علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
نام کتاب: مرآۃ العاشقین
ملفوظات: خواجہ محمد شمس الدین سیالوی رحمہ اللہ مؤلف: سید محمد سعید سیالوی
ترجمہ: پیر محمد معظم الحق معظمی
ناشر: خانقاہ معظمیہ، معظم آباد۔ ضلع سرگودھا، پاکستان۔
اشاعت اول: 1885ء
اشاعت دوم: 2024ء
صفحات: 315
/channel/ilmokitab
حضرت شمس العارفین خواجہ محمد شمس الدین سیالوی رحمہ اللہ کی پیدائش 1799ء میں سیال شریف میں ہوئی ۔قسمت نے یاوری کی تو آپ تونسہ شریف میں حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی رحمہ اللہ کی زیارت اور نسبت سے مشرف ہوئے۔ آپ 6 جنوری 1883ء میں دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے۔
آپ کی مجالس سے استفادہ کرنے والوں میں ایک سعادت مند بزرگ سید محمد سعید رحمہ اللہ بھی تھے، انہوں نے اہتمام اور دل چسپی کے ساتھ آپ کے ملفوظات کو جمع کیا جو اسی نام سے پہلی بار فارسی میں آج سے مدت پہلے شائع ہوئے۔
اب اس کا اردو ترجمہ جناب پیر محمد معظم الحق معظمی، سجادہ نشین خانقاہ معظمیہ، معظم آباد، ضلع سرگودھا کی محنت سے شائع ہوا ہے،جسے شائع کرنے کا شرف بھی اسی خانقاہ کو حاصل ہو رہا ہے۔
ہمارے ہاں ہندوستان اور پاکستان میں بزرگوں سے وابستہ خانقاہوں کی تعداد شمار سے باہر ہے، لیکن ان میں چیدہ چیدہ خانقاہیں ہی اسلاف کی یادوں کو روشن کرنے میں مصروف ہیں۔ خصوصا ان کے علمی تراث کو محفوظ کر کے آگے منتقل کرنے کا فریضہ انجام دینے والی خانقاہوں کو شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر بھی آسانی سے گنا جا سکتا ہے۔ان حالات میں کسی بھی خانقاہ سے کوئی ایسی خدمت سامنے آتی ہے تو دل خوش ہوتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کا تعارف بڑے حلقے تک پہنچانے میں اپنا حصہ شامل کیا جائے۔
اس کتاب کا پہلے پہل تذکرہ سماجی روابط کے کسی نیٹ ورک پر دیکھنے کا موقع ملا تھا، وہیں ہم نے اپنے اشتیاق کا اظہار کیا تو ایک اور بزرگ زادے جناب صاحب زادہ قمر الحق، جامعہ محمد شریف نے یہ قیمتی کتب عنایت فرمائی اور دستخط کے ساتھ یہ نسخہ ڈاک کے توسط سے عطا فرمایا۔ ان کی عنایت ہے۔خدا انہیں سلامت با کرامت رکھے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ کتاب ملفوظات پر مشتمل ہے اور اس میں مرتب نے بزرگ وار محترم کی 40 مجالس ذکر کی ہیں، جن میں متفرق علمی اور صوفیانہ مباحث بیان کیے گئے ہیں۔ہمارے ہاں عام طور پر تصوف کو شریعت کے بالمقابل سمجھا جاتا ہے، جس کا ایک بڑا سبب تصوف کے بعض وابستگان کی جانب سے عمومی دینی تعلیمات سے عدم واقفیت اور ان کے عمل میں علانیہ کوتاہی ہے۔ صاحب ملفوظات عبادت کے حوالے سے کیا کہتے ہیں دیکھیے،مرتب کا بیان ہے: بندے نے عرض کیا کہ بعض جاہل صوفی اللہ تعالی کی عبادت خصوصا نماز روزے سے محروم رہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اہل عرفان کا عبادت سے کیا تعلق؟ معرفت اور چیز ہے عبادت اور چیز۔ خواجہ شمس العارفین رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ تمام انبیائے کرام اور اولیائے صالحین اول سے آخر تک اللہ کے اس فرمان کے مطابق عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
ومخلقت الجن۔۔۔ (الذاریات: 56)
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اور وہ اللہ کے فرمان کے بہ موجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے ایک بال کے برابر بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔(ص: 145)
ایک اور مقام پر بولنے اور خاموش رہنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ علما کے لیے بولنا افضل ہے اور درویش کے لیے خاموش رہنا افضل ہے، کیوں کہ قیامت کے دن ہر ایک سے اس کے اعمال کے متعلق سوال ہوگا، علما سے علم سکھانے کے متعلق سوال ہوگا اور صوفیہ سے خاموشی اور پردہ پوشی کے متعلق سوال ہوگا۔(ص: 188)
کتاب نہایت سلیقے سے جلی اور روشن طباعت کے ساتھ عمدہ کاغذ پر شائع ہوئی ہے۔ سرورق بھی جمالیاتی ذوق کا آئینہ دار ہے اور جلد بھی مضبوط ہے۔ تصوف اور صوفیہ کے ملفوظات سے دل چسپی رکھنے والے حضرات کے لیے یہ کتاب ایک نہایت قیمتی تحفے کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام کرنے والے تمام حضرات تحسین و تبریک کے مستحق ہیں۔
سید عزیز الرحمن
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سلسلہ نمبر: 217
انتخاب مطالعہ
تحریر: *سید سعادت ﷲ حؔسینی*
*سوشل میڈیا اسلام اور مسلمان*
انٹرنیٹ کے شروع کے سالوں میں مسلمانوں نے انٹر نیٹ پر تیزی سے اچھی جگہ بنالی تھی، گزشتہ دہے کے ختم تک بھی کئی اسلامی سائٹس دس مقبول ترین مذہبی سائٹس میں شامل ہوتی رہی ہیں،اسلامی تحریک سے وابستہ نوجوانوں نے بھی انٹرنیٹ پر فعال سرگرمی شروع کردی تھی ؛ لیکن پھر اس کے بعد منظر نامہ تیزی سے بدلنے لگا،انٹرنیٹ پر نہایت متعصب اسلام دشمن سائٹس بڑے وسائل کے ساتھ سرگرم ہونے لگیں،آج صورت حال یہ ہے کہ: اسلام سے متعلق کسی بھی موضوع کو آپ سوچ کرتے ہیں تو بڑی تعداد میں پہلے صفحے پر اسلاموفوبک سائٹس ہی نظر آتی ہیں، نیوز پیپر، ڈسکشن فورم یا سوشل میڈیا میں اسلام سے متعلق کوئی بھی موضوع چھڑتا ہے تو آنا فانا شدید مخالفانہ پوسٹوں کا سیلاب آجاتا ہے،مغلظات اور گالی گلوچ سے لے کر سنجیدہ ؛ لیکن سخت تنقیدوں تک ہر سطح کی مخالفانہ پوسٹ آنے لگتی ہیں،یہ صورتحال عالمی سطح پر بھی ہے اور ہمارے ملک میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کام کے لیے منظم نیٹ ورک لگے ہوئے ہیں،اس کے مقابلے میں اہل اسلام کی سوشل میڈیا سرگرمی کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر درج ذیل اقسام سے متعلق ہے:
1) *غیر سنجیدہ سرگرمی*: یہ وہ لوگ ہیں جو لطیفے عام تصویریں وغیرہ پوسٹ کرتے ہیں،اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، آپ کی مصروفیات میں خلل ڈالتے رہتے ہیں اور ڈاٹا مائنرز کو فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔
2) *فارورڈ سرگرمی:*
یہ لوگ ہر پوسٹ کو ہر جگہ فارورڈ کردنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور اکثر پوسٹ دیکھے بغیر اور پڑھے بغیر بھیجتے رہتے ہیں،لگتا ہے ان کی انگلیاں فارورڈ بٹن پر جام ہوگئ ہیں،تمام سوشل نیٹ ورکس کے لیے یہ سر درد ہیں۔
3) *معذرت خواہانہ سرگرمی*: اب ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئ ہے جو اسلام پر چوطرفہ حملوں سے پریشان ہوکر معذرت خواہانہ اور مدافعانہ انداز اختیار کرنے لگے ہیں،اسلام کے بنیادی اصولوں پر سیریس مصالحت، حد سے زیادہ مرعوبیت اور مداہنت اس رد عمل کی نمایاں خصوصیات ہیں،ان کی مضحکہ خیز سطح کی معذرت خواہی اسلام کے وقار کو مجروح کرتی ہے،اسلام مخالفین کے تاثر کو مستحکم کرتی ہے اور اسلام کی دعوت کے کام کو نقصان پہنچاتی ہے۔
4) *انتہاء پسندانہ جوابی اشتعال*:
ایسے لوگ بھی اب تیزی سے بڑھ رہے ہیں جو گالی کے جواب میں اور موٹی گالی دیتے ہیں، نہایت انتہاء پسندانہ خیالات کا اظہار کرنے لگتے ہیں،غیر شرعی تشدد کی حمایت کرتے ہیں، مسلکی تشدد اور فقہی آراء میں عدم برداشت کے رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مجموعی طور پر اسلام کی وہی ترجمانی کرتے ہیں جو اسلام کے دشمن چاہتے ہیں،یہ لوگ بھی بالآخر اسلام کی دعوت اور اس کی امیج کو نقصان ہی پہنچاتے ہیں ۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا سرسری تجزیہ بھی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام کی حمایت میں اٹھنے والی معقول، تعمیری، مبنی بر اعتدال اور اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والی آوازیں بہت کم ہیں اور مذکورہ چار طرح کی آوازوں کی نائیس (Noise) میں پوری طرح دبی ہوئی ہیں، یہ اس وقت اہل اسلام کے لیے بڑا چیلنج ہے،جس کا بھرپور طریقے سے سامنا کرنے کی اور صورتحال کو جلد از جلد بدلنے کی کوشش ہم سب پر فرض ہے ۔
ہمارے نوجوانوں کی ایسی تربیت ہونی چاہئے اور ایسا آن لائن کلچر فروغ پانا چاہئے کہ ہمارے نوجوان مذکورہ چار رجحانات سے بچیں اور آخر میں مذکور تعمیری رجحان کو پوری قوت کے ساتھ فروغ دیں!۔
( *سائبرستان سوشل میڈیا اور مسلم نوجوان، صفحہ: 23*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
*کیا ہم مسلمان ہیں (٣٠ ) ۔۔۔ سید نا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ( تیسری قسط )*
*تحریر: شمس نوید عثمانی*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
کیسا بے کراں تھا یہ تعلق یہ باہمی تعلق جو ایمان اور صداقت کی بنیاد پر دو انسانوں میں قائم ہوا تھا:
زیدؓ بہر حال ایک زرخرید غُلام کی حیثیت سے حضورﷺ کی زندگی میں داخل ہوئے تھے۔ چپٹی ناک ، گندمی رنگ اور پست قد کے اس "غلام" کو بھولے سے بھی یہ گُمان نہ ہوا ہو گا کہ مکّے کی انسانیت سوز اور انسانیت فروش آبادی میں کوئی انسان اس کو سینے سے لگا لے گا__ ان کی آواز سنتے ہی بے اختیار گھر سے نکل آیا کرے گا اور ان کی پیشانی کو، غلامی سے داغ دار پیشانی کو اپنے پاک ہونٹوں سے چُوم لیا کرے گا اور اس طرح ان کو یقین دلادے گا کہ ”غلام“ اور ”آقا“ دونوں خُدا کے غلام اور بندے ہیں ___
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب کبھی زیدؓ باہر سے آتے اور دروازے پر حضورﷺ کو پکارتے تو آپﷺ خواہ کسی حال میں ہوں فوراً اس پکار پر دوڑتے تھے اور زیدؓ کی پیشانی کو فرطِ شفقت سے بوسے دے کر ان کی عافیت معلوم فرماتے تھے ۔ ایک "غلام" میں جوہرِ انسانیت کی آب و تاب دیکھ کر حضورﷺ نے جس ذرّہ نوازی، قدر افزائی اور دردمندی کا مظاہرہ فرمایا تھا یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ زیدؓ حضورﷺ پر دل و جان سے نثار ہو گئے تھے۔
ایک طرف زیدؓ تھے جنھوں نے توحید ورسالت کی گرویدگی پر گھر بار، ماں باپ اور وطن کی پُوری دنیا قربان کر دی تھی ، تو دُوسری طرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنھوں نے ایک زر خرید "غلام" کو اپنی حقیقی پھوپی زاد بہن حضرت زینبؓ سے بیاہ کر عرب کی نسل پرستی کے بُت پاش پاش کر دیے تھے ایک طرف زیدؓ تھے جو طائف کی نازک گھاٹی میں اس وقت حضورﷺ کے آگے سینہ سپر تھے جب کُفر کی بے رحم طاقتیں حق و صداقت کے نور پر بدترین پتھراؤ کر رہی تھیں تو دوسری طرف حضورﷺ تھے۔ جنھوں نے جس فوجی مُہِم پر زیدؓ کو روانہ کیا اس کی سپہ سالاری کا تاج زر نگار اپنے اسی غُلام کے سر پر رکھا۔ آخری معرکہ غزوۂ موتہ میں بھی جہاں حضرت زید رضی اللہ عنہ خدا کی راہ میں شہید ہوئے۔ تین ہزار جاں بازوں کی کمان ان کے ہاتھوں میں دی جا رہی تھی تو حضرت جعفرؓ نےحضورﷺ سے کہا تھا ۔
"میرا خیال تھا کہ اس دستے میں مجھے دیکھ کر اس کی باگ ڈور آپ مجھے دیں گے زیدؓ کو نہیں۔۔۔۔۔"
"چپ رہو ! زیدؓ کی عظمت کو شک سے دیکھنے والے کو خدا کے رسولﷺ نے تنبیہ کی تھی " تم نہیں جانتے کہ خدا کے نزدیک کون زیادہ بہتر ہے۔"
پھر جب یہ "بہتر بندۂ خدا" شہید ہوگیا اور اس کی شہادت کی خبر حضورﷺ تک پہنچی تو آپﷺ بے اختیار اشک بار ہو گئے اور گلو گیر آواز میں یہ دعا آپ ﷺکے ہونٹوں پر جاری تھی کہ "اے خدا زیدؓ کو بخش دے ..... اے خدا زیدؓ کو بخش دے!!"
عشقِ رسولﷺ کے سوز بے کراں نے زیدؓ کو کن بلندیوں پر پہنچا دیا تھا ؟ انھوں نے حضورﷺ کو اس طرح چاہا کہ خود حضورﷺ آپ کو ایک محبوب ___ ایک لخت جگر ___ ایک بیٹے کی طرح چاہنے لگے ؟ اور پھر دنیا کو یہ فرق کرنا مشکل ہو گیا کہ کون چاہنے والا _____________اور کس کو چاہا جا رہا ہے ! محبت اور محبت نوازی کی یہ تاریخ ایک ایسی بے مثال تاریخ ہے جو توحید و رسالت کے سوا دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے ۔
یہ تاریخ حضورﷺ اور زیدؓ کی وفات کے بعد بھی حضورﷺ کے ان چاہنے والے صحابہؓ نے پوری شان سے زندہ رکھی جو نہ صرف یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے "دیوانے" تھے بلکہ ہر اس انسان اور ہر اس شے کو بھی دل و جان سے پیار کرتے تھے جس پر حضورﷺ کی محبت بھری نگاہ پڑ گئی ہو ____ چناں چہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس وقت معرکۂ شام کو جانے والی فوج کا سپہ سالار حضرت زیدؓ کے صاحب زادے حضرت اُسامہؓ کو بنانے کا اعلان کیا تو دنیا حیرت سے گنگ ہو گئی ! ___بڑے بڑے ہوشمندوں کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کم سن لڑکے کو یہ نازک ذمہ داریاں کیوں سونپی جارہی ہیں ۔ خلیفۂ وقت نے جب لوگوں کے اعتراض کا جواب دیا تو معلوم ہوا کہ عشقِ رسولﷺ کا جذبہ بے کراں اس فیصلہ کے پس منظر میں کام کر رہا تھا ابو بکر صدیقؓ کی نظر میں اُسامہؓ کی عظمت کے لیے یہ بات کافی تھی کہ اللہ کے پیارے رسولﷺ نے ان کو محبت کی خاص نظر سے دیکھا تھا ۔ اور یہ کہ اُسامہؓ اس انسان کے بیٹے تھے جس نے عشقِ رسولﷺ کے آگے حیاتِ دنیاکے حسین ترین تعلقات پر ٹھو کر مار دی تھی جس کو رسول اللہﷺ نے سردار بنا دیا ہو ۔ خلیفۂ وقتؓ نے شدتِ جذبات میں اعلان کیا "تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ میں اس کی سرداری چھین لوں ! " ___ رسالت کی اتھاہ محبت سے دہکتے ہوئے سینے اس نعرۂ شوق پر تیزی سے دھڑکنے لگے اور عشقِ رسولﷺ کے مشترک جذبے نے اُسامہؓ کی سرداری کا فیصلہ دل و جان سے تسلیم کر لیا ۔
کے لیے ضروری ہے۔
حضرت مولانا سید نظام الدینؒ قیادت کی راہ پر چلے اور چلتے گئے ، پہلے مرحلے میں امارت شرعیہ اور پھر بورڈ اور امارت شرعیہ دونوں اداروں میں خدمت انجام دیتے رہے اور ان دونوں اداروں کو آپس میں مربوط رکھنے کی کامیاب کوشش انہوں نے کی ،امارت شرعیہ بڑا ادارہ ہے اور بورڈ ملکی سطح پر امارت ہی کی سوچ کے پیش نظر قائم کیا جانے والااجتماعی ادارہ ہے ،حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒ نے ملکی سطح پر امارت قائم کرنے کی کوشش کی تھی ، جو بوجوہ ممکن نہ ہوسکی،پھر انہوں نے ریاست بہارکی سطح پر امارت قائم کی اور کامیابی کے ساتھ اس کو چلا کر دکھایا ، حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ نے اپنے دور امارت میں بھی یہ چاہا تھا کہ امارت ملکی سطح پر قائم ہوجائے ،مگر وہ ملک کے حالات سے بھی بخوبی واقف تھے اور ملت کے اندرونی انتشار اور خلفشارسے بھی بخوبی واقف تھے ،انہوں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ کسی ایک شخص کی امارت اور قیادت پر اب لوگوں کا جمع ہونا بظاہر ممکن نظر نہیں آرہا ہے اور ایسی کسی کوشش کا کامیاب ہونا بھی بظاہر حال مشکل ہے ،اس لیے فرد کی قیادت وامارت کی بجائے ایک اجتماعی قیادت تشکیل دی جائے اور اس میں تمام مسالک ومکاتب فکر کی شمولیت رہے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اسی تخیل کی عملی شکل اور اسی خواب کی حسین تعبیر ہے ،کوئی شبہ نہیں کہ حضرت امیر شریعت رابعؒ کے خلوص ،للہیت اور ان کی دینی وایمانی حمیت وغیرت نے ملت اسلامیہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو جمع کردیا ،اور ایک اجتماعی قیادت وجود میں آئی ،چونکہ امارت شرعیہ کا بورڈ سے علاوہ اور رشتوں کے بہت مضبوط فکری رشتہ بھی ہے ،اس لیے ان دونوں اداروں میں ہمیشہ توافق اور تعائون رہا ہے اور رہنا بھی چاہیے ،حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحبؒ نے بھی ان دونوں اداروں کے آپس کے رشتے کی مضبوطی کی فکر کی اور بورڈ کے جنرل سکریٹری اور امارت شرعیہ کے امیر کی حیثیت سے ان دونوں اداروں کو ایک دوسرے کا معین ورفیق بنائے رکھا ،اور ان دونوں اداروں کی تقویت اور اس استحکام کا باعث بنے،یہ بھی ان کا بڑا کارنامہ ہے ،مولانا سید نظام الدین ؒ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اور امارت شرعیہ کے بینر تلے زیادہ تر فکری،عملی اور انتظامی کام انجام دیئے اور وہی بڑے پیمانے پر ان کی نیک نامی کا باعث ہوئے مگر یہ بات نہ بھلائی جانے والی ہے کہ اصلاً وہ ایک ذی استعداد عالم دین اور منجھے ہوئے مدرس تھے ،مدرسہ ریاض العلوم بالاساتھ میں ان کا تدریس کا زمانہ خوشگوار اور یاد گار زمانہ تھا ،ان کے علم کی خوشبو پھیل گئی تھی اور تدریسی مہارت کا شہرہ تھا ،اگر وہ تدریس کی دنیا ہی سے منسلک رہتے تو ملک کے ممتاز اور باکمال مدرسین و اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا ،لیکن پھر خدمت کے دوسرے میدانوں میں انہوں نے قدم رکھا اور اپنے حسن انتظام اور قائدانہ صفت وصلاحیت کا سکہ جمایا ،علم وفضل وکمال کے ساتھ ساتھ ان میں اخلاق ومروت اور وضع داری اور شرافت جیسی بلند پایہ خوبیاں بھی تھیں ،مزاج میں فروتنی اور انکساری تھی ،تصنع وتکلف اور ظاہری ٹیپ ٹاپ سے وہ کوسوں دور تھے ،کھانے پینے ،اٹھنے بیٹھنے اور زندگی کے ہر مرحلے میں سادگی کوعزیز رکھتے تھے ؎
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
ہم مگرسادگی کے مارے ہیں
حضرت مولانا سید نظام الدین ؒ خوش فکر شاعر بھی تھے ،جب معہد ملت کے جلسوں میں تشریف لاتے تھے تو ان کی کہی ہوئی نظمیں ہمارے استاذ حضرت مولانا زبیر احمد ملی طلبہ سے پڑھوایا کرتے تھے ،جس سے سامعین وحاضرین کے ساتھ خود حضرت مولانا بھی لطف لیا کرتے تھے ،اشعار تو اب بھی کتابوں اور رسالوں کی زینت ہیں،البتہ شعر کہنے والاشخص زیر زمین جاچکا ،اب تو ان کی باتیں اور یادیں ہی باقی رہ گئیں ،دیکھتے دیکھتے ان کی رحلت پر تقریباً نو،دس سال گزر گئے ،آج ان کی یاد میں پھر یہ بزم سجائی گئی ہے ،یہ ان کا ہم لوگوں پر حق بھی تھا اور قرض بھی !اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد الواحد ندوی اور ان کے رفقاء کار کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے حضرت مرحوم کی یاد میں یہ بزم سجائی اور یہ محفل برپا کی ،جس سے ان کی یادیں تازہ ہورہی ہیں اور ان کے زندگی کے الگ الگ پہلو سامنے آرہے ہیں ،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے ،ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش کو زندہ اور تابندہ رکھنے کی ہمیں توفیق بخشے۔
(آمین یارب العالمین بحرمۃ سید المرسلین وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین)
٭٭٭٭٭
منت اللہ رحمانیؒ وصال کےبعد آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ جیسے باوقار اور معتبر پلیٹ فارم کے کلیدی منصب پر انہیں فائز کیا گیا اور وہ تاحیات بورڈ کے جنرل سکریٹری رہے اور اس کی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی پورا کرتے رہے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی ذمہ داری نبھانا آسان چیز نہیں ،مختلف الخیال لوگوں کو ملت کے کاز کے لیے متحد رکھنا اور الگ الگ صلاحیت کے لوگوں سے کام لینا’’کارِشیشہ و آہن ہے‘‘،پھر مختلف مرحلوں میں حکومتوں کومخاطب کرنا اورحکومت کے چشم وابرو کے اشاروں کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا اور اس پر ڈٹ جانا یہ بھی مشکل کام ہے ،سب جانتے ہیں کہ سمندر کی موجوں سے کھیلنا آسان نہیں اور عافیت کے ساحل پربیٹھ کر تماشہ دیکھنے میں ہے،مگر قیادت کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اور بورڈ کے پلیٹ فارم سے ایک طرف حکومت کو پیغام دینا اور دوسری طرف ملت اسلامیہ کو رخ دینا دونوں کام مشکلات سے لبریز اور دشواریوں سے پر ہےجس کی ہمت وہی لوگ کرتے اور کرسکتے ہیں جو عافیت گاہوں کو چھوڑ کرمشکلات سے پنجہ آزمائی کا ہنر رکھتے ہوں ،اور ملی مسائل کے حل کے لیے قربانی دینے کا ذہن وذوق ان میں موجود ہو،کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ ایسے ہی بلند ہمت انسانوں میں شامل تھے ،انہوں نے نازک اور مشکل وقت میں بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملت کی رہنمائی کی اور متعدد تحریکات کو اپنے رفقاء کے تعائون سے کامیاب بنایا ،یہ بھی ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں ایسے رفقاء کار میسر آئے جو ملت کے لیے کچھ کرنے اور کرگزرنے کا حوصلہ رکھتے تھے ،ان میں نمایاں نام ان کے بعد بورڈ کے جنرل سکریٹری منتخب ہونے والےعظیم عالم دین ان کے مربی کے فرزند جلیل اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے عظیم قائد حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ تھے ،جو حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کی جنرل سکریٹری شپ کے زمانے میں سکریڑی کے عہدے پر فائز رہے ،انہوں نے اپنی خصوصی دلچسپی سے بورڈ کے بینر تلے کئی اہم تحریکات چلائیں جونہایت کامیاب رہیں،داڑھی ٹوپی کے مسئلے میں جس بہادری ،دینی غیرت اور ایمانی حمیت کے ساتھ تحریک چلائی گئی اور اس کا جو اثر ظاہر ہوا وہ نہ صرف بورڈ کی بلکہ ملت اسلامیہ کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا،سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا کہ سپریم کورٹ کے کسی جج نے اپنا فیصلہ واپس لیا اور اپنے تبصرے کے لیے علی الاعلان معافی مانگی ،یہ بورڈ کی اجتماعیت کا اثر اور حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانیؒ کی دانش مندی اور مسلسل محنت کا نتیجہ تھا،داڑھی ٹوپی والی مہم میں گردکارواں کی طرح میں بھی شریک رہا ہوں ،جو کچھ نشیب وفراز آئے اور جس طرح جسٹس مارکنڈے کاٹجو سےمختلف مرحلوں میں ملاقاتیں ہوئیں اور اس کے ضمن میں وزیر اعظم من موہن سنگھ سے تاریخی اور یادگار ملاقات یہ سب مرحلے نگاہ کے سامنے ہیں،اس سلسلے میں حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانیؒ کا کردار ناقابل فراموش ہے اور یہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کی جنرل سکریٹری شپ کے زمانے کابورڈ کا نمایاں کارنامہ ہے ،آج کل وقف ترمیمی بل کا مسئلہ جو آتش فشاں بناہوا ہے وہ جس وقف ایکٹ سے متعلق ہے اس میں بھی مناسب مضبوط اور مفید ترمیم ۲۰۱۳ء میں ان ہی کے جنرل سکریٹری شپ کے زمانے میں ہوئی ،بڑی حد تک محفوظ اور مضبوط قانون وقف کے سلسلے میں بنا ،اسی طرح من موہن سنگھ کے وزرات عظمی کے دور میں ہی ہم جنس پرستی کے معاملے میں بورڈکی طرف سے کامیاب پیروی کی گئی ،اسی ضمن میں حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحب ؒ کے سربراہی میں بورڈ کے ایک مؤقر وفد نے من موہن سنگھ سے ملاقات بھی کی تھی یہ اوراس جیسی متعدد کوششیں بورڈ کی جانب سے کی گئیں اور ان میں حضرت مولانا سیدنظام الدینؒ کا دماغ اور ہاتھ دونوں کارفرما تھا۔
بورڈ کے جلسوں میں ملاقات کے علاوہ ان سے بہت خوشگوار ملاقات خانقاہ رحمانیہ مونگیر میں ہوئی ،موقع تھا جامعہ رحمانی کے سالانہ اجلاس اور خانقاہ رحمانی کے سالانہ فاتحہ کا ،اس موقع پر خانقاہ رحمانی کے متوسلین الگ الگ علاقوں سے بڑی تعداد میں آتے ہیں ،قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ کے دور سے یہ سلسلہ چلا آرہاہے،حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحبؒ خانقاہ رحمانی کے فیض یافتگان میں تھے ،ان کااصلاح واسترشاد کا تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین مدنیؒ سے تھا ،لیکن عملی زندگی کی تربیت انہوں نے خانقاہ رحمانی کے صاحب سجادہ حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ سے حاصل کی تھی ،اس لحاظ سے خانقاہ رحمانی ان کا مرکز تربیت تھی ،یہاں سے ان کی بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں ،اسی لیے جب وہ خانقاہ رحمانی حاضر ہوتے تھے تو ان کی طبیعت میں شگفتگی و تازگی آجاتی تھی ،خانقاہ رحمانی کی مسجد سے اتر جانب متصل مہمان خانے میں حضرت مولانا کاقیام تھا، اطلاع کر کے میں حاضر ہوا،متعدد افراد ان کی خدمت میں حاضر تھے ، ایک حلقہ سا لگا ہوا تھا اور مولانا مرحوم بڑی شگفتگی اور انبساط کے ساتھ گفتگو فرمارہے تھے
میرزا یاسؔ یگانہ چنگیزی کا ایک شعر
جو اُنہوں نے ۱۹۱۶ میں کہا تھا، آج بھی کئی لوگوں پر فِٹ بیٹھتا ہے
یاسؔ اب ذلیل ہی کو سمجھتے ہیں سب عزیز
کانٹے چمن کے تُلتے ہیں پھولوں کے ہار سے
*جلوہ ہائے پابہ رکاب( ۲۴)۔۔۔یہ وہ بچہ ہے جس نے ٹرین نہیں دیکھی*
*تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
سالانہ چھٹی ختم ہوئی اور اسکول کا پہلا دن تھا۔ میں تھرڈ کلاس سے فورتھ کلاس میں منتقل ہوا تھا۔ استاذ نے ہم سے کہا کہ ہم میں سے ہر ایک چھٹی کی کارگزاری سنائے، یعنی چھٹی میں ہم نے کیا کیا اور کہاں کہاں گئے۔ طلبہ اپنی اپنی کہانی سنانے لگے۔ تقریبا ہر لڑکا یہی کہتا تھا کہ میں اپنے والدین کے ہمر اہ بذریعہ ٹرین مدراس گیا۔ کچھ لڑکوں نے مدراس کی بجائے بنگلور یا میسور کہا۔ جب میری باری آئی تو میں نے استاذ سے کہا: سر ہر لڑکے نے کہا کہ میں بذریعہ ٹرین فلاں جگہ گیا تھا۔ یہ ٹرین کیا چیز ہوتی ہے ؟ استاذ اور میرے تمام ساتھی حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔ استاذ بولے: تمہیں ٹرین نہیں معلوم ؟ تم کس دنیا میں رہتے ہو ؟ استاذ نے اعلان کیا وہ مجھے تمام کلاسوں میں لے جاکر میرا تعارف کرائیں گے، چنانچہ وہ مجھے مختلف کلاسوں میں لے گئے اور وہاں کے طلبہ سے کہا: اس بچے کو دیکھو، اس نے اب تک ٹرین نہیں دیکھی ہے۔ اسی وقت سے پرائمری اسکول کے تمام طلبہ نے مجھے بچہ " کہہ کر بلانا شروع کر دیا۔ اکثر مجھے "بچہ " کہتے اور کچھ "بچہ رحیم "۔ دوسرے دن مڈل اسکول اور ہائی اسکول میں بھی میرا چرچا ہونے لگا۔ طلبہ مجھے دیکھ کر ایک دوسرے سے کہتے: یہ ہے وہ بچہ جس نے ٹرین نہیں دیکھی ہے۔ دو چار دن کے اندر پورے اسکول میں میرا نام بچہ پڑ گیا۔ ابتدا میں مجھے اس سے کوفت ہوتی تھی، لیکن جب یہی میرا نام بن گیا، تو پھر گلہ کی کیا وجہ ہو سکتی تھی؟ ابھی گذشتہ سال کی بات ہے کہ میں نے عید الفطر کی نماز شہر وانمباڑی کی عید گاہ میں ادا کی۔ نماز کے بعد ایک صاحب ملنے آئے۔ انہوں نے کہا: گستاخی معاف۔ ہائی اسکول کے زمانے میں ہمارے ایک ساتھی ہوتے تھے جو "بچہ رحیم" کے نام سے مشہور تھے۔ مجھے آپ میں ان سے مشابہت نظر آرہی ہے۔ کیا وہ شخص آپ ہی تھے ؟ میں نے کہا: ہاں۔ اب یہ بات تاریخ بن چکی ہے۔
سلسلہ نمبر: 215
انتخاب مطالعہ
تحریر: *سید حامد*
*ایک باپ (اؔبراہیم لنکن) کا خط اپنے بیٹے کے استاد کے نام*
میں جانتا ہوں کہ: تعلیم کے دوران اُسے ( میرے بیٹے کو) یہ جاننا پڑے گا کہ تمام انسان منصف مزاج نہیں ہیں،تمام انسان سچے نہیں ہوتے ؛ لیکن اسے یہ بھی تو سکھادیجئے! کہ ہر بدمعاش کے مقابلے میں ایک ہیرو بھی ہوتا ہے، ہر خود غرض سیاست پیشہ انسان کے بالمقابل ایک ایسا راہبر بھی ملے گا جس نے اپنے آپ کو خدمت خلق کے لیے وقف کردیا ہو، اسے سکھائیے! کہ زندگی میں اگر ایک دشمن ملے گا تو ایک دوست بھی ہوگا،میں جانتا ہوں کہ یہ سکھانا دیر طلب ہوگا ؛ لیکن اگر آپ ایسا کرسکتے ہوں تو اسے سکھادیجئے کہ محنت سے کمایا ہوا ایک ڈالر ان پانچ ڈالروں سے زیادہ بیش قیمت ہے جو بغیر محنت کے ہاتھ آجائیں، اسے سکھائیے! کہ شکست کو کیسے لیا جائے اور فتح و شادمانی کا کیا انداز ہو! اس کو حسد سے دور رہنا سکھائیے! اسے خاموش ہنسی کا بھید بتائیے ۔
اگر آپ ایسا کرسکتے ہوں تو اسے کتابوں کی ہوش ربا دنیا میں لے جائیے ؛ لیکن اسے اس کی مہلت بھی دیجئے کہ وہ خاموشی کے لمحات میں آسمان میں اڑنے والے طیور، آفتاب کی روشنی میں چمکنے والی شہد کی مکھیوں اور سبزہ پوش پہاڑ کے ڈھلان پر کِھلے ہوئے پھولوں کے سحر کو محسوس کرسکے۔
اسکول میں اسے سکھائیے! کہ نقل کرنے سے تو کہیں بہتر ہے امتحان میں فیل ہوجانا، اسے سکھائیے کہ جو کچھ اس نے سوچا ہے،جس خیال نے اس کے دل میں جگہ بنائی ہے،جو کچھ اس نے طے کیا ہے،اس پر وہ اعتقاد رکھے! اُس وقت بھی جب ہرشخص اس کے خیال کو غلط بتائے،اسکو سکھائیے کہ شریف اور شایستہ لوگوں کے ساتھ شرافت کا برتاؤ کرے اور خدائی فوجداروں کو منہ توڑ جواب دے! اسے سکھائیے کہ سب لوگوں کی بات غور سے سنے؛ لیکن جو کچھ وہ سنتا ہے اسے سچائی کی چھلنی میں چھان کر ہی قبول کرے ۔
اگر آپ ایسا کرسکیں تو اسے سکھائیے کہ غم کو ہنسی سے کیسے بہلاتے ہیں، اسے یہ بھی سکھائیے کہ رونے میں شرم کا کوئی پہلو نہیں ہے،
اسے سکھائیے کہ اپنے ذہن اور زورِ بازو کی تو پوری قیمت وصول کرے ؛ لیکن اپنے دل اور اپنی روح کے دام کبھی نہ لگنے دے، اس کو نرمی کے ساتھ تعلیم دیجئے ؛ لیکن کبھی اس کا لاڈ نہ کیجئے ؛ کیونکہ فولاد آگ میں تپ کر ہی بنتا ہے!! اسے سکھائیے کہ اپنے اوپر اعتقاد، اعتماد اور بھروسہ رکھے ؛ کیونکہ اسی طرح وہ انسانیت پر اعتماد کرنا اور اعتقاد رکھنا سیکھے گا۔
میں نے آپ سے بہت کچھ مطالبہ کیا ہے ؛ لیکن سوچئے کہ اس میں سے آپ کیا کچھ کرسکتے ہیں ؟ یہ ننہا انسان میرا بیٹا امکانات بہت رکہتا ہے-----
اؔبراہیم لنکن کا یہ خط بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نسخۂ کیمیا کی حیثیت رکھتا ہے، کردار سازی اسی طرح ہوتی ہے، یہ خط ہمارے اساتذہ اور والدین کے لیے راہنما خطوط معین کرسکتا ہے، شرط یہ ہے کہ: وہ خود پہلے اپنے کردار کو اس خط کی روشنی میں ڈھالنے کے لیے تیار ہوجائیں! باقی ساری باتیں جن پر ہم زور دیتے ہیں ثانوی حیثیت رکہتی ہیں ۔
( *فانوس کی گردش،صفحہ: 166،طبع: نئی کتاب پبلشرز، جامعہ نگر،دہلی*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
۱۹۷۳ء میں آپ نے استاد ابراہیم ابو النجا کے زیر نگرانی جامعہ ازہر سے ڈاکٹر یٹ کی سند حاصل کی تھی۔ آپ کو بچپن ہی سے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا، اردو، ٹامل، انگریزی، عربی، فارسی ، یونانی اور لاطینی زبانوں سے شدھ بدھ وطن قیام ہی کے دوران ہوگئی تھی۔لیکن چونکہ آپ پر دنیا بھر کے غیر ملکی طلبہ کو عربی سکھانے کی ذمہ داری عائد تھی، لہذا ترکی، افریقی، فرانسیسی،جس زبان کے بھی طلبہ آپ کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوتےآپ ان کی زبانیں سیکھتے، آپ کو عربی زبان کے مختلف کورسوں کی تدریس کے لئے جرمنی جانا پڑتا تو اس کے لئے آپ نے جرمنی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ اس طرح آپ کو عبرانی اور سریانی سمیت جملہ بارہ ( ۱۲) سے زیادہ زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا تھا۔
آپ بنیادی طور پر علم لسانیات کے فرد تھے، اس کا ایک اہم شعبہ فیلولوجی Philology کہلاتا ہے، اس شعبے کا عالم مختلف زبانوں سے شامل ہونے والے اجنبی الفاظ کی بنیاد جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس موضوع پر یورپ نے بڑی ترقی کی ہے، عربی اور اردو میں اس میدان کے ماہر شاذو نادر ملتے ہیں، ڈاکٹر صاحب اس میدان میں اپنی نوعیت کے منفرد عالم تھے۔اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے لئے آپ نے ابو منصور جوالیقی کی کتاب ((المعرب من الکلام الاعجمی علی حروف المعجم)) کو تحقیق کے لئے منتخب کیا، آپ سے پہلے مشہور محقق شیخ احمد محمد شاکر نے اسے ایڈٹ کرکے شائع کیا تھا، عام طور پر کسی ایڈٹ شدہ کتاب کو وہ بھی احمد شاکر جیسے محقق کی قلم سے ہو ، ڈاکٹریٹ میں دوبارہ تحقیق کے لئے قبول نہیں کیا جاتا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کو اس میں استثناء مل گیا، وہ اس لئے کہ ایک تو احمد شاکر قدیم عربی زبان میں دوسری زبانوں سے شامل الفاظ کی شمولیت کو نہیں مانتے تھے، لہذا انہوں نے کتاب کی صحت عبارت پر اکتفا کیا تھا، دوسری زبانوں کے الفاظ کی گہرائی تک پہنچنا ان کے بس کی بات نہیں تھی، یہ ف عبد الرحیم کا میدان تھا، لہذا آپ نے اپنی کتاب میں ایک ایک لفظ کی تحقیق پیش کی ، اور دوسری زبانوں کے الفاظ سے اسکا موازنہ پیش کیا ہے۔
قرآن کریم میں کیا دوسری زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں؟، یہ ایک دقیق علمی بحث ہے، جس میں علماء کا موقف یہ ہے کہ اسلام سے پہلے غیر زبانوں کے جو الفاظ داخل ہوکر عربی زبان میں گھل مل گئے ہیں، اب ان کے ساتھ معاملہ عربی زبان کے الفاظ ہی کی طرح ہوگا۔ اور انہیں غیر عربی الفاظ نہیں کہا جائے گا، اس سے ((بلسان عربی مبین ))کے دعوے کی درستگی پر کوئی حرف نہیں آتا۔اس موضوع پر امام جلال الدین سیوطیؒ کی کتاب ((المهذب فيما وقع في القرآن من المعرب)) کو بڑی شہرت حاصل ہے، علاوہ ازیں مستشرقین نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے،ان میں ارتھر جفری کی کتاب ((معجم الالفاظ الغربیۃ فی القرآن)) کو شہرت حاصل ہے، لیکن چونکہ اس مصنف کی نیت صاف نہیں ہے اور اس کا رویہ حضور اکرم ﷺ اور قرآن کے تئیں معاندانہ ہے، لہذا کتاب کی تیاری میں انتھک محنت کے باوجود یہ کتاب قابل قدر نہیں رہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی اس موضوع پر ((معجم الدخیل فی اللغۃ العربیۃٰ الحدیثہ ولہجاتھا)) اور((سواء السبیل الی ما فی العربیۃ من الدخیل،الاعلام باصول الاعلام))، مستقل اور بڑی قابل قدر کتابیں ہیں۔ آپ نے ان کے علاوہ بھی بہت ساری قابل قدر تصنیفات یاد گار چھوڑی ہیں، اس موضوع پر اردو میں بھی آپ کی دو یادگار کتابیں ہیں ،(( پردہ اٹھادوں اگر چہرہ الفاظ سے ))اور دوسری کتاب ہے ((گلستان الفاظ ومعانی))۔
ہندوستانی علماء میں آپ کو مولانا سید ابوالحسن ندویؒ سے بڑا تعلق خاطر رہا، اور سعودی علماء میں شیخ عبد العزیز بن بازؒ سے وہ بڑے متاثر تھے۔ شیخ بن بازؒ کی زندگی کے چند ایک پہلؤوں سے تو وہ بڑے متاثر تھے، جنہیں جان کر شیخؒ میں کبھی حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ روح چلتی پھرتی نظر آتی ہے، ایک چشم دید واقعہ کو وہ بیان کرتے ہیں کہ:
"جنوبی کوریا کے ایک طالب علم مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے لئے آئے تھے، اس ملک کے پایہ تخت سیول میں ایک جامع مسجد تعمیر کی گئی تھی، جس کے بارے میں اس طالب علم نے بتایا کہ یہاں نماز وماز کا زیادہ اہتمام نہیں ہوتا، ہفتے کے چھ روز یہاں کے لوگ کام میں مصروف رہتے ہیں، البتہ اتوار کے روز چھٹی ہوتی ہے، بہت سارے کوری باشندے اس روز شراب لے کر آتے ہیں، اور مسجد کی چھت اور منڈیر پر بیٹھ کر اسے پیتے ہیں، یہ سن کر میرا دل کھول گیا، اورشدت جذبات سے بے قابو ہوگیا، جب شیخ بن بازؒ نے میری یہ حالت دیکھی تو قریب بلا کر سمجھایا کہ یہ لوگ حالت کفر سے نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، شراب پینا معصیت ہے،اور معصیت کفر سے ہلکی چیز ہے،ایمان ہے تو معصیت سے توبہ ہوسکتی ہے، اور وہ دھل سکتی ہے، لیکن کفر ہے تو کوئی گناہ نہیں دھل سکتا، اس پہلو سے بھی کبھی سوچنا چاہئے"۔
*ڈاکٹر ف عبد الرحیمؒ۔۔۔ زبان وحی کے عظیم شناور*
*تحریر: عبد المتین منیری ( بھٹکل)*
(وفات : ۱۹ ؍ اکتوبر ۲۰۲۳ئ پر لکھی گئی تحریر)
گزشتہ ماہ رمضان المبارک میں عمرہ جانا ہوا تو خیال تھا کہ ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب سے مدینہ منورہ میں ایک بار پھر شرف ملاقات حاصل ہوگا،لیکن فون پر آپ کا پیغام آیا کہ وہ اپنے آبائی قصبے وانمباڑی میں برادر خورد احمد اقبال صاحب کے یہاں ٹہرے ہوئے ہیں، غالبا اس وقت وہ علاج معالجہ کے لئے ہندوستان آئے تھے، اور آج مورخہ ۱۹ اکتوبر رات گئے خبر آگئی کہ ڈاکٹر صاحب مدینہ منورہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے، انا للہ وانا الیہ راجعوں۔
ڈاکٹر صاحب نے امام نوویؒ اور امام ابن تیمیہؒ کی طرح ایک مجرد زندگی گذاری، اور اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ زبان وحی اور قرآن کریم کی خدمت میں صرف کیا، وہ ارض ہند سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یہاں والوں کی معلومات آپ کے بارے میں بڑی محدود رہیں، وہ نام ونمود اور شہرت سے زندگی بھر دور رہے، اور جنوبی ہند کے بہت سے انمول رتنوں کی طرح یہاں پر زیادہ تر گمنام ہی رہے، بس ان کا تذکرہ کبھی کبھار عربی ریڈروں کے مصنف کی حیثیت سے آتا رہا، یا کچھ جاننے والوں نے شاہ فہد قرآن کامپلیکس سے ان کے تعلق کا ذکر کردیا۔ حالانکہ وہ مسلمانان ہند کے لئے ایک قیمتی علمی سرمایہ اور دنیا بھر میں ان کا نام سربلند کرنے والی ایک عظیم شخصیت۔ اور ان کے لئے اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا انعام تھے۔
ڈاکٹر صاحب کو ہم نے آج سے نصف صدی پیشتر ۱۹۷۱ء میں پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب کہ ابھی وہ عمر کے چالیسویں دہے میں تھے، ہمارے استاد مولانا عبد الرافع نائطی باقوی نے ہمیں آپ سے ملایا تھا، ڈاکٹر صاحب جب بھی وطن آتے تو ہمارے مادر علمی جمالیہ عربی کالج چنئی (مدراس ) ضرور تشریف لاتے، یہاں پر ہمارے مشفق پرنسپل مولانا سید عبد الوہاب بخاری مرحوم سے ان کےبڑے گہرے مراسم تھے، غالبا پریسڈنسی کالج میں انہیں آپ سے شرف تلمذ بھی حاصل ہوا تھا۔ ہمارے استاد نے اس وقت ہمیں بتایا تھا کہ چند سالوں سے آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورۃ میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ ہمارے لئے اس وقت بھی آپ کی ملاقات بڑے فخر کی بات تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے ۷ مئی ۱۹۳۳ء میں آرکاٹ کے قصبے وانمباڑی میں آنکھیں کھولیں تھیں، اس لحاظ سے آپ نے نوے (۹۰ ) سال کی عمر پائی جو آج کے لحاظ سے ایک طویل عمر شمار ہوتی ہے۔ ارکاٹ کا یہ علاقہ طویل عرصے سے مسلم اکثریتی علاقہ اور دیرینہ اسلامی روایات کا امین رہاہے۔ آپ کے والد ماجد کا نام عبد السبحان تھا، جو ایک تاجر پیشہ شخص تھے۔وانمباڑی نام کے پہلے انگریزی حرف((V جسے عربی میں (ف) لکھا جاتا ہے، اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ اپنے نام کے آگے جنوب کی روایت کے مطابق یہ حرف بڑھا کر ف عبدا لرحیم لکھا کرتے تھے۔ چند سال قبل جب آپ کے توسط سے ہمیں شاہ فہد مصحف کامپلیکس جانا ہوا تو، آپ کو سعودی اسٹاف میں بڑے احترام سے دکتور ف کہتے سنا۔
مسجد میں ناظرہ قرآن پاک سے حسب روایت آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا تھا۔ ، پھر آپ نے وانمباڑی کے اسلامیہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا، جہاں آپ نے بارہ سال تک ثانوی تعلیم حاصل کی، اس دوران ذاتی محنت سے عربی سیکھنی شروع کی، اس کے لئے آپ نے عربی زبانوں کی آسان کتابوں،پھر سفارت خانوں سے عربی اخبارات اور مجلات منگوا کر، اور صوت العرب القاہرہ، نداءالاسلام جدہ وغیرہ سے پروگرام سن سن کر عربی زبان سے مانوسیت حاصل کی۔اس دوران آپ کو مدینہ منورہ سے آئی ہوئی تبلیغی جماعت سے اور بحرین سے آئے ہوئے ایک فقیر کی صحبت بھی ملی،جس سے آپ کو عربی بول چال کی شد بدھ ہونے لگی۔
پی یوسی کے بعد آپ نے باوقار پریزیڈنسی کالج چنئی میں داخلہ لیا اور بی اے آنرز کی سند حاصل کی۔ اور پھر اسلامیہ کالج وانمباڑی میں تدریس سے وابستہ ہوگئے، اس کالج کے قیام میں مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ اور ڈاکٹر عبد الحق کرنولیؒ کا بڑا ہاتھ رہا تھا۔
جب اسلامیہ کالج میں عربی زبان کا ڈگری کلاس شروع کرنے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب نے مدراس یونیورسٹی سے افضل العلماء کا امتحان پاس کیا اور علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر عربی زبان میں یم اے کی سند حاصل کی۔
باسمہ تعالی
سنوار مجاہدین کا شہسوار
از قلم: ابو سعد چارولیہ
/channel/ilmokitab
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزارہا آنکھیں تھیں جو کہہ رہی تھیں کہ کاش! ہم نے جو دیکھا وہ غلط ہو، لکھوکھا کان تھے جو ابو عبیدہ کی آواز میں سننا چاہتے تھے کہ: اے اللہ کے دشمنو! تمہاری موت کا دوسرا نام سنوار ابھی زندہ ہے، سچ پوچھو تو کروڑوں دھڑکنیں اس آس میں رکی ہوئی تھیں کہ سنوار ''یحیی''رہے "لایحیی"نہ ہو، مگر ایک شیر تھا جو مدتوں سے آس لگائے بیٹھا تھا کہ راہِ خدا میں شہادت کی آرزو کب پوری ہوگی! جو جیلوں اور جلسوں میں، کانفرسوں اور سرنگوں میں ہر جگہ یہ کہتا پھرتا تھا: الموت فی سبیل اللہ اسمی امانینا، بالآخر دنیا ہار گئی اور اسلام کا شیر جیت گیا، ہماری تمنائیں اور آرزوئیں اس کے شوقِ شہادت کے سامنے ڈھیر ہوگئیں، ہمارے پھسپھسے وسوسے اس کے ہر دم تازہ ولولوں کی تاب نہ لاسکے اور وہ فمنھم من قضی نحبہ (اسماعیل ہانیہ)کے بعد ومنھم من ینتظر (سنوار)کو سچ کر دکھا گیا
وہ جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے
سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے
کون سنوار! عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن، عوام کی آنکھوں کا سرمہ، خواص کی دعائے نیم شبی کا حصہ، ؑشہیدوں کے لیے مادرِ مہرباں، مجاہدوں کے لیے اتالیقِ اعظم، غداروں کے لیے شمشیرِ برّاں، منافقوں کے لیے برقِ بے اماں اور خبیث الفطرت، نجس الخلقت یہودیوں کے لیے اللہ کا عذاب!
اس نے بائیس سال تک سنت یوسفی بھی ادا کی اور پھر چودہ سال غزہ میں شعب ابی طالب کی سنت بھی زندہ کرتا رہا، اس کا کٹا ہوا بازو جعفر طیار کی یاد دلاتا ہے تو اسی بازو پر تار باندھ کر لڑنے کا انداز شاہینِ بدر: معاذ بن عفرا کی تاریخ دہراتا ہے، وہ اسیروں کے لیے ابو بصیر کا جانشین تھا اور منافقوں کے لیے عمر فاروق کی اولاد،جاسوس اس کے کام سے لرزتے اور غدار اس کے نام سے کانپتے تھے، دشمن اسے ''خان یونس کا قصاب'' کہتا تھا، یہودی ناگنیں اپنے بچوں کو اس کے نام سے ڈرایا کرتی تھیں اور یہودی فوجی کتے اس کے تصور سے پیشاپ کرجاتے تھے ۔
محلوں میں بیٹھ کر عیاش حکمرانوں کے سڑے ہوئے لونڈے پوچھتے ہیں کہ سنوار کون تھا،تیرے باپ سے پوچھ کہ وہ تم سب کا باپ تھا
ہمیں ڈراسکے یہ زمانے میں دم نہیں
زمانہ ہم سے ہیں ہم زمانے سے نہیں
نام نہاد مفکرین کہاں ہیں جو کہتے تھے کہ سنوار سرنگوں میں گلچھرّے اڑا رہا ہے آؤ دیکھو ظالمو! ہ بھی ملبے تلے دبا پڑا ہے! لاؤ ان بکے ہوئے تجزیہ نگاروں کو جو کہتے نہ تھکتے تھے کہ قیادت موج کررہی ہے اور عوام جھوجھ رہی ہے، نسلی بزدل اور پشتینی کمینے یہودیوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہم جس کو سرنگوں میں کتوں کے مانند سونگھتے پھررہے ہیں وہ ہمارے سامنے سینہ تانے کھڑا ہوگا، مردود نیتن یاہو کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ سنوار انسانی ڈھالوں کے بغیر، محافظوں سے دور اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر صف اول میں لڑ رہا ہوگا!بدمعاش و بدکار اسرائیلی وزیر دفاع: یوآؤ گینلنٹ کو کون بتائے کہ قائد اسی طرح صف اول میں خون کے آخری قطرے تک لڑتا ہے، تل ابیب کے آہنی حجروں میں بیٹھ کر اسکرین نہیں تَکا کرتا! مومن کی شہادت بھی عجب چیز ہے وہ مومن و منافق دونوں کے چہروں سے نقاب الٹ دیتی ہے، اہل اللہ تڑپ رہے ہیں کہ قائد بطل حریت چل بسا اور ذلیل دنیا کے خسیس کتے رقص کررہے ہیں کہ ان کی عیاشیوں، غداریوں اور سازشوں کی راہ میں چٹان بن کر حائل ہونے والا سنوار نہ رہا، دشمن ناچ رہا ہے کہ '' طوفان اقصی '' بپاکرنے والا سنوار ''مرگیا'' اور شہید کا خاندان روتے ہوئے سجدۂ شکر میں پڑا ہے کہ وہ ''امر ہوگیا''، عالم اسلام چاہتا تھا کہ اس کا نام یحیی ہے، وہ زندہ رہے گا، آؤ اب قرآن کی بھی تو سنو وہ بھی یہی صدا لگاتا ہے کہ ہاں وہ زندہ رہے گا: ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء ولکن لا تشعرون!
دشمن چاہتا تو نعش اٹھاکر سرنگوں میں لے جاتا، سازشیں رچتا، طرح طرح کے جھوٹے ویڈیوز بناتا اور زرخرید میڈیا سے اعلان کرواتا کہ ہم نے سنوار کو سرنگوں میں چوہے کی موت مارا مگر اس کی مت ماری گئی کہ شہید کے لاشے کا، قائد کے لڑنے کا اور اس کے زخمی ہونے کا فی الفور ویڈیو جاری کر بیٹھا، دنیا نے دیکھا کہ تنہا شیر لومڑیوں کے ریوڑ سے لڑا اور خوب لڑا، میرے اللہ کو یہی منظور تھا کہ جن عمارتوں کے ملبے تلے غزہ کے پچاس ہزار نفوس خاک و خون میں تڑہے ہیں ان کا قائد و رہبر بھی اسی طرح جام شہادت نوش کرجائے، اور دنیا کو یہ پیغام دے جائے کہ ہم فنا ہونے والوں میں سے نہیں ہیں ۔
اسرائیلی فوجیو! تم اس کی وہ شہادت کی انگلی تو کاٹ کر لے گئے جس کو لہرا لہرا کر وہ تقریر کرتا تھا کہ ہم خدائے وحدہ لاشریک لہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے مگر وہ درمیانی انگلی کاٹنا بھول گئے جس سے وہ پانچ دہائی تک تمہارے پچھواڑے کا علاج کرتا رہا،
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب کی یادیں
مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی ایم اے
/channel/ilmokitab
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب نور اللہ مرقدہ کے انتقال پر ملال سے تقریباً ٢٥ سال پرانی یادیں پھر سے تازہ ہوگئیں،دیو بند میں گذرے قیمتی دنوں کے نقوش ہرے ہوگئے،وہ صبح وشام ،وہ دن ورات پھرسے گردش کرتے نظر آئے جن کی یادیں بڑی خوشگوار اور جن کے تذکرے بڑے دل آویز ہیں،ان سے وابستہ واقعات میرے لئے بھی قیمتی سرمایہ ہیں،واقعہ یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ اور وہاں دورہ حدیث شریف کا ایک سال زندگی بھر کے علمی اور عملی زندگی میں بہت موثر رہا ہے۔ میرے استاد حضرت مولانا احمد عبد المجیب قاسمی ندوی صاحب حال مقیم سیاٹل امریکہ نے ندوہ سے فراغت کے بعد پوچھا تھا کہ کیا ایک اور سال وطن سے دور رہنے کی اجازت ہے تومیں نے والدین سے اجازت لے کر بتایا کہ ہاں تو پھر آپ نے مشورے دیاکہ میں ایک سال دیوبند میں پڑھوں،اور یہ مشورہ و فیصلہ قسمت گر واقع ہوا،عید کے فوری بعد کچھ احباب کے ساتھ دیوبند پہنچا ، ان دنوں ایک مرتبہ ہماری جماعت سے نماز چھوٹ گئی تو میرے حیدرآبادی ساتھیوں نے قصر کرکے نماز پڑھی جبکہ میں نے اتمام کیا، ان کے سوال پر میں نے انہیں بتایا کہ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ داخلہ ہو یا نہ ہو ہر حال میں مجھے ایک سال یہاں رہنا ہے اور دارالعلوم میں پڑھنا ہے۔ اور اللہ کریم کی کرم فرمائی تھی کہ اصل اور وقف دونوں جگہ داخلہ امتحان میں نام آ گیا ۔ اگر وہاں داخلہ نہ ملتا اور وہاں پڑھنا میسر نہ آتا تو ایک بڑا نقصان ہوتا،اکابر اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ کرکے جو خود اعتمادی پیدا ہوئی اس کا کوئی بدل نہیں،اس ایک سال میں بہت کچھ پایا اور جتنا کچھ ممکن تھا اس چمن سے سمیٹنے کی کوشش کی۔
سنہ۲۰۰۱ میں دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث شریف میں داخلہ ملا،دورہ میں اتنی بڑی تعداد میں درسی ساتھی ہوتے ہیں کہ ان سے تعارف مشکل ہے،لیکن ترجمان سے سب ہی واقف ہوتے ہیں،اس لئے کہ عبارت خوانی کے لئے ترجمان سے رابطہ کرکے نام لکھوانا ہوتا ہے،یاد پڑتا ہےکہ ہمارے ترجمان برادرم توحید پرتاب گڑھی تھے ،ان سے مل کر عبارت خوانی کی ٹھانی اور الحمد للہ سبھی اساتذہ کرام کے سامنے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ،عبارت خوانوں میں برادرم مفتی یاسر ندیم الواجدی کا عبارت پرھنے کا اندازبہت بھاتا تھا،وہ اساتذہ کرام کے چہیتے تھے،ان سےراہ ورسم بڑھائی ،واقفیت کےبعد ملاقات کا سلسلہ شروع ہوا،اس طرح ایک تعلق ان سے قائم ہوا اور پھر اسی رفاقت کے حوالے سے ان کے والد بزرگوار حضر ت مولانا ندیم الواجدی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی،کتابوں اور دارالکتاب کے حوالے سے مولانا محترم سے واقفیت تھی،لیکن ان کے صاحب زادے کے حوالے سے تعارف میں اور اضافہ ہوگیا۔
مولانا محترم نے ترجمان دیوبند شاید اسی سال جاری کیا تھااور اس کے اجراء ہونے کا علم اس طرح ہوا کہ آپ نے ایک تحریری مقابلہ اس کے تحت منعقد کیا، یاد پڑتا ہے کہ عنوان کچھ اس طرح تھا کہ’’ میں دینی تعلیم کیوں حاصل کرنا چاہتا ہوں‘‘، مقابلہ میں حصہ لینے کی عادت بچپن سے پڑی ہوئی ہےتو بندہ نے اس موضوع پر مضمون لکھا اور مولانا محترم کے دارا الکتاب میں جمع کرادیا ،دارا لعلوم اور وقف دارالعلوم اور دیگر اداروں کے طلبہ کو دعوت مقابلہ دی گئی تھی، اور سبھی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،ترجمان دیوبند کے اگلے شمارہ کا انتظار تھا کہ دیکھیں کیا نتیجہ آتا ہے،جب نیا شمارہ منظر عام پر آیا تو خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی اس لئے کہ اس مقابلہ میں اول انعام بندہ کے نام تھا ،اپنے نام اول انعام دیکھ کر یقین نہیں ہورہا تھا،بے ساختہ دارا لکتاب پہنچا اور مولانا محترم سے اپنا تعارف کروایا ،بڑے خوش ہوئے اور انعام اول حاصل کرنے پر مبارکباد دی، اور میرے مضمون کو سراہا کہ آپ نے جن عزائم اور جذبات کا اظہار اپنے مضمون میں دل کش پیرایہ میں کیا ہے وہ انعام اول کا مستحق ہے۔اور مجھے بطور انعام اول معارف السنن کا دیدہ زیب سیٹ عنایت فرمایا۔
یہ وہ ملاقات تھی کہ وہ مجھ سے اچھی طرح واقف ہوگئے ،طلبہ تو انہیں جانتے ہی تھے لیکن وہ کسی کو پہچان لیں یہ بڑی بات تھی،ایک نووارد کو انعام اول اور مولانا محترم کی نظر عنایت حاصل ہوگئی،اب ان سے ملنے اور ان کے ہاں وقت گذارنے کا اچھا موقعہ ملا ،ترجمان دیوبند پڑھ کر اس کے مضامین پر اظہار خیال ہوتا،اور ان ہی کے حوصلہ افزائی سے شہہ پاکر دورہ حدیث کے سال مضامین لکھے اور وہ ترجمان دیوبند میں شائع ہونے لگے۔وہ لکھنے والوں کو پسند کرتے تھے،مضامین میں بہت کم کتر بیونت کرتے تھے،صاحب قلم کی فکر کو اہمیت دیتے تھے،یہ سلسلہ چل پڑا تو میرے پرانے احباب بھی اپنے مضامین ترجمان میں شائع کرانے کے خواہش مند ہوئے اور میں ان کو لے جاکر مولانا محترم سے ملاتا اور ان کے مضامین شامل اشاعت کرنے کی درخواست کرتا ،اور وہ اس کی گذارش کو شرف قبولیت سے نوازتے۔
داریوں کا بڑا بوجھ آپڑا ہے۔
محترم مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ ایک علمی اور دینی خانوادے کے چشم وچراغ تھے، ذہانت اور فطانت انہیں ورثے میں ملی تھی، ان کے والد اور دادا دونوں بڑے ذی علم تھے، ان کا ننہالی خاندان بھی تعلیم وتدریس سے جڑا رہا ہے، ان کے سسرالی خانوادے میں بھی علم اور روحانیت کے چراغ روشن ہیں، پھر انہیں دیوبند جیسی علم دوست سر زمین میسر آئی جہاں ان کے علمی ذوق کو مزید پروان چڑھنے کا موقع ملا، دار العلوم دیوبند جیسی عظیم دینی دانش گاہ میں ان کی تعلیم ہوئی، جہاں اس جوہرِ قابل کو کامل اساتذہ کی تربیت ملی، خاص طریقے پر حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ جیسا منجھا ہوا مدرس اور باکمال استاذ نصیب ہوا، حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی گزری ہوئی صدی کے نصف آخر میں اپنے تدریسی کمالات اور امتیازی خصوصیات کی وجہ سے بے نظیر شخص تھے، ذروں کو چمکانے کی ادا انہیں خوب آتی تھی اور کندہٴ نا تراش کو تراشنے کا ہنر وہ جانتے تھے، علماء تو اور بھی ہوئے ہیں اور سب ہی قابل احترام ہیں، دار العلوم میں با کمال اساتذہ کا جمگھٹ رہا کیا ہے، اور ہر ایک کی کوشش وکاوش لائق تحسین ہے، مگر مولانا کیرانوی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں اپنی مثال آپ تھے، عربی زبان وادب میں انہوں نے جو کمال حاصل کیا اس میں اور دوسرے بھی ان کے ساجھی اور شریک ہوسکتے ہیں، البتہ فن کو منتقل کرنے اور بے صلاحیت کو صلاحیت مند بنانے کا جو ملکہ ان کو حاصل تھا اس میں وہ اپنے دور میں” وحدہ لا شریک“ تھے، ”وہ کوہ کن کی بات“ پڑھ کر ان کے کمالات کی تصویر سی نگاہ کے سامنے کھنچ جاتی ہے، باکمال استاذ کا یہ کمال تھا کہ اس کے شاگرد رشید نے قلم پر ایسی قدرت حاصل کی کہ اس نے مرحوم استاذ کو ”قرطاس ابیض“ پر زندہ وجاوید بناکر پیش کردیا، فرصت شیرازی کا شعر ہے ؎
گر مصور صورت آں دلستاں خواہد کشید
لیک حیرانم کہ نازش را چساں خواہد کشید
”کہ محبوب کی دلنشیں تصویر تو موئے قلم سے کھینچی جاسکتی ہے، مگر اس کے ناز وادا کو کون قیدِ تحریر میں لاسکتا ہے! “مگر یہاں تو ناز وادا اور طرزِ وفا وجفا کے ساتھ محبوب استاذ کی تصویر موئے قلم سے سپرد قرطاس کردی گئی، مولانا نور عالم خلیل امینی مرحوم نے اگر صرف یہی ایک کتاب لکھی ہوتی تب بھی ان کی تصنیفی مہارت اور زبان واسلوب پر قدرت کے لیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہ رہتی، تاریخ میں کم ہی ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں جن کے ذریعے استاذ کو ایسا عظیم خراج تحسین پیش کیا گیا ہو، مولانا وحید الزماں کیرانوی مرحوم کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والے شاگردوں اور فضلاء میں لکھنے اور اچھا لکھنے کا ذوق نمایاں نظر آتا ہے، مولانا ندیم الواجدی مرحوم نے اپنے استاذ سے لکھنا پڑھنا اور پڑھانا سیکھا، ان کی عملی زندگی کا آغاز تدریس سے ہوا، پھر حالات کی ستم ظریفی کہ انہیں درسگاہ سے نکال کر تجارت کی وادی میں لے گئی اور چند برس ایسے گزرے کہ صرف تدریس ہی نہیں، تحریر وتصنیف سے بھی وہ الگ رہے، یہ ”فترت“ کا زمانہ تھا جو جلد ہی گزر گیا، پھر ان کا قلمی سفر شروع ہوا اور وفات تک جاری رہا، انہوں نے متعدد کتابیں لکھیں، جو کل تک ان کی تصنیف تھیں اور آج ان کے لیے صدقہٴ جاریہ، ان کی تحریروں میں مولویانہ خشکی کے بجائے ادبی دلکشی وشگفتگی ہے، انہوں نے مولانا ازہر شاہ قیصر مرحوم، حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب اور سید محبوب رضوی مرحوم جیسے مشاق اہلِ قلم اور کہنہ مشق مصنفین کی صحبت پائی تھی، چنانچہ صحافت کے میدان میں بھی انہوں نے قدم رکھا اور ماہنامہ ”ترجمانِ دیوبند“ جاری فرماکر اسے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا، حال کے دنوں میں روزنامہ” انقلاب“ میں ان کا ہفتہ واری سیرت طیبہ پر سلسلہ وار مضمون شائع ہوکر عوام وخواص میں مقبول ہوا،روزانہ تراویح میں پڑھے جانے والے قرآنِ مجید کے جزء کی انہوں نے ترجمانی وتلخیص لکھی جو کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی اور ذوق وشوق سے پڑھی گئی۔
مولانا ندیم الواجدی مرحوم نے پچھلی دو دہائیوں میں زیادہ لکھا، ان کے مضامین ومقالات مختلف جرائد ورسائل میں شائع ہوتے رہے، چونکہ ”دار الکتاب“ جیسے معیاری اشاعتی ادارے کے وہ مالک تھے اس لیے ان کی اپنی کتابوں کی طباعت واشاعت بھی ان کے لیے آسان تھی، اور ان کی تصنیفات ملک کے طول وعرض میں پہونچتی رہیں، ان کے بہت سے مضامین اب بھی مختلف رسالوں اور ماہناموں کی فائل میں ہیں، جنہیں یکجا کرکے کتابی شکل دی جاسکتی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جلسوں میں مدعو خصوصی کی حیثیت سے ان کی شرکت ہوتی تھی، مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نور اللہ مرقدہ کے عہدِ صدارت کے آخری اجلاس منعقدہ کانپور میںانہیں بورڈ کا رکن بنایا گیا، اس کے بعد صرف ایک ہی اجلاس اندور مدھیہ پردیش میں ہوا، جس میں شاید وہ شریک نہیں ہوسکے اور اب دوسرے اجلاس کے منعقد ہونے سے پہلے وہ اللہ کو پیارے ہوگئے، زندگی ان کی دیوبند میں گزری، مگر وفات دیارِ غیر
وفیات مورخہ : 19 اکتوبر
/channel/ilmokitab
پروفیسر محمد سمیع صدیقی 19/اکتوبر/1982ء
ڈاکٹر حامد اللہ ندوی 19/اکتوبر/1999ء
ڈاکٹر ف عبد الرحیم 19/اکتوبر/2023ء
زبیدہ خانم 19/اکتوبر/2013ء
سعید بن تیمور 19/اکتوبر/1972ء
سلیم ناصر 19/اکتوبر/1989ء
شیخ الحدیث محمد موسی روحانی بازی 19/اکتوبر/1998ء
علی عزت بیگوچ 19/اکتوبر/2003ء
نذر سجاد حیدر 19/اکتوبر/1967ء
نظام را مپوری 19/اکتوبر/1872ء
یس یم ظفر 19/اکتوبر/2023ء
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔الفا ظ کے سرپر نہیں اُڑتے معنی...- احمد حاطب صدیقی *
حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی عمر بھر جو کرتے رہے، سو کرتے رہے،مگر جاتے جاتے ہمیں بھی تلقین کر گئے کہ
لیلائے سخن کو آنکھ بھر کر دیکھو
قاموس و لغات سے گزر کر دیکھو
الفاظ کے سر پر نہیں اُڑتے معنی
الفاظ کے سینے میں اُتر کر دیکھو
دیکھیں گے صاحب ضرور دیکھیں گے۔ مگر بالعموم ہمارا سابقہ اُنھیں معنوں سے پڑتا ہے جو الفاظ کے سر پر اُڑتے نظر آتے ہیں۔ جہاں کوئی معنی کسی لفظ کے سر پر اُڑتا نظر آیا، لپک کر دونوں کی تالی سی بنائی اور معنی کو بالکل اُسی طرح چٹاخ سے ہتھیلیوں کے بیچ دبوچ لیا جس طرح کسی کے سر پر اُڑتے ہوئے مچھر کو ایک ہی تالی میں تَلپٹ کردیا جاتا ہے۔ الفاظ کے سینے میں اُترنا آسان کام نہیں،کسی کے دل میں اُترنے سے زیادہ دُشوار کام ہے۔ لیکن اگر اُتر جائیے تو لطف آجاتا ہے۔ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس لفظ کا استعمال کہاں کہاں ہوسکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین ایک عمر تک (یعنی اپنی سبک دوشی کی عمر تک) متعدد تعلیمی اداروں میں اُردو کی تعلیم و تدریس کرتے رہے اور اصلاحِ زبان کے موضوعات پر کتابیں بعد کو بھی تصنیف کرتے رہے۔ اب آج کل ڈاکٹر صاحب علیل اور صاحبِ فراش ہیں۔ ہم بھی دُعا کرتے ہیں، آپ بھی دُعا فرمائیے کہ اللہ شافی الامراض ڈاکٹر صاحب کو شِفائے کاملہ، عاجلہ، مستمرہ عطا فرمائے۔ آمین!
ڈاکٹر غازی علم الدین صاحب کی ایک وقیع کتاب ہے ’’لسانی مطالعے‘‘۔ اس کتاب کے ایک باب میں ڈاکٹر صاحب نے الفاظ کے سینے میں اُتر کر دیکھا ہے۔ خود جو جلوہ دیکھا، وہی ہمیں بھی دکھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب سے اکتساب کرتے ہوئے ہم بھی چند الفاظ کا سینہ کھول کر آپ کو نظارہ کرواتے ہیں۔ مگر یہ ’اکتساب‘ کیا ہوتا ہے؟
’اکتساب‘ نکلا ہے ’کسب‘ سے۔ کسب کا مطلب ہے کمانا، حاصل کرنا، محنت کرنا۔ فارسی کا ایک مشہور مصرع ہے: ’’کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی‘‘۔کمال حاصل کرو تاکہ دنیا میں عزت پاؤ۔ اسی سے اسمِ فاعل ’کاسِب‘ بنا ہے جس کا مطلب ہے کمانے والا، محنت کرنے والا۔ یعنی مزدور یا محنت کش۔ کمانے، حاصل کرنے اور محنت کرنے کا عمل ہی ’اکتساب‘ کہلاتا ہے۔ لیکن صاحب! یہاں تو ’کسب‘ ڈاکٹر غازیؔ نے کیا ہے اور ’اکتساب‘ ہم نے کرلیا۔ آپ سے کیا چھپانا، ضمیرؔ جعفری مرحوم اپنے مرحوم ہونے سے قبل ہی یہ راز فاش کرگئے تھے :
جہاں میں زور و زر والے، اثر والے، ہنر والے
ہمیشہ دوسروں کا مال استعمال کرتے ہیں
ہمیں آپ ’ہنروالوں‘ میں شمار کرکے استعمال کرلیجے۔ استعمال کرنے والی چیزوں میں سب سے پہلے ’رومال‘ کا خیال آتا ہے۔ آج کل جا بجا بلکہ بجا و بے جا ’کاغذی رومال‘ استعمال کرنے کا رواج بڑھ گیا ہے۔ لیکن ہمارے اہلِ زبان اپنی زبان میں اسے ’کاغذی رومال‘ کہنے سے ہچکچانے لگے ہیں۔ برطانوی زبان میں ’ٹائیں ٹائیں فِش‘ جیسا کوئی سا نام اپنی زبان پر لے آتے ہیں۔ آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جہاں میں زور و زر والے، اثر والے، ہنر والے، بالخصوص مغرب والے، مشرقی انسانوں کو کاغذی رومال کی طرح استعمال کرکے انھیں کُوڑے دان میں ڈال جاتے ہیں۔ جب مشرقی لوگ مغرب پسند ہوئے تو کُوڑے دان کو بھی ‘Dust Bin’میں ڈال آئے۔
’رومال‘ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ دونوں فارسی کے ہیں۔ ’رُو‘ بمعنی منہ یا چہرہ اور ’مال‘۔ ’مال‘ کا مصدر ’مالیدن‘ ہے یعنی ملنا یا رگڑنا۔ مالش کا لفظ بھی اسی سے نکلا ہے۔ گویا ’رومال‘ کا مطلب ہوا ایسا کپڑا جس سے چہرے کو ملاجائے، رگڑا جائے اور صاف کیا جائے۔ مگر ’رگڑا دینے‘ میں احتیاط لازم ہے۔ بالخصوص خواتین اپنی مشّاطاؤں سے منہ زیادہ نہ رگڑوایا کریں۔کبھی کبھی چہرہ بالکل ہی صاف ہوجاتا ہے۔
’بالکل‘ پر یاد آیا کہ آج کل بڑے قابل قابل لوگ ’بلکل‘لکھنے لگے ہیں۔ شاید وہ اس لفظ کے سینے میں بالکل نہیں اُترے۔ یہ لفظ بھی مرکب ہے ’بِ ال کُل‘ کا۔’بِ‘ حرفِ جر ہے، اس کا مطلب ہے ’ساتھ‘ یا ’سے‘۔ جیسے ’بِ اِسمِ اللہ‘ اللہ کے نام سے یا اللہ کے نام کے ساتھ۔ اسے ملا کر’بِسمِ اللہ‘ لکھتے ہیں۔ ’ال‘ تخصیص کے لیے آتا ہے۔ ‘The’کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’کتاب‘ کوئی بھی کتاب ہوسکتی ہے، لیکن ’الکتاب‘ سے مراد ایک خاص کتاب یعنی ’قرآن مجید‘ ہے۔ ’الکُل‘ کا مطلب ہوا سب کا سب، سارے کا سارا، کُل کا کُل۔ اس طرح ’بالکل‘ کے معنے ہوئے ’مکمل طور پر، خاص طور پر یا کُلّیۃً۔ حرفِ جَر ’ب‘ ہمیشہ بالکسر (یعنی زیر کے ساتھ) استعمال نہیں ہوتا۔ بالفتحہ (یعنی زبر کے ساتھ) بھی استعمال ہوتا ہے۔ ’ب‘ زبر والے الفاظ اُردو میں ’بکثرت‘ یعنی کثرت سے یاکثرت کے ساتھ، استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً بَغور (غور سے یاغور کے ساتھ) اور بَعزمِ صمیم (پختہ عزم سے یا پختہ عزم کے ساتھ)۔ پس’بالکل‘ کو ’بلکل‘ لکھنا بے وقوفی ہے۔
جو عالم یا مفکر اپنے ماحول و معاشرے سے بیگانہ ہو وہ کبھی اپنی قوم کی رہ نمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔
اور کسی بھی عالم یا مفکر کو اس کے ماحول و معاشرے سے الگ کرکے نہیں جانچا جا سکتا۔
کچھ کی سوچ و فکر محلاتی سطح کی ہوتی ہے جنھیں قومی و عالمی سطح پر نہیں دیکھا جا سکتا اور کچھ کی فکر کا زاویہ وسیع ہوتا ہے جسے محدود نگاہیں نہیں پاسکتیں۔
آج کی دانش وری کا سب سے بڑا المیہ ان حقائق کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے۔
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
پھر جب اُسامہؓ گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کے لیے روانہ ہوئے تو اقتدار اور گھمنڈ کی ماری دنیا کی آنکھیں عشقِ رسولﷺ کا ایک ایسا جذبہ دیکھ رہی تھیں جس کو دیکھ کر رقّت طاری ہو جائے ۔ اُسامہؓ کو رخصت کرنے کے لیے خلیفۂ وقتؓ ایک غلام کی طرح پیادہ پا چلا آرہا تھا ۔ ایک "غلام" کا بیٹا سردار کی شان سے گھوڑے پر سوار تھا اور ایک مرد آزاد ___محمد عربیﷺ کے بعد سب سے بڑا مسلمان اس کو خراجِ عقیدت دینے کے لیے اپنے کپڑوں اور قدموں کو غُبار آلود کر رہا تھا ___ یہ منظر دیکھ کر حضرت اُسامہؓ کانپ گئے اور کہا :
"اے رسولِ خُداﷺ کے جانشین ! یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ یا تو آپ سوار ہو جائیں ورنہ اُسامہؓ بھی فرشِ خاک پر اُتر آئے گا ۔"
لیکن خلیفۂ وقتؓ کو عشقِ رسولﷺ کی محویت میں سرافرازی و سرافگندگی کے مسائل پر غور کرنے کی فرصت کہاں تھی ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اس وقت ماضی کی وہ یا دیں جلوہ افروز تھیں جب حضورﷺ زندہ تھے۔ جب انہوں نے کبھی یہ دیکھا تھا کہ حضورﷺ کے ایک زانو پر حضرت حسنؓ ہیں اور دوسرے پر اُسامہؓ لیٹے ہیں ___ اور آں حضرتﷺ ان کو اسی طرح لوری دے رہے ہیں " اے خدا ! میں ان سے پیار کرتا ہوں ، آپ بھی انھیں اپنی محبت کے سائے میں رکھیے گا___
کبھی چھوٹے سے اُسامہؓ اس حالت میں آپﷺ کے سامنے آتے ہیں کہ ان کی ناک بہہ رہی ہے تو خدا کا رسولﷺ بہ نفسِ نفیس ان کی ناک صاف کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ حضرت عائشہؓ یہ صورتِ حال دیکھ کر تڑپ جاتی ہیں ___ "اے خدا کے رسولﷺ ! میرے ہوتے ہوئے آپﷺ یہ تکلیف نہ فرمائیں ....." لیکن رسولِ خدا ﷺپلٹ کر دلی جراہت اور دل سوزی کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ "اے عائشہؓ میں ان سے محبّت کرتا ہوں۔ تم بھی ان سے محبّت رکھو ۔"
حضرت ابو بکر صدیقؓ کی اس محویت کو جب اُسامہؓ کے اصرار نے توڑا تو آپ نے جواب دیا:
"نہیں اچّھے اُسامہؓ ! ___ تم اسی طرح بیٹھے رہو گے! میں اسی طرح اپنے قدموں کو غبار آلود کرنا چاہتا ہوں ___ اے اُسامہؓ !___ یہ تو خدا کی راہ کا گردو غبار ہے۔ یہ عشقِ رسولﷺ کی گردِ راہ ہے ___ اس میں کیا حرج ہے اگر یہ گرد و غبار مجھے لت پت کردے !___ اے اُسامہؓ کیا یہ وہی حسین راہ نہیں جس پر ایک قدم اٹھانے کا انعام سات سو نیکیاں ہیں۔ مجھے اس راہ کی گرد سےاَٹتا ہوا دیکھ کر تمہیں غمگین نہیں خوش ہونا چاہیے۔"
----------***--------
وفیات مورخہ: ۲۱؍ اکتوبر
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
مولانا عبدالغفار سلفی 21/اکتوبر/1977ء
عظمت علی خان 21/اکتوبر/2012ء
محمد اسماعیل پڈھیار 21/اکتوبر/2005ء
محمد اصغر حسنی 21/اکتوبر/1988ء
الحاج شمس الدین اعظمیؒ 21/اکتوبر/2008ء
مرزا محمد ہادی رسوا 21/اکتوبر/1921ء
مخفی، صالحہ بیگم 21/اکتوبر/1972ء
شیخ الحدیث مولانا محمد مالک کاندھلوی 21/اکتوبر/1988ء
محمد ایوب کھوڑو 21/اکتوبر/1980ء
،چہرے پر تھکن کے آثار تھے ،ضعف وپیرانہ سالی نے جسم کو مضمحل کررکھا تھا ،لیکن اپنی جگہ اپنوں میں آکر ان کی طبیعت کھل اٹھی تھی ،خانقاہ کے بزرگوں کا ذکر چھڑا ہوا تھا اور وہ اپنے حافظے کے ورق الٹ رہے تھے ،عمر کا آخری حصہ تھا ،اور باتوں میں حافظہ متاثر ہوگیا تھا لیکن جو یادیں جسم وجان سے جڑی ہوئی تھیں،انہیں وہ کیوں کر فراموش کرسکتے تھے یا انہیں ان باتوں سے متعلق حافظہ کیسے دغا دے جاتا ،کئی برس کے بعد وہ خانقاہ آئے تھے، درمیانی مدت میں کچھ دوری سی ہوگئی تھی اور کچھ معاملات ومسائل ایسے تھے جن کی وجہ سے کچھ بعد پیدا ہوگیاتھا ،ہرجگہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فاصلوں کو کم کرنے کے بجائے انہیں بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں،اور کبھی کبھی کچھ غلط فہمیاں بھی دل کی پھانس بن جاتی ہیں ،اب نہ حضرت مولانا سید نظام الدینؒ رہے اور نہ حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانی قدس سرہ بقید حیات ہیں ،اس لیے نہ ان باتوں کو ذکر کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اس کی تفصیل کے اظہار کی حاجت!صرف پس منظر کے بیان کے لیے اوپر کے جملے لکھے گئے ہیں ،تا کہ اس وقت کی صورت حال کا کچھ اندازہ رہے ،تلخی کے بعد آپس کی ملاقات مزہ دے جاتی ہے ،گلے ملنے سے بہت سے گِلےدور ہوجاتے ہیں ،جس وقت کا ذکر کررہا ہوں وہ ایسا ہی مرحلہ تھا ،برف پگھل چکی تھی ،اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیےپیش رفت دونوں طرف سے ہورہی تھی ،مولانا سید نظام الدین صاحبؒ بڑے تھے اور ان کی بڑائی ہی کی یہ بات تھی کہ وہ خود اپنے مرکزتربیت حاضر ہوئے ،دونوں بزرگوں میں کیا گفتگو ہوئی ،کیا گلے شکوے ہوئے یہ تو نہیں معلوم البتہ نگاہوں نے یہ ضرور دیکھا حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانیؒ بنفس نفیس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کی قیام گاہ پر تشریف فرماہوئے،بیش قیمت تحفے ان کی خدمت میں پیش کیے ،اور رات کے اجلاس میں حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ نےبھی بڑے بلند الفاظ میں اپنے مخدوم زادے کا ذکر فرمایا،ان کی قائدانہ بصیرت اور ایمانی فراست کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا ،یہ بھی فرمایا کہ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی خوبیوں اور صلاحیتوں پر رشک آتا ہے اور وہ بجا طور پر حضرت امیر شریعت رابعؒ کے جانشین کہلانے کے حقدار ہیں ،اب پوری طرح یاد نہیں لیکن شاید اس موقع پر حضرت مولانا کا خانقاہ رحمانی میں دو دن قیام رہا ،جامعہ رحمانی کے اجلاس میںحضرت مولاناسید نظام الدین صاحبؒ کے بعد مجھے بھی کچھ عرض کرنے کا موقع ملا تھا،میں نے اپنی تقریرمیں حضرت مرحوم کے خطاب کے بعض حصوں کو نقل کر کے اس کی مزید توضیح کی ،یہ میرے لیے سعادت اور نعمت کی بات تھی۔حدیث شریف میں یہ بات آئی ہے کہ ”إنما العلم بالتعلم، والحِلم بالتحلّم“، (علم سیکھنے سے آتا ہے اوربردباری کوشش کے بعد پیدا ہوتی ہے) علم کے ساتھ حلم کا اجتماع مبارک ہے، کبھی کبھی علم کی کثرت انسان کو فخر وتعلی یا علو اور غلومیں مبتلا کردیتی ہے، البتہ جس انسان کا ظرف بلند ہو اور اس میں بردباری کی صفت ہو وہ علم کی کثرت کے باوجود راہِ ہدایت پر قائم رہتا ہے اور توازن اور اعتدال کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، شاید اسی لیے حدیث شریف میں علم اور حلم کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہےاور یہ اشارہ بھی کردیا گیا ہے کہ بیٹھے بٹھائے یہ نعمتیں ہاتھ نہیں آتیں، علم کے لیے بھی پتّا پانی کرنا پڑتا ہے اور حلم اور بردباری کے حصول کے لیے بھی محنت وکاوش کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے، مشقت کے مرحلے سے گزر کر اور شمع کے مانند اپنے آپ کو پگھلا کر علم اور حلم کی دولت حاصل کی جاتی ہے، مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ میں علم بھی تھا، انہوں نے دار العلوم دیوبند جیسی دینی دانش گاہ میں رہ کر اور شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ جیسی عبقری اور نابغہٴ روزگار شخصیت کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرکے اپنے سینے کو علوم ومعارف کا گنجینہ بنایا تھا اور پھر عملی میدان میں اکابر کے زیرِ سایہ رہ کر اپنے اندرحلم، تحمل اور متانت پیدا کی تھی، علم اور حلم کے اجتماع نے ان کی شخصیت کو انفرادیت بخشی تھی، بڑے اداروں میں مسائل بھی بڑے ہوتے ہیں، ان بڑے مسائل کو صرف علم کی روشنی میں حل نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے حلم کی بھی ضرورت پڑتی ہے، اور یہ دونوں نعمتیں مولانا مرحوم کو حاصل تھیں، اسی لیے مشکل مراحل میں بھی انہوں نے ملت کے اجتماعی اداروں کی آبرو پر حرف نہ آنے دیا اور نفسانیت کی آنچ سے ملی اداروں کی آن بان کو نقصان نہیں پہونچایا، وہ بھی انسان تھے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ خامی اور غلطی ان سے ہوئی ہوگی، کبھی کبھی ارد گرد کے لوگ بھی رائی کا پربت بناکر پیش کرتے ہیں اور بشریت کے تقاضے سے انسان بعض غلط باتوں سے بھی متأثر ہوجاتا ہے اور وہم وگمان کو یقین کا درجہ دے دیتا ہے، لیکن بہ حیثیت مجموعی ان کا کردار بلند اور روشن رہا ہے اور علم اور حلم کے اجتماع نے ان کی شخصیت کو ہمیشہ باوقار بنائے رکھا، یہ وہ خوبی ہے جو ہر ایک قائد ملت اور رہبر ورہنما
Читать полностью…---------------------------
*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*
*پیکرِ علم وحلم*
_*حضرت مولاناسید نظام الدین قاسمی رحمۃ اللہ علیہ*_
_*تحریر: محمد عمرین محفوظ رحمانی*_
( سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں)
امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منتﷲ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ خوبیوں کے انسان تھے ،پاک طینت ، پاک نفس ، رجال شناس اور مردم گر ! ان کے زیر سایہ بہت سے افراد پروان چڑھے ، اور ان میں سے کئی ایک ملک وملت کے نگہبان اور ملت اسلامیہ کی کشتی کے ناخدا اور کھیون ہاربنے ، انہی میں سے ایک نام امیر شریعت سادس حضرت مولانا سیّد نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ(سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ) کا ہے ، وہ خودجوہر قابل تھے اور پھر امیر شریعت رابع رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت میں رہ کر ان میں خوب نکھار پیدا ہوا ، اور ملت اسلامیہ کی رہبری و رہنمائی کی لیاقت وقابلیت ان میں پیدا ہوئی ، اپنے رہبر و مربی کی راہ پر چلتے ہوئے حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی ملت اسلامیہ کی خدمت کے لیے وقف کر دی ،زندگی کی آخری سانس تک وہ قوم و ملت کی سرفرازی و سرخروئی کے لیے سرگرم عمل اور کوشاں رہے ، عمر کے اس مرحلے میں جب کہ لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ضعف و پیرانہ سالی کی وجہ سے عملی سرگرمیوں سے دست کش ہو جاتے ہیں،اس وقت بھی مولانا مرحوم پوری جواں ہمتی کے ساتھ آمادہ عمل رہتے تھے ،اور طول طویل سفر سے بھی گریز نہیں فرماتے تھے ، ان کا یہ مجاہدانہ جذبہ اور مخلصانہ طرز و عمل ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
پہلے پہل ان کی زیارت مہاراشٹر کی عظیم و قدیم دینی درسگاہ معہد ملت کے سالانہ اجلاس میں ہوئی ، وہ ختم بخاری شریف کے لیے تشریف فرما ہوئے تھے ، معہد ملت کا امارت شرعیہ سے پرانا اور مخلصانہ رشتہ ہے ، امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں یہ رشتہ قائم ہوا ، وہ برابر یہاں تشریف لایا کرتے تھے اور کبھی ان کے ساتھ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ(سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ ) ہوتے ، اور کبھی حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت رفیق سفرتشریف لاتے ، کئی سفر میں مرشد گرامی حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ والدبزرگوار کے ساتھ تشریف لائے تھے ، پھر جب حضرت امیر شریعت رابع رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہو گیا تو حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کے آمد و رفت کا سلسلہ استقلال کے ساتھ جاری ہوا ، ان دونوں بزرگوں کو بھی معہد ملت سے بڑا تعلق اور انسیت تھی،معہد ملت ہی کے سالانہ اجلاس میں پہلی مرتبہ حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ کو سننے کا موقع ملا ،معلوم ہوا کہ یہ بزرگ بڑے عالم دین امارت شرعیہ کے امیر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں، اس پہلی گفتگو کاتاثر تو یاد نہیں البتہ شکل و شباہت اور بزرگانہ ادائیں ذہن میں محفوظ ہیں، تصنع اور تکلف سے پاک ، سادگی اورانکساری کا مجسم پیکر، اکابراور اسلاف کی طرح علم میں پختگی اور مزاج میں فروتنی ،اس کے بعد بار بار انہیں دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جلسوں اور میٹنگوں میں شرکت ہونے لگی تو برابر ان کی زیارت ہوتی تھی ، اور ان کی گفتگو سننے کا بھی موقع ملتاتھا، وہ حالات سے پوری طرح باخبر رہتے تھے اور ملت اسلامیہ پر کی جانے والی ہر یلغار پر ان کی نگاہ رہتی تھی، وہ ان علماء میں سے نہیں تھے جو احوال زمانہ سے بے خبر صرف در س و تدریس کی دنیا تک محدود رہتے ہیں، ان کاشماران جہاں دیدہ اور سرد گرم چشیدہ لوگوں میں تھاجو زمانہ اور زندگی کے چیلنجز سے پوری طرح واقف و باخبر رہتے ہیں ، اور بروقت اور مناسب حال رہنمائی کافریضہ انجام دیتےہیں،ان کی اس خوبی میں ان کے مربی حضرت مولانا سیدشاہ منت اللہ رحمانیؒ کی تربیت کاخاص دخل تھا، اور حضرت امیرشریعت رابعؒ کو یہ خوبی حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ(بانی امارت شرعیہ) سے حاصل ہوئی تھی ،سچائی یہ ہے کہ ایمانی فراست ، دور بینی و دوراندیشی ، احوال زمانہ پر گہری نظر اور ملت اسلامیہ کےلیے بروقت صحیح اورمناسب حال رہنمائی پیش کرنے میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کاکوئی ثانی نہیں، ان کے اندر جو قائدانہ صفات تھیں وہ عام طریقے پر ایک ساتھ کسی ایک شخصیت میںکم جلوہ گر ہوتی ہیں، ان کی خوبیوں سے حضرت مولانا شاہ منت اللہ رحمانیؒ کوپوراپور احصہ ملا ، ان کی شخصیت پر حضرت سجاد کی گہری چھاپ تھی ،پھر حضرت امیرشریعت رابع کی صحبت میں رہنے والوں نے بقدر ظرف ان کی قائدانہ صفت وصلاحیت سے حصہ لیا ،حضرت مولانا سید نظام الدینؒ نے بھی خاص اس باب میں حضرت امیر شریعت رابعؒ سے فیض پایا تھا ،جس کا اظہار ان کے اقدام وعمل اور ان کے خطاب وگفتگو سے ہوتا تھا ،یہی وجہ ہے کہ امیر شریعت رابع حضرت مولانا شاہ
سلسلہ نمبر: 216
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مفتی عبید الرحمن صاحب،مردان*
*فکری جنگ کے طرز اور مسلم معاشرے پر اس کے اثرات*
دین اسلام کے خلاف جو نظریاتی جنگ شروع ہوئی ہے وہ مختلف پینترے بدلتی رہی ہے، چنانچہ پہلے پہل تو دین اسلام یا اس کے کچھ احکامات اور تعلیمات پر اعتراضات ہوا کرتے تھے، وہ اعتراض بھی اسی اعتراض ہی کے نام و عنوان سے ہوا کرتے تھے اور اسی شکل و انداز میں ہوا کرتے تھے،اس کا نتیجہ یہ ہوتا تہا کہ مسلمانوں میں رد عمل کے نفسیات آڑے آجاتی تہیں اور اس کی برکت سے ایک طرف عام مسلمان کا دین و ایمان محفوظ رہ جاتا تہا اور دوسری طرف اہل علم اور ذمہ داران امت کے لیے جواب کی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہونا بھی کوئی مشکل نہ ہوتا تھا ؛ لیکن بعد کے ادوار میں جب سرد جنگ کے محاذ زیادہ کیے گئے تو زیادہ چالاکی یہ دیکھنے کو ملی کہ دین اسلام کے حوالے سے پہلے جو چیزیں اشکال و اعتراض کی صورت میں پیش کی جاتی تھیں وہ اب اس ڈھنگ میں پیش نہیں ہوتیں ؛ بل کہ پہلے ان کے سانچے میں دین اسلام کو ڈھالا جاتا ہے اور پھر اسی ترمیم شدہ اور مسخ شدہ چیز کو دین اسلام کے نام پر پیش کیا جاتا ہے اور صرف یہی نہیں ؛ بل کہ اس کو دلکش جاذب نظر عنوانات کے ساتھ اس کی خصوصیات و امتیازات میں جگہ دی جاتی ہے اور دلیل کے انداز میں انہی باتوں کو بنابنا کر پیش کیا جاتا ہے جو در حقیقت اعتراضات تھے ۔
فکری جنگ کے اس پرفریب انداز سے عوام مسلمانوں کا بہب خوب نقصان ہوا اور اہل علم کو بھی مشکلات کی پٹری سے گزرنا پڑا، عوام کا نقصان تو یہ ہوا کہ ان کی خاصی مقدار نے مختلف عناصر کی وجہ سے ان ہی مسخ شدہ چیزوں کو اسلام سمجھنا شروع کردیا،اس کے انوکھے انداز کی وجہ سے انہوں نے ان چیزوں کو دشمن کے ہاتھ کا تیر نہیں سمجھا کہ اس سے دور رہنے کا اہتمام کیا جاتا ؛ بل کہ اس کو متاع عزیز سمجھ کر اس کو دل و جان سے قبول کیا اور ان نیے تعلیمات کو ایسے ہی جوش و خروش کے ساتھ قبول کیا جس طرح کوئی مخلص شخص حقیقی دین کو گلے لگاتا ہے ۔
اہل علم کے لیے مشکل یہ پیش آئی کہ ہر نئی آواز کو پرکھنا اس کے درست اور نادرست پہلؤوں کو الگ الگ کرنا اور پھر امت کے قصر ایمان کو اس سے بچائے رکھنا ان کے لیے بہت مشکل اور صبر آزما کام بن گیا۔
( *نظام زندگی میں دین و مذہب کی واقعی اہمیت اور حقیقی قدر و مقام،صفحہ: 145،طبع: مکتبہ دار التقوی، مردان*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
وفیات مورخہ ۲۰ اکتوبر
/channel/ilmokitab
حافظ فضل الرحمن ندوی 20/اکتوبر/1944ء
سردار فاروق احمد خان لغاری 20/اکتوبر/2010ء
سردار محمد یعقوب 20/اکتوبر/2021ء
سید محفوظ علی بدایونی 20/اکتوبر/1943ء
ضمیر علی بدایونی 20/اکتوبر/2003ء
معمر قذافی 20/اکتوبر/2011ء
ڈاکٹر سید معین الحق 20/اکتوبر/1989ء
نادر کاکوروی 20/اکتوبر/1912ء
نسیم متھراوی(مولوی حبیب احمد) 20/اکتوبر/1985ء
اسی طرح ایک امریکن طالب علم آپ کے پاس جامعہ میں داخلہ کا مقررہ وقت گذرنے کے بعد آیا ، شیخ بن بازؒ نے آپ کو ترجمانی کرنے کے لئے کہا، اور اس کی بات سن کرشیخ صاحب نے معذرت کرتے ہوئے اسے آئندہ سال آنے کو کہا، تو اس امریکی نے جواب دیا کہ کیا آپ آئندہ سال تک میرے زندہ رہنے کی ضمانت دے سکتے ہیں، اگر میں اس دوران دین کو جانے بغیر دنیا سے گذر گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ۔ یہ سن کر شیخ کی آنکھیں آنسؤوں سے ڈبڈبا گئیں، اور اس کے داخلہ کی ہدایت کردی"۔
آپ نے جامعہ میں عربی نہ بولنے والوں کو عربی زبان سکھانے کے لئے ( دروس اللغة العربية لغير الناطقين بها) کے عنوان سے جو نصاب تیار کیا ہے، اسے بڑی پذیرائی ملی، اور کئی سارے ملکوں میں آپ کی اطلاع کے بغیر بھی یہ مقبول ہوئیں، کئی ایک ظالموں نے آپ کا کتاب سے نام حذف کرکے بھی انہیں شائع کیا۔
امام مسجد نبوی شریف شیخ علی عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ شاہ فہد قرآن شریف پریس کے سربراہ ہیں، ۱۹۹۲ء میں جامعہ اسلامیہ سے ڈاکٹر صاحب کو رٹائرڈ کیا گیا تو آپ نے فورا ہی آپ کو شاہ فہد پریس میں قرآنی تراجم کے شعبہ کا سربراہی پر نامزد کردیا، جس عہدے پر آپ وفات تک تیس سال سے زیادہ عرصہ فائز رہے، اور آپ کی سرپرستی میں ( ۷۶) سے زیادہ زبانوں میں قرآن پاک کے ترجمے شائع ہوئے۔ یہ ایسا عزت کا مقام ہے جو شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔
ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب زندگی بھر وحی الہی کی زبان سیکھتے اور سکھاتے، اور قرآن پاک کی تعلیمات کو دنیا بھر میں قابل فہم بناتے بناتے اپنے خالق حقیقی سے جاملے، انہوں نے شہرت اور ناموری سے بلند ہوکر، ایک گمنام سپاہی کی طرح اللہ کے کلام کی سربلندی کے لئے زندگی لگادی، اب آپ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن آپ کی پھیلائی ہوئی خوشبو تا قیامت فضاؤں میں بکھرتی رہے گی۔ کتنا خوش نصیب تھا وہ شخص، ظاہری نظروں میں اپنی کوئی آل واولاد نہیں چھوڑی، لیکن دیکھا جائے تو اس کی چھوڑی ہوئی ہزاروں لاکھوں روحانی اولاد نصف صدی سے زیادہ عرصے سے قرآن کا نور، اور علم کی روشنی دنیا بھر میں پھیلارہی ہے، ان شاء اللہ نور کی یہ شعاعیں تا قیامت بڑھتی رہیں گیں، اور بارگاہ خداوندی میں آپ کے درجات بلند کرتے رہیں گی۔ آمین
2023-10-22
WA:00971555636151
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
۱۹۶۳ء میں آپ کو عالم عرب کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا، اور آپ نے عید الفطر کی مناسبت سےصدر مصر کرنل جمال عبد الناصر کو پیغام تہنیت بھیجا، جس میں آپ نے ازہر شریف میں اپنی عربی تعلیم مکمل کرنے کے اشتیاق کا اظہار کیا، یہ مبارک باد ایسی نہیں تھی کہ اسے یاد بھی رکھا جاتا، لہذا اسے بھیج کر بھول گئے، لیکن آپ کو اچانک دو ہفتے بعد مصر کے نائب صدر حسین الشافعی کا ایک جواب موصول ہوا، جس میں آپ کو مصری سفارت خانے میں اپنے تعلیمی اسناد اور کاغذات پیش کرنے کو کہا گیا تھا۔آپ نے ضروری سفر کی کاروائی کی اور جنوری ۱۹۶۴ء میں ازہر شریف میں تعلیم کا آغاز کردیا، آپ کا قیام اس وقت مدینۃ الناصر للبعوث میں تھا۔ چونکہ اس وقت تک علی گڑھ یونیورسٹی کی اسانید کا یہاں اعتراف نہیں ہوا تھا، لہذا آپ کا داخلہ امتحان لے کر کیا گیا۔
۱۹۶۶ء میں آپ کو یم فل کرنے کا خیال آیا، اس وقت شیخ محی الدین عبد الحمید شعبہ کے سربراہ تھے، ان کا اپنا ایک مزاج تھا، انہوں نے یم فل کے لئے آپ کی سند کو ماننے سے انکار کردیا۔ آپ اسی اڈھیر بن میں تھے کہ آپ نے طے کیا کہ اس سلسلے میں وزیر ازہر شریف شیخ احمد حسن الباقوری سے بات کی جائے، آپ باقوری صاحب کے آفس گئے، وہاں دربان سکریٹری وغیرہ کوئی نہیں تھا، آپ آفس میں سیدھے بلا روک ٹوک داخل ہوئے، وہاں ایک بڑے گریڈ کے فوجی افسر بیٹھے ہوئے تھے، شیخ صاحب نے آپ کی درخواست ہمت افزائی سے سنی اورجواب دیا کہ آپ اس کے لئے فلان آفسر کے پاس جائیں، تو ڈاکٹر صاحب نے ہمت کرکے کہا کہ مجھے ثوری ( انقلابی) جواب چاہئے، تو شیخ صاحب نے فوجی افسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام بیٹھے ہوئے انقلابی افسر کرسکتے ہیں۔ تو جواباًاس افسر نے فورا آپ کو کالج کے دفتر جانے کو کہا، جب آپ کالج کے متعلقہ دفتر پنچے تو وہاں افسران آپ کے لئے نگاہیں بچھائے ہوئے تھے، اور ان میں سے ایک کہ رہا تھا کہ جلدی کیجئے ابھی تک آپ نے اپنا نام رجسٹر کیوں نہیں کیا؟، اس طرح آپ نے اپنا یم فل میں داخلہ لیا، اور تحقیقی مقالہ پورا کیا جس کا عنوان تھا (الکلمات الفارسیہ المعربہ ) ۔
اسی سال سوڈان حکومت کا ایک اعلان آپ کی نظرسے گذرا کہ حکومت جامعۃ ام درمان الاسلامیہ کے نام سے ایک نئی یونیورسٹی قائم کرنے جارہی ہے، جس کے لئے ایک ایسے انگریزی زبان کے استاد کی ضرورت ہے، جسے عربی بھی آتی ہو، موقعہ کو غنیمت جان کر آپ نے درخواست دی جو قبول ہوگئی، ۱۹۶۶ء میں آپ جامعہ ام درمان سے منسلک ہوگئے، یہاں آپ کی گہری دوستی شام کے مشہور اسلامی ادیب استاد محمد المبارک سے ہوئی، جنہوں نے بعد میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پڑھا نا شروع کیا تھا، اور جو شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ کے معتمد دوستوں میں تھے۔
۱۹۶۱ء میں شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جب جامعہ اسلامیہ مدینیہ کا قیام عمل میں آیا تھا، تو یہ جامعہ بنیادی طور پر غیر ملکی طلبہ کے لئے تھی، اور یہاں پر تعلیم گریجویشن سے شروع ہوتی تھی، تو اس میں تعلیم پانے کے لئے جو طلبہ اپنے اپنے ملکوں سے ثانوی تعلیم مکمل کرکے آتے تھے انہیں گریجویشن کے لئے عربی میڈیم میں تعلیم پانے کے قابل بنانے کے لئے عربی زبان میں مہارت پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، اس ضرورت کے ماتحت جامعہ نے ((تعلیم اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بھا )) کے عنوان سے ایک تمھیدی درجہ قائم کیا تھا، جس میں غیر ملکی طلبہ صرف عربی زبان کی صلاحیت پیدا کرتے تھے، اس شعبے میں صرف ایک استاد شیخ محمد الاحمد پڑھاتے تھے، اسوقت اس کے لئے کوئی خاص کورس تیار نہیں تھا،جب جامعہ نے اس درجہ کو منظم کرنے کا ارادہ کیا اور اس کی اطلاع ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو آپ نے اس وقت کے رئیس الجامعۃ شیخ عبد العزیز بن بازؒ کے نام ایک درخواست بھیجی جس میں اس شعبہ کے لئے اپنی خدمات پیش کیں، شیخ علیۃ الرحمۃ نے اس سلسلے میں استاد محمد المبارکؒ سے رائے مانگی، اور آپ کی بھر پور سفارش پر آپ ۱۹۶۹ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے اس شعبہ سے منسلک ہوگئے، اور جامعہ کے اس شعبہ اور کلیۃ اللغۃ میں اپنی خدمات پیش کیں۔ ۱۹۹۲ء میں جب جامعہ میں سعودیزائشن (Saudization) کا قانون نافذ ہوا، تو آپ کو دوسرے غیر ملکی اساتذہ کے ساتھ رٹائرڈ ہونا پڑا۔
خنزیر و بندر کی اولاد کا سب سے نیچ ترین خنزیر و بندر : نیتن یاہو کہتا ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، ہاں ہاں او دشمنِ خدا! جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، یہ جنگ ہم نے شروع کی تھی اور ہمیں ختم کریں گے، خیبر سے باب اللد تک کی داستان خون جگر سے ہم نے رقم کی ہے اور ہم ہی رقم کرتے رہیں گے، یہاں ایک سنوار نہیں ہزاروں سنوار ہیں، یہاں ایک ہانیہ نہیں لاکھوں ہانییے ہیں، یہاں'' ضیف '' بھی ہے جو خاک و خون سے میزبانی کرنا جانتا ہے، سنوار مرنے کے لیے خان یونس کے قصبے سے نہیں اٹھا تھا تمہیں مارنے کے لیے اٹھا تھا، اس کے جیالے اس کا یہ مشن پورا کرکے رہیں گے، ممکن ہے غزہ فنا ہوجائے، ہوسکتا ہے حماس نہ رہے، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ قسامی ناپید ہوجائے مگر خدائے پاک کی قسم! نبی السیف (صلی اللہ علیہ و سلم) کے نام لیوا سچے مجاہدین اقصی کے ارداگرد سے کبھی ختم نہیں ہوں گے، غزہ کے ان ننھے منے بچوں کو غور سے دیکھو ان میں تمہیں سنوار کی پرچھائیاں نظر آئیں گی، اپنے سے زیادہ وزنی پانی کا ڈرم اٹھاکر مسکراتے ہوئے اس بچے کو زوم کرکے دیکھو ہانیہ کی حسین مسکراہٹ یاد آجائے گی،یاد رکھنا یہ ہماری طرح بزدل و ڈرپوک نہیں،یہ حکمت شناس و مصلحت آشنا نہیں، یہ ہمت کے جیالے اور حوصلے کے جوان ہیں، یہ روئے زمین پر اللہ کی شان اور برہان ہیں، اقصی کے یہ دیوانے، عمر فاروق کے یہ فرزند، ایوبی کے یہ نام لیوا، سنوار کے یہ جانشین پاتال تک تمہارا پیچھا کریں گے حتی کہ تم درختوں کے پیچھے چھپ کر کپکپاتے ہوئے موت رہے ہوں گے وہاں بھی یہ پہنچ جائیں گے! ہاں میرے دشمنو! پکچر ابھی باقی ہے ۔
سلام اے سرزمین غزہ کے بے لوث و نڈر قائد سلام !
ایک دور افتادہ ہندی کا سلام ملبے تلے دبے تیرے بے گور کفن لاشے کو!
ایک گنہگار مسلمان کی بہتی آنکھوں کا سلام تیرے تار بندھے زخمی ہاتھوں کو
ایک کمزور ایمان والے کے دھڑکتے دل کا سلام خون سے تربتر تیری پیشانی کو
جو ساری دنیا سے کہہ رہی ہے
میں ڈرا نہیں میں جھکا نہیں کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
ایک دوسرا واقعہ بھی قابل ذکر ہے جس کا سہرا حضرت مولانا محترم کے سر ہے،وہ یہ کہ مدرسہ سراج العلوم محبوب نگر میں جلسہ دستار بندی کا موقعہ تھا، حضرت مولانا سید اکبر الدین صاحب قاسمی مرحوم نائب ناظم مجلس علمیہ آندھرا پردیش مہمان خصوصی تھے ،میں بھی حاضر ہوگیا کہ حضرت مولانا سے ملاقات ہوگی،حضرت مولانا امیر اللہ خان صاحب قاسمی کے دفتر اہتمام میں حضرت مولانا تشریف فرما تھے،میں وہاں پہنچا اور ملاقات کی،سلیک علیک ہوئی، تعارف ہواتو میں نے کہا کہ حضرت مضمون نگاری بھی کرلیتا ہوں ،کہنے لگے بہت اچھے ،اور خداکی شان کہ وہیں اسی مہینہ کا ترجمان دیوبند کا تازہ شمارہ رکھا ہواتھا میں نے کہا کہ حضرت اس میں میرا مضمون شائع ہوا ہے،ملاحظہ فرمائیں ،حضرت مولانا سید اکبر الدین صاحب قاسمی نے وہ شمارہ لیا اور میرے مضمون کو پڑھا اور پھر مجھ سے فرمایا کہ ہمیں مجلس علمیہ آندھراپردیش کے لئے ایسے ہی ایک مضمون نگار عالم دین کی ضرورت ہے،آپ حیدرآباد آئیں ، ان شائ اللہ آپ کا تقرر ہوجائے گا۔اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا نے مجلس علمیہ کی مجلس عاملہ میں ایک درخواست دینے کو کہا اور پھر میرا تقرر منتظم مجلس علمیہ کی حیثیت سے ہوگیا۔مجلس علمیہ آندھرا پردیش میں کام کرنے کا جو موقعہ مجھے ملا اور جو خدمات میں نے وہاں انجام دیں اس کی بنیادترجمان دیوبندکا مضمون بنا ،اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے۔اس کی اطلاع میں نے مولانا محترم کو بھی دی وہ بہت خوش ہوئے ۔
تیسرا قابل ذکر واقعہ یہ کہ میں نے سن ۲۰۰۴ میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کرام کے تعارف،ان کے درسی افادات ونکات، اور ان سے متعلق اپنے احساسات وتاثرات لکھے ،اور تمام اساتذہ کرام کے تعارف میں تقریبا ۲۵۰ صفحات میں’’ گلشن ہند کا علمی گلدستہ ‘‘ کے نام سے کتاب تیار ہوگئی،اس کی کتابت اور پروف ریڈنگ یہیں حیدرآباد میں ہوئی اور ارادہ تھا کہ اس کو حیدرآباد ہی سے شائع کروں ،لیکن پھر دوست احباب کا مشورہ یہ سامنے آیا کہ اگر یہ کتاب دیوبند سے چھپ جائے تو اس کی افادیت اور نافعیت میں چار چاند لگ جائیں گے،دیوبند میں کئی ایک ناشرین ہیں لیکن جتنا قریبی تعلق اور تعارف مولانا محترم سے تھا وہ کافی تھا ،اس کتاب کے سلسلہ میں میں نے مولانا محترم سے گفتگو کی،اور پھر انہوں نے اسےدارالکتاب سے شائع کرنے کی ہامی بھرلی،کتاب کا ٹائٹل اور پوری کتاب کمپوز کرواکر میں نے بھیج دی ،اور پھر وہ یادگار دن بھی آیا کہ بڑے خوبصورت انداز میں دارا لکتاب سے کتاب شائع ہوگئی ، اور پورے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کتاب پہنچی، وہیں انہوں نے حسب وعدہ سو یا دو سو کتابیں مجھے حیدرآباد بھیجیں۔
یہ وہ سنہری یادیں ہیں جن سے آج بھی دل خوش ہوتا ہے ۔ انھیں یاد کرکے بڑی مسرت ہوتی ہے ۔ جانے والے اپنے پیچھے کیسی کیسی یادیں چھوڑ جاتے ہیں'۔ وہ زندگی بھر کے لیے انمٹ بن جاتے ۔ وہ اہل علم و صاحب قلم ، مدیر و مدبر ، دل دردمند اور زبان ہوشمند ، حق گو و بے باک ، معاملہ فہم و زیرک ، ایمان دار تاجر ، چھوٹوں کے بہی خواہ ، بڑوں کے پیارے تھے ۔ کیا کیا خوبیاں تھیں ۔ مولانا محترم سے مستقل رابطہ رہا ،وہ علمی کام کو پسند فرماتے تھے،اور لکھتے رہنے کی ترغیب دیتے تھے،اللہ تعالی ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔اور برادرم مولانا مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کو توفیق دے کہ وہ اپنے والدبزرگوار اور اپنے قابل فخر آبائ واجداد کے نام کو اور رشن کریں۔
آمین
۱۹،اکٹوبر ۲۰۲۴
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
امریکہ میں ہوئی، سچ ہے ”وما تدري نفس بأي أرض تموت“ کسی کو خبر نہیں کب کہاں اس کی زندگی کا سفر تمام ہوگا؟ اگرچہ کہ ان کی عمر ستر سال ہوچکی تھی اور حدیث شریف کے مطابق اس امت کی طبعی عمر ساٹھ ستر کے درمیان ہی ہے، مگر وہ ایسے صحت مند اور چاق وچوبند تھے کہ اپنی عمر سے کم نظر آتے، اور گمان نہیں ہوتا تھا کہ یوں اچانک وہ رخصت ہوجائیں گے، مگر جانا تو مقرر اور مقدر ہے، نہ وقت کی رفتار کوئی تھام سکتا ہے، نہ فرشتہ اجل کو
کوئی لوٹا سکتا ہے، وقت آیا تو جانا ہی ہے، جان جانے ہی کے لیے ہے اور موت کا آنا اٹل حقیقت ہے، وہ آئے گی اور ہر جاندار کو ابدی نیند سلائے گی، انسان کی زندگی کے آغاز سے ہی موت کا سفر شروع ہوجاتا ہے، اور جب وہ مرتا ہے تو دوبارہ زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اور اس زندگی میں کام آنے والی چیز عملِ صالح ہے، مولانا اس نقدی سے خوب مالا مال تھے، اور اپنے پیچھے” علم نافع“ اور” ولد صالح“ کی شکل میں صدقہٴ جاریہ چھوڑ کر گئے، اس لیے انہیں خوش نصیب کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا، دعا ہے کہ اللہ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ”رَوح وریحان“ میں انہیں جگہ دے اور اگلے مرحلوں کو آسان کرے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
بسم الله الرحمن الرحيم
بلند قامت اور بیش قیمت شخصیت کی رحلت
تحریر: محمد عمرین محفوظ رحمانی
سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں
/channel/ilmokitab
محترم مولانا ندیم الواجدی صاحب بھی داغِ مفارقت دے گئے، اچانک ان کی رحلت کی خبر ملی اور غمزدہ کر گئی، وہ نفیس و نستعلیق انسان تھے، علم کے دلدادہ اور کتاب کے فدائی، ”دار الکتاب“ کے مالک بعد میں بنے، کتاب کے عاشق اس سے بہت پہلے، جیے تو اپنے طرز وادا سے، دنیا سے گئے تو یک بہ یک، اپنے پیچھے اولاد چھوڑی تو نیک صالح اور تہذیب وشرافت سے آراستہ وپیراستہ، وہ خود دار، وضع دار اور زبان وقلم کے دھنی تھے، علماء کی جماعت میں بھی شگفتہ لکھنے والے اب کم ہی رہ گئے ہیں، ان میں ایک نمایاں اور سر فہرست نام ان کا تھا، شخصیت تو نفیس تھی ہی،قلم بھی ان کا نفیس تھا، اچھا لکھنے کے لیے خوب پڑھنا ضروری ہے، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے کیا کیا پڑھا اور کب کب پڑھا، مگر ان کی تحریریں بولتی تھیں کہ انہوںنے خوب پڑھا ہے اور مطالعے کی کثرت نے ان کی زبان وقلم کو شگفتگی، تازگی، طرح داری اور بانکپن عطا کیا ہے، شخصیات پر انہوں نے جو کچھ لکھا وہ ادبیت اور زبان کے معیار کے لحاظ سے خوب تر ہے، حالات پر ان کی تحریریں اور ماہنامہ ”ترجمانِ دیوبند“ کے اداریے ان کی واقفیت اور باخبری کے آئینہ دار ہیں، ”معلم العربیہ“ سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ صدی کے عظیم اور باکمال مدرس حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ سے انہوں نے کتنا اور کیسا استفادہ کیا! اور ان سب پر مستزاد ”احیاء علوم الدین“ کا رواں دواں سبک اور سلیس ترجمہ جو ان کی عربی دانی اور اردو پر قدرت ومہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، ”احیاء علوم الدین“ امام غزالی کا اصلاحی شاہکار ہے، تفلسف کی وادیوں سے گزر کر تصوف کی شاہراہ پر قدم رکھنے والے شخص نے اپنے بعد آنے والوں کے لیے ایک مشعلِ راہ اور مینارہٴ نور قائم کردیا تاکہ تازہ واردانِ بساطِ دل زلل وخلل کا شکار ہونے کے بجائے تطہیر نفس، تزکیہ قلب اور معرفتِ ربانی کی منزل کی طرف بڑھیں، اور چراغِ دل جلا کر شاہراہِ محبت کو روشن کریں ؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
ایک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
”احیاء علوم الدین“ سالک کے لیے عزمِ سفر کا سامان بھی ہے اور جادہ ومنزل کا نشان بھی، اس میں تشنہ لب کی تڑپ بھی ہے اور آسودہٴ منزل کی سیرابی بھی، معرفت کی کرشمہ کاریاں بھی ہیں اور محبت کی جلوہ سامانیاں بھی، یہ” جامِ لبالَب“ ہے جو ”ظرفِ قدح خوار“ دیکھ کر ”مئے معرفت“ فراہم کرتا ہے، کسی کو کم، کسی کو زیادہ، یوں کہہ لیجیے کہ یہ کتاب ”ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما“ کی مصداق ہے، اسے دل لگا کر پڑھنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ قلم کی روشنائی سے نہیں، ”آبِ قلب وجگر“ سے لکھی گئی ہے، اسی لیے اس میںبڑی تاثیر وتنویر ہے، محترم مولانا ندیم الواجدی نے اس شاہکار کو رواں دواں اردو کا قالب عطا کرکے اس کے افادے کو عام کیا اور اپنی آخرت کا سامان کیا۔
کتابوں کے ذریعے ان سے شناسائی تھی، اکا دکا ملاقاتیں بھی ہوئیں، ان میں وہ ملاقات یاد گار تھی جو جامعہ اسلامیہ کھروڈ میں ہوئی، موقع تھا حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ پر منعقد سیمینار کا، دن کی نشست میں عاجز نے مقالہ پیش کیا اور رات کی اختتامی نشست میں اپنے بزرگ حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم کی خواہش وفرمائش اور مولانا شیخ حنیف صاحب لوہاروی کی مخلصانہ دعوت پر خطاب کیا، حضرت شیخ یونس رحمۃ اللہ علیہ کی دلفریب اور ہمہ گیر شخصیت پر بولنا آسان نہیں تھا، سامنے پورے ملک سے آیا ہوا اہلِ علم ودانش کا مجمع تھا، بس اللہ نے مدد کی اور مؤثر الفاظ زبان سے کہلوائے، خطاب کے بعد محترم مولانا صلاح الدین سیفی صاحب سے ملاقات کے لیے اسٹیج سے نیچے اترا تو ان کے قریب ہی مولانا ندیم الواجدی مرحوم بھی بیٹھے ہوئے تھے، بڑے تپاک سے ملے اور میرے خطاب کی بلند الفاظ میں تعریف وتوصیف کی، خاص طریقے پر یہ کہا کہ آپ کی زبان بڑی خوبصورت ہے اور الفاظ کا انتخاب اعلی اور معیاری، لمبی ملاقات کا نہ موقع تھا نہ اس کی کوئی گنجائش، سیمینار کی ہما ہمی میں پھر دوبارہ ملاقات نہ ہوسکی، ایک آدھ مرتبہ مراسلت بھی رہی اور بات چیت کا اتفاق ہوا، لیکن بہت قریبی مراسم ان سے کبھی نہیں رہے، البتہ ان کے صاحبزادے مولانا ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی صاحب سے اچھا خاصا برادرانہ تعلق رہا ہے اور اب بھی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کاموں میں مفتی یاسرندیم الواجدی صاحب کی شرکت اور معاونت رہی ہے اور اب بھی ہے، مختلف مرحلوں میں ان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، وہ جوانِ صالح اور ”الولد سِرٌّ لأبيہ“ کے کامل مصداق بھی ہیں، ان کی صلاحیت اور صالحیت سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں، الحاد ودہریت کے خلاف ان کی محاذ آرائی انہیں انفرادیت بخشتی ہے، والدِ گرامی کی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد اب ان کے کاندھوں پر ذمہ
’بے وقوفی‘ کا مطلب تو نادانی، حماقت یا بے عقلی لیا جاتا ہے، مگر یہ بھی مرکب ہے دو الفاظ کا۔’وقوف‘ کا مطلب ہے ٹھیرنا یا رُکنا۔ اس کا مصدر ’وقف‘ ہے۔ اسی سے توقف کرنا یا وقفہ کرنا بھی ماخوذ ہے۔کم عقل اور کم سمجھ بوجھ والے شخص میں قرار، ٹھیراؤ یا وقوف نہیں ہوتا۔ جلد باز ہوتا ہے۔ بے سوچے سمجھے اور بات کو تولے بغیر جلدی سے بول پڑتا ہے۔ اسی عادت کی وجہ سے غالباً مروّتاً اسے صرف بے وقوف کہا گیا۔ ورنہ اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا تھا۔ بے وقوف کہنے کا ایک سبب یہ بھی بنتا ہے کہ ایسا شخص دوسروں کی سنے بغیر اور اپنی بات میں وقفہ کیے بغیر یعنی رُکے بغیر مسلسل بولے چلا جاتا ہے۔ بے وقوف کہیں کا۔ ڈاکٹرغازی علم الدین نے اس ضمن میں ایک دلچسپ بات لکھی ہے:
’’قدیم زمانے میں ایسی طویل عبارت لکھی جاتی تھی جس میں بہت کم وقفہ (Full stop)کیا جاتا تھا۔ایسی طویل عبارت کو لوگ بے وقوف کہتے تھے‘‘۔(’’لسانی مطالعے‘‘۔ باب: ’’الفاظ کا تخلیقی، معنوی اور اصطلاحی پس منظر‘‘۔ ص:57)
بے وقفہ عبارت کو بالکل اُسی طرح’بے وقوف‘ کہتے تھے جیسے بغیر نقطے کے لکھی جانے والی عبارت کو ’بے نُقَط‘ کہتے ہیں (’نُقَط‘ نُون پر پیش اور قاف پر زبر)۔ نُقَط جمع ہے ’نقطہ‘ کی۔ اُردو میں جمع کے طور پر ’نقطے، نقاط اور نقوط‘ بھی مستعمل ہیں۔ نقطوں والی عبارت ’منقوط‘ کہلاتی ہے۔ گالیاں دینے کو بھی مہذب زبان میں ’بے نُقَط سنانا‘ کہتے ہیں۔ شاید مہذب لوگ صرف بغیر نقطے والی گالیاں بکتے ہیں (مثلاً ’ولدالحرام‘ یا ’حرام کی اولاد‘وغیرہ) ’بے نُقَط‘ کی جگہ ’بے نُقوط‘ بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ مصحفیؔ صاحب ایک دن بَولا کربول ہی گئے:
کس دن لکھا تھا آپ کو اک عاشقانہ خط؟
سَو سَو جو گالیاں مجھے دیتے ہو بے نُقوط
یہاں ایک نکتہ اور یاد آگیا۔ لوگ نقطے اور نکتے میں فرق کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ نقطہ کہتے ہیں صفر کو، بِندی کویا ‘Dot’ کو۔ حروف میں فرق کرنے کو بھی ’نقطہ لگایا‘ جاتا ہے۔ ’ب‘ کے نیچے اِک نقطہ، ’ت‘ کے اوپر دو نقطے اور ’چ‘ کے پیٹ میں تین نقطے۔ جب کہ’ نکتہ‘ کہتے ہیں باریک بات کو یا تَہ کی بات کو، جسے انگریزی میں ‘Point’کہا جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باریک غلطیاں چننے والے کو ’نکتہ چیں‘کہتے ہیں، اسی سے اسمِ کیفیت نکتہ چینی بنا ہے۔ جوشخص باریک باریک باتیں جانتا اور سمجھتا ہو، وہ ’نکتہ وَر‘ہے۔ مولانا ظفر علی خان کی مشہور نعت کا شعر ہے:
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا، جو نکتہ وَروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اِک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
*بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
عمل جس سے آپ کو تکلیف ہوئی ضرور معاف کردینگے ،، نظام الدین ،،،
1997کی بات ہے ، میں ندوہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا ، اس وقت کے صدر بورڈ حضرۃ الاستاذ مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی اور مولانا سید نظام الدین صاحب جو بورڈ کے جنرل سیکریٹری تھے نے چاہا کہ بورڈ کے ہیڈ آفس دہلی میں کوئی موزوں و قابل اعتماد آدمی رہے ، صدر بورڈ کی رائے ہوئی کہ میں وہاں کیلئے مناسب رہونگا ، انہیں راقم سے حسن ظن تھا ، مولانا نے حکم نہیں دیا، لیکن مولانا کی خواہش تھی کہ میں دہلی چلا جاؤں ، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ندوہ سے تمہارا تعلق برقرار رہے گا ، جنرل سکریٹری کو صدر بورڈ نے یہ اطلاع دیدی ، اس موقع پر سکریٹری جنرل نے اس سلسلہ میں صدر بورڈ کو خط بھیجا ، خط چونکہ میرے متعلق تھا اسلئے صدر محترم نے یہ خط مجھے دیدیا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ، خط میں متعلقہ تما م امور کا ذکر ہے ، تنخواہ ، اور کھانے کے سلسلہ میں بتایا ہیکہ ملازم بنا دےگا لیکن سامان دینا ہوگا ،اور مہمانوں کی ضیافت کا نظم آفس کی طرف سے ہوگا اور اخیر میں ہیکہ اگر ،،، مولانا آفتاب تیار ہوں تو پہلے پھلواری شریف آجائیں ، میرے ساتھ کچھ دن رہیں ، جیسا کہ عرض کیا گیا مولانا کلی سوچ کے مالک تھے ، معمولی چیزیں بھی واضح کردیں ،،
مولانا جہاں ایک خدا ترس ، متدین ، ذی استعداد قرآن و حدیث اور فقہ و تفسیر پر وسیع و عمیق نظر رکھنے والے عالم دین تھے وہیں معاملہ فہم ، زیرک ، صاحب تدبیر ،جری و بیباک اور ہمدرد قائد و رہبر بھی تھے ، اگر کسی قائد کا دل ان خوبیوں کے ساتھ صدق وامانت اور تدین و اخلاص جیسے اوصاف سے بھی مجلی ومصفی ہو تو ایسا قائد یقینا بہت عظیم ہوگا ، اس پر توفیق الہی سایہ فگن ہوگی ، اسکے برعکس تمام خوبیاں ہوں ، تمام اوصاف جمیلہ سے کوئی متصف ہو لیکن خلوص ،خو ف خدا اور فکر آخرت سے محروم ہو تو ایسے قائد و رہبر سے قوم وملت کو فائدہ پہنچنے کے بجاۓ نقصان ہی پہنچتا ہے ، تباہی و بربادی قوم کا مقدر بن جاتی ہے ، خطابت میں گہن گرج بھی ہو ، بیان میں ادبی چاشنی بھی ہو، ایثار وقربانی کا بلند بانگ دعوی بھی ہو ، اور شرر توحید اور عشق محمد کی چنگاری کے بجائے فقر و غنا کو مدار قوت و طاقت سمجھے ، دل میں خوف خدا نہ ہو اور مقصود خوشنودئ رب نہ ہو تو ایسا رہبر کچھ بھی کرسکتا ہے ، معاشرہ کو بانٹ سکتا ہے ،مسجد کو بیچ سکتا ہے ، قوم کا سودا کرسکتا ہے ، دنیا طلبی و جاہ پرستی سے ھماری خود ی مر گئی ، ان امراض نے طائر لاہوتی کے پر بے جان کر دئیے ، بوئے اسد اللہی ہم سے رخصت ہوگئ ، مولانا سید نظام الدین صحیح معنوں میں نامور اسلاف کے سچے جانشین اور انکی سیرت وکردار کے امین تھے ، بانئی امارت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد اور شاہ منت اللہ رحمانی کی طرح انہوں نے بھی ملت کے مفاد کیلئے جب بھی ضرورت پڑی اہل اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ، ایک طویل زمانہ تک دوروں میں مسجدوں کی چٹائیوں کو بچھونا اور بیل گاڑیوں کو سواری بنانے والےہمارے یہ بزرگ نہ اہل اقتدار سے کبھی مرعوب ہوئے ، نہ کبھی احساس کمتری کا شکار ہوئے ، نہ کبھی سرکاری و غیر سرکاری عہدوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھا ، مولانا نے جس راستہ کو چنا تھا اسکے درست ہونے کا یقین محکم ، عمل پیہم اور ملک و قوم سے محبت و خیر خواہی انکے فکرو عمل کے روشن باب تھے ، مولانا کی دینی وملی خدمات و کارناموں اور انکی ذاتی زندگی کے محاسن و کمالات کے تذکرہ کیلئے ضخیم سوا نح کی ضرورت ہے ، ایک مختصر مضمون میں جلی عناوین ہی لکھے جاسکتے ہیں ، ع
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B