علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
عمامہ اور ٹوپی
موجودہ قضیے میں ذیل کا اقتباس نظر سے گزرا تو ہمیں بھی اپنا ایک واقعہ یاد آگیا۔اج سے کوئی 20 برس قبل پنجاب کے کسی علاقے میں ہم موجود تھے،ظاہر ہے کہ مسافر تھے۔ مغرب کا وقت ہوا تو ہمارے ساتھ موجود مقامی حضرات نے ہمیں ایک چھوٹی سی مسجد میں امامت کے لیے آگے کر دیا اصرار اس قدر زیادہ تھا کہ ہم بھی مصلے پر کھڑے ہو گئے، لیکن اقامت سے قبل وہاں کے موذن صاحب جلدی سے اپنا میلا کچلا رومال لے کر اگے بڑھے اور ہمیں کہنے لگے کہ اسے باندھ لیجیے، ایک تو نہ جانے کس ظالم نے اس رومال کو عمامے کا متبادل قرار دے رکھا ہے، چلیے اگر علامتی طور پر اسے عمامے کا متبادل قرار دے بھی دیا جائے تب بھی عمامے کا کچھ تو تقدس ہوگا، وہ رومال جو دنیا جہان کی ضرورتوں کی تکمیل میں ہم سے تعاون کرتا ہے،آخر اسے کیسے اس سر کی زینت بنا لیا جائے جو ابھی خداوند قدوس کے حضور عبودیت کی سب سے بڑی رسم کی ادائیگی میں جھکنے والا ہے۔ خیر ہم نے منع کر دیا، انہوں نے تھوڑاسا اصرار کیا تو ہمیں بھی طرارہ آگیا اور کھڑے کھڑے کہہ دیا کہ اب نماز یا تو اسی طرح ہوگی یا نہیں ہوگی، اور اگر اب اس لمحے کے بعد کسی اور نے اصرار کیا تو اب کوئی اور صورت نہیں نماز بھی ہمیں پڑھائیں گے اور ننگے سر پڑھائیں گے۔یہ واقعہ پڑھ کر اطمینان ہوا کہ ہمارے اس عمل کو اس قدر بڑے اور جید بزرگوں کی تائید حاصل ہے۔الحمدللہ
اب واقعہ پڑھیے:
میاں نذیر حسین راوی ہیں کہ شاہ عبدالعزیز نے شاہ اسحاق کو اپنے یہاں نماز کی امامت پر مامور کر دیا تھا۔ایک افغانی نے اس پر شاہ عبدالعزیز سے اعتراض کیا کیا وہ بغیر امام کے نماز کی امامت کرتے ہیں تو انہوں نے بات ٹال دی۔ چند روز بعد افغانی نے پھر اعتراض کیا تو شاہ عبدالعزیز کو جلال آگیا اور انہوں نے فرمایا کہ ابھی تک وہ (شاہ اسحاق) بغیر عمامے کے نماز پڑھاتا ہے۔ اب میں اس سے کہوں گا کہ بغیر ٹوپی کے نماز پڑھا۔
(حکیم سید محمود احمد برکاتی۔حیات شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی:ص 33)
سید عزیز الرحمن
Https://telegram.me/ilmokitab
جمشید پور دار السرور کی سیاحت
طلحہ نعمت ندوی
مسلمانوں کی تمدنی وثقافتی روایات کا بھی کیا کہنا، وہ اس جہاں میں مانند خورشید جیتے ہیں، کبھی ایک شہر ان کے تمدنی وثقافتی آثار سے سرفراز ہوتا ہے تو کبھی دوسرا شہر، زمانہ کی گردشیں جب انہیں ایک جگہ سے محروم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو دوسری جگہ ان کے لئے آمادہ خیر مقدم ہوتی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں نہ جانے کتنے ایسے شہر وجود میں آئے جن کو مسلمانوں نے کبھی جنت نظیر کہا کبھی شیراز ہند کہا، کبھی شادی آباد کے نام سے موسوم کیا، کبھی خیر البلاد سے تعبیر کیا، اور کبھی دار السرور کے لقب سے نوازا۔ چنانچہ رامپور اور برہانپور اور اس وزن کے کئی شہروں کو جہاں مسلم وتمدن وثقافت کو فروغ ملا دار السرور کے نام سے موسوم کیا گیا، جن میں دار السرور برہانپور کو سب سے زیادہ شہرت ہوئی۔
دور حاضر میں اگر یہی لقب نئے شہروں میں جمشید پور کو بھی دیا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ اس شہر کی تاریخ ایک پارسی تاجر جمشید جی سے شروع ہوتی ہے۔ مسلم ثقافت سے ہم آہنگی کی وجہ سے یہ مسلمان نام معلوم ہوتا ہے اور یہ سچ ہے کہ پارسی سے زیادہ مسلمان ہی یہ نام رکھتے ہیں۔ ایران میں ایک چھوٹی سی بستی جمشید آباد کے نام سے اب بھی موجود ہے۔
بہر حال جمشید جی کے نام پر اس شہر کا نام جمشید پور پڑا اور ان کی مشہور کمپنی ٹاٹا کی وجہ سے اسے ٹاٹا نگر بھی کہا جاتا ہے ، اسٹیشن پر یہی نام نظر آتا ہے۔ لوہے کے کارخانوں کی وجہ سے اسے شہر آہن کا لقب بھی دیا گیا ہے،جو اپنی ادبیت ومعنویت میں اس کے لیے بالکل موزوں ہے ۔۔ ۱۹۱۹ میں ساکچی نامی ایک چھوٹی سی بستی میں جمشید جی نے ایک اسٹیل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی پھر لوہے کے کاروبار کا آغاز کیا، اس وقت یہ بستی جو اب شہر کی مرکزی جگہ ہے ضلع سنگھ بھوم میں تھی، اور اس کا ایک حصہ کالی ماٹی کے نام سے مشہور تھا۔ ٹاٹا صاحب کو معدنیات کے ذخائر کی وجہ سے یہ جگہ پسند آئی اور انہوں نے اس کو آباد کیا اور دیکھتے دیکھتے یہ ایک آباد شہر میں تبدیل ہو گیا۔
راقم کو اس ہفتہ اسی شہر میں چار دن گذارنے کا موقع ملا اور علمی وتعلیمی حالات سے واقفیت حاصل ہوئی۔
جھارکھنڈ کا علاقہ جو انگریزوں کے دور میں چھوٹا ناگپور کے نام سے مشہور رہا مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ یہاں بہت قدیم نہیں ہے، خود رانچی کو انگریزوں نے ترقی دی تھی اور خوشگوار موسم کی وجہ سے اسے عہد سرما میں صوبہ کا دارالحکومت بنایا تھا۔
بہر حال جمشید پور میں ستر کی دہائی میں سخت فساد بھی ہوا، اس وقت یہاں مسلمانوں کی اتنی تعداد نہیں تھی لیکن اس کے بعد الحمد للہ اس شہر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ یہاں کے معروف اہل علم جناب عبدالکبیر صاحب تھے جنہیں اس شہر کا سرسید کہا جاتا ہے، انہوں نے کبیریہ ہائی اسکول کی بنیاد رکھی پھر نسواں کالج اور مسلم اسکول بھی قائم کیا، اور سب سے بڑھ کر الکبیر ٹیکنیکل ادارہ قائم کیا جو آج ملک کے اہم مسلم تکنیکی تعلیم کے اداروں میں شامل ہے، اس کا نظم ونسق ہر طرح قابل تعریف ہے۔ مسلم کالجز میں کریم سٹی کالج بہت مشہور ہے، اس کے علاوہ یہاں اٹھارہ کالج ہیں۔ کئی اہم اسکول ہیں، ایک مدرسہ حسینیہ اور ایک مدرسہ مدینۃ العلوم بھی ہے۔ جس میں اب ایم او اکیڈمی کے نام سے ایک اسکول قائم ہے، اور شہر میں مسلمانوں کا بہت ہی اہم اسکول ہے،اس کے بالائی حصہ میں علامہ سید سلیمان ندوی ہال بھی ہے۔ اس کے بانی سید حسن عثمانی تھے جو سملہ ضلع اورنگ آباد کے مشہور علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور شہر کے ان بزرگوں میں ہیں جنہوں نے یہاں تعلیم کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیاہے، پہلے انہوں نے مدرسہ قائم کیا تھا پھر اس اسکول کی بنیاد ڈالی۔
ان کے چچا زاد بھائی مولانا شاہ علی احمد عثمانی نے یہاں خانقاہ الشرف کی بنیاد رکھی اور ایک مدت تک لوگوں کو فیض یاب کرتے رہے، اور شہر کے بہت سے لوگ سے ان سے وابستہ ہوکر دینی تربیت حاصل کرتے رہے۔ اب بھی یہ خانقاہ آباد ہے۔
کبیریہ ہائی اسکول کے سابق ہیڈ ماسٹر الحاج سید مظفر حسین صاحب جن کا آبائی وطن سیوے ضلع جموئی تھا اس شہر میں اس اسکول کے حسن انتظام کی وجہ سے مشہور رہے اور یہاں تعلیم کے فروغ میں ان کا بہت ہی اہم حصہ تھا۔ انہوں نے مخلوط تعلیم کے بجائے یہاں لڑکے لڑکیوں کے درمیان پردہ کا ایسا نظم کیا تھا جو اس دور میں کہیں اور نہیں نظر آتا۔
شہر میں ایک مسلم لائبریری بھی ہے لیکن وہ اہتمام سے نہیں کھلتی۔
اس کے علاوہ یہ شہر مسجدوں کے شہر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہاں کئی اہم مساجد ہیں جو اس دور میں مسلمانوں کے عہد ترقی کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ چنانچہ ساکچی کی جامع مسجد جو شہر کی سب سے بڑی مسجد ہے بہت پرشکوہ ہے، اسی طرح دھتکی دیہ کی مسجد کی بھی بہت شہرت ہے لیکن اسے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ پچاسوں اہم مساجد ہیں، جو یہاں کے مسلمانوں کے ہی تعاون سے تعمیر ہوئی ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں چندروز
معصوم مرادآبادی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہے۔محسن قوم سرسیداحمد خاں کی قائم کردہ اس دانش گاہ کی اہمیت وافادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کے وسیع وعریض کیمپس کا ماحول ہرایک کو متاثر کرتا ہے۔ یہاں اتنی کشش اور جادو ہے کہ اسے دیرتک دیکھنے اور دیکھتے ہی رہنے کو جی چاہتا ہے۔ اتنا روحانی سکون اور علمی ماحول کسی اور دانش گاہ میں نہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہے۔یہ ان عظیم انسانوں کی قربانیوں کا فیض ہے جنھوں نے بے لوث ہوکر قوم کی تعلیم وتربیت میں حصہ لیا۔ سرسیداحمد خاں اس کے سرخیل تھے۔انھوں نے اب سے ڈیڑھ سوسال پہلے جو خواب دیکھا تھاوہ آج ایک زندہ اور تابندہ ادارے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ہرچند کہ سرسید کے اس چمن کو نقصان پہنچانے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں، لیکن تمام یورشوں کے باوجود سرسید کا یہ چمن ایک صدقہ جاریہ کے طورپر زندہ وتابندہ ہے۔
یوں تو علی گڑھ آنا جانا لگا ہی رہتا، لیکن اس بار یوم سرسید کی تقریبات کے موقع پر میں نے علی گڑھ کو ذرا ٹھہر کر دیکھا۔ اپنے چند دن کے قیام کے دوران مجھ پر علی گڑھ کی ایسی بہت سی خوبیاں منکشف ہوئیں، جن سے میری نگاہ آشنا نہیں تھی۔اس بار میرا قیام بھی یونیورسٹی کیمپس ہی میں تھا، اس لیے اس دانش گاہ کی بہت سی خوبیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے لیے سب سے زیادہ متاثر کرنے والا یہاں کا پاکیزہ ماحول تھا۔حالانکہ دیگر دانش گاہوں کی طرح یہاں بھی مخلوط تعلیم کا ہے۔ لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن مشرقی تہذیب اور معاشرت کا جو عکس مجھے یہاں نظر آیا، وہ کسی دوسری دانش گاہ میں نظر نہیں آتا۔مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یوم سرسید کی تقریب میں شرکت کے لیے طلباء اور طالبات کو پارکنگ کی علاحدہ علاحدہ سہولت فراہم کی گئی تھی، جو میں نے اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھی۔’گرلز پارکنگ‘ اور’بوائز پارکنگ‘ کے بورڈ دیکھ کر مجھے حیرانی ضرور ہوئی لیکن میں نے یہ جانا کہ یہ طریقہ احسن ہے۔یہاں تک کہ یوم سرسید پر جب مجھے وائس چانسلرکی رہائش گاہ پر ظہرانے میں شریک ہونے کا موقع ملا تو وہاں بھی خواتین اور مردوں کے لیے کھانے کا الگ الگ انتظام تھا۔یہ باتیں آپ کو موجودہ دور میں کچھ اٹ پٹی ضرور لگیں گی، لیکن ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں ان باتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔یونیورسٹی کی صاف وشفاف شاہراؤں پرآج بھی کثیر تعداد میں کالی شیروانیوں اور برقعوں میں ملبوس طلباء اور طالبات کو گھومتے پھرتے دیکھا جاسکتا ہے۔مخلوط تعلیم کے باوجود طلباء اور طالبات کے درمیان ایک پاکیزہ لکیر محسوس کی جاسکتی ہے۔ یوں بھی پروفیسر نعیمہ خاتون نے یونیورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کا یوم پیدائش علی گڑھ میں ایک جشن کی طرح منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر پورے کیمپس میں چراغاں ہوتا ہے اور اسے دیکھنے کے لیے پورا علی گڑھ شہر امڈ آتا ہے۔ یہاں کی رونقیں قابل دیداور قابل داد ہوتی ہیں۔یوں تو مجھے کئی بار ان تقریبات میں شریک ہوکر ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے، لیکن اس بار کافی دنوں بعدیہ موقع مل پایا۔ مجھے یاد ہے کہ آخری بار غالباً تیس برس پہلے یوم سرسید کی تقریب میں شریک ہوا تھا۔ تب یہ تقریب کینڈی ہال میں منعقد ہوتی تھی، لیکن اب اس کو زیادہ وسیع پیمانے پر اتھلیٹک گراؤنڈ میں منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ گراؤنڈ اتنا وسیع ہے کہ اسے بوقت ضرورت ہیلی پیڈ کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اس عظیم الشان تقریب میں بڑی تعداد میں طلباء، طالبات، اساتذہ اور مہمان شریک ہوتے ہیں۔
یوم سرسید کی تقریبات کا آغاز 17/اکتوبر کوحسب دستور سرسید کی تربت پر قرآن خوانی اور ایصال ثواب سے ہوا۔اس کے بعد سرسید ہاؤس میں نوادرات کی نمائش کا افتتاح تھا اور اس کے ساتھ سرسید اکیڈمی کی شائع کردہ بعض اہم کتابوں کا اجراء عمل میں آیا، ان میں خاکسار کی کتاب (سرسید کا قیام میرٹھ)بھی شامل تھی۔اس سلسلہ کی دیگر تصنیفات میں ’سرسید کا قیام بنارس(ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی)’سرسید کا قیام مرادآباد(ڈاکٹر راحت ابرار)بھی شامل ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سرسید اکیڈمی نے ان شہروں پر مونوگراف شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں سرسید مختلف کاموں سے مقیم رہے۔ ان شہروں کی تعداد 9 ہے۔ ابھی مزید مونوگراف منظرعام پر آئیں گے۔
اجراء ہونے والی کتابوں میں سب سے اہم کتاب تھی ’حیات جاوید‘، جس کا جدیدایڈیشن سرسید اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ خواجہ الطاف حسین حالی کی یہ تصنیف سرسید کی ایسی سوانح ہے جس پر سرسید شناسی کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔1901میں اس کی اولین اشاعت عمل میں آئی تھی اور یہ کتاب سرسید پر کام کرنے والوں کے لیے بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد ہی مطالعات سرسید کو نئی جہات ملی ہیں۔اب تک اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، لیکن سرسید
کھلتے ہیں سچ کہوں تو اساتذہ تو ہر کسی کے بے شمار ہوتے ہیں لیکن فائدہ سب سے یکساں حاصل نہیں ہوتا،اساتذہ کی مثال شجر سایہ دارکی سی ہوتی ہے بعض درختوں کاسایہ بہت گھنا ہوتا ہے توبہت سے درختوں کاسایہ دور دور ہونے کی وجہ سے دھوپ چھن چھن کر پہنچ جاتی ہے ۔
حضرت مولانا ندیم الواجدی کا کمال یہ ہے کہ وہ دارالکتاب جیسے تجارتی اور اشاعتی ادارہ میں اکثر و بیشتر رہنے کے باوجود اپنے وجود باجود سے علمی دنیا کو قائل رکھا، ان کی بہت سی کتابیں درس نظامی میں شامل ہوکر زندہ و جاوید بن گئیں ،ان کی تقریریں بڑی پرمغز ہوا کرتی تھیں، ان کی تحریریں اس لائق ہوتی تھیں کہ صدق اور صداقت کی مہر لگادی جائے۔ان کے اخباری بیانات اوران کے اداریے بھی بڑے خاصے کی چیز ہوا کرتے تھے، وہ تیز قلم، تیز فہم اور تیز سخن تھے، ان کی نرم و شیریں زبان،ان کا فیاضی اور ضیافی کا مزاج، ان کا اخلاقی پہلو اور ان کی شرافت نسبی وحسبی یہ ساری دولتیں انھیں اللہ تعالیٰ نے اس قدر نوازی تھیں کہ آج جب سوچتا ہوں کہ مولانا کیا تھے؟ تو جواب ملتا ہے مولانا کیا نہیں تھے۔
آہ! آپ نے پوری زندگی قاسم و انور کے چکر لگائے، ہمیشہ فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل کی، دیار قاسم میں دفن ہونے کی تمنائیں کیں، لیکن قدرت نے دیوبند سے بارہ ہزار کلومیٹر دور شکاگو (امریکہ) میں آپ کے لئے دو گز زمین طے فرما دی تھی چنانچہ اسباب کے درجہ میں آپ علاج کے عنوان اور نیت سے امریکہ پہنچے، طبی امداد بھی بہم پہنچی، ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں قلب کا آپریشن بھی ہوا، لیکن یہ علاج و معالجے الٰہی فیصلوں کے آگے کوئی وقعت اور اہمیت نہیں رکھتے، ہوتا وہی ہے جو اس کو منظور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بلاوا آگیا اور اس طرح آپ کی جان نے قفس عنصری کو خیرباد کہہ دیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
/channel/ilmokitab
*تصوف کی غرض و غایت*
جامعہ رشیدیہ، منٹگمری، ساہیوال میں سِن ۱۹۵۱/۵۲ء کو علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے درج ذیل آیت پڑھ کر اس کی تشریح فرمائی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (الحشر: ۱۸)
حضرت سید صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا:
یہ تصوف کی غرض و غایت اور شریعت و طریقت کی روح ہے کہ انسان تفکر و تدبر کرے کہ اس نے آنے والے کل کے لیے کیا تیار کیا ہے؟ مستقبل کی موہوم زندگی کے لیے انسان، کیا کچھ نہیں کرتا، مگر روزِ آخرت، جو وعدہ الٰہی ہے اور جس پر یقین و ایمان لائے بغیر، کوئی آدمی، مومن نہیں بن سکتا، اس سے ہم غافل ہیں اور اس کے لیے تیاری نہیں۔ اس آیت میں اللّٰه تعالیٰ نے یہی مراقبہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور صوفیائے کرام و مشائخ بھی یہی فرماتے ہیں، جو قرآن پاک سے سرِمُو تجاوز نہیں، اور عین منشاء الٰہی ہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ غلط لوگوں نے تصوف کو چیستان بنا دیا ہے، ورنہ تصوف، انابت الی اللّٰه اور ذکر و شغل کے سوا کچھ نہیں ہے اور ذکر و شغل بھی وہ، جو کتاب و سنت سے ثابت ہے، اور قرنِ خیر سے جس کی تلقین کی گئی ہے، اور بنصِ قرآن ثابت ہے اور جو اُسوۂ محمدی صلی اللّٰه علیہ وسلم کا آخری باب ہے۔ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ (الجمعۃ: ۲) آیت میں تو حضور کا یہ منصب بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی یہی ہے کہ علم و حکمت سکھا کر، تزکیۂ نفوس فرمائیں۔ چاروں سلسلہ ہائے تصوف میں یہی روح، کار فرما ہے۔ بعد میں آنے والے لوگوں کی خرافات سے، ان پاکیزہ نفوس کی تعلیمات، پاک ہیں۔ ہر عمل میں طلبِ رضا کا شعور پیدا ہونا ہی اس طریق کا حاصل ہے۔ اور جب خدا اور بندہ کے درمیان یہ علاقہ استوار ہو جاتا ہے تو صوفیہ کی اصطلاح میں اس کو نسبت کہتے ہیں اور قرآن پاک کی زبان سے اس کی تعبیر: یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗ (المائدہ: ۵۴) رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ (التوبۃ: ۱۰۰) کے لفظوں میں کی گئی ہے۔ یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ ارْجِعِیْ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً (الفجر: ۲۷) انہی کے لیے نویدِ بشارت ہے۔
واردات و مشاہدات/مرتب: عبدالرشید ارشد/صفحہ: ۲۷/۲۸/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
ابھی ذرا اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ دیدات کی دعوت کی بدولت سینکڑوں نے اسلام قبول کرلیا۔ واضح رہے کہ ان خوش قسمتوں میں عوام کے ساتھ خواص، بلکہ اخص الخواص بھی ہواکرتے تھے۔ اس قبیل کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو:
شیخ صاحب اعلیٰ درجے کے مناظر تو تھے ہی، بڑے پایے کے کثیر التصانیف مصنف بھی تھے۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔ یہاں کہنایہ ہے کہ ان کی ایک کتاب ہے : Crucifixion or Crucifiction ۔ افریقہ ہی کے ایک ممتاز وکیل Dawood Ngwaneنامی تھے۔ بڑے قابل آدمی تھے۔ مذہبًا کیتھولک عیسائی تھے، اور اپنے مذہب پر قانع تھے۔انھیں کسی اور مذہب کی تلاش وجستجو نہیں تھی، مگر خدا کاکرنا کہ وہ اپنے گھر پرانی کتابوں کی چھان پھٹک کررہے تھے کہ شیخ کی مذکورہ بالاکتاب نکل آئی، اس کے نام (۱) نے انھیں چونکادیا ۔ بڑے غور وانہماک سے اسے پڑھا اور غور وفکرمیں ڈوب گئے، دل کا سکون ہل گیا، مذہب کے موروثی عقائد متزلزل ہوگئے، کلیسائی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیداہوگئے، دوڑے دوڑے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوے، اور دریافت کیاکہ کتاب کا مضمون ومدعا میں نے کچھ غلط تو نہیں سمجھا؟ شیخ نے کہا: نہیں ۔ کتاب کا ماحصل وہی ہے جو آپ نے سمجھاہیـــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعہ یہ تھاکہ داؤد گوین کا عقیدئہ تثلیث ڈانواں ڈول ہوچکاتھا۔
اس کے بعد کتاب لیے ہوے گوین، لاٹ پادری (Bishop)کے پاس گئے اور اپناحال کہہ سنایا ، اور کتاب انھیں دی کہ پڑھیے اور اس کا جواب دیجیے۔ تین مہینے نکل گئے، بشپ کا سکوت دیکھ یہ دوبارہ حاضر ہوے۔ معاملہ ایک کلیسائی کمیٹی کے حوالے ہوا۔ کمیٹی نے طے کیاکہ گوین سب سے بڑے پادری (Cardinal)سے مل لیں۔ اس ملاقات کے بارے میں گوین کہتے ہیں :
’’میں جب پادری Doncabeسے ملا تو دیکھا ان کے پاس کئی انجیلیں رکھی ہوی ہیں۔ انھوں نے کہا: دیکھو، تثلیث کا عقیدہ انجیل میں کہیں نہیں ہے۔ یہ تمام تر کلیسا کی تعلیم ہے‘‘۔
گوین اب مسلمان تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)کتاب کے نام کا مطلب ہے: ’’مسیح کا سولی دیاجانا حقیقت ہے یاافسانہ؟۔۔۔۔(عمری)
۱۹۷۷ء تھاکہ دیدہ ور دیدات کانامِ نامی شہرت کے پروں پر اُڑکر براعظم افریقہ سے براعظم یورپ جاپہنچا۔اب وہ مختلف یورپی ملکوں میں سربرآوردہ عیسائی عالموں سے مناظرے کرتے اور احقاقِ حق کرتے رہے۔ وہ آسٹریلیا اورامریکہ بھی ہوآئے۔ اس سے ان کے علمی وقار کو چار چاند لگ گئے۔ انگلینڈ اور امریکہ میں بھی جمی سواگرٹ، فلوئڈکلارک، سٹانلی سگوبرگ اور انیس شروش جیسے ممتاز مشنریوں سے ان کے ایسے معرکہ آرا مناظرے ہوے کہ حریف کی صفوں میں کھلبلی سی پڑگئی اور وہ بہت زچ ہوگیا۔ حریف کے مناظرین میں انیس شروش جب لاجواب ہوگئے تو مخالفین نے الزام دھراکہ چوںکہ یہ عرب ہیں ، اس لیے شیخ کے ساتھ مل کر ساز باز کرلی ہے، اور عیسائیت کی ہزیمت کے لیے چپ سادھ لی ہے۔
شیخ صاحبِ قلم بھی تھے۔ بیس سے زیادہ کتابیں لکھ کر چھپوائیں۔ بعض کتابوں کی لکھوںکھا کاپیاں چھپ کر مفت تقسیم ہویں۔ کچھ کتابوں کے نام سن لیجیے:
(۱) انجیل، محمد ا کے بارے میں کیاکہتی ہے؟ (۲)کیاانجیل کلامِ الٰہی ہے؟ (۳) اسلام یاعیسائیت؟(کئی جلدوں میں) ۔ (۴)قرآن معجزوں کا معجزہ۔(۵) مسیح ،اسلام کی روشنی میں۔ (۶)عرب اور اسرائیل، جنگ یاامن؟(۷)مسیح کی مصلوبیت، حقیقت یاافسانہ۔ مشتے نمونہ ازخروارے۔
یہ توکتابیں ہویں۔ رہے ان کے خطبات ومحاضرات جو انھوں نے اِدھر اُدھر اور ہر جگہ دیے اور پیش کیے وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں جن کا ایک مجموعہ The Choiceکے نام سے ڈربن سے چھپ کر منظر عام پرآچکاہے۔
اس سلسلے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی کتابوں کو حسن قبول بھی عطافرمایا۔ چناںچہ وہ یورپ، ایشیا، اور افریقہ کی پندرہ سے زیادہ زبانوں میں لاکھوں کی تعداد میں چھپ کر شائع ہویں۔
شیخ کی یہی عظیم اسلامی خدمات تھیں جن کے پیش نظر انھیں ۱۹۸۶ء میں شاہ فیصل انعام ملا۔ حق بحق دار رسید۔
دیدات مرحوم کے لکچرس (Lectures)مذہبی اورکلامی نوعیت کے تھے ہی۔ بعض اوقات وہ سیاسی بھی ہواکرتے تھے۔ انھیں فلسطینی کاز سے گہری دل چسپی تھی۔ اس ضمن میں اپنے لکچروں میں وہ اسرائیل کی جارحیت اور اس کی نسلی عصبیت کی کھل کر مذمت کرتے تھے۔ اس لیے قدرتی بات تھی کہ صیہونی حلقے انھیں بدنام کرتے اور طرح طرح کے الزام دھرتے۔
صیہونیوں اور عیسائی مشنریوں نے ایک الزام یہ تراشا تھاکہ شیخ قادیانی ہیں۔ اس سے مقصود یہ تھاکہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم ان سے کٹ کر الگ ہوجائے۔ شیخ کی شان دار علمی اور دعوتی کارگزاریوں کے پیشِ نظر یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے۔ پھر شیخ نے خود بارہا اس کی تردیدکی اور زور دے کر کہا کہ وہ مسلک اہل سنت والجماعت پر قائم ہیں۔ اس سے سرِمومنحرف نہیں ہوے ہیں۔
اس طوفانِ بدتمیزی کے جواب میں شیخ ہمیشہ فرماتے : ’’میں کچھ نہیں جانتاکہ تم کیاکہہ رہے ہو۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں ، میرانام احمد ہے۔ میں نماز ویسے ہی پڑھتاہوں جیسے میں نے اپنے باپ کو پڑھتے دیکھاتھا، روزہ بھی ویسے ہی رکھتاہوں جیسے وہ رکھاکرتے تھے۔ پھر میں نہ خنزیرکا گوشت کھاتاہوں ، نہ شراب پیتاہوں۔ میں کلمۂ شہادت کا اقرار کرتاہوں: ’’اشھد ان لاالہ الا اللہ وان محمد ارسول اللہ ‘‘۔
ان روحانی ایذارسانیوں اور دل آزار حملوں سے نوجوان دیدات کی دینی حمیت وغیرت جاگ اٹھی، اوردل کے اندر ایک قوی داعیہ پیداہوا کہ ان بے بنیاد یلغاروں اور ہرزہ سرائیوں کا دنداں شکن جواب دینا چاہیے۔ پس چہ باید کرد۔ شیخ اور ان کے ساتھی آٹھوں پہر اسی فکر میں تھے کہ اس مخمصے سے خلاص کی سبیل کیاہوکہ ان کا اخلاص رنگ لایا۔ جویندہ یابندہ ۔ شیخ اپنی دکان کی صفائی کررہے تھے کہ پرانی دھرانی کتابوں کے ڈھیر میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی مرحوم کی کتاب ’’اظہارالحق‘‘ کا انگریزی ایڈیشن نظرپڑا، جو دراصل ان مولانا اور ایک عیسائی مبلغ کے درمیان مناظرے کی روداد پر مشتمل تھا۔
شیخ نے یہ کتاب بڑے شوق وانہماک سے پڑھی۔ اس کے صفحات میں انھیں مفیدِ مقصد نکات اور معلومات ملیں، بحدیکہ یہ کتاب اپنی افادیت کی وجہ سے حینِ حیات ان کے دل ودماغ پر چھائی رہی۔ وہ اس کے مواد اورمضامین کو ذہن نشین کرتے، نوٹ لیتے اور یاد داشتیں بڑے سلیقے کے ساتھ مرتب کرتے تھے۔ ’’اظہارالحق‘‘ کی افادیت دوہری تھی۔ ایک یہ کہ عیسائیوں وغیرہ کے ساتھ مقابلے اورمناظرے کے تیر بہدف اسلوب اور انداز اس سے معلوم ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان مناظروں کی اہمیت اور ضرورت قاری کو بے چین کردیتی تھی ع
صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
چنانچہ شیخ فرماتے ہیں:
’’اس کتاب کے مطالعے کے بعدمیں نے محسوس کیاکہ اب میں اسلام کا کامیاب دفاع کرسکتاہوں۔ اس کتاب کے مضامین ومواد سے لیس ہوکر میں مشنریوں کی تلاش میں نکلنے لگا۔ ہر اتوار ان کے گھروں پر جاتا اور ان سے بحث ومباحثہ کرتا۔وہ پاس کے کالج Adam's Mission سے پڑھ پڑھا کر باہر نکلتے اور میں جاپہنچتا کہ ان سے گفت وشنید کروں ۔ تحدیثِ نعمت کے طورپر عرض ہے کہ ان ملاقاتوں سے میں مناظرے کا طریقہ ، سلیقہ سیکھ گیا، فالحمد للہ‘‘۔
تقریبًا یہی زمانہ تھاجب کہ شیخ نے تین کام انجام دیے۔ قرآن مجید حفظ کرلیا، اسلامیات کا مطالعہ کیا اور سیرتِ پاک خصوصی شغف اور دل چسپی کے ساتھ پوری پڑھ ڈالی۔
مکالمہ کہیے، مناظرہ نام دیجیے، شیخ اس فن میں بڑاکمال رکھتے تھے۔ بڑی خوش اسلوبی سے کام لیتے اور کلام کرتے تھے۔ اس پر بھی انھیں اس فن کو مزید مانجنے اور اسے ہر طرح مکمل کرلینے کا بڑاشوق تھا۔ اس کے لیے وہ ان لوگوں سے کسب ِفیض کرتے جنھیں وہ اپنے سے فائق اور برتر گردانتے ۔ ذہن اخّاذ تھا۔ یہ رجحان کام کرگیا، اور وہ اس میدان میں خوب منج گئے، صلاحیتوں کی خوب جِلاہوگئی۔ اس کے بعد انھوں نے ایسے لکچر بھی سنے جن میں انجیل کی باہم ٹکرانے والی تعلیمات (تناقضات) کا ذکر ہواکرتاتھا۔ پھر لگاتار تین برس تک انجیل کے متعدد نسخوں کامطالعہ کرتے رہے۔ ان کے درمیان موازنہ کرکے ان کی تحریفات اور تصرفات کی ایک ایک کرکے نشان دہی کرتے رہے۔ اسی طرح شیخ نے اس دوران وہ کتابیں بھی دیکھ ڈالیں جن میں مستشرقین نے قرآن اور صاحبِ قرآن ا پر شکوک و شبہات وارد کیے ہیں۔ اس وسیع وعمیق مطالعے کے بعد یہ بات ان کے دل میں بیٹھ گئی کہ عیسائی دنیاکو دینِ اسلام کی دعوت دینے کے سلسلے میں جو معلومات اور تجربات مجھے حاصل ہوے ہیں انھیں اوروں تک پہنچانا میرادینی فریضہ ہے۔ اس ضمن میں شیخ کا کہنا یہ تھاکہ معترضین کے سوالوں کے جواب عقلی دلائل کے ساتھ پوری صراحت کے ساتھ دیے جائیں تاکہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے ع
شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات
بہرحال شیخ کالج کے طلبہ کو اپنے جوابات سے خاموش کردیاکرتے تھے۔ اس کامیابی سے ان کی ہمت بڑھی۔ اب وہ کالج کے استادوں اور چرچ کے پادریوں کو بحث ومباحثہ کی دعوت دینے لگے ۔ یہ دعوت تمام تر احقاقِ حق کی نیت سے عجز وانکسار کے جذبات سے ہواکرتی تھی۔ چیلنج کے اندازمیں نہیں۔ شدہ شدہ ان کی کامیابیوں نے انھیں ایک باقاعدہ ہمہ وقتی داعی بنادیا۔ اس کے بعد تیس برس تک دعوت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔
۱۹۴۰ء کی بات ہے کہ انھوں نے قرآن اور انجیل کا تقابلی مطالعہ پورا کرلیا۔ انھی دِنوں وہ منظر عام پرآئے اور ڈربن کے ایک سینما گھرمیں صرف پندرہ افراد کے سامنے ’’محمد ؑ پیام برِ امن‘‘کے عنوان سے اپنے پہلے عام خطاب میں اعلان کیاکہ ’’بائبل کے اندر کئی متضاد باتیں ہیں‘‘ اور اسی بائبل کے حوالوں سے ثابت کیاکہ محمد ا اللہ کے آخری نبی ہیں۔
در اصل قوت حافظہ کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک کا تعلق عبارتوں کے ازبر کرنے سے ہے اور دوسرے کا تعلق فہم وتفقہ، قوت مشاہدہ اور یاد داشت سے ہے،اسے قوت ذاکرہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، علم وفقہ کا مدار داراصل آخر الذکر پر ہے۔ ازبر کرنے کے کئی سارے فائدے ہیں، لیکن اصل چیز فہم وتقفہ سے کسی مسئلے کی گہرائی تک پہنچنا ہے۔
۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی مہارت سے متعلقہ موضوع پر آیات، احادیث، کتب مقدسہ کئ عبارتیں اور اشلوک ازبر کرکے اور دسیوں سالوں کی مشق سے ان پر دسترس حاصل کرلی ہے، آپ سے پہلے یہ انداز شیخ احمد دیدات کا تھا۔ لیکن ایک شخصیت کو ہم نے بھلا دیا ہے،جس نے بیسویں صدی کے اواخر میں اس اسلوب کو زندہ کیا تھا، وہ تھے جناب محمد پالن حقانی مرحوم، کتابوں کی عبارتیں سطر، صفحہ نمبر کے ساتھ ذکر کرکے مخاطب کو لاجواب کرنے میں بڑے ماہر تھے، آپ نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اس قسم کے اندز خطاب سے بڑا نام کمایا تھا، جب وہ مظاہر حق جلد نمبر دو صفحہ نمبر ۱۰۰ سطر نمبر ۷ کہ کر کتاب سے حدیث نقل کرتے تو ہزاروں کا مجمع سر دھنتا رہ جاتا، حافظہ کو منظم کرکے ان کا استعمال کرنے والے دوسرے عالم ومناظر پہلے بھی ضرور پائے گئے ہوں گے، لیکن اپنی دانست میں ان سے پہلے ایسے کسی عالم ومناظر کا نام ہمیں یاد نہیں ہے، ویسے اس زمانے میں ان کی دیکھا دیکھی بریلوی مکتب فکر کے افراد نے بھی ان کی نقل کرنی شروع کی تھی، ان کے ایک بڑے جلسے میں جس مین ان کے مفتی اعظم پند، نائب مفتی اعظم ہند مولانا فرید الحق برہان پوری، سید مظفر حسین کچھوچھوی، مشتاق احمد نظامی، منصور علی خان مارہروی جیسے اساطین حاضر تھے اس میں ایک بریلوی نوجوان کو پیش کیا گیا تھا، جو روح المعانی وغیرہ عربی کتابوں کی عبارتین ازبر کرکے اپنی تقریر میں سنا رہا تھا، اور سب واہ واہ کررہے تھے کہ دیکھئے دیوبندیوں کے پالن حقانی کا حافظہ صرف اردو کتابوں کا ہے، لیکن ہمارے خطیب صاحب کو عربی کتابیں بھی ازبریاد ہیں، پتہ نہیں پھر اس خطیب کا کیا ہوا، دوبارہ کہیں تذکرہ سننے میں نہیں آیا۔
آمدم بر سر مطلب ہر خطیب و مناظر کو سننے اور اثر لینے والا ایک مخصوص حلقہ ہوتا ہے، سب کو ہر ایک سے متاثر ہونا یا اس کی قدر کرنا ضروری نہیں ہے، بس جو دین اسلام کی سربلندی کے لئے اخلاص سے کوششیں کرے، اس کی کوششوں اور قربانیوں کی ہمیں قدر کرنی چاہئے، چند ایک لغزشوں کی بنیاد پر کسی کی جملہ خدمات کو منہا نہیں کرنا چاہئے، اور ان کی صلاحیتوں اور قربانیوں کے تناسب سے قدر کرنی چاہئے، اور ان کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہئے۔
2024-10-23
بات سے بات: ڈاکٹر ذاکر نائیک ، ایک مناظر وداعی
تحریر: عبد المتین منیری
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
جب سے ڈاکٹر ذاکر نائیک پڑوسی ملک گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ کڑی میں ابال آگیا ہے، ہرکوئی بول رہا ہے، ہر کوئی اپنی رائے دینا ضروری سمجھ رہا ہے،اس مرغ کی طرح جو سمجھتا ہے کہ میں بانگ نہ دوں تو صبح نمودار نہیں ہوگی۔
ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنی دین بیزاری کے اظہار کے لئے ڈاکٹر صاحب پر جا وبے جا تنقید کررہے ہیں ، ڈاکٹر صاحب کی تائید میں ان کے عقیدت مند غلو کرتے ہوئے بھی دیکھے جاسکتے ہیں، ان میں ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ڈاکٹر صاحب کی شان میں خالص دین کی سربلندی کے جذبہ سے رطب اللسان ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک انسان ہونے کے ناطے ڈاکٹر صاحب سے غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی دین کی سربلندی سے تعبیر ہے۔ اور ڈاکٹر صاحب کی کوششوں سے اسلام کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر غلط فہمیاں بھی دور ہوئی ہیں۔
۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق ممبئی میں بسنے والی کوکنی برادری سے ہے، آپ کے والد ماجد ڈاکٹر عبد الکریم نایک ایک مخلص خادم قوم تھے، آپ نے اپنی برادری کی ترقی اور رہنمائی کے لئے بڑی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں، اس مقصد سے آپ کی ادارت میں ممبئی ماہنامہ نقش کوکن نکلتا تھا، آپ کوکن کوآپریٹیو سوسائیٹی کے سربراہ بھی تھے، جس کے ماتحت ایک بنک بھی چلتا تھا،ڈاکٹر صاحب ایک پولی کلینک چلاتے تھے، اور علاج ومعالجہ میں کافی کامیاب سمجھے جاتے تھے، زندگی خوشحال گذررہی تھی، گھر میں روپئے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ آپ نے اپنے بیٹوں کو ڈاکٹریٹ کی تعلیم دلائی تھی، لیکن جب ۱۹۸۰ء کی دہائی میں جنوبی افریقہ سے شیخ احمد دیدات کے عیسائیوں سے مناظرں اور ان کی دعوتی جدوجہد کا شہرہ ہوا تو اس سے متاثر ہوکر آپ نے اپنے بیٹوں کو اس کام کے لئے وقف کرنے کا عزم مصمم کیا۔ اور اپنے بچوں کو دین کی سربلندی کے لئے وقف کردیا ۔
۔ شیخ احمد دیدات گجراتی الاصل تھے، اور جنوبی افریقہ میں ایک کرانہ کی دکان چلاتے تھے، وہ کوئی بہت بڑے عالم دین نہیں تھے، انہیں جنوبی افریقہ کی اس وقت کی متعصب عیسائی نسل پرست حکومت کا سامنا تھا،جو اسلام اور حضور اکرمﷺ کے سلسلے میں بہت کچھ بدگمانیاں پھیلا رہی تھی، آپ کی دینی حمیت نے مجبور کیا تھا کہ کاروبار وتجارت قربان کرکے اسلام اور رسالت محمدی کی حقانیت ثابت کرنے اور اسلام کی دعوت کی سربلندی کے لئے میدان میں نکل پڑیں، جذبات نیک تھے ،نیت صادق تھی، آپ نے اپنے اعلی مقصد کے حصول کے لئے منظم اور بھر پورانداز سے کوششیں کیں،آپ نے اسلام کے دفاع میں ادھر ادھر بغلیں جھانکنے کے بجائے مناظروں کے لئے دس بارہ موضوعات کو منتخب کرکے خود کو ان تک محدود رکھا، آپ نے کتب مقدسہ کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اور سادہ اور دو جمع دو چار کے دو ٹوک انداز میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے دلیلیں اکٹھا کیں،اور بحثوں اور مناظروں میں ادھر ادھر بہکے بغیر ٹھیک اہداف پر نشانہ باندھا، اور واضح براہین اور دلائل کے انبار لگا دئے، اسی مقصد سے ان چند موضوعات پر آپ نے کتابچے تیار کئے۔ جو بہ آسانی ایک متوسط قاری کی سمجھ میں آجاتے تھے۔
ساتھ ہی ساتھ آپ نے موضوع سے متعلق آیات قرآنیہ اور کتب مقدسہ کی عبارات کو ازبر یاد کیا، اورمخالفین کو برجستہ واضح اورعام فہم دلائل سے مات دے کرعیسائی مناظریں کی بولتی بند کردی۔ جس کی وجہ سے مناظروں میں فتح ہمیشہ آپ کا قدم چومتی رہی۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ دیدات کے مخاطب صرف عیسائی مذہب کو ماننے والے افراد تھے، جن میں زیادہ تر جنوبی افریقہ ، فلپین جسیے ملکوں کے باشندے تھے، آپ نے امریکہ اور یورپ میں بھی عیسائیت کے چوٹی کے مبلغین کو مناظروں کے دنگل میں خاک چٹوادی،یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ عیسائی عوام کو عموما اپنے مذہبی معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں ہوا کرتی ہے، ان کے ذہن اپنے مذہب کی باریکیوں سے عموما خالی ہوتے ہیں، عیسائیت کو ماننے والے یورپین عموما دہرئے ہیں، انہیں مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، عیسائی مذہب سے ان کی وابستگی ایک دین ومذہب سے وابستگی سے زیادہ نسلی تعصب کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے۔
شیخ احمد دیدات کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ انہوں نے خود کو اسلام کے دفاع اور عیسائی مذہب کے تضادات اور اس کے وحی الہی سے انحراف کے اظہار تک محدود رکھا، آپ نے کبھی بھی خود کو ایک عالم دین و فقیہ کی حیثیت سے ظاہر نہیں کیا، بلکہ جب بھی کوئی دینی مسئلہ آپ سے پوچھا جاتا تو آپ سائل کو اس سلسلے میں مستند علمائے دین سے رجوع کرنے کو کہتے اور خود کو موازنہ ادیان کے چند مباحث تک محدود رکھتے، جس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ شیخ احمد دیدات کبھی بھی تنازعات کا شکار نہیں ہوئے۔
کرب کا اظہار انہوں نے اپنی متعدد تحریروں میں کیا ہے۔‘‘
’’مولانا اسلام قاسمی باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے، دیوبند کی کئی مجلسوں کے روح رواں تھے، اور دوستوں کی بہت سی محفلیں ان کے دم سے آباد تھیں جو اب بے رونق ہوچکی ہیں، راقم السطور سے ان کا مجلسی تعلق نہیں تھا، البتہ ایک زمانے تک ہم دونوں کی ملاقاتیں سعیدیہ ہوٹل اور مرغوب ہوٹل میں ہوتی رہیں جہاں ہم لوگ چائے نوشی کا شغل کرتے تھے، ان ملاقاتوں میں ان کی پُربہار شخصیت کے کئی پہلو نظروں کے سامنے آئے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حوالے سے بھی ان کا مجھ سے ایک خاص ربط رہا، ہم دونوں ہی اس کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے، میری کوشش ہوتی تھی کہ میں ان کے ساتھ ہی قیام کروں اور ان کے قریب ہی بیٹھوں، چناں چہ بمبئی، اجین، اور دوسرے کئی شہروں میں ہمارا قیام ایک ہی کمرے میں رہا، شاہ ولی اللہ اکیڈمی دہلی کے مولانا عطاء الرحمٰن قاسمی، اور امارت شرعیہ کے مولانا انیس الرحمٰن قاسمی بھی ساتھ ہوتے تھے، اس طرح رات رات بھر ہماری باتوں کا سلسلہ جاری رہتا، کبھی ہم سنجیدہ علمی مباحث میں مصروف ہوجاتے اور کبھی لطیفوں اور قصوں سے ہمارے کمرے میں قہقہے گونجنے لگتے، ان ملاقاتوں میں بھی ان کی دلآویز شخصیت نکھر کر سامنے آئی۔‘‘
’’میں بہت پہلے یہ مضمون لکھنا چاہتا تھا، مگر لکھ نہ پایا، مولانا کے انتقال کے بعد ہی سے ان کے لخت جگر کا تقاضہ رہا کہ مضمون لکھ دوں، جون میں ان کی وفات ہوئی، اس وقت میں دیوبند میں تھا، جنازے میں بھی شرکت رہی، اس کے ایک دو دن بعد میں امریکہ چلا گیا، ۱۵/ جولائی کو مولانا بدر الاسلام قاسمی نے مجھے ایک خط لکھا، اس کے جواب میں میں نے انہیں یہ صوتی پیغام بھیجا جو میرے موبائل میں محفوظ ہے:
’’آپ کا خط مل گیا، جزاک اللہ، میرا خود ہی لکھنے کا ارادہ ہے، لکھوں گا ، ضرور ان شاء اللہ، میں نے یہاں آکر دو مرتبہ انہیں خواب میں دیکھا ہے، ایک مرتبہ تو میں نے دیکھا کہ لال مسجد کا جو راستہ قاضی مسجد کے سامنے سے جارہا ہے وہاں اس گلی میں میں اُدھر سے آرہا ہوں اور وہ ادھر سے جارہے ہیں، وہ مجھے اکثر مولوی ندیم کہا کرتے تھے، وہاں روک کر انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ کیا بات ہے مولوی ندیم !تم نے اب تک مجھ پر مضمون نہیں لکھا۔ ماشاء اللہ بہت اچھی حالت میں تھے، خوش وخرم تھے، دوسری مرتبہ کا خواب مجھے یاد نہیں، بہ ہر حال یہ مولانا کی بھی فرمائش ہے اور میرے دل کا تقاضا بھی ہے، میں مضمون ضرور لکھوں گا۔‘‘
واضح رہے کہ یہ مکمل مضمون والد گرامی کی زیر ترتیب سوانح کا اہم حصہ ہے، یہ بارہ سو صفحات سے زائد پر مشتمل ہوگی جس میں جلد اوّل ولادت تا وفات کے مکمل حالاتِ زندگی بیان کرے گی، جب کہ دوسری جلد میں تأثراتی و سوانحی مقالات شامل ہوںگے۔ امید ہے کہ سوانح حیات مع والد گرامی کی پانچ دیگر کتابوں کے؛ نومبر کے اخیر یا دسمبر کے شروع میں منظر عام پر آجائیں گی۔ ارادہ تو یہی تھا کہ ان کتابوں کی تقریب ِ رسمِ اجراء کے موقع پر مولانا ندیم الواجدی مرحوم بھی رونقِ محفل ہوں اور اس بزم کو وقار و اعتبار بخشیں ، لیکن قسمت میں کچھ اور لکھا تھا!بسا آرزو کہ خاک شد
تعزیت کس سے کریں!!
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب ؒ کی اچانک رحلت سے کچھ دنوں تک عجیب سا سناٹا محسوس ہوا، سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ تعزیت کس سے کی جائے۔ دارالکتاب کی پُررونق مجلس کے وابستگان سے، اُن کے احباب و معاصرین سے، ان کی شفقتوں اور عنایتوں سے مالامال اُن کے ملازمین سے، اُن فضلاء سے جنھوں نے دورانِ طالب علمی مولانا سے کسب ِ فیض کیا، مضمون نگاری کے نوک و پلک سنوارے، مقالات تحریر کیے، اُن اربابِ انتظام و اہتمام سے جو موقع بہ موقع مولانا سے مشورے کرتے، اُن کی ہدایات پر عمل کرکے اپنا معیارِ تعلیم بلند کرنے کی کوشش کرتے، دیوبند کی ہر علمی اور ادبی شخصیت سے کہ جن کی مجلسوں اور محفلوں کی رونق مولانا کے دَم سے تھی، یا اُن کے گھر ’’عفت مآب‘‘ سے ’’دارالکتاب‘‘ تک بسنے والے ہر اُس شخص سے جو علم و ادب کے اس بحر ذخار، تحریرو صحافت کے عظیم شناور، درجنوں کتابوں کے مصنّف اور ایک کامیاب تاجر کو جو صبح و شام اپنے معمول کے مطابق متعینہ وقت میں اس راہ پرگزرتے دیکھتے تھے۔ یا پھر مولانا کے حقیقی و علمی جانشین ، ہزاروں افراد کے لیے سبب ِ ہدایت، بلا مبالغہ لاکھوں نوجوانوں کے لیے رول ماڈل، محترم جناب مولانا مفتی یاسر ندیم الواجدی حفظہ اللہ سے جن کی وسیع اور ہمہ جہت ایمانی خدمات بلاشبہ اپنے والد مرحوم کے لیے بہترین صدقۂ جاریہ ہیں، جن سے امید بلکہ قوی یقین ہے کہ وہ اپنے عظیم والد کی زندگی کے ہر ہر گوشے پر مشتمل ایک مفصل سوانح حیات مرتب کریں گے جو نسلِ نو کے لیے بہترین رہنما ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو جنّت الفردوس کی راحتیں بخشے اور اُن کے جملہ متعلقین کو صبر و سکون نصیب فرمائے۔ آمین
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
جاتے۔ایک مرتبہ تو وہ سفر (حج یا عمرہ) سے ایک تاریخ کی شام میں دیوبند پہنچے تو اپنے معتمد ملازم سہیل بھائی کو فون کرکے تمام ملازمین کو گھر بلا کر تنخواہ دی۔اسی طرح لاک ڈاؤن کے سخت ترین دور میں بھی انھوں نے تمام ملازمین کو حسب سابق ہی مشاہرہ دیا۔
یوں تو مولانا مرحوم اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے جامع الکمالات اور اپنی خوبیوں کے اعتبار سے مجموعۂ حسنات تھے، تاہم صفائی معاملات ان کا وصف خاص اور دیوبند کی مارکیٹ میں ان کا ما بہ الامتياز سمجھا جاتا تھا۔
نہایت مفید نظریہ
دیوبند کے مدارس میں سالانہ امتحان سے پہلے جلسہ انعامیہ کی روایت رہی ہے، جس میں طلبہ کو حسب کارکردگی کتابوں کی شکل میں انعامات سے نوازا جاتا ہے، یہی طریقہ یہاں کی صوبائی اور ضلعی انجمنوں کا بھی ہے۔اس سلسلے میں وہ عموماً کتب خانوں سے رابطہ کرتے، ان کے سامنے اپنی سالانہ کارکردگی رکھتے اور حسب سہولت ان سے کتابوں کی شکل میں تعاون کی اپیل بھی کرتے ہیں۔کئی مرتبہ راقم نے مولانا مرحوم کو اس بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ تعمیرات، تعلیمات اور مطبخ وغیرہ کی طرح کتابوں کی خریداری کے لئے اداروں کا سالانہ بجٹ -خواہ ان کے سالانہ بجٹ کا چند فیصد ہو- مخصوص ہونا چاہیے، تبھی طلبہ کو معیاری اور عمدہ کتابیں انعام میں مل سکیں گی جو ان کے ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانے اور ٹھوس علمی لیاقت میں معاون ثابت ہوں گی۔اسی کی برکت سے ہر سال نئی کتابوں کی خریداری ہونی چاہیے تاکہ مدرسے کی لائبریریوں اور انجمنوں میں بھی معیاری کتب کا ذخیرہ پہنچ سکے۔یوں فقط ناشرین کتب کے تعاون پر انحصار سے وقتی ضرورت یعنی اجلاس اور انعامات کی تقسیم وغیرہ کے مراحل تو انجام پا سکتے ہیں لیکن اس سے دیر پا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ظاہر ہے کہ بیشتر ناشرین یہ تعاون بمد زکاۃ کرتے ہیں، جس میں عموماً متوسط اور ناقص کتب دیے جانے کا ہی معمول ہے۔
جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند سے تعلق
یوں تو مولانا ندیم الواجدی صاحب کا سرزمین دیوبند اور اہل دیوبند سے بہت گہرا تعلق تھا، تقریباً ہر اجلاس میں وہ مدعو ہوتے، اور اپنی جاذب شخصیت سے پروگرام کو وقار بخشتے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کا اصل میدان تحریر و صحافت کا تھا، وہ اسٹیج کے ان عوامی مقررین میں کبھی شامل نہ ہوئے جو جوشِ خطابت اور سحر انگیز تقریر کے لیے شہرت رکھتے ہوں، واقعات و لطائف کا سہارا لے کر معمولی سی بات کو گھنٹوں میں بیان کرتے ہوں۔مولانا ندیم الواجدی کی بہت سی تقریریں میں نے سنی، وہ نہایت سنجیدگی و متانت کے ساتھ سامعین سے مخاطب ہوتے، کوئی واقعہ ذکر کرتے تو کوئی نہ کوئی حوالہ بھی ساتھ ہوتا، ان کی گفتگو میں طویل تجربات و مشاہدات کی روشنی میں مختصر اور جچی تلی باتیں ہوتیں جن سے زیادہ فائدہ اہل علم سامعین ہی کو ہوتا۔
فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ سے ان کا خاص تعلق تھا، چنانچہ جب شاہ صاحب کی سرپرستی میں معہد الانور (موجودہ نام ’’جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند‘‘) نامی ادارہ قائم ہوا اور اس کی انجمن ’’کواکبِ انور‘‘ کے سالانہ اجلاس کا سلسلہ شروع ہوا تو مولانا ندیم الواجدی صاحب معہد کے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں ضرور شرکت فرماتے۔راقم السطور کے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی، ادیب اریب حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر، استاذ گرامی قدر حضرت مولانا عبد الرشید بستوی اور مولانا ندیم الواجدی صاحبان کا تعلق بہت مستحکم اور گہرا تھا، یہ چاروں اربابِ علم و ادب بیک وقت معہد الانور کے اکثر و بیشتر پروگراموں میں شامل ہوتے۔
چار اساطین علم و فن
اجلاس میں ناظم تعلیمات حضرت مولانا عبد الرشید بستوی کی شاندار نظامت ہوتی، جس میں وہ تعلیم و تعلّم کی اہمیت اور اس کے فضائل بیان فرماتے، حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اپنی شعلہ بیانی، سلاست و روانی، مسجع و مقفع جملوں کی چاشنی اور اپنی گرجدار آواز میں چند منٹوں میں مجمع پر چھا جاتے، والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی دارالعلوم دیوبند کی تاریخ بیان کرتے، امام العصر علامہ کشمیری کی عبقریت کو واضح فرماتے، جب کہ حضرت مولانا ندیم الواجدی لہجے میں نہایت ٹھہراؤ اور سنجیدگی کے ساتھ اظہار خیال کرتے۔افسوس کہ یہ چاروں افراد دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، جہاں ان کی رحلت سے دیوبند اور اہل دیوبند کی جانب سے منعقد جلسوں میں خلا پیدا ہوا، وہیں دوسری جانب شاہ صاحب کا قائم کردہ معہد الانور اپنے چار مخلصین و محبین سے محروم ہو گیا۔
تدریس یا تجارت! مولانا وحیدالزماں کیرانویؒ کا مشورہ
راقم کے والد گرامی اور مولانا مرحوم چوں کہ ہم عصر تھے، ابو کی فراغت 1971 کی ہے، جب کہ مولانا نے 1974 میں دورہ حدیث کیا، دونوں کے اساتذہ بھی تقریباً ایک ہی تھے۔دونوں ہی شیخ الادب حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی علیہ الرحمہ کے خصوصی تربیت یافتہ تھے۔اسی وجہ سے راقم پر مولانا کی شفقتیں بھی رہیں، بسا اوقات ان کے کتب خانے پر حاضری ہوتی تو وہ بیٹھنے کو کہتے، باتیں کرتے، مجھے
حضرت مولانا نـدیم الواجـدیؒ رحمہ اللہ ایک ہمہ جہت شخصیت
/channel/ilmokitab
تحریر: بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
سرزمین دیوبند کے سپوت
’’دیوبند‘‘ کہنے کو ایک قصبہ، ہندوستان جیسے عظیم ملک کے ایک صوبے کی چھوٹی سی بستی، آبادی لاکھ کے قریب، سڑکیں کہیں چوڑی اور کہیں سنکری، بعض گلیاں اتنی تنگ کہ جانبین سے رکشہ نہ گزر سکے، زمین بھی ہموار نہیں، کچھ محلے بلندی پر تو بعض نشیب میں، نہ اعلیٰ شہری سہولیات فراہم اور نہ ہی ترقیاتی امور میں حکومت کی کوئی خاص توجہ حاصل؛ لیکن دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں اس کے نام لیوا نہ ہوں، اس کا نام سن کر ان کی رگِ عقیدت نہ پھڑکے، اس چھوٹی سی بستی پر بارہا ان شخصیات کا بھی ورود ہوا جن کے دیدار اور ایک جھلک پانے کو لوگ حاصلِ زندگی تصور کرتے ہیں، کبھی عالمی شہرت یافتہ قاری شیخ عبد الباسط مصری آ رہے ہیں، کبھی ائمہ حرم شیخ سدیس، شیخ شریم اور شیخ صالح کی تشریف آوری کا موقع ہے، کبھی شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جلوہ افروز ہیں تو کبھی محبوب العلماء و الصلحاء حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم کی روحانی مجالس میں لوگوں کی آنکھیں نم ہیں، انتخابات کے وقت سیاسی بازیگر یہاں کی گلیوں میں، ملک میں جہاں کوئی ملی تحریک سرگرم ہوئی حکومتی نظریں اسی بستی پر، ان سب کی وجہ فقط ایک ’’دارالعلوم دیوبند‘‘
جسے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی و دیگر بانیان نے اخلاص و للہیت پر قائم کیا، فقیہ النفس، شیخ الہند، امام العصر، حکیم الامت، شیخ الاسلام اور مجاہد ملت جیسی عبقری اور تاريخ ساز شخصیات نے اس کارواں کو استحکام و استناد بخشا اور ترجمان مسلک دیوبند، جانشین فکر ولی اللہی، حکمت نانوتوی کے امین، فکر تھانوی کے نقیب اور علوم کشمیری و عثمانی کے جانشین، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی علیہ الرحمہ نے نصف صدی سے زائد اپنے خونِ جگر سے سینچا، ان کے دور اہتمام میں یہ ادارہ مدرسہ سے جامعہ بنا، ملکی سے عالمی بنا اور اس کی معتدل فکر نے مسلک اہل سنت و الجماعت کی ایسی ترجمانی کی کہ ’’مسلک دیوبند‘‘ دنیا بھر میں ’’مسلک اہل سنّت والجماعت‘‘ کا مترادف لفظ بن گیا۔محترم جناب مولانا ندیم الواجدی صاحب علیہ الرحمہ اسی مادر علمی کے نہایت قابل و باصلاحیت فاضل، اسی معتدل فکر کے ترجمان، افراط و تفریط کے درمیان شائستہ و شستہ لب و لہجے میں اپنی بات پیش کرنے والے، زبانِ قلم پر کامل قدرت رکھنے والے ایک مایہ ناز فرد تھے، جو مؤرخہ 14 اکتوبر 2024 ء کو دیوبند سے ہزاروں کلومیٹر دور شکاگو میں مختصر سی علالت کے بعد وفات پا گئے۔
مولانا مرحوم نے جس انداز میں ایک معتبر مترجم، مستند قلم کار، درجنوں مقبول کتابوں کے مصنف، کامیاب تاجر، مثالی باپ، بے تکلف دوست اور ملی درد رکھنے والے انسان کی حیثیت سے زندگی گزار ہے بلاشبہ یہ ہر ہر گوشہ مستقل تحریر کا متقاضی ہے، جن پر خوب لکھا جا رہا ہے، تعزیتی جلسوں اور نشستوں میں بیان کیا جا رہا ہے، ان کے فیض یافتگان انھیں یاد کرکے اشکبار ہو رہے ہیں اور یہ ہونا بھی ضروری ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک موجود ہے :
’’ اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيهِمْ .‘‘(ابوداؤد، حدیث نمبر ۴۹۰۰)
(تم اپنے مُردوں کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے بچو ۔)
جاذب و پُرکشش شخصیت
مولانا مرحوم سے باضابطہ تعارف کب ہوا یہ تو یاد نہیں، لیکن ان کے نام اور کام یعنی کتب خانہ سے شناسائی بچپن سے رہی،انھیں مختلف جلسوں اور علمی محفلوں میں موجود پایا۔لمبا قد، سفید رنگت، اس پر نہایت خوبصورت و پرکشش سرخ داڑھی، عمدہ پوشاک، کپڑے عموماً سفید اور نہایت نفیس، سردی میں شیروانی زیب تن، اسی کے مطابق سر پر دیوبندی ٹوپی، سردی زیادہ ہوتی تو کشمیریوں والا پیرہن (جس کو استاذ گرامی، حضرت مولانا غلام نبی کشمیری علیہ الرحمہ ’’ساتر العیوب‘‘ کہتے تھے)، عموماً یہ لباس لوگوں پر کم جچتا ہے، لیکن مولانا مرحوم کی شخصیت اتنی پرکشش اور وجیہ تھی کہ اس لباس میں وہ وجاہت دو چند ہو جاتی، سر پر اکثر لال رومال، اصول پسند اور وقت کے نہایت پابند، متعین وقت پر گھر سے نکلتے، بغل میں ایک چھوٹا سا بیگ جس میں موبائل اور دکان کی چابیاں، سرما و گرما کے متعینہ اوقات کے مطابق ان کا تجارتی و اشاعتی مرکز دارالکتاب کھلتا، مولانا پہلے تو باقاعدہ مصحف میں تلاوت فرماتے، بعد میں کئی مرتبہ انھیں موبائل میں تلاوت کرتے ہوئے پایا۔
سہل الاستفادہ عالم دین
ابتدا میں یقیناً یہ کتب خانہ ان کا میدان جہد و عمل رہا، ان کی شبانہ روز محنتوں نے اس مکتبہ کو دیوبند بلکہ ہندوستان کے مشہور و معتبر اشاعتی مراکز میں شمار کرایا، تاہم اخیر عمر میں یہ جگہ اکثر و بیشتر یہ ان کی بیٹھک کی شکل اختیار کر لیتی جہاں آنے جانے اور ملاقات کے لئے کسی خاص پروٹوکول اور ضابطہ پر عمل لازم نہ
وفیات مورخہ: ۲۲؍ اکتوبر
/channel/ilmokitab
اوج بدایونی 22/اکتوبر/1992ء
آ صف علی اصغر علی فیضی 22/اکتوبر/1981ء
پرتو لکھنوی 22/اکتوبر/1982ء
پروفیسر خواجہ حمید الدین شاہد 22/اکتوبر/2001ء
حکیم سید شمس اللہ قادری 22/اکتوبر/1953ء
خواجہ ناظم الدین 22/اکتوبر/1964ء
سموئیل فیضی رحمین 22/اکتوبر/1964ء
علی احمد فضیل 22/اکتوبر/2022ء
قیصر افغانی 22/اکتوبر/1994ء
محمد مسعود عالم، حکیم قاضی 22/اکتوبر/1968ء
مولوی عنایت اللہ دہلوی 22/اکتوبر/1943ء
مولانا عبد القادر(صوا بی) 22/اکتوبر/1969ء
شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق سند یلوی 22/اکتوبر/1995ء
مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری 22/اکتوبر/1986ء
مولانا محمد میاں دیوبندی 22/اکتوبر/1975ء
وجیہ الدین فضلی ساحر، محمد 22/اکتوبر/1979ء
علامہ سید سلیمان ندویؒ کی شرافت طبعی اور ایک تکلیف دہ واقعہ پر صبروتحمل
/channel/ilmokitab
-----
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :
آخری چیز جو ان[علامہ سید سلیمان ندوی] کی پوی زندگی میں نمایاں رہی وہ ان کی طبیعت کی شرافت ومروت تھی وہ باکل بے آزار اور غیر منتقمانہ طبیعت کے آدمی تھے ان کے لئے ظالم کے بجائے مظلوم بننا بہت آسان تھا ، ان کی یہ صفت اس درجہ تک پہونچی ہوئی تھی جو کمزور ی سے تعبیر کی جاتی تھی ، ایک ایسی سوسائٹی میں جو اس طر ح کی صفات کی قدر کرنے کی عادی نہیں ان کو اپنی اس افتاد طبع کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی اور اپنی رضا مندی کے خلاف بہت سے فیصلے کرنے پڑے، اس طویل زندگی اور وسیع تعلقات میں شاید کوئی ایسا شخص مل سکے جو بیان کرے کہ سید صاحب نے اس کو کبھی نقصان پہونچایا یا اپنی ذات کا انتقام لیا ۔
(پرانے چراغ، ج:۱ ، ص: ۵۱)
رجحان اور ذوق کی تبدیلی اور عمر کی ترقی کے ساتھ ساتھ سید[سلیمان ندوی ] صاحب کا دار العلوم[ندوۃ العلماء] کے بارے میں ذوق ورجحان بھی خاصہ بدل گیا تھا، اب وہ اس کو محض ایک علمی ادارہ اور پڑھنے پڑھانے اور علوم جدیدہ سے بقدر ضرورت واقفیت کا مرکز سمجھنے پر قانع نہ تھے، دوسرے مختصر وبلیغ الفاظ میں وہ’’ لسان العصر‘‘ اکبر الہ آبادی کی اس تعریف کو پسند نہیں کرتے تھے جو انھوں نے فضلائے ندوہ کا امتیاز بیان کرنے کے لئے خود سید صاحب کی نوجوانی میں کی تھی ؎
اور ندوہ ہے زبان ہوشمند
وہ ندوہ کو قلب درد مند، ذہن ارجمند اور زبان ہوشمند ، تینوں کا مجموعہ دیکھنا چاہتے تھے، اور اسی ترتیب وتناسب کے ساتھ کہ پہلا مقام قلب درد مند کا ، دوسرا ذہن ارجمند کا اور اس کے بعد ان کی ترجمانی کے لئے زبان ہوشمند ہو، ندوہ میں دینی شخصیتوں اور دینی مرکزوں سے جو بیگانگی عرصہ سے چلی آرہی تھی، اس میں کچھ کمی تو خود سید صاحب کے اس جدید تعلق اور رجحان سے پیدا ہوئی جس کا اوپر تذکرہ ہوا، اور کچھ کمی مولانا الیاس صاحبؒ کے اس ہفت روزہ قیام سے جو ندوہ ہی کے مہمان خانہ میں تھا، اور جس میں انہوں نے اس ماحول کو پورے طور پر اپنے سوزِ دروں اور اپنی روح اور اپنے جسم کی بے تابی سے بے چین اور متحرک رکھا، لیکن سید صاحب اس سے زیادہ چاہتے تھے۔(پرانے چراغ، ج:۱ ، ص: ۳۲)
سید صاحب کے ان نئے رجحانات نے طلباء میں وہ مقبولیت اور کامیابی حاصل نہیں کی جو ان کے مقام کے لحاظ سے متوقع تھی بلکہ اس سے ایک ذہنی کشمکش پیدا ہوئی، اس کا نقطۂ عروج وارتقاء طلباء کی وہ اسٹرائک تھی جو ۱۹۴۳ء میں پیش آئی ، آغاز اس کا اگرچہ کچھ انتظامی معاملات سے ہوا، لیکن اس کے اندر بے اطمینانی اور کشمکش کی یہی روح کام کررہی تھی اس اسٹرائک کی قیادت ہمارے بعض عزیز شاگرد کررہے تھے ، جو دار العلوم[ندوۃ العلماء] کے بہترین طلباء تھے، اور ان سے ہم نے اور دار العلوم نے بڑی بڑی توقعات قائم کی تھیں ، ان میں سب سے زیادہ نمایاں میرے عزیز ترین شاگرد علی احمد کیانی تھے مجھے اپنے دس سال کے تدریسی دور میں اور اس کے بعد بھی جب میں نے بحیثیت نائب معتمد اور معتمد کے کام کیا اس نوجوان سے زیادہ ذہین ، ذی استعداد اور سلیم الطبع طالب علم نہیں دیکھا، دوسرے اورتیسرے ہی درجہ سے اس کا یہ حال تھا کہ صرف ونحو کی غلطی اس سے ہونی بہت مشکل تھی، میرے بعض عربی مضامین کا ترجمہ بھی کیا تھا، وہ اسٹرائک کے بعد جب کراچی گئے تو اپنی نو عمری کے باوجود کراچی کی علمی مجلسوں میں علامہ کیانی کے نام سے مشہور ہوئے، جیسا کہ طلباء کے ہنگاموں میں ہواکرتا ہے، وہ طوعاً وکرہاً طلباء کے نمائندہ اور اسٹرائک کے قائد بن گئے۔ ان کے سب استادوں کو اور بالخصوص مجھے ان کے اس ہنگامہ میں نہ صرف شریک ہونے بلکہ قائد بننے سے سخت قلق تھا، زیادہ تر اس وجہ سے کہ اس اسٹرائک کی زد سید صاحب کی شخصیت اور ان کی معتمدی پر پڑتی تھی، بلکہ وہ اس وقت ندوہ کے حقیقی مربی اور سرپرست اور اس کے لئے سینہ سپر تھے، سید صاحب کے دل کو بھی اس ہنگامہ سے بڑی چوٹ لگی ان کے دل میں ندوہ کی خدمت اور طلباء کی تربیت کی بڑی بڑی امنگیں تھیں ، ان کو اس سے اپنی تمنائوں کا خون اور اپنی کوششوں کی ناکامی کا منظر نظر آیا اور بہت دل شکستہ اور افسردہ ہوگئے، انھیں دنوں میں علی احمد مرحوم پر جنون کا دورہ پڑا اور حالت یہاں تک پہونچی کہ ان کو گھر والوں نے رسیوں سے باندھ دیا ان کے بھائی میرے برادر معظم داکٹر سید عبد العلی صاحب مرحوم کو ان کو دکھانے کے لئے گھر لے گئے ، میں بھی خصوصی تعلق کی بناء پر ساتھ ہوگیا، مرحوم کو جب رسیوں سے باندھا ہوا دیکھا تو آنکھ میں آنسو آگئے کہ یہ نوجوان جو اپنی ذکاوت اور صحیح الدماغی میں اپنے ساتھیوں کے لئے بھی قابل رشک تھا، اس حالت میں ہے ، بھائی صاحب نے نسخہ لکھا اور تشریف لے آئے، سید صاحب اس زمانہ میں اتنے دل برداشتہ تھے کہ دار العلوم میں قیام بھی نہیں فرمایا، ہمارے ہی گھر میں مقیم تھے، میں نے ایک مرتبہ تنہائی میں موقع
نورسی کے بعد اس تحریک سے تین دھارے نکلے، ایک مختصر ساحلقہ جو خود کو نورسی کا سو فیصد جانشین سمجھتا ہے، دوسرا فتح اللہ گولن کا حلقہ جس نے نورسی کی تعلیمات اور ان کے لٹریچر کو سب سے زیادہ پھیلایا،فوج ، پولیس اور سول سروس کے حلقوں میں بڑے گہرائی تک چلے گئے، میڈیا پر اس فکر کو عام کیا، ملکوں ملکوں میں اپنے مدرسے اور تعلیم گاہیں قائم کیں ، جس طرح برطانوی دور میں جہاد سے اظہار براءت پر قادیانیوں کا مقابلہ کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی، اسی طرح سیاست سے دوری اور روحانیت کے دعوے نے ان کی دعوت کے لئے دنیا بھر میں راہیں بڑی آسان کردیں، اور تیسرا حلقہ رفاہ تحریک کا تھا، جسے نجم الدین اربکان نے قائم کیا تھا، اور جس کے بطن سے اردوگان جیسے قائدین نکلے تھے۔ انہوں نے نورسی سے عقیدت کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریکات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلامی نظام سیاست کی فکر کو بھی اپنا لیا تھا۔
۔ فتح اللہ گولن ترکیہ میں لادین فوج کے غلبہ کے شدید مخالف تھے، اربکان اور اردوگان بھی اسی فکر کے حامل تھے، لہذا جب اردوگان کی جماعت مضبوط ہونے لگی، تو اس وقت فتح اللہ گولن نے فوج کی کمر توڑنے کے لئے اردوگان کا ہاتھ بٹایا، اور یہ تقریبا ناممکن تھا کہ گولن کے تعاون کے بغیر اردوگان بر سرحکومت آتے، لیکن بعد میں اردوگان کے داماد اور اس کے ساتھیوں کی مالی بے ضابطگیوں اور اس سلسلے میں ارووگان کے دہرے معیار کی وجہ سے ان میں دوریاں پیدا ہوئیں جسے گولن سے وابستہ میڈیا نے چھپانے کی کوشش نہیں کی، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعد اردوگان نے فتح اللہ گولن کی تحریک کو کچلنے لئے بڑاظالمانہ اور غیر منصفانہ برتاو اپنایا، پاکستان جیسے زیر اثر ملکوں میں گولن کے اداروں اور مدرسوں کو بند کروایا، اس طرح دنیا بھر میں لاکھوں طلبہ دینی تعلیم سے محروم ہوگئے۔
ممکن ہے گولن کے افکار وخیالات سوفیصد درست نہ ہوں، چونکہ دنیا بھر میں جس میں برصغیر بھی شامل ہے، ان میں مزارات اور بدعتی تصوف ترکیہ ہی سے درآمد ہواہے، لہذا ہمارے یہاں وقتا فوقتا مزارات کے سجادہ نشینوں اور مجاوروں سےجو خیالات اور امن ودوستی کے پیغامات میڈیا پر آتے رہتے ہیں اور ان کی سیاست سے دوری کا جو پروپیگنڈہ ہوتے رہتا ہے، گولن کے افکار وخیالات بھی اس کی عکاسی کرتے ہوں، اور مہدوی تحریک پر ظلم وتشدد کے نتیجے میں یہ تحریک جس طرح بے راہ روی پر مائل ہوئی یہاں بھی رد عمل میں یاپھر ضرورتا کچھ ویسا ہی ہوا ہو۔ایسی کسی بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اردوگان کے میڈیا سیل نے گولن کے بارے میں جو پروپیگنڈا کیا ہے انہیں صد فیصد درست نہیں مانا جاسکتا۔ فلسطین کے مسئلہ پر اردوگان نے ہمیشہ آنکھ مچولی کھیلی ہے، اس کی سیاست کو ہم جس طرح غلط نہیں کہ سکتے، اور اسے بد نیت نہیں قرار دے سکتے، اسی طرح بہت ممکن ہے، گولن کی رائے بھی دانشمندی یا ضرورت کی عکاس ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ گولن کو اردوگان کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کریں، ان کی تحریک میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے، کاش گزشتہ صدی میں عالم اسلام میں اٹھنے والی تحریکات پر معروضی انداز میں غیر جانبدارانہ سنجیدہ اور تحقیقی کام کی شروعات کی جائیں، اس موضوع کے ساتھ ابھی تک ہمارے یہاں انصاف نہیں ہوا ہے۔
2024-10-22
تبلیغی جماعت کا کام بھی یہاں مضبوط ہے، اور اس کی وجہ سے یہاں دینی مزاج نظر آتا ہے۔ یہاں علماء کی بھی بڑی تعداد ہے، جن میں پچیس سے تیس صرف ندوی فضلاء ہوں گے۔ ان میں بزرگ ندوی فاضل مولانا عبدالعزیز صاحب ندوی اور ممتاز فاضل مولانا ابودجانہ عثمانی ندوی سجادہ نشیں خانقاہ سملہ ضلع اورنگ آباد کا وجود غنیمت ہے، مولانا موصوف ندوہ میں استاد بھی رہ چکے ہیں۔
مولانا عبدالعزیز صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی اور انہوں نے یہاں کے علمی وتعلیمی حالات تفصیل سے بتائے۔ ہمارے دیرینہ کرم فرما مولانا زاہد ندوی بھی اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ شہر سے دوررہتے رہیں اس لیے ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔
مسلمان مجموعی حیثیت سے یہاں خوش حال ہیں، لیکن ضرورت ہے کہ اتنی بڑی تعداد کی دینی وفکری رہنمائی کا نظم بھی ہو اور دینی شعور کے ساتھ ان کی فکر وثقافت بھی بلند ہو۔ کیوں کہ مسلم تمدن ایسے ہی جگہوں پر فروغ پاتا ہے۔ اس کے لیے اہل علم کو اس شہر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہاں کے اہل علم کو خاص طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
اکیڈمی نے اس کا تصحیح شدہ ایڈیشن مکمل حواشی، تعلیقات اور اشاریہ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نئے ایڈیشن میں ’حیات جاوید‘پر مولوی ذکاء اللہ، وحیدالدین سلیم، حبیب الرحمن خاں شیروانی، سرعبدالقادراورمولانا ابوالکلام آزاد جیسی عبقری شخصیات کے تبصرے بھی شامل کئے گئے ہیں،جن سے اس کتاب کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ 780 صفحات کی یہ کتاب طباعت اور تدوین کے اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس اہم کام کے لیے سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر شافع قدوائی مبارکباد کے مستحق ہیں جن کے دور میں سرسید اکیڈمی کو نئی جہت ملی ہے۔ وہ ایک ذہین علمی شخصیت ہیں۔
علی گڑھ میں قیام کے آخری روز مولانا آزاد لائبریری میں ڈاکٹر عطا خورشید کی مرتب کردہ ”کلیات خطبات سرسید“ کے انگریزی تراجم کے اجراء میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ ترجمہ کا یہ کام امریکہ میں مقیم علی گڑھ کے ہی ایک فرزند عارف انصاری نے انجام دیا ہے۔وہ اس سے قبل بھی کئی اہم اردو کتابوں کا انگریزی ترجمہ کرچکے ہیں، جن میں قاضی عدیل عباسی کی ”تحریک خلافت“ بھی شامل ہے۔علی گڑھ میں کئی روز قیام کے باوجود تشنگی باقی ہے۔ بقول شاعر
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کربھی تیرے دریا سےمیں پیاسا نکلا
سلسلہ نمبر: 220
انتخاب مطالعہ
تحریر: *جؔگر مرادآبادیؒ*
*شاعر اور شعر*
شاعر کی تعریف کیا ہے؟ اور شعر کسے کہتے ہیں ؟ ان سوالوں کے جواب میں اپنے نتائجِ فکریہ حاضر کیے دیتا ہوں : ”شعر کی مختصر اور جامع ترین تعریف شاعر کا ذاتی تاثر و وجدان ہے ،جو اس کی فطری استعداد،عشق و جمال اور وسعت ظرف کی مناسبت سے کبھی بے قصد و بے ارادہ اور اکثر متخیلہ کی تحریکات سے صورت شعری اختیار کرلیتا ہے،اس صورت شعری اور نغمے میں کچھ زیادہ فرق نہیں،خواہ موزونیت و مناسبت عام طور پر تسلیم کی جائے یا نہ کی جائے ؛ اس لیے کہ موزونیت اور اجمالی تاثر و وجدان دو جداگانہ چیزیں نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ عوام کا معیار تنقید وہاں تک نہ پہنچ سکے، شاعر کے اسی تاثر و وجدان سے شاعر کی انفرادیت و شخصیت بنتی ہے اور اسی انفرادیت و شخصیت کے ماتحت جو چیز ہوگی اسے جدّت و ندرت سے تعبیر کیا جائے گا ۔
اس موقع پر شاعر کے متعلق اپنے اُن خیالات کا اعادہ کیے بغیر چارہ نہیں پاتا جنہیں منیجر صاحب جامعہ ملیہ دہلی کی تحریک پر ”مقدمۂ انتخاب داغ“ میں سپرد کر چکا ہوں ...وہو ہذا : ”شاعر کا دل شدید الاحساس ہوتا ہے، لاجونتی کی طرح معصوم و نازک،دماغ سریع الفکر بجلی کی مثال،سبک خرام و تیزرو،نگاہ مجسم شوق،رندِ تشنۂ لب کی مانند بے قرار و مضطرب۔
شاعر ہمہ محبت و ہمہ اعتراف ہوتا ہے،وسیع المشرب، رفیع الخیال،رنگین مذاق و سادہ مزاج، بے نیاز و آزاد، قومیت و وطنیت کی حدود سے بھی بلندتر بظاہر عام انسانوں کی طرح وہ بھی حوادث کدۂ عالم سے گھبرا اٹھتا ہے، اکثر شکوہ سنج بھی نظر آتا ہے، وہ بعض حقائق کو قبول کرنا چاہتا ہے اور بعض کو رد ؛ لیکن ابھی ابھی جن واقعات و واردات سے وہ دل گیر نظر آتا تہا دوسری ساعت میں انہی واقعات و واردات کا آرزو مند بھی۔
مختصر یہ کہ: شاعر حسن و عشق کی وجدانی و وارداتی دنیا میں رہ کر صرف اپنے ہنگامی تاثرات کا پابند ہوا کرتا ہے،وہ جہاں کہیں آمادۂ اختلاف نظر آتا ہے محض وقتی و اعتباری سمجھنا چاہئے!
عام حیثیت سے تمام فنون لطیفہ اور خصوصیت کے ساتھ شعر و نغمہ اپنے اندر انتہائی قوت پرواز رکھتے ہیں اور دوسرے قلوب کو بھی اڑا لیجانے کی استعداد،یہ کافی دلیل ہے اس حقیقت و واقعیت کی کہ در اصل فنون لطیفہ کا بیش از بیش تعلق عالمِ روحانیت سے ہوتا ہے اور کم از کم دنیائے مادیات سے ؛ اس لیے فنون لطیفہ کو مادی فوائد کے لیے آلۂ کار بنالینے کی کوشش ایسی ہی ہے جیسے ”کسی شاخِ گل سے تلوار یا کسی آہِ زیر لب سے تیر و تفنگ کا کام لینا۔“
شاعر، فلسفی، پیغمبر اور سائنٹسٹ میں جو کچھ ما بہ الامتیاز فرق ہے وہ صرف اس قدر کہ ”پیغمبر عالَم مادیات و روحانیات دونوں کا رازداں ہوتا ہے،وہ بالعمل کبھی شاعر نہیں ہوتا، بالقوی ہو تو ہو“ ؛ یہی سبب ہے کہ تمام تر صحائف آسمانی اگرچہ اپنے اندر انتہائی جاذبیت رکہتے ہیں ؛ لیکن شاعر کا دیوان بن کر سامنے نہیں آئے۔
شاعر تا امکان دنیائے مادیت کو ٹھکرادینا چاہتا ہے اور چونکہ قدرت کے عطیات کی توہین خود قدرت کی توہین ہے ؛ اس لیے جس حیثیت سے توہین کی جاتی ہے اسی مناسبت سے اس کی زندگی کو بھی سزاءََ ناکام و نامراد بنادیا جاتا ہے!! شاعر صرف روحانی و ذہنی سرمستیوں میں ڈوب جانا چاہتا ہے، اسے غرقِ شراب ہوکر بس کرنا نہیں آتا،بیچارہ فلسفی اور سائنٹسٹ شراب کی صرف ذہنی و مادی تحلیل پر ہی اکتفا کرجاتا ہے،یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاعر ہرچیز کا مطالعہ محض جسمانی و روحانی نقطۂ نظر سے کرتا ہے اور فلسفی یا سائنٹسٹ کو شاید ہی اس سے کوئی وابستگی معنوی ہو۔
( *نگارشاتِ جگر،صفحہ: 57، طبع: دانش محل،امین الدولہ پارک،لکھنؤ*)
مصنف: *محمد اسلام، بہرائچ*
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
ندیمے از دیوبند
ناصر الدین مظاہری
قدرت کی فیاضیاں کبھی کبھی کہیں کہیں اس قدر نظر آتی ہیں کہ بے اختیار اُس سرزمین اور اُس علاقہ کی تقدیر پر رشک ہونے لگتا ہے، کیا آپ حجاز مقدس کے تقدس سے نظریں چرا سکتے ہیں؟ کیا مصر و شام کے تقدس کی قسمیں کھانے والا حانث ہو سکتا ہے؟ کیا کوفہ اور بصرہ والوں کی تقدیر اس لائق نہیں ہے کہ انھیں جھولیاں اور ڈالیاں بھر بھر کر مبارک باد پیش کی جائے؟ کیا ماوراء النہر کے علاقے، اصفہان اور بخاریٰ کے خطے، بغداد اور رے کے سبزہ زار اس لائق نہیں ہیں کہ آپ وہیں کے ہو رہیں؟ دور کیوں جائیں اسی بھارت میں دیکھ لیجیے شیراز ہند کی زرخیزی، اعظم گڑھ کی شادابی، دو آبہ کے سبزہ زار، دہلی و دیوبند کی علمی کھیتیاں کیا اس لائق نہیں ہیں کہ آپ یہاں پر لنگر انداز ہوجائیں؟ یہاں کی نور و نکہت اور یہاں کی علمی کہکشاؤں میں رہ کر اپنے دل کی دنیا روشن اور فکر کی کھیتی سیراب کریں؟
جی ہاں؟ دیوبند شہراب بھی کوئی خاص ترقی پر نہیں ہے، نہ ہی اس کانام اچھاہے نہ ہی یہاں کوئی قابل ذکر صنعت ہے، نہ ہی یہاں حرفت ہے، یہاں کا کوئی مخصوص کاروبار بھی نہیں ہے، یہاں کا پورا نظام بس ام المدارس دار العلوم کے گرد گھومتا ہے، طلبہ کی چہل پہل سے یہاں ہلچل ہے، علماء کی آمد و رفت سے یہاں کے کاروبار میں رونق ہے، جوں جوں طلبہ بڑھتے جاتے ہیں دیوبند کی آب و تاب میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، بازار ان کی وجہ سے زندہ ہیں، مارکیٹیں انھوں نے ہی بسائی اور جمائی ہوئی ہیں، دیوبند کا تمام تر روزگار ان ہی خانہ بدوش مہمانان رسول کا مرہون منت ہے چنانچہ یہ آب وتاب اور یہ رونق شعبان کے جاتے جاتے ختم سی ہو جاتی ہے، بہتوں کا کاروبار منجمد ہو جاتا ہے، کتب خانے اپنا نظام الاوقات تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہوٹل والے ہوٹلوں کو مقفل کرنا شروع کر دیتے ہیں، رکشہ والے بوریہ بستر سمیٹ لیتے ہیں، جو دکاندار کل تک کسی کے سلام کا جواب دینے کی فرصت اور پوزیشن میں نہیں تھے آج وہ ہر جگہ فرشی سلام کرتے نظر آتے ہیں۔ سچ کہوں تو دیوبند کو دارالعلوم سے شناخت اور پہچان ہے اور دار العلوم کو دیوبند سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہے۔
اب آتے ہیں مقصد اصلی کی طرف، یہ دیوبند اتنا خوش بخت وخوش نصیب ہے کہ یہاں ہر دور میں جبال علم اور ماہرین علوم پیدا ہوتے رہے ہیں، یہاں دین کی وہ کھیتی ہوتی ہے جس کی رونق سے عالم منور ہے، یہاں دین کا ہر شعبہ زندہ و تابندہ ہے، یہاں اسلام کی کہکشائیں روشن و منور ہیں، یہاں شریعت کی آبشاریں بہتی ہیں، یہاں طریقت کے دجلہ و فرات کبھی خشک نہیں ہوئے، یہاں کتابوں کی بڑی منڈی ہے، یہاں طباعت اور اشاعت کا کام نصف النہار پر ہے، یہاں دنیا بھر کا عالی دماغ مل جائے گا،اس نے یورپ کو پورب سے ملانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، یہاں آپ کو ہر میدان میں سیری اور آسودگی مل سکتی ہے، یہاں پہنچ کر ہر وارد و صادر واپسی کا نظام بھول جاتا ہے، یہاں کی مٹی میں بڑی کشش ہے اسی کشش کا نتیجہ ہے کہ آج دیوبند میں ’’دیوبندی‘‘ چراغ لے کر تلاش کرنے پڑتے ہیں، یہاں گل ہائے رنگارنگ سے چمن کو زینت ہے، اسی چمنستان کا ایک پھول اور اسی سیارے اور کہکشاں کا ایک ستارہ محترم مولانا ندیم الواجدی بھی تھے جو خالص دیوبندی ہیں، دیوبندی ان کا مسلک بھی تھا، دیوبند ان کا وطن بھی تھا، دیوبندی ان کی شناخت اور پہچان بھی تھی، دیوبند نے انھیں بہت کچھ دیا اور نتیجہ کے طور پر انھوں نے بھی دیوبند کو بہت کچھ دیا، انھوں نے شاندار درسی و غیر درسی تصنیفات دیں، انھوں نے عربی علوم وادب کا ایک نصاب ونظام دیا، انھوں نے نادر و نایاب کتابوں کے سلیس اور معیاری ترجمے دئے،انھوں نے دنیا کو معیاری کتابیں دیں،معیاری رسالہ دیا،بچیوں کا معیاری ادارہ دیا، کتابوں کا تجارتی مرکز دیا، دارالعلوم دیوبند کی شاندار ترجمانی کی،دیوبندیت کی ترویج واشاعت میں اپنا خون جگر بہایا، فقہی سیمیناروں میں انھوں نے در کفے جام شریعت کا مظاہرہ کیا تو طریقت میں سندان عشق اٹھائے نظر آئے، وہ بڑوں کے شاگرد رشید تھے تو بڑوں کے خلف الرشید بھی، وہ بڑوں کے منظور نظر بھی تھے تو بڑوں کے خلیفہ و مجاز بھی، وہ ہر میدان اور ہر معرکے کو سر کئے ہوئے وہ ہونہار عالم دین تھے جن پر ان کے معاصرین ہی کونہیں ان کے بڑوں کوبھی نہ صرف کامل یقین و اعتماد تھا بلکہ کبھی کبھی اپنے بڑوں کی نمائندگی کرتے اوران کی دعاؤں سے مالامال ہوتے دنیا نے دیکھا۔ وہ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے جرعہ نوش تھے، وہ مولانا کیرانویؒ کی درسگاہ علم وادب کے خوشہ چین تھے وہ ان خوش نصیبوں میں شامل تھے جنھوں نے مولانا وحید الزماں سے شرف تلمذ حاصل نہیں کیا بلکہ استاذ محترم کو گویا چوس لیا، یہ خوبی اوریہ صفت بڑی مشکل سے حاصل ہوپاتی ہے، یہ درک اوریہ کمال تب حاصل ہوپاتا ہے جب انسان مٹی میں ملنے اور مل کر پنپنے اور پرورش پانے والے تخم اور بیج کے مانند ہو جاتا ہے تبھی تو نئے بال و پر نکلتے ہیں تبھی تو نئے گل و گلاب
بہر حال شیخ برابر للکارتے اور حق کی پکار بلند کرتے رہے ، یہاں تک کہ ۱۹۹۶ء میں جب وہ آسٹریلیا کے ایک طویل دعوتی دورے سے واپس ہوے تو ایک سَر کے سواساراجسم مفلوج ہوکر رہ گیا۔ ریاض کے شاہ فیصل دواخانہ میں مدتوں علاج معالجہ ہوتا رہا۔ حالت قدرے سنبھلی تو جنوبی افریقہ لوٹ آئے۔ اس وقت سے پورے صبرا وربرداشت کے ساتھ صاحبِ فراش رہے۔ اس پر بھی ڈاک ، ٹیلی فون اور فیاکس سے آنے والے سوالوں کے جوابات اپنے فرزند یوسف کے توسط سے اپنی خاص اشارے کی زبان میں دیاکرتے تھے۔
شیخ فریش تھے مگر دعوتی حوصلے بدستور بلند تھے۔ فرماتے :
’’وسائل میسر ہوتے تومیں ساری دنیا کو اسلامی علوم خصوصًا انگریزی تفسیروں سے بھردیتا‘‘۔
آخری وقت تھاکہ رفقاء ملاقات کے لیے آئے تو نصیحت فرمائی :
’’دیکھیے اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے پوری کوشش کیجیے۔ میری زندگی کا نصب العین یہی تھا‘‘۔
بیمار تھے، زارونزار تھے، مگر دمِ واپسیں تک دعوت کی یہی روح انھیں بے قرار رکھی رہی۔ اس حالت میں مشنری کے کئی گروگھنٹالوں نے انھیں عیسائی بنادینا چاہا۔ ان میں سب سے آگے پادری کلارک تھا۔ یہ سعی لاحاصل ۱۹۹۷ء کی بات ہے۔ ان کی علالت کے زمانے میں بعض پادری آئے اور یہ کہتے ہوے سنے گئے کہ اس شخص کے مرضِ مزمن کا سبب یہ ہے کہ یہ انجیلِ مقدس پر حملے کیاکرتاتھا۔ ان کی وفات کے بعد ایک شقی نے کہا:
’’اس پر خداوندِ مسیح کی مارپڑی ہے۔ اسے انھی نے بدلہ لینے کے لیے مار ڈالا ہے‘‘۔
اللہ شیخ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطاکرے ۔ آمین۔
شیخ کی کامیابی کے اسباب وعوامل
mدیدات مرحوم دینی غیرت وحمیت کے پتلے تھے۔ Adam's Missionکے مشنریوں کی ہفوات کا مدلل جواب دینے اور اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے بے چین رہے تھے۔
m ان کی قوتِ ارادی غضب کی تھی، جو دوصورتوں میں ظاہر ہوی ۔ ایک یہ کہ باقاعدہ تعلیم نہیں پائی تھی مگر ذاتی مطالعہ اس قدر وسیع کرلیاتھا کہ بعض یونی ورسٹیاں ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے پیشِ نظر انھیں اونچی اعزازی ڈگریاں دینے کے لیے تیار تھیں۔
یہ توعلمی پہلو تھا۔ عملی میدان میں ان کی تگ ودوکا یہ حال تھاکہ ۵۹ء میں ملازمت چھوڑ چھاڑ دعوت ہی کے ہورہے۔ آج افریقہ میں ہیں، کل یورپ میں ، پرسوں امریکہ میں ۔ بڑے بڑے عیسائی فاضلوں سے حکمت وموعظت کے ساتھ بحث ومباحثے کرتے ، انھیں اسلام کی دعوت دیتے ۔ یہ شخص نہ کبھی تھکتاتھا، نہ کہیں دم لیتاتھا۔
m وسائل کی کمی اور مشکلات کی کثرت کے باوجود حریف کے چیلنج کا نڈر ہوکر جواب دیتے۔ اس کی اکثریت اور سیاسی قوت سے ذرامرعوب نہ ہوتے۔ وہ نہ اپنی غربت کی وجہ سے احساسِ کم تری کا شکار ہوتے، نہ مخالف کے تمول کو خاطرمیں لاتے۔ بس بلاخوف وخطر برابر اپناکام کیے جاتے۔
mشیخ کو فریقِ مخالف سے مناظرے اور مباحثے کے دوران بڑے صبرآزما حالات پیش آتے۔ اہانت آمیز کلمات سننے پڑتے، مگروہ عفو ودرگزر سے کام لیتے، حلم وبردباری سے پیش آتے۔ اس کے علاوہ وہ تکلف سے دور اور سادگی کی تصویر تھے۔ ان باتوں سے لوگ ان کی طرف کھنچ آتے، ان سے مانوس ہوجاتے۔
m ایک خاص بات یہ تھی کہ اپنے دعوتی پروگرام میں جو ستر برس تک جاری تھا،اتمام ِ حجت کے مقصد کو اوجھل ہونے نہ دیتے۔ اسلام کے اصولوں کا بیان ہویا تورات وانجیل کی تحریفات اورتناقضات کی نشان دہی۔ نصب العین اسلام کی حقانیت کا اثبات ہوتا۔ اولیات کا بڑاخیال تھاکہ کون سی بات پہلے کہی جائے اور کون سی بعد میں ۔ کبھی ان کا عمل اس اصول پر ہوتاکہ ’’دفاع کا بہترین ہتھیار حملہ ہے‘‘۔
m شیخ کو میدانِ مناظرہ میں جو مہارت بلکہ فوقیت حاصل تھی اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھیں انگریزی زبان پر پوراعبور تھا۔ ساری انجیلوں کے حوالے نوکِ زبان تھے۔ قوتِ استدلال بلاکی تھی۔ حریف پر ایسی گرفت کرتے کہ تلملا کر رہ جاتا۔ پھر بات اس خوش اسلوبی کے ساتھ کرتے کہ معلوم ہوتا پھول جھڑرہے ہیں، موتی پروئے جارہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اپنے اور پرائے سب کان لگائے ان کی شیریں بیانی سنتے اور مسحور ہوجاتے۔
mانھیں رفقاے کار بھی ایسے ملے جو سفر وحضر میں ، رنج وراحت میں ان کے شریک وسہیم اور تن من دھن سے مقصدِ دعوت کے لیے وقف تھے۔ اپنے قائد کے بہترین مشیر وصلاح کار تھے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے دل سے معترف تھے۔ ہرکام جماعتی روح (Team Spirit)سے شروع بھی ہوتا اور انجام بھی پاتا۔ اس نکتے کی اہمیت تجربہ ہی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ بقول کسے:
چوں من شدی بدانی
کثر اللہ امثالھم۔
(راہ اعتدال، عمرآباد)
mmm
رفتہ رفتہ ملک بھرمیں ان کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ پہلے پہل جو خطاب ’’عام‘‘ ہوا اس میں بہ مشکل پندرہ نفوس موجود تھے، مگر اب وہ ایک جمِ غفیر کو خطاب کرنے لگے۔ چناں چہ ایک موقع پر ڈربن کے City Hall میں ان کے سامنے دوہزار کامجمع موجود تھا، جو کان لگائے ان کی تقریر چپ چاپ سنتارہا۔ جب سوال وجواب کی نشست شروع ہوی تو بہت سے عیسائی ہاتھوں میں بائبل لیے ہوے کھڑے ہوگئے اور ان کی تقریرپر ردو قدح کرنے لگے۔ شیخ نے اپنے حافظے کی مدد سے خود بائبل ہی کے حوالوں سے برجستہ انھیں مُسکت جوابات دیے۔
شیخ دیدات اب خود اعتمادی ، قوتِ ارادی اورجوشِ دعوت کی منہ بولتی تصویر تھے۔ ان کے سامنے اسلام کی دعوت واشاعت کی شاہ راہ صاف اور وسیع تھی۔ انھوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، برابر قدم بڑھاتے چلے گئے۔ دعوت آنے پر اسلام کا یہ داعی Cape Townگیا اور وہاں کے عظیم الشان Auditoriumsمیں تیس تیس چالیس چالیس ہزار کے مجمعوں میں شیر کی طرح گرجنے اور صداے حق بلند کرنے لگا۔ ان کی تقریروں میں جادو کا سااثر ہوتاتھا۔ کیاموافق کیامخالف سب دم بخود بیٹھے سناکرتے۔ اورہاں ، ہمارے اس مقرر کو اس کی ذرا پروانہیں رہتی تھی کہ سامعین کم ہیں یازیادہ۔ وہ مدلل طور پر برابر بولتے چلے جاتے۔
ایک بات غالبًا ذراپہلے کہنی تھی، اب یاد آئی، اور وہ یہ کہ شیخ کے ایک یارِ غار تھے، غلام حسن فنکا، جو علمی تحقیق اور مذاہب کے تقابلی مطالعے میں ان کے شریک وسہیم تھے۔ ۱۹۵۶ء تھا کہ دونوں دوستوں نے مل کر دربن کے ایک چھوٹے سے محلے میں ’’مرکز دعوت‘‘ قائم کیا۔ ملک کے طول وعرض میں شیخ اور ان کے رفیق کے دعوتی دورے اور پھیرے اسی مرکز سے ہواکرتے تھے، جن کے دوران وہ شان دار مناظرے ہوے جن سے بہت سے عیسائیوں کے عقائد ڈگمگانے لگے، جن سے کلیسائی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ اور جنوبی افریقہ میں ہلچل پڑگئی۔ اس کے علاوہ اسی مرکز کے زیر اہتمام انھوں نے کئی کتابیں چھپواکر شائع کروائیں اورنومسلموں کی تعلیم وتربیت کے کلاس کھولے۔
اس کے بعد شیخ کی جان پہچان صالح محمد سے ہوی جو Cape Townکے ایک بڑے بارسوخ اور متمول مسلمان تھے۔ واضح رہے کہ شہر کیپ ٹاؤن خاصی بڑی مسلم آبادی کامسکن تھا، مگر یہ لوگ غیر منظم سے تھے۔ ان کے مقابلے میں عیسائی اکثریت میں تھے اور طاقت ور اورمنظم بھی۔ صالح محمد صاحب نے شیخ کو کیپ ٹاؤن بلایا اور وہاں کے پادریوں سے کئی مناظرے کروائے۔ یہاں عیسائیوں کی اکثریت تھی ہی ، پھر یہ لوگ شیخ سے مناظرے کرنے کے متمنی بھی تھے، اس لیے اس شہر میں شیخ کا قیام مستقل ساہوگیا، اور مناظروں کی بدولت شیخ کو یہاں کے باشندوں کی نظرمیں اونچامقام حاصل ہوگیا۔
اسلام کی نشر واشاعت کے لیے شیخ دیدات نے مناظرے کا روایتی طریقہ بھی اپنایا، اور عصر حاضر کے ترقی یافتہ وسائل ٹی وی پروگرام ، فلمی مظاہرے، آڈیو؍ویڈیو Cassettesجیسے الکٹرونک میڈیا کا بھی استعمال کیا۔ ان ذرائع کی عام افادیت شیخ کے اشاعتی کام اور اس کی کامیابی کی صورت میں عیاں ہے۔
’’مرکز دعوت‘‘ کا ذکر اوپر آچکاہے۔ اس کے قیام کے بعد کی بات ہے کہ سیماب صفت شیخ کی کارگزاریوں سے متاثر ہوکر ایک قدرداں نے انہیں پچہتر ایکر قطعہ اراضی کی فیاضانہ پیش کش کی ، جو Braemer نامی ایک مقام پر واقع تھا۔ شیخ ایک عرصۂ دراز سے ایک عظیم دعوتی تربیت گاہ کے قیام کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس پیش کش میں انھیں اس خواب کی تعبیر نظر آئی اور انھوں نے جلد ہی وہاں ’’السلام‘‘ نامی ادارہ قائم کردیا۔ اس کے احاطے میں ایک مسجد بھی بنوائی۔ اس ادارے سے ہزاروں نوجوان دعوت وتبلیغ کی تعلیم وتربیت پاکر نکلے اور قرآن وحدیث کی روشنی میں عیسائی مشنریوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا منہ توڑجواب دیتے رہے ـــــ مگر افسوس ۱۹۷۳ء میں روپیہ کی کمی کی وجہ سے شیخ اس ادارے کو بند کردینے پر مجبور ہوگئے۔ مختصر سی مدت میں ادارے نے قابلِ قدر کام کیا، لیکن شیخ کا خیال تھاکہ اس سے ان کی توقعات پوری نہیں ہویں ۔
ادارئہ ’’السلام‘‘ سے ان کی توقعات پوری نہیں ہویں تو شیخ نے اپنی توجہات’’مرکز دعوت‘‘ پر مرکوز فرمادیں جس سے انھیں بڑی امیدیں تھیں ۔ یہاں سے ان کا دعوتی کام خوب پھلا پھولا۔ افریقہ اور دوسرے ملکوں میں اس کی برکت سے سینکڑوں افراد مشرف بہ اسلام ہوے۔ ماشاء اللہ۔
رہا عالم عرب تو شروع شروع میں اس نووارد عجمی کو اس نے شک وشبہ کی نظر سے دیکھا، مگر جب دیکھا کہ یہ شخص بڑا دل چسپ طریقِ کار، متحرک روح اور گہری بصیرت رکھتا ہے ،اور اسلام اور عیسائیت دونوں پر نہایت عالمانہ محاکمہ کررہاہے، تو شیخ کا بڑی گرم جوشی کے ساتھ خیرمقدم کیا۔مثلاً :ایک وقت وہ تھاکہ سعودی ٹیلی ویژن شیخ سے انٹرویو لینے تک کا روادار نہ تھا۔ پھر جلد ہی وہ وقت بھی آگیا کہ اس کے دروازے ان کے لیے ہر آن کھلے رکھے گئے کہ جب چاہیں وہ اس کی لہروں کے دوش پر اپنا پیام نشرکریں۔۔۔۔ بلکہ اس نے مشورے بھی طلب کیے اورجب وہ پیش کیے گئے تو انتہائی اخلاص کے ساتھ ان پر عمل بھی کیاگیا۔
دیدہ ور احمد دیدات
ملک کے اردو اخباربیں طبقے کو یاد ہوگا کہ ۸؍اگست ۲۰۰۵ء کو شہرئہ آفاق داعیِ اسلام احمد بن حسین دیدات نے جنوبی افریقہ کے شہر’’ ڈربن‘‘ میں ستاسی سال کے سِن میں اس عالمِ فانی سے رخ پھیرلیا۔ اناللہ ۔۔۔
دیدات مرحوم غریب تھے ، ایک معمولی نوکر تھے، باقاعدہ دینی تعلیم یافتہ بھی نہیں تھے، اسکولی تعلیم بھی پوری نہیں کرسکے تھے،مگر دینی غیرت وحمیت کے پتلے تھے۔طبیعت کی اسی افتاد نے رفتہ رفتہ انھیں دینِ حق کا بے باک سپاہی بنادیا۔ وہ ایک خود آموز عالم تھے، جن کا بے پناہ شوقِ علم خداداد تھا ، جو ایک تیز و تند سیلِ رواں کی طرح راہ کی تمام رکاوٹوں کو خس وخاشاک کی مانند بہاتا اور ہٹاتا ہوا برابر آگے بڑھتا رہا اور انھیں تمام مذاہب کے تقابلی مطالعے اور موازنہ کے میدان میں ایک ایسے بلند وبالا مقام پر فائز کردیا اور اس سے دیدہ ور دیدات نے ابطالِ باطل اور احقاقِ حق کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ یہ کہنا غالبًا مبالغہ نہ ہوکہ اسلام کی ایسی خدمت عصرِ حاضر میں شاذونادر ہی کسی سے بن پڑی ہوگی: ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
اس دعوے کی صداقت ذیل کے صفحات سے معلوم کرلی جاسکتی ہے، جو ان کی حیات وخدمات سے متعلق ہیں اور جو دینِ حق کے داعیوں کے لیے بڑے سبق آموز اور سرمۂ بصیرت ہیں۔ وفقنا اللہ جمیعا لما یحبہ ویرضاہ۔
۱۹۱۸ء کی بات ہے کہ احمد دیدات نے ریاست گجرات کے ضلع سورت کے ایک شہر ’’تادکیشز‘‘ میں ایک غریب کنبہ میں آنکھ کھولی۔ غربت ایسی تھی کہ وطن میں رہ کر لکھائی پڑھائی کا سروسامان نہ کرسکے۔ اس لیے نو برس کی عمر تھی کہ ۱۹۲۷ء میں مادر ِوطن کو خیرباد کہا اور جنوبی افریقہ چلے گئے، جہاں ان کے والد حسین صاحب ، اس ہونہار کی پیدایش کے معًا بعد چلے گئے، اور درزی کاکام کرتے تھے۔ کم سِن احمدنے اپنے باپ کو ہوش وحواس کی حالت میں پہلی بار سرزمینِ افریقہ ہی میں دیکھاتھا۔ رہی ماں تو اسے انھوں نے آخری بار اس سفر پر روانہ ہوتے وقت دیکھا اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کی تھیں، کیوںکہ اس کے بعد جلد ہی ماں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بندکرلیں۔
افریقہ پہنچ کر دس سالہ احمد ایک اسکول میں جاداخل ہوے۔ گھر کی زندگی معاشی تنگی اور تنگ دستی کی تھی۔ اسکولی تعلیم پانچ چھے برس تک لشتم پشتم جاری رکھی، مگر تابکے؟ سولہ برس کے تھے کہ تعلیم ادھوری چھوڑدی۔ انگریزی میں بھی ناقص ہی رہ گئے ، حالاںکہ انھیں اس کا بڑاشوق تھا ـــــ مگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہے۔ ہمتِ مرداں مددِ خدا۔ ہمت کرکے ایک اور اسکول میں شریک ہوگئے جو ایک انجمن کے زیرِ اہتمام وسط شہر (ڈربن) میں چل رہاتھا۔ یہاں انھوں نے بڑی تن دہی سے خوب جی لگاکر پڑھنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف انگریزی کی کم زوری دورہوگئی، بلکہ اسکول بھرمیں سب سے آگے بڑھ گئے ـــــ لیکن وقت پھر ایساآگیاکہ ہزار شوق کے باوجود تعلیم روک دینی پڑی۔ مالی مشکلات کے باعث مختلف نوکریاں کرنے پر مجبور ہوگئے۔ خود ہی کہتے ہیںکہ موت اور زیست کا سوال درپیش تھا۔ والد کے کہنے پرکالج چھوڑ ملازمت کرنے لگے۔
۱۹۳۶ء تھاکہ ایک کرانا دکان پر ملازم ہوگئے۔ اس کے بعد ایک کارخانہ میں ڈرائیور اور پھر محاسب ہوے ، اور درجہ بہ درجہ ترقی کرتے ہوے اس کارخانے کے ڈائرکٹر بن گئے۔
یہ کارخانہ ایک مسلمان کا تھا، اور ناٹال (Natal)کے جنوبی ساحل پر واقع Adam's Mission نامی ایک عیسائی کالج سے قریب تھا۔ اس کارخانے سے وابستگی کازمانہ ہی تھاجب کہ دیدات صاحب نے ریڈیو سازی وغیرہ صنعتوں کی ٹریننگ حاصل کی۔ ان صنعتوں کے طفیل کچھ روپیہ حاصل ہواتو ۱۹۴۹ء میں پاکستان گئے اور وہاں پارچہ بافی کا کارخانہ قائم کیا، مگر بعض اسباب سے وہ یہاں زیادہ عرصے تک ٹھہرنہ سکے۔ تین برس بعد جنوبی افریقہ لوٹ آئے اور دوبارہ سابقہ ڈائرکٹری کے عہدے پر لے لیے گئے۔
اور ہاں قیامِ پاکستان کے دوران احمد دیدات صاحب نے شادی کرلی۔ ان کے دوبیٹے ابراہیم اور یوسف ماشاء اللہ حیات ہیں۔ بیٹی رُقیہ اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں۔
شیخ دیدات (یہاں سے ہم انھیں اسی نام سے یاد کریں گے)کہتے ہیں کہ انھوں نے ’’عہدنامۂ قدیم ‘‘ اور ’’عہدنامۂ جدید‘‘ دونوں کتابوں کا گہرا مطالعہ کرکے عیسائیوں کی خرافات وتحریفات کا رد کرنا شروع کیا۔ اس طرف توجہ اس طرح ہوی کہ Adam's Missionنامی کالج سے، جو اُن کے کارخانے سے قریب تھا اور جس کا نام اوپر آچکا ہے، زیرِتعلیم عیسائی طلبہ ان کے ہاں آتے اور اسلام اور پیغمبرِ اسلام ا کے بارے میں اوٹ پٹانگ ہانکتے اور انتہائی دریدہ د ہنی سے کام لیتے تھے ۔ مثلاً کہتے: ’’جانتے ہوکہ محمد (ا) کی کتنی بیویاں تھیں؟ نہیں جانتے کہ انھوں نے قرآن کو یہود ونصاریٰ کی کتابوں سے اخذ کرکے مرتب کیاتھا؟ کیاتمھیں معلوم نہیں کہ وہ نبی نہیں تھے؟ کچھ خبر بھی ہے کہ انھوں نے اسلام کو بزورِ شمشیر پھیلایا اور لوگوں کو زبردستی مسلمان بنایا؟‘‘۔۔۔۔
۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا میدان کار قدرے مختلف ہے، اپنے وطن میں انہیں عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے بجائے ہندومت کے پیروکاروں کا زیادہ سامنا رہا،یہ مذہب روحانی فلسفیانہ مزاج کی وجہ سے عیسائیت سے قدرے مختلف ہے، اس مذہب کے داعی اسے دین کہنے کے بجائے ایک تہذیب وثقافت سے تعبیر کرتے ہیں، اور جب بھی کسی اچھے کام کی بات ہو توکہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں موجود ہے، جس کی وجہ سے ایک مناظر کو عیسائیت کے مقابلے میں اس مذہب کے ماہرین سے مناظرہ کرنا زیادہ دشوار ہوتا ہے کیونکہ یہ کسی ایک نکتہ پر جم کر بات نہیں کرتے، بلکہ دلدلی ریت کی طرح مناظروں میں موضوع سے پھسلتے رہتے ہیں،
لہذا ذاکر نائیک کے مخاطبین دیدات کے مخاطبین سےمختلف نوعیت کے ہیں، اور ان کے مسائل بھی مختلف ہیں، اس بات کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے اس میدان میں خوب محنت کی ہے، اور بڑی کامیابی سے اسلام کی سربلندی ثابت کرنے کے لئے اپنی توانیاں صرف کی ہیں،
۔ ذاکر نائیک کی تعلیم انگریزی مشنری اسکولوں میں ہوئی، ان کی اردو زبان سے واقفیت واجبی سی ہے، جب وہ دعوت اور مناظرے کے میدان میں داخل ہوئے تو انہیں اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا، وہ جو اردو زبان بولتے تھے وہ ممبئی کی عام بازاری زبان سے مماثل تھی، جو عموما غیر مہذب سمجھی جاتی ہے۔ لیکن انہوں نے اردو سیکھنے کی کوشش کی، لیکن اپنی بات موثر انداز میں پہنچانے کے لیے صرف زبان کا جاننا کافی نہیں، اس کے لئے اس زبان کی ادبیات اور نزاکتوں پر عبور بھی لازمی ہو ہے، جس پر مہارت حاصل کرنے کا موقعہ انہیں شاید نصیب نہیں ہوا۔
۔ ڈاکٹر صاحب سے متاثر طبقہ عموما جنوبی ہند ملبار، ٹامل ناڈو ، مہاراشتر کا وہ متوسط طبقہ ہے جس کے بول چال کی زبان ہندی نہیں ہے، اور یہ دینی مسائل میں دو اور دو چار سننے کو پسند کرتا ہے، مسائل کی گہرائی تک جانے کا وہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس طبقہ میں فلیپین، ملیشیا اور مشرق بعید کے افراد بھی شامل ہیں، جنہیں ڈاکٹر صاحب نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، چونکہ یہ طبقہ امارات ، اور خلیجی ممالک میں بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے تو پھر ان ممالک میں ڈاکٹر صاحب کو سب سے زیادہ پذیرائی نصیب ہوئی، ہم نے دبی کی ایک ہی مجلس میں آپ کے ہاتھوں سینکڑوں افراد کو دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے، جوان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔
۔ ہمارے خیال میں پاکستان کا ماحول ڈاکٹر صاحب کے حسب حال نہیں ہے، کیونکہ یہاں پر انگریزی زبان سمجھے جانے کے باوجود لوگوں کے کان اردو ہی سے مانوس ہیں، لہذا یہاں پرٹیلیوژن وغیرہ پر انگریزی خبرنامے اور پروگرام زیادہ مقبول اور کامیاب نہیں ہوپاتے، دوسرے یہ کہ یہاں پر غیر مسلم ہندو اور عیسائی مخاطبین کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ جو اصل میں ڈاکٹر صاحب کا میدان ہیں۔ وہ جن موضوعات پر بولتے ہیں وہ عام مسلمانوں کے لئے زیادہ کشش نہیں رکھتے، لہذا ہمارا خیال ہے کہ پاکستان میں آپ کی مجالس کی حاضری زیادہ تر عقیدت میں ہوئی ہے۔
۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اپتدائی دور میں تنازعات کا شکار ہوئے، کیونکہ انہوں نے باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہیں کئے بغیردینی مسائل میں بھی بولنا شروع کیا، اور ان میں آپ کا مسلک اہل حدیث حضرات سے قریب تھا، لہذا علمائے دین کا سواد اعظم آپ سے دور رہا پھر شاید آپ کو اس کا احساس ہوا، مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی جیسی معتبر شخصیات نے آپ کی رہنمائی کی، اور ان کے پروگراموں میں شریک ہوکر انہیں اعتبار بخشا۔ اب ان کی باتوں میں متنازع فیہ موضوعات کافی کم ہوگئے ہیں۔
ابھی ڈاکٹر صاحب زیادہ مشہور نہیں ہوئے تھے تو دبی آمد کے موقعے پر ہمارے ایک دوست آپ کو مذہب شافعی کےمعتبر عالم دین وفقیہ شیخ محمد علی خالدی سلطان العلماء علیہ الرحمۃ کے پاس لے گئے تھے، ہمارے اس ساتھی نے جب آپ کے تعارف میں بتایا کہ آپ شیخ دیدات کے جانشین ہیں، تو شیخ صاحب نے فرمایا کہ میں انہیں عالم دین نہیں مانتا، کیونکہ انہوں نے علم دین باقاعدہ نہیں پڑھاہے، آپ بتائیں کہ آپ نے اساتذہ سے کتنا علم دین حاصل کیا ہے، تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے چند ماہ کا کورس کیا ہے، تو شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس طرح علم دین پر عبور حاصل نہیں ہوا کرتا۔ ہمیں دیکھئے ہم نے دسیوں سال تفسیر ، حدیث وفقہ کی کتابین سلسلہ وار اپنے اساتذہ سے پڑھی ہیں، لہذا آپ کبھی خود کو عالم دین کی حیثیت سے پیش نہ کریں۔
۔ ہمارے خیال میں ڈاکٹر صاحب متوسط طبقہ کے سامعین کے لئے مفید ہیں، یہ طبقہ علم وفلسفہ کی گہرائیوں میں نہیں جاتا، سادہ سے انداز سے قرآن کی چند آیتیں، اور چند حدیث کی عبارتیں، یا بائبل اور وید کے چند اشلوک سنانے سے سمجھ جاتا ہے۔ اورانہیں پیش کرنے کے انداز کا تعلق علم فہمی سے زیادہ مخاطب کی نفسیات سے ہوتا ہے۔
۔ ڈاکٹر صاحب نے چند آیتوں، حدیثوں اور کتب مقدسہ کی عبارتوں کو ازبر کرکے بروقت پیش کرنے کا جو طریقہ اپنا یا ہے یہ بہت مفید ہے،الکمال للہ۔
مولانا ندیم الواجدی صاحب ایک عظیم شخصیت
مضمون نگار: مولانا محمد عمران قاسمی بگیانوی
/channel/ilmokitab
بھی تجربہ کار لوگوں کے پاس بیٹھنے اور ان کے ماضی کے احوال سننے کا بڑا شوق ہے۔
اسی طرح ایک دن مولانا نے بتایا کہ جب دارالکتاب ابتدائی مراحل میں تھا، تو ایک دن استاذ گرامی حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کی خدمت میں حاضری ہوئی، ان سے پوچھا کہ تدریس اور تجارت میں سے مجھے کس ڈگر پر چلنا چاہیے؟ استاذ گرامی نے فوراً کہا جس روش (تجارت و صحافت) پر ہو اسی پر رہو، وہی تمھارے لیے بہتر ہے۔مولانا مرحوم نے مجھ سے بتایا کہ میں اس مجلس سے اٹھا تو دل کو ایک اطمینان اور شرح صدر کی کیفیت حاصل ہوئی اور پھر کبھی کسی پس و پیش میں مبتلا نہیں ہوا۔
والد گرامی کی وفات
16 جون 2023ء کو جب والد گرامی کی وفات ہوئی تو اس پر مولانا ندیم الواجدی صاحب نے نہایت تسلی بخش جملے کہے، اس کے بعد بارہا ان سے ملاقاتیں ہوئیں، جب میں نے ان کے سامنے والد گرامی کی سوانح مرتب کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو بہت خوش ہوئے۔راقم کی ایماء پر والد گرامی سے متعلق ۱۱؍صفحات پر مشتمل ایک وقیع و مفصل مضمون بھی تحریر فرمایا، کچھ دنوں بعد ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ بہت دنوں سے شخصیات پر کچھ لکھا نہیں تھا، جب سے تمہارے والد صاحب پر لکھا ہے اُس دن سے مضمون کے کئی مطالبات پورے کر چکا ہوں۔ تمہارے والد صاحب والا مضمون میرے سوانحی و تأثراتی تحریروں کے اگلے مجموعہ ’’خدا بخشے‘‘ میں ضرور شامل ہوگا۔ واضح ہو کہ مولانا ندیم الواجدی صاحب کی سوانحی تحریرات کا پہلا مجموعہ ’’خدا رحمت کند‘‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے۔
والد گرامی پر مضمون کے اہم اقتباسات
والد گرامی پر اُن کے مضمون کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں :
’’دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز اور قابل فخر فرزند، درسِ نظامی کے عظیم اور قدیم مدرس، اُردو اور عربی زبانوں کے بےمثال خطیب اور قلم کار سب سے بڑھ کر یہ کہ انتہائی خلیق، متواضع اور ملنسار انسان مولانا محمد اسلام قاسمی بھی دنیا سے رخصت ہوگئے، وہ ایک لمبے عرصے سے بیمار تھے، لقوہ اور فالج سے ان کا جسم تقریباً مفلوج ہوچکا تھا، زبان تک متأثر تھی، کئی مرتبہ ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت والے شعبے میں بھی داخل رہے، لیکن کوئی علاج کارگر نہ ہوسکا، بالآخر اپنی عمر کے ستر سال پورے کرکے اُس عالم کی طرف سدھار گئے جہاں سب کو جانا ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہ طویل بیماری ان کے لیے کفارۂ سیئات اور رفع درجات کا سبب بنے گی۔‘‘
’’ ---------اس وقت ’’الداعی‘‘ پندرہ روزہ تھا اور بڑے سائز میں چھپا کرتا تھا، اس کی کتابت اور تزئین کا تمام کام مولانا مرحوم کے ذمے تھا، مولانا اسلام قاسمی تخلیقی ذہن رکھتے تھے، اس لئے ’’الداعی‘‘ میں ان کی خطاطی کے دل کش نمونے جا بہ جا بکھرے نظر آتے تھے، عربی زبان وادب کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہم بھی الداعی کے مستقل قاری تھے اور ان کی خطاطی کے نمونوں سے حظ اٹھاتے تھے۔‘‘
’’---------دوسری شخصیت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کی ہے، دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم، بزرگوں کی یادگار، بے مثال خطیب، باکمال مصنف، حسن انتظام میں اپنی مثال آپ، بے پناہ خوبیوں کے مالک، افسوس بعض طالع آزماؤں نے ان کی قدر نہ کی، اور عمر کے آخری حصے میں ان کو ذہنی اذیتیں دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، مولانا اسلام قاسمیؒ نے پہلی مرتبہ احاطۂ دار العلوم میں ان کو دیکھا تو گرویدہ ہوگئے، لکھتے ہیں کہ ’’میں پہلے ان سے متأثر ہوا، پھر ان کا معتقد ہوگیا‘‘، حضرت حکیم الاسلام کی ذات گرامی سے اعتقاد اور تعلق خاطر کا یہ سلسلہ ان کی زندگی تک بلکہ خود اپنی زندگی تک اسی طرح برقرار رہا، انہوں نے حضرت والاؒ پر متعدد مضامین سپرد قلم کئے اور ان کو ایک مجموعے کی شکل میں شائع بھی کیا، حضرت کی وفات کے بعد مولانا اسلام قاسمی نے اپنے عربی ماہ نامے ’’الثقافہ‘‘ کا ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کیا جو معمول سے کئی گنا ضخیم تھا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ عربی زبان میں یہ پہلا مجموعۂ مضامین تھا جو حضرت حکیم الاسلامؒـ کی شخصیت، خدمات اور کارناموں پر شائع ہوا۔‘‘
’’ ۱۹۸۲ء میں دار العلوم دیوبند اصحاب سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا، اور دو ٹکڑوں میں تبدیل ہوگیا، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کو سبک دوش کردیا گیا، ان کے ساتھ دار العلوم دیوبند کے پچاسی مدرسین اور ملازمین باہر آگئے، ان میں مولانا اسلام قاسمیؒ بھی تھے، ان کے سینئر مولانا بدر الحسن قاسمی دربھنگوی کویت چلے گئے، مولانا اسلام قاسمی بھی ایسا ہی کوئی قدم اٹھا سکتے تھے، لیکن حضرت حکیم الاسلامؒ کی عقیدت ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی، اکثر ملازمین اور مدرسین جو حضرت قاری صاحبؒ کے ساتھ دار العلوم دیوبند سے باہر آگئے معاشی بدحالی کا شکار ہوئے، مگر مولانا اسلام قاسمی کو اللہ نے جس فن سے نوازا تھا اس نے ان کی دست گیری کی، دیوبند جیسی جگہ پر جہاں قدم قدم پر کتب خانے اور چھاپے خانے ہیں کوئی ماہر فن خطاط معاشی مشکلات کا شکار ہو بھی نہیں سکتا تھا، دار العلوم کے حالات کا مولانا کے ذہن پر بڑا اثر تھا، اپنے اس
ہوتا، دارالعلوم چوک چوں کہ دیوبند کا مصروف ترین علاقہ ہے، یہیں پر دارالعلوم کا مہمان خانہ بھی واقع ہے، تو کوئی نہ کوئی مولانا کے ارد گرد ضرور نظر آتا۔ان کی شخصیت بھی کثیر الجہات تھی، کتب خانے کے ملازمین ہوں یا شہر کی کوئی معزز شخصیت، طلبۂ مدارس ہوں یا اساتذہ، ملی رہنما ہوں یا کوئی عام آدمی، وہ ہر ایک کی دسترس میں تھے،سہل الاستفادہ و کثیر الافادہ تھے۔ ملازمین و خریداران ان سے کتابوں کی تفصیلات معلوم کرتے وہ ان کی زبان پر ہوتیں، کوئی معزز شخصیت سامنے جلوہ افروز ہو تو گفتگو میں متانت و سنجیدگی، طلبہ ان سے عموماً مضمون نگاری میں ماہر بننے کے گر معلوم کرتے، کوئی تحریری مسابقہ چل رہا ہوتا تو عنوان کے مراجع کی نشاندہی کی درخواست کرتے، اساتذہ ان سے درسی کتب کا انداز تدریس پوچھ رہے ہوتے بالخصوص عربی زبان و ادب کے تعلق سے ان کے ہر ہر جملے کو محفوظ کر رہے ہوتے، ملی رہنما و قائد کے سامنے ملکی و ملی مسائل پر اپنے طویل تجربات اور وسیع مطالعے کی روشنی میں تبادلہ خیال فرماتے، کوئی اخباری نمائندہ سامنے ہوتا تو مشکل سے مشکل اور حساس و پیچیدہ مسائل پر اس طرح اپنی رائے دیتے کہ سامنے والا چاہ کر بھی کوئی کمزور پہلو نہ نکال پاتا۔
ماہنامہ ’’ترجمانِ دیوبند‘‘
خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں ماہنامہ ’’ترجمانِ دیوبند‘‘ کا بڑا شہرہ تھا۔موبائل کی مضر صحبت سے لوگ محفوظ تھے۔ با ذوق افراد اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے، بالخصوص دیوبند سے باہر اس کی بڑی مقبولیت تھی، رسالے کے بیشتر مضامین مولانا مرحوم کے گہربار قلم سے ہی نکلے ہوتے، تاہم بسا اوقات وہ دیوبند کے کچھ نوجوان فضلاء کی تحریر بھی اس میں شائع کرتے، غالباً ان کے پیش نظر مضمون نگار کی حوصلہ افزائی رہتی ہوگی۔راقم کا بھی ایک مضمون حضرت مولانا مفتی مشتاق احمد قاسمی استاذ تفسیر دارالعلوم وقف دیوبند کی شخصیت سے متعلق مولانا مرحوم نے اپنے ماہنامہ میں شائع کیا تھا۔
راقم کو مولانا کی کچھ نصیحتیں
جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند سے راقم جب بطور مدرس وابستہ ہوا تو گرافکس ڈیزائننگ کو بھی اپنی مصروفیات کا لازمی حصہ بنایا، کہ اول الذکر خدمت دین کا ذریعہ ہے اور ثانی معاشی سہارے کا۔دیوبند کے مختلف کتب خانوں سے ان دنوں رابطے کیے، کچھ نے حوصلہ افزائی کی، کچھ نے ٹال دیا، جب کہ بعض نے مکمل انٹرویو ہی لے ڈالا۔ہم (راقم اور شاہ عالم قاسمی جو اُن دنوں ڈیزائننگ کے کام میں میرے شریک کار تھے، اب بفضل الٰہی النور اسلامک اکیڈمی دیوبند کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں، طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس ادارے سے استفادہ کر رہی ہے) مولانا مرحوم کے مکتبہ پر بھی پہنچے اور ان سے ڈیزائن کا کام مانگا۔انھوں نے فورا کچھ ٹایٹل (کتابوں کے سرورق) ہمیں دیے، ڈیزائن فائنل ہونے کے بعد مولانا نے کہا ان ٹائٹل کو جلد از جلد چھپوا دیں۔چوں کہ ہم اس میدان میں ابھی نئے تھے اور پرنٹنگ کا کام دہلی میں ہوتا تھا، ابھی ہمارے روابط اتنے مستحکم نہ تھے کہ فقط ہمارے قول پر اعتماد کرتے ہوئے ہزاروں کا کام ہو جائے اور رقم بعد میں ادا ہو، ہم تو ایسے موقع پر رقم ایڈوانس لیتے اور ٹائٹل طبع کرا کر دے دیتے۔اسی کے پیش نظر ہم نے مولانا مرحوم سے ایڈوانس رقم کا مطالبہ کیا اور پوری تفصیل ان کے گوش گزار کی۔اس موقع پر ان کی مشفقانہ اصول پسندی کا ہم نے مشاہدہ کیا، انھوں نے فرمایا:
’’بھائی بدر! کوئی بھی کام ایسے نہیں ہوتا، روپیہ روپیہ کو کھینچتا ہے، کام کرنے کے لیے پہلے خود کا سرمایہ لگانا ہوتا ہے، پھر اس میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرماتے ہیں۔تم از خود رقم لگاؤ، اگر اتنی رقم نہیں ہے تو کہیں سے نظم کرو، ہماری جانب سے پیمنٹ کی کوئی فکر نہ کرو، جس دن ٹائٹل طبع ہو کر آئے اسی دن اپنی مکمل رقم لے کے جانا۔‘‘
معاملات میں کھرے
واقعی ان کی یہ نصیحت ہمیں مستقبل میں بہت کام آئی اور پھر ایک طویل زمانے تک ہم نے دارالکتاب کی یہ خدمت انجام دی، اس دوران مولانا مرحوم سے بارہا گفتگو کا موقع ملا، انھیں قریب سے دیکھا اور پرکھا، بات چیت میں انھیں بےتکلف اور کھرا پایا، وہ ہم خردوں سے بھی برادرانہ انداز میں گفتگو کرتے، ماضی کے واقعات سناتے۔معاملات میں وہ نہایت کھرے تھے، اِدھر کام ہوا اور اُدھر اجرت آپ کی جیب میں، شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ کسی کو ان کے دور میں دارالکتاب سے واجبی رقم وصولنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔یہی معاملات ان کے اپنے ملازمین کے ساتھ بھی تھے۔مشہور تھا کہ انھوں نے کبھی کسی ملازم کو از خود برخاست نہیں کیا، اگر کبھی کوئی علاحدہ بھی ہوتا وہ اس کا اپنا فیصلہ ہوتا۔
چالیس سال میں کبھی تنخواہ میں تاخیر نہیں!
ان کی وفات پر منعقد دیوبند میں ایک تعزیتی اجلاس کے بعد ان کے معتمد خاص بھائی عامل صاحب (رکن اساسی دارالکتاب) نے مجھ سے بتایا کہ تقریباً چالیس سالوں سے ان کے ساتھ کام کیا، اس دوران کبھی بھی تنخواہ ایک دن بھی تاخیر سے نہیں ملی، بلکہ اگر پہلی تاریخ اتوار کو ہوتی تو وہ ہفتے کے روز ہی اس فریضہ سے سبکدوش ہو
سلسلہ نمبر: 219
انتخاب مطالعہ
تحریر: *فؔتح ﷲ گولنؒ*
*آپﷺکو ہر معاملے میں درجۂ کمال حاصل تھا*
بعض لوگ خاص میدانوں میں صف اول کے لوگوں میں شامل ہوتے ہیں ؛ لیکن زندگی کے دیگر شعبوں میں ہم انہیں پچھلی صفوں میں پاتے ہیں، چنانچہ ہم میدان جنگ کے کامیاب سالار کو دیکھتے ہیں کہ جنگی فنون میں چاہے اسے کتنی ہی مہارت حاصل کیوں نہ ہو وہ بعض اوقات شفقت، نرم دلی اور فہم میں ایک معمولی چرواہے کے مرتبے کو بھی نہیں پہنچ پاتا ؛ بل کہ اس کے برعکس قتل کا عادی ہونے کی وجہ سے عام طور پر ایک رحم دل انسان ثابت نہیں ہوتا،اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کثرت سے جنگ و قتال میں مصروف رہنے کی وجہ سے اس کے احسانات و جذبات کی لطافت و حساسیت ختم ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ کسی انسان کو قتل کرتے وقت کسی قسم کے رحم کے جذبات کو محسوس نہیں کرتا ۔
بعض اوقات ایک سیاست دان سیاست کے میدان میں جس قدر کام یاب ہوتا ہے، سچائی سے اسی قدر دور ہوتا ہے اور بعض اوقات تو انسانی حقوق کی بھی پاسداری نہیں کرتا، سیاست کے میدان میں کام یابی کے باوجود سچائی و مروت سے دوری اس بات کی دلیل ہے کہ بعض اوقات ایک حیثیت سے رفعت اور دوسری حیثیت سے پستی بیک وقت پائی جاتی ہیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے بعض انسان اثباتی فلسفے (positivism) سے متاثر ہوکر ہرچیز پر تجربات کرنے لگتے ہیں ؛ لیکن روحانی اعتبار سے بالکل صفر ہوتے ہیں ؛ بل کہ بعض لوگ عقلی اعتبار سے ماؤنٹ ایوریسٹ کی چوٹی کو چھو رہے ہوتے ہیں ؛ لیکن روحانی اعتبار سے بحر مردار (جس میں قوم لوط غرق ہوئی تھی) کی پستیوں میں گرے پڑے ہوتے ہیں،کتنے ہی لوگوں کی عقل ان کی آنکہوں میں آجاتی ہے،جس کے نتیجے میں انہیں مادی چیزوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، وہ الہامی حکمت کے سامنے احمقوں کی طرح حیران کھڑے رہتے ہیں اور ان کی آنکھیں حقیقت کو دیکھنے سے محروم ہوجاتی ہیں ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگ خاص خاص میدانوں میں کامیابی حاصل کرتے ہیں،تو دیگر زیادہ اہم شعبوں میں ناکام بھی رہتے ہیں، گویا انسان میں موجود متضاد صفات ایک دوسرے کے خلاف کام کرتی ہیں،جب ایک صفت میں وسعت و قوت پیدا ہوتی ہے تو دوسری صفات سے اس کو نقصان پہنچتا ہے اور جب ایک صفت میں نشو نما ہوتی ہے تو دوسری صفات ضعف کا شکار ہوجاتی ہیں۔
لیکن رسول ﷲﷺکی شخصیت میں یہ بات نہیں پائی جاتی ؛ آپؐ جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شفیق بھی تھے، ماہر سیاست ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی با مروت اور با ضمیر بھی تھے،مادی اور تجرباتی امور کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ روحانیت میں اعلٰی ترین مقام پر فائز تھے، جنگ احد و غیرہ کے واقعے میں اس کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں .......
( *محمد نور سرمدی فخر انسانیت، صفحہ: 334، طبع: ہارمنی پبلیکیشنز، اسلام آباد*)
مترجم: محمد اسلام
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
پاکر عرض کیا کہ میرا خیال ہے کہ علی احمد کی زبان سے آپ کی شان میں کوئی لفظ نکل گیا، اس طوفان بے تمیزی میں کچھ بعید نہیں کہ ان پر جذباتیت غالب آئی ہو اور ناگفتنی کا ارتکاب کیا ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے ، ’’من اٰذیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب‘‘ اور آپ تو ان کے محسن اور مربی بھی تھے،سید صاحب نے اس کے جواب میں تواضع اور فروتنی کے الفاظ فرمائے اور کہا کہ میں کیا چیز ہوں میں نے دوبارہ عرض کیا اور دعا کی درخواست کی ، سید صاحب نے اس پر سکوت فرمایا، دوسرے یا تیسرے دن مجھ سے فرمایا کہ مولوی علی صاحب میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کردی، اب اس واقعہ کو سید صاحب کی کرامت سمجھا جائے یا اس کو کسی اور بات پر محمول کیا جائے کہ عزیز موصوف بالکل اچھے ہوگئے، اور جہاں تک مجھے علم ہے یہ دورہ پھر کبھی نہیں پڑا ، افسوس ہے کہ یہ شعلۂ مستعجل بالکل نو عمری میں ۱۹۵۰ء میں گل ہوگیا۔
(پرانے چراغ، ج:۱ ، ص: ۳۵)
حضرت سید صاحب ؒ مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے نام ایک خط میں اس حادثہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
جو شخص اس فتنہ کا بانی ہے۔ چند ماہ پہلے تک میں نے ہمیشہ اس پر بھروسہ کیا، بڑھایا اور توقعات قائم کیں ، لیکن دفعتہ تھانہ بھون کی نسبت کے بعد اس نے [؟وہ] ایسے طریقے سے حملہ آور ہوا جو میرے گمان میں بھی نہ تھا، ان کی گربہ مسکینی جو مجھ پر سالہا سال تک ذریعہ شفقت ومحبت بنی رہی۔ ۱۰؍ اگست ۱۹۴۳ء [مولانا عبدالماجد صاحب حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں :یہ اشارہ غالباً ایک ایسے ندوی کی طرف ہے جو بعد کو پاکستان چلے گئے تھے اور وہیں اب کئی سال ہوئے کہ ان کا انتقال ہوگیا اس وقت طلباء میں ممتاز تھے ۔ عبدالماجد]
(مکتوبات سلیمانی، ج:۲ ، ص: ۱۴۰)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سلسلہ نمبر: 218
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مولانا امین اؔصلاحیؒ*
*داعیٔ حق کی ذمہ داری*
ایک داعی حق کے کام کی صحیح مثال ایک دؔہقان کے کام سے دی جاسکتی ہے، جس طرح اس کا مقصد صرف اتنی سی بات سے حاصل نہیں ہوسکتا کہ کچھ بیج کسی زمین میں ڈال کر فارغ ہو بیٹھے،اسی طرح ایک داعیٔ حق کا کام بھی صرف اتنے سے انجام نہیں پاسکتا کہ وہ لوگوں کو کچھ وعظ سنا کر سو رہے ؛ بل کہ اس کے مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر اپنی پھیلائی ہوئی دعوت کے ساتھ وہی لگاؤ ہو جو ایک فرض شناس کسان کو اپنے بوئے ہوئے بیج کے ساتھ ہوتا ہے،جس طرح کسان نگرانی کرتا ہے کہ بیج زمین میں جڑ پکڑے،اس کو صحیح وقت پر پانی ملے، موسم کی ناسازگاریوں سے محفوظ رہے،صحیح طور پر نشو نما پائے،بیگانہ سبزے اس کی ترقی میں مزاحم نہ ہوں، فضا کے پرندوں اور زمین کے چرندوں کی تاخت سے وہ سلامت رہے اور جب ایک مدت تک اس دھن میں اپنے دن کے اطمینان اور رات کے سکون کو وہ درہم برہم رکہتا ہے،لگاتار محنت اور مسلسل نگہداشت کرتا ہے،تب جاکر کہیں اپنی محنت کا پھل پاتا ہے،اسی طرح ایک داعیٔ حق کو بھی اسی صورت میں پھلتے پھولتے دیکھنا نصیب ہوتا ہے،جب وہ دعوت کے ساتھ ساتھ تربیت کی جانکاہیوں کے ایک طویل سلسلے کو جھیلنے کی قابلیت اور ہمت رکھتا ہو،ورنہ جس طرح ایک غافل کسان کے بوئے ہوئے بیج زمین اور موسم کی بے مہریوں اور چرند پرند کی ترکتازیوں کی نذر ہوجاتے ہیں، اسی طرح ایک داعی کی دعوت بھی صدا بصحراء ہوکے رہ جاتی ہے۔
( *دعوت دین کی اہمیت اور اس کے تقاضے،صفحہ: 32، طبع: دعوت اکیڈمی،اسلام آباد*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
*بات سے بات: فتح اللہ گولن ، ہیرو یا ویلن*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
آج ترک مفکر وداعی فتح اللہ گولن کی وفات کی خبر پر ہماری اس بزم علم وکتاب میں منفی و مثبت ، تائید ومخالفت دوںوں انداز کے تبصرے موصول ہوئے ہیں، ان تبصروں پر ہمیں کچھ کہنا نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ممبران اہل علم ہیں وہ خود کسی نتیجہ پہنچنے کی صلاحیت ہم سے بہتر رکھتے ہیں۔ باوجود اس کے اس تعلق سے اپنے بھی چند تاثرات بیان کرنے میں حرج نہیں۔
۔ کسی تحریک کے مثبت یا منفی پہلؤوں پررائے قائم کرنے سے پہلے ان تحریکوں کے آغاز اور ان کے وابستگان پر گذرنے والے حالات کا غیر جذباتی اور سنجیدہ انداز سے تجزیہ ہونا ضروری ہے۔
۔ برصغیر میں ایک بڑی اور موثر تحریک گذری ہے جو مہدوی تحریک کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے، اس کے بانی محمد جونپوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بڑے مخلص اور پابند شریعت انسان تھے۔ اور مغلیہ دور سلطنت میں پنپنے والی بدعات اور خرافات اور ظلم وزبردستی کے خلاف یہ ایک اصلاحی تحریک تھی، لیکن اس کے ماننے والوں پر اتنا ظلم وتشدد ہوا کہ اس تحریک کی شبیہ ہی بدل گئی، اور آہستہ آہستہ یہ تحریک گمراہی کے دلدل میں پھنستی چلی گئی، اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے مغلوں اور مسلمان سلطنتوں کے مقابلے میں انگریزوں کا ساتھ دیا، اور اس کے بدلے میں انہیں جائدادیں اورجاگیریں ملیں، کوئمبتور کے قریب پالگھاٹ میں ان کی ایک آبادی اورمسجد دیکھنے کو ملی، سننے میں آیا کہ ٹیپو سلطان کے خلاف ان کے آباء واجداد نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا، اور یہ آبادی اس زمانے میں ان کی چھاونی تھی۔
۔ ہمیں یہ بات فتح اللہ گولن کی وفات پر یاد آئی، دراصل ہم برصغیر کے مسلمان جذباتی اور شخصیت پرست واقع ہوئے ہیں، ہم بڑے لوگوں کو ان کی لغزشوں سمیت قبول کرتے ہیں، ہم ان کی غلطیوں کو بھی اچھائی سمجھتے ہیں، اور ان کے دفاع میں اپنی جملہ توانائیاں صرف کرنے کو نیکی، لہذا انصاف کا دامن ہمارے ہاتھوں سے بار بار چھوٹ جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ، اردوگان اور گولن پر ہمارے پڑھے لکھوں کے تبصروں سے ان دانشوران اور اہل علم کا یہی رویہ سامنے آتا ہے۔
۔ سلطنت عثمانیہ ہویا گولن اور اردوگان ان پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ترکی قوم بنیادی طور پر قوم پرست واقع ہوئی ہے، یہی صورت حال سلطنت عثمانیہ کے دور میں خاص کر آخری دور میں بھی تھی، طورانی تحریک اسی دور میں شروع ہوئی تھی، اس وقت عراق، شام، اور لبنان کی حیثیت باجگذار قوموں جیسی تھی، ان ممالک کی اس دور میں دفتری زبان عربی کے بجائے ترکی تھی، پریس پر سخت سنسرشپ عائد تھی، اور جمال پاشا جیسے عثمانی گورنر مخالفین کے خلاف سولیاں گاڑے ہوئے تھے، عرب قوم پرستی کی تحریک کچھ یوں ہی کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ ممکن ہے ترکوں کے سلسلے میں اطلاعات میں کچھ مبالغہ آرائی ہوئی ہو، لیکن آواز تالی کے بجے بغیر نہیں آتی ہے۔
۔ اردوگان کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، وہ قوم پرست ترک ہیں، انہوں نے کردی شناخت ختم کرکے اس علاقے کو غیرفوجی بفر زون علاقہ بنانے کی غرض سے شام کے سنیوں کو حکومت کے خلاف ابھارا، اور خود کو بشار الاسد حکومت کا شدید دشمن ثابت کرنے کے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ہمیں اچھی طرح یاد ہے اس وقت فلسطینی صحافی عبد الباری عطوان نے لکھا تھا کہ آپ اردوگان کی بشار سے سخت دشمنی کے اظہار پر نہ جائیں، اردوگان حکومت کا سیاسی مفاد ہوگا تو چند دنوں میں بشارسے گلے ملتے ہوئے اسے آپ دیکھیں تو تعجب نہ کریں۔ اور حالات نے عطوان کی ایک عشرے پہلے کہی ہوئی بات کو درست ثابت کردیا۔
۔ آج فتح اللہ گولن سے ہماری ناراضگی کی بنیادی وجہ اردوگان سے ان کے اختلافات ہیں۔ہم اردوگان کو ہیرو سمجھتے ہیں لہذا اس کے میڈیا کی تمام باتوں کو درست سمجھ کر گولن کے خلاف نتھنے پھلا ئے رہتے ہیں، ہمارا یہ انداز فکر درست نہیں ہے، ہمیں کوئی رائے قائم کرتے ہوئے مسئلہ کے تمام پہلؤوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا﴾
یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ اور کمال مصطفی اتاترک کے ترکیہ پر مکمل قبضے کے بعد یہ ناممکن تھا کہ کوئی دینی فکر کا شخص سیاسی میدان میں داخل ہو، اور وہ اسلامی نظام حکومت کی طرف دعوت دے، اس وقت بدیع الزمان نورسی نے سیاست سے خود کو دور رکھا، اور اس سے نفرت اور تصوف سے محبت کو اپنی دعوت کا شعار بنایا،اس پالیسی سے نورسی کو اپنی دعوت پھیلانے میں بڑی مدد ملی، ، نورسی کوئی بہت بڑے عالم و فقیہ نہیں تھے، برصغیر کے قدیم بزرگان دین کی طرح احادیث و آثار پر ان کی دسترس کمزور تھی، لیکن ان کے فکر وتدبر کی صلاحیت خدا داد تھی، ہمارے برصغیر میں مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کو اگر تصوف کا تڑکا لگتا تو شاید فکر وتدبر میں نورسی ان کی مثال ہوتے۔