علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
https://surahapp.com
یہ مصحف ہمیں بہت پسند ہے، ایک طالب علم کے لئے اس میں جو تعلیمی سہولتیں ہیں شاذ و نادر ملتی ہیں۔(ع۔م۔م)
*صبر و شکر، زندگی کی دوہری منزل ہے*
*حضرت علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ، اپنے مسترشد، مولوی سید عبد الرؤف مرحوم کو ایک اصلاحی خط کے جواب میں ایک جگہ لکھتے ہیں:* حضرت والا (تھانوی) رحمۃ اللّٰه علیہ کا ملفوظ ہے کہ بندہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو بندہ کو نعمت ملتی ہے تو اس پر شکر واجب ہے اور ابتلا پیش آتا ہے تو اس پر صبر مامور ہے۔ اور دونوں حالتیں، موجب ازدیادِ ترقی ہیں۔ اور صبر و شکر کی دوہری منزل، پوری زندگی کے سفر میں بنتی رہتی ہے۔ سبحان اللّٰه۔
سلوکِ سلیمانیؒ، حصہ سوم/صفحہ: ۲۰۹/۱۰
/channel/ilmokitab
رضا لائبریری کا المیہ
معصوم مرادآبادی
رامپور رضا لائبریری کے ڈائریکٹر کے طورپر حکمراں بی جے پی کے ایک کارکن کی نامزدگی نے علمی وثقافتی حلقوں میں تشویش کی لہردوڑا دی ہے۔ڈائریکٹر کا عہدہ گزشتہ چار سال سے خالی پڑا ہوا تھا اور حال ہی میں تقرری کی شرائط میں سنسکرت جاننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ جبکہ ایشیا ء کی اس عظیم لائبریری میں عربی، فارسی، اردواور ترکی زبانوں کے نادرونایاب مخطوطات اور کتابیں پائی جاتی ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزراکہ لکھنؤ میں قایم کی گئی خواجہ معین الدین چشتی عربی، فارسی، اردو یونیورسٹی کا کردار تبدیل کرکے اسے لینگویج یونیورسٹی میں بدلاگیا تھا اور وہاں سے اردو کے بورڈ بھی ہٹادئیے گئے تھے۔ اسی قسم کے خدشات اب رضالائبریری کے تعلق سے بھی ظاہر کئے جارہے ہیں، کیونکہ جس لائبریری میں مولانا امتیازعلی خاں عرشی، ڈاکٹر عابد رضا بیدار اور ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی جیسے ماہرین علم وفن ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہوں، وہاں ایک سیاسی شخص کی تقرری کیا معنی رکھتی ہے۔نئے ڈائریکٹر کی واحد خوبی یہ ہے کہ وہ بی جے پی کی اترپردیش یونٹ کے ممبر رہ چکے ہیں اور انھیں حاکمان وقت کا اعتماد حاصل ہے۔ان کی ایک ایسی تصویر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ زعفرانی رنگ کا انگوچھا گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ رامپور رضا لائبریری ایشیاء کے کتب خانوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ اس لائبریری کی خصوصیت یہی نہیں ہے کہ یہاں نادرونایاب کتابیں،قلمی نسخے اور پینٹنگز موجود ہیں بلکہ جس دل آویز عمارت میں یہ قایم ہے، وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی لائبریری ہو جو ایک ایسے محل میں قایم کی گئی ہے جس کے ستون وگنبد پر سونے کی ملمع کاری ہے اور جہاں سو سال پہلے آویزاں کئے گئے قمقمے آج بھی ویسے ہی روشن ہیں۔اس لائبریری کی کمان ہمیشہ ایسے ہاتھوں میں رہی ہے جنھوں نے اس کی تاریخی اہمیت کوملحوظ رکھا ہے، لیکن چار سال کے وقفہ کے بعد حال ہی میں اس لائبریری میں ڈائریکٹر کے طور پر ڈاکٹر پشکر سنگھ کی تقرری نے لائبریری کے مستقبل پر ہی سوالیہ نشان قایم کردیا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ آزادی سے قبل ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں جو شخصی حکومتیں قایم تھیں اور جن کی قیادت نوابین کرتے تھے، ان میں کئی ریاستیں ایسی بھی تھیں جنھوں نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ علم وفن کی توسیع و ترقی پر صرف کیا۔ ان میں اولین ریاست حیدرآباد دکن کی تھی جہاں کا سالارجنگ میوزیم اور لائبریری اس کے گواہ ہیں، جبکہ دوسرا نام ریاست رامپور کا ہے، جہاں کی رضا لائبریری اپنے نادر ونایاب مخطوطوں اور نوادرات کی وجہ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔رامپور رضا لائبریری کی بنیادریاست کے بانی نواب فیض اللہ خاں (1774تا 1794)نے رکھی تھی، جو علم وفن کے سرپرست اور علم دوست انسان تھے، لیکن اس کتب خانے کی ترقی کا اصل دور نواب محمدسعید خاں کی مسند نشینی (1840)سے شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے دیگر محکموں کی اصلاح کے ساتھ کتب خانے کی طرف توجہ دی۔قلمی کتابوں کی فراہمی کے ساتھ نادر ونایاب کتابوں کی نقلیں بھی کرائیں۔بعدازاں نواب کلب علی خاں نے 1865میں اپنی مسند نشینی کے بعد اس کتب خانے کو چارچاند لگائے۔نواب حامد علی خاں کی 1889میں تخت نشینی کے بعد مسیح الملک حکیم اجمل خاں اس لائبریری کے افسراعلیٰ مقرر ہوئے اور انھوں نے عربی کتب کی طرف خاص توجہ دی۔نواب حامد علی خاں کے انتقال کے بعد 1930نواب رضا علی خاں نے زمام حکومت سنبھالی تو مولوی نجم الغنی خاں (مولف’اخبار الصنادید‘)کو لائبریری کا ناظم مقرر کیا۔ 1932میں ان کے انتقال کے بعد مولانا امتیازعلی خاں عرشی کو کتب خانہ کا ناظم بنایا گیا، جو رضا لائبریری کے سب سے مشہور ناظم کہلاتے ہیں۔ عرشی صاحب نامور محقق اور ماہر غالبیات تھے۔ انھوں نے اپنے گراں قدرعلمی وتحقیقی کارناموں کی چھاپ چھوڑی۔
ملک کی آزادی کے بعد 1949میں ریاست رامپور صوبہ اترپردیش میں ضم ہوگئی تو نواب رضا علی خاں نے یہ کتب خانہ قوم کے نام وقف کردیا اور اس کا نام اسٹیٹ لائبریری سے بدل کر رامپور رضا لائبریری رکھا گیا۔1951میں اس کے انتظام کے لیے ایک ٹرسٹ بناکر تمام مصارف یوپی حکومت نے اپنے ذمہ لے لیے۔1957میں لائبریری قدیم عمارت سے ’حامدمنزل‘ میں منتقل ہوگئی، جسے نواب حامد علی خاں نے 1905میں ایک محل کی طرز پر تعمیر کرایا تھا۔ یہ خوبصورت عمارت انڈو یوروپین طرز کا بہترین نمونہ ہے۔عمارت کے اندر انتہائی حسین گیلری، جس سے متصل کشادہ کمرے میں گیلری کی بلند محرابوں میں سنگ مرمر کے خوبصورت مجسمے ہیں۔کمروں کی چھتیں اور دیواریں رنگ وروغن سے سجی ہوئی ہیں۔ اس عمارت کا سب سے خوبصورت حصہ دربار ہال ہے جس کی چھتیں سونے سے سجائی گئی ہیں۔ہال میں نادر اور بیش قیمت جھاڑفانوس اس کی خوبصورتی کو چارچاند لگاتے ہیں۔
وفیات : ۲۱ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالی داس گپتا رضا۔وفات۔2001
ثمر لکھنوی (بادشاہ مرزا)۔وفات۔1970
رفعت قدیر ندوی ۔وفات۔1985
مولانا سید محمد عیسیٰ الہ آبادی ۔وفات۔1944
علامہ ابو الطیب شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی۔وفات۔1911
/channel/ilmokitab
وفیات پر ایک مفید سلسلہ آپ کے اس مبارک بزم علم وکتاب میں شروع کیا گیا ہے، اور الحمد للہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے تسلسل کے ساتھ یہ جاری ہے، جب وفیات کا اشاریہ شروع کیا گیا تھا تو کام کی وسعت کے پیش نظر مقصد صرف وفیات اور خاکوں کی کتابوں کے اشارئے تک اسے محدود رکھنا تھا، لیکن تاریخ وفیات کے اہتمام کی وجہ سے اب یہ تاریخ و طبقات کے ایک اہم مرجع کی شکل اختیار کررہا ہے، اور اس کا دائرہ کار وسیع ہوگیا ہے، اسے مزید مستند اور مفید بنانے کے لئے آپ تمام اہل علم کے تعاون کی ضرورت ہے، اور اس میں سب سے اہم تعاون یہ ہے کہ جن شخصیات کا تذکرہ تاریخ وفات نہ معلوم ہونے یا اس کی تلاش کا موقعہ نہ ملنے کی وجہ سے رہ جاتا ہے، اس نقص کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے،لہذا جن شخصیات کا تذکرہ اہمیت کے باوجود نہیں ہوپاتا، احباب انکی تاریخ وفات تلاش کرکے پرسنل پر مطلع کریں، تاکہ وفیات کے اشارئے میں ان کا اندراج ہوسکے، اور ان کا نام قومی حافظے سے محو نہ ہو۔ شکریہ
عبد المتین منیری۔
*رمضان اور جاپانی لڑکی*
*مشہور رائٹر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ می وا (Miwa) نامی ایک جاپانی لڑکی میری آفس کولیگ تھی۔ رمضان شروع ہوا تو کہنے لگی یہ جو تم رمضان کا پورا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہتے ہو اس سے تمہیں کیا ملتا ہے؟*
*میں نے اسے بتایا کہ روزہ ایک عبادت ہے اور یہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزے کے دوران جھوٹ نہ بولنا، ایمانداری سے اپنا کام کرنا، پورا تولنا، انصاف کرنا وغیرہ وغیرہ اور تمام برے کاموں سے بھی بچنا ہوتا ہے*
*وہ بڑی سنجیدگی سے بولی،*
*آپ کے تو مزے ہیں جی۔ ہمیں تو سارا سال ان کاموں سے بچنا ہوتا ہے اور آپ کو بس ایک مہینہ*
*(اشفاق احمد کی ڈائری سے)*
مولانا عبدالماجد دریابادی رح نے مولانا تھانوی رح کے نام لکھا کہ " جتنا دل تفسیروں، خصوصا تفسیری نکتوں میں لگتا ہے اتنا خود قران مجید کی تلاوت میں نہیں لگتا، یہ دل کے اندر کا چھپا ہوا چور ہے"
اس کے جواب میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ "اگر طاعات میں نفس کو بھی لذت ہو تو یہ خوشی کی بات ہے یا فکر کی، رہا کمی بیشی تو یہ امر طبعی ہے اس پر کوئی ملالت نہیں"
(حکیم الامت - نقوش و تاثرات - ص 61 )
سلسلہ نمبر: 29
انتخاب مطالعہ
تحریر: علامہ شبلی نؔعمانیؒ
مؤلف: ساجد الرحمن صدیقی کاندھلوی
*جیل خانہ کی ایجاد*
عؔلامہ شبلی نعمانیؒ فرماتے ہیں: کہ اس صیغے میں حضرت عمرؓ کی یہ ایجاد ہے: کہ ''جیل خانے'' بنوائے؛ ورنہ ان سے پہلے عرب میں جیل خانے کا نام و نشان نہ تھا، اور یہی وجہ تھی: کہ سزائیں سخت دی جاتی تھیں، حضرت عمرؓ نے اول ''مکہ معظمہ'' میں ''صفوان بن امیہ'' کا مکان چار ہزار درہم میں خریدا، اور اسکو خیل خانہ بنایا، پھر اور اضلاع میں بھی جیل خانے بنوائے، عؔلامہ بلاذریؒ کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے: کہ ''کوفے'' کا جیل خانہ نَرسَل سے بنا تہا، اس وقت تک صرف مجرم قیدخانے میں رکھے جاتے تھے، اور جیل خانے میں بھجوائے جاتے تھے،
جیل خانہ تعمیر ہونے کے بعد بعض سزاؤں میں تبدیلی ہوئی، مثلا: ''ابومحجن ثؔقفی'' باربار شراب پینے کے جرم میں ماخوذ تھے، تو اخیر دفعہ حضرت عمرؓ نے اسکو حد کی بجائے قید کی سزا دی ۔
( *اسلام میں پولیس اور احتساب کا نظام،صفحہ:48، طبع: مرکز تحقیق، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، نسبت روڈ، لاہور*)
✍🏻... محمد عدنان وقار صدیقی
/channel/ilmokitab
صاحبِ نسبت بزرگ اور بافیض عالم دین حضرت مولانامنیراحمدبستوی
از: محمدساجدکُھجناوری
مدرس حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
آج 7/ رمضان المبارک 1445 مطابق 18/مارچ 2024 جبکہ رحمتوں اور برکتوں سے عبارت ماہ صیام کا یہ پہلا عشرہ ختم ہونے کی طرف تیزی سے گامزن ہے عروس البلاد ممبئی کی ہردل عزیزروحانی شخصیت حضرت مولانامنیراحمدصاحب بستوی طویل علالت کے بعد جوار رحمت میں منتقل ہوگۓ، اناللہ واناالیہ راجعون ۔
وہ جو بیچتے تھے دواۓ دل
وہ دکان اپنی بڑھاگۓ
بقیة السلف حضرت مولانامنیراحمداپنے علم وفضل، تقوی وطہارت ،اتباع سنت وشریعت اورکمال تواضع واخلاق کی ایسی ملی جلی تصویر تھے جہاں کرداروعمل کا بسیراتھا ، وہ مرشدزماں حضرت مولاناشاہ عبدالحلیم جون پوری قدس سرہ کے دست گرفتہ اور ان کی دکان معرفت کے امین تھے ، علم اور عمل کے اجتماع نے ان کی شخصیت کو اجالا ،انجذاب الی اللہ کی کیفیات نے سلوک واحسان کے مراحل سے گزارا جس کا ثمرہ معرفت ربانی کی شکل میں انھیں میسر آیا ، اللہ بزرگ وبرتر نے ان میں محبوبیت کی شان رکھ دی تھی ، ان کے چہرہ بشرہ سے یقین ومعرفت کے آثار جھلکتے تھے ، ایسی آئینہ دل شخصیت کو دیکھ کر احتساب وعزیمت کی جنس بیدار ہوتی تھی ۔
کم وبیش سات آٹھ سال پیش تر کی بات ہے جب پہلی اور آخری مرتبہ انھیں جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں طلبہ اور مدرسین کے جھرمٹ میں دیکھا ، استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ یہی حضرت مولانامنیراحمدصاحب ہیں جو کالینا ممبئی کے صاحبِ ارشادبزرگ ہیں ۔ چوں کہ کان پہلے سے آشنا تھے، نام سنا تو اس خدامست بزرگ سے سلام ومصافحہ اورپھر دعائیں لینے تحریک ہوئی ، ہاتھ بڑھایا تو مسکراتے ہوۓ علیک سلیک ہوئی ، تعارفی کلمات کے ذیل میں ہی بندہ نے یہ بھی عرض کردیاکہ صاحبزادۀ مکرم مفتی عبدالرشید شیدا سے دارالعلوم دیوبند میں پانچ چھ سال درسی رفاقت رہی ہے اس اضافی نسخہ سے مولانا کی توجہ مزید بڑھ گئی اور محبتوں سے نوازا، بعد ازاں جامعہ کی زکریا مسجد میں آپ کا خطاب ہوا ، شیخ الجامعہ نے والہانہ انداز میں آپ کے تعلق سے خیرمقدمی کلمات کہے اور آپ کی آمد کو نعمت غیرمترقبہ سے تعبیر کیا ۔
حضرت مولانا پرجوش خطیبوں کی طرح نہ گرجے نہ برسے نہ قیل وقال کے غیر ضروری تکلفات کام میں لاۓ ، اس کے باوجود پورا مجمع ہمہ تن گوش تھا ، بلکہ دل کے کانوں سے آپ کی باتیں سماعت کی جارہی تھیں ۔ طلبہ وعلماءکا اجتماع تھا تو حضرت بھی بہت منشرح طبیعت کے ساتھ ان کے مقام ومرتبہ اورحقوق وفرائض پر ہمدردانہ لب ولہجہ میں گفتگو کررہے تھے ، دل چاہتا تھا کہ وہ گھنٹوں ہمارے درمیان رہیں اور دل بنانے کے نسخے فراہم کریں لیکن یہاں آپ کی آمد ضمنی تھی اس لۓ ناشتہ وغیرہ کرکے آپ آگے بڑھ گۓ ۔
آج جب سے آپ کے سانحۀ وفات کی خبر ملی ہے تو دل مضطرب ہے ، استرجاعی کلمات باربارنوک زباں پر ہے۔ حضرت کا مسکراتا ہوا چہرہ گویا سامنے ہے ، واپسی پر کارمیں بیٹھتے ہوۓ آپ نے فرمایا تھا کہ مولوی عبدالرشید آپ کے ساتھی ہیں تو ملاقاتوں کی ایک راہ یہ بھی ہے کیا پتہ تھا کہ اس فانی دنیا میں اس کے بعد زیارت وملاقات کا کوئی دوسرا موقعہ نہیں ہوگا ،اس وقت دارالعلوم محمدیہ بنگلور کے مہمان خانہ میں بیٹھا ہوں ، فاصلہ اتنا کہ آپ کے جنازہ کو کندھا بھی نہیں دے سکتا ، ہاں دعاۓ مغفرت اور ایصال ثواب کرکے اس داغ فراق کو دھونے کی اپنی کوشش ضرور جاری ہے ، تمام اہل تعلق خصوصا رفیق مکرم مولانامفتی عبدالرشیدشیدا کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش ہے ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس محبوب بندہ کو اپنے شایان شان اجروثواب سے نوازیں ، فردوس بریں آپ کا مستقر ہو اورتمام لواحقین ، متعلقین اور پسماندگان کوصبروشکیبائی موفق ہو۔
سلسلہ نمبر: 28
انتخاب مطالعہ
تحریر: مولانا سؔید ابوالحسن علی ندویؒ
*بڑا آدمی*
''شیر شاہ سؔوری''( م ٩٥٢ھ) کے اوقات و معمولات کی فہرست جو مؔؤرخین نے تاریخ میں محفوظ کردی ہے: ملاحظہ ہو! اِس زمانے میں متوسط درجہ کے مشغول انسان کے لیے بھی ان کا التزام مشکل ہے، چہ جایئکہ اس مصروف ترین بادشاہ کے لیے جس کو پانچ برس کی مدت میں ایک صدی کا کام کرنا تہا اور جسکو بظاہر اپنی انتظامی و سیاسی مشغولیت سے ایک لمحہ کی فرصت نہیں ہونی چاہئے تہی:
" شیر شاہ تہائی رات رہتی کہ بیدار ہوجاتا، غسل کرتا، اور نوافل پڑھتا، نماز فجر سے پہلے اوراد ختم کرلیتا، پھر مختلف صیغوں کے حسابات دیکھتا، اور دن کے اہم کاموں کے متعلق حکام و اہل کارانِ سلطنت کو ہدایت دیتا، اور روزانہ کا نظام عمل بتلاتا ؛ تاکہ دن کو سوالات سے اسکو پریشان نہ کریں، اُس سب سے فارغ ہوکر نماز فجر کے لیے وضو کرتا، اور جماعت کے ساتھ نماز فجر پڑھتا، پھر اذکار و اوراد میں مشغول ہوجاتا، اتنے میں حکام سلام کے لیے حاضر ہوتے، بادشاہ نماز اشراق سے فارغ ہوکر لوگوں کی ضروریات معلوم کرتا، اور گھوڑے، علاقے، جاگیریں، اور مال، جسکو جیسی ضرورت ہوتی دیتا، پھر اہل مقدمہ اور دادخواہوں کی طرف متوجہ ہوتا، اور ان کی داد رسی اور حاجت براری کرتا، پھر افواج شاہی اور اسلحہ کا معائنہ کرتا، اور فوج کے لیے امیدواروں کی قابلیت کا اندازہ کرکے ان کے تقرر کا حکم دیتا، پھر ملک کی رؔوزانہ آمدنی اور مؔالیہ کا معائنہ کرتا، پھر ارکان سلطنت امراء اور سلطنتوں کے سفرا اور وکلا حاضر ہوتے، ان سے گفتگو کرتا، پھر حکام اور اہلکاروں کی عرضیاں گزرتیں، ان کی سماعت کرتا، اور حکم لکھواتا، پھر دوپہر کا کھانا تناول کرتا، علماء و مشائخ بھی دسترخوان پر ہوتے، پھر ظہر کی نماز تک دو گھنٹے اپنے ذاتی کام انجام دیتا، اور قیلولہ کرتا، پھر ظہر کی نماز جماعت سے پڑھتا، اس کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا، اس سے فارغ ہوکر پھر امور سلطنت میں مشغول ہوجاتا، سفر و حضر میں اس نظام الاوقات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی، کہا کرتا تھا: کہ "بڑا آدمی وہ ہے جو اپنا پورا وقت ضروری کاموں میں صَرف کرے".
( *انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر، صفحہ :306، طبع: مجلس نشریات اسلام، ناظم آباد، کراچی*)
✍🏻... *محمد عدنان وقار صدیقی*
/channel/ilmokitab
سچی باتیں(۶؍جنوری ۱۹۳۳ء)۔۔۔ ماہ رمضان المبارک میں سخاوت اور فیاضی
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
پیغمبر خدا ﷺ کریم ترین وجواد ترین خلق بود دائمًا، ودرماہ رمضان سخاوت وبخشش اوبر مردم وایثار وے از ہمہ اوقات زیادہ بودے وصدقات وخیرات بر ہمہ لیالی وایام مضاعف گشتے، وبہ ذِکر ونماز وتلاوت واعتکاف جمیع ساعات روز وشب را مستغرق داشتے وایں ماہ عظیم رابہ عباداتِ گوناگوں مخصوص گردانیدے۔ (سفر السعادۃ، فیروزآبادی)
رسول اللہؐ کے جودوکرم کا دریا تو ہمیشہ ہی بہتارہتاتھا، لیکن ماہ رمضان میں حضور کی سخاوت وفیاضی، اور خدمتِ خلق کی توکوئی حد ہی نہیں رہتی تھی۔ اور صدقات وخیرات کا نمبر ہرزمامہ سے کہیں زائد بڑھ جاتاتھا، اور ذکرِ الٰہی اور نمازِ نوافل، اور تلاوتِ قرآن اور اعتکاف، بس دن رات کی یہی مشغولیت تھی اور یہی شب وروز کا معمول۔ اس سارے ماہ مبارک کو آپؐ طرح طرح کی عبادتوں ہی کے لئے مخصوص رکھتے۔
رسول کریمؐ کے رمضان کا حال آپ نے سُن لیا؟
’’میں نے اپنے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ؒ کو متعدد رمضانوں میں دیکھاہے کہ باوجود ضعف وپیرانہ سالی کے ، مغرب کے بعد، نوافل میں چوتھائی پارہ پڑھنا یا سنانا، اور اس کے بعد ، آدھ گھنٹہ، کھانا وغیرہ ضروریات کے بعد، ہندوستان کے قیام میں دوسوادو گھنٹے تراویح میں خرچ ہوتے تھے، اور مدینہ پاک کے قیام میں تقریبًا تین گھنٹے میں عشا وتراویح سے فراغت ہوتی، اس کے بعد دوتین گھنٹے آرام فرمانے کے بعد تہجد میں تلاوت فرماتے، اور صبح سے نصف گھنٹہ قبل سحر تناول فرماتے۔ اس کے بعد صبح کی نماز تک کبھی حفظ تلاوت، کبھی اوراد ووظائف۔ اسفار یعنی چاندنی میں صبح کی نماز پڑھ کر اشراق تک مراقب رہتے، اور اشراق کے بعد تقریبًا ایک گھنٹہ آرام فرماتے۔ اس کے بعد سے تقریبًا ۱۲بجے اور گرمیوں میں ایک بجے تک ، بذل المجہود شرح سنن أبی داؤد) تحریر فرماتے۔ اور ڈاک وغیرہ ملاحظہ فرماکر جواب لکھاتے۔ اس کے بعد ظہر کی نماز تک آرام فرماتے۔ ظہر سے عصر تک تلاوت فرماتے۔ عصر سے مغر ب تک تسبیح میں مشغول رہتے، اور حاضرین سے بات چیت بھی فرماتے……حضرت مولانا شیخ الہندؒ تراویح کے بعد سے صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے، اور یکے بعد دیگرے متفرق حفاظ سے کلام مجید سنتے تھے۔ اور حضرت مولانا شاہ عبد الرحیمؒ رائپوری کے ہاں تو رمضان المبارک کا مہینہ دن ورات تلاوت ہی کا ہوتاتھا کہ اس میں ڈاک بھی بند اورملاقات بھی ذرا گوارا نہ تھی…فخر کی بات نہیں، تحدیث بالنعمۃ کے طور پر لکھتاہوں، اپنی نااہلیت سے خود اگرچہ کچھ نہیں کرسکتا، مگر اپنے گھرانے کی عورتوں کو دیکھ کر خوش ہوتاہوں کہ اکثروں کو اس کا اہتمام رہتاہے، کہ دوسری سے تلاوت میں بڑھ جائیں۔ خانگی کاروبار کے ساتھ ۱۵۔۲۰پارے روزآنہ بے تکلف پورے کرلیتی ہیں۔(فضائل رمضانؔ، از مولانا محمد زکریا صاحب، شیخ الحدیث، مظاہر العلوم، سہارن پور)
حال کے بعض اولیائے امت کے رمضان کا منظر بھی آپ نے دیکھ لیا؟
اب ارشاد ہوکہ آپ کے رمضان کو اس قسم کے رمضان سے کوئی نسبت اور کوئی مناسبت ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ رمضان آگیا، لیکن رمضان ، کیا نام ہے محض جنتری میں لکھے ہوئے، سنہ قمری کے نویں مہینے کا؟ رمضان اگر واقعی آپ کے ہاں آگیا ہے، تو کہاں ہیں آپ کی مسلسل عبادتیں اور طاعتیں، نمازیں اور تلاوتیں، شب بیداریاں اور خلق کی خدمت گزاریاں، دعائیں اور مناجاتیں، نیکیاں اور فیاضیاں؟ روزہ رکھنے والے ہی اول تو اب کتنے ہیں، اور جو ہیں بھی ذرا اُن کے معمولات شب وروز پر ایک نظر کرجائیے۔ وہی غفلتیں اور وہی مدہوشیاں، وہی غیبتیں اور وہی مردم آزاریاں، وہی بخل اور وہی اسراف، عبادت سے وہی نفرت، اور فسق وفجور سے وہی رغبت!……برسات نام بارش کے خوب ہونے کا ہے، محض برساتی مہینوں کے آجانے کا نہیں، ساون ، بھادوں اگر بالکل خشک ہی گزر جائیں، تو زمین میں تری اور درختوں پر سبزی کہاں سے آجائے گی۔ پھر ماہ مبارک کے حقوق میں سے اگر ہم کوئی حق بھی نہیں اداکررہے ہیں ، تو ماہ مبارک کی برکتوں سے محرومی پر گلہ وشکوہ کس منہ سے کرسکتے ہیں؟
/channel/ilmokitab
تعارف کتاب: دستور مدینه اور کتاب : فلاحی ریاست کا تصور
تحریر: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
نام کتاب: دستور مدینه اور کتاب : فلاحی ریاست کا تصور
دستور مدینہ اور جدید دساتیر عالم کا تقابلی جائزہ)
(جلد اول)
مصنف : ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
صفحات : دو جلدیں (بالترتیب 742 اور (626)
قیمت : مکمل سیٹ 4500 روپے
ناشر : منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور
رابطہ 92042111140140:
دستورِ مدینہ ساتویں صدی عیسوی (622ء) میں ہجرتِ نبوی ﷺ کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والا ایک عظیم انقلابی قدم تھا، جس نے تاریخِ انسانی کا رخ بدل دیا۔ اس کی وجہ سے مختلف قوموں کو ایک وسیع تر سیاسی نظام میں باہم مل جل کر رہنے کے مواقع میسر آئے۔ رسول اللہﷺنے دستورِ مدینہ کے ذریعے قبائلیت کے مابین عدم مساوات اور تنازعات کا خاتمہ کرکے انصاف اور مساوات کی بنیاد پر ایک وسیع ادارے یعنی مملکت کی بنیاد ڈالی۔ آپﷺ نے اس دستور کو نہ صرف یہ کہ خود تحریر کروایا بلکہ اسے ھذا کتاب من محمد النبیﷺ قرار دیا۔ اسی دستورِ مدینہ کے نتیجے میں مدینہ منورہ میں ایک فلاحی ریاست کا قیام ممکن ہوا، اور معاشرے سے ظلم، ناانصافی، عدم مساوات اور ایسی ہی دیگر خرابیوں کا سدباب ہوا۔
پیشِ نظر کتاب ”دستورِ مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور“ (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیرِ عالم کا تقابلی جائزہ) ڈاکٹر حسن محی الدین قادری (چیئرمین، سپریم کونسل آف منہاج القرآن انٹرنیشنل) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں مصر کی جامعہ الدول العربیۃ (Arab League University) نے پی ایچ۔ڈی کی سندعطا کی ہے۔ ڈاکٹر حسن محی الدین نے اپنے اس مقالے میں دستورِ مدینہ کا کامل تجزیہ، تقابل، توضیح اور تشریح کی ہے اور امریکی و برطانوی اور دیگر مغربی دساتیر کے دستوری اصولوں کا دستورِ مدینہ سے تقابلی جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے دستورِ مدینہ کی مکمل تخریج و تحقیق اور اس کا استناد و اعتبار ثابت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ صرف دستورِ مدینہ ہی تمام آئینی و دستوری تقاضے پورے کرتا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہو کر مسلم ممالک مثالی اسلامی فلاحی ریاستیں تشکیل دے سکتے ہیں۔
یہ تحقیقی مقالہ عربی، انگریزی اور اردو زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ اردو زبان میں یہ تحقیقی مقالہ دو جلدوں اور قریباً 1360 صفحات پر محیط ہے۔ اس تحقیقی مقالے کےدرجِ ذیل 7 ابواب اورہر باب کی متعدد فصول ہیں:
1۔ عالمِ مغرب اور عالمِ اسلام میں قانون سازی کا ارتقاء، 2۔ دستورِ مدینہ کی توثیق و تصدیق (روایات ودفعات کی تخریج اور راویوں کے احوال)، 3۔ دستورِ مدینہ (تحقیقی جائزہ)، 4۔ ریاست کے عناصرِ تشکیلی (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں) ، 5۔ دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر میں نظامِ حکومت کے عمومی اصول، 6۔ حقوقِ انسانی (دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں)، 7۔ ریاستی اختیارات(دستورِ مدینہ اور جدید دساتیر کی روشنی میں) ۔
اس محققانہ کاوش کویہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ فاضل محقق نے صرف تاریخی واقعات اور فقہی کتب ہی پر انحصار کرکے دستورِ مدینہ کی مختلف شقوں کو بیان نہیں کیاہے بلکہ دستور ِمدینہ کی دفعات کی توثیق ِمزید کے لیے ہرشق کی موافقت میں قرآن وسنت ، احادیث ِمبارکہ اور کتب ِسیر وتاریخ سے مزید شواہد درج کیے ہیں ۔ مزید یہ کہ دستورِ مدینہ کی دفعات کا جدید دستوری اصولوں کے ساتھ تقابلی جائزہ اس دقتِ نظری سے پیش کرنے کی سعیِ جمیل کی گئی ہے کہ ان کے درمیان مشترک اور مختلف فیہ امور کی وضاحت ہوسکے۔ اس تقابلی جائزے کےلیے امریکی اور برطانوی دساتیر ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور یورپ کے معاہدات کو بطور نظیر پیش نظر رکھا گیا ہے ، تاکہ ان کے نظام حکمرانی اور عہد ِنبویﷺ کے نظام ِحکمرانی کے درمیان مشترکات و تناقضات کو اجاگر کیا جاسکے۔علاوہ ازیں فاضل محقق نے اس کتاب میں حضوراکرمﷺ کی ریاستی پالیسی کے بنیادی اصول مفصلاً بیان کیے ہیں اور دستورِ مدینہ کو اسلامی سیاسی افکار کے ایک اہم مصدر و ماخذ کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس تحقیقی مقالے میں دستورِ مدینہ کی ایک ایک شق کا قرآن و سنت کی روشنی میں جس گہرائی ، گیرائی اور دقتِ نظر سے تجزیہ کیا گیا ہے وہ تحقیق و جستجو کی ایک عمدہ مثال ہے، جس کا بجا طور پر اعتراف عالمِ عرب کی ممتاز علمی شخصیات پروفیسر ڈاکٹر جمال فاروق محمود الدقاق (پرنسپل دعوہ اسلامیہ کالج، قاہرہ، مصر)، پروفیسر ڈاکٹر طٰہٰ حُبیثی (صدر شعبہ فلسفہ و عقیدہ ، کلیہ اصولِ دین، جامعۃ الازہر، قاہرہ)، پروفیسر ڈاکٹر سعد سعد جاویش (پروفیسر علوم الحدیث، جامعۃ الازہر، مصر) اور ڈاکٹر رمضان الحسین جمعہ(پروفیسر آف شریعہ، کلیہ دارالعلوم، جامعۃ الفیوم، مصر) نے بھی کیا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد) کی امداد کے طور پر کتاب کی ساری جلدیں وہاں منگوا لیں۔ ریاست کی عملداری اور قانون دانی کے زعم میں مرزا صاحب نے انقلاب اخبار میں خط چھپوا دیا کہ اُمہات الامہ کی جلدیں میرے قبضہ میں ہیں۔ آ بیل مجھے مار۔ بیل نے ایسی دعوت کب رد کی ہے۔ انہیں مارا اور لہو لہان کر دیا۔ گھر کا گھیراو ہوا۔ لوگ پکڑ کر جلسہ عام میں لے گئے۔ یہ لاکھ کہتے رہے کہ وہ کتاب جس کی وجہ سے آپ غُصہ کر رہے ہیں، میری تصنیف نہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے لکھی ہے۔ کوئی سُنتا نہ تھا۔ ہجوم کا اصرار تھا کہ تم نے لکھی ہے "مجھ سے سب کے سامنے توبہ کرائی۔ کلمہ پڑھوایا اور دوبارہ مجھے مشرف بہ اسلام کیا۔ تب کہیں جان بچی۔
جان کی امان ملنے پر مرزا عظیم بیگ چُغتائی نے مذہبی مباحث کو خیر باد کہا اور قسمت آزمائی کے لئے ادب کے کوچہ میں جا نکلے۔ بڑا نام پیدا کیا۔ کولتار، فل بوٹ، کھُرپا بہادر، شہزوری، کمزوری، چمکی، خانم اور کالے گورے۔ ان کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی جن کا عام قاری کو پتہ نہیں۔ عنوان ہیں۔ مُکّو، چھپّا، مینور، کیکور، کوکم، ڈھالو۔ میں نے شاید دانسہ غلطی کی ہے۔ کتابوں کے ناموں کے ساتھ ذُرّیت کے لاڈ پیار کے گھریلو ناموں کو بھی شامل کر دیا ہے۔ اگر تصنیف کو مصنف کی معنوی اولاد کہ سکتے ہیں تو اولاد کو تصنیف کہنے میں کیا حرج ہے۔ عظیم بیگ چغتائی نے آخری دنوں میں بیماری اور بہن کے ہاتھوں مات کھائی۔ بیماری تب دق تھی، بہن عصمت چغتائی۔ دونوں لا علاج۔ جن دنوں عظیم بیگ علی گڑھ میں پڑھتے اور نمائش کے صدر دروازے یعنی مزمل گیٹ ولاے نواب مزمل اللہ خان شروانی کے یہاں جز وقتی ملازمت بھی کرتے تھے۔ انہیں دوسروں کو چھیڑنے اور ستانے کی جو عادت پڑ گئی اس نے مرتے دم تک ساتھ نہیں چھوڑا۔ طویل بیماری نے معذور کر دیا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئے۔ دوسروں کو دق کرنے کا شوق پھر نہ گیا۔ سب تنگ آ گئے۔ بھرے گھر میں والدہ کے سوا کوئی ان کی خبر گیری نہ کرتا۔ کس مپرسی میں دم نکل گیا۔ بہن نے بھائی کا خاکہ لکھا دوزخی عنوان رکھا۔
(حرف شوق از مختار مسعود ص 394-397)
/channel/ilmokitab
وفیات ۱۶ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا مسعود عالم ندوی ۔وفات۔1954
ایو ب احمد صبر،سید ۔وفات۔1973
شوکت علی سید ، پروفیسر ڈاکٹر میجر جنرل ۔وفات۔2015
عبدالرحمٰن، جسٹس سرمحمد۔وفات۔1962
قمر الدین خان، ڈاکٹر ۔وفات۔1985
محمد خان جونیجو۔وفات۔1993
/channel/ilmokitab
قامت المملكة العربية السعودية بإصدار مصحف طال انتظاره ،،، لا تترك قريب ولا صديق ولا أحد تعرفه إلا أرسلت له هذا المصحف، فقد بذلت جهودا كبيرة في إعداده.
▪️ المصحف كاملا مع تفسيره.. ويتم قلب الصفحات بلمس الشاشة من اليسار إلى اليمين.
http://quran.ksu.edu.sa/m.php?l=ar#aya=1_1
1975میں سابق وزیرتعلیم پروفیسر نورالحسن کی کوششوں سے مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایکٹ پاس کرکے اس لائبریری کو اپنی تحویل میں لے کر قومی ادارہ بنادیا۔اس وقت یہ لائبریری مرکزی وزارت ثقافت کے زیرانتظام ہے۔یہاں ایک لاکھ مطبوعہ کتابوں کے علاوہ اردو، عربی، فارسی، سنسکرت اور ہندی کے ہزاروں نادر ونایاب قلمی نسخے موجود ہیں۔یہ عظیم الشان کتب خانہ نادر مخطوطات، نایاب قلمی تصویروں، نہایت اہم کتابوں اور قیمتی وصلیوں اور نوادرات کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں چہاردانگ عالم میں شہرت رکھتا ہے۔یہاں عربی، فارسی، سنسکرت، اردو،ترکی اور پشتو وغیرہ کے 17ہزار مخطوطات، تاڑ کے پتوں پر تمل، تلگو، کنڑاور سنہالی کے 200 مخطوطات کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار قلمی تصویریں اوراسلامی خطاطی کے تین ہزار نمونے محفوظ ہیں۔ ایک لاکھ مطبوعہ کتب میں ہزاروں کتابیں نہایت اہم اور نادر ہیں، جن کے نسخے اب ناپید یا کمیاب ہیں۔ 1914 میں علامہ شبلی نعمانی نے اس لائبریری کو دیکھ کر کہا تھا کہ ”میں نے روم اور مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں، لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی اعتبار سے اس سے افضل نہیں دیکھا۔“اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے 1952میں اس لائبریری کی وزیٹر بک میں لکھا تھا کہ ”ہندوستان میں جو گنتی کے قیمتی علمی ذخائر ہیں، ان میں ایک گراں مایہ ذخیرہ یہ ہے۔“
مجموعی اعتبار سے یہ ہندوستان میں اپنی طرز کا واحد کتب خانہ ہے، جہاں عربی اور فارسی کی قلمی کتابیں بڑی حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔کئی قدیم نسخے خود مصنّفین کے لکھے ہوئے ہیں۔347 عربی اور 523 فارسی نسخے ایسے ہیں جو نہایت خوش خط خود مصنّفین اور مشہور خطاطوں کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مشہور ومعروف مصوروں کی تصاویر اس کتب خانے میں بکثرت موجود ہیں، جن میں چند پر ان کے دستخط بھی ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لائبریری کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ ایسے عظیم الشان ادارے میں مشرقی علوم اور ہند اسلامی تہذیب سے قطعی نابلد ڈائریکٹر کی تقرری سے یہ پیغام جاتا ہے کہ ملک میں اردو، عربی، فارسی اور سنسکرت کے ماہرین کا کال پڑگیا ہے جبکہ ایسا ہرگزنہیں ہے۔ ملک میں آج بھی ان علوم کے ماہرین کثرت سے پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی خامی یہ ہے کہ وہ علم وسیاست کو خلط ملط نہیں کرتے۔
Follow this link to join my WhatsApp community: https://chat.whatsapp.com/GgHfHWPT3FzGQG4YWCkZ10
Читать полностью…وفیات: ۲۰ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا سید منت اللہ رحمانی۔وفات۔1991
ایس ایچ ہاشمی (سید حسین ہاشمی )۔وفات۔2006
ایوب گونڈوی (محمد ایوب خان)۔وفات۔1982
عشرت رحمانی (امتیاز علی خاں)۔وفات۔1992
حامد نعمانی ۔وفات۔1942
مہندرناتھ۔وفات۔1974
اہلیہ محترمہ مولانا اشرف علی تھانوی ۔وفات۔1992
اخلاق احمد دہلوی۔وفات۔1992
انور سدید۔وفات۔2016
پیر صبغۃ اللہ شاہ راشدی دوم۔وفات۔1943
/channel/ilmokitab
اسی لیے مولانا دریا بادی اپنی *تفسیر ماجدی* میں جہاں متقدمین کے اقتباسات نقل فرماتے ہیں، وہیں نہایت اہتمام سے حضرت مولانا تھانوی کو بھی *مرشدِ تھانوی* کے عنوان سے یاد کرتے ہیں اور ان کا نادر، اہم قیمتی نکتہ یا افادہ بھی نقل کردیتے ہیں۔ مثلاً سورۂ مائدہ کی آیت 104 *أولو كان آباءهم لا يعلمون شيئا ولا يهتدون* کے ضمن میں نقل فرمایا ہے کہ:
*"مرشد تھانوی نے فرمایا کہ آیت میں ابطال ہے جاہل صوفیہ کے اس طریقہ کا کہ جب ان کے سامنے شریعت پیش کی جاتی ہے تو اس کے بجائے وہ اپنے مشائخ کے معمولات سے تمسک کرنا کافی سمجھتے ہیں"* ۔ تفسیر ماجدی ص143/ج2. لکھنؤ۔
مولانا تھانوی کے اس افادہ میں،آج کل کے یقیناً بہت سے اصحاب کے لیے سبق ہے۔ ارشد قاسم کاندھلوی
سنو سنو!!
اپنی بیوی کی قدر کیجیے!
(ناصرالدین مظاہری)
"رمضان المبارک میں کبھی بھی مجھ کو میری ماں نے سحری کے وقت پکار کر نہیں جگایا ہمیشہ کان کے پاس آہستگی کے ساتھ سرگوشی کے انداز میں جگاتی تھیں "
اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو ماں کو اور شادی شدہ ہیں تو بیوی کو ماہ رمضان المبارک میں ضرور دیکھئے، ان کی مصروفیات پر نظر کیجیے، صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک کیا کیا کرتی ہیں اس پر غور کیجیے تو آپ حق تعالی کی اس نعمت پر بار بار شکر ادا کریں گے۔
جب تک مجھے شعور نہیں تھا ہوش نہیں سنبھالا تھا تب تک تو سب کچھ روز مرہ کا معمول محسوس ہوتا تھا لیکن جب سے عقل میں پختگی اور شعور میں کہنگی آئی تو مجھے دکھائی دیا کہ ماہ رمضان المبارک میں ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بیوی کی مصروفیات عام دنوں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں، صبح فجر کے بعد ہر شخص سوتا ہے اور سونے کو اپنا حق سمجھتا ہے لیکن آپ کی ماں یا بیوی سو نہیں سکتی، اسے بچوں کے لئے ناشتہ کا نظم کرنا ہے، بچوں کے اسکول کا نظم کرنا ہے ڈریس تیار کرنا ہے بچوں کو نہلانا ہے کپڑے پہنانا اور تیار کرکے بھیجنا ہے اب کچھ فرصت ملی تھی لیکن بیوی کو سکون کہاں ہے اب وہ کل دن بھر کے کپڑے سمیٹ رہی ہے اپنے بھی، بچوں کے بھی، شوہر کے بھی سب کپڑے دھونے کے بعد سوکھنے کے تاروں پر ڈالنا ہے سوکھنے کے دوران خود کو صاف ستھرا کرکے خشک کپڑوں پر پریس کرنا ہے، رات کے کھانے اور سحری کے جھوٹے برتن صاف کرنا ہے،دن کے بارہ بجے تک اسی طرح کی مصروفیات میں لگی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی کمر دکھنے لگتی ہے۔ نیند اس کو پریشان کئے ہوئے ہے کہ اب شوہر نامدار اٹھتے ہیں ان کے غسل کے لئے بیوی کپڑے نکالتی ہے شوہر صاحب تو اتنے کاہل ہیں کہ اپنا تولیہ اور کپڑے بھی خود غسل خانے تک نہیں لے جاتے، غسل کے بعد اپنی لنگی بھی نہیں دھو سکتے یہ کام بھی بیوی کرتی ہے، اب ظہر کی اذان ہونے والی ہے ادھر اسکول اور مدرسہ سے بچے آنے والے ہیں اب پھر ان کے ڈریس بدلنا، کھانا کھلا کر ٹیوشن کے لئے تیار کرنا، نماز پڑھنا اور رات افطار وکھانے کے انتظام کا وقت آنے والا ہے بیوی جلدی جلدی قرآن اٹھاتی ہے ایک دوپارے بمشکل پڑھ پاتی ہے کہ افطاری کی تیاریاں شروع کردیتی ہے اگر کوئی بچہ دودھ پیتا یا گود میں ہے تو مصروفیات اور بڑھ جاتی ہیں۔
افطاری میں بھی گھر کے ہر فرد کا خیال رکھتی ہے عبداللہ کو کیا پسند ہے عبیداللہ کیا کھائے گا شوہر کی کیا خاص چیز تیار کرنی ہے اور ساتھ ہی رات کھانے کے لئے تیاریاں جاری ہیں۔
عصر کی نماز سے فارغ ہوکر پھراپنے کام میں مصروف ہوگئی اس دوران بچوں کی فرمائشیں بھی، لڑائیوں کے فیصلے بھی، جہاں جہاں افطاری بھیجنی ہے اس کا دھیان بھی اور دسترخوان بچھانے کا عمل بھی۔ کبھی سوچا کہ دو تین گھنٹے کی کڑی محنت کے بعد جو چیزیں تیار ہوئی تھیں وہ سب دس پندرہ منٹ میں معدہ کی نذر ہوچکی ہیں اور آپ مسجد چلے گئے ہیں آپ کی بیوی جلدی جلدی دسترخوان اٹھاتی ہے برتن دھوتی ہے نماز مغرب پڑھتی ہے، رات کھانے اور چائے کا نظم کرتی ہے اور اب تراویح کے لئے تیار ہے۔
تراویح سے فارغ ہوکر اگر کسی کی کچھ فرمائش ہوئی تو تعمیل کردی ورنہ سب کے بستر بچھا کر ضرورت کے مطابق اوڑھنے کا سامان رکھ کر بچوں کو سلاکر خود سونے کے لیٹ گئی ہے۔
بمشکل دو تین گھنٹے ہی سوئی ہوگی کہ سحری تیار کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی، سارا گھر سو رہا ہے لیکن اکیلی آپ کی بیوی جاگ رہی ہے وہ بھی تو انسان ہے لیکن انسانیت اس کے رگ رگ میں سرایت کرچکی ہے پورے گھر کا خیال رکھتی ہے ہر جگہ ہر کسی کی پسند ناپسند کا خیال رکھتی ہے جب مکمل تیاریاں ہوچکی ہوتی ہیں تب بھی دھیان رکھتی ہے کہ جلدی بیدار نہ کیا جائے ورنہ کھانے سے فارغ ہوکر نماز فجر کے انتظار میں رکنا پڑے گا اور اس طرح عین وقت پر سبھی کو اٹھا کر کھانا کھلا کر مسجد بھیج دیتی ہے اور خود مصلے پر پہنچ کر اللہ احکم الحاکمین کے آگے سربسجود ہوجاتی ہے۔
اگر آپ کو بیوی یا ماں کی اس محنت کا اندازہ نہیں ہے تو کم ازکم ان کے کام میں صرف ایک دن شرکت کرکے دیکھ لیجیے۔ قسم خدا کی بیوی جیسی نعمت کا شکراداکرتے کرتے زبان اور حلق خشک ہوجائے گا۔
ہمارے نبی نے فرمایا:الدنيا متاع وخير متاع الدنيا المرأة الصالحة۔دنیا سرمایہ ہے اور نیک بیوی سب سے بہترین سرمایہ ہے۔
(۸/رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ)
وفیات ۱۹ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شوکت سبزواری ۔وفات۔1973
بشیر حسین زیدی، کرنل۔وفات۔1992
رضوان اللہ،سید ۔وفات۔1964
ظفر اقبال۔وفات۔2012
عارف حسین، میجرسید ۔وفات۔1955
مسعود میکش مرادآبادی(مسعود القدر)۔وفات۔1980
مولانا کوثر نیازی ۔وفات۔1994
مولانا سید منٹ اللہ رحمانی۔وفات۔1991
شفیق الرحمن۔وفات۔2000
حجاب امتیاز علی۔وفات۔1999
مولانا غلام محمد شملوی۔وفات۔1934
شیم کرہانی، شمس الدین حیدر۔وفات۔1975
پروفیسر محمود الہی۔وفات۔
محمد علی صابونی۔وفات۔2021
/channel/ilmokitab
*پڑھنے سے زیادہ گُننے (مشق کرنے) کی فکر کرنا*
(حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے) فرمایا کہ میں دیوبند گیا تو پندرہ برس کی عمر تھی، بچوں میں شمار تھا، مگر شوق تھا بزرگوں کی مجلس میں حاضر ہونے کا۔ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللّٰه علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ فرمایا کہ بھائی پڑھنے سے گُننے (مشق کرنے) کی فکر کرنا اور فرمایا کہ ان دونوں میں فرق ہے، پھر اس فرق کو ایک حکایت سے واضح فرمایا کہ دو طالب علم تھے۔ ایک ہدایہ کے حافظ تھے، دوسرے محض ناظرہ پڑھتے تھے۔ ناظرہ خواں نے ایک مسئلہ کے متعلق کہا کہ ہدایہ میں لکھا ہے، حافظ نے انکار کیا، پھر ناظرہ خواں نے ہدایہ دکھلایا کہ اس کی فلاں عبارت سے یہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ حافظ نے اقرار کیا اور کہا کہ صحیح یہی ہے کہ ہدایہ تم نے ہی پڑھا ہے، ہم نے فضول مشقت اٹھائی۔ ہمارے حضرات کا خاص وصف یہی تو تھا اور میں تو بلا خوفِ رد کہتا ہوں کہ ہمارے حضرات، غزالیؒ اور رازیؒ سے کسی طرح کم نہ تھے۔
مواعظ و ملفوظات، مولانا مفتی شفیع عثمانیؒ/صفحہ: ۳۷/انتخاب و پیش کش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab
وفیات ۱۷ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر صدیقی ، محمد، ڈاکٹر۔وفات۔1976
امیر الاسلام ہاشمی ۔وفات۔2013
ایم ایچ عسکری ۔وفات۔2013
جعفری، ایس ایس(سید سعید جعفری)۔وفات۔2002
عبد الحق صدیقی ۔وفات۔2005
قمر انجم (قمر الدین احمد)۔وفات۔1999
مجاہد لکھنوی (مرزاعلی مجاہد)۔وفات۔1995
نادم سیتا پوری (سید محمد اظہر)۔وفات۔1983
غازی محمود دھرم پال۔وفات۔1960
فاروق ،شاہ مصر۔وفات۔1965
مولانا شائق احمد بھاگل پوریؒ۔وفات۔2005
مولانا زبیر الحسن کاندھلوی۔وفات۔2014
عبد الشکور، پروفیسر۔وفات۔1970
/channel/ilmokitab
ڈاکٹر رمضان الحسین جمعہ لکھتے ہیں: ”اس محتاط، سنجیدہ، عمیق اور جامع مطالعے سے محقق نے یہ ثابت کیا ہے کہ مدینہ منورہ کے وثیقے میں ایسے آئینی اصول موجود ہیں جنھیں موجودہ دنیا نے اپنایا ہے ، جیسے: شہریت کا اصول، تمام ریاستی طبقات کی نمائندگی، سماجی یکجہتی، قبائلی و شخصی رسم و رواج کا احترام، جان و مال کا تحفظ، فرد کی عزت و تکریم کی حفاظت، اتحاد کا فروغ، عدل کا قیام، آزادیِ اظہارِ رائے کی ترویج، مختلف فیہ امور کا جانچنا، مجلسِ شوریٰ کا قیام، حکام کا تقرر، الغرض! ہر چیز کو شرح و بسط کے ساتھ فصیح و بلیغ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔“
فلاحی ریاست کے حوالے سے دستورِ مدینہ اور جدید دساتیرِ عالم کے تقابلی جائزے پر مشتمل یہ ایک شاندار علمی و تحقیقی کاوش ہے، جس کے لیے فاضل محقق ڈاکٹر حسن محی الدین قادری لائق ِ صد تحسین و قابل ِ مبارک باد ہیں۔ کتاب بھی بہت سلیقے سے شائع ہوئی ہے۔
/channel/ilmokitab
وفیات : ۱۷ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا حبیب الرحمن اعظمی، ابو المآثر۔وفات۔1992
بیگم رفعت اسکندر مرزا ۔وفات۔1967
سرور جہاں زبیری، ڈاکٹر ۔وفات۔2004
کریم بخش خالد ۔وفات۔2003
محمد عمر نعیمی مراد آبادی ، مفتی ۔وفات۔1966
مصباح نجمی ۔وفات۔2009
داغ دھلوی۔وفات۔1905
علامہ عبد العزیز رحیم آبادی ۔وفات۔1918
حشمت اللہ لودی۔وفات۔2019
/channel/ilmokitab
نازک اور حساس موضوع پر غیر محتاط انداز و اسلوب تحریر کا نتیجہ کیا نکلتا ہے
مختار مسعود (حرف شوق)
مذہب، تحقیق، تاریخ، فلسفہ، سائنس، سیاست، ناول، افسانہ، سر گذشت، سوانح، سفر نامہ، مضامین، انشائیہ، ان سب کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ جو اس بات کا خیال نہیں رکھے گا وہ ٹھوکر کھائے گا، نقصان اٹھائے گا۔ جان بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے بالخصوص جہاں عقیدے اور انداز بیان کا ٹکراو ہو۔ مذہب نے ادب کے نام پر بے ادبی، شوخی اور بے احتیاطی کو کبھی گوارا نہیں کیا مثالیں بے شمار ہیں۔
فلسفہ اجتماع، مولانا عبدالماجد دریابادی کے دورِ جاہلیت کی یادگار ہے۔ وہ اس کتاب میں رسول اللہ ﷺ کے ذکر کے لئے ایسا انداز تحریر اختیار کرتے ہیں جس کی توقع صرف ایک غیر مُسلم، غیر مقلّد اور وسواسی فلسفی سے کی جا سکتی ہے ۔ مہدی افادی نے بر وقت گرفت کی اور مولانا اس اندازِ تحریر سے دست بردار ہو گئے جس کا آغاز دل شکنی اور انجام انتقام ہوتا ہے۔
عبدالحلیم شرر کلکتہ، لکھنو اور حیدر آباد دکن کی فضاوں کے سہ رنگی تجربے سے گزر کر انگلستان جا پہنچے۔ وہاں کی تحقیق علمی کی واقعیت پسندی سے بہت متاثر ہوئے۔ اور اس کی پیروی کرتے ہوئے ایک کتاب سکینہ بنت حسین لکھی۔
اپنی تحقیق کے زور اور زعم میں اس خاتون کو سکینہ بنت حسینؓ بن علیؓ ثابت کرنے کی کوشش کی اور جدیدیت اور واقعیت کے زور پر انہیں اپنے دور کی فیشن ایبل لیڈی قرار دیا ۔ یوں ایک نا خوشگوار بحث میں اُلجھ گئے۔ حیدر آباد چھوڑنا پڑا۔ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لوگوں کے مزاج اور قوت برداشت سے لا علم ہونے کی قیمت ادا کرنا پڑی
نذیر احمد کو مولانا اور ڈاکٹر اور ڈپٹی ہونے کے باوجود شرر کے مقابلہ میں کہیں زیادہ سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا اپنی شوخی، تحریر اور عامیانہ اور زنانہ محاوروں کا پٗشتارہ لے کر وہاں جا پہنچے جہاں فرشتوں کے پر جلتے ہیں۔ قرآن مجید کا با محاورہ ترجمہ کر ڈالا محاورے وہ استعمال کئے جو غیر معتبر اور بیگماتی تھے۔ اُردو کو اس سے کیا حاصل ہونا تھا البتہ مولانا کے حصے میں ندامت آئی۔ جسے وہ خود بازار سے خرید کر لائے تھے۔ جہاں مذمت کرنا مال تجارت بن جائے۔ اور اس کی فروخت کار ثواب ٹھہرے وہاں مولانا کا جان بچا کے لے جانا ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔
اُمّہات الاُمّہ شائع ہوئی۔ مخالف میں شدت آ گئی۔ کفر کا فتویٰ لگا۔ عربک اسکول دلی میں جلسہ ہوا۔ دُور دُور سے مقرر آئے او ر آس پاس سُننے والے لوگ۔ خطابت اور جوش کا مظاہرہ ہوا۔ مقررین نے دین کا واسطہ دیا، خدا کے غضب سے ڈرایا۔ انتقام کو فرض عین قرار دیا۔ فرائض کی ادائیگی میں پہل والوں کو بہشت کی بشارت دی۔ یہ کوئی بات نہ تھی ایک طبقہ اس کام میں بڑی مہارت رکھتا ہے مُلّا کی دوڑ اعتراض کے منبر سے فتویٰ کی مسند تک اور فتوے کی پہنچ تنسیخ ِ نکاح سے قتل کے واجب ہونے تک۔ وہ اس فاصلہ کو اتنی تیزی سے طے کرتا ہے کہ روکنا تو در کنار اُسے جا لینا بھی نا ممکن ہوتا ہے۔ اس روز حکیم اجمل خان نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔ مولانا سے کتاب کی ساری جلدیں لا کر پنڈال کے سامنے میدان میں ڈھیر کر دیں۔ آگ لگی۔ کتاب راکھ ہوئی غُصہ ٹھنڈا ہوا۔ ہجوم چھٹ گیا۔ جان بچ گئی مگر نذیر احمد نے جی ہار دیا۔ قلم کھینچ لیا۔دوات اُلٹ دی۔ جب تک جئیے ایک لفظ نہیں لکھا اور وہ اس اجلاس کے بعد بھی کتنا جئیےیہی کوئی چھ ماہ۔
برادرم ریاض الرحمٰن خان شروانی یہ بات تو آپ کے علم میں ہو گی کہ ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب جلانے والوں میں آپ کے نامور دادا شامل تھے۔ مٹی کے تیل کی بوتل وہ لیکر آئے تھے۔ آگ بھی اُنہوں نے دکھائی تھی۔
داستان تاریخ اردو میں حامد حسن قادری نے طرزِ نذیر احمد کی بے اعتدالی کا عنوان قائم کیا ہے اور بہت سی حیران کُن اور پریشان کُن مثالیں بھی دی ہیں۔ ڈپٹی صاحب حدیث قُدسی کے تعارف میں لکھتے ہیں، "کسی نے کیا اچھی ، تُلی ہوئی باون تولے پاؤ رتی بات کہی ہے" ہجرت کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔ "خدا کا کرنا پیغمبر صاحب کو عین وقت پر معلوم ہو گیا۔ اندھیرے میں چُپکے سے سٹک گئے" حیرت کی بات ہے کہ مولوی نذیر احمد یہ اندازہ نہ کر سکے کہ سیرت نگاری اور تفسیر کے لئے وہ زبان حد درجہ غیر موزوں ہو گی جو ان کے لکھے ہوئے زنانہ لٹریچر کے لئے کامیابی کی ضمانت تھی ان کا تو دعویٰ تھا کہ دہلی کالج میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے میں مسلمانوں کا نادان دوست ہوں نہ تقاضائے وقت کی طرف سے اندھا۔ ان کا یہ دعویٰ ہی انہیں لے بیٹھا۔
مرزا عظیم بیگ چُغتائی بے اے ایل ایل بی علیگ نے مسلم یونیورسٹی کی علمی فکری فضا سے متاثر ہو کر حقیقت پسندی اور تحقیق کے نام پر جو کچھ لکھا اسے قدامت پسند طبقہ نے سخت ناپسند کیا۔ ضدی مغل بچہ تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب کے جھگڑے میں شامل ہو گیا۔ عرصہ کے بعد شاہد احمد دہلوی نے اُمّہات الاُمّہ کا دوسرا ایڈیشن چھاپ دیا۔ عظیم بیگ ان دنوں جودھپور میں وکالت کر رہے تھے۔ شاہد احمد دہلوی(پوتا
*اپنی بات کو غالب رکھنے کی عادت*
مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰه علیہ نے فرمایا: بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنی بات کو غالب رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی غلطی بھی واضح ہوجائے تو بھی اس کو نہیں چھوڑتے۔ سمجھتے ہیں کہ اس میں عزت ہوگی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مخاطب، اگر کسی وجہ سے خاموش بھی ہوجائے تو اس کی حقارت اور جہالت، قلب میں بیٹھ جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، یہ مخاطب کے لیے ایذا کا سبب ہے اور گناہ بھی ہے۔
مواعظ و ملفوظات، مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ/صفحہ: ۳۵/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab