علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
تار۔ مذکر یا مونث؟۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
اردو میں ہم ایسے کئی الفاظ بے مُحابا استعمال کرتے ہیں جن کا مفہوم اور محل واضح ہوتا ہے لیکن کم لوگ جن میں ہم بھی شامل ہیں‘ ان الفاظ کے معانی پر غور کرتے ہیں۔ اب اسی لفظ ’’بے مُحابا‘‘ کو دیکھ لیجیے، استعمال صحیح کیا ہے لیکن اگر ’’بے‘‘ ہے تو ’’محابا‘‘ بھی کچھ ہوگا۔ ’’بے‘‘ تو فارسی کا حرفِ نفی ہے، یعنی بغیر مُحابا کے۔ ۔ ۔ اور مُحابا کی شکل کہہ رہی ہے کہ یہ عربی ہے۔ عربی میں اس کے کئی معانی ہیں مثلاً لحاظ، مروت، پاسداری، صلح، اطاعت، فروگزاشت، ڈر، خوف، احتیاط۔ اردو میں بے مُحابا عموماً بے خوف و خطر یا بلا لحاظ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ بھی بے مُحابا استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ سب عربی کے الفاظ ہیں جن میں ’’بے‘‘ کا سابقہ لگاکر نفی بنالی گئی۔ ’’بے تحاشا‘‘ کے بارے میں شاید ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ مُحابا کی تحاشا بھی عربی ہے: بے زاری ظاہر کرنا، اجتناب، پرہیز، ڈر وغیرہ۔ بے تحاشا کا مطلب ہے: مضطربانہ، بے اطمینانی سے، اندھادھند وغیرہ۔
عرب ممالک میں پیٹرول وغیرہ کو محطّہ کہا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے ٹیلی ویژن اسٹیشن کا ترجمہ کیا تھا ’’محطہ آلہ دید بعید‘‘۔ یہ ترجمہ ہی اتنا ثقیل و طویل ہے کہ نشریات ختم ہوجائیں گی۔ ہندی میں ’’دُور درشن‘‘ بہت اچھا ترجمہ ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر چیز کا ترجمہ تلاش کیا جائے۔ جو لفظ زبان میں رائج ہوجائے اور زبان پر چڑھ جائے اُس سے چھیڑ خانی نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ جن انگریزی الفاظ کا عام فہم متبادل موجود ہے اسے ضرور استعمال کیا جائے۔ اخبارات میں ’’ممبران‘‘ بڑی کثرت سے نظر آتا ہے۔ یہ نہ انگریزی، نہ اردو۔ ۔ ۔ آدھا تیتر، آدھا بیٹر ہے۔ اب یا تو ممبرز لکھا جائے ورنہ ارکان لکھنے اور کہنے میں کیا تردد ہے! اسٹینڈنگ کمیٹی کو مجلسِ قائمہ لکھنے اور کہنے میں بھی کچھ حرج نہیں۔ ایگزیکٹو کمیٹی کو مجلس منتظمہ کہا جائے، لیکن اس کا وہ رعب نہیں پڑے گا جو انگریزی میں پڑتا ہے۔ ہم اب تک من حیث القوم انگریزی سے مرعوب ہیں لیکن انگریزوں سے نہیں، اب امریکا سے مرعوب ہوتے ہیں۔ یاد آیا، ایک ورکنگ کمیٹی بھی ہوتی ہے جو سیاسی جماعتوں میں پائی جاتی ہے۔ کام اس کا کیا ہوتا ہے، یہ تو شاید کسی کو معلوم نہ ہو، لیکن اسے بھی مجلس عاملہ کہا جا سکتا ہے۔ چیئرمین کسی پارٹی کا ہو یا کسی تعلیمی شعبے کا، اسے صدر نشین کہا جائے تو وہ بھی برا مانے گا کہ شاید اس کا عہدہ یا منصب گھٹایا جارہا ہے۔ ویسے چیئرمین کا صحیح ترجمہ تو ’’کرسی نشین‘‘ بنتا ہے، لیکن کرسی پر کوئی بھی قابض ہوسکتا ہے۔ ہم خود اِس وقت کرسی نشین ہیں۔ یہ بھی عربی اور فارسی کا مرکب ہے۔ کرسی عربی کا لفظ ہے۔ اردو میں عام طور پر عرش، آسمان کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب ہے: چھت، تخت، بادشاہ کا تخت، وہ جگہ جو آسمانوں کے اوپر ہے اور جہاں خدا کا تخت ہے۔ خدا کے عرش کو عرشِ اعظم کہا جاتا ہے اور عرشِ اکبر انسان کے دل کو کہتے ہیں۔ کسی کسی کا دماغ بھی عرش پر پہنچ جاتا ہے۔ عربی میں عرش کی تصغیر عریش ہے یعنی چھوٹی کرسی، دھوپ سے بچنے کے لیے سایہ دار جگہ، پھونس سے بنا ہوا چھپر جو باغوں اور فصلوں کی نگرانی کے لیے عارضی طور پر بنا لیتے ہیں۔ جنگِ خندق کے دوران ایک پہاڑی پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سایہ دار جگہ بنائی گئی تھی، اسے بھی عریش کہا جاتا ہے۔ بعد میں اس کی جگہ مسجد فتح بنادی گئی۔ لڑکیوں کا نام عریشہ رکھا جانے لگا اور بحری جہازوں میں عام مسافروں کے لیے عرشہ ہوتا ہے، وہ بھی عرش ہی سے ہے۔
محطہ تو ظاہر ہے کہ احاطہ سے ہے اور یہ لفظ اردو میں عام ہے۔ محیط بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن پیٹرول پمپ وغیرہ کے لیے محطہ استعمال نہیں ہوتا۔ اسی سے ایک لفظ محاط ہے یعنی گھیرا گیا، احاطہ کیا گیا۔ اس کا ایک مطلب ’’مشہور‘‘ بھی ہے۔
چلیے اب عربی کے بجائے اردو کی طرف آجاتے ہیں، عربی دانی کسی اور کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ آج کل اخبارات میں ’’تار‘‘ کو کثرت سے مونث لکھا جارہا ہے خواہ وہ بجلی کا تار ہو، کسی جلوس کو روکنے کے لیے بچھائے گئے تار ہوں یا تارِ برقی ہو (ٹیلی گرام)، جس کا رواج شاید اب نہیں رہا۔
لیکن تار کسی بھی قسم کا ہو، یہ فارسی کا لفظ ہے اور مذکر ہے۔ مطلب اس کا ہے: ’’تاگا، دھاگا، کسی دھات کا لمبا ڈورا، سلسلہ، قوام، پیپ، تارِ برقی وغیرہ۔‘‘ اب خواہ کانٹے دار تار بچھائیں یا یہ تارِ نگاہ ہو، یہ مذکر ہی رہے گا۔ فارسی میں تار کا ایک مطلب اندھیرا اور تاریک بھی ہے۔ تیرہ و تار تو سنا ہی ہوگا، نہیں تو اب پڑھ لیں۔ تیرہ تاریک اور اندھیرے کو کہتے ہیں۔ ایک شاعر کہتا ہے:
شبِ غم، تیرہ بختی، فسردہ خاطری اپنی
گری کیا دیکھ کر بجلی مرے اس ساز و ساماں پر
تارِ نگاہ کے بارے میں لکھنؤ کے شاعر امام بخش ناسخ نے کہا تھا:
جلا رنگ اے دیدۂ خونبار اب تارِ نگاہ
ہے محرم اس پری پیکر کو ناڑا چاہیے
*بات سے بات: مولانا سلیم الدین شمسی کا خلاصہ مضامین قرآن*
*تحریر: عبد المتین منیری*
ہماری بزم کے معزز رکن مولانا عمر انور بدخشانی صاحب نے مولانا سلیم الدین شمسی مرحوم کے خلاصہ مضامین قرآنی کو ایک نئی زندگی دی ہے، آج کی نسل تو مولانا شمسی کے نام سے زیادہ واقف نہیں، لیکن آج سے نصف صدی پیشتر جب ریڈیو پاکستان کی اردو نشریات کی توتی بولتی تھی تو اس مقبولیت میں مولانا سلیم الدین شمسی کے دینی پروگراموں کا بھی بڑا حصہ تھا، مولانا کے حالات زندگی سے زیادہ واقفیت نہیں، بس اتنا معلوم ہے کہ استاذ الاساتذہ مولانا لطف اللہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے سے آپ کو نسبت ہے۔ اور مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اکابر سے آپ کا ربط وتعلق تھا۔ اور مقام رسالت کے عنوان سے ایک رسالہ آپ نے جاری کیا تھا۔
اس زمانے میں برصغیر میں صبح کا آغاز ریڈیو پر مشہور قراء کی خوش الحان آواز میں تلاوت کلام پاک سے ہوتا تھا، جس کے بعد مولانا سلیم الدین شمسی صاحب کی آواز میں آیات قرآنی کا دلکش انداز سے ترجمہ قرآن پیش ہوتا تھا، گذشتہ نصف صدی میں قرآن کے اردو تراجم کئی ایک نے اپنی آواز میں ریکارڈ کئے ہیں، لیکن ہماری ناقص رائے میں زیر وبم، اتار چرھاؤ، خوبصورت اور موثر ادائیگی میں مولانا کے مقام کو ابتک کوئی نہیں پہنچ سکا ہے، آپ نے مثنوی مولانا روم کی منتخب حکایات کی تشریح بھی پیش کی ہے، جو سینکڑوں پروگراموں پر مشتمل ہے، اردو تحریروں کو پڑھنے اور براڈکاسٹنگ میں ذوالفقار علی بخاری، رضاعلی عابدی، محمد ضیاء محی الدین وغیرہ کئی ایک نے شہرت پائی ہے، لیکن جہاں تک دینی پروگراموں کا تعلق ہے تو مولانا سلیم الدین شمسی اور آپ کے بعد شاہ بلیغ الدین مرحوم کی ادائیگی اپنی مثال آپ ہے، اردو کے طالب علموں کو ان شخصیات کی آواز میں ریکارڈنگس کو سننا چاہئے۔
ریڈیو پر مولانا شمسی نے جو ترجمہ قرآن جستہ جستہ پیش کئے ہیں، اس مقام تک مولانا شمسی کی دوسری ریکارڈنگ نہیں پہنچ سکی، اس کا ایک بڑا سبب اس کا تسلسل اور زیادہ دورانیہ بھی ہوسکتا ہے،جس میں اتار چڑھاؤ کا موقعہ زیادہ ملتا ہے، بعد میں آپ کی آواز میں ریکارڈ شدہ مکمل ترجمہ قرآن مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا قاری شاکر قاسمی وغیرہ کی تلاوت کے ساتھ پیش کیا گیا، لیکن فنی معیارات کا خیال رکھتے ہوئے آپ کی آواز میں ترجمہ قرآن کی اولین ریکارڈنگ پاکستانی استاد قاری علی شرف الدین الیمنی کی تلاوت کے ساتھ جو پیش کی گئی ہے وہ مثالی ہے، قاری صاحب شیخ محمود خلیل الحصری کے شاگرد خاص تھے، ۱۹۸۰ء کی دہائی کے بعد جب ائمہ حرم کی تلاوتوں کو رواج ملا، اس سے پہلے مصری قاریوں کی تلاوتیں مقبول عام تھیں، اور فن تجوید اور مخارج کو دیکھا جائے تو پھر ان مصری قاریوں شیخ محمود خلیل الحصری، شیخ مصطفی اسماعیل کے مقام کو بعد میں آنے والے شاذ ونادر ہی پہنچ پائے۔ شاید آج کے زمانے کے معیارات او ذوق کو دیکھ کر قاری شرف الیمنی کی آواز واجبی ہی لگے، لیکن اس میں شک نہیں کہ پچاس ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود فنی ریکارڈنگ میں شیخ محمود الحصری کی ریکارڈنگ کے بعد اسٹوڈیو میں ریکارڈ شدہ قاری علی شرف الدین الیمنی کی تلاوت اور مولانا سلیم الدین شمسی کے ترجمے کے معیار کو بعد میں آنے والی ریکارڈنگس نہیں پہنچ سکتیں، الحمد للہ یہ مکمل مصحف ہمارے پاس محفوظ ہے، اور ان شاء اللہ حسب سہولت اسے اردوآڈیو ڈاٹ کام پر سلسلہ وار پیش کیا جائے گا۔
بات چلی تھی خلاصہ مضامین قرآن سے، مولانا سلیم الدین شمسی مرحوم نے آئینہ تفسیر قرآن کے عنوان سے تیس پاروں کا ایک خلاصہ بھی ریکارڈ کیا تھا، جسے اردو آڈیو ڈاٹ کام پر پہلے پیش کیا جاچکا ہے۔
زبان وادب سے دلچسپی لکھنے والوں کو یہ نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ زبانیں صرف پڑھنے سے نہیں آیا کرتیں، درست زبان اور لب ولہجہ سننے سے آتا ہے۔ ان نادر ریکارڈنگس کو پیش کرنے کا اصل مقصد یہی ہے کہ اس بزم علم وکتاب کے ذریعہ جہاں ذوق مطالعہ کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی ہے، وہیں صحت زبانی کے لئے معیاری سمعی مواد بھی پیش کیا جائے، کیونکہ آنکھوں سے سیکڑوں کتابیں پڑھنے کے باوجود ضروری نہیں کہ آپ کے الفاظ کا تلفظ بھی درست ہو، اور آپ کا اردو یا عربی کا اعراب بھی صحیح ہو، درست اعراب کے لئے صرف ونحو سے زیادہ درست زبان سننے کی عادت ڈالنا زیادہ اہم ہے۔
2024-02-27
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=para-1-surah-al-baqarah-ayat-1-67, Para 1 - Surah Al-Baqarah (Ayat 1 - 67)
سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ(جنوری۔مارچ ۲۰۲۴ء)
Читать полностью…آج کی وفیات
مورخہ: ۲۶ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابوالسعود باقوی بنگلور ۔وفات۔1996
احمدہمدانی،سید ۔وفات۔2015
اخلاق، ایس ایم ۔وفات۔2005
اقتدار حسین اقتدار ۔وفات۔2000
آفتاب حسن، میجر۔وفات۔1993
رکن الدین حسان، ڈاکٹر ۔وفات۔1985
ظفر الاحسن لاری ۔وفات۔1976
قدرت اللہ خاں، استاد ۔وفات۔1984
لطیف الرحمٰن ۔وفات۔1987
ولی محمد خان خلش ۔وفات۔1989
مولانا مفتی نظام الدین اعظمی ۔وفات۔2000
مولانا عبدالحی صاحب سہارنپوری۔وفات۔1930
مولانا مفتی محی الدین ۔وفات۔1981
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ۔وفات۔1978
مولانا عبد المنان نورپوری۔وفات۔2012
/channel/ilmokitab
*تعارف کتاب: الدین والحیاۃ*
*تحریر: عبد المتین منیری*
کتاب: الدين والحياة (المجلد التاسع)
نشرات التوعية الدينية
من إعداد: الإدارة العامة للدعوة بوزارة الأوقاف
بجمهورية مصر العربية۔ القاهرة
۱۳۹۸ هـ - ۱۹۷۸
...................................................
یہ کتاب جس کا تعارف آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے، مصر کی وزارت اوقاف(شعبہ دعوت دین) نے الدین والحیاۃ کے عنوان سے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اوقاف کے تابع ائمہ مساجد ، خطباء و مدرسین کے لئے تیار کردہ پمفلٹوں کے مجموعے کی (نویں جلد) ہے۔ یہ پمفلٹ عموما چالیس پچاس صفحات پر مشتمل ہیں،اور ان کا مجموعہ بیس جلدوں میں ہے۔
اس نویں جلد میں ،ایمانداری اور قوموں کی ترقی پر اس کا اثر ، عدل وانصاف اور امت کی زندگی پر اس کا اثر (۳ پمفلٹ)،صدقہ واحسان اور امت کی زندگی پر اس کا اثر(۳ پمفلٹ)، سچائی اور ایمانداری اور امت کی زندگی پر اس کا اثر(۳ پمفلٹ)، جھوٹ اور اس کا امت کی زندگی پر اثر(۲ پمفلٹ)، ایمان اور اس کے بارے میں اسلام کا موقف( ۲ پمفلٹ)، نذر باندھنا اور اسلام کا اس کے بارے میں موقف (۲ پمفلٹ)، توکل اور اس کا امت کی زندگی پر اثر۔
سرسری طور پر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایسی اہم کتاب نہیں ہے، کیونکہ ان موضوعات پر مضامین کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں، باوجود اس کے اس مجموعے کی اپنی ایک اہمیت ہے، جو درس وتدریس ، وعظ وارشاد، اور دعوت دین کے میدان میں کام کرنے والوں پر بہتر طور پرآشکارا ہوسکتی ہے۔
دراصل اوقاف مصر کے سامنے ان پمفلٹوں کی اشاعت کا مقصد یہ ہے کہ ائمہ مساجد، اور واعظان کرام اور خطیب حضرات کو چونکہ دین سے وابستہ جملہ موضوعات پر دسترس ہونی چاہئے، ان کے لئے ایسا علمی مواد پیش کیا جائے جس بوقت ضرورت رجوع کرسکیں، اور فوری طور پر کوئی خطبہ تقریر یا درس تیار کرنے کی ضرورت پیش آئے تو بہت زیادہ کتابوں کی تلاش کی محنت نہ پڑے، اور ان کے سامنے پمفلٹ کی شکل میں ایسی مواد پیش کیا جاسکے جو طفل مکتب کے بجائے فارغین اور علماء کے معیار کا ہو۔ ان پمفلٹوں میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا گیا ہے۔
۔ اگر کوئی موضوع تین خطبوں کا متقاضی ہے تو اس کے لئے تین پمفلٹ تیار کئے جائیں۔
۔ ان کی حیثیت کتابوں اور مقالات کی نہ ہو، بلکہ اس میں موضوعات سے متعلق ضروری معلومات کے ساتھ اہم مراجع اور کتابوں سے اقتباسات پیش کئے جائیں، جن کی حیثیت حاصل مطالعہ کی ہو۔
ظاہری صورت میں تو یہ معمولی پمفلٹ محسوس ہوتے ہیں، لیکن اگر انہیں یکجا کیا جائے تو پھر یہ متنوع قسم کے دینی موضوعات پر ایک عظیم انسائیکلوپیڈیا کی شکل اختیار کرجاتا ہے،ایک واعظ وخطیب کے سامنے جب کوئی کتب خانہ دستیاب نہ ہو، اور ڈھیر ساری کتابوں کی تلاش کا وقت بھی نہ ہو، اب اس موقعہ پران کتابوں کا عطر مل جائے ۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جلد نمبر (۹) پمفلٹ نمبر (۱۷۳) پر ختم ہوتا ہے۔ اگر عامۃ الناس کو درپیش (۵۰۰) موضوعات پر اس قسم کا کوئی مجموعہ مل جائے تو ایک واعظ وخطیب کو مصروفیت کے اس فضا میں کتنا ممد ومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔
۔ وہ ائمہ و واعظین جو مطالعہ سے جی چراتے ہیں، ان کے ہاتھ میں ایک مختصر علمی پمفلٹ کتاب بینی سے ان کے تعلق کو کٹنے نہ دے۔
اس ناچیز کو اس مجموعے کا پہلے پہل تعارف ایک ممتاز عراقی مفکر و داعی کے توسط سے ہوا تھا، جو ۱۹۷۹ء میں وزارۃ العدل والشؤون الاسلامیۃ والاوقاف (امارات) سے اس ناچیز کی وابستگی کے بعد ہمارے شعبہ کے مشیر بن گئے تھے، انہوں نے ۱۹۸۴ء میں اس سلسلے کی از سر نو اشاعت کا آغاز کیا تھا، اس وقت اس مجموعے کی تین جلدیں ان کے پاس تھیں، جنہیں ہمارے شعبے نے اس وقت شائع کی تھیں، اس وقت سے اس سلسلے کی جملہ بیس جلدوں کی تلاش ہے جس کے حصول میں ابھی تک ہمیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے، بس ایک دو مزید جلدیں دستیاب ہوسکیں ہیں۔
اس سلسلے کی دستیاب ایک جلد علم وکتاب واٹس اپ گروپ کے احباب کی خدمت میں خاص طور پر بطور نمونہ اسکین کرکے پیش کی جارہی ہے، اور اس کا داعیہ اس لئے پیدا ہوا ہے کہ گروپ پرعوامی معیار کی دینی اور مذہبی پوسٹوں کی ممانعت ہے، اس پر بعض احباب کو اعتراض ہوتا ہے کہ علماء کی مجلس میں دینی اور مذہبی مواد پر پابندی ہے، جب کہ محرم، ربیع الاول، رجب ، شعبان ، رمضان ، ذی الحجہ کونسا مہینہ ایسا ہے جس کی مناسبت سے وعظ وارشاد اور درس وبیان کے لئے کتابچوں اور علمی مواد کی ضرورت ہمارے علماء و خطیبوں کو نہیں پڑتی، ہماری ناقص رائے میں جس بزم میں فارغین علماء اور مفتیان کرام موجود ہوں ان میں ان کے معیار سے فروتر مواد پوسٹ نہیں ہونا چاہئے۔ اب ان کے معیار کا مواد خاص طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہوگی، یہ محنت طلب اور منظم انداز سے کرنے کا کام ہے۔ اس کے لئے الدین والحیاۃ کا یہ مجموعہ بہترین نمونہ بن سکتا ہے۔
آج کی وفیات
مورخہ: ۲۵ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا امتیازعلی خاں عرشی۔وفات۔1981
شعیب قریشی ۔وفات۔1962
ڈاکٹرسید حسین۔وفات۔1949
اطہر ہاپوڑی (سید معشوق حسین )۔وفات۔1957
شفاءالملک حکیم عبدالمعید لکھنوی۔وفات۔1969
سعید طارق ۔وفات۔2012
https;//telegram.me/ilmokitab
*تعارف کتاب: الدین والحیاۃ*
*تحریر: عبد المتین منیری*
کتاب: الدين والحياة (المجلد التاسع)
نشرات التوعية الدينية
من إعداد: الإدارة العامة للدعوة بوزارة الأوقاف
بجمهورية مصر العربية۔ القاهرة
۱۳۹۸ هـ - ۱۹۷۸
...................................................
یہ کتاب جس کا تعارف آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے، مصر کی وزارت اوقاف(شعبہ دعوت دین) نے الدین والحیاۃ کے عنوان سے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اوقاف کے تابع ائمہ مساجد ، خطباء و مدرسین کے لئے تیار کردہ پمفلٹوں کے مجموعے کی (نویں جلد) ہے۔ یہ پمفلٹ عموما چالیس پچاس صفحات پر مشتمل ہیں،اور ان کا مجموعہ بیس جلدوں میں ہے۔
اس نویں جلد میں ،ایمانداری اور قوموں کی ترقی پر اس کا اثر ، عدل وانصاف اور امت کی زندگی پر اس کا اثر (۳ پمفلٹ)،صدقہ واحسان اور امت کی زندگی پر اس کا اثر(۳ پمفلٹ)، سچائی اور ایمانداری اور امت کی زندگی پر اس کا اثر(۳ پمفلٹ)، جھوٹ اور اس کا امت کی زندگی پر اثر(۲ پمفلٹ)، ایمان اور اس کے بارے میں اسلام کا موقف( ۲ پمفلٹ)، نذر باندھنا اور اسلام کا اس کے بارے میں موقف (۲ پمفلٹ)، توکل اور اس کا امت کی زندگی پر اثر۔
سرسری طور پر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایسی اہم کتاب نہیں ہے، کیونکہ ان موضوعات پر مضامین کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں، باوجود اس کے اس مجموعے کی اپنی ایک اہمیت ہے، جو درس وتدریس ، وعظ وارشاد، اور دعوت دین کے میدان میں کام کرنے والوں پر بہتر طور پرآشکارا ہوسکتی ہے۔
دراصل اوقاف مصر کے سامنے ان پمفلٹوں کی اشاعت کا مقصد یہ ہے کہ ائمہ مساجد، اور واعظان کرام اور خطیب حضرات کو چونکہ دین سے وابستہ جملہ موضوعات پر دسترس ہونی چاہئے، ان کے لئے ایسا علمی مواد پیش کیا جائے جس بوقت ضرورت رجوع کرسکیں، اور فوری طور پر کوئی خطبہ تقریر یا درس تیار کرنے کی ضرورت پیش آئے تو بہت زیادہ کتابوں کی تلاش کی محنت نہ پڑے، اور ان کے سامنے پمفلٹ کی شکل میں ایسی مواد پیش کیا جاسکے جو طفل مکتب کے بجائے فارغین اور علماء کے معیار کا ہو۔ ان پمفلٹوں میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا گیا ہے۔
۔ اگر کوئی موضوع تین خطبوں کا متقاضی ہے تو اس کے لئے تین پمفلٹ تیار کئے جائیں۔
۔ ان کی حیثیت کتابوں اور مقالات کی نہ ہو، بلکہ اس میں موضوعات سے متعلق ضروری معلومات کے ساتھ اہم مراجع اور کتابوں سے اقتباسات پیش کئے جائیں، جن کی حیثیت حاصل مطالعہ کی ہو۔
ظاہری صورت میں تو یہ معمولی پمفلٹ محسوس ہوتے ہیں، لیکن اگر انہیں یکجا کیا جائے تو پھر یہ متنوع قسم کے دینی موضوعات پر ایک عظیم انسائیکلوپیڈیا کی شکل اختیار کرجاتا ہے،ایک واعظ وخطیب کے سامنے جب کوئی کتب خانہ دستیاب نہ ہو، اور ڈھیر ساری کتابوں کی تلاش کا وقت بھی نہ ہو، اب اس موقعہ پران کتابوں کا عطر مل جائے ۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جلد نمبر (۹) پمفلٹ نمبر (۱۷۳) پر ختم ہوتا ہے۔ اگر عامۃ الناس کو درپیش (۵۰۰) موضوعات پر اس قسم کا کوئی مجموعہ مل جائے تو ایک واعظ وخطیب کو مصروفیت کے اس فضا میں کتنا ممد ومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔
۔ وہ ائمہ و واعظین جو مطالعہ سے جی چراتے ہیں، ان کے ہاتھ میں ایک مختصر علمی پمفلٹ کتاب بینی سے ان کے تعلق کو کٹنے نہ دے۔
اس ناچیز کو اس مجموعے کا پہلے پہل تعارف ایک ممتاز عراقی مفکر و داعی کے توسط سے ہوا تھا، جو ۱۹۷۹ء میں وزارۃ العدل والشؤون الاسلامیۃ والاوقاف (امارات) سے اس ناچیز کی وابستگی کے بعد ہمارے شعبہ کے مشیر بن گئے تھے، انہوں نے ۱۹۸۴ء میں اس سلسلے کی از سر نو اشاعت کا آغاز کیا تھا، اس وقت اس مجموعے کی تین جلدیں ان کے پاس تھیں، جنہیں ہمارے شعبے نے اس وقت شائع کی تھیں، اس وقت سے اس سلسلے کی جملہ بیس جلدوں کی تلاش ہے جس کے حصول میں ابھی تک ہمیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے، بس ایک دو مزید جلدیں دستیاب ہوسکیں ہیں۔
اس سلسلے کی دستیاب ایک جلد علم وکتاب واٹس اپ گروپ کے احباب کی خدمت میں خاص طور پر بطور نمونہ اسکین کرکے پیش کی جارہی ہے، اور اس کا داعیہ اس لئے پیدا ہوا ہے کہ گروپ پرعوامی معیار کی دینی اور مذہبی پوسٹوں کی ممانعت ہے، اس پر بعض احباب کو اعتراض ہوتا ہے کہ علماء کی مجلس میں دینی اور مذہبی مواد پر پابندی ہے، جب کہ محرم، ربیع الاول، رجب ، شعبان ، رمضان ، ذی الحجہ کونسا مہینہ ایسا ہے جس کی مناسبت سے وعظ وارشاد اور درس وبیان کے لئے کتابچوں اور علمی مواد کی ضرورت ہمارے علماء و خطیبوں کو نہیں پڑتی، ہماری ناقص رائے میں جس بزم میں فارغین علماء اور مفتیان کرام موجود ہوں ان میں ان کے معیار سے فروتر مواد پوسٹ نہیں ہونا چاہئے۔ اب ان کے معیار کا مواد خاص طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہوگی، یہ محنت طلب اور منظم انداز سے کرنے کا کام ہے۔ اس کے لئے الدین والحیاۃ کا یہ مجموعہ بہترین نمونہ بن سکتا ہے۔
نواب میر عثمان علی خان، آصف جاہ، نظام دکن(وفات ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء)۔۔۔ تحریر ماہرالقادری
Читать полностью…حضرت مولانا کا درس اپنی ایک الگ شان رکھتا تھا، درس قرآن میں انہوں نے ربط آیات پر خاص زور دیا اور شاہ عبدالقادر صاحب کے ترجمہ کو علماء اور عوام کے لئے آسان بنا دیا، درس قرآن میں ان کے ہزاروں شاگرد ہیں اور سب تفسیر قرآن میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں. تقسیم ملک سے پہلے یوپی اور گجرات کے مدارس اسلامیہ کے طلباء بھی رمضان کی تعطیلات میں لاہور پہنچ کر حضرت مولانا کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے تھے. سید ابوالحسن علی ندوی صاحب، مولانا صبغۃ اللہ بختیاری، مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے برادر عزیز مولانا محمد طاہر صاحبؒ ان کے اس زمانہ کے مستفیدین میں سے ہیں. قرآن کریم کی جو خدمت مولانا نے اپنے درس اور تحریر کے ذریعہ فرمائی اس پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کے لئے ایک مستقل مضمون کی ضرورت ہے. مگر میں اس کے اجمالی ذکر کے بعد مختصر سا ذکر مولانا کے ان تبلیغی اور دینی رسائل کا بھی کرنا چاہتا ہوں جو رسوم و بدعات مروجہ، عقائد باطلہ اور فرق ضالہ کی مناسب اور مستحکم تردید اور صحیح عقائد کے تعارف پر انہوں نے بڑی سادہ زبان میں تحریر فرمائے اور بہترین کتابت و طباعت کے ساتھ انجمن خدام الدین نے انہیں لاکھوں کی تعداد میں چھاپا اورمفت تقسیم کیا، مولانا کی تحریر، انشاء پردازی کے تکلفات سے بری اور حشو و زوائد سے پاک تھی اور ایک ایسے مصروف اور باعمل آدمی کو تحریر کی زیبائش و آرائش، عبارت آرائی اور رنگین بیانی کی فرصت بھی نہیں مل سکتی لیکن ان رسائل و تحریرات میں مولانا کا ایمان کامل، تقویٰ، طہارت، اخلاص و للہیت اور انابت الی اللہ کا ایک نور جھلکتا ہے اور اپنے وقت میں ان رسائل نے بڑا کام کیا ہے.
مولانا کے متعلق میری یہ بے ربط اور بے مغز تحریر میرے اندازہ سے زیادہ بڑھ گئی ہے.
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم
چنانکہ حرف عصا گفت موسیٰ اندر طور
/channel/ilmokitab
تقسیم سے پہلے تک اماں جی مخدومہ کو ہمیشہ سال چھ مہینے تک وہ ایک معقول رقم عطیہ اور ہدیہ کے طور پر بھیجا کرتے تھے، میں جب کبھی لاہور گیا تو حضرت مولانا نے اس کا التزام رکھا کہ جو کچھ ان کی جیب میں ہوتا تھا وہ سب کا سب نکال کر مجھے دے دیتے تھے. میں لاہور میں اپنی قیام گاہ سے پیدل چل کر اگر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتا تو مولانا مجھے کبھی پیدل واپس نہ فرماتے اور ہمیشہ مسجد کے دروازے پر تشریف لا کر خود تانگے کو بلاتے اور مجھے تانگے میں بٹھاتے. یہاں مجھے برادر معظم مولانا حافظ حبیب اللہ صاحب لاہوریؒ کا بھی ذکر کرنا ہے جو حضرت مولانا احمد علیؒ کے بڑے فرزند تھے، یہ بہت متین، خاموش، شریف الطبع اور یکسو قسم کے آدمی تھے بلکہ کہنا چاہئے کہ مجذوب بھی تھے اور سالک بھی، اباجیؒ کے پاس ۳۳ء میں انتقال سے سال دو سال پہلے دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے کے لئے آئے تھے، ان کے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا، جس کا نام نور الٰہی تھا. اباجیؒ جب دیوبند تشریف فرما ہوتے تو بھائی حبیب اللہ اکثر وقت اباجی کی صحبت میں گذارتے، اباجیؒ بھی ان پر خاص شفقت فرماتے،چیزیں ںمنگا کر انہیں دیتے اور ان کا حال احوال دریافت فرماتے. بھائی حبیب اللہ صاحب کا یہ واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اباجیؒ کے انتقال سے صرف چار پانچ روز پہلے ایک دفعہ شب میں ۱۰؍۱۱؍کے درمیان بھائی حبیب اللہ صاحب ہمارے گھر آئے، باہر مردانہ میں مہمان تھے، اباجی کی عادت تھی کہ وہ رات کو سونے سے پہلے ایک دفعہ مہمانوں کے پاس تشریف لے جاتے اور خود ان سے دریافت فرماتے تھے کہ کوئی ضرورت تو نہیں، کوئی تکلیف تو نہیں؟ رات کو جب بھی اباجیؒ باہر جانے کا ارادہ فرماتے تو میری اماں جی مجھے حکم فرماتیں کہ لالٹین لے کر حضرت شاہ صاحب کے ساتھ جاؤ کہ اندھیرے میں انہیں باہر جانے کی زحمت نہ ہو، یہ رات کو لالٹین لے کر باہر جانا اور واپسی پر مکان کے اندرونی حصہ کا دروازہ بند کرنا میری ڈیوٹی تھی، اباجیؒ مہمانوں سے دریافت حال فرما کر دروازہ میں آچکے تھے اورمیں دروازہ بند کرکے کنڈی لگانا چاہتا تھا کہ باہر سے کسی نے دروازہ تھپتھپایا. اباجیؒ نے فرمایا کہ: دروازہ کھولو، دیکھو کون ہے؟ دروازہ کھولا تو بھائی حبیب اللہؒ سفید براق کپڑے پہنے ہوئے کھڑے ہیں، اباجیؒ انہیں رات کے اس وقت دیکھ کر متحیر ہوئے، انہیں خیال ہوا کہ شاید انہیں کوئی تکلیف اور ضرورت پیش آئی ہے. اباجیؒ نے کسی قدر اصرار کے ساتھ، بھائی حبیب اللہ! کیوں بھائی اس وقت کیوں آئے ہو، کیا بات ہے؟ بھائی حبیب اللہ صاحب کچھ خاموش رہے اور دوبارہ اباجیؒ کے پوچھنے پر کہنے لگے کہ حضرت چند دن ہوئے میںنے ایک خواب دیکھا ہے جس سے میری طبیعت بہت پریشان ہے، اباجیؒ نے پوچھا کیا خواب ہے؟ تو بھائی حبیب اللہ صاحب نے بیان کیا کہ خواب یہ ہے کہ رات کا وقت ہے، میں آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوں تو وہاں مجھے بہت سے ستارے روشن نظر آتے ہیں مگر ان سب ستاروں کی روشنی مدھم ہے، درمیان میں ایک ستارہ ہے جو بہت روشن اور تابناک ہے، میں اس روشن ستارہ کو دیکھ رہا ہوں اور تعجب کر رہا ہوں کہ یہ اتنا روشن کیوں ہے، میں ابھی دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ روشن ستارہ مٹ گیا اور اس کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے فضائے آسمانی میں بکھر گئے، بھائی حبیب اللہ نے خواب بیان کرکے اباجیؒ سے پوچھا حضرت اس کی تعبیر کیا ہوسکتی ہے؟ اباجی کچھ دیر خاموش رہے اور اس کے بعد فرمایا کہ اس دور کے کسی محدث کی وفات کی خبر ہے جو چند دن میں ہی انتقال کرنے والا ہے۔ میری عمر اس وقت بارہ سال تھی، میں بالکل نہیں سمجھ سکا اباجیؒ کیا فرما رہے ہیں اور ان کا اشارہ کس طرف ہے، مولانا حبیب اللہ صاحب کے اس خواب سے چند روز بعد ہی اباجیؒ کا انتقال ہوا.
مولانا حبیب اللہ صاحبؒ لاہوری سے بعد میں لاہور اور دیوبند میں ملاقاتیں رہیں، بعد میں وہ حجاز تشریف لے گئے تھے اور بڑی یکسوئی قلب، تقویٰ اور دین داری کے ساتھ انہوں نے اپنا عرصۂ حیات حجاز میں گذارا، وہیں مدفون ہوئے۔ مولانا حبیب اللہ صاحب جوانی کی عمر میں ہی حجاز تشریف لے گئے تھے اور جہاں تک میرا خیال ہے انہوںنے شادی بھی نہیں کی تھی، مولانا حبیب اللہ صاحب کے قیام حجاز پر مجھے اختر شیرانی کا ایک شعر یاد آتاہے:
مدینے جاتے ہیں پیری میں لوگ سب اختر
مزہ ہے کاٹ دو عمر جواں مدینہ میں
میں ۴۲ء-۱۹۴۱ء میں لاہور رہا، اس کی بڑی وجہ تو یہ تھی کہ میری والدہ صاحبہ مرحومہ بیمار تھیں، مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ نے لدھیانہ بلا کر عرصہ تک ان کا علاج کیا مگر صحت نہ ہوئی، بعض احباب کے مشورہ سے لاہور پہنچایا، فیض باغ لاہور میں ایک کشمیری دوست ہوتے تھے، انہوں نے اپنے وسیع مکان کا بالائی حصہ ہمارے قیام کے لئے دیا، لاہور میں ہومیوپیتھک کے ایک مشہور ڈاکٹر مسعود قریشی تھے انہوں نے بڑی توجہ کے ساتھ اماں جی کا علاج کیا، علاج کے سلسلے میں اماں جی تو دو چار مہینہ لاہور رہیں مگر میں سال ڈیڑھ سال تک لاہور کے چکر کاٹتا رہا، کبھی مولانا احمد علی صاحبؒ، مولانا
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
تحریر سید محمد ازہر شاہ قیصر رحمہ اللہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ ان داعیانِ امت، رجال کار اور خدا کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے، جن کی پیدائش روز روز نہیں ہوتی لیکن جب ہوتی ہے تو ان سے قیام دین، احیائے سنت و شریعت، تجدید افکار و خیالات، اعلائے کلمۃ الحق اور شریعت مطہرہ کی حیات ثانی کا کام لیا جاتا ہے. حضرت مولانا صرف ایک فرد تھے اور لاہور میں جب انہوں نے اپنی زندگی شروع کی تو ظاہری سامان و اسباب میں سے کوئی چیز ان کے پاس نہیں تھی، اگر کوئی چیز تھی وہ اس وقت کے لاہور اور پنجاب کے ناموافق حالات کے سامنے بے کسی تھی، ان کا بھروسہ خدا پر تھا، خدا کی رحمتوں پر تھا، نام حق کو بلند کرنے کی محنت و مشقتیں اٹھا کر رب ذوالجلال کی بارگاہ سے ایک مخلص بندہ الٰہی کو جو انعامات، عطیات عنایت فرمائے جاتے ہیں ان پر حضرت مولانا کو یقین کامل تھا. میں نے متعدد لوگوں سے یہ بات سنی ہے کہ لاہور میں ابتداءً مولانا کی قیام گاہ ایک معمولی سی کوٹھری تھی اور وہ اپنے اہل و عیال سمیت اس تنگ و تاریک کوٹھری میں اپنا وقت گذارتے تھے، میں نے کسی سے یہ بھی سنا ہے کہ لاہور کے ان ہی ابتدائی ایام میں مولانا ایک دفعہ شدید بیمار ہوگئے اور علاج کا کوئی سامان میسر نہیں تھا، ان کا ایک مخلص مگر ناسمجھ شاگرد ان کی شدت تکلیف سے گھبرا کر لاہور کے کسی بڑے ڈاکٹر کو بلا لایا، جس کی دس بارہ روپئے فیس ہوتی تھی، وہ جب اس کوٹھری کے سامنے اپنے تانگے سے اترا تو سمجھ گیا کہ یہ کس فقیر مَنِش انسان کا کلبۂ احزان ہے، مگر آدمی مخلص اور شریف تھا، اس نے پوری توجہ کے ساتھ مولانا کا علاج اور تیمار داری کی. یہ لاہور میں مولانا کی زندگی کی ابتداء تھی اور انتہاء یہ کہ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو پاکستان میں ہزاروں لاکھوں آدمی ان کے معتقد تھے اور ان کے کمالاتِ باطنی پر فریفتہ تھے، صحیح عقائد و اعمال پر مشتمل لاکھوں آدمیوں کا ایک حلقہ انہوں نے اپنے ورثہ کے طور پر چھوڑا. حضرت مولانا کی زیارت مجھے پہلی مرتبہ ۱۹۲۸ء کے انجمن خدام الدین کے اس جلسہ میں ہوئی جس میں میرے والد محترم امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہٗ نے مجاہد اسلام مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت بنایا اور حضرت کے ارشاد پر پانچ سو علماء صالحین نے شاہ بخاریؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح صرف پنجاب ہی میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں تحریک آزادی، تردید قادیانیت اور اسلامی فکرو عمل کو سنبھالنے اور آگے بڑھانے کا جذبہ پیدا کیا. اباجیؒ اسی موقع پر جہاد و عمل کے میدان میں کام کرنے والے افراد کی ایک پوری جماعت کو اپنے قریب لاچکے تھے، یہی وہ جماعت تھی جس نے بعد میں مجلس احرار اسلام کے نام سے تشکیل پائی اور تقریباً تیس سال تک یہ جماعت ہندوستان کے زمین و آسمان میں غلغلہ آراء رہی، انجمن خدام الدین کے یہ جلسے پنجاب میں صحیح مسلک اور سچے دین کی تخم ریزی اور آبیاری کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھے. حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ سالہا سال تک یہ جلسے کرتے رہے اور ان جلسوں کی خصوصیت یہ تھی کہ حضرت مولاناؒ اپنی کوشش اور ہمت مردانہ سے ہندوستان کے منتخب علماء و صلحاء کو ان جلسوں میں جمع فرماتے تھے. حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ، مولانا حسین علی صاحب واں پھجراں، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ، مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ، مولانا احمد سعید دہلویؒ، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ ان جلسوں کے خاص مقررین ہوتے تھے. یہ حضرات نہ صرف ان جلسوں میں بصیرت افروز اور دلوں کی دنیا کو تہہ و بالا کردینے والی تقریریں فرماتے تھے بلکہ حضرت مولانا احمد علی صاحب اس کا بھی اہتمام فرمایا کرتے تھے کہ مسجد لائن سبحان خاں اور لاہور کی دوسری بڑی مساجد میں ان حضرات کا قرآن کریم اور صحاح ستہ میںسے کسی کتاب کا درس بھی کرایا کرتے تھے. ان جلسوں اور مجالس درس میں لاہور اور پنجاب کے سینکڑوں اور ہزاروں علماء اور نوتعلیم یافتہ حضرات شریک ہوتے تھے، یہی وہ درس ہوتے تھے جن کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کے مشہور صحافی اور اہل قلم جناب عبدالمجید خاں سالک ایڈیٹر انقلاب نے اپنی کتاب ’’حرف و حکایت ‘‘ میں لکھا ہے کہ: لاہور میں مولانا احمد علی کے زیر انتظام حضرت شاہ صاحب بخاری کا درس دے رہے تھے، ان کے رفیق کار چودھری غلام رسول مہر ایڈیٹر انقلاب نے سالک صاحب سے کہا کہ سالک صاحب چلئے حضرت شاہ صاحب کے درس میں حاضر ہوں، ہمارے لئے یہ فخر کی بات ہوگی کہ ہم عصر حاضر کی ایک ایسی ہستی کے درس میں یٹھیں جس کی روح عشق محمدی اور تعلیمات نبوت کے فیضان خاص سے سرشار ہے۔ چنانچہ یہ دونوں اصحاب بھی حضرت شاہ صاحب کے درس میں حاضر ہوئے.
اسی طرح منتظم کے ’ظ‘ پر زیر ہو تو وہ ’’انتظام کرنے والا‘‘ ہوگا اور اگر ’ظ‘ پر زبر ہو تو مطلب ہوگا ’’جس کا انتظام کیا گیا‘‘۔ چناں چہ اگر آپ منتخب کے ’خ‘ کو زیر لگاکر پڑھیں گے تو اس کا مطلب ہوگا ’’انتخاب کرنے والا‘‘ یعنی ووٹر۔ لیکن ’’جس کا انتخاب کیا گیا‘‘ ہے اُس کے ’خ‘ پر خواہ مخواہ زبر ہوگا، خواہ وہ منتخب صدر ہو یا منتخب وزیراعظم۔ ’خواہ مخواہ‘ کا مطلب ہے ’چاہو یا نہ چاہو‘۔
آج کل برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ پر ایک بھاری بھرکم اصطلاح کی بھرمار ہے: ’مینڈیٹ‘ (Mandate)۔ اس لفظ کے کئی معانی ہیں، فرمان، حکم، اجازت، ہدایات وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جس مفہوم میں یہ لفظ آج کل استعمال ہورہا ہے وہ ہے ’’عوام کی اکثریت کی حمایت سے ملنے والا حقِ حکمرانی‘‘۔ تاہم پاکستان کے عوام کی اکثریت ’مینڈیٹ‘ کے مفہوم سے ناآشنا ہے۔ جب ذرائع ابلاغ سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلاں کو عوام نے مینڈیٹ دے دیا ہے تو ’عوام‘ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ وہ فلاں کو کیا دے بیٹھے ہیں۔ اُردو میں ایک ہلکا پھلکا عام فہم لفظ ہے’اختیار‘۔ جس کی جمع ’اختیارات‘ ہے۔ ’اختیار دینا‘ کسی کو صاحبِ اختیار و اقتدار بنانا ہے۔ جس کو ’اختیار‘ دیا جاتا ہے وہ ’بااختیار‘ ہوجاتا ہے۔ مقتدروں کو ’صاحبِ اختیار‘ کہنا عام ہے۔ اُستادِ محترم پیرزادہ قاسم رضا نے اپنے شہر کا ’مینڈیٹ‘ رکھنے والوں کو ہدایت کی تھی:
شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
ہدایت سن کر ’ صاحبانِ اختیار‘ نے سعادت مندی سے سر جھکایا اور ’’جی، اچھا!‘‘ کہہ کر ہدایت پر عمل شروع کردیا۔ اگر ہمارے ذرائع ابلاغ ’مینڈیٹ‘ کی جگہ ’اختیار‘ کا لفظ اختیار کرلیں تو اس سے اُن کے یا کسی اور کے اختیارات میں کوئی کمی نہیں آجائے گی۔ مگر ہم نے کہا نا کہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس اختیار ہوتا تو قومی ذرائع ابلاغ کو قومی زبان کی اصطلاحات اختیار کرنے پر مجبور کردیتے۔ مگر کیا کیجیے کہ اس وقت تو ہم ہی مجبور ہیں، وہ ہی مختار ہیں۔ ’مختار‘ اُس شخص کو کہتے ہیں جو ’بااختیار‘ ہو۔ کسی کا پابند یا کسی کے زیراثر نہ ہو۔ رشکؔ نے عشق کو تمام پابندیوں سے آزاد کرکے ’خودمختار‘ کردیا تھا:
عقل و حواسِ خمسہ کو بے کار کر دیا
ہم نے جنابِ عشق کو مختار کر دیا
جسے مختار کیا جاتا ہے اُسے ’مختارنامہ‘ بھی دے دیا جاتا ہے۔ مختارنامہ پکڑ کروہ ’مختارِ عام‘ ہوجاتا ہے۔اُسے ہر کام کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ ایک سرکاری عہدہ ہے ’مختارِ کار‘۔اللہ جانے کس نے ہمارے صوبہ سندھ میںاسے ’مختیارِ کار‘ قرار دے کر اس کی مت مار دی ہے۔
بہ شکریہ: فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
مولانا احمد علی لاہوری(وفات ۲۳ فروری ۱۹۶۲) تحریر شورش کاشمیری
Читать полностью…ان کے گرد اندرا گاندھی، بیگم ارونا آصف علی اور سینکڑوں دوسری عورتیں جمع تھیں ۔ اندرا کہہ رہی تھیں "ہندوستان کا نور بجھ گیا"
اور ارونا رورہی تھیں "ہم ایک عظمت سے محروم ہو گئے "۔
پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھینچے رہے ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہو گئی۔ لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے ، صبح 4 بجے میت کو غسل دیا گیا اور کفنا کر 9 بجے صبح کوٹھی کے پورٹیکو میں پلنگ پر ڈال دیا گیا۔
سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے ، پھر وزیراعظم نے اس کے بعد غیر ملکی سفراء نے کئی ہزار برقعہ پوش عورتیں مولانا کی میت کو دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں ، ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا
"مولانا آپ بھی چلے گئے ، ہمیں کس کے سپرد کیا ہے ؟"۔
ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں ۔ ایک عجیب عالم تھا چاروں طرف غم و اندوہ اور رنج و گریہ کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں ۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضا کار کی طرح عوام کے ہجوم میں گھس جاتے اور انہیں بے ضبط ہجوم کرنے سے روکتے ، پنڈت جی نے یمین ویسار سکیورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا :
"آپ کون ہیں ؟"
"سکیورٹی افسر"۔
"کیوں "۔
"آپ کی حفاظت کیلئے "۔
"کیسی حفاظت؟ موت تو اپنے وقت پر آکے رہتی ہے، بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے ؟"
شری پربودھ چندر راوری تھے کہ پنڈت جی نے یہ کہا اور بلک بلک کر رونے لگے ، ان کے سکیورٹی افسر بھی اشکبار ہو گئے ، ٹھیک پون بجے میت اٹھائی گئی، پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفراء نے دیا، جب کلمہ شہادت کی صداؤں میں جنازہ اٹھا تو عربی سفراء بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، جوں ہی بنگلہ سے باہر کھلی توپ پر جنازہ رکھا گیا تو کہرام مچ گیا، معلوم ہوتا تھا پورا ہندوستان روہا ہے مولانا کی بہن نے کوٹھی کی چھت سے کہا :
"اچھا بھائی خدا حافظ"۔
پنڈت پنٹ نے ڈاکٹر راجندر پرساد کا سہارا لیتے ہوئے کہا :
"مولانا جیسے لوگ پھر کبھی پیدا نہ ہوں گے اور ہم تو کبھی نہ دیکھ سکیں گے "۔
مولانا کی نعش کو کوٹھی کے دروازہ تک چارپائی پر لایا گیا، کفن کھدر کا تھا، جسم ہندوستان کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا، اس پر کشمیری شال پڑا تھا اور جنازہ پر نیچے دہلی کی روایت کے مطابق غلاف کعبہ ڈالا گیا تھا۔ پنڈت نہرو، مسٹر دھیبر صدر کانگریس، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز، پروفیسر ہمایوں کبیر، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے ۔
ان کے پیچھے دوسری گاڑی میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر کی موٹر تھی۔ ان کے بعد کاروں کی ایک لمبی قطار تھی جس میں مرکزی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر اور غیر ملکی سفراء بیٹھے تھے ۔
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ تمام راستہ پھولوں کی موسلادھار بارش ہوتی رہی۔ دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اٹ گیا۔ جب لاش لحدتک پہنچی تو ایک طرف علماء و حفاظ قرآن مجید پڑھ رہے تھے دوسری طرف اکابر فضلاء سرجھکائے کھڑے تھے ۔
اس وقت میت کو بری فوج کے ایک ہزار نوجوانوں ، ہوائی جہاز کے تین سو جانبازوں اور بحری فوج کے پانچ سو بہادروں نے اپنے عسکری بانکپن کے ساتھ آخری سلام کیا، مولانا احمد سیعد دہلوی صدر جمعیت علماء ہند نے 2:50 پر نماز جنازہ پڑھائی، پھر لحد میں اتارا، کوئی تابوت نہ تھا اور اس طرح روئے کہ ساری فضاء اشکبار ہو گئی، تمام لوگ رو رہے تھے اور آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، مولانا کے مزار کا حدود اربعہ "بوند ماند" کے تحت درج ہے ۔
مختصر ... یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کئے گئے ، مزار کھلا ہے ، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرہ ہے اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں ۔ راقم جنازہ میں شرکت کیلئے اسی روز دہلی پہنچا، مولانا کو دفنا کر ہم ان کی کوٹھی میں گئے کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لال نہرو آ گئے اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے پھر پھولوں کی اس روش پر گئے ، جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے ، ایک گچھے سے سوال کیا:
"کیا مولانا کے بعد بھی مسکراؤ گے ؟"۔
راقم آگے بڑھ کر آداب بجا لایا کہنے لگے : "شورش تم آ گئے ؟ مولانا سے ملے ؟"
راقم کی چیخیں نکل گئیں ۔
مولانا ہمیشہ کیلئے رخصت ہو چکے تھے اور ملاقات صبح محشر تک موقوف ہو چکی تھی۔
/channel/ilmokitab
ٹھوکریں انہیں کو لگتی ہیں
بیان وآواز: مولانا ابو الکلام آزادؒ
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=thokarain-unhi-ko-lagti-hai-jo-chaltay-hain, Thokarain Unhi ko lagti hai jo chaltay hain
مزید تقاریر سننے کے لئے
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=azad&c=&s=abul-kalam-azad&t=
آج کی وفیات
مورخہ: ۲۸ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر راجندر پرشاد ۔وفات۔1963
حسن علی جی رمل ۔وفات۔1999
ریاض الدین سہروردی،علامہ سید محمد ۔وفات۔2001
شمس الحسن ، نواب سید ۔وفات۔1984
صمد بنگلوری (سید عبدالصمد علیگ)۔وفات۔1968
نسیم امروہوی(سید قائم رضا)۔وفات۔1987
ولایت علی شاہ (حافظ نور احمد انصاری)۔وفات۔1957
یوسف صدیقی۔وفات۔1985
ڈاکٹر احمد لاری ۔وفات۔2011
مولانا محمد صالح بندھولی۔وفات۔1923
احسان جعفری۔وفات۔2002
کملا نہرو۔وفات۔1936
/channel/ilmokitab
تلاوت: قاری علی شرف الدین الیمنی
(شاگرد خاص قاری محمود خلیل الحصری )
پڑھنت ترجمہ : مولانا سلیم الدین شمسی
پارہ ( ۱)۔ سورۃ البقرہ آیت ۰۱۔۶۷
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=para-1-surah-al-baqarah-ayat-1-67, Para 1 - Surah Al-Baqarah (Ayat 1 - 67)
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی(وفات ۲۶ فروری ۱۹۷۸ء) تحریر ڈاکٹر عبد القادر شاکر علیمی
Читать полностью…جہاں تک مواد جمع کرنے کا تعلق ہے تو اردو میں ایسے مواد کی کمی نہیں، تفسیر معارف القرآن، تفہیم القرآن، تدبر قرآن، علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی ، مولانا سیدا بو الحسن ندوی کی ارکان اربعۃ، اور حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے خطبات سے بڑی سہولت مل سکتی ہے، مولانا محمد علی کاندھلوی کی معالم القرآن بھی اپنے صفحات میں بڑا قیمتی مواد سموئے ہوئے ہے۔ الفرقان لکھنو، بینات کراچی جیسے مجلات میں بہت سارا مواد مل سکتا ہے، جنہیں منتخب کرکے اس مجموعے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لئے پہلے اس قسم کا مواد منظم طور پر پی ڈی یف پر پوسٹ کیا جائے، پھر اللہ سہولت دے اور اس کی افادیت کی وجہ سے مقبولیت مقبولیت سے نوازے تو اسے مزید تنقیح وترتیب کے بعد زیور طبع سے بھی آراستہ کیا سکتا ہے۔ علمائے ازہر کا نصف صدی پیشتر فراہم کردہ ایک نمونہ آپ کے سامنے ہے، ضروری نہیں کہ یہ نمونہ سب سے اچھا ہو، لیکن اتنا ضرور ہے کہ پہلا نمونہ ہی سیڑھی کے پہلے پائدان کا کام انجام دیتا ہے، اس پر قدم رکھ کر ہی اوپری کی منزل پر پہنچا جاسکتا ہے۔
/channel/ilmokitab/13450
مسٹر سید حسین(وفات ۲۵ فروری ۱۹۴۹ء)۔۔۔ تحریر: رئیس احمد جعفری
Читать полностью…جہاں تک مواد جمع کرنے کا تعلق ہے تو اردو میں ایسے مواد کی کمی نہیں، تفسیر معارف القرآن، تفہیم القرآن، تدبر قرآن، علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی ، مولانا سیدا بو الحسن ندوی کی ارکان اربعۃ، اور حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے خطبات سے بڑی سہولت مل سکتی ہے، مولانا محمد علی کاندھلوی کی معالم القرآن بھی اپنے صفحات میں بڑا قیمتی مواد سموئے ہوئے ہے۔ الفرقان لکھنو، بینات کراچی جیسے مجلات میں بہت سارا مواد مل سکتا ہے، جنہیں منتخب کرکے اس مجموعے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لئے پہلے اس قسم کا مواد منظم طور پر پی ڈی یف پر پوسٹ کیا جائے، پھر اللہ سہولت دے اور اس کی افادیت کی وجہ سے مقبولیت مقبولیت سے نوازے تو اسے مزید تنقیح وترتیب کے بعد زیور طبع سے بھی آراستہ کیا سکتا ہے۔ علمائے ازہر کا نصف صدی پیشتر فراہم کردہ ایک نمونہ آپ کے سامنے ہے، ضروری نہیں کہ یہ نمونہ سب سے اچھا ہو، لیکن اتنا ضرور ہے کہ پہلا نمونہ ہی سیڑھی کے پہلے پائدان کا کام انجام دیتا ہے، اس پر قدم رکھ کر ہی اوپری کی منزل پر پہنچا جاسکتا ہے۔
/channel/ilmokitab/13450
نواب میر عثمان علی خان(نظام حیدرآباد)۔۔۔ تحریر ماہر القادری(مکمل)
Читать полностью…آج کی وفیات
مورخہ: ۲۴ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب میر عثمان علی خاں ( نظام دکن) ۔وفات۔1967
مولانا سید عبدالغفار نگرامی ندوی۔وفات۔1998
اے ڈی اظہر(احمد الدین)۔وفات۔1974
تجمل حسین ، راجہ ۔وفات۔2011
سجاد دہلوی، ڈاکٹر (سید سجاد حسین )۔وفات۔1955
مولانا قاری امیر حسن ۔وفات۔2012
اے آر خاتون۔وفات۔1965
اظہر سیالکوئی، احمد الدین ( اے ڈی)۔وفات۔1974
امیر شریعت مولانا ابو السعود احمد باقوی ۔وفات۔1996
مولانا عبد السلام مبارک پوری۔وفات۔1924
غلام احمد پرویز۔وفات۔1985
/channel/ilmokitab
کریم بخش صاحبؒ، مولانا نجم الدین صاحبؒ، مولانا عبدالحنان صاحب کی عالمانہ مجلسوںمیں پہنچتا،کبھی اختر شیرانی، مولانا تاجور نجیب آبادی، احسان دانش سے میل ملاقات رہتی. ’’احسان‘‘ اس زمانہ میں لاہور میں ایک معیاری روزنامہ تھا، مرتضیٰ احمد خاں میکش اس کے ایڈیٹر تھے، چراغ حسن حسرت، حاجی لق لق، عطاء الرحمن سجاد، دلبر حسن مسحور اس کے ادارۂ تحریر میں تھے. ادھر مولانا ظفر علی خاں کا ’’زمیندار‘‘ آب و تاب کے ساتھ جاری تھا، وہاں ملک نصر اللہ خاں عزیز چیف ایڈیٹر تھے، سید اظہر حسین زاہدی، ظہور احمد چشتی وغیرہ ان کے شرکاء ادارت تھے، امرت دھارا بلڈنگ کے قریب شمس العلماء مولوی ممتاز علی صاحب دیوبندی مرحوم کا مکان، یہ بس اور رسالوں کے لئے دفتر تھا، ان کے بالکل قریب روزنامہ انقلاب کا دفتر تھا، میں ان سب لوگوں سے ملتا جلتا اور سب اخبارات میں مضامین لکھتا تھا، میرے ایک دوست شیخ اعجاز الدین، خاں بہادر محمد نقی صاحب (انار کلی لاہور) کے فرزند تھے، انہوں نے تجویز کی کہ لاہور سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا جائے ’’اجتماع‘‘نام تجویز ہوا، احقر اس کا ایڈیٹر بنا، مولانا محمد عثمان فارقلیط ایڈیٹر الجمعیۃ اس زمانہ میں زمزمؔ لاہور کے ایڈیٹر تھے، انہوں نے خاص طور پر ہماری سرپرستی کی. پیسہ اخبار اسٹریٹ کے قریب چنگڑ محلہ میں ہماری قیام گاہ اور دفتر تھا، آغا شورش کاشمیریؒ کا مکان بھی قریب تھا، چائے کے ایک ہوٹل میں گاہ بگاہ ان سے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں، آغا شورش نے خود مجھ سے ایک واقعہ بیان کیا کہ میرے والد مرحوم ایک دن صبح کی نماز سے قبل آسٹریلیا بلڈنگ کی مسجد میں مجھے لے گئے تھے جہاں اس وقت حضرت شاہ صاحبؒ کو نماز پڑھانی تھی، میرے والد صاحب نے میرے لئے حضرت سے دعا کرائی اور حضرت نے میرے سر پر ہاتھ رکھا. اخبار اجتماع کی حالت امید افزاء تھی، مگر مجھ پر لڑکپن پوری طرح مسلط تھا، چھ سات مہینے اخبار کا کام کرکے دل گھبرا گیا، ادھر اماں جی نے بھی دیوبند سے خطوط اور تاروں کی قطار لگادی. حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوریؒ میرے قیام کو غائر نظر سے دیکھتے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ میں لاہور میں ادب و صحافت کے میدان میں رہا تو میری زندگی کی ڈگر بدل جائے گی، چنانچہ انہوں نے میرے پائوں اکھاڑے، بار بار نصیحت فرمائی کہ میں دیوبند واپس جاؤں اور میں ۴۲ء میں دیوبند واپس آگیا.
حضرت مولانا احمد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے نیاز مندانہ تعلقات کی داستان بہت طویل ہے، میں کہاں تک اسے بیان کروں، مجھے تو مولانا کی زندگی کی ایک یہی خصوصیت سب سے بڑی خصوصیت نظر آتی ہے کہ انہوں نے لاہور میں اپنا حلقۂ درس قائم فرمایا، درس قرآن میں سینکڑوں افراد، کالجوں کے پروفیسر، اخبارات کے ایڈیٹر، وکیل، بیرسٹر، علماء اور طلباء سب شامل ہوتے تھے. مولانا کسی مذہب اور مسلک پر براہِ راست معاندانہ اور مخالفانہ حملہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا طرزِ کلام نصیحت آموز اور حقیقت افروز ہوتا تھا، وہ اپنے مسلک حقہ کو اتنی خوبصورتی اور گہرائی کے ساتھ پیش فرماتے تھے کہ مخاطب کا ذہن خود اپنے اور مولانا کے مسلک کے تقابلی مطالعہ پر مائل ہوتا، آہستہ آہستہ اس پر اپنے مسلک کی خامیوں اور مولانا کے پیغام کی پختہ کاری کا انکشاف ہوتا اور وہ بغیر کسی قیل و قال اور حیل و حجت کے مسلک حقہ کو قبول کرلیا تھا، مولانا مخالفانہ اعتراض و الزام سے غیر مسلک کے لوگوں کو اپنے سے کاٹ دینے کے خوگر نہیں تھے بلکہ ان کے ہتھیار علم و تحقیق اور موعظت و نصیحت ہوتے تھے، ان ہی ہتھیاروں سے وہ دوسروں کے دلوں کو جیتا کرتے تھے، یہاں مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا، دارالعلوم کے دفتر اہتمام میں ایک روز میں اور برادر عزیز مولانا انظر شاہ کشمیری، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ناظم جمعیۃ علماء ہند سے بات کر رہے تھے. مولانا قالین پر لیٹے ہوئے تھے، کمر کے نیچے بڑا سا تکیہ تھا، انظر سلمہٗ مولانا سے بہت بے تکلف تھے، ان کہی بھی ان کے سامنے کہہ دیتے تھے اور ان سے اپنی باتیں منوا لیتے تھے. ہم دونوں بھائی مسلمانوں کے ایک خاص طبقہ کے متعلق مولانا کی رائے کو شدید بنانا چاہتے تھے اوریہ چاہتے تھے کہ اس طبقہ کے متعلق الجمعیۃ میں بھی نکتہ چینی ہو. مولانا نے کہا بھائی میں قینچی نہیں ہوں کہ لمبے چوڑے کسی کپڑے کے ٹکڑے ٹکڑے اور دھجیاں دھجیاں کردوں، میں تو درزی کی سوئی ہوں پارہ پارہ شدہ کپڑے کو سی سلاکر اسے کار آمد بنانا میرا کام ہے. تو حضرت مولانا حمد علی صاحبؒ کی دینی اور تبلیغی زندگی کی بنیاد بھی یہی نظریہ تھا اور مولانا نے اسی سطح پر کام کرکے مختلف نظریوں اور مختلف عقیدوں کے ہزاروں مسلمانوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کیا اور انہیں ایک پاکیزہ مسلک پر جمع کر گئے.
۱۹۲۸ء کے اس جلسہ میں میری عمر 6/7سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن جب بھی غور کرتاہوں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جلسہ ابھی ہوتا ہے اور اسٹیج پر سب حضرات علماء کرام کے ساتھ ڈاکٹر سر محمد قبال، سر میاں محمد شفیع، سید محسن شاہ بیرسٹر، ڈاکٹر جلال الدین ڈینٹل سرجن اور اس وقت کے نوجوان میاں امیر الدین، چودھری محمد حسین، سید حبیب ایڈیٹر سیاست، مولانا معراج حسین مجددی، مولانا اصغر علی روحی یہ سب حضرات تشریف فرما ہیں. حضرت مولانا احمد علی رحمۃ اللہ علیہ کا پہلا نقشہ میرے ذہن میں یہ ہے کہ انہوں نے جب اپنے اور حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے خاص شاگرد مولانا عبدالحنان صاحب ہزارویؒ سابق ناظم جمعیۃ العلماء پنجاب کو اسٹیج پر اپنے ساتھ کھڑا کرکے اعلان فرمایا کہ اس جلسہ میں آنے والے مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام مولانا عبدالحنان صاحب کے سپرد ہے، تمام مہمان کھانے کے ٹکٹ مولانا عبدالحنان صاحب سے حاصل فرماویں. گویا اس جلسہ میں مجھے پہلی دفعہ حضرت مولانا احمد علیؒ اور مولانا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاریؒ کو دیکھنے کا موقعہ ملا. سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اس وقت جوان تھے اور ان کی شخصیت مردانہ حسن و وجاہت کا ایک دل کش نمونہ تھی. سید صاحب نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھی، سفید لنگی، سرپر چو گوشہ ٹوپی، ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا. اباجی جب کبھی جلسہ میں تشریف لاتے تو شاہ بخاریؒ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، مولانا عبدالحنان ہزارویؒ، مولانا عبدالعزیز صاحب خطیب مسجد میاں میر ہر اول دستہ کی حیثیت سے آگے آگے ہوتے اور بڑی متانت و سنجیدگی کے ساتھ مجمع سے اباجیؒ کے گذرنے کا راستہ بناتے تھے. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اباجیؒ اپنے لئے مجمع میں اس طرح راستہ بنانے کو ناپسند فرماتے تھے اور ان حضرات سے فرماتے کہ اس اہتمام و انتظام کی ضرورت نہیں، میں خود مجمع میں پہنچ کر اپنے لئے راستہ بنا لوں گا مگر یہ حضرات نہیں مانتے تھے اور اباجی کے تشریف لانے پر اس کا اہتمام کرتے تھے. پچھلی یادوں کی دنیا بڑی دل فریب اور تکلیف دہ ہوتی ہے، جو بزرگ گذشتہ اٹھاون برس کی میری زندگی میں میرے سرپرست اور محسن رہے اور جن کی صحبتوں اور مجلسوں میں میرا وقت گذرا ہے آج ان کو عالم تصور میں اپنے سامنے چلتا پھرتا اور ہنستا بولتا دیکھ رہا ہوں، تصور اس پچھلی زندگی کی جو تصویر میرے سامنے پیش کرتا ہے انہیں دیکھنے سے میں آنکھیں چراتا ہوں اس لئے کہ دو چار منٹ اگر پچھلی یادوں کی دنیا میں کھو بھی جاتا ہوں تو پھر مجھے موجودہ معصیت آلود زندگی کے خرابے میں واپس آنا پڑتا ہے. یہاں نیتوں کا کھوٹ، طبائع کا زیغ، دماغوں کا فساد، نگاہوں کی آوارگی، فکرو نظر کی خام کاری کے غل غپاڑے اور شور شرابے کے سوا مجھے اور کوئی چیز نہیں ملتی~
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
زندگی کا کارواں آگے بڑھ رہا ہے، زندگی کے نقشے بن رہے ہیں اور مٹ رہے ہیں. ۱۹۳۳ء میں دیوبند میں اباجیؒ کا انتقال ہوتا ہے، حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحبؒ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ، مولانا ظفر علی خاںؒ، مولانا کریم بخش صاحبؒ، مولانا عبدالعزیزؒ گوجراںوالہ، مولانا نجم الدین صاحب، پروفیسر اورینٹل کالج، مولانا نورالحق علویؒ پروفیسر اورینٹل کالج، حضرت مولانا زکریا صاحب لدھیانویؒ، حضرت مولانا مفتی محمد نعیم صاحب لدھیانویؒ، حضرت مولانا بلال حسین اختر ؒ، مولوی اختر علی صاحب ایڈیٹر زمیندار، آقائے مرتضیٰ احمد خاں میکش اور خبر نہیں کتنے ہزار افراد پنجاب کے ہر ہر شہر سے چل کر ہمارے گھر تعزیت کے لئے آتے ہیں. محلہ خانقاہ کے ایک گوشہ میں ہمار ایک چھوٹا سا مکان ہے، سامنے اباجی کی وہ مسجد ہے جس کے صحن میں اباجی اور سینکڑوں علماء کے سجدوں کے نشانات ہیں، ارد گرد لمبا چوڑا میدان، مکانات کی پشت پر جنگل بیابان، ہزاروں کا یہ مجمع ہفتوں تک اسی بے رونق محلہ اور جنگل میں پڑا رہتا ہے، اباجی کے انتقال کے بعد ان کے شاگردوں، تلامذہ کرام اور معتقدین نے اپنی محبت، عقیدت اور ارادت کا پوراپورا حق ادا کیا. مخدومہ و محترمہ والدہ صاحبہ نے چھوٹے بہن بھائیوں وغیرہ کی اس طرح خبرگیری اور خدمت کی کہ زندگی کے کسی مرحلے پر مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اور میرے گھر والوں نے کوئی قابل ذکر تکلیف اٹھائی ہو، میری زندگی ہمیشہ آزادانہ اور بے باکانہ رہی، علماء کے ساتھ رہا، علماء کی مجلس میں بیٹھا، علماء کے ساتھ کام کئے مگراپنی سیرت کبھی عالمانہ نہیں بنا سکا لیکن میری اس بدعملی اور بدنصیبی کے باوجود اور تمام بزرگوں کی طرح حضرت مولانا احمد علیؒ بھی ہمیشہ میری طرف متوجہ ہوئے اورمیرے لئے سراپا شفقت بنے رہے.
يقول تشرشل : ركبت سيارة الأجرة يوماً متجهاً إلى مكتب الـ BBC لإجراء مقابلة ، وعندما وصلت طلبت من السائق أن ينتظرني أربعين دقيقة إلى أن أعود ..
لكن السائق إعتذر وقال لي لا أستطيع حيث علي الذهاب إلى البيت لكي أستمع إلى خطاب ونستون تشرشل …
يقول تشرشل لقد ذهلت وفرحت من شوق هذا الرجل ليستمع لحديثي !!
فأخرجت عشرة جنيهات وأعطيتها له دون أن أفصح له عمن أكون وعندما رأى المبلغ قال لي : "سأنتظرك ساعات ياسيدي وليذهب تشرشل إلى الجحيم !"
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ آپ کے انتخاب کے صدقے
احمد حاطب صدیقی
لو صاحبو، بالآخر وطنِ عزیز میں انتخابات ہو ہی گئے… اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات۔ یہ انتخابات بہت سے لوگوں کو ہوتے نظر نہ آتے تھے، کیوں کہ آئینی طور پر ان انتخابات کا انعقاد اکتوبر یا نومبر 2023ء ہی میں ہوجانا چاہیے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ’دیر آید، درست آید‘ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ پر آج کل ’غلطی ہائے مضامین‘ کے ساتھ ساتھ ’غلطی ہائے انتخابات‘ کا غلغلہ بھی مچا ہوا ہے کہ ’درست نہ آید‘۔ کسی جماعت کو غالب اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے جو ملغوبہ سا بن گیا ہے، دنیائے ابلاغیات پر فی الوقت اُسی ملغوبے کے مباحث کا غلبہ ہے، اور غالباً یہ غلبہ ابھی کچھ دن اور رہے گا۔ سو، ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں کہ آج کا کالم اسی ملغوبے کے غلبے سے مغلوب ہوگیا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ 8 فروری 2024ء کو برپا ہونے والے اس انتخابِ اراکین کے بعد ملک بھر میں اس سوال کا غوغا مچ گیاکہ
’’کس نے کس کا انتخاب کیا؟ یعنی جو منتخب قرار دیے گئے ہیں ان کا انتخاب عوام نے کیا ہے یا خواص نے؟‘‘
یہ کیفیتِ غوغائی اس کالم کی لکھائی کے وقت بھی برقرار ہے۔ ’غلطی ہائے مضامین‘ کھوجنے کو جب ہم نے ذرائع ابلاغ پر نظر کی تو دیکھا کہ ہر طرف غُل بھی بپا ہے اور غپاڑا بھی۔ بہت سے لوگ ہُلّڑ مچا مچا کر اس انتخابی اونٹ کو مختلف سمتوں میں دوڑا رہے ہیں۔ اب دیکھیے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ بیٹھتا بھی ہے یا نہیں؟ فی الحال تو ’بے چارا‘ اونٹ گردن اُٹھائے چاروں کھونٹ بلبلاتا پھر رہا ہے کہ’’یااللہ ایسا انتخاب؟ یہ بھلا کیسا انتخاب؟‘‘ فقط وہ لوگ نہیں بلبلا رہے ہیں جو ساجھے کی اِس انتخابی ہنڈیا میں مل بانٹ کر حکومت بنا رہے ہیں۔ بس یہی لوگ ہیں جو اس قسم کے انتخاب پر بے حد خوش ہیں… انتخاب کرنے والوں سے… کہ
آپ نے مجھ کو انتخاب کیا
آپ کے انتخاب کے صدقے
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ’صدقے جاؤں‘ کی صدا لگانے والی پارٹیاں بھی فارم سینتالیس کے صدقے ملنے والی وفاقی حکومت قبول کرنے سے ڈرنے لگی ہیں۔ ہاتھ بڑھا بڑھا کر ہاتھ کھینچ رہی ہیں۔ گھونگھٹ اُٹھا لوں کہ گھونگھٹ گرالوں؟ …سیّاں جی کا کہنا میں مانوں کہ ٹالوں؟اُدھر اِن تمام مثبت انتخابی نتائج کا اہتمام کرنے والے چچا غالبؔ بھی الگ اپنا سر پکڑے بیٹھے ہیں:
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
’’شیروں‘‘ کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے
خیر، اب اُن شیر افگنوں سے کیا عرض کریں جو اسی میں خوش ہیں کہ ’بصد سامانِ رُسوائی سرِ بازار می رقصم‘۔ سوچیے تو سہی کہ بھلا ہم کیا کہیں؟ اپنے لیے رُسوائی اور رقصِ رُسوائی کا ’انتخاب‘ بھی تو اُنھوں نے خود ہی کیا ہے۔
عربی زبان میں’’نَخَبَ‘‘ کے معنی ہیں کھینچ کر نکالنا، چننا یا عمدہ حصہ لے لینا۔ اسی سے ’انتخاب‘ کا لفظ بنا ہے۔ اُردو میں ’انتخاب‘ کثیر المعانی ہوگیا ہے۔ لفظی مطلب تو پسند کرنا، چننا یا عمدہ حصہ نکال لینا ہی ہے، مگر اصطلاحی معنوں میں سیاست داخل ہوگئی ہے۔کثرتِ رائے سے کسی فرد کو عوام کا نمائندہ بنانا یا کسی خاص منصب کے لیے استصوابِ رائے سے کسی کو پسند کرلینا سیاست کی اصطلاح میں ’انتخاب‘ کہلاتا ہے۔ جمع اس کی ’انتخابات‘ ہے۔ اِنھیں معنوں میں بہت سی تراکیب بھی بنا لی گئی ہیں مثلاً انتخابی عمل، انتخابی مہم، انتخابی جلسہ، ناظمِ انتخاب، انتخابی نتائج، انتخابی عذرداری، منتخب نمائندہ اور ’پرچۂ انتخاب‘ جس کے لیے اب اُردو میں ووٹ کا مختصر نام اختیار کرکے معززین یعنی اشراف سے مطالبہ کیا جانے لگا ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ مگرووٹ کو عزت تو اُسی صورت میں مل سکتی ہے جب ووٹر کو عزت دی جائے۔ یہی بات ہم نے گزشتہ تین بار کی سرکارکے ایک رہنما کے گوش گزار کی تو بھڑک اُٹھے، کہنے لگے:
’’اگر میں ووٹر کو عزت نہ دیتا تو بھلا اِن ٹکے ٹکے کے لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے آتا؟‘‘
انتخاب کا ایک مطلب چھانٹنا یا چھانٹی کرنا بھی ہے۔گویا جن لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ خاصے چھٹے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اگرچہ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں، مگر ایک بات اور بتاتے چلیں کہ ایک ہی املا سے لکھے جانے والے الفاظ کے تلفظ میں زیرو زبر کے فرق سے بھی معنی میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک آسان سی پہچان یہ ہے کہ پانچ حرفی الفاظ میں اگر چوتھے حرف پر زیر ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’’کرنے والا‘‘۔ لیکن اگر چوتھے حرف پر زبر ڈال دیا جائے تو مطلب اُلٹ جاتا ہے ’’کیا ہوا‘‘ یا ’’کیا گیا‘‘۔ مثال کے طور پر منتظر کے ’ظ‘ پر زیر ہو تو اس کا مطلب ہوگا ’’انتظار کرنے والا‘‘۔ جب کہ ’ظ‘ پر زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہوگا ’’وہ جس کا انتظار کیا گیا‘‘ یا ’’وہ جس کا انتظار ہے‘‘۔ اقبالؔ کے اس مصرعے میں منتظر کے ’ظ‘ پر زبر ہی ہے ’’کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں‘‘۔
آج کی وفیات
مورخہ: ۲۳ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا احمد علی لاہوری ۔وفات۔1962
حبیب الرحمٰن ، حکیم ۔وفات۔1947
اخگررامپوری (سید نقی علی)۔وفات۔1912
شبیر احمد دہلوی اشرفی،مولانا ۔وفات۔1998
مختار بیگم ۔وفات۔1982
نصر اللہ خان ۔وفات۔2002
حکیم حبیب الرحمن۔وفات۔1947
مولانا قمرالحسن بھاگل پوری۔وفات۔2012
مولانا احمد علی لاہوری ۔وفات۔1962
شاہ سعود بن عبد العزیز آل سعود۔وفات۔1969
ڈاکٹڑسید اعجاز حسین۔وفات۔1975
محمد عبد الباقی۔وفات۔1968
نصر اللہ خان۔وفات۔2002
مرزا عزیز جاوید ۔وفات۔1984
منشی عبد الرحمن خان۔وفات۔1989
محمد اسد لیوپولڈ۔وفات۔1992
/channel/ilmokitab
مولانا ابوالکلام آزاد کا سفر آخرت - آغا شورش کاشمیری
مولانا آزاد (رحمۃ اللہ علیہ) محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے ، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متجر، ان لوگوں میں سے نہیں تھے ، جو اپنے لئے سوچتے ہیں ، وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے ، انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کیلئے جی رہے تھے ، ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا، وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے ، اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں ، ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا، انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گذارتے رہے ۔
آزادی کے بعد یہی سانچے دس سال کی مسافت میں ان کیلئے جان لیوا ہو گئے ، 12/فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہو گئے ہیں ، اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے ، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے ، پنڈت جواہر لال نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی، مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے ، ڈاکٹروں نے کہاکہ 48 گھنٹے گذرنے کے بعد وہ رائے دے سکتیں گے کہ مولاناخطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں ۔
ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تاثر عام ہو گیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا، مولانا کے بنگلہ میں ڈاکٹر راجندرپرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہرلال نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علماء کے علاوہ ہزا رہا انسان جمع ہو گئے ، سبھی پریشان تھے 19!فروری کو موت کا خدشہ یقینی ہو گیا۔
کسی کے حواس قائم نہ تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو رفقاء سمیت اشکبار چہرے سے پھر رہے تھے ، ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر تھا۔ ہندوستان بھر کی مختلف شخصیتیں آ چکی تھیں ۔
جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی۔ عشاء کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی، مولانا حفیظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا محمد میاں ؒ، مفتی عتیق الرحمنؒ، سید صبیح الحسنؒ، مولانا شاہد فاخریؒ اور بیسیوں علماء وحفاظ تلاوت کلام الہیٰ میں مشغول تھے ۔
آخر ایک بجے شب سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22/فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
(انا ﷲ وانا الیہ راجعون)
اس وقت بھی سینکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے ، جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا۔
دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے ۔ تمام ہندوستان میں سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دئیے گئے ، ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہو گئی، دہلی میں ہو کا عالم تھا حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی ایک ہی شخص تھا جس کیلئے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے ، بالفاظ دیگر مولانا تاریخ انسانی کے تنہا مسلمان تھے ، جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو موت کی خبر سنتے ہی دس منٹ میں پہنچ گئے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں "اچھا بھائی خدا حافظ "کہا تھا۔
ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیونکر 24 گھنٹے زندہ رہا۔
ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا "ڈاکٹر صاحب اﷲ پر چھوڑئیے " ۔ اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے ؟ اب معاملہ اﷲ کے سپرد ہے "۔
میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے ، ایک آدھ منٹ کیلئے ہوش میں آئے ، کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں ، پنڈت نہرو کے دو منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے ، آن واحد میں ہندوستانی کابنیہ کے شہ دماغ پہنچ گئے ، ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں ۔
مسٹر مہابیر تیاگی سراپا درد تھے ، ڈاکٹر رادھا کرشنن نے آبدیدہ ہو کر کہا :
"ہندوستان کا آخری مسلمان اٹھ گیا، وہ علم کے شہنشاہ تھے " ۔
کرشن مین سکتے میں تھے ، پنڈت پنٹ یاس کے عالم میں تھے ، مرار جی دیسائی بے حال تھے ، لال بہادر شاستری بلک رہے تھے ڈاکٹر ذا کرحسین کے حواس معطل تھے ۔ مولانا قاری طیب غم سے نڈھال تھے ، مولانا حفظ الرحمن کی حالت دیگر گوں تھی، ادھر زنانہ میں مولانا کی بہن آرزو بیگم تڑپ رہی تھیں ....
اب کوئی آرزو نہیں باقی
علم ونظر کا گوہر یکتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد(وفات ۲۲ فروری ۱۹۵۸ء)۔۔۔۔ شورش کشمیری https;//telegram.me/ilmokitab
Читать полностью…