ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: ۲۲ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جوشؔ ملیح آبادی۔وفات۔1982
حمید نظامی ۔وفات۔1962
مولانا ابوالکلام آزاد ۔وفات۔1958
قاضی عدیل عباسی۔وفات۔1980
امراؤ بخت، شہزادی ۔وفات۔1962
غلام احمد نظامی ۔وفات۔1951
گل حسن رضوی امروہوی ،سید ۔وفات۔1989
مظہر صدیقی (مظہر حسین )۔وفات۔2003
نواب حسن لکھنوی ۔وفات۔1990
مولانا قاری محمد ہشام ۔وفات۔2005
حکم حبیب الرحمن  ڈھاکہ۔وفات۔1947
یحیی اعظمی ، محمد یحیی۔وفات۔1972

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

خواجہ صاحب کی مولانا کوثر نیازی سے بڑی نوک جھونک چلتی تھی۔ مولانا کوثر نیازی اُس زمانے میں ’جنگ‘ میں کالم لکھنے لگے تھے ، جس کے ساتھ مولانا کی کوٹ اور ٹائی کے ساتھ تصویر چھپتی تھی۔اُس تصویر کا ’غریبِ شہر‘ نے اتنا ریکارڈ لگایاکہ اُن کا کالم چھپنے کے بعد مولانا نے اپنی تصویر بدلوا کر شیروانی پہنی ہوئی تصویر لگوادی۔
کرنل صدیق سالک کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’تادمِ تحریر‘ شائع ہوا تو اُس پر ضمیر جعفری مرحوم نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ سالک صاحب نے کرنل محمد خان کے اندازِ تحریر کی تقلید کی ہے‘‘۔
اس تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے ’غریب شہر‘ نے لکھا:
’’اُنھیں [ضمیر جعفری صاحب کو] معلوم ہونا چاہیے کہ کرنل محمد خان کااندازِ تحریر ناقابل تقلید ہے۔حتیٰ کہ وہ خود بھی اپنی دوسری کتاب [’بزم آرائیاں‘]میں اپنی پہلی کتاب [’بجنگ آمد‘] کے اندازِ تحریر کی تقلید نہ کرسکے‘‘۔
’ جسارت‘ اُس زمانے کا انتہائی مقبول اخبار تھا اور تما م بااثر حلقوں میں پڑھا جا تا تھا۔ مگر ’جسارت‘ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ اس میں ’تفریح‘ کے لیے کچھ نہیں۔’جسارت‘ فلمی اشتہارات شائع کرتا تھا نہ فلمی صفحہ نکالتا تھا، نہ فلمی اداکاروں اور اداکاروں کی ’جہازی سائز‘ رنگین تصاویر شایع کرتاتھا۔
اس اعتراض پر کوئی جوابی اعتراض کرنے کی بجائے اہلِ’جسارت‘ نے اس مسئلہ کا حل سوچا اور ایک ’ادبی صفحہ‘ کا آغاز کر دیا گیا۔ کراچی میں دیگر اخبارات کے ادبی صفحات اس کے بعد ہی شروع ہوئے۔ اس ادبی صفحہ پر بھی مشفق خواجہ صاحب نے ایک مزاحیہ کالم’سخن در سخن‘ کے عنوان سے شروع کیا اور اس کے لیے اپنا قلمی نام’ خامہ بگوش‘ اختیار کیا۔جو غالباً غالب کے اس شعر سے اخذ کیا گیا تھا کہ:
مگر لکھوائے کوئی اُس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
یہ کالم اور یہ نام اتنا مقبول ہوا کہ ہندوستان اور پاکستان کے ادبی حلقوں میں مشفق خواجہ کی شناخت بن گیا۔’جسارت‘ کا ادبی صفحہ یوں سمجھ لیجیے کہ دُنیا بھر کے اُردو خواں ادبی حلقوں میں اہتما م کے ساتھ پڑھا جانے لگا ۔ یہ صفحہ اُس وقت نکالتے بھی تو ڈاکٹر معین الدین عقیل تھے۔
’جسارت‘ کا ادبی صفحہ ملک بھر کے ادیبوں کا پسندیدہ صفحہ اور (کسی اور اخبار کے ایک سروے کے مطابق) ’خامہ بگوش‘ ملک بھر کے تمام کالم نگاروں کے پسندیدہ ترین کالم نگاربن گئے۔ بھارت کے بھی تمام ادیب اور کالم نگار اُن کے کالموں کے منتظر رہا کرتے تھے۔ اُن کے کالموں کا پہلا انتخاب بھی بھارت ہی سے شائع ہوا تھا۔خواجہ صاحب ایک فقرہ میں چومکھے وار کرتے تھے۔ مثلاً مرحوم جمیل اختر صاحب پر (اُن کی زندگی میں)لکھا ہوا اُن کا یہ فقرہ ملاحظہ فرمائیے:
’’ جمیل اختر صاحب ہر محفلِ ادب میں ایک ادیب کے طور پر بُلائے جاتے ہیں، مگر آج تک اُنھوں نے کوئی نظم کہی ،نہ غزل کہی، نہ افسانہ لکھا، نہ کسی اور صنفِ ادب میں خامہ فرسائی کی۔اُن کا یہ احسان اُردو ادب کی گردن پر ہمیشہ رہے گا، بشرطے کہ اُردو ادب کی گردن صہبااختر کی شاعری سے بچ رہی‘‘۔
اسی طرح جب سلیم احمد صاحب نے اپنے گھر ہونے والی ادبی نشستیں ختم کردی تھیں تو’خامہ بگوش‘ نے ایک فرضی مکالمہ تخلیق کیا:
’’ جب ہم نے سلیم احمد صاحب سے یہ نشستیں ختم کردینے کا سبب پوچھا تو اُنھوں نے کہا کہ میں ادب کی بے حرمتی ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس پر احمد ہمیش نے کہا کہ ہم تو دیکھ سکتے ہیں، یہاں نہیں تو کہیں اور جا کر دیکھیں گے‘‘۔
ٓ اُنھوں نے اپنے دوست منظر ؔ ایوبی کا ایک قصیدہ بھی لکھا تھا ، جو شروع تو یوں ہوتا تھا:
اے منظرِ ایوبی…اے پیکرِ محبوبی…اے شاعرِ صد خوبی…
مگراِسی طرح کی بہت سی تعریفوں کے بعد ختم اس شعر پر ہوتا تھا :
ناموسِ ادب لیکن
شعروں سے ترے ڈوبی
ایک محفل میں ہم نے منظر ایوبی صاحب کو یہ قصیدہ یاد دلایا تو جھینپتے ہوئے کہنے لگے:
’’ہاں بھئی، کیا کریں؟ ہمارے دوست ہیں‘‘۔
مشفق خواجہ صاحب ناظم آباد میں عباسی شہید اسپتال کے قریب ہی رہتے تھے اور اکثر غالب لائبریری میںبیٹھے تحقیق کر تے نظر آتے تھے۔ وہاں اُن سے ملاقاتیں زیادہ ہوتی تھیں۔ اُن سے سب سے زیادہ تفصیلی ملاقات محترم صلاح الدین صاحب کی بیٹی کی شادی میں ہوئی تھی۔ جس میں اُنھوں نے بسلسلۂ کالم نگاری ہمیں بہت سی مفید نصیحتیں کی تھیں۔
خواجہ صاحب نے ’خوش معرکۂ زیبا‘ سمیت بہت سی نایاب کتب ڈھونڈ نکالی تھیں اور شائع کروا دیں۔ برصغیر میں مخطوطات کا سب سے بڑا ذخیر ہ اُنھیں کے پاس تھا۔ اُن کی نجی لائبریری ملک کی چند بڑی نجی لائبریریوں میں شمار کی جاتی تھی۔ اس لائبریری پر بی بی سی نے ایک فیجربھی نشر کیا تھا۔
انتقال سے قبل وہ کئی ماہ صاحبِ فراش رہے۔ اُن کی اولاد کوئی نہیںتھی۔ اپنے زمانۂ علالت میں وہ اپنی بہن’بی بی آپا‘ کے گھر سی ویو اپارٹمنٹ منتقل ہوگئے تھے، اور اپنا کام رُک جانے پر قلق کا اظہار کرتے تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: ۲۱ ۔ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہارکوٹی (محمود الحسن خاں)۔وفات۔1971
شریر جعفری(لطیف احمد جعفری)۔وفات۔2002
عبدالرزاق یعقوب،حاجی ۔وفات۔2014
عمر فاروقی ۔وفات۔1991
مشفق خواجہ (خواجہ عبدالحئی)۔وفات۔2005
ڈاکٹر یوسف حسین خان۔وفات۔1979
یعقوب بخش راغب قادری بدایونی ۔وفات۔1948
سرتیج بہادر سپرو۔وفات۔1949
حافظ قاری محمد اختر ۔وفات۔2005
مشفق خواجہ ۔وفات۔2005
سر تیج بها در سپرو۔وفات۔1949
عبید اللہ احرار۔وفات۔1490
عطار محمد بندیالوی۔وفات۔1990

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سنو سنو!!

رمضان المبارک اور چندہ

(ناصرالدین مظاہری)

ملک کے طول وعرض میں ہی نہیں روئے زمین کے ایسے ایسے علاقوں میں مدارس کے اہلکار اور کارکنان پہنچنے والے ہیں جہاں شاید ابن بطوطہ بھی نہ پہنچا ہو حتی کہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ بھی نہ پہنچے ہوں۔ اس لئے میری اس گفتگو کا مخاطب دونوں ہیں مدارس والے بھی اور چندہ دہندگان بھی۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چندہ کو دھندہ بالکل نہ بنایا جائے، جتنی ضرورت ہو اتنا ہی چندہ کیا جائے، خواہ مخواہ کے اھداف اور پروجیکٹ بناکر یا غیر ضروری تعمیرات کے ذریعہ ہرگز اپنا شوق نہ پورا کریں، یہ چندہ کی رقم ہے یہ قوم کی امانت ہے، جہاں ضرورت نہیں ہے وہاں اس امانت کو خرچ کرکے آپ امین نہیں رہ سکتے ہیں۔ ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا، فضولیات میں بے تحاشا یہ امانتیں برباد ہو رہی ہیں، طبق پر طبق، فلک پر فلک تعمیر کرکے آپ اپنوں کے ہی نشانے پر نہیں آئیں گے بلکہ اپنے اور دین کے دشمنوں کی نظر میں بھی خارمغیلاں بن کر چبھیں گے، اسی طرح آپ کا مدرسہ کس معیار کا ہے اور چندہ کس معیار کا کررہے ہیں یہ بھی سوچنے کی بات ہے، بہت سے محصلین کے مدرسوں میں طلبہ ہی نہیں ہوتے اور چندہ کے لئے دس دس گھنٹے کی فلائٹ پکڑتے ہیں، شکل ایسی نورانی کہ سادہ مزاج دیندار شخص اس خضر صورت پر کلمہ پڑھنا شروع کردے لیکن اندرونی حالات اتنے خراب کہ الامان و الحفیظ۔

خدارا! خود پر رحم نہ کریں تو امت پر تو رحم کریں امت اب بھی بہت دیتی ہے، بڑے چھوٹے تمام مدارس امت کے ذریعہ ہی پرورش پارہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایک گاؤں میں کئی کئی مدارس کھڑے کردئے گئے، برادری کی بنیاد پر مدارس قائم ہوگئے، ہر اختلاف رائے ایک نئے مدرسہ کا سبب بن رہا ہے، ننھے ننھے مکاتب کے مہتمم صاحبان شاندار کاروں سے گھوم رہے ہیں، بار بار کاریں بدلی جارہی ہیں، مہمان خانے صاف وشفاف خوبصورت ٹائل، مثل فائیو اسٹار ہوٹل اور طلبہ کی رہائش گاہیں بالکل طویلہ، درسگاہوں میں صفائی ندارد، مطبخ میں بدبو، بیت الخلوں میں سڑاند اور مہتمم صاحبان کے بے داغ کلپ والے لباس، طلبہ کا کھانا نہایت غیرمعیاری اور مہتمم صاحبان کاناشتہ شاہانہ، کچی روٹیاں، کچے چاول، سستا گوشت طلبہ کے لئے اور ذمہ داران کے لئے مرغ ومسلم، سوچیں کیا یہی انصاف ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عید کے دن غریب بچوں کی کسمپرسی کا خیال کرکے رو پڑے اور کھانا نہیں کھایا اور ہماری حالت اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ طالب علموں کا درد ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا۔

بعض مدارس میں جانا ہوا دال اتنی پتلی کہ برتن کی زمین دکھائی دے رہی تھی ، چاول میں بے شمار کالے گھن نظر آرہے تھے، روٹیاں بھی یا تو کچی یا جلی ہوئی تھیں اور خرچ سالانہ بتایا گیا کہ چالیس لاکھ روپے ہے۔ میں نے کہا یہ کھانا تو دس روپے خوارک بھی نہیں ہوسکتا ہے اتنے پیسے کہاں خرچ ہورہے ہیں؟

بہت سے مدارس کے اہداف دیکھیں تو ہنسی آتی ہے یعنی جن گاؤں میں ضرورت کی کوئی چیز نہیں مل سکتی، بچے نہیں جاسکتے،مہمان نہیں پہنچ سکتے وہاں اتنی بڑی بڑی تعمیرات موجود ہیں کہ سوائے افسوس کے کوئی چارہ نہیں ہے۔

چندہ زیادہ حاصل کر لینا کمال نہیں ہے چندہ کو صحیح جگہ لگانا کمال ہے، یہ وہ نگری ہے جہاں اچھے اچھوں کے تقدس اور تقوی کے جنازے نکلتے میں نے دیکھے ہیں۔

مدرسہ کا مال مال وقت ہے پوری قوم کو آپ جواب دہ ہیں، کل قیامت میں ہر چندہ دہندہ آپ کا دامن گھسیٹ سکتا ہے۔
اس لئے ضرورت سے زیادہ نہ لیں، جہاں ضرورت زیادہ ہو وہاں چندہ کے لئے نہ جائیں، فقہ کا ایک اصول ہے کہ زکوۃ صدقات کا مستحق پہلے وہیں کا علاقہ ہے اسلئے پہلے اپنے علاقہ کی طرف توجہ دینے دیں، آن لائن چندہ میں اب ٹھگی بہت ہورہی ہے ہرگز اپنے اکاؤنٹ کا اوٹی پی نہ بتائیں، نئے زمانے میں نئے نئے فراڈ چل رہے ہیں اس لئے ہوشیار رہیں۔

جھوٹ بول کر چندہ حاصل کرنا آسان ہے لیکن آپ نہ یہاں ہضم کرسکیں گے نہ وہاں ہضم ہوسکے گا۔ قوم کی سادگی کا فائدہ مت اٹھائیں اپنے وقار کا پاس و لحاظ رکھیں۔
چندہ دینے والے حضرات تعلقات کی بنیاد پر چندہ نہ دیں خوب تحقیق کرلیں یقین کامل کے بعد ہی چندہ دیں، بہت سے شاطر افراد اپنی وجیہ و پرکشش نورانی شکل سے خوب دھوکہ دیتے ہیں ایسے دھوکے بازوں سے بچئے، تحقیق کا جو بھی ذریعہ آپ اختیار کریں آپ کا حق بھی ہے فرض بھی ہے قرض بھی ہے۔

(نو شعبان المعظم چودہ سو پینتالیس ھجری)

Читать полностью…

علم و کتاب

مرحوم علوم دینیہ کے علاوہ زمانۂ حال کے حالات و خیالات سے بھی پوری باخبر تھے جس کا ثبوت ان کے وہ مختلف خطبات ہیں جو انہوں نے مختلف مجلسوں میں پڑھے ان کا جمعیۃ العلماء کا خطبۂ صدارت ان کی سیاسی بصیرت کا آئینہ ہے، چند سال ہوئے جامعہ ملیہ دہلی میں اسلام کے سیاسی و معاشی اور دوسرے عصری مشکلات پر جو خطبہ ارشاد فرمایا اہل بصیرت نے اس کی بے حد قدر کی ان کی زندگی کا سب سے آخری کارنامہ ابھی چند ماہ ہوئے مشرقی بنگال کے ایک مذہبی و تبلیغی جلسہ میں ان کا حکیمانہ خطبہ ہے، جس میں پاکستان کی سیاسی حیثیت اور سیاسی مجبوریوں کی بناء پر اصول خلافت کی بنیاد پر حکومت کی تاسیس کی معذوریوں کا بیان تھا، یہ خطبہ بھی ان کی سیاسی فہم و تدبر کا نمونہ ہے۔
مرحوم ایک ممتاز طبیب، ایک مشہور عالم، ایک خوش بیان خطیب اور ایک مفکر ہونے کے ساتھ مصنف بھی تھے، چنانچہ ان کی تصنیفات میں سب سے اہم کتاب ’’اصح السیر‘‘ ہے، جو افسوس ہے کہ ان کی وفات سے ناتمام رہی۔
مولانا اونچا سنتے تھے، اس لئے ہمیشہ ایک آلہ ساتھ رکھتے تھے، جس کو لگاکر دوسروں کی بات سنتے تھے، تاہم ان سے ملنے جلنے والوں کا بڑا حلقہ تھا، اور کلکتہ میں ان کو بڑی اہمیت حاصل تھی، اہل علم اور اہل سیاست دونوں میں ان کا خیرمقدم تھا، وہ متواضع، سادہ مزاج اور خلیق تھے۔ چھوٹے بڑے سب سے یکساں ملتے تھے۔
مرحوم کی عمر اس وقت ۷۴ سال کی تھی، جس کے معنی یہ ہیں کہ ۱۸۷۴ء؁ میں ان کی ولادت ہوئی ہوگی، ۱۹؍ فروری ۱۹۴۸ء؁ کی صبح کو جمعرات کے دن ۸ بجے کے قریب ان کی علالت کی ابتداء ہوئی، فرمایا کہ بخار معلوم ہوتا ہے، تھوری دیر کے بعد جاڑا معلوم ہوا، دن بھر کچھ بخار رہا، مغرب کی نماز تک کوئی خاص بات نہ تھی، ساڑھے سات بجے شام سے حالت بگڑی، یہاں تک کہ رات کو ایک بجے داعی اجل کو لبیک کہا، مرحوم کی وفات سے کلکتہ کی سرزمین علم و عرفان کے نور سے محروم ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی قبر کو روشن کرے۔ (’’س‘‘، مئی ۱۹۴۸ء)

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: 20 فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبیر رضوی۔وفات۔2016
محمد اسد ( سابق لیوپولڈ ولیس)۔وفات۔1992
ارشد جمیل، پروفیسرسید ۔وفات۔2013
حسن عسکری،سید ۔وفات۔1969
شفیق احمد عباسی،مولوی ۔وفات۔1974
کریم بخش چشتی صابری، صوفی ۔وفات۔1988
نجم الہدیٰ گیلانی پروفیسرسید ۔وفات۔1985
وہاب صدیقی ۔وفات۔1993
مولاناسید محمد اسماعیل کٹکی۔وفات۔2005
مولانا عزیز النبی خاں ۔وفات۔2013
بشیر حیدرآبادی، بشیر النساء بیگم۔وفات۔1972
مولانا سید محمد اسماعیل کٹکی۔وفات۔2005
مولانا محمد اسماعیل سلفی۔وفات۔1968

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*موافقة المبتدعة في الأمر المباح*

. وعلل بعضهم بأن فيها موافقة الرافضة ، فكان تركه أولى تحقيقاً للمخالفة ۔
وهو أيضاً ظاهر البطلان من وجوه :
أما أولاً : فلأن عامتهم - على ما نشاهدهم في هذا الزمن - لا يشيرون أصلاً ، وإنما يشيرون بأيديهم عند السلام ، ويضربون على أفخاذهم تأسفاً على فوت الإسلام . فينقلب التعليل عليهم حجة لنا.
وأما ثانياً : فلأنه - على تقدير صحة النسبة إليهم - فما كل ما يفعلونه نحن مأمورون بمخالفتهم ، حتى يشمل أفعالهم الموافقة للسنة ، كالأكل باليمين ونحو ذلك . بل المستحب : ترك بعض موافقتهم فيما ابتدعوه وصار شعاراً لهم - كما هو مقرر في المذهب - كوضع الحجر فوق السجادة ، فإنه وإن كانت السجدة على جنس الأرض أفضل ، باتفاق الأئمة - مع جوازها على البساط والفروونحوهما عند أهل السنة - لكن وضع نحو الحجر والمدر بدعة ابتدعوها ، وصار علامة لمعشرهم ، فينبغي الاجتناب لفعلهم ؛ لسببين : أحدهما : نفس موافقتهم في البدعة ، كما ورد في الحديث : «خالفوا اليهود والنصاری .
وثانيهما : رفع التهمة . وقد ورد : «اتقوا مواضع التهم». ونظيره : الوقوف للدعاء في المستجار ، فإنه صار من ذلك الشعار ، وكذا : الخروج من مكة إلى «يَلَمْلَم » للإحرام خارج الحرم ، مع الاتفاق على جواز ما ذكر عند أرباب العلم وأصحاب الحكم ، بخلاف ما إذا شاركونا في سنة مشتهرة كالخروج إلى إحرام العمرة إلى التنعيم والجعرانة .
والحاصل : *أن موافقة المبتدعة في الأمر المباح [لا ] يستحسن؛ زجراً لهم ورجوعاً إلى الصلاح*.

(( تزيين العبارة لتحسين الإشارة... للعلامة المحدث الفقيه ملا علي بن سلطان محمد القاري. الصفحة رقم: 57)
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

”کلیات قیصر“پر ایک نظر
معصوم مرادآبادی
برسوں پہلے کسی گلوکارکی گائی ہوئی ایک غزل سنی تھی۔یوں تو اس کے تمام ہی اشعار بہت دلکش تھے، لیکن پہلا شعر بڑا معنی خیز تھا۔یہ ہماری نوجوانی کا دورتھا۔ اس دورمیں شاعر اور گلوکار سے زیادہ شعروں سے سروکار ہوتا تھا، اس لیے یہ جانے بغیر کہ شعر کس کا ہے اور کس نے اپنی خوبصورت آواز میں اسے گایا ہے، ہم اسے گنگنانے لگے ؎
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہوجائیں گے ایسا لگتا ہے
بعد کوجب ہم شعور کی منزلوں تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ شعر قیصر الجعفری کاہے، جو بمبئی میں رہتے ہیں اور ان کا شمارہمارے عہد کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔اسی دور میں بشیر بدر کا بھی ایک شعر گردش میں تھا ؎
تم مجھے چھوڑ کے جاؤگے تو مرجاؤں گا
یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کردو
عشق میں پاگل ہونے اور خود کو برباد کرنے کی آرزو کتنی شدید ہوتی ہے‘یہ کسی عاشق اور شاعرسے بہترکون جان سکتاہے۔ اسی دور میں والی آسی نے کہا تھا ؎
توُ اگر عشق میں برباد نہیں ہوسکتا
جاتجھے کوئی سبق یاد نہیں ہوسکتا
آج جب قیصر الجعفری کی کلیات میرے ہاتھ آئی ہے تو ذہن میں ان کی برسوں پرانی وہی غزل اور اس کا پہلاشعر گونج رہا ہے۔قیصر الجعفری ہمارے عہد کے ایک معتبراورممتاز شاعر تھے۔ اس کے ساتھ وہ ایک محنت کش اور بہترین انسان بھی تھے۔انھوں نے ریلوے میں ملازمت کی اور پوری عمر رزق حلال کی جستجواور یافت میں گزاری، جس کی پاکیزگی ان کے اشعار میں بھی نظر آتی ہے۔ان کی شعر گوئی کاہنر اپنے ہم عصروں میں شاید سب سے زیادہ منفردتھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی مقبولیت کے لیے بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیا۔ قیصر الجعفری کے جدید انداز تکلم اور ان کے شعور کی گہرائی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انجم فوقی بدایونی لکھتے ہیں:
”اس میں کوئی شک نہیں کہ قیصر الجعفری کے شعر کا جدید انداز، ان کے شعور کی گہرائی، فکر کی ہلکی ہلکی تپش‘ روایت کے خوبصورت ورثہ میں نئے لہجے کی آمیزش، لفظوں کی سادگی، خیال وکیفیت کی فنکارانہ شعرتراشی اور سب سے بڑھ کر ان کے جسم وجاں میں چھپے ہوئے غم کی ایسی آفاقی خلش جو اہل دل کے چہروں پر موج انبساط وروح پرور آنسوؤں کی تراوش کا سبب بن جائے، یقینا قابل ذکر بھی ہے، لائق ستائش بھی۔“(کلیات قیصر)
557 صفحات پر پھیلی ہوئی ”کلیات قیصر“ میں ان کے تین مجموعوں ”رنگ حنا“(1964) ”سنگ آشنا“ (1977)”دشت بے تمنا“(1987)اور ”اگر دریا ملا ہوتا“(2005)کے علاوہ ان کی نظمیں اور کچھ غیرمطبوعہ کلام شامل ہے۔ا س کو مرتب کرنے کی ذمہ داری ان کے لائق فرزند برادرم عرفان جعفری نے نہایت سلیقے اور ذمہ داری سے نبھائی ہے۔ عرفان جعفری ازخود ایک اچھے شاعر اور نفیس انسان ہیں۔ میں نے انھیں اب سے کوئی18 برس پہلے مقدس سرزمین سعودی عرب میں دریافت کیا تھا۔ موقع تھاجدہ میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کا اس موقع پر انڈین کونسلیٹ کا سالانہ مشاعرہ بھی تھا۔ عرفان جعفری مشاعرے میں مدعو تھے اور وہیں ان سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کا کلام بھی سنا۔یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ انھوں نے اپنے والد کی کلیات شائع کی۔ اس کا خواب تو خود قیصرالجعفری مرحوم نے دیکھا تھا، لیکن اس کو تعبیر عطا کرنے کا کام عرفان جعفری کے حصہ میں آیا۔یہ ان کی خوش بختی ہے۔یوں تو قیصرالجعفری کے تمام ہی مجموعے قابل قدر ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ1977 میں شائع ہونے والے مجموعہ کلام ”سنگ آشنا“ نے انھیں مقبول شاعروں کی صف میں کھڑا کیا۔ اس مجموعہ کی تمام ہی غزلیں ہٹ ہوئیں اور سب سے زیادہ مقبولیت ان کی اس غزل کو ہی ملی۔
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانہ لگے
میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے
اس غزل نے قیصر الجعفری کے شاعرانہ مزاج کو دور دور تک پہنچایا۔یہ غزل یوں تو پہلے بھی معروف تھی، لیکن استاد رئیس خاں نے اسے اپنی خوبصورت آواز میں گاکر شاعری کے دلدادہ لوگوں کو قیصر الجعفری کا گرویدہ بنادیا۔
قیصر الجعفری کی پیدائش سنگم کی سرزمین الہ آباد میں 14/ستمبر1926کو ہوئی تھی اور انھوں نے 5/اکتوبر 2005کو کوسہ ممبرا میں وفات پائی۔انھوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے تجربات کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے۔وہ زندگی کے مسائل سے نبرد آزماتو نظر آتے ہیں، لیکن اس کے آگے سپر نہیں ڈالتے۔ان کے اندرون میں جو تلاطم برپا تھا، اسے انھوں نے زبان عطا کی
یاروں کو کیا ملا میرا چہرہ کرید کر
جو زخم تھا وہ روح کی گہرائیوں میں تھا
ان کے ہاں ضبط غم کی ایک عجیب کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ اپنے غم کو شعری لباس تو عطا کرتے ہیں، لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ وہ صحیح معنوں میں غزل بن جاتی ہے
یہ محبت ہے ذرا سوچ سمجھ کررونا

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: ۱۸فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن الحسن (محمد ابن الحسن سید )۔وفات۔1994
جمیل اختر خان، پروفیسر ۔وفات۔2000
چودھری سبط محمد نقوی۔وفات۔2005
حیات اللہ انصاری ۔وفات۔1999
شمس الدین احمد منیری .۔وفات۔1975
قمر بریلوی (محمد آفاق حسین صدیقی )۔وفات۔2000
محمد حسین نیلوی۔وفات۔2006
مشاہد اللہ خان۔وفات۔2021
مولانا عبد الرزاق کانپوری۔وفات۔1948
مولانا معین الدین اجمیری۔وفات۔1940

/channel/ilmokiab

Читать полностью…

علم و کتاب

جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( 10) تخصص سے ہٹ کر کوئی بات نہ بتائی جائے
تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم

یہ کچھ پچھیں تیس سال پہلے کی بات ہے۔ مکہ مکرمہ میں پاکستان کی ایک انجینئرنگ کمپنی تھی۔ وہاں ہمارے ایک دوست ملازم تھے، ایک دن وہ مجھے اپنے دفتر لے گئے اور اپنے ساتھیوں سے میرا تعارف کرایا، ان کے ساتھیوں میں سے ایک خلیل صاحب تھے جو
انجینئر تھے، ان سے میری دوستی ہو گئی۔ میں جب بھی مکہ مکرمہ جاتا ان سے ضرور ملتا۔ ایک بار میں ان کے دفتر گیا۔ دفتر کا وقت قریب الختم تھا۔ وقت ختم ہونے کے بعد وہ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ وہاں مختلف موضوعات پر باتیں ہونے لگیں۔ گفتگو میں لفظ magazine کا ذکر ہوا۔ میں نے خلیل صاحب سے کہا: اس لفظ میں بہت ساری دلچسپ باتیں پوشیدہ ہیں۔ یہ لفظ عربی سے یورپین زبانوں میں آیا ہے۔ اس کی اصل ہے"مخازن" جو مخزن کی جمع ہے۔ پہلے پہل یہ گودام کے معنوں میں بولا جاتا تھا، پھر اس کا اطلاق بہت ساری ایسی جگہوں پر ہونے لگا جہاں چیزیں جمع کی جاتی ہیں۔ اس بنا پر رسالے کو انگریزی میں magazine کہا جانے لگا کیونکہ اس میں مہینے بھر کی خبروں کو جمع کر کے ایک ساتھ شائع کر دیا جاتا ہے۔ فریج میں یہی عربی لفظ magasin بن گیا جو بمعنی دکان ہے۔
میری ان باتوں کو خلیل صاحب مسکراتے ہوئے سن رہے تھے۔ انہوں نے ان باتوں پر نہ تعجب کا اظہار کیا، نہ کسی قسم کا رد عمل ان پر ظاہر ہوا۔ وہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے: مولانا! اجازت ہو تو ایک بات کہوں۔ میں نے کہا: ہاں بتائیے۔ انہوں نے کہا: مولانا گستاخی معاف۔ آپ کا تخصص شرعی علوم ہے۔ اس فیلڈ میں جو بات بھی آپ بتائیں گے وہ سر آنکھوں پر ہو گی۔ لیکن انگریزی کے بارے میں اس قسم کی باتیں نہ بتائیں تو بہتر
ہو گا۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ لوگ آپ کا مذاق اڑانے لگیں گے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا: آپ کی بات بالکل صحیح ہے، آدمی کو اپنے تخصص سے ہٹ کر کوئی بات نہیں بتانی چاہیے۔
اس گفتگو کے بعد تھوڑی دیر تک ہمارے درمیان خاموشی طاری رہی۔ پھر وہ اٹھ کر ایک کمرے میں چلے گئے۔ پندرہ بیس منٹ بعد وہ واپس آئے۔ وہ ایک ضخیم ڈکشنری لیے ہوئے تھے ، اور اس کا ایک صفحہ کھلا ہوا تھا۔ وہ اس وقت بہت excited تھے۔ کہنے لگے: مولانا میں معافی چاہتا ہوں، magazine کے بارے میں جو باتیں آپ نے بتائیں Oxford Dictionary میں وہی باتیں من و عن لکھی ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے آپ کا تخصص انگریزی زبان ہے۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: ۱۷ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد مرزا جمیل (مرزا حمد جمیل )۔وفات۔2014
شبنم رومانی (مرزا عظیم احمد بیگ چغتائی)۔وفات۔2009
عبدالمجید دہلوی۔وفات۔1994
معراج حسن عامر ۔وفات۔1999
نازش حیدری دہلوی (محمد خورشید حسن) ۔وفات۔1984
الحاج محمد اجمل علی آسامی ۔وفات۔2009
انور، ڈاکٹر منوہر سہائے۔وفات۔1974
شبنم رومانی۔وفات۔2009

https://telegrm.me/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

رباعیات عمر خیام ( منظوم ترجمہ از آغا شاعر قزلباش) مع مختصر تشریح

ڈاکٹر اصغر کمال

رباعی نمبر۔۔۔۔۔۔16

خارے کہ بزیر پائے ہر حیوانے است
زلف صنمے و ابروئے جانانے است

ہر خشت کہ بر کنگرہء ایوانے است
انگشت وزیرے و سر سلطانے است

آغا شاعر :

جو خار بزیر قدم حیواں ہے
وہ زلف صنم ہے ابروئے جاناں ہے

ہر اینٹ جو ہے قصر کے کنگورے پر
انگلی ہے وزیر کی سر سلطاں ہے

عمر خیام فرماتے ہیں کہ مٹی سے تخلیق دیا گیا انسان لقمہ اجل بننے کے بعد پیوند خاک ہوجاتا ہے گویا کہ واپس مٹی کا حصہ بنادیا جاتا ہے ،
یوں پیروں میں چبھنے والا کاںٹا ممکن ہے محبوب کے گیسوئے دراز یا ابروئے آب دار کا ٹکڑا ہو ، یوں یہ بھی ممکن ہے کہ قصر سلطانی کے گنبد پر بننے والے کنگورے کسی وزیر کی انگلی یا کسی بادشاہ کے سر سے بننے والی مٹی کا حصہ ہو

عمرخیام کے اشعار کی تفہیم کے سلسلہ میں غالب کا شعر بھی پیش کیا جا سکتا ہے ،

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

Читать полностью…

علم و کتاب

نام ہی کیوں نہ ہو۔ایک اردو اخبار میں جو اکثر ہندی خبروں کو گوگل کی مدد سے ترجمہ کرکے شائع کرتا ہے، اس میں مشہور وکیل ’پرشانت بھوشن کانام ’بحرالکاہل بھوشن‘شائع ہوا تھا۔ ہندی لفظ ’پرشانت‘ کو اردو میں بحرالکاہل ہی کہتے ہیں۔مشینی ترجمہ کو درست کرنے میں بھی کافی مشقت کرنی پڑتی ہے، لیکن اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔اسے درست کئے بغیر شائع کرنا زبان کے ساتھ کھلواڑ کرناہے۔اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن یہاں ایک چاول دیکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔آج کل اخبارات میں ’رہائشی‘کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے جو’باشندے‘ کی جگہ استعمال ہورہا ہے۔ ہندی میں اس لفظ کا بہت چلن ہے، لیکن اردو میں یہ مہمل معلوم ہوتا ہے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شمالی ہندوستان میں اردو اخبارات کے بیشتر نمائندے ایسے ہیں جو اردو زبان سے ناواقف ہیں۔ وہ اپنی خبریں ہندی میں بھیجتے ہیں، جنھیں گوگل کی مدد سے ترجمہ کرکے شائع کردیا جاتا ہے۔یہ کام بھی سب ایڈیٹر کی بجائے آپریٹر انجام دیتے ہیں اور وہیں سے ساری خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
گزشتہ زمانے میں اردو والے تحریرمیں ہی نہیں بول چال کی زبان پر بھی خاص توجہ دیتے تھے۔ اس کا ثبوت ایک واقعہ سے ملتا ہے جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ کوئی35 برس پہلے کی بات ہے۔ اردو گھر میں ایک تقریب کے دوران کسی نے کہا کہ ”میں نے اس کو بولا تھا۔“ یہ سن پروفیسر نثار احمد فاروقی بگڑ گئے”یہ بولا تھا کیا ہوتا ہے۔انسان تو کچھ کہتا ہے۔ بولنے کا کام تو چرند پرنداور مویشیوں کا ہے۔کیونکہ انسان کی گفتگو کا کوئی معنی ومفہوم ہوتا ہے جبکہ مویشی اور پرندوں کے بولنے کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔“آج ہمارے ارد گرد کتنے لوگ ہیں جو زبان کی صحت پر اس درجہ دھیان دیتے ہوں۔ پچھلے زمانے میں یہ لوگ تحریر ہی نہیں بلکہ بول چال میں بھی زبان کی صحت پر پوری توجہ دیتے تھے۔ضرورت اس بات کی ہے ہمیں اچھی اور سچی زبان سیکھنے پر سب سے زیادہ محنت کرنی چاہئے کیونکہ زبان ہی ہمارا پہلا تعارف ہوتی ہے اور لوگ اسی کے ہماری علمی استعداد کا تعین کرتے ہیں۔بقول کلیم عاجز
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
(جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے شعبہ اردو میں 15/فروری 2024کو پیش کیا گیا توسیعی خطبہ)

Читать полностью…

علم و کتاب

ادب وصحافت میں زبان کی اہمیت
معصوم مرادآبادی
زبان بنیادی طورپر خیالات کی ترسیل اور مکالمہ قایم کرنے کا ذریعہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک تہذیبی اور سماجی ضرورت بھی ہے۔زبان کا تعلق صوتیات، عمرانیات، طبعیات، تاریخ اور جغرافیہ جیسے علوم سے ہے۔زبان ہی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیز کرتی ہے۔زبان سے ہی انسان کی علمی، اخلاقی اور تہذیبی شناخت کا تعین ہوتا ہے۔جو کچھ ہمارے دل ودماغ میں جنم لیتا ہے، اسے ہم زبان کے ذریعہ ہی دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔اگر ہمارے پاس ایک مرصع اور مربوط زبان نہیں ہوگی تو ہم اپنے مخاطب کو متاثر نہیں کرپائیں گے۔ اسی طرح اگر ہم اچھی اور سچی زبان لکھنے پر قادر نہیں ہیں تو ہماری تحریریں دیرپا اثر قایم نہیں کرپائیں گی۔ماضی میں ان ہی ادیبوں اور صحافیوں نے مقبولیت حاصل کی ہے، جو زبا ن وبیان پر قدرت رکھتے تھے یا جنھیں لکھنے کا ہنرمعلوم تھا۔موجودہ عہد کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہمارے اندر مطالعہ کا ذوق نہیں ہے۔عام طورپرمطالعہ کے بغیر لوگ لکھنے کی مشق کرنے لگتے ہیں، جبکہ گہرے مطالعہ اور مشاہدے کے بغیر تحریر میں حسن اور دلچسپی پیدا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ایک مضمون لکھنے کے لیے کئی کئی کتابیں اور ایک کالم لکھنے کے لیے درجنوں اخبارات کے مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ جتنا زیادہ مطالعہ کریں گے، اتنا ہی آپ کی تحریر میں روانی، سلاست اور خوبصورتی پیدا ہوگی۔ الفاظ کے استعمال اور ان کی نشست وبرخاست کا سلیقہ آئے گا۔
ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ الفاظ موتیوں کی طرح ہوتے ہیں، ان کا استعمال بہت کفایت کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اسی کو کفایت لفظی بھی کہا جاتاہے۔ اس ہنر کو سمجھنا ہوتو آپ گزرے زمانے کے صحافیوں کی تحریریں پڑھیں۔ کم الفاظ میں زیادہ بات کہنے کا ہنر صرف صحافی ہی جانتے ہیں۔حالانکہ یہ ہنر ایک مجبوری کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے، لیکن صحافیوں نے اس میں کمال حاصل کیا ہے۔ صحافیوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس جگہ اور وقت دونوں کی کمی ہوتی ہے۔اسی محدود وقت اور جگہ میں اپنے فن کا جادو جگانا ہوتاہے۔اسی لیے صحافت کو عجلت میں لکھا ہوا ادب بھی کہا جاتا ہے۔ماہرین فن کے مطابق زبان کے تنوع سے قطع نظر صحافت کی لغت عموماً پانچ سو الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ معاملہ خبر نویسی کا ہے۔لیکن جب آپ اخبار کے ادارتی صفحے تک پہنچتے ہیں تو صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔ اداریہ اخبار کا ضمیر ہوتا ہے، جو اشاعت کے بعد قوم کا ضمیر بن جایا کرتا ہے۔
میرے ایک استاد جن سے میں نے انگریزی زبان کے اسرارورموزسیکھے، کہا کرتے تھے کہ”اچھی انگریزی جاننے کا سب سے موثر ذریعہ انگریزی اخبارات کا اداریہ ہوتا ہے۔“اداریہ کا حجم اخبار میں سب سے کم ہوتا ہے اور اسی کے اندر فکرونظر کے پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ بات اردو اخبارات کے اداریوں پر بھی نافذ ہوتی ہے۔اردو اخبارات کے ان ہی ایڈیٹرس کو نیک نامی اور شہرت حاصل ہوئی جنھوں نے ایسے فکر انگیز ادارئیے لکھے، جو آج صحافت ہی نہیں بلکہ ادب کا بھی سرمایہ ہیں۔ اردو نثر کے بہت سے مراحل اخبارات کی خاموش خدمت کے وسیلے سے طے ہوئے۔ پروفیسر تنویر احمد علوی کے بقول:
”اردو اخبارات کا مطالعہ، اس کی زبان کی تہذیبی اہمیت کو سمجھنے اور اس کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے لیے غیرمعمولی ہے۔اردو نثر کے مراحل تمام تر نہیں تو بہت کچھ اخبارات کی خاموش خدمت کے وسیلے سے طے ہوئے ہیں۔“(مقدمہ ”روح صحافت“ ص،ج)
بلا شبہ اخبارات اور صحافیوں نے ادب کی بہت خدمت کی ہے۔مگرآج صورتحال بدل گئی ہے۔ نہ ویسے ایڈیٹر ہیں اور نہ اخبارات۔ قارئین کا مزاج بھی تبدیل ہو گیا ہے۔تیزرفتار زندگی نے سب کچھ بدل کررکھ دیا ہے۔آج کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ادیب اور صحافی دونوں بے قرار ہیں۔ وہ کم لکھ کر زیادہ شہرت اور دولت کمانے کے پھیر میں پڑگئے ہیں۔ اسی دوڑدھوپ کا نتیجہ ہے کہ صحافت اور ادب دونوں ہی جگہ زبان کا زوال ہورہا ہے۔ آج اخبارات میں ایسے ایڈیٹرس جگہ پانے لگے ہیں جو لکھنے پڑھنے کے علاوہ سب کچھ جانتے ہیں۔ دراصل آج اخبار کو کامیاب بنانے کے لیے اضافی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گزرے زمانے میں لکھنے کی صلاحیت ہی سب سے بڑا ہنر سمجھی جاتی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے اسی دہلی شہر میں ایک ایسا اخبار نکلا تھا جس کا ایڈیٹر اخبارنویسی کے علاوہ سب کچھ جانتا تھا۔ جس کارپوریٹ کمپنی نے وہ اخبار نکالا تھا، اسے صحافیوں سے زیادہ تگڑم بازوں کی ضرورت تھی۔نیم خواندہ قارئین میں اس اخبار کی مقبولیت کا راز جذباتی تحریریں تھیں جن پر تقریروں کا گمان ہوتا تھا۔ آج اس صحافی کا کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جوڑ توڑاور تگڑم کے سہارے کوئی کچھ دن تو زندہ رہ سکتا ہے، لیکن آخرکار اسے بے سہارا ہی ہونا پڑتا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

ایک دلچسپ غلطی پندرہ روزہ نُشور جیسے علمی و ادبی رسالے میں نظر آئی۔ یہ رسالہ تحریک اسلامی کا ترجمان ہے۔ یکم تا 31 جنوری کے شمارے میں (پندرہ روزہ ہوتے ہوئے) کراچی میں سالانہ اجتماع عام کی روداد شائع ہوئی ہے۔ اس میں صفحہ 27 پر ایک جملہ ہے ’’اجتماع کے لیے 21 دسمبر 2014ء بروز اتوار کا دن اور تاریخ طے ہوئی۔ دن تو کمپوزنگ کی غلطی سے دین ہوگیا لیکن یہ ’’بروز اتوار کا دن‘‘ کیا ہے؟ یہ محض نشور کی غلطی نہیں بلکہ اکثر ’بروز‘ کے ساتھ دن سننے میں آتا ہے۔ ایک شادی کارڈ پر بھی ایسا لکھا ہوا دیکھا کہ ’’بروز جمعہ کے دن آپ کی آمد کے منتظر‘‘۔ اور پھر مذکورہ جملے میں جب 21 دسمبر کا دن طے ہوگیا تھا تو پھر کس بات کی تاریخ طے کی جارہی تھی؟ یعنی ایک ہی جملے میں دو غلطیاں۔ یہ کمپوزنگ کی نہیں بلکہ زبان و بیان کی غلطیاں ہیں اور ان کی نشاندہی اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے بچے (یا بیٹے!) ان غلطیوں سے اجتناب کریں۔ اسی رسالے میں ’’مومن کی معیشت‘‘ نامی بڑے اہم مضمون میں ’’رقص و سرور‘‘ موجود ہے۔ آخر ’’سرود‘‘ لکھنے میں کیا پریشانی ہے؟ دینی علمی مضامین لکھنے والوں کو زبان پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ کسی کو بتائو کہ رقص و سرور صحیح نہیں، رقص و سرود ہے تو وہ حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ یہ سرود کیا چیز ہے؟
انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیراہتمام ماہنامہ ’قومی زبان‘ کا جنوری 2015ء کا شمارہ سامنے ہے۔ اس کی لوح پر بھی وہی غلطی چسپاں ہے جو ہم سے سرزد ہوئی تھی یعنی ’’بانی: بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق‘‘۔ بابائے لکھنے پر منظر عباسی نے صحیح پکڑ کی تھی کہ ’’ے‘‘ پر ہمزہ نہیں آئے گی۔ لیکن قومی زبان کے نام سے اردو کو فروغ دینے والے اس ماہنامے میں باے کے اوپر ہمزہ موجود ہے جب کہ انجمن ترقی اردو کا شعبہ تحقیق و تالیف و تصنیف بھی ہے اور سرپرستی ادا جعفری اور جمیل الدین عالی کررہے ہیں۔ زیرنظر شمارے کے مہمان مدیر پروفیسر سحر انصاری ہیں، لیکن وہ تو مہمان ہیں، مہمانوں کو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یوں بھی مہمانوں کے صرف نام ہوتے ہیں، لیکن ڈاکٹر جاوید منظر اور معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن بھی تو ہیں۔ ایک نظر ڈال لیا کریں۔
مذکورہ شمارے میں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ڈھاکہ (ڈھاکا) کی یادیں تازہ کی ہیں۔ اس میں انہوں نے ’’باقر خوانی‘‘بیچنے والے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ڈھاکا میں پشاور کے قصہ خوانی بازار کے مقابلے میں ’’باقر خوانی‘‘ بھی ہوتی ہو۔ ویسے یہ ’’باقر خانی‘‘ ہے، خوانی نہیں۔
رشید حسن خان کی ’’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘‘ میں اس کا تعارف یوں ہے ’’باقر خانی، شیرمال کے مقابلے میں ہلکی اور کچھ چھوٹی روٹی‘‘۔ نصیر الدین حیدر (شاہ اودھ) کے زمانے میں ’محمدو‘ نامی ایک ولایتی (ایرانی) شخص نے آکے فرنگی محل میں باورچی کی دکان کھولی۔ ایران کے مسلمان خمیری روٹیاں کھاتے اور ہندوستان کی سرزمین میں تنور گاڑتے ہوئے آئے تھے۔ مگر اُس وقت تک ساری روٹیاں تھیں، جن میں گھی کا لگاو نہ ہوتا۔ ہندوئوں کو پوریاں تلتے دیکھ کر مسلمانوں نے توے کی روٹیوں میں گھی کا جز دے کے پراٹھے ایجاد کیے اور پھر ان میں متعدد تہیں اور پرتیں دینا شروع کیں۔ پھر اسی پراٹھے میں پہلی ترقی یہ ہوئی کہ باقر خانی کا رواج ہوا، جو ابتدائً امرا کے دسترخوان کی بہت تکلفی روٹی تھی۔ لکھنؤ میں محمدو نے باقر خانی کو بہت ترقی دے کر شیرمال پکائی جو مزے، بوباس، نفاست اور لطافت میں باقر خانی اور تکلّفی روٹیوں کی تمام اصناف سے بڑھ گئی۔ چند ہی روز میں شیرمال کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ لکھنؤ کی نیشنل روٹی قرار پائی۔ یہاں تک کہ جس دعوت میں شیرمال نہ ہو وہ مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ (شرر۔ گزشتہ لکھنؤ)
اس تفصیل سے یہ پتا نہیں چلا کہ باقر خانی کا یہ نام کیوں پڑا۔ عبدالحلیم شرر کو غالباً شیرمال زیادہ پسند تھا۔ البتہ علمی اردو لغت میں ہے کہ باقرخانی خستہ روغنی روٹی جو اپنے موجد باقرخان سے منسوب ہے۔ اور لغت کے مطابق اس کا تعلق ترکی سے ہے۔
چلیے ڈاکٹر فاطمہ حسن کی وجہ سے باقر خانی کے کوائف سامنے آگئے۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ لاہور کے لوہاری دروازے کے اندر جو باقر خانیاں ملتی تھیں، لاجواب ہوتی تھیں۔ اب تو پتا نہیں، لیکن لوگ دور دور سے لینے آتے تھے۔ ممکن ہے اب پھجے کے پایوں کے لیے رش ہوتا ہو۔ عبدالحلیم شرر نے لکھا ہے کہ ایک ولایتی نے فرنگی محل میں باورچی کی دکان کھولی۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا اس دکان میں باورچی فروخت ہوتے تھے جیسے کتابوں کی دکان میں کتابیں، جوتوں کی دکان میں جوتے؟
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

اُن کے ناظم آباد والے گھر کے دروازے پر اُنھیں کے ایک شعرکا خوش خط طغریٰ لگا ہوا تھا:
اِس سَرا میں نہیں قیام بہت
زندگی مختصر ہے، کام بہت
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*اِس سَرا میں نہیں قیام بہت ۔۔۔مشفق خواجہ سے وابستہ یادیں*
*احمد حاطب صدیقی*

خواجہ صاحب بنیادی طور پر محقق اور نقاد تھے۔ مگر ۱۹۷۰ء میں ملک کے اندراسلام اور سوشل اِزم کی جونظریاتی جنگ شروع ہوئی ، اُس نے خواجہ صاحب کو مزاح نگاری کی طرف مائل کر دیا۔ اپنے کالموں میں اُنھوں نے ترقی پسندوں کی وہ خبر لی اور اس انداز سے خبر لی کہ اُن کا ہدف بننے والے تلملا اُٹھے۔ تلملاتے تو تھے مگر تلملانے کے سوا کچھ کر نہیں پاتے تھے، کچھ کہہ نہیں پاتے تھے۔ کچھ جواب بھی بن نہیں پڑتا تھا۔
اپنی مزاحیہ کالم نگاری کا آغاز انھوں نے روزنامہ ’جسارت‘ سے کیا۔ کالم کا مستقل عنوان تھا’’اندیشۂ شہر‘‘ جو اس پُر مزاح محاورے سے ماخوذ تھا:
’’ قاضی جی دُبلے کیوں؟ شہر کے اندیشے میں!‘‘
کالم نگار کے قلمی نام کے طور پر اُنھوں نے اپنے لیے ’غریبِ شہر‘ کا نام پسند کیا جو اس مشہور مصرعے سے مشتق تھا:
غریبِ شہر سخن ہائے گُفتنی دارد
یہ کالم سیاسی ، سماجی ، ادبی ہر قسم کے موضوعات کا احاطہ کرتا تھا۔اور خوب پڑھا جاتا تھا۔ اُن کے کالموں کے قارئین عامۃ الناس ہی نہیں بڑے بڑے مزاح نگار، ادیب ، دانشور،شاعر اور سیاسی رہنما ہوا کر تے تھے۔
ہمیں بھی کالم نگاری کی وادیِ خار زار و پُر بہار میں اُنھیں کے کالم، بلکہ وہ خود کھینچ کر لائے تھے۔ ہم تو اُس زمانے میں روزنامہ ’جنگ‘اور روزنامہ ’ جسارت‘ کے بچوں اور طالب علموں کے صفحات پر چھوٹے چھوٹے پر مزاحیہ مضامین لکھا کرتے تھے۔اُن کے قصے میں ہمارا قصہ بھی سن لیجیے۔’جسارت‘ میں محترم ثروت جمال اصمعی صاحب میگزین ایڈیٹر تھے۔ ہمارے مزاحیہ مضامین وصول کرتے ہی فوراً پڑھنا شروع کردیتے تھے۔ جن مضامین کو ہم اپنے دوستوں سے پڑھوا کر اور اُن سے قہقہے لگواکر لائے ہوتے ، اصمعی صاحب اُن کو لب پر ہلکی سی بھی مسکراہٹ لائے بغیر پڑھتے چلے جاتے۔ ہم دِل ہی دِل میں کڑھتے اور ’سُخن فہمیِ عالمِ بالا معلوم شُد‘ پڑھتے ہوئے اپنے مضمون کی اشاعت سے مایوس ہوچکے ہوتے۔ یکایک وہ مضمون اپنی میز پر پڑی ہوئی لکڑی کی ایک باکس فائل میں ڈالتے ہوئے کہتے :
’’ شائع ہو جائے گا‘‘
تب ہماری جان میں جان آتی۔
اُسی زمانے میں جوشؔ ملیح آبادی کی ’’یادوں کی برات‘‘ تازہ تازہ شائع ہوئی تھی ، جس پر مشفق خواجہ صاحب (غریبِ شہر) نے انتہائی دلچسپ کالم لکھا تھا۔ اُس کا ایک دلچسپ فقرہ ہمیں آج بھی یا د ہے:
’’یادوں کی برات میں براتوں کی یاد شامل نہیں‘‘۔
یہ کالم پڑھ کر ہمیں بھی شوق چرّایا اور ہم نے بھی ’ یادوں کی برات‘ پر ایک مزاحیہ مضمون لکھ مارا۔وہ مضمون غالباً بچوں یا طلبہ کے صفحات کے لیے ناقابلِ اشاعت سمجھتے ہوئے اصمعی صاحب نے مشفق خواجہ صاحب کو دے دیا ہوگا۔
مضمون دینے کے دوسرے تیسرے روز ہم نے پہلے تو یہ دیکھا کہ’اندیشۂ شہر‘ کا نام ہی بدلا ہوا ہے۔ اُس دن کالم کے مستقل عنوان کی جگہ چھپا ہوا تھا:
’’ غریبِ شہر کے نام‘‘
اور کالم کا موضوعاتی عنوان تھا:
’’ حضرتِ جوش کے بارے میں ایک طالبِ علم کے نوٹس‘‘
نیچے نام ہمارا چھپا ہوا تھا۔ خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔تب ہم پر انکشاف ہوا کہ :
’’اچھا! ہماری تحریریں بھی اِدارتی صفحہ کی زینت بن سکتی ہیں‘‘۔
اس کے بعد ہم نے اپناپہلاکالم ، جودیوار نویسی کے موضوع پر تھا، بعنوان:’نوشتۂ دیوار پڑھ لیجیے‘ راست مدیرِ ’جسارت‘ صلاح الدین صاحب کو دیا اور وہ اداریے کے دو کالموں کے برابر والے تیسرے کالم میں پورے صفحے کی لمبائی میں اُسی شان سے شائع ہوا جس شان سے اُس زمانے کے اخبارات میں کالم شائع ہو ا کرتے تھے ۔
یوں مشفق خواجہ صاحب کی ایک ذرا سی توجہ کی بدولت ہم بھی کالم نگار بن گئے!
ضیاء صاحب کے دور کی بات ہے۔ ’ظلم کی داستانیں‘ پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہورہی تھیں، جن میں بھٹو صاحب کی طرف سے خواجہ خیرالدین صاحب کو سمندر میں ڈبونے کی کوشش کرنے کی داستان بھی شامل تھی۔
اس داستان گوئی کے بعد خواجہ خیرالدین صاحب کی مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی ہی سے اتحاد کر لیا۔ اس خبر پر(شاہ مردان شاہ) پیر پگارا نے بیان دیا:
’’ خواجہ خیر الدین کا انجام بھی مولانا کوثر نیازی جیسا ہوگا‘‘۔
پیر صاحب کے اس بیان پر خواجہ خیرالدین صاحب بھڑک اُٹھے اور اُنھوں نے جوابی بیان داغا:
’’ پیر پگاراسیاست دان نہیں، نجومی اور مسخرے ہیں‘‘۔
اس بیان کے دونوں حصوں پر تبصرہ کر تے ہوئے’غریبِ شہر‘ نے اپنے کالم میں وضاحت کی :
’’ خواجہ صاحب نے پیر صاحب کو نجومی تو اس وجہ سے قرار دیا کہ اُنھوں نے خواجہ صاحب کے مستقبل کی پیش گوئی کی ہے۔ اور مسخرا اس لیے کہا ہے کہ اُنھوں نے مولانا کوثر نیازی کا نام لے لیا تھا‘‘۔

Читать полностью…

علم و کتاب

👍👍👍👍👍

اور کہیں پڑھا تھا کہ حضرت تھانوی کے یہاں اگر سال کے شروع میں ہی سال بھر کا چندہ جمع ہوجاتا تو مزید چندہ قبول کرنے سے گریز کرتے تھے
تاکہ چندہ دہندگان اپنا چندہ کسی دوسری جگہ دےدیں

Читать полностью…

علم و کتاب

*نئی دہلی عالمی کتاب میلہ 2024 کی روداد*
(پہلی قسط)
10 فروری کو شروع ہوکر 18 فروری تک جاری رہنے والا نئی دہلی عالمی کتاب میلہ 2024 اپنے اختتام کو پہنچ گیا. G20 اجلاس کے بعد منعقد ہونے والا یہ پہلا کتاب میلہ تھا. وہ اجلاس پرگتی میدان میں ہی منعقد ہوا تھا، اس لیے یہ کتاب میلہ نو تعمیر شدہ عالی شان ہالوں میں منعقد ہوا. یہ کتاب میلہ ہال نمبر ایک سے ہال نمبر پانچ تک تھا. دو ہزار سے زائد ناشروں، تقسیم کاروں اور کتب فروشوں نے شرکت کی. ساتھ میں بچوں اور بڑوں کی دلچسپی کے مختلف پروگرامز بھی چلتے رہے. کئی وزرا، سفرا اور اہم شخصیات نے بھی شرکت کی. داخلہ ٹکٹ صرف بیس روپے کا تھا. اسے حاصل کرنے کے لیے بھی آن لائن سہولت موجود تھی. دلّی کے بیس میٹرو اسٹیشنز پر بھی یہ ٹکٹ دستیاب تھے. روزانہ مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات کے پروگرام بھی منعقد ہو رہے تھے. میلے کے پہلے دن ہمیں صحافتی دنیا کی مشہور شخصیت جناب رَجَت شرما کو سننے کا موقع ملا. جس طرح وہ اسکرین پر متأثر نہیں کرسکے، اسی طرح آمنے سامنے سن کر بھی کوئی مزہ نہیں آیا. مختلف اداروں اور سفارت خانوں نے اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے زبان و ادب کے تعارف کے لیے بھی پروگرام رکھے تھے. سعودی سفارت خانے کے تحت عربی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تحت اردو کے متعلق بھی پروگرام پیش کیے گئے. اس سال کتاب میلے کا موضوع (Theme) جموں کشمیر اور لداخ طے کیا گیا تھا. اس مناسبت سے جن ناشرین کے پاس اس موضوع کے متعلق کچھ مواد تھا، انھوں نے اسے نمایاں طور پر پیش کیا تھا. ایک عمدہ نمائش بھی لگائی گئی تھی، جس کا عنوان تھا:
Jammu, Kashmir, and Ladakh through the Ages:
A Visual Narrative of Continuities and Linkages (جموں، کشمیر اور لداخ مختلف ادوار میں: ربط اور تسلسل کا ایک بصری بیانیہ)
لیکن اکثر ناشروں کے پاس جموں کشمیر اور لداخ کے متعلق کچھ نہیں تھا. اس اہم موضوع پر ہمارے مسلم اور اردو ناشروں کے کنگلے پَن پر زیادہ دکھ ہوا. اس سال کتاب میلے کا مہمان خصوصی سعودی عرب تھا، لہٰذا اس کے اسٹال پر کچھ دلچسپی کا سامان موجود تھا. بڑے اسکرین پر عرب تہذیب اور نمایاں چیزیں دکھائی جارہی تھیں. رواں سال ملک میں پارلیمانی انتخابات کا سال ہے، اس لیے جگہ جگہ وزیر اعظم صاحب اور وزیر تعلیم صاحب کی اس طرح کی تصویریں بھی لگائی گئی تھیں، جن کے ساتھ سیلفی لی جاسکے اور دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ ہم ان حضرات کے ساتھ کھڑے ہیں. میلے میں ایک طرف بائبل سوسائٹی اور گیتا پریس کے تحت عیسائی اور ہندو مذہب کے تعارف کا نظم تھا، تو دوسری طرف اسلام کے تعارف کے لیے بھی مختلف ناموں سے کئی اسٹالز موجود تھے. مذہب کے تعارف اور اعتراضات کے جواب کے لیے یہ بہت اچھا اور سنجیدہ موقع ہوتا ہے. اس لیے ہمیشہ اس کا بڑا فائدہ محسوس کیا جاتا ہے. اگر ہماری دینی و ملّی تنظیمیں مزید مرتب انداز میں اس موقعے کو استعمال کریں تو بڑا خیر سامنے آسکتا ہے. یہ کتاب میلہ نیشل بُک ٹرسٹ آف انڈیا منعقد کرتا ہے. اس ادارے کے تحت شائع ہونے والی یومیہ روداد ہمارے پاس انگریزی زبان میں (پی ڈی ایف) موجود ہے. ان شاء اللہ طلب کرنے پر ارسال کردی جائے گی. اس کو پڑھ کر ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں.
آئیے ! اب کتابوں کی طرف چلتے ہیں. ہم نے جو کتابیں خریدی ہیں، ان کا کچھ تعارف کراتے ہیں. ہم ان کتابوں کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں. اسلامیات اور تاریخ. دونوں طرح کی کتابوں کا الگ الگ تعارف کرایا جائے گا.

شاہ اجمل فاروق ندوی
نئی دہلی

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا ابوالبرکات عبدالرئوف داناپوری (وفات ۱۹ فروری ۱۹۴۸ء)۔۔۔ تحریر علامہ سید سلیمان ندویؒ


مہینوں سے اخبار نہیں پڑھتا کہ ان کو پڑھ کر ایک ایسے شخص کو جو ملک میں ہر طرح امن و امان اور مہر و محبت کا طالب ہو دلی صدمہ پہنچتا ہے، اسی لئے مولانا کی وفات کی خبر ان کے صاحبزادوں کے خطوط سے ہوئی، میں نے ان کے صاحبزادوں کو لکھا کہ مرحوم کے کچھ ابتدائی تعلیمی حالات مجھے لکھ کر بھیجیں۔
لیکن ان کا پھر کوئی جواب نہیں آیا، البتہ اخبارات کے چند تراشے ملے، جن میں وفات کی خبر کے سوا کچھ اور نہ تھا۔
مرحوم کا وطن صوبہ بہار میں شہر داناپور متصل پٹنہ تھا، مگر وہ ایک عرصہ سے کلکتہ میں طبیب کی حیثیت سے مقیم تھے اور گویا اب وہی ان کا گھر ہوگیا تھا، مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے تعلیم و تربیت کن اساتذہ سے حاصل کی، مگر گفتگو اور تحریر سے پتہ چلتا تھا کہ ان کو علوم دینیہ میں پوری دسترس حاصل تھی، پھر کلکتہ میں رہ کر اور سیاسی مجلسوں میں شرکت کے سبب سے وہ زمانہ کی ضروریات اور عصری خیالات و افکار سے پوری طرح آگاہ تھے اور ان علماء میں تھے جو قدیم علوم و اعتقادات فقہ کو جدید خیالات و افکار سے تطبیق دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔
میری ان کی پہلی جان پہچان اس وقت ہوئی جب میں ۱۹۱۲ء؁ میں الہلال کلکتہ کی ادارت میں شرکت کے لئے کلکتہ پہنچا اور اس تقریب سے کئی مہینہ کلکتہ رہنے کا اتفاق ہوا تو مختلف جلسوں میں ان سے گفتگو، بات چیت اور میل جول کی نوبت آئی، پھر ۱۹۱۷ء؁ یا ۱۹۱۸ء؁ میں مجلس علمائے بنگالہ کی صدر کی حیثیت سے جب میرا کلکتہ جانا ہوا اور یہ وہ وقت تھا جب اسی کے ساتھ لیگ اور کانگریس کے سالانہ اجلاس بھی وہاں ہورہے تھے اور ہندو اور مسلمان تمام ملک کے نمائندے وہاں جمع تھے اور بیت المقدس کی انگریزی فتح کا حادثہ تازہ تھا اور طبائع میں بڑا ہیجان تھا، مرحوم سے ملنے کا موقع ہاتھ آیا اور خیال آتا ہے کہ ان کی قیام گاہ پر بھی جانے کا اتفاق ہوا جو چوناگلی میں تھی اور جہاں مرحوم نے وفات پائی۔
۱۹۱۶ء؁ میں ہندوستان میں ایک مسئلہ پر زیر بحث تھا اور وہ یہ کہ پنجاب کی ایک مسلمان عورت نے جو اپنے شوہر کے مظالم سے عدم نفقہ سے تنگ آچکی تھی، اس سے چھٹکارے کے لئے علماء سے استفتاء کیا تھا، مفتی عبداﷲ صاحب ٹونکی نے حنفیہ کے مسلک کے مطابق اس کو جواب دیا کہ اسلام میں اس کے لئے کوئی مخلص نہیں، اس پر آریہ اخباروں نے اسلام کو اس کی تنگ دامانی کا طعنہ دیا، اس کو پڑھ کر مولانا ابوالکلام نے بعض فقہائے تابعین اور ائمہ فقہ کے مسلک کے مطابق مولانا ٹونکی کے فتووں کی تردید کی اور لکھا کہ تین ماہ کے انتظار کے بعد بھی اگر شوہر اپنی بیوی کے نان و نفقہ کا انتظام نہ کرے اور بیوی مطالبہ کرے تو قاضی زوجین میں تفریق کرسکتا ہے، مولانا داناپوری نے مولانا ابوالکلام کے فتویٰ کی تغلیط کی اور کلکتہ کے اخبارات میں ایک مفصل مضمون اس کے جواب میں لکھا، یہ معارف کی اشاعت کا پہلا سال تھا، خاکسار نے ان تینوں صاحبوں کے فتووں پر ایک محاکمہ لکھا، جو معارف کی پہلی جلد میں ’’زوجۂ غیر منفق علیہا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اور جس میں ظاہر کیا گیا تھا کہ نہ تو مطلقاً مولانا ابوالکلام کا فتوی صحیح ہے اورنہ مولانا عبدالرئوف صاحب کا اور نہ تو مولانا ابوالکلام کی وسعت صحیح ہے اور نہ مولانا داناپوری کی تنگی، بلکہ یہ سب فتوے الگ الگ مختص حالات سے مخصوص ہیں، کسی کہنے والے نے مجھ سے نقل کیا کہ مولانا داناپوری نے میرے اس مضمون کو پڑھ کر فرمایا کہ ہاں! یہ مضمون ایک پڑھے لکھے شخص کا ہے۔
پھر مرحوم سے جمعیۃ العلمائے کلکتہ کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی اور آخری ملاقات آٹھ دس برس ہوئے اس وقت ہوئی جب مسلم تعلیمی کانفرنس علی گڑھ کا اجلاس کلکتہ میں ہوا، جس میں کمال یارجنگ تعلیمی تحقیقاتی کمیٹی مقرر ہوئی تھی، یہ وقت ملکی سیاسیات کے ایک نئے پہلو کا تھا۔
مرحوم سیاسیات میں جمعیۃ العلماء کے ساتھ تھے اور اس کے بعض جلسوں کی صدارت بھی کرچکے تھے، لیکن آخر میں اس سے الگ ہوکر مسلم لیگ میں منسلک ہوگئے تھے اور جمعیۃ علمائے اسلام میں داخل ہوگئے تھے اور اس حیثیت سے وہ بنگال کی اسلامی سیاست پر بہت اثر انداز تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

اقتباس
۱۹۱۳ء میں مولانا مدرسے میں تدریس میں مستغرق تھے کہ نظام دکن ( جو ان دنوں اجمیر آئے ہوئے تھے) آ گئے ۔ استاد سلطان فضیلت جنگ مولانا انوار اللہ خاں ساتھ تھے۔ مولانا ان حضرات سے بے خبر بدستور درس میں مشغول رہے اور نظام دکن درس گاہ کے فرش پر بیٹھ گئے ۔ درس کے اختتام پر مولانا انوار اللہ خاں متعارف اور مخاطب ہوئے اور فرمایا سرکار نظام تشریف لائے ہیں ۔ مولانا معین الدین نے سلام کی سنت ادا کی ۔ نظام نے کہا آپ کی تفہیم خوب ہے، مولانا اجمیری نے بے نیازی سے جواب دیا ” آپ کی سمجھ میں آئی؟“ ”جی جی ! اچھی طرح ۔ نظام دکن مولانا کے وفور علم، انداز تقریر، قوت تفہیم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ مزید چار روز مدر سے آکر مولانا کا سبق سنتے رہے اور سوالات کرتے رہے۔ سنن ترمذی ، نور الانوار، تفسیر بیضاوی وغیرہ کے درس میں شرکت کی پھر ایک ہزار روپے ملازمین اور طلبہ میں تقسیم کرنے کے لیے پیش کیے اور مدرسے کی مستقل ماہانہ اعانت بارہ سو پچاس روپے مقرر کی۔ زہد، استغنا، توکل، جرات حق گوئی ، صبر ورضاء تحمل شدائد مولانا کی حیات کے عنوانات تھے۔ ماہانہ معاوضے کا بہت کم حصہ اپنے اہل وعیال پر صرف کرتے باقی رقم طلبہ پر صرف ہوتی تھی۔ سرطان پشت ( کار بنگل) کا ایک طویل عمل جراحی آپ نے بیج ( بے ہوشی ) کی تدبیر کے بغیر کروایا۔ جراحت کار (ڈاکٹر سورج نارائن ) حیرانی سے کہا کرتا تھا کہ اتنا بڑا آپریشن بغیر بےہوشی کے میں نے آج تک نہیں کیا۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ایک آنسو بھی جو ٹوٹا تو سنائی دے گا
ممتازترقی پسند شاعرعلی سردار جعفری نے ان کی شاعری میں غم ذات اور غم کائنات کا سراغ لگاتے ہوئے لکھاتھا کہ
”اردو شاعری کے لیے یہ عہدکچھ بہت سازگار نہیں ہے، فلمی گیتوں کی وجہ سے اردو شاعری کی مقبولیت بہت بڑھ گئی ہے اور اردو تعلیم کی کمی کی وجہ سے اردو شعر کا علم کم ہوگیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ نظمیں اور غزلیں زیادہ مقبول ہیں، جن پر محبوب کا جسم حاوی ہے، جن میں محبوب کے لیے احترام کی کمی ہے اور وسواخت کا انداز زیادہ ہے۔ اس سے گریز کرکے سنجیدہ شاعروں ایک گروہ جو زیادہ ترنئی نسل سے تعلق رکھتا ہے، غم ذات میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یوں تو غم ذات کے بغیر غم کائنات کا احساس کسی شاعرکے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن غم کائنات سے فرار کرکے غم ذات کے قلعہ میں اسیر ہوجانا شاعری کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ قیصرالجعفری کی شاعری اس تاریک حلقہ کی گرفت سے باہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں زندگی کے مسائل سے دست وگریباں ہونے کی طاقت اور صلاحیت ہے۔ان میں غم ذات بھی ہے اور غم کائنات بھی، جو دونوں ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے ہوئے ہیں۔“(کلیات قیصر)
”کلیات قیصر“اچھی اور سچی شاعری کے دلدادگان کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں ہے۔ نہایت عمدہ کاغذ اور روشن طباعت کے ساتھ شائع ہوئی اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے مرتب عرفان جعفری (9987792355)سے رابطہ قایم کیا جاسکتا ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا معین الدین اجمیری(وفات ۱۸ فروری ۱۹۴۰ء)۔۔۔ تحریر: محمود احمد برکاتی

Читать полностью…

علم و کتاب

https://chat.whatsapp.com/GgHfHWPT3FzGQG4YWCkZ10

Читать полностью…

علم و کتاب

کلام شاعر بزبان شاعر۔۔۔ شبنم رومانی (وفات ۱۷ فروری ۲۰۰۹ء)۔۔۔ بیٹھے بیٹھے جب تنہائی سے گھبرائیں ہیں۔۔۔۔لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=baithay-baithay-tanhai-say-jab-ghabrai-hai, Baithay Baithay Tanhai Say Jab Ghabrai Hai

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عبد الحمید نعمانی صاحب کی بات درست ہے، ایک زمانہ ہمارے یہاں اردو گونمنٹ اسکولوں کی بہت بڑی تعداد ہوا کرتی تھی، خود ہمارے بھٹکل میں چار پانچ کلومیٹر کے اندر سات آٹھ اردو پرائمری گورنمنٹ اسکول تھے، ان کے اساتذہ بڑے ہمدرد ہوا کرتے تھے، شمالی ہند کا تو ہمیں علم نہیں، بھٹکل کی حد تک کہ سکتے ہیں کہ انہی اسکولوں کے پڑھے ہوئے افراد نے یہاں پر تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اور یہاں پر اردو زبان کو ترویج دی تھی، حالانکہ بھٹکل کے زیادہ تر مسلمانوں کی زبان اردو نہیں تھی،نہ ہی ان کے گھروں میں اردو رائج تھی ،ہمارے رہنمایان قوم نے بھٹکل کی نشات ثانیہ کے لئے مجلس اصلاح وتنظیم اور انجمن حامی مسلمین سے پہلے پہل صدیق فری لائبریری جیسا کتب خانہ قائم کیا،اس پر ان کی دانشوری کو داد دینی پڑے گی، یہی کتب خانہ دوسرے اداروں کی تعمیر وترقی کی بنیاد بنا۔
جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے، ہماری سرکاروں نے زیادہ تر اردو میڈیم اسکولوں کو ختم نہیں کیا، بلکہ ہمارے پاؤں پر ہم نے خود کلہاڑی ماری ہے، جن لوگوں کی روزی روٹی اردو سے وابستہ تھی انہوں نے اپنی نسلوں کو پروفیشنل تعلیم دلانے کی غرض سے انگریزی میڈیم اسکولوں کو فوقیت دے کر ان کی زبانوں سے اردو چھین لی ، اور انہیں کانونٹ اور انگریزی میڈیم اسکولوں میں داخل کیا ، جس کا نتیجہ ظاہر ہے اسلامی فکر رکھنے والے کالجوں میں اردو شعبوں کے سربراہان کے نونہالان کو بھی اردو نہیں آتی۔ ہماری دینی تحریکیں جو لٹریچر کی بنیاد پر کھڑی ہوئی تھیں، ان کی نسلیں اردو سے نابلد ہیں۔ لہذا جو دانشور و ادیب کالجوں اور یونیورسٹیوں سے وابستہ ہیں عموما اردو کی ترقی سے ان کا کوئی سروکار محسوس نہین ہوتا ، یہ حضرات پنشن کے انتظار میں اپنے دن کاٹ رہے ہیں۔ اب رہے دینی مدارس کے مولوی جن سے اردو کو زندہ رکھنے کی آخری امید بندھی ہیں، ان کی دلچسپیاں تقاریر مجالس اور دوسری آسانی سے شہرت اور مقبولیت دلانے والے امور سے وابستہ ہوگئی ہیں،مدارس میں جن موضوعات پر تقاریر اور پروگرام رکھے جاتے ہیں، یہ زیادہ تر پٹے پٹائے ہیں، یا انہیں بھولے ہوئے زمانہ بیت گیا ہے۔
فیلموں گانوں اور میڈیا کے طفیل جو آسان ہندی رائج ہوگئی ہے اسے اردو سمجھ کر ہم پھولے نہیں سماتے کہ سب اردو بول رہے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی بھارت میں میڈیا کی زبان اردو ہوا کرتی تھی، اب تو فلمیں ڈرامے اور گانے اردو میں بننا بند ہوگئے ہیں، اور جو زبان لکھی نہ جائے اس کی حیثیت ایک گھریلو بولی کی بن جاتی ہے ۔
چند سال قبل انڈیا میں زبانوں کا ایک سروے ہوا تھا جس میں اردو کو بحیثیت مادری زبان کے آبادی کا سات فیصد بتا یا گیا تھا، اور کہا گیا تھا کہ مادری زبانوں میں اب اردو کا مقام گجراتی زبان سے بھی نچلے درجے پر آگیا ہے۔
اگر ہم اپنی نسلوں کو اپنے شاندار ماضی سے جڑا رکھنا چاہتے ہیں تو پھراردو کو ہماری نسلوں میں باقی رکھے بغیر چارہ نہیں، یہ ذمہ داری ہمارے دینی تعلیمی اداروں پر سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ نے انہیں سمجھ اور اس ضرورت کا احساس دیا ہے، لیکن جس رخ پر وہ جارہے اس میں تھوڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، انہیں اپنی ترجیحات اور معاشرے کی ضرورتوں کو از نو سمجھمے کی ضرورت ہے، انہیں ادبی اور تحقیقی موضوعات میں تنوع جدت اور معیار لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر اردو مطبوعات کے انبار ردی ہی میں فروخت ہوسکتے ہیں۔ خدا کرے اردو پر ایسا دن نہ آئے۔
عبد المتین منیری
2024-02-16
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

رباعیات عمر خیام ( منظوم ترجمہ از آغا شاعر قزلباش) مع مختصر تشریح

ڈاکٹر اصغر کمال

رباعی نمبر۔۔۔۔۔۔16

خارے کہ بزیر پائے ہر حیوانے است
زلف صنمے و ابروئے جانانے است

ہر خشت کہ بر کنگرہء ایوانے است
انگشت وزیرے و سر سلطانے است

آغا شاعر :

جو خار بزیر قدم حیواں ہے
وہ زلف صنم ہے ابروئے جاناں ہے

ہر اینٹ جو ہے قصر کے کنگورے پر
انگلی ہے وزیر کی سر سلطاں ہے

عمر خیام فرماتے ہیں کہ مٹی سے تخلیق دیا گیا انسان لقمہ اجل بننے کے بعد پیوند خاک ہوجاتا ہے گویا کہ واپس مٹی کا حصہ بنادیا جاتا ہے ،
یوں پیروں میں چبھنے والا کاںٹا ممکن ہے محبوب کے گیسوئے دراز یا ابروئے آب دار کا ٹکڑا ہو ، یوں یہ بھی ممکن ہے کہ قصر سلطانی کے گنبد پر بننے والے کنگورے کسی وزیر کی انگلی یا کسی بادشاہ کے سر سے بننے والی مٹی کا حصہ ہو

عمرخیام کے اشعار کی تفہیم کے سلسلہ میں غالب کا شعر بھی پیش کیا جا سکتا ہے ،

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

Читать полностью…

علم و کتاب

ادب میں بھی شہرت اور دولت حاصل کرنے کے لیے یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ایک مشہور ناول نگار اپنا ہر نیا ناول مجھے پڑھنے کے لیے بھیجتے تھے۔ لیکن میں آج تک ان کی کوئی تحریر پڑھ نہیں پایا، کیونکہ وہ جس قسم کی جنّاتی زبان لکھتے تھے وہ میری سمجھ سے بالاتر تھی۔ اسے آپ میری کم علمی پر بھی محمول کرسکتے ہیں۔ایک بار انھوں نے اپنے تازہ ناول کے بارے میں میری رائے جاننی چاہی تو میں نے برملا کہا کہ میں اسے پڑھ نہیں پایا ہوں۔ جب بھی شروع کرتا ہوں تو زبان پر آکر رک جاتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ فکشن میں زبان دویم درجہ کی چیز ہوتی ہے۔میرے لیے یہ جواب خاصا تکلیف دہ تھا، کیونکہ میں تحریر میں زبان کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں اور اگر کوئی ادیب خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو، زبان کے ساتھ بدزبانی کرتا ہے تو میں اسے خاطر میں نہیں لاتا۔ اسے آپ میری بے جا انانیت سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ میں خراب تحریریں پڑھنا پسند نہیں کرتا، کیونکہ اس سے مجھے اپنی زبان کے بگڑنے کا خدشہ رہتا ہے۔دراصل یہ زبان ہی ہے جو ہمیں لکھنے پڑھنے اور بولنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔اگر ہم اس کے ساتھ ناروا سلوک کریں گے اور شہرت یا دولت حاصل کرنے کے لیے زبان کو دوسرا درجہ دینے لگیں تو ہمیں تیسرے درجے کا ادیب بننے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔
صحافت کا بھی یہی حال ہے۔ فی زمانہ صحافت کی دنیا میں بھی زبان کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے، وہ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ یعنی جس میڈیم کے ذریعہ ہم اپنے قاری تک پہنچتے ہیں، جب وہ ہی زوال پذیر ہوجائے گا تو پھر ہمارے پاس مکالمے کا کون سا ذریعہ باقی رہ جائے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صحافت میں معیاری زبان لکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے، کیونکہ اخبار ایک دن کا ادب ہوتا ہے اور دن ختم ہوجانے کے بعد وہ دم توڑ دیتا ہے۔بعض اخبار نویس یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ان کے پاس زبان پر توجہ دینے کا وقت نہیں ہوتا، کیونکہ ان کی توجہ تازہ ترین خبروں کی ترسیل پر مرکوز ہوتی ہے۔میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔یہ دراصل اپنی ذمہ داریوں سے راہ فراراختیارکرنا ہے۔میرے خیال میں صحافت میں بھی ادب کی طرح زبان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔یہاں میں پروفیسر محمدنعمان خاں کے ایک مضمون کا اقتباس نقل کرنا چاہوں گا۔جس سے زبان کی تشکیل وتعمیرمیں اردو اخبارات کے روشن کردار کا پتہ چلتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”ماضی میں اردو اخبارات کی زبان کے معیار ومزاج کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قارئین، ان کے مطالعہ سے نہ صرف اردوزبان میں خاطر خواہ استعداد حاصل کرلیتے تھے بلکہ اس سے ان کی فکری اور علمی تربیت بھی ہوجاتی تھی۔اسی طرح ماضی میں اردو اخبارات نے محض خبر رسانی کاہی کام انجام نہیں دیا بلکہ ادبی ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرکے قارئین کے ادبی معیار کو بھی بلند کیا۔ابتدائی عہد میں اردو اخبارات کے بیشتر مالکان اور مدیر ان شاعر یا ادیب تھے۔چنانچہ انھوں نے روزمرہ زندگی کے مسائل نیز سیاسی وسماجی حالات کی ترجمانی میں زبان کے معیار کو ملحوظ رکھا۔ کئی معروف شعرء وادباء کی بنیادی تربیت اخبارات نے ہی کی۔کئی بڑے فن کار اخبارات کے ذریعہ ہی متعارف ہوئے اور اخبارات سے ان کی وابستگی نے نہ صرف زبان وادب کے معیار کو بلند کیاہے بلکہ ابتدائی دور کے اخبارات کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی زبان، ان کے عہد کی زبان کے مروجہ معیار سے ہم آہنگ تھی۔“(”اردو زبان اور ابلاغ عامہ“ ص 92)
حقیقت یہ ہے کہ معیاری اورمرصع زبان لکھنے والے بیشتر لوگ ہمیں صحافت ہی نے دئیے ہیں۔ایسے متعدد نام شمار کرائے جاسکتے ہیں جو صحافت کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی سکہ رائج الوقت بنے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمدعلی جوہر، حسرت موہانی،ظفرعلی خاں، مولانا عبدالماجد دریابادی، شورش کاشمیری اور ماہرالقادری جیسی بلند پایہ شخصیات کا ہنر صحافت کے ذریعہ ہی چمکا۔
درحقیقت جب سے صحافت برق رفتار ہوئی ہے اور خبروں کی ترسیل کا عمل الیکٹرانک آلات کی گرفت میں آیا ہے، تب سے اس کی تکنیک بدل گئی ہے۔ پہلے اردو صحافت میں بہت مشاق مترجم ہوا کرتے تھے، جو بامحاورہ ترجمہ کرنے پراس حد تک قادر تھے کہ اسے دیکھ کر یہ یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ مواد کسی دوسری زبان سے منتقل کیا گیا ہے۔ حالانکہ ترجمہ ایک مشکل عمل ہے۔ علی گڑھ کے ایک پروفیسر کہا کرتے تھے کہ ”ترجمہ دراصل اپنی کمر خوداپنے آپ کھجانے جیسا کام ہے۔“اچھا ترجمہ وہی ہوتا ہے جو بامحاورہ اور آسان زبان میں کیا گیا ہواور پڑھنے والے کو کہیں بھی یہ احساس نہ ہو کہ وہ کسی دوسری زبان کا فن پارہ پڑھ رہا ہے۔ لیکن جب سے ترجمہ کا نظام گوگل بابا کے سپرد ہواہے تب سے اس کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ گوگل کی مدد سے کیا گیا ترجمہ اکثر مضحکہ خیزاور مہمل ہوتا ہے۔ ایک انگریزی میگزین نے میرے ایک اردو مضمون کو گوگل سے ترجمہ کرکے شائع کیا تومیرا نام معصوم مرادآبادی کی جگہ ’انوسینٹ مرادآبادی‘کے طورپرچھپا۔گوگل کی مشین ہر لفظ کا ترجمہ کردیتی ہے خواہ وہ آپ کا

Читать полностью…

علم و کتاب

دہلی کے پرگتی میدان میں عالمی کتاب میلا لگا ہوا ہے، اردو میں کوئی زیادہ قابل مطالعہ کتابیں نظر نہیں آتی ہیں، لیکن ہندی انگریزی میں درجنوں قابل مطالعہ کتابیں ہیں، تمام زیر بحث مسائل پر درجنوں کتابیں ہیں، برہمن واد، ہندوتو پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، مقابلے میں بھی دلت اور فرقہ پرستی کے خلاف کام کرنے والوں نے وسائل کی کمی کے باوجود خوب خوب لکھا ہے، لیکن مسلمانوں میں اس کا زیادہ ادراک و شعور نظر نہیں آتا ہے، ان کی اکثریت، افسانہ، ناول، کہانی، دیوان غالب سے آگے جانا نہیں چاہتی ہے، یا مسائل کا شعور نہیں رکھتی ہے، بیشتر لوگ کتابوں سے زیادہ بھیل پوری، گول گپے، چائے کافی میں مزہ لیتے ہیں، جن میں علم و کتاب کا ذوق ہے وہ خالی ہاتھ ہیں، کئی سارے موضوعات ہیں جن پر ہمارے یہاں دیگر سے بہتر کام کیا جا سکتا ہے لیکن اس پر توجہ نہیں ہے، آج کے دور میں معقول تعبیرات و تشریحات پیش کرتے ہوئے مسلمان آج بھی بہتر جواب پیش کرنے کی پوزیشن میں ہیں،جب کہ دیگر حقیقت کو گم کر کے افسانے، کہانیوں اور مفروضات پر کھڑے ہیں، وہ انسانی سماج میں آدرش قائم کرنے میں ناکام ہیں، روح اور انسان کو پتھر میں تبدیل کرنے سے زندہ سماج کی تشکیل نہیں ہو سکتی ہے.

عبدالحمید نعمانی ،16/2/2024

Читать полностью…

علم و کتاب

باقر خوانی بروزن قصّہ خوانی۔۔۔ اطہر علی ہاشمی
2015-01-30

اسلام آباد سے ایک صحافی نے، جو اب تک خوب سینئر ہوچکے ہیں، پچھلے کالم میں دیے گئے شعر میں تصحیح کی ہے۔ ہم نے مصرع میں ’بیٹے‘ کو ’بچے‘ بنا دیا تھا یعنی ’’کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں‘‘۔ قارئین ہوشیار باش، بچے کی جگہ ’’بیٹے‘‘ پڑھا جائے۔ اس سے پہلے کہ منظر عباسی اس سہو کی نشاندہی کریں، اسلام آبادی صحافی نے پکڑ کرلی۔ ان کا شکریہ۔ تاہم انہوں نے جانے کیوں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کی ہے حالانکہ ہمارا یہ کالم کسی سرکاری ادارے یا ’’اہم شخصیت‘‘ کے حوالے سے نہیں ہوتا جس کے بارے میں اندر کی خبر دینے والا اپنے نام کی اشاعت نہ کرنے پر زور دیتا ہے کہ کہیں اٹھا نہ لیا جائے۔ بات یہ ہے کہ ہم یہ کام رواروی میں کرتے ہیں اور دوسرے کام بھی چلتے رہتے ہیں۔ موصوف کا خیال ہے کہ چونکہ یہ سلسلہ زبان کی اصلاح کے حوالے سے ہے اس لیے اس میں شعر بھی صحیح ہونا چاہیے۔ یہ الگ بات کہ کتنے ہی شعر عوام کی زبان پر آکر کچھ سے کچھ ہوگئے۔ مثلاً استاد ابراہیم ذوقؔ کا یہ مصرع
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
یوں ہو گیا ہے
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دکھلا گئے
ہمارے خیال میں یہ عوامی مصرع ذوقؔ کے اصل مصرع سے زیادہ صاف ہے۔ ایسے اور کئی شعر اور مصرعے ہیں جن کو عوام نے ’’صاف‘‘ کردیا ہے۔ مثلاً یہ شعر جس کا دوسرا مصرع ضرب المثل ہوگیا ہے:
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
اصل شعر کچھ اس طرح ہے:
آخر گِل اپنی صرف در میکدہ ہوئی
پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو
یہ شعر مغل شہزادے میرزا جہاں دار شاہ عرف جواں بخت بہادر، ولی عہد شاہ عالم بادشاہ کا ہے اور ڈاکٹر وحید قریشی کے مرتب کردہ ’’دیوانِ جہاں دار‘‘ میں پہلے مصرع کی صورت مختلف ہے، یعنی ’’آخر گِل اپنے صرف در میکدہ ہوئے‘‘ اس میں گلِ (مٹی) بظاہر مذکر ہے اور ممکن ہے مغل شہزادوں کو گِل مذکر ہوتی ہو، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ابتدا میں یاے معروف اور یاے مجہول میں امتیاز نہیں رکھا جاتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے ضرورتاً دوسرا مصرع بدل دیا، اور وہ اتنا مشہور ہوا کہ پہلا مصرع تو گم ہوگیا، جیسے خسرو کے شعر کا مصرع اولیٰ
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
ایسا ضرب المثل ہوا کہ دوسرا مصرع تلاش کرنا پڑتا ہے۔ انشاء اللہ خان کی بڑی مشہور غزل کا مقطع ہے:
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے، سنا انشا!
غنیمت ہے جو ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
محمد حسین آزادؔ نے ’’آبِ حیات‘‘ میں پہلا مصرع بدل دیا اور اب یوں ہی مشہور ہے کہ ’’بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشا‘‘۔
یہ دلائل اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے نہیں ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو اس کی خوشی ہوتی ہے کہ لوگ توجہ سے پڑھ رہے ہیں اور ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں شعر و ادب سے دلچسپی ہے حالانکہ صحافی ہیں۔
جسارت میں ہماری ایک محترم بہن کا خواتین کے حوالے سے بہت عمدہ مضمون شائع ہوا ہے لیکن شاید اُن تک ہماری یہ بات نہیں پہنچی کہ ’’تا کے ساتھ تک‘‘ نہیں آتا۔ 26 جنوری کو شائع ہونے والے اس مضمون میں ایک جگہ لکھا ہے ’’2002ء تا 2007ء تک۔‘‘ یہاں ’تک‘ کی ضرورت نہیں اور ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اگر ’’تک‘‘ ایسا ہی ناگزیر ہو تو پھر ’’تا‘‘ کی جگہ ’’سے‘‘ استعمال کرلیا جائے، تحریر کا نقص دور ہوجائے گا۔ جسارت کی بات چلی ہے تو 27 جنوری کے شمارے میں ایک خبر میں حسبِ معمول ’’رفاع عام‘‘ چھپا ہے۔ جانے کیوں لوگ ’’رفاہ‘‘ لکھنے سے گریزاں ہیں! کراچی میں رفاہ عام سوسائٹی ایک معروف بستی ہے لیکن اسے بھی رفاع عام لکھا جاتا ہے۔ پتہ کسی طرح بھی ’’پتا‘‘ ہونے پر تیار نہیں اور لاپتا ہے۔ بازیاب کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔

Читать полностью…
Subscribe to a channel