علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
جب کہ ناسخؔ کے کئی اشعار دیے ہیں۔ ان میں سے ایک شعر وہی ہے جس پر مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم نے جلالؔ کے ’’سرمایۂ زبانِ اُردو‘‘ کا حوالہ دے کر اعتراض کیا تھا۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالؔ کے اعتراض پر ناسخؔ نے اپنے کہے کی اصلاح کرلی تھی۔ کیوں کہ سید احمد دہلوی مرحوم نے فرہنگِ آصفیہ میں لفظ ’سنہری‘ کے استعمال کی مثال دیتے ہوئے ناسخؔ کا وہی شعر یوں نقل کیا ہے:
وصف جب میں نے کیے تیرے سنہری رنگ گے
خود بخود ہر صفحۂ دیواں مُذہّب ہو گیا
غالباً تکرار کے عیب سے بچنے کے لیے دوسرے مصرعے میں ’سنہری‘ کی جگہ ’مُذہّب‘ لایا گیا ہے۔ گویا مولوی سید احمد دہلوی صاحب نے ’سنہرا انگرکھا‘ اور ’سنہرا تعویذ‘ بھی جائز سمجھا اور ساتھ ہی ’سنہری لب‘ اور ’سنہری رنگ‘ بھی رَوا قرار دے ڈالا۔ اب معلوم نہیں کہ مولوی نورالحسن نیر اور مولوی سید احمد دہلوی جیسے، لسانیات کے، دو ممتاز مولویوں کے درمیان ’سنہرا مرغا‘ حرام ٹھہرے گا یا ’سنہری مرغا‘۔ خیر، مرغے کے ساتھ جو سلوک بھی ہوتا رہے، ہو۔ مگر گمان غالب یہی ہے کہ کم از کم ’سنہری مرغی‘ دونوں مولویوں کی فقہ میں حلال سمجھی جائے گی۔
بہرحال، فقہائے امت کے اختلاف کی طرح فقہائے لسانیات کے اختلافات کو بھی رحمت ہی جاننا چاہیے۔ کیوں کہ اگر ماہرین میں اختلاف ہوجائے تو اس سے ہم جیسے مقلدین کے لیے گنجائش نکل آتی ہے کہ جس رائے پر چاہیں عمل کریں۔ ’سنہری مرغا‘ بھون کر کھائیں یا ’سنہرا مرغا‘ پیڑ سے اُڑا کر پیٹ میں پہنچائیں۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
سلسلہ نمبر : 25
انتخاب مطالعہ
تحریر: مولانا عبد الماجد صاحب دریابادیؒ
مرتب: حؔکیم عبد القوی دریابادیؒ
انتخاب: محمد عدنان وقار صدیقی
*سراپا سؔید مناظر احسن گیلانیؒ*
سال اب خوب تو خیال میں نہیں، ٢٠ء یا ٢١ء ہوگا، ایک بار حؔیدرآباد جانا ہوا، مولانا شؔروانیؒ صدر الصدور امور مذہبی کے دولت کدہ پر کوئی علمی کمیٹی تھی،
نظر ایک نیے چہرے پر پڑی، اور جی چاہا: کہ اب پڑی ہے تو برابر پڑی ہی رہے، ہٹنے نہ پائے!
نرم اور روشن چہرے پر ریشم کی طرح نرم اور ملائم ڈاڑھی پر پڑی، تو دل نے کہا: اس چہرے کو دیکہتے ہی چلے جایئں! بتانے والے نے یہ بتایا :کہ یہ'' مولانا مؔناظر احسن گیلانیؒ'' ہیں، ﷲ ﷲ کیسا دھوکا ہوا! نام سے عرصہ سے واقف تھا، ایک خیالی صورت بھی ذہن میں تھی ؛ لیکن یہ صورت، سیرت ہر چیز سے متعلق خیال اور اندازہ کتنا غلط نکلا ؛ خیال تھا : مُسِن ہوں گے، یہ تو جوان نکلے، قیاس تھا: کہ بڑے بحّاث بڑے مناظر ہوں گے، اور خشکی و کرختگی کے پُتلے! مشاہدے نے بتایا: کہ ایک لطیف جسم لطیف تر روح کو چھپائے ہوئے ہے، خندہ رو، نرم خو، نہ کرختگی، نہ ثقالت، برعکس اس کے ایک پیکر لینت و لطافت، قال کے موقع پر قال، اور حال کے محل پر حال، صورت پر نورانیت برستی ہوئی، گفتگو سے محبوبیت ٹپکتی ہوئی، علم کی جگہ علم، عشق کی جگہ عشق، تعارف ہوا اور ملاقات کے پینگ بڑھے۔
اس اٹھارہ / انّیس سال کی مدت میں کیا کچھ دیکھا، کیا کچھ سیکھا، ان سوالات کو بس سوال ہی بنا رہنے دیجئے!
حؔیدرآباد کی ہمراہیاں، لؔکھنؤ کی یکجائیاں، دؔریاباد کی سرفرازیاں، اور پھر عؔرشۂ جہاز پر ساتھ، مؔدینہ کے روضۂ جنت میں ساتھ، بؔیت اللہ کے طواف و زیارت میں ساتھ، مؔنٰی کی نمازوں میں ساتھ، یہ ساری داستان کہیں پھیلنی شروع ہوگئ تو سمیٹنی مشکل ہوجائے گی؛
مختصر یہ کہ: دماغ اگر ایک بِہاری سؔید زادہ کے علم و فضل کے آگے جھک گیا تھا، تو دل دوسرے بہاری سؔید کی محبوبیت کی نذر ہوگیا تھا، دماغ اگر ایک کی عظمت کا قائل، تو دل دوسرے کی محبت کا گھائل، ''بِہار کی بَہار'' اب بھی روح پرور نہ ہو تو کیا ہو؟
( *انشائے مؔاجد یا لطائفِ ادب، صفحہ: ۱۴۵ / ۱۵۵،طبع: ادارہ انشائے ماجدی، کلکتہ*)
/channel/ilmokitab
تلاوت مولانا قاری مفتی محمد قاسم انصاری بھوپالی
پارہ نمبر : ۵
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
www.urduaudio.com
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=05-walmohsanat-part-01-traslation, 05- Walmohsanat (part 01) Traslation
قاری صاحب کی آواز میں مکمل کلام پاک سننے کے لئے
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=qasim&c=&s=qari-muhammed-qasim-ansari&t=
وفیات: ۱۴ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحت الٰہ آبادی(راحت اللہ خان)۔وفات۔2006
شائق لکھنوی (سید یوسف حسین)۔وفات۔1978
عمر قریشی ۔وفات۔2005
فضا جلالوی ۔وفات۔1988
مولانا محمد فاروق مجاہد القاسمی۔وفات۔2015
محمود احمد عباسی امروہوی۔وفات۔1974
ڈاکٹر مولوی محمد شفیع۔وفات۔1963
علی محمد راشدی۔وفات۔1987
/channel/ilmokitab
؎ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
اور زمانہ اپنی تمام رعنائیوں اور دلربائیوں کے ساتھ ان کی رفاقت کے لیے آمادہ کار ہو چکا تھا۔ ان کو جودیواریں ڈھانی تھیں وہ خود متزلزل ہو چکی تھیں اور جو عمارت بنانی تھی اس کے لیے دستِ غیب خود چونہ اور گارا مہیا کر رہا تھا۔ وہ خزاں کی بلبل ضرور تھے مگر موسمِ گل کی آمد آمد ان کو شہ بھی دے رہی تھی۔
مگر اقبال ــــــ اللہ اکبر! اس کی سطوت و جلالت کا کون اندازہ کر سکتا ہے وہ زمانہ سے جنگ کرنے کے لیے آیا تھا۔
؎ زمانہ باتو نسازد تو با زمانہ ستیز
ان کو جو پیغام دینا تھا، نہ صرف یہ کہ زمانہ اس سے آشنا نہیں رہ گیا تھا بلکہ وقت کی ذہنیت بالکل اس سے مختلف قالب پر ڈھل چکی تھی اور اس کائنات کی تمام قوتیں ہم کو ایک نئی سمت میں کھینچ لے جانے کے لیے نہ صرف پوری طرح طاقتور ہو چکی تھیں بلکہ ہم نصف سے زیادہ منزل اس راہ کی طے بھی کر چکے تھے۔ مگر اقبال تسخیر قلوب و ارواح کی ایک غیبی طاقت سے مسلح ہو کر آیا اور اس نے ہم کو ایک بڑے خطرہ سے بچا لیا اوریقیناً یہ اسی کی برکت ہے کہ ہم جو ہر شکل و ہئیت کو قبول کر لینے کے لیے موم کی طرح نرم ہو چکے تھے، گو چٹان کی طرح سخت نہ ہو چکے ہوں لیکن اتنی صلابت ہم میں ضرور آچکی ہے کہ ہر انگلی ہم پر تصرف نہیں کر سکتی۔ یہ خودی کا وہی احساس ہے جس کو اقبال نے پوری قوت سے جھنجوڑ کر بیدار کرنے کی کوشش کی۔
اقبال کے فلسفہ پر غور کرنے والے، اس کا سراغ نٹشے اور برگسان میں لگانا چاہتے ہیں یہ اس لیےکہ ہماری منفعل اورمرعوب ذہنیت تصور بھی نہیں کر سکتی کہ یہ بادۂ تند مشرق کے کسی میکدہ کی ہو سکتی ہے۔ حالاں کہ اقبال کے خیالات کا اصلی مصدر قرآن ہے۔ یوں تو اقبال نے کلمہ حکمت جہاں پایا اس کو لیا لیکن اس لیے کہ وہ اپنی چیز تھی۔ ورنہ جو خود کوہِ نورکی دولت کا مالک ہو وہ فقیروں کی کوڑیوں پر کیا نگاہ ڈالتا!
اقبال نے تو یہ ننگ تک گوارا نہ کیا کہ قرآنی صداقتوں اور عربی حکمتوں کو زمانہ کا آب و رنگ دے کر خوشنما بنائے۔ وہی پرانا کیسہ اور وہی بے ترشے ہوئے نگینے۔ مگر جب اقبال نے اپنی ہتھیلی پر رکھ کر ان کو پیش کیا تو نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ اقبال کی دنیا ہی الگ تھی۔ جب سب شفاخانۂ حجاز میں زندگی ڈھونڈنے نکلےتو وہ ریگستانِ حجاز میںموت ڈھونڈتا تھا۔ جب مرمریں سلوں اور برقی قمقموں نے حرم کو جگمگادیا تو اس نے چڑ کر کہا
؎ میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
اور بے لوث صداقت کا اعجاز دیکھو کہ ہم صرف ڈھلی ہوئی ترشی ہوئی، ملمع کی ہوئی چیزوں ہی کے دیکھنے کے عادی ہیں۔ اقبال کی یہ سادگی ہم کو بھی دیوانہ بنا لیتی ہے اور باوجود یہ کہ بغیر عقل و منطق کو ساتھ لیے ہم ایک قدم چلنے کے عادی نہیں مگر جب اقبال کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو کوئی نہیں جو ان سے دلیل مانگے، شاید یہ بات سچ ہے کہ
سچائی اگر سچے کی زبان سے نکلے تو وہ اپنی حمایت کے لیے منطق کی محتاج نہیں۔
اقبال اور ان کی شاعری سے قوم کی جو خدمتیں انجام پائی ہیں ان پر غور کرنا مؤرخ کا کام ہے۔ ہم صرف ایک بات کا حوالہ دینا چاہتے ہیں جس کو صرف اقبال ہی نے کیا اوروہی کر سکتے تھے۔
اگر اقبال نہ پیدا ہوتے تو یقیناً ہماے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم ہمارے نوجوانوں کو اس طرح مسخ کر ڈالتی کہ ان کے اندر دین و ملت کے لیے حمیت و غیرت کا کوئی شائبہ باقی نہ رہ جاتا، وہ جس طرح ظاہر میں مسخ ہوگئے ہیں اس سے زیادہ ان کا باطن مسخ ہو جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اقبال کو بھیجاجو معلوم نہیںکس طرح ظلمات کے ان توبرتو پردوں کو چاک کر کے ان کے دلوں میں بیٹھ گئےاور جب تک ان کی روح شعراس کائنات کے اندر کارفرما ہےاس وقت تک انشاء اللہ ان میں دردکی ایک کسک باقی رہے گی، اگرچہ دلوں کی جگہ سینوں میں پتھر پیدا ہونے لگیں۔
جب مایوسیاں گھیر لیتی تھیں، ہم اقبال کے شعروں میں ایک نشانِ امید دیکھتے تھے جب تاریکیاں چھا لیتی تھیںاقبال ہمارے لیے شعاعِ ہدایت بن کر چمکتے تھے۔ وہ روحوں کوگرما دیتے تھے، دلوں تڑپا دیتے تھے۔ ان کی زبان سے ہم مشرق کے ضمیر کی صدائیں سنتے تھے، ان کی ہندی نغموں میں حجاز کی لے مضطرب تھی۔ وہ زمین کے تھے مگر ان کی پرواز آسمان تک تھی۔ وہ شاعر تھے مگر ان کی شاعری میں علمِ نبوت کی روح کارفرما تھی۔
وہ دنیاداروں کےبھیس میں قلندر اور دیوانوں کے رنگ میں دانائے راز تھے۔ خداوند! ہمارا یہ شاعر کہاں گیا! اس کی روح پر تیری بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں!!"
(رسالہ الاصلاح، اعظم گڑھ ،مئی 1938)
/channel/ilmokitab
فرمایا دوستو! ابھی کام کا وقت باقی ہے۔ عنقریب دین کے لئے دو زبر دست خطرے پیش آئیں گے ۔ ایک تحریک شدھی کی طرح کفر کی تبلیغی کوشش ، جو جاہل عوام میں ہوگی۔ اور دوسرا خطرہ ہے الحاد و دہریت کا جو مغربی حکومت وسیاست کے ساتھ ساتھ آرہا ہے ۔ یہ دونوں گمراہیاں سیلاب کی طرح آئیں گی جو کچھ کر نا ہے ان کے آنے سے پہلے پہلے کر لو۔
(*ملفوظ (۸۳ ) حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ* )
Https://telegram.me/ilmokitab
وفیات : ۱۳ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد ابراہیم بادانی ۔وفات۔1966
شفاعت احمد دہلوی، منشی ۔وفات۔1969
طیب علی علوی، سیٹھ۔وفات۔1964
ظہیر الحسن لاری، جسٹس(ر)۔وفات۔1972
نہال اجمیری (محمد انوار الحق)۔وفات۔1987
مولاناسید وقار علی بجنوری۔وفات۔2012
مولانا حفیظ الرحمن واصف دہلوی۔وفات۔1987
سرشاه سلیمان۔وفات۔1941
شاہ فیصل شہید۔وفات۔1975
اللہ بخش یوسفی۔وفات۔1968
عباس محمود العقاد۔وفات۔1994
حبیب جالب۔وفات۔1993
/channel/ilmokitab
سچی باتیں (۳؍اپریل ۱۹۲۵ء)۔۔۔ ماہ رمضان المبارک
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
مسلمان کے لئے سال بھر میں سب سے زیادہ متبرک مہینہ یہی رمضان کا ہے۔ قرآن مجید وحدیث نبویؐ دونوں اس کی بزرگیوں اور فضیلتوں پر گواہ ہیں۔ آپ اپنی جگہ پر سوچئے، کہ خود آپ کہاں تک اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں؟ آپ خود اورآپ کے گھر والے روزہ دار ہیں؟ اور اگر کسی عذر شرعی کی بنا پر مجبورًا ترک روزہ کئے ہوئے ہیں، تو اس کی قضا، یا مسکینوں کے کھلانے پر مستعد ہیں؟ آپ کے محلہ ، اور آپ کی بستی کی مسلمان آبادی میں، روزہ داروں، اور غیر روزہ دارون کی تعداد میں کیا تناسب ہے؟ شبرات ومحرم کے مراسم جس وسیع پیمانہ پر مسلمانوں میں گھر گھر منائے جارہے ہیں، عید وبقرعید کے موقع پر ہر گھر میں جو سامان جشن ہوتاہے ، کیا اسی مناسبت سے ہم اور آپ، رمضان مبارک کے اہتمام واحترام میں مصرو ف رہتے ہیں؟
اس ماہ مبارک کے اہتمام واحترام کے یہ معنی نہیں، کہ دن کا بیشتر حصہ سونے اور بدمزاجی میں، اور شب کا بڑا حصہ معدہ کی خاطر داریوں میں بسر کیا جائے، اور شام کے وقت افطاری کے نام سے ہر قسم کی فضول خرچی اور بد احتیاطی روارکھی جائے۔ روزہ تو اس واسطے ہے، کہ ہم کو سادگی کا سبق دے اور طبیعت کو صبر وتحمل کا خوگر بنائے۔ ہمارے جو بھائی عام طور پر شام کو ایک یا دوچیزیں کھانے کے عادی ہیں، اور رمضان میں محض افطار کے وقت پانچ پانچ سات سات کھانے ضروری سمجھتے ہیں، وہ خود اپنے دل میں ذرا غور کریں کہ وہ روزہ کی غرض کہاں تک پوری کرتے ہیں! روزہ تو خواہشوں کے ضبط کے لئے ہے، وہ اس لئے کہ انہیں کئی گنا بڑھا اور پھیلا دیا جائے۔ الہ آباد میں کئی سال ہوئے ایک ذی علم اور مشہور صوفی بزرگ تھے، وہ اس مہینہ بھر گوشت اور دوسری لذتوں کا استعمال بالکل ترک کردیتے تھے۔ روزہ کی روح وغایت کو وہ ہم لوگوں سے کہیں بہتر سمجھے تھے، جو افطاری کی بے اعتدالیوں جو جزو رمضان بنائے ہوئے ہیں۔
روزہ ، جسم وروح، دونوں کا قدرتی مصلح، اور صحت بدنی وصحتِ اخلاقی دونوں کا ضامن ہے۔ ہم نے اپنی شامت وبدبختی سے، اس کی یہ دونوں خوبیاں زائل وبرباد کردی ہیں، اول تو ایک بڑی آبادی سرے سے روزہ رکھتی ہی نہیں پھر جو روزہ دارہوتے ہیں ، وہ دن میں ہر قسم کی بدمزاجی اور چڑچڑاہٹ کو روزہ کے عذر پر اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں، اور افطار کے وقت سے لے کر سحری تک کھانے پینے کی ہر بے اعتدالی روا رکھتے ہیں۔ اس کا نام روزہ نہیں۔ روزہ دار کی شان تو یہ ہونی چاہئے کہ غیبت، حسد، غصہ، طمع، ہر قسم کی اخلاقی گندگی سے اپنے تئیں پاک رکھے، غصہ اور اشتعال کے موقع پر بھی ضبط وصبر سے کام لے، اور بدگوئی وسخت کلامی کے مقابلہ میں نرمی وفروتنی اختیار کرے۔ یہ روزہ روح کا ہوا۔ جسم کا روزہ یہ ہے ، کہ افطار کے وقت اور افطار کے بعد غذا میں افراط واسراف سے بچے۔ ماہ رمضان میں ہم سے بہتوں کی صحتیں بجائے درست ہونے کے خراب ہوجاتی ہیں، اور اکثروں کو جو معدہ کی شکایات پیدا ہوجاتی ہیں، وہ سب انھیں بد پرہیزیوں اور بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہیں۔
/channel/ilmokitab
اس وقت ایک عجیب صورت حال ہے، ہم ہزاروں میل دور فلسطین اور غزہ اور دنیا کے مخلتف کونوں میں مسلمانوں کی حالت زار پر تڑپ رہے ہیں، لیکن کیا ہمیں اس کا احساس ہے کہ ہمارے وطن کے حالات کس رخ پر جارہے ہیں، ہماری خواہش ہوتی ہے کہ عالم عرب اور اسلام کے بھائی بھی ہمارے حالات سے باخبر ہوں، ہمارے درد ودکھ میں اخلاقی طور پر شریک ہوں، کچھ نہیں تو ہمارے لئے دعائے خیر ہی کر لیا کریں، لیکن افسوس کا مقام ہے، ہمارے یہاں ہزارہا ہزار عربی زبان کی تعلیم گاہیں اور جامعات ہیں، ان میں سے ہاتھ کی انگلیوں کی تعداد کے برابر بھی ایسے باصلاحیت افراد نہیں مل رہے ہیں جو عرب میڈیا کے سامنے امت اسلامیہ ہندیہ کی ترجمانی موثر اور پروفیشنل انداز سے کرسکیں، دنیا بھر میں عربی زبان میں منعقد ہونے والے علمی وادبی سیمیناروں میں ہماری نمائندگی کرسکیں، یہ میدان مسلسل خالی ہوتا جارہا ہے، اس وقت جو بھی خبریں خاص طور پر عالم عرب کو وطن عزیز کے مسلمانوں کی پہنچتی ہیں، وہ انگریزی میڈیا کے توسط سے پہنچتی ہیں،جو ایک تو براہ راست نہیں ہوتیں، دوسرے اس میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی مسلم دشمنی کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔یہ وقت سنجیدگی سے غور کرنے کا ہے، جو خامیاں ہمارے تعلیمی اداروں میں ابلاغ میں ناکامی کی شکل میں پائی جاتی ہیں، ان کے ازالے کی شدید ضرورت ہے، اور اس کی بنیاد کا پہلا پتھر علماء و دانشوران کا تحریر وبیان میں قدرت اور درست اور موثر زبان پر مہارت ہے۔ اگر یہ صلاحیت اگر انہیں حاصل نہیں ہوگی تو مشکل سے مشکل کتابوں کی گتھیاں حل کرلیں، عبارتوں سے وہ وہ باریکیاں نکالیں کہ اگر ان کتابوں کے مصنفین قبر سے اٹھ کر ان مجلسوں کو ایک نظر دیکھ لیں تو ان نکات کو سن کر ششدر ہوجائیں اور سر دھندنے لگیں، لیکن زبان وبیان وتحریر وتعبیر پر جس قدرت اور صلاحیت کی ضرورت ہے اس سے ہم خالی ہوں تو پھر ہماری صدائیں صدا بہ صحراء ثابت ہونگی، جن تک ہم اپنی بات پہنچانا چاہیں ان تک بات نہیں پہنچ پائے گی۔ مزید باتیں ان شاء اللہ پھر کبھی، یار زندہ صحبت باقی۔
2024-03-10
/channel/ilmokitab
یہاں یہ بات بھی ذہن میں آرہی ہے کہ گذشتہ ساٹھ سالوں کے دوران ہمارے مدرسوں میں تعلیم پائے ہوئے سب سے ہونہار طلبہ کی ایک بڑی تعداد جو کریم کی حیثیت رکھتی تھی ، مدینہ یونیورسٹی چلی گئی تھی، اس کے چند فائدے بھی ہوئے، لیکن اس کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں ہوئے،ہمارے مدرسوں کی محنتوں کا نچوڑ بہترین طلبہ وہاں گئے تھے، اور پھر زندگی کی آسائشوں کے اتنے عادی ہوگئے کہ وطن میں ملنے والی تنخواہ انکی ضروریات زندگی کے لئے کافی نہیں ہوسکی، لہذا کشادگی معاش کی تلاش میں زیادہ تر وطن سے دور ہوگئے، یہ طلبہ جب جامعہ میں داخلہ لے رہے تھے تو نہ صرف لیسانس بلکہ اس سے بھی بڑھی ہوئی تعلیمی صلاحیتوں کے مالک تھے، وہاں بی اے سال اول میں داخلہ ہوا،جس کی وجہ سے انہیں وہاں پر محنت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، اور وہ سہل پسندی کے شکار ہوگئے، انہوں نے اپنے اوقات اور نظام تعلیم سے خاطر خواہ استفادے کی کوشش نہیں کی، اور اس سے بھی زیادہ خراب یہ ہوا کہ جامعہ کے منتظمین اور مشرفین نے یہ کہ کر کہ آپ ایک کفرستان سے آئے ہوئے ہیں، وہاں کے مسلمانوں میں شرک اور بدعت پھیلی ہوئی ہے، لہذا آپ کو توحید اور عقیدہ میں پختہ ہوکر وہاں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اور زیادہ تر ان طلبہ کا داخلہ عقیدہ کے شعبے میں کردیا گیا، یونیورسٹی کے ان اساتذہ اور ذمہ داران کا سابقہ دوسرے معاشروں سے نہیں ہوا تھا، انہیں غیر مسلم معاشروں کی نفسیات اور مزاج سے کما حقہ آگاہی بھی نہیں تھی،لہذا عقیدہ سلف کے نام پر انہوں نے جو سکھایا، اس سے غیروں کی کیا اصلاح ہوتی،الا ماشاء اللہ انہوں نے خود اپنوں ہی کو اپنوں سے دور کردیا، ان میں افتراق اور منافرت کا سبب بنے، ہمارے خیال میں اگر ہمارے فارغین کی رہنمائی کلیۃ اللغہ میں داخلہ کے لئے کی جاتی تو ان کا بھی بھلا ہوتا اور ہمارے تعلیمی اداروں کے طلبہ میں عربی میں تعبیر وبیان کی صلاحیت میں کافی ترقی ہوسکتی تھی۔
اس وقت ہمارے مدرسہ سے وابستہ طلبہ و اساتذہ سے زبان وادب کے فروغ کے سلسلے میں مستقل فرمائشین آتی رہتی ہیں، ان میں زیادہ تر نظامت کی کتابیں اور جدید ادب کی چند کتابوں کی طلب کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے، اس کی بڑی وجہ ان حضرات کا یہ سمجھنا ہے کہ دوچار کتابوں کا مطالعہ ان کی اس کمی کو دور کردے گا، جب کہ بات ایسی نہیں ہے۔
ہمارے مدارس کا ماحول کچھ ایسا ہے کہ یہاں تصنع سے بھرپور زبان کو ادب سمجھا جاتا ہے، اس کا مظاہرہ طلبہ کے پروگراموں میں بھی ہوتا ہے، جب یہ موقع بے موقع اشعار کی بھرمار کرکے ان پروگراموں کی سنجیدگی کا ملیامٹ کردیتے ہیں، اشعار کا ایہ استعمال مشاعروں سے بھی کچھ بڑھا ہی ہوا ہوتا ہے۔
مشاعرہ کی تہذیب پر یاد آیا کہ کوئی ایک ماہ قبل دبی میں زعبیل پارک کے کرکٹ میدان میں میں جشن ریختہ کا انعقاد ہوا تھا،پروگرام دو روزہ تھا، جس کے آخری روز ایک مشاعرہ رکھا گیا تھا، ایک روز کے پروگرام کی حاضری کا ٹکٹ ہندوستانی کرنسی کے حساب سے فی فرد پچیس ہزار، پندرہ ہزار، اور تین ہزار روپئے یا اس سے زیادہ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس پروگرام میں پانچ ہزار افراد نے ٹکٹ خریدکر شرکت کی ہوگی، اور ہماری نظر میں دبی کی تاریخ میں حاضرین کی تعداد کے لحاظ سے ابتک کا سب سے بڑا مشاعرہ تھا، اس مشاعرہ میں شرکت سے پہلے گذشتہ دو عشروں سے ہماری رائے بنتی جارہی تھی کہ اردو مشاعرے کی تہذیبی روایات اب ختم ہورہی ہیں،سامعین کا ذوق بھی بدل گیا ہے، اب یہی کوی سمیلن کے نام پر ہڑبونگ کا دور دورہ ہے، لیکن اس مشاعرے نے ہماری رائے بدل دی ہے،اب محسوس ہوتا ہے کہ مشاعرے کی تہذیبی روایات ابھی ختم نہیں ہوئیں، الٹی سیدھی قلابازیوں اور اوٹ پٹانگ شاعری اور حساس جسموں کے مظاہرے کے بغیر بھی مشاعرے کامیاب ہوسکتے ہیں، ناظم مشاعرہ عنبرین حسیب عنبر صاحبہ تھیں، جنہوں نے مشاعرے کے آغاز ہی میں کہ دیا کہ ہمارے مہذب معاشرے میں عورتوں پر تالیاں نہیں بجائی جاتیں، اس ایک جملہ کے بعد آخر تک کوئی بھی تالی بجنے کی آواز نہیں سنائی دی، ناظم مشاعرہ نے شاعروں کو دعوت دیتے ہوئے، شعروں کا زیادہ سہارا بھی نہیں لیا، جب کہ موصوفہ دور حاضر کی ممتاز شاعرہ ہیں، اور کسی شاعر نے ترنم میں اپنا کلام بھی نہیں سنایا، باوجود اس کے کوئی شاعر ایسا نہیں تھا جسے بھر پور داد نہ ملی ہو، کئی عشروں سے ایسا کامیاب مشاعرہ ہمارے مشاہدے میں نہیں آیا۔
*علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا عبید اللّٰه سندھیؒ کی نظر میں*
مولانا سندھی رحمۃ اللّٰه علیہ، سید صاحب علیہ الرحمہ کو خط میں ایک جگہ یوں لکھتے ہیں:
میں آپ کی علمی زندگی اور اس کے ارتقا کا مسلسل مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ میرا ہمیشہ سے یقین مستحکم رہا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں جب صحیح سیاسی احساس پیدا ہوگا تو ان کو اسلام کی صحیح تعلیم دینے والے نوجوان اہلِ علم میں آپ کا درجہ بہت بلند رہے گا۔
مکاتیب مولانا عبید اللّٰه سندھیؒ/صفحہ: ۵۸
/channel/ilmokitab
#صلاة_التراويح
روى ابن عساكرَ عن محمد بن إسحاق بن خزيمة ، حدثنا الربيعُ قال : ( كان الشافعي لا يصلِّي مع الناس التراويحَ ، ولكنه كان يصلِّي في بيته ) .
وقال الإمام الشافعي في "الأم" : ( فأما قيام شهر رمضان فصلاة المنفرد أحب إليّ منه ) .
قال الإمام النووي : ( التراويح سنة بإجماع العلماء ، وتجوز منفردًا وجماعةً ، وأيهما أفضل ؟ فيه وجهان مشهوران ، وحكاهما جماعة قولين ؛ الصحيح باتفاق الأصحاب : أن الجماعة أفضل ، وهو المنصوص في البويطي ، وبه قال أكثر أصحابنا المتقدمين ، والثاني : الانفراد أفضل .
قال أصحابنا العراقيون والصيدلانيd والبغوي وغيرهما من الخراسانيين : الخلاف فيمن يحفظ القرآن ، ولا يخاف الكسل عنها لو انفرد ، ولا تختل الجماعة في المسجد بتخلفه ، فإن فُقِد أحد هذه الأمور فالجماعة أفضل بلا خلاف ) .
و عند الحنفية كل ما شرع بالجماعة فالمسجد أفضل ، ولذا لو ترك أهل المحلة ( (في مدينة ما (التراويح في المسجد و صلوا في البيوت أثموا الكل ، فإن التراويح للرجال و النساء سنة مؤكدة خلافا للروافض ، و الأظهر ان الجماعة في المسجد سنة بالكفاية.
والذي يقتدى به فليحضر ؛فإنه يختل به الجماعة . و يتضرر المسجد .
فضیلۃ الشیخ شاہجیہان نقاب
ورنہ لات پڑتی رہے گی !
اتواریہ : شکیل رشید
جمعہ کے روز سے میرے تصور میں رہ رہ کر دہلی میں نمازیوں پر لات اور گھونسے چلانے والا ویڈیو ، خبر اور تصاویر گھومتی رہی ہیں ۔ اور مَیں ہی کیا اس ملک کے اور بیرون ممالک کے مسلمان بھی ، ایک پولیس اہلکار کے ذریعے سجدے میں پڑے نمازیوں پر بوٹ سمیت لات برسانے ، اور گھونسے مارنے کی ویڈیو دیکھ کر بے چین ہو اٹھے ہوں گے ۔ شاید لفظ بے چین درست نہیں ہے ، یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہکا بکا رہ گیے ہوں گے ، اور سوچ میں پڑ گیے ہوں گے کہ کیا اب اُن کی اس ملک میں یہ اوقات رہ گئی ہے کہ ایک پولیس اہلکار اپنے بھاری بوٹ کے ساتھ ان پر لات چلائے ، اور اس کی سزا بس معطلی ہو ! اس ملک میں 2014 کے بعد بلاشبہ حالات بدلے ہیں ، بے شک فرقہ پرستی میں بھاری اضافہ ہوا ہے اور ایسے لوگ جنہیں پہلے سیکولر اور لبرل جانا جاتا تھا یرقانی رنگ میں رنگ گیے ہیں ۔ بہت کچھ ہوا ہے ، مسلمانوں پر غیرشرعی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں ، مار پیٹ اور ماب لنچنگ وغیرہ وغیرہ ، لیکن دہلی میں جو ہوا ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ! یہ تو ہو رہا ہے کہ ملک بھر میں اکیلے اور نہتے مسلمانوں کو گھیر کر ان سے جئے شری رام کا نعرہ لگوایا جا رہا ہے ، لیکن کسی نماز پڑھتے ہوئے شخص پر کوئی خاکی وردی پوش لات اور گھونسے چلائے ، ایسا میرے سُننے میں نہیں آیا ، حالانکہ پولیس سخت متعصب ہوگئی ہے ۔ کیا اس ملک کے مسلمان اور ان کے لیڈران ، اس ملک کے علماء اور مسلمان دانشوران کو دہلی کے واقعے پر کوئی بے چینی ہے ، انہیں کوئی احساس ہے کہ یہ جو ہوا ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس ملک کے مسلمانوں کو اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے اٹھنا ہوگا ، لڑنا ہوگا ، آگے بڑھ کر اپنے حقوق حاصل کرنے ہوں گے ، بصورت دیگر ان کے کولہوں پر بھاری بوٹوں والے لات معمول کا حصہ بن جائیں گے ، اور پھر جب وہ لات گھونسوں پر لیے جائیں گے تو ایک دنیا اُن پر ہنسے گی اور لاتیں پڑتی رہیں گی ۔ اگر جمعہ کی نماز کے لیے تمہارے پاس مسجد نہیں ہے تو اوروں کی طرح یہ ملک تمہیں بھی یہ حق دیتا ہے کہ تم سڑک پر نماز پڑھو ۔ جب دھارمک مقاصد کے لیے اوروں کو سڑکوں ، گلیوں اور محلوں کے استعمال کی اجازت ہے ، تو مسلمانوں کو کیوں نہیں ؟ اگر اس لیے ان کو اجازت نہیں کہ وہ مسلمان ہیں تو یہ انتہا درجہ کی فرقہ پرستی اور نسل پرستی ہے ۔ حقوق کے حصول کے لیے لڑنے کا مطلب جنگ نہیں ہے ، نہ جہاد ہے ، اس کا مطلب اپنے حقوق کی بِنا رُکے اور جھکے مانگ ہے ، مسلسل آواز کا اٹھانا ہے ۔ آواز بند ہوئی تو سمجھ لیں سانس بھی بند ہوجائے گی ، لہٰذا اپنی زندگی کا ثبوت دیں اور بالکل صبر سے اور امن قائم رکھتے ہوئے اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں ۔
*قوم کی جنس*
فقیر سید وحید الدین مرحوم لکھتے ہیں:
ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم نے کسی زندہ اور صاحبِ کردار قوم کی پہچان بتاتے ہوئے ایک بار کہا کہ جس طرح دنیا کی دوسری اشیاء میں نر اور مادہ کا جنسی امتیاز موجود ہے۔ اسی طرح قومیں بھی نر اور مادہ ہوتی ہیں، اور اس کا پتہ ان کے قول و عمل، معاشرت، کردار خصائل اور نفسیات سے چلتا ہے۔
جگر ہو خوں تو چشم و دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
روزگارِ فقیر/صفحہ: ۷۰/ انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ڈاکٹر تابش مہدی کا سنہری مراسلہ۔۔۔ تحریر : احمد حاطب صدیقی*
دیکھا گیا ہے کہ بعضے بعضے لوگ ’سنہرا موقع‘ نہیں لکھتے۔ ’سنہری موقع‘ لکھتے ہیں۔ ہمارا جی چاہتا تھا کہ ایسے موقع پرستوں کی خوب خبر لی جائے۔ مگر نئی دہلی سے ڈاکٹر تابشؔ مہدی نے خبر دی ہے کہ ’سنہرا‘ کوئی رنگ ہوتا ہی نہیں۔ صاحب! رنگ تو ’سنہری‘ ہی ہوتا ہے، جیسے گلابی ہوتا ہے، جیسے چمپئی ہوتا ہے، جیسے نارنجی ہوتا ہے یا جیسے دھانی ۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ رنگا رنگ بات دل کو لگتی ہے۔ اگر لوگ باگ ہلکی سردی کو’گلابی جاڑا‘ بولتے ہیں، شریکِ حیات کرنے کو ’چمپئی چہرہ‘ چاہتے ہیں، اپنی دُلہن کے لیے’نارنجی جوڑا‘ خریدتے ہیں اور اوڑھنے والیاںسر پر ’دھانی روپٹّا‘ اوڑھ کر دھان کے کھیت میں کھیت ہو رہتی ہیں توکسی ’سنہری موقعے‘ سے فائدہ اُٹھانا بھلاکیسے غلط ہوگیا؟ ویسے اہلِ لغت تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ زنانہ اوڑھنی ’روپٹّا‘ نہیں، دوپٹّا ہے اوراس دوپٹّے میں واؤ غیر ملفوظ ہے، یعنی بولتے ہوئے واؤ نہیں بولا جاتا۔ دال پر پیش لگا کر ’دُپٹّا‘ بول دیتے ہیں، جیسا کہ ناسخؔ نے بولا:
آج اوڑھا ہے دوپٹّا آسمانی یار نے
میرے سر کو بھی بلائے آسمانی چاہیے
مگر دوپٹّا ’آسمانی‘کہنے والے ناسخ نے’رنگ‘ کے ’سنہرے‘ ہونے کا اعلان کرڈالا۔ ناسخؔ ہی کا ایک شعرنوراللغات میں منقول ہے:
وصف جب میں نے کیے تیرے سنہرے رنگ کے
خود بخود ہر صفحۂ دیواں سنہری ہو گیا
اس شعر کے ضمن میں ڈاکٹر تابشؔ مہدی، بقول خود ’’اُردو کی مستند ترین لغت، نوراللغات‘‘ سے اقتباس کرکے ارسال کرتے ہیں:
’’جلالؔ نے ’سرمایۂ زبانِ اُردو‘ میں لکھا ہے کہ ’یہاں لفظ سنہری کو یائے مجہول کے ساتھ یعنی امالہ کے ساتھ ’سنہرے‘ پڑھنا خطا ہے۔ اس واسطے کہ ’سنہری‘ نام ایک رنگ کا ہے۔ پس اس رنگ کی طرف خواہ شے مؤنث منسوب ہو، خواہ شے مذکر، بہرطور اس کو یائے معروف کے ساتھ ’سنہری‘ پڑھیں گے۔ قیاس بر رنگ اگری، بسنتی، چنپئی، دھانی وغیرہ‘‘۔ جب کہ صفحۂ دیواں کوناسخؔ نے بھی ’سنہری‘ ہی کہا۔
ڈاکٹر تابش ؔ مہدی نے جلالؔ کے اس قولِ معقول کی وضاحت فرماتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ ’’سنہرا بولنا غلط ہے، کیوں کہ ’سنہری‘ ایک رنگ کا نام ہے۔ رنگ مذکر و مؤنث نہیں ہوتا، بلکہ مذکر و مؤنث دونوں کے لیے ایک ہی شکل میں آتا ہے۔ جیسے بسنتی، دھانی، چمپئی۔ اب اگر ان کو مذکر کے ساتھ بولنا ہو تو یہ نہیں کہیں گے کہ بسنتا کپڑا، دھانا جوڑا اور چمپیا لباس۔ بلکہ کہیں گے بسنتی کپڑا، دھانی جوڑا، چمپئی لباس۔ بالکل اسی طرح ’سنہری‘ بھی ایک رنگ ہے۔ مذکر لفظ کے ساتھ ’سنہرا‘ بولنا غلط ہے۔ سنہری ہی استعمال کرنا چاہیے‘‘۔
مگر مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ رنگوں کی تذکیر و تانیث استعمال کرنے پر ہم نے اہلِ زبان کو اس جھگڑے میں پڑتے نہیں دیکھا۔ مثلاً نیلا آسمان ہی نیلی چھتری بھی کہلاتا ہے۔ پیلا جوڑا پہن کر کچھ لوگوں کی رنگت پیلی پیلی سی لگنے لگتی ہے۔ جامہ زیب خواتین اگر ہرا جامہ زیب تن کرلیں تو رنگ سے رنگ کا میل کرنے کو اس پر ہری ہری چوڑیاں پہن لیتی ہیں۔ اُدھر پتھر کے بُت پوجنے والوں کے لیے صنم تراش کوئی کالا پتھر تراش کر کالی مائی کی مورتی گھڑ لیتے ہیں اورفخرسے کہتے ہیں:
میرے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
یوں تو مولوی نورالحسن نیر مرحوم نے نوراللغات میں لفظ ’سنہرا‘ کے معنی بھی دے رکھے ہیں، جس کی نشان دہی ڈاکٹر تابشؔ مہدی نے بھی کی : ’’سنہرا: صفت مذکر۔ سونے کے رنگ کا، زرّیں، وہ چیز جو سونے کے رنگ کی ہو، نام ایک رنگ کا جس کو طلائی بھی کہتے ہیں‘‘۔
اسی طرح ڈاکٹر تابش مہدی پرتاب گڑھی کے موجودہ مسکن سے سابقہ تعلق رکھنے والے مولوی سید احمد دہلوی نے بھی فرہنگِ آصفیہ میں لفظ ’سنہرا‘ کے معنی یوں درج کیے ہیں:
’’صفت: رُپہلا کا نقیض۔ سونے کے رنگ کا۔ مُذہّب۔ زر اَندوز۔ طلائی۔ طلا کا۔ زرّین۔ پُر زَر۔ سونے کا‘‘۔
’نقیض‘ کا مطلب ہے ضد، اُلٹا، برعکس اور برخلاف۔ ’ذہب‘ سونے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا ہر سنہری شے، طلائی یا مُطلّاچیز اور وہ دست کاری جس پر سونے کا کام کیا گیا ہو، نیز سونے سے بنائی ہوئی تمام اشیا ’مُذہّب‘ کہلائیں گی۔
مولوی سید احمد دہلوی صاحب نے لفظ ’سنہرا‘ کے استعمال کی نظیر بھی پیش کردی ہے۔ سند کے طور پر ایک شعرتو رشکؔ کا دیا ہے:
یہ طلائی رنگ جسمِ یار گہرا ہو گیا
جو انگرکھا چھو گیا تن سے سنہرا ہو گیا
اوردوسرا شعر آتشؔ کا ہے:
مے کی تکلیف نہ کیوں کر کریں اُن آنکھوں کے جام
موئے سر ابرِ سیہ، برق سنہرا تعویذ
دلچسپ بات یہ ہے کہ سید صاحب نے ’سنہری‘ کے معانی بھی ٹھیک وہی درج کیے ہیں جو ’سنہرا‘ کے لکھے ہیں۔ اور لفظ ’سنہری‘ کے استعمال کی سند میں بھی کئی اشعار دیے ہیں۔ان اشعار میں سے ایک شعر توسعادت یار خان رنگینؔ کاہے:
دانت خاصے دھڑی طلسم جمی
سنہری لب تس پہ بول چال پری
تلاوت مولانا قاری مفتی محمد قاسم انصاری بھوپالی
پارہ نمبر : ۵
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
www.urduaudio.com
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=05-walmohsanat-part-01-traslation, 05- Walmohsanat (part 01) Traslation
قاری صاحب کی آواز میں مکمل کلام پاک سننے کے لئے
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=qasim&c=&s=qari-muhammed-qasim-ansari&t=
وفیات: ۱۵ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آل حسن، نواب سید ۔وفات۔1959
دراب پٹیل ، جسٹس ۔وفات۔1997
ڈاکٹر شوقی ضیف۔وفات۔2005
مولانا ثناء اللہ امرتسری۔وفات۔1948
مولانا محمد یوسف قاسمی۔وفات۔2011
/channel/ilmokitab
خلاصہ مضامین قرآن
بیان وآواز: شیخ الحدیث مولانا محمد مالک کاندھلویؒ
پارہ اول
لنک اردو آڈیو
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=01-khulasa-mazameen-quran, 01-Khulasa Mazameen Quran
قرآن پاک کے پورے تیس پاروں کا خلاصہ
https://audio.bhatkallys.com/speakers/muhammed-malik-kandhalvi/?page=2
تلاوت: قاری محمد علی شرف الدین الیمانی
ترجمہ: مولانا سلیم الدین شمسی
(۱۵ ) پارہ ۶ سورہ المائدہ (۱۴۔۵۴ )
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=15-para-6-surah-al-maidah-ayat-14-54, 15- Para 6 - Surah Al-Maidah (Ayat 14 - 54)
اس مصحف مترجم کے دوسرے اجزاء سننے اور ڈون لوڈ کرنے کے لئے
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=&c=&s=qari-ali-sharafuddin-al-yamani&t=
مولانا امین احسن اصلاحی کی علامہ اقبال کے بارے میں ایک نادر تحریر جس کا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھے جانے کا مستحق ہے۔ اصلاحی صاحب نے یہ مضمون علامہ اقبال کی وفات پر لکھا۔ آئیے ملاحظہ فرمائیے:
"یہ دَور ہمارے عروج و اقبال کا دَور نہیں، بد بختی و ادبار کا دَور ہے۔ہم پاتے کم ہیں، کھوتے زیادہ ہیں۔ اونچے درجے کے اشخاص ہم میں اولاً توپیدا نہیں ہوتے اور اگر دو چار پیدا ہوتے ہیں تو قبل اس کے کہ ان کے جا نشین پیدا ہوں، وہ اپنی جگہ خالی چھوڑ کرچل دیتے ہیں۔ اپنی قوم کے ان لوگوں کو گنیے جن کے دم سے آج ہماری آبرو قائم ہے اور پھر دیکھیے کہ ایک ایک کر کے ان کی صف کس طرح ٹوٹتی جا رہی ہے اور کوئی نہیں جوان کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھے قوموں کے مرنے اور جینے کا ایک اصول ہے جو ہمارے موجودہ فلسفۂ قلت و کثرت سے بالکل مختلف ہے۔ ہم صرف سَروں کو گننے کےعادی ہو رہے ہیں حالاں کہ زندگی سَروں سے نہیں بلکہ دماغوں اور دماغوں سے زیادہ دلوں سے ہے۔
؎ مجھے یہ ڈر ہےدلِ زندہ تو نہ مر جائےکہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
جن لوگوں کے سامنے معاملہ کی یہ حقیقت، اپنی پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے، کون بتا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کی موت نے ان کے دلوں کا کیا حال کیا! دنیا تقدیر سے شکوہ سنج ہوتی ہے تو سر پیٹتی ہے، اور دشمن کی چیرہ دستیوں سے چڑتی ہے تو انتقام لیتی ہے، لیکن اقبال کا نوحہ خواں کیا کرے وہ تو صرف خدا ہی سے شکوہ کر سکتا ہے۔
انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ!
غالباً 1916ء یا 1917ء کا واقعہ ہے۔ استاد مرحوم مولانا عبد الرحمٰن نگرامی، طلبہ کی مجلس میں اقبال کا شکوہ پڑھ رہے تھے۔ میں اس مجلس میں موجود تھا۔ یہ پہلی مجلس ہے جس میں میں نے شعر کے اثر کو آنکھوں سے دیکھا۔ آنکھوں سے اس لیے کہ اس وقت تک میرے دماغ میں شعر کی خوبیوں اور نزاکتوں کو سمجھنےکی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی تھی۔
میں مجلس میں بیٹھا ہوا صاف سن رہا تھا کہ اقبال کے شعروں کی صدائے بازگشت در ودیوار سے بلند ہو رہی ہے اور آنکھوں سے علانیہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ آسمان سے کوئی چیز برس رہی ہے اور ساری زمین ہل رہی ہے۔ میں نے آج تک کوئی مجلس اتنی پُر اثر نہیں دیکھی اور اس ایک مرتبہ کے علاوہ شاید کبھی میرے دل نے شاعر بننے کی آرزو نہیں کی۔ لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئی کیوں کہ میں نے اقبال بننے کی آرزو کی تھی اوراقبال صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ آج بیس بائیس برس کے بعد اس مجلس کی لذیز یاد پر رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی!! ہنسی بچپنے کی اس سادہ لوحی پر کہ شاعر ہونا تو درکنار اقبال کے شعروں کو سمجھنےکی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوئی اور رونا اس لیے کہ وہ عظیم الشان ہستی آج اٹھ گئی ہے جو حوصلوں اور ولولوں کو دعوتِ رفعت و سبقت دینے کے لیے ایک نشان پرواز اور دماغوں کی رہنمائی و قیادت کے لیے "پہاڑی کا چراغ" تھی۔
شاید وکٹر ہیوگو نے کہا ہے "زندگی کتنی ہی شاندار اور عظیم الشان ہو لیکن تاریخ اپنے فیصلہ کے لیے ہمیشہ موت کا انتظار کرتی ہے"۔ دنیا کے لیے ممکن ہے یہ ایک مسلمّہ حقیقت ہو۔لیکن اقبال کے لیے تاریخ نے اپنے اس کلیہ کو توڑ دیا۔ اقبال کی عظمت کی گواہی دلوں نے ان کی زندگی میں دے دی، اب تاریخ کے لیے صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ دلوں کے تاثرات کو محفوظ اور قلم بند کر لے۔
اقبال اس بزم میں یا تو بہت بعد میں آئے تھے، یا بہت پہلے۔ اتنے بعدکہ اہلِ مجلس کے دماغوں اور دلوں میں ان خیالات و افکار کے لیے ایک چھوٹے سے نقطہ کے برابر بھی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ یا اتنے پہلےکہ جس صبح صادق کے وہ مبشر تھے نہ صرف یہ کہ افق میں ابھی اس کی صبح کاذب کا کوئی نشان بھی نمودار نہ ہوا تھا۔ بلکہ دنیا پر ابھی نصف شب کی ہولناک تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن اقبال کو اللہ تعالیٰ نے تسخیرِ قلوب و ارواح کے لیے اس نفوذ میں سے ایک حصہ عطا فرمایا تھا، جسے وہ صرف اپنے ان بندوں کو مسلح فرماتا ہے جو وقت کی فاتحیت کا تاج پہن کر آتے ہیں۔ چناں چہ تھوڑے ہی دنوں میں دنیا نے دیکھا کہ جس شخص کی باتیں اہلِ مجلس کے لیے اتنی بیگانہ تھیں کہ ایک شخص بھی ان کو سمجھنے والا نہ تھا۔ اب اتنی مانوس و محبوب ہوگئی ہیں کہ ہر بزم و انجمن کا افسانہ ہیں اور کوئی دل ایسا نہیں ہے جو اقبال کی عظمت کے آگے جھک نہ گیا ہو۔
اقبال نے جس جرات کے ساتھ ہمارے علم و عمل کے ایک ایک گوشہ پر تنقید کی اورجس بے خوفی کے ساتھ اپنی دیکھی ہوئی راہوں پر چل پڑنے کی دعوت دی، اس میں پیغمبرانہ عزیمت کی نمود ہے۔ جہاں تک جرح و تنقید کا تعلق ہے، مولانا حالی کی زبان بھی تیغ و سناں سے کم نہ تھی، ان کا تیشہ بھی ہمارے عمل و اعتقاد کے ہر گوشہ کے لیے بے امان تھا۔ وقت سوسائٹی جن عناصرسے مرکب تھی ان میں سے ایک ایک کو چُن کر حالی نے پکڑا اور قوم کی عدالت میں مجرم ٹھہرا کر ان کو بے دریغ سزا دے دی اپنی بے پناہ قوت سے ہمارے تمام اعمال و معتقدات کو ایک نئی راہ پر لگا دیا۔ لیکن حالی کا کام آسان تھا۔ وہ قوم کو زمانہ کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔
شاہ فیصل شہید(وفات ۱۳ مارچ ۱۹۷۵ء) تحریر: کوثر نیازی /channel/ilmokitab
Читать полностью…تلاوات قاری محمد علی شرف الدین الیمنی
ترجمہ: مولانا سلیم الدین شمسی
آڈیو(۳) پارہ نمبر ۳ ۔ سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۲۱
پیشکش اردو آڈیو ڈاٹ کام
لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=03-para-2-surah-al-baqarah-ayat-121-176, 03- Para 2 - Surah Al-Baqarah (Ayat 121 - 176)
ماہ مبارک میں اس مصحف مترجم کی مزید ریکارڈنگس یکجا حاصل کرنے کے لئے کلک کریں
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=&c=&s=qari-ali-sharafuddin-al-yamani&t=
مدارس دینیہ میں زبان کی تعلیم۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
Читать полностью…ہمارے مدارس سے جس طرح جدید ادب سیکھنے کے لئے دو ایک کتابیں،طلب کی جاتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں علمی اور مطالعہ کا ماحول بنانے کی زیادہ اہمیت نہیں ہے،سہل پسندی اتنی ہے کہ ایک دوکتابوں کو کافی سمجھتے ہیں، جب کہ زبانیں ماحول اور ضرورت سے آتی ہیں، اور مطالعہ ایک دو کتابیں پڑھنے کا نام نہیں ہے، اس کے لئے ناشتہ اور کھانے کی طرح عادی بنانا پڑتا ہے۔اس لئے جدید ادب کی فرمائشیں ہمیں ٹاٹ میں پیوند لگتی ہیں۔ جب تک مستقل مطالعہ کا ماحول نہیں بنتا، دو ایک کتابیں یا گائڈ ازبر کرنے سے زبان آنے سے رہی۔ بات کو مزید طول دینے کے بجائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں چند باتیں آپ کے سامنے رکھی جائیں۔اس امید پر کہ اس سلسلے میں ہمارے اساتذہ اپنے تجربات اور تاثرات سے مستفید فرمائیں گے۔
۔ جو ادارے کام کر رہے ہیں انہیں کام کرنے دیا جائے، ضروری نہیں کہ ہر ادارہ سب کام کرے، دوسروں سے شکایتیں کرتے رہنے کے بجائے اپنا بھی کچھ حصہ اس اس جد وجہد میں شامل کرنا چاہئے۔
۔ چند ایک ایسے ادارے پائے جانے چاہیں جہاں کے تعلیمی ماحول میں سو فیصد عربی زبان رائج ہو۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر نہ ہو، جن درجات کا میڈیم عربی بنایا جائے ان درجات سے اردو زبان کی جملہ کتابیں نکال کر ان کے متبادل عربی کتابیں شامل کی جائیں۔
۔ ہمارے کئی ایک اداروں میں عصری اسکولوں کی دیکھا دیکھی اور ضرورت کے تحت عربی میڈیم شروع کرنے کا مطالبہ مسلسل زور پکڑتا جارہا ہے، لیکن جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے اس وقت ان اداروں میں جو نصاب تعلیم رائج ہے،یا جن اداروں سے وہ ملحق ہیں ،ان کا نصاب عربی میڈیم کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا، اسے من وعن رائج کرنے سے تعلیم بے جوڑ ہوجائے گی، اور مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، اس کے لئے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، مرکزی تعلیمی اداروں کی سرپرستی و الحاق انتشار سے بچنے کے لئے ضروری ہے، لیکن جب محسوس ہوتا ہے کہ یہ بڑے مراکز مخصوص معاشروں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا نہیں کر پارہے ہیں تو پھر ان سے گلوخلاصی کے مطالبے کبھی نیک نیتی سے اور زیادہ تر بد نیتی سے ہوتے رہتے ہیں۔
۔ ایک دو کتابیں پڑھنے یا نصاب میں شامل کرنے سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا کرتا، اس کے لئے عربی کتابوں کے مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لئے ادب اطفال کی مخصوص لائبریریوں کے قیام پر توجہ دینا نہایت ضروری ہے، جس سے طلبہ کو ترجمے اور قواعد نحو وصرف کو ذہن پر مسلط کئے بغیر روانی سے عربی زبان پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ اس مقصد سے اللہ تعالی نے اس ناچیز کو اپنے ایک عزیز کے تعاون سے درسگاہ ثانویہ جامعہ آباد بھٹکل میں ایک مکتبہ اطفال قائم کرنے کی توفیق دی ہے، اس میں غیر ملکی کتابیں مستقل آرہی ہیں، گزشتہ دوسالوں میں اس مکتبہ میں کتابوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کرگئی ہے،اس میں شارجہ بک فیر، قاہرہ بک فیر ، اور دوسرے بک فیرز سے کتابیں مسلسل پہنچ رہی ہیں، کتابوں کے بہت سارے نسخے فراہم کرنا ہمارے بس کی بات نہیں، ہماری خواہش ہے کہ اس مکتبہ اطفال کو ایک مرکزیت حاصل ہو، اس کی کتابوں کو ڈیجیٹلائز کیا جائے، اس مقصد سے بک اسکینر فراہم کردیا گیا ہے، اللہ توفیق دے اور ذمہ داران اور اسٹاف دلچسپی لیں تو مزید سہولتیں فراہم کرنا مشکل بات نہیں ہے،اس وقت یہ کتابیں برصغیر میں عربی زبان پڑھائے جانے والے اداروں کی دسترس سے عموما باہر ہے،لہذا ان نادر ونایاب کتابوں کو اسکین کرکے اور ضرورت مندوں کو مطلوبہ کتابوں کا ڈیجیٹل ایڈیشن فراہم کرنے کی سہولت فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔ دور دیس میں ذریعہ معاش سے وابستہ رہ کر ہم سے اتنا ہی ہوسکتا ہے، یہ سلسلہ اگر کامیابی سے جاری ہوجاتا ہے تو پھر ہمارے مدارس کی ایک بنیادی ضرورت پوری کرنے میں مدد مل سکے گی ان شاء اللہ۔
ہم دینی مدارس کو دین کے قلعے کہتے ہوئے نہیں تھکتے، کبھی ہم نے سوچا بھی ہے کہ ان قلعوں کی دیواریں کتنی مضبوط ہونی چاہئیں، اس فکر کے بغیر دین کے قلعے کہتے رہنے سے کیا حاصل؟ اگر دیواریں گھانس پھونس کی اور دھول مٹی کی بنی ہوئی ہوں تو دیواریں ایک ہلکا سا حملہ بھی برداشت نہیں کرسکیں گی، اللہ اس دن سے محفوظ رکھے، لیکن ظاہری نگاہوں میں حالات اسی ڈگر پر جاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
*بات سے بات: مدارس دینیہ میں زبان کی تعلیم ( ۳۔ آخری قسط)*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*
ہم مدارس میں رائج زبان دانی کے مختلف طریقوں کی تفصیلات میں گئے بغیر یہ کہنا مناسب لگتا ہے کہ جہاں تک زبان بولنے اور لکھنے کا تعلق ہے تو اس کے لئے انہیں سکھانے کے جو جدید طریقے ہزاروں ماہرین تعلیم اور نفسیات کی اجتماعی فکر و کوششوں سے سرکاری یا اکسفورڈ جیسے تعلیمی اداروں کے توسط سے سامنے آتے ہیں ، ان سے استفادہ کئے بغیر چارہ نہیں۔
اس وقت ہمارے زیادہ تر فارغین احساس کمتری کا شکار ہورہے ہیں، کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ تھوڑی محنت کے باوجود ایک عصری تعلیم گاہ کا طالب علم اپنی تعلیمی زبان میں اظہار بیان اور تحریر پر جو قدرت رکھتا ہے، ہمارے طلبہ ہی نہیں بلکہ بعض جید اساتذہ بھی جن کی زندگیاں تدریس میں گذری ہین ان کی برابری نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں بعض دفعہ تو بڑی شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے۔ اور اس وقت حالت بڑی قابل رحم ہوجاتی ہے، جب ہمارے فارغین کسی عرب ملک میں ملازمت کی درخواست دیتے ہوئے اپنی سند کو بی اے اور یم اے اسلامیات اور عربی زبان کے مطابق بتاتےہیں، اور جب ان سے عربی میں کوئی سوال کیا جائے ہے، بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اور ایک جملہ بول نہیں پاتے، نہ ہی کوئی درخواست لکھ پاتے ہیں۔
ہم نے کئی بڑوں کے ایسے کئی ایک واقعات دیکھیں ہیں، لیکن یہاں ایک واقعہ بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۲ء میں جب جمالیہ میں میرا دوسرا سال تھا ہمارے پرنسپل مولانا سید عبد الوہاب بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لال پیٹ ٹامل ناڈو کے ایک بڑے استاد کو جو نحو کی ایک مشکل ترین کتاب شرح ملا جامی گذشتہ بیس سال سے پڑھاتے آرہے تھے، اور بڑے نامور مدرسین میں شمار ہوتے تھے،اور اپنے حلقے میں امام نحو کہلاتے تھے، صبح کی دعا میں طلبہ کو چند نصیحتین کرنے کو کہا، بد قسمتی سے ان کی زبان سے جو پہلا جملہ نکلا وہی عربی قواعد کے لحاظ سے غلط تھا، اور طلبہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔
چند روز پہلے اس ناچیز سے ہمارے ایک محترم بزرگ نے دریافت کیا تھا کہ میرا بچہ فارغ ہوگیا ہے، اس کی ابھی اتنی عمر نہیں کہ ملازمت سے لگ جائے، تعلیمی میدان میں اسے مزید آگے بڑھانا چاہتا ہوں، تو ہم نے ان سے گذارش کی تھی کہ ہمارے مدرسوں میں تفسیر حدیث فقہ اور قواعد زبان کی تعلیم اور کتاب فہمی کی صلاحیت دوسری جگہوں سے بہتر ہوا کرتی ہے، لیکن انہوں نے جو سیکھا ہے اس کی تعبیر کی ویسی صلاحیت ان میں نہیں ہوتی، ہمارے فارغین کو اگر کسی عرب یونیورسٹی میں کلیۃ اللغۃ میں پڑھنے کا موقعہ مل جائے تو ان کی صلاحیتیں نکھر جائیں گی، او انہیں زبان کے استعمال میں عبور حاصل ہوجائے گا۔ اور اگر ماجستیر اور دکتوراہ کا موقعہ ملے تو سونے پر سہاگہ ہوگا، کیونکہ اس سے انکی تصنیفی تربیت کی راہ کھلے گی۔
یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہئے کہ یونیورسٹیوں میں یم اے ، اور ڈاکٹریٹ کا جو نظام رائج ہے اگر خود احتسابی دیانت اور کچھ سیکھنے کی نیت سے محنت کی جائے تو اس نظام کا بہت فائدہ ہوتا ہے، چونکہ اردو فارسی اور عربی ڈپارنمنٹ میں دنیا کے سب سے کرپٹ ہمارے ہی بھائی بند بیٹھے ہوئے ہیں، اس وجہ سے ان سرٹیفکٹوں نے اپنی اہمیت کھودی ہے، ورنہ کوئی کچھ سیکھنا چاہئے تو اس نظام میں بہت کچھ منفعت کی چیزیں پائی جاتی ہیں۔
رباعیات عمر خیام ( منظوم ترجمہ از آغا شاعر قزلباش) مع مختصر تشریح
ڈاکٹر اصغر کمال
رباعی نمبر۔۔۔۔۔۔۔21
گویند مرا ، کہ سور با حور خوش است
من میگویم کہ آب انگور خوش است
ایں نقد بگیر و دست ازاں نسیہ بدار
کآواز دہل شنیدن از دور خوش است
آغا شاعر :
سب کہتے ہیں کہ حور با سور ہے خوب
میں کہتا ہوں افشردہ انگور ہے خوب
یہ نقد سنبھال ۔ قرض کی توقع چھوڑ
ڈنکے کی صدا سہانی پر دور ہے خوب
عمر خیام کا مزاج ہے کہ وہ دین مصطفٰی ﷺ سے بیزار اور عیش دنیا پر سوار مسلمانوں پر لعن طعن کے پتھر ضرور پھینکتے ہیں لیکن نرم و نازک مخمل میں لپیٹ کر ،
عمر خیام فرماتے ہی کہ زاہد و ناصح مجھے سمجھاتے ہیں، راہ راست کی باتیں بتاتے ہیں قرآن و حدیث پر عمل کرنیوالے خداترس مسلمانوں کو جنت کی خبر سناتے ہیں وہاں آباد حوروں کی خاصیتیں اور خوبیاں گناتے ہیں ،
مگر میں ان کی چکنی چپڑی باتوں سے دور رہتا ہوں اور انھیں سمجھاتا ہوں کہ اے زاہدوں یہ انگوری شراب جو نقد آج میرے ہاتھوں میں دیکھتے ہو یہ اس حور سے بہتر ہے جو کل ملے گی اور سنو کہ اس ادھار مال کو چھوڑ کر اس نقد شراب کے مزے لو اور یہ بھی سنو کہ دور کے ڈھول ہمیشہ سہانے لگتے ہیں(، دور بجنے والا ڈھول بھی اچھا لگتا ہے )
شاعروں نے ہمیشہ اپنے معشوق (ارغوانی شراب ہو کہ مجسم محبوب ) کو حوروں پر ترجیح دی ہے ،
رند لکھنوی فرماتے ہیں کہ :
حور پر آنکھ نہ ڈالے کبھی شیدا تیرا
سب سے بیگانہ ہے اے دوست شناسا تیرا
داغ دھلوی فرماتے ہیں :
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی
سلسلہ نمبر: 20
انتخاب مطالعہ
تحریر: خواجہ حسن نؔظامی
انتخاب: محمد عدنان وقار صدیقی۔
*چار مہینے اور چار دن کی بادشاہی*
وہ جو کہتے ہیں: چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات، یہ مثل بہادر شؔاہ پر بالکل صادق آئی ؛ 11 مئی 1857 ء کو دہلی انگریزوں کے قبضے سے نکلی، اور بہادر شاہ کے قبضے میں آئی، اور چاہ مہینے اور چار دن کے بعد 14 ستمبر 1857ء کو پھر بہادر شاہ سے چِھن کر انگریزوں کے قبضے میں چلی گئ،
یہ چار دن چار مہینے کی بادشاہت فقط نام کی بادشاہت تہی ؛ ورنہ فوجی سپاہی اس قدر بے ادب اور گستاخ تہے کہ پکار پکار کر کہتے تھے: کہ جسکے سر پر ہم جوتی رکھ دیں وہی بادشاہ ہے، یوں دیکھنے اور کہنے کو بادشاہ کے نام کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا تہا ؛ مگر بادشاہ کا حکم پوری اطاعت سے کوئی نہ مانتا تہا، اور تمام شہر میں ایک عام افراتفری اور بے امنی چھائی ہوئی تھی،
بؔخت خاں اور مؔرزا مغل کا اقتدار بے شک تسلیم کیا جاتا تہا اور مؔرزا خضر سلطان وغیرہ شہزادوں کے اختیارات بھی قائم نظر آتے تھے ؛ لیکن ضبط نظم اور ضابطہ کی اصلی پابندیاں نام کو بھی نہ تھیں ؛ بہر حال جیسا کچھ بھی تہا پھر بھی بادشاہی کا نام ہوگیا تہا، جو چار مہینے اور چار دن کے بعد بالکل نابود ہوگیا، اور اب تو جبکہ 1922ء کا دور دورہ ہے بادشاہ کی اولاد دہلی میں بھیک مانگتی پھرتی ہے۔
( *دہلی کی جاں کنی، صفحہ: 55، طبع: مشائخ بکڈپو، دہلی* )
خلاصہ مضامین قرآنی ۔۔۔ چند باتیں
✍️ڈاکٹر نوید اقبال انصاری
سینیئر اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی
ابلاغ عامہ سے متعلق میری کئی کتابیں طلبہ کے لیے شائع ہو چکی ہیں ، جبکہ روزنامہ ایکسپریس کا کالم نگار بھی ہوں۔ میں عمر انور بدخشانی صاحب کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے بھی اپنی اس کتاب کے تحفے سے نوازا ، اس سلسلے میں کچھ گزارش کرنا چاہتا تھا ، اس لیے شروع میں اپنا تعارف پیش کر دیا ہے ، تاکہ بات کرنے والے کا تعارف سب کے سامنے رہے، اور بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
ماشاءاللہ کتاب بہت اچھی ہے، مجھے کتاب کے شروع میں ایک عنوان "چند باتیں" پڑھنے کو ملا جو مولانا محمد سلیم الدین شمسی رحمۃ اللہ علیہ کا لکھا ہوا ہے. یہ اس قدر شاندار ہے کہ اگر مجھے پوری کتاب پڑھنے کو نہ بھی ملتی تو یہ تحریر ہی میرے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ اس حوالے سے ہی میں نے سوچا ہے اس گروپ (اسٹڈی سرکل) میں کچھ اظہار خیال کروں۔
میرا خیال ہے کہ اس تحریر کو گروپ کے تمام لوگوں کو ٹھنڈے دل سے پڑھنا چاہیے ، اور اس پر لکھنا بھی چاہیے ، کیونکہ اس میں جو کچھ باتیں بیان کی گئی ہیں وہ اس دور حاضر کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ میں اپنے طلبہ کو ایک کورس "ماس میڈیا ان سوسائٹی" پڑھاتا ہوں ، اور طلبہ سے ڈسکشن بھی کرتا ہوں ، چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ نئی نسل اور پڑھے لکھوں کا اسلام کے حوالے سے غلط فہمی کا ایک جو بڑا مسئلہ سامنے آرہا ہے اس ضمن میں مذکورہ بالا تحریر ایک شاندار تحفہ ہے کسی کو سمجھانے کے لیے۔
مجھے معلوم ہے کہ یہ تحریر ہمارے پڑھے لکھے بہت سے لوگوں کو آسانی سے ہضم نہیں ہوگی، خاص طور پہ جن کا آئیڈیل مغرب ہے، اس لیے گزارش ہے کہ اس کو ٹھنڈے دل سے، اطمینان سے پڑھیں اور ہوسکے تو اس پر مضامین لکھ کر آگے بڑھائیں ۔
شکریہ
بک رہے تھے، گویا گالی کو بطور تکیہ کلام استعمال کر رہے تھے۔ حضرت ان کے پاس تشریف لے گئے اور بہت ہی پیارے انداز میں فرمایا، دیکھو بچو! آپ وضع قطع اور شکل و صورت سے اچھے خاندان کے لوگ معلوم ہو رہے ہو، لیکن جو آپ بات بات میں گالی گلوچ کر رہے ہو، وہ تمہارے خاندان کی شان کے خلاف معلوم ہوتا ہے، حضرت کی بات سن کر ان نوجوانوں نے سر جھکا لیا اور کہا دادا! آپ کی بات بالکل درست ہے اب ہم گالی گلوچ نہیں کریں گے۔
ذاکٹر گنونت شاہ جو ہندو صحافی ہیں، ان سے بھی حضرت کے گہرے تعلقات تھے، وقتا فوقتا ملاقات ہوتی رہتی تھی، چنانچہ وہ حضرت ؒ کے اخلاق اور آپ کی زندگی سے بہت زیادہ متاثر ہیں، انہوں نے حضرت کے انتقال کے بعد ایک خط لکھا اور گہرے رنج کا اظہار کیا، چند دنوں بعد ایک اور مضمون لکھ کر گجراتی زبان کے مشہور اخبار دویہ بھاسکر میں شائع کیا۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ایک مرتبہ مولانا یعقوب صاحب حج سے واپس آئے تو میرے گھر تشریف لائے اور میرا احترام کرتے ہوئے مجھے اکراما ہدیہ بھی پیش کیا، جب بھی آپ میرے یہاں ملاقات کیلیے پہنچتے تو مذہب اسلام کا کوئی ایک اہم پہلو پیش فرماتے، آپ کی باتیں مجھے بہت پسند آتیں، میں توجہ سے سنتا، میرا پختہ یقین ہے کہ اگر موجودہ حالات کے تناظر میں اس ملک بھارت کے لوگوں کو ایسے سنجیدہ مذہبی لوگ ملتے رہیں، تو یہ ہندو مسلم کشمکش کا بے معنی اختلاف ہی ختم ہو جائے۔ ایک مرتبہ جب میں بیمار ہوا اور صاحب فراش ہو گیا تو حضرت میری عیادت کیلیے تشریف لائے اور مکمل دو گھنٹے میرے پاس بیٹھے، یہ میری یادگار رفاقت تھی، میں نے بھی پیٹ بھر کر آپ کی باتیں سنیں، اب بھی مجھے احساس ہو رہا ہے کہ کوئی صاحب دل صوفی بول رہا ہے اور میں اس کی باتیں سن رہا ہوں، حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر آنکھ کی پلک بھی ہل نہیں سکتی، بہت سے اہل ایمان بھی یہ جملہ بولتے ہیں " یہی اللہ کی مرضی ہے " ۔
موت اس کی ہے کرے زمانہ جس کا افسوس
یوں تو آتے ہیں سبھی دنیا میں جانے کیلیے
حضرت ضعیف و نحیف البدن تھے، مثل ہلال تابناک و روشن تھے، یہ ہلال نیر بھی بتاریخ 25 ذی الحجہ 1442ھ بروز جمعرات مطابق 5 اگست 2021ء کو بوقت تہجد 4 بجکر 10 منٹ پر محاق ہو
گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
چھپ گیا آفتاب، شام ہوئی
ایک مسافر کی راہ ختم ہوئی
کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے