ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

تعارف کتاب: جب حضور آئے۔۔۔ تحریر: عرفان جعفر خان

کتاب : جب حضور آئے
ترتیب و تحقیق : محمد متین خالد
صفحات : 489 قیمت : 1500 روپے
دستیابی : علم و عرفان پبلشرز، احمد مارکیٹ غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور
نئے اضافوں کے ساتھ
رابطه : 0300-9450911
042-37352332
0300-4427932
ilmoirfanpublishers.com

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا موضوع ہے جس کی وسعت لامحدود اور جس کی لطافت بے نظیر ہے۔ جس طرح پرندے آسمان پر اڑتے ہیں مگر اوجِ ثریا کو نہیں پاسکتے، اسی طرح سیرتِ نبویؐ پر گفتگو کرنے والا اپنی محبت، عقیدت اور ہمت کے مطابق پروازِ تخیل کی تیزی کے باوجود سیرت کے کسی ایک گوشے پر سیر حاصل روشنی نہیں ڈال سکتا۔ حیاتِ طیبہ کی پاکیزگی اور جامعیت ایک ایسی بات تھی کہ قرآن کریم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی تائید میں حضورؐ کی زندگی کو مشرکین کے سامنے پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اہلِ ایمان نے آپؐ کی حیاتِ نور کا ذکرِ جمال، محبت و عقیدت میں ڈوب کر کچھ اس ادا سے کیا ہے کہ تحریروں میں جان پڑ گئی اور لفظ بولنے لگے۔ آپؐ کی سیرت لکھنے والے قلم کو رب نے وہ ندرتیں اور قدرتیں بخشیں کہ ہر عہد کا ادبِ عالیہ اس نوری ادب سے شرمانے لگا۔
آج جب ہر طرف نفرتوں کی آگ دہک رہی ہے، تعصبات کے بت پوجے جارہے ہیں، مظلوموں اور مجبوروں کی عزت و آبرو اور جان و مال کو پامال کیا جارہا ہے، جب آتش کدئہ فارس بجھ گیا تھا، دریائے ساوہ خشک ہوگیا تھا اور کسریٰ کے محلات کے کنگرے گر گئے تھے۔ ’’جب حضورؐ آئے‘‘ میں جذب و عشق اور کیف و سرور سے لکھی وہ تحریریں ہیں جو حضور اکرمؐ کی ولادت باسعادت پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی، سیدابوالاعلیٰ مودودی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، راشد الخیری، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، شورش کاشمیری، مولانا ظفر علی خان، عبدالماجد دریابادی، نعیم صدیقی، ماہر القادری، اور اردو کے متعدد ادبا نے اپنے خامہ عنبر فشاں سے لکھیں۔ یہ ایسی تحریریں ہیں جن سے خود یہ مصنّفین جاوداں ہوئے۔
مصنّفین کرام نے لمحہ مقدس پر اپنے جذباتِ عالیہ اور افکارِ عقیدت کا اظہار اس طرح کیا کہ کفر کے اندھیروں میں نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ہر طرف اجالا پھیل گیا۔ سرزمینِ حجاز جلوئہ حقیقت سے معمور ہوگئی، آتش کدوں کی آگ سرد ہوگئی، ’’صنم کدے ویران ہوگئے!‘‘ پوری دنیا کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ ماہ ’کعبہ‘ کی طرف دیکھنے لگی جو درحقیقت آفتابِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
جناب محمد متین خالد کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم سعادت سے مشرف فرمایا اور بہ توفیقِ ایزدی انہوں نے اردو کے ذخیرۂ سیرت سے ذکرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول چن کر ایک خوب صورت گلدستہ ترتیب دے دیا۔ ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے‘‘ ایک نہایت مبارک مجموعہ مضامین ہے۔ یہ مضامین صاحبانِ علم و حکمت کی فکرِ بلند کے عکاس ہیں اور سیرتِ پاکؐ پر بلند مرتبہ شخصیات کے خیالات ہیں جو ندرت کے حامل ہیں۔ بہ حیثیت ِمجموعی ’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے‘‘ تعمیرِ اذہان کی ایک حسین و جمیل کوشش ہے۔
محمد متین خالد نے بڑی سعی و جستجو اور تلاش و تفحص سے ان تحریروں کو ایک جگہ فراہم کردیا ہے جو مذکورہ بالا موضوع سے متعلق اردو کے بڑے اور نہایت ممتاز اہلِ قلم کا نتیجہ فکر ہیں۔ یہ ایک بڑا اور نہایت قابلِ قدر کارنامہ ہے جو محمد متین خالد نے انجام دیا ہے۔ بڑے بڑے مصنّفین کی تحریروں کو ایک کتاب میں سمیٹ لینا بڑا دقت طلب کام ہے اور جناب متین خالد نے اس کام کو تندہی اور فرض شناسی سے انجام دیا ہے۔ خوب صورت سرورق کے ساتھ سفید کاغذ پر کتاب اچھی طبع ہوئی ہے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مولانا عبید اللہ بلیاوی(وفات ۱۵ فروری ۱۹۸۹ء) تحریر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

Читать полностью…

علم و کتاب

آج اردو کے محترم صحافی ہماری اس بزم کے رکن رکین جناب معصوم مرادآبادی کے شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام توسیعی خطبہ کی رپورٹ دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ تو ہمارے دل کی آواز ہے، اور معصوم صاحب نے آپ کی اس بزم علم وکتاب کے پیغام کو جامعہ ملیہ کے اساتذہ طلبہ و دانشوران کے سامنے پیش کیا ہے، موصوف نے اپنے خطبے میں کیا خوب کہا ہے کہ:
*اچھی اور سچی زبان پر قدرت نہ ہو تو تحریر دیرپا نہیں ہوتی اور اپنی تاثیر کھو دیتی ہے۔ تحریر کی مشق اچھی تحریروں کے کثیر مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔ کثرت مطالعہ کے بغیر اچھی اور موثر تحریر لکھنا ناممکن ہے۔۔۔۔ کفایت لفظی ہر قسم کی تحریر کے لیے ضروری ہے لیکن صحافتی تحریر میں کفایت لفظی کی خاص اہمیت ہے۔ ماضی میں وہی ادیب اور صحافی ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہے جنھیں کفایت لفظی کا ہنر آتا تھا*۔
ہماری رائے میں آپ کا یہ خطبہ ہمارے جملہ تعلیمی اداروں خاص طور پر ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں اہتمام کے ساتھ سنا جانا چاہئے۔ کیونکہ یہاں محنتیں تو ہورہی ہیں، لیکن ان محنتوں کی جو سمت ہونی چاہئے اس میں کچھ کجی کا احساس ہوتا ہے۔
جس صحافت کا معصوم مرادآبادی نے تذکرہ کیا ہے بیسویں صدی میں مولانا عبد الماجد دریادیؒ اس صحافت کی علامت تھے، لہذا اپنے پرچوں سچ،صدق، صدق جدید آپ کی ایک سوسال قبل لکھی تحریریں حالات وزمانہ بدلنے کے باوجود آج بھی تر و تازہ لگتی ہیں، اور اس کی زبان آج بھی اپنی تاثیر باقی رکھے ہوئے ہے، ورنہ اسالیب زبان نصف صدی گزرنے سے پہلے پہلے پرانے اور غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ مولانا کی سچی باتیں پیش کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اردو کی تعمیری ادب وصحافت کا ایک بہترین نمونہ آنکھوں کے سامنےپھر تا رہے۔ ان کے علاوہ بھی جو نثری و صوتی شہ پارے اور اقتباسات پیش ہوتا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے۔ ان اسالیب زبان کو زیادہ سے زیادہ طلبہ و اساتذہ و قلم کاروں میں عام ہونے کی ضرورت ہے، آپ کے اس علم وکتاب گروپ کے قیام کا ایک بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔
معصوم مرادآبادی کا بہت بہت شکریہ ، آپ نے ادب وصحافت کے تعلق سے بنیادی گر اپنے اس خطبے کے ذریعہ ہم لوگوں تک پہنچادیا، ہماری خواہش ہوگی کہ اگر اس خطبے کی ریکارڈنگ محفوظ ہوتو اس سے بھی ہمیں محظوظ ہونے کا موقعہ عنایت فرمائیں۔
عبد المتین منیری
2024-02-15
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

ہمارے یہاں جامعہ میں کل سے الحمد للہ ایک ایمانی وروحانی فضا چھائی رہی، مشہور محقق اور فقہ شافعی اور اصول پر کئی ایک کتابوں کے مصنف، محدثین اور فقہاء کی یادگار، نیک صالح اور پاک دل اور نیک طینت شیخ طریقت، شیخ سمیر القاضي (لبنان) تشریف لائے تھے، الحمد للہ شمائل ترمذی کی مکمل قراءت دو نشستوں میں مکمل ہوئی، شیخ ضروری باتوں کی وضاحت کرتے رہے، جس سے فقہ واصول، حدیث وعلوم حدیث اور زبان وادب پر ان کی دست رس کا اندازہ ہوتا رہا، شیخ نے اجازت اور دعاؤں سے نوازا، شیخ علی الکتانی سے انھیں بہ ایک واسطہ (ان کے فرزند عبد الرحمن الکتانی کے واسطے سے) اجازت حاصل ہے۔ ایک عجیب روحانی کشش اور طمانینت تھی، دلوں کی دنیا زیر وزبر ہورہی تھی، عجیب نور مجلس پُر چھایا تھا اور دل میں رقت پیدا ہورہی تھی۔ حدیث کی اس طرح کی مجلسیں باطن میں سوزو گداز اور لطافت پیدا کرنے اور دلوں کی دنیا بدلنے میں معاون ہوتی ہیں۔ جب محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں اور ان کی حکایتوں میں وہ کشش اور لذت ہے تو پھر ان کی شخصیت اور ان کے کردار میں کیسی جاذبیت رہی ہوگی سبحان اللہ! بس جی چاہتا تھا
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم
اللہ تعالی ہمیں اپنے محبوب کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: 15 فروري
.............................

اکبر الہ آبادی۔وفات۔1921
افسر ماہ پوری (ظہرعالم صدیقی)۔وفات۔1995
حبیب اللہ خاں غضنفر۔وفات۔1973
عشرت حسین، میجر جنرل ڈاکٹر۔وفات۔1999
محمد امروہوی،سید ۔وفات۔1976
نصرت نعیمی(مولانا رجب علی خاں)۔وفات۔2015
مرزا غالب ۔وفات۔1869
مولانا عبید اللہ مظاہری بلیاوی۔وفات۔1989
حیرت بدایونی ،سید حسن۔وفات۔1975
جسٹس کریم اللہ درانی۔وفات۔1982

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*بات سے بات: قرآن کے اردو تراجم*

یہ کتاب ہم نے نہیں دیکھی، لہذا اسے کتاب پر ہماری رائے نہ سمجھا جائے۔
کچھ سالوں سے اردو میں قرآن پاک کے تراجم ، تفاسیر اور لغات پر کتابیں مسلسل آرہی ہیں، یہ اچھی بات ہے، نیک نیتی سے کی گئی دین کی ایک خدمت ہے، لیکن ان تراجم وتفاسیر کو دیکھ کر ہمیں کبھی کبھار ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان میں کوئی نیا پن نہیں ہوتا، اوران سے قرآن فہمی کے تعلق سے کوئی خاص ضرورت پوری نہیں ہورہی ہے، بلکہ یہ ایک قسم کی تکرار اور نقل ہے، اور مترجمین ومفسرین میں ایک نام کا اضافہ ہورہا ہے۔
اردو میں قرآن کریم کے ایک مفسر ہیں مولانا شمس پیرزادہ مرحوم، جماعت اسلامی ہند حلقہ مہاراشٹر کے عرصہ تک امیر رہے، ایمرجنسی میں سنت یوسفی بھی ادا کی، جس کے دوران عربی زبان میں لکھی گئی حلال وحرام اور فقہ زکوۃ کی دو کتابوں کا ترجمہ کیا جسے مولانا مختار احمد ندوی مرحوم نے اپنے ادارے سے شائع کیا۔ الیکشن کے موضوع پراختلاف ہوا اور اپنی جماعت سے الگ ہوئے، پھر آپ نے ادارہ دعوت قرآن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کے لئے آپ نے دعوت قرآن کے عنوان سے ایک تفسیر لکھی اور اس کا مراٹھی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کروایا۔
مرحوم سے ۱۹۷۰ء کی دہائی سے تعارف تھا، دبی بھی تشریف لائے تھے، تو ہم نے ان سے سوال کیا تھا، تفہیم القرآن کی موجودگی میں آپ کو مزید کوئی تفسیر لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی، تو انہوں نے فرمایا کہ کسی مصنف سے یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ اس نے فلان کتاب کیوں لکھی۔ ہر ایک کا اپنا ایک مزاج اور فکر ہوتی ہے۔ پھر فرمایا کہ تفہیم القرآن کے مخاطب عموما اردو اور انگریزی پڑھنے والا مسلم دانشور طبقہ ہے، اس میں انہی مسائل پر توجہ دی گئی ہے جو عموما مسلمانوں یا لبرل فکر کے لوگوں میں زیر بحث آتے ہیں۔ اس کا ترجمہ جب مقامی زبانوں میں کیا جائے گا،اس میں جن موضوعات پر توجہ دی گئی ہے انہیں یہاں کے غیرمسلم خاص طور پر ہندو افراد سمجھ نہیں سکیں گے، نہ ہی ان موضوعات میں ان کی دلچسپی ہوگی، ہم لوگ اپنے وطن میں کفر اور شرک کے ماحول میں رہتے ہیں،اور دعوت دین میں یہی ہمارے پہلے مخاطب ہیں، اور ہندو مذہب کو ماننے والوں کی دلچسپی کے موضوعات ان سے الگ ہیں، میں نے خاص طور پر اسی پہلو پر توجہ دی ہے۔
ہماری ناچیز رائے میں صرف لکھنا یا کوئی تصنیف تیار کرنا کوئی اہم مقصد نہیں ہے، اصل اہم چیز یہ ہے تصانیف معاشرے کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تیار کی جائیں۔ اور ان میں ان درپیش حساس مسائل کا حل پیش کیا جائے۔
عبد المتین منیری
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

بھٹی میں محبت کی دل جھونک کے بیٹھا ہوں
جل جائے تو مٹی ہے، گل جائے تو سونا ہے
…………………………………………
چوٹ جب دل کو لگی، میں نے غزل کہہ ڈالی
آئینہ ٹوٹا تو شور آئینہ خانے سے اٹھا
ساتھ عاجزؔ کے گیا سوز سخن ساز سخن
پھر کوئی ایسا غزل گو نہ زمانے سے اٹھا
…………………………………………
ایک دکانِ وفا بھی نہیں سنبھلی تم سے
ہم تو بازار کا بازار سنبھالے ہوئے ہیں
ڈاکٹر کلیم عاجز کو شاعری میں جو کمال حاصل تھا، وہی کمال انہیں نثر میں بھی تھا۔ وہ شاعری کی طرح ہی بڑی روانی سے نثر لکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی ’جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی‘ اور سفر نامہ حجازاس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کلیم عاجز صاحب کی علمی، ادبی اور شاعرانہ خوبیوں سے پوری دنیا واقف ہے لیکن ان کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو روحانی اکتسابات سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسے مشن سے وابستہ تھے جو بندگان خدا کو مالک حقیقی سے جوڑنے کا مشن ہے۔ انہیں اس مشن سے جوڑنے کا کام مخدومی مولانا افتخار فریدی مرحوم نے کیا تھا جو میرے آبائی وطن مرادآباد سے تعلق رکھتے تھے۔ راقم الحروف کی ذہنی تربیت ان ہی کے زیر سایہ ہوئی۔ میں نے بارہا ان کی زبانی ڈاکٹر کلیم عاجز کا تذکرہ سنا اور بچپن سے ہی ان کا گرویدہ ہوگیا۔ مولانا افتخاری فریدی کے انتقال کے بعد ان کی شخصیت اور کارناموں پر ایک کتاب کی صورت گری نے مجھے ڈاکٹر کلیم عاجز کے در دولت تک پہنچایا۔ اس کتاب کے لئے ان تمام لوگوں سے مضامین قلم بند کروائے، جو مولانا افتخار فریدی سے متعلق تھے۔ ان میں سے سب سے جلی نام ڈاکٹر کلیم عاجز کا تھا لیکن وہ اپنی عدیم الفرصتی اور مسلسل اسفار کی وجہ سے مضمون نہیں لکھ پارہے تھے۔ یہ کتاب ڈاکٹر کلیم عاجز کے مضمون کے بغیر ادھوری رہتی، اس لئے مجھے تقریباً ایک سال ان کے مضمون کا انتظار کرنا پڑا۔ نہایت عجلت میں ڈاکٹر کلیم عاجز نے میری گزار ش پر سن 2003 میں جو مضمون قلم بند کیا، اس کے ساتھ یہ خط بھی تھا۔
”جناب معصوم مرادآبادی صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں یہ مختصر تحریر نہایت عجلت میں سرسری یاد داشتوں پر زیادہ زور دئیے بغیر اور ان کی آخر کی چند تالیفات سے استفادہ کئے بغیر لکھ رہا ہوں اور لکھ کر آپ کو بھیج رہا ہوں۔ اس پر نظر ثانی بھی نہیں کرسکا ہوں کہ اس کی بھی فرصت نہیں اور فرصت ہو بھی تو اپنی فرو گزاشتیں خود کو نظر نہیں آتیں۔ آپ ضرور اچھی طرح دیکھ لیں، جہاں کچھ کمی بیشی ہو اپنی بصیرت سے اس کی خانہ پری کرلیں، مگر ہاں کوئی تبدیلی ہرگز نہ کریں۔ میں کوشش کروں گا کہ اس کی فوٹو کاپی بنوالوں، ورنہ آپ بنوا کر اصل چاہے نقل مجھے بھجوادیں۔ دعا گو کلیم احمد عاجز۔“
(بحوالہ: مولانا افتخار فریدی،حیات و خدمات، صفحہ: 27)
ڈاکٹر کلیم عاجز نے انتہائی عجلت کے باوجود اس کتاب کے لئے 20صفحات کا جو مضمون قلم بند کیا ہے، اس میں اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ یہ مضمون کلیم عاجز کی روحانی زندگی کی گرہیں کھولتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”پھر افتخار فریدی صاحب نے مجھے پکڑ لیا۔ عشاء کی نماز کے بعد انہوں نے دل کھول کر دکھ دیا اور میرے دل کی چنگا ری کو ہوا مل گئی۔ دوسرے دن سے ایک اور فقیر کا اضافہ ہوگیا۔ میں دس دن کے لئے آسنسول اور کلکتہ کے تبلیغی سفر میں نکلا تو سب سے نمایاں انقلاب یہ ہوا کہ میری زندگی کے اندرکی ساری ایٹھن نکل گئی۔ پورے ملک ہندوستان کا ایک معروف شاعر ہوں، ادیب ہوں، خوش گلو اور خوش فکر ہوں۔ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک اول رہا ہوں، ہر ڈگری کے ساتھ ایک دو سونے کا تمغہ حاصل کرچکا ہوں۔ رئیس کی اولاد ہوں، گرچہ یہ سب فضیلت عمل میں نہ تھی لیکن ذہن میں تو تھی۔ عمل میں انکسار، تواضع، فروتنی کی خاندانی تربیت رہی جو رچ بس گئی تھی۔ کبھی کسی مجلس میں آگے نہیں بیٹھا۔ خود کو کبھی نمایاں نہیں کیا۔ ہمیشہ صف آخر میں نشست رکھی مگر یہ فضیلتیں ذہن میں تھیں، تو دس روز کے سفر میں یہ سب فضیلتیں مٹی میں مل گئیں اور میں فکری، ذہنی اور کسی حد تک عملی طور پر فقیر بن گیا۔“
(مولانا افتخار فریدی، حیات وخدمات، صفحہ: 33)کسی ادیب فنکار یا شاعر کے بارے میں لکھتے وقت ہم عام طور پر تحریر کا دائرہ، اس کے فن اور ادبی خدمات تک محدود رکھتے ہیں۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ کسی شخص کی ذاتی زندگی یا اعمال کا اس کے فن سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کردار و اطوار کے اعتبار سے ایک بہتر انسان نہیں ہے تو وہ علم و ادب یا شاعری کے حوالے سے سماج کی بہتر خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ انسان کا ذاتی کردار اس کے فکرو فن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کلیم عاجز کی ذاتی زندگی خوف خدا سے عبارت تھی اور انہوں نے اپنی عملی زندگی کا بڑا حصہ روحانی سرگرمیوں میں گزارا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں ناقدین فن وہ اہمیت نہیں دیتے جو دنیاوی لہو و لعب میں مبتلا شاعر وں کو دی جاتی ہے۔ شعر و سخن کی کسوٹی پر ڈاکٹر کلیم عاجز کو پرکھتے وقت ہمیں ان کی پاکیزہ زندگی اور میدان عمل کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کبھی ان علتوں

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹرکلیم عاجز

معصوم مرادآبادی

آج منفرد لب ولہجے کے شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 14فروری 2015 کی رات 95 برس کی عمر میں آخری سانس لی۔ کلیم عاجز کی شاعری اور شخصیت کا شہرہ دنیا کے ہر اُس گوشے میں تھا، جہاں اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے والے موجود ہیں۔ برصغیر ہندو پاک کے علاوہ خلیجی ممالک اور یوروپ و امریکہ کے نہ جانے کتنے شہروں میں کلیم عاجز کا والہانہ استقبال ہوا اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ انتہائی نرم و نازک خدو خال والے کلیم عاجز محض اپنی خداداد شاعرانہ صلاحیتوں کے سبب ہی چہار دانگ عالم میں مشہور نہیں تھے بلکہ ان کی شخصیت، کردار، مزاج کی نرمی اور روحانی اکتسابات بھی لوگوں کو متاثر کرتے تھے۔ جو کوئی ان سے ایک بار ملتا وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ عام طور پر ہمارے شاعروں کو جب شہرت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے تو زمین سے ان کا رشتہ کمزور ہونے لگتا ہے۔ لیکن کلیم عاجز کی تربیت جن ہاتھوں میں ہوئی تھی، انہوں نے ان کے اندر دنیا کے ایک عارضی پناہ گاہ ہونے کا تصور اتنا مضبوط کردیا تھا کہ بے پناہ مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے باوجود کلیم عاجز زمین سے وابستہ رہے اور اسی کا پیوند بھی ہوئے۔ ان میں کبھی کوئی تمکنت، نخوت اور نرگسیت پیدا نہیں ہوئی بلکہ وہ اپنے نام کے مطابق عاجزی اور انکساری کا پیکر بنے رہے۔ دنیاوی اعزازات اور کامیابیاں کبھی ان کے لئے فخر کی علامت نہیں رہیں۔ کلیم عاجز جب پروفیسر تھے تو اس وقت بھی انہوں نے اپنے نام کے ساتھ یہ لاحقہ استعمال نہیں کیا۔ جب کہ زندگی میں پروفیسر بننا لوگوں کی معراج ہوتی ہے اور وہ تمام عمر اس ’اعزاز‘ کو اپنے نام کا حصہ بنائے رکھتے ہیں۔ حکومت نے ادبی خدمات کے عوض انہیں ’پدم شری‘کے اعزاز سے سرفراز کیا لیکن انہوں نے کبھی اپنے نام کے ساتھ ’پدم شری‘ نہیں لکھا۔ حد تو یہ ہے کہ تو وہ یہ اعزاز لینے دہلی نہیں آئے بلکہ حکومت کے کارندوں نے یہ اعزاز ان کے گھر تک پہنچایا۔ وہ نمود و نمائش اور فخر و غرور کے بجائے شائستگی اور سلیقہ مندی سے علاقہ رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت لہو و لعب کی بجائے غم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ پروفیسر محسن عثمانی کے بقول:
”ان کی شخصیت غم کے ایک سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی، غم انسان کی شخصیت میں ایک گداز پیدا کردیتا ہے، جس طرح موم حرارت پاکر پگھلتا اور پھیلتا ہے، اس طرح سے انسان کا دل غم اور مسلسل غم کی حرارت سے پھیل کر بڑا ہوجاتا ہے، اتنا بڑا ہوجاتا ہے جتنا بڑا کلیم عاجز کا دل تھا۔ کلیم صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے غم سے ایک پورا غم خانہ ایک پورا ایوان غم تعمیر کرڈالا ہے۔ جو شخص ان کا کلام پڑھتا ہے، سوچنے لگتا ہے کہ یہ غم کا کیسا کارخانہ ہے، جہاں سے غزلیں ڈھل ڈھل کر نکلتی ہیں۔“
(’کلیم احمد عاجز کی چند خاص باتیں‘ مطبوعہ ’جدید خبر‘، 24فروری، 2015)
تقسیم وطن کے سانحے نے ان کی ذاتی زندگی پر غم کا پہاڑ توڑا۔ 1947 کے خونریز ہنگاموں کے دوران ان کی والدہ اور بہن کے علاوہ کئی عزیز و اقارب کی دردناک ہلاکت ایک ایسا سانحہ تھا، جو انہیں پاش پاش کرسکتا تھا۔ لیکن انہوں نے اس سانحے کو شاعری کے پرچم میں چھپانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس پہاڑ جیسے غم کو اپنے دل پر جھیلا اور بہترین شاعری تخلیق کی۔ بقول خود:
زبانِ درد بہت کم سمجھنے والے ہیں
یہاں نہ ہر کس و ناکس سے گفتگو رکھیو
لٹا نہ دیجیو سب غم کی رنگ رلیوں میں
بچا کے دل کے پیالے میں کچھ لہو رکھیو
ڈاکٹر کلیم عاجز کے فنی کمالات اور شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہر اس دانشور نے کیا، جسے شعرو ادب کے کھرا اور کھوٹا ہونے کی تمیز تھی۔ ان کی غزل کو ڈاکٹر کلیم الدین احمد جیسے ٹیڑھے نقاد نے خراج تحسین پیش کیا۔ وہی کلیم الدین احمد جو غزل کو اردو شاعری کی نیم وحشی صنف سخن قرار دے چکے تھے۔ کلیم الدین احمد کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
”ان کی غزلوں میں دکھ بھروں کی حکایتیں اور دل جلوں کی کہانیاں ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی غزلوں میں انمل اور بے جوڑ باتیں نہ آنے پائیں۔ اگر وہ تسلسل کی فنی ضرورت اور اہمیت کو سمجھیں تو وہ مسلسل غزل لکھ سکتے ہیں اور ان کی غزل دکھ بھروں کی حکایت اور دل جلوں کی کہانی بن سکتی ہے۔ سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری صرف شاعری ہی نہیں فن کا ایک نکتہ بھی ہے اور کلیم عاجز اس نکتہ سے واقف ہیں۔“
(وہ جو شاعری کا سبب ہوا، صفحہ: 31-32)
ڈاکٹر کلیم عاجز کی شاعری پر سب سے زیادہ اثر میر تقی میر کا تھا۔ مشہور ادیب کنہیا لال کپور کا تاثر یہ تھا کہ ”کلیم عاجز دو جدید کے پہلے شاعر ہیں، جنہیں میر کا انداز نصیب ہوا ہے۔ ان کی غزلوں کے تیور نہ صرف میر تقی میر کی بہترین غزلوں کی یاد دلاتے ہیں بلکہ ہمیں اس سوز وگداز سے بھی روشناس کراتے ہیں جو میر کا خاص حصہ تھا۔“ خود کلیم عاجز نے کنہیا لال کپور کے ان خیالات کی تصدیق اپنے اس شعر میں کی ہے ؎

Читать полностью…

علم و کتاب

تصوف كے سلسلے:
جيسے فقه ميں مختلف مسالكـ (حنفى، مالكى، شافعى، حنبلى وغيره) ہيں، اسى طرح تصوف ميں بهى مختلف مشارب ہيں، جنہيں طرق تصوف كہا جاتا ہے، ہندوستان كے مشہور طرق چشتيه، كبرويه، قادريه، سهرورديه، نقشبنديه، شطاريه وغيره ہيں، ان طرق كى اپنى سنديں ہيں، اسى لئے انہيں سلاسل (مفرد: سلسله) بهى كہا جاتا ہے۔
چشتيه سلسله كى سند خواجه مودود چشتى، كبرويه كى شيخ نجم الدين كبرى، قادريه كى شيخ عبد القادر جيلانى، سهرورديه كى شيخ شہاب الدين سہروردى (يا ابو النجيب سہروردى)، نقشبنديه كى خواجه بہاء الدين نقشبند، شطاريه كى شيخ عبد الله شطار تكـ پہنچتى ہے۔
اپنے بانيوں تكـ تو ان سلسلوں كى سنديں كسى حد تكـ قابل قبول ہو سكتى ہيں، مگر افسوس كه متاخرين نے ان سلسلوں كو نبى اكرم صلى الله عليه وسلم تكـ پہنچاديا، جن لوگوں نے يه سنديں بنائى تهيں چونكه انہيں سندوں اور تاريخ كا علم نہيں تها اس لئے عجيب وغريب غلطياں ہوئى ہيں، ان غلطيوں كى نشاندہى كا يه موقع نہيں، البته اختصارا دو باتيں عرض كرديتا ہوں۔
پہلى بات تو يه ہے كه ان سندوں ميں انقطاع ہے، مثال كے طور پر نبى اكرم صلى الله عليه وسلم اورخواجه بہاء الدين نقشبند كے درميانى واسطوں پر غور كريں: سيدنا أبو بكر الصديق، سلمان الفارسي، قاسم بن محمد بن أبي بكر الصديق، سيدنا جعفر الصادق، أبو يزيد البسطامي، أبو الحسن الخرقاني، أبو علي الفارمدي، يوسف الهمداني، الشيخ عبد الخالق الغجدواني، الشيخ عارف ريوكري، الشيخ محمود إنجير فغنوي، الشيخ علي الرامتيني، الشيخ محمد بابا سماسي، الشيخ السيد كلال.
سلمان الفارسى كى وفات سنه 33هـ ميں ہوئى، اور قاسم بن محمد بن ابى بكر كى پيدائش سنه 35هـ ميں، يعنى قاسم سلمان فارسى كى وفات كے تقريبا دو سال بعد پيدا ہوئے ہيں، ظاہر ہے كه يه سند غلط ہے۔
اسى طرح جعفر الصادق كى وفات سنه 148هـ ميں ہوئى اور ابو يزيد بسطامى كى پيدائش سنه 188هـ ميں ہوئى، يعنى بسطامى جعفر صادق كى وفات كے چاليس سال بعد پيدا ہوئے، يہاں بهى واضح انقطاع ہے۔
دوسرى بات يه ہے كه محدثين جب كوئى سند بيان كرتے ہيں تو اس سند كا كوئى متن ہوتا ہے، يعنى صحابى نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كا كوئى قول يا فعل نقل كرتا ہے، تصوف كى جتنى سنديں ہيں ان ميں سرے سے كوئى متن ہى نہيں، آپ چشتيه، نقشبنديه، سہرورديه، قادريه وغيره كے مشائخ سے مليں اور ان كى كتابيں پڑهيں تو پورے فخر سے وه بيان كرتے نظر آئيں گے كه ان طرق كى سنديں نبى اكرم صلى الله عليه وسلم تكـ پہنچتى ہيں، مگر جب آپ ان سے استفسار كريں كه ان سندوں كا متن كيا ہے؟ آخر نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے كن باتوں كى تعليم دى جن پر ان سلسلوں كى الگ الگ بنياديں ہيں؟ تو آپ كو كوئى جواب نہيں ملے گا۔

Читать полностью…

علم و کتاب

انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا​
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا​

دستار نوچ ناچ کے احباب لے اُڑے​
سر بچ گیا ہے یہ بھی شرافت میں جائے گا​

دوزخ کے انتظام میں اُلجھا ہے رات دن​
دعوٰی یہ کر رہا ہے کہ جنت میں جائے گا​

خوش فہمیوں کی بھیڑ میں تو بھول کیوں گیا​
پہلے مرے گا بعد میں جنت میں جائے گا​

واقف ہے خوب جھوٹ کے فن سے یہ آدمی​
یہ آدمی ضرور سیاست میں جائے گا​

ڈاکٹر راحت اندوری

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: ۱۴ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالقدوس بہاری،مولانا ۔وفات۔1991
ممتاز مرزا۔وفات۔1984
کلیم احمد عاجز۔وفات۔2015
پروفیسر محمود شیرانی۔وفات۔1946
سردار عبد الرب نشتر۔وفات۔1958

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

تبصرات ماجدی (168) آریائی زبانیں۔۔۔۔ از ڈاکٹر سدھیشور ورما
سب رس کتاب گھر، حیدرآباد۔

اس مختصر سے رسالہ اور بہ قامت کہہ تر بہ قیمت بہتر کے مصداق کا اصل موضوع آریائی زبانوں کے ارتقاء اور ہندوی زبان کی خصوصیتوں کی تحقیق ہے اور یہ رسالہ محض ادبی نہیں لسانیاتی نقطۂ نظر سے لکھا گیا ہے۔ لسانیات کا موضوع خشک سمجھا جاتا ہے لیکن رسالہ اس حقیقت کی ایک عملی مثال ہے کہ ایک اچھا اہل قلم اور ماہر فن خشک موضوع کو بھی کسی حد تک شگفتہ اور دلچسپ بنا سکتا ہے۔
لفظ ہندوی کی تشریح خود مصنف کی زبان سے سن لیجئے۔
"ہندوی آریائی کی نہایت اہم شاخ وہ زبان ہے جسے غیر واضح معنی میں ہندوستانی کہا جاتا ہے لیکن اس کتاب میں ہندوی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ لفظ ہندی اس زبان کے ناموں میں سب سے پرانا ہے، اس کے بعد ہندی، اردو اور ہندوستانی کا استعمال ہونے لگا ۔غلط فہمی کو روکنے کے لیے اور زبان مخصوص کو وسیع سے وسیع معنی میں پھیلانے کے لیے تاکہ اس میں ادبی ہندی، ادبی اردو ان پڑھ لوگوں کی ہندوستانی وغیرہ سب کی شمولیت ہوجائے میں نے اسی پرانے لفظ ہندوی کو ترجیح دی ہے۔"صفحہ 11۔
اس زبان کی اہمیت اور وسعت بھی دنیا کی زبانوں میں معلوم کرلیجئے۔
" بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے ہندوی یعنی اردو اور ہندی کے مجموعے کا نمبر دنیا میں تیسرا ہے یعنی اول نمبر چینی کا، دوسرا انگریزی کا اور تیسرا نمبر ہندوی کا ہے۔ "صفحہ 11۔
اس معیاری ہندوی یعنی مشترک و عام فہم بولی ہندوستانی کو ادبی اردو اور ادبی ہندی سے ممتاز کرنے کے لیے مثال میں فاضل مصنف نے حسب ذیل فقرے لکھے ہیں۔
اس کی جورو چل بسی
(معیاری ہندی)
اس کی دھرم پتنی کا دیہانت ہوگیا(ہندی)
اس کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا (اردو)
لیکن یہ کتاب خود شروع سے آخر تک جس زبان میں ہے وہ نہ ہندوی ہے نہ ہندی بلکہ یقینا اردو ہی ہے۔
لسانی تحقیقات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس میں بہت سی کام کی باتیں مل جائیں گی۔ تنوع فارسی اور جدید ایرانی وغیرہ متعدد زبانوں کی ساخت اور خصوصیات کے متعلق اچھی خاصی واقفیت ہم کو مل جاتی ہے، ادارہ ادبیات اردو ایسی ٹھوس علمی خدمت کے لیے قابلِ مبارکباد ہے۔
صدق جدید نمبر 11 جلد 10 مورخہ 10/ جولائی 1944
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*محبت اور بدگمانی کی نظر کا فرق*

علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:

محبت اور عقیدت کی نظر، جہاں مخدوموں کی بہت سی خامیوں کے دیکھنے سے قاصر رہتی ہے، وہاں بدگمانوں کی نگاہیں، سب سے پہلے، ان ہی پر پڑتی ہیں اور ان کے تکرار و اعادہ میں ان کو ایسی لذت ملتی ہے کہ وہ ممکن کمالات سے بھی اغماض برت جاتی ہیں۔ لیکن یہ دونوں باتیں درحقیقت، نفسیاتِ فطرت کے مطابق ہیں اور اس میں معتقد و منتقد، دونوں معذور ہیں:

فـعـيـن الـرضا عن كل عيب كليلة ولكنّ عين السخط تبدى المساويا

(رضامندی کی آنکھ، ہر عیب کے مشاہدہ سے قاصر رہتی ہے۔ لیکن ناراضی کی آنکھ، برائیوں ہی کو ظاہر کرتی ہے)

حیاتِ شبلیؒ/صفحہ: ٣٩/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

انتخاب مطالعہ/۲۰۳
تحریر: ڈاکٹر غلام محمد
انتخاب: محمد فہیم قاسمی گورکھ پوری
*فہم سلیمان*
حضرت علامہ کے تفسیری مسلک کے سلسلہ میں ایک اور اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ وہ الفاظ قرآنی کے مراد ظاہری سے عدول کو روا نہیں رکھتے تھے۔ میرے استاذ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کو قرآنی آیات سے اعتبارات ، صوفیانہ نکات اور آیات کے نتائج قیاسی نکالنے کا خاص ذوق تھا اور اس کے اثر سے اس عاجز کی طبیعت بھی اس نہج کے نکتوں اور چٹکلوں کو پڑھ کر جھوم جاتی ہے مگر جب جب ایسی کوئی بات میں نے حضرت علامہ سے نقل کی تو سختی سے متنبہ فرمایا کہ الفاظ قرآنی کے "ظاہر مراد" سے عدول نہ ہونا چاہئے، نیز خود قرآنی مراد کو معلوم کرنے کے لئے ایک ہی لفظ کے جتنے استعمالات قرآن پاک میں آئے ہیں، ان سب کا احاطہ کر کے اس کی مراد کو متعین کرنا چاہئے مثلاً قرآن پاک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو "خاتم النبین" کہتا ہے، تو اب دیکھنا چاہئے کہ لفظ "خاتم" قرآن پاک میں کس کس معنی میں بولا گیا ہے تا کہ ختم نبوت کا قرآنی مفہوم متعین ہو سکے۔ چنانچہ دیکھا جائے تو یہ لفظ یا تو اس معنی میں بولا گیا ہے کہ کسی چیز کو اس طرح بند کر دینا کہ باہر کی چیز اندر نہ جا سکے جیسے "ختم الله علی قلوبھم" (یعنی رسول کی بات دل میں جا نہیں سکتی ) یا پھر اس معنی میں بولا گیا ہے کہ کسی چیز کو اس طرح بند کر دینا کہ اندر کی چیز باہر نہ نکل سکے جیسے "الیوم نختم على أفواهہم" ( یعنی حشر کے دن کافروں کے دل کی کوئی بات منھ سے باہر نہ نکل سکے گی)۔ یا پھر یہ لفظ ان دونوں معنوں کی یکجائی کے ساتھ بولا گیا ہے جیسے "وَختامہ مِسک" (یعنی جنتیوں کو جو شراب کی بوتل ملے گی اُس پر مشک کا ختام ہو گا جو اس بات کی ضمانت ہوگی کہ اس بوتل کو اس طرح بند کر دیا گیا کہ اب اس میں سے نہ تو اندر کی چیز باہر آ سکتی ہے نہ باہر سے کوئی چیز اس کے اندر داخل ہو سکتی ہے) بس ان تین استعمالات کے سوا لفظ "خاتم " کا کوئی اور استعمال قرآن پاک میں نہیں ملتا اس لئے "خاتم النبین " کا قرآنی مفہوم صاف یہ نکل آیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں نبیوں کے "خاتم " بنائے گئے ہیں کہ آپ سے پہلے جو زمرہ نبوت میں داخل ہو چکے ان میں سے کوئی بھی اب زمرہ نبوت کو خارج تصور نہیں کیا جاسکتا اور آپ کے بعد باہر سے اب کوئی اس زمرہ مقدسہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔
سبحان اللہ یہ ہے فہم قرآن اور ففہمناہا سلیمان کا تازہ اعجاز -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورنگ سلیماں/ ۴۶

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات

۱۳ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلمی صدیقی۔وفات۔2017
معین احسن جذبی ۔وفات۔2005
نجم الاسلام، پروفیسر۔وفات۔2001
احسان رشید، پروفیسر ڈاکٹر۔وفات۔2002
محمد یامین خان، نواب ۔وفات۔2002
یوسف عبداللہ ہارون ۔وفات۔2011
پروفیسر نجم الاسلام ۔وفات۔2001
مولانا مفتی احمد بیمات گجرات۔وفات۔2004
مولانا مفتی عبدالقیوم رائے پوری ۔وفات۔2018
ضیاء محی الدین ۔وفات۔2023
عطا شاد۔وفات۔1997

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

قاری امیر حسن مظاہری(وفات ۱۶ فروری ۲۰۱۲ء) تحریر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
تاریخ: 16 فروري

مولانا سید محمد ثانی حسنی ۔وفات۔1982
علامہ عبد الفتاح ابو غدہ حلبی۔وفات۔1997
عبدالرحیم ،سید ، پروفیسر ۔وفات۔2005
منصور نعمانی ندوی،محمد ،مولوی ۔وفات۔1990
سروری عرفان اللہ روحی ۔وفات۔1998
مولانا قاری امیر حسن مظاہری ۔وفات۔2012
طالب دہلوی۔وفات۔1975


/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

اچھی اور سچی زبان کے بغیرتحریر دیرپا نہیں ہوتی : معصوم مرادآبادی

شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام توسیعی خطبہ

نئی دہلی 15 فروری شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ہر سال کی طرح امسال بھی توسیعی خطبے کا انعقاد کیا گیا۔ معروف صحافی اور ادیب جناب معصوم مرادآبادی نے ”ادب و صحافت میں زبان کی اہمیت“ کے موضوع پر گراں قدر خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ زبان خیالات کی ترسیل کے علاوہ تہذیبی اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ زبان انسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان فرق کرنے کا وسیلہ ہے۔ اچھی اور سچی زبان پر قدرت نہ ہو تو تحریر دیرپا نہیں ہوتی اور اپنی تاثیر کھو دیتی ہے۔ تحریر کی مشق اچھی تحریروں کے کثیر مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔ کثرت مطالعہ کے بغیر اچھی اور موثر تحریر لکھنا ناممکن ہے۔ مہمان مقرر نے مزید کہا کہ کفایت لفظی ہر قسم کی تحریر کے لیے ضروری ہے لیکن صحافتی تحریر میں کفایت لفظی کی خاص اہمیت ہے۔ ماضی میں وہی ادیب اور صحافی ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہے جنھیں کفایت لفظی کا ہنر آتا تھا۔ آج زبان کے تعلق سے اردو صحافت کی صورت حال خاصی بے راہ روی کا شکار ہے۔ صحافت میں ترسیل کی بنیادی اہمیت ہے لیکن درست زبان کے بغیر کامیاب ترسیل ناممکن ہے۔ صدر شعبہئ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر احمدمحفوظ نے صدارتی تقریر میں مہمان مقرر کی صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ صحافتی تحریر کے قارئین میں عوام و خواص دونوں شامل ہیں لیکن خواص کے بالمقابل عوام کی تعداد زیادہ ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کثرت مطالعہ کی بنا پر تخلیقی اور ادبی تحریروں سے زیادہ صحافتی تحریریں پڑھی جاتی ہیں۔ لہٰذا صحافی کو زبان کے تعلق سے زیادہ حساس اور ذمہ دار ہونا چاہیے۔ اگر غلط زبان کا احساس نہ کیا جائے تو اصلاح کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ اس لیے غلط زبان کا اعتراف کرنا اور غلطی کو درست کرلینا ذمہ داری کے احساس کا مظہر ہے۔ خطبے کی نظامت کنوینر پروفیسر شہزاد انجم نے انجام دی۔ شعبے کے استاد ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ آخر میں ڈاکٹر راہین شمع نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
اس خطبے میں پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر ندیم احمد، پروفیسر عمران احمد عندلیب، پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر روبینہ شاہین، ڈاکٹر خوشتر زریں ملک، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ کے علاوہ بڑی تعداد میں شعبے کے ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات موجو د تھے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

پروفیسر محمد حبیب اللہ غضنفر(وفات ۱۵ فروری ۱۹۷۳ء)۔۔۔ تحریر پروفیسر محمد ایوب قادری /channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات
مورخہ: 15 فروري
.............................

اکبر الہ آبادی۔وفات۔1921
افسر ماہ پوری (ظہرعالم صدیقی)۔وفات۔1995
حبیب اللہ خاں غضنفر۔وفات۔1973
عشرت حسین، میجر جنرل ڈاکٹر۔وفات۔1999
محمد امروہوی،سید ۔وفات۔1976
نصرت نعیمی(مولانا رجب علی خاں)۔وفات۔2015
مرزا غالب ۔وفات۔1869
مولانا عبید اللہ مظاہری بلیاوی۔وفات۔1989
حیرت بدایونی ،سید حسن۔وفات۔1975
جسٹس کریم اللہ درانی۔وفات۔1982

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

سے جی نہیں لگایا جو عام طور پر شاعروں کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو پڑھتے وقت ہمیں ایک عجیب قسم کا روحانی سکون نصیب ہوتا ہے۔ بقول خود:
میری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں، وہی دل جلوں کی کہانیاں
آخر میں کلیم عاجز کے بعض ایسے اشعار نقل کئے جاتے ہیں، جو زبان زد خاص و عام ہیں اور اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ ان لازوال شعروں کے خالق ڈاکٹر کلیم عاجز ہیں۔
دامن پہ کوئی چھینٹ،نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
…………………………………………
اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھر ملے
…………………………………………
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے

Читать полностью…

علم و کتاب

اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں ہے
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے
ڈاکٹر کلیم عاجز اردو شاعری میں میر کی شعری روایت کے سب سے بڑے امین ہیں۔ انہوں نے اردو کی کلاسیکی شاعری میں بیش بہا اضافہ کیا اور اپنی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں سے ہمارے شعری سرمائے کو مالا مال کیا۔
پروفیسر کنہیا لال کپور نے کئی مثالوں سے میر کی زبان و بیان کی یکسانیت کی جانب اشارے کئے لیکن خود کلیم عاجز میر تقی میر کی اس پیروی کے بارے میں کچھ یوں کہتے ہیں:
”میری زندگی میں خیال، بات اور شعر میں کوئی بعد یا فرق نہیں ہے۔ میں جس طرح جن الفاظ میں سوچتا ہوں، ان ہی الفاظ میں باتیں کرتا ہوں اور جن الفاظ میں باتیں کرتا ہوں، ان ہی لفظوں میں شعر کہتا ہوں۔فرق صرف ترتیب و ترکیب کا ہوتا ہے۔ اس ترتیب و ترکیب کو میں نے کتابوں سے حاصل نہیں کیا۔ یہ میرا اپنا ہے اور کسی کے مشورے سے بھی نہیں اپنایا گیا ہے۔ یہ میر کی پیروی نہیں۔ میں پیرو کسی کا نہیں …… اگر پیروی میرے مزاج میں ہوتی تو بہ آسانی غالب کی پیروی کرسکتا ہوں لیکن اتباع میری خمیر فطرت کے خلاف ہے۔ میر سے کسی قدر مشابہت ہے۔ یہ مشابہت فن سے نہیں زندگی سے آئی ہے، جس کا شعوری احساس بہت بعد میں مجھے ہوا۔“ (وہ جو شاعری کا سبب ہوا۔ صفحہ: 173-174)
کلیم عاجز کو شعر گوئی کا جو سلیقہ تھا، وہ ان کے ہم عصر بہت کم شعرا کو نصیب ہوا۔ وسیع مطالعے اور گہرے مشاہدے نے ان کی شاعری میں ایسے موتی پرو ئے تھے کہ ہر شعر ایک واقعہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ان کی غزلوں میں ترتیب خیال بھی ہے اور حسن کلام بھی۔ ان کے اشعار پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سامنے بیٹھے ہوئے گفتگو کررہے ہیں۔ ان کی گفتگو میں تصنع یا بناوٹ کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ فراق گورکھپوری ان کے اس حد تک گرویدہ تھے کہ ان کا کلام سن کر خود اپنا کلام بھول گئے تھے۔ کلکتہ میں بستر علالت سے 16نومبر 1975 کو رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری نے ڈاکٹر کلیم عاجز سے متعلق لکھا تھا کہ:
”میں اپنی زندگی کی اہم خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے جناب کلیم عاجز صاحب کا کلام خود ان کے منہ سے سننے کے موقعے ملے، اب تک لوگوں کی شاعری پڑھ کر یا سن کر پسندیدگی اور کبھی کبھی قدر شناسی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوتے رہے لیکن جب میں نے کلیم عاجز صاحب کا کلام سنا تو شاعر اور اس کے کلام پر مجھے ٹوٹ کر پیار آیا اور ہم آہنگی، محبت اور ناقابل برداشت خوشی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوگئے۔ ان کا کلام مجھے اتنا پسند آیا کہ مجھے تکلیف سی ہونے لگی اور کلیم عاجز صاحب پر غصہ آنے لگا کہ یہ کیوں اتنا اچھا کہتے ہیں۔ ان کے اس جرم اور قصور کیلئے میں انہیں کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ اتنی دھلی ہوئی زبان، یہ گھلاوٹ، لب ولہجہ کا یہ جادو جو صرف انتہائی خلوص سے پیدا ہوسکتا ہے، اس سے پہلے مجھے کبھی اس موجودہ صدی میں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا تھا۔ میں ان کا کلام سن کو خود اپنا کلام بھول گیا۔“
(’کلیم احمد عاجز: وہ ایک شاخ نہال غم‘، صفحہ آخر)
ڈاکٹر کلیم عاجز کے انتقال سے کوئی تین ماہ قبل ان کے اعزاز میں حیدر آباد دکن میں ایک تقریب برپا کی گئی۔ کلیم عاجز صاحب اپنی تمام تر جسمانی نقاہت کے باوجود وہاں تشریف لے گئے۔ راقم الحروف کو اس تقریب میں ڈاکٹر کلیم عاجز کے تعلق سے ایک مضمون پڑھنا تھا لیکن بوجوہ میں حیدر آباد نہیں جاسکا۔ اس تقریب میں کلیم عاجز صاحب کے انتہائی قریبی پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی مرتب کردہ کتاب ”کلیم احمد عاجز، وہ ایک شاخ نہال غم“ کا اجراء عمل میں آیا۔ تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل اس خوبصورت کتاب میں کلیم عاجز صاحب کی شاعری کا پس منظر بھی ہے اور ان کی تمام کتابوں کا تعارف بھی۔ کتاب میں پچیس سے زیادہ مشہور شعرا، ادبا، ناقدین اور اہل قلم کے مضامین ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کتاب کے آخری حصے میں ان کی کچھ غیر مطبوعہ غزلیں شامل ہیں، جو پہلی بار منظر عام پر آئی ہیں۔ یوں تو کلیم عاجز صاحب کے سینکڑوں اشعار لوگوں کو ازبر ہیں لیکن یہاں ان کا کچھ تازہ کلام حاضر ہے۔
میری تصویر ترے پاس ہے، دیکھ اور بتا
جب تجھے مجھ سے محبت تھی تو کیسا میں تھا
قرۃ العین نے گھر بیٹھے کہانی لکھ دی
حالانکہ آگ کے دریا سے جو گزرا میں تھا
…………………………………………
جب سے چوٹ لگی ہے دل پر، جان کو ہارے پھرتے ہیں
شہروں شہروں، گلیوں گلیوں مارے مارے پھرتے ہیں
عاجزؔ صاحب دیوانے ہیں شعرو سخن کیا جانیں
دکھڑا گاتے، گیت سناتے، رات گزارے پھرتے ہیں
…………………………………………
جھولی کی بھی کیا حاجت ہم جیسے فقیروں کو
ایک ہاتھ سے پانا ہے، ایک ہاتھ سے کھونا ہے

Читать полностью…

علم و کتاب

*قومی تعمیر، دستور سے نہیں، قانونِ شریعت سے ہوتی ہے*

حضرت علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: افرادِ قوم کی روزمرہ زندگی کا تعلق، قوانین سے ہوتا ہے نہ کہ دستور سے، اور قانونِ شریعت ہی کے ذریعہ، قومی تعمیر ہوسکتی ہے۔

مجلہ خصوصی، سرمایہ سلیمانیؒ/صفحہ: ۳۲
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

بسم اللّه الرحمن الرحيم
تصوف، بيعت اور سلسلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از: محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بهوپال كى ايكـ معلمه وداعيه محترمه فضا بنت اشفاق صاحبه نے سوال كيا ہے:
شيخ صاحب! تصوف اور بيعت كے بارے ميں بتائيں، كيا ہے بيعت ہونا؟ جب آپ كے پاس وقت ہو اس پر تفصيل سے روشنى ڈاليں، نيز تصوف كے سلسلوں كے متعلق بهى تفصيل سے لكهيں، ايكـ بار آپ نے بستان المحدثين پڑهاتے وقت بتايا تها، مگر اس ميں اختصار بہت تها۔

جواب

تصوف سے ميرى واقفيت بچپن سے ہے، ہندوستان كے كبار صوفيه كے ملفوظات اور ان كى تعليمات كا بار بار مطالعه كيا، مشائخ طريقت كى صحبت اختيار كى اور ان سے حسن اعتقاد بهى ركها، آكسفورڈ ميں بيس سال سے زياده عرصه تصوف كے سلسلوں، صوفيه كى خانقاہوں وغيره پر تحقيق كى، كئى بار تصوف اور سلسلوں كے متعلق كورسز پڑهائے ہيں، يه سب چيزيں اگر تفصيل سے لكهى جائيں تو ايكـ پورى جلد تيار ہوجائے، وقت كى تنگى كے باعث ابهى اس طرف آمادگى نہيں ہو رہى ہے، چونكه آپ نے سوال كيا ہے اس لئے ان اجزاء پر اس قدر ضرور لكهنے كى كوشش كروں گا جس سے آپ اور آپ جيسے دوسرے سائلين ومستفسرين كو اطمينان ہو جائے۔

تصوف كى حقيقت:
تصوف كے متعلق قرآن وسنت ميں كوئى نص نہيں ہے، اور نه صحابۂ كرام رضي الله عنہم سے اس كا ثبوت ہے، يه ايكـ اجتہادى معامله ہے، اور اسى حيثيت سے اس پر نگاه ڈالنى چاہئے، اجتہادى امور كے جانچنے كا معيار خدا كى كتاب اور اس كے پيغمبر كى سنت ہے، جو بات ان كے مطابق ہوگى انہيں اختيار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور جو ان كے مخالف ہو انہيں تركـ كردينا تقاضائے ايمان ہے۔
تصوف کچھ مقامات، احوال اور رسوم کا مجموعہ ہے، مقامات میں سے اکثر چیزیں قرآن وسنت سے ثابت ہیں، مثلا: شكر، صبر، قناعت، زہد، عبوديت، خوف، تقوى، تسليم ورضا وغيره، يه سب دين كے اصول ہيں، اور ان كى تحصيل مسلمانوں پر فرض ہے، ان كى تحصيل كا سب سے محفوظ راسته قرآن وسنت ہيں، ان كا گہرائى سے مطالعه كريں، ان كے بعد صحابۂ كرام رضي الله عنه اور تابعين عظام رحمہم الله كے احوال ہيں، انہيں پڑهنے سے قلوب پر رقت طارى ہوتى ہے، اور آخرت كى طرف رغبت ہوتى ہے، اس كے لئے سب سے اچهى كتابيں ہيں: حلية الاولياء، صفة الصفوة، سير اعلام النبلاء وغيره۔
تصوف كے احوال ورسوم قرآن وسنت سے ثابت نہیں، ان احوال ورسوم كى مثاليں ہيں: قبض وبسط، حزن وطرب، ہيبت وانس، سكر وصحو، ذوق وشرب، محو واثبات، تلوين وتمكين، وغيره، انہيں رسوم ميں مدارج ولايت: ابدال، اخيار، اوتاد، اقطاب، قطب الاقطاب وغوث وغيره بهى داخل ہيں۔
متقدمین کے یہاں حقائق و مقامات پر زور تھا، متاخرین میں بہت کم بزرگ ایسے ہیں جو احوال ورسوم سے آگے بڑھ سکے، عہد آخريں ميں مولانا رشيد احمد گنگوہى، مولانا اشرف على تهانوى، شاه وصى الله فتحپورى، اورمولانا سيد ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليہم نے سالكين كو مقامات كى طرف لانے كى كوشش كى، پر ان مخلصانه كوششوں سے اہل تصوف نے بہت كم فائده اٹهايا، اور بجائے مجاہده اور زہد وتقوى كے تصوف صرف چند شكلوں اور اصطلاحوں ميں گم ہو گيا۔

بيعت كى حقيقت:
بيعت اصل ميں اطاعت كا عہد ہوتا ہے، صحابه كرام رضي الله عنہم نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے ہاتهـ ميں اپنے ہاتهـ ركهكر آپ كى فرمانبردارى كا وعده كرتے، پهر يه بيعت بيعت خلافت وامارت كے مفہوم ميں استعمال ہونے لگى، خلفاء اور ان كے عمال كے ہاتهوں پر لوگ بيعت كرتے تهے، يوں بيعت سياسى وفادارى كا ہم معنى ہوگئى۔
مشائخ متقدمين كے يہاں بيعت كا رواج نہيں تها، ان كا سارا زور تعليم اور صحبت پر تها، متاخرين نے بيعت بهى تصوف ميں داخل كردى اور كچهـ لوگوں نے اسے جزو اساسى سمجهـ ليا، يه ان كى غلطى تهى، محققين كے نزديكـ بيعت تصوف كا لازمه نہيں، اصل چيز مشائخ كى صحبت اور ان سے تعليم اخذ كرنا ہے۔
اگر كوئى زاہد ومتقى شيخ مل جائے تو اس كى صحبت ضرور اختيار كرنى چاہئے، اگر بيعت بهى كرلے تو كوئى حرج نہيں، ورنه بغير بيعت كے بهى استفاده پر كوئى اثر نہيں پڑے گا۔
شيخ كے انتخاب ميں جلد بازى نہيں كرنى چاہئے، كيونكه دنيا دار اور جعلى شيوخ سے زمين بهرى پڑى ہے، شيخ كے اندر دو چيزيں خاص طور سے ديكهيں، ايكـ يه كه وه متقى ہو يعنى خدا سے ڈرتا ہو، محرمات ومعاصى سے بچتا ہو، اور طاعات ميں چست ہو، دوسرے يه كه وه زاہد ہو، يعنى اسے آخرت كا شوق ہو، اور دين كو دنيا كمانے كا ذريعه نه بنائے، ان دونوں صفات كا اجتماع نوادر ميں سے ہے۔
خواتين اس معامله ميں سخت احتياط سے كام كريں، قرآن وسنت پر تدبر كريں، اور صالحين كى زندگيوں كا مطالعه كريں، اور اگر كبهى كسى شيخ صالح وزاہد سے براه راست استفاده كرنا ہو تو اپنے شوہروں يا محارم كى معيت ميں جائيں، يه بدرجۂ تنزل ہے، ورنه خواتين اس سے دور رہيں تو يه ان كے تقوى كى علامت ہے۔

Читать полностью…

علم و کتاب

پروفیسر محمود شیرانی(وفات : ۱۴ فروری ۱۹۴۶ء) تحرہر ڈاکٹر سید عبد اللہ

Читать полностью…

علم و کتاب

تبصرات ماجدی 169) لغت جدیدہ
از مولانا سید سلیمان ندوی
دارالمصنفین اعظم گڑھ

موضوع نام سے ظاہر ہے عربی زبان خصوصا مصر و شام میں دیکھتے دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی آج محض قدیم عربی زبان و ادب کے سہارے ممکن نہیں کہ کوئی شخص اخبارات کو پوری طرح سمجھ لے۔ ملک کے مشہور فاضل و ادیب مولانا سید سلیمان ندوی صاحب نے آج سے پچیس سال قبل اس ضرورت کو محسوس کرکے تقریبا چار ہزار جدید عربی کی فرہنگ ترتیب وار معہ ان کی تشریح و تحقیق اور مفید دلچسپ تمہیدی مطالب کے شائع فرمائی تھی۔ عربی ادب کی دنیا اس ربع صدی کی مدت میں اور آگے بڑھ گئی۔ کتاب کا نیا ایڈیشن نکلنا ضروری تھا۔ مولانا کے ایک شاگرد رشید مولوی مسعود عالم ندوی مدیرالضیاء مرحوم اور ادیب دارالعلوم ندوہ نے اس کام کے لیے وقت نکالا اور اب یہ کتاب مزید ایک ہزار الفاظ کے اضافہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ عربی کے جدید الفاظ اور تراکیب پر موصوف کا تیس صفحہ کا پرمغز و مبصرانہ مقالہ خصوصیت کے ساتھ داد طلب ہے۔ نفس لغت میں کہیں کہیں انگریزیت ذرا زیادہ آ گئی ہے لیکن اس کے سوا چارہ ہی نہ تھا۔ جو لوگ جدید مصری تالیفات، رسائل اور اخبارات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں نیز صحیح و غلط کا امتیاز مٹا نہیں دینا چاہتے ہیں ان کے حق میں کتاب کا وجود ایک نعمت ہے۔

صدق نمبر 16 جلد 3 مورخہ یکم اکتوبر 1937
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*کم ترین*
نہرو سینٹر میں قیصر الجعفری کی کتاب کا اجرا کرتے ہوئے صدر محفل موسیقار اعظم نوشاد کو انھوں نے لفظ " کمترین" سے مخاطب کیا تھا۔ بعدہ ہم نے اُن سے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب ! کمترین کے آپ کیا معنی ہم لیتے ہیں؟
جواب تھا: یہاں اس لفظ کو بہترین کی ضد نہ سمجھے، بہترین کی ضد کیلئے بدترین موجود ہے۔ کمترین کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنے وقت میں، اپنے عہد میں، اپنے میدان میں جو کم ہوں اور کم سے بھی کم ہوں۔ بتائیے ، ہمارے معاشرے میں نوشاد صاحب جیسے کتنے ہیں۔؟ ۔ اب ہم سوچتے ہیں تو "ظ" صاحب کل بھی کم ترین محسوس ہوتے ہیں اور آج تو کال ہی کال ہے۔۔۔
آج کہاں ہے کوئی ظ جیسا ؟ ۔۔۔ انالله وانا اليه راجعون "
ظ انصاری۔ پرسہ۔۔۔ تحریر ندیم صدیقی
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*🌹حق. اور باطل کی پہچان کامعیار🌷*

حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری
خلیفہ ومجاز قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله تعالى نے ارشاد فرمایا کہ
اگر کسی مسئلہ کے حق و باطل ہونے میں شبہ ہو اور معلوم نہ ہو کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر

اس وقت یہ دیکھاجائے کہ کس کی طرف اہل نظر اور مشائخ ہیں اور کس کی طرف بازاری لوگ اور عوام ؟

ارشاد فرمایا کہ جدھر عوام ہیں اگرچہ وہ بظاہر دینی اور روحانی کام معلوم ہورہا ہے لیکن اس سے بچو اور جدھر اہل اللہ اور مشائخ ہوں اس کی طرف ہو جاؤ، اس میں ضرور خیر ہوگی؛ اس لئے کہ مشائخ کا دل ظلمت و تاریکی کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔

( تذکرۃ الخلیل ص 250)

Читать полностью…

علم و کتاب

معین احسن جذبی(وفات ۱۲ فروری ۲۰۰۵ء)۔۔ تحریر انور عظیم

Читать полностью…

علم و کتاب

*پھول اور گوبر*

برادر محترم محمد سعید انصاری مرحوم ( نیوز ایڈیٹر روزنامہ انقلاب) کا بیان کردہ ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ سڑک پر دو قلم کار دوست چل رہے تھے۔ الف نے سب سے کہا: ارے دیکھو، گوبر میں گلاب پڑا ہے اور بالکل تازہ شاید کسی پری وش کے جوڑے سے گر گیا ہے، افسوس گلاب ۔۔۔ اور گوبر میں !! ب نے الف کی پوری بات جب سن لی تو مسکرا کر بولا: حضرت! آپ کی فطرت بھی خوب ہے ہمیشہ منفی تصویر ہی آپ کو نظر آتی ہے آپ نے گوبر میں گلاب تو دیکھ لیا اور فوراً اُس کی روداد بیان کرنے میں لگ گئے جبکہ دوسرے ہی لمحے ایک مکھی اڑتی ہوئی آئی اور وہ گوہر پر نہیں، گلاب پر جا بیٹھی۔ آپ نے وہ منظر نہیں دیکھا۔
حضرت والا ! آپ سے تو اچھی نظر اُس مکھی کی تھی۔ جس نے گوبر سے اجتناب کیا۔۔۔ اور گلاب سے اکتساب - ہائے افسوس آپ کی نظر اور گوبر ۔۔۔!!
پرسہ۔۔۔ ندیم صدیقی
/channel/ilmokitab

Читать полностью…
Subscribe to a channel