علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ محی السنہ شاہ ابرار الحق رحمہ اللہ کے خلیفہ مفتی ارشد بجھیڑی ضلع مظفر نگر کے یہاں بھی بیعت وسلوک کا سلسلہ قائم ہے
Читать полностью…عبد الغنی صاحب نے ایک خوش حال گھرانے میں آنکھیں کھولیں تھیں ، آپ کے والد حاجی باپا ابن ابو محمد محتشم mab نوائط برادری کے ایک بااصول ا ور امانت دار تاجر مانے جاتے تھے ، مدراس (چنئی) میں لنگیوں کی تجارت سے وابستہ تھے ۱۸۶۹ء میں اپنے والد ماجد کی قائم کردہ فرم یم اے بی اینڈ سنز (موتی مارکہ لنگی) میں اپنے بھائیوں کے شریک تھے ، بعدمیں یہ کمپنی آپ نے خود خرید لی تھی ، آپ کی اصول پسندی کے بارے میں مشہور تھا کہ انہوں نے اپنی مصنوعات پر چھ فیصد منافع مقررکر رکھا تھا ، جب بازار میں مال کم ہوتا اور زیادہ فائدہ کمانے کا موقعہ ملتا تب بھی وہ مقررہ فیصد منافع سے زیادہ منافع وصول نہیں کرتے تھے، آپ کی زندگی بڑی قناعت پسندی میں گذری ، آپ کی کاروباری حلقہ اور بھٹکلی احباب میں بڑی عزت تھی ، اپنے نظام اور ضوابط کے بڑے پابند تھے ، ۱۹۸۱ء میں اللہ کو پیارے ہوئے ، وفات سے کچھ عرصہ قبل تک جب تک ہاتھ پاؤں نے کام کیا موصوف بھٹکل کے ایک اور و جیہ تاجر مصبا عبد الغفور مرحوم کے ساتھ نور مسجد کو لگ کر جہاں اب جامع مسجد کامپلکس واقع ہے ، شاہ نگاہ درگاہ کے بالمقابل ایک کشادہ جگہ پر جہاں اس وقت شکاکائی کے اونچے اونچے سایہ درخت اور سمنٹ اور پتھر کے بنے پختہ چبوترے ہوا کرتے تھے ، یہ دونوں عصر کی نماز کے بعد پابندی سے سلطان محلہ سے یہاں تک پیدل چڑھائی پار کرکے آتے اور کچھ دیر سستا تے ، رنگ گور ا چٹا ، دراز قد ، جسم بھرا پرا ، لیکن توند کا نشان نہیں ، بال پورے سفید ہوگئے تھے ، غالبا اسی (۸۰) کے پیٹھے میں رہے ہونگے ، یہ دونوں مقررہ وقت پر یہاں نظر آتے تو بہتوں کے سر احترام سے جھک جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل مضمون کے لئے کلک کریں
https://bhatkallys.com/articles/read/abdul-ghani-mohtisham-aik-roshan-chirag/?lang=ur
وفیات ۲۷ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالبشیر آذری، پروفیسر۔وفات۔1983
علی عباس زیدی، ابن حیدر۔وفات۔1992
محمد یامین خان، نواب سر ۔وفات۔1966
مولانا قاری شریف احمد ۔وفات۔2011
سرسید احمد خان۔وفات۔1898
مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحی عارفی۔وفات۔1986
عبد الغنی محتشم۔وفات۔2008
/channel/ilmokitab
شاہ فیصل بن عبد العزیزؒ(وفات ۲۵ مارچ ۱۹۷۵ء) تحریر مولانا سید ابو الحسن ندویؒ
Читать полностью…بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
میرا شہر: ممبئی
✒️ محمد عثمان ابنِ سعید بمبوی
(متعلم عربی سوم جامعہ ڈابھیل)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا شہر وہی ہے جہاں فُٹ پاتھ پر لوگ آدھے ننگے رہتے ہیں اور ہر صبح اخباروں میں اسکَیموں کے پنگے رہتے ہیں۔ میرا شہر وہی ہے جہاں مال و ثروت کی فراوانی اور عیش و عشرت کی ارزانی کے سامنے نہ جانے کتنے غریبوں کی ناداریاں اور کتنے بے بسوں کی لاچاریاں روزانہ دم توڑ دیتی ہیں۔ میرا شہر وہی ہے جہاں گَردوں سے ہم کلام فلک بوس عمارتوں کے پہلو بہ پہلو زمیں دوز جھونپڑ پٹیوں کا ایک امنڈتا ہوا سیلاب بہتا ہے۔ میرا شہر وہی ہے جہاں ہوٹلوں اور ریستورانوں کی چوکھٹ پر بیٹھی غربت، امیری و تونگری کے نظارے سے پیٹ کی آگ بجھاتی ہے۔ میرا شہر وہی ہے جو مالداروں پر چھپڑ پھاڑ کر دولت کی بارش برساتا اور مفلسوں کو ایک ایک چھیتڑے کے لئے ترساتا ہے۔
یہاں ہر صبح کا آفتاب کسی کے لیے نویدِ مسرت لاتا ہے تو کسی کو پیامِ رحلت دیتا ہے۔ یہاں جب تپتی دوپہر کو مزدور نچڑے تھکے بدن کی تھکن اتارنے لیٹتا ہے تبھی بگڑے ہوئے امیر زادوں کی پَو پھوٹتی ہے۔ یہاں ہر شام کا ایک نیا پیغام اور ہر رات کی ایک الگ بات ہوتی ہے۔ یہاں کمانے کا طریقہ جرائم اور حصولِ شہرت کا وطیرہ کرائم طے پایا ہے۔ بڑے بڑے تاجروں، سرمایہ داروں اور ارب پتیوں کو یہاں محرومی کا کھٹکا لگا رہتا ہے لیکن پھر بھی ملک بھر کے نادار و مفلس یہیں اپنی قسمت آزمانے آتے ہیں۔ یہاں بیس روپے میں آدم زاد شکم سیر ہو سکتا ہے مگر لاکھوں روپے عیش پرستوں اور ناہنجاروں کی دل سیری و ہوس رانی کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔ یہاں کسی کو کسبِ معاش کا فکر ستاتا ہے تو کسی کو بذلِ معاش کا غم کھاتا ہے۔ یہاں کھانے میں 'وڈاپاؤ' تو کھیلنے میں 'قمار بازی کے داؤ' مشہور ہیں۔ چوراہے کے معمولی ہوالدار سے اے.سی.پی. اور ڈی.سی.پی. تک سبھوں کی زبانیں 'رشوت کھلاؤ' کے وِرد سے مرطوب رہتی ہیں۔ یہاں کوئی زندگی بھر کی کمائی رات کو کلبوں اور میخانوں میں جام و ساقی پر نچھاور کردیتا ہے تو کوئی دن بھر دوڑ دھوپ کر کے دوسرے دن چولہا جلانے کے لیے ایندھن جمع کرتا ہے۔ 'عروس البلاد' سے ملقب یہ شہر نہ جانے کتنی تباہیوں اور بربادیوں کی ہر روز بارات نکالتا ہے۔
میرا شہر سمندر کی گود میں واقع ہے پھر بھی یہاں غریب کو صاف پانی میسر نہیں۔ یہاں بازاروں میں قسم قسم کے پھل پھول اور مصنوعات فروخت ہوتی ہیں مگر ہر کسی کو ان سے جائے تمتع نہیں۔ یہاں سڑک پر گاڑیوں کی ٹریفک سے زیادہ خونریزیوں، مکاریوں اور بے حیائیوں کا متعفن و بدبودار ہجوم امنڈتا ہے۔ یہاں خود غرضیوں اور سرمستیوں کی واہ واہیوں میں لاچاریوں اور بے بسیوں کی آہیں نقار خانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوتی ہیں۔
بے شمار خامیوں اور بے حساب خرابیوں کے باوصف میرا شہر جوہر شناس بھی بڑا ہے۔ دہلی کے 'شاہ رخ خان' کی اداکاری کو اسی نے چار چاند لگائے۔ گجرات کے 'امبانی' نے اسی سے ترقیات کی راہیں پائیں۔ پنجاب کے 'کپیل شرما' کو اسی نے ہر دل عزیز بنایا۔ پاکستان کے 'عاطف اسلم' کی دِلرُبا آواز کو اسی کے اسٹوڈیو نے چہار دانگِ عالم میں روشناس کرایا۔ پٹودی کے 'سیف علی خان' کو اسی نے چمکایا۔ بِہار کے 'نواز الدین صدیقی' کو اسی نے نوازا۔ غرضیکہ کوئی کشمیر کی وادیوں سے نکلا تو کوئی پنجاب کی گھاٹیوں سے اٹھا، کوئی راجستھان کے ریگزاروں سے پہنچا تو کسی نے ہمالیہ کی پہاڑیوں کو چھوڑا اور سب نے بمبئی کی آغوش میں آکر پناہ لی تو درخشندہ ستارہ بن کر ایک عالَم کے دلوں کو فتح کرگئے۔
وہ نوائے عاشقانہ ہو کہ ادائے دلبرانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ
اِن پرکشش و دل فریب الفاظ میں مذکور لکھوکھی فتنہ پروریاں اور شرانگیزیاں ہی سہی لیکن اس شہر کی خاک کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس کی پشت پر لاکھوں اہلِ ایمان بستے ہیں، سینکڑوں مساجد اور بیسیوں مدارس و مکاتب چلتے ہیں اور امتِ مسلمہ کی دسیوں عبقری اور خداترس شخصیات کا یہ مسکن ہے۔ نیز ماہِم اور حاجی علی کی مشہور درگاہوں کے علاوہ 'شیخ الحدیث مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللّٰہ' جیسے خدا کے نہ جانے کتنے جگرپارے اسی خاکِ پاک کی آغوشِ شفقت میں آسودہ ہیں۔ شاید اِنہیں اصحابِ مزارات کے صدقے میرا شہر اتنی بے حیائیوں اور بے حجابیوں کے باوجود اب تک عذاب و عتاب سے محفوظ و مصئون ہے۔
در کفے جامِ شریعت، در کفے سندانِ عشق
ہر ہوسناکے نہ داند جام و سنداں باختن
###
زمانے میں فلم اداکار متھن چکرورتی کا بھی انٹرویو لیا تھا، جو ایک تنازعہ میں پھنس گئے تھے۔( باقی آئندہ)
Читать полностью…وفیات ۲۴ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار سبزواری (سید بشیر الدین حیدر)۔وفات۔1994
ڈاکٹر ضیاء الدین ڈیسائی ۔وفات۔2002
ڈاکٹرسید اظہار احمد ۔وفات۔2006
مولانا غلام محمد دین پوری۔وفات۔1936
/channel/ilmokitab
وفیات ۲۳ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر احمد صدیقی ۔وفات۔2005
شعلہ وارثی لکھنوی (حافظ احمد علی)۔وفات۔1973
قدیر الدین احمد، جسٹس۔وفات۔1995
مصلح الدین صدیقی، قاری ۔وفات۔1983
نثار بزمی(سید نثار احمد)۔وفات۔2007
نثار لکھنوی (نثار حسین)۔وفات۔1969
مولانا حکیم عبدالرشید محمود ( ننھومیاں ) گنگوہی۔وفات۔1995
پروفیسر مارگولیو تھ۔وفات۔1940
محمد علی محمد خان مہاراجہ محمود آباد۔وفات۔1931
نواب کلب علی خاں بہادر رامپور۔وفات۔1887
بدیع الزمان سعید نورسی۔وفات۔1960
اختر یونس قدوائی۔وفات۔2023
/channel/ilmokitab
انسانیت کو ان سے ملا نسخہِ شفاء
تریاق کے عجیب خزانے سخن میں تھے
کیمسٹری کی تجربہ گاہوں میں بھی نہیں
اجزائے کیمیا جو لُعابِ دہن میں تھے
چند متفرق اشعار دیکھیے:
منظرِ شہرِ نبیؐ آنکھ میں آئے اور پھر
ایسی نیند آئے کہ ہوجائیں مقفل آنکھیں
……
سنگریزوں کا کہیں نام نہیں مٹی میں
خاکِ طیبہ کو جو چھانا تو ستارے نکلے
……
اکثر یہ سوچتا ہوں گناہوں کے بعد میں
کیا میر اعشق لائقِ شایانِ نعت ہے؟
……
روزِ محشر وہی امت کے سہارے نکلے
ہم جنھیں بھول گئے تھے، وہ ہمارے نکلے
خالد عرفان صاحب کی نعتیہ شاعری اُن سارے اوصاف سے متصف ہے جن کا وجود اچھی شاعری کی ضمانت دیتا ہے:
ہر قافلہ عشق کے رہبر ہیں محمدؐ
انسانِ مکمل ہیں، پیمبر ہیں محمدؐ
اُمی ہیں مگر علم کا خاور ہیں محمدؐ
صد شکر کہ اُمت کا مقدر ہیں محمدؐ
میدانِ قیامت میں جہاں آپؐ وہاں ہم
ورنہ مرے سرکار، کہاں آپؐ، کہاں ہم
یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ پیش نظر نعتیہ شعری مجموعہ ’’اعزاز‘‘ عشقِ رسول ﷺ اور شاعرانہ ہنرمندی کا ایک حسین امتزاج ہے، جس کے لیے خالد عرفان لائقِ صد مبارک باد ہیں۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
خالص اُردو اصطلاحات استعمال کرنے کا رواج اب کم ہوتا جارہا ہے۔ اتفاق سے کل ملا واحدی کی معرکہ آرا کتاب ’’میرے زمانے کی دلی‘‘ پھر ہاتھ آگئی۔ پھر پڑھا، پھر مزہ آیا۔صحافی، شاعر، ادیب مولانا عارف ہسوی مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے ملا واحدی لکھتے ہیں:
’’عارف صاحب ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے، کسی قیمت پر اتحاد کو توڑنا پسند نہیں کرتے تھے اور اتحاد توڑنے والے ہندو، مسلمانوں کو انگریز کا گرگا سمجھتے تھے‘‘۔
’گُرگا‘ کا لفظ پڑھ کر لطف آگیا۔ واحدی صاحب نے جس موقعے پر ’گُرگا‘ استعمال کیا ہے اب ایسے موقعے پر عموماً ‘Agent’کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر ایجنٹ تو بھلے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثبت نمائندگی اور باوقار نیابت کے لیے۔ علاوہ ازیں اگر کوئی کسی کا سیانا کارندہ ہو، کسی کا زرخرید ہو، کسی کا گماشتہ ہو، کسی کا چمچہ ہو یا کسی کا ایسا تنخواہ دار ہو جو کہیں اور جاکر اُس کی خاطر کوئی منفی کام کررہا ہو تو ایجنٹ وہ بھی کہلاتا ہے، مگرجہاں واحدی صاحب نے استعمال کیا ہے وہاں ’گُرگا‘ سے زیادہ موزوں لفظ کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
’گُرگا‘ دہلی والوں کی زبان میں چھوکرے، چیلے اور شاگرد کو کہتے ہیں۔ جب کہ لکھنؤ والے اس سے مراد ’شیطان، بدکار، بدوضع اور گھٹیا ملازم‘ لیتے ہیں۔ لیکن فرہنگِ آصفیہ والے مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی فرہنگ میں ’گُرگا‘ کے، مندرجہ بالا مطالب کے علاوہ جو معنی لکھے ہیں اُن کو پڑھ کر ملا واحدی مرحوم کو داد دینے کا دل چاہتا ہے کہ صاحب کیا لفظ چنا ہے ایجنٹی کرنے والوں کے لیے۔ فرہنگِ آصفیہ میں ’گرگا‘ کے جو مزید معنی دیے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
’’برتن مانجھنے والا، برتن دھونے والا، کمینہ نوکر، کمینہ مصاحب، سفلہ مقرب، ادنیٰ ہم راز، شیطونگڑا، اخوان الشیاطین میں سے‘‘۔
جب کہ نوراللغات کے مطابق فارسی میں ’گُرگا‘ ایک قسم کی جوتی (گرگابی)کو بھی کہتے ہیں۔ ضرورت پڑی تو پہن لی، کام نکل گیا تو اُتار پھینکی۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
*نام کتاب : سیرت نگاری اور سیرت کی کتابیں*
*مصنف: مولانا ندیم الواجدی*
*ناشر: دار الكتاب ديوبند*
محترم مولانا ندیم الواجدی صاحب کی شخصیت علمی دنیا میں محتاج تعارف نہیں، گذشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے تصنیفی وتحقیقی دنیا میں اپنا ایک بلند مقام رکھتے آرہے ہیں، آپ کی کتابیں ذہن وفکر کو بالیدگی عطا کرتی ہیں، سیرت النبیﷺ آپ کی علمی کاوشوں کا ایک اہم محور ہے، اور اس موضوع پر مولانا کی یہ تازہ کتاب ابھی چند روز قبل اشاعت پذیر ہوئی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے اپنی اس کتاب کے پیش لفظ میں کتاب کے تعلق سے جو تحریر کیا ہے اسے قارئین کی نذر کیا جائے،عنوان کو دیکھتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ مولانا کی یہ کاوش اہل علم اور سیرت النبی ﷺ کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ان شاء اللہ رہنما کا کام انجام دے گی ( ع۔م۔م)
تاریخ نگاری کی طرح سیرت نگاری بھی ایک فن ہے، مگر دونوں کے انداز تحقیق اور طرز نگارش میں بڑا فرق ہے ، مؤرخین تاریخی روایات کی کتنی ہی چھان پھٹک کیوں نہ کر لیں اور واقعات کے انتخاب میں کتنی ہی داد تحقیق کیوں نہ دے لیں مگر ان کی روایات اور واقعات سیرت کی مستند اور معتبر روایات اور واقعات کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے ، کیوں کہ سیرت کے ہر راوی کو معلوم ہے کہ یہ ایک وادی پر خار ہے، اس وادی کی آبلہ پائی بچوں کا کھیل نہیں ہے، یہاں قدم قدم پر احتیاط کی ضرورت ہے، جو قدم اٹھانا ہے سنبھل کر اٹھانا ہے قلم کی ذرا سی لغزش دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے، کیوں کہ سیرت کا تعلق عام ملوک و سلاطین سے نہیں ہے، عام امراء و حکام سے نہیں ہے بلکہ اس ذات گرامی سے ہے جو وجہ تخلیق کا ئنات ہے ، جو سرور عالم ہے، جو سید ولد آدم ہے جو مبدا انسانیت اور فخر موجودات ہے، پھر مؤرخ کے لیے کوئی شخصیت اور اس شخصیت سے تعلق رکھنے والا کوئی واقعہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے اور آپ کی سیرت طیبہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی واقعے سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اس شخصیت سے وابستگی اور اس ذات گرامی کے اسوے کی تقلید اور اس کے نقش کف پا کی اتباع ہی دنیا میں ہماری کامیابی کی ضمانت اور آخرت میں ہماری سرخ روئی کی علامت ہے، یہی وجہ ہے کہ سیرت نگار جب بھی لکھتا ہے خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھتا ہے، محبت اور عقیدت کے سمندر میں ڈوب کر لکھتا ہے، مگر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا، نہ روایات میں ، نہ الفاظ میں اور نہ جذبات میں ، کیوں کہ وہ کوئی ایسا واقعہ نہیں لکھ سکتا جو معتبر مصنفین نے اپنی کتابوں میں مستند حوالوں کے ساتھ نہ لکھا ہو، نہ وہ ایسے الفاظ لکھ سکتا ہے جو آپ کی شانِ عظمت سے فروتر ہوں ، اور نہ عقیدت و محبت کے ان جذبات میں بہہ سکتا ہو،جو عقیدہ رسالت سے میل نہ کھاتے ہوں ۔
سیرت کے موضوع پر ہر دور میں لکھا گیا ہے، اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا، کیوں کہ
یہ موضوع ہی اتنا مبارک ومسعود ہے کہ ہر صاحب قلم اس موضوع پر لکھنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے کسی بھی زبان کا دامن اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں سے خالی نہیں ہے، سیرت پر لکھی گئی کتابوں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ انیس سو تریسٹھ عیسوی میں اسلامیہ کالج لاہور نے سیرت کی کتابوں کی ایک نمائش کا اہتمام کیا ، اس میں جو کتا بیں عام لوگوں کی زیارت کے لیے لکھی گئیں ان کی تعداد آٹھ سو تھی اور وہ دنیا کی گیارہ زبانوں میں لکھی گئیں تھیں، انیس سو چوہتر عیسوی میں حکومت پاکستان نے اسلام آباد سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا ، اس موقع پر سیرت کی تین ہزار سے زیادہ کتا بیں عام لوگوں کی زیارت کے لیے رکھی گئیں، یہ تمام کتابیں صرف چودھویں ہجری میں شائع ہوئی تھیں۔ اُردو زبان حالاں کہ بہت کم عمر ہے، اس کے باوجود اس زبان میں ہرفن اور ہر موضوع سے متعلق کتا بیں موجود ہیں، اگر ہم سیرت کی کتابوں ہی کو لیں تو ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو سال کے اس عرصے میں لگ بھگ دس ہزار کتا بیں ضرور لکھی گئی ہوں گی، یہ اور بات ہے کہ تمام کتا بیں زندہ نہیں رہتیں ، شہرت اور مقبولیت بہت کم کتابوں کے حصے میں آئی ہے۔
آپ کے ہاتھوں میں جو کتاب ہے اس میں سیرت نگاری کا فنی جائزہ لیا گیا ہے، اور سیرت کی بہت سی کتابوں کا تعارف بھی کرایا گیا ہے، یہ کتابیں عربی میں بھی ہیں اور اُردو میں بھی، مجھے امید ہے کہ سیرت کے موضوع سے دل چسپی رکھنے والے حضرات اس کا مطالعہ کریں گے اور کتاب کے مصنف کو دعاء خیر سے نوازیں گے، اللہ تعالی اس کتاب کو افع اور مقبول بنائےاور اے مصنف کے حق میں صدقہ جاریہ کی حیثیت سے زندہ رکھے،
و ما توفیقی الا بالله
ندیم الواجدی
دار الکتاب دیوبند
۱۰ جنوری ۲۰۲۴
/channel/ilmokitab
📖 Surah Al-Furqan 21 | An-Naml 14
سورة الفرقان ٢١ | النمل ١٤
🎙 Sheikh Talha Bilal
الشيخ طلحة بلال
🗓 Taraweeh - 15th Ramadan 1445
تراويح - ١٥ رمضان ١٤٤٥
*عبد الغنی محتشم : ایک روشن چراغ جس کی روشنی چارسو پھیل گئی*
*عبد المتین منیری ۔ بھٹکل*
بات تو کل ہی کی لگتی ہے ، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے تین سال گذرگئے ، ۲۷۔ مارچ ۲۰۰۸ء تک عبد الغنی محتشم صاحب ہمارے درمیان جیتے جاگتے اپنے بھاری بھرکم تن و توش کے ساتھ موجود تھے ، اس دنیا میں ہر کوئی جانے کے لئے آیا ہے ، ساڑھے نو سو سال کی عمر تو حضرت نوح کے ساتھ اللہ نے مخصوص کی تھی ، حدیث نبوی کے مطابق تو امت محمدیہ کے افراد کی اوسط عمر ساٹھ سے ستر سال کی ہے.
آپ کی ولادت ۲ ؍مئی ۱۹۳۴ء کو ہوئی تھی اس لحاظ سے آپ کی عمر عزیز (۷۴) سال بنتی ہے۔ لیکن کیا عجب شخص تھا، جنازہ بڑے ہجوم کے ساتھ سب کی آنکھوں کے سامنے کاندھوں پر لاد کر غوثیہ محلہ کے بڑے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا ، باوجود اس کے جب بھی شہر پر کوئی افتاد آتی ہے ، اداروں اور جماعتوں میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس کی زندگی کا احساس ہونے لگتا ہے، آنکھیں اس کو تلاش کرتی ہیں اور اس کی یاد ستانے لگتی ہے ،جس طرح انسان کے جسم میں خون کی شریانیں دل پر جاکر رکتی ہیں ، وہ بھی ہمارے معاشرے میں دھڑکتے دل کی حیثیت رکھتا تھا ، جب وہ زندہ تھا معاشرے کی رگوں میں خون کے دوڑنے کا احساس ہوتا تھا ،ایک جملہ تاریخ میں ذکر ہوتا آرہا ہے کہ{تمام راستے رومہ کی طرف جاتے ہیں} نور مسجد کے سامنے آپ کے مکان کی طرف سے بھی کچھ اسی طرح بھٹکل کے تمام راستے ہوکر گذرتے تھے ، آپ کی آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ یہ گھر ڈھنڈار ہوگیا ،بھٹکل میں شمال مشرق و مغرب میں نوائط کالونی ، ساگر روڈ اور مخدوم کالونی وغیرہ دیگر علاقوں سے قدیم شہر جانا ہو، یا قدیم شہر سے اوپر آنا ہو نور مسجد کے سامنے آپ کا مکان راستے میں ضرورملتا ہے اور یہاں کا تین سال پرانا چہچہاتا ماحول آنکھوں سامنے گھومنے لگتاہے اور گھر کے مکین کی یاد آنے لگتی ہے ۔ وہ بھی کیا دن تھے عبدالغنی صاحب جب زندہ تھے فجر کی نماز کے بعد ہو یا مغرب اور عشاء کے بعد اس جگہ ایک عجیب سی زندگی کا احسا س ہونے لگتا تھا ، مرحوم نے اپنے مزاج کی مناسبت سے دنیا میں رہائش کے لئے جگہ منتخب کی تھی ، کتنی اپنائیت بھردی تھی اللہ نے اس جسد خاکی میں ، چھٹیوں میں جب بھی ہمارا وطن جانا ہوتا تو پہلے ہی روز حاضری کی کوشش ہوتی ، ملنے پر ایسا لگتا جیسے ہمارا ہی انتظار ہورہا ہو، وطن پہنچنے پر کبھی ملاقات میں ایک دور وز کی تاخیر ہوجاتی تو بڑی شرمندگی کا احساس ہوتا ، حالانکہ نہ ہماری ان سے کوئی رشتہ دار ی تھی نہ عمر میں کوئی برابری ، اجتماعی معاملات میں بھی ہم ان کے طفل مکتب سے بھی کم حیثیت رکھتے تھے ،لیکن آپ سے باتوں میں کبھی اس فرق کا احساس نہیں ہونے پاتا تھا ، ہمیشہ دل کھول کر باتیں ہوتیں، چبا کر بات کرنا گویا ان کی سرشت میں کہیں لکھا ہی نہیں تھا ، مہتر ہوکے برتر ، افسر ہوکہ چپراسی ، استاد ہو کہ طالب ، معاشرے کے جملہ طبقات کا مکان پر آپ کی موجودگی کے موقعہ پر ملاپ ہوتا، سب ان سے یہاں آکر ملتے ، سب اپنا دکھ درد یہاں آکر بانٹتے ، سب کا مداوا کرنے کی یہاں کوشش ہوتی ۔ الحاج محی الدین منیری مرحوم کے غریب خانے کے بعد اپنی نوعیت کا ایک ایسا نمونہ تھا جس کی مثال اب دور دور تک نظر نہیں آتی ، بس ایک خلا نظر آتا ہے ، ایسا نظر آتا ہے کہ بھٹکل کا نوائط اپنے بیش بہا اداروں اور جماعتوں اور تنظیموں کے باوجود اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف لوٹ رہا ہے اورتپتی دھوپ میں اس کے سر سے چھتناور درخت کا سایہ چھن گیا ہے یا پھر جیسے بیوہ کے سر سے چادر گر گئی ہے ۔ جن حالات سے بھٹکل کا معاشرہ گذررہا ہے اس میں کم ہی ایسا ہوتا ہے جب مرحوم کی یاد نہ آتی ہو۔ لیکن اس دنیا سے ہرایک کو جانا ہے،جب رسول صحابی اور امام نہیں رہے تو ہما شما کی کیا بات ، دوام صرف اللہ کی ذات کو ہے ، وہی حي و قیوم ہے ، اسيکو زوال نہیں ۔
وفیات ۲۶ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلک، لالہ چند۔وفات۔1967
امجد تھانوی،مولانا ڈاکٹر ۔وفات۔2006
صبیح الدین غوثی ۔وفات۔2009
عبدالحئی عارفی، ڈاکٹر محمد ۔وفات۔1986
مرتضیٰ شفیع، پروفیسر ۔وفات۔2002
مشتاق شبنم (مشتاق احمد)۔وفات۔2008
سلطان الاطرش۔وفات۔1982
حسینہ معین۔وفات۔2021
/channel/ilmokitab
وفیات ۲۴ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ فیصل شہید۔وفات۔1975
ساحر عباسی (معشوق علی )۔وفات۔1978
محمد امین مسعود صدیقی۔وفات۔2001
ذاکر حسین فاروقی ، ڈاکٹر۔وفات۔1973
سید محبوب رضوی۔وفات۔1979
رجب علی سرور۔وفات۔1869
ستار طاہر۔وفات۔1993
/channel/ilmokitab
سچی باتیں (۶؍اکتوبر ۱۹۴۱ء)۔۔۔ مساوات اور مواسات کا مہینہ
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
’’اے لوگو ، تم پر ایک عظیم المرتبت اورمبارک مہینہ سایہ فگن ہورہاہے۔ اس مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اس ماہ میں روزے اللہ نے فرض کئے ہیں، اور راتوں میں قیام کو نفل قراردیاہے، اس ماہ میں تقرب کی نیت سے نفل عبادت کا اجربرابر ہے فرض کے اورفرض کا اجربرابر ہے عام اجر فرض کے ستّر گُنے کے۔ لوگو، یہ مہینہ صبر کا ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ مسلمانوں کی باہمی ہمدردی کاہے ……یہ وہ مہینہ ہے جس کے شروع میں رحمت ہے، درمیان میں مغفرت ہے ، اورآخر میں جہنم سے نجات ہے‘‘۔
سچےؐ کی زبان نے جس مہینہ کے یہ فضائل بیان کئے، وہ پھر آگیا ۔ زمین کے گیارہ مہینوں کی گردش کے بعد پھر وہ بہار کا موسم آگیا۔ مسجدیں آباد ہوگئیں، نمازیوں کی آبادی بڑھ گئی۔ تراویحیں ہونے لگیں، قرآن گھر گھر پڑھے جانے لگے۔ سحری کے سہارے تہجد بھی بہتوں کونصیب ہونے لگی۔ افطار کی فرحت الفاظ میں ناقابل بیان۔ اس کی قدربے روزہ خود غریب کیاجانے ! اُس بیچارہ نے روزہ سے جی چُرا کر اپنے کو کسی محنت سے بچایا ہو یا نہ ہو، لیکن افطار کی لذت وفرحت سے تو یقینا اپنے کو محروم کرلیا!
ریلوے میں ایک زمانہ ’’کنسیشن‘‘ کا ہوتاہے۔ ٹکٹ سستے ہوجاتے ہیں، تھوڑے دام میں سفر بہت کچھ ہوجاتاہے۔ روحانیت کی دنیا میں بھی ’’کنسیشن‘‘ کا موسم ہے۔ اور اس رعایت کی شرح اتنی اونچی، کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز۔ تھوڑا کیجئے، اور صلہ بہت کچھ پائیے۔ صبر صرف چند گھنٹوں کے لئے کام میں لائیے۔ ہمت کا امتحان ہلکے سا ہلکا دے کر دیکھئے، اور پھر انعام واکرام بیشمار لوٹ لیجئے……طبّی حیثیت سے جو فوائد ہیں، وہ بیشمار۔ اخلاقی، قومی ڈسپلن کے لحاظ سے بے نظیر۔ اَور پھر آخرت میں اجر ومزد کے جو انبار پر انبار نظرآئیں گے، اُن کے تو اندازہ کے لئے بھی عقل بشری ناکافی……انفرادی، اجتماعی، جسمانی، روحانی، جس پہلو سے بھی جانچئے، پرکھئے، اس بے مثال ادارہ کی مثال نہ کسی دوسرے مذہب میں نظرآئے گی، نہ کسی دوسری قوم میں۔ مسلمان، رسمی اور اسمی مسلمان، اس گئی گزری حالت میں بھی، صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہ کر نماز ہروقت کی پڑھے گا، اور شام کو تازہ دَم ہوکر پھر نماز کے لئے کھڑا ہوجائے گا۔ یہ نہ ہوگا کہ شروع رات سے پَیر پھیلا کرسوئے ، نماز اول شب میں ہمیشہ ۱۷رکعتیں پڑھتاتھا، اب مہینہ بھر ۳۷رکعتیں پڑھے گا، اور پچھلی رات میں جوکچھ پڑھے گا، وہ اُس کے علاوہ!
بھوک کی قدر وہی کرسکتاہے جو خود بھی کبھی بھوکا رہے۔ اور پیاسوں کے ساتھ ہمدردی اُسی کو ہوسکتی ہے جو خود بھی کبھی پیاسا رہ کر دیکھے۔ یہاں سوال ’’کبھی‘‘ کا نہیں، عمر کے ہر سال، اور ہر سال کے پورے مہینہ بھر کے لئے لازمی ہے، کہ بڑے سا بڑا، امیر بھی اس حیثیت سے اپنے کو روزانہ ۱۲۔۱۲،اور ۱۵۔۱۵گھنٹے پانی دانہ سے محروم رکھ تجربہ کرے کہ بھوک اور پیاس کہتے کسے ہیں……گرمیوں کا موسم، پہاڑ کے سے دن، امیر سا امیر مسلمان صبح تڑکے اُٹھے گا، چائے کا وقت آئے گا اور گزر جائے گا۔ نہ چائے نہ ناشتہ ، دوپہر آئے گی اور پھر فاقہ، سہ پہر آئے گا، اور نہ شربت نہ آئس کریم نہ برف کی قلفیاں ، نہ سگرٹ نہ پان، نہ سگار نہ پیچدان۔ جو دن میں کئی کئی بار کھانے اور ناشتہ کا عادی، وہ ایک لقمہ بھی زبان پر نہ رکھ سکے گا۔جودن میں گلاس پر گلاس برف کے چڑھاجانے کا عادی، وہ ایک قطرہ سے بھی زبان کی خشکی نہ دُور کرسکے گا! دنیا کے سارے مذہبوں، ساری قوموں کا جائزہ لے ڈالئے ہے کہیں کوئی مثال اس مساوات کی، اوراس مواسات کی، اس صحیح اور سچی اشتراکیت کی، اس صحیح اور سچی عبدیت کی؟
Https://telegram.me/ilmokitab
ترکی کا مرد مجاہد مولانا بد یع الزمان سعید نورسی ۔ تحریر شیخ محمد سعید رمضان البوطیؒ ۔ (ترجمان القرآن جنوری ۱۹۶۴ء)
Читать полностью…سلسلہ نمبر: 34
انتخاب مطالعہ
تحریر: مولانا مناظر احسن گؔیلانیؔ
*ختم نبوت*
اور شاید کہ اس ہستی مبارک کے اسی غیر منقطع ارتقائی تسلسل کا نتیجہ ہے: کہ اس کے بعد نبوت کا یہ دعویٰ دور از کار ہے، اس دعوے کا ہر مدّعی فالتو، اور زمین کی پشت کا بالکل غیر ضروری بار ٹہرایا گیا ہے، چھٹی صدی کے بعد زمانے کے ہر حصے میں ٹہرایا گیا، دنیا کے ہر خطے میں ٹہرایا گیا،
اور جن بدبختوں کے دل میں کبھی اس منصب کی جھوٹی ہوک اٹھتی ہے، یا اٹھوائی جاتی ہے، تم دیکھو! خلاف دستور بنی آدم کتنی بدسلوکیوں کے ساتھ آخر وقت تک اس کو دردراتے، دھتکارتے رہے، اٹھنے کو تو یہ اٹھ جاتے ہیں ؛ لیکن چند مغالطی پینتروں کے بعد ہی ان کو خود یہ محسوس ہوتا ہے: کہ ان کے لیے دنیا میں کوئی کام نہیں، بنی آدم کی بستیوں میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، پھر یوں ہی بازاری بیروزگاروں کی طرح بالآخر سرگردانی کے ساتھ بھٹکتے، بھٹکاتے بـ ہزار حسرت و ناکامی، نامرادی کے گڑھوں میں ہمیشہ کے لیے مدفون ہوگئے، تاریخ اسکی شاہد ہے : کہ بوالہوسیوں کے پھپھاروں سے بے چین و مدہوش ہو ہو کر اگر کوئی نبوت کا نام لیکر کبھی اٹھا بھی، تو قدرت کے انہیں ہاتھوں نے جلتی گھانس کے خاکستر کے مانند اسکو وہیں بٹھادیا، چودہ سو سال کا یہ تجربی مشاہدہ ہے ...
اگرچہ کھلے کھلے صاف غیر مبہم لفظوں میں بار بار اس کی منادی بھی کردی گئ تھی، اور نبوت و رسالت کے سلسلے میں یہ پہلی منادی تھی: کہ اب آسمان کا پیغام لے کر زمین والوں کے پاس کوئی نہیں آئے گا ؛ یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت کی ت
اس سنگین مہر سے جو بھی ٹکراتا ہے، وہی پاش پاش ہوجاتا ہے، اور قدرت کی چٹان پر سرمارنے کا یہ لازمی نتیجہ ہے،
بالفرض اگر یہ اعلان نہ بھی ہوتا، جب بھی آخر دنیا کیا کرتی؟! آنے والے تو ہمیشہ اس وقت آتے ہیں، اُن میں آتے ہیں جب جانے والا جا ہی چکے ؛ لیکن ایسا آنیوالا، جو اس شان کے ساتھ آیا کہ بجائے جانے کے وہ آگے ہی بڑھتا رہا، بڑھ رہا ہے، گنجائش ہی کیا ہے کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا آئے۔
( *النّبی الخاتم، صفحہ: 100، طبع:المیزان ناشران و تاجران کتب، الکریم مارکیٹ، اردو بازار، لاہور*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
بمبئی کی بزم آرائیاں
معصوم مرادآبادی
وسطی بمبئی کا مدن پورہ علاقہ اپنی روایتی بھیڑ بھاڑ کے لیے مشہور ہے۔ اس کی ایک تنگ گلی میں واقع جونی مسجد کے پہلو میں محفل جمی ہوئی ہے۔ میں ایک نوآمیز طالب علم کے طورپر اس محفل کا حصہ ہوں۔ جونی مسجد ٹرسٹ کے روح رواں یاسین انصاری محفل میں مسلسل رنگ بھررہے ہیں۔ اچانک ایک شخص کی آمد ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے”یاسین بھائی کمیونسٹ پارٹی والوں نے آج فلورا فونٹین پرکیا زبردست مورچہ نکالا ہے۔کم سے کم پچاس لاکھ آدمی تھا۔“ یاسین بھائی کہتے ہیں ”کیا بولا۔ پچاس لاکھ؟“ اس نے کہا کہ”کم سے کم پچیس لاکھ تو تھا ہی۔“ وہ پھر کہتے ہیں ”ٹھیک ٹھیک بول نا۔“وہ کہتا ہے کہ ”دس لاکھ سے کم نہیں تھا۔“ یاسین بھائی اسے پھر ٹوکتے ہیں ”سچ کیوں نہیں بولتاتو اس نے کہا ”پانچ لاکھ تو تھا ہی۔“ یاسین بھائی اپنے کارندے کو بلا کر کہتے ہیں ”چائے پلاؤ نا اس کو۔“ اس کا بیان جاری رہتا ہے۔ یاسین بھائی اب بھی مطمئن نہیں ہیں اور اسے برابر کریدتے رہتے ہیں۔ صحیح صحیح بتاکتنے لوگ تھے۔ آخر میں وہ کہتا ہے کہ قسم سے بولتا ہوں یاسین بھائی پانچ ہزار سے کم تو کسی بھی صورت نہیں تھے۔اتنے میں چائے آجاتی ہے۔ یاسین بھائی کہتے ہیں ”تو کہتا ہے تو مان لیتا ہوں ورنہ پانسو سے زیادہ نہیں ہوں گے۔“
یاسین انصاری مدنپورہ کے کارپوریٹررہ چکے تھے۔انھیں محفلیں سجانے کا شوق تھا۔علاقہ کی مقبول ترین شخصیت تھے۔ سیاہ رنگ اور اجلے دماغ کے اس شخص نے بہت سے سماجی کام کئے ہیں، جن میں سب سے نمایاں کام جونی مسجد کو چمکانے کا ہے۔ ایک بوسیدہ مسجد کی شاندار تعمیر کے لیے چندہ خوری کی بجائے ایک ٹرسٹ بنایا۔ پہلو میں خالی پڑی ہوئی جگہ پر شادیوں میں استعمال ہونے والا سامان جمع کرکے کرایہ پر دینا شروع کیا اور اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ پیدا کرلیا۔ جس سے شاندار مسجد کی تعمیر ممکن ہوئی۔مذکورہ واقعہ کے کوئی چالیس برس بعد اپنے حالیہ سفر کے دوران میں مدن پورہ علاقہ میں ڈھونڈتا ہوا جونی مسجد تک تو پہنچ گیا، لیکن مجھے وہاں نہ تو یاسین بھائی ملے اور نہ ہی ان کی وہ محفل جہاں میں بمبئی کے سفر میں اکثر جایا کرتا تھا۔ یاسین بھائی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ مسجد کی ذمہ داریاں دوسرے لوگوں نے لے لی ہیں۔ کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا۔ یاسین بھائی کے گھر والے بھی وہیں رہتے ہیں، لیکن شب برات کی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے کسی سے ملاقات نہیں ہوسکی۔
یاسین بھائی سے میری ملاقات میرے کرم فرما جیلانی میاں نے کروائی تھی، جو اس وقت دہلی سے ”المیزان“ کے نام سے ایک دینی ماہنامہ شائع کرتے تھے۔میں اس کی تزئین کاری پر مامور تھا۔ اسی دوران مجھے ایک بار وہ اپنا شہر بھیونڈی دکھانے لے گئے۔ اسی دوران ہم نے کئی روز بمبئی میں قیام کیا۔جیلانی میاں کا تعلق کچھوچھہ شریف کی خانقاہ سے ہے۔بہت بزلہ سنج انسان ہیں۔برسوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ سناہے کہ ان دنوں لکھنؤ اور لندن کے درمیان سفر میں رہتے ہیں۔یہ نوّے کی دہائی کازمانہ تھا۔ میں نیا نیا صحافت میں آیا تھا اور اس کے اسراررموز سیکھ رہا تھا۔ میرا دل درسی کتابوں سے زیادہ ایسی محفلوں میں لگتا تھا۔ اسی دوران کوئی مجھے زکریا اگھاڑی کے پاس بھی لے گیا تھا۔ دعا سلام ہی ہوئی تھی کہ ان کے فون کی گھنٹی بجی۔ زکریا اگھاڑی کا تعلق گجرات سے تھا اور وہ بمبئی کے سربرآوردہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ میمن بینک کے چیئرمین بھی تھے۔انھیں فون پر کسی نے بتایا کہ کسی عزیز کا گردہ خراب ہوگیا ہے۔ اسے تبدیل ہونا ہے۔ دس لاکھ کی ضرورت ہے۔ زکریا اگھاڑی نے ایک لاکھ اپنے پا س سے ڈال کر فون پر ہی باقی نو لاکھ کا انتظام کرلیا۔ صرف نوفون کالوں کے ذریعہ۔ میں سارا منظر دیکھتا رہا۔ کیا جذبہ ہے۔ بمبئی کے لوگوں میں اس جذبے کی فراوانی ہے۔ ایسے مخیر اور دل والے لوگ آپ کو بمبئی میں ہی مل سکتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد 1986 میں جب میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کی کوریج کے لیے بمبئی گیا تو اس دوران حج کمیٹی کے چیئرمین امین کھنڈوانی سے بھی ملا تھا۔ بمبئی کے عالیشان حج ہاؤس کی تعمیر ان ہی کوششوں سے عمل میں آئی تھی۔انھوں نے حکومت پر تکیہ کرنے کی بجائے عازمین حج سے معمولی معمولی چندہ جمع کیا اوربندرگاہ پرایک عالیشان حج ہاؤس تعمیر کردیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب بیشتر عازمین بحری جہازوں سے سفر کرتے تھے۔اب یہ حج ہاؤس تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کے کام آتا ہے۔ مرکزی حج کمیٹی کا دفتر بھی یہیں ہے۔ میں جب بھی بمبئی جاتا ہوں تو اس پر قرآنی خطاطی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ یہ میرے خطاطی کے استاد محترم خلیق ٹونکی کے فن کا شاہکار ہے۔میں نے اسی دور میں بمبئی میں مولانا ضیاء الدین بخاری، انڈرورلڈڈان کریم لالہ اور حاجی مستان کے انٹرویو بھی لیے تھے۔حاجی مستان تک لے جانے کی زحمت معروف صحافی سعید حمید نے اٹھائی تھی۔ جبکہ کریم لالہ تک شمیم طارق لے کر گئے تھے۔ بمبئی کی ایک اور سماجی شخصیت علی ایم شمسی سے بھی اسی دور میں ملاقاتیں ہوئی تھیں۔میں نے اسی
بشیرؔ رامپوری حضرت داغؔ دہلوی سے ملاقات کے لیے پہنچے تو وہ اپنے ماتحت سے گفتگو بھی کررہے تھے اور اپنے ایک شاگرد کو اپنی نئی غزل کے اشعار بھی لکھوا رہے تھے۔ بشیر ؔصاحب نے سخن گوئی کے اس طریقہ پر تعجب کا اظہار کیا تو داغؔ صاحب نے پوچھا، ’’خاں صاحب آپ شعر کس طرح کہتے ہیں؟ بشیرؔ صاحب نے بتایا کہ حقہ بھروا کر الگ تھلگ ایک کمرے میں لیٹ جاتا ہوں۔ تڑپ تڑپ کر کروٹیں بدلتا ہوں، تب کوئی شعر موزوں ہوتا ہے۔‘‘ یہ سن کر داغ مسکرائے اور بولے، ’’بشیر صاحب! آپ شعر کہتے نہیں، شعر جنتے ہیں۔‘‘
/channel/ilmokitab
جنوبی ہند کی ایک نادر اردو تفسیر فیض الکریم اور اس کے مصنفین۔۔۔ تحریر: مولانا اخلاق حسین قاسمی(مکمل مضمون)۔۔۔میں نے یہ مضمون وورڈ پر کنورٹ کیا ہے، کوئ صاحب اس کی املائی غلطیوں اور ترتیب کو درست کرکے ارسال کریں تو بڑی مہربانی ہوگی۔مکرر محنت سے بچنے کے لئے فرمائش پر یہ فائل ان شاء اللہ بھیجدوں گا۔ عبد المتین منیری
Читать полностью…تلاوت پارہ (۰۱) مولانا سید محمد عفان منصور پوری ۔ تراویح جامع مسجد دیوبند
Читать полностью…تعارف کتاب: اعزاز (نعتیہ شعری مجموعہ)۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب : اعزاز ( نعتیہ شعری مجموعه )
شاعر : خالد عرفان
160 : صفحات قیمت 500 روپے
ناشر : اردو مرکز ( لاس اینجلس ) یوایس اے
رابطہ: 03146966787
ایمیل: khalidirfan@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشقِ رسول ﷺ اور شاعرانہ ہنرمندی نعت کے دو بنیادی حوالے ہیں۔ نعت گوئی کا ایک بڑا مشکل مرحلہ توازن اور اعتدال کا ہے۔ شاعر جوشِ عقیدت میں یا تو حدود سے تجاوز کرجاتا ہے یا پھر سوئِ ادب کا مرتکب ہوتا ہے۔ دامن کو آلودہ کیے بغیر دریائے عشق میں غوطہ لگانا، اور پھر اس پورے تجربے کو تخلیقی تجربے کی سطح پر لے جاکر شاعرانہ ہنرمندیوں کے ساتھ بیان کرنا بہت دشوار ہے۔ شاعرانہ تخیل کو نعت گوئی میں بھی آدابِ عشق کا پاس ازبس ضروری ہے۔
پیشِ نظر کتاب ’’اعزاز‘‘ ممتاز مزاح نگار اور نعت گو شاعر خالد عرفان کا دوسرا نعتیہ شعری مجموعہ ہے۔ خالد عرفان کا پہلا مجموعہ نعت ’’الہام‘‘ 1986ء میں شائع ہوا تھا۔ ’’لقمہ شر‘‘،’’ بڑے لوگ‘‘، ’’نوپرابلم‘‘، ’’ایکسکیوزمی‘‘، ’’چٹکی میں زعفران‘‘اور’’ناقابلِ اشاعت‘‘ جیسے طنزیہ مزاحیہ مجموعوں کی تخلیق کے بعد نعت کی طرف آنا توفیق ِ ایزدی ہی ہے۔
خالد عرفان کے متعدد نعتیہ اشعار ایسے ہیں جنھیں عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ان پر طرحی مشاعرے ہوئے۔ انڈیا اور امریکہ کی اکثر محفلوں کا آغاز ان کے اس شعر سے ہوتا ہے:
میں نعتِ احمدِ مختار پڑھنے والا ہوں
تم اپنے ذوقِ سماعت کو باوضو رکھنا
خالد عرفان کے پاس کہنے کے لیے بات بھی ہے اور کہنے کا سلیقہ بھی۔ بقول پروفیسر اقبال عظیم: خالد عرفان کے لہجے میں تازگی ہے، زبان و بیان میں وہ پختگی ہے جو عام نہیں، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان اشعارکا غالب عنصر وہ پاسِ ادب ہے جو نعت گوئی کی شرطِ اوّل ہے۔ خدا اور رسول ﷺ کے ساتھ خوبصورت تعلق کے اس اظہار کو ملاحظہ کیجیے:
وہ میرے دل میں مکیں ہیں، یہ میری شہہ رگ میں
نہ مجھ سے دور محمدؐ، نہ مجھ سے دور خدا
……
وہ حبیبِ ربِّ جلیل ہیں
وہ مرے خدا کی دلیل ہیں
خالد عرفان اُن خوش نصیب لوگوں میں سے ہے جنھیں دلاور فگار، راغب مرادآبادی، محشر بدایونی، شاعر لکھنوی، امید فاضلی، شبنم رومانی، محسن بھوپالی جیسے شعراء کی صحبت حاصل ہوئی۔ مرحوم و مغفور نعیم صدیقی کی کتاب ’’محسنِ انسانیت‘‘نے انھیں نعتیہ شاعری کی طرف متوجہ کیا۔ علامہ نسیم احمد صدیقی نوری کے مشورے سے خالد عرفان نے اپنی نعتوں میں سائنسی تخیلات کو نمایاں جگہ دی، اور اس سائنسی دور کی ایجادات، اختراعات اور تجربات کو بعض اشعارِ نعت میں بڑی عمدگی سے تشبیہاتی و استعاراتی انداز میں برتا ہے۔درجِ ذیل اشعار اس کی عمدہ مثال ہیں:
رسولِ پاکؐ کی سیرت سے روشنی پاکر
تمام چاند ستارے ہمارے جادہ ہیں
جہاز و راکٹ واسکائی لیب و طیارے
براقِ سرورِ عالم سے استفادہ ہیں
………
معمور ہے ہستی کی ہر اک جنس انھیں سے
منسوب ہے ہر عہد کی سائنس انھیں سے
بقول ڈاکٹر ابوالخیر کشفی: یہ عہدِ حاضر کے ایک ایسے صاحبِ شعور و ایمان شخص کا نتیجہِ فکر ہے جو مذہب اور سائنس کی تطبیق کی کوشش کررہا ہے بلکہ آج سائنس کے لیے مذہب اور اسمِ محمد ﷺ کو ثبوت کا درجہ دے رہا ہے۔
معراجِ محمدؐ نے کیا راز جو افشا
وہ راز خلاؤں سے ہوا پوچھ رہی ہے
پھیلائے ہوئے گوشہِ دامانِ تجسس
سائنس محمدؐ کا پتا پوچھ رہی ہے
خالد عرفان نے نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے اہم اور بڑے واقعات کی عظمتوں تک پہنچنے اور تاریخِ کائنات کے لیے ان کی اہمیت کو سمجھنے کی سعیِ بلیغ کی ہے۔سیرتِ طیبہ کا ایک اہم باب سفرِ طائف بھی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ تبلیغِ دین کے لیے زیدؓ بن حارثہ کے ہمراہ طائف تشریف لے گئے۔ طائف کے لوگوں نے نہ صرف آپ ﷺ کی بات کو سننا گوارا نہ کیا، بلکہ اس پر مستزاد شہر کے اوباشوں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا کہ آپؐ پر سنگ باری کرکے بھگادیں۔ اُن کی بدسلوکی اور سنگ باری کے باعث آپؐ لہولہان ہوگئے۔ملک الجبال آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت طلب کی کہ اگر حکم ہو تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملادیاجائے۔ لیکن رحمۃ للعالمین ﷺ نے ان کی بربادی کے بجائے ہدایت کی دعا فرمائی۔ خالد عرفان کہتے ہیں:
یہ ظرف، یہ ادائے رسالت تو دیکھیے
دشمن بھی ان کے پیش نظر تھے دعاؤں میں
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بے شمار معجزات عطا فرمائے۔ آپؐ کے لعابِ مبارک میں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ رکھی تھیں۔غزوہ خیبر کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے۔ آپ ﷺ کے حکم سے انھیں بلایا گیا۔ آپ ﷺ نے اپنا لعابِ مبارک ان کی آنکھوں میں لگایا تو وہ فوراً ٹھیک ہوگئیں، جیسے انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔اور بھی متعدد مواقع پر آپ ﷺ کے لعابِ مبارک کی برکتوں کا ظہور ہوا۔ اس حوالے سے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ بھرتی کہاں کروں دلِ خانہ خراب کی؟۔۔۔ تحریر: احمد حاطب صدیقی
نئی حکومت آتی ہے تو نئی نئی بھرتیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ نئے وزیراعظم بھرتی کیے جاتے ہیں، نئے وزیر اور نئے مشیر۔ پَر ہوتے یہ سب پُرانے ہی شکاری ہیں، جال سمیت۔ کبھی ہوتا ہوگا کہ ’نیا جال لائے پُرانے شکاری‘۔ مگر اب تو جال بدلنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔
’بھرتی‘ عجیب لفظ ہے۔ اس کے لفظی معنی ہیں: کسی چیز کو کسی چیز میں بھردینا۔ خالی جگہ پُر کرنا۔ بھرنے کے عمل میں بسا اوقات اچھی خاصی زور زبردستی بھی کرنی پڑتی ہے۔ بھری جانے والی چیزوں کو کبھی کُوٹ کُوٹ کر بھرا جاتا ہے، کبھی ٹھونس ٹھونس کر۔ پرانے محکموں میں نئے ملازم رکھے جاتے ہیں تو، نہ جانے کیوں، اس کارِ ضروری کو بھی ’بھرتی‘ ہی کا عمل گردانا جاتا ہے۔ ہم نے تو سنا ہے کہ فوج میں بھی ’بھرتی‘ ہوا کرتی ہے۔ شاید یہی دیکھ کر حضرتِ داغؔ بھی ایک ’بھرتی گھر‘کھول کر بیٹھ گئے تھے، جنت دوزخ کا بھرتی گھر۔ پھر اس پھیر میں پڑگئے:
دوزخ جگہ عذاب کی، جنت ثواب کی
بھرتی کہاں کروں دلِ خانہ خراب کی؟
’بھرتی‘ کا ایک مفہوم ’بُری بھلی چیز سے کوئی کمی پوری کردینا‘ بھی ہے۔ کمی پوری کرنے کا یہ کام اکثر وبیشتر شاعری میں کیا جاتا ہے، جس سے بھرتی کے اشعار کی صنعت وجود میں آتی ہے۔ مگر کابینہ نئی ہو یا پرانی… وزرا، مُشرا کُوٹ کُوٹ کر بھرے گئے ہوں یا ٹھونس ٹھونس کر… بغور جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہیں سب ’بھرتی‘ کے۔ میرؔ صاحب، یوں تو کہا کرتے تھے کہ ’’ہو کوئی بادشاہ، کوئی یاں وزیر ہو۔ اپنی بلا سے، بیٹھ رہے جب فقیر ہو‘‘۔ مگر پتا چلا کہ ’’اندرخانے‘‘ اُن کا دل کسی ’گھریلو کابینہ‘ (Kitchen Cabinet) میں مشیر بھرتی ہوگیا تھا، انجام وہی ہوا جو کسی خاندانی کابینہ کا باورچی خانے کے مشیروں کے ہاتھوں (باورچی خانے سے صوبائی ’کابینے‘ تک) ہوا کرتا ہے:
ایسا ہی اُس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو
جس خانماں خراب کا یہ دل مشیر ہو
بھرتی کا موضوع آج یوں چھڑ گیا کہ نئی سرکار آتی ہے تو پُرانے سرکاری افسروں سے بھی چھیڑ چھاڑ فرماتی ہے۔ شطرنج کے مہروں کی طرح اِسے یہاں سے اُٹھایا، وہاں رکھ دیا اور جو وہاں تھا اُسے نہ جانے کہاں رکھ دیا؟ رکھ کر بھول گئے۔کسی کو ’ناکارہ‘ جانا تو اُسے ’افسر بکارِ خاص‘ بنادیا۔ پہلے سے بھرتی کیے گئے افسروں کے ساتھ کیا جانے والا یہ سلوک ’ تعیناتی‘ (تلفظ: تعی ناتی) کہلاتا ہے۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ پر آج کل تواتر سے اس عمل کو ’تعیُّناتی‘ کہا جارہا ہے۔ تواتر سے یوں کہا جارہا ہے کہ نئی نئی تعیناتیاں بھی تواتُر ہی سے ہورہی ہیں۔
تعیُّن کا مطلب ہے مخصوص کرنا، معیّن کرنا، طے کرنا، نشان دہی کرنا یا حد بندی کرنا۔ کسی کو بغیر شبہے کے دیکھنا، مثلاً چوری یا قتل کے مجرم کا یقین سے تَعَیُّن۔ تعیُّن کا ایک مطلب کوئی چیز مثلاً وقت وغیرہ مُعیّن کردینا بھی ہے۔ جیسے تسلیمؔ اپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کیوں کر کہوں احباب سے کس وقت ملوں گا
اوقات کا وحشت میں تعیُّن نہیں ہوتا
تعیُّن اصطلاحِ تصوف میںقید، روک اور مطلق کے برعکس ہونے کو بھی کہتے ہیں۔جیسا کہ سوداؔ نے کہا:
پردے کو تعیُّن کے درِ دل سے اُٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا
پردہ اُٹھواتے اُٹھواتے سوداؔ ’طلسمات‘ کو ’واحد‘ باندھ بیٹھے۔ لیکن کیوں؟ بھئی مرضی اُن کی! اُردو اُن کے گھر کی لونڈی تھی۔
تعیُّن کی جگہ اکثر ہم تَعیین (تلفظ: تَع اِین) بھی بولتے ہیں۔ جیسے اقبالؔ نے بولا اور غالباً ’کابینہ سازی‘ ہی کے کھیل میں بولا کہ
اس کھیل میں تعیینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں میں پیادہ
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مُہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارارہ
اسی تَعیین سے ہم نے تعینات اور تعیناتی بنا لیا ہے، جس کا تلفظ ’تعی نات‘ اور ’تعی ناتی‘ بنتا ہے۔ مگر اہلِ زبان کو ہم نے ’تعے نات‘ اور ’تعے ناتی‘ بولتے بھی سنا ہے۔ ’تعینات‘ کرنے کا مطلب ہے کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کردینا، اورتعیناتی کا مطلب ہے ’تقرری‘، کوئی فریضہ سونپنا یا کسی کو کسی پر مسلط کردینا۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں جب ہم اپنی نانی اماں (رحمہا اللہ) کو پریشان کرتے اور جس کام میں وہ مصروف ہوتیں اُس میں حرج ڈالنے والی حرکتیں کرتے تو وہ جھنجلا کرکہا کرتیں:
’’تم کیوں ہمارے اوپر تعینات کردیے گئے ہو؟‘‘
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لفظ ’تعیُّنات‘ یا ’تعیُّناتی‘ نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ پرسرکاری اطلاعات ’منہ زبانی‘ پہنچانے والے یا پڑھ پڑھ کر خبریں سنانے والے اگر چاہیں تو اپنے تلفظ کی اصلاح کرلیں۔ چلتے چلتے ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ تعیُّن عربی لفظ ہے، تَعیین فارسی لفظ ہے اور تعینات یا تعیناتی خالص اُردو اصطلاح ہے۔
وفیات ۲۲ مارچ
أ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسان دانش ۔وفات۔1982
ابو محمد جائسی،حافظ ۔وفات۔1973
احمد فاخر ۔وفات۔1998
آفتاب احمد صدیقی، ڈاکٹر ۔وفات۔1998
بزمی انصاری (عبدالصمد)۔وفات۔1989
جیلانی چاندپوری،علامہ ۔وفات۔2005
ڈاکٹر صابر کلوروی ۔وفات۔2008
احمد یاسین۔وفات۔2003
مولاناسید نصیر احمد فیض آبادی۔وفات۔2011
پروفیسر حمید احمد خاں۔وفات۔1974
قاضی محمد عدیل عباسی۔وفات۔1980
شیخ احمد یسین۔وفات۔2004
ڈیویڈ مارگولیتھ۔وفات۔1940
ساگر سرحدی۔وفات۔2021
یزدانی جالندھری۔وفات۔1990
/channel/ilmokitab