علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
عبد الرحمن صدیقی (وفات ۱۲ فروری ۱۹۸۵ء)۔۔۔ خاکہ نگار: ضیاءالدین احمد برنی
Читать полностью…مولانا عبد الماجد دریابادی کی سچی باتیں زیادہ سے زیادہ احباب کو شیر کرنا نہ بھولیں۔
Читать полностью…سچی باتیں (۱۱؍نومبر ۱۹۳۲ء)۔۔ موت کا وقت
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
پچھلے مہینہ کے وسط میں الہ آباد سے خبر آئی، کہ ہائیکورٹ کے ایک مشہور جج، مسٹر بنرجی، اچھے خاصے توانا وتندرست، ایک دعوت سے فارغ ہوکر، رات کو ساڑھے گیارہ بجے سونے لیٹے، اور سوتے کے سوتے رہ گئے۔صبح آدمی جگانے گیا، تومعلوم ہوا، دیرہوئی روح پرواز کرچکی ہے!…… الہ آباد صوبہ کا صدر مقام، بڑے سے بڑے ڈاکٹر موجود، فون پر خبر پاکر، موٹر میں، دَم بھر میں آسکتے تھے۔ جج صاحب خود اتنے معزز عہدہ پر۔ ہر دوا اور ہر تدبیر پر سب کچھ خرچ کرسکتے تھے۔ پر جب آنے والا وقت آیا، تو گھنٹہ آدھ گھنٹہ نہ سہی، منٹ دومنٹ کی بھی مہلت نہ ملی! علاج وتدبیر کے سارے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے، اور صوبہ کے دار الحکومت کا یہ معزز ترین شہری اپنی عالیشان اور سجی سجائی کوٹھی کے اندر، دنیا سے رخصت ٹھیک اُسی بے کسی، بے بسی اور بیچارگی سے ہوا، جس طرح ایک غریب سا غریب دہقانی بیچارہ اپنے جھوپڑے میں تڑپ تڑپ کر جان دیتاہے!
مہینہ کا خاتمہ ہورہاتھا، کہ خبر آئی، سر علی امام، اسی طرح سوتے کے سوتے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ وقت کے ایک کامیاب ترین بیرسٹر انگریزی اور اُردو دونوں کے ایک سحر بیان مقرّر (آریٹر)، تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایک مسلّم لیڈر، کبھی مسلم لیگ کے صدر، اور آخر زمانہ میں ایک نیشنلسٹ سردار، نیز ہائی کورٹ کے جج، صوبۂ بہار کے ایکزیکٹو کونسلر، حکومت ہند کے وزیر قانون، مملکت آصفیہ کے وزیراعظم، کے ، سی، ایس، آئی اور نواب مؤیّد الملک کے خطاب سے سرفراز، جاہ ومنصب ، دولت وثروت کے تمام مراتب سے ممتاز۔ لارڈ ہارڈنگ کے عزیز دوست، گورنروں ، وائسرایوں، پارلیمنٹ کے ممبروں کے شریکِ راز، لاکھوں کی جائداد کے مالک۔ رانچی میں رات کو سونے لیٹے، تو زندہ وسلامت ، صبح کو دیکھے گئے، تو مردہ وبیجان!کوئی ڈاکٹر، کوئی طبیب، کوئی عزیز، کوئی تیماردار جب تک پہونچے پہونچے،ملک الموت پہونچ گئے، اور ’تدبیر‘ ایک بار پھر ’تقدیر‘ کے مقابلہ میں شکست کھاکررہی!……خیال یہ رہاکرتاہے، کہ روپیہ پاس ہو، تو موت کا مقابلہ جی کھول کر کیاجاسکتاہے، اعلیٰ سے اعلیٰ دوائیں منگائی جاسکتی ہیں، بہتر سے بہتر حکیم اور ڈاکٹر بلائے جاسکتے ہیں، زندگی اور صحت ہر قیمت پر خریدی جاسکتی ہے۔ واقعات کا ہاتھ، خداجانے کتنی بار، اس وہم وتخیل کو پاش پاش کرچکاہے، اور آئندہ بھی کتنی بار کرتارہے گا!
غافل اور مغرورانسان ، یہ سب کچھ دیکھتاہے، اور آنکھیں بند کرلیتاہے۔ یہ سب کچھ سنتا ہے اور سُنی ان سُنی کردیتاہے۔ یہ سب کچھ جانتاہے، اور انجان بن جاتاہے ۔ قرآن میں یہ پڑھتاہے ، کہ ’’جب کسی کا وقت مقرّر آجاتاہے، تو ایک گھڑی کے لئے بھی اُسی میں آگا پیچھا نہیں ہوپاتاہے، اور سمجھتا ہے کہ یہ بیان دوسروں کی بابت ہے، ہم کو اس سے کیا تعلق۔ جسٹس بنرجی اور سر علی امام کی اچانک وفات کی خبریں سنتاہے، اور دل میں کہتاہے، کہ وہ مرے ہیں، کچھ ہم تھوڑے ہی مرگئے ہیں۔ ہمیں اتنی جلد کیوں موت آنے لگی، ابھی تو ہم کو بہت روز جیناہے، ابھی ہماری عمر ہی کیاہے، اور فلاں فلاں کام کرنے، کے ہیں۔ اورموت جب آئے گی بھی، تو اس قدر اچانک کیوں آنے لگی، پہلے بیمار پڑیں گے، فلاں فلاں مسیحائے وقت طبیب، اور فلاں فلاں حاذق ڈاکٹر موجود ہیں، اُن کا علاج کریں گے، فلاں فلاں تدبیریں اختیار کریں گے۔ اطمینان سے عزیزوں، دوستوں، تیمارداروں کے درمیان، وصیتیں کریں گے اورفارغ البالی کے ساتھ جان دیں گے……خداجانے کتنوں کو آدم ؑ وبنی آدم کا وہ مردود اور ازلی دشمن اچانک اب تک اسی طرح غفلت میں ہلاک کرچکاہے، اور آئندہ بھی کتنوں کو اسی دھوکے میں اپنا شکار بنائے ہوئے رہے!
Https://telegram.me/ilmokitab
کلام شاعر بزبان شاعر
اقبال عظیم
ہم نے سیکھا ہے اذان سحری سے یہ اصول
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=hum-nay-seekha-hai-azan-sahari-say-yeh-usul, Hum Nay Seekha Hai Azan Sahari Say Yeh Usul
مزید کلم سننے کے لئے
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=&c=&s=iqbal-azeem&t=
آج کی وفیات
مورخہ: ۱۰ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسد القادری،مولانا (سید ابو الحیات )۔وفات۔1992
جمال احسانی (محمد جمال عثمانی)۔وفات۔1998
سلطان رفیع اللہ والے ۔وفات۔2002
صادقین (سید صادقین احمد نقوی)۔وفات۔1987
قیسی رام پوری (خلیل الزماں)۔وفات۔1974
کجن بیگم (امام باندی)۔وفات۔2000
محمد متین خطیب،مولانا ۔وفات۔1982
مولوی عبد الرزاق کانپوری ۔وفات۔1948
مولانا نثار احمد قاسمی۔وفات۔2010
مولاناسید وقار علی بجنوری۔وفات۔2012
سلطان عبد الحمید الثانی۔وفات۔1928
امجد سلام امجد۔وفات۔1923
فاطمہ ثریا بجیا۔وفات۔1916
/channel/ilmokitab
ظ۔انصاری مرحوم سے آخری ملاقات بمبئی کے قلابہ علاقہ میں واقع ان کے فلیٹ پر ہوئی تھی۔میں نے ان سے اس دوران ان کے نام کا پس منظر جاننا چاہا تو انھوں نے بتایا کہ میں میرا اصل نام ظل حسنین زیدی ہے اور میں سہارنپور کے محلہ انصاریان میں پیدا ہوا تھا۔ جب میں نے لکھنا شروع کیا تو اپنے نام کا پہلا حرف ”ظ“ لے کر محلہ انصاریان کی مناسبت سے ”ظ۔انصاری“ لکھنا شروع کردیا۔ یہی آگے چل کر مشہور ہوگیا۔ مگر اتنے مختصر نام کے باوجود بمبئی والے انھیں صرف ”ظوئے صاحب“ کہا کرتے تھے۔ان پر لکھی گئی ایک کتاب کا نام بھی ”ظ شناسی“ ہے۔ ظ۔انصاری کی پیدائش سہارنپور میں 6/فروری 1925کو ایک شیعہ مذہبی گھرانے میں ہوئی تھی اور انھوں نے دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی، لیکن زندگی ایک مارکسی مجذوب کے طورپر گزاری۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو انہوں نے کمیونزم سے توبہ کرلی تھی۔اس دوران انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جس وقت روسی فوجیں کابل میں داخل ہوئیں تو مجھے ایسا لگا کہ یہ میرے سینے پر چل رہی ہیں۔
صور من حياة الصحابة- حذيفة بن اليمان بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت باشا رحمه الله
Читать полностью…تعارف کتاب: حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
- ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب : حدیث پر مستشرقین کے
اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
مصنف : پروفیسر حافظ حسن عامر
صفحات : 260 قیمت : 800 روپے
ناشر : ورلڈ ویو پبلشرز لاہور
رابطه : 03333585426
مغربی دنیا میں اسلامی موضوعات پر مستشرقین نے وسیع پیمانے پر تحقیقات کی ہیں اور مختلف موضوعات پر دائرۃ المعارف (Encyclopedia) تیار کیے ہیں۔ انھی میں سے ایک ”شارٹر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام“ ہے، جسے انیسویں صدی کے دو مشہور مستشرق ہملٹن الیگزینڈر وسکین گب المعروف ایچ۔ اے۔ آر۔ گب، اور جوہنسن ہنڈرک کریمرز معروف بہ جے۔ ایچ۔ کریمرز نے مرتب کیا ہے۔ مذکورہ انسائیکلو پیڈیا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1935ء سے لے کر 2008ء تک تین زبانوں میں اس کے 41 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب ”حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہShorter Encyclopedia of Islam کے تناظر میں“ پروفیسر حافظ حسن عامر نے حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اسی انسائیکلوپیڈیا کے تناظر میں لیا ہے۔ یہ کتاب دراصل پروفیسر عامر کا وہ تحقیقی مقالہ ہے، جس پر جامعہ کراچی نے انھیں ایم۔فل۔ (علومِ اسلامیہ) کی سند تفویض کی ہے۔ اس مقالے میں فاضل مقالہ نگار نے احادیث اور روایت و درایتِ حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا قرآن و سنت کی روشنی میں علمی و تحقیقی جواب دیا ہے اور عہدِ حاضر میں ردِّ استشراق کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی حدیث و سنت کی اسلام میں حیثیت، تحریکِ استشراق کے تاریخی پس منظر، شارٹر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے تعارف، اس کے منہجِ تحقیق، اسلوب، مصادرِ تحقیق اور معیارِ تحقیق پر علمی انداز میں نقد بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں یہ کتاب استشراق شناسی میں معاون ثابت ہوگی۔
شارٹر انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے اس علمی و تحقیقی مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس انسائیکلوپیڈیا کے مؤلفین نے بعض بالکل بدیہی معاملات کے بارے میں متعصبانہ طور پرمنفی رائے کا اظہار کیا ہے اور بعض ایسی صاف اور واضح چیزوں کی انتہائی غلط تعبیرات کی ہیں، جو عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہیں اور علمی اور تحقیقی اصولوں سے بھی متعارض ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شارٹر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مؤلفین نے براہِ راست قرآن و سنّت یا کتبِ حدیث سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ ثانوی مآخذ اور اپنی ہی کتابوں پر زیادہ انحصار کیا ہے۔ پروفیسر عامر نے اس بات کو نمایاں طریقے سے اجاگر کیا ہے اور علمی دنیا کے سامنے شارٹر کے مؤلفین کی نام نہاد تحقیق کا پردہ نہایت عمدگی سے فاش کیا ہے۔
پروفیسر حافظ حسن عامر ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ ان دنوں ڈی۔ جے۔ سندھ گورنمنٹ سائنس کالج میں بحیثیت صدر شعبہ اسلامیات خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی قسم کے مزید علمی اور تحقیقی کاموں سے تشنگانِ علم کو سیراب کرتے رہیں گے۔
کتاب ورلڈ ویو پبلشرز لاہور نے حسبِ روایت سلیقے سے شائع کی ہے اور قیمت بھی مناسب ہے۔
مغربی دنیا میں اسلامی موضوعات پر مستشرقین نے وسیع پیمانے پر تحقیقات کی ہیں اور مختلف موضوعات پر دائرۃ المعارف (Encyclopedia) تیار کیے ہیں۔ انھی میں سے ایک ”شارٹر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام“ ہے، جسے انیسویں صدی کے دو مشہور مستشرق ہملٹن الیگزینڈر وسکین گب المعروف ایچ۔ اے۔ آر۔ گب، اور جوہنسن ہنڈرک کریمرز معروف بہ جے۔ ایچ۔ کریمرز نے مرتب کیا ہے۔ مذکورہ انسائیکلو پیڈیا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1935ء سے لے کر 2008ء تک تین زبانوں میں اس کے 41 ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب ”حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہShorter Encyclopedia of Islam کے تناظر میں“ پروفیسر حافظ حسن عامر نے حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ اسی انسائیکلوپیڈیا کے تناظر میں لیا ہے۔ یہ کتاب دراصل پروفیسر عامر کا وہ تحقیقی مقالہ ہے، جس پر جامعہ کراچی نے انھیں ایم۔فل۔ (علومِ اسلامیہ) کی سند تفویض کی ہے۔ اس مقالے میں فاضل مقالہ نگار نے احادیث اور روایت و درایتِ حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا قرآن و سنت کی روشنی میں علمی و تحقیقی جواب دیا ہے اور عہدِ حاضر میں ردِّ استشراق کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی حدیث و سنت کی اسلام میں حیثیت، تحریکِ استشراق کے تاریخی پس منظر، شارٹر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے تعارف، اس کے منہجِ تحقیق، اسلوب، مصادرِ تحقیق اور معیارِ تحقیق پر علمی انداز میں نقد بھی کیا ہے، جس کی وجہ سے اس کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں یہ کتاب استشراق شناسی میں معاون ثابت ہوگی۔
تعارف کتاب: نعت نامے بنام صبیح رحمانی
- ڈاکٹر داؤد عثمانی
کتاب : نعت نامی بنام صبیح رحمانی
ترتیب و : ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
تحقیق
صفحات : 866
قیمت : 3000 روپے
ناشر : نعت ریسرچ سینٹر
رابطه : 03322668266
”نعت نامے بنام صبیح رحمانی“ کا جدید ایڈیشن مع اصلاحات و اضافات ہمارے پیش نظر ہے۔ یہ مجموعہ مکاتیب نعتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے بارے میں ایک ایسے اہم عہدِ ادب کی جھلک لیے ہوئے ہے جو بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے یعنی دو صدیوں کے درمیان نعت کے حوالے سے اُن درخشاں سالوں پر محیط ہے جن میں صنفِ نعت اور اس سے متعلقہ موضوعات و مسائل کے حوالے سے رجحان ساز ادبی کام ہوا۔ ویسے تو نعت کے حوالے سے گزشتہ صدی کے آخری ربع میں تنقیداتِ نعت اور منتخباتِ نعت کے حوالے سے کئی کتابیں اور رسائل کے نعت نمبر چھپنا شروع ہوگئے تھے، مگر اس صنف… جسے بعض ناقدین اور مدیران ’موضوعِ محض‘ سمجھ کر مسلسل نظرانداز کیے ہوئے تھے… کے فنی محاسن اور اعلیٰ تخلیقی اقدار کے حامل نمونوں کی موجودگی کے باعث اب اِس کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ایسا صنفِ نعت کی تخلیق، تنقید، تدوین اور تحقیق میں مقدار اور معیار دونوں حوالوں سے ہوا اوراِن عشروں میں اس صنف نے سال بہ سال اور عشرہ بہ عشرہ اپنے سفر کا ہر قدم جست نما انداز میں طے کیا۔
”نعت نامے بنام صبیح رحمانی“ کی اشاعتِ اول جولائی 2014ء میں ہوئی تھی جس میں 185 مکتوب نگاروں کے 500 سے زائد خطوط شامل تھے۔ اہلِ علم و دانش بالخصوص وابستگانِ نعت کی جانب سے اس کی بھرپور پذیرائی اور تحسین کے بعد اس کی جدید اشاعت میں 219 اہلِ علم کے قریباً ایک ہزار خطوط شامل ہیں۔ اس ترتیب و انتخاب میں کتابی سلسلہ ”نعت رنگ“ کے مدیر سید صبیح رحمانی (جو بحیثیت ایک نعت خواں، نعت گو شاعر اور ادیب، نعتیہ ادب کے فروغ اور نقدِ نعت کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں) کے نام لکھے گئے ایسے مکاتیب کو ترجیحاً پیش نظر رکھا گیا ہے جو علمی، ادبی، تحقیقی، تنقیدی نکات پر مشتمل ہیں۔
معروف محقق اور مورخ ڈاکٹر معین الدین عقیل کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ”مشاہیر کے مکاتیب کے مجموعے یا انتخابات تو بکثرت شائع ہوتے اور زیرِ مطالعہ آتے رہے ہیں لیکن موضوعاتی مکاتیب یا مکاتیب کو موضوعات کے تحت یکجا کرنے اور انھیں بطور ماخذ استعمال کرنے کا خیال ہماری اس روایت میں یکسر انوکھا اور اسی اعتبار سے مفید بھی ہے۔ اب نعت کا اور اس کے فن و رجحانات کا مطالعہ ان مکاتیب کی روشنی میں بھی کیا جاسکتا ہے، جو اس مجموعے میں شامل ہیں۔ اس مجموعے کو مزید افادیت سہیل شفیق صاحب نے اپنے اہتمام سے بخشی ہے، جنھیں جمع و ترتیب اور حاشیہ نگاری کا یوں بھی خوب سلیقہ ہے۔ متن کی ترتیب اور ضروری قطع و برید سے موضوع کو نمایاں کرنے میں ان کا کمال یہاں ظاہر ہے، پھر اس پر مستزاد ان کی کاوشِ خاص کے سبب مکتوب نگاروں اور متن کی موضوعی شخصیات پر تعارفی و تصریحی شذرات اس مجموعے سے استفادہ کرنے والوں اور ساتھ ہی رجال سے عمومی دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مزید مفید ثابت ہوں گے۔ اپنی موضوعی افادیت کے باعث یہ مجموعہ ہر طرح خوش آئند ہے اور اسے بصداقتِ دل خوش آمدید کہنا چاہیے۔“
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ بارے، الفاظ کی ہجرت کا بیاں ہوجائے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
اِلٰہ آباد (بھارت) سے تعلق رکھنے والے ممتاز ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم نے نوی ممبئی (بھارت) سے تعلق رکھنے والے ماہرِ زبان جناب نادر خان سرگروہ کی، گزشتہ جمعے کے کالم میں شائع ہونے والی، رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا تبصرہ ارسال فرمایا ہے:
’’نادر خان سرگروہ صاحب کا یہ فرمانا درست نہیں ہے کہ لفظ ’نو‘ اصلاً سنسکرت کا ہے۔ ماہرین اشتقاقیات اس کو اصلاً پروٹو اِنڈو یورپین (PIE) کا بتاتے ہیں۔ یعنی اِس کا وجود اُس زبان میں تھا جس سے ہند، ایران اور یورپ کی تمام قدیم زبانیں نکلی ہیں۔ ’نو‘ کی شکلیں یونانی، لاطینی، روسی، فارسی، سنسکرت اور حیثی (Hittite) اور ان سے مشتق تمام جدید زبانوں میں موجود ہیں۔ ہم کسی لفظ کو اصلاً سنسکرت کا تب تسلیم کرتے ہیں جب یا تو سنسکرت سے پہلے اس کا وجود ثابت نہ ہو، یا سنسکرت سے نسبتاً نئی زبان میں اس کا جانا سمجھ میں آئے۔ سنسکرت پرانی فارسی کے مقابلے میں لازماً قدیم تر ہو، ایسا تو ہے نہیں‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کی بات دل کو لگتی ہے۔ ’’ابتدائی ہند یورپی ہجرت‘‘ سے جو زبانیں وجود میں آئی ہیں ان میں بہت سے الفاظ مشترک یا مماثل ہیں۔ ’نو‘ بھی اُنھیں میں سے ایک ہوگا۔ لوگوں نے ہجرت کی تو اُن کے ساتھ اُن کے الفاظ نے بھی ہجرت کی۔ ہند یورپی زبانیں ’مادر پدر آزاد‘ نہیں تھیں۔ مادر، مدر، مُوٹر، ماں اور ماتا وغیرہ میں صوتی ہم آہنگی ہے۔ یہی ہم آہنگی فادر، فاٹر، پدر، پِتا، پاسٹر اور پادری وغیرہ میں بھی مل جائے گی۔ اسی طرح عربی میں ایک لفظ ہے ’سَرِی‘ جس کا مطلب ہے ’صاحبِ شرف‘۔ یہی لفظ سنسکرت اور ہندی میں ’شری‘ ہے، فارسی میں ’سردار‘ اور انگریزی میں ‘Sir’ یا ‘Sire’۔ ماہرین اشتقاقیات نے مشترک الفاظ کی ایک طویل فہرست بنا رکھی ہے۔
انسانِ اوّل کی تخلیق کے مراحل اور پہلے انسان کے ’ہبوط‘ (آسمان سے زمین پر نزول) کا مستند ترین علم ہمیں قرآنِ مبین سے ملتا ہے۔ باقی باتیں ظن، قیاس، گمان اور تخیل کا شاہکار ہیں۔ سیدنا آدم علیہ السلام ’علم الاسما‘ سے بہرہ مند ہوکر زمین پر اُترے تھے۔ انھیں وحیِ الٰہی کی رہنمائی بھی حاصل تھی۔ زمین پر زندگی کا آغاز علم کے بغیر نہیں ہوا۔ متبحر عالِمِ لسانیات و اشتقاقیات مولانا ابوالجلال ندوی لکھتے ہیں:
’’دیلمی نے مسندِ فردوس میں روایت کیا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت مجھے آب و گِل کی حالت میں دکھائی گئی اور آدم علیہ السلام کی طرح اس کو بھی تمام اسما کی تعلیم دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا نے الہامِ طبعی کے ذریعے سے انسان کو بولنا سکھایا، یعنی ہمارے جبلی خصائص اورفطری قویٰ میں سے بعض ایسے ہیں جن کے ماتحت ہم کو فطرتاً بولنا آیا اورجن نوامیسِ فطرت کے ماتحت ہم اپنی زبانیں سیکھتے ہیں ان ہی کے ماتحت دنیا کی پہلی آبادی نے بھی بولنا شروع کیا‘‘۔ (اعلام القرآن۔ ص: 75)
نسلِ انسانی کے آغاز پرآدم ؑ کے بیٹوں کی زبان ایک ہی تھی۔ جوں جوں شعوب وقبائل بنتے گئے، زمان و مکان کا فرق بڑھتا گیا اور دور دراز خطوں تک جا جاکر بستیاں بسانے والے بنی آدم کے مابین طویل جغرافیائی فاصلوں نے جنم لیا… لہجے، تلفظ اور الفاظ کی شکلیں بدلتی گئیں۔ مختلف خطوں اور مختلف نسلوں کی زبانوں میں ارتقا کی رفتار بھی مختلف رہی۔ ابتدائی حروفِ ابجد (ا ب ج د) جوعبرانی میں آلف، بیت، گیمل اور دالِت ہیں، جب یونان پہنچے تو وہاں الفا، بِیٹا، گمّا اور ڈیلٹا (Alpha,Beta,Gamma,Delta,)ہو گئے۔
علم الاشتقاق ہمارے ان کالموں کا موضوع نہیں۔ یہ خشک خیالات تو برسبیلِ تذکرہ طبع ہوگئے۔ ہمارا موضوع تو اُردو زبان کی بوقلمونیاں ہیں۔’بوقلمونیاں‘ کا لفظ سنتے ہی انگشتِ شہادت اور انگوٹھے کی مدد سے نتھنے بند کر کے بھاگنے نہ لگیے گا۔رُکیے۔ بوقلموں فارسی لفظ ہے۔ اصلاً یہ ایک قسم کا نفیس زربافت ریشمی کپڑا ہے جو ہر آن اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ اسے ’دیبائے رومی‘ بھی کہتے ہیں۔ہر لحظہ رنگ بدلنے کی وجہ سے گرگٹ کے لیے بھی بولاجاتا ہے۔منشور (Prism) سورج کی شعاع کو سات رنگوں میں بانٹ کر بکھیر دیتا ہے۔ ان دھاریوں کاسائنسی نام ’طیف‘ ہے۔ اس کو بھی بوقلمون کہا جاتا ہے۔ بچوں کے کھیلنے کو ایک نلکی میں کئی رنگوں کے شیشے کے ٹکڑے بھر دیے جاتے ہیں۔ اس نلکی کو گھمانے پھرانے سے مختلف رنگوں کی نت نئی شکلیں بنتی رہتی ہیں۔ یہ بھی بوقلمون ہے۔غرض، رنگا رنگی اور نیرنگی کو بوقلمونی کہتے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی افسانہ نگار اور اُردو کی معلمہ محترمہ عطیہ یوسف نے سوال کیا ہے:’’بارے اورطور کا استعمال کیسے ہوتا ہے؟ اس بارے کیا خیال ہے؟ یا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ چیز اس طور استعمال ہوتی ہے یا یہ چیز اس طور پر استعمال ہوتی ہے؟‘‘
اعجاز صدیقی(وفات ۹ فروری ۱۹۷۸ء)۔۔۔ تحریر شاہد عمادی
Читать полностью…*جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( 9) مسلکی اختلاف کس حد تک؟ ۔۔۔ ڈاکٹر ف عبد الرحیم*
بر صغیر کے مسلمانوں میں مسلکی بنیاد پر آپس میں منافرت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لیکن اس کو اس قدر بڑھا دینا کہ مخالف مسلک والوں کی دینی منفعت متاثر ہو جائے اور اس کو دین داری سمجھنا کہاں تک صحیح ہے ؟ ایک بار کا واقعہ ہے کہ مملکت سے سعودی علماء کا ایک وفد ہندوستان گیا ہوا تھا۔ را قم الحروف بھی ان کے ساتھ تھا۔ وفد ایک شہر پہنچا تو ان سے دو مسلک کے لوگ ملنے آئے اور دونوں نے اپنے اپنے مدرسے میں آنے کی دعوت دی جسے وفد نے قبول کر لیا۔
دوسرے دن ایک مدرسے کے لوگ وفد کو اپنے یہاں لے گئے ، مدرسے کی زیارت ہوئی، جلسہ ہوا، تقریریں ہوئیں۔ جب وفد وہاں سے نکل کر دوسرے مدرسہ کی طرف جانے لگا اور پہلے مدرسے والوں کو پتا چل گیا کہ وفد کہاں جارہا ہے، تو انہوں نے وفد والوں سے کہا کہ ہم آپ کو اپنی گاڑی میں پہنچا دیتے ہیں۔ بس راستے میں ایک خوبصورت جگہ پڑتی ہے اس کی سیر بھی کر دیتے ہیں۔ وفد والے مان گئے۔
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی اور دکھ بھی ہو گا کہ یہ لوگ وفد کو ایک مندر لے گئے اور وہاں ان کو گھمانے میں اتنی دیر لگادی کہ دوسرے مدرسہ کے پروگرام کا وقت ختم ہو گیا۔ کیا یہ عمل کسی بھی ناحیہ سے ابتغاء مرضاة اللہ کے زمرہ میں آسکتا ہے؟ فإلى الله الْمُشْتَكَى ۔
Https://telegram.me/ilmokitab
بورڈ آویزاں ہیں۔ لیکن مقدمے بازی کے سبب یہ عمارت اب کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہے۔
کھنڈربتارہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی
/channel/ilmokitab
یوم وفات (7فروری پر خصوصی)
یونس دہلوی کی یاد میں
معصو مرادآبادی
آج معروف فلمی و ادبی رسالے ’شمع‘ کے ایڈیٹر یونس دہلوی کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 7فروری 2019کو دہلی سے متصل گڑگاؤں میں آخری سانس لی۔ ’شمع‘ کی بنیاد یوں تو 1939میں حافظ یوسف دہلوی نے ڈالی تھی لیکن اس کو بلندیوں تک لے جانے کا کام ان کے بڑے فرزند یونس دہلوی نے انجام دیا۔ اپنے مزاج کی نفاست، ذوق لطیف، پیشہ ورانہ مہارت کی مدد سے انھوں نے ’شمع‘ کو خوب سے خوب تر بنایا۔ میں نے چونکہ دہلی میں اپنے کیریئر کا آغاز ادارہ ’شمع‘ سے ہی کیا تھا، اس لیے وہاں کی پوری تصویر میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ میں نے مہینوں ’شمع‘ کے ہرے بھرے خاندان اور اس کی کامیابیوں کو بڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھاتھا۔ میری یادوں میں آج بھی 45 سال پہلے کے ’شمع‘ کے دفتر کی بہت سی دلکش چیزیں محفوظ ہیں۔ ’شمع‘ نے برصغیر کی فلمی وادبی صحافت میں اپنی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا ریکارڈ قائم کیاتھا۔ ہندوستان ہی نہیں پاکستان میں بھی ’شمع‘ کو مقبولیت حاصل تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ لاہور اور کراچی ایئرپورٹ پر جس کسی ہندوستانی کے پاس سے ’شمع‘ برآمد ہوتا تھاتو اسے کسٹم افسران گرین چینل سے جانے کی اجازت دیتے تھے۔ پاکستان میں ’شمع‘ کی نقل میں کئی ماہنامے شائع ہوئے لیکن وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے۔ ’شمع‘ کی مقبولیت کا مقابلہ اردو کا کوئی رسالہ آج تک نہیں کرسکا۔ اپنے دور کی بڑی بڑی فلمی وادبی شخصیات ’شمع‘ میں شائع ہونے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتی تھیں۔ کچھ فنکار ایسے بھی تھے جنہیں شمع نے ہی قارئین سے روشناس کرایا تھا۔ ان میں ایک نمایاں نام حیدرآباد کی افسانہ نگار واجدہ تبسم کا ہے جنہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’شمع‘ نے ان کی شہرت اور دولت دونوں میں اضافہ کیا۔
1977 میں جب میری عمر محض 16برس کی تھی عمر میں نے تو سب سے پہلے یومیہ مزدوری ادارہ ’شمع‘ میں ہی کی تھی۔اس کام میں برادرم اصغرکمال بھی میرے ساتھ تھے۔ ہمارا کام ’شمع‘ ادبی معموں کو چیک کرنے کا تھا۔ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کا معاوضہ ساڑھے بارہ روپے ملتا تھا، جو اس زمانے میں ہم جیسے ضرورت مندوں کے لئے بڑی رقم ہوا کرتی تھی اور اس سے جیب خرچ پورا ہوجاتا تھا۔ لیکن یہ ڈیوٹی مہینے میں چند روز اس وقت ہی ملتی تھی، جب ’شمع‘ ادبی معمے کا نتیجہ آؤٹ ہوتا تھا۔ بوروں میں بھرے ہوئے معمے کھولے جاتے تھے اور انہیں ترتیب سے لگاکر ہم لوگ صحیح اور غلط حل کی نشان دہی کرتے تھے۔ معمے کا صحیح حل سب سے پہلے ہم ہی تک پہنچتا تھا۔ اس کام میں ہم جیسے درجنوں لوگ شامل ہوتے تھے۔ دوپہر کا کھانا اور شام کا ناشتہ ادارہ ’شمع‘ کی جانب سے مہیا کرایا جاتا تھا۔ یہ ’شمع‘ کے عروج کا زمانہ تھا اور آصف علی روڈ کی ایک وسیع عمارت کی پہلی منزل پر واقع ’شمع‘ کے دفترمیں بہترین ادیبوں، فنکاروں، آرٹسٹوں اور کاتبوں کی پوری کہکشاں موجود تھی۔ اسی دفتر میں ہماری نشست سے کچھ دور ایک بڑے کمرے میں ایک شخص ہمہ وقت اپنے کام میں مصروف نظر آتا تھا۔ لیکن اس کی شکل دیکھنے میں دشواری ہوتی تھی چونکہ اس کی بہت بڑی میز پر لاتعداد کاغذوں، تصویروں اور قارئین کے خطوط کا انبار لگاہوتا تھا۔ اسی انبار کے پیچھے چھپی ہوئی شخصیت یونس دہلوی کی تھی جو ’شمع‘ کے مدیر تھے۔ مدیراعلیٰ کے طورپر تو ’شمع‘ میں یوسف دہلوی کا نام شائع ہوتا تھا اور مدیران کے طورپر ان کے تینوں بیٹوں یونس دہلوی، ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی کے نام تھے۔ لیکن ان میں ادارتی اور انتظامی ذمہ داریاں سب سے زیادہ یونس دہلوی کے کاندھوں پر تھیں اور شاید اسی لئے ان کے کاندھے کسی قدر خمیدہ بھی ہوگئے تھے۔ ان کے برابر والے دو کمروں میں ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی بیٹھتے تھے۔ ادریس دہلوی عموماً بمبئی کے سفر پر رہتے تھے جبکہ الیاس دہلوی وہیں نظر آتے تھے۔ ’شمع‘ میں کام کرنے والوں کی تعداد اس وقت سیکڑوں میں تھی اور وہاں اشاعتی صنعت کے بہترین ماہرین جمع تھے۔
’شمع‘ کے دفتر میں ہر وقت بڑی رونق اور چہل پہل رہا کرتی تھی۔ اکثر ’شمع‘ کے بانی حافظ یوسف دہلوی کی بلند آواز دفتر میں سب کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرتی تھی۔ وہ اپنے تینوں بیٹوں کو یونس، ادریس اور الیاس کہہ کر پکارتے تھے۔ سفید کرتے پاجامے میں ملبوس حافظ یوسف دہلوی کی شخصیت بڑی رعب دار تھی اور کوئی بھی ان کا سامنا آسانی سے نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اکثر دفتر میں کام کرنے والوں کی نگرانی کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ یوسف دہلوی، دہلی کی مسلمان پنجابی سوداگران برادری کے ایک اہم فرد تھے اور انہوں نے ’شمع‘ کا آغاز پرانی دہلی کے پھاٹک حبش خاں سے کیا تھا۔ حالانکہ بعض گھروں میں ’شمع‘ کو اس کے فلمی سیکشن کی وجہ سے کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھاگیا۔ بعض لوگ اسے گھروں میں لے جانا پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں روایتی خاندانوں میں فلم اور فلمی اداکاروں کو اچھا نہیں سمجھاجاتا تھا۔
کلام شاعر بہ زبان شاعر
صوفی غلام مصطفی تبسم
سکون قلب شکیب نظر کی بات کرو
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=sukun-qalb-o-shakeb-e-nazar-ki-bat-karo, sukun qalb o shakeb e nazar ki bat karo
آج کی وفیات
مورخہ: ۱۲ فروری
پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی۔وفات۔1926
دیوندرستیارتھی۔وفات۔2003
شیخ حسن البنا شہید۔وفات۔1949
سرور حسن، خواجہ ۔وفات۔1973
عبدالسلام صدیقی۔وفات۔1967
موسی پاشا۔وفات۔1985
عبد الرحمن صدیقی۔وفات۔1985
ڈاکٹر کرنل۔وفات۔1985
رحیمداد خان مولائی شیدائی۔وفات۔1978
یوسف ہارون۔وفات۔2011
/channel/ilmokitab
*کاما،قوسین اور واوین*
ظ صاحب کی تقریر ہی نہیں تحریر کا معاملہ بھی عجب تھا۔۔۔ جب جب ہم پڑھتے تھے اور پڑھتے ہیں تو اکثر اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے سامنے ہیں، اپنے قاری سے ہمکلام ہیں۔ ظ صاحب تقریر میں لفظوں کے اُتار چڑھاؤ۔۔۔ اور لفظ کی تصویر کو اشارے کنائے سے ایسا جلوہ بناتے تھے کہ سنتے رہے۔
مفسدان ادب اُن کے اس طرز کو ڈرامہ کہتے تھے مگر سچ یہ ہے کہ یہی عمل ظ انصاری کا اسلوب و طرز بن کر عوام و خواص میں مقبول ہوا۔ تحریر میں کاما، وقفہ، قوسین اور واوین سے وہ متن کی معنویت کو واضح یا کہیں پردہ بنا دیتے تھے۔ اس ضمن میں ہم نے کسی اور کو اتنا سنجیدہ نہیں پایا۔ خسرو کے اس کیسٹ میں بھی کاما، وقفہ قوسین اور واوین کا اہتمام ملتا ہے بس سننے والا یکسو ہو تو لطف اندوز بھی ہوگا اور ظ صاحب کی نگارش کی معنویت کی پرتیں بھی اُس پر کھلتی چلی جائیں گی۔ کا ما، قوسین اور واوین وغیرہ کے استعمال پر ظ صاحب سے ایک دن ہم نے سوال کر لیا۔
جواباً انہوں نے اچھا خاصا لکچر دیا۔
میاں ! ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ان سے غفلت کیسے کیسے گل کھلاتی ہے، سنئے : فانی بدایونی کا ایک شعر کسی صاحب نے پڑھا تو وہ شعر مفتیوں تک پہنچ گیا۔ ظاہر ہے مفتیوں تک جس طرح پہنچایا گیا تھا اسی طرح اس پر فتوی بھی دیا گیا۔ شعر یوں تھا:
اچھا یقیں نہیں ہے تو کشتی ڈبو کے دیکھ
اک تو ہی نا خدا نہیں ظالم خدا بھی ہے
شعر کے ثانی مصرعے کی قرآت اس طرح کی گئی کہ مفہوم کچھ سے کچھ ہو گیا یعنی پہلا ٹکڑا پڑھ کر ہلکا سا وقفہ لیااور پھر دوسرا ٹکڑا یوں پڑھا کہ۔۔۔ ظالم خدا بھی ہے( یعنی مفہوم یہ لیا گیا کہ خدا بھی ظالم ہے)
جب کہ فانی نے اسے یوں کہا تھا: ظالم ! ۔۔۔ اک تو ہی نا خدا نہیں،خدا بھی ہے۔
ذرا سوچئے کہ قرآت کی غلطی سے مفہوم کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔ !! اسی طرح نثر کی قرآت میں بھی مقامات ہوتے ہیں کہ پڑھنے والا ذرا چو کے تو معنوی بلندی کی بجائے مفہوم سمیت وہ کھائی میں جاگرے ۔ جس کا ذمے دار لکھنے والا تو نہیں ہو سکتا مگر وہ جو کہا گیا ہے کہ اپنی ایڑی کی گندگی دوسرے کے پائینچے میں لگادی۔
۔۔ بے چارہ لکھنے والا یوں ملزم بن جاتا ہے۔
سو پڑھتے وقت کہاں وقفہ لینا ہے اور کہاں سرعت کے ساتھ بڑھ جاتا ہے جو لوگ اس گر سے واقف ہیں اُن کے لئے تو کا ما وغیرہ کی ضرورت نہیں مگر عام قاری کے لئے اس کی ضرورت بہر حال باقی رہتی ہے۔ جو لوگ میر ببر علی انیس کی مرثیہ گوئی ہی نہیں ان کی مرثیہ خوانی سے بھی واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب وہ منبر پر مرثیہ پڑھتے تھے تو آواز کے اُتار چڑھاؤ اور وقوف سے جو معنی سننے والوں تک پہنچا دیتے تھے روایت ہے کہ بسا اوقات اسی مرثیے کا قاری اُس کیفیت سے محروم رہ جاتا تھا۔ میاں ندیم ! ادیب و شاعر ہی اعلا ودانا نہیں ہوتے ، آپ ذرا توجہ کریں تو سامعین اور قارئین میں بھی یہ درجات مل جائیں گے۔"
*پرسہ / ندیم صدیقی*
/channel/ilmokitab
آج کی وفیات
مورخؒہ: ۱۱ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشاد الحق قدوسی، ڈاکٹرشاہ محمد ۔وفات۔2003
خلش کلکتوی(رشید الزمان)۔وفات۔1994
عبدالمقیت شاکر علیمی، ڈاکٹر محمد ۔وفات۔2013
علی محمدشاہین، پروفیسر ۔وفات۔2010
شیخ الحدیث مولاناسید مشہود حسن امروہوی۔وفات۔2010
مولا نا محمد حنیف ملی ۔وفات۔2000
مولانا حافظ عبد المنان وفا غازی پوری۔وفات۔1919
عاصمہ جہانگیر۔وفات۔2018
قاضی واجد۔وفات۔2018
محمد حنیف شاہد۔وفات۔2018
کمال امروہی۔وفات۔1993
سید صبغۃ اللہ مجددی۔وفات۔2019
یوسف سلیم چشتی۔وفات۔1984
/channel/ilmokitab
صادقین(وفات ۱۰ فروری ۱۹۸۷ء) ۔۔۔ تحریر نور الحسن جعفری
Читать полностью…ظ۔انصاری کے بارے میں کچھ اور
معصوم مرادآبادی
ظ۔ انصاری کے یوم وفات خاکسار نے ان کے نام کی وجہ تسمیہ بیان کی تو بعض احباب کو تشنگی کا احساس ہوا۔انھوں نے مزید کی فرمائش کی تو یہ چند سطریں حکم کی تعمیل میں حاضر خدمت ہیں۔
ظ ۔انصاری (متوفی 31/جنوری 1991)اردو کے ایک البیلے صحافی، ادیب اور نقاد تھے۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔وہ دوبار روزنامہ ’انقلاب‘ بمبئی کے ایڈیٹر رہے۔انھوں نے70کی دہائی میں دہلی سے ادارہ’شمع‘ کی جانب سے نکلنے والے منفرد ہفتہ وار ”آئینہ“ کی ادارت بھی کی، لیکن اس کا دورانیہ زیادہ نہیں رہا۔حالانکہ اس مصور ہفتہ وار نے ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کرلی تھی۔
ظ۔ انصاری کی زندگی کا بیشتر حصہ بمبئی میں گزرا، لیکن وہ بمبئی کے مقابلے دہلی کوترجیح دیتے تھے اور یہاں انھوں نے راجندر نگر علاقہ میں ایک مکان بھی خریدا تھا۔یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ90 کی دہائی کے وسط میں جب مشہور صنعت کار سنجے ڈالمیا نے دہلی سے ایک اردو روزنامہ نکالنے کی منصوبہ بندی کی تھی تو اس کا ایڈیٹر ظ۔انصاری کو ہی منتخب کیا گیا تھا۔ اس اخبار کے کوآرڈنیٹر سنجے ڈالمیا کے دست راست مرحوم شمس الزماں تھے۔شمس الزماں کا بنیادی تعلق کلکتہ سے تھا،لیکن انھوں نے زیادہ عرصہ دہلی میں گزارااور سنجے ڈالمیا کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق تنظیم کے ذمہ دار بھی رہے۔ اس کا دفتر ساؤتھ ایونیو کے ایک فلیٹ میں تھا۔روزنامہ اخبار کی تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں، لیکن بوجوہ وہ شائع نہیں ہوسکا۔ اس دور میں ظ۔انصاری صاحب بمبئی میں ”انقلاب“ کی ادارت کی ذمہ داریاں سنبھال رہے تھے۔میں نے ان سے وہاں ملاقات کی تو انھوں نے مجھ سے ”انقلاب“ سے بطور نامہ نگار وابستہ ہونے کی پیشکش کی، لیکن میرے لیے بمبئی کی بھاگتی دوڑتی زندگی کا حصہ بننا ممکن نہیں تھا تاہم میں نے سنجے ڈالمیا کے اخبار سے وابستہ ہونے کی حامی بھرلی تھی۔ اس سلسلہ میں ظ۔انصاری صاحب نے شمس الزماں صاحب کے لیے ایک رقعہ لکھ کر مجھے دیا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ1986 میں بمبئی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ایک اجلاس ہوا تھا جس کی رپورٹنگ کے لیے میں وہاں گیا تھا۔اس اجلاس کی بڑی گہما گہمی تھی اور بمبئی والوں نے دیدہ ودل فرش راہ کررکھے تھے۔ ملک میں مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک چل رہی تھی اور مسلمان بہت جوش میں تھے۔اس اجلاس کے حوالے سے ظ۔انصاری صاحب نے ’انقلاب‘ میں ایک اداریہ لکھا جس میں علمائے کرام پر چوٹ کی گئی تھی۔ ظ۔انصاری صاحب کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے۔ اگلے روز بمبئی کے وائی ایم سی گراؤنڈ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس عام تھا۔ گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اجلاس کی نظامت مولانا ضیاء الدین بخاری کررہے تھے۔ان کے پاس پرچیاں آنے لگیں کہ ”انقلاب“ کی مذمت کیجئے۔جب درجنوں دس پرچیاں ان کی مٹھی میں جمع ہوگئیں تو وہ بھی بلبلا گئے۔ کہنے لگے لوگ مسلسل ”انقلاب“ کے ادارئیے کی مذمت کرنے کے لیے مجھے پرچیاں بھیج رہے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس پچڑے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے، مگر عوام کے اصرار پر انھوں نے کہا کہ میں ”انقلاب“ کہوں گااور آپ ”مردہ باد“کہیں گے۔ جیسے ہی انھوں نے ”انقلاب“ کہا مجمع نے ”زندہ باد“ کا نعرہ لگادیا۔ وہ مزید پریشان ہوئے اور کہا کہ ”زندہ باد“نہیں ”مردہ باد“ کہئے۔ پھر بھی آدھے لوگوں نے ”مردہ باد“ ہی کہا اور کئی بار کہنے کے بعد سب نے ایک ساتھ مردہ باد کا نعرہ لگایا۔دراصل اس معاملے میں ”انقلاب“ کے ہمعصر اردو اخبارات کی بھی کچھ کارستانی تھی۔ کیونکہ اس زمانے میں ”انقلاب“ بمبئی کا سب سے بڑا اردو روزنامہ تھااور آج بھی ہے۔ بعض اردو اخبارات اس کی مقبولیت سے پریشان تھے اور وہ ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے۔بعد کو برادرمکرم ندیم صدیقی نے جو کہ اس وقت ”انقلاب“ کے سب ایڈیٹر تھے اور ظ۔انصاری کے کافی قریب تھے، مجھے بتایا کہ یہ دراصل کچھ کاتبوں کی کارستانی تھی جو ظ۔ انصاری صاحب خوش نہیں تھے۔ انھوں نے ظ۔ انصاری صاحب کے اداریہ میں ”علمائے فحول“ کی جگہ ”علمائے مخول“ لکھ دیا تھا۔یہ معاملہ اتنا آگے بڑھا کہ ظ۔انصاری صاحب کو ”انقلاب“ سے علاحدہ ہونا پڑا۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس اجلاس میں مہمانوں کے قیام وطعام کا انتظام کرافورڈ مارکیٹ کے قریب صابو صدیق مسافرخانے میں تھا۔ میں بھی وہیں مقیم تھا۔ اجلاس عام کی اگلی صبح ناشتہ کی میز پر مولانا ضیاء الدین بخاری، پرنس انجم قدر اور میں ایک ہی ٹیبل پر تھے۔ انجم قدر صاحب نے مولانا بخاری سے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا کہ آپ نے ”انقلاب“ کے ساتھ ”مردہ باد“ کا نعرہ لگوادیا۔وہ زیرلب مسکراکر خاموش ہوگئے۔
شارٹر انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے اس علمی و تحقیقی مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس انسائیکلوپیڈیا کے مؤلفین نے بعض بالکل بدیہی معاملات کے بارے میں متعصبانہ طور پرمنفی رائے کا اظہار کیا ہے اور بعض ایسی صاف اور واضح چیزوں کی انتہائی غلط تعبیرات کی ہیں، جو عقلِ سلیم کے بھی خلاف ہیں اور علمی اور تحقیقی اصولوں سے بھی متعارض ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شارٹر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مؤلفین نے براہِ راست قرآن و سنّت یا کتبِ حدیث سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ ثانوی مآخذ اور اپنی ہی کتابوں پر زیادہ انحصار کیا ہے۔ پروفیسر عامر نے اس بات کو نمایاں طریقے سے اجاگر کیا ہے اور علمی دنیا کے سامنے شارٹر کے مؤلفین کی نام نہاد تحقیق کا پردہ نہایت عمدگی سے فاش کیا ہے۔
پروفیسر حافظ حسن عامر ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ ان دنوں ڈی۔ جے۔ سندھ گورنمنٹ سائنس کالج میں بحیثیت صدر شعبہ اسلامیات خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی قسم کے مزید علمی اور تحقیقی کاموں سے تشنگانِ علم کو سیراب کرتے رہیں گے۔
کتاب ورلڈ ویو پبلشرز لاہور نے حسبِ روایت سلیقے سے شائع کی ہے اور قیمت بھی مناسب ہے۔
فرائہڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
اس کتاب میں ان خطوط کی جمع آوری نعتیہ منظرنامے میں کئی مباحث اور مکالموں کے امکانات کی نشاندہی کرتی ہے۔ بقول محققِ نعت ڈاکٹر ریاض مجید ”ان مکاتیب میں جن امور و مسائل کی نشان دہی ہوئی ہے وہ اہم ہی نہیں اردو نعت کے مستقبل کے حوالے سے مکالمے کے وسیع امکانات لیے ہوئے ہیں۔ ہر دور میں جزوی طور پر یا وضاحت کے ساتھ ان نکات پر مزید گفتگو ہوسکتی ہے، مکالمہ در مکالمہ ان میں سے کئی مضامین و موضوعات پر تلاش و تحقیق سے مقالے تحریر ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مکاتیب میں فطری طور پر بعض ایسے امور در آتے ہیں جن کی گہرائی کا اکثر اوقات کہنے والے کو بھی پتا نہیں ہوتا، پڑھنے والے کی آنکھ کبھی پہلی بار پڑھتے ہوئے اور کبھی کئی سالوں بعد اس سے کئی کارآمد، مفید مطلب اور مکالمہ خیز مباحث اخذ کرلیتی ہے۔“
فاضل مرتب نے مکتوب نگاران اور خطوط میں مذکور350 سے زائد شخصیات کے مختصر کوائف (تاریخ پیدائش و وفات، علمی وادبی حیثیت، تصنیفات و تالیفات اور اعزازات وغیرہ) کا تذکرہ حواشی میں کیا ہے اور ہر ممکن کوشش کی ہے کہ یہ تذکرہ درست، جامع اور مکمل (Updated)ہو۔ آخر میں مکتوب نگاران اور خطوط میں مذکور شخصیات کا اشاریہ بھی دیا گیا ہے جس سے اس مجموعہ مکاتیب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ فاضل مرتب کی محنت اور تحقیقی و علمی ذوق اس کی سطر سطر سے عیاں ہے-
مکتوب نویسی کی تقریباً معدوم ہوتی روایت میں اس مجموعہ خطوط کی (مع اصلاحات و اضافات)بارِ دگر اشاعت لائقِ تحسین اور تقدیسی ادب کے فروغ کے سلسلے میں ایک اہم اور منفرد کاوش ہے، جس کے لیے فاضل مرتب اور ادارہ نعت ریسرچ سینٹر کراچی لائقِ صد مبارک باد ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
’بارے‘ کے کئی معانی ہیں:ایک بار یا ایک مرتبہ، تاہم، پھر بھی، خیر، آخر کار، بالآخر، الغرض یا غرضے کہ۔ایک بار یا ایک مرتبہ کے معنوں میں ہمارے اس کالم کے عنوان کی طرح اکثر نثری یا منظوم تخلیقات کو عنوان دیا جاتا ہے، جیسے غالبؔ نے’’ مثنوی در صفت انبہ‘‘ لکھتے ہوئے کہا: ’’بارے، آموں کا کچھ بیاں ہوجائے‘‘۔دوسرے معنوں کو سمجھنے کے لیے میرؔ کی یہ نصیحت یاد رکھیے:
بارے دنیا میں رہو، غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
غالبؔ نے اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آخر کار’ اُن‘ کے پاسبان سے اپنی واقفیت نکال ہی لی:
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا، اُن کا پاسباں، اپنا
آپ نے جس استعمال کے ’بارے میں‘ پوچھا ہے وہاں ’بارے‘ کا مطلب ہے تعلق، باب یا واسطہ۔ جب کسی ’کے متعلق‘ یا کسی موضوع کے باب میںکچھ کہنا ہو تو ایسے موقعے پر اہلِ زبان ’کے بارے میں‘ استعمال کرتے ہیں۔جیسے آشفتہؔ نے کہا:
ہمارے بارے میں کیا کیا نہ کچھ کہا ہو گا
چلیں گے ساتھ تو دنیا کا سامنا ہو گا
یا جیسے جمیل نظرؔ بیٹھے بیٹھے عشق کی اس منزل پر پہنچ گئے کہ
اپنے بارے میں جب بھی سوچا ہے
اُس کا چہرہ نظر میں اُبھرا ہے
لفظ ’طور‘ بھی کثیر المعانی ہے۔ اس کا مطلب ہے طریقہ، انداز، ڈھنگ،کیفیت، حالت،طرز، روش وغیرہ وغیرہ۔آبادؔ کہتے ہیں:
خاتمہ تجھ پہ ہے اے یار جفا کاری کا
سیکھ لے تجھ سے کوئی طور دل آزاری کا
لیکن جب ’طریقے سے‘ یا ’ڈھنگ سے‘ یا ’انداز سے‘ کے معنوں میں استعمال کرنا ہو تو فصحا کے نزدیک صرف ’طور‘ ہی استعمال ہونا چاہیے اس کے ساتھ کوئی حرفِ ربط نہیں لگانا چاہیے۔ ’طورسے‘یا ’طور پر‘ کہنا فصاحت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔میرؔ کہتے ہیں:
ہماری تو گزری اسی طور عمر
یہی نالہ کرنا یہی زاریاں
جب کہ داغؔ اپنی حالت یوں بیان کرتے ہیں:
خاک میں آہ ملا کر ہمیں کیا پوچھتے ہو
خیر جس طور ہیں، ہم خاک نشیں اچھے ہیں
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
کیا ہم مسلمان ہیں (۲۶ )۔۔۔ اسلام ایک بے پناہ سچائی ( چوتھی قسط )
تحریر: شمس نوید عثمانی
عبداللہ بن اُمیہ کو "اسلام دشمنی" اپنے باپ کی طرف سے ورثے میں ملی تھی۔ نفرت و انتقام کا آتشیں لاوا اُن کی رگ و پے میں خون بن کر گردش کر رہا تھا ۔ یہ دشمنی ان کو اس الم ناک حد تک لے گئی تھی جہاں آدمی کا زاویۂ نظر یک سر الٹ کر رہ جاتا ہے جہاں "جھوٹ" ایک مایہ ناز حقیقت اور خود سچّائی ایک مضحکہ خیز جھوٹ نظر آنے لگتی ہے ۔ جہاں انسان اپنے ضمیر کی موت پر رو پڑنے کے بجائے سچّائی کو دیکھ کر نفرت سے ہنستا ہے ____دیوانہ دار قہقہے لگاتا ہے ۔
اس ٹریجڈی کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ عبد اللہ نے قریشی زعما اور معزز سر برا ہوں کے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اس ماحول نے شروع سے ان کو یہ بات سُجھائی تھی کہ دُنیا کی قدر و منزلت ہی وہ پیمانہ ہے جس سے کسی کی عظمت کو ناپا جا سکتا ہے ان کی نظر میں ان کے "باپ" ایک عظیم شخصیت تھے ۔ کیوں کہ مکّے گی سوسائٹی ان کو سر اور آنکھوں پر بٹھاتی تھی ۔ قریش کے سربرآوردہ کافر ان کی نظر میں اُونچے لوگ تھے اس لیے کہ ان کی سماجی قیادت اور معاشی خوش حالی کا وزن قدم قدم پر محسوس کیا جاتا تھا۔ بھلا وہ " اسلام " ان کے جذبات کو کیا اپیل کر سکتا تھا جو غلاموں اور غریبوں، لا چاروں اور بے کسوں کے درمیان ظاہر ہوا فاقوں کی آنچ میں تپتا ہوا "اسلام" زخموں اور رستے ہوئے آبلوں کی ٹیس سے چُور چُور اسلام جو ایک ان دیکھے معبُود کے قدموں کو چُھونے کے لیے آنکھوں دیکھی تمام دنیا کی ٹھوکریں برداشت کر رہا تھا _ ابھی عبداللہ انسانی زندگی کے اس انقلابی موڑ سے بہت دُور تھے جہاں زندگی اپنے حقیقی خالق کا تعارف حاصل کرتی ہے تو تخلیق کی یہ پُوری بے کراں کائنات ایک تنگ و تاریک زنداں میں تبدیل ہو جاتی ہے اور انسان کی آخری آرزو یہ اور صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی جان جان آفریں کے قدموں پر جتنی جلد نثار کر دے اتنا ہی بہتر ہو جنّت ارضی کے سراب سے دُور جہاں حقیقی جنّت کی خوشبُو سونگھ کر انسان شہادت کے لہُو میں نہا جانے کے لیے تڑپ اُٹھتا ہے __ ابھی عبداللہ ایمان ویقین کے اس لطیف سوزِ دروں سے ناواقف تھے __کفر و شرک کی قہرمانیت کے مقابلے میں ابھی حق پسندوں کے کمزور ڈھانچے ہی ان کو دکھائی دے رہے تھے ۔ ان کے روشن اور تابناک سینے اور فولادی ایمان و یقین نہیں ___ اِس لیے پھٹے پُرانے چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی "کمزوری" کو گرجتی چمکتی ” طاقت" کے مُنہ آتا ہوا دیکھ کر وہ سوائے اس کے اور کیا کرتے کہ پھیپھڑوں کی پُوری قوت سے ہنس پڑیں اور حقارت و استہزاء کی شدت سے قہقہہ لگاتے چلے جائیں ۔ ابھی وہ یہی کر رہے تھے ۔ ان کے باپ کا قہر و غضب ایک شکل میں اسلام پر شعلہ باری کر رہا تھا تو عبداللہ کی اپنی سرد مہری اور حقیقت نا آشنا قہقہوں کی بوچھار دوسری شکل میں حقیقت کشی کی یہی مہم مکے کے طول و عرض میں چلارہی تھی ۔
" کیا تم خُدائے واحد کے فرستادہ ہو ؟ عبداللہ نے بے رحمانہ و گستاخانہ شرارت سے خُدا کے رسول(ﷺ) کو سرِ راہ چھیڑتے ہوئے کہا ۔ " جی ! کیا آپ ہی خدا کے رسول ہیں ؟ "
سوال کرنے والا جس انداز سے سوال کر رہا تھا وہ کس قدر جارحانہ ہوگا اس ہستی کے لیے جس کے احساسات پر نزاکتِ احساس کی انتہائیں ختم ہوتی تھیں۔ گستاخی اور خون آشام درندگی کے ڈراؤنے سوال کرنے والے انسان کو ایک ایسے جانور کی شکل میں ڈھال دیا تھا جس کو حیوانیت بھی دیکھ لے تو شرم سے سرجھکا لے ، لیکن آج درندگی کی زدمیں وہ انسانِ کامل تھا جو دشمنوں کو پیار کرتا تھا۔ جو جانوروں کو بہترین انسان بنانے کے لیے ریگستان کے آتشیں ذرّوں کی پیاس اپنے خون دل وجگر کے قطروں تک سے بُجھانے کے لیے تیار تھا صرف اس توقع اور حسرت میں کہ آدمی اس آگ میں کوئلہ بن جانے سے بچ جائے جس کا ایندھن پتھر اور پتھر دل انسانوں کی ہڈیاں بننے والی ہیں بے حسی اور جراحت کاری کے اس سوال پر اس نے نفرت سے مُنہ نہیں موڑا ۔ قلب و روح کی دردمندانہ ٹیس کے ساتھ گوش بر آواز ہو گیا اور فرطِ درد سے پُکار اُٹھا ۔ " ہاں ! اے پاگل انسان ! خود پر سِتم توڑنے والے انسان ! تیرے سامنے اس وقت تیرے خُدا کا آخری رسول ہی کھڑا ہوا ہے ۔ جس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تجھے تیرے خُدا کا آخری پیغام پہنچا دے اور بس۔
/channel/ilmokitab
آج کی وفیات
مورخہ: ۹ فروری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ محمد صالح قزاز(وفات) 1989
پروفیسر آل احمد سرور(وفات) 2002
مولانا سید اسحاق حسینی(وفات) 2006
اعجاز صدیقی (وفات) 1978
ابن حسن برنی،سید (وفات) 1987
احمد اللہ ندوی، حکیم سید (وفات) 1981
افسر امروہوی (منظوراحمد صدیقی)(وفات) 1984
مسعود علی قادری، مفتی سید (وفات) 1973
سر شیخ عبدالقادر(وفات) 1950
مولانا ابوبکر غازی پوری(وفات) 2012
آل احمد سرور(وفات) 2002
شیخ سر عبد القادر(وفات) 1950
آفتاب پانی پتی، انوپ چند(وفات) 1968
وکیل اختر، وکیل احمد اختر خان(وفات) 1971
مسیح الزمان سید (پروفیسر ) ..(وفات) 1975
مولانا محمد متین خطیب(وفات) 1982
آفتاب پانی پتی(وفات) 1968
/channel/ilmokitab
آج کی اہم وفیات
مورخہ: ۸ فروری
آغا ہلالی (وفات) 2001
مولانا بشیر احمد حسینی فیض آبادی (وفات) 1995
مہجورشمسی،سید عبد القيوم(وفات) 1974
ابو بکر غازی پوری(وفات) 2012
ندا فاضلی(وفات) 2016
/channel/ilmokitab
یونس دہلوی 1930میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ حافظ یوسف دہلوی کی سب سے بڑی اولاد تھے۔ انہوں نے دہلی کے باوقار سینٹ اسٹیفن کالج سے 1953 میں فلسفے میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور خود کو اشاعتی صنعت میں پوری طرح جھونک دیا۔ 1960 سے 1990تک کا زمانہ ’شمع‘ کے عروج کا زمانہ تھا اور اس کی تعداد اشاعت ایک لاکھ سے زیادہ ہوگئی تھی۔یونس دہلوی مرحوم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی محنت اور جدوجہد سے ’شمع‘ کو نہ صرف مواد کے اعتبار سے ایک منفرد رسالہ بنایا بلکہ اسے تجارتی اعتبار سے بھی بہت مضبوطی عطا کی تھی۔ ’شمع‘ رنگین طباعت سے نہایت عمدہ کاغذ پر شائع ہوتا تھا۔ یونس دہلوی نے ’شمع‘ کوہر اعتبار سے ایک کامیاب رسالہ بنانے کے جتن کئے۔ ’شمع‘ اکلوتا رسالہ تھا جسے ملک کے تمام بڑے تجارتی اداروں کے رنگین اشتہارات ملا کرتے تھے۔تجارتی دنیا میں ’شمع‘ کی عزت ووقعت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ1969میں یونس دہلوی ہندوستان میں اخبارات وجرائد کی سب سے بڑی تنظیم انڈین نیوز پیرس سوسائٹی (INS) کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ کسی اردو رسالے کو یہ اعزاز پہلی مرتبہ حاصل ہوا تھا اور شاید آخری بھی۔ اتنا ہی نہیں وہ اخبارات وجرائد کی سرکولیشن کا سرٹی فکیٹ دینے والی سب سے معتبر تنظیم آڈٹ بیورو آف سرکولیشن (ABC) کی ایکزیکٹیو میں بھی شامل تھے۔ وہ اخبارات وجرائد کی کئی عالمی تنظیموں سے بھی وابستہ رہے۔وہ 1999 میں اردواخبارات وجرائد کی سب سے قدیم تنظیم آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کی سلورجوبلی کے موقع پر اس کے جنرل سکریٹری چنے گئے۔ اس موقع پر راقم الحروف کو بھی کانفرنس کا سکریٹری منتخب کیاگیا تھا۔ اس طرح یونس دہلوی کو دوسری بار قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ کم گو، سنجیدہ، باوقار اور مہذب انسان تھے۔ چائے کے مقابلے میں گرم پانی کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ صحیح معنوں میں دہلوی تہذیب کے علمبردار تھے۔ ان کی ذہانت، کاروباری مہارت اور اعلیٰ تعلیمی لیاقت کے سبب ہر کوئی ان سے متاثر تھا۔
یونس دہلوی نئی دہلی میں سردار پٹیل روڈ پر واقع ایک شاندار کوٹھی میں اپنے دیگر اہل خانہ کے ساتھ رہتے تھے۔ جو ’شمع گھر‘ کہلاتی تھی۔ اب اس کوٹھی کی ملکیت بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی کے پاس ہے۔ ایک زمانے میں یہ کوٹھی فلمی وادبی شخصیات کا سب سے بڑا مرکز ہوا کرتی تھی۔ ’شمع گھر‘ میں آنے والوں میں دلیپ کمار، اشوک کمار، راج کپور، آشاپاریکھ، نوتن، نرگس، راج کمار، سنجیو کمار، محمد رفیع، ملکہ پکھراج کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہاں شعروشاعری کی محفلیں سجتی تھیں اور فلمی ہستیوں کی خاطر تواضع کی جاتی تھی۔ فلمی ہستیوں سے اتنے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود یونس دہلوی اصول پسند انسان تھے۔ فلموں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ’شمع‘ کی تحریروں پر بھی ہوتا تھا۔ ہدایت کار محبوب نے جب فلم ’ہمایوں‘ بنانے کا اعلان کیا تو اس پر ’شمع‘ نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح کہانی نویس نے تاریخ کے ساتھ ناانصافی کی ہے اسی طرح محبوب بھی کہانی کے ساتھ انصاف نہیں کر پائیں گے۔تنقید شائع ہوتے ہی ہلچل مچ گئی اور ’شمع‘ کے اشتہارات بند کرانے کی دھمکی دی گئی۔ ’شمع‘ کے مالکان کو رشوت دینے کی بھی کوشش ہوئی۔ لیکن یونس دہلوی اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ ہر شمارے میں ’ہمایوں‘ پر تبصرہ شائع ہوتا رہا اور فلم آخر کار ناکام ہوگئی۔ یونس دہلوی بذات خود قلم کار نہیں تھے لیکن وہ ادب کے اچھے پارکھ تھے۔ ’شمع‘ میں شائع ہونے والی کہانیوں کا انتخاب وہ خود کرتے تھے جبکہ شعری تخلیقات کے انتخاب کے لئے مولاناعلیم اختر مظفرنگری اور بسمل سعیدی کی مدد لی جاتی تھی۔یونس دہلوی نے ہی ’شمع‘ میں شائع ہونے والے تخلیق کاروں کو معاوضہ دینے کی روایت شروع کی ورنہ اس سے قبل اردو میں لکھنے والوں کو معاوضہ نہیں ملتا تھا۔
’شمع‘ میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، حفیظ جالندھری، حسرت جے پوری، قتیل شفائی، سلام مچھلی شہری، رضیہ سجاد ظہیر، راجہ مہدی علی خاں، ساحر لدھیانوی، رام لعل، سراج انور، شفیع الدین نیر، جیلانی بانو، نریش کمار شاد اور واجدہ تبسم کی تخلیقات مسلسل شائع ہوتی تھیں۔ تمام سرکردہ ادیب ’شمع‘ میں شائع ہونے کو فوقیت دیتے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک زمانے میں اداکارہ میناکماری اور نرگس نے بھی ’شمع‘ کو اپنی تحریروں سے نوازا تھا۔ دلیپ کمار سمیت تمام بہترین اداکاروں کے انٹرویوز ’شمع‘ میں شائع ہوا کرتے تھے۔ ’شمع‘ کا ایک انتہائی مقبول کالم سوال وجواب کا تھا۔جس میں قارئین کے سوالات کے انتہائی دلچسپ اور معلوماتی جوابات دیئے جاتے تھے۔ ہر جواب میں ایک دلچسپ قصہ، لطیفہ یا حکایت ضرور نقل کی جاتی تھی۔ سوال وجواب کا کالم میرے ہم وطن مرحوم جلیس عبدی کے ذمے تھا جو ایک گوشہ نشین قسم کے انتہائی کم گو انسان تھے۔ ’شمع‘ کا دفتر آصف علی روڈ پر اجمیری گیٹ اور ترکمان گیٹ کے درمیان جس بلند وبالا عمارت کی پہلی منزل پر تھا۔ وہاں آج بھی ’شمع‘، ’کھلونا‘ اور ’بانو‘ کے
پروفیسر سید حبیب الحق ندوی مرحوم کے دستیاب چند مضامین
Читать полностью…