ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

فیصلہ لیں۔مولانا ندیم الواجدی صاحب نے ایسا ہی کیا اور دو تین گھنٹے کے بعد حاضرِخدمت ہوکر وہی سابقہ بات دہرائی کہ بیعت کے سلسلے میں دل بدستور آپ ہی کی جانب مائل ہے،آپ بیعت فرمالیں،ان شاءاللہ فائدہ ہوگا۔حضرت بوڑیوی کے حلقۂ ارادت میں آپ باضابطہ طور پر شامل ہوے۔

اپنے شیخ و مرشد کی خدمت میں آپ نے وقفے وقفے سے حاضری دی اور یہ سلسلہ آخر تک جاری۔شیخ کی ہدایات و نصائح پر عمل درآمد کی نعمت سے مالامال ہیں اور یہ حکیم الامتؒ،مسیح الامتؒ،حکیم الاسلامؒ اور حضرت بوڑیوی وغیرہ موجود مرحوم سے آپ کی عقیدت و محبت کا ثمرہ ہے کہ آپ کے وقت میں منجانب اللہ عجیب و غریب برکت مقدر کی گئی تھی کہ آپ کا تصنیفی و تالیفی اور دینی و دعوتی کام کسی تنظیم و اکیڈمی کے کام کے مساوی نظر آتا ہے اور مصروف ترین زندگی گزارنے کے باوصف آپ کے چہرے بشرے سے ظاہر ہونے والا سکون و اطمینان قرآنی آیت "الا بذکراللہ تطمئن القلوب" کا مظہر تھا۔حضرت بوڑیوی کے پوتے عزیزالقدر مولوی عبدالسبحان بوڑیوی متعلم عربی ششم دارالعلوم دیوبند نے احقر سے بتایا کہ اسی سال ماہِ صیام رمضان المبارک سے پہلے اباجی مدظلہ نے مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ کو اجازت و خلافت سے نوازا۔اس روحانی و اصلاحی تعلق کے بعد آپ کے معمولات میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ان کی تواضع و فنائیت کا ذکر کرتے ہوے آپ نے مزید کہا کہ چند مہینے پہلے وہ جب دیوبند سے بوڑیہ تشریف لے گئے،تو اس سفر میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔اس سفر میں جب میں انھیں ہاتھ دھلانے کے لیے آگے بڑھا تو مولانا ندیم الواجدی صاحب نے بے ساختہ فرمایا کہ مولوی عبدالسبحان! تم مجھے ہاتھ وغیرہ نہ دھلایا کرو،تم ہمارے شیخ و مرشد کے پوتے ہو،ہم یہاں اپنے نفس کو مارنے اور اس کے علاج کے لیے حاضر ہوتے ہیں،نہ کہ اسے موٹا کرنے کے لیے۔اس طرح کے چھوٹے موٹے کام ہمیں خود ہی کر لینے دیا کیجیے۔

مولانا ندیم الواجدی صاحب ہمارے ملک کے مثالی و بافیض عالم دین تھے،ملک و ملت کی انھوں نے گراں مایہ خدمات انجام دی ہیں، ان کی عمر کا کارواں ساٹھ سے متجاوز ہو چکا تھا،بایں ہمہ ان کی جہدِمسلسل،کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی لگن اور پڑھنے لکھنے کے شغل سے مضبوط وابستگی میرے جیسے نوجوانوں کے لیے درسِ عبرت تھی۔رب کریم کا شکر ہے کہ اس نے مولانا ندیم الواجدیؒ کو مفتی یاسر ندیم الواجدی کی شکل میں خلف الرشید بھی عطا فرمایا ہے،جن کا تابناک حال ان کے روشن مستقبل کا غماز ہے اور وہ اپنے نیک نام اجداد کی دینی و علمی روایات کو بڑے مستحکم انداز میں آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

مولانا مرحوم سے دیوبند کے اسفار میں مجھے ملاقات کا کئی دفعہ شرف حاصل ہوا،میری نگارشات اور کچھ کتابیں ان کی نظر سے گزری تھیں اور وہ وقتِ ملاقات بہت حوصلہ افزا کلمات سے نوازتے تھے۔عن قریب راقم سطور کی ایک کتاب شائع ہونے والی ہے،جس میں مولانا مرحوم کا ذکر خیر بھی شامل ہے۔ارادہ تھا کہ کتاب شائع ہوگی،تو اسے لے کر مولانا کی خدمت میں حاضری دی جائے گی اور وہ حسبِ عادت دعاؤں اور حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ ساتھ اپنے مفید و صائب مشوروں سے بھی نوازیں گے، جن سے تصنیفی کام میں فائدہ اٹھایا جائے گا، لیکن خدائی تقدیر ایک مرتبہ پھر انسانی تدبیر پر غالب آئی اور مولانا مرحوم سفرِامریکہ کے دوران وفات پا گئے۔و کم من حسراتِِ فی بطون المقابر

دعا ہے اللہ تعالی مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کے درجات بے حد بلند فرمائے،ان کی علمی و دینی اور ملی و سماجی خدمات کو قبول فرمائے اور مفتی یاسر ندیم الواجدی اور دیگر جملہ متعلقین و پس ماندگان کو صبرجمیل کی توفیق بخشے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مولانا ندیم الواجدی صاحب کی وفات کی خبر اب صحیح ہوچکی ہے. انا للہ وانا الیہ راجعون.
تمام ممبران سے اپنے اپنے طور پر دعا کا اہتمام فرمائیں.

Читать полностью…

علم و کتاب

*سچی باتیں (۲۵؍اگست ۱۹۳۳ء)۔۔۔ حالی*
*تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ*
پچھلے مہینہ خبرآئی، کہ رباعیات حالیؔ کا ترجمہ، ایک انگریز (کرنل ٹیوٹ) کے قلم سے انگریزی میں ہوگیا، اور آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے اسے شائع کردیا۔ انگریزی اخبارات ورسائل میں اس پر ریویو نکلتے رہے۔ مولانا حالیؔ کی بعض اور نظموں کا ترجمہ اس سے قبل انگریزی زبان میں ہوچکاہے، اور صرف انگریزی ہی نہیں، بلکہ یورپ، اور خود ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی۔ ان کا مشہور ومعروف مسدسؔ تو خدامعلوم کتنی بار، اور کتنی کتنی تعداد میں نکل چکاہے۔ دیوان ؔ بھی مع مقدمہؔ دیوان کے ایک سے زائد بار چھپ چکاہے، اور بعض یونیورسٹیوں میں، نصابِ درس میں داخل ہے۔ قصیدۂ نعتیہ، یا فریادِ امت، جس کا پہلا مصرعہ’’اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعاہے‘‘، فرط شہرت سے محتاجِ تعارف نہیں۔ اور بیوہ کی مناجاتؔ گھر گھر پھیلی ہوئی۔ اتنی مقبولیت جس کو نصیب ہوجائے، اُس پر کس شاعر، کس مصنف کو رشک نہ آئے گا؟
یہ مولوی حالیؔ کون ہیں؟ وہی’’عالی ڈفالی‘‘ ، جن کے لئے آج سے ۳۵۔۴۰سال قبل ہر تمسخر جائز، اور ہر بازاری پھبتی درست تھی! نام لیاجاتا، تو یاروں کا ٹھٹھے لگانے کی سوجھتی۔ کلام پڑھاجاتا تو اچھے اچھے ثقہ وشریف زباندان وادیب، قہقہوں پر اتر آتے۔ اخباروں میں نکتہ چینیاں چھپتیں، کہ زبان کو بگاڑنے، اور شاعری کو غارت کرتے ہیں۔ پنچ اخبارات موٹی موٹی سرخیاں دے کر یہ مصرعہ چھاپتے’’ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے‘‘۔ اور پھر دوسرے مصرعہ میں حالی کے وطن پانی پت کے میدان کی اپنے خیالی حملوں سے پائمالی کی خو ب خوب خوشیاں مناتے۔ اور تخلص کے جوڑ پر، خداجانے کتنے ’’خالی‘‘ اور ’’خیالی‘‘ نکل پڑے۔ مہینوں نہیں، برسوں وہ غوغا رہا، کہ معلوم ہوتاتھاکہ آیندہ نسل میں حالی کا نام اچھائی کے ساتھ لینے والا کوئی ایک متنفس بھی نہ رہے گا!……ہواکیا؟ جو کچھ ہوا، آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے، حالیؔ کو اُنھوں نے جانا، جنھوں نے شاید ہی کسی دوسرے اُردو شاعر کو جاناہو۔ معترضین، مخالفین، ناقدین کے کلام کا ذِکر نہیں، اُن کا نام بھی کوئی جانتاہے؟ باہر نہ سہی، اُن کے اپنے وطن میں بھی؟ ’’نام‘‘ کی قیمت کا اندازہ شاعر یا مصنف کے دل سے کیجئے۔ یہ ’نام‘ تو وہ شے ہے ، کہ اس پر جان تک دے ڈالنے کی آمادگی رہتی ہے!
حالیؔ بیچارے پروپیگنڈا کے فن سے واقف نہ تھے۔ شاعرہوکر بھی تسلّی کے مضمون سے ناآشنائے محض تھے۔ اپنا اشتہار اپنے قلم سے لکھنا جانتے ہی نہ تھے، نہ خفی نہ جلی، نہ پوسٹر بازی کی ، نہ کسی سے مناظرہ میں اُلجھے ۔ تفصیلی عقائد جیسے بھی کچھ ہوں، تھے غریب ایک سیدھے سادے ، نیک، مخلص اور ہمدرد اسلام مسلمان۔ جئے، تو امتِ اسلامیہ کے غم میں روتے ہوئے، مرے تو دین اسلام کا کلمہ پڑھتے ہوئے۔ ’’وہاں‘‘ تو جو کچھ صلہ ملاہوگا، اُس کا حال وہاں پہونچ کر ہی معلوم ہوگا۔ ’’یہاں‘‘ جو کچھ پیش آئی، اس کے دیکھنے والے ہم، آپ، سب ہی ہیں۔ وہ سیدھا سادا کلمہ گو مسلمان زندہ ہے، حیّ وقیّوم کے دربار کا ادنیٰ چاکر زندہ ہے، اور اس کے ساتھ کے بڑے بڑے اہل زبان، اپنی زباندانی کے مدعی، اپنی شاعری پر نازاں، اپنی ذہانت پر اکڑنے والے، اپنی بذلہ سنجی کی راہ میں خود ہی بیخود ہوجانے والے، غزل گوئی میں کسی کی ہستی نہ سمجھنے والے، کیسے کیسے ذہین وطباع، مع اپنے نام اور اپنے کلام کے پیوندِ خاک ہوکر رہ گئے!
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 212
انتخاب مطالعہ
تحریر: *ڈاکٹر محمد عبد اللہ*

*سؔرسیدؒ کا تعمیری شوق*

سرسیدؒ روز سہ پہر کے بعد اور مغرب کی نماز کے قبل اپنی ”فنٹن“ میں بیٹھ کر کالج میں پہنچ جاتے تھے،کالج میں ان دنوں ”اسٹریچی ہال“ کی عمارت بتدریج تیار ہورہی تھی، اگر روپیہ ہوتا تہا تو مدد لگ جاتی تہی ؛ ورنہ کام بند ہوجاتا تہا، میں نے اکثر دیکھا کہ معماروں کے پاس جاکر موڑھے پر بیٹھ جاتے تھے اور ان کو ہدایت کرتے تھے کہ ”اینٹوں کے ردِّے تم غلط لگارہے ہو، اس طور پر لگاؤ“، ایک روز بہت سے ردے اکھڑوا دیے کہ ان کو دوبارہ چِنو۔
مولانا حؔالیؒ ایک مرتبہ علی گڑھ آئے، میں نے ان سے ذکر کیا کہ سرسید تو معماری کے کام کے بھی ماہر معلوم ہوتے ہیں اور اس واقعہ کا (کہ انہوں نے اینٹوں کے ردے اکھڑوادیے) میں نے ذکر کیا،مولانا حالیؒ مرحوم نے فرمایا کہ: میں 1865ء میں سر سید کی تعمیری قابلیت سے واقف ہوں،1865ء میں سر سید علی گڑھ میں سب جج تھے، اور اس زمانے میں ”سائنٹفک سوسائٹی“ کی عمارت تعمیر کرا رہے تھے،ان کا ہر روز کا معمول تہا کہ کچہری سے آنے کے بعد کھانا کھاکر اور چھتری لے کر عمارت کی جگہ پہنچ جاتے تھے اور گھنٹوں تعمیر کی نگرانی کرتے تھے اور معماروں کو ہدایت کرتے تھے،سرسید کو اچھی عمارت سے بہت شوق تھا؛چنانچہ تمام ہندوستان کے ہندو مسلمانوں میں وہ واحد شخص تھے جنہوں نے غدر 1857ء سے پہلے پرانی دہلی کی عمارات کے حالات قلم بند کیے تھے اور اکثر پرانی عمارتوں کی در و دیوار کے فوٹو بھی لیے تھے اور اس کتاب کا نام ”آثار الصنادید“ رکھا تھا،اس کتاب کی بعد میں بہت قدر ہوئی اور وہ ”رائل ایشیا ٹک سوسائٹی“ کے ممبر بھی بنائے گئے اور ان کو ڈؔاکٹر کا خطاب بھی ملا۔
اس کتاب کی ترتیب اور تصنیف کا حال وہ خود بیان فرمایا کرتے تھے کہ ”پرانی عمارات کی اوپر کی منزل کے کتبے کو دیکھنے اور ان کی نقل کرنے کے لیے میں چھینکوں میں بیٹھ کر اوپر پہنچتا تہا اور وہاں پر کتبوں کی نقل کرتا تہا“ قؔطب صاحب کے لاٹ کے کتبوں کی نقل کرنے میں ان کو بہت دشواری پیش آئی ؛ لیکن بعض کتبوں کی نقل خود کی اور بعض کی دوسروں سے کروائی، یہ ”آثار الصنادید“ ایسی کتاب ہے کہ آثار قدیمہ کے عالموں کو اس کی وجہ سے بعد میں مفصل حالات کے ترتیب دینے میں بہت مدد ملی ہے۔

*مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد*

سر سید نے جب علی گڑھ کالج میں مسجد بنانے کا ارادہ کیا تو دہلی کی جامع مسجد کے چاروں طرف کی لمبائی اور چوڑائی ڈوریوں سے ناپ لی پھر اس کے بعد ڈوری کو چوہرا کرلیا یعنی دہلی کی جامع مسجد کے نمونہ پر ایک چہارم اسکیل اور وسعت پر کالج کی مسجد تعمیر ہوئی ہے سرسید کے زمانے کی جس قدر عمارتیں کالج میں ہیں گو تعداد میں کم ہیں ؛ لیکن نہایت مضبوط اور اچھی ہیں ۔
چونے کے لیے کنکر منگواکر اسے پانی کے حوض میں ڈلوادیتے تھے اور اس کے بعد جب مٹی چھوٹ جاتی تہی تو نکلوا کر بھٹی میں چونا پھکواتے تھے اینٹیں جب تک کم از کم ایک دن کے لیے حوض میں بھیگنے کے لیے پڑی نہ رہتیں ان کو چنائی کے کام میں نہیں لاتے تھے۔

( *مشاہدات و تاثرات،صفحہ: 23،طبع: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،دہلی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

پرشاد
مولانا مامداد صابری نے 13/ اکتوبر 1988ء کو کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد 74 برس کی عمر میں دہلی میں وفات پائی اور مہندیاں قبرستان میں دفن ہوئے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

موازنہ بین الرجال: علامہ انور شاہ کشمیری

(۱)تقی الدین سبکیؒ امام نسائیؒ کو امام مسلمؒ سے احفظ کہتے ہیں،میں کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ مسلم اور نسائی کی شخصیتوں کے بارے میں تو صحیح ہے؛لیکن صحیح مسلم،سنن نسائی سے اصح ہے۔(نوادرات کشمیری،۳۸)

(۲)حافظ ابن صلاحؒ محقق ہیں اور حدیث پر ان کی خوب نظر ہے؛ جب کہ ان کے شاگرد امام نوویؒ شارحِ مسلم اس پائے کے نہیں،نووی امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کو نقل کرنے میں بھی غلطیاں کرجاتے ہیں، میں ان (ابن صلاح) کو مفید کہتا ہوں،مفید وہ ہے جو اکابر کے کلام کو سلیقے سے پیش کردے۔(نوادرات،۴۹)

(۳)حافظ (ابن حجرؒ)کی عادت ہے کہ جہاں رجال پر بحث کرتے ہیں کہیں حنفیوں کی منقبت نکلتی ہو تو وہاں سے کترا جاتے ہیں،دسیوں جگہ پر یہی دیکھا۔ ایک روز فرمایا کہ ہمارے یہاں حافظ زیلعیؒ سب سے زیادہ متیقظ ہیں حتی کہ حافظ ابن حجرؒ سے بھی زیادہ؛ مگر کاتبوں کی غلطی سے وہ بھی مجبور ہیں۔(ملفوظات محدث کشمیری،۱۲۵)

(۴)ابن حجرؒ کی شرح فتح الباری فن حدیث پر گہری نظر واضح بیان، ربطِ مسلسل اور مرادات کو مفصل بیان کرنے میں فائق ہے، عینیؒ لغوی تحقیق،بسط وشرح،اکابر علماء کے اقوال نقل کرنے میں بہت آگے ہیں؛ مگر کلام میں انتشار ہے،ابن حجر کی طرح مربوط ومرتب نہیں؛ لیکن یہ انتشار چار جلدوں تک ہے بعد میں سنبھل گئے، بدر عینی نے بعض مواقع پر حافظ الدنیا ابن حجر پر شدید تعقبات کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تبحر میں وہ بھی کم نہیں؛ لیکن فن حافظ ابن حجر ہی کے پاس ہے۔(نوادرات،۳۰)
(ماہنامہ دار العلوم جنوری،۲۰۱۸)

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۲ اکتوبر

/channel/ilmokitab

پروفیسر عبدالحلیم ندوی 12/اکتوبر/2005ء
قاضی سعید الدین احمد فاروقی نقشبندی 12/اکتوبر/1959ء
علی ناصر زیدی 12/اکتوبر/1993ء
فاطمہ شاہ، ڈاکٹر 12/اکتوبر/2002ء
فیاض کاوش 12/اکتوبر/1999ء
محمد اسماعیل پانی پتی 12/اکتوبر/1972ء
محمد اسمعیل پانی پتی 12/اکتوبر/1972ء
مصطفٰی زیدی (مصطفٰی حسن) 12/اکتوبر/1970ء
منظور قادر 12/اکتوبر/1974ء
مولانا ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی نعمانی 12/اکتوبر/2020ء
مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی 12/اکتوبر/1991ء
ناطق بدایونی (ابوالحسنین) 12/اکتوبر/2003ء
ڈاکٹر نسیم احمد اللہ والا، ڈاکٹر 12/اکتوبر/1979ء

Читать полностью…

علم و کتاب

غلطی ہائے مضامین۔۔۔جو نہ مانے وہ کافر... - احمد حاطب صدیقی


آج کا کالم شروع کرنے سے پہلے ذرا پچھلے کالم کا پیچھا کرلیا جائے۔ کراچی سے حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن حفظہ اللہ نے ایک مفصل خط ارسال فرمایا ہے ۔ مختصر اقتباس ملاحظہ ہو: ’’معنی کی اصل ’ع ن ی‘ ہیں۔ ’عَنٰی یَعْنِیْ عَنْیاً اور عِنَایَۃً ، اس سے اسمِ فاعل ’عَانٍ‘اور اسمِ مفعول ’مَعْنُوْیٌ‘ بنتا ہے اور پھر یہ لفظ تعلیل کے بعد’مَعْنًی‘اور ’مَعْنٰی‘ بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی ہیں مراد لیا ہوا، مقصود اور کلمے کا مدلول‘‘۔

لندن سے محترم رضوان احمد فلاحی (فرزندِ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ) رقم طراز ہیں: ’’اُردو اور عربی مجلات دائیں سے بائیں کھولے اور پڑھے جاتے ہیں لیکن ابونثرؔ صاحب نے مجھے بائیں سے کھولنے اور پڑھنے کا عادی بنادیا ہے۔ معنی کے معنی پڑھتے وقت نگاہ اس پر پڑی کہ ’اعتنا‘ اور ’عنایت‘ کا خاندانی شجرہ ’عن‘ سے جا ملتا ہے۔ اردوکی حد تک ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ تاہم عربی کا معاملہ مختلف ہے۔ ’عن‘ حرفِ جار ہے اور محض دو حرفی لفظ ہے، اس کے بالمقابل ’اعتنا‘ اور ’عنایت‘ دونوں اسم ہیں اور ان کے حروفِ مادّہ ہیں ’ع،ن،ی‘۔ ان سے الفاظ’یعنی، معنی، اعتناء اورعنایت‘ وجود میںآئے ہیں۔ جب کہ ان کا حرفِ جار’عن‘ سے کوئی خاندانی رشتہ نہیں ہے‘‘۔

سعودی عرب کے مجلے’’اُردو نیوز‘‘ میں، لسانی تحقیق پر مبنی، وقیع مضامین تحریر کرنے والے جناب عبدالخالق ہمدردؔ نے بھی کالم نگار کی کم علمی سے ہمدردی فرمائی: ’’ماشاء اللہ آپ نے لکھا اور حسب معمول خوب لکھا لیکن ایک مسئلہ تھوڑا مشکل ہے، وہ یہ کہ آپ نے سارے کالم کی عمارت ’عن‘ کے اوپر کھڑی کردی ہے، جب کہ یہ بات درست نہیں، کیوں کہ عن حرف جر ہے اور حرف سے اشتقاق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس سے نئے الفاظ نہیں بن سکتے کیوں کہ حرف کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ کلمہ جو اپنے معنی بیان کرنے میں کسی اور لفظ کا محتاج ہو۔ اصل میں ’معنی‘ عربی کے فعل ’ع ن ی‘ سے مشتق اور مفعول کا صیغہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر ’معنوی‘ بروزن مفعول تھا اور عربی صَرف کے اصول کے مطابق تعلیل کے بعد معنی ہوگیا اور اس میں ’ی‘ مشدد ہے جو واو کے ادغام کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے امید ہے کہ آپ اس پر دوبارہ غور فرمائیں گے تاکہ معنی کے معنی کو صحیح اور درست انداز میں اپنے سائل اور قاری تک پہنچا سکیں۔ اگر عنّ بمعنی ظاہر ہونے سے لیں تو اس میں نون مشدّد ہے اور اس سے اسم مفعول معنون آئے گا، معنی نہیں آ سکتا۔ واللہ اعلم‘‘۔


محترم مفتی منیب الرحمٰن، جناب رضوان احمد فلاحی اورجناب عبدالخالق ہمدردؔکی اس توجہ فرمائی اور ’توجہ دلائی‘ پر ہم تہِ دل سے شکر گزار ہیں اورشُکرِ پروردگارکرتے ہیں کہ خاکسار پر دنیا بھر کے اہلِ علم کی نظر ہے۔ سہو، تسامح یا خطا ہوجائے توفوراً اصلاح ہوجاتی ہے۔ خطا بھی تزکیۂ نفس کا ایک ذریعہ ہے۔ خطا نہ ہو تو دل میں تکبر کا خناس بھر جاتا ہے۔ ہم اپنے شہر اسلام آباد بلکہ اپنے محلے ’اسلام آباد ہومز‘ کے جناب عارف قریشی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے بھی یہی تعلیم فرمائی کہ ’معنی‘ عن سے نہیں ’ع ن ی‘ سے مشتق ہے۔ ہم نے اصلاح کرلی۔ سائل اور قارئین بھی اپنی اپنی اصلاح فرما لیں۔ باقی تسلی رکھیے کہ معنی کے معنی وہی ہیں جو گزشتہ کالم میں بیان کیے گئے ہیں۔ ایک توجہ گرامی قدر سید ایاز محمود صاحب نے بھی دلائی ہے کہ اُردو میں معنی، معنیٰ اور معنے تین تلفظ رائج ہیں، یعنی ’مانی، مانا اور مانے‘۔ جو نہ مانے وہ کافر۔ معاف کیجیے گا، ہمارے برصغیر میں ’کافرسازی‘ کی صنعت زوروں پر ہے۔ شہر در شہر ایسے صنعتی ادارے موجود ہیں جو اپنے اپنے فرقے کے ’کافر ساز‘ مفتی تیار کرتے ہیں۔ تیار ہولینے کے بعد نئے مفتیانِ کرام اپنا کاروباری ادارہ الگ کرلیتے ہیں ۔ بقولِ شاعر:

مفتیانِ کرام کو دنیا شمس و ماہ و نجوم کہتی ہے
جس دُکاں پر یہ مال بِکتا ہے، اُس کو دارالعلوم کہتی ہے

واضح رہے کہ ہم علمائے حق کی نہیں، اُن ’علمائے ناحق‘ کی بات کررہے ہیں جو خاتم النبیینؐ کے اُمتیوں پر کفر کے فتوے لگانے میں خاصے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ فتویٰ لکھنے کے آداب میں شامل ہے کہ فتوے کے آخر میں احتیاطاً ’واللہ اعلم بالصواب‘ لکھا جائے، جس کے معنی ہیں’’ اللہ ہی بہتر جانتا ہے درست کیا ہے‘‘۔ ایک بار ایک فرقے کے مفتی صاحب نے مخالف فرقے کے مفتی جی کے خلاف کفر کا فتویٰ داغتے ہوئے لکھا: ’’… اورجو اُسے کافر نہ مانے وہ بھی کافر، جو اُس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر۔ واللہ اعلم بالصواب‘‘۔

اِس پر ایک نکتہ داں نکتہ چیں نے یہ نکتہ نکالا کہ فتوے کی رُو سے فتویٰ دینے والا خود بھی کافر ہوگیا ہے، کیوں کہ فتوے کے آخر میں ’واللہ اعلم بالصواب‘ لکھ کر وہ اپنے شک کا کھلم کھلا اظہار کربیٹھا ہے۔ شکر ہے کہ جناب عبدالخالق ہمدردؔ نے محض ’واللہ اعلم‘ لکھنے پر اکتفا کیاہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مورخہ: ۱۱/ اکتوبر

/channel/ilmokitab

امانت علی قریشی ، قاضی ابوالخیال 11/اکتوبر/1978ء
آغا لکھنوی (سید مختار حسین) 11/اکتوبر/1953ء
بشارت علی، پروفیسر ڈاکٹر محمد 11/اکتوبر/1991ء
مولانا محمد رضوان القاسمی 11/اکتوبر/2004ء
شان الحق حقی 11/اکتوبر/2005ء
عارف ہوشیاری پوری(سید محمد عبدالقیوم) 11/اکتوبر/1981ء
قیصر قصری 11/اکتوبر/1992ء
گل محمد آدم جی 11/اکتوبر/2000ء
مسرت جہاں فاروقی 11/اکتوبر/1978ء
حکیم سید ناصر خلیق فگار 11/اکتوبر/1971ء

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 211
انتخاب مطالعہ
تحریر: *شکیل الرحمن*

*ندیاں خوبصورتی کی علامت ہیں*

ندیاں لاشعور کی خوبصورت علامتیں ہیں، آرزو، خواہش، تمنا، محبت، خوف، وحدت کی سیال کیفیت میں گم ہوجانے کی خواہش گیان و دھیان، پاکیزگی اور تقدس سب ان پیکروں سے وابستہ ہیں ۔
ندی، دریا ہم آہنگی کی بھی علامت ہیں، دریا وہ روح ہے جو لاشعور بن گئ ہے، اس کے نیچے زندگی کی بیش قیمت نعمتیں ہیں،اس کی گہرائیاں انسان کے وجود کی گہرائیاں ہیں،تاریک اور پُر اسرار زمین ہے،اس کا رشتہ گہرا ہے، یہ انسان کی جبلتوں کی سیال صورت ہے، جذبات اور احساسات کا سرچشمہ ہے،دھرتی اور انسان کی زندگی سے اس کی گہرائی ہمدردی اور محبت اور ان کے تئیں اس کی غضب ناکی دونوں کے احساس نے اسے مختلف صورتیں دی ہیں، دریا آئینہ بھی ہے،نرگسیت نے اسے ہمیشہ سامنے رکھا ہے ؛ اس لیے کہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا، انسان نے اسے شخصیتیں عطا کی ہیں ۔
اس کے اتار چڑھاؤ اور اس کی نغمہ ریز لہروں اور بہاؤ نے انسان کے جلال و جمال کو ہمیشہ متاثر کیا ہے ۔

( *ہندوستان کا نظام جمال، صفحہ: 170،طبع: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی*)

✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

اے جذبہ دل گر میں چاہوں
کلام وآواز: بہزاد لکھنوی
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=ai-jazbah-e-dil-new, Ai Jazbah E Dil (New)
شاعر کی آواز میں مزید کلام سننے کے لئے
https://audio.bhatkallys.com/speakers/behzad-lakhnavi/?page=2

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات: مورخہ ۱۰ اکتوبر

/channel/ilmokitab

بہزاد لکهنوی، سردار حسین خان 10/اکتوبر/1974ء
پروفیسر عبد الحلیم ندوی گورکھپوری 10/اکتوبر/2005ء
حسن زیدی، سید 10/اکتوبر/2001ء
دہلوی، مسٹر(مشتاق احمد چاندنا) 10/اکتوبر/1988ء
سلیم باسط 10/اکتوبر/2015ء
شہرت بلگرامی(سید ابوذر) 10/اکتوبر/2002ء
علی مختار رضوی، سید 10/اکتوبر/2007ء
محمد فرید الحق ایڈوکیٹ 10/اکتوبر/1998ء
مقبول احمد ، ڈاکٹر 10/اکتوبر/2004ء
مولانا سید شوکت علی نطیر 10/اکتوبر/2015ء
مولانا عبدالسلام ندوی 10/اکتوبر/1956ء
مولوی عبدالغنی وارثی عظیم آبادی 10/اکتوبر/ء
نوح ناروی 10/اکتوبر/1962ء

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات : ۹/ اکتوبر

/channel/ilmokitab

ابو الحسن بنی صدر 9/اکتوبر/2021ء
مولانا اختر احسن اصلاحی 9/اکتوبر/1958ء
اختر حمید خان 9/اکتوبر/1999ء
استاد بخاری 9/اکتوبر/1996ء
افتخار احمد عدنی (آئی اے خان) 9/اکتوبر/2004ء
شاہ بلیغ الدین 9/اکتوبر/2009ء
مولانا مفتی محمد جمیل خاں 9/اکتوبر/2004ء
چی گویرا 9/اکتوبر/1967ء
ڈاکٹر سیف الدین کچلو 9/اکتوبر/1963ء
رابعہ پنہاں بریلوی (سپہر آراء خاتون) 9/اکتوبر/1972ء
سردار سکندر حیات خاں 9/اکتوبر/2021ء
شفیق احمد خان 9/اکتوبر/2004ء
شیخ القرآن مولانا عبد الغفور ہزاروی 9/اکتوبر/1970ء
عبد اللہ لنکا 9/اکتوبر/2019ء
عبداللہ ڈی بلوچ 9/اکتوبر/1982ء
فاطمہ شیخ(ماہر تعلیم) 9/اکتوبر/1900ء
کانشی رام 9/اکتوبر/2006ء
ن م راشد، نذر محمد 9/اکتوبر/1975ء

Читать полностью…

علم و کتاب

لیکن یہ شاید نظام تعلیم کا اثر ہے کہ پختون علماء کی تعلیمی وتدریسی زندگی قال اقول، اور اعتراض اور جواب اعتراض میں گزرتی ہے، لہذا مسائل میں اختلاف رائے، اور زبردست بحث مباحثہ کے بعد یہ حضرات مجلس سے دل میں کدورت لے کر نہیں اٹھتے، آپ حضرات نے اس کا ایک نمونہ علم وکتاب گروپ میں ہمارے مولانا مفتی سید شاہ جہاں افغانی صاحب میں دیکھا ہوگا، کہ کبھی کبھار کتنے ناراض ہوجاتے ہیں، لیکن ہمیشہ اپنا دل صاف رکھتے ہیں، ان مجالس میں خاص طور پر ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مدنیؒ اور علمائے دیوبند اور جمعیت علمائے ہند سے بے پناہ عقیدت اور محبت کے باوجو د بعض دینی جماعتوں اور اس کے بانیان کے سلسلے میں وہ منافرت ان میں نہیں پائی جاتی جو زیادہ تر یوپی اور پنجاب کے دینی حلقوں میں پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مولانا محمد یوسف(سابق استاد دارالعلوم حقانیہ) ، مولانا معین الدین خٹک، مولانا گوہر رحمن ، مولانا محمد چراغ جیسے علماء کا احترام بھی ان کے یہاں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔
یہی مزاج ہم نے مولانا محمد فہیم اور ان کے داماد مولانا محمد اسماعیل عارف اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والوں میں دیکھا ہے، یہ حضرات اپنی زبان کو بہت عفیف رکھتے تھے، غیبت اور بدزبانی سے اپنے زبان ودہن کو پاک رکھتے تھے، لہذا ان کی عزت ان حلقوں کے لوگ بھی کرتے تھے جو اپنے مخالفین کی تکفیر تک کرنے سے باز نہیں آتے
مولانا اسماعیل کی رحلت کی خبر نے ان محفلوں کی یاد تازہ کردی ، جن میں شرکت نے اس ناچیز کو جس کی دنیا بڑی محدود ہے اور جس کے اسفار بھی بہت کم ہوتے ہیں، لیکن ان صحبتوں نے اس کی اس کمی کی بہت کچھ تلافی کردی ہے۔ مرحوم کی زندگی تعلیم وتعلم اور خدمت سے تعبیر تھی، اللہ اسے قبولیت سے نوازے، اور مرحوم کو اعلی علیین کے ساتھ جگہ دے۔ آمین
2024-10-07

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا محمد اسماعیل عارف۔۔۔ راہ سفر کا ایک ناقابل فراموش رفیق*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
Https://telegram.me/ilmokitab

مورخہ ۲۸ ستمبر کواطلاع آئی کہ مولانا محمد اسماعیل عارف نےداعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ گزشتہ پندرہ سال سے اپنے آبائی قصبے مردان ہی میں مقیم تھے، انتقال کے وقت آپ کی عمر (۷۰) کے پیٹھے میں تھی۔
ممکن ہے مولانا کی شخصیت بہتوں کے لئے غیر معروف رہی ہو، لیکن اس ناچیز کی کئی ایک یادیں آپ سے وابستہ ہیں، مولانا ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے والد ماجد ایک معروف عالم دین تھے، اسی طرح آپ کے بھائیوں میں حافظ، عالم اور ڈاکٹر پائے جاتے ہیں۔ آپ کی تعلیم پشاور، مردان، کراچی وغیرہ میں مولانا گوہر رحمن، مولانا عنایت رحمن، مولانا شاپور خان، اور مولانا فہیم صاحب کے اداروں میں ہوئی، ۱۹۷۸ء میں آپ کی دبی تشریف آوری ہوئی تھی، جہاں آپ روز اول سے القصیص نمبر (۳) کی مسجد بن سالمیں میں امامت وخطابت پر فائز ہوئے، اور ۲۰۱۰ء تک یہ ذمہ داریاں بحسن وخوبی انجام دیں۔
جب اس ناچیز کی ۱۹۷۹ء میں دبی آمد ہوئی تھی تو اس وقت یہاں پر مولانا محمد فہیم علیہ الرحمۃ حلقہ دیوبند کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتے تھے ، مولانا مرحوم پرانے علماء کی آنکھیں دیکھے ہوئے تھے، آپ کی تعلیم تقسیم ہند سے قبل مدرسہ امینیہ دہلی میں ہوئی تھی، اس وقت اس کے روح رواں مفتی اعظم مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی علیہ الرحمہ تھے، اور مولانا فہیم نے آپ سے قدوری سے آخری درجے تک کی کتابیں پڑھی تھیں، مولانا مفتی محمد شفیع علیہ الرحمۃ نے جب دارالعلوم کراچی قائم کیا تو آپ اس کے منصب تدریس سے وابستہ ہونے والے ابتدائی اساتذہ میں شامل تھے، مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی علیہ الرحمۃ دارالعلوم کراچی میں آپ کے رفیق تدریس رہے تھے۔ مولانا فہیم صاحب بڑے نرم خو، خوش اخلاق، صاحب فہم اور زیرک عالم دین تھے، آپ القصیص میں مسجد بن سالمین سے قریب ہی کی ایک مسجد عمر بن عبد العزیز میں امامت کرتے تھے۔ مولانا محمد فہیم صاحب نے اپنے شاگرد رشید کے اخلاق واطوار کو دیکھ کر انہیں اپنی دامادی میں قبول کیا تھا، اور مسجد بن سالمین کے وسیع احاطے کے مکانات میں یہ دونوں اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش وخرم زندگی بسر کررہے تھے۔
اس زمانے میں دبی کی ڈیموگرافی ٓج سے کافی مختلف تھی، شیخ راشد بن سعید آل مکتوم کا دور حکومت تھا، جو کہ ایک غریب پرور حکمران تھے، دبی تعمیر کے مرحلے سے گذر رہا تھا،رہایشی فلیٹس اور مکانات اس مرحلےمیں کما حقہ ضرورت پوری نہیں کرپارہے تھے، تنخواہیں بھی کم تھیں اور فلیٹوں کے کرائے ہوشربا ۔ اس وقت حکومت دبی نے کرایوں کو کم کرنے اور یہاں آنے والے محنت کش اور ملازم پیشہ افراد کی سہولت اور آسانی کے لئےمدینہ بدر، سطوہ، کرامہ، قصیص ، ہور العنز(صفیہ) اور القوز میں متوسط درجے کے فلیٹوں کی کالونیاں آباد کرنی شروع کیں، جس کے نتیجے میں فلیٹوں کے کرائے زمین کو آگئے۔ اسی طرح قصیص، سطوہ، صفیہ وغیرہ علاقوں میں خالی زمینیں بھی رہائش کے لئے وقتی طور پر مفت دی گئیں، جن پر ٹین سے بنے چھپر اور طابوق کی سیدھی سادھی دیواروں کے مکانات کھڑے ہوگئے، جو فریج، ٹیلیویژن، اور ایرکنڈیشن اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے معمور تھے، الکٹرک اور پانی بھی سستا تھا، اس وقت بل زیادہ بڑھنے اور مکمل ادائیگی نہ ہوسکنے پر جزوی معافی کی گنجائش بھی پائی جاتی تھی۔ رہائش کی ان سہولتوں سے زیادہ تر فائدہ اٹھانے والے ہمارے پٹھان بھائی تھے،جو ڈرائیور اور جفا کش تھے، الصفیہ میں بنگلہ دیش سے آنے والے روہنگیا برمی مسلمان زیادہ تر آباد تھے، ان کالونیوں میں ان افراد کو اپنے گاؤں اور قصبوں کی خوشبو ملتی تھی، اس وقت دبی بہت مختصر تھا، اب تو دبی اس زمانے سے دس گنا زیادہ بڑھ چکا ہے، وہ بھی ایک ضرورت تھی، یہ بھی ایک ضرورت ہے، ڈیموگرافی تبدیلیاں ہونا ایک فطری بات ہے، حالات ہمیشہ ایک ڈگر پر نہیں رہتے۔تبدیلی ناگزیر ہوا کرتی ہے۔
دبی میں تبلیغی دعوت کا کام کافی دنوں سے جاری تھا، اور ابتدا میں تبلیغی مرکز، سونا بازار کے قریب قدیم کویتی مسجد میں ہوا کرتا تھا، جب کام کو وسعت ملی تو پھر مرکز مسجد بن سالمین میں منتقل ہوگیا، جہاں مولانا اسماعیل عارف صاحب امام وخطیب تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

*حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ جوارِ رحمت میں*

✍️محمد عارف قاسمی لدھیانوی
۱۴ اکتوبر ۲۰۲۴ عیسوی


یہ خبر دل پر بجلی بن کر گری کہ معروف عالم دین حضرت مولانا ندیم الواجدیؒ ابھی کچھ دیر پہلے امریکہ میں انتقال فرما گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون ان للہ ما اخذ و لہ ما اعطی و کل عندہ باجل مسمی

مولانا مرحوم ایک معروف خاندان کے مثالی فرد تھے۔آپ کے دادا حضرت مولانا احمد حسن صاحب دیوبندیؒ اور والدگرامی حضرت مولانا واجد حسین دیوبندیؒ کا اکابرعلماء دیوبند میں شمار ہے۔حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب مدیر ماہنامہ ترجمان دیوبند و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نام و کام سے ایک جہاں واقف ہے۔اردو عربی اور انگریزی زبان میں آپ کی اب تک پچاس سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور انھیں عوام و خواص میں قبول عام حاصل ہے۔

حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں حاصل کی تھی،جہاں آپ کے دادا مرحوم اور والدماجدؒ علیا کے مدرس تھے۔اس دور میں آپ نے مطالعۂ کتب میں جس دل چسپی کا مظاہرہ کیا،دوربیں نگاہوں نے اسی وقت اندازہ لگا لیا تھا کہ آگے چل کر ان کے ذریعے بڑا دینی و علمی کام معرضِ وجود میں آئے گا۔مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خاں جلال آبادیؒ بھی آپ کے مطالعۂ کتب کے شوق سے واقف اور خوش تھے۔آپ نے اس دور میں اکابرعلمائے دیوبند میں حضرت حکیم الامتؒ کی کتابیں خاص طور سے پڑھی تھیں۔خود مولانا مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں:

"سچ پوچھیے تو مجھے سب سے زیادہ فائدہ اردو کتابوں میں حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے مواعظ و ملفوظات سے ہوا،انھیں بار بار پڑھتا تھا اور حضرت سے کچھ ایسی عقیدت محبت اور مناسبت ہو گئی تھی کہ میں بار بار تھانہ بھون کے چکر لگایا کرتا تھا اور مزار پر حاضری دے کر واپس آ جاتا تھا۔"

مولانا ندیم الواجدی صاحب کو حضرت مسیح الامتؒ سے مناسبت تھی اور آپ نے ان کی مجالس میں شرکت بھی کی اور دوسری طرف مفتاح العلوم جلال آباد کے زمانۂ قیام میں بھی اور عربی سوم یا چہارم کے سال دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے لینے کے بعد بھی حضرت تھانوی کی کتابوں سے استفادے کا سلسلہ جاری رہا اور اس سے آپ کو علمی و روحانی ہر دو اعتبار سے بڑے فوائد حاصل ہوے۔دادا اور والد ماجد کی سرپرستی اور تعلیمی نگرانی نے سونے پر سہاگے کا کام دیا۔دادا اور والد آپ کے سرپرست تھے استاذ بھی تھے اور مربی و مصلح بھی تھے۔رحمھااللہ رحمۃ واسعۃ

آپ کے دادا مرحوم کا انتقال تو بہت پہلے ہو گیا تھا،تاہم آپ کے والدماجد حضرت مولانا واجد حسین صاحب دیوبندیؒ سابق شیخ الحدیث مدرسہ تعلیم ڈابھیل نے طویل عمر پائی اور چند سال پہلے وہ راہیِ آخرت ہوے۔

والدماجد کی حیات و خدمات پر آپ نے ایک کتاب مرتب کی ہے اور اس میں آپ نے ان کے مخصوص تلامذہ کی فہرست بھی نقل کی ہے،جس میں مولانا عبدالستار صاحب بوڑیوی کا نام بھی شامل تھا؛لیکن اس وقت تک مولانا ندیم الواجدی صاحب کی نہ آپ سے ملاقات تھی اور نہ کوئی تفصیلی تعارف تھا۔مولانا ساجد کھجناوری استاذحدیث و مدیر ماہنامہ صدائے حق گنگوہ کی تحریک پر آپ نے بوڑیہ کا سفر کیا اور مولانا بوڑیوی کی شخصیت سے آپ متاثر ہوے،یہ تاثر اس بنیاد پر تھا کہ آپ نے ان کی خانقاہ میں علم و روحانیت اور اکابر و مشائخ ہی کی باتیں ان کی زبانیں سنیں اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ آج بھی دنیا میں اس طرح کے خدا رسیدہ لوگ موجود ہیں،جن کا دنیا و امورِدنیا سے بس واجبی سا تعلق ہے اور یادِالٰہی و فکرِآخرت سے بڑھ کر انھیں کوئی شغل محبوب نہیں۔

پہلی ملاقات کے ہفتے عشرے بعد مولانا ندیم الواجدیؒ دوبارہ بوڑیہ گئے اور کچھ وقت مولانا بوڑیوی کے پاس گزارا۔مولانا ندیم الواجدی صاحب کا حضرت بوڑیوی سے بیعت ہونے کا کوئی ارادہ نہ تھا،بس یہ ملاقاتیں صرف اسی بنیاد پر تھیں کہ بوڑیہ آکر،مولانا مفتاحی بوڑیوی کی زبانی تصوف و روحانیت اور علم و علماء کا ذکر سن کر اور خانقاہ بوڑیہ میں وقت گزار کر انھیں سکون و طمانینت کا عجب احساس ہوتا تھا اور یہ تاثر راقم سطور نے متعدد علماء کی زبانی سنا،بلکہ بعض کو تو یہاں تک بھی کہتے ہوے سنا گیا کہ مولانا عبدالستار صاحب مفتاحی بوڑیوی کی مجالس میں بیٹھ کر اور ان کی سادہ سی خانقاہ و مجالس دیکھ کر حضرت مسیح الامت جلال آبادیؒ کے عہد کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کہ مولانا بوڑیوی کی مجالس میں حضرت جلال آبادی کی اصلاحی مجالس کی جھلک پائی جاتی ہے۔

بہرکیف:مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ بوڑیہ حاضری کے موقع پر حضرت بوڑیوی سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی۔حضرت بوڑیوی نے فرمایا کہ بہتر ہوگا کہ آپ کسی ایسے بزرگ سے بیعت ہوں،جن سے مناسبت ہو،اس سے زیادہ فائدے کی توقع ہے اور آپ ابھی مہمان خانے میں تشریف لے جائیں،دوگانہ نماز ادا کرکے خوب دعائیں مانگیں،مہمان خانے میں آرام فرمائیں اور خوب غور و فکر کے بعد کسی بھی بزرگ سے بیعت ہونے کی بابت کوئی حتمی و آخری

Читать полностью…

علم و کتاب

*صالح بنتے نہیں، مصلح بن جاتے ہیں*

مولانا سید عبداللّٰه حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں:

بہت سے لوگ ہیں، جن کو اصلاح کرنے کا شوق پیدا ہوگیا ہے، ہمارے حضرت مولانا حضرت تھانوی رحمتہ اللّٰه علیہ نے لکھا ہے اور مولانا عبدالباری ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے بھی بات لکھی ہے کہ لوگ صالح بنتے نہیں، مصلح بن جاتے ہیں، اور جو صالح نہ بنے اور مصلح بن جائے وہ مثلہ کر دیتا ہے، اس سے اصلاح نہیں ہوتی، بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اور آج اسی وجہ سے اصلاح نہیں ہو پارہی ہے کہ جو خود صالح نہیں، وہ کیسے اصلاح کر پائے گا، یعنی آپ خود غلط کام کر رہے ہیں تو اب کس بنیاد پر دوسروں کو ٹوک رہے ہیں؟ تقریر ہو رہی ہے کہ یہ نہ کیجیے، شادیوں میں اسراف نہیں ہونا چاہیے اور جو تقریر کر رہا ہے، اس کے گھر میں اسراف ہو رہا ہے، اس کے بیٹے کی شادی ہو رہی ہے، خوب خرچ کر رہا ہے دھڑلے سے اور تقریر ایسی کر رہا ہے کہ گویا ہمارے اندر اس سے بڑا کوئی مصلح پیدا نہیں ہوا تو ایسی اصلاح سے کیا فائدہ ہوگا؟

ہم صالح بن جائیں/صفحہ: ۱۷/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی

Читать полностью…

علم و کتاب

مصطفی زیدی(وفات ۱۳ اکتوبر ۱۹۷۰) تحریر ابن صفی

Читать полностью…

علم و کتاب

جدہ میں صرف دو چیزیں عرب ہیں: ایک زبان دوسرے اذان، باقی ہر چیز پر یورپ کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ عربوں کا خاص لباس بھی یہاں مخلوط ہو گیا ہے۔ قطع ہے وضع نہیں، وضع ہے قطع نہیں۔ وضع کا بھرم بھاؤ ہے تو قطع میں رکھ رکھاؤ نہیں۔ غرض عرب تو ہیں، ہر قسم کے عرب، عاربہ بھی اور عرب مستعربہ بھی؛ لیکن ارضِ قرآن کے عرب اب آب و گل کے ایک نئے سانچے میں ڈھل گئے ہیں۔

وہ طوفانوں سے کھیلنے والے عرب تھے اور خود ایک طوفان تھے۔ یہ ساحل کے تماشائی عرب ہیں، جو کنارے پر کھڑے خود کنارہ ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ ان کا ماضی سے کوئی رشتہ نہیں رہا؛ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کا ماضی ان سے محروم ہو چکا ہے اور اس چراغ کی طرح ہو گیا ہے جو یادوں کے مزار پر بھولی بسری لَو دیتا ہے۔

شب جائےکہ من بودم
شورش کاشمیری

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا امداد صابری

معصوم مرادآبادی

آج اردو صحافت کے محقق اعظم مولانا امداد صابری کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 13 اکتوبر 1988کو دہلی میں وفات پائی۔ جس وقت ان کا انتقال ہوا، ان کی عمر73برس تھی۔ انھوں نے تصنیف وتالیف اور تحقیق وتدوین کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے، ان کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکا۔ انتقال سے ایک سال قبل انھوں نے مجھے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ وہ اب تک 76 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان میں پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل" تاریخ صحافت اردو " بھی شامل ہے۔
مولانا امداد صابری ایک ذی علم مذہبی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد علامہ شرف الحق صابری اپنے عہد کے بڑے عالم دین تھے۔ان کے ذاتی ذخیرے میں بے شمار کتابیں اور نادرونایاب اخبارات کی فائلیں تھیں، جن سے مولانا امداد صابری نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اردو صحافت کے محققین کے لیے وافر مقدار میں خام مواد فراہم کردیا۔
مولانا امداد صابری نے اردو صحافت کی تحقیق وتدوین کے میدان میں ہی اپنے جوہر نہیں دکھائے بلکہ کئی اخبارات وجرائد بھی نکالے۔ وہ اس کے علاوہ سماجی خدمت کے میدان میں بھی سرگرم عمل رہے۔ انھوں نے غریب مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کی لڑائی بھی لڑی اور ان کے حق میں عوامی تحریکیں چلائیں۔ جس زمانے میں وہ دہلی میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر تھے تو میں نے دیکھا کہ وہ رکشہ پر بیٹھ کر ضرورت مندوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان کی مہر اور پیڈ ساتھ ہوتا تھا۔جہاں جہاں اس کی ضرورت ہوتی وہ بلاتکلف حاجت مندوں کے کام آتے تھے۔ انھوں نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ بنیادی طورپر وہ ایک درویش صفت، شریف النفس اورخدا ترس انسان تھے۔ انھیں تحریر و تقریر دونوں میں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے تقریباً پچاس برس اردوزبان اور خصوصاً اردو صحافت کی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ۔امداد صابری اپنے جذبہ خدمت اور ملی غیرت کے لیے معروف تھے۔ صاف گو تھے اور کسی غلط بات کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اسی بنا پر وہ کانگریس اور اس کے سربراہوں سے نباہ نہ سکے۔ کانگریسی رہنماؤں کی بجائے وہ سبھاش چندربوس کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ اسی عقیدت و محبت کی بنا پر وہ آخر تک سبھاش چندربوس جیسی ٹوپی اوڑھتے رہے۔وہ 1930 سے عملی سیاست میں تھے اور ابتدائی تین سال انھوں نے نیتاجی سبھاش چندربوس کے ساتھ گزارے تھے۔ وہ آزاد ہند فوج میں بھی سرگرم رہے ۔وہ کانگریس کے خلاف جنتا انقلاب میں شریک ہوئے اور جنتا پارٹی کے دور حکومت میں چار سال تک دہلی کے ڈپٹی میئر رہے۔
امداد صابری کی پیدائش 16 اکتوبر سنہ 1914ء کو دہلی کے معروف علاقہ چوڑی والان میں ہوئی۔ جس خاندان میں ان کی ولادت ہوئی وہ اپنے علم و فضل میں مشہور تھا۔ ان کے والدعلامہ شرف الحق صابری اپنے عہد کے مشہور عالم دین تھے، انہیں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا رشید احمد گنگوہی سے خاص تعلق تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرزند کے نام ”امداد الرشید صابری“ میں دونوں شخصیتوں کے نام یکجا کر دئیے تھے۔لیکن انھوں نے شہرت مولانا امداد صابری کے نام سے پائی۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ اردو صحافت پر تحقیق ہے، جو ان سے پہلے اتنی عرق ریزی کے ساتھ کسی نے نہیں کی تھی۔ اس کے علاوہ متعدد موضوعات پر درجنوں کتابیں تحریر کیں ۔ دہلی کی دیواری صحافت سے بھی انھیں شغف تھا۔یعنی پوسٹروں کی اشاعت اور انہیں راتوں رات دیواروں پر چسپاں کرنے کا شوق تھا۔ ان کے پوسٹر خاصے دلچسپ اور زبان و بیان کے لحاظ سے منفرد اور موثر ہوتے تھے۔
علمی ذوق کے ساتھ انہوں نے سیاست کے میدان میں بھی قدم رکھا اور انتخابات میں حصہ لیا۔ دو مرتبہ کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ وہ دہلی کارپوریشن کے ڈپٹی میئر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
امداد صابری انتہائی سادہ مزاج تھے۔ کھانے پینے اور اوڑھنے پہننے میں بھی سادگی پسند کرتے تھے۔ ان کے اندر خدمت انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اپنے گھر کی سادہ سی بیٹھک میں وہ اپنے کاموں اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے۔یوں تو ان کی کتابوں کی تعداد 75 کے آس پاس ہے، لیکن یہاں چند اہم کتابوں کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ (1)تاریخ صحافت اردو (پانچ جلدیں)(2)تاریخ جرم و سزا (تین جلدیں) (3)فرنگیوں کا جال (4)داستان پرغم(5)تاریخ آزاد ہند فوج(6)نیتاجی سبھاش چندربوس کے ساتھ(7)سبھاش بابو کی تقریر(8)آزاد ہند فوج کا البم(9)1857ء کے مجاہد شعراء(10)1857ء کے غدار شعراء(11)حاجی امداد اللہ اور ان کے خلفا (12)رسول خدا کا دشمنوں سے سلوک(13)رسول خدا کی غریبوں سے محبت(14)فیضان رحمت (15)دہلی کی یادگار شخصیتیں (16)دہلی کے قدیم مدارس اور مدرّس (17)سیاسی رہنماؤں کی مائیں اور بیویاں (18)اللہ کے گھر میں بار بار حاضری(19)اخبار’مخبر عالم‘ مرادآباد اور تحریک آزادی (20)آثار رحمت(21)جنوبی افریقہ کے اردو شاعر(22)روح صحافت (23)اردو کے اخبار نویس(دوجلدیں) (24)شہیدان آزادی مرادآباداور صوفی انباء

Читать полностью…

علم و کتاب

*کچھ اِدھر سے کچھ اُدھر سے*

*اس بازار میں : ص ٣٦ / ٣٧*
*شورش کاشمیری*


* جیسے جیسے معاشرہ بدلنا گیا عورت سے تعلقات کی نوعیتیں اور خصوصیتیں بھی بدلتی گئیں۔ ہر زمانہ میں ایک نیا روپ رہا۔ معلوم نہیں دھات اور پتھر کے زمانوں میں عورت اور مرد کے تعلقات کا صحیح نقشہ کیا تھا۔ لیکن سامنتی دور کی ایک خاص مدت تک ہر مرد عورت کو شہوانی غذا سمجھتا رہا اور اس کے حصول کا طریقہ شکمی غذا کے حصول سے مختلف نہ تھا ایک طاقت ور قبیلہ کمز ور قبیلہ کی آبادیوں پر چڑھائی کر دیتا۔ سردار گھوڑے پر سوار ہوتا۔ چنے لوگ نقاروں پر چوٹ لگاتے اور باقی نبرد آزما ہوتے ، حملہ آور مفتوح مردوں کو قتل کر دیتے جو عورتیں مردوں کے کے تخلیہ میں آچکی ہوں اُن کو ہلاک کر ڈالتے ۔ کنواریوں کو لشکروں میں بانٹ دیتے اور اس طرح فاتح بن کر لوٹتے ۔
* بظاہر عجیب سی بات ہے ۔ لیکن ایشیائی اقوام میں برات کا جو طریقہ رائج ہے اس پر غور کرنے سے پتہ چلا ہے کہ شادی در اصل اس عسکریت ہی کے ثقافتی ارتقا کی ایک معاشری صورت ہے اور وہ زیور جو دلہنیں پہنتی ہیں ان عسکری فتحمند یوں ہی کی علامتیں ہیں مثلا ہتھکڑیوں کا بدل چوڑیاں ہیں یا کڑ نے، بیڑیوں کی جگہ پاؤں کی جھانجنیں ہیں، طوق کی جگہ ہنسلی مالا اور کنٹھا ہیں۔ نکیل کی جگہ نتھ اور بالیاں ہیں۔ اسی طرح دلہن کے ماتھے پر جو سونے کا ٹیکا ہوتا ہے اس کی صورت عورت کے اندام پر ہے۔ اب بھی قیدی عورتوں کی جو صدیوں پرانی تصویریں دیکھنے میں آتی ہیں ، ان سے اس کی توثیق ہوتی ہے۔
*انتخاب : ابومعاویہ محمد سفیان بڈھا قاسمی*

Читать полностью…

علم و کتاب

’عن‘کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے نیچے سے عن نکل بھاگا اور اپنی جگہ ’عنی‘ کو کھڑا کر گیا توآئیے ذرا لپک کر ’عن‘ کو پکڑیں کہ اَماں بھاگتے کہاں ہو، لمحہ بھرکو تو ٹھیرو۔ اُردو میں ’عن‘ کا استعمال زیادہ نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کے منہ بولے بھائی ’مِن‘ کا استعمال بہت ہے۔ عن اور مِن دونوں حروفِ جر ہیں اور دونوں کے معنی ’سے‘ یا ’از‘ کے ہیں۔ متنِ احادیث کا آغاز ’عن‘ سے ہوتا ہے۔ یہ بتانے کے لیے کہ یہ حدیث کس کس ’سے‘ ہم تک پہنچی ہے۔ ایک لفظ ’عن قریب‘ اُردو میں بکثرت استعمال ہوتا ہے اورعموماً ملا کر ’عنقریب‘ لکھا جاتا ہے۔ یہ ’تابعِ فعل‘ ہے، یعنی فقرے میں ’عنقریب‘ کے قریب ہی کوئی ’فعل‘ ضرور لگا ہوگا۔ ’عنقریب‘ کا مطلب ہے قریب ہی، جلد ہی، ابھی تھوڑے دنوں میں، کوئی گھڑی میں یا کوئی دن میں۔ ’عنقریب‘ زیادہ تر قُربِ زمانہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاًذوقؔ کہتے ہیں:

کریں جدائی کا کس کس کی رنج ہم اے ذوقؔ
کہ ہونے والے ہیں ہم سب سے عنقریب جدا

میم پر زیر لگاکر پڑھا جائے تو’مِن‘ کے معنی ’سے، از،کا یا بمقابلہ‘ ہوں گے۔ اس سے مراد ’ابتدا‘بھی لی جاتی ہے۔ مثلاً: ’مِنَ الظلمات الیٰ النور‘ (اندھیروں سے اُجالے تک)۔ ’از‘ یا ’سے‘ کے معنوں میں عربی کی بہت سی تراکیب اُردو میں بڑی بے تکلفی سے استعمال کی جاتی ہیں۔ مثلاً ’من اللہ‘ یعنی اللہ کی طرف سے یا غیب سے۔ ’نصرٌمن اللہ‘یعنی ’مدد اللہ کی طرف سے‘۔ عدالتِ عظمیٰ کے ایک عزت مآب جج جناب ’اطہر من اللہ‘ ہیں، وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے (اطہر کرکے) عطا کیے گئے ہیں۔ نواب یوسف علی خان ناظمؔ تو یہ دعویٰ فرماتے ہیںکہ

جذبۂ عشق وہ حاصل ہے من اللہ ہمیں
دام میں اپنے پھنسا جس کی ہوئی چاہ ہمیں

’مِن جانب‘کا استعمال خطوط اوردعوت ناموں پر کیا جاتا تھا، آج بھی کیا جاتاہے۔ اس کامعنی ہے ’کی طر ف سے‘یا ‘From’۔ ’مِن جملہ‘ کا مطلب ہے ’سب میں سے، کُل میں سے، تمام میں سے۔ ’جملہ‘ کے معنی ہیں ’کُل، تمام، سب اور میزان‘۔ کلموں کے مجموعے کو بھی اسی وجہ سے جملہ کہا جاتا ہے۔ خیریہ توایک جملۂ معترضہ (بات کے بیچ میں بولا جانے والافقرہ) تھا۔ ’مِن جملہ‘ کے معنی جگرؔسے سیکھیے:

جان کر مِن جملۂ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

’مِن حیث القوم‘ کی ترکیب بھی ہمارے ہاں اکثر سننے اور پڑھنے میں آتی ہے کہ ’ہم مِن حیث القوم بے حس ہوگئے ہیں‘۔ ’مِن حیث القوم‘ کا مطلب ہے ’قوم کی حیثیت سے‘ یا ’قوم کے اعتبار سے‘۔ آج کے کالم میں جس مرکب کا بطورِ خاص ذکر مقصود تھا وہ ہے ’مِن و عن‘۔ اس کا مطلب ہے حرف بہ حرف، جوں کا توں، ہُو بہ ہُو (ہو بہو) یا بے کم و کاست۔ مگر ہمارے اکثر سیاست دان اور بیشتر ماہرین ابلاغیات اپنی روزمرہ نشریات میں مِن کے میم پر زبر لگاکر مَن بولنے لگے ہیں، مَنّ و عَن۔ عربی میں مَن کا مطلب ’کون‘ یا ’جو‘ ہوتا ہے۔ اب من من بھر کے مشاہیر کو چھٹانک بھر کا کالم نگار کیسے سمجھائے کہ جنابِ مَن! اس طرح سے بولا جانے والا ’مَنّ و عن‘ بے معنی ہوجاتا ہے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا محمد رضوان القاسمی(وفات ۱۱/اکتوبر ۲۰۰۴ء) تحریر: مولانا ندیم الواجدی

Читать полностью…

علم و کتاب

ہر سال دیوالی پر گلزار صاحب کی طرف سے ہری الائچی اور مصری سے بھرا ہوا ایک بڑا سا مرتبان آتا ہے، مگر کچھ سال پہلے دیوالی آئی تو الائچی نہیں آئی بلکہ چھوٹی سی پٹاری میں رکھا ہوا ایک تحفہ آیا جو چمک دار رُوپہلے کاغذ اور لال رِبن سے بندھا ہوا تھا۔ ہم نے بڑے شوق سے رِبن کھولا کہ شاید اس بار ان کی طرف سے الائچی اور مصری کی جگہ کوئی نئی چیز آئی ہے، مگر جب رُوپہلا کاغذ الگ ہوا تو دیکھا کہ اس کے اندر ایک پیاز رکھی ہوئی تھی۔ میری بیوی فریدہ نے اسے اُلٹ پَلٹ کر دیکھا، وہ سچ مچ پیاز ہی تھی، وہی پیاز..... جو تقریباً ہر کھانے میں ڈالی جاتی ہے۔ فریدہ نے حیرت سے پوچھا، ’’ارے.....گلزار بھائی نے یہ کیا بھیجا ہے؟‘‘ میں بہت زور سے ہنسا اور دل ہی دل میں داد دی کہ وہ پیاز، اُس وقت کے حالات پر گلزار صاحب کا تبصرہ تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب دس روپے کلو کی پیاز ڈیڑھ سو روپے کلو بِک رہی تھی اور کہیں کہیں تو مل ہی نہیں رہی تھی۔ پیاز کی کم یابی کی وجہ سے شہروں میں مظاہرے اور فساد ہو رہے تھے اور غریب، جو پیاز سے روٹی کھا لیا کرتے تھے، سوکھی روٹی کھانے پر مجبور ہو چکے تھے۔ میں نے فون کیا تو فرمایا، ’’مجبوری تھی جاوید صاحب! بازار میں اس سے زیادہ قیمتی کوئی اور تحفہ نظر ہی نہیں آیا، اب مل بانٹ کر کھا لیجیے، آئندہ شاید یہ بھی نہ ملے!‘‘

📙 میرے محترم | جاوید صدیقی | خاکہ ’’قافلے میں تنہا مسافر‘‘ | ص 285
Https://telegram.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مشتاق احمد چاندنا(مسٹر دہلوی) وفات 10 اکتوبر 1988ء

https://youtu.be/61ta6TGL0wY?si=4QEaM4HtYGtANWaH

Читать полностью…

علم و کتاب

*مولانا شوکت نظیر کی رحلت ، ایک نقصان عظیم*
(وفات مورخہ ۱۰ اکتوبر ۲۰۱۵ء پر لکھی گئی تحریر)
از : عبد المتین منیری (بھٹکل)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

آج یہ المناک خبر آئی ہے کہ رائے گڑھ کوکن میں۔ مولانا شوکت علی نظیر صاحب اکاسی سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے ، آپ کی حادثہ وفات نہ مہاراشٹرا اور کوکن کے مسلمانوں کے لئے خصوصا اور مسلمانان ہند کے لئے عموما بہت بڑا نقصان ہے ۔ مولانا نے۱۹۳۴ء میں اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تھیں ۔ابتدائی تعلیم کے بعد دارالعلوم دیوبند سے اعلی تعلیمی سند حاصل کی ۔ یہاں آپ کو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔
جس زمانے میں مولانا نے آنکھیں کھولیں کوکن کے علاقے کو علمی و دینی رہنمائی کی زیادہ ضرورت تھی۔مولانا نے فراغت کے بعد یہاں پر اصلاح و دینی علم کے فروغ کے لئے بہت خدمت کی اور یہاں پر اپنے شیخ کے نام کی نسبت سے ایک معیاری دارالعلوم جامعہ حسینیہ شریوردھن کے قیام میں حصہ لیا اور اس کی تادم آخر سرپرستی کی ۔آپ کو مولانامفتی محمود الحسن گنگوہی سے شرف خلافت حاصل تھا ۔
سنہ ستر کے اوائل میں جب جامع مسجد ممبئی کے خطیب اور عظیم بزرگ مولانا غلام محمد خطیب پیرانہ سالہ کے آخری ایام میں آپ کو نائب امام کے عہدے پر فائز کیا گیا ، آپ کی وفات کے بعد آپ جامع مسجد کے مستقل امام و خطیب مقرر ہوئے ، آپ نے ایام نیابت میںخطبہ جمعہ کا خلاصہ پیش کرنا شروع کیا تھا ۔ جب تک آپ کی صحت نے جواب نہیں دیا یہ سلسلہ جاری و ساری رہا ۔ ایک ایسے دور میں جب کہ حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا قاری ودودالحی لکھنوی ، مولانا عرفان حسن ، مولانا ابو الوفاء شاہجہانپوری جیسے اکابرین اللہ کو پیارے ہوگئے تھے ، اور ممبئی کی دینی مجالس صحیح العقیدہ علماء کی غیر موجودگی سے سونی سونی نظر آتی تھیں ،آپ کا جمعہ بیان ان اکابر کے زرین سلسلے کو جاری وساری رکھے ہوئے تھا۔
مولانا کی شخصیت میں بڑی کشش تھی ، زبان میں مٹھاس تھی ، جب خطبہ دیتے اور ترجمہ کرتے تو دل پر اس کا اثر ہوتا ، آپ کی اصلاحی کوششوں سے اللہ تعالی نے اس طویل عرصہ میں کتنے ہزاروں کے دل بد ل دئے ، اور کوکن کے علاقے کو آپ کے علم و فضل سے کتنا فیضیاب کیا اس کا تعیین کرنا مشکل ہے ۔
مولانا عرصہ تک مسجد اسٹریٹ میں واقع بیگ محمد ہائی اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ، یہ محلہ ممبئی میں بھٹکلیوں کا گڑھ تھا ۔ قاضی شریف محی الدین اکرمی نے جامع مسجد میں نوجوانوں کے لئے اور شیخ محمد علی زینل بانی مدرسۃ الفلاح ممبئی جدہ و دبی کے مکان پر لڑکیوں کے لئے فقہ شافعی کی خصوصی اعلی کلاس شروع کی تھی ، ان کلاسوں میں تعلیم پانے والے زیادہ تر کوکنی افراد تھے ، جنہوں نے بعد میں آپ ہاتھوں تربیت پاکر کوکن میں قضاء کی ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ مولانا محمود خیال صاحب کی جگہ پر آپ کے پیش رو مولانا غلام محمد خطیب کہ نامزدگی ہوئی تھی ، مولانا عبد العلیم قاسمی صاحب جب تک ممبئی میں مستقل کاروبار کے سلسلے میں مستقل اقامت پذیر رہے وقتا فوقتا شوکت نظیر صاحب کی قائم مقامی کرتے رہے ،محی الدین منیری صاحب کا بھی چالیس سال تک ممبئی کے اہل علم میں بڑا اثرو رسوخ رہا ۔اس پر مستزاد فکری میلان مسلک میں وحدت نے بھٹکل کے تعلق سے آپ میں بڑی محبت بھر دی تھی ۔آپ کی رحلت سے اہل بھٹکل اپنے ایک چاہنے والے سے محروم ہوگئے ہیں ۔
مولانا کی رحلت سے ممبئی اور کوکن کا ایک روشن باب بند ہوگیا ہے۔ ایسے لوگ اس دنیا سے جاتے ہیں تو ایسا خلا چھوڑ جاتے ہیں جو کبھی پورا نہیں ہوتا ۔ انسان بس اپنے خالق سے اس نقصان کی تلافی کے لئے دست دعا بلند ہی کرسکتا ہے ۔اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے ۔
۱۰؍۱۰؍۲۰۱۵ء

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: پھرامام ابن جریر طبریؒ کا ذکر خیر
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)
آج علم وکتاب پر ہم نے مولانا سید متین شاہ صاحب کی ایک پوسٹ چسپان کی تھی، جس میں ہمارے معزز رکن مولانا تنزیل الحق صدیقی صاحب کے ایک مضمون کے حوالے سےعلامہ تمنا عمادی کی فکر وتحقیق کے تین ادوار کا تذکرہ ہوا ہے۔ ان میں *تیسرا دور وہ ہے جس میں انھوں نے وحی متلو و غیر متلو کی قرآنی بنیادوں پر تائید کی اور حجیت حدیث کو واضح طور پر تسلیم کیا۔وحی غیر متلو کے انکار کو انھوں نے اس دور میں قرآن کے انکار سے تعبیر کیا۔انھوں نے غلام احمد پرویز کی "لغات القرآن" پر بھی تنقید لکھی جس کی کچھ قسطیں "فاران" میں شائع ہوئی تھیں*۔
ماہر القادری نے تمناعمادی کی وفات پر جو شذرہ لکھا ہے اس میں اس جانب اشارہ پایا جاتا ہے، لیکن ہمیں یہ مضامین پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا، حالانکہ فاران کے بہت سارے شمارے ہمارے پاس محفوظ ہیں۔
لیکن جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، یہ بحث اصل موضوع سے ہٹ کر امام ابن جریر طبریؒ کی طرف مڑ گئی، اور یہ بحث شروع ہوگئی کہ طبری دو ہیں ایک سنی اور ایک شیعی، اور دونوں معاصر ہیں، سنی طبری امام وقت ہیں۔
ہماری نظر میں یہ بحث کہ طبری دو تھے، ایک سنی اور دوسرے شیعی جس پس منظر میں چھیڑی جاتی ہے،یہ چنداں مفید نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے محققین اور مصنفین نے جامع البیان عن تاویل آی القرآن( تفسیر طبری) تاریخ الامم والملوک(تاریخ طبری) ، تہذیب الآثار اور اختلاف علماء الامصار کے مصنف امام أبو جعفر محمد بن جرير طبری رحمۃ اللہ علیہ ہی کی کتابیں پڑھ کر ان کا حوالہ دیا ہے، انہیں شیعہ طبری کی کتابوں کی چنداں ضرورت نہیں تھی، لہذا شاید انہیں کبھی دیکھنے کا موقعہ بھی نہیں ملا۔
یہی دیکھئے خلافت وملوکیت کے مصنف نے سنی امام ابن جریر طبری سے حوالے دئے ہیں، اور ہمارے ایک بہت ہی محترم ومعزز شیخ الحدیث اور ایک عظیم ادارے کے سابق مہتم نےاس کے رد میں جو کتاب لکھی تھی اس میں امام ابن جریر طبریؒ ہی پر شدید جرح کی ہے، تمنا عمادی تو تاریخ طبری کے مترجم ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ دو طبری میں سے سنی کون اور ہے اور شیعہ کون ، بلکہ اصل مشکل یہ ہے کہ طبری کو پڑھنے کے باوجود ہمارے محترم اور معتمد علماء ومورخیں ایک ایسے امام کی جرح کریں،جن کا درجہ ائمہ اربعہ کے قریب ہے، اورجن کی تفسیر پر تفسیر ماثور کا مدار ہے، اور ایک دو عشرے قبل تک دستیاب واحد مسند تفسیر تھی، تو آخر کس کی بات مانی جائے، اور اس مخمصے سے نکلنے کی سنجیدہ علمی کوشش کیا ہوسکتی ہے۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا تنقیدی مطالعہ موضوعی ہو، کسی شخصیت کی جذباتی انداز میں تائید یا مخالفت میں نہ ہو، اور رد عمل میں لکھی گئی کتابوں کو اتنی ہی اہمیت دی جائے جس کی وہ مستحق ہیں، معیار انہیں کتابوں کو بنایا جائے جو معروضی انداز کی ہوں، اور ان میں تحقیق وتنقید کے مسلمہ اصولوں کو اپنایا گیا ہو، اور یہ کہ عفت لسانی اور علماء واکابر کے بارے میں احترام کا جذبہ اپنے رویوں میں رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ اصول کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ قرون اولی کے جو ائمہ ومصنفین ہیں، ان کے بارے میں اپنا دل ودماغ صاف رکھیں ، اور اپنے عقیدے میں ان کے بارے میں کوئی غبار نہ آنے دیں، آج کے آخری دور کی شخصیات کے بارے میں احترام وعقیدت کا جذبہ رکھنے سے زیادہ یہ اہم ہے۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 210
انتخاب مطالعہ
تحریر: *عبد المجید سؔالک*


*گھٹنا تو عرب میں ہوتا نہیں*

مولانا شوکت علی عربی نہیں جانتے تھے ؛ لیکن جب کبھی بعض عرب بزرگ ان سے ملنے آتے تو مولانا ان سے عربی میں باتیں کرنے کی کوشش کرتے، یعنی عربی کے دو تین سنے سنائے لفظ کہے اور جو کمی رہ گئ وہ ہاتہوں اور آنکھوں کے بلیغ اشاروں سے پوری کردی مثلا: ایک عرب سے باتیں کر رہے تھے ”یا شیخ! المسلمون نائمون“ ( آنکھیں بند کرلیں ) ”فی کل عالَم نائمون“ ( انگلی فضا میں گھمائی ) ”خلوص ما فش“ ”فلوس ما فش خیر! ﷲعلی کل شیئ قدیر “( اور اوپر ﷲ کی طرف اشارہ کردیا )
ایک دن چند نوجوان سر ہوگئے کہ آپ عربی تو جانتے نہیں، عربی میں باتیں کیسے کرلیتے ہیں؟ کہنے لگے: واہ! عربی کیوں نہیں جانتے ؛ ہم خوب عربی جانتے ہیں، کسی لڑکے نے پوچھا: اچھا یہ تو بتائیے ”گھٹنے کو عربی میں کیا کہتے ہیں“ ؟ بے تامل جواب دیا: ”گھٹنا تو عربی میں ہوتا ہی نہیں“، لڑکے مارے قہقہوں کے لوٹ لوٹ گئے۔

( *دید و دریافت، صفحہ: 49، طبع: آزاد کتاب گھر، کلاں محل،دہلی*)

مؤلف: *نثار احمد فؔاروقی*
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی

https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…

علم و کتاب

یہ اوقاف کے پہلے ڈائرکٹر جنرل شیخ عبد الجبار محمد الماجد مرحوم کا زمانہ تھا، اور ماحول کچھ ایسا تھا کہ حکومت نے مساجد میں درس وتدریس اور بیانات میں ائمہ کرام کو کافی چھوٹ دے رکھی تھی، ماحول پر امن اور سازگار تھا، مولانا فہیم کی سرپرستی میں درس نظامی کا پورا نصاب یہاں پر شائقین علم کو پڑھایا جاتا تھا، اس وقت مولانا محمد اسحاق مدنی اور مولانا اسماعیل سواتی جیسے علماء مرکز الدعوۃ والارشاد دبی سے وابستہ تھے، اور کئی پاکستانی علماء مختلف مساجد کی ذمہ داریوں سے وابستہ تھے، اور مسجد بن سالمین ایک طرح سے ان علمائے دین کا ایک مرکز بن گئی تھی، جن کے درمیان ایک ڈھیلا ڈھالا نظم قائم تھا، اس دور میں یہاں جو علماء آتے تھے مختلف مساجد میں ان کے دروس ومواعظ اسی نظم کے ماتحت متعین ہوتے تھے۔
یاد پڑتا ہے کہ پیر ذوالفقار احمد نقشبند ی صاحب نے جو ابھی مشہور نہیں ہوئے تھے، پہلے پہل جب دبی آنا شروع کیا تو مولانا اسماعیل عارف مرحوم ہی کے مہمان رہتے تھے، اور میزبان ہی آپ کے درس مختلف مساجد میں رکھوائے تھے،یہیں پیر صاحب کے شیخ مولانا غلام حبیب نقشبندی کا بھی آنا جانا ہوتا تھا، مولانا منظور احمد چینوٹیؒ، مولانا عبد الستار تونسویؒ، مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ، مولانا عبد المجید شاہ ندیمؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد حسن جانؒ ، ڈاکٹر شیر علیؒ جیسے علماء ومشاہیر آتے تو ان کی مجالس وخطبات کی ترتیب یہیں پر ہوتی تھی۔۱۹۹۵ء میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا یعقوب منشی، جب ابو ظبی فقہ مالکی سیمینار میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے،تو ہمارے مرحوم دوست محمد سلمان احمد صدیقی مرحوم نے دبی میں ان کی میزبانی کا شرف حاصل کیا تھا اور مسجد بن سالمین میں ان حضرات کے اعزاز میں ایک عظیم الشان جلسہ رکھا گیا تھا، یہ پروگرام مولانا محمد فہیم اور مولانا محمد اسحاق صاحب اور مولانا اسماعیل صاحب کی سرپرستی میں منعقد ہوا تھا، اس میں آس پاس سے زیادہ تر علماء اور ائمہ مساجد شریک ہوئے تھے۔
اس ناچیز کا معمول تھا کہ جمعرات کے روز جب مسجد سالمین میں تبلیغی جماعت کا حلقہ وار مرکزی اجتماع ہوتا تھا بھٹکلی دوست احباب کے ساتھ جاتا، لیکن اس وقت ہمارا تر وقت مولانا فہیم اور مولانا اسماعیل صاحب کی مجلس میں گذرتا تھا، جہاں مقامی علماء بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے، اور مختلف دینی وملی موضوعات پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے، یہاں بے تکلفی کے ماحول میں برصغیر کے دینی مراکز اور علماء کے بارے میں وہ سب کچھ معلوم ہوتا جن کا کتابوں اور اخبارات سے معلوم ہونا ناممکن تھا، معلومات کے حصول مین سینہ گزٹ کی بھی بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے،
کبھی یہاں آپس میں بڑی پر لطف باتیں بھی ہوتی تھیں ، مولانا مفتی محمودؒ کی رحلت کے بعد جمعیت علمائے اسلام تقسیم سے دوچار ہوئی، اور مولانا فضل الرحمن کا دھڑا(ف) ،مولانا سمیع الحق کا (س) اور اسی دوران جمعیت کا تیسرا دھڑا مولانا اجمل قادری صاحب کی قیادت میں وجود میں آیا جو(ق) کہلانے لگا۔ ان دنوں مشہور عالم تفسیر وقرآنیات ڈاکٹر شیر علی مرحوم بھی آئے ہوئے تھے،اور ناشتہ کی مجلس میں مولانا سمیع الحق اور مولانا اجمل قادری بھی موجود تھے، ڈاکٹر شیر علی نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ پہلے فاء، پھر سین، اور اب قاف، یہاں تو فسق جمع ہوگیا ہے۔ اور محفل قہقہ زار بن گئی، ان واقعات پر ربع صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے۔
پہلے ۱۹۹۶ء میں تبلیغی مرکز شارجہ منتقل ہوگیا، اور مسجد بن سالمین کی یہ محفلیں ویران ہوگئیں، پھر بیماری اور پیرانہ سالی کو سہتے سہتے مولانا فہیم صاحب بھی یہ دنیا چھوڑ کر مالک حقیقی سے جاملے، اس دوران مولانا اسماعیل عارف پر بھی ایک مرتبہ بر سر منبر دل کا دورہ پڑا، اور پھر ان محفلوں کی صرف یادیں رہ گئیں، اس زمانے میں جن لوگوں سے شناسائی تھی ان میں سے کئی سارے اللہ کو پیارے ہوگئے، اور جو اپنے ملکوں کو سدھارے ان کی ملاقات ریل گاڑی کی ملاقات ریل گاڑی تک رہ گئی، کون کہاں ہے؟ کسی کا پتہ نہیں، برسوں بعد کبھی کبھار کسی پیارے کی اس دنیا سے گذر جانے کی خبر آتی ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں، ورنہ زیادہ تر کے بارے میں کچھ معلوم بھی نہیں ہوتا۔
یہاں اپنا ایک مشاہدہ بتاتا چلوں کہ عموما پختونوں کی شدت اور ہٹ دھرمی مشہور ہے، لوگ ان کے غصے سے بہت خوف کھاتے ہیں، ہمیں بھی ایسے واقعات سے سابقہ پڑا ہے، مثلا خطیب الاسلام مولانا محمد ضیاء القاسمی اور مولانا عبد المجید شاہ ندیم کی مجالس ہم نے ویڈیو پر ریکارڈ کرنی چاہی تو ہمارے شناسا ایک پٹھان مولوی نے بھرے جلسے میں دھمکی دی کہ کیمرہ توڑ دوں گا۔ اور ہم نے آمنا وصدقنا کہ کر ریکارڈنگ بند کردی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

(جاری) https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Читать полностью…
Subscribe to a channel