ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

یہ کہنا کہ یعقوب بالا کو پوچھ دیکھو، اس کا مطلب یہ تھا کہ یعقوب بالا پانچ وقت کی اذان دیتا ہے، تو باب الاذان میں سے دیکھ لو۔
ایک مرتبہ جلالین شریفین کے طلبہ نے حضرت سے درخواست کی کہ مکمل جلالین کہاں دیکھنے جائیں گے، کچھ اشارہ کر دیجیے، آپ نے جواب دیا کہ ‌‌"لمبا دسترخوان بچھا دو، تھوڑا‌‌ گائے کا گوشت ہوگا تو بھی چل جائے گا۔" لمبا دسترخوان بچھادو کا مطلب، سورہ مائدہ دیکھ لو، اور تھوڑا گائے کا گوشت بھی چل جائے گا کا مطلب سورہ بقرۃ دیکھ لو۔

*غیر مسلموں سے تعلقات*
آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ غیر مسلموں سے براہ راست تعلق رکھتے تھے، اور حتی الامکان اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ملک میں امن و امان کی فضا قائم رہے اور ہندو مسلم آپس میں مل جل کر رہیں۔ چنانچہ فروری 2002ء میں صوبہ گجرات میں طوفان بلا خیز واقع ہوا، جس کو گودھرا کانڈ سے یاد کیا جاتا ہے، اس وقت حضرت نے تمام لوگوں کو امن و امان سے رہنے کی اپیل کی اور اس موضوع سے متعلق ایک گشتی تحریر بھی نشر کی، یہ گشتی تحریر مختلف شہروں اور دیہاتوں کا گشت کرتی ہوئی ضلع کے خاص ذمہ دار ڈی ایس پی ‌‌"چوڈاسما ‌‌" کے ہاتھ جا لگی،(یہ تحریر بالکل سادہ مادری زبان گجراتی میں لکھی گئی تھی، اور عموما ایسی مختصر سی بر وقت تحریر یا باتیں دھواں دھار تقریر سے زیادہ مؤثر ہوتی ہیں) وہ اسے پڑھ کر بہت خوش ہوا اور ملاقات و تعارف کے بعد ایسا عقیدتمند ہوا کہ مسلسل حضرت والا کہ پاس آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس عقیدتمندی کا اثر تھا کہ ایک مرتبہ جب حضرت کسی کام کیلیے آنند یا اس کے اطراف میں معمول کے بموجب موٹر کار پر سوار ہوکر تشریف لے جا رہے تھے، تو یہی عقیدت مند ڈی ایس پی نڈیاد مقرر تھا، نہ جانے اسے کیسے علم ہوا کہ شیخ یعقوب سارودی ہمارے ضلع میں تشریف لائے ہیں، اس نے حضرت سے رابطہ کر کے ملاقات کی دعوت دی اور دو پولیس افسر کو لانے کیلیے بھیج دیا، حضرت نے معذرت بھی کی مگر وہ بضد رہے، چناچہ حضرت ان کے آدمیوں کے ساتھ جب ان کی چوکی پر پہنچے تو اس نے پرتپاک استقبال کیا، بڑے ہی ادب سے ملاقات کی اور آپ کو لیکر دفتر میں داخل ہوا، حضرت کو استنجاء کا تقاضا تھا، اس سے فارغ ہوئے، اس نے ایک برتن میں وضو کیلیے پانی بھر کر رکھا ہوا تھا، حضرت نے وضو فرمایا اور چوڈاسما صاحب نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے گلاس میں پانی پیش کیا، وہاں کچھ کانسٹیبل کھڑے تھے، انہوں نے اپنے رئیس کو کہا بھی کہ آپ حضرت کے ساتھ بیٹھیں ہم ان کو پانی پلا دیتے ہیں، مگر اس نے کہا نہیں! یہ خدمت میں ہی کروں گا، یہ مسلمانوں کے بڑے ودوان (عالم) ہیں، وہ پاکی کا بہت خیال رکھتے ہیں، تم لوگ تو کھڑے کھڑے پیشاب کر کے ایسے ہی چل دیتے ہو، خیر! چائے ناشتہ کا نظم تھا، اس سے فارغ ہوئے اور پھر اگلی منزل کو روانہ ہوئے۔
اسی طرح جب ستمبر 2002ء میں اکشر دھام مندر پر حملہ ہوا، تب آپ ناراین مندر کے مہنت کی دعوت پر مندر پہنچے اور ان کے سامنے بلا خوف اپنی بات رکھی، مہنت کے ساتھ جو گفتگو ہوئی، اسمیں دو باتیں قابل ذکر ہیں: اول یہ کہ حملہ صرف ظالمانہ کاروائی ہے، اسلام اور سچے مسلمان اس کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ دوم یہ کہ مسلمان کبھی شرک نہیں کر سکتا، چاہے اس کو جلا دیا جائے یا قتل کردیا جائے۔ مسلمان شرک کو اتنا ناپسند کرتا ہے جتنا آگ میں ڈالا جانا۔ اس پر مہنت صاحب کا جواب یہ تھا کہ ہم بھی اللہ کی عبادت کرتے ہیں، ہم پرمیشور کہتے ہیں تم اللہ کہتے ہو، حضرت نے فرمایا: ہم براہ راست خدا کی عبادت کرتے ہیں، اس نے وہی جواب دیا جس کا ذکر قرآن کرتا ہے: ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی (الزمر 3.)۔ اس نے بھی یہی کہا کہ اصل خدا کی روح بت میں سرایت کر آئی ہے، حضرت نے اس کا جواب دیتے ہوئے اپنا پہلا جواب دوہرایا کہ یہی تو شرک ہے، الحاصل یہ گفتگو ختم ہوئی۔
حضرت ؒ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ: جہاں دعوت اسلام کو پیش کرنے کا سنہرا موقع پاتے تو اسے مقدور بھر استعمال فرماتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک غیر مسلم ڈاکٹر کے پاس دوائی لینے گئے، اس نے کہا: مجھے کچھ نصیحت کریں، حضرت نے فرمایا: میں ایک ایسا شہر اور ملک جانتا ہوں، جہاں آدمی ہمیشہ تندرست ہوگا کبھی بیمار نہ ہوگا، ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے گا کبھی موت سے سابقہ نہ پڑے گا، نہ اس کو فضلہ خارج ہوگا نہ کوئی پریشانی لاحق ہوگی، وہاں آدمی ہمیشہ جوان رہے گا کبھی بوڑھا نہ ہوگا، پھر اس کے سوال کرنے پر فرمایا: وہ جگہ سورگ (جنت) ہے، حضرت فرماتے تھے اگر مجھے پوچھتا کہ: وہاں جانے کیلیے کیا کرنا چاہیے؟ تو میں اسے ضرور دعوت اسلام پیش کر دیتا۔
ایک مرتبہ حضرت بذریعہ رکشا کنتھاریہ سے سورت تشریف لے جا رہے تھے، دوران سفر رکشا میں کچھ بگاڑ آ گیا، رکشہ والے نے حضرت سے کہا آپ اس چوراہے پر رک جائیں ناشتہ سے فارغ ہو جائیں، میں رکشے کا کام کروا لیتا ہوں، حضرت فارغ ہوکر انتظار میں کھڑے تھے کہ آپ کی نظر کچھ غیر مسلم نوجوان لڑکوں پر پڑی، جو ہنسی مذاق کر رہے تھے اور بات بات میں گالی

Читать полностью…

علم و کتاب

*عفو و درگزر*
حضرت کی زندگی بحث و جدل سے پاک تھی، باہمی نزاع سے ہزاروں میل دور تھی، عفو و در گزر آپ کی نمایاں صفت تھی، تقریبا 1991ء میں حضرت کے فرزند جناب قاری سہیل صاحب حفظہ اللہ اپنے چچا کو ملنے کیلیے جمبوسر گئے تھے، ابھی قاری صاحب کی عمر کوئی 16،17 سال ہوگی، چچا نے اپنے نوخیز بھتیجے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: تمہارے والد صاحب کی ایک خطیر رقم بمد کھیت میرے پاس بطور امانت ہے، قاری صاحب نے عرض کیا کہ ٹھیک ہے واپسی کے موقع پر آپ مجھے عنایت کردیں، میں لے جاؤں گا۔ جب قاری صاحب جمبوسر سے روانہ ہونے لگے تو چچا نے اچھی طرح گن کر مکمل آٹھ ہزار روپے بحفاظت تمام آپ کی جیب میں رکھ دیے اور الوداع کہا، قاری صاحب جمبوسر بس اڈہ چلے آئے اور بس میں بیٹھ گئے، کافی رش تھا، اس درمیان جیب کترا اپنا کام کر گیا، قاری صاحب کو پتہ ہی نہ چلا، جب قاری صاحب کا ہاتھ جیب کی اور گیا تب پتہ چلا کہ روپے قبول ہو چکے ہیں، جس کا لازمی اثر قاری صاحب پر پڑا، چنانچہ وہ بہت ہی قلق و اضطراب میں چچا کے گھر واپس پہنچ کر رونے لگے، چچا نے پوچھا ماجرا کیا ہے؟ کیوں رو رہے ہو؟ اس پر قاری صاحب نے سارا ماجرا سنایا، چچا کے کچھ پولیس افسران کے ساتھ تعلقات تھے، چنانچہ ان سے رابطہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔پولیس افسر نے کسی طرح اس اچکے کو دبوچ لیا، تفتیش کی تو چار ہزار روپے نقد مل گئے، اس نے اقرار کیا کہ باقی استعمال ہو گئے ہیں، پولیس نے اس پر اپنے ہاتھ صاف کیے اور خوب مارا، بقیہ چار ہزار جو ہاتھ لگے اسے لیکر قاری صاحب کنتھاریہ آ گئے، والد صاحب سے ملاقات کی اور پوری کاگزاری سنادی، کارگزاری سننے کے بعد حضرت شیخ نے افسوس کا اظہار کیا، بعد ازاں حضرت شیخ نے قاری صاحب سے چار ہزار روپے لیے اور دوسرے چار ہزار گھر سے لیے اور جمبوسر پہنچے، اس اللہ کے بندے جیب کترے کو تلاش کیا، بتلایا گیا کہ پولیس کی مار کی وجہ سے وہ فلاں مقام پر ہے، حضرت اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سامنے کھڑے رہ کر معافی مانگی، چار ہزار روپے اس کو دیے اور علاج کیلیے ایک ہزار روپے خود اس کو دیے اور ایک ہزار اس کی ماں کو دیے۔۔۔۔۔۔حضورﷺ نے ایسے ہی سعادت مند لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ: جو آدمی حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا فساد چھوڑدے تو اس کیلیے جنت کے بالکل سینٹر مقام پر گھر بنایا جائے گا۔ حضرت اس حدیث پاک کی زندہ تصویر تھے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔۔ الدین النصیحة (مسلم۔ 95) خیر خواہی کا نام دین ہے۔ حضرت ؒ میں یہ صفت بھی نمایاں تھی، مسلم تو مسلم غیر قوم کے گھر جاکر سلوک اور بھلائی کرکے آتے تھے۔

*سخاوت*
حضورﷺ کی ایک صفت حمیدہ سخاوت تھی، چنانچہ روایات میں آپ کی ایک صفت ‌‌" اجود الناس صدرا ‌‌" ذکر کی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت ؒ بھی بڑے سخی دل کے مالک تھے، ملاقات کیلیے آنے والوں کو بغیر ہدیہ دیے روانہ نہ کرتے اور جو کوئی حضرت کیلیے ہدیہ لاتا، اسے ہدیہ بدل ضرور دیتے، یہ بات بھی سنت رسولﷺ سے ثابت ہے۔
حضرت کے پاس بہت سے غیر مسلم بھی آتے، حضرت انہیں بھی ہدیہ دیتے، ایک غیر مسلم بوڑھی عورت حضرت کے گھر ہمیشہ آتی، حضرت اس کی نقدی رقم کے ذریعہ مدد فرماتے، وہ حضرت کو دعا دیتی اوپر والا آپ کی جیب ہمیشہ بھری ہوئی رکھے، حضرت ؒ فرماتے اس دعا کا اثر ہے کہ اللہ میری جیب ہمیشہ بھری ہی رکھتے ہیں کبھی خالی نہیں ہونے دیتے۔
ایک مرتبہ آپ نماز کیلیے تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں دو غیر مسلم مرد و عورت حضرت کے قریب سے گزر رہے تھے، یہ دونوں جنگل سے شہد لاکر فروخت کر رہے تھے، دونوں کی خستہ حالی دیکھ کر حضرت نے پوچھا کیا لائے ہو؟ انہوں نے کہا شہد، آپ نے پوچھا، کسی نے خریدا؟ انہوں نے کہا نہیں! آپ نے جیب سے پیسے نکالے اور دونوں کو سو سو روپے عطا کیے اور نماز کیلیے تشریف لے گئے۔ جب نماز سے واپسی ہوئی تو دوبارہ ان کو دیکھا، بلاکر پوچھا کسی نے خریدا؟ انہوں نے کہا نہیں! حضرت نے دوبارہ ان کو سو سو روپے مرحمت فرمائے، وہ دونوں خوشی خوشی دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔
حضرت شیخؒ بہت سے طلبہ کی خبر گیری کرتے اور محتاج و طلبہ کی مالی اعانت فرمایا کرتے، کئی طلبہ کا ماہانہ وظیفہ سو روپے طے کر رکھا تھا اور طویل عرصہ تک یہ ذمہ داری راقم السطور (مولانا سرفراز صاحب) کے ذمے تھی، بعض طلبہ جو یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر اپنی اپنی جگہوں پر دینی خدمت انجام دیتے، وہ طلبہ یہاں پہنچ کر جب حضرت سے ملاقات کرتے تو حضرت والا اسی راقم آثم کو مامور فرماتے کہ فلاں مولوی صاحب آئے ہیں ان کو 1000 روپے ہدیہ دے دینا، یہ ماہانہ خرچ اس وقت چار ہزار سے چھ ہزار تک ہو جاتا، 2006ء کا یہ حال تھا، بعد ازاں یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا، وقت موعود آتے آتے ماہانہ امدادی وظیفے چالیس ہزار جا پہنچے تھے، اور اس بیچ جب ماہ مقدس رمضان آتا تو آپ کی سخاوت دوبالا ہو جاتی تھی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

طریقہ تدریس کچھ اس طرح تھا کہ وہ معین الفرائض کھولے بغیر زبانی تقریر پر اکتفا فرماتے اور حضرت ہمہ تن گوش ہوکر سنتے، یوں آپ سبقا سبقا اس طرح بڑھتے چلے گئے اور فرائض کا نصاب مکمل کیا، پھر اس فن پر آپ کو ایسا ملکہ حاصل ہوا کہ آپ کے استاذ محترم مولانا عبد الغنی کاویؒ صاحب نے سراجی پڑھاتے ہوئے کلاس میں اعلان کردیا تھا کہ یعقوب کے جواب سے اپنا جواب ملا لو، جس کا جواب اس کے جواب کے مطابق ہوگا اس کا جواب صحیح ہے ورنہ غلط، لہذا طلبہ اپنے جوابات کی نقل آپ کو دکھاکر تصویب کراتے تھے۔
اس فن پر آپ کے عبور کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ مفتی گجرات حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوریؒ کے پاس میراث کا ایک اہم استفتاء آیا، جب اس کو لکھ کر ورثاء پر سہام تقسیم کرنے لگے تو رؤوس پر یہ سہام منقسم نہ ہوتے، مفتی صاحب نے یہ مسئلہ مفتی عبد الغنی کاویؒ صاحب کو دکھایا، ان سے بھی حل نہ ہوا، یہاں تک کہ دونوں فقیہ ایک ہفتہ تک عصر سے تا اذان مغرب بحث و تفحص کرتے رہے، مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔ مفتی عبد الغنی کاویؒ نے مفتی لاجپوریؒ سے کہا آپ یہ مسئلہ رہنے دیں، کل میں ایک طالب علم کو لاؤں گا وہ حل کردے گا۔ دوسرے دن مفتی عبد الغنی کاوی صاحبؒ آپ (شیخ یعقوبؒ) کو لیکر مفتی عبد الرحیم صاحبؒ کے پاس پہنچے، مسئلہ نکالا گیا، آپ نے وہ مسئلہ دیکھا ابھی آدھی منٹ بھی نہ ہوئی تھی کہ طریق تقسیم کی غلطی پکڑ لی۔ حضرت مفتی لاجپوری صاحبؒ بہت ہی خوش ہوئے اور خوب دعائیں دیں اور فرمایا بیٹا! جانتے ہو؟ ہم دونوں ایک ہفتہ سے اس مسئلہ میں پریشان تھے، اسی وقت سے مفتی لاجپوریؒ بھی آپ کو وقیع نگاہ سے دیکھنے لگے۔
1958ء میں آپ دار العلوم اشرفیہ راندیر سے فارغ ہوئے، قاری طیب صاحبؒ کے دست مبارک سے آپ کو دستار فضیلت باندھی گئی۔ راندیر سے فارغ ہوکر آپ شیخ اجمیریؒ کے مشورے سے دیوبند پہنچے، دیوبند میں آپ کا قیام ایک افریقی خاندان کے لڑکوں کی تعلیمی و تربیتی نگرانی کیلیے تھا، مگر موقع کو غنیمت جان کر دار العلوم کے اس وقت کے جید علماء کرام: مولانا فخر الحسن صاحب دیوبندیؒ، علامہ ابراہیم صاحب بلیاویؒ، مولانا فخر الدین صاحب، شیخ عبد الوہاب صاحب مصریؒ، مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوریؒ وغیرہم سے فیض یاب ہوئے۔

*تدریسی خدمات*
درس نظامی سے فارغ ہوتے ہی آپ کو کئی مشہور دینی اداروں سے تدریسی خدمات کی پیشکش ہونے لگی، بالخصوص آپ کی مادر علمی دار العلوم اشرفیہ راندیر، اسی طرح جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کی جانب سے بھی پیشکش ہوئی تھی، مگر مولانا نے اپنے وطن مولود سارود کے مکتب کی خدمت کو ترجیح دی، آپ کی نیت گاؤں کے مکتب کی تعلیمی سطح کو بلند کرنا تھی، اور ساتھ ساتھ گاؤں کے احسانوں کے قرض کی ادائیگی بھی تھی، اس لیے گاؤں ہی میں مقیم رہے اور تقریبا آٹھ سال سارود میں خدمت انجام دی، اس دوران وقتا فوقتا تبلیغی جماعت میں وقت لگاتے رہے۔ 1969ء میں سارود مکتب سے مستعفی ہوکر فلسطین کا تبلیغی سفر کیا، سال ختم کر کے واپس انڈیا آئے، پھر 1970ء میں دار العلوم کنتھاریہ میں آپ کا تقرر ہوا، تقرر کے سال دار العلوم میں تعلیم درجہ عربی سوم تک تھی، مولانا نے تدریس کی ابتدا بنیادی درجات سے کی تھی، جیسے جیسے درجے بڑھتے گئے آپ اوپر کے درجات میں ترقی کرتے گئے، آپ نے چہل سبق سے لیکر بخاری شریف تک ہر درجہ کی کوئی نہ کوئی چھوٹی بڑی کتاب پڑھائی، سبق پڑھانے کا آپ کا مخصوص انداز تھا، طلبہ میں آپ کا سبق بہت مقبول تھا، مختصر اور جچا تلا بیان کرتے کہ طلبہ کو ذہن نشین ہو جاتا۔ دوران درس پوچھتے رہتے کہ ‌‌" بھائی سمجھے؟ ‌‌" بعض مرتبہ کہتے کہ ‌‌" بھائی نہیں سمجھنے کو بھی سمجھے؟ نہ سمجھنا بھی سمجھ میں آنا چاہیے، یہ بھی ایک سمجھ ہے ‌‌"۔
جب دار العلوم کے پہلے شیخ الحدیث مولانا سید محی الدین بڑودویؒ مستعفی ہوگئے تو اس وقت (1981 ماہ اگست، 1401ھ ماہ شوال میں) آپ کو مدرسہ ہذا کا شیخ الحدیث نامزد کیا گیا، اس وقت سے لیکر وفات تک آپ نے تقریبا 41 سال بخاری شریف کا درس دیا۔ آپ کا درس بخاری نہایت ہی آسان انداز میں ہوتا تھا، پوری پوری روایت کا دلنشین انداز میں ترجمہ فرماتے، زیادہ توجہ ترجمۃ الباب پر ہوتی، بڑے اچھے اور آسان طریقے پر ترجمۃ الباب سمجھاتے۔ درس میں آپ اختلافی بحث کو زیادہ طول نہ دیتے تھے، بلکہ دیگر ائمہ کے اقوال اور دلائل بیان کرنے کے بعد مذہب احناف کے دلائل اور وجہ ترجیح بیان فرماتے، جب دوسرے ائمہ کے مذاہب اور جوابات ذکر فرماتے تو ہلکی سی بھی شدت نہ ہوتی، بلکہ پورے احترام کے ساتھ ذکر فرماتے، اور اختلاف کو بیان کرنے میں کسی امام کی معمولی سی تحقیر کو بھی پسند نہ فرماتے تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

سلسلہ نمبر: 19
انتخاب مطالعہ
تحریر: مولانا اکبر شاہ خؔان صاحب نجیب آبادیؒ
انتخاب: محمد عدنان وقار صدیقی۔


*اسلام کی معمولانہ حالت*

یورپ کے عیسائیوں نے مذہبی جوش میں دیوانہ ہوکر اسلام کو مٹانے اور فنا کرنے کے لیے تین سو برس تک مذہبی لڑائیوں کا بازار گرم رکھا ؛ لیکن کہا جاسکتا ہے : کہ وہ اس تین سو برس کی کوشش میں تین مسلمانوں کو بھی اسلام سے برگشتہ کرکے عیسائیت میں داخل نہ کرسکے ۔

اسپین میں مسلمانوں نے اس طرح حکومت کی: کہ اسپین کو امن و راحت کا گہوارہ بناکر نمونۂ جنت بنادیا، اور علم و ہنر کے دریا بہادئیے ؛ لیکن عیسائی زور پکڑ کر جب اسپین کے مسلمانوں پر چیرہ دست ہوئے، تو سوائے اسکے کہ مسلمانوں کو تہِ تیغ کریں یا ان کو آؔبنائے جبرالٹر کے پار ''مراکش'' میں جلا وطن ہونے پر مجبور کریں، اور ان کے بعض بھرے ہوئے جہازوں کو سمندر میں ڈبودیں، اور کچھ نہ کرسکے۔

اس دلخراش داستان کو تفصیل سے سننے کی ضرورت ہے: کہ انسان اپنے پہلو میں پہلے پتھر دل مہیا کرے، پھر بھی اندیشہ ہے: کہ وہ پتھر پگھل کر اور پانی بن کر آنکہوں کے راستے نہ بہنے لگے، سؔسلی یعنی ''جزیرۂ صقلیہ'' میں بھی مسلمانوں کی یہی حالت ہوئی جو اسپین میں ہوئی تھی، سوائے عیسائیت کے کسی اور مذہب کو جرٱت ہی نہ ہوئی کہ وہ اسلام کو معمول( دوسرے مذہب کا پیروکار) بنانے کا خیال بھی دل میں لاسکے، عیسائیوں نے دولت و حکومت سے قوت پاکر اسلام کو اپنا معمول بنانے کی کوششوں کو آج تک برابر جاری رکھا ہے ؛ لیکن اسکی بے بسی قابل رحم ہے ؛ کہ عیسائیوں کو اپنی ہر قسم کی انتہائی کوششوں کے بعد بھی کوئی قابل تذکرہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی،
مال و دولت، جاہ و مرتبہ، حسن و جمال، سائنس وفلسفہ، حکومت و سروری، نشے اور کھیل تماشے، غرضیکہ ہرقسم کا لالچ اور ہر قسم کی کوششیں اپنا کام کر رہی ہیں ؛ لیکن اسلام کے مقابلے میں سب بے سامان، بے اثر اور بلا نتیجہ ہی نظر آتے ہیں ۔
اسلامی سلطنتیں بھی یکے بعد دیگرے ہٹتی جارہی ہیں، اور اسلامی حکومتوں کے ایوان اس طرح دھڑام دھڑام گر رہے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ؛ مگر اسلام کو پھر بھی _ ان شاءﷲ_ کوئی نقصان نہیں پہونچ سکتا ؛ انا لہ لحافظون کا وعدۂ خداوندی آج تک ہمیشہ پورا ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی یقینا پورا ہوگا۔

اسلام کی صداقت کا یہ بھی بڑا ثبوت ہے: کہ عیسائی سلطنتیں اسلامی سلطنتوں پر قابض ہوتی جارہی ہیں ؛ مگر اسلام ان کے مذہب کو ہر میدان میں شکست پر شکست دے رہا ہے، اور اسلام کی صداقتوں کا کبھی زبان سے اور کبھی زبانِ حال سے اسلام کے دشمنوں کو اقرار کرنا پڑ رہا ہے! غرضیکہ کوئی مذہب بھی آج تک اسلام کو اپنا معمول نہیں بناسکا ؛ گو مسلمانوں کو اپنا مغلوب بظاہر بنا سکا ہو۔

( *مذہب اور تلوار، صفحہ: 28، طبع : صوفی پرنٹنگ پریس، پنڈی، پاکستان*)

Читать полностью…

علم و کتاب

ذرا دیکھیں جنہیں اپنے دینی اداروں مین عصری نصاب کہا جاتا ہے ان کا کیا حال ہے، بس یہ چند مضامین کا انتخاب ہوتا ہے، ان میں زیر استعمال الفاظ اور تعبیرات سے متعلق طلبہ سے لی جانے والی محنتیں نہ کے برابر ہوتی ہیں، بس ترجمہ کرکے سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم نے بچوں کو عربی سکھا دی ہے، نہ عربی کے استاد میں اس زبان میں تعبیر کی صلاحیت پائی جاتی ہے، نہ طالب علموں میں، جدید عصری نصاب تعلیم میں مفردات، مترادفات، اضداد اور قواعد زبان کے ریڈروں کے اسباق ہی سے وابستہ ہوتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں ابتدا کے چند سالوں میں دینی و عصری علوم کے ساتھ علحدہ علحدہ نثر، انشاء، قواعد وصرف کی کتابوں کا اتنا بوجھ لادا جاتا ہے کہ اس سے ڈھنگ سے کچھ بھی ہضم نہیں ہوپاتا، ان کا حال اس انگریز کا ہوتا ہے جو کسی ہندوستانی ریسٹورنٹ میں جاتا ہے،اوردسترخوان سے چاول ، گوشت،دال، سالن چٹنی وغیرہ الگ الگ کھاتا ہے، انہیں ہندوستانی کھانوں کی طرح ملا کر نہیں کھاتا، اور ریسٹونٹ سے نکل کر وہ یار دوستوں سے فخر سے کہتا ہے کہ واو میں ہندوستانی کھانا کھاکر آرہا ہوں۔
2024-03-09
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: مدارس دینیہ میں زبان کی تعلیم ( ۲)*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )*

ہمارے مدارس دینیہ میں قوم کے لاکھوں نونہال تربیت پاتے ہیں، ان پر جو محنت ہوتی ہے، اس کی کامیابی جانچنے کا کوئی معیار ہونا چاہئے، ان نونہالوں کے والدین اور سرپرستان نے جن مقاصد کے لئے انہیں موڈرن تعلیم دلانے کے بجائے دینی تعلیم کے لئے قربان کیا ہے، ان کا مقصد کہاں تک پورا ہوسکا ہے؟، اپنے مقاصد میں ان طلبہ کی کامیابی کا تناسب کیا ہے، کیا ان میں اتنی قابلیت پیدا ہوگئی ہے کہ اپنے سیکھے ہوئے علوم وفنون کی ترقی کے قدم کو مزید آگے بڑھائیں، معاشرے میں ایک باوقار مقام حاصل کرکے اس کے تیں ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں، اگر ایسا نہیں ہے تو اس نظام تعلیم وتربیت کو کامیاب نہیں کہا جاسکتا، اور اگر اس کا معیار روز بروز رو بہ تنزل ہے، تو پھر چند ایک باعث فخر شخصیات کا ذکر خیر اس کمی کا مداوا نہیں بن سکتا۔
جب تحریر وبیان پر قدرت زبان سیکھنے کا ایک بنیادی مقصد ہے، تو اپنے مدارس دینیہ کے تعلیمی معیار کا بھی جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے، کیونکہ اس سے ہمارے نونہالوں کا مستقبل وابستہ ہے۔
جب انگریز ہندوستان آئے تھے تو اس وقت فارسی یہاں کی سرکاری اور لکھے پڑھوں کی زبان تھی، اسی میں صدیوں پرانا قوم کا علمی وتاریخی ورثہ محفوظ تھا، جب انگریز نے اس قوم کو اپنے ماضی سے کاٹنا چاہا تو پہلے نو زائدہ اردو زبان کی ترویج میں انہوں نے دلچسپی لی، اس وقت تک اردو زبان میں شعروشاعری تو ہورہی تھی لیکن ابھی اسے ایک علمی زبان کا درجہ حاصل نہیں ہوا تھا، اہل علم اس زبان میں علمی مواد کو پڑھنے میں ہچکچا رہے تھے، جب علمائے امت نے اس سامراجی سازش کو محسوس کیا تو انہوں نے فارسی کا علمی سرمایہ اردو میں منتقل کرنا شروع کردیا، اس طرح مسلمانوں کو ماضی سے کاٹنے کی سازش ناکام ہوگئی، تب پھر انگریزوں نے اردو اور ہندی کے تنازع کے بیچ بوئے، اس کے باوجود تقسیم ہند تک اردو برصغیر میں رابطہ کی سب سے بڑی زبان رہی، لیکن تقسیم کے بعد حالات نے کروٹ بدلی، اور اردو کے دن خراب ہونے لگے، ابتدا میں حکومت کے زیر سرپرستی ہندی زبان کو شدھ کرنے کی تحریک چلی، اور شعوری طور پر آل انڈیا ریڈیو جیسے میڈیا کے اداروں کے ذریعہ ایک مصنوعی زبان کی ترویج شروع ہوئی، لیکن ہندوستان کی فیلم انڈسٹری نے اس میں رخنہ ڈال دیا، اور وہ اداکار، مکالمہ نگار، اور گیت کار جو زیادہ تر اردو پس منظر سے آئے تھے، انہوں نے ہندی کو سلیس اردو رنگ میں رنگ دیا، اور ہندی کے شدھ کرن کی تحریک ناکام ہوگئی، آج دیکھا جائے تو رابطہ کی زبان کی حیثیت سے اب بھی اردو کا راج ہے، لیکن کیا کیجئے اردو والوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ زبانوں کے فروغ و ترقی میں بول چال سے زیادہ اہمیت تحریر کی ہوتی ہے، انہوں نے اردو تحریر کو باقی رکھنے اور اس کے فروغ میں مجرمانہ پہلو تہی کی، جس کا نتیجہ گزشتہ ستر برسوں میں یہ نکلا ہے کہ برصغیر کی سب سے بڑی زبان بولنے والوں کی تعداد سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب وطن عزیز میں صرف سات فیصد رہ گئی ہے، اور مقامی ریاستی زبان گجراتی اس سے بازی لے گئی ہے،قرائن وشواہد سے اس رپورٹ کو مکمل طور پر حقیقت سے دور اور تعصب پر مبنی کہنا مشکل ہے، اس کا اندازہ اردو اخبارات اور کتابوں کے ایڈیشنوں کی خستہ صورت حال سے بہ آسانی لگا سکتے ہیں،اس کی ایک اور معمولی مثال میں ہم بھٹکل میں اردو کی صورت حال کو دیکھ سکتے ہیں، آج سے تیس چالیس سال قبل یہاں پر آٹھ سرکاری اردو میڈیم اسکول ہوا کرتے تھے، اب یہاں کے لوگوں نے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجنا شروع کردیا ہے، اور سرکاری اردو اسکول ویران ہوگئے ہیں، اب ان میں سے جو ایک دو باقی رہ گئے ہیں، ان میں غریب اور روزانہ مزدوری کرنے والوں کے بچے پڑھتے ہیں، گذشتہ دس بیس سال سے جو تعلیم یافتہ نسل سامنے آرہی ہے، وہ اردو زبان پڑھنے اور لکھنے سے نابلد ہوتی جارہی ہے، جب کہ اس سے پہلے یہاں لٹریسی کا مطلب تھا اردو لکھنا اور پڑھنا۔ اور یہاں پر دو چار کلاس پڑھنے والا بچہ بھی اردو لکھ پڑھ لیتا تھا،گمان ہے کہ یہی صورت حال دوسری جگہوں کی بھی ہوگی۔

Читать полностью…

علم و کتاب

پارہ ( ۱) سورۃ البقرہ آیت نمبر ۶۸۔ ۱۲۰
تلاوت: قاری علی شرف الدین الیمانی
ترجمہ: مولانا سلیم الدین شمسی
لنک اردو اڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=para-1-surah-al-baqarah-ayat-68-120, Para 1 - Surah Al-Baqarah (Ayat 68 - 120)
ان شاء اللہ روزانہ نئے اجزاء کی تلاوت شامل کرنے کی کوشش ہوگی یہ جملہ تلاوتیں مندرجہ ذیل لنک پر دستیاب ہونگی

https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=&c=&s=qari-ali-sharafuddin-al-yamani&t=

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: مدارس دینیہ میں زبان کی تعلیم ( ۱)
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )

اس بزم علم وکتاب میں ہماری ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ یہاں ہونے والی بحثیں سنجیدہ ہوں، جو بھی تبادلہ خیال ہو وہ موضوع اور اصولی بنیادوں پر ہو، سنجیدہ علمی بحثوں کو شخصیات کی طرف نہ موڑا جائے، جب بحثوں کا رخ شخصیات مڑ جاتا ہے تو پھر زبان بندی ہی میں اپنی عزت محفوظ محسوس ہونے لگتی ہے، کیونکہ اس کے بعد ماحول جذباتی ہو جاتاہے، پھر ایسے کسی موضوع کے مثبت اور منفی پہلؤوں پر کشادہ ذہنی سے بات کرنا ممکن نہیں ہوتا،اس جانب ہم باربار متوجہ کرتے رہتے ہیں اس کے باوجود بعض احباب کے رویوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ باتیں ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں،اب ایسوں سے بحث میں الجھنا اپنے اور دوسروں کے وقت کا ضیاع محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کا مطالعہ بہت محدود ہوتا ہے، اپنے محبوب شخصیات کے حالات زندگی، تعلیمی وتربیتی پس منظر سے انکی معلومات بہت ہی محدود ہوتی ہے، انہیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ان شخصیات نے اپنے روایتی تعلیمی وتربیتی ماحول سے باہر کن کن باغوں کے پھولوں کی خوشبو سے دل ودماغ کو معطر کیا۔

چند روز قبل بر سبیل تذکرہ مدارس دینیہ میں زبانوں کی تعلیم کی مناسبت سے ہم نے بات کی تھی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پر مزید کچھ روشنی ڈالی جائے۔

۔ مدارس دینیہ میں عربی اردو فارسی پڑھانے کا اولین مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ قرآن وحدیث کی لغوی باریکیوں میں غوطہ زنی کی جائے، گذشتہ چودہ سو سال کے دوران مسلم علماء کے تیار کردہ لٹریچر کو کما حقہ سمجھا جائے، اور فقہ عقیدہ وکلام کی کتابیں جس دقیق علمی اور فنی زبان میں لکھی گئی ہیں ان کا خاطر خواہ ادارک حاصل ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لئے برصغیر میں کئی صدیوں سے درس نظامی رائج ہے، آج یہ نصاب جس شکل میں موجود ہے،اس میں مرور زمانے کے ساتھ کئی تبدیلیاں ہوچکی ہیں، ان میں ایک اہم تبدیلی فنوں کی کتابوں کی تکمیل کے بجائے تعلیمی سال اور درجات پر ان کی تقسیم ہے، اس کے باوجود یہ ایک حقیقیت ہے کہ درس نظامی ابتک اپنے اس مقصد کے حصول میں سر فہرست ہے۔ اور یہ اس کا ایک طرہ امتیاز ہے۔
جب ایک طالب علم کو زبان کی سمجھ آگئی، اس کی باریکیوں پر دسترس ہوگئی ، کتاب وسنت کے مفاہیم ذہن نشین ہوگئے، اور قدیم لٹریچر کی سمجھ بھی قابو میں آگئی تو یہاں سے ایک فارغ التحصل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ابتک جو اس نے حاصل کیا ہے، اپنے اسلاف کی طرح اس میں اضافہ کرنے کی فکر کرے،اور جس طرح اسلاف نے علوم وفنون میں اضافہ کرکے آئندہ نسلوں کو انہیں منتقل کیا ہے، اسی طرح وہ بھی علوم وفنون میں اضافہ کی فکر کرے، ساتھ ہی ساتھ اس کا یہ فرض منصبی ہے کہ پیغام حق کو سلیس اور موثر زبان میں دنیا کے سامنے تحریر وبیان کے ذریعہ پیش کرے۔ سلیس اور موثر زبان کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ علماء وفارغین کا مخاطب صرف علماء و مدرسوں کا حلقہ ہوا کرتا ہے، جبکہ اس حلقہ کا تناسب مسلم معاشرے میں دو فیصد سے زیادہ نہیں ہے، اگر دعوت کو مسلمانوں تک محدود کیا جائے تب بھی ان کے مخاطبین کی تعداد ( ۹۸) فیصد کے قریب پہنچتی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے سروں پرسے دارالعلوموں کی چہاردیواری میں رائج بلیغ اور مشکل زبان گذر جاتی ہے،انہیں ان کی یہ زبان متاثر نہیں کرتی، ان میں ایک حلقہ دانشوروں اور پڑھے لکھوں کا بھی ہے، جو مدرسے کی زبان اور موضوعات سے مانوس نہیں ہے، یہاں زبان کے فہم کے ساتھ لکھنے اور بولنے کی صلاحیت کی ضرورت پیش آتی ہے، اس طرح ( ۱) زبان فہمی ( ۲) تحریر پر قدرت (۳ ) بیان پر قدرت سے زبان دانی مکمل تہوتی ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صرف زبان فہمی کے بعد ان دو عناصر پر قابو کئے بغیر زبان دانی کا عمل پورا نہیں ہوسکتا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر۔۔۔ ابو الخیر مودودی۔ المعارف نومبر ۱۹۹۳

Читать полностью…

علم و کتاب

اہم وفیات : مورخہ ۳ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فراقؔ گھورکھپوری، رگھوپتی سہائے۔وفات۔1982
عبداللہ اسمٰعیل ابراہیم چندریگر ۔وفات۔1972
عبدالواحد معینی،سید (ایس اے واحد)۔وفات۔1980
لطف اللہ خان ۔وفات۔2012
محمد فاضل عثمانی ۔وفات۔1990
سرشاہ سلیمان۔وفات۔1941
ایرج افشار۔وفات۔2011
مولا نا بدیع الزماں سعید نورسی ترکی۔وفات۔1960
مولانا امانت اللہ معروفی اعظمی۔وفات۔1996
میاں بشیر احمد۔وفات۔1971
اورنگ زیب عالمگیر۔وفات۔1707
جسٹس انوار الحق۔وفات۔1995
نسیم انہونوی۔وفات۔1994


/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: ۲ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسز سروجنی نائیڈو ۔وفات۔1949
رفیق غزنوی ۔وفات۔1974
رضی دہلوی ، محمد ۔وفات۔1996
سیفی ندوی،مولانا سید ، (اسلام الحئی)۔وفات۔1990
فدا خالدی دہلوی (عبدالحمید )۔وفات۔2001
ہمایوں اختر عادل ۔وفات۔1988
سروجنی نائیڈو۔وفات۔1949
ناصر کاظمی ۔وفات۔1972
مولا نا فہیم الدین میرٹھی۔وفات۔1969
فدا خالدی دہلوی۔وفات۔2001
میر یوسف علی خان سالار جنگ سوم۔وفات۔1949
نسیم حجازی۔وفات۔1996
شبنم شکیل۔وفات۔2013


/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

انتخاب مطالعہ
تحریر: ڈاکٹر ابو سلمان، شاہجہانپوریؒ
انتخاب: محمد عدنان وقار صدیقی

*اعلی حضرت اور سحبان الہند*:

خلافت بنو امیہ کے زمانے میں عرب میں باہلی قبیلے کا ایک شخص ''سحبان وائل'' تہا، یہ شخص اعلی درجے کا فصیح و بلیغ اور لسّان خطیب تہا، ادب و لغت پر اتنا حاوی تہا: کہ اپنی تقریر میں کوئی لفظ مکرر نہیں لاتا تہا، ایک مضمون کو جب دوسرے وقت بیان کرتا تہا تو نئے الفاظ میں، نئے اسلوب سے بیان کرتا تہا، جس طرح حؔاتم طائی کی سخاوت و جوانمردی، اور رؔستم کی طاقت ضرب المثل ہے، اسی طرح سؔحبان کی فصاحت و بلاغت نہ صرف عرب میں ؛ بلکہ دنیائے اسلام میں ضرب المثل ہے،
ہندوستان کے اہل علم نے جب مولانا( احمد سعید دہلویؒ) کے اندر اعلی درجے کی بلاغت اور شیریں بیانی پائی تو ٭سحبان الہند٭ کا خطاب دیا، اور واقعی یہ خطاب آپ کی شان کے لائق تہا۔
حضرت ''شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مؔدنی"رحمۃ اللہ علیہ آپ کو ہمیشہ «اعلی حضرت» کہہ کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔

؏ ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

( *سؔحبان الہند مولانا احمد سعید دہلویؒ، ایک سیاسی مطالعہ، صفحہ: 45، طبع: فرید بکڈپو دہلی۔*)

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: ۱/ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آل رضا،سید ۔وفات۔1978
شوکت علی شاہ یوسفی تاجی ۔وفات۔1988
ظریف جبلپوری (سید حامد رضا نقوی)۔وفات۔1964
مولانا شاہ حسن مثنی ندوی ۔وفات۔1998
پروفیسر افغان اللہ خاں۔وفات۔2008

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

بات سے بات: اساتذہ کی تربیت کی ضرورت
تحریر: عبد المتین منیری


مولانا رشید احمد اعظمی مرحوم کی وفات پر ان کے فرزند مولانا ازہررشید اعظمی صاحب سے اظہار تعزیت کے لئے جب ہم نے فون ملایا تو معلوم ہوا کہ محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کو زندگی کے آخری ایام میں اس بات کا شدید احساس ہوگیا تھا کہ ہمارے مدارس دینیہ میں ماہرفن اساتذہ کا کال ہوتا جارہا ہے، لہذا اساتذہ علوم دینیہ کی تیاری کے لئے اکابر کی سرپرستی اور رہنمائی میں کوئی ادارہ قائم ہونا چاہئے، اسی غرض سے آپ نے المعھد العالی للدراسات الاسلامیہ اور اساتذہ کی تربیت کے لئے مرقاۃ العلوم قائم کیا تھا۔ اور مولانا بذات خود اپنے زیر نگرانی اساتذہ کی تربیت کا کام شروع کیا تھا، لیکن آپ کے رحلت کے بعد یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔
مولانا ازہر رشید صاحب کی باتیں سن کر محسوس ہوا کہ واقعی مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ ایک فرض کفایہ ادا کررہے تھے۔ اور اس وقت اس فرض کی ادائیگی پر خاطرخواہ توجہ نہ دینے پر ہم سب گنہ گار ہیں۔
گذشتہ پچیس تیس سال سے مدارس دینیہ کا جوعلمی و تربیتی زوال نظر آرہا ہے، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ان مدارس کے دین کے قلعے ہونے کی شیبہ ختم ہوتی جارہی ہے، اور اس کے ذمہ دار ہم سبھی فارغین مدارس ہیں، جس کی ذمہ داری ہم سب فارغین مدارس پر عائد ہوتی ہے۔ جنہیں اللہ تعالی نے اس کا شعور بخشا ہے۔
گزشتہ پچیس تیس سالوں میں ہمارے فارغین اور مدرسین نے جس طرح تعلیم وتربیت کے معیار کو بلند کرنے کے جانفشانی کا مظاہرہ نہیں کیا اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان پر تعلیم وتربیت کے تعلق سے جو فرض عائد تھا اسے انہوں نے کماحقہ پورا نہیں کیا ہے، انہوں نے شخصیات سازی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا ہے، ان کی توجہات زیادہ تر سستی شہرت اور عوام میں مقبولیت پانے والے پروگراموں پر رہی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے ہاتھوں پر بہترین اساتذہ تخلیق نہ پاسکے۔ اورہم اس وقت یہ دیکھ رہے ہیں کہ جب کوئی استاد سبکدوش ہوتا ہے تو اس کی جگہ کو ایسے افراد نہیں بھرتے جو اپنے فرض منصبی کے ساتھ انصاف کرسکیں، اور انہیں معیاری تعلیم وتربیت سے مزین کرسکیں، اور شاید یہ ایک حقیقت ہے کہ عصری مدارس میں تعلیم کا معیار جیسے جیسے بلند سے بلند تر ہورہا ہے، اور ہمارے دینی مدارس کا معیار اسی طرح پستی کی طرف مائل ہورہا ہے۔ اس کا حل بہر حال نکالنا ضروری ہے، ورنہ ہماری آئندہ نسلوں کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ اور اس کا ایک حل یہ ہے کہ اساتذہ کی تعلیم وتربیت اور ان کے علمی معیار کو بلند کرنے کے لئے ہمارے بڑے ادارے کوئی منظم پروگرام بنائیں، مولانا حبیب الرحمن اعظمی علیہ الرحمۃ نے آج سے تیس سال قبل جس ضرورت کو محسوس کرکے اسے پورا کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے لئے از سر نو سر توڑ دوبارہ جد وجہد پر توجہ دی جائے، واللہ ولی التوفیق
2024-02-28
/channel/ilmokiab

Читать полностью…

علم و کتاب

صور من حياة الصحابة... حصين بن سلام... بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت الباشا رحمه الله.

Читать полностью…

علم و کتاب

آپ کی ایک بہت بڑی صفت ذکر اللہ کی کثرت تھی، اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے، درسگاہ میں آتے ہوئے، درسگاہ سے جاتے ہوئے ہر وقت آپ ذکر اللہ میں مشغول رہتے یہاں تک کہ آپ کسی کو کال کرتے تو جب تک سامنے والا کال نہ اٹھاتا آپ ذکر میں مشغول رہتے تھے، گویا کہ فرمان خدا: الذین یذکرون اللہ قیاما۔۔۔۔۔اور فرمان رسولﷺ: لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللہ۔۔۔کی زندہ مثال تھے۔

اسی طرح آپ کی ایک خاص صفت سادگی تھی، کردار و گفتار، لباس و پوشاک، خورد و نوش، ہر چیز میں سادگی پسند فرماتے تھے، حدیث مبارک میں حضورﷺ نے اسے ایمان کا جز قرار دیا ہے، فرمان رسولﷺ ہے: ان البذاذة من الایمان۔۔۔۔۔۔۔
عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ: جو شخص کسی کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان لوگوں کا طریقہ اختیار کرے، جو دنیا سے پردہ فرما چکے، وہ حضورﷺ کے صحابہ ہیں، جو اس امت میں سب سے بہترین لوگ ہیں، دل کے بہت صاف، علم میں انتہائی گہرے اور سب سے کم تکلف والے ہیں۔۔۔۔حضرت شیخؒ نے اپنی زندگی کو ان اوصاف کے مطابق ڈھالا تھا، آپ کے علمی کمالات شروع میں بیان ہو چکے، آپ دل کے اتنے صاف تھے کہ آپ کی زبان سے کبھی بھی کسی کے خلاف کوئی بات نہیں سنی گئی، یہ دل کے صاف ہونے کی علامت ہے، ورنہ اگر کسی کے دل میں کدورت اور میلاپن ہو تو ہزار شکوے زبان پر جاری ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی زندگی تکلفات سے بھی پاک تھی، انتہائی سادہ اور پرانا لباس زیب تن ہوتا، ایک مرتبہ خود فرمایا کہ کئی سال گزر گئے میں نے کپڑے نہیں سلوائے، کیونکہ پرانے کپڑے پھٹتے ہی نہیں اور پرانے کپڑے کسی کو دیکر میں نئے پہن لوں یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اسی طرح کلائی پر پرانی گھڑی، ہاتھ میں پرانا رومال، پیر میں سادی سی ہوائی چپل اور کھانا بھی تکلفات سے پاک ہوتا۔

حضرت نعمتوں کی بڑی قدر فرماتے تھے اور ضیاع نعمت سے حتی المقدور اجتناب فرماتے، لہذا جب آپ چائے نوش فرماتے تو چائے کا ایک قطرہ بھی فنجان میں باقی نہ رہتا، یہاں تک کہ اخیر میں چائے کا وہ حصہ جسمیں پتی ملی ہوتی ہے اور لوگ اس کو چھوڑ دیتے ہیں، حضرت آخری گھونٹ میں اس پتی کو بھی چائے کے ساتھ پی جاتے۔
اسلام میں اسراف کو ناپسند کیا گیا ہے، چاہے وہ دینی امور میں ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ عبد اللہ بن عمروؓ کی روایت ہے کہ: حضورﷺ حضرت سعدؓ کے پاس سے سے گزرے، اس وقت حضرت سعدؓ وضو فرما رہے تھے، حضورﷺ نے فرمایا: یہ اسراف کیسا؟ سعدؓ نے عرض کیا: وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: جی ہاں! اگر چہ تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت شیخؒ وضو میں کم سے کم پانی استعمال کرتے تھے، جس نل سے آپ وضو کرتے، اس کے نیچے ایک ڈبہ رکھ دیتے، جب کسی عضو کیلیے پانی لیتے تو نل کا جاری پانی اس ڈبہ میں گرتا، پھر اخیر میں اس ڈبہ کے پانی سے پیر دھوتے۔

*انداز مزاح*
اسلام میں خشک طبعی کی تعلیم نہیں دی گئی، بلکہ ایسے مزاح اور خوش طبعی کی تعلیم دی گئی ہے، جسمیں کسی کی دل آزاری نہ ہو، حضورﷺ سے بھی اس طرح کا مزاح ثابت ہے۔ حضرتؒ بھی اکثر طلبہ سے مزاح کیا کرتے تھے اور مزاح کا انداز بہت پیارا ہوتا تھا اسمیں کسی کی دل شکنی نہ فرماتے، یہ طریقہ مطلوب بھی ہے۔
حضرت ؒ کے ایک شاگرد مفتی الیاس ایلولوی صاحب حفظہ اللہ نے حضرت کا یہ لطیفہ سنایا کہ: حضرت نے دوران درس نصیحت فرمائی کہ نسیان پیدا کرنے والی چیزوں میں کھٹی اشیاء کو بڑا دخل ہے، لہذا کھٹی چیزوں کے کھانے پینے سے طلبہ کو بہت احتیاط کرنا چاہیے، اس بات پر مفتی الیاس صاحب نے کہا، حضرت مدرسہ کے کھانے میں ہر ہفتے تین مرتبہ کڑی بنتی ہے؟ حضرت نے بر جستہ جواب دیا کڑی اس سے مستثنی ہے۔ (کڑی کھچڑی گجرات کا مشہور پکوان ہے)
دوران درس جو طلبہ بیت الخلاء کے پاس کھڑے ہوکر وقت ضائع کرتے ہیں، ان کیلیے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے، درس میں بیٹھا کرو شیطان کی آفس کے سامنے کھڑے مت رہا کرو، یہ مذاق حقیقت پر مبنی تھا، اسلیے کہ حضورﷺ کا فرمان ہے: ان ھذہ الحشوش محتضرة۔ ۔۔
ایک مرتبہ ایک طالب علم درسگاہ میں جھونکے مار رہا تھا، حضرت شیخ کی نظر پڑ گئی، تو کہا مولوی صاحب! ٹیڑھے ہو جاؤ، رات اللہ نے سونے کیلیے بنائی ہے، دن سونے کیلیے نہیں بنایا، وہ طالب علم کہنے لگا کہ حضرت! رات کو نیند نہیں آئی تھی مچھر نے بہت پریشان کیا تھا، یہ سن کر حضرت شیخ نے ظرافت کے طور پر فرمایا: ارے بھائی! کتنی اچھی دعا ہے، اس کو لکھ لو اور پڑھ کر سو جاؤ، مچھر پریشان نہیں کریں گے، وہ دعا یہ ہے: یایھا المچھر لا تبھنبھن عند کانی، انا غریب لیس عندی مچھردانی۔
ایک مرتبہ طلبہ امتحان کے موقع پر پوچھنے گئے کہ حضرت! اتنی ضخیم ہدایہ ہم نہیں دیکھ پائیں گے، کچھ اشارے ہو جائیں، حضرت نے فرمایا: یعقوب بالا کو پوچھ دیکھو، طلبہ گئے کہ بھائی یعقوب! بتلا کہاں سے سوال آئے گا؟ اس نے کہا کہ مجھے کیا معلوم؟ طلبہ نے برابر اس کی دھلائی کی کہ بتلاتا ہے کہ نہیں؟ وہ روتا ہوا شکایت لیکر حضرتؒ کے پاس گیا، حضرت نے طلبہ کو بلاکر فرمایا: میرا

Читать полностью…

علم و کتاب

حضرتؒ کے شاگرد مولانا سرفراز صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ایک مرتبہ میں نے بطور مذاکرہ کہا کہ ایک مدرس نے امام شافعیؒ کی دلیل توڑ کر کہا کہ دیکھو! امام شافعی بارش میں بھاگ رہے ہیں، اس کو سن کر حضرت نے بار بار استغفار اور حوقلہ پڑھا اور فرمایا: ‌‌" ہم نے امام شافعیؒ کو نہیں پہچانا ‌‌"۔
حضرت ؒ کی آواز بڑی شریں اور صاف تھی، آواز میں مٹھاس کے ساتھ بڑی جاذبیت تھی، آپ ٹھہر ٹھہر کر بہت صاف اور واضح کلام فرماتے تھے، گویا اس حدیث شریف کا مصداق تھے جسمیں امی جان عائشہؓ صدیقہ نے حضورﷺ کے کلام کی صفت بیان فرمائی: حضورﷺ تمہاری طرح جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے، بلکہ حضورﷺ واضح اور جدا جدا الفاظ بولا کرتے تھے، آپ کا کلام سامع کو یاد ہو جاتا تھا۔
حضرت شیخؒ کی آواز کوئی سپیکر میں دور سے سن لیتا تو وہ یقین نہیں کر سکتا تھا کہ یہ آواز حضرت بزرگوار کی ہے، بلکہ یوں محسوس ہوتا کہ کسی خوش الحان جواں سال کی آواز ہے، آپ کا بولنے کا انداز اتنا پیارا اور شریں تھا، گویا منہ سے پھول برس رہے ہوں۔

*تبلیغی اسفار*
حضرت شیخؒ کے شاگرد مولانا بشیر احمد صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں: دوران درس مولانا سے کئی بار سنا کہ تبلیغی جماعت میری محبوبہ ہے، میں اس کام کا عاشق ہوں، مذکورہ الفاظ فقط کہنے کے جملے نہیں تھے، بلکہ زندگی میں اتاری ہوئی حقیقت تھی، 1964ء میں کاوی (کاوی یہ مردم خیز بستی ہے جو صوبہ گجرات کے مشہور ضلع بھروچ کی تحصیل جمبوسر میں واقع ہے، اس کا ذکر مشہور و معروف سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ بنام تحفة النظار میں کچھ اس طرح کیا ہے کہ: و سافرنا من هذه المدينة الى بلد كاوى، و هي على خور فيه المد و الجزر و هي من بلاد الرى جالنسى الكافر) اجتماع سے ممالک عربیہ کی طرف تبلیغی سفر کیلیے روانہ ہو گئے، مصر، شام، اردن، بحرین، حرمین شریفین وغیرہ ملکوں میں مکمل سال ختم کیا۔ ممالک عربیہ کے باشندے اب تک تبلیغی کام سے ناواقف تھے، اس لیے جماعت کے ساتھیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے، ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندو ملک کے باشندے اسلامی ملک میں کس طرح اسلام پھیلانے آئے ہیں؟ مولانا مرحوم نے وضاحت کی کہ ہم آپ کے ملک میں اسلام پھیلانے نہیں آئے، بلکہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ کے ملک کے علماء سے کہیں کہ آپ کے پاس قرآن و حدیث کا گہرا علم ہے پھر بھی آپ اپنے علم سے مسلمانوں کو فائدہ کیوں نہیں پہنچاتے؟ اور مسلمانوں کو ہم آگاہ کرنے آئے ہیں کہ آپ کے ملک میں ایسے ممتاز ماہر علماء ہیں پھر بھی ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ہو؟ اس تسلی بخش جواب سے لوگ خاموش ہو گئے اور جماعت کے ساتھیوں کی خوب عنایت فرمائی۔ عرب ممالک میں تبلیغی کام سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ابتداء میں مولانا مرحوم کو بہت سے مشکل حالات سے گزرنا پڑا تھا، آپ کے متعلق دیگر مذہب کے مبلغ ہونے کا شک کیا جاتا تھا، آپ عربی زبان بخوبی بول لیتے تھے یہ بھی آپ کیلیے شک کا باعث بنا ہوا تھا، ایک مرتبہ پولیس نے آپ کی گرفتاری کر لی اور تھانہ میں لے جاکر بٹھا دیا تھا، اگر چہ مسئلہ کی وضاحت کے بعد بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ پولیس افسر خود مولانا محترم کو مسجد چھوڑ گیا تھا۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستگی کی تاریخ طویل ہے، مولانا دوران درس کثرت سے تبلیغی اسفار کی کارگزاری سنایا کرتے تھے، بعض اوقات پیش آمدہ ایسا لطیفہ سنا دیتے کہ پوری درسگاہ میں ہنسی کی لہر دوڑ جاتی، البتہ مولانا کے خود کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی، مولانا کو زور سے قہقہہ لگاکر ہنستے ہوئے کبھی بھی نہیں دیکھے گئے۔ ایک واقعہ مولانا نے سنایا تھا کہ میں ایک جماعت لیکر بیرونی سفر کیلیے جا رہا تھا، فلائٹ کا پہلا سفر تھا اور فلائٹ میں ایر ہوسٹس کھانا تقسیم کر رہی تھی، میں نے یوں سمجھ کر کے فلائٹ میں کھانا بہت مہنگا ہوگا رفقاء کو کھانا نہ لینے کا اشارہ کردیا، اس لیے رفقاء نے کھانا نہیں لیا، بغل میں بیٹھے ہوئے ایک خان صاحب ہمارا یہ تماشہ دیکھ رہے تھے، انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ ٹکٹ میں کھانے کا چارج شامل ہوتا ہے، پیسے نہیں دینا ہے، پھر تو ہم چلانے لگے کہ کھانا لا، کھانا لا، اگر چہ دیگر مسافرین نے ہمیں ان پڑھ اور گنوار گردانا، مگر بعض حالات میں بیوقوف بن کر بھی کام نکلتا ہو تو نکال لینا چاہیے، طلبہ ہنس پڑے اور مولانا نے آگے سبق جاری رکھا۔
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ دعوت کی محنت میں لگنے سے علماء کی صلاحیتیں خراب ہو جاتی ہیں، لیکن یہ بات پورے طور پر درست نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ بھروچ کے اجتماع میں مولانا محمد عمر صاحب پالنپوریؒ تشریف لائے تھے، دوران بیان آپ نے فرمایا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعتوں میں وقت لگانے سے علماء کی صلاحتیں ماند پڑ جاتی ہیں، وہ سن لیں کہ ہمارے پاس ایسا آدمی ہے، جو پابندی سے جماعت میں وقت بھی لگاتا ہے اور بخاری شریف بھی پڑھاتا ہے اور وہ مولوی یعقوب سارودی ہیں۔

*اوصاف و کمالات*

Читать полностью…

علم و کتاب

نمونہ اسلاف شیخ یعقوب سارودیؒ

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے کہ نقش قدم چومتے چلیں

یوں تو دنیا میں آنے والا ہر انسان ایک نہ ایک دن اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف رخصت ہوتا ہی ہے، لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے پیچھے رہنے والوں کیلیے بڑے اسباق چھوڑ جاتی ہیں، حضرت شیخ یعقوب سارودیؒ ان ہی شخصیات میں سے تھے۔ ذیل میں حضرت شیخؒ پر لکھی گئی کتاب ‌‌"تذکار شیخ ‌‌" سے استفادہ کرتے ہوئے اختصارا آپ کے حالات زندگی پیش کیے جا رہے ہیں امید ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
مبشر کاوی

*ولادت و تعلیم*
آپ کی ولادت 29/ شعبان 1356ھ مطابق 3/ نومبر 1937ء کو صوبہ گجرات کے ضلع بھروچ کے ایک گاؤں سارود میں بروز بدھ ہوئی، یہ گاؤں گجرات کی مشہور تاریخی جگہ بھاڑ بھوت سے تقریبا 76 کلومیٹر دور ساحل سمندر پر واقع ہے۔
آپ کے والد صاحب نے آپ کو 4 سال کی عمر میں ممبئی بھیج دیا، آپ نے ابتدائی پرائمری اور انگلش میڈیم ممبئی میں کیا، 10 سال کی عمر میں آپ ممبئی سے اپنے وطن سارود واپس آ گئے، مگر یہاں کی گجراتی تعلیم موافق نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے اسے ترک کردیا۔ اس کے بعد 1949ء میں حضرت مولانا غلام کبریائیؒ صاحب کے مشورے سے اس وقت کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم اشرفیہ راندیر میں داخلہ لیا اور دینی علم میں قدم رکھے اور علمی سمندر میں ایسے غوطہ زن ہوئے کہ موت تک باہر ہی نہیں نکلے، پوری زندگی دینی محنت اور علمی خدمات میں گزاردی۔

دار العلوم اشرفیہ میں وقت کے جید علماء: حضرت مولانا عبد الغنی صاحب کاویؒ، مولانا عبد الرحیم صادق راندیریؒ، مولانا محمد رضا صاحب اجمیریؒ وغیرہ جیسے ماہرین آپ کے اساتذہ تھے۔ فارسی اول کے ابتدائی چھ ماہ تک آپ محترم کو کچھ پلے نہ پڑا، جب اس کا علم مہتمم جامعہ کو ہوا تو شعبہ اردو میں داخلہ کا حکم صادر فرمایا، شیخ مرحوم خود ہی فرمایا کرتے تھے کہ فارسی اول کے سال میرا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا، مگر مولانا غلام کبریائی صاحبؒ میرا دل بہلانے کیلیے بعض مرتبہ ہفتہ ہفتہ بھر دار العلوم اشرفیہ میں قیام فرمایا کرتے۔ درجہ عربی اول ختم ہوتے ہی سولہ سال کی عمر میں آپ کا نکاح ہو گیا، نکاح کے بعد تعلیم کے تئیں تذبذب میں پڑگئے، چنانچہ والد ماجد کے پاس آکر یوں گویا ہوئے کہ میں آگے پڑھنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہوں، نیز کتب فہمی میں بھی کمزور ہوں، عربی اول کی کوئی ایک کتاب بھی مجھے یاد نہیں ہے، والد صاحب نے فی الحال جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش رہے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت شیخ اجمیریؒ صاحب کی سارود تشریف آوری ہوئی تو آپ کے والد صاحب نے لخت جگر کا عذر اور آئندہ تعلیم ختم کرنے کا فیصلہ حضرت شیخ کو سنایا، حضرت نے آپ کو بلایا اور مشفقانہ لہجہ میں پوچھا کیوں تعلیم چھوڑنے پر مصر ہو؟ آپ نے مذکورہ بالا اعذار کا اعادہ فرمایا، اس پر شیخ اجمیریؒ نے جوابا ارشاد فرمایا ‌‌" تعلیم مکمل کیجیے، نکاح مانع تعلیم نہیں ‌‌"۔ آپ نے عرض کیا مجھے عربی اول کی کوئی ایک کتاب بھی سمجھ میں نہیں آئی تو اب آئندہ عربی دوم کی کتب کیسے سمجھوں گا؟ اس عذر سے حضرت شیخ نے یہ تاڑ لیا کہ یہ اتنا تو سمجھتا ہے کہ کتاب سمجھ میں نہیں آ رہی ہے، اس لیے اس کو سمجھانا آسان ہے۔ شیخ موصوف نے مکرر فرمایا کہ تجھے تعلیم جاری رکھنا ہے، تیرا کتابوں کو نہ سمجھنے کا پروبلم حل کردیا جائے گا۔ دوبارہ تعلیمی سلسلہ جاری ہوا اور کچھ ہی عرصہ بعد آپ دار العلوم کے ذہین طلبہ میں شمار ہونے لگے، یہاں تک کہ عربی سوم، چہارم میں آپ نحو و صرف میں اتنی پختہ استعداد حاصل کر چکے تھے کہ مولانا احمد اشرف صاحبؒ مہتمم دار العلوم اشرفیہ نے اعلان کردیا تھا کہ جو طالب علم فارسی اول یا فارسی دوم میں رہتے ہوئے یعقوب سارودی سے عربی اول پڑھ لے اور یعقوب اس کی گواہی دیدے تو اسے عربی دوم کا داخلہ عربی اول پڑھے بغیر ہی مل جائے گا۔
آپ جب درجہ عربی ششم میں آئے تو سراجی آپ کے پلے نہیں پڑ رہی تھی، آپ نے شیخ اجمیریؒ سے اس کی شکایت کی، شیخ موصوف نے جوابا فرمایا: ‌‌"چنارواڑ کی مسجد میں ایک مجذوب ہیں، ان کو ملیں، وہ تم کو یہ فن پڑھادیں گے ‌‌"۔ چنانچہ آپ ان مجذوب صاحب کی خدمت میں تشریف لے گئے اور اپنی درخواست رکھی، انہوں نے اول وہلے میں یہ کہ کر ٹال دیا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ جواب سنتے ہی شیخ ممدوح نے بر جستہ عرض کیا کہ آپ تو 24 گھنٹے مسجد میں فارغ رہتے ہیں، پھر کیسے وقت نہیں؟ مجذوب محترم نے اس کا یہ جواب دیا کہ میرے مقررہ وقت پر حاضری دو تو میں پڑھا سکتا ہوں، آپ نے ہامی بھرلی، مجذوب صاحب تو مجذوب ہی تھے، انہوں نے ایسی کڑی شرط لگائی کہ زندگی بھر آدمی بھول نہ سکے، انہوں نے فرمایا: ظہر کی اذان سے آدھا گھنٹہ قبل آنا ضروری ہے، اس وقت میں پڑھاؤں گا۔ چنانچہ آپ وقت مقررہ پر چھ ماہ تک بلا ناغہ نہایت ہی اہتمام سے مدرسے سے چنار واڑ مسجد میں جاکر ان سے علم حاصل کرتے رہے، مجذوب صاحب نے فن مطلوب کیلیے معین الفرائض منتخب فرمائی، مجذوب صاحب کا

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات مارچ/ ۱۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد شمیم، پروفیسر ۔وفات۔2002
معظم علی،سید ۔وفات۔2005
محمود احمد عباسی۔وفات۔1974
سید عبدالحمید عدم۔وفات۔1981
 ڈاکٹر قاسم علی منصوری۔وفات۔1930
شوقی ضیف۔وفات۔2005

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ان حالات میں اب کہا جارہا ہے کہ مدارس دینیہ اردو زبان کی بقا کے ضامن بن گئے ہیں، جہاں یہ بات ایک طرف مدرسوں کی اہمیت اجاگر کرتی ہے تو دوسری طرف اس میں ایک منفی پہلو بھی پنہاں ہے، وہ یہ کہ علماء وفارغین اگر معاشرے کا دو فیصد حصہ ہیں، اور باقی پانچ فیصد دوسرے طبقہ کے افراد ہیں ،تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس معاشرے میں علماء کی زبان پڑھنے والے پانچ فیصد سے بھی زیادہ نہیں، اور اردو کے حالات اسی طرح جاری رہے تو وہ دن دور نہیں جس طرح سنسکرت مندر کے پنڈتوں کی زبان بن گئی ہے، اردو بھی چند مولویوں کی زبان بن کر رہ جائے،یہاں میں نے عبرانی کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ اس مردہ زبان کو یہودیوں نے زندہ کردیا ہے، اور ربیوں کی زبان کو انہوں نے عوام کی زبان بنادیا ہے۔
مدارس دینیہ میں زبان کی تعلیم کے نظام کو جب ہم دیکھتے ہیں تویہاں پر
زیادہ تر توانائیان ازبر کرنے پر صرف ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں، اور دوسرے تربیتی و تعلیمی ونفسیاتی پہلؤوں سے صرف نظر محسوس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے طلبہ کی عصری اداروں کے طلبہ سے کئی گنا محنت زیادہ ہونے کے باوجود اپنی سکھائی جانے والی زبان میں تحریر وبیان کی صلاحیت ان میں بہت کم محسوس ہوتی ہے۔
۔ یہ بات تعلیم کے مسلمہ اصولوں میں شامل ہے کہ کسی زبان میں تحریر وبیان پر عبور کتب لغت اور قواعد کی کتابیں ازبر کرنے سے نہیں ہوا کرتا۔ نہ ہی زبانیں ترجمہ کرکے سکھائی جاتی ہیں، اس کے لئے بنیادی شرط ہے کہ کوئی مخصوص زبان اظہار بیان کی مجبوری بن جائے، اورتعلیمی کیمپس میں ایسا ماحول حاوی ہو جہاں درست اور خالص زبان بولی جائے، بد قسمتی سے ہمارے دینی اداروں میں ایسا کوئی ماحول دستیاب نہیں ہے۔
آج سے چند سال قبل پروفیسر خورشید احمد کے ادارے انسٹی ٹیوٹ اوف پالیسی اسٹدیز اسلام آباد سے ایک دستاویزی نوعیت کا مجلہ (قضایا دولیۃ )شائع ہوتا تھا، اس کی ادارت ممتاز دانشور ڈاکٹر کمال الھلباوی مرحوم کیا کرتے تھے۔ اس میں ایک سلسلہ وار مضمون پاکستان میں عربی زبان کی ترویج پر شائع ہوا تھا، اس میں مقالہ نگار نے اس جانب توجہ دلائی تھی کہ ہمارے مدارس دینیہ میں کوئی بھی زبان بحیثیت زبان، تعلیم کے قواعد واصول کے مطابق نہیں پڑھائی جاتی، جس کی وجہ سے محنت کے باوجود یہاں سے تحریر وزبان پر عبور رکھنے والے افراد پیدا نہیں ہوپاتے، اس کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سرحد پختون خواہ اور علاقہ غیر کے دینی مدارس میں عربی زبان کا نصاب پشتو، فارسی اور اردو سے مرکب زبان میں پڑھایا جاتا ہے، یہی صورت حال پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی ہے، جس کی وجہ سے نہ اردو ٹھیک سے آتی ہے، نہ عربی نہ فارسی۔ دیکھا جائے تو چند مشہور مراکز کو چھوڑ کر یہی صورت حال جنوبی ہند کی ریاستوں اور ہندوستان کے طول وعرض کے دیگر علاقوں کے مدارس کی ہے، درس وتدریس مختلف زبانوں اور مقامی لب ولہجے سے مرکب زبان میں ہوتی ہے۔
ہمارے مدارس کی ایک مصیبت یہ ہے کہ یہاں پر موسساتی انداز سے کام نہیں ہوتا، ہمارے نظام تدریس میں تعلیمی نفسیات کا عمل دخل نہیں ہوتا، نہ اس کی ٹریننگ کا کوئی نظام ہوتا ہے ،کوئی استاد ذاتی شوق سے چند ریڈریں تیار کرتا ہے، ایک دو رسالے تیار کرنے کے بعد اس کی سانسیں پھولنے لگتی ہیں، اور وہ تعلیمی مراحل کے مطابق اپنی کتابوں کا معیار باقی نہیں رکھ پاتا۔ ذاتی اثر ورسوخ سے چپکے سے ان کتابوں کو کسی ادارے میں شامل نصاب کردیا جاتا ہے اور شخصیت کی عقیدت کا ایک ہالہ باندھ دیا جاتا ہے کہ نصابی خامیوں اور نقصانات کے باوجود انہیں نصاب سے ہٹایا نہیں جاسکتا، یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بعض موقر اداروں میں گذشتہ نصف صدی میں زبان کے نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ نہ ان پر نظر ثانی کی گئی۔
اس وقت انگریزی، ہندی اور مقامی زبانوں کی تعلیم کے جو نصاب وطن رائج ہیں، یہ افراد کے نہیں بلکہ اداروں کے تیار کردہ ہیں، حکومتی ادارے اور اکسفورڈ جیسے اداروں کے کتب نصابیات پر نظر ثانی کرنے اور انہیں اپڈیٹ کرنے کے لئے مستقل بورڈ ہوتے ہیں، ہمارے دینی تعلیمی اداروں کو بھی اجتماعی اور موسساتی انداز سے اپنے نصاب کی ترتیب وتدوین کا نظم بنانا چاہئے۔ اور ان عصری اداروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ریڈروں کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ان میں ایسے مضامین نثر وشعر میں منتخب کئے جائیں جن سے طلبہ کو نئے اسالیب اظہار سے آگاہی حاصل ہو، ان میں جو نئے الفاظ آئیں ان کی مناسب تعداد میں مشقیں کی جائیں، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان عصری تعلیم اداروں کے ریڈرس میں ایک صفحہ کا سبق ہوتا ہے تو پانچ پانچ صفحے ان سے وابستہ مشقیں ہوتی ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

وفیات ۹/مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختر الایمان۔وفات۔1996
شیخ محمد الغزالی۔وفات۔1996
شوکت سبزواری ،سید شوکت علی۔وفات۔1973
جمال الدین افغانی۔وفات۔1897

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

زبان کو ادب وتہذیب کے ساتھ استعمال کرنے ہی کی وجہ سے اسے ادب کہا گیا ہے، ادب زبان کو صیقل کرنے کا نام ہے، ادب کی ضروریات میں سلاست ، فصاحت، مخاطب کی دلوں میں بات اترنے کے نت نئے اسلوب، اور موثر زبان پر قدرت شامل ہیں۔
فروری ۱۹۷۹ء میں حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ پہلی مرتبہ بھٹکل تشریف لائے تھے، جامعہ آباد میں آپ کا قیام تھا، اس وقت یہ عاجز جامعہ میں عربی درجات کی تدریس سے وابستہ تھا، چونکہ اس ناچیز کو عربی چہارم کے بعد دیوبند یا ندوۃ جیسے شمالی ہند کے اداروں میں تعلیم پانے کے بجائے چنئی (مدراس ) کے ایک ایسے دارالعلوم میں عالمیت وفضیلت کی تکمیل کا موقعہ نصیب ہوا تھا، جس میں اس وقت خالص عربی میڈیم میں علوم دینیہ کی تعلیم ہوتی تھی،اور مختلف ممالک کے طلبہ کی موجودگی کی وجہ سے اس کی چہار دیواری میں بول چال کا ماحول عربی ہی ہوا کرتا تھا، اور یہ برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد دینی تعلیمی ادارہ تھا۔ شاید یہیں کا اثر تھا کہ طبیعت میں کچھ بے باکی بھی آگئی تھی، اور اکابر کے ساتھ بات کرتے ہوئے معتقدین میں عموما جو جھجھک پائی جاتی ہے وہ ہم میں مفقود تھی، لہذا دوران تدریس جامعہ عربی زبان کے جو ریڈر رائج تھے، ان کے سلسلے میں ہمین چند تحفظات پیدا ہوگئے تھے، ان تحفظات کو ہم نے اپنی کم علمی کے باوجود مولانا رابع صاحب کے سامنے اس وقت رکھا تھا، اور مولانا نے اسے ٹھنڈے دل سے سنا بھی تھا، یہ آپ کا کا بڑا پن تھا کہ چھوٹوں کی بات بھی بڑی دلچسپی سے سنتے تھے، مولانا نے ہمارے جملہ استفسارات کے کیا جواب دئے تھے، ان کا ذکر ان شاء اللہ کبھی کسی اور مناسبت سےآئے گا،البتہ اس وقت مولانا کا فرمانا یاد ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں عربی زبان کے نصاب کو متوازن بنایا گیا ہے، اور اس میں زبان فہمی، اور بیان وتحریر کو یکساں اہمیت دی گئی ہے۔ یہ ندوہ کے نصاب کو دوسرے اداروں کے نصاب تعلیم سے ممتاز بنا دیتا ہے۔
2024-03-07
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

کلام شاعر بزبان شاعر
حفیظ میرٹھی
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=shisha-tutey, Shisha Tutey
مزید کلام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=&c=&s=hafeez-meeruthi&t=

Читать полностью…

علم و کتاب

اہم وفیات: مورخہ ۴ مارچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحت سعید چھتاری، نواب ۔وفات۔1987
عزم بہزاد۔وفات۔2011
پروفیسر محمد یونس نگرامی ندوی۔وفات۔2001

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سروجنی نائیڈو(وفات ۲ مارچ ۱۹۴۹ء) ۔۔۔ تحریر: آغا حیدر حسن

Читать полностью…

علم و کتاب

*🌷حرفِ شوق🌷*

🖊️ *آسی مدنی*

گنگنانے لگی میری گندی زباں
نغمۂ دِلستاں، سرورِ دو جہاں

روح کے داغ سب مٹ گئے ایک دم
جب ہوا قلب میں داغِ الفت عیاں

مظہرِ نورِ حق تیری روشن جبیں
تیرا سازِ سخن نغمۂ حق نشاں

ذرّۂ خاک میں، مہرِ افلاک تو
قطرۂ آب میں، تو یمِ بے کراں

آسمان و زمیں ہیں ترے سامعیں
تیرے لب دُر فشاں، لفظ ہیں جاوداں

معنیِ نو بہ نو ڈھونڈتا میں پھروں
اے شہِ مرسلیں تو یقیں میں گماں

نسبتِ مصطفیٰ میری پہچان ہو
یاد مجھ کو نہ ہو یہ فلاں بِن فلاں

خوف کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں
کس کا دستور  ہے امن کا سائباں

چاہتا ہے اگر یار سے ربطِ جاں
بھیج صلّ علیٰ کا اسے ارمغاں

تجھ کو حاجت نہیں حرفِ تعریف کی
مدح خواں ہے ترا خالقِ انس و جاں

روزِ محشر مجھے ہو شفاعت عطا
قبلۂ عاصیاں، کعبۂ بے کساں!

مستحق تو نہیں پھر بھی امید ہے
ہو نہ جائیں مرے حرف یہ رائگاں

Читать полностью…

علم و کتاب

مزاح ایک بہت مشکل صنف ہے، کیونکہ اس میں تھوڑی سے بے احتیاطی اسے پوہڑ بنادیتی ہے، اس دور کے عظیم ترین مزاحیہ شاعر انور مسعود نے کہا ہے کہ مزاحیہ شاعر جب رونے پر آتا ہے تو وہ اپنے آنسؤوں کو نچوڑ کر مزاح بنا دیتا ہے۔
مزاح پر ماحول اورعرف کا اثر پڑتا ہے، جہاں زبان وادب کا زیادہ اہتمام ہوتا ہے وہاں پر بطور مزاح بیان کی جانے والی بہت سی باتیں طبیعتوں پر بار پڑتی ہیں، ہمارے زیادہ تر دینی مدارس میں اردو یا دوسری زبانیں بحیثیت زبان نہیں پڑھائی جاتیں، یہاں جو زبان رائج ہے، اسے ادب کے حلقے میں عموما تصنع اور تکلف سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہمارے زیادہ تر مدرسین جن میں چند ایک اکابر بھی شامل ہیں دوران تدریس سلیس اور مہذب زبان استعمال نہیں کرتے، بے تکلفی میں ان کی زبان پر ایسے کلمات اور تعبیرات نکلتی ہیں جو طبع نازک پر بہت بار گذرتی ہیں۔ یہ باتیں بے تکلف ماحول میں بالمشافہ تو اچھی لگتی ہیں، لیکن جب انہیں احاطہ تحریر میں لایا جاتا ہے تو پھر ان میں بھونڈا پن محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی پس منظر کو دیکھ کر ہم اس محفل میں دوران تدریس اساتذہ کے مزاحیہ کلمات کو من وعن نقل کرنے سے روکتے رہتے ہیں، کیونکہ یہ باتیں عقیدت مند شاگردوں کے لئے تو نمونہ ہوسکتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ کسی دوسرے ماحول میں بسنے والے انجانے شخص کا بھی ان کے بارے میں وہی ہو۔
ہمارے بھٹکل میں مالیکا (ماموں ) ایک محترم لفظ ہے، لیکن پندرہ کلومیٹر دور اپنی ہی برادری اور زبان میں یہ معیوب سمجھا جاتا ہے،چند سال قبل میرے ماموں ایک ریسٹورنٹ میں بیرے کا کام کرتے تھے، انہوں نے اپنی برادری ایسے ہی ایک شخص کو احتراما ماموں کہ دیا، تو غصہ میں اسے گالی سمجھ کر گلاس آپ کے منہ پر دے مارا۔
اسی طرح ہماری نائطی زبان میں کھڈوس (کھونسٹ ) مزاحا استعمال ہوتا ہے، اس کا استعمال معیوب نہیں ہے، اسی گاؤں کے ایک ہمارے دوست کو ہم نے ان کے تجربہ کی بنیاد پر مزاحا کھڈوس کہدیا، اب انہیں نے یار دوستوں میں شکایت کی کہ مولانا کیسے بد تہذیب ہیں، انہوں نے مجھے گالی دی ہے۔
بھٹکل کے سفر کے دوران ہمارے محترم مولانا سلمان بجنوری صاحب کا خوب ساتھ رہا، سفر ایک ایسی چیز ہے جس میں آدمی خود پر خول نہیں چڑھا سکتا، مولانا نے بے تکلفانہ انداز سے کہا کہ آپ سے بات کرتے ڈر لگتا ہے،اور بہت ہی دھیمے انداز سے کہا کہ آپ جیسے آدمی کو ہمارے یہاں۔۔۔۔۔ کہتے ہیں، اس لفظ نے ہمیں اتنا لطف دیا کہ آج تک اس کا مزہ محسوس ہوتا ہے، اور عرصہ گذرنے کے بعد یہ ابھی تک ذہن میں اٹکا ہوا ہے،کیونکہ یہ لفظ اتنا جامع تھا کہ اس کا مترادف اب تک ہمیں نہیں ملا،، لیکن جس لفظ کو ہم نے مولانا کی ہم سے محبت کی انتہاء جانا وہ برسر محفل بیان بھی کیا جائے، اس سے مزہ کرکرا ہوجائے گا، ویسے مولانا ہمیں بہت عزیز ہیں،آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ مولانا کیسی مہذب اور نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں، آپ کی سرپرستی تادیر اس بزم پر قائم رہے۔ آمین
2024-02-29
(ع۔م۔م )

Читать полностью…

علم و کتاب

مزاح ایک بہت مشکل صنف ہے، کیونکہ اس میں تھوڑی سے بے احتیاطی اسے پوہڑ بنادیتی ہے، اس دور کے عظیم ترین مزاحیہ شاعر انور مسعود نے کہا ہے کہ مزاحیہ شاعر جب رونے پر آتا ہے تو وہ اپنے آنسؤوں کو نچوڑ کر مزاح بنا دیتا ہے۔
مزاح پر ماحول اورعرف کا اثر پڑتا ہے، جہاں زبان وادب کا زیادہ اہتمام ہوتا ہے وہاں پر بطور مزاح بیان کی جانے والی بہت سی باتیں طبیعتوں پر بار پڑتی ہیں، ہمارے زیادہ تر دینی مدارس میں اردو یا دوسری زبانیں بحیثیت زبان نہیں پڑھائی جاتیں، یہاں جو زبان رائج ہے، اسے ادب کے حلقے میں عموما تصنع اور تکلف سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہمارے زیادہ تر مدرسین جن میں چند ایک اکابر بھی شامل ہیں دوران تدریس سلیس اور مہذب زبان استعمال نہیں کرتے، بے تکلفی میں ان کی زبان پر ایسے کلمات اور تعبیرات نکلتی ہیں جو طبع نازک پر بہت بار گذرتی ہیں۔ یہ باتیں بے تکلف ماحول میں بالمشافہ تو اچھی لگتی ہیں، لیکن جب انہیں احاطہ تحریر میں لایا جاتا ہے تو پھر ان میں بھونڈا پن محسوس ہونے لگتا ہے۔ اسی پس منظر کو دیکھ کر ہم اس محفل میں دوران تدریس اساتذہ کے مزاحیہ کلمات کو من وعن نقل کرنے سے روکتے رہتے ہیں، کیونکہ یہ باتیں عقیدت مند شاگردوں کے لئے تو نمونہ ہوسکتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ کسی دوسرے ماحول میں بسنے والے انجانے شخص کا بھی ان کے بارے میں وہی ہو۔
ہمارے بھٹکل میں مالیکا (ماموں ) ایک محترم لفظ ہے، لیکن پندرہ کلومیٹر دور اپنی ہی برادری اور زبان میں یہ معیوب سمجھا جاتا ہے،چند سال قبل میرے ماموں ایک ریسٹورنٹ میں بیرے کا کام کرتے تھے، انہوں نے اپنی برادری ایسے ہی ایک شخص کو احتراما ماموں کہ دیا، تو غصہ میں اسے گالی سمجھ کر گلاس آپ کے منہ پر دے مارا۔
اسی طرح ہماری نائطی زبان میں کھڈوس (کھونسٹ ) مزاحا استعمال ہوتا ہے، اس کا استعمال معیوب نہیں ہے، اسی گاؤں کے ایک ہمارے دوست کو ہم نے ان کے تجربہ کی بنیاد پر مزاحا کھڈوس کہدیا، اب انہیں نے یار دوستوں میں شکایت کی کہ مولانا کیسے بد تہذیب ہیں، انہوں نے مجھے گالی دی ہے۔
بھٹکل کے سفر کے دوران ہمارے محترم مولانا سلمان بجنوری صاحب کا خوب ساتھ رہا، سفر ایک ایسی چیز ہے جس میں آدمی خود پر خول نہیں چڑھا سکتا، مولانا نے بے تکلفانہ انداز سے کہا کہ آپ سے بات کرتے ڈر لگتا ہے،اور بہت ہی دھیمے انداز سے کہا کہ آپ جیسے آدمی کو ہمارے یہاں۔۔۔۔۔ کہتے ہیں، اس لفظ نے ہمیں اتنا لطف دیا کہ آج تک اس کا مزہ محسوس ہوتا ہے، اور عرصہ گذرنے کے بعد یہ ابھی تک ذہن میں اٹکا ہوا ہے،کیونکہ یہ لفظ اتنا جامع تھا کہ اس کا مترادف اب تک ہمیں نہیں ملا،، لیکن جس لفظ کو ہم نے مولانا کی ہم سے محبت کی انتہاء جانا وہ برسر محفل بیان بھی کیا جائے، اس سے مزہ کرکرا ہوجائے گا، ویسے مولانا ہمیں بہت عزیز ہیں،آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ مولانا کیسی مہذب اور نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں، آپ کی سرپرستی تادیر اس بزم پر قائم رہے۔ آمین
2024-02-29
(ع۔م۔م )

Читать полностью…

علم و کتاب

مدارس دینیہ میں تعطیلات کا آغاز ہوگیا ہے، اور اس سلسلے میں بعض احباب سے یہ جان کر دلی مسرت ہوئی کہ انہوں نے اپنے طلبہ کے لئے واٹس اپ گروپ بنائے ہیں اور ان میں آپ کے اس گروپ کا منتخب مواد پوسٹ ہورہا ہے۔
آپ کے اس گروپ کے قیام کے مقاصد میں یہ شامل ہے کہ ہمارے طلبہ میں غیر شعوری طور پر زبان وبیان کی مہارت پیدا کرنے اور کتب بینی کو فروغ دینے کے لئے ایسا مواد پیش کیا جائے جنہیں بار بار پڑھنے اور سننے سے ان میدانوں میں ان کی صلاحیتوں کے فروغ میں مدد مل سکے، سچی باتیں، تبصرات ماجدی، جب حضور آئے، بارگاہ رسالت میں ، کیا ہم مسلمان ہیں؟، غلطی ہائے مضامین، خبر لیجے زباں بگڑی، صور من حیاۃ الصحابہ، اور ضیاء محی الدین کے پروگرام اور کئی سارے احباب کا اقتباسات ومضامین پوسٹ کرنے کا اصل مقصد یہی ہے، اگر ہمارے اساتذہ کے ذریعے خاص طور پر تعطیلات میں یہ مواد طلبہ تک پہنچتا رہے، اور فارغ اوقات میں انہیں پڑھنے، سننے اور املا کے لئے استعمال کیا جائے تو ماہ دو ماہ میں ان کی صلاحیتوں میں بڑی تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے، امید کہ دوسرے احباب بھی اس پہلو سے غور کریں گے، اور اپنے مشوروں سے نوازیں گے۔
شکریہ
عبد المتین منیری (اڈمن علم وکتاب)
2024-02-28
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

یعنی محرم میںکمربند بھی سرخ درکار ہے۔ ضمناً یاد آیا کہ اردو میں کمربند کو اِزار بند بھی کہتے ہیں اور اِزار عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: پاجامہ یا پجامہ۔ تار کا استعمال سڑک پر بچھانے یا تار بندی (بجلی کے تار نصب کرنے کا عمل) ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کے اور کئی استعمال ہیں، مثلاً ’’تارباراں‘‘۔ اسی تار کا دو مرتبہ استعمال معنی بدل دیتا ہے۔ یعنی ’’تار تار‘‘۔ ۔ ۔ اب اس کا مطلب دوہرے تار بچھانا نہیں بلکہ ٹکڑے ٹکڑے کرنا، چیتھڑے کردینا، بوسیدہ، بہت زیادہ پھٹا ہوا کپڑا، تار تار کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کردینا جیسے کہیں آئین و جمہوریت کو تار تار کردیا جاتا ہے۔ تار تار بکنا اور تار تار بولنا بھی محاورے میں ہے۔ ایک ’’بے تار برقی‘‘ بھی ہوتا ہے جو وائرلیس کا بہت اچھا ترجمہ ہے مگر رائج نہیں ہوا۔ بہرحال، تار مذکر ہی ہے اسے مونث لکھنا اور کہنا صحیح نہیں۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…
Subscribe to a channel