پیار کی ٹھنڈک سے
ہمدردی کی فصل اگائو
صحرا کو گلزار کرو
سچے روشن حرف لکھو

Читать полностью…

علم و کتاب

سے اور بھی اساتذہ دوچار تھے ، آج حالت قدرے بہتر ہے ، مولانا کے ایک صاحب زادے نے بچپن میں سکہ نگل لیا اور یہی موت کا بہانہ بن گیا ,مولانا اور اہلیہ محترمہ کو سخت صدمہ ہوا ، ندوہ میں ایسے موقع پر میت کے گھر کھانا بھیجنے کا رواج ہے لیکن اسکا طریقہ یہ ہیکہ مطبخ میں لکھوا دیا جاتا ہیکہ اتنے کھانے میری طرف سے بھیج دیئے جائیں ، میت کے گھر والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ہیکہ کس نے بھیجوایا ، یہ سلسلہ کئ روز تک چلتا ہے ،اس وقت ندوہ کے بڑے اساتذہ میں بھی مشیخیت نہیں ہوتی تھی ، شیخ الحدیث مولانا ضیاء الحسن صاحب اور مولانا عارف صاحب سنبھلی جیسے سینیر اساتذہ اپنا سودا سلف بازار سے خود لاتے ، ڈالی گنج پل پر ایک مرتبہ مولانا ضیاء الحسن صاحب ندوی رح کو دیکھا ایک ٹھیلے والے سے کچھ خرید رہے ہیں ، میں پیچھے کھڑا ہوگیا ، مول تول کے بعد ٹھیلے والے نے سامان تول دیا ، مولانا نے کہا دوسرے پلرے میں رکھکر تولو ، اس نے اسی طرح کیا ، اس بار سامان والا پلرا اوپر اٹھ گیا ، مولانا نے تیز نظروں سے ٹھیلے والے کو دیکھا ، اسکی پریشانی دیدنی تھی ،اس ترکیب سے میں نے بھی متعدد مرتبہ فائدہ اٹھا یا ہے ، مولانا کا انتقال چھٹی میں ہوا ، بقرعید کا موقع تھا ، جسکی وجہ سے زیادہ تر طلبہ کاندھا نہیں دے سکے ، والدین کی نیکی کا فائدہ اولاد کو ملتا ہے ، مولانا کے پاس نہ گھر تھا ، نہ گھر کیلیے زمین ، تنخواہ سے روز مرہ کے اخراجات ہی مشکل سے پورے ہوتے تھے ، زمین کہاں سے خریدتے اور مکان کس طرح بنواتے ،انتفال کے بعد اللہ نے ندوہ سے متصل گھربھی بنوا دیا اور وہی گھر گزر اوقات کا بھی ذریعہ بن گیا ، استانی صاحبہ کی ہمت کو سلام کہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ بھی کیا اور تینوں بیٹوں اور چار بیٹیوں کی شادی سے بھی فارغ ہوگئیں ، اور اب استانی صاحبہ مادر مہربان کے ساتھ ساس ، دادی اور نانی کی ذمہ داریاں بھی کامیابی سے نبہا رہی ہیں ،‌ صرف چھوٹی صاحبزادی کا عقد باقی ہے ، چھوٹے صاحبزادے سالم برجیس سلمہ اللہ کا ابھی حال میں عقد نکاح ہوا ، یہی مولانا رح کے معنوی جانشین بھی ہیں ، ندوہ سے فراغت کے بعد علیگڑھ کے ادارۂ تحقیقات اسلامی میں تصنیف وتالیف کی تربیت حاصل کر رہے ہیں ، لکھنے کا اچھا ذوق ہے ، ہزاروں شاگرد اور یہ نیک اولادیں مولانا کیلئے صدقۂ جاریہ ہیں ، اللہ مولانا کے درجات بلند کرے اور بچوں اور انکی والدہ کو دونوں جہان کی نعمتوں سے خوب خوب نوازے ،
---------------------
آفتاب عالم ندوی دھنباد
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ملاقات اور ذاتی تعارف ہوا تھا، ان کا ملائم اور مہذب انداز ہمیں بہت اچھا لگا، تو ہم نے جرات کرکے ان سے کہا کہ آپ سے ملاقات سے قبل آپ کے بارے میں ہمارا تاثر مختلف تھا، لیکن اب ملاقات کے بعد تعجب ہوتا ہے کہ آپ جیسی شخصیت کی سرپرستی میں عوام الناس کے سامنے ایسی باتیں کیوں کر ہوگئیں، توآپ نے جواب دیا کہ یہی کانفرنسیں انہیں لے ڈوبیں۔
یہ کہنا کہ سب مدارس کا ماحول ایسا ہی ہے ایک خلاف حقیقت بات اور ان کے ساتھ بڑا ظلم ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ بالٹی بھر دودھ میں ایک مینگنی پڑجائے تو پورا دودھ نجس ہوجاتا ہے۔ اس طرح کا کوئی ایک واقعہ پورے طبقہ مدارس کو بدنام کردیتا ہے، کوئی واقعہ اچھلتا ہے تو ہزاروں لاکھوں تک پہنچتا ہے، لیکن جب اس کی صفائی ہوتی ہے تو اس کا حال جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا والا ہوجاتا ہے، عشر عشیر تک بھی وضاحت نہیں پہنچ پاتی، اور اگر وضاحت پہنچتی بھی ہے تو کسے اس میں دلچسپی ہوتی ہے؟
ہمیں امید ہے کہ ہمارے ذمہ داران سنجیدگی سے ان امور پر غور کریں گے، اور مدارس دینیہ کے خلاف ابھرنے والے اس ماحول میں ان کے تدارک کے لئے موثر اقدام کی طرف متوجہ ہونگے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ واللہ ولی التوفیق
2024-10-26

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 221
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا عبد الرحمن کؔیلانیؒ*

*الیکشن کا کاروبار*


الیکشن کا کاروبار بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے زیادہ طلسماتی ہے،دو ڈھائی لاکھ کی آبادی میں سے صرف ایک مائی کا لال منتخب ہوتا ہے،بے زبان کاشت کاروں،مزارعوں،مزدوروں کی یہ آبادی سینکڑوں مربع میل کے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے، یہاں نہ زیادہ ریڈیو ہیں نہ اخبار پڑھے جاتے ہیں اور یوں بھی آمد و رفت کے وسائل بیل گاڑیوں، چھکڑوں اور مسافروں سے اٹا اٹ بھری ہوئی اِکّا دُکّا بسوں سے آگے نہیں بڑھے ۔
چنانچہ ایک عام سیدھا سادا امن پسند دیہاتی شادی،غمی اور دیگر بلاہائے ناگہانی کی مجبوریوں کے علاوہ یونہی خواہ مخواہ سفر وسیلۂ ظفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کا عادی نہیں ہوتا، عوام جو گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ بکھرے ہوئے ہیں اپنے ذاتی ماحول اپنے آس پاس کے چند ہمسایوں اور اپنے دکھ درد کے ساتھیوں کے علاوہ باقی دنیا سے نہ تو شناسا ہیں اور نہ اس قسم کی شناسائی پیدا کرنے کے وسائل ان کو میسر ہیں ۔
دو ڈھائی لاکھ گدڑیوں میں چھپا ہوا ایک لعل ڈھونڈ نکالنا جو ان کی نمائندگی کا حق ادا کرسکے ہرگز ہرگز ان کے بس کا روگ نہیں۔

( *خلافت و جمہوریت،صفحہ: 211،طبع: مکتبہ السلام، لاھور*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی


فائدہ: *ہندوستان میں ممبر آف پارلیمنٹ کی تنخواہ و الاؤنس*

یہ رپورٹ Indian teach & Infra کے حوالے سے معلوم ہوئی ہے:
ہندوستان کے اندر ممبر آف پارلیمنٹ کو ملنے والی سہولیات :
1) بنیادی تنخواہ ماہانہ : ایک لاکھ روپے
2) فون و انٹرنیٹ کے لیے سالانہ ڈیڑھ لاکھ
3) سالانہ ڈومیسٹک ہوائی سفر 34 مرتبہ مفت
4) ریل میں درجۂ اول میں سفر کی سہولت بالکل مفت
5) سالانہ پچاس ہزار بجلی یونٹ کی مفت سہولت
6) سالانہ 4 ہزار لیٹر پانی مفت
7) آفس الاؤنس ماہانہ باسٹھ ہزار روپے
8)ماہانہ ہاؤسنگ الاؤنس 2 لاکھ روپے
9) پینشن ماہانہ 25 ہزار ہوگی
10) ممبر اور اس کے اہل خانہ کا مفت علاج ۔


/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سنوسنو!!

کتب انعامیہ یا مری بھیڑ خواجہ کے نام؟

(ناصرالدین مظاہری)

برصغیر کے دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات کو مختلف مواقع پرہونے والے پروگراموں ،فنکشنوں اور امتحانات میں پاس ہونے پرنہ صرف نقدانعامات دئے جاتے ہیں بلکہ بطورانعام کتابیں بھی دینے کامعمول ہے۔یہ دینی مدارس کے ذمہ داران کی طرف سے تشجیعی اورحوصلہ افزائی کے طور پردیاجانے والا انعام بچوں اور بچیوں کو مزید آگے بڑھنے اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ،طلبہ ان انعامات کوبہت شوق اوردوق کے ساتھ سنبھال کررکھتے بھی ہیں اور کتابیں چونکہ ان کے پاس اُس عمرمیں بہت کم ہوتی ہیں اس لئے فرصت کے مواقع پرپڑھتے بھی ہیں ۔

اس سلسلہ میں میرا نظریہ تھوڑاسامختلف ہے ،میراماننایہ ہے کہ طلبہ کوانعامات اُن کے ذوق اوروجدان کومدنظرکھتے ہوئے دیناچاہئے ،مثلاً سائنس کے طالب علم کوآپ سائنسی کتابیں دیجئے،حدیث کے طالب علم کوحدیث اور اس سے متعلقہ کتابیں عنایت فرمایئے اسی طرح جو بچے بہت کم سن اور کم عمر ہیں انھیں آپ ابتدائی ،اخلاقی اور قصے کہانیوں والی دینی کتابیں انعام میں دیجئے۔

ہمارے دینی مدارس ماشاء اللہ انعامات کی تو بوچھار کردیتے ہیں لیکن نہ توطلبہ کی ذہنی اورفکری رعایت ملحوظ رکھی جاتی ہے نہ ہی ان کاذوق اورمزاج کبھی دیکھااور پرکھا جاتاہے کہ تمہارا ذہن اورفکردین کے کن موضوعات کی طرف چلتاہے ۔عموماً ہوتایہ ہے کہ ہرطالب علم کاذہن اوراس کاپسندیدہ موضوع الگ الگ ہوتاہے مثلاً بعض طلبہ تاریخ میں دلچسپی لیتے ہیں توبہت سے طلبہ کوسیرت سے لگاؤ ہوتاہے ،بعض درسیات اور شروحات سے محبت رکھتے ہیں توبعض تفاسیر اور احادیث سے عشق کی حدتک تعلق رکھتے ہیں۔اگر آپ حدیث کے طالب علم کو سائنس کی کتاب تھمادیں یاسائنس کے طالب علم کوفلسفہ کی گرہ پکڑادیں تووہ کس کام کی ہے۔

میں خوداپناواقعہ بیان کرتاہوں مجھے تقسیم کنندگان نے ’’مولانا علی میاں کی متصاد تصویریں‘‘نامی کتاب انعام میں دیدی،مجھے بڑاعجیب لگا،میں یہ کتاب لے کراپنے کرم فرما حضرت مولانامفتی محمد خبیر ندوی مدظلہ کی خدمت میں حاضرہوا، اور پوری بات بتائی تومفتی صاحب نے نہایت سختی اور تاکیدکے ساتھ اس کتاب کو پڑھنے سے منع کردیا اوریہ بھی فرمایاکہ لوگوں کو شعورہی نہیں ہے کہ کس طالب علم کوکس عمرمیں کون سی کتاب انعام یاہدیہ میں دینی چاہئے،یہ بھی فرمایاکہ ابھی آپ طالب علم ہیں آپ ہرمصنف کی مثبت کتاب پڑھئے کسی بھی مصنف کی کوئی بھی منفی کتاب مت پڑھئے ورنہ دماغ شروع ہی سے اپنارخ بدل لے گااور آگے چل کراپنے ماحول اورمعاشرہ میں ’’عظومعطل‘‘ بن کررہ جاؤگے۔چنانچہ آج تک اس کتاب کوکھول کرنہیں دیکھا۔

عام طورپردینی مدارس میں طلبہ کوانعام میں دی جانے والی کتابوں کی حالت’’مری بھیڑ خواجہ کے نام‘‘والی ہوتی ہے ،نہ توطلبہ سے کبھی پوچھا جاتاہے کہ تمہیں کون کون سی کتابیں مطلوب ہیں نہ ہی ان کامزاج معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اکثرکتابیں ضائع ہوجاتی ہیں نہ طلبہ کوان کتابوں سے کوئی مناسبت ہوپاتی ہے نہ اہل مدرسہ کوکبھی توفیق ملتی ہے کہ فرادیٰ فرادیٰ طلبہ سے پوچھیں کہ آپ کوجوکتاب انعام میں دی گئی تھی اس کامطالعہ کیایانہیں اگرکیاہے توکیاحاصل کیا،مصنف کون ہے،اسلوب کیساہے،موضوع کیاہے،کیااچھی چیزلگی وغیرہ وغیرہ۔

دینی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ویسے بھی درسیات کے بوجھ سے باہرنہیں نکل پاتے انھیں اتناموقع بھی نہیں مل پاتاہے کہ خارجی کتابوں کامطالعہ کرسکیں پھربہت سے مدارس میں اساتذہ نے کچھ ایسامزاج پہلے سے ہی بنایاہوا ہوتاہے کہ وہ درسیات کے علاوہ تمام ترکتابوں کے بارے میں ایسامنفی نظریہ بنادیتے ہیں کہ پھرطالب علم درسیات تک ہی محدود ہوکررہ جاتاہے ،حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ درسیات کا تعلق صرف ادارہ کی چار دیواری تک ہے یہاں سے نکلنے کے بعدآپ کوتقریریں کرنی پڑیں گی،تحریریں لکھنی پڑیں گی،کتابیں لکھنی ہوں گی اوریہ سب چیزیں خارجی کتابوں کے بغیرممکن نہیں اس لئے بچوں کوکنویں کامینڈک توبالکل نہیں بناناچاہئے انھیں تھوڑا تھوڑا ہر موضوع سے مناسبت ضروری ہے تاکہ بغلیں نہ جھانکیں، کہیں مارنہ کھائیں ،کہیں احساس کمتری کاشکارنہ ہوں اور ہرجگہ اپنے ادارہ اوراپنے اساتذہ کی تعلیم وتربیت کامظاہرہ کرسکیں۔

اس سلسلہ میں پہلے تودی جانے والی کتابوں کو’’بوجھ‘‘نہ سمجھاجائے ،جوچیزاپنے لئے پسندکی جائے وہی ان کے لئے بھی پسندکی جائے بلکہ ان کے لئے توخوب سے خوب ترکی تلاش میں رہاجائے،نورانی قاعدہ کے طالب علم کوآپ سراجی کی شرح تھمائیں گے توآپ اپنی حیثیت کھوئیں گے ،اسی طرح مفتی بننے والے طالب علم کوآپ شاہکارتقریریں یا منتخب تقریریں دیں گے توادارہ کی بدنامی کاذریعہ آپ بنیں گے۔کوشش کی کیجئے کہ پہلے طلبہ کے فکراورمستوی ٰ کومدنظرکھتے ہوئے طلبہ کی درجہ بندی کی جائے پھرکتابوں کی فہرست بنائی جائے ، پھر کتابوں کی خریداری کی جائے اورپھرطالب علم کووہ کتاب اس شرط اورصراحت کے ساتھ دی جائے کہ اس

Читать полностью…

علم و کتاب

لیکن اگر چا ر انگلیاں کاٹ لیں ابدیت 20 اونٹ ہو جا ئے گی
ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ عقلی طور پر عجیب سا معلوم ہوتاہے جس پر استعجاب کا اظہار امام مالک کے شیخ ربیعة الرائ نے بھی کیا ہے
شیخ الزرقا کے دماغ نے اس کا ایک نیا حل نکالا ہے
انکی رائے میں حدیث کا مفہوم یہ ہوگا تین انگلی کاٹنے پر 30 اونٹ لیکن چار انگلیاں کاٹنے پر زائد کا نصف یعنی 35 اونٹ ہوجائیگا
شیخ کی اس توجیہ سے جمھور کے مسلک پر اعتراض کرنے والوں کے مزاج کی حدت اور اعتراض کی شدت میں ایک حد تک شاید کمی ہو جائے
اس طرح شیخ مصطفی الزرقا کی زندگی کے نمایاں کارناموں میں
فقہ اسلامی کی عصری زبان میں تدوین احوال شخصیہ کے قوانین کی ترتیب فقہی قواعد اور پیچیدہ مالیاتی مسائل کی وضاحت کے
علاوہ جدید مسائل کے حل کیلئے انفرادی فتووں پر بھروسہ کر نے کے بجائے اجتماعی بحث وتحقیق کے ادارے کے قیام اور فقہ اکیڈمیوں کی تاسیس و تشکیل بھی ہے
فقہی انسائیکلو پیڈیا کی تدوین کی کوشش وہ پیش پیش رہے اور کویتی موسوعہ فقہیہ کا خاکہ بھی انہوں نے ہی تیار کیا اور اسکے لئے تمہیدی ابحاث اپنی نگرانی میں لکھوائیں
اس کے علاوہ اور بھی انکے کام ہیں جو اپنی جدت ندرت اوردقت کے لحاظ سے امتیاز رکھتے ہیں
انکے فتاوی کا مجموعہ فتاوی الزرقا کے نام سے مجد مکی صاحب نے مرتب کیا ہے اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے انک فرمائش پر اس کا مقدمہ لکھا ہے
انکےفتاوے اہم اور قیمتی ہیں لیکن انکے ہر فتوے سے اتفاق نہ ممکن ہے اور نہ ضروری
شیخ ڈاکٹر مصطفی احمد الزرقا شام کے شہر حلب کے ایک علمی گھرانے میں 1907 ء میں پیدا ہوئے تھے باپ اور دادا دونوں نامور فقیہ تھے انہوں نے شام اور مصر میں تعلیم کی تکمیل کی دمشق اور اردن یونیور سیٹیوں میں پروفیسر رہے الراجحی کمپنی کے ایڈوائزر رہے اور فقہی موضوعات پر تحقیقی کتابیں لکھیں اورفیصل ایوارڈ کے کے مستحق قرار پائے اور بھرپور علمی زندگی گزارنے کے بعد جولائی 1999ء میں اردن میں وفات پائی رحمه الله رحمة واسعة
انکے اساتذہ میں سرفہرست خود انکے والد شیخ احمد الزرقا شیخ محمد راغب الطباخ شیخ ابراھیم السلقینی اور محدث شام شیخ بدر الدین الحسینی وغیرہ ہیں
انکے مشہور اور نامور شاگردوں میں
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ ڈاکٹر محمد فوزی فیض اللہ ڈاکٹر محمد ادیب الصالح ڈاکٹر احمد الحجی الکردی ڈاکٹرعبد السلام العبادی ڈاکٹر محمد نعیم یاسین ڈاکٹر محمد الزحیلی اور ڈاکٹر انس الزرقا وغیرہ ہیں
انکے معاصرین میں نامور ادیب شیخ علی الطنطاوی ڈاکٹر معروف الدوالیبی اور ڈاکٹر مصطفی السباعی وغیرہ شمار ہوتے ہیں
انکے تفصیلی حالات کیلئے دیکھئے
محمد المجذوب کی :
"علما ء ومفکرون عرفتہم "
د محمد رجب البيومي کی
النھضة الاسلامية في سير اعلامها المعاصرین
د عبد الناصر ابو البصل کی کتاب
مصطفی احمد الزرقا فقیه العصر وشيخ الحقوقيين وغيره

/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

فقہی انسائیکلو پیڈیا ( المو سوعہ الفقہیہ )کی تدوین کا مبارک سلسلہ بھی شیخ مصطفی الزرقا کا مرھون منت ہے اسکی منصوبہ بندی میں انکی شرکت شروع سے رہی ہے
ڈاکٹر مصطفی الزرقا اپنے رفیق ڈاکٹر معروف الدوالیبی کے ساتھ فرانس کی سوربون یونیور سٹی کی طرف سے 1951ء میں منعقد ہونے والے اسلامی فقہی سیمینار میں شریک ہوئے جس میں بعض مشہور مستشرقین بھی موجود تھے اسکی سیمینارکی قرارداد میں فقہ اسلامی کو آسان زبان میں پیش کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا گیا تھا تاکہ اسلامی قانونی ذخیرہ سے ساری دنیا مستفید ہوسکے اور مشکل فقہی اصطلاحات اس میں حائل نہ ہو ں اس ضرورت کی تکمیل کیلئے انہوں
نے اپنے دوسرے رفقاء ڈاکٹر مصطفی السباعی ڈاکٹر معروف الدوالیبی شیخ محمد المبارک وغیرہ کے ساتھ اسکو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی اور دمشق یونیور سٹی میں کلیة الشريعة کے 1954ءمیں آغازکے بعد باقاعدہ کام شروع کیا اور تمہیدی ابحاث لکھیں پھر جب 1958 ء میں مصر اور شام کو متحدہ جمہوریہ کی حیثیت دی گئی تو مصر کے علماء بھی اس میں شامل ہوگئے اور 1960ء میں موسوعہ کی پہلی جلد نمونہ کے طور پر شائع ہوئی لیکن1961 ء میں دونوں ملکوں کے درمیان اتحاد ختم ہوجانے کے بعد کام آگے نہیں بڑھ سکا
موسوعہ کی تیاری کی دوسری کوشش مصر میں شروع ہوئی تھی جو اب تک جاری ہے اور اسکی تکمیل نہیں ہوسکی ہے
مصر کا موسوعہ آٹھوں فقہی مذاہب
(حنفی مالکی شافعی حنبلی ظاھری زیدی جعفری اباضی ) پر مشتمل ہے اسکی تکمیل کے لئے وقت بھی زیادہ درکار ہے
1966ء میں جب کویت کی وزارت اوقاف و مذہبی امور نے فقہی انسائیکلو پیڈیا ( الموسوعة الفقہیہ) کی تیاری کا کام اپنے منصوبہ میں شامل کرلیا
تو اس مشروع کی تنفیذ اور تکمیل کیلئے ڈاکٹر مصطفی الزرقا ہی کو منتخب کیا چنانچہ وہ کویت آگئے اسکی خاکہ بندی کی اور اس کام کی انجام دہی کیلئےمساعدین کے طور پر فقہاء کی ایک جماعت کو طلب کیا فقہی اور مصادر ومراجع پر مشتمل ایک لائبریری کی بھی بنیاد ڈالی اور فقہی مصادر کا نہایت ہی قیمتی ذخیرہ جمع کیا جس میں ڈاکٹر مصطفی السباعی کے ذاتی کتبخانہ کی کتابیں بھی شامل ہیں
پھر انہوں نے الفبائی ترتیب سے قطع نظر کچھ اصطلاحات پہلے ان بڑے علماء کے پاس استکتاب کیلئے بھیجیں جنکے دنیا سے جلد چلے جانے کا اندیشہ تھا تاکہ انکے علم سے فائدہ اٹھایا جاسکے
بحث لکھنے کیلئے تفصیلی خاکہ اور ہدایت نامہ بھی بھیجا گیا
جس میں بحث کی ترتیب اورفقہی مذاھب کو انکے اصلی مصادر سے نقل کرنے بحث کے نتائج اور موضوع سے متعلق نئے مسائل کاذکر کرنے حوالوں اور مصادر کے ذکر کا پورا التزام کرنے اور بحث کی ترتیب و صیاغت میں زبان کی صحت وسلامتی اور تعبیر کی سہولت و وضاحت کا لحاظ رکھنے پر زور دیا گیا تھا
ظاہر ہے کہ ان تمام شروط کے ساتھ بحث لکھنا آسان نہیں تھا لیکن شخصیات بھی اسکے لئے ویسی ہی منتخب کی گئیں تھیں چنانچہ شیخ مصطفی الزرقا کے اشراف کے زمانہ میں پچاس فقہی ابحاث لکھی گئیں جنکو مثالی بحثیں کہنا چاہیے
پھر انکو دوسرے فقہاء کے پاس بھیج کر انکے بارے میں رائے لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا لیکن
1971ء میں منتخب ہونے والے وزیر نے موسوعہ فقہیہ کے پروگرام کو موقوف کردیا شیخ مصطفی اردن چلے گئے
پھر 1975ء میں منتخب ہونے والے نئے وزیر نے منصوبہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے دوبارہ اسے شروع کرنے کا فیصلہ کیا
ڈاکٹر مصطفی الزرقا جو کویت چھوڑ چکے تھے دوبارہ انکو بلانے کی کوشش ہوئی لیکن وہ اردن یونیور سٹی کی تدریس چھوڑ کر آنے پر آمادہ نہیں ہوئے
چنانچہ اس مشروع کیلئے دوسرے علماء لائے گئے اور کام مسلسل جاری رہا اور 45 جلدوں میں تقریبا 35 سال کے بعد اسکی تکمیل ہوئی
لیکن اسے صرف چار مذاھب حنفی مالکی شافعی اور حنبلی تک محدود محدودکر دیا گیادیگر مذاھب ظاہری زیدی اباضی اور جعفری سے اس میں تعرض نہیں کیا گیا ہے
تمہیدی پچاس بحثیں جو شیخ مصطفی الزرقا نے لکھوائی تھیں انکے لکھنے والوں میں علامہ الطاھربن عاشور انکے بیٹے الفاضل بن عاشور اور ڈاکٹر ابراھیم عبد الحميد جیسے فطاحل علماء شامل تھے اور ان میں سے بعض ابحاث پر خود ڈاکٹر مصطفی الزرقا کی نہایت بصیرت افروز اور گرانقدر تعلیقات بھی ہیں مثال طور پر دیکھیے
الحوالہ اور القسمہ وغیرہ کے عنوان سے لکھی جانیوالی بحثیں
ڈاکٹر مصطفی الزرقا کے رگ وریشہ میں فقہ قانون اور قواعد و اصول اس طرح سرایت کئے ہوئے تھے کہ انکو بجا طور پر" فقیہ النفس" کہا جاسکتاہے
انکی دوسری خصوصیت زبا ن وبيان پرانکی غیر معمولی قدرت اور لغت وادب کا ایسا ملکہ ہےکہ انکی تعبیر میں جزالت و فصاحت اور تحریر میں اعلی درجہ کی بلاغت وسلاست انکو اوروں سے ممتاز ہے

Читать полностью…

علم و کتاب

لکھتے وقت اگر ہم کسی حیرت میں مبتلا ہو جائیں یا سوچ میں پڑ جائیں تو اپنے دانتوں تلے اپنا قلم داب لیتے ہیں۔ مگر غالبؔ حیران ہوتے تو اُن کا قلم ہی اپنے دانتوں تلے انگلیاں داب کر بیٹھ جاتا یا لیٹ جاتا تھا:
خامہ انگشت بدنداں ہے اِسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہیے
ہمارے زمانے میں تو کوئی بھی اپنے گریبان میں سر نہیں ڈالتا، خواہ ناطقہ ہویا نفسِ ناطقہ۔
رہا یہ سوال کہ ’خامہ فرسائی‘ کی ترکیب مثبت ہے یا منفی؟ تو صاحب یہ تو آپ کے لہجے پر منحصر ہے۔ مولانا ماہرؔ القادری کا فتویٰ ہے:
شکریہ پُرسشِ احوال کا، لیکن اے دوست!
صرف لہجے سے بھی مفہوم بدل جاتا ہے
پُرسشِ حال یا پُرسشِ احوال کے لیے اکثر یہ فقرہ بولا جاتا جاتا ہے:”اب آپ کو آرام ہے؟“
پوچھنے والا اگرہمدردی بھرے لہجے میں دریافت کرئے تویہ ہمدردانہ پُرسشِ حال ہے۔ لیکن اگر طنزیہ لہجے میں پوچھا جائے تو صاحب مفہوم ہی بدل جاتا ہے۔ کچھ یہی حال ’خامہ فرسائی‘ کی ترکیب کے استعمال کا بھی ہے۔اگر کہا جائے کہ
”اطہرہاشمی مرحوم زندگی کے آخری ایّام تک اصلاحِ زبان کے موضوع پر خامہ فرسائی کرتے رہے“۔
تو یہ اُن کی خدمات کا اعتراف ہوگا۔تاہم اگر ہم یہ عرض کریں کہ
”ہم کیا اور ہماری تحریریں کیا؟ بس یوں ہی کچھ خامہ فرسائی کر لیتے ہیں“۔
تو ہر چند کہ یہ اظہارِ حقیقت ہوگا،مگر جی یہی چاہے گا کہ اس فقرے کو آپ ہمارے انکسار کا اظہار سمجھیں۔جھٹ یقین نہ کر لیں۔
لیکن اگر کوئی مبصر یہ تبصرہ کر بیٹھے کہ ”ابونثرؔ نے کالم تو خیر کیا لکھاہے، بس خامہ فرسائی کی ہے“۔
تو ایسا ’روح فرسا‘ (روح کو گھسیٹنے یعنی اذیت دینے والا) تبصرہ پڑھ کر جی چاہے گا کہ مبصر صاحب ہی کو ”ناصیہ فرسا“ کر دیا جائے۔’ناصیہ فرسائی‘ کے معنی کسی مستند لغت میں دیکھ لیجے۔آج ہم نے بہت خامہ فرسائی کرلی۔ خدا حافظ۔
٭٭
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ایک عورت اپنی سہیلی کو ملنے گئی جنہوں نے نیا نیا گھر شفٹ کیا تھا ۔۔۔
دوران ملاقات مہمان نے پوچھا کیسا لگا نیا گھر ۔۔۔؟
میزبان خاتون بولی ویسے تو بہت اچھا ہے مگر میں سامنے والے ہمسایوں کی وجہ سے بہت پریشان ہوں.
مہمان خاتون نے پوچھا وہ کیوں ؟
میزبان بولیں,
بس اس سامنے والے مکان میں دو نئے نویلے میاں بیوی رہتے ہیں جب دیکھو ان کے " چونچلے" جاری رہتے ہیں, میاں نے اپنی بیوی کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا ہوا, ہر وقت ناز برداریاں, لاڈ پیار، ہنسی مذاق ۔۔۔۔
مہمان بولی یار اس طرح میاں بیوی کو سب کے سامنے تو نہیں کرنا چاہیے ۔۔۔
اتنا کہہ کر مہمان خاتون نے کھڑکی کھول کے پڑوسیوں کے گھر جھانکنا چاہا تو میزبان خاتون بولی ۔۔
کھڑکی سے نظر نہیں آۓ گا ۔۔ یہ ٹیبل دیوار کے ساتھ لگاؤ , اس پہ سٹول رکھ کے روشندان سے دیکھو, روشندان سے🙄🙄

Читать полностью…

علم و کتاب

کا یہ معمول ہوتا ہے کہ وہ معمولی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور سنگین نوعیت کے تربیتی مسائل کے سلسلہ میں فوری حرکت میں آجاتے ہیں، یہ اصول بچوں کی تربیت میں کارگر ثابت ہوتا ہے، جب والدین یا اساتذہ بچوں کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، تو اس سے بچوں کو اپنی غلطیوں پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے اور ان کی خود احتسابی کی صلاحیت بڑھتی ہے۔
📂📂📂
معاشرتی تعلقات کو مضبوط رکھنے کے لیے تجاہل عارفانہ ایک لازمی رویہ ہے، روزمرہ کی زندگی میں ناخوشگوار یا بار خاطر ہونے والی باتوں کا پیش آنا ایک عام بات ہے، اگر ہم ہر چھوٹی بات پر اعتراض کریں یا فوری ردعمل دیں، تو اس سے رشتے خراب ہو سکتے ہیں اور تعلقات میں دراڑیں پڑ سکتی ہی؛ اس لیے یہی طرز تغافل اختیار کرنا پڑتا ہے، امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے: "العافية ‌عشرة أجزاء، كلها في التغافل" (عافیت کے دس حصے ہیں، اور وہ سب تغافل میں پوشیدہ ہیں) (شعب الإیمان، بیہقي، مکتبۃ الرشد، ممبئی، ۲۰۰۳ء، ج۱۰، ص۸۰۲۸) یعنی اچھے اخلاق کا زیادہ تر حصہ یہی ہے کہ چھوٹی باتوں کو نظر انداز کیا جائے، عربی شاعر نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
لولا التّغافلُ عَن أشياءَ نَعْرِفُها
ما طابَ عَيشٌ ولا دامت مَوَدَّاتُ
یعنی اگر ہم بعض ایسی باتوں کو نظر انداز نہ کریں جنہیں ہم جانتے ہیں، تو نہ زندگی کا لطف ممکن ہے اور نہ ہی محبتیں قائم رہ سکتی ہیں۔
📂📂📂
لیکن اگر بے خبری اور تغافل کی عادت بنالی جائے تو بسا اوقات تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے، بیخود دہلوی (و:۱۹۵۵)نے اس رویہ کی اسی نوعیت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
انہیں تو ستم کا مزا پڑ گیا ہے
کہاں کا تجاہل! کہاں کا تغافل!
یہاں شاعر ایک طنزیہ انداز میں معاشرتی رویہ کو پیش کرتا ہے جہاں تجاہل اور تغافل کے پردہ میں دانستہ ظلم اور حق تلفی کو عادت بنالیا جاتا ہے، اس شعر میں تجاہل عارفانہ کے مثالی رویہ کے بجائے شعوری ستم کا ذکر ہے، جو اس عمل کے کسی مفید پہلو تک رسائی کے برعکس انسانی رشتوں کو مزید پیچیدہ بناتا ہے،دانستہ طور پر کسی کو نظر انداز کرنا، اس کے مسائل سے پہلو تہی اور غفلت، اور صرف اپنے مطلب کی حد تک روابط، یہ وہ تجاہل عارفانہ ہے جو ناقابل قبول اور منفی ہے، اور اصل مسئلہ سے بے تعلقی کی دلیل ہے، مثلاً تمام تر مسائل کے لیے وقت ہو لیکن امت کے جو اہم مسائل ہیں لیکن ان کو ڈیل کرنے میں رسک زیادہ ہے، ان پر سکوت یا لاعلمی کا اظہار ہو، یا دعوت واصلاح کی ذمہ داریوں سے غفلت کی حد تک کنارہ کشی اختیار کی جائے، یا اپنے ماتحتوں کے ساتھ انجانا سا رویہ رکھا جائے، خواہ وہ ایک ذمہ دار اور خدمت گزاروں کا مسئلہ ہو، استاد شاگرد اور امام مقتدی کا تعلق ہو یا ساس بہو کے مابین رشتہ ہو یا تعلقات کی اور جہتیں، یہ رویہ ناپسندیدہ ہے کہ:
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا
📂📂📂
تجاہل عارفانہ نہ صرف معاشرتی تعلقات میں بہتری لاتا ہے، بلکہ یہ انسان کے ذہنی سکون اور جذباتی استحکام کا بھی ایک ذریعہ ہے، جب ہم دوسروں کی معمولی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں، تو ہم غیر ضروری تنازعات اور ذہنی دباؤ سے بچ جاتے ہیں، اس طرح یہ ایک حکیمانہ انداز ہے، کسی صاحب نظر کا قول مشہور ہے: ’’العقل ثلثه فطنة وثلثاه تغافل‘‘ یعنی، عقل کا ایک تہائی حصہ ذہانت میں اور دو تہائی حصہ چشم پوشی میں ہے، حقیقیت ہے کہ جو لوگ چھوٹی اور غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں وہ زیادہ متوازن اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں، اس سے آپسی احترام ومحبت میں بہتری آتی ہے، اور یہ ایمانی تقاضہ بھی ہے، ابن مبارک(و:۱۸۱ھ) فرماتے ہیں: "المؤمن يطلب المعاذير والمنافق يطلب العثرات"( مومن دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے اوران کی طرف سے عذر ڈھونڈھتا ہے، جب کہ منافق دوسروں کی لغزشیں تلاش کرتا ہے) (إحياء علوم الدين، دار المعرفة، بيروت، ج۲، ص۱۷۷)، ایک صاحب منصب کے لیے یہ رویہ اور زیادہ ضروری ہے، عربی شاعر ابو تمام (و:۲۳۱ھ) نے کیا خوب کہا ہے:
لَيسَ الغَبِيُّ بِسَيِّدٍ في قَومِهِ
لَكِنَّ سَيِّدَ قَومِهِ المُتَغابي
( ایک نادان شخص اپنی قوم کا رہنما نہیں ہو سکتا، البتہ وہ شخص جو دانستہ طور پر چھوٹی باتوں سے چشم پوشی کا رویہ اختیار کرتا ہے، وہی قوم کی قیادت کا اہل ہوتا ہے) (الموازنة بين شعر أبي تمام والبحتري، حسن بن بشر الآمدي، دار المعارف، ومکتبۃ الخانجي، ۱۹۹۴، ج۳، ص۲۴۸) اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکمت اور بردباری سے معاملات کو سنبھالنے والا شخص ہی قوم میں عزت و مرتبہ پاتا ہے، کامیاب رہنما ہمیشہ اپنے ماتحتوں کی چھوٹی غلطیوں پر ردعمل دینے کے بجائے ان کی بڑی کامیابیوں اور کارکردگی پر توجہ دیتے ہیں اور غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، قرآن مجید بھی اس حکمت عملی کی تائید کرتا ہے، جیسا کہ سورۂ تحریم میں نبی کریم ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا: "عَرَّفَ بَعْضَهُ

Читать полностью…

علم و کتاب

*جلوہ ہائے پابہ رکاب (25) تاریخ پڑھانے کا انوکھا طریقہ*
*تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
میں پانچویں کلاس میں پڑھ رہا تھا، تاریخ کی گھنٹی شروع ہونے والی تھی۔ استاذ آئے، وہ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی تھے۔ اس لیے طلبہ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ بیٹھنے کے فورا بعد کہنے لگے : تم نے لوگوں کو سگریٹ پیتے دیکھا ہو گا، ہو سکتا ہے تمہارے کچھ رشتہ دار بھی سگریٹ پیتے ہوں۔ اب مجھے تم لوگ کچھ مشہور سگریٹ کے نام بتاؤ۔ طلبہ دنگ رہ گئے کہ یہ کیسا سوال ہے ؟ اور استاذ آج سگریٹ کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ طلبہ خاموش رہے، تو انہوں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس زمانے میں جو سگریٹ بہت مشہور تھا وہ تھا Passing Show ، طلبہ نے یہ نام بتایا۔ استاذ نے اور نام بتانے کو کہا۔ ان دنوں ایک اور سگریٹ مشہور تھا جس کا نام تھا اکبر "۔ اس کا پیکٹ زرد رنگ کا ہوتا تھا اور اس پر ایک بادشاہ کی تصویر بنی رہتی تھی۔ کچھ طلبہ نے اکبر سگریٹ کا نام بتایا۔ استاذ بہت خوش ہوئے، اور اس نام کو بڑے حرفوں میں بورڈ پر لکھ دیا اور کہا: ہمارا آج کا سبق شہنشاہ اکبر ہے۔ یہ واقعہ کچھ ۷۵ سال پہلے کا ہے، لیکن یہ سبق میرے ذہن میں اتناہی تازہ ہے کہ جیسے استاذ نے اسے کل ہی پڑھایا ہو۔ اور اس کی وجہ استاذ کا وہ انوکھا طریقہ تھا جس کے ذریعہ انہوں نے شہنشاہ اکبر کا تعارف کرایا تھا۔ ذہن اکیلی بات کو بھول جاتا ہے لیکن جو بات اپنی سہیلیوں کے ساتھ آتی ہے اس کو آسانی سے بھولتا نہیں ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ ۲۵؍ اکتوبر
/channel/ilmokitab
انور کیف 25/اکتوبر/2012ء
پروفیسر حیدر عباس رضوی 25/اکتوبر/2013ء
ساحر لدھیانوی 25/اکتوبر/1980ء
ضیاء الحق قاسمی 25/اکتوبر/2006ء
ضیاء گوگ الپ 25/اکتوبر/1924ء
محمود اعظم فاروقی 25/اکتوبر/1997ء
علامہ موسیٰ جار الله 25/اکتوبر/1949ء
مولانا افتخار فریدی 25/اکتوبر/1918ء
مولانا عبدالرشید بستوی 25/اکتوبر/2018ء
مولوی محمد عباس انصاری(کشمیر) 25/اکتوبر/2022ء
ہادی مچھلی شہری(سید محمد ہادی) 25/اکتوبر/1961ء
وراثت مرزا 25/اکتوبر/1991ء

Читать полностью…

علم و کتاب

مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر فیصلے کی گھڑی

معصوم مرادآبادی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندرچوڑ آئندہ ہفتہ سبکدوش ہونے والے ہیں۔ سبکدوشی سے قبل انھیں جن مقدمات پر اپنا فیصلہ صادر کرنا ہے، ان میں ایک اہم مقدمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا بھی ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ اس فیصلے کی آمد سے پہلے علی گڑھ برادری میں خاصا تجسس پایا جاتا ہے، کیونکہ مودی سرکار نے اس حلف نامہ کو واپس لے لیا ہے، جو پچھلی یوپی اے سرکار نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حق میں سپریم کورٹ میں داخل کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی ہے، اس لیے سب کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مرکوز ہیں۔ اس دوران راجیہ سبھا میں سماجوادی پارٹی کے سرکردہ ممبر رام جی لال سمن نے راجیہ سبھا میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا ہے۔
واضح رہے کہ دسمبر1981میں مرکزی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پاس کئے گئے ایک ترمیم شدہ آرڈی نینس کے توسط سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا گیا تھا، لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے 2005 میں اپنے ایک فیصلے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو خارج کردیا۔ عدالت عالیہ نے 1967 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا۔ رام جی لال سمن کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے پیش کیا گیا بل دراصل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمانوں نے چونکہ انگریز سرکار کو تیس لاکھ روپے کی رقم جمع کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قایم کی تھی، اس لیے یہ واضح ہے کہ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ قایم کی گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1977 اور1979 کے لوک سبھا چناؤ کے جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت باجپئی اور اڈوانی سمیت بی جے پی کے بیشتر لیڈران جنتا پارٹی کے ممبر تھے۔اگر عدالت نے اپنا فیصلہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف صادر کیا تو یہاں سے ایک عجیب وغریب صورتحال جنم لے گی۔ وقف ترمیمی ایکٹ سے جوجھ رہے مسلمانوں کے سامنے ایک نیا چیلنج ہوگا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہے۔عظیم مسلح قوم سرسیداحمد خاں کی قائم کردہ اس دانش گاہ کی اہمیت وافادیت پوری دنیا پر عیاں ہے۔ اس کا وسیع وعریض کیمپس ہرشخص کو متاثر کرتا ہے۔ یہاں اتنی کشش ہے کہ اسے دیرتک دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔درحقیقت اتنا روحانی سکون کسی اور کیمپس میں نہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہے۔یہ ان عظیم انسانوں کی قربانیوں کا فیض ہے جنھوں نے قوم کی تعلیم وتربیت میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ سرسیداحمد خاں اس کے سرخیل تھے،جنھوں نے اب سے ڈیڑھ سوسال پہلے اس دانش گاہ کا خواب دیکھا تھا۔آج ان کا یہ خواب ایک زندہ جاوید تعبیر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ سرسید کے بنائے ہوئے اس ادارے کو نقصان پہنچانے اور ختم کرنے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں، لیکن تمام یورشوں کے باوجود سرسید کا یہ چمن لہلاتا رہا ہے۔
میں نے گزشتہ ہفتہ یوم سرسید کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی روز قیام کرکے وہاں کی رونقوں کا مشاہدہ کیا اور میں یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکا کہ اس دانش گاہ سے مسلمانوں کو جو جذباتی لگاؤ ہے وہ کسی اور دانش گاہ سے نہیں ہے۔اس لیے مسلمان یہاں کی ہر نقل وحرکت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے اقلیتی کردار کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی آمد سے قبل مسلمانوں میں پھیلی ہوئی تشویش کی لہر کو خوب محسوس کیا۔یہ ایک ایسی مرکزی یونیورسٹی کے جس کے کیمپس مرشدآباد(معربی بنگال)کشن گنج (بہار)اور ملاپورم (کیرل)میں بھی موجود ہیں۔یہ صرف مسلمانوں کو ہی تعلیم نہیں دیتی بلکہ یہاں بڑی تعداد میں غیر مسلم طلباء اور طالبات بھی زیرتعلیم ہیں۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں تو غیر مسلم طلباء کی اکثریت ہے۔
واضح رہے کہ 1965 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے وزیرتعلیم عبدالکریم چھاگلہ کے ذریعہ اسے ختم کرایا تھا۔علی گڑھ برادری نے اس کے خلاف ایک تحریک منظم کی جو پورے ملک میں 1980تک چلی۔اس تحریک کے نتیجے میں دسمبر1981 میں مرکزی حکومت نے ایک آرڈی نینس کے ذریعہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا، لیکن بدقسمتی سے 2005میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کودوبارہ ختم کردیا۔دراصل 2005میں مسلم یونیورسٹی نے اپنے میڈیکل کورسز میں مسلم طلباء کے لیے پچاس فیصد سیٹیں مختص کی تھیں۔ اس کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر نریش اگروال بنام حکومت ہند(2005)میں چیلنج کیا گیا، جس نے مسلم یونیورسٹی کی

Читать полностью…

علم و کتاب

کیا گیا، جس نے مسلم یونیورسٹی کی ریزرویشن پالیسی کو رد کردیا۔ اس وجہ سے مسلم یونیورسٹی اور مرکزی حکومت نے2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔
اس معاملے میں 2016میں اس وقت ایک موڑ آیا جب2014میں نریندر مودی کی قیادت میں بنی این ڈی اے سرکار نے2016 میں اس فیصلے کے خلاف یوپی اے حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل واپس لے لی، لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے متعلق دیگر تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ جاری رکھا۔2019 میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بینچ نے اس معاملے کو سات ججوں کی بینچ کے روبرو نظرثانی کے لیے بھیجا۔12/اکتوبر2023چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے سات ججوں کی بنچ تشکیل دی۔سماعت9/جنوری 2024کو شروع ہوئی۔ یکم فروری 2024کو سپریم کورٹ نے آٹھ دن کی سماعت کے بعدمسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔ سات ججوں کی دستوری بینچ اس بات پر غور کررہی ہے کہ کیا مسلم یونیورسٹی دفعہ 30کے تحت اقلیتی ادارے کے طور تسلیم کئے جانے کااہل ہے۔ دستور کی دفعہ ۰۳ کہتی ہے کہ مذہبی اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قایم کرنے اور ان کا انتظام چلانے کے حق دار ہیں۔ سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بینچ 1967کے دستوری بینچ کی طرف سے عزیزباشا بنام ہندوستانی حکومت پر دئیے گئے فیصلے پر بھی دوبارہ غور کررہی ہے، جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل نہیں ہے کیونکہ اس کا قیام برطانوی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آرڈی نینس 1920کے ذریعہ کیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ1981میں مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال کرتے ہوئے آرڈی نینس میں جو تبدیلی کی گئی تھی اس میں واضح طورپر یہ کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ”ہندوستانی مسلمانوں“ نے کیا تھا۔ عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے کہ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی ترقی کے ارادے سے 1877 میں محمڈن اینگلو اورینٹیل (ایم اے او)کالج قایم کیا تھا۔اے ایم یو آرڈی نینس 1920کے پاس ہونے کے بعد اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بدل دیا گیا۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد مسلم یونیورسٹی نے اپنا اقلیتی کردار چھوڑ دیا۔ انھوں نے دلیل دی ہے کہ مسلمانوں نے یونیورسٹی کا کنٹرول برٹش سرکار کو سونپ دیا، اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے بانی برٹش سرکار کے تئیں وفادار تھے اور انھوں نے اپنا مذہبی درجہ انگریزوں کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کے مطابق کئی اداروں نے برٹش سرکار کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا،جنھیں مسلم یونیورسٹی کے برخلاف آج اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل ہے۔سالیسٹر جنرل نے اپنی بات کے حق میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مثال دی۔ حکومت ہند نے عزیزباشا فیصلے پر بھی اعتماد کیا، جس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اے ایم یو آرڈی نینس کے ذریعہ اے ایم یو میں تبدیل ہونے کے بعد ایم اے او نے اپنی مذہبی حیثیت کھودی ہے۔

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

یہ ظلمت خود کٹ جائے گی
اپنے قلم کو تیشہ کرلو
لہجے کو تلوار کرو
عزت، عظمت، شہرت یارو
دامن میں اسلام کے ہے
وقت یہی ہے سنگ زنوں کو آئینہ کردار کرو
دنیا ہویا دین کی منزل
یکجہتی سے ملتی ہے
وحدت کا پیغام سنا کر
ذہنوں کو بیدار کرو
انسان کو راحت نہ ملے گی
دنیا بھر کے ازموں سے
اس دنیا میں نافذ لوگو
حکم شہِ ابرار کرو
سرخ سمندر والی لہریں
دور بہا لے جائیں گی
ہوش میں آئو
سبز ہلالی پرچم کو پتوار کرو
سورج بننا مشکل ہے تو
جگنو ہی بن جائو تم
بھائی ہوتو بھائی کی خاطر
اتنا تو ایثار کرو
کچھ تو اپنے ہم سائے پہ
پیار کا رشتہ رہنے دو
اعجاز اپنے گھر کی اونچی
اتنی مت دیوار کرو
اعجاز رحمانی صاحب 1988ء میں ڈاکٹر سید انور علی مرحوم کے انٹرنیشنل اسکول ابوظہبی کے منعقد کردہ مشاعرے میں ایک طویل عرصے بعد نظر آئے، اس میں آپ کے ساتھ حفیظ میرٹھی، سحر انصاری، اور انتظار نعیم نے خوب رنگ جمایا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بھٹکلی احباب کی کسی مجلس میں وہ تشریف لائے تھے۔ اس کے بعد وہ جب بھی آئے اپنائیت کا مظاہرہ کیا، اور ان کی محفلوں کو خوب گرمایا۔ وہ یہاں 1991ء میں ڈاکٹر اطہر علی زیدی کے عالمی عرب اردو مشاعرے میں آئے تو اُس وقت بھٹکل کے استاد شاعر محمد حسین فطرت بھی موجود تھے، خوب مجلسیں رہیں۔ اس کے بعد ستمبر 2001ء میں بھی ان کی خوب مجلس رہی۔ ان مجالس میں حمد و نعت، غزلیات اور نظموں پر مشتمل 40 سے زیادہ کلام ریکارڈ محفوظ کرنے کا ہمیں موقع ملا، جو اردو آڈیو ڈاٹ کام www.urduaudio.com پر محفوظ ہیں۔
مورخہ 6جنوری 2014ء کو آخری مرتبہ آپ سے ملاقات نصیب ہوئی، اس روز ایک مختصر نشست رکھنا نصیب ہوا تھا، اُس وقت دل کا دورہ پڑنے کے ایک عرصے بعد تشریف لائے تھے، اس کے بعد وہ خاصے کمزور ہوگئے تھے۔ وہ شخص جو دو تین گھنٹے پوری توانائی اور رعنائی کے ساتھ کلام پڑھ کر نہیں تھکتا تھا اب خاصا ضعیف ہوچکا تھا، ایک نظم پڑھنے ہی میں سانس اکھڑنے لگتی تھی۔ اُس وقت آپ سے بڑی پیاری باتیں ہوئی تھیں۔
اعجاز رحمانی کے اس دنیا سے کوچ کرنے کی خبر سے دل کو بڑا صدمہ پہنچا، وہ ایسے آدمی نہیں تھے کہ آسانی سے انہیں بھلا دیا جائے، اخلاق ان کی سیرت میں رچا بسا تھا، وہ ایک ملنسار انسان تھے، ان کی شخصیت بڑی انس اور محبت رکھنے والی تھی، ایسے لوگوں کی زندگی کے نقوش دل پر پتھر کی لکیر بن جاتے ہیں۔
اعجاز صاحب کو احساس تھا کہ انہیں اپنوں سے وہ پذیرائی نہیں ملی جو انہیں دوسروں سے ملی، جس تحریک سے ان کا دلی لگائو تھا، یہ تحریک بنیادی طور پر ادبِ اسلامی کی بھی تحریک تھی، اور اس کے لیے انہوں نے اپنی توانائیاں صرف کی تھیں، اب وہاں پر ادب سے لگائو ختم ہوتا جارہا ہے، آپ کے جانے کے بعد ایک خلا محسوس ہورہا ہے۔ ایسا شاعرو ادیب جو محبوب بھی ہو، اس کا کلام دلچسپی سے ہر محفل میں سنا جاتا ہو، دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ مرنے والے کی تعریفیں تو بہت کی جاتی ہیں، لیکن ایسی تعریف کس کام کی جب مرنے والے کی جلائی ہوئی شمع بجھ جائے، اور اس سے دوسری شمع نہ جل سکے۔ اعجاز صاحب کا جب تذکرہ ہوتا ہے، یا ان کی یاد آتی ہے تو ان کی جو بے شمار نعتیں اور نظمیں کانوں میں گونجنے لگتی ہیں، ان میں آپ کی یہ نظم بھی شامل ہے:۔
ہم اجالوں کے پیغام بر ہیں
روشنی کی حمایت کریں گے
جو دیئے ہم نے روشن کیے ہیں
ان دیوں کی حفاظت کریں گے
اپنے سورج کو بجھنے نہ دیں گے
چاند روشن رہے گا ہمارا
یہ اندھیرے جو ہیں نفرتوں کے
ان اندھیروں کو رخصت کریں گے
جو تعصب کی کرتے ہیں باتیں
وہ تو اپنے دشمن ہیں یارو
ہم محبت کے پیغام بر ہیں
ہم تو سب سے محبت کریں گے
طالب علم ہو یا کہ تاجر
ہو وہ مزدور یا کہ ہاری
یہ وطن سب کا پیارا وطن ہے
سب ہی مل کے خدمت کریں گے
بادِ نفرت مٹا دے گی سب کچھ
آتشِ گل جلا دے گی سب کچھ
کیا رہے گا چمن میں بتائو
پھول ہی جب بغاوت کریں گے
ہر حکومت تو ہے آنی جاتی
ہے محبت مگر جاودانی
تخت اور تاج تم کو مبارک
ہم دلوں پر حکومت کریں گے
امن ہے جان سے ہم کو پیارا
اتحاد اپنا اعجاز نعرہ
بھائی سے بھائی کو جو لڑائے
ہم نہ ایسی سیاست کریں گے
شاید ان کی زندگی کا پیغام بھی یہی ہے، جس کے لیے وہ جیے، اور جس کی وہ تمنا عمر بھر کرتے رہے۔ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ کی شناخت بنی، شاید اس کا محور بھی یہی پیغام ہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آپ کا نام تادیر زندہ رہ کر سوئے ہوئے دلوں کو جگاتا رہے گا، اللہ مغفرت کرے، اور درجات بلند کرے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*اعجاز رحمانی قوم کو جگانے والا شاعر*
(وفات مورخہ : ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء پر لکھی گئی ایک تحریر)

*تحریر: عبدالمتین منیری*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

یہ 1980ء کے موسم سرما کی ایک ٹھنڈی شام تھی، دبئی کریک پر واقع عالیشان ہوٹل شیرٹن کے وسیع و عریض ہال میں دبئی کی تاریخ کے پہلے عالمی اردو مشاعرے کی محفل سجی تھی،اس میں اُس وقت کے برصغیر کے مایہ ناز اور بزرگ شعراء شریک تھے، ان میں کلیم احمد عاجز، حفیظ میرٹھی، جگن ناتھ آزاد، فنا نظامی کانپوری، شاعر لکھنوی، قتیل شفائی، کلیم عثمانی، اقبال صفی پوری، احمد ندیم قاسمی، دلاور فگار، سید اقبال عظیم جیسے عظیم شاعر حاضر تھے۔ یہ مشاعرے کی تاریخ کا ایک ایسا معیاری مشاعرہ تھا، جس کے بعد نہ صرف یہاں بلکہ شاید برصغیر میں بھی ایسی کہکشاں دوبارہ نہیں سجی، کیونکہ چند سال میں یہ کہکشاں ٹوٹنے لگی، اور اس محفل کو رونق بخشنے والے یہ شاعر جہاں ایک طرف اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے مشاعروں میں شرکت سے معذور ہونے لگے، تو دوسری طرف ان کی بڑی تعداد ایک عشرے کے اندر دارِ فانی سے کوچ کرگئی۔ اس مشاعرے کی نظامت قادرالکلام اور استاد شاعر حضرت راغب مرادآبادی کے حصے میں آئی تھی، جن کی برجستہ گوئی اور عروض پر قدرت کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے، وہ بروقت شعراء کے نام پر مشتمل اشعار ڈھال کر انہیں دعوتِ سخن دے رہے تھے۔ حفظِ مراتب کو دیکھتے ہوئے میزبان مقامی شعراء کے کلام سے اس محفل کا آغاز ہوا۔ اردو مشاعرے کی روایت اس سے پہلے دبئی میں کہاں تھی! حاضرین میں سے ایک بڑی تعداد کو معلوم بھی نہیں تھا کہ مشاعرے کی بھی کوئی تہذیب ہوا کرتی ہے۔ اب آوازے کسے جانے لگے، ایسی ہوٹنگ ہونے لگی کہ الامان الحفیظ۔ ہڑبونگ ایسی مچی کہ منتظمینِ مشاعرہ آئندہ ایسی کوئی محفل سجانے سے توبہ کرلیں۔ اور جب یہ بے ہودگی اپنے عروج پر تھی اور کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ایسے میں ناظمِ مشاعرہ نے ایک ایسے شاعر کو آواز دی جس کی عمر چالیس سے کچھ ہی متجاوز تھی، چہرے مہرے پر جوانی کے آثار نمایاں تھے، اور غالباً مہمان شعراء میں وہ سب سے کم عمر تھے، یہ تھے اعجاز رحمانی، جن کا مکمل نام سید اعجاز علی رحمانی تھا۔ ناظمِ مشاعرہ نے سامعین کی آوازوں کی گونج میں مہمان شاعر کے بارے میں ایک شعر پڑھ کر صرف اتنا بتا یا کہ کراچی سے آئے ہیں، اور شاعرِ موصوف نے بغیر کسی تمہید ، دا د طلبی ، یا شاعرانہ تکلفات کے اپنی غزل پیش کردی، جس کے پہلے ہی شعر نے سامعین کو چوکنا کردیا، اور یک لخت ہوٹنگ بند ہوکر واہ واہ اور دوبارہ ارشاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مشاعرے کا رنگ یکسر بد ل گیا۔ اعجاز رحمانی نے اپنی باری اس غزل سے شروع کی تھی:۔
جنوں کا رقص تو ہر انجمن میں جاری ہے
فرازِ دار پہ لیکن سکوت طاری ہے
مزید عرضِ تمنا کا حوصلہ ہے کسے
ابھی تو پہلی نوازش کا زخم کاری ہے
یہ رنگ و نور کی بارش، یہ خوشبوئوں کا سفر
ہمارے خون کی تحریک ہی سے جاری ہے
نصیب سایہ گل ہے جنہیں وہ کیا جانیں
ہمارے پائوں کی زنجیر کتنی بھاری ہے
سحر کو رنگ ملا ہے اسی کے صدقے میں
ستونِ دار پہ ہم نے جو شب گزاری ہے
ہمیں نے کل بھی بچایا تھا شیش محلوں کو
ہمیں پہ آج بھی الزامِ سنگ باری ہے
کسی کو پرسشِ احوال کی نہیں فرصت
وہ کون ہے جسے احساسِ غم گساری ہے
جگائیں سوئی ہوئی اپنی قوم کو اعجاز
تمام اہلِ قلم کی یہ ذمہ داری ہے
اپنی عمر کی نصف صدی سے زیادہ عرصہ قوم کو جگاکر یہ شاعر 26اکتوبر 2019ء کو کراچی میں ابدی نیند سوگیا۔
آپ نے اس دنیا میں 21 فروری 1936 ء کو شہر علی گڑھ کے محلہ اسرا میں آنکھ کھولی تھی،اس حساب سے آپ نے عمرِ عزیز کے 83سال اس دنیائے فانی میں گزارے۔آپ کے والدِ ماجد کا نام سید ایوب علی تھا، ابھی آپ کی عمر دو سال کی تھی کہ سایہ پدری سر سے اٹھ گیا ، آپ عمر کے نو یںسال میں تھےکہ والدہ نے بھی داغِ مفارقت دے دیا، اور آپ اپنی دادی ماں کے سایہ آغوش میں آگئے ، جو کہ بڑی باہمت خاتون تھیں، انہوں نے آپ کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بڑی حوصلہ مندی کا ثبوت دیا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ پرائمری اسکول میں ہوئی۔ آواز بڑی خوبصورت پائی تھی، بچپن ہی سے اسکول میں نظمیں پڑھنے کے لیے پیش ہونے لگے، یہاں علامہ اقبال کی نظموں ”چین و عرب ہمارا“ وغیرہ کا بہت چلن تھا، جس سے بچپن ہی میں شاعری کا چسکا لگ گیا، اور گیارہ سال کی عمر ہی میں ایک مصرع تخلیق پا یا جو یوں تھا:
رواں دواں ہے میری نائو بحرِ الفت میں

Читать полностью…

علم و کتاب

گاہے گاہے باز خواں
-------------------------------------
استاد جو طلبہ کو گھول کر پلادینے کا گر جانتا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
/channel/ilmokitab
کتاب تھی ھدایۃ النحو ، اورعبارت تھی بالکل شروع کی , لئلا تشوش ذہن المبتدی عن ،، عن کے معنی کی ایسی تشریح کی کہ دوری مجسم ہوکر سامنے آگئ ، پڑھانے میں سرشاری کی کیفیت طاری ہوجاتی ، وہ بھی اس طرح کہ طلبہ اسکو محسوس ہی نہیں کرتے بلکہ نظروں سے بھی دیکھتے ، قد بھی چھوٹا ، جسم بھی مختصر ، ٹوپی دیوبندی جو اب تقریبا نایاب ہوگئ ہے ، کرتا بھی لمبا نہیں ، شکل وصورت بھی بارعب نہیں ، لیکن طلبہ انکی تدریس کے دیوانے تھے ، پڑھانے میں انہیں ایسی لذت ملتی کہ آواز کبھی جوش میں تیز ہوجاتی ،‌ کبھی مدھم ، کبھی تپائی سے چپک جاتے ، کبھی پہلو بدلتے ، مفہوم و مدعا کو اس طرح مختلف انداز سے بتاتے کہ طلبہ کے ذہن میں وہ نقش ہوجاتا ، مولانا کے ذمہ علوم آلیہ میں خصوصا ادب کی تدریس ہوتی تھی ، خوبصورت تعبیرات اور نادر تشبیہات کی خوب مزے لیکر تشریح کرتے ، ھر طالبعلم کی خواہش ہوتی کہ اسکا نام اس سیکشن میں آجائے جس میں مولانا کا گھنٹہ ہو , یہ خوبیاں ندوہ کے جس مثالی استاد کی بیان ہورہی ہیں اسکا نام ہے مولانا برجیس ، ھر اعتبار سے سیدھا سادہ انسان ، ذمہ داروں کے یہاں حاضری دیتے کبھی کسی نے نہیں دیکھا ، اساتذہ کی میٹنگ میں بلائے جاتے تو شریک ہوجاتے ، کینٹن میں چائے کیلئے پابندی سے آتے اور اپنے مخصوص احباب ہی کے ساتھ بیٹھتے ، چائے میں الگ سے دو تین چمچ شکر ڈال کر پیتے , بازار بھی اپنے احباب ہی کے ساتھ جاتے ، ویسے گھر کی ذمہ داریوں اور بکھیڑوں سے استانی صاحبہ انہیں بے فکر کئے ہوئے تھیں ، وطن دربھنگہ بہار تھا ,دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوکر اپنے بڑے بھائی مولانا ادریس قاسمی رح کے ساتھ ندوہ آئے تھے ،ندوہ میں ادب کا دوسالہ کورسں کیا اور ندوہ ہی میں پڑھانے کیلئے تقرری ہوگئ ، خاص احباب میں مولانا یعقوب صاحب ندوی اور مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوی رح تھے جو انہی کی طرح انتہائی باصلاحیت ، کئ زبانوں کے ماھر ، متواضع اور ہر وقت شاگردوں کو کچھ بنا دینے کی فکرکرنے والے تھے ،ا ستاد محترم مولانا برجیس صاحب رح کو لکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھے ، شائد زندگی میں کبھی کچھ نہیں لکھا ، وہ اول و آخر مدرس تھے ، مولانا کو تفہیم کا عجیب وغریب ملکہ حاصل تھا ، مولانا نے سوم عربی میں ایک کتاب شروع کروائی ، فن اور کتاب کے بارے میں ضروری باتیں بتاتے ہوئے مقدمہ ، موضوع اور غرض وغایت کے بارے میں طلبہ سے پوچھا ، میں یہ سب چیزیں مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ سے پڑھکر آیاتھا ، میں نے ہر ایک کی تعریف کردی ، مقدمہ مقدمہ الجیش سے ماخوذ ہے ، ،،،، اسی طرح موضوع اور غرض و غایت کی رٹی ہوئی تعریف بھی سنادی ، مولانا نے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں ، طلبہ ان سے پڑھنے کے اتنے مشتاق رہتے تھے کہ ‌ انہیں مطالعہ اور حاضری کیلئے تنبیہ ا ور ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں پڑتی ، دوسرے گھنٹے طلبہ چھوڑدیتے لیکن مولانا کے گھنٹے میں ذوق و شوق سے حاضر رہتے ، ندوہ میں تنخواہ بقدر ضرورت نہیں بقدر کفاف ملتی ہے ، اور یہی حال کم وبیشہ تمام مدارس دینیہ کا ہے ،‌ روز مرہ کی ضروریات کے علاوہ کوئی ضرورت پیش آجائے تو تنخواہ سے اسکی تکمیل بہت مشکل ہوتی ہے ، بڑے مدارس کے بہت سے اساتذہ کو لوگ تبرکا یا پروگراموں میں تقریر کیلئے مدعو کرتے ہیں ،اس سے بھی ان اساتذہ کو تھوڑا بہت مالی فائدہ ہوجاتا ہے ، ندوہ میں ہدیوں کا بھی رواج نہیں ہے ، مولانا برجیس صاحب کیلئے تنخواہ ہی سب کچھ تھی ، مدارس کے اساتذہ اور ملازمین میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو مدارس کو چھوڑکر اچھی تنخواہوں کی ملازمت کرسکتے ہیں ،‌ سرکاری مدرسوں میں بھی جاسکتے ہیں ، ‌ندوہ میں اس وقت کئ اساتذہ ایسے ہیں جنہیں سرکاری مدرسوں میں ملازمت کی پیشکش کی گئ ، لیکن انہوں نے ندوہ نہیں چھوڑا ، کئ تو سرکاری مدرسوں کو چھوڑکر آئے ہیں ، انکے اخلاص میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے ، خود مولانا سید محمد رابع صاحب اور مولانا واضح صاحب رحمۃ اللہ علیہما گھر سے ندوہ رکشہ سے آتے اور گیٹ پر اترکر دونوں بھائی شروانی کی جیب سے اپنے حصہ کا کرایہ نکال کر رکشہ والے کو دیتے ، جبکہ مولانا واضح صاحب آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت چھوڑکر آئے تھے ، دہلی میں انہیں لے جانے اور چھوڑنے کیلئے گاڑی آتی تھی ، دونوں بھائیوں میں سے کسی کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اپنے ساتھ اپنے محبوب بھائی کا بھی کرایہ ادا کرے ، جہاں ذمہ داروں کی یہ حالت ہو وہاں کے عام ملازمین اور اساتذہ کی کیا بات کی جائے ، مولانا برجیس صاحب ایک خوددار و باغیرت انسان تھے ، ، تنخواہ سے قرض اور ادھار پہلے نمٹائے جاتے ، نتیجتا مہینہ پورا ہونے سے بہت پہلے تنخواہ ختم ہوجاتی ، لیکن کبھی زبان پر حرف شکایت نہیں ، اور اس صورت حال

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: عمامہ بھی فرض ہے*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*

Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

دو روز قبل ((ٹوپی کافی نہیں عمامہ بھی فرض ہے)) کے عنوان سے ایک ویڈیو ہماری بزم علم وکتاب پر پوسٹ ہوئی تھی۔ ابھی اس کے ڈیلیٹ کرنے کا ذہن بن ہی پارہا تھا کہ سوشل میڈیا میں اس مسئلہ پر ایک طوفان برپا ہوا، اور بالآخر کراچی کے متعلقہ مدرسے کے استاد حدیث کی متاثر طالب علم سے معافی مانگنے اور معاملہ رفع دفع ہونے کی ویڈیوآگئی۔
جہاں تک ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کے خیال کا تعلق ہے تو ہماری ایک طویل عرصہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ جو شخصیات اور ادارے دینی وملی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کے خلاف جذباتی ماحول پیدا کرنے والے جملہ مواد کو پھیلانے سے ہمیں گریز کرنا چاہئے۔
لیکن جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا تعلق کسی ایک ادارے اور فرد سے نہیں بلکہ یہ ہمارے دینی نظام تربیت و تعلیم میں پائی جانے والی ایک وسیع کھائی کی نشاندہی کررہا ہے، جسے پاٹنے کی ہمیں فورا فکر کرنی چاہئے، اسے دشمنوں کی سازش کہ کر ہلکے میں نہیں لینا چاہئے۔اس ضمن میں ہمیں دینی مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کا موازنہ عصری نظام سے دیانتداری کے ساتھ کرنا چاہئے، اگر اس پر بروقت توجہ نہیں دی گئی تو خدا نخواستہ مدارس دینیہ کے ساتھ دین کی وقعت بھی لوگوں کے دلوں سے نکل جائے گی، اور جنہیں ہم دین کے قلعے کہتے کہتے نہیں تھکتے خدا نخواستہ وہ ہمارے سامنے ڈھتے ہوئے نظر آئیں گے۔
۔ اس واقعے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مدرس نے طالب علم سے معافی مانگی، اور اپنے بڑکپن کا مظاہرہ کیا، اور طالب علم نے بھی شرافت کا ثبوت دیا، اس روئیے کی تعریف ہونی چاہئے، ساتھ ہی یہ نکتہ بھی نہیں بھولنا چاہئے، مدرس اور طالب علم کا جو شریفانہ رویہ اس واقعہ کے بعد سامنے آیا ہے، وہ ان دونوں کی مجبوری بھی ہوسکتا ہے، اگردونوں یہ رویہ نہ اپناتے تو پھر معاشرے میں ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا تھا۔ اور اس مسئلہ کو تادیر میڈیا میں زندگی مل سکتی تھی۔
۔ دونوں ویڈیوز کے دیکھنے کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ہمارے دینی اداروں میں اب بھی طالب علموں کوڈاڑھی نکلنے اور دورہ حدیث کی عمر کو پہچنے کے بعد ڈسپلن شکنی پر ڈنڈوں سے سزا دی جاتی ہے، جو بڑے شرم کی بات ہے۔
۔ اگر یونیفارم ڈرس کوڈ کی حیثیت سے عمامہ کو کسی ادارے میں لازمی کردیا جاتا ہے تو پھر اس پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں، لیکن ڈنڈے اور طاقت سے کسی تعلیمی ادارے میں اس کا نفاذ عمل میں آتا ہے تو پھر آج کے مہذب معاشروں میں اسے قبول نہیں کیا جاسکتا، ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ خاص کر پرائیویٹ عصری تعلیمی اداروں میں کس طرح یونیفارم کا نفاذ ہمارے دینی اداروں سے بہتر انداز میں بغیر جسمانی سزاؤوں کے کیا جاتا ہے، اور طلبہ اور سرپرست کس طرح بے چون وچرا اس کی پابندی کرتے ہیں۔
۔ ہمارے دینی تعلیم ادراروں میں تربیت کا ذکر بہت آتا ہے، لیکن ان میں تدریسی عملہ خود روپودوں کی طرح ہوتا ہے، تدریسی تربیت اور بچوں کی نفسیات سے کورے فارغین کو تعلیمی و تربیتی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں، جو اب بھی پچاس ساٹھ سال پرانے تعلیمی وتربیتی فلسفہ پر چلتے ہیں جس میں کہا جاتا تھا کہ طالب علم کی ہڈی اور چمڑی اس کی ہے، باقی سب استاد کا، آج کے زمانے میں تعلیم وتربیت کا یہ تصورنہ صرف فرسودہ ہوچکا ہے۔ بلکہ یہ بہت سے مہذب اور خوشحال گھرانوں کے نونہالوں کو دینی مدرسوں میں داخلہ سے مانع بھی ہورہا ہے۔
۔ ہمارے معتد بہ مدرسین کی زبان میں ادبی مہارت وتہذیب کی کمی محسوس ہوتی جارہی ہے، درس کے دوران ان کی بھونڈی مثالیں وقتا فوقتا سامنے آتی رہتی ہیں، جو طلبہ کے لئے مستند اور نمونہ بن جاتی ہے۔ جس کا نمونہ کبھی کبھار آپ کی اس بزم میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
کبھی یہ حضرات کسی مسلک کے خلاف ہوتے ہیں تو زبان درازی میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کی زبان سے کسی معتبر اور عظیم امام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ چند سال قبل بنگلور میں ایک بڑا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا تھا، جس میں ہزارہا ہزار افراد شریک ہوئے تھے، یہ اجلاس بنیادی طور پر غیر مقلد حضرات کے خلاف تھا، ہمارے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے چند سینیر اساتذہ بھی اس میں شریک ہوئے تھے، ان سے اس اجلاس کے سلسلے میں تاثرات دریافت کرنے پرپتا چلا کہ کہ ایک بڑے معتبر دارالعلوم کے شیخ الحدیث نے بھرے جلسے میں کہا کہ یہ مادہ منویہ کو پاک کہتے ہیں، اگر یہ پاک ہے تو بریڈ میں لگا کر اسے کھائیں،اس اندازبیان سن کر یہ حضرات ششدر رہ گئے کہ اتنے عظیم علمی ودینی مرجع کو پتہ چلنا چاہئے تھا کہ کئی سارے مسائل جن کی نسبت غیر مقلدین کی طرف کی جاتی ہے، یہ امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے معتمد فیہ مسائل میں سے ہیں، اور اس قسم کے استہزائی انداز کی زد ایک عظیم امام پر پڑتی ہے۔ اس اجلاس کے منتظم بڑے محترم عالم دین تھے، ان سے ہماری اس کانفرنس کے بعد

Читать полностью…

علم و کتاب

کامطالعہ کرکے اتنے دن میں بتاؤکہ کتاب میں کیا لکھا گیاہے اوربہتر تو یہ ہے کہ دس دس بیس بیس طلبہ کی جماعت کسی باذوق استاذ کی نگرانی میں کردی جائے کہ اپنے مطالعہ کے سلسلہ میں ان سے رہنمائی لیتے رہنا۔

موبائل کی اس چکاچوند اور ناقابل علاج لت کے زمانے میں میرا نظریہ کچھ ایسا ہوگیاہے کہ اب طلبہ کوخارجی کتابوں میں کسی ادیب اورافسانہ نگارکی ادبی کتابیں پڑھنے کی اجازت دیدینی چاہئے ،میرے زمانے میں تونسیم حجازی ، التمش ،صادق حسین اورالیاس سیتاپوری وغیرہ کی کتابیں اورہرقسم کے اخبارات پڑھنے پربھی پابندی تھی۔

اگرآپ طلبہ کوکتابیں دے رہے ہیں تواچھی کتابیں دیجئے خانہ پری تونہ کیجئے کیونکہ اس سے آپ کامقصدبھی پورانہ ہوگااوران کی سمع خراشی کے باعث بھی آپ ہی بنیں گے۔
میرے طالب علمی کے زمانے میں چارسال تک مدرسہ سے جوکتب انعامیہ ملی تھیں ان میں کئی کتابیں مکررہوگئی تھیں ،اس سلسلہ میں بھی دست بستہ عرض ہے کہ آپ کے پاس توطلبہ کو دی جانے والی ہرکتاب کی تفصیل موجودہے پھرکتاب مکررکیسے ہوگئی ، میں نے جب متعلقہ افرادسے اس سلسلہ میں عرض کیاتو روکھاساجواب ملاکہ اگرہم کتابیں اسی طرح بدلنے لگے اورحسب منشاء دینے لگے توہمارا کام بڑھ جائے گا۔نتیجہ یہ ہواکہ بہت بعدمیں مکرر کتابیں کسی ضلعی انجمن میں دے کرکمرہ کابوجھ ہلکا کیا تاکہ ان کی جگہ دوسری کتابوں کورکھاجاسکے۔
/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۱۷
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق یہود و نصاریٰ کے ایک اہم جرم یعنی عصمت انبیاعلیہ السلام کے حوالے سے ان کی گستاخی سے ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں انبیائے سابقین کا ذکر آیا ہے قرآن نے ان کی نصرت و حمایت کا فرض ادا کیا ہے ۔
انشائے ماجدی

”یہود و نصاریٰ نے اہل کتاب ہونے اور نبوت وسلسلہ ءوحی پر ایمان رکھنے کے باوجود اپنے نوشتوں میں کوئی کسر عصمت انبیاء علیہ السلام کے داغدار بنانے میں اٹھا نہیں رکھی، اس لیے قرآن مجید جہاں جہاں انبیاء سابق کا ذکر کرتا ہے اکثر ان حضرات کی اخلاقی وروحانی عظمت پر بھی زور دیتا ہے اور اس طرح انبیائے برحق کی نصرت و حمایت کا فرض توریت و انجیل کی عائد کی ہوئی فرد جرم کے مقابلے میں ادا کرتا جاتا ہے ۔یہ عجیب و غریب اہل کتاب، نبی اور نبوت کے قائل گویا ان الفاظ کے صرف لفظی معنی میں تھے یعنی نبی وہ ہے جو کاہنوں،جوتشیوں کی طرح غیب کی خبریں دے سکے اور اس سے انہیں کوئی بحث ہی نہ تھی کہ اس کے اخلاق کا کیا عالم تھا ،اس کے روحانی کمالات کس درجے کے تھے، اس کی تعلیمات کیا تھیں وقس علیٰ ھذا۔ ابراہیم علیہ السلام خلیل تو اکثر انبیاء علیہ السلام کے ابو لآبا ہیں ۔آپ کی عصمت کے تحفظ کا تو قرآن میں اور زیادہ اہتمام رکھا ہے۔‘‘(تفسیر ماجدی حصہ اول ،صفحہ نمبر۲۵۳)
/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

چنانچہ انکی تصنیفات میں یہ ساری خصوصیات نمایاں ہیں
انہوں نے فقہ اسلامی کو زبان اور ترتیب و صیاغت کے لحاظ اس طرح پیش کیا ہے جو عصر حاضر سے ہم آہنگ اور موجودہ عقلی رجحانات اورذہنی تقاضوں کے مطابق ہے
دیکھیے انکی تصنیفات میں :
١ المدخل الفقهي العام
٢ نظرية العقد في الفقه الاسلامي
٣ نظرية الاهلية والولاية
٤ نظرية العرف
٥ نظرية الالتزام
٦ العقود المسماة في الفقه الاسلامي
٧ عقد الاستصناع
٨ الفعل الضار.
٩ المصالح المرسلة وغيره
بلا شبہ ڈاکٹر مصطفی الزرقا عصر حاضر کے فقہاء میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے انکے معاصر شیخ محمد ابو زھرہ فقہ میں مہارت کے ساتھ اپنے حافظہ کی قوت میں بے مثال تھے
جبکہ شیخ مصطفی الزرقا نےفقہ کے قانون کو بھی اپنے اصل اختصاص کا موضوع بنا یا تھا اسلئے انمیں جزئیات تک رسائی مسائل کے تحلیل وتجزیہ اور اسکی روشنی میں نئے پیداہونے والے مسائل کے احکا م کے استخراج کی صلاحیت بے پناہ تھی
لیکن ڈاکٹر مصطفی الزرقا کی اس تعریف اور مدح سرائی کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ ان کا ہر فتوی قابل اعتماد اور انکی ہر تحقیق صحیح ہے بلکہ جیساکہ میں نے اپنے مضمون "مقبول شخصیتوں کی ناقابل قبول باتیں "
میں واضح کردیا تھا کہ" لكل جواد كبوة ولكل صارم نبوة ولكل عالم هفوة " والی مثل کو سامنے رکھتے ہوئے
کسی بھی عالم کے شاذ قول یا جمھور کی رائے سے الگ فتوی اور ایسی تحقیق کو مستند مسئلہ کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا اور عام امت کو اس پر عمل کرنے کی دعوت بھی نہیں دی جاسکتی جیسا کہ
علامہ قاسم بن قطلوبغا کا اپنے استاذ محقق ابن الھمام کے بارے میں یہ کہنا کہ "اما شواذ اقوال شیخنا فلا تعتمد للفتوی "
کمال علم اور غایت تحقیق کے وصف کے باوجود " ہمارے شیخ کے شاذ اقوال فتوی کیلئے قابل اعتماد نہیں ہیں "
ڈاکٹر مصطفی الزرقا سے جن مسائل میں اتفاق نہیں کیا جاسکتا انمیں سب سے اہم مسئلہ تأمين یعنی انشورنس کی تمام صورتوں کے جواز کا ہے حتی کہ لائف انشورنس کے بھی وہ جواز کے قائل ہیں اور اسکے لئے انہوں نے متعدد دلائل بھی دیے ہیں
اور مفصل کتاب بھی لکھی ہے
کانفرنس کے دوران انکے نظریہ کی دلائل کےساتھ مکمل تردید شیخ محمد ابو زھرہ نے کی لیکن شیخ مصطفی الزرقا اپنی رائے پر قائم رہے اور انمیں ذرا بھی تزلزل پیدا نہیں ہوا
شیخ ابو زھرہ نے باطل کو دلائل کے ذریعہ حق کی شکل میں دلائل کیساتھ پیش کرنے کی اسے نادر مثال قرار دیا
دو نوں ہی بلندپایہ فقیہ تھے لیکن اس مسئلہ میں ہم شیخ ابو زھرہ کے مؤید ہیں اور شیخ مصطفی الزرقا کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے گو کہ انہوں نے اپنی رائے کی تائید میں دلائل جمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے
دوسرا مسئلہ جس کے بارے میں ہمیں شیخ مصطفی الزرقا کی رائے سے اتفاق نہیں ہے وہ ہجری مہینوں کے اثبات میں فلکی حساب پر ان کا کلی اعتماد ہے چنانچہ مکہ مکرمہ کی اکیڈمی پھرجدہ کی بین الاقوامی فقہ اکیڈمی نے چاند کے اثبات میں صرف حساب پر اعتماد نہ کر نے سے متعلق قرارداد منظور کی تو اس سے اختلاف کرنے والے تنہا ڈاکٹر شیخ مصطفی الزرقا ہی تھے چنانچہ ایک صاحب نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ شیخ "انت وحید المجمعین "
متعدد مسائل میں بھی انکی رائے دوسرے علماء سے مختلف ہے جیسے
ہوائی جہاز سے مکہ مکرمہ آنے والوں کیلئے جدہ کو میقات قرار دینا کیونکہ انکے نزدیک فضاء میں میقات کا کوئی تصور نہیں ہے اور اپنے وطن سے احرام باندھ کر آنا شدید حرج کا باعث ہے
یہی رائے قطر کے سابق مفتی شیخ عبد اللہ بن زید آلمحمود کی بھی تھی
جسکی شیخ عبد اللہ بن حمید نے تردید کی ہے اور مستقل رسالہ لکھا ہے
مفتی محمد شفیع صاحب اور مولانا محمدیو سف بنوری نے بھی اپنا یہ رجحان ظاہر کیا تھا لیکن پھر فتوی سے رجوع کرلیا
امریکہ اور مغربی ممالک میں مقیم لوگوں کیلئے بینک سے سودی قرض لیکر مکان خریدنے کے جواز کے بھی بعض شرائط کے ساتھ وہ قائل ہیں
کرایہ دار کیلئے بدل الخلو کو بھی وہ جائز سمجھتے ہیں
شیخ مصطفی الزرقا کی عجیب رایوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مشہور حدیث " من راني في المنام فقد راني"
کو عہد نبوی کے ساتھ خاص مانتے ہیں اور سب سے آخری صحابی کی وفات کے بعد کسی کے خواب کی وہ حیثیت نہیں مانتے
اپنی اس رائے کی تائید میں انکو ابن جزی الغرناطی کا یہ قول بھی مل گیاکہ
ان رؤيا النبي صلي الله عليه وسلم لاتصح الا لصحابي رآہ وحافظ علي صفته
فقہ میں عورت کی دیت کا مسئلہ ایک معمہ کی حیثیت رکھتاہے چنانچہ
"عقل المرأة مثل عقل الرجل حتي يبلغ الثلث من ديته وما زاد فعلي النصف "
جسکی بنیاد پر جمھور کی رائے یہ ہے کہ کسی نےعورت کی تین انگلیاں کاٹ لیں تو مرد کی طرح اسکی دیت 30 اونٹ ہوگی

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر شیخ مصطفی الزرقا نامور فقیہ ماہر قانون داں بلند پایہ ادیب اور روشن دماغ عالم
***
بدر الحسن القاسمی

" ان الفقيه الذي لاحظ له من الادب واللغة لايستحق النفقة من بيت المال وريعه المختص للفقهاء "
(القنية للامام الزاهدي)
ایسا فقیہ جسکو زبان وادب سے کوئی مناسبت نہ ہو وہ فقہاء کیلئے بیت المال میں مخصوص وقف کی جائیداد اور اسکے منافع سے نفقہ لینے کا مستحق نہیں ہے "
علامہ مصطفی الزرقا اپنے یونیورسٹی میں محاضرہ کےدوران ایک نکتہ کے طور پر اس کا ذکر کیا کرتے تھے تاکہ طلبہ میں ادب اور لغت میں مہارت حاصل کرنے کاشوق ہو
وہ خود فقیہ ہونےکےساتھ بلند پایہ ادیب بھی تھے چنانچہ عنفوان شباب میں ہی وہ ہزاروں اشعار کے وہ حافظ تھے اور ادب میں نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے اور طالب علمی ہی کے زمانہ میں ادب کی تین کتابیں ایڈٹ کرکے شائع کیں :
١. کفاية المتحفظ
٢. مختصر الوجوه في اللغة
٣. المذكر والمؤنث
مصطفی الزرقا اچھے شاعر بھی تھے اپنی دوسری اہلیہ جن سے تعلق خاطر زیادہ تھا اسکے مرثیہ میں فرماتے ہیں :
بقيت وغبت !بعدك ماالبقاء
فديتك لو يتاح لي الفداء
ولكني بفقدك عدت طفلا
اضاع البيت اذ حل المساء
فليس لديه غير الدمع نطق
ولا صبر لديه ولا اهتد اء
اس بچہ کی پریشانی کا تصور کیجئے جو شام کے وقت بچھڑگیا ہو اور اسے اپنے گھر کا نام وپتہ بھی بتانے کا ہوش نہو اب کس مپرسی کےعالم میں اسکے لئے سوائے رونے اور آنسو بہانے کے چارہ کار ہی کیا رہ جاتا ہے
شیخ اپنی گزر جا نے والی اہلیہ کی جدائی کے بعد اپنی مثال اسی بے سہارا غم سے نڈھال بچہ کی پیش کر رہے ہیں
غم فراق کی تصویر اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے ؟
اسی طرح اپنے جواں مرگ بیٹے نوفل کی وفات پر اسے خطاب کرکے کہتے ہیں :
كان التيتم للصغار بفقد هم
اباءهم فاذا الامور تبدل
فاليوم فقدك يابني اضاعني
واراك قد يتمتني يا "نوفل "
یعنی ابتک تو یتیم کا لفظ ان بچوں کیلئے استعمال کیا جاتا تھا جنکے باپ کا انتقال ہو گیا ہو لیکن اب یہ اصطلاح بھی بدل رہی ہے
میرے پیارے بیٹے نوفل تمہارے انتقال سے میں بے سہارا ہوگیا ہوں اور تم نے مرکر مجھے "یتیم " بنادیا ہے
مصطفی الزرقا صرف کتابوں کے ہی عالم اور فقیہ نہیں تھے اپنی زندگی کے تمام معاملات اور اہل خانہ اوردوسرے لوگوں کے ساتھ برتاو میں بھی فقیہ تھے
ناخن کاٹنے بال رکھنے اور تراشنے گھر کے چھوٹے بڑے ہر کام کے انجام دینے میں بھی انکی شان فقیہانہ ہوتی تھی اورہر طرح کے اوزار نہایت سلیقہ سے اپنے گھر میں رکھتے اور انکا استعمال کرتےتھے
شیخ ابو زھرہ جو خود نامور فقیہ اور تامین کے مسئلہ میں انکے سخت ناقد تھے وہ بھی فرماتے ہیں :
لقد كان الشيخ الزرقا فقيها في كل شئ في بيته في طعامه وشرابه في تدريسه في كلامه في فتاواه "
شیخ مصطفی الزرقا کے والد احمد الزرقا اور دادا محمد الزرقا دونوں اپنے وقت کے نامور فقیہ تھے فقہ حنفی میں انہیں امامت کادرجہ حاصل تھا
شیخ احمد الزرقا کی شرح القواعد الفقہیہ معروف ومتداول ہے
شام کے فقہائے احناف علامہ ابن عابدین شامی کی رد المحتار کو لفظ بلفظ ہضم کرنے کی کو شش کرتے ہیں اور بالا ستیعاب اسے پڑھتے اور حرز جان بنائے رکھتے ہیں
بدائع الصنائع اورالبحر الرائق وغیرہ دیگر مصادر پر نظر ضرور رکھتے ہیں لیکن ان کا اصل سرمایہ حاشیہ ابن عابدین اور تنقیح الفتاوی الحامدیہ ہی ہوتا ہے
شیخ مصطفی الزرقا کو فقہ میں مہارت تو گھر میں ہی حاصل ہوئی انکے والد انکے ساتھ ایک ہی کمرہ میں سوتے اور انکے ساتھ فقہی دقائق پر بحث کرتے مشکل مسائل حل کرتے انکے ساتھ بحث و مناقشہ کرتے تھے
انہوں نے یونیور سٹی میں قانون پڑھا اور اس میں پوری مہارت حاصل کی
فرانسیسی زبان انہوں نے بچپن میں ہی سیکھ لی تھی
بعد میں وہ قاضی بھی رہے دو مرتبہ وزیر عدل و انصاف کے منصب پر بھی فائز ہوئے پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے قانون سازی کے میدان میں بھی نام کمایا قانون الاحوال الشخصیہ مرتب کیا اور دوسری قانونی کتابیں لکھیں
وہ یونیور سٹی کے پروفیسر بھی رہے اور ہزاروں طلبہ کو فقہ و اصول اور فقہی قواعد کی تعلیم دی ایم اے اور ڈاکٹریٹ کے رسالے اپنی نگرانی اور اشراف میں تیار کرائے اسکے
علاوہ ا نہوں نے فقہ اکیڈمیوں کی ب
تاسیس میں حصہ لیا مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت
قائم المجمع الفقہی الاسلامی اوراسلا می ملکوں کی تنظیم تعاون
کونسل کے ماتحت قائم بین الاقوامی فقہ اکیڈمی کی تاسیس میں شرکت کی اور انکے سب سے فعال رکن رہے انکو ترقی دی اور نئے مسائل کے حل میں حصہ لیا اور اپنی رائے پوری قوت اور بھر پور دلائل کے ساتھ پیش کئے اور کسی کی موافقت یا مخالفت کی پرواہ کبھی پرواہ نہیں کی

Читать полностью…

علم و کتاب

*ہماری خامہ فرسائی*

*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

کراچی سے برادر عنایت اللہ اسمٰعیل ادیبؔ پوچھتے ہیں:”لفظ’خامہ فرسائی‘ کے لغوی معنی کیا ہیں؟ یہ لفظ منفی ہے یا مثبت؟“
بھائی!’خامہ فرسائی‘ لفظ نہیں، دو الفاظ کا مرکّب ہے۔’لَفَظَ‘ کے لفظی معنی ہیں ’منہ سے پھینکنا،نکالنا یا تھوکنا‘۔کلمات چوں کہ منہ ہی سے پھینکے جاتے ہیں،اس وجہ سے ’لفظ‘کہلاتے ہیں۔ بولنے، بات کہنے یعنی کوئی لفظ منہ سے ادا کرنے کا عمل ’تلفظ‘کہلاتا ہے۔ بہت بک بک کرنے، مبالغہ آمیز باتیں کرنے یا چن چن کرشیریں اور مرصع و مقفیٰ و مسجع الفاظ استعمال کرنے کو ’لفّاظی‘کہتے ہیں۔ ڈینگیں مارنے والا اور طرح طرح کی باتیں بنانے والا ’لفّاظ‘ کا لقب پاتا ہے۔ حروف ملانے سے لفظ بنتا ہے، اس طرح دو حرفی، سہ حرفی، چہار حرفی اورپنج حرفی الفاظ وجود میں آتے ہیں۔مشہور مزاح نگار کرنل شفیق الرحمٰن کے محبوب کو ایک بار چھے حرفی لفظ استعمال کرنا پڑ گیا تو:
پہلے اُس نے ”مُس“ کہا، پھر ”تَق“ کہا، پھر ”بِل“ کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے
’خامہ فرسائی‘ دو الفاظ پر مشتمل ہے، لہٰذا’خامہ فرسائی‘ کو لفظ نہیں ’ترکیب‘ کہیں گے۔’ترکیب‘ کے لغوی معنی ہیں کئی چیزوں کو ملانا،بناوٹ، ساخت، تناسب،ارکان،مختلف اجزا کی آمیزش۔ اسی وجہ سے دو الفاظ کایہ آمیزہ بھی ’ترکیب‘ کہلائے گا۔’ترکیب‘ کے کئی اوربھی معانی، مفاہیم اور بہت سی اقسام ہیں۔لیکن اگرہم اس وقت آپ کو ترکیبیں بتانے بیٹھ گئے تو اصل موضوع ’غَت ربود‘ ہو جائے گا۔’غَت ربود‘ بھی’ترکیب‘ ہی ہے۔ اِسے بہت سے لوگ ’غَتَر بود‘ پڑھتے اور بولتے ہیں۔جیسے ”غٹرغوں“ کر رہے ہوں۔تلفظ کی یہ غلطی محض اس وجہ سے ہونے لگی ہے کہ ’غت ربود‘ کو ہمیشہ ملا کر ہی لکھنے کا رواج رہا ہے۔اِس غریب ’غت ربود‘ کے پردۂ غیب سے نمودار ہونے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ شیخ شرف الدین مصلح سعدیؔ شیرازی کی ”بوستان“ میں ایک نظم کا عنوان ہے”ذکرِ محامد اتابک ابوبکر بن سعد زنگی طاب ثراہٗ“۔ اس نظم کا ایک شعر ہے، جس میں شیخ نے اپنا اتا پتا بتاکر محققین کی مشکل آسان کرنے کی کوشش کی ہے:
کہ سعدیؔ کہ گوئے بلاغت ربود
در ایّامِ بوبکر بن سعد بود
”وہ سعدیؔ کہ جو بلاغت کی گیند اُچک لے گیا،سلطان ابوبکر بن سعد زنگی کے زمانے میں ہوا کرتا تھا“۔
’گوئے‘ فارسی میں گیند کو کہتے ہیں۔گیند پر چوکے چھکے لگانے والے جس شخص کو ہمارے ہاں ’بلّے باز‘ کہا جانے لگا ہے، اُسے اہلِ فارس ’گوئے باز‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔’ربودن‘ کا مطلب ہے’اُچک لینا، چھین لینا، خراب کر دینا‘۔ گیند اُچک لینایعنی’سبقت لے جانا‘۔
کسی دن کسی بوجھ بجھکڑشاگردسے کسی استاد نے پوچھا:”میاں!یہ شعر سمجھ میں آیا؟“
فرماں بردار شاگرد نے جواب دیا:”جی اُستاد جی! شعر تو سمجھ میں آگیا، لیکن ’غَت ربود‘ سمجھ میں نہیں آیا“۔
اُس بونگے نے ’بلاغت‘ کے دو ٹکڑے کیے۔ پھر ’بَلا‘ کو ’گوئے‘ سے اور ’غَت‘کو’ربود‘سے جوڑکرشعر ہی ’غت ربود‘ کردیا۔ بس اُسی دن سے گڈ مڈ کر دینے، گڑبڑ کر دینے، ملاجُلا دینے، خلط ملط کردینے، خراب کر دینے یا جدید اصطلاح میں ’وَڑجانے‘ کے معنوں میں ’غت رَبُود ہو جانا یا کر دینا‘ بولا جانے لگا۔فارسی میں بھی ’غت ربود کردن‘ یا ’غت ربود شدن‘ بولا جاتا ہے، مگر لکھتے وہ بھی ’غتربود‘ ہی ہیں۔
’خامہ‘ بھی فارسی لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے قلم۔’فرسائی‘ کا لفظ ’فرسودن‘ سے مشتق ہے اور ’فرسودن‘ کا مطلب ہے گِھسنا، رگڑنایا گھسیٹنا۔ گھسی پٹی، پُرانی چیز کو اُردو میں بھی ’فرسودہ‘ کہا جاتا ہے۔’خامہ فرسائی‘ کا لغوی مطلب ہوا ’قلم گِھسنا‘یا ’قلم گھسیٹنا‘۔نئی نسل کو، جو تختۂ کلید پر اُنگلیاں گِھستی رہتی ہے،معلوم ہو کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب لکھنے والے کاغذ پر قلم گِھستے رہتے تھے۔یعنی بڑی محنت سے لکھتے رہتے تھے۔اس محنت پر انھیں بچپن ہی سے لگا دیا جاتا تھا۔ تختی لکھوائی جاتی تھی، خوش خطی سکھائی جاتی تھی اور تلقین کی جاتی تھی کہ
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
اگر تم چاہتے ہو کہ خوش خط اور خوش نویس بن جاؤ تو لکھے جاؤ، لکھے جاؤ، لکھے جاؤ۔اسی کو ’خامہ فرسائی‘ کہتے ہیں۔اصطلاحی معنے ہیں تحریر کرنا، تصنیف کرنا۔کاغذ پر قلم سے خواہ نثرمیں کوئی چیز تحریر کی جائے یااشعار لکھیں، دونوں صورتوں میں قلم گِھسنا پڑتا ہے۔ قلم گِھسنے کی آواز بھی آتی ہے۔ اس آواز کو ’صریرِ خامہ‘ کہتے ہیں۔ غالبؔ بھی اپنے اشعارتحریر کرتے وقت قلم ہی گھسا کرتے تھے۔ مگراُن کا دعویٰ تھا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
’سروش کہتے ہیں فرشتے کو۔ غالبؔ کے حیطۂ خیال میں غیب سے جو مضامین نازل ہوتے تھے، انھیں گویا فرشتہ خود لے کر آتا تھا۔ غالبؔ کا ’صریرِ خامہ‘ محض قلم گِھسنے کی آواز نہ تھی۔ اُس فرشتے کی آواز تھی جو غیب سے آنے والے خیالات انھیں املا کروایا کرتا تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ" (التحریم:۳) یعنی نبی کریم ﷺ نے بعض باتوں کی وضاحت کی اور بعض باتوں کو نظرانداز کیا اور انہیں ٹال گئے، جب رسول اللہ ﷺ نے شہد نہ کھانے کی قسم کھائی تو حضرت حفصہؓ سے خواہش کی کہ اس کا کہیں ذکر نہ کرنا کہ اگر یہ خبر مشہور ہوئی اور حضرت زینبؓ کو معلوم ہوئی تو ان کو تکلیف ہوگی ؛ لیکن حضرت حفصہؓ نے اس کا تذکرہ حضرت عائشہؓ سے کردیا ، گویا پہلے تو ایسی تدبیر اختیار کی کہ حضور ﷺ شہد کے کھانے سے رُک جائیں اور پھر آپ نے جس بات کو راز رکھنے کا حکم دیا ، اس عہد کو بھی پورا نہیں کیا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس واقعہ سے مطلع فرمادیا ، اب اگر آپ یہ ساری باتیں حضرت حفصہؓ سے بتاتے کہ تم لوگوں نے حضرت زینبؓ کے یہاں شہد پینے سے روکنے کی کیا تدبیر کی، اور پھر تم نے اس راز کو کس کے پاس فاش کردیا ؟تو ان کو اور ندامت ہوتی ؛ اس لئے تنبیہ کی غرض سے وعدہ خلافی کا ذکر فرمایا اور دوسری باتوں کو ٹال دیا، حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ظلم وستم کا کون سا رویہ ان کے ساتھ روا نہیں رکھا! یہاں تک کہ شاہی پیالہ کے معاملہ میں بنیامین کوایک طے شدہ تدبیر کے طور پر روک لیا گیا تو بھائیوں نے حضرت یوسف کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ’’‌إِن ‌يَسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ أَخٞ لَّهُۥ مِن قَبۡلُۚ‘‘(يوسف: ۷۷) (اگر اس نے چوری کی تو اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی)، لیکن حضرت یوسف نے اسے اپنے دل میں چھپائے رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا، قرآن کہتا ہے: ’’فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفۡسِهِۦ وَلَمۡ يُبۡدِهَا لَهُمۡۚ‘‘(يوسف: ۷۷)،اس طرح یہ اخلاق کریمانہ کا بھی ایک بڑا مظہر ہے کہ حضرت یوسف اتنی بڑی بات پر ضبط کر گئے اور کچھ ظاہر نہیں کیا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ کتنا بڑا بہتان ہے۔
📂📂📂
تجاہل عارفانہ سے نہ صرف رشتوں میں قربت پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس سے ایک مثبت اور خوش گوار ماحول بھی پیدا ہوتا ہے، اس طرح کا رویہ ایک پر سکون اور تعمیری ماحول کو فروغ دیتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور اعتماد کے ساتھ رہ سکتے ہیں، تجاہل عارفانہ کا فائدہ سوشل میڈیا پر اٹھایا جاسکتا ہے کہ غیر ضروری کومنٹس سے گریز کرتے ہوئے اپنے روز مرہ کے اصل کاموں پر توجہ ہو، ہر اعتراض کا جواب دے کر بات کو طول نہ دی جائے، بس سمجھانے کی اپنی سی کوشش کرلی جائے،اور خصوصاً دوستوں کے معاملہ میں دار وگیر سے بچتے ہوئے آگے بڑھا جائے، اپنے دور کے امام الشعراء، پیدائشی طور پر بصارت سے محروم لیکن صاحب بصیرت شاعر بشار بن برد (و:۱۶۸ھ) نے کہا تھا:
إذَا كُنْتَ فِي كُلِّ الأُمُورِ مُعَاتِبًا خَلِيلَكَ لَمْ تَلْقَ الذي لا تُعَاتِبُهْ
فَعِشْ وَاحِدًا أَوْ صِلْ أخاكَ فإنَّهُ مُقَارِفُ ذَنْبٍ مَرَّةً وَمُجَانِبُهْ
إذَا أنْتَ لَمْ تَشْرَبْ مِرَارًا علَى القَذَى
ظَمِئْتَ وأَيُّ النَّاسِ تَصْفُو مَشارِبُهْ
(وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، ابن خلکان، دار صادر، بیروت، ج۱، ص۴۲۳)
(اگر تم ہر معاملہ میں اپنے دوست سے شکوہ کرتے رہو گے تو تمہیں کبھی ایسا دوست نہیں ملے گا جس سے شکوہ نہ کرنا پڑے؛لہٰذا، تنہا زندگی بسر کر لو یا اپنے بھائی کے ساتھ اچھی طرح نباہ لو؛ کیوں کہ وہ کبھی غلطی کرے گا اور کبھی اس سے بچا رہے گا،اگر تم گردوغبار کے ساتھ کبھی کبھی پانی نہیں پیو گےتو تم پیاسے رہ جاؤگے، اور کون ہے جس کا مشروب بالکل صاف ہو؟)۔
✨✨✨
/channel/ilmokitab

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

تجاہل عارفانہ: ایک کامیاب حکمت عملی

📝ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
( استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد)

ادب وبلاغت میں’’تجاہل عارفانہ‘‘ ایک نہایت لطیف صنعت ہے، جس کا مطلب بہ ظاہر سادہ مگر انتہائی عمیق ہے، لغوی اعتبار سے یہ ترکیب ’’عمداً غفلت برتنے‘‘ یا’’جان بوجھ کر انجان بننے‘‘ کے معنی رکھتی ہے، عربی ادب میں اس صنعت کو "تجاهل العارف" کہتے ہیں، جو علم بلاغت کی ایک شاخ بدیع کے تحت آتی ہے اوراسی کی ایک قسم’’ المحسّنات المعنویۃ‘‘ ( تحسین معنوی کے ذرائع) کی مثالوں میں شمار ہوتی ہے، اس کا مقصد کسی معلوم حقیقت کو اس طرح پیش کرنا ہوتا ہے گویا وہ غیر معلوم ہو،یوسف سکّاکی(و:۶۲۶ھ) اس صنعت کی تشریح یوں کرتے ہیں:"سوق المعلوم مساق غیره" ( ایک معلوم حقیقت کو اس انداز میں پیش کرنا کہ وہ غیر معلوم محسوس ہو) (مفتاح العلوم، یوسف السکاکي، دار الكتب العلمية، بيروت، ۱۹۸۷، ص۴۲۷)، اور ایسا کسی خاص مقصد سے کیا جاتا ہے جیسے زجر وتوبیخ یا چھپے ہوئے انداز میں اظہار ناراضگی وغیرہ، تجاہل اور تغافل کا ذکر ہماری کلاسیکی شاعری میں خوب ہے کہ محبوب کو عاشق کی بے قراری اور دوری ومہجوری کے سبب دردو کرب کی پوری خبر ہے، پھر بھی وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے کچھ پتہ ہی نہیں، گویا اصطلاح میں تجاہل عارفانہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی شے یا حقیقت سے خوب واقف ہونے کے باوجود شعوری طور پر اس طرح لاعلمی کا اظہار کرے، جیسے وہ حقیقت اس کی نگاہ میں پوشیدہ ہے، یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعہ انسانی احساسات کو پردۂ غفلت میں چھپا کر ایک مختلف انداز میں بیان کیا جاتا ہے، غالبؔ کا مشہورِ زمانہ شعر اس کی ایک بہترین مثال ہے:
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!
یہاں غالبؔ اپنی شناخت سے بخوبی آگاہ ہیں، مگر شعوری طور پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ذات کو اس قدر گہرائی میں چھپا دیتے ہیں کہ گویا ان کی حقیقت کو بیان کرنا ممکن نہیں، وہ اپنے وجود کی پیچیدگی کو مخاطب کے سامنے اس طرح رکھتے ہیں کہ ان کی شخصیت کی وسعتوں کا ادراک کوئی اور کرے، یہی تجاہل عارفانہ کا کمال ہے کہ ایک معروف اور جیتی جاگتی حقیقت کو اس طرح پیش کیا جائے جیسے وہ پوشیدہ اور خاموش ہو بالکل اس طرح جیسے ایک روشن شمع کسی فانوس میں روپوش ہو۔
📂📂📂
لیکن یہاں ہماری مراد تجاہل عارفانہ سے وہ کیفیت ہے جسے عربی میں "تغافل" اور "تغاضي" کہا جاتا ہے، اردو میں اسے چشم پوشی یا اغماض نظر بھی کہ سکتے ہیں، اور انگریزی میں Strategic Ignorance کہا جا سکتا ہے، یہ ایک ایسی تربیتی اور سماجی حکمت عملی ہے جس کے تحت انسان دانستہ طور پر دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظرانداز کرتا ہے اور ان پر گرفت کرنے سے گریز کرتا ہے، یہ رویہ معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانے اور ذہنی سکون کو برقرار رکھنے میں مددگار ہوتا ہے، اس رویہ کو عموماً اساتذہ، والدین، بڑوں اور دوستوں کے مثبت کردار اور حکیمانہ رہنمائی کے تناظر میں استعمال کیاجاتا ہے، بلخ کے ایک بڑے عالم اور صاحب دل بزرگ حاتم الاصم(و:۲۳۷ھ) تھے، جن کو اس امت کا لقمان حکیم کہتے تھے،ان کے پاس ایک خاتون کسی مسئلہ کی بابت کچھ دریافت کرنے آئی، عورت سے دوران گفتگو غفلت میں طبعی آواز نکل گئی، انہوں نے کہا: کیا کہہ رہی ہو! زور سے کہو؛ تاکہ وہ سمجھے کہ ان کی توجہ گفتگو پر ہے، کسی اور جانب نہیں، اور انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں، جب وہ اس کی گفتگو نہیں سن سکے تو کوئی اور آواز کہاں سنی ہوگی؟ اس نے سکون کی سانس لیتے ہوئے کہا: یہ تو ’’أصمّ‘‘ (بہرے) ہیں یا اونچا سنتے ہیں، جب کہ انہوں نے دانستہ اس کو سبکی اور شرمندگی سے بچا لیا تھا(طبقات الأولياء، ابن الملقن، مكتبة الخانجي، مصر، ۱۹۹۴، ص۱۷۸) ان کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کبھی کبھی دوسروں کی غلطیوں اور خود ان کو آپ شرمسار کرنے والی حرکتوں پرتجاہل عارفانہ کا رویہ ان کی عزت نفس کا تحفظ کرتا ہے، حضرت حسن بصریؒ (و:۱۱۰ھ) فرماتے ہیں: ’’ما استقصی کریمٌ قط‘‘( کوئی شریف النفس انسان کسی سے استفسار میں یا اپنے گردو پیش کی باتوں میں بال کی کھال نہیں نکالتا) (تفسير البغوي، دار طيبة للنشر والتوزيع، ۱۹۹۷، ج۸،ص۱۶۴)۔
📂📂📂
تربیت کے میدان میں تجاہل عارفانہ ایک بہترین طریقہ ہے، بچوں کی فطرت ہے کہ وہ دنیا کو تجربات کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس عمل میں اکثر خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں، اگر ہر غلطی پر فوری گرفت کی جائے تو بچہ کی خود اعتمادی متاثر ہو سکتی ہے اور وہ سیکھنے کی صلاحیت کھو سکتا ہے، ایک طرز تربیت تھا جس کوہیلی کاپٹری پرورش Helicopter parenting کہتے ہیں، جس میں والدین بچوں کے مسائل پر کافی قریبی توجہ دیتے ہیں، یعنی ہیلی کاپٹر کی طرح تعاقب یا نگرانی کرتے ہیں، جس میں اولاد کی زندگی کے ہر واقعہ کا مسلسل احاطہ کرنا شامل ہوتا ہے، اس کے بالمقابل وہ والدین جو چھپے ہوئے حرکیاتی والدین ہوتے ہیں، اس دور میں وہ زیادہ موثر ہیں؛ کیوں کہ ان

Читать полностью…

علم و کتاب

ساحر لدھیانوی (وفات ۲۵ اکتوبر) تحریر حافظ لدھیانوی

Читать полностью…

علم و کتاب

*علمِ نبوت اور نورِ نبوت*

حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں کہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: اس دور میں اہلِ علم، علمِ نبوت تو حاصل کرلیتے ہیں اور نورِ نبوت اللّٰه والوں کے سینوں سے ان کی صحبتوں میں رہ کر نہیں حاصل کرتے، اسی سبب سے اعمال اور اخلاق میں کوتاہیاں طاری رہتی ہیں اور فرمایا کہ حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم نے اللّٰه والوں کی مَحبّت کا سوال اس طرح فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ عَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ (جامع ترمذی: ۳۴۹۰)۔ (اے اللّٰه! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں، جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کا بھی سوال کرتا ہوں، جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔) اس دعا میں تین محبتوں کا سوال ہے، (۱) اللّٰه تعالیٰ کی محبت، (۲) عاشقانِ حق کی محبت، (۳) ان اعمال کی محبت، جو محبتِ الہٰیہ سے قریب کرنے والے ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا کہ دنیا میں حق تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے اس سے آسان اور لذیذ تر اور قریب تر راستہ کہ اہل اللّٰه سے محبت کی جائے، میرے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں ہے۔

اہل اللّٰه کی صحبت کی افادیت/صفحہ: ١٩٦/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

Читать полностью…
Subscribe to a channel