ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

گہرائی وگیرائی اورنتائج اخذ کرنے کا سلیقہ پیدا کیا جبکہ انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں سنبھال کر ہر طبقہ کے لوگوں کو ڈیل کرنے اور انکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا ہنر سیکھا ، ایک چوتھائی صدی تک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری رہے ، عملا صدر سے بھی زیادہ سکریٹری پر ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، بورڈ مسلمانوں کا ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں آپکو بریلوی ، دیوبندی ، اہل حدیث ، بوہرے ، اثنا عشری ، خانقاہوں کے مشایخ ، مدارس کے نظماء ومہتممین سبھی ملینگے ، متنوع افکار ورجحانات کے افراد کو ساتھ لیکر چلنا کتنا کٹھن کام ہے بتانے کی ضرورت نہیں ، مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور مولانا منت اللہ رحمانی معاصر تھے ، ندوہ میں ساتھ تعلیم حاصل کی تھی ، دونوں میں ذہنی وفکری ہم آہنگی تھی ، کبھی ان میں کسی بھی معاملہ میں اختلاف سننے کو نہیں ملا ، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی وفات کے بعد اتفاق رایے سے مولانا سید نظام الدین کو بورڈ کا سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا ، صدر بورڈ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے انکےتدین وتقوی ، فہم و فراست اور فکری سلامتی و ذہنی قربت کو دیکھنے کے بعد ہی انکا انتخاب کیا ہوگا ، مولانا نصف صدی سے زائد عرصہ تک امارت کے ذمہ دار اعلی رہے ، بقول امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ صاحب رحمانی مولانا امارت کے وزیر اعظم تھے ، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کی قیادت و سر پرستی اور قاضی مجاھد الاسلام صاحب قاسمی کی رفاقت میں مولانا سید نظام الدین صاحب نے امارت شرعیہ کی بے مثال خدمت کی ،‌ اس اقانیم ثلاثہ کے عہد میں امارت نے مادی اعتبار سے بھی اور معنوی اعتبار سے بھی بے انتہا ترقی کی ، حضرت سید کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے ، وہ دین اور ملت کو سب سے اوپر رکھتے تھے ، ملی مفاد‌کے سامنے رشتہ اور تعلقات کی پرواہ نہیں کرتے تھے ، امارت کے سابق ناظم صاحب نے ناظم رہتے ہوئے بہار حج کمیٹی کا جب چیر مین کا عہدہ قبول کرنا چاہا تو مولانا نے اسکی سخت مخالفت کی ، انکا کہنا تھا کہ یا تو ناظم رہیں یا چیر مین ، مولانا کا ایک غیر معمولی وصف انکا کلی سوچ کا ہونا تھا ، کسی بھی معاملہ پر جب غور کرتے تو معاملہ کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ، کسی معمولی گوشہ کو بھی نظر انداز نہ کرتے ، یہ وصف انکے ہر عمل ، ہر گفتگو اور ہر تقریر و تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے ، میرے سامنے انکا ایک خط ہے جو انہوں نے امارت کے معاون ناظم مولانا سہیل ندوی مرحوم کو لکھا تھا جس وقت وہ سفر حج میں جارہے تھے ، اس خط سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہیکہ معاملہ کوئی بھی ہو تا مولانا کی ہر پہلو پر نظر ہوتی, اسی کو ہم نے کلی سوچ کا نام دیا ہے ، دوسری بات یہ کہ انکے دل میں ہر انسان کا احترام تھا، مولانا سہیل مرحوم ہر اعتبار سے مولانا سے چھوٹے تھے ، لیکن دیکھئے کتنے اہتمام سے ضروری امور کی طرف توجہ دلائی ہے ، اور پھر کتنے اہتمام سے اپنے لیے اپنی اولاد کیلئے دعاء کیلئے کہا ہے ، یہ خط انکے تعلق مع اللہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلق پربھی روشنی ڈالتا ہے ، مبارکباد پیش کرنے ، حج و زیارت اور طواف و عمرہ کی قبولیت اور خیریت سے واپسی کی دعاء اور بہت ساری قیمتی نصیحتوں کے بعد لکھتے ہیں ، شروع میں خطاب آپ سے ہے ، لیکن آگے تحریر جذباتی ہوجاتی ہے ، خط طویل ہے ، یہاں صرف ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے ، لکھتے ہیں : ،،،،میرے لئے آپ مغفرت اور ایمان پر خاتمہ کی دعاء کرنا ،،، جبتک زندگی ہے اللہ تعالی امراض جسمانی و روحانی سے پوری حفاظت فرمائے ، اخلاص وللہیت کے ساتھ خدمت دین کی توفیق ، قلبی سکون و ذہنی اطمینان اور رزق حلال کیلئے دعاء کرنا ، فقر فاقہ ، افلاس اور قرض سے حفاظت کی دعاء کرنا ، جب وقت آجائے تو اللہ ایمان پر خاتمہ کرے اور میرے گناہوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لے ، قیامت کے دن حساب آسان کرے ،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ، آپکا قرب اور آپکے حوض کوثر پر حاضری نصیب ہو ،،اسکے بعد ایک ایک کا نام لیکر دعاء کیلیے لکھ رہے ہیں ،شموں ، حسان ، حامد کی صحت کیلئے ، عبد الواحد کیلئے کہ اللہ تعالی قرآن کو اسکے سینہ میں محفوظ کرے ، ، تلاوت میں شغف پیدا فرمادے ، دین کا فہم عطاء کرے اور عالم باعمل بنادے ، بڑی صاحبزادی اور سلمی کیلئے ، شیما اور مسرت کیلئے اللہ اچھا جوڑا نصیب کرے ، امارت شرعیہ کی ترقی اور استحکام کیلئے ، فتنوں سے حفاظت کیلئے ، ہم لوگوں پر اس ادارے کا بڑا حق ہے ، ہم سب کی عزت اس ادارے کی برکت سے ہے ، کارکنان امارت کیلئے ،انکے اصلاح حال کیلئے ،‌انکی دنیا و اخرت کیلئے ، انکی صحت ، عزت و خوشحالی ، جسمانی تکلیف ، روحانی امراض اور مالی تنگی سے حفاظت کیلئے دعاء فرمادیں ،، آخری سطر :ایک بات آخر میں اور لکھدوں کہ آپ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اس دوران میں نے کبھی کوئی ناگوار بات کی جو بات آپکو ناپسند رہی یا میر ا کوئی معاملہ اور

Читать полностью…

علم و کتاب

کلی سوچ کے مالک مولانا سید نظام الدین (1927-2015)
/channel/ilmokitab
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
از-------آفتاب عالم ندوی دھنباد
امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ کے سابق ناظم و امیر شریعت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق سکریٹری جنرل مولانا سید نظام الدین رح کی شخصیت جن گوناں گوں و متنوع محاسن و مکارم اوراعلی اقدار و خصوصیات کی سنگم تھی کسی ایک شخص میں انکا اجتماع ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ، خاندانی پس منظر کی اگر بات کیجائے تو آل رسول سے ہونے کے ساتھ اس میں علم دین اور دینی وملی خدمت کا تسلسل نظر آتا ہے ، جد امجد سید صادق علی مغلیہ دور کے عہد زوال میں پرگنہ کوٹھی کندہ کے قاضی تھے ، اس پرگنہ کا دائرہ چترا ، گیا ، ہزاری باغ ، اور پلاموں وغیرہ تک پھیلا ہوا تھا جبکہ دادا قاضی شرف الدین بانئی ندوۃ العلماء مولانا سید محمد علی مونگیری کے دست گرفتہ اور والد ماجد قاضی سید حسین علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید تھے ، بچپن ہی میں والدین کے سایہ سے محرومی ، معاشی تنگی ، گھر کے دینی و علمی ماحول اور خدا ترس دادا کی تربیت کی وجہ سے قناعت ،‌صبر , تحمل ، جفاکشی ، خود اعتمادی ،حمیت و غیرت ،سخت حالات سے نبرد آزمائی اور ضرورت مندوں ، بیکسوں اور مجبوروں کی اعانت و ہمدردی سرشت میں داخل ہوگئ، کہا جاسکتا ہیکہ آگے چلکر اس پاک طینت بندہ کے ذریعہ قوم و ملت کیلئے جو عظیم کام انجام پانا تھا قدرت حالات کی بھٹی میں اسے تپا کر اسکیلئے تیار‌کر رہی تھی ، کسی بھی تنظیم کسی بھی تحریک ، کسی بھی دارالعلوم اور کسی بھی ادارہ کیلئے ایسے لوگ قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جو کسی تحریک و تنظیم کیلئے اپنے جسم وجان اور اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ اپنے کو وقف کردیں ، بسا اوقات ایسے لوگ تن تنہا پورے ادارے اور پوری تنظیم کا واحد سہارا ہوتے ہیں ، دنیا کی کسی بھی تنظیم و تحریک اور کسی بھی عوامی ادارہ کی تاریخ خصوصا ابتدائی عہد اور اسکی مشکل گھڑیوں کے احوال پر نظر ڈالیں تو کچھ مرد قلندر ایسے ضرور ملیں گے جو ہر طرح کے سود وزیاں اور نفع وضرر سے بے پرواہ ہوکر ادارہ کے اہداف و مقاصد کی تکمیل کیلئے وہ جیتے اور مرتے ہیں ، فکر و عمل ، سونا جاگنا ،ذاتی جاہ و شرف ، خاندانی حیثیت و مرتبہ ، گفتار و کردار ، تحریر و تقریر سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ انکے ادارے اور تنظیم کو ترقی ملے ، آگے بڑھے ، پھولے پھلے ، اداروں کی تاریخ مرتب کرنے والے کبھی کبھی ان رجال کار کو وہ اہمیت نہیں دیتے ہیں جسکے وہ مستحق ہوتے ہیں ، علی گڈھ تحریک کے روح رواں اس میں شک نہیں کہ سر سید احمد خان رح(1817-1898) تھے لیکن جن رفقاء نے انکی زندگی میں انکا بھر پور ساتھ دیا اور انکے بعد اس تحریک کو سینچا ، آگے بڑھا یا دنیا کبھی انہیں فراموش نہیں کرسکتی , نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک , حالی ، شبلی ، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی ،مولوی چراغ علی ، مولوی ذکاء اللہ ، عماد الملک ، دوسرے دور میں مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی ، صاحبزادہ آفتاب احمد خان وغیرہ ، سرسید کا نام آتے ہی ان حضرات کا نام بھی ذہن میں ضرور آتا ہے ، مولانا قاسم نانوتوی رح( 1833-1880) اور دارلعلوم کاجب بھی ذکر ہوگا مولانا ذوالفقار علی دیوبندی ، مولانا فضل الرحمان عثمانی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، حاجی عابد ، مولانا رفیع الدین ، مولوی محمد محمود ، بعد کے ادوار میں حافظ محمد احمد ، قاری محمد طیب ، علامہ کشمیری ،علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولانا حسین احمد مدنی کا تذکرہ نا گزیر ہے ،ندوۃ العلماء اور مولانا سید محمد علی مونگیری (1846-1927)کی جب بھی بات ہوگی علامہ شبلی ، شاہ سلیمان پھلواروی ، مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی ، منشی اطہر علی کاکوروی مولانا سید عبد الحی حسنی ، مولانا خلیل الرّحمن بن مولانا احمد علی سہارنپوری ، مولانا عبد الحق حقانی ، اور بعد کے ادوار میں علامہ سید سلیمان ندوی مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ، مولانا معین اللہ ندوی ، مولانا محب اللہ لاری اور مولانا سید محمد رابع حسنی کا تذکرہ کرنا ہی پڑے گا ،،
امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھارکھنڈ بر صغیر کی ایک ایسی منفرد تنظیم ہے جسکے تذکرہ کے بغیر ھندو پاک کی اسلامی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہوسکتی ،امارت شرعیہ اسلامی وشرعی بنیادوں پر قائم ایسی تنظیم کا نام ہے جو کلمہ کی بنیاد پر اتحاد واتفاق کا داعی اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں اور اقتدار حاصل نہ ہو مسلمانوں کو ایک امیر کے ماتحت شرعی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے ، جس عظیم شخصیت نے قرآن وحدیث کے عمیق مطالعہ سے یہ انقلابی تصور پیش کیا دنیا اسے مولانا ابو المحاسن محمد سجاد(1881-1940) کے نام سے جانتی ہے ، مولانا نے قرآن وحدیث کے مضبوط دلائل سے علماء ، فقہاء ، خانقاہوں کے صوفیاء ، دار الافتاء کے مفتیان اور میدان سیاست کے شہسواروں کو امارت شرعیہ کا قائل کیا اور 1921میں یہ قائم

Читать полностью…

علم و کتاب

ہے جو ہمیں موجود و زمانے میں جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔
اس موقع ح پر ہمیں ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ ہم خوشہ چینیان گلستان سید میں سے کتنے وہ افراد ہیں جنھوں نے سرسید کی زندگی کے اس حصہ کو کلی یا جزوی طور پر اپنایا؟ ہمیں آج کی اس مجلس میں اس نکتہ پر بھی غور و خوض کرنا چاہیے کہ سرسید کا مشن ، تقاریب کا وہ انتقامی حصہ ہے جس پر ہماری تمام تر توجہ مرکوز رہتی ہے اور جس پر ہم اچھی دعوتیں کھانے کھلانے پر خودستائی یا دوسروں کی تعریف و تنقید بلکہ بسا اوقات تنقیص کے خواہشمند رہتے ہیں یا پھر وہ حصہ جس پر ہمیں قبل از طعام مقررین و واعظین نے سرسید کی حیات کے کسی ایک پہلو پر اپنا خیال مرکوز کرتے ہوئے تو جہ دلائی تھی ۔
سرسید احمد خاں کی حیات میں ان سے محبت کرنے والوں نے لے ا راکتو بر کو ان کے یوم پیدائش کے طور پر منانا چاہا تو سرسید نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے فاؤنڈر ڈے کے بجائے فاؤنڈیشن ڈے کے طور پر منانے کی صلاح دی۔ ان کے انتقال کے بعد ۲۷ مارچ کو علیگ برادری ہر سال یوم وفات کے ساتھ بانی درسگاہ کو یاد یاد کرتی اور ان کے افکار و عزائم کو آگے بڑھانے کا عہد کرتی ، ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کے دور وائس چانسلری میں سے امر اکتو بر کو یوم سرسید کی روایت جاری ہوئی ، جس کا آغاز بعد فجر قرآن خوانی اور مزار سید پرگل پوشی سے ہوتا ، سرسید کے افکار و نظریات پر دن بھر ماہرین سیدان کے شعور و بصیرت پر گفتگو کرنے اور رات کو اجتماعی ڈنر پر اختتام ہوتا۔ مجاز کے ترانہ کے بعد وہ بھی ان تقریبات کا حصہ ہو گیا۔ رفتہ رفتہ اس روایت کو علیگ برادری قومی اور بین الاقوامی طور پر منانے لگی ۔
سرسید نے حالات کی تاریکیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر علم کی جو شمع جلا کر اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کی تھی ، اس وقت اس شمع کو مشعل کی صورت میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سال ملک کے مختلف تعلیمی پسماندہ علاقوں میں کے امراکتو بر کو کسی ایک نئے ادارہ کے قیام پر اور اسے مضبوط بنانے کی طرف اپنی صلاحیتیں لگا کر سرسید کو خراج
عقیدت پیش کریں ، تو ان شاء اللہ یہ قوم وملت کی فلاح و کامیابی کی ضمانت ہوگا۔
ڈاکٹر عبید ا قبال عاصم
وادی اسماعیل نز د مسجد ابراهیم
دوہرہ معانی علی گڑھ 202022
+919358318995 :موبائل
ubaidiqbalasim@gmail.com

Читать полностью…

علم و کتاب

کردار کا مظاہر کرے جو اس کے وقار کو بلند کر سکے ، ظاہری بات ہے کہ اس کام کو علم کی کلغی لگائے بنا انجام دینا بہت زیادہ مشکل تھا۔ دوسرا دور بگڑتے ہوئے حالات میں ۱۸۵۷ کے حالات کے وجود میں آنے اور اس میں ملکی عوام بالخصوص مسلمانوں کی پسپائی اور اس کے نتیجہ میں ملنے والی ذلت و رسوائی کا نشانہ بننے والے ملت اسلامیہ کے طبقہ پر نت نئے مظالم کا سلسلہ جاری ہونے پر بے بس و بے کس سرسید احمد خاں ماتم و نوحہ خوانی کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن اس دورانیہ میں تاریخ سرکشی بجنور" یا اسباب بغاوت ہند لکھ کر انھوں نے کم از کم ان وجوہات پر تو توجہ دلا ہی دی ، جن کے نتیجہ میں یہ افتادان پر آن پڑی تھی۔ دوران ملازمت ہی ان کا یہ نظریہ یقین میں تبدیل ہوتا جا رہا تھا کہ اگر تباہی کی دلدل سے مسلمانوں کو نکالنا ہے تو اس کا واحد علاج ایسی تعلیم کا حصول ہے جو دل و دماغ کے پختہ مسلم و مومن ہونے کے ساتھ ان عصری تقاضوں کو پورا کر سکے جو دور حاضر و مستقبل میں دنیا داری کے لیے ضروری ہے۔ ۱۸۵۹ء میں مراد آباد میں ان کے ذریعہ مدرسہ کی داغ بیل ڈالنا اور پھر غازی پور کی ملازمت کے دوران سائنٹفک سوسائٹی کا قیام ان کی انہیں کوششوں کا حصہ ہے، جو انھوں نے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقہ پر کام کرنا چاہا لیکن وہ پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔ اسی غرض سے ۱۸۶۴ء میں غازی پور کے قیام اور اپنی سرکاری ملازمت کے دوران ایک تحریر به عنوان التماس بخدمت ساکنان ہندوستان در باب ترقی تعلیم اہل ہند شائع کی ۔ اس سال انھوں نے غازی پور میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈال کر اپنی مقدور بھر عملی کوشش کے ذریعہ نئی نسل کو مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے ہم آہنگ کرنے کی بنیاد ڈال دی لیکن انہیں دنوں سرسید کا تبادلہ علی گڑھ ہو گیا اور وہ علی گڑھ آگئے ۔ ظاہری بات ہے کہ تو وہ مدرسہ کی عمارت کو تو غازی پور سے اٹھا کر نہیں لا سکتے تھے لیکن اپنی فکر کو عملی جہت دینے کے لیے انھوں نے علی گڑھ کو غازی پور سے کہیں بہتر جانا۔ غازی پور سے علی گڑھ منتقل ہونے کے بعد سرسید نے اپنے افکار کو عام مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے سائنٹفک سوسائٹی کے ترجمان کے طور پر ۱۸۲۶ء سے ایک اخبار علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے نکالنا شروع کیا جو شروع میں ہفتہ واری تھا لیکن سرسید کے نظریات سے متفق افراد کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر ہفتہ میں دو بار شائع ہونے لگا۔ یہ انگریزی اور ہندوستانی ( اردو ) دونوں زبانوں میں نکلتا تھا اس کا خاص مقصد انگریزوں کو ہندوستانیوں کے حالات سے آگاہ کرنا اور ہندوستانیوں کو انگریزی طرز حکومت سے آشنا کرنا تھا تا کہ دونوں قوموں میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کر کے ہندوستانیوں بالخصوص فرزندان توحید کو عصری علوم کی تحصیل
کی طرف مائل کیا جا سکے ۔ ”تہذیب الاخلاق کو اگر ان کی فکری تحریروں کی ارتقائی منزل کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔
سرسید کی تحریر میں اصلاحی انداز کی ہوتی تھیں جس میں مسلمانوں کو ان کے اندر پیش آمدہ اندرونی خرابیوں کو دور کرنے کے
ساتھ ساتھ تعلیم کے فوائد اور اس کی قدر و قیمت بھی سمجھائی جاتی اور حصول علم کے لیے عملی کوششوں کو داغ بیل ڈالنے پر بھی اکسایا جاتا ، وہ انگریزی تعلیم سے مسلمانوں کو فیض پہنچانے کے خواہش مند ضرور تھے لیکن غیرت ایمانی، حمیت اسلام، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ان کی ذات کے روئیں روئیں میں پیوست تھی ، یہی وجہ ہے کہ جب ولیم میور نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے متعلق بدگوئی کی تو اس کا شائستہ جواب دینے کی غرض سے برطانیہ کا سفر کیا، کیونکہ اس وقت ہندوستان کی لائبریریوں میں کتابوں کا ایسا ذخیرہ دستیاب نہیں تھا جو لندن میں موجود تھا، اس کے لیے انھیں گھر کا اثاثہ فروخت کرنا پڑا لیکن انھوں نے میور کا جواب دینے کے لیے جو عزم مصمم کیا تھا اس میں لغزش نہیں آنے دی، کئی سال برٹش کے میوزیم اور لائبریری سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے ایک طرف میور کی خرافات کا علمی جواب دنیا کے سامنے پیش کیا دوسری طرف انگلینڈ کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے انگریزوں کی ہمہ جہتی ترقی کے راز کو جاننے کی کوشش کی۔ بالآخر وہ مسلمانوں میں تعلیمی صور پھونکنے کے لیے ہندوستان واپس آئے اور اللہ کا نام لے کر علی گڑھ میں ۱۸۷۵ ء میں مدرسۃ العلوم الاسلامیہ کے نام سے ایک ننھا سا علمی پودا لگا دیا۔ شروع میں سرسید کی مخالفت بڑے پیمانے پر ہوئی لیکن سید والا گہر کے آہنی ارادوں کے آگے کوئی مخالفت کام نہ آسکی اور یہ نھا پودا چند سالوں میں ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے ” محمدن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے جانے جانا لگا جو اس وقت مسلمانوں کی عصری علوم کی معراج سمجھا جاتا تھا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

ان کی موت سے ان کا خاندان ایک شفیق باپ، دارالعلوم ندوہ ایک نامور فرزند، تاج المساجد ایک بے مثال نگہبان، تبلیغی جماعت ایک انتہائی متحرک رہنما، بھوپال ایک جلیل القدر شہری اور ملک ایک معزز شخصیت سے محروم ہوگیا، ان کی اولاد اپنے آنسوؤں کے موتیوں کی لڑیوں کے ساتھ ان کی شفقت و محبت کو یاد کرتی رہے گی، دارالعلوم ندوہ دعا گو رہے گا کہ ان کا ثانی پھر پیدا ہوجائے، تاج المساجد کے چپہ چپہ پر چشم بینا ان کا نام منقش دیکھے گی، اس مسجد میں جو سالانہ تبلیغی اجتماع ہوگا تو اس کے تمام حاضرین ان کی خوش انتظامی کو اپنی نم آنکھوں سے یاد کر کے ان کے ایصال ثواب کے لیے دعائیں کرتے رہیں گے، ملک کے برادر ان وطن جوان سے ملتے رہے وہ بھی ان کو اس حیثیت سے یاد کرتے رہیں گے کہ ان کے ایسا اخلاص ملک کے تمام لوگوں میں پیدا ہوجائے تو ان کی دھرتی سونے کی ہوجائے۔
جانے والے جا! رخصت، الوداع! تیری تربت مغفرت الٰہی کی خوشبوؤں سے معطر رہے، تیری ابدی آرام گاہ انوار الٰہی سے منور ہو، سلام، لاکھوں سلام۔
وہ مجدوی سلسلہ کے مشہور بزرگ اور کامل طریقت حضرت شاہ محمد یعقوب عرف ننھے میاں قدس سرئہ العزیز سے بیعت ہوکر زیر تربیت بھی رہے اور ان کے بہت ہی محبوب اور چہیتے مرید اور مجاز بیعت تھے، ان ہی کی ہدایت پر تاج المساجد کے کھنڈر کی ازسرنو تعمیر شروع کی، اس خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشین حضرت شاہ سعید میاں کو بہت ہی عزیز رکھتے تھے، اور حضرت سعید میاں ان کی رحلت سے ایسے ہی مغموم اور ملول ہوں گے جیسے اپنے خاندان کے کسی شفیق بزرگ کی وفات سے ہوتے، اسی تعلق کی بنا پر مرحوم کی ابدی خوابگاہ ان کے مرشد کے پہلو میں ہے، حالانکہ ان کی ابدی نیند کی اصلی جگہ تاج المساجد کے کسی گوشہ ہی میں ہونی چاہیے تھی، مگر شاید خود ان کو اپنے مرشد کی قربت زیادہ عزیز تھی۔
مرحوم کا جنازہ بڑی دھوم سے اٹھا، ان کی میت کے پیچھے بھوپال کے ایک لاکھ لوگ سوگوار اور گریہ کناں تھے، وہ بھوپال کے عاشق تھے اور اس عاشق کا جنازہ اسی دھوم سے نکلنا چاہیے تھا۔
وہ عالم بقا کو جارہے تھے لیکن ان کی میت کی غمناک فضا ان کی طرف سے لوگوں سے یہ کہہ رہی تھی:
رفتم و از رفتن عالمے تاریک شد
من گر شمعم چو رفتم بزم برہم ساختم
(’’ص۔ع‘‘، نومبر ۱۹۸۶ء)

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: 18؍ اکتوبر
/channel/ilmokitab
اجمل نیازی 18/اکتوبر/2021ء
مولانا احمد حسن دیوبندی 18/اکتوبر/1983ء
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی 18/اکتوبر/1899ء
سید حسن ریاض 18/اکتوبر/1972ء
خلیفہ عبد القیوم 18/اکتوبر/2014ء
ڈاکٹر خلیق انجم 18/اکتوبر/2016ء
ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری 18/اکتوبر/2009ء
مولانا عبد المصطفی اعظمی ازہری 18/اکتوبر/1989ء
لالہ موہن گوش 18/اکتوبر/1909ء
پروفیسرمحمد اجمل خان 18/اکتوبر/1969ء
محمد حسن زبیری جامی 18/اکتوبر/1980ء
محمد متین اچل پوری 18/اکتوبر/2022ء
مولا نا محمد عمران خاں ندوی 18/اکتوبر/1986ء
مولا نا نسیم احمد فریدی 18/اکتوبر/1988ء
مولانا حسن رضا خان بریلوی 18/اکتوبر/1908ء
مولانا لطف اللہ 18/اکتوبر/1916ء
مونس انصاری(پیر بخش) 18/اکتوبر/2008ء

Читать полностью…

علم و کتاب

صاحب لکھتے ہیں کہ:
”میں نے (سرسید سے)ان فقروں کا ذکر کیا جن سے تعصب کا خیال پیدا ہوا تھا۔انھوں نے معذرت کی اور اپنے قلم کی لعزش کا اقرار کیا۔خیر یہ تو اخلاقی جواب تھا مگر جس شفقت اور ہمدردی سے وہ اس وقت ہر مذہب اور قوم کے محتاجوں کے ساتھ پیش آرہے تھے، اس کو دیکھ کر میرا دل صاف ہوگیا اور مجھے حیرت ہوئی کہ یہ شخص کیسی پاک طبیعت کا انسان ہے۔وہ دن ہے اور آج کا دن، ان کے ساتھ میری محبت روز بڑھتی گئی اور اب جو کچھ ان کامیرا معاملہ ہے، وہ سب پر ظاہر ہے۔“
قحط سالی کے بعد سرسید نے اس بات کی تہہ دل سے کوشش کی کہ ہندویا مسلمان یتیم بچے عیسائی مشنری والوں کے ہاتھ نہ لگنے پائیں کیونکہ ایسے بچوں کو مشنری والوں کے حوالے کرنا ان کو عیسائیت کی طرف راغب کرنے کے مترادف تھا۔راجہ جے کشن داس سرسید کی تحریک میں شانہ بشانہ رہے۔وہ ابتدائی مدرستہ العلوم کے قیام میں سرسید کے ساتھ رہے۔ایم اے او کالج کے جلسہ تاسیس میں موجود رہے۔وہ ادارے کی انتظامیہ کمیٹی کے صرف ممبر ہی نہیں رہے بلکہ بعض اوقات سرسید کی عدم موجودگی میں انتظامیہ کمیٹی کی میٹنگوں کی صدارت بھی کی۔انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی کے فروغ میں بھی حصہ لیا۔جب 1867میں سرسید کا علی گڑھ سے بنارس تبادلہ ہواتو وہ سرسید کی جگہ سوسائٹی کے سیکریٹری بنائے گئے۔وہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنسوں کی میٹنگوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔
راجہ جے کشن داس کی ایک اور مثال ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔وہ یہ کہ برطانوی حکومت کی طرف سے مرادآباد کے دیوان کا بازار علاقہ میں جو جائیداد راجہ صاحب کو بطور انعام دی گئی تھی، اس کے ایک گوشے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی تھی۔ راجہ صاحب نے مسجد کو نہ صرف اسی حالت میں قایم رکھا بلکہ جب تک حیات رہے مسجد کے جملہ اخراجات بھی اٹھاتے رہے۔ان کے بعد ان کے بیٹے اور پھر پوتے سرجگدیش پرشاد مسجد کا سارا خرچ اٹھاتے تھے۔ یہ مسجد آج بھی موجود ہے اور راجہ والی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

وہ گرم دوپہر ڈھل گئی تو اُس کے بطن سے آج کی خنک اور غمناک صبح طلوع ہوئی، میرے سامنے میز پر آج کے اخبار بکھرے پڑے ہیں، ہر اخبار کی پیشانی کے ساتھ آج کے سب سے بڑے انسان کی تصویر چپھی ہے،خون میں نہائی اور حسرت میں ڈوبی ہوئی تصویر جو ہر نظر سے چیخ چیخ کر ایک ہی سوال کررہی ہے۔” میرا جرم کیا تھا،مجھے کیوں مارا گیا،میں تو زخموں پر مرہم رکھنے والا شخص تھا پھر میرے جسم کو زخم کیوں بنا دیا گیا۔” میرا دماغ سلگی لکڑیوں کی طر ح چٹخنے لگا،یہ تصویر آج دہلی کے کسی اخبار میں بھی چپھی ہوگی، وہ اخبار ہمدرد نگر کے ایک چھوٹے سے غریبانہ کمرے میں بھی پہنچا ہوگا،چٹائی پر بیٹھے بیاسی (82) برس کے ایک بوڑھے نے بھی اسے اُٹھایا ہوگا،اُس کی آنکھیں بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرح چھلک پڑی ہوں گی،اُس نے بھی شدت جذبات سے اخبار پرے پھینک دیا ہوگا،اُس نے بازو پر دانت جما کر چیخ ماری ہوگی، اُس نے بھی اپنی چھاتی پر ہاتھ مارا ہوگا،اُس نے بھی چلاچلا کر کہا ہوگا۔ ”سعید تمہارا فیصلہ غلط تھا،مجھے دیکھو 82 برس کے بوڑھے کو دیکھو ،بغیر محافظ کے مسجد جاتا ہے، پیدل مطب پہنچتاہے، روز صبح شام کافروں کے درمیان چہل قدمی کرتا ہے لیکن اُس پر کبھی کوئی گولی نہیں چلی، اُس کا کبھی کسی نے راستہ نہیں روکا۔ ہاں اُس 82 برس کے کمزور بوڑھے نے چلا چلا کرکہا ہوگا۔” سعید میں کربلا میں زندہ رہا تم مدینے میں مارے گئے۔”

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۷ ؍اکتوبر
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
امداد امام اثر 17/اکتوبر/1934ء
حکیم عبد القوی دریا بادی 17/اکتوبر/1992ء
حکیم محمد سعید دہلوی 17/اکتوبر/1998ء
حمید اختر 17/اکتوبر/2011ء
حیرت شاہ وارثی (رحیم بخش) 17/اکتوبر/1963ء
شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم محمود 17/اکتوبر/1978ء
ڈاکٹر ف۔عبدالرحیم 17/اکتوبر/2023ء
ڈاکٹر وحید قریشی 17/اکتوبر/2009ء
ساجد اسدی ے پوری (ساجد علی ) 17/اکتوبر/1978ء
علامہ سید محمد یوسف بنوری 17/اکتوبر/1977ء
امیر شریعت مولانا سید نظام الدین گیاوی 17/اکتوبر/2015ء
شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم محمود 17/اکتوبر/1978ء
ڈاکٹر عبد المجید میمن 17/اکتوبر/2008ء
می زیادہ 17/اکتوبر/1941ء

Читать полностью…

علم و کتاب

نظر،زیادہ تیز رفتار اور زیادہ پر وقار نظر آرہا ہے۔ویسے تو مولانا پہلے ہی زود نویس تھے لیکن اب زیادہ نویس بھی ہو گئے ہیں۔اسی کا اثر ہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے فی ہفتہ ان کے چار مضامین بڑی پابندی کے ساتھ شائع ہورہے ہیں ۔اس پر ”ترجمان دیوبند“کی ترتیب علیحدہ اور مختلف کتابوں پرمقدمے اور پیش لفظ و غیرہ مستزاد ہیں۔اس طرح اسلامی یا تعمیر پسند صحافیوں میں مولانا ندیم الواجدی کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے ۔
ان کے قلم کی روانی کا اندازہ اردو صحافت میں ایک نئے اسلوب کی پیدائش ہے ،بسا اوقات اخبار کے ادارتی صفحے کے پورے خطے پر مولانا واجدی کے علم و تحقیق کے ساتھ حروف و الفاظ کی وسعت اور حکمرانی ہوتی ہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کے اسلوب کی اقتدا بھی ہونے لگی ہے ۔کاروبار اور دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ اس قدرعلمی ، ادبی اور صحافتی جدو جہد سے مولانا ندیم الواجدی کا مقصد غالباً ماضی کی قضا اور گزشتہ ایام کا تدارک ہے۔
جہاں تک ان کے اسلوب کا تعلق ہے تو اس سے ان کے قارئین بہتر طریقے پر واقف ہیں کہ تحریر عالمانہ پختگی،محققانہ رنگ اور ادبی چاشنی لیے ہوئے ہوتی ہے۔جس موضوع پر وہ قلم اٹھاتے ہیں اس کا احاطہ کر نے کی کوشش کر تے ہیں ،ان کی تحریر میں جہاں علمی،دینی اور اصلاحی پہلو غالب ہوتا ہے وہیں ان میں ادب و تحقیق کی چاندنی بھی بکھری نظر آتی ہے۔مولانا موصوف کی اسی فنی مہارت کا نتیجہ ہے کہ محمد طفیل مرحوم کا مشہورِ عالم اردو رسالہ”نقوش “لاہور نے جب پہلی مرتبہ بلکہ آخری مرتبہ بھی ہزار ہزار صفحات پرمشتمل تیرہ جلدوں میں سیرت رسول کے خصوصی نمبر شائع کر نے کا ارادہ کیا تو انتہائی کہنہ مشق او ر فن کے ماہر قلم کاروں کا انتخاب کیا جن میں ایک نام مولانا ندیم الواجدی کا بھی تھا۔اسی طرح ماہنامہ’الرشید“ساہیوال،لاہورکے ہزاروں صفحات پر مشتمل”دارالعلوم دیوبند نمبر“میں بھی ان کا مضمون شامل ہے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ وہ اپنی عمر کی پچیسویں بہار میں تھے۔
گزشتہ ایک دہائی سے ان کا رسالہ”ترجمان دیوبند“پابندی سے شائع ہورہا ہے ۔اب تک اس کا کوئی خصوصی شمارہ تو منظر عام پر نہیں آیا البتہ گاہے گاہے خصوصی ضمیمے شائع ہوتے رہے ہیں ۔جیسے مولانا محمد نعیم صاحبؒ اور مولانا انظر شاہ صاحبؒ وغیرہ ۔ تقریباً تین برسوں سے وہ ترجمان کا خاص نمبر”مشاہیر دارالعلوم “کی اشاعت کے خواہاں اور اس سلسلے میں کوشاں بھی ہیں لیکن قلم کار حضرات کی جانب سے بر وقت تعاون ناگزیر ہوتا ہے ۔راقم الحروف امید کرتا ہے کہ خود مولانا بھی اس طرف خاص توجہ دیں گے اور قلم کار حضرات سے بھی تعاون کی اپیل ہے۔
بہت کم لوگ اس راز سے واقف ہیں کہ مولانا ندیم الواجدی ایک اچھے کہانی کار اور عمدہ شاعر بھی ہیں ۔ایک زمانے تک وہ عدیل دیوبند ی کے نام سے کہانی لکھتے اور شائع ہوتے رہے ۔ اسی طرح دیوبند کی شعری نشستوں اور مشاعروں میں بھی شرکت کر کے دادوتحسین وصول کر چکے ہیں اور بہت سے رسائل و اخبارات نے ان کے کلام کو شائع بھی کیا ہے ۔ان شاءاللہ عنقریب ان کے یہ نقوش بھی سامنے آئیں گے۔مولانا ایک عالم دین اور محقق و مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ کئی تعلیمی اداروں،ملّی تنظیموں کے سربراہ اور روح رواں بھی ہیں ۔ان کے اعلیٰ ذوق ہی کا ثمرہ کہنا چاہیے کہ ہزاروں مطبوعات پر مشتمل ان کے خلوص و محنت اور علم و قلم کا تاج محل ”دارالکتاب“دیوبند جیسے شہر اور دارالعلوم کی عرفانی چھاﺅں میں اپنی عمر کی تین دہائیاں مکمل کر رہا ہے اور ایک عرصے سے کتابوں کے اجلے علوم سے جہالت کی تاریکیوں کا قلع قمع کر کے علم کی روشنی بکھیررہا ہے۔گویا آگرہ کا تاج محل اور شاہ جہاں جس طرح ایک دوسرے کا جزلاینفک بن گئے ہیں ،اسی طرح دیوبند ،دارالکتاب اور مولانا ندیم الواجدی کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔خدا ان کے علم و قلم میں مزید خلوص و برکت عطا فرمائے۔آمین!

Читать полностью…

علم و کتاب

/channel/ilmokitab

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مولانا ندیم الواجدی صاحب رحمہ اللہ ایک خلیق ، ملنسار ، باوقار شخصیت کے مالک ، کہنہ مشق عالم دین اور صاحب طرز نثر نگار تھے ، اردو تو آپ کی مادری زبان تھی ھی ، زمانہ طالب علمی میں حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی صاحب نور اللہ مرقدہ کے زیر تربیت رھنے کی وجہ سے عربی زبان و ادب پر بھی مضبوط گرفت رکھتے تھے ۔

مولانا شھر دیوبند کی علمی و ادبی محفلوں کی رونق ھوا کرتے تھے ، گفتگو میں سلیقہ ، موضوع کا احاطہ ، اسلوب میں لینت و نرمی آپ کا امتیاز تھا ، آپ کی رحلت علمی و ادبی دنیا کے لئے بڑا خسارہ ھے ۔

مولانا زود نویس بھی تھے اور خوش نویس بھی ، آپ کی تحریریں سھل ، رواں ، مواد سے بھرپور اور ادبی چاشنی سے مالا مال ھونے کی وجہ سے مقبول خواص و عام ھیں اور دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ھیں ۔

مولانا ندیم الواجدی صاحب علیہ الرحمہ کی زندگی اگرچہ ایک بڑے ناشر کتب ھونے کی حیثیت سے گذری مگر اپنے بے لاگ تبصروں ، علمی و تحقیقی مضامین ، ادبی و سوانحی تحریروں اور متعدد کتابوں کے مؤلف ھونے کے اعتبار سے مولانا کی خدمات نہ صرف یہ کہ صدقہ جاریہ ھوں گی بلکہ ان کی یادیں زندہ رکھنے کا بھی کام کریں گی ۔

مولانا کو ھم نے شروع سے صحت مند و توانا ، بے تکان چلنے والا اور اوقات کا پابند دیکھا اسلئے پہلے اچانک بیماری اور پھر رحلت کی خبر سن کر طبیعت پر بڑا اثر ھوا لیکن دنیا اسی کا نام ھے ، کسی کو ایک پل کی کوئی خبر نہیں ، جس کے لئے جو وقت مقرر ھے اسے اسی وقت دنیا کو خیرآباد کہنا ھوگا ، مولانا بھی نظام قدرت کے مطابق وقت موعود پر وطن سے بہت دور اجنبیت کی حالت میں راہی ملک عدم ھوگئے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

جانا تو سبھی کو ھے لیکن ھم یہ سمجھتے ھیں کہ اس طرح مولانا کا رحلت فرمانا عند اللہ ان کی قبولیت کی نشانی ھے اور اس میں بھی مرحوم کے لئے خیر ھے اسلئے کہ پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد گرامی ھے : إن الرجل اذا مات بغیر مولدہ قیس لہ من مولدہ الی منقطع اثرہ فی الجنۃ ( سنن النسائی ، الجنائز )
ترجمہ : آدمی جب اپنی جائے پیدائش کے علاوہ کہیں اور انتقال کرتا ھے تو اسے جنت میں اس کی جائے پیدائش سے جائے موت تک جگہ دی جاتی ھے ۔

ھم مولانا کے خلف الرشید رفیق مکرم جناب مولانا مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب ، ان کی والدہ محترمہ اور دیگر اھل خانہ کی خدمت میں حزن و ملال کی اس گھڑی میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ھیں اور دعاگو ھیں باری تعالی مولانا کی مغفرت تامہ فرمائیں ، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائیں اور جملہ پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل کی دولت سے نوازیں ۔

از : محمد عفان منصورپوری
مدرس مدرسہ اسلامیہ عربیہ
جامع مسجد امروھہ
11 ربیع الثانی 1446ھ
15 اکتوبر 2024ء

Читать полностью…

علم و کتاب

/channel/ilmokitab

میں واپسی کےارادہ سےجارہاہوں مگر

(معروف عالم دین اور مصنف حضرت مولاناندیم الواجدی کی رحلت پر )

محمدساجدکھجناوری
مدرس ومدیرماہ نامہ صداۓ حق جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ

آخریہ جگرپاش خبر بھی کانوں میں پڑ گئی جسے سننے اورپڑھنے سے دل ودماغ گریزاں تھے یعنی معروف عالم دین ، صاحب اسلوب اھل قلم مصنف ومحقق اور ناقد ، عربی واردوزبان لکھنے اور پڑھنے والے ادیب وانشاپرداز اور مترجم حضرت مولانا ندیم الواجدی اپنی حیات مستعار کے ماہ وسال پورے کرکے گزشتہ کل 14/ اکتوبر 2024دوشنبہ کو شب کے نوبجے امریکہ کے شہر شکاگو میں بیس دن سے زیادہ صاحبِ فراش رہ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے ، اناللہ واناالیہ راجعون۔ وفات کےوقت آپ کی عمر تقریبا سترسال تھی۔
مولاناندیم الواجدی متاع لوح وقلم سنبھالنے والے ایسے علمی خانوادہ کے چشم وچراغ تھے جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ، ان کے پردادا سخاوت حسین مرحوم بہ سلسلۀ معاش ضلع بجنور یوپی کے قصبہ شیر کوٹ سے دیوبند آکر بس گۓ تھے ، دادا مولانا احمدحسن مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد کے شیخ الحدیث اور والد گرامی مولاناواجدحسین دیوبندی وہاں کے استاذحدیث تھے جو بعد میں گجرات کے مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل میں برسوں تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے ، آپ کے سسر مولاناقاری عبداللہ سلیم صاحب دارالعلوم دیوبند کے صدرالقراء رہے جو آج کل امریکا کے شہر شکاگو میں ایک تعلیمی ادارہ کے بانی وذمے دار ہیں جبکہ داداسسر حضرت مولانا محمدنعیم دیوبندی دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث رہے ، اسی طرح آپ کے ماموں مولاناشریف الحسن دیوبندی دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے الغرض ایں خانہ ہمہ آفتاب است کے مصداق آپ نے 23 / جولائی 1954 میں ایسے علمی گھرانے میں جنم لیا جہاں ہرطرف قلم وکتاب اوردانش وادب کے چرچے تھے ، والد اور دادا دونوں شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنی کے تلامذہ میں شامل تھے لھذا مولانامدنی نے ہی آپ کا نام واصف حسین تجویزفرمایاجو آگے چل کر قلمی نام ندیم الواجدی سے مشہور ہوا ،
آپ کی ابتدائی تعلیم کی بسم اللہ گھر پر ہوئی ، حفظ فارسی اور عربی درجات سال سوم تک کا تعلیمی مرحلہ بحسن وخوبی جلال آباد میں اپنے والد کی سرپرستی میں پورا ہوا،یہاں آپ نے قطب زماں حضرت مولانامسیح اللہ خان شیروانی سے پندنامہ پڑھنے کے ساتھ ان کی علمی اور عرفانی مجالس سے بھی استفادہ کیا ، بعدازاں آپ دارالعلوم دیوبند منتقل ہوگۓ جہاں درجات وسطی یعنی شرح جامی سے لے کر دورۀ حدیث شریف اور پھر تخصص فی الأدب العربی تک تعلیم پائی اور سن1974 میں آپ نے دورۀ حدیث شریف میں اول پوزیشن سے کامیابی حاصل کی جس سے اکابر دارالعلوم کا اعتماد آپ کو حاصل ہوگیا چنانچہ حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمدطیب اور ادیب زماں مولاناوحیدالزماں کیرانوی جیسے مشفق ومربیان آپ کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور آپ کے روشن مستقبل کیلۓ دعاگورہتے تھے۔
فراغت کے بعد آپ کے سامنے علم وتحقیق کے کئی میدان تھے ، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی مجلس تحقیقات ونشریات لکھنؤ کیلۓ آپ کی خدمات حاصل کرنا چاہتے تھے ، مولانامحمدتقی امینی شعبۀ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کیلۓ آپ کا تقرر چاہتے تھے جبکہ آپ کے بعض قدرشناس دھلی جیسے مرکزی شہر میں عربی زبان وادب کے فروغ کیلۓ اکیڈمک سطح کا ماسٹرپلان آپ کیلۓ تجویز کرچکے تھے مگر آپ نے اساتذہ کرام کے مشورہ کو ترجیح دیتے ہوۓ حیدرآباد کے ایک مدرسہ میں تدریسی مشغلہ اختیار کرنے کو ترجیح دی ، کچھ ہی عرصہ بعد اجلاس صدسالہ دارالعلوم دیوبند کی تیاریاں شروع ہوئیں تو وہاں کی مجلس شوری کی تجویز پر آپ نے حیدرآباد سے دیوبند واپسی کرلی اور دارالعلوم کے شعبۀ تصنیف وتالیف کےنقد علمی تقاضوں کو پورا کیامگر چوں کہ یہ تقرر عارضی تھا اس لۓ اجلاس صدسالہ ختم ہونے کے ساتھ ہی آپ کی ملازمت کا یہ دورانیہ بھی اختتام کو پہنچ گیا،
دوسری طرف معاش کی فکردامن گیر ہوئی تو اپنے مہربان استاذ حضرت مولاناوحیدالزماں کیرانوی کے مشورہ سے کتابوں کی تجارت کا روگ پالا جس کیلۓ دارالکتاب نامی ایک مکتبہ کی بنیاد ڈالی جس میں اللہ نے ایسی برکت دی کہ ہمارے محبوب شاعر ڈاکٹرنوازدیوبندی کے بقول اسلامی کتابوں کا یہ بہترین شوروم بن گیا جہاں درسی وغیردرسی کتابوں کی ریل پیل نظرآنے لگی اور بڑی بڑی مطبوعات کی تقدیم نے دارالکتاب کو عزت وشہرت کا بام عروج بخشا ۔
مولاناندیم الواجدی قلمی صلاحیتوں سے مالامال ایک بالغ نظر عالم دین اور شگفتہ زبان مترجم بھی تھے لھذاانھوں نے دارالکتاب کے پلیٹ فارم سے کئی ایسے علمی پروجیکٹس پر کام کیا جس سے ان کے نام وکام کا سکہ دوسرے ممالک تک رائج ہوا ، انھوں نے امام غزالی مرحوم کی شاہ کار تصنیف " احیاء العلوم " کو قسط وار اردوزبان کے قالب میں ڈھالا تو محض سات سال کے دورانیے میں اس کی چار جلدیں منظرعام پر آگئیں جنھوں نے علمی حلقوں میں دھوم مچادی اور دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کراچی اور ڈھاکہ

Читать полностью…

علم و کتاب

*حکمرانوں کی ذمہ داریاں*

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے مظفر آباد میں آزاد کشمیر کے صدر کی دعوت پر ۱۴ اگست ۱۹۵۱ء کو وزرائے حکومت سے خطاب کرتے ہوئے، سورۃ النساء کی آیت: ۵۸ کا ایک حصہ پڑھ کر، اس کا درج ذیل ترجمہ و مفہوم ارشاد فرمایا:

"وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ" (النساء:۵۸) "جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو"

"فیصلہ" کرنے کے لفظ سے صرف یہ نہ سمجھا جائے کہ اس کا تعلق، صرف عدالت کی کرسی پر بیٹھنے والے حاکم سے ہے، بلکہ اس کا تعلق، حکومت کے ہر فرد اور ہر رُکن سے ہے۔ حکومت کے ہر فرد کا تعلق، باشندوں کے معاملات اور کاموں سے پڑا کرتا ہے اور ہر ایک کو، ہر معاملہ اور کام کے وقت، اس معاملہ اور کام کے متعلق، فیصلہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہر معاملہ اور کام کے متعلق، حاکم کو قلم اٹھاتے ہوئے انصاف کرنا چاہیے۔ اسی طرح تقرّرات کی مجلس کے ہر رُکن کو انصاف کے ساتھ، اُمیدواروں کے متعلق، رائے دینی چاہیے۔ کِلرکوں کو اور ماتحت کارگزاروں کو اسی انصاف کے ساتھ، نوٹ تیار کرنا چاہیے۔ پولیس کو اسی انصاف کے ساتھ، کام کرنا چاہیے، غرض! رئیسِ حکومت اور وزراء سے لیکر، کلرکوں اور سپاہیوں تک، ہر ایک کو، اپنے اپنے دائرہ میں انصاف پر کاربند ہونا چاہیے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ انصاف، صرف حاکموں، ججوں اور مجسٹریٹوں کو کرنا چاہیے، بلکہ ہر ملازمِ حکومت کو اپنے اپنے دائرہ میں انصاف کا پابند ہونا چاہیے۔ اسی سے حکومت کی نیک نامی، بلکہ قیام اور بقا منحصر ہے۔ دوستوں کی دوستی، عزیزوں کی عزیز داری، دشمنوں کی دشمنی، دولت مندوں کی دولت مندی، طاقت والوں کی طاقت، کوئی چیز آپ کو انصاف کی حد سے باہر نہ لائے۔ حضرت ابوبکر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کی پہلی تقریر میں فرمایا تھا کہ تم میں سے قوی میرے نزدیک ضعیف ہے، جب تک اس سے حق نہ لے لیا جائے اور تم میں سے ضعیف میرے نزدیک قوی ہے، جب تک اس کا حق اس کو نہ دلایا جائے۔ آیتِ بالا میں لفظ "الناس" بھی غور کے قابل ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ اس انصاف کا لحاظ صرف مسلمانوں کے درمیان کرو، بلکہ فرمایا گیا کہ لوگوں کے درمیان کرو، جس میں مسلم اور غیر مسلم سب داخل ہیں۔ انصاف اور قانون کی نظر میں سب کو مساوات اور یکسانی حاصل ہے اور اسی سے اسلامی حکومت کی اصل خصوصیات نمایاں ہوسکتی ہیں۔

مقالاتِ سید سلیمان ندویؒ/مرتب: ڈاکٹر حافظ فیوض الرحمٰن/صفحہ: ۳۵/٣٦/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

Читать полностью…

علم و کتاب

فراغت کے بعد دار العلوم میں آپ کا بہ حیثیت استاذ تقرر عمل میں آیا ، اور دو سال تک یہاں خدمت انجام دینے کے بعد شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ نے آپ کو مدرسہ امدادیہ بہٹ بھیج دیا، اور اپنے بزرگوں کی رہنمائی میں ۱۹۳۱ء میں مختلف مدارس میں تدریس کی خدمت انجام دیتے دیتے آخر کار ۱۹۵۵ء میں آپ کا یہ سفر مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد پر ختم ہوا۔ جہاں آپ تا دم واپسیں ۱۹۸۳ء تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے، اس دوران آپ کے سامنے جن علماء وفضلاء نے زانوئے تلمذ تہ کیا ان میں حضرت مولا نا شریف حسن صاحبؒ سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیو بند ، حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ سابق شیخ الحدیث دار العلوم وقف دیوبند ، مولانا محمد اسحاق صاحبؒ ما لک کتب خانہ رحیمیہ دیو بند ، مولانا اصغر صاحبؒ شیخ الحدیث ریڑھی تاج پورہ ، مولا نا صفی اللہ صاحب صاحبزادہ حضرت مولانا مسیح اللہ خان شیروانی، مولانا حشمت الله مهتهم مدرسه خادم العلوم باغوں والی مولا نا مفتی محمد فاروق صاحب مرتب فتاوی محمودیہ، مفتی عبد الرحمن صاحبؒ سابق مفتی مدرسہ امینیہ دہلی، مولانا مفتی شعیب اللہ مفتاحی مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم بنگلور ، مولانا نعیم احمد صاحب مہتم مدرسہ کاشف العلوم اور نگ آباد وغیرہ جیسے نام شامل ہیں۔
مولانا ندیم الواجدی کے والد ماجد مولانا واجد حسین دیوبندیؒ نے دارالعلوم سے سنہ ۱۹۵۲ء میں فراغت پائی تھی، آپ کے اساتذہ میں آپ کے والد ماجد کے ان اساتذہ کرام کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی جن کا تذکرہ اوپر آچکا ہے،
والد صاحب کے مشورہ و ایماء پر ۱۹۵۶ء میں مفتاح العلوم جلال آباد میں برائے تدریس عربی کتب آپ کا تقرر منظور ہوا۔اور پھر مختلف مدارس میں تدریس انجام دیتے دیتے سنہ ۱۹۸۳ ٗ میں جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل میں آپ نے مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمدعثمانیؒ ، فقیہ الامت مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ اور صاحب معارف السنن مولانا محمد یوسف بنوری کی مسند سنبھالی اور یہاں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپ نے مورخہ ۲۴ جنوری ۲۰۱۴ء داعی اجل کو لبیک کہا۔
رشتوں میں عزیز ترین رشتہ ماموں کا ہوا کرتا ہے اور تعلیم وتربیت پر اس کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے، آپ کے ماموں حضرت مولانا شریف حسن دیوبندیؒ تھے جنہوں نے دارالعلوم دیوبند اور جامعۃ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں شیخ الحدیث کی مسند کو روشن کیا تھا، آپ نے حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، حضرت مولانا اصغر حسین صاحب دیو بندیؒ شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علیؒ اور حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ جیسے ماہر ویگانہ روزگار اساتذہ فن سے اکتساب علم کیا تھا، ۱۳۵۸ء میں فراغت کے بعد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے طلب فرمانے پر مدرسہ امداد العلوم خانقاہ تھانہ بھون تشریف لے گئے اور وہاں صدر مدرس کی حیثیت سے خدمت انجام دی ، حکیم الامتؒ کی مسلسل رہنمائی اور فیض صحبت کے اثر سے حدیث اور فقہ پر نظر وسیع ہوئی۔ پھر آپ نے مدرسہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈھابیل میں شیخ الحدیث کی مسند کو رونق بخشی تھی۔یہ رشتہ داریاں تھیں جو مولانا ندیم الواجدی کو من جانب اللہ وھبی طور پر نصیب ہوئی تھیں، اور یہ کون نہیں جانتا کہ جب وھبی عنایات خداوندی کسبی عنایتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ یکجا ہو جاتی ہیں، تو وہ سونے پر سہاگہ بن جاتی ہیں۔
مولانا ندیم الواجدی صاحب نے مفتاح العلوم جلال آباد میں مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان شروانیؒ اور اپنے والد ماجد کے زیر سرپرستی ابتدائی تعلیم پاکر سنہ ۱۹۶۷ئ میں دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، اور یہاں آپ کی فراغت سنہ ۱۹۷۴ئ میں پائی۔دورہ حدیث آپ نے اپنے ماموں اور شیخ الحدیث مولانا شریف حسنؒ کے سامنے پورا کیا۔دورہ کے بعد آپ نے مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے زیر سرپرستی تخصص فی الادب کی تکمیل کی، اس دوران آپ النادی الادبی کے معتمد رہے، اور جداریہ مجلہ الشعور کے مدیر بھی۔
اس کے بعد آپ جامعہ عربیہ دارالعلوم رحمانیہ حیدرآباد دکن میں تدریس سے وابستہ ہوئے، اور دارالعلوم کے صدسالہ پروگرام کی تیاریوں کے آغاز میں ۱۹۷۸ئ میں شعبہ تصنیف وتالیف کے نگران کی حیثیت سے دوسال خدمات انجام دیں، اس دوران عربی زبان کی ترویج کے لئے عربک ٹیچنگ سنٹر قائم کیا۔
۱۹۸۰ئ میں آپ نے اپنا کتابوں کا اشاعتی ادارہ دارالکتاب قائم کیا، جو اس وقت دیوبند کے بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں سے آپ نےامام غزالیؒ کی مشہور ومعروف کتاب احیائ علوم الدین کا ترجمہ مذاق العارفین قسط وار شروع کیا، ۲۰۰۱ئ میں آپ نے بچیوں کی اعلی دینی تعلیم کے لئے معہد عائشہ للبنات کو قائم کیا۔
آخری عمر میں آپ نے اپنے والد ماجد کے شاگرد رشید مولانا عبد الستار مفتاحی بوڑیوی سے سلسلہ ارادت وبیعت قائم کیا تھا۔جو ایک بڑے حلقے کے لئے نامانوس ہیں۔قدرجوہر شاہ داند یا بداند جوہری۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 213
انتخاب مطالعہ
تحریر: *سید سعادت ﷲ حؔسینی*

*مابعد جدیدیت کے عملی اثرات*

مابعد جدیدیت کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ: افکار و نظریات اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دلچسپی نہایت کم ہوگئ ہے،عہد جدید کا انسان مخصوص افکار و نظریات سے وفاداری رکھتا تھا اور ان کی تبلیغ و اشاعت کے لیے پُرجوش و سرگرم رہتا تھا، مابعد جدید دور کے انسان کے نہ کوئی آدرش ہیں، نہ اصول، اس کے سامنے کسی بھی موضوع پر نظری بحث شروع کیجئے دامن جھاڑ کر اٹھ جائے گا ؛ اس لیے بعض مفکرین نے اس عہد کو ”عدم نظریہ کا عہد“ Age of no Ideologye قرار دیا ہےـ

اصول و افکار کے مبسوط نظام کے بالمقابل مابعد جدید انسان کے پاس صرف جذبات و احساسات ہیں یا عملی مسائل ۔
مابعد جدیدیت کا کہنا ہےکہ: ”زندگی کی تمام بحثیں مسئلہ اور حل تک محدود کی جاسکتی ہیں ؛ اس لیے اصولوں اور نظریوں کے بجائے ایک ایک مسئلے کو الگ الگ لیا جانا چاہئے اور اس کے حل پر بات ہونی چاہئے“، چنانچہ مابعد جدیدی انسان کی بحث و گفتگو کا سارا زور یا تو روز مرہ کے عملی مسائل پر ہے یا روابط و تعلقات کی جذباتیت پر، مختلف فیہ اور متنازعہ فیہ مسائل میں وہ باہم متضاد خیالات میں سے ہرخیال کو بیک وقت درست سمجہتا ہے، ان کی تنقیح اور درست فیصلے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔
مذہبی معاملات میں ”وحدت ادیان“ کا نظریہ بہت قدیم ہے، مابعد جدیدیت نے اس طرز فکر کو تقویت دی ہے، اب دنیا بھر میں لوگ بیک وقت سارے مذاہب کو سچ ماننے کے لیے تیار ہیں اور بین المذاہب مکالمات و مباحث سے لوگوں کی دلچسپی رو بہ زوال ہے ۔
جبکہ دوسری طرف الحاد و مذہب بیزاری کی شدت بھی ختم ہورہی ہے،چونکہ الحاد بھی ایک دین یا دعوی ہے ؛ اس لیے مابعد جدید انسان اسے بھی ایک مسلک کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں؛ اس لیے اس عہد کو لادینیت کا خاتمے کا عہد بھی کہا جاتا ہے،ایک شخص خدا پر یقین نہ رکہتے ہوئے بھی روحانی سکون کی تلاش میں کسی مذہبی پیشوا سے رجوع کرسکتا ہے اور آج اسے کسی ہندو بابا کے ہاں سکون ملتا ہے، تو کل کوئی مسیحی راہب اسے مطمئن کرسکتا ہے،یہ مابعد جدیدیت ہے۔
قدروں کی اضافیت کے نظریے نے سماجی اداروں اور انضباطی عوامل کو بری طرح متاثر کیا ہے، خاندانی نظام اور شادی بیاہ کے بندھنوں کا انکار ہے نہ اقرار۔ عفت، ازدواجی وفاداری اور شادی کے بندھن مابعد جدیدیوں کے ہاں عظیم بیانات ( محض بڑے بول ) ہیں، اسی طرح جنسوں کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ رول کو بہی وہ آفاقی نہیں مانتے،نہ صرف مرد عورت کے درمیان تقسیم کار کے روایتی فارمولوں کے وہ منکر ہیں ؛ بل کہ جنسی زندگی میں بھی مرد اور عورت کے جوڑے کو ضروری نہیں سمجھتے، شادی مرد اور عورت کے درمیان بھی ہوسکتی ہے اور مرد مرد اور عورت عورت کے درمیان بھی، کوئی چاہے تو اپنے آپ سے بھی کرسکتا ہے،مرد اور عورت شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کریں تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، ایک ساتھ بھی نہیں رہتا ہے تو تکمیل خواہش کا معاہدہ ہوسکتا ہے، یہ سب ذاتی پسند اور ذوق کی بات ہے ۔
فیشن، لباس،طرز زندگی، ہرمعاملے میں کوئی بھی ضابطہ بندی گورا نہیں ہے، مرد بال بڑھا سکتا ہے، چوٹی رکھ سکتا ہے، اسکرٹ پہن سکتا ہے،زنانہ نام رکھ سکتا ہے،کسی بھی رنگ اور ڈیزائن کا لباس پہن سکتا ہے، سوسائٹی کو کسی بھی رویے كو ناپسند کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ؛ حتی کہ اگر کوئی مادر زاد برہنہ رہنا چاہے تو سوسائٹی اس پر بھی معترض نہیں ہوسکتی،چنانچہ بعض مابعد جدیدی لباس کو آفاقی ضرورت قرار دینے پر معترض ہیں، آدمی اگر موسم اور اپنے ذوق کی مناسبت سے کوئی لباس پسند کرنا چاہے تو کرے، اگر عریاں رہنا چاہے تو انسانی جسم سے بڑھ کر خوبصورت لباس اور کیا ہوسکتا ہے؟ وہ عریانیت کی تبلیغ کرتے ہیں، انٹرنیٹ پر اسی طرز زندگی کے فروغ کے لیے ویب سائٹس، ہیلپ لائینز، ڈسکشن فورمز اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔۔۔
آرٹ اور فنون لطیفہ میں وہ ہر طرح کے نظم اور پابندی کے خلاف ہیں، جددیدت نے ان محاذوں پر جو اصول تشکیل دیے تھے مابعد جدیدی ان کی رد تشکیل کرنا چاہتے ہیں ۔
گوپی چند نؔارنگ کے الفاظ میں ”ہر طرح کی نظریاتی ادعائیت سے گریز اور تخلیقی آزادی پر اصرار مابعد جدیدیت ہے“ ۔ مابعد جدیدی کہتے ہیں کہ : ادب اور فنون لطیفہ حقیقت کی ترجمانی کے لیے نہیں ؛ بل کہ حقیقت کی تخلیق کے لیے ہیں ؛ اس لیے وہ آرٹ کو ہر طرح کے ادبی سیاسی اور مذہبی دعؤوں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔

( *مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام،صفحہ: 12،طبع: ادارۂ ثقافت اسلامیہ،کلب روڈ، لاھور*)

✍🏻...محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

ہوگئ ،اللہ نے قاضی سید احمد حسین ، مولانا قاسم فرد سی سملوی ، مولانا نورالدین بہاری ،محمد شفیع تمنائی ،بیرسٹر محمد یونس ، شیخ عدالت حسین چمپارنی ، مولانا عبد الصمد رحمانی ، مولانا سید عثمان غنی جیسے اہل علم اور محنتی و جفاکش رفقاء و کارکنان عطاء کئے ، اس وقت کے بڑے بڑے مشائخ اور ہر مکتبۂ فکر کے جبل علم کی بھرپور تائیدو حمایت ملی ، مولانا سید محمد علی مونگیری ، شاہ بدرالدین مجیبی ، شاہ محی الدین قادری ، مولانا آزاد ، سید سلیمان ندوی ، مفتی کفایت اللہ ، مناظر احسن گیلانی ، مولانا حسین احمد مدنی نے تصور امارت کی مکمل تائید کی ، مولانا شاہ منت اللہ رحمانی (1913-1991)نے 1957میں چوتھے امیر شریعت کی حیثیت سے امارت شرعیہ کی ذمہ داری سنبھالی ، اس تنظیم کیلئے مولانا رحمانی کی امارت کو بجا طور پر نشأۃ ثانیہ کہا جاسکتا ہے ، مولانا رحمانی برابر ذی استعداد اور کام کے لوگوں کی تلاش میں رہتے تھے ، جامعہ رحمانی میں جس طرح کے اساتذہ ایک زمانے میں جمع ہوگئے تھے ملک کے کسی دارالعلوم میں انکی نظیر نہیں ملتی ، امارت شرعیہ کیلیے دو لوگ انہیں ایسے مل گئے جنہوں نے انہیں امارت کی طرف سے بے فکر کردیا ، امارت کیلیے انہیں دو پنکھ قرار دیا جاسکتا ہے ، قاضی مجاھد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین ،،
ندوہ میں چوبیس سالہ زمانۂ قیام (1981-2004) کے دوران ملک کے تمام اہل علم اور ملی قائدین کی زیارت ، انکی تقریر اورباتیں سننے کا باربار موقع ملا ، محدث کبیر مولانا حبیب الرحمان اعظمی ، مولانا منت اللہ رحمانی ، مولانا صبغۃ اللہ بخاری ، قاری صدیق احمد باندوی ، شاہ ابرار الحق ،مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی ، مولانا سعید احمد اکبرآبادی ، مولانا منظور نعمانی ، شاہ عون احمد قادری ،قاضی سجاد ، قاضی اطہر مبارکپوری ، حکیم زماں حسینی ، قاضی مجاھد الاسلام قاسمی ، مولانا سید نظام الدین ، سید صباح الدین عبد الرحمن ، ان میں سے اکثر بزرگ ندوہ کی شوری یا بورڈ کی میٹنگ کیلئے ندوہ تشریف لاتے یا کسی دوسرے پروگرام میں شرکت کیلئے یا حضرت مولانا علی میاں ندوی سے ملاقات کی غرض سے وہ ندوہ آتے ، فراغت کے فورا بعد ندوہ میں میری تقرری ہوگئ ، اس کے بعد ان حضرات کی خدمت میں حاضری مزید آسان ہوگئ ، ان بزرگوں کو مختلف روپ میں دیکھا , آپس کی بے تکلف بات چیت و ہنسی مذاق کی حالت میں بھی دیکھا ، بابری مسجد یا کسی اور قضیہ پر سنجیدہ تبادلۂ خیال کرتے ہوئے بھی انہیں پایا ، مہمان خانے میں ایک مرتبہ مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کو دیکھا کہ مولانا نظام الدین صاحب کا یہ کہکر تعارف کرا رہے ہیں کہ یہ امارت شرعیہ کے وزیر اعظم ہیں ، یہ بڑا معنی خیز جملہ ہے ، شائد یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ امارت کو ا صل میں یہی چلاتے ہیں ، یہ اعتراف امیر شریعت رابع کی بھی عظمت کی دلیل ہے ، اپنے ماتحت والوں کی تعریف اور انکی کارکردگی کا اس انداز سے بر ملا اعتراف آسان نہیں ہوتا ہے ، ناظم امارت کی امیر شریعت کی زبانی بلند لفظوں میں تعریف سے دل میں ناظم امارت کیلئے عقیدت پیدا ہوگئ ، اسکے بعد معلوم نہیں کتنی مرتبہ ملاقات ہوئی ، ندوہ میں ، پھلواری میں ، پرسنل لا بورڈ کے پروگراموں میں ، نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا کی عظمت دل میں بڑھتی چلی گئ ، را قم الحروف نے 1996میں جامعہ ام سلمہ کی بنیاد رکھی ، مولانا کو ہم نے اسکے بارے میں بتایا تو خوشی کا اظہارکیا اور ام سلمہ کیلئے حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے تزکیہ کو دیکھکر اپنے ہاتھ سے قلم برداشتہ تصدیق نامہ تحریر کرکے عنایت کیا ، پاکیزہ خط ، زبان سلیس و رواں ، اس وقت پہلی مرتبہ اندازہ ہواکہ مولانا کا قلم بھی شاداب و شگفتہ ہے ،مولانا ان لوگوں میں نہیں تھے جو صلاحیتوں و کمالات کی موقع و بے موقع تشہیر کریں ، ابتو لوگ باقاعدہ اپنی بزرگی کی مارکیٹنگ کیلیے تنخواہ پر لوگوں کو رکھتے ہیں ، کسی شہر میں جانے سے پہلے انکے یہ ایجنٹ پہنچ جاتے ہیں ، اسلیے بار بار ملنے کے باوجود بہت دنوں تک معلوم نہیں ہوسکا کہ مولانا سخن فہم ہی نہیں سخن سنج بھی ہیں ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے جب‌ خبر نامہ کا اجراء کیا تو اسکی‌ادارت کی ذمہ داری خود مولانا نے سنبھالی، مولانا قادر الکلام شا عر بھی تھے ، عالمی رابطۂ ادب اسلامی کے لکھنؤ آفس نے انکے کلام کا مجموعہ شائع کیا جسکی تدوین و ترتیب کا کام امارت شرعیہ کے المعھد الاسلامی کے سکریٹری مولانا عبد الباسط صاحب ندوی نے انجام دیا ، مولانا کی شخصیت ہشت پہل ہیرے کی مانند تھی ، علوم شرعیہ کی تحصیل کیلیے باکمال اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا ، ذہن اخاذ تھا ،فکر سلیم تھی ، طبیعت موزوں تھی ، رگوں میں ہاشمی خون تھا ، تحریک شہیدین ، مولانا مونگیری ، محدث کشمیری اور خاندان کے بزرگوں کے فیضان نظر نے شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ، امارت شرعیہ سے پہلے تعلیم و تعلم کے اشتغال نے قرآن وحدیث ، فقہ اور اصول میں

Читать полностью…

علم و کتاب

انتخاب مضامین/ ۱۹
انتخاب: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
تحریر: مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر رح

*مولانا مناظر احسن گیلانی*
فرصت غم کہاں زمانے میں
آج رولیں ترے لئے دم بھر
چالیس سال تک جس قلم نے علم و فضل کے موتی بکھیرے اور جو داستان گو اپنے زمانے سے لے کر پچھلے کئی وقتوں کی داستانیں سناتا رہا۔ افسوس ہے کہ آج وہ داستان گو خصت اور وہ قلم خاموش ہو گیا ہے۔
کہنے کو مشت پر کی اسیری تو تھی مگر
خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
*علم فضل کی حیرتناک ہمہ گیریوں اور ذہانت و فطانت کی اعجوبہ آفریں جدتوں کے ساتھ زندگی کی سادگی، نیت کی پاکی، ضمیر کی سچائی، قلب کی صفائی، مزاج کی سدھاوٹ، باتوں کی شیرینی، قلم کی روانی، کم سے کم اسباب زندگی پر قناعت، بڑے بڑے مناصب سے منھ موڑ کر اپنے گوشہ عافیت میں مگن رہنے کی عادت ، فقیرانہ مزاج شاهانہ دماغ، درویشانہ زندگی اور مجذوبانہ حال اگر دیکھنا تھا، تو مولانا مناظر احسن گیلانی کو دیکھنا چاہئے تھا۔*
دنیا انہیں ایک متجر عالم، ایک فاضل بیگانہ، ایک زود نویس مصنف و اہل قلم اور ایک قادر الکلام مقرر کی حیثیت سے جانتی ہو، عثمانیہ یونیورسٹی کی فلک بوس عمارت نے انہیں اپنے شعبہ دینیات کے صدر کی حیثیت سے دیکھا ہے، دارالعلوم کی درس گاہیں انہیں ایک وسیع النظر عالم کی حیثیت سے پہچانتی ہیں، کوئی ان کا شاگرد ہے اور کوئی ان کا عقیدت مند، لیکن میں اس *مولانا مناظر احسن گیلانی* کو جانتا ہوں جسے دیوبند کے ذرہ ذرہ سے عشق تھا، جسے اپنے ہر استاذ سے محبت تھی، جس کی آنکھیں ہر استاد زادہ کے لئے فرش راہ رہتی تھیں، جو دیوبند کانام لے لیکر جیتا اور دیوبند کے ہر گلی اور کوچہ پر جان چھڑکتا تھا، کتنی بڑی شخصیت اور کتنی بڑی زندگی تھی مولانا مناظر احسن گیلانی کی! مگر دیوبند کا ہر بچہ بھی مولانا گیلانی کے یہاں مخدوم تھا یا مخدوم زادہ ، وہ ہم نیاز مندوں سے شفقت و محبت کا جو معاملہ کرتے تھے سچ مچ اس پر شرم آتی تھی، رسالہ دارالعلوم کی ادارت وانتظام کے یہ چھ سال مجھ بے ہمت پر بہت شاق ہو کر گزرے، لکھنے لکھانے کے سواء انتظامی امور سے اپنا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ رسالہ کی ذمہ داریوں نے وہ کام بھی اپنے سپرد کئے جو اس سے پہلے اپنے تصور میں بھی نہیں آئے تھے، بڑی بڑی الجھنوں کے وقت جب کبھی مولانا کی طرف رجوع کیا تو وہاں سے حوصلہ اور ہمت کی ایک نئی زندگی اس خاکسار کو ملی ، جس طرح بچوں کو بہلاتے ہیں اس طرح سے کام میں لگے رہنے کی نصیحت فرماتے اور کام کا شوق دلاتے رسالہ کے مدیر کی حیثیت سے اس کے مختلف گوشوں پر میری نظر اتنی گہری نہیں تھی جتنی مولانا مرحوم کی، فلاں صفحہ پر سرخی غلط لکھی گئی ہے، فلاں جگہ آیت قرآنی کا ترجمہ رواں نہیں، فلاں مضمون رسالہ کے معیار کے مطابق نہیں تھا، فلاں غزل کا فلاں شعر بحر سے ساقط تھا اور یہ ہی نہیں بلکہ اس دفعہ تمہارے دفتر نے رسالہ پر جو پتہ لکھا ہے اس میں انگریزی کی یہ غلطی تھی ۔ یہ گہری توجہ بحز ان کی شفقت بزرگانہ کے اور کیا تھی۔
آج "النبی الخاتم" کا قصید خواں رخصت ہوا ، "نظام تعلیم و تربیت" کا مصنف اُٹھ گیا، "ابوذر غفاری ، امام اعظم ابو حنیفہ" اور "سوانح قاسمی" کا مرتب واصل بحق ہوا۔ *ایک بزرگ نے ان کی زندگی میں کئی دفعہ کہا تھا کہ مولانا کی موت سے دسیوں رسالے یتیم ہو جائیں گے*، اور ان کے انتقال کی خبر سنکر احساس ہوا کہ ان بزرگ کا خطرہ غلط نہیں تھا۔ مولانا مناظر احسن پر لکھنے کے لئے بڑی فرصت درکار ہے، آج عدیم الفرصتی کے ساتھ احساسات کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ مولانا کے نام کے ساتھ گذشتہ دن پندرہ سالہ زندگی کی ہر ہر یاد دل کو تڑ پائے دیتی ہے، خدا کرے کہ اپنی خواہش کے مطابق آئندہ کچھ لکھنے کا موقعہ ملے۔
رخصت ہونے والے پر حق تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں ہوں جس طرح اس نے اپنے قلم اور اپنی زبان سے علم و شریعت کا کلمہ بلند رکھنے کی کوشش کی رحمت الہٰی اسی طرح اس کی بال بال مغفرت نہ فرمائے۔
کاروان علم وفضل کا یہ آخری مسافر تھا جس نے بہار کی ایک مردم خیز خطہ میں داعی اجل کو لبیک کہا، مولانا مناظر احسن کی موت سے علم وفضل کا ایک گراں قدر خزانہ زمین کے نیچے اتر گیا۔ع
" اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ سرسید احمد خاں کے تعلیمی افکار ونظریات سے مسلم علماء کے طبقہ کو کوئی سروکار نہیں تھا، لیکن اسی درمیان انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر لکھ کر اپنی آراء و افکار کا اظہار کیا اور قرآن مجید سے ثابت بہت سے معجزات اور بہت سی غیبی باتوں کے بارے میں اپنے تذبذب کا اظہار کیا اس سے علماء کرام کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ یہ افکار ان کے تعلیمی ادارے میں ترویج پا گئے تو یقینی طور پر یہ اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہوں گے اور قوم وملت کے وہ نو بال جو اس ادارے میں جائیں گے فکری طور پر اسلام کی حقانیت سے محروم ہو جائیں گے۔ اسی بنا پر علماء کے ایک بڑے طبقے نے شدومد کے ساتھ سرسید کی مذہبی فکر کی مخالفت کی جس کے بہاؤ میں سرسید کے تعلیمی نظریات اور ادارہ بھی آگئے۔ حالانکہ سرسید نے اپنے مذہبی افکار کونہ تو ادارے کے طلباء پر مسلط کیا اور نہ ہی انہیں کسی مسلک کی متابعت پر مجبور کیا، چنانچہ ان کے اس ادارے میں دی جانے والی مذہبی تعلیمات کی سربراہی ایک ایسے فاضل عالم دین کے ہاتھ میں تھی جو علوم دینیہ کے ایک مدرسہ سے مکمل فیض یافتہ ہونے کے ساتھ طلبہ ومنتسبین و معتقدین کی روحانی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتا تھا۔
بہر حال عمر کی اس منزل پر جب انسانی قوی ضعیف ہو جاتے ہیں اور وہ ہر لمحہ، ہر قدم پر آرام و سکون کا منتظر رہتا ہے یہ ستر سالہ بوڑھا ادارو سازی کی خاطر کبھی علی گڑھ کی نمائش میں اپنے پیروں میں گھنگھروں باندھ کر مالیات کی فراہمی کی راہیں تلاش کر رہا تھا تو کبھی ملت کے سرسید بیزار طبقہ کی طرف سے ملنے والے پرانے جوتوں کو نیلام کر کے اس کی قیمت مدرستہ العلوم الاسلامیہ کے خزانے میں جمع کر کے اس کو مالی تقویت دینے میں لگا ہوا تھا۔ اسے نہ اپنی جان کی پرواہ تھی اور نہ اپنے ضعف کا خیال تھا، وہ تو بس اور بس مسلمانوں کے علمی سفر کے ارتقا کے لیے مضطرب و بے چین تھا ، اس کی ہڈیوں کا گودا دن بدن مائل بہ انحطاط تھالیکن اس کی فکری طنا ہیں ستاروں پر کمند ڈال رہی تھیں، یہ بوڑھی آنکھیں ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء کو ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں، ان کی زندگی میں محمدن اینگو اور نیشنل کالج ایک بڑا ادارہ ہوتے ہوئے بھی یو نیورسٹی کی شکل اختیار نہیں کر سکا، ان کے انتقال کی دودہائیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد ایم اے او کو اے ایم یو کا درجہ حاصل ہوا جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ایک سوسال سے زائد کا علمی سفر طے کر چکا ہے۔
آج کے ارا کتوبر ہے یعنی عالمی ، علیگ برادری کے جشن کا دن، اس دن ہم سب بانی درسگاہ کا یوم پیدائش نہایت تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو مسلمانان برصغیر کی نشاۃ ثانیہ کی آماجگاہ ہے اُس کے بانی سرسید احمد خاں کے یوم پیدائش کو پوری علی گڑھ برادری بہت اہتمام کے ساتھ مناتی ہے۔ دنیا کے بھی خطوں میں اس دن سرسید احمد خاں علیہ الرحمہ کی تحریک اور نظریات و افکار سے متعلق سیمینار ہوتے ہیں، جلسے کیے جاتے ہیں، کا نفرنسیں ہوتی ہیں، اظہار مسرت و شادمانی کے جو طریقے اختیار کسے جاسکتے ہیں وہ سب اختیار کیے جاتے ہیں، جس کے لیے پوری دنیائے علیگ مبارکباد کے لائق ہے۔ بالعموم اس قسم کی تقاریب کا انتقامیہ پر لطف و مہتم بالشان ڈنر پر ہوتا ہے۔ انتظام شکم سیری" میں ہم ایسے مدہوش ہوتے ہیں کہ ان تمام وعدوں، وعیدوں، ارادوں اور منصوبوں کو فراموش کر جاتے ہیں جو صبح سے رات کے پہلے پہر تک بانی درسگاہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر تقاریر و تجاویز میں یا منشور و منظوم انداز میں کئے جاتے ہیں۔ ستره اکتوبر ۲۰۲۴ ء کو سرسید کی پیدائش کو دو سو سات سال ہو گئے ۔ بقول علامہ اقبال ” وہ چین کے ایسے دیدہ ور تھا جو نرگس کے ہزاروں سال اپنی بے نوری پر رونے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ حضرات گرامی! جو بات میں بہت جرات و جسارت کے ساتھ کہنا چاہ رہا ہوں اس میں میرا درد دل شامل ہے۔ بقول غالب -
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
بات تلخ ضرور ہے مگر یہ ایسی سچائی ہے جس پر مصلحت کے پردے ڈال ڈال کر ہمیشہ چھپایا جا تا رہا اور نوبت بایں جا رسید کہ آج ہماری بے حسی نے ہمیں بے بسی کی حدود میں داخل کر دیا اور ملت اسلامیہ قعر مذلت کے قریبی حصہ میں پہنچ گئی ۔ ہمیں یہاں رک کر ایک لمحہ کے لیے یہ سوچنا ہے کہ ہم کم و بیش پچھتر سالوں سے سترہ اکتوبر کو نہایت تزک واحتشام کے ساتھ یوم سرسید مناتے ہیں۔ کیا اس سے سرسید شناسی کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ ہم نے سرسید کے عادات، اخلاق، افکار و عزائم کو کس حد تک اختیار کیا ؟ کیا ہمارے ممدوح سرسید احمد خاں نے اپنے مخالفین کو جنھوں نے ان کے دائرہ اسلام سے اخراج تک کے الزامات بلا تأمل لگائے تھے ۔ کیا انہوں نے مخالفین کی کسی بات کا کوئی ایسا جواب دیا جو کسی کی ذات یا اس کی صفت کو مجروح کرتا ہو بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ انھوں نے ان کا جواب تو کیا ان اعتراضات کو بھی خاطر میں لانا گوارہ نہیں کیا۔ یہ ایک اہم نکتہ

Читать полностью…

علم و کتاب

سترہ اکتو بر اور ہماری ذمہ داریاں
ڈاکٹر عبید اقبال عاصم
آج سے دو سوسات سال قبل (۷ راکتو بر ۱۸۱۷ء) کو دریا گنج دہلی کے عقب کی ایک حویلی میں اس عالم آب گل میں آنکھ کھولنے والا وہ بچہ جسے آج سرسید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ملت اسلامیہ بر صغیر کے مستقبل کے لیے نیک فال ثابت ہوا، اس بچہ کا نا م احمد تجویز ہوا۔ جس وقت یہ نام رکھا گیا وہ یقینی طور پر قبولیت کی گھڑی تھی، کیونکہ وہ واقعتا قابل تعریف ہی ثابت ہوا، اگرچہ اس کے عہد میں اس کی مخالفت کرنے والوں کا بھی شمار بہت زیادہ رہا لیکن اپنی علمی و عملی خدمات کے باعث آج وہ سبھی کی نظروں میں قابل تعریف ہے۔ اس وقت سرسید کا نسخہ کیمیا بہتوں کی سمجھ میں نہیں آیا، مگر وقت گذرنے کے بعد اس کی دور اندیشی اور بصیرت کا اعتراف ان سبھی نے کیا جن کا اس سے مختلف وجوہات کی بنا پر شدید اختلاف تھا، آزاد ہندوستان میں اس کے تعلیمی نظام کو ہر طبقہ نے
سراہا اور قابل تعریف قرار دیا، گویا کہ اس کی تعریف کے دفاتر زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ کھلتے ہی جارہے ہیں۔ سرسید احمد خاں نے اپنی زمین ، جائداد، اپنا اثاثہ ، وقت اور سب کچھ کس لیے صرف کیا؟ صرف اور صرف قوم کی ڈوبتی ہوئی نیا کو پار لگانے کے لیے ۔ امت مسلمہ کو فکر آخرت کے ساتھ دنیاوی مواقع سے فائدہ اٹھانے پر توجہ مرکوز کرانے کے لئے، جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے باہر نکالنے اور علم کی وادیوں کا سفر طے کرنے کی دعوت دینے کے لیے ۔ سب کچھ برداشت کیا، قوم کے طعنے سنے، گالیاں و بد تمیزیاں برداشت کیں ، کالج بنانے کی خاطر پیسہ جمع کرنا اور اُسے صحیح مصرف میں خرچ کرنا اپنا مقصد حیات بنایا تعلیم و تربیت کو اپنا مشن بنایا ، لاکھوں کروڑوں افراد میں سے چند ہی محسن الملک وقار الملک، زین العابدین ، شبلی و حالی مل سکے لیکن بانی درسگاہ کی نفع رسال طبیعت اور فیض صحبت نے اپنے سے وابستہ ہر شخص کو گوہر نایاب“ بنادیا۔ چند طلباء پر مشتمل محمدن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام کو ڈیڑھ صدی بیتنے جارہی ہے۔ آج اس ادارے سے فیض یافتہ طلباء و طالبات کی مجموعی تعداد لاکھوں افراد پر مشتمل ہو گئی ہے، ہر سال کم و بیش پچیس سے تیس ہزار طلباء یہ میرا چمن ہے میرا چمن کی دھن پر اس ادارہ کی چہار دیواری میں سر دُھنتے ہیں۔ ہندوستان کے تقریبا ہر شہر بالخصوص تمام بڑے شہروں کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک میں ادارہ کے فیض یافتگان جشن سرسید مناتے ہیں، دھواں دھار تقریروں، علمی مقالات، سیر حاصل مباحثوں، دلچسپ تبصروں، با مقصد منظوم خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے قریہ قریہ ملکوں ملکوں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن کا اختتام پر تکلف عشائیہ پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہم لمبی چادر تان کر سو جاتے ہیں۔ قدیم و جدید یا موجودہ طلباء کی اکثریت رات کے کھانے سے اس قدر بو جھل ہو جاتی ہے کہ ۱۸ اکتوبر کی سحر خیزی کسی کسی خوش نصیب کے حصہ میں آتی ہے، اس کے بعد ہم صرف ڈنر کی ڈشنز پر تو قصیدہ خوانی یا اظہار کرب و تکلیف کرتے ہیں لیکن وہ تمام باتیں ہمارے دل و دماغ سے نکل جاتی ہیں جو قبل از طعام مقررین ، واعظین ، دانشور ، شعراء حضرات نے کی تھیں ۔
اس موقع پر بہتر معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی اختصار کے ساتھ سرسید کے اس مشن پر بھی نگاہ ڈال لی جائے جس نے سید احمد کو سرسید احمد خاں بنایا، اُن کی زندگی کا پہلا دور اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب وہ انگریزوں کے ماتحت ملازم ہوتے ہوئے مظلوم و مفلوک مسلمانوں کی صورت حال کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہوئے انہیں صرف خزانہ بصارت نہیں بنا رہے تھے بلکہ فہم و بصیرت کے ساتھ ان تدابیر پر غور کر رہے تھے، جس سے امت مسلمہ کو خواب غفلت سے جگایا جا سکے کیوں کہ ” متاع گم شدہ حکمرانی کے زعم میں مبتلا نا کارہ افراد نے ملت کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا تھا جہاں ان کی قسمت کے فیصلے ان ناخواندہ جوانوں کے ہاتھ میں تھے جو پدرم سلطان بود“ کے نعرۂ مستانہ میں مست علم کی وادیوں سے دور ، شطرنج ، گنجھے ، چوسر ، پتنگ بازی، کبوتر و بٹیر بازی میں شہرت کما کر اپنی بدترین صورت حال سے لا پرواہ، خرمستیوں کو برقرار رکھتے ہوئے مرکار و عیار تعلیم و ٹیکنیک کے ہنر میں ماہر فرنگیوں کو ملک بدر کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ سرسید احمد خاں اس صورت حال سے پیدا ہونے والے ملت کے اس تاریک مستقبل پر نظریں جمائے ہوئے تھے جو ملت اسلامیہ ہند کے وجود کو ملیا میٹ کرنے والا تھا، لیکن وہ اس کے لیے خواہش کے باوجود تب تک کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے جب تک کہ ان کے ساتھ کچھ ایسے افراد نہ ہوں جن کے ضمیر زندہ ہوں اور جن کے خمیر میں اپنی قوم کو آگے بڑھانے کے لئے سب کچھ کرنے کا جذبہ ہو۔ اس دور میں انھوں نے امت مسلمہ کو ان کے شاندار ماضی کا احساس دلانے اور غیر ملکی قوم کو مسلمانوں کے کارہائے نمایاں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ۱۸۴۷ء میں سرکاری ملازمت کے دوران آثار الصنادید جیسی کتاب لکھی تا کہ انگریزوں کو مسلمانوں کی شوکت اور اور ملت کو اپنی عظمت رفتہ کا احساس ہو اور ملت اسلامیہ پھر اس عملی

Читать полностью…

علم و کتاب

*آہ! مولانا محمد عمران خان ندوی الازہری(وفات : ۱۸ ؍ اکتوبر ۱۹۸۶ئ) تحریر: صباح الدین عبد الرحمن*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

۲۲؍ اکتوبر ۸۶ء؁ کو یکایک خبر ملی کہ مولانا حافظ محمد عمران خان ندوی ازہری اپنے خاندان والوں کو دل فگار اور اپنے جاننے والوں کو دل گیر چھوڑ کر تہتر (۷۳) سال کی عمر میں اس عالم فانی سے عالم جادوانی کو سدھارے، اس خبر سے جسم و دماغ پر ایک بجلی گر پڑی۔
ان کی موت ایک خاص قسم کی قوت عمل، عزم، ادارہ، خوش انتظامی، خوش سلیقگی، خوش فکری، اور خوش و ضعی کی موت ہے، وہ اپنے پیچھے ایک درس چھوڑ گئے کہ عمل پیہم اور یقین محکم سے کس طرح اہم اور بڑے سے بڑا، کام انجام دیا جاسکتا ہے، بے سرو سامانی میں کیسے کیسے سازوسامان پیدا کیے جاسکتے ہیں، یا س کے عالم میں مخلص کارکنوں کی جماعت کی تنظیم کیسے کی جاسکتی، اور ناداری کے عالم میں بھی وہ کام انجام دیا جاسکتا ہے جو بڑی دولت کے ذریعہ سے نہیں کیا جاسکتا۔
وہ بھوپال کے رہنے والے تھے، ۱۹۴۷ء؁ کے بعد جب بھوپال کا فرماں روا خاندان بھوپال چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ گزین ہوگیا تھا تو مولانا عمران خان ندوی نے اپنی قوت ارادی کو بروئے کارلاکر بھوپال کے لوگوں کے دلوں پر اپنی فرماں روائی شروع کردی اور یہ نمونہ پیش کیا کہ تاج و تخت کے بغیر بھی اخلاص کی پاکیزگی، نیت کی طہارت اور عمل کی پختگی کے ساتھ فرماں روائی ہوسکتی ہے۔
انھوں نے تاج المساجد کی تعمیر جس طرح ازسرنو کی اور اس کی زینت و آرایش میں جس طرح اضافہ کیا، اور پھر اس کے ذریعہ سے جو دینی حمیت اور ایمانی حرارت پیدا کی، وہ ایسا کارنامہ ہے کہ دنیا کی بڑی مسجدوں کی تعمیر کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا نام نامی بھی اس تاریخ میں ضرور لکھا جائے گا، بڑی مسجدیں تو شاہی خزانوں اور حکومت کی مالی امداد سے بنتی رہیں، لیکن تاج المساجد کی تعمیر مولانا عمران خان ندوی کے کاسۂ گدائی سے انجام پائی، یہ اس کی مثال ہے کہ کاسۂ گدائی کو جام جمشید کس طرح بنایا جاسکتا ہے تاج المساجد کو بھوپال کا فرماںروا خاندان اپنے خزانہ سے نہ بناسکا، لیکن مولانا عمران خان نے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر یہ مثال پیش کی کہ عمل پیہم ہو تو آسمان ہُن برسا سکتا ہے اور زمین دولت اُگل سکتی ہے، انھوں نے تاج المساجد کے ارد گرد اتنی مختلف قسم کی عمارتیں بنوادی ہیں کہ یہ مسجد کے لیے شاہی خزانہ سے زیادہ مفید ثابت ہوں گی، ان عمارتوں کے کرایہ سے جو آمدنی ہوگی وہ شاید تاج المساجد کے اخراجات کے لیے کافی ہو، مرحوم کی مساعی جمیلہ سے اس مسجد کے ساتھ ایک عربی اور دینی مدرسہ بھی دارالعلوم تاج المساجد کے نام سے قائم ہے جس کی شہرت اس وقت تمام ملک میں پھیل چکی ہے، وہ اس کے امیر جامعہ تھے، انھوں نے اپنے شفیق استاد حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کی یاد میں ایک ’’بزم سلیمانی‘‘ کی بھی تاسیس کی ہے جو شاید آگے چل کر ایک اہم علمی ادارہ ہوجائے، ان ہی کی سرپرستی میں پندرہ روزہ جریدہ "نشان منزل" شایع ہوتا رہا جو دارالعلوم تاج المساجد کا ترجمان ہے۔
دارلمصنفین سے ان کا تعلق تقریباً چھپن ۵۶ سال تک رہا، وہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے عزیز شاگرد تھے اپنی شاگردی کا حق انھوں نے حضرت سید صاحبؒ پر ایک سیمینار منعقد کر کے اور ’’مطالعہ سلیمانی‘‘ کی دلآدیز جلدشایع کر کے ادا کیا ، وہ مولانا مسعود علی ندوی کے بڑے معتمد علیہ تھے، ان کے خاندان والوں سے آخر وقت تک بڑی وضعداری اور محبت سے ملتے رہے، ملازمت ندوہ کے مہتمم کی حیثیت سے شروع کی، تاج المساجد کی خاطر بھوپال چلے گئے، لیکن ندوہ کو حرزجاں بنائے رکھا اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کے ساتھ مل کر ندوہ کے تمام مسائل کو حل کرنے میں برابر کے شریک رہے، دارالمصنفین کے ہر چھوٹے بڑے جلسہ میں اس کی مجلس انتظامیہ کے رکن کی حیثیت سے برابر شرکت کر کے اس کی رہنمائی کرتے رہے۔
وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنی فقیری میں امیری، اپنی بے سروسامانی میں میر سامانی اور اپنی تنگدستی میں کشادہ دستی کے لیے مشہور رہے، ان کے جسم پر لباس بہت ہی سادہ رہتا، لیکن اس سادگی میں ان کی عزیمت کی چمکاری نظر آتی، وہ پرانے بزرگوں کی طرح اپنی وضعداری کے لیے ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے، وہ اپنے معاصروں اور دوستوں سے اختلاف کرتے تو اس میں بھی ان کی مروت اور شرافت اخلاق کے موتی جھلملاتے رہتے وہ اپنے ماتحتوں کو ڈانٹتے تو ان کی ڈانٹ میں اخلاص ہوتا اور ان کی پھٹکار میں کریم النفسی چھپی رہتی، ان کے گھر میں بڑا خوش ذائقہ کھانا پکتا جس کو وہ بہت ہی خوش سلیقگی سے کھاتے اور کھلاتے، وہ منبر پر وعظ کہنے یا تقریر کرنے بیٹھتے تو اپنی بذلہ سنجیوں کے پھولوں کو سامعین پر نچھاور کرتے رہتے جس میں وہ ایمان کی شمامہ کی نکہت بیزی محسوس کرتے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 214
انتخاب مطالعہ
تحریر: *علامہ شبیر احمد عؔثمانیؒ*

*مانتے جس کو نہیں تھے لیجئے پہنچے وہاں*

یہ عجیب بات ہے کہ: یہ لوگ زبان سے خدا کے وجود اور اس کی غیر محدود قدرت رکہنے اور کتاب ﷲ کو ماننے کے باوجود کس طرح جسارت کرکے اس کی لامحدود قدرت و حکمت کو اپنی عقل کی کُلْہِیا میں بند کردیتے ہیں ، نہ معلوم جنت میں کونسی چیز ایسی ہے جس کا پیدا کرنا اس قادر قیوم کے لیے آسمانوں اور زمین اور چاند سورج اور سمندر اور پہاڑوں سے بھی زیادہ دشوار ہے، یا آگ پانی کا ایک کرہ اور ایک طبقہ اور مٹی کا ایک طبقہ پیدا کرنا سراسر اس کی حکمت اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے اور پھر ان کے تھوڑے تھوڑے اجزاء کو محفوظ کرکے آدم کا خمیر بنانا اس حکمت کے اظہار میں اور چار چاند لگانا ہے، تو اسی طرح اگر اُس دنیا میں اس نے راحت و تکلیف کو مخلوط پیدا فرمایا اور ان دونوں کے واسطے ایک ایک کرہ اور مخزن علیحدہ علیحدہ بنایا دیا کہ جو جسمانی اور روحانی خوشی اور راحت و عیش کا خزانہ ہے، اس میں کسی تکلیف کا نام اور نشان نہ آنے پائے اور جو رنج اور تکلیف اور مصیبت کا خزانہ ہے، اس میں راحت کا اور خوشی کا شائبانہ نہ پایا جاسکے، تو کیوں حکمت کے خلاف ٹہرے گا؟

مولانا ”جلال الدین رومی“ نے سچ فرمایا ہے کہ: یہی جنت اور اس کی نعمتوں کا انکار کرنے والے جب رحم مادر میں تھے تو اس وقت ان سے اگر کوئی جاکر کہتا کہ: اس تنگ و تاریک کوٹھری سے تم باہر نکلو! اور یہ حیض کا ناپاک خون کھانا چھوڑ دو! تو تم کو باہر ایک ایسا وسیع زمین و آسمان نظر پڑے گا جس کی وسعت سے تمہارے اس حجرے کی نسبت ایک اور کروڑ کی بھی نہ ہوگی اور جب تم یہ ناپاک غذا ( دم طمث ) چھوڑ دوگے تو تم کو نہایت خوش رنگ،خوش ذائقہ لطیف غذا دی جائے گی،جس کے بعد تم اس غذا کو کبہی نہ یاد کروگے، تو یہ منکرین ہی انصاف سے بتلادیں کہ کیا وہ رحم مادر میں ان باتوں کو باور کرسکتے تھے؟ وہ نیچے اوپر ادھر ادھر نظر دوڑاتے اور رحم کی جھلی کے سوا کچھ نہ دیکھتے ۔
جن غذاؤں کا ان سے وعدہ کیا جاتا تہا وہ یہی کہتے جو جنت کے کھانوں نسبت کہتے ہیں کہ یہ سب تمہارے خیالات اور اوہام ہیں، نہ اس مکان سے وسیع کوئی مکان ہے اور نہ اس غذا کے سوا کوئی غذا ہے؛ لیکن حق تعالی شانہ نے اپنی قدرت بالغہ سے ان کو بطن مادر سے باہر نکالا اور انہوں نے وہ سب چیزیں دیکھ لیں جن کی ان کو خبر دیجاتی تہی اور اب کوئی تردد اس میں باقی نہ رہا ۔

پس ٹھیک ٹھیک یہی مثال ہمارے نزدیک ان تنگ نظروں اور کور باطنوں اور دنیا کے بدمستوں کی ہے،یہ ہرگز ان چیزوں کو تسلیم نہ کریں گے جب تک ان کو دیکھ نہ لیں گے، اسی خیال کے شخص کی تاریخ کا مصرعہ ہمارے استاذ ( دام فیضہ) نے کیا خوب کہا ہے:
؏ مانتے جس کو نہیں تھے لیجئے پہنچے وہاں

(*انوار عثمانی، صفحہ: 38، طبع: مکتبہ اسلامیہ، مولوی مسافر خانہ، بند روڈ، کراچی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سرسید کی انسانی خدمات

معصوم مرادآبادی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

آج جدید ہندوستان کے معمار سرسید احمد خاں کا یوم ولادت ہے۔ وہ 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ہیں، جس کے فرزندان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوم سرسید کی تقریبات عالمگیر سطح پر منائی جاتی ہیں ۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا جشن علی گڑھ میں ہوتا ہے۔ میں اس وقت یہ سطریں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس میں بیٹھ کر ہی لکھ رہا ہوں۔ میں یہاں یوم سرسید کی تقریبات میں شرکت کے لئے حاضر ہوا ہوں۔
سرسیداحمد خاں کو عام طورپر مسلمانوں میں جدید تعلیم عام کرنے والے ایک مصلح اعظم کے طورپر جانا جاتا ہے ، لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سرسید نے اپنی زندگی میں خدمت خلق کی بھی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جس کی نظیر نہیں ملتی۔
سرسید ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔وہ ہندو اور مسلمانوں کو اپنی دوآنکھوں سے تعبیر کرتے تھے۔ انھوں نے صرف نظریاتی طورپر ہی قومی یکجہتی کے تصور کو فروغ نہیں دیا بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد بھی کی اورایسے کاموں سے بھی گریز نہیں کیا جن کے قریب جاتے ہوئے لوگ کراہیت محسوس کرتے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت سرسید کے قیام مرادآباد سے ملتا ہے جہاں وہ صدرالصدور کی حیثیت سے ساڑھے تین سال مقیم رہے۔ 1860میں پورے شمال مغربی صوبے میں عموماً اور مرادآباد میں خصوصاً زبردست قحط پڑا اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف موذی امراض وآفات نے ہر خاص وعام کو اپنی گرفت میں لے لیا۔مصیبت کی اس گھڑی میں سرسید نے مختلف تدابیر اختیار کرکے انسانی ہمدردی کا ثبوت پیش کیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ قحط زدگان کی امداد اور بازآبادکاری کا سارا کام مسٹر جان اسٹریچی کلکٹر مرادآباد نے سرسید احمد خاں کے سپرد کردیا تھا۔انھوں نے دن ورات کی محنت اور جدوجہد سے عوام کو اطمینان کا سانس لینے کے قابل بنادیا۔ان امدادی تدابیر کا ذکر کرتے ہوئے ’حیات جاوید‘ میں مولانا الطاف حسین حالی رقمطراز ہیں:
”محتاج خانے کے حسن انتظام کا یہ حال تھا کہ چودہ ہزار محتاجوں کو گھنٹہ بھر میں کھانا تقسیم ہوجاتا تھا۔ بیماروں کے لیے شفاخانہ اور ڈاکٹر موجود تھا۔بیماروں کو پرہیزی کھانا ملتا تھا۔زچاؤں اور شیرخواروں کو دودھ ملتا تھا۔ جو ہندو اپنے سوا کسی کا پکا نہیں کھاتے تھے، ان کے لیے علاحدہ چولہے بنے ہوئے تھے۔مسلمانوں کے لیے مسلمان اور ہندوؤں کے لیے ہندو کھانا بناتے تھے۔“
سرسید صبح شام بلاناغہ محتاج خانے میں جاتے اور ایک ایک بیمار کو دیکھتے تھے، جن کے دست جاری ہوجاتے تھے اور کپڑے بول براز میں لتھڑے ہوتے تھے، ان کو سرسید خود اپنی گود میں اٹھاکر دوسری صاف جگہ احتیاط سے جاکر لٹا دیتے تھے۔ان کے کپڑے بدلواتے، سرمنڈواتے، ہاتھ منہ دھلواتے، دوا پلاتے تھے اور نہایت شفقت سے ان کے ساتھ پیش آتے تھے۔ان میں ہندو اور مسلمانوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔
سرسید کو جب اسٹریچی صاحب نے قحط کا انتظام سپرد کیا تھا تو انھوں نے صاف کہہ دیا کہ سب کچھ اس شرط پر کروں گا کہ جتنے لاوارث بچے آئیں گے، ان میں جتنے مسلمان ہوں گے، مسلمانوں کو اور جتنے ہندو ہوں گے، وہ ہندوؤں کے سپرد کئے جائیں گے، جنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا، جتنے لاوارث بچے آئے وہ ہندو مسلمانوں کے سوا کسی مشنری کو نہیں لینے دئیے۔حسب ہدایت جو بچہ کسی کے سپرد کرتے تھے اس سے یہ اقرار نامہ لکھوالیتے تھے کہ ہم اس کو لونڈی یا غلام نہیں بنائیں گے۔
جان اسٹریچی کا مرادآباد سے تبادلہ ہونے کے بعد مشنری نے لاوارث بچوں کو اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کی۔سرسید کا اس وقت مصمم ارادہ ہوگیا تھا کہ جب کبھی موقع ملے تمام ہندو مسلمانوں سے چندہ کرکے کسی صدر مقام میں ایک بہت بڑایتیم خانہ قایم کیا جائے جہاں ہندوستان کے لاوراث بچوں کی پرورش اور تعلیم ان کے اپنے مذہب کے مطابق ہو۔
عام خیال یہ ہے کہ سرسید کی تحریک کا محور و مرکز صرف مسلمان تھے اور انھوں نے ہی ان کی معاونت بھی کی، لیکن حقیقت میں سرسید کے معاونین میں ایک تعداد ہندوؤں کی بھی تھی جنھوں نے سرسید کے مشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس ذہنی اتحاد کی داغ بیل بھی مرادآباد میں ہی پڑی۔مرادآباد کے راجہ جے کشن داس جو ”لائل محمڈنز آف انڈیا“ کے اجراء کے سبب سرسید کو محض مسلم پرست اور متعصب رہنما سمجھتے تھے، اتفاق سے قحط زدگان کے ایک کیمپ میں جاپہنچے جہاں انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے سرسید کی بے تعصبی اور قومی ہمدردی کا یہ منظر دیکھاکہ ایک ہندو شخص کہ جس کے کپڑے بول وبراز سے آلودہ تھے اور اسہال کے سبب تعفن دور دور تک پھیل رہا تھا اور اس کے عزیز بھی اس کو چھوڑ کر جاچکے تھے، سرسید نے خود اس کے بدن کو صاف کیا اور احتیاط سے دوسرے صاف بستر پر لٹادیا۔یہ دیکھ کرنہ صرف راجہ صاحب کا دل بھر آیا بلکہ سرسید سے متعلق ان کی سوچ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔وہ آگے چل کر سرسید کے زبردست حامی اور معاون بن گئے۔راجا

Читать полностью…

علم و کتاب

*حکیم محمد سعید دہلوی۔مدینے کا شہید*
وفات(۱۷ ؍اکتوبر ۱۹۹۸ء)
*تحریر: جاوید چودھری*
Https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B



پچھلے موسم میں ایک نامور پاکستانی دانشور بھارت گے، دورے کے اختتام پر ایک غیر سرکاری تنظیم نے دہلی میں اُن کےاعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں پاکستانی دانشور کو ”خراجِ عقیدت” پیش کرنے کے لیے چوٹی کے بھارتی دانشور تشریف لائے، نشست کے آخر میں جب سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک ہندو نے اپنے معزز مہمان سے ایک عجیب سوال پوچھا،پوچھنے والے نے پوچھا۔” یہاں بھارت میں تو مسلمان مساجد میں نماز ادا کرتےہیں وہاں پاکستان میں کہاں پڑھتے ہیں؟” پاکستانی دانشور نے اِس سوال کو مذاق سمجھ کر فلک شگاف قہقہ لگایا لیکن جب اُنہیں محفل کی طرف سے کوئی خاص ردعمل موصول نہ ہوا تو اُنہوں نے کھسیانا ساہوکر سوالی کی طرف دیکھا ،ہندو دانشور کے چہرے پر سنجیدگی کے ڈھیرلگے تھے، پاکستانی دانشور نے بے چینی سے پہلو بدل کر جواب دیا۔ ”ظاہر ہے مسجدوں ہی میں پڑھتے ہیں۔” یہ جواب سن کر ہندو دانشور کھڑا ہوا،ایک نظر حاضرین پر ڈالی اور پھر مسکرا کر بولا۔” لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق تو پاکستانی مسجدوں میں نماز پڑھنے والوں کو گولی ماردی جاتی ہے۔” ہندو دانشور کا یہ تبصرہ پاکستانی دانشور کو سکڈ میزائل کی طرح لگا اُس کا ماتھا پسینے سے بھیگ گیا ہاتھوں میں لرزہ طاری ہوگیا اور آنکھوں میں سرخی آگئی، منتظمین موقع کی نزاکت بھانپ گئے لٰہذا انہوں نے فوراً نشست کے اختتام کا اعلان کردیا یوں پاک بھارت تعلقات مزید بگڑنے سے بچ گئے۔

یہ واقعہ مجھے مرحوم حکیم سعید نے سنایا تھا،مجھے آج بھی وہ گرم سہ پہر یاد ہے میں ہمدرد دواخانہ راولپنڈی میں حکیم صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا، مرحوم خلافِ معمول تھکے تھکےسے لگ رہے تھے میں نے ادب سے طبیعت کے اِس بوجھل پن کی وجہ دریافت کی تو دل گرفتہ لہجے میں بولے” ہم نے اِس دکھ سے بھارت چھوڑا تھا کہ ہمیں وہاں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی، ہم نماز پڑھنے جاتے تھے تو ہندو مسجدوں میں سور چھوڑ دیتے تھے، خانہ خدا کے دروازے پر ڈھول پیٹتے تھے ،بول و براز کی تھیلیاں ہمارے اوپر پھینکتے تھے، ہندو شر پسند پچھلی صفوں میں کھڑے نمازیوں کو چھرے گھونپ کر بھاگ جاتے تھے، ہم نے سوچا چلو پاکستان چلتے ہیں وہاں ہمارے سجدے تو آزاد ہوں گے، ہماری مسجدیں،ہماری درگاہیں تو محفوظ ہونگیں لیکن افسوس آج مسلح گارڈز کے پہرے کے بغیر پاکستان کی کسی مسجد میں نماز کا تصور تک نہیں، مجھے میرے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید دہلی سے لکھتے ہیں۔ سعید واپس آجاؤ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ،یہاں اِدھر کم از کم مسجدیں تو محفوظ ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن میں۔” اُن کی آواز اکھڑ گئی۔

”پاکستان آنے پر آپ کو کبھی پچھتاوا ہوا؟” میں نے نرمی سے پوچھا۔” انہوں نے اچکن کے بٹن سہلائے” نہیں ہر گز نہیں ،یہ سودا ہم نے خود کیا تھا۔ حمید بھائی میرےاِس فیصلے سے خوش نہیں تھے،اُن کی خواہش تھی میں دہلی ہی میں اُن کا ہاتھ بٹاؤں لیکن مجھے لفظ پاکستان سے عشق تھا لٰہذا اِدھر چلا آیا، اللہ تعالٰی نے کرم کیا اور وہ ادارہ جس کی بنیاد میں نے بارہ روپے سے رکھی تھی آج پاکستان کے چند بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے، یہ سب پاکستان سے عشق کا کمال ہے۔” اُن کی آواز میں بدستور ملال تھا۔” لیکن پاکستان کے حالات سے دکھ تو ہوتا ہوگا؟” میں اپنے سوال پر اصرار کیا۔”

ہاں بہت ہوتا ہے۔ اخبار پڑھتا ہوں، سیاستدانوں کے حالات دیکھتا ہوں عوام کی دگرگوں صورتحال پر نظر پڑتی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب اُدھر دہلی سے کوئی عزیز رشتے دار پاکستان آکر کہتا ہے،”کیوں پھر” تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے،لیکن کیا کریں، گھر جیسا بھی ہے، ہے تو اپنا، ہم اِسے چھوڑ تو نہیں سکتے؛لٰہذا لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے آخری سانس تک۔”

” کوئی اِیسی خواہش جس کا آپ نے آج تک کسی کے سامنے اظہار نہیں کیا؟” اُنہوں نے کچھ دیر تک سوچا۔ ہاں کبھی کبھی جی چاہتا ہے میری موت حمید بھائی سے پہلے ہو،وہ میرے جنازے پر آئیں، میرے چہرے سے چادر سرکا کر دیکھیں اور پھر آہستہ سے مسکرا کر کہیں، ہاں سعید تمہارافیصلہ درست تھا۔"

Читать полностью…

علم و کتاب

انشائے ماجدی کے شہ پارے ۔قسط نمبر۱۶
از : محمد راشد شیخ
مختصر وضاحت
آج کی قسط میں جس موضوع پر تفسیر ماجدی کا اقتباس پیشِ خدمت ہے اس کا تعلق توریت اور انجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے بارے میں پیش گوئیوں سے ہے۔پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ مولانا دریابادی کے اختصاص میں اسرائیلی کتب اور اسرائیلی تاریخ کے بارے میں غیر معمولی معلومات اور قدیم و جدید ماخذات پر گہری نظر بھی تھا۔مولانا نے اپنی تفسیر میں ان معلومات سے عمدہ اندا ز سے قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلّم کے بارے میں دلائل دیے ہیں چنانچہ پیش نظر اقتباس میں بھی یہی دلائل موجود ہیں۔
انشائے ماجدی

”یہود کا دعویٰ ہے( اور نصاری بھی انہی کا ساتھ دیتے ہیں) کہ نبوت و رسالت تو بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص تھی ، یہ نیا پیغمبر بنی اسماعیل میں کیسے پیدا ہو گیا؟ لیکن انہی کی توریت باوجود ان کی ساری تحریفات کے اب تک شہادت کچھ اور ہی دے رہی ہے ۔ ایک جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہتے ہیں :
’’خداوند اتیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا، تم اس کی طرف کان دھرو ۔‘‘(استثناء ۱۸:۱۵)
قطع نظر اس سے کہ بنی اسرائیل میں تو ایک نبی نہیں خدا معلوم کتنے انبیاء علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد پیدا ہوتے رہے ،خود’’ تیرے ہی بھائیوں سے ‘‘کی تصریح بتا رہی ہے کہ مراد بنی اسرائیل نہیں بلکہ ان کے ہم جَد بھائی بنی اسماعیل ہیں۔ اگر خبر اسرائیلی ہی نبی کی دینا ہوتی تو بجائے ’’تیرے ہی بھائیوں میں سے‘‘ کے عبارت ’’تجھ ہی میں سے‘‘ ہوتی۔ یہ الفاظ تو صرف مخاطبین کی وحشت دور کرنے اور ان میں جذبہ ءانسیت پیدا کرنے کے لیے ہیں کہ اے میرے ہم قومو، جب وہ نبی آئے تو اس کی اطاعت کرنا، وہ بھی تمہارا غیر نہیں تمہارے ہی بھائیوں میں سے ہوگا ۔اور پھر دو ہی آیتوں کے بعد تورات میں بعینہ یہی مضمون براہ راست حق تعالیٰ کی جانب سے ادا کیا گیا ہے :
’’خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا ۔ میں ان کے لیےبھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔‘‘
اب دیکھیے کہ ’’ اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا‘‘ یعنی لفظی کلامِ الٰہی ہونے کا مصداق بجز قرآن کے ساری آسمانی کتابوں میں اور ہے ہی کون ؟ لفظی کلام الٰہی ہونے کا دعویٰ کس دوسری کتاب کا ہے؟ پھر دیکھیے کہ’’ تجھ سا ‘‘یعنی ’’موسیٰ علیہ السلام کاسا‘‘ ہونے کا مصداق تاریخ کی دنیا میں بجزذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ہوا کون ہے؟ اور کیا اس سے بھی قطع نظر ممکن ہوگی کہ یہاں بھی بجائے ’’ان میں سے‘‘ یا ’’اسرائیلیوں میں سے‘‘ کے صراحت ’’ان کے بھائیوں میں سے ‘‘ہونے کی موجود ہے۔
اور پھر یہی پیشگوئی انہی لفظوں میں موسی علیہ السلام نبی کی زبان سے نکلی ہوئی نصاریٰ کی انجیل میں بھی دہرائی ہوئی موجود ہے:
’’ موسی علیہ السلام نے کہا کہ خداوندخدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لیے مجھ سا نبی پیدا کرے گا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے تم اس کی سننا۔‘‘(اعمال۔۳:۲۲)(تفسیر ماجدی حصہ اول ،صفحہ نمبر۲۵۰)

Читать полностью…

علم و کتاب

/channel/ilmokitab

کئی سال قبل مولانا ندیم الواجدی علیہ الرحمہ پر لکھا ایک مضمون آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

علم و قلم کا حسین امتزاج: مولانا ندیم الواجدی
ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

”دارالکتاب“کا نام سنتے ہی ممکن ہے لوگوں کا ذہن”دارالکتاب،ممبئی“کی طرف منتقل ہوجائے لیکن یہاں دیوبند کے ”دارالکتاب“کا تذکرہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے مسند نشین ،ممتاز صاحب علم وقلم اور ناشر کتب کے علمی،قلمی اور ادبی کارناموں کامختصر خاکہ پیش کیا جارہا ہے۔
محنت و لگن،عزم و ارادہ اور جدو جہد جیسے الفاظ اور ”پدرم سلطان بود“کا بے معنی نعرہ سن سن کر تو کان بوجھل ہو چکے ہیں ۔ تصورکو حقیقت کا لباس پہنانے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں تاہم قحط الرجال کے اس دور میں بھی جد و جہد سے پر زندگی کی حامل شخصیات کمیاب تو ہیں نایاب نہیں۔
مولانا ندیم الواجدی نے اعلیٰ خاندان اور علمی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے کے بجائے ہمیشہ خود اعتمادی کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا ۔مولانا کی تعلیمی زندگی نہ صرف یہ کہ زیادہ خوش حالی کی زندگی نہیں تھی بلکہ انھوں نے بہت سی دشواریوں سے گزر کر منزل مقصود تک رسائی حاصل کی ہے یہی وجہ ہے کہ دشواریوں کے بعد آسانیاں آئیں ۔فضلِ الٰہی سے آج وہ بہت سی نعمتوں سے بہرہ ور ہیں ۔
مولانا موصوف نے طالب علمی کے دور سے ہی مضمون نگاری کی شروعات کردی تھی اور فطری صلاحیت و استعداد کی بنا پر کم عمری ہی میں ان کی ایک شناخت قائم ہو گئی اور ملک و بیرون ملک کے وقیع رسائل و جرائد میں انتہائی اہتمام کے ساتھ مضامین بھی شائع ہونے لگے ۔ان کی ان ہی صلاحیتوں کی بنا پر سید محبوب رضوی ،سید ازہر شاہ قیصر اور مفتی ظفیرالدین مفتاحی مرحوم کی علمی مجالس میں برابر دو نوجوان اور نووارد قلم کارو ںکا تذکرہ ہوتا،ان کی عمر کے ساتھ قلم کی تیز رفتاری کو دیکھ کر حال کے جھروکے سے روشن مستقبل کی پیشین گوئی کی جاتی اور کہا جاتا کہ:”اگر یہ دونوں اسی طرح لکھتے رہے تو مستقبل کے نامور قلم کارو ں اور مصنفین میں ان کا شمار ہوگا۔“ان دونوں نوجوانوں میں ایک مولانا ندیم الواجدی ہیں اور دوسرے مولانا بدرالحسن قاسمی ۔الحمدللہ ان بزرگوں کے حسین خواب کی تعبیردومعتبر اسلامی قلم کارو ںکی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔
یوں تو مولانا واجدی نے ہر فن کو محنت سے حاصل کیا اوربر تا لیکن عربی زبان و ادب سے ان کا تعلق گہرا ہے۔کتابی شکل میں اب تک ان کے جو علمی نقوش سامنے آئے ہیں ،ان میں بیشتر کا تعلق عربی زبان ہی سے ہے ،تاہم اردو زبان و ادب میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں اور مختلف موضوعات پر ان کے قلم سے نکلے ہوئے مقالات کا ایک بڑا ذخیرہ ملکی و غیر ملکی رسائل و اخبارات میں پھیلا ہوا ہے اور اپنی خاموش زبان سے کتابی دنیا میں پناہ لے کر درازی عمر کی دعا مانگ رہا ہے۔
سردست اردو کے حوالے سے ان کے قلم نے جو گل افشانیاں کی ہیں وہ زیر قلم ہیں۔یہ تو پہلے ہی آچکا ہے کہ قلم ندیم صاحب کا بچپن ہی سے ندیم رہا ہے،تاہم پندرہ روزہ”مرکز“دیوبند سے تحریر میں مہمیز لگی ۔انھوں نے پوری تندہی سے اس کی ترتیب و تدوین اور اشاعت کے لیے کام کیا اور ساتھ ہی اپنے اعلیٰ ذوق اورعمدہ انتخاب کا مظاہرہ بھی۔پھر اسی محنت و مشق نے انھیں امام غزالی کی شہرہ آفاق اور بین الاقوامی حیثیت کی حامل کتاب”احیاءالعلوم“کے اردو ترجمے کا حوصلہ بخشا اور 1980سے1987تک سات برسوں کے طویل عرصے میں زبردست تگ و دو اور شب و روز کی عرق ریزی کے بعد اپنی نوعیت کا یہ عالمی کا م مولانا واجدی کے ہاتھوں انجام پایااور ان کے اس علمی،قلمی اور تحقیقی کام کو پوری دنیا میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھااور سراہا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا کے اس علمی کام نے انھیں محقق و مصنف کے ساتھ ساتھ ناشر و تاجر بھی بنادیا۔
شاید اس طویل علمی سفر کی تکان کی وجہ سے وہ اسلامی کتب کی نشرو اشاعت اور اس کی تجارت میں زیادہ مصروف ہو گئے۔پھر وہ تقریباً ربع صدی تک اپنے اشاعتی ادارے ”دارالکتاب“کے استحکام اور اس کو وسعت دینے میں لگے رہے اور آج ماشاءاللہ ملکی سطح پر یہ ادارہ امتیازی حیثیت اور نمایاں مقام رکھتا ہے اوردینی و اسلامی کتابوں کی اشاعت اورساتھ ہی عربی و اردو زبانوں کی توسیع و ترویج میں پوری طرح مشغول ہے۔وہ تو اچھا ہوا کہ بیس پچیس سال کی طویل خاموشی اور آرام کے بعد ”مرغ نے دی اذاں اور سویرا ہوا“اور مولانا ندیم الواجدی نے 2000میں ماہنامہ”ترجمانِ دیوبند“کا اجراکر کے گویا قلم کا دوسرا صور پھونکااو ران کی قلم کاری کی نشاة ثانیہ ہوئی۔
مولانا واجدی اب بہت سی دشواریوں کو زیر کر کے بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور ان کا وقفہ استراحت ختم ہو چکا ہے ۔ معاش کے حوالے سے ماشاءاللہ اب وہ انتہائی آسودہ حال ہیں اس لیے ان کا اشہب قلم ایک بار پھر پورے طور پر رواں دواں اور جوان دکھائی دینے لگا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بہت سی رنگینیوں کو لے کر نمودار ہوا ہے ۔ان کے علمی سفر کا مرحلہ پہلے سے کہیں زیادہ جاذب

Читать полностью…

علم و کتاب

سے بھی اس کے ایڈیشن چھپنے لگے ، اسی طرح مولانانے نصابی موضوعات پربھی اچھا علمی اور فنی مواد تیارکیا جسے اھل علم نے بنظر استحسان دیکھا ، مولانا کے علمی نقوش اورفکری آثار وباقیات کو دیکھیں تو تین درجن سے زائد مصنفات ومؤلفات مولانا کے قلمی شاہ کار ہیں جبکہ ان کے مشن اور نام نیک کی بقا کیلۓ مولاناڈاکٹر یاسرندیم الواجدی جیسا خلف الرشید اور سعادت مند لخت جگر مولانا مرحوم کیلۓ بہترین صدقۀ جاریہ ہے جو اسلامی دعوت وتبلیغ کے عالمی افق پر ستارہ بن کر ابھررہا ہے۔
مولاناندیم الواجدی شہردیوبند کی ادبی روایتوں کے پاسدار تھے ، ان کے دم خم سے یادوں کی اس نگری کے علمی تہذیبی اورثقافتی منطقے روشن تھے ، دارالعلوم کی چہاردیواری سے باہر ان کا آشیانۀ محبت قلم وکتاب کے نۓ پرانے دوستوں کا ایسا مرکز تھا جہاں دل بہلانے اور داستان دیوبند کہنے سننے کے عنوانات فراہم ہوجایا کرتے تھے ، افسوس کہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اور مولانامحمداسلام قاسمی جیسی باغ وبہار شخصیات کے بعد مولانا مرحوم کا بچھڑنا دیوبند کی فضا کو سوگوار کرنے والا ہے ،
مولاناندیم الواجدی جیسی مہربان شخصیت آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی ، ان سے ہمارا برسوں پرانا تعلق تھا جو مسلسل عنایات ، مشفقانہ کردار اور بے لوث محبت کے ذیل میں گھر جیسے بے تکلف مگر ادب سے بھرپور مراسم کی شکل اختیار کرگیا تھا ، سچ پوچھئے تو ان کی حوصلہ افزائی نے قلم وکتاب سے کسی بھی درجہ میں رشتہ قائم کرنے میں مہمیز کا کام کیا ، سن دوہزار تین میں انھوں نے راقم کا سب سے پہلا مضمون اپنے مجلہ " ترجمان دیوبند " میں شامل اشاعت کرکے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا جس سے تحریک پاکر بہت سے اخبارات ورسائل میں لکھنے ہڑھنے کا شوق پروان چڑھا ، ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو بڑی اپنائیت سے ملتے ، دارالکتاب کے علاوہ اپنے عالیشان مکان پر آنے کی دعوت دیتے ، قیام وطعام اور دوسرے لوازمات کی جانکاری لیتے ، ہمیشہ علمی موضوعات اور قلمی کاموں کی پیش رفت سے خوش ہوتے ، دیوبند سے فراغت کے بعد جب بندہ کا تقرر جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں ہوا تو اس ادارہ کا عظمت کے ساتھ تذکرہ کرکے اپنی مسرت ظاہر فرمائی ، یہاں کے روح رواں حضرت مولانامفتی خالدسیف اللہ گنگوہی کے علمی اور قلمی کاموں کو سراہا ، بلکہ کئی بار یہاں تشریف لاۓ اور خدمت کا موقع بھی دیا ، دوتین سال پہلے بوڑیہ ہریانہ کی بزرگ شخصیت حضرت جی مولاناشاہ عبدالستار بوڑیوی کا تذکرہ زبان پر آیا تو کہنے لگے کہ میں بھی اس درویش خدا مست بزرگ کو دیکھنا چاہتا ہوں ، چنانچہ پہلی مرتبہ چاردسمبر دوہزار بائیس کو انھوں نے بوڑیہ ضلع یمنانگر ہریانہ کا سفر اختیار فرمایا پہلے گنگوہ آکر مجھے ہمراہ لیا ، ہم لوگ بوڑیہ پہنچے تو پہلی ہی نشست میں حضرت جی بوڑیوی ان کی نگا ہوں میں چڑھ گۓ ، سلوک واحسان اور دوسرے مسائل پر انھیں حضرت مولانا بوڑیوی کی عارفانہ گفتگو وقیع محسوس ہوئی جس کے بعد تو مولانا نے ہردوتین ماہ میں وہاں جانے کا معمول بنالیا حتی کہ اصرار کرکے حضرت سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر فرمائی جسے حضرت نے قبول کرکے کچھ چیزوں کی طرف توجہ دلائی اور پھر غالبا چوتھے سفر میں مولانا مرحوم کو اپنے حلقۀ مجازین میں شامل فرمالیا،
مولانا واجدی بڑے خوش اخلاق ، خوش پوشاک اور خوش گفتار انسان تھے ، تحریر وانشا کی طرح زبان بھی بڑی ٹکسالی تھی ، جب بولتے تو لگتاکہ منھ سے موتی جھڑرہے ہیں ، ان میں تعلی ، عجب اور پندار کی بو تک محسوس نہیں ہوتی تھی ، ہمیشہ مثبت اور تعمیری گفتگو کرتے ، قومی ملی اور ملکی مسائل پر ہمیشہ بے لاگ اور باوزن راۓ رکھتے تھے ، انھیں ہر طرح کے موضوع پر لکھنے اور بولنے کی مشق تھی اسی لۓ ان کا شاداب قلم ہیرے جواہرات تراشتا تھا ، وہ فکر وخیال کے ایسے ابگینے سجاتے کہ قاری خوش گوار تحیر میں ڈوب جاتا،
آپ سے آخری ملاقات دوماہ پہلے 14 / اگست 2024 کو دیوبند کے ایک ہنگامی سفر کے دوران آپ کے گھر پر یوئی ، دسترخوان پرتکلف فواکہ اور مٹھائیوں سے سجا تھا حضرت مولانا بہت محبت سے اشارہ کرکرکےکھانے کی رغبت دلارہے تھے ، طبیعت بھی کافی اچھی تھی ، دوران ضیافت کہنے لگے کہ آج کل میں ہی امریکا کے سفر پر جارہا ہوں اگر اللہ نے چاہا تو دوماہ بعد واپسی ہوسکے گی ، وہاں کچھ طبی چیک اپ ہوں گے ، آپ دعاکیجۓ گا اور حضرت بوڑیوی سے اگر ملاقات ہو تو سلام عرض کرکے دعا کی درخواست کردینا مگر کسے معلوم تھا کہ یہ قلم وکتاب کے سفیر سے یہ آخری ملاقات ہورہی ہے
غالبا بھائی شبیرشاد کا پسندیدہ یہ شعر ان کی نوک زباں رہاہوگا

میں واہسی کے ارادہ سے جارہاہوں مگر
سفرسفر ہے میرا انتظار مت کرنا

Читать полностью…

علم و کتاب

شیر شاہ پر ایک علمی وتحقیقی کتاب کا مطالعہ
طلحہ نعمت ندوی
شیرشاہ ہندوستان کی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس سے کوئی انصاف پسند مورخ اعراض نہیں کرسکتا، اس نے مملکت کا جو نظم ونسق قائم کیا تھا وہ اس قدر بے نظیر تھا کہ مغل انگریز سب نے اسی کو باقی رکھتے ہوئے اس میں توسیع کی۔
شیر شاہ کے ان کمالات کا حق تھا کہ اس کی کوئی جامع تاریخ لکھی جائے۔
اردو میں یوں تو شیر شاہ پر کئی اہم کام پہلے سے موجود تھے، اور قدیم فارسی مآخذ کے اردو ترجمے بھی ہوئے، البتہ بیسویں صدی کی جامع کتابوں میں سید مرتضی سرونجی کی صولت شیرشاہی بہت اہم تھی، اس کے علاوہ بھی اردو میں کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ لیکن ایک جامع کتاب کی ضرورت باقی تھی، یہ کام ایک ہندو فاضل کے قلم سے وجود میں آیا، یعنی مشہور بنگالی مورخ کالکا رنجن قانون گو، جو مشہور مورخ جادو ناتھ سرکار کے شاگرد تھے اور پٹنہ یونیورسٹی میں رہ چکے تھے۔
انہوں نے شیر شاہ اینڈ ہز ٹائمز کے عنوان سے بہت ہی عالمانہ اور ضخیم کتاب لکھی اور اب تک کے تمام کاموں اور تمام مآخذ کا بہت ہی عالمانہ جائزہ لیا۔ فارسی کے ساتھ اردو اور عربی سے بہ ظاہر وہ اچھی طرح واقف تھے ۔اس کا اردو ترجمہ بھی شیر شاہ اور اس کا عہد کے عنوان سے بہت پہلے منظر عام پر آیا اور بازار میں دستیاب ہے۔ قانون گو نے در اصل اپنی طالب علمی کے زمانہ میں یا اس کے فورا بعد شیر شاہ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی، لیکن ایک طویل عرصہ جو غالبا نصف صدی یا اس سے کچھ کم عرصہ تھا گذرنے کے بعد جب انہوں نے اس کتاب پر نظر ثانی کی تو اس کا عنوان بھی تبدیل کردیا اور اس میں بہت زیادہ ترمیم بھی کردی کہ خود ان کے بقول اب وہ پہلی کتاب نہیں رہی، اس لیے موجودہ کتاب کا مطالعہ کرنے والا پہلی کتاب کو پہلا ایڈیشن سمجھ کر اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ دیگر تصحیحات وترمیمات کے ساتھ انہوں نے اولین ایڈیشن کے دو اہم باب نکال دئے۔ ایک آخری باب جس میں شیر شاہ کے نظم ونسق پر بہت ہی تفصیلی روشنی ڈالی تھی اور دوسرے مآخذ کا جائزہ جو بہت عالمانہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دوسرے ایڈیشن کے وقت وہ پہلے کی طرح غیر جانب دار مورخ نہیں رہ گئے تھے، ان کے خیالات میں بہت تبدیلی آ چکی تھی، ملک آزاد ہوئے عرصہ ہوچکا تھا، اور وہ راجپوت کے ایک ترجمان کی حیثیت سے نمایاں ہوچکے تھے، راجپوت کی تاریخ پر ان کی تحقیقی کتاب شائع ہوچکی تھی۔ اس لیے دوسری کتاب میں ان کے افکار کی اس تبدیلی کی پوری جھلک موجود ہے۔
قانون گو کے بعد پھر طویل عرصہ تک شیرشاہ پر کوئی قابل ذکر تحقیق نہیں نظر آتی، کچھ مونوگرام قسم کی چیزیں ضرور لکھی گئیں۔
یہ اتفاق ہے کہ ایک طویل عرصہ کی خاموشی کے بعد پھر ایک غیر مسلم فاضل نے ہی قلم کو جنبش دی، اور شیر شاہ کی بہار میں خدمات کو خاص طور پر موضوع بحث بنا کر اختصار اور جامعیت کے ساتھ اپنی تحقیق و مطالعہ کا خلاصہ پیش کیا۔
یہ Sher Sah and his Successors یعنی شیر شاہ اور اس کے جانشین کے مصنف سنیل کمار سنگھ ہیں۔ کالکا رنجن قانون گو نے تقسیم ہند سے پہلے اگر فارسی عربی مآخذ سے براہ راست استفادہ کیا تو اس قدر حیرت کی بات نہیں تھی، لیکن اس دور میں کسی ہندو اہل علم کی عربی فارسی اور اردو مآخذ پر ایسی عالمانہ نظر اور تاریخ کی تدوین میں ان سے استفادہ یقینا قابل تعریف ہے، جب کہ بیشتر مورخین قدیم انگریزی وہندی مآخذ پر انحصار کرلیتے ہیں، پھر مصنف نے دہلی یا علی گڑھ کے مسلم دانشگاہوں میں نہیں پڑھا ہے کہ وہ مسلم ثقافت سے واقف ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ انہوں نے بہار ہی میں تعلیم مکمل کی ہے۔ چنانچہ کتاب میں موجود ان کے تعارف کے مطابق وہ قصبہ باڑھ ضلع پٹنہ کے سر کٹی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، اور رام لکھن سنگھ یادو کالج اورنگ آباد بہار میں استاد رہے پھر مگدھ یونیورسٹی گیا کے شعبہ تاریخ میں منتقل ہوگئے۔
موصوف نے اس کتاب میں بھی تمام مآخذ کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے، اور فارسی کے ساتھ ہندی اور سنسکرت مآخذ پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان سے استفادہ کیا ہے۔ قانون گو کی تصنیف کے بعد شیرشاہ سے متعلق سے بہت سے اہم مآخذ دریافت ہوئے جن میں دولت شیر شاہی اور سنسکرت میں اجین کی تاریخ بہت ہی اہم ہے، پیش نظر مورخ نے ان سب سے استفادہ کیا ہے۔
اس کے ساتھ انہوں نے شہر شاہ کے عام حالات پیش کرکے بہار میں ان کی اور ان کے جانشینوں کی خدمات کے لیے ایک باب مختص کیا ہے۔ اور ایک باب میں اس کی پوری مملکت کی معاشی وتعلیمی صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ اور بہت توازن کے ساتھ غیر جانبداری سے اپنی تحقیق پیش کی ہے۔
یہ کتاب 2006 میں پٹنہ میں تحقیقی وتاریخی کتاب کے مشہور ادارہ اشاعت جانکی پرکاشن اشوک راج پتھ پٹنہ نے شائع کی ہے۔

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا کی زندگی لکھنے پڑھنے میں گذری، آپ نے تقریبا مختلف موضوعات پر (۵۰) کتابیں یادگار چھوڑیں، جن میں آخری سیرت پاک پر آپ کے سلسلہ وار مضامین کا مجموعہ ہے۔ آپ نے الجمعیت اور انقلاب جیسے ملک کے طول وعرض سے شائع ہونے والے جملہ مجلات واخبارات میں مضامین لکھے۔
مولانا کو جاننے والے احباب کہتے ہیں کہ آپ دوستوں کے دوست تھے، وہ رشتہ داریاں، اور تعلقات نبھانا جانتے تھے، وہ ہر شخص کے ساتھ اس کی سطح کے مطابق بات کرتے تھے۔ ان کا ظاہر وباطن ایک تھا، وہ بلا کے حق گو تھے، لیکن وہ کسی کے بارے میں کوئی بری بات دل میں نہیں رہ سکتے تھے،کسی مجلس میں شدید اختلاف ہوتا تو پھر وہ مجلس ختم ہونے سے پہلے دل صاف کرکے ہی وہاں سے جاتے۔
مولانا کے بارے میں آپ کے ایک رفیق سے ہم نے جب اس احساس کا اظہار کیا کہ آپ کی تحریریں جتنے وسیع پیمانے پر پڑھی گئیں، اور مولانا علم وتفقہ اور تفکر کے میدانوں میں جو مقام بلند رکھتے تھے، اور آپ کا جو خاندانی پس منظر تھا اس کے باوجود اپنے وطن میں ان کی وہ قدر ومنزلت نہیں ہوسکی جس کے بجا طور پر وہ مستحق تھے، انہیں وہاں اپنی خداداد صلاحیتوں تدریسی و تنظیمی صلاحیتوں کے استعمال کا کماحقہ موقعہ نہ مل سکا۔ تو ان کا کہنا ہے کہ جب کسی شخص میں خداداد صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں، تو یہ وسیع طور پر افادیت میں مانع ہوجاتی ہیں، کیونکہ اس کے نتیجہ میں کئی سارے حاسد پیدا ہوجاتے ہیں، جو انہیں اپنی ترقی کی راہ میں کانٹا سمجھنے لگتے ہیں ،اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہماری اجتماعی سوچ افراط وتفریط کا شکار ہوگئی ہے، اس میں حق بات سننے اور برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے، اس کی جگہ پر شخصیات، اداروں اور تنظیموں پرسے آنکھ بند کرکے چلنے کا ہمارا اجتماعی مزاج بن گیا ہے، ہم اپنے اداروں اور تنظیمات میں ایسی شخصیات کو برداشت کرنے کے لئے ہرگز ہرگز تیار نہیں جن میں رتی بھر بھی اختلاف رائے کے جراثیم پائے جاتے ہوں۔
مولانا کی زندگی سے دنیا نے بہت فیض اٹھایا، آپ نے زندگی کے ہرلمحہ کو خیر کی راہ میں استعمال کیا، اپنے علم وفکر سے ملت کی رہنمائی کی۔ کتابیں ڈھو ڈھو کر الکتاب جیسا ادارہ قائم کیا، اور ان کی محنت وکوشش سے خوشحالی نے ان کے قدم چومے، ساتھ ہی ساتھ رہتی دنیا تک کے لئے علم کے موتی چن کر کتابیں تصنیف کیں، جن سے دنیا تا قیامت روشنی پاتی رہے گی، کیا خوب آدمی تھا، جس کے جانے پر آنکھیں نم ہیں، اور دعاؤں کے لئے ہاتھ بلند ہیں۔
2024-10-16
WA: 00971555636151

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا ندیم الواجدی ۔ ایک نابغہ روزگار عالم دین ، مفکر ومصنف*
*تحریر: عبد المتین منیری(بھٹکل)*
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

آج سے ٹھیک ایک سال قبل اکتوبر کی ۱۶ ؍ تاریخ کوشاہراہ سہارنپور پر دیوبند، مظفرپور، کیرانہ، میرٹھ، بجنور وغیرہ کے ملاپ پر واقع قصبہ چھٹمل پور میں اپنا دسترخوان نامی ریسٹورنٹ میں مولانا مفتی محمد ساجد کھجناوری صاحب کے زیر اہتمام اہل علم کی ایک محفل جمی تھی، جس میں علم وکتاب واٹس اپ گروپ سے وابستہ علماء و دانشوران کی معتد بہ تعداد اکٹھا ہوگئی تھی، اس مجلس کو دوسرے معزز مہمانان کے ساتھ مولانا ندیم الواجدی صاحب نے رونق بخشی تھی، یہ اس ناچیز کی مولانا سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی،اور یہی آخری ملاقات بھی ثابت ہوئی، مولانا نے اس موقعہ پر اپنے مختصر تاثرات میں جس طرح ہمت ہم لوگوں کی ہمت افزائی اور قدردانی کے الفاظ استعمال کئے تھے،انہیں سن کر آپ سے ابتک ملاقات نہ ہونے کا جہاں شدید رنج و افسوس ہوا تھا، وہیں آج مورخہ ۱۵ ؍ اکتوبر آپ کی اس دنیا سے کوچ کرنے، اور آپ سے اس دنیا میں آئندہ نہ مل سکنے کے احساس نے دل کو بہت ملول اور افسردہ کردیا، در اصل مولانا جس مزاج اور فکر کے حامل تھے، ان کی ضرورت ایک عامی ہویا عالم دین ، طالب ہو یا فارغ التحصیل ہر ایک کو زندگی کے مختلف مراحل پیش آتے رہتی ہے، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ہمت افزائی کا جذبہ گوڈر میں لعل جنم دینے میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔
مولانا کی شخصیت سے غائبانہ تعارف ویسے طالب علمی کے دور سے تھا، ان سے ہمارا عمر میں کوئی بہت زیادہ تفاوت نہیں تھا، لیکن جب ہم اعدادی اورثانوی مرحلے میں تھے، تو دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم اس وقت کے طلبہ مولانا ندیم الواجدی، مولانا بدر الحسن دربھنگوی، اور مولانا عتیق بستوی کا نام ماہنامہ دارالعلوم کی فہرست میں عموما نظر آتا تھا۔خیال پڑتا ہے کہ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ پر الجمعیت میں آپ کی زندگی کا پہلا مضمون شائع ہوا تھا۔
مولانا کا اصل نام واصف حسین تھا، جسے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ نے آپ کے والد ماجد کی فرمائش پر رکھا تھا، آپ کی پیدائش مورخہ ۲۳ جولائی ۱۹۵۴ ء دیوبند میں ہوئی تھی، جہاں آپ کا خاندان چھ پشتوں سے آباد چلا آرہاے۔
آپ کے دادا کے والد سخاوت حسین شیرکوٹ۔ بجنور سے سنہ ۱۹۰۶ ءمیں دیوبند تشریف لاکر یہاں مستقل سکونت اختیار کی تھی، یہ حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ کا دور اہتمام تھا، شیخ جی کے نام سے آپ بڑے چھوٹے سبھی لوگوں میں مشہورومعروف تھے، اور بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
آپ کے دادا حضرت مولانا احمد حسن دیوبندیؒ کی جملہ تعلیم وتربیت دارالعلوم دیوبند میں ہوئی، اس وقت آپ نے یہاں پر آسمان علم وتربیت کے آفتاب وماہتاب شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ ، حضرت مولانا سید میاں اصغر حسینؒ صاحب، حضرت مولانا مبارک علی صاحبؒ ، حضرت مولانا قاری محمد طاہر صاحبؒ ، حضرت مولانا غلام رسول خاں صاحبؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، حضرت مولانا علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ، حضرت مولانا عبدالسمیع صاحب دیو بندیؒ ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ ، حضرت مولانا ریاض الدین صاحبؒ، حضرت مولانا ظہور احمد صاحب دیوبندیؒ ، حضرت مولانا سید میاں اختر حسین صاحبؒ، جناب حکیم محمد عمر صاحبؒ سے فیض اٹھایا۔
دورہ حدیث کے آپ کے ساتھیوں میں مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ ، مفسر قرآن مفتی محمد یوسف صاحب دہلویؒ، مولانا عبد السلام ہاپور اور مولانا حفظ الرحمن صاحب مینه، مولا نا عبدالحق صاحب آسام، مولانا عبد الجبار صاحب حیدر آباد، مولانا احمد ایوب صاحب گنگوهی کا نام آتاہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرت مولانا ندیم الواجدی علیہ الرحمۃ کا 16 اکتوبر ۲۰۲۳ء اپنا دسترخوان ہوٹل، چھٹمل پور میں علم وکتاب گروپ کے احباب سے مشفقانہ خطاب۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel