علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
صوفی غلام مصطفی تبسم(وفات ۷ فروری ۱۹۷۸ء) تحریر: اے حمید
Читать полностью…ڈاکٹر سید حبیب الحق ندوی (وفات ۶ فروری ۱۹۹۸ء)۔۔۔ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی
Читать полностью…مولانا سید محمد اسعد مدنیؒ
وفات(۶ فروری ۲۰۰۶ء)
/channel/ilmokitab
دستیاب چند اہم مضمون نگار
سید محمد رابع حسنی ندوی
مجیب اللہ ندوی
مولانا سید ارشد مدنی
مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری
مولانا سید اسجد مدنی
ام سلمان سیدہ عمرانہ مدنی
محترمہ سعدیہ مدنی
مولانا سید اشہد رشیدی
مولانا مفتی محمد عفان منصور پوری
مولانا مرغوب الرحمٰن
مولانا محمد سالم قاسمی
مولانا سید انظرشاہ مسعودی کشمیری
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی
مولانا فضل الرحمٰن پاکستان
مولانا محمد طلح
مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری
مولانا عبد الحق اعظمی
مولانا نعمت اللہ اعظمی
مولانا قمر الدین
مولانا غلام رسول خاموش
مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی قاسمی
مولانا ڈاکٹر سعد الرحمٰن اعظمی ندوی
مولانا محمد برہان الدین سنبھلی
مولانا سید محمدشاہد سہارن پو ر
مولانا عمید الزماں قاسمی کیرانوی
مولانا امام علی دانشؔ
مولانا سید اشہد رشیدی
حافظ محمد صدیق سابق ایم پی
مولانا الطاف الرحمٰن
مولانا محمد اعلم قاسمی مہتمم جامع الہدیٰ
حکیم سید معصوم علی آزاد امام شہر مراد آباد
مولانا نور عالم خلیل امینی
مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی
مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی
مولانا محمد اسعد دیور یاوی
مولانا امام علی دانشؔ
احمد سعید ملیح آبادی
مولانا محمد یحیٰی پرتاپ گڈھی
مولانا ڈاکٹر عبدالرحمٰن ساجد الاعظمی
مولانا رفاقت حسین قاسمی
مولانا مفتی محمود زبیر قاسمی حیدر آباد
قاری نجیب الرحمٰن بھا گلپوری
مولانا لئیق احمد راغب قاسمی بارہ بنکوی
مولانا قاری اصغر علی ہاپوڑ
مولانا امام علی دانش
مفتی اشفاق احمد اعظمی
زاہد ٹانڈوی
فیروز خان نا گپوری
قاسم الواصفی المظاہری
کفیل احمد علوی ایڈیٹر آئینہ دارالعلوم دیوبند
ازہد لطیف کشن گنجی
مولانا مفتی محمد اصغر ہاپوڑ
نور عالم امینی
سید انظر شاہ کشمیری
عتیق الرحمن سنبھلی
ندیم الواجدی
ریاست علی قاسمی رامپوری
آج کی وفیات
مورخہ: ۶/ فروری
/channel/ilmokitab
ڈاکٹرمولانا سید حبیب الحق ندوی(وفات) 1998
مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ(وفات) 2006
مولانا فیض الحسن سہارنپوری(وفات) 1887
محمد عبد الکریم خطابی(وفات) 1993
جنرل پرویز مشرف(وفات ۵ فروری ۲۰۲۳ء)۔۔۔ خاکہ نویس: کرامت اللہ غوری
Читать полностью…سچی باتیں (۴؍نومبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ سب سے بڑا دشمن
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
بچپن میں جب چلتے چلتے ، رات میں اینٹ کی، پتھرکی، کرسی کے پایہ کی، کسی چیز کی ٹھوکر لگ جاتی تھی، اورآپ گرپڑتے تھے، تو بے اختیار غصہ اُسی چیز پر آجاتاتھا، یا نہیں؟ اورآپ اسی کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیتے، بلکہ کبھی کبھی مار بھی بیٹھتے تھے، یا نہیں؟ اسے خوب یادکرلیجئے، اور اگر اپنا بچپن کا زمانہ نہ یادآئے ، تو اس وقت اس کا مشاہدہ اپنے بچوں یا دوسروں کے بچوں میں کرلیجئے۔ اب آپ ذرا اور بڑے ہوگئے۔ لکھنے میں پنسل اگر ٹوٹ گئی، توجی چاہنے لگا، کہ اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کرڈالیں ، رکھنے میں دوات کہیں اُلٹ گئی، تو طبیعت یہ جھنجلائی ، کہ اسے اُٹھاکر زمین پر دے پٹکیں۔ غرض بات بات پر دوسروں پر یہاں تک کہ بے جان اور بے ارادہ چیزوں پر بگڑنا، اُن سے روٹھ جانا، ان پر اپنا غصہ اُتارنے لگنا، اور خود اپنا قصور کبھی نہ ماننا، یہ روزمرہ تھا۔ آج آپ عاقل وبالغ ہوکر اس کیفیت پر ہنستے ہیں، اور اپنے تئیں سمجھتے ہیں، کہ اس منزل کو کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔
لیکن عمل میں خود آج تک آپ کا کیا حال ہے؟ اگرامتحان میں آپ پاس نہیں ہوئے ، تو اس میں قصور آپ کی بدشوقی یا کم محنتی کا نہیں، بلکہ ممتحن ہی ایسا سخت تھا، ظالم تھا، متعصب تھا، سنگدل تھا، بے رحم تھا! اگر ملازمت باوجود کوشش نہیں ملی، تو قصور محض’’قسمت‘‘ کاہے!اگر مقدمہ میں آپ ہارگئے، تو کہیں یہ بات تھوڑے ہی تھی، کہ آپ کا دعویٰ غلط، یا آپ کا ثبوت کمزور تھا، بلکہ کھُلی ہوئی وجہ یہ تھی، کہ عدالت نے بے ایمانی کی، دوسرے فریق سے رشوت لے لی، فلاں فلاں ذرائع سے دوسرے فریق نے اپنا اثر اُس پر ڈال دیا!اگر تجارت آپ نے کی، اور ناکام رہے، تو اس میں آپ کا کیا قصور، جو ملازم آپ نے رکھے تھے، اُنھوں نے خیانت کی، جوجو آپ کے شریک کارتھے، انھیں نے دغابازی کی، جن پر آپ نے بھروسہ کیاتھا، وہی غدّار ثابت ہوئے!اگرآپ حکیم یا ڈاکٹر ہیں، اورآپ کا زیر علاج مریض اچھا نہیں ہوا، تو بھلا آپ کی تشخیص پر اس سے کیا حرف آسکتاہے، اُسی نالائق نے بدپرہیزی کرلی، آپ کی فرمائی ہوئی تدبیروں پر عمل نہ کیا، آپ کے احکام کی خلاف ورزی کی!اگرآپ مصنّف ہیں، اور آپ کی کتابوں کو خاطر خواہ مقبولیت نہیں حاصل ہوتی، توپبلک عجب بدمذاق اور کوڑھ مغز ہے، یہ تو کنکر پتھر چاہتی ہے، لعل وجواہر کی اسے قدر ہی کہاں ہے، اور یہ ریویونگار کمبخت تو سب کے سب حاسد واقع ہوئے ہیں، حسد سے جلے جاتے ہیں، ہمیشہ جھوٹے ہی جھوٹے عیب گڑھ گڑھ کر نکالاکرتے ہیں۔ اگر محلّہ اور شہر میں آپ کے کچھ دشمن ہیں، تو محض اس لئے کہ آپ سے جلتے ہیں، آپ سے بغض وحسد رکھتے ہیں۔ آپ کے حسن سلوک میں کیا شبہ، مگر یہی لوگ بدنفس ہیں، مُحسن کش ہیں، احسان ناشناس ہیں، موذی وخبیث ہیں!
بچپن کی جس ذہنیت پرآپ ہنستے ہیں، اس میں اور اس ذہنیت میں کچھ بھی فرق ہے؟ وہاں بھی اپنی بے قصوری اور دوسروں کی قصورواری کا زعم تھا۔ اور یہاں بھی یہی ہے!دونوں میں فرق ہی کیاہوا؟ وہی دوسروں سے سوء ظن، اور اپنے سے حُسن ظن! وہی دوسروں پر الزام، اور اپنی صفائی ! بزرگوں نے کہاتھا، کہ اپنا سب سے بڑا دشمن خود اپنے نفس کو سمجھو، اور بدگمانی اگر رکھو، تو اپنے ہی آپ سے !ہم نے اپنے عمل میں اسے اُلٹ دیا۔ ہم بدگمان اگر ہیں تو ساری دنیا سے، اور کسی کو عیب وقصور سے بری، ہر اعتراض والزام سے پاک ومنزّہ ، صاف اور ستھرا اگر سمجھ رہے ہیں، تو اپنے نفس نفیس کو!
/channel/ilmokitab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ
پاریکھ بک ڈپو کے آفیشیل واٹس ایپ نمبر پر ہم آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں
اگر آپ کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کتابوں کی خریداری کرنا چاہتے ہیں تو اپنے استفسارات یا حکم نامہ ہمیں واٹس ایپ کردیں، ہم جلد آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے
فیس بک پر ہمارا پیج لائک کریں
https://www.facebook.com/parekhbookdepot
واٹس ایپ پر ہمارا گروپ جوائن کریں https://chat.whatsapp.com/GVDrw1cUl7vJUeo9K6s1g2
ٹیلی گرام پر ہمارا چینل سبسکرائب کریں
/channel/parekhbookdepot786
عقدالنجوم فی جید دارالعلوم
یہ منظوم عربی کتابچہ ادیب اریب حضرت مولانا اطہر حسین اجراڑوی کا تحریر فرمودہ ہے۔ ایک ایک شعر جہاں دارالعلوم دیوبند اور اکابر دارالعلوم دیوبند کی عظمت بیان کرتا ہے وہیں شاعر کی قوت عربیت واد بیت کو بھی عیاں کرتا ہے۔
جہاد کے میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فتوحات حاصل ہوئیں ان میں انسانوں کے لشکر اور سپاہیوں کے تیغ و خنجر سے زیادہ فرشتوں کے پرے، دعاؤں کے تیر توکل علی اللہ کے سپر، اعتماد علی الحق کی تلوار کام کرتی نظر آتی تھی.
(سید سلیمان ندوی : سیرت النبی ٣/٢٣)
مورخہ ۴ فروری
آج کی وفیات
برنی، آئی ایچ(اقبال حسین )(وفات) 1993
حسن زمان خان قادری، حکیم (وفات) 1984
رضوی، ڈاکٹر ایم ایچ(وفات) 1997
سعید اللہ خان (وفات) 2014
گل حمید بھٹی (وفات) 2010
محمد علی شاہ، ڈاکٹر (وفات) 2013
مولان خلیل الرحمٰن (وفات) 1936
شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان (وفات) 2010
میرزا یگانہ چنگیزی(وفات) 1956
مولانا غلام غوث ہزاروی (وفات) 1981
امام شامل(وفات) 1871
بانو قدسیہ(وفات) 2017
/channel/ilmokitab
تعارف کتاب: محمد ﷺ سے وفا
- ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب : محمد ﷺ سے وفا
مصنف : ڈاکٹر عابد شیروانی
صفحات : 240 قیمت : 600 روپے
ناشر : الناشر پریس
رابطه : 03462310666
پیشِ نظر کتاب کا نام علامہ محمد اقبال ؒ کی مشہور نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے لازوال شعر ؎
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
سے ماخوذ ہے۔ کلامِ اقبال کی شرح کے حوالے سے ڈاکٹر عابد شیروانی (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ) کی یہ دوسری کتاب ہے۔ یہ کتاب علامہ محمداقبال کی دو مشہور نظموں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے تقابلی مطالعے اور شرح پر مشتمل ہے۔ شیروانی صاحب نے نہ صرف کلام ِ اقبال کو بصد شوق و اشتیاق پڑھا اور سمجھا ہے بلکہ اسے عام قارئین کو سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے۔ شیروانی صاحب کی یہ شرح صرف شرح نہیں ہے بلکہ ان نظموں کا تاریخی اور تہذیبی پس منظر بھی ہے، اور اب تک کے اقبالیاتی مطالعے سے اس لحاظ سے مختلف بھی ہے کہ اس میں قوانین، تعزیرات اور دساتیر کے حوالے موجود ہیں، ریاست کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے، ملّت اور امت کا تصور کیا ہے، اس کا نظامِ تعلیم، نظامِ اخلاق، نظامِ قانون، نظامِ سیاست اور دستور کیسے تشکیل پاتا ہے، پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے۔
شیروانی صاحب نے اس کتاب میں نظم ’’شکوہ‘‘ کے ہر بند کا جواب ’’جوابِ شکوہ‘‘ سے اس بند کے ساتھ ہی بیان کیا ہے تاکہ ’’شکوہ‘‘کے بند میں جو بات شاعر نے بیان کی ہے اس کا جواب اسی بند کے ساتھ ’’جوابِ شکوہ‘‘ سے مل جائے۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں تجزیہ اور تقابلی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ اس طرح قاری کے سامنے دونوں نظموں کے مضامین بیک وقت آجاتے ہیں۔ قارئین کی سہولت کے لیے آخر میں ایک جدول بھی دیا گیا ہے جس میں ’’شکوہ‘‘ کے تمام بندوں کے سامنے اس شرح کے لحاظ سے ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے بند لکھ دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر شعر کے نفسِ مضمون کے لحاظ سے مشکل الفاظ کے لغوی اور مجازی معنی، شعر کا بامحاورہ آسان ترجمہ اور مفصل تشریح دی گئی ہے، اور ان نظموں میں استعمال ہونے والی علامات، تلمیحات، تشبیہات، استعارات اور کنایات وغیرہ کو کھول کر بیان کیا گیا ہے تاکہ ایک عام قاری کے ذہن کی رسائی کلامِ اقبال کی روح تک ہوسکے۔
جہاں تک اس شرح کی زبان وبیان کا تعلق ہے، اس حوالے سے پروفیسر خیال آفاقی صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ تمام تر تحریر سلاست، حلاوت اور ہر اُن اوصاف سے متصف ہے جو کسی پاکیزہ اور ادبی تحریر کا خاصہ ہوتے ہیں۔ کوئی تصنع، کوئی غیر ضروری صنائع بدائع کا استعمال نہیں، نہ ہی محض لفاظی کی سمع خراشی… بس شروع تا آخر حقیقت آفرینی، بے ساختگی اور سب سے بڑھ کر اندازِ تفہیم، جس کے ذریعے زبان سے نکلی ہوئی بات دل نشین ہوتی چلی جائے۔
یقیناً پیشِ نظر کتاب ’’محمدﷺ سے وفا‘‘ اقبالیاتی ادب میں ایک عمدہ اضافہ ہے، جس کے لیے صاحبِ کتاب ڈاکٹر عابد شیروانی لائقِ تحسین و قابلِ مبارک باد ہیں۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ہم تو چلے سسرال۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
آج کی بات شروع کرنے سے پہلے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے چلیں۔ اپنے پچھلے کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ ’نو‘ فارسی کا ہے۔ کالم پڑھ کر نَوی ممبئی (بھارت) سے تعلق رکھنے والے مشہور ماہر لسانیات محترم نادر خان سرگروہ نے اپنے ایک صوتی پیغام کے ذریعے سے مطلع کیا:
’’لفظ ’نو‘ اصلاً سنسکرت ہے اور یہ فارسی اور سنسکرت دونوں میں مشترک ہے، جیسے بیشتر الفاظ مشترک ہیں۔ نو کے معنیٰ ہیں نیا، نُتن۔ اسی سے ’نوورش‘ نیا سال اور ’نوبھارت‘ نیا بھارت وغیرہ بنے ہیں۔ ایسی کئی تراکیب ملتی ہیں ہندی میں، جو ہم نے پڑھی ہیں اور برتی ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ نے اسے فارسی اور سنسکرت دونوں لکھا ہے، نوراللغات نے دونوں ’نو‘ درج کیے ہیں، نمبر’ نو‘ اور’نو‘۔ نیا، نُتن، نویں اور کئی مرادفات یا مترادفات ہیں ’نو‘ کے۔ اس کے معنیٰ ہیں نیا۔ ’نو‘ کا سنسکرت میں تلفظ ہے نَوَ (نَ وَ)اسے ہم اُردو میں لکھ نہیں سکتے۔ اگر لکھنا ہو تو الف لگانا ہوگا۔ لیکن پڑھنے میں لوگ غلطی کرسکتے ہیں، اسے ’نوا‘ پڑھ سکتے ہیں‘‘۔
گویا ’نوبیاہتا‘ بھی خالص ہندی ترکیب ہے۔ نئے یا نیا کے لیے ہندی میں ’نوا‘ کا تلفظ بھی سننے میں آتا رہا ہے۔ ’نوا کُرتا‘ یا ’نوی قمیص‘ کی ترکیب کہانیوں اور افسانوں میں بکثرت ملتی ہے۔ ہم اب تک ’نیا‘ اور ’نوا‘ کو ہندی میں فارسی ’نو‘ کا متبادل سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ بنیادی لفظ نَوَ ہے، جو سنسکرت سے آیا ہے اور یہیں سے فارسی میں گیا ہے۔ پنجابی زبان میں بھی ’نوا‘ یا ’نواں‘ کہنا عام ہے۔ مثلاً لسانیات کے اس طالب علم سے جب بھی لاعلمی کی کوئی حرکت سرزد ہو تو برادر نادر خان سرگروہ ہم سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ
’’نواں آیا اے سوہنیا؟‘‘
جناب نادر خان سرگروہ نے مزید بتایا ’’مراٹھی زبان میں سنسکرت کا ’نو‘ مستعمل ہے۔ جیسے ’نونِرمان‘ یعنی نئی تعمیر۔ اسی نو سے مشتق ’نوا‘ (مذکر) اور ’نوی‘ (مؤنث) ہیں، مزید مشتقات نَوین، نُتَن اور نویَہ ہیں۔ نوا گھر، نوین گھر (نیا گھر)، نوی ممبئی (New Mumbai)‘‘
نوی ممبئی کی طرح ہمارے کراچی کا بھی ایک بہت وسیع علاقہ ’نئی کراچی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو کراچی کے پرانے محلّوں کے ناموں سے بھی تعمیرِنو ہورہی ہے۔ چناں چہ ناظم آباد اور شمالی ناظم آباد کے خوب اچھی طرح آباد ہوجانے کے بعد، کراچی والوں نے بلوچستان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ’نیا ناظم آباد‘ بھی آباد کرنا شروع کردیا ہے۔
کراچی اپنی سرحدیں پار کرتا جا رہا ہے۔ سنسکرت سے فارسی میں جانے والا ’نَوَ‘ بھی شاید ایران توران کی سرحدیں پار کرکے یورپ کی حدود میں جا پہنچا۔ عین ممکن ہے کہ کسی روز محققین ہمیں مطلع کریں کہ ‘New’ یا ‘Neo’ اور ‘Novus’بھی سنسکرت ہی کے نَوَ کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ ایسی کئی صورتیں دیگریورپی زبانوں میں بھی نظر آتی ہیں مثلاً روسی زبان اور مثلاً جرمن زبان میں۔
بہرحال ہم برادرنادر خان سرگروہ کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہماری لاعلمی سے فائدہ اُٹھاکر ہمیں فائدہ پہنچایا اور ’نُتن‘ معلومات فراہم کیں۔ امید ہے کہ وہ آیندہ بھی ہماری نت نئی غلطیوں سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی نوا سبق سکھاتے رہیں گے۔
آئیے اب کچھ آج کی بات ہوجائے۔آج کی بات یہ کہ لیاری کراچی کے محترم عدنان کریمی صاحب اچھی خاصی بیاہتا زندگی گزار دینے کے بعد بھی اب تک اسی دھن میں سرگشتہ و درماندہ پھر رہے ہیں کہ
’’لفظ سسرال مذکر ہے یا مؤنث؟ نوراللغات لکھنؤ کی نمائندہ ہے، اس میں مؤنث اور فرہنگِ آصفیہ دہلی کی نمائندہ ہے، اس میں مذکر ہے۔ حضرت دریا بادیؒ نے اپنی آپ بیتی میں سسرال کو مؤنث استعمال کیا ہے‘‘۔
حضرت عبدالماجد دریابادیؒ بھی تو لکھنؤ ہی کے تھے۔ اُن کی سسرال کیسے مذکر ہوسکتی ہے؟ مؤنث ہی ہوگی۔ اب رہا یہ معاملہ کہ دلی والوں کا سسرال مذکر ہوتا ہے، تو اس قضیے کا حل مرزا اسد اللہ خان غالبؔ دہلوی سے معلوم کیے لیتے ہیں۔ دہلی میں رتھ کو بعض لوگ مؤنث اور بعض مذکر بولتے تھے۔ کسی نے مرزا سے پوچھا:
’’حضرت رتھ مؤنث ہے یا مذکر؟‘‘
حضرت نے جواب دیا:
’’بھیا! جب رتھ میں عورتیں بیٹھی ہوں تو مؤنث کہو اور جب مرد بیٹھے ہوں تو مذکر سمجھو‘‘۔
مگر یہاں قاعدہ اُلٹ جائے گا۔ عورتوں کا سسرال مذکر ہوگا اور مردوں کی سسرال مؤنث۔ خیر، سسرال کو آپ مؤنث قرار دیں یا مذکر گردانیں… یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کہہ… مگر عورتوں کا میکا لکھنؤ اور دلی دونوں جگہ مذکر ہے، مذکر تھا اور مذکر رہے گا۔ شاید ایسے ہی موقعے پر کہا جاتا ہے کہ ’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘۔
اردو میں بہت سے ایسے الفاظ ہیں جن کی تذکیر اور تانیث میں اہلِ زبان کے اندر اختلاف پایا جاتا ہے۔ سسرال کو ہمارے تمدن میں ویسے بھی اختلافات کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر سسرال کی تذکیر و تانیث میں اختلاف پایا جاتا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔
علامہ راشد الخیری(وفات ۳ فروری ۱۹۳۶ء) خاکہ نگار: ملا واحدی
Читать полностью…تاریخ کس لیے ہوتی ہے؟
تاریخ سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ یہ مداحی کے لیے، نہ زخم کریدنے کے لیے۔ تاریخ کے پہیے کو واپس نہیں موڑا جا سکتا۔ اگر تاریخ کو پڑھ کر، اس سے سبق حاصل کیا جائے اور قوموں کی زندگی میں ہونے والی غلطیوں کی نشان دہی کرکے، ان سے بچنے کی کوشش کی جائے، تو تاریخ سے بہتر کہیں اور سے رہ نمائی اور تجربہ نہیں مل سکتا۔ یہی حکمتِ خداوندی، قرآن کریم میں قصصِ انبیاء و اقوام کے ذکر میں پوشیدہ ہے۔
مولانا عبدالمتین منیری صاحب
تعمیرِ افکار: جنوری ۲۰۲۴ ء/صفحہ: ۵۳
https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
آج کی اہم وفیات
مورخہ: ۷ فروری
/channel/ilmokitab
صوفی غلام مصطفے تبسم(وفات) 1978
خالد اسحاق ایڈوکیٹ(وفات) 2004
ساجد مراد آبادی، پروفیسر(سجاد احمد)(وفات) 2013
سید امروہوی (سید علی نقوی )(وفات) 2008
عباس رضا زیدی،سید (وفات) 1995
شیخ الحدیث مولانا خورشید عالم (وفات) 2011
مولانا عبد الشکور مئوی(وفات) 1910
غلام ربانی تاباں (وفات) 1993
قاضی عبد القادر بیدل(وفات) 1934
مخدوم علاء الدین علی المھایمی(وفات) 1432
مظفر حسین برنی(وفات) 2014
شہزادی در شہوار سلطان(وفات) 2006
ساجد مراد آبادی(وفات) 2013
گلبدن بیگم(وفات) 1603
یونس دہلوی(وفات) 2019
اس باب میں پاکستانی پنجاب کے شہر میانوالی کے مضافاتی مقام واں بھچراں سے تعلق رکھنے والے مولانا حسین علی نے بھی عمدہ اصطلاحات متعارف کرائی ہیں جنہیں تفسیر جواہر القرآن کے شروع میں مولانا غلام اللہ خان نے جمع کردیاتھا.ان اصطلاحات میں تبشیر دنیوی, تبشیر اخروی, تخویف دنیوی واخروی, دلیل عقلی, دلیل نقلی, دلیل لمی وغیرہ بہت سی اصطلاحات ہیں.
ان پر مسلکی طور پر کافی کام ہواہے, شاید مولانا پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ہے مگر میرے خیال میں اس پر تجزیاتی کام کی مزید ضرورت ہے.
راقم نے کسی زمانے میں ایک مضمون " نص قرآنی کی تفہیم میں مولانا حسین علی الوانی کی اصطلاحات کا کردار" لکھا تھا.
میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر ابو بکر ضیاء کا پی ایچ ڈی کا مقالہ مولانا فراہی, مولانا تھانوی اور مولانا حسین علی کے تصور نظم قرآنی پر ہے, مگر انہوں نے بھی اسلوبی اصطلاحات کا جائزہ نہیں لیا.
مولانا خالد مسعود کا یہ کام واقعی ایک عمدہ کام ہے. اللہ کریم قبول فرمائے.
ڈاکٹر اکرام الحق
مولانا سید محمد اسعد مدنی (وفات ۶ فروری ۲۰۰۶ء) تحریر : مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
Читать полностью…*قرآن مجید کے اسالیب*
محمد رضی الاسلام ندوی
علوم القرآن کا ایک مہتم الشان موضوع 'اسالیب' ہے - اس کے بغیر قرآن کا صحیح فہم حاصل نہیں ہوسکتا - اس پر خاصا کام ہوا ہے - بیسویں صدی کے عظیم مفسّر علامہ حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی اس موضوع پر ایک تصنیف ہے ، جسے وہ مکمل نہیں کرسکے تھے ، ناتمام صورت میں وہ الدائرۃ الحمیدیۃ سرائے میر ، اعظم گڑھ سے 'اسالیب القرآن' کے نام سے شائع ہوئی تھی - اس کی روشنی میں مولانا امین احسن اصلاحی کے شاگرد جناب خالد مسعود نے اسالیبِ قرآن پر ایک سلسلۂ مضامین شروع کیا تھا ، جو رسالہ 'تدبّر' میں قسط وار شائع ہوتا رہا - انہی مضامین کو زیرِ نظر کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے -
خالد مسعود صاحب فکرِ فراہی کے امین اور شارح ہیں - انھوں نے طویل عرصے تک مولانا اصلاحی کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کیا ہے - ان کی تصانیف میں حیاتِ رسول امّی ، توضیحاتِ فکر فراہی اور تلخیص تدبّر قرآن اہم ہیں - اس کتاب میں فصل ، تنوّع خطاب ، التفات ، اعتراض ، تضمین ، حذف ، حذف فعل ، حذف معطوف علیہ ، حذف مقابل ، تفصیل بعد اجمال وغیرہ جیسے اسالیب کی توضیح کی گئی ہے اور قرآن مجید سے ان کی مثالیں پیش کی گئی ہیں - ابتدا میں برادر محترم مولانا نسیم ظہیر اصلاحی ، استادِ حدیث مدرسۃ الاصلاح ، سرائے میر ، اعظم گڑھ کا مقدمہ ہے ، جس میں انھوں نے موضوع ، مصنف اور کتاب کا مفصّل تعارف کرایا ہے -
اس کتاب کو ھدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نئی دہلی نے چھاپا ہے - صفحات : 184 ، قیمت : 250 روپے
رابطہ :
+91- 9891051676
آج کی اہم وفیات
مورخہ ۵/ فروری
حضرت شاہ نفیس الحسینی لاہوری(وفات) 2008
محمد رضا انصاری، مفتی (وفات) 1990
ارم لکھنوی (شہنشاہ حسین )(وفات) 1967
علی احمد عباسی، پروفیسر حکیم (وفات) 1999
علی اظہر برلاس، مرزا (وفات) 1989
مشتاق علی قاضی، جسٹس (وفات) 2002
نظام صدیقی(وفات) 2005
جنرل پرویز مشرف(وفات) 2023
/channel/ilmokitab
زمانہ بھی کیا عجب رنگ دکھلاتا ہے
مولانا ابوالحسنات ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
انقلابِ زمانہ کا یہ کس قدر حسرت ناک واقعہ ہے کہ آج ہم جن ممالک کو قبلۂ مراد سمجھ کر، اپنی مرادیں مانگنے کے لیے، وہاں عاجزانہ حاضر ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے اسلاف کے چمنستانِ عیش و اقبال رہ چکے ہیں۔ آج ہم عجز و اطاعت کے لیے، جس سرزمین کی خاک سے اپنی جبین غبار آلود کر لیتے ہیں، وہ کبھی ہمارے فتح مند اسلاف کے سمندِ اقبال کے سمون سے پامال رہ چکی ہیں۔ آج ہم جن قوموں سے اپنی قسمت کا فیصلہ چاہتے ہیں، کبھی خود ان کی قسمت کی باگ، ہمارے ہاتھوں میں تھی۔ یہ واقعہ تعجب انگیز نہیں کہ ہمارا عہدِ شوکت و عظمت ختم ہوچکا۔ کیونکہ قوموں کا عروج و زوال، زمانہ کی طبعیت کا ناگزیر حادثہ ہے، جس سے کسی قوم کو مفر نہیں۔ معلوم نہیں؟ چشمِ روزگار اب تک انقلاب کے ایسے کتنے تماشے دیکھ چکی ہے اور آئندہ دیکھے گی۔ یہ اک سچ ہے کہ ہمارا کاروانِ اقبال لُٹ چکا اور اب اس غارت شدہ کاروان کی عظمت و شوکت کی شہادت، اُس کے وہ نقشِ قدم دیں گے، جو سرِ راہ آج تک نمایاں ہیں۔
"کارواں رفتہ و اندازہ جاہش پیداست
زاں نشان ہا کہ بہ ہر راہ گزار افتادست"
ہاں! یہ بھی سچ ہے کہ مدت سے زمانہ کا زبردست ہاتھ، اُن نشانوں کو مٹانے کے لیے پیہم حرکت کر رہا ہے اور وہ دوسری قوموں کی طرح، ہماری داستانِ اقبال کو بھی، افسانۂ پارینہ بنا دینا چاہتا ہے۔ لیکن با ایں ہمہ ابھی ایسی بے شمار نشانیاں موجود ہیں، جن سے دنیا ہمیں اچھی طرح پہچان سکتی ہے اور وہ ہماری داستانِ اقبال کا افسانۂ پارینہ نہیں، بلکہ صحیفۂ عالم کے ایک حقیقی واقعہ کی حیثیت سے مطالعہ کرسکتی ہے۔
معارف/ جولائی ۱۹۲۳ ء /صفحہ: ۳۷/۳۸ / انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
*کیا ہم مسلمان ہیں (۲۶ )۔۔۔ اسلام ایک بے پناہ سچائی ( تیسری قسط )*
تحریر: شمس نوید عثمانی
وہ شخص جو قرآن پڑھنے والوں پر کبھی بلائے بے درماں بن کر ٹوٹ پڑتا تھا۔ قرآن کا لفظ لفظ اس کے جذبات عبودیت میں تلاطم پیدا کیے دیتا تھا۔ قرآن شریف پڑھتے جاتے اور روتے جاتے تھے _____اور گلو گیر آواز کتاب اللہ کے الفاظ کو سینے سے لگائے سینے کی گہرائیوں میں بیٹھ جاتی تھی ۔ حق کوشی نے دل میں درد اور دماغ میں حقیقت پسندی کا وہ نور پیدا کر دیا تھا کہ جاہلی عصبیت کی فضا اس کے شفاف نور میں نہا گئی تھی __ کسی نے ایک بار کہا " تم معاذ (رضی اللہ عنہ) کے گھر جاکر قرآن پڑھتے ہو ____ وہ تو ایک خزرجی ہے اور تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔"
" کیا کہ رہے ہو!" سہیل کے سینے میں جاہلی عصبیت کے بجائے اعترافِ حق میں بچھڑ جانے کی دیرینہ خلِش جاگ اُٹھی " کیا کہہ رہے ہو! _____ اسی شومی فکر نے ہماری یہ درگت بنائی کہ لوگ خُدا شناسی میں ہم پر بازی لے گئے ______ کاش ___ ہم پہل کرنے والوں میں ہوتے ! کاش !! مگر خدا کا شکر ہے کہ اسی نے ہمیں بچالیا ورنہ اگر ہم کفر کی موت ہی مرجاتے تو ہمارا انجام کیا ہوتا ! نہیں ! میں معاذ کی خدمت میں جاتا رہوں گا ۔ ضرور جاتا رہوں گا ___" اور یہ کہتے کہتے ان کی آواز تھر تھرائی اور آنکھوں میں مُقدس آنسو جِھلمِلا گئے۔ سر سینے پر ڈھلک گیا اور سینہ میں دھڑکتا ہوا دل کسی نیم بسمل پرندے کی طرح پھڑ پھڑانے لگا یکایک نہ جانے ان کو کیا یاد آگیا تھا_____ کون سی ظالم یاد تھی جس نے حال کو ماضی پہنائیوں میں دھکیل دیا تھا اور یاد کرنے والا اپنے وجود تک کو بھول گیا تھا۔ سوچ اور اضطراب میں سینے پر ڈھلکا ہوا سر پھر اُٹھا _______ آنسوؤں سے گلنار پر نور ایمانی آنکھیں مخاطب کے چہرے پر جم گئیں۔ چہرے پر جذبات کی دُھوپ چھاؤں کا منظر کانپ گیا اور لرزتی ہوئی آواز ایک بار پھر خشک سے ہونٹوں پر کراہ اُٹھی ۔ " اِس وقت مجھے اُس دن کی یاد آ رہی ہے جب میں خُدا کا بندہ ہوتے ہوئے یہ بات نہ جانتا تھا کہ میں خدا کا بندہ ہوں۔ جب ایک درخت کے سائے میں ایک خدا کے بنائے ہوئے دو طرح کے انسان ____ کا فراور مومن یک جا ہوئے تھے اور حدیبیہ کی دستاویز صلح لکھی جا رہی تھی _______ اس وقت یہی وہ بدنصیب انسان تھا جس نے پاگلوں کی طرح یہ چیخ ماری تھی کہ کاغذ پر "محمد رسول الله" کے الفاظ برداشت نہیں کیے جا سکتے_____ مٹاؤ ____ ان کو مٹاؤ !_____ اور .... آج میں ان الفاظ پر خود کو مٹا دینے کی حسرت میں تڑپتا ہوں تو مجھے اپنی زندگی کا یہ تاریک واقعہ جاں کنی سے زیادہ روح فرسا محسوس ہوتا ہے _______ اے ضرار! میں خُدا کے رسولﷺ کے سامنے جاتا ہوں تو مجھے اپنے وہی الفاظ تیر و نشتر بن کر روح میں گھستے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور مجھے حضور سے آنکھیں ملاتے ہوئے شرم آتی ہے!"
________٭٭٭________
کیسے تھے وہ لوگ بھی جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ۔ ان کی غیرت حق ، غیرت ایمانی آخر کیا چیز تھی جو اُن کے ایامِ کفر کی بداعمالیوں پر خون کے آنسو رلاتی تھی_____ جو نادانی کی خطا کاریوں پر اس طرح سرا فگندہ و دل فگار تھے جیسے کسی نے جان بوجھ کر حق و صداقت کی عدالت میں کوئی سنگین جرم بقید ہوش و حواس کیا ہوا ! لیکن ہم ٹھیک اسی سنگین جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں _____ ہم نے حق کی گود میں شعور کی پہلی آنکھ کھولی ______ ہم پیدائشی مسلمان ہیں ۔ ہمیں کفر کی ہوا تک نہیں لگی۔ مگر اس کے باوجود ہمارا احساس گناہ پتھر ہے _____ پتھر سے زیادہ سخت ہے ______ہم ایامِ ایمان کی سیاہ کاریوں کی فرد جرم اُٹھائے ہوئے اپنے خدا کی "عدالت محشر" کی طرف یوں ہنستے کھیلتے جارہے ہیں جیسے دوزخ کی آگ اور جنت کی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی میں کوئی فرق نہیں! جیسے خدا کی رحمت اور خدا کے قہر و جلال میں تمیز کرنے کی حس ہی ہمیشہ کے لیے ماری گئی ہو! اے وائے بر حال ما! ہم کہ "مسلمان" ہیں! ___کیا .... کیا ہم مسلمان .... ہیں ؟! _____ نہیں ________ کیا ہم مسلمان ہیں؟______
/channel/ilmokitab
" ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آخرت میں بعضے غیر محققوں کو اتنے درجہ مل جاویں گے، کہ محقق دیکھتے ہی رہ جاویں گے!! " ۔
( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: 9، صفحہ نمبر: 303 ) ۔
/channel/ilmokitab
یگانہ چنگیزی(وفات ۴ فروری ۱۹۵۶ء) تحریر بلند اقبال بیگم (دختر یگانہ)
Читать полностью…تعارف کتاب: اسپین۔ اقبال کا دوسرا خواب
- ڈاکٹر محمد سہیل شفیق -
کتاب : اسپین اقبال کا دوسرا خواب
مصنف : ڈاکٹر عابد شیروانی
صفحات : 240
قیمت : 600 روپے
ناشر : الناشر پریس
رابطه : 03462310666
حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے 1932ء میں لندن گئے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے اسپین کے شہر قرطبہ میں قیام کیا۔ ویسے تو مسجدِ قرطبہ میں اذان اور نماز پر پابندی تھی لیکن اقبالؒ نے اسپین کی حکومتِ وقت سے اجازت لے کر مسجد میں اذان دی اور نماز بھی ادا کی۔ قرطبہ میں قیام کے دوران ہی اقبال نے اپنی شاہکار نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ لکھی۔
علامہ محمد اقبالؒ کی ایسی بہت سی مشہور نظمیں ہیں جن میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کا موازنہ عصرِ حاضر کی زبوں حالی سے کیا گیا ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا شمار بھی ایسی ہی موضوعاتی نظموں میں ہوتا ہے، جس کے بارے میں ماہرینِ اقبالیات کا یہ کہنا ہے کہ اگر اقبال کچھ اور نہ لکھتے اور صرف یہی ایک نظم لکھتے، تب بھی وہ اردو کے اتنے ہی بڑے شاعر ہوتے۔
اسپین میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کو چشمِ تصور سے دیکھ کر اور یہاں مسجدِ قرطبہ کی ویرانی کے حالیہ منظر سے اقبال رنجیدہ خاطر ہوئے، لیکن ان مسلمانوں کے اعلیٰ کردار اور جذبۂ جہاد کی دل کھول کر داد دی جنھوں نے انتہائی قربانیاں دے کر اس سرزمین پرخلافتِ اسلامی کے قیام کو ممکن بنایا۔ اقبال نے مسجدِ قرطبہ کو دیکھ کر عالمِ اسلام کو اس کے پُرشکوہ اور شاندار ماضی کی یاد دلائی۔ اس نظم میں اقبال نے یورپی اقوام کو عام طور پر اور اندلسیوں کو خاص طور پر مخاطب کیا۔ جبرو استبدادکے مذہبی اور سیاسی نظاموں کے خلاف بے ثمر انقلابات، تحاریک اور طویل جنگوں سے تنگ اقوام کو اسلام کے مکمل اور ہمہ گیر نظام کو قبول کرنے کی ترغیب دی۔
اقبال شناس ڈاکٹر عابد شیروانی کی پیش نظر یہ کتاب علامہ اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کی ایک مفصل علمی اور تحقیقی نوعیت کی شرح ہے۔ اس شرح میں ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آمد تا سقوطِ غرناطہ (1492ء) کی ایک مختصر تاریخ بھی ملتی ہے۔ فاضل شارح نے اقبال کے اس تخلیقی تجربے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جو مسجدِ قرطبہ کی نظم کی صورت میں منتج ہوا۔ انھوں نے اس تجربے کے جمالیاتی، تہذیبی، ادبی، روحانی، لسانی، سیاسی اور شاعرانہ پہلوئوں پر بھی بات کی ہے۔ شیروانی صاحب کی وقیع تحقیق اور دقیق مطالعۂ تاریخ نے نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کی تشریح اور تفہیم کو آسان اور بامقصد بنادیا ہے۔ مزید برآں صاحبِ کتاب نے ہر اُس مشکل لفظ، تلمیح اور پس منظر کو بہت مفصل لیکن جامع انداز میں موجودہ عصری تقاضوں کے مطابق اپنے قاری کو سمجھایا ہے جو کہ اقبال کی اس بظاہر مشکل نظم کے لیے ضروری تھا۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
سسرال یوں تو خاوند یا بیوی کے گھر اور خاندان کو کہتے ہیں، مگر مجازاً یا کنایتاً جیل اور قید خانے کو بھی سسرال کہا جاتا ہے۔کوئی کسی وجہ سے اندر ہوجائے تو اشارتاً بتایا جاتا ہے کہ’’سسرال گئے ہیں‘‘۔
اگر کوئی شخص مفرور ہو یا غائب ہوجائے تب بھی یہی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ سیاسی رہنما بھی ایسے گزرے ہیں جو اپنی حقیقی سسرال کے سبب مجازی سسرال جا پہنچے، یہ کہتے ہوئے کہ
’’ہم تو چلے سسرال!‘‘
برصغیر میں بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی داماد اپنی سسرال میں ڈیرے ڈال دے اور سسر کی روٹیوں پر پلتا رہے۔ ایسے شخص کے لیے اُردو میں بہت برا محاورہ ہے۔ اسے ’’سسرال کا کتا‘‘ کہا جاتا ہے۔ جانؔ صاحب کہتے ہیں:
برفی خانم بھونک کر خالی نہ کر اپنا دماغ
بے ادب لڑکا تھا کتا بن گیا سسرال کا
سسرال ساس یا سسر سے بنتی (یا بنتا) ہے۔ جب تک ساس ہے تب تک آس ہے۔محاورہ پوچھتا ہے: ’’ساس بِن کیسی سسرال؟‘‘ ساس کو ’خوش دامن‘ بھی کہا جاتا ہے، نہ جانے کس خوشی میں یا کس خوش فہمی میں۔مگر سسر بے چارا خسرکے سوا کوئی خوش کن نام نہ پا سکا۔ ایران کے جو بادشاہ ’خسرو‘ کہلاتے تھے، وہ خسرو کیوں کہلاتے تھے، یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ دیکھیے خسروانِ لسان کیا فیصلہ کرتے ہیں۔البتہ ’سالا‘ جو ہمارے ہاں گالی بلکہ ’گالا‘ بن گیا ہے، ایران میں ’خسر پورہ‘ کہلاتا ہے یعنی خسر کا پوت۔مراد یہ کہ ’ایں ہم بچۂ شتر است‘ (یہ بھی اونٹ کا بچہ ہے)۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک جنگل میں اونٹ پکڑے جا رہے تھے۔ایک لومڑی نے یہ ماجرا سنا تو بد حواس ہو کر بھاگنے لگی۔ اُسے بھاگتے دیکھ کر ایک بندر نے پوچھا :
’’خالہ! تم کیوں بھاگ رہی ہو؟ ‘‘
لومڑی بولی : ’’میرے بھانجے! مجھے ڈر ہے کہ کہیں اونٹ پکڑنے والے مجھے بھی یہ کہہ کر نہ پکڑ لیں کہ ایں ہم بچۂ شتر است‘‘۔
گویا اہلِ فارس بھی ’سالے‘ کو یہ کہہ کر دوڑاتے پھرتے ہیں کہ’ ایں ہم بچۂ خسر است‘۔
/channel/ilmokitab
جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( 8) اتفاق الفاظ و اختلاف معانی ۔۔۔ ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم
کوئی چالیس پینتالیس سال پہلے کی بات ہے۔ حج کے ایام تھے اور میں منی میں تھا۔ آج کل حاجیوں کے لیے جو سہولتیں میسر ہیں اس زمانے میں ان کا خواب و خیال میں ہی تصور کیا جاسکتا تھا۔ ان دنوں منی میں پانی کی بہت قلت ہوتی تھی اور یمنی لوگ ٹینوں میں پانی لا کر بیچتے تھے۔ میں اپنے خیمے میں بیٹھا ہوا تھا۔ خیمے میں اردو اور تمل بولنے والے حاجی تھے، ایک یمنی سقا پانی بیچتے ہوئے وہاں پہنچا، اس نے آکے پوچھا: تبعون مویا؟ یعنی کیا پانی چاہیے ؟ وہاں بیٹھی مستوارت نے کہا ”لا“ یعنی پانی لے آؤ۔ مستورات نے اردو کا لفظ بولا تھا۔ اس نے عربی والا لفظ"لا" سمجھا یعنی ”نہیں“، اور واپس جانے لگا۔ عور تیں کہنے لگیں۔ اس شخص کی بے وقوفی دیکھو ہم اسے پانی لانے کو کہہ رہے ہیں اور وہ واپس جارہا ہے۔
زبانوں کے در میان اتفاق الفاظ اور اختلاف معانی کی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے جہاں کچھ دردناک ایسے واقع ہوئے ہیں وہیں کچھ دلچسپ اور مضحکہ خیز لطیفے بھی رونما ہوئے ہیں۔ ابن بطوطہ نے اپنی کتاب «تحفة النظار» میں اس قسم کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ یہ واقعہ ترکیا میں پیش آیا۔ ابن بطوطہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ترک میزبان سے گھی کی فرمائش کی۔ اس وقت وہ سب کھانے کے دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میزبان نے کہا کہ میں ابھی اس کا انتظام کرتا ہوں۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو اس کا حکم دیا۔ کافی دیر کے بعد دولوگ واپس آئے۔ میزبان نے ابن بطوطہ کو خوشخبری دی کہ آپ کی فرمائش آگئی ہے۔ وہ ان کو لے کر گھر کے باہر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ گھاس سے لدی ہوئی ایک گاڑی کھڑی ہے۔ ابن بطوطہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میزبان نے کہا یہی سمن ہے جس کی فرمایش آپ نے کی تھی۔ اس لطیفے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جانا چاہیے کہ ابن بطوطہ نے «سمن» کی فرمایش کی تھی جو عربی میں بمعنی گھی“ ہے۔ میزبان نے اسے ترکی کا لفظ saman سمجھا جو بمعنی گھاس“ ہے۔
/channel/ilmokitab
*نوٹ: گروپ میں غلطی ہائے مضامین۔ جلوہ ہائے رکاب ایک ترتیب کے ساتھ ہم پوسٹ کرتے آرہے ہیں۔ برائے دوسرے احباب ان سلسلوں کے علاوہ دوسرے سلسلوں پر محنت صرف کریں تو تکرار سے بچا جاسکے گا*۔
وفیات: مورخہ ۳ فروری
/channel/ilmokitab
علامه راشد الخیری ف 1936ء
ابراہیم راز ف 2003ء
احمد ابراہیم ہارون جعفر(احمد ای ایچ جعفر) ف 1990ء
بہاؤالدین قوال ف 2006ء
سجاد حسین ،پروفیسر مرزا ف 1978ء
محمد توفیق ، شیخ (ایس ایم توفیق) ف 1959ء
محمد زبیر،حاجی ف 1992ء
مظفر حسین ، ڈاکٹرسید ف 1998ء
نصیر الاجتہادی،مولانا (سید نصیر حسین نقوی) ف 1990ء
نصیر آرزو (نصیر الدین خان) ف 2009ء
نواب احمد ، خواجہ سید ف 1966ء
مفتی ولی حسن ٹونکی ف 1995ء
آمنہ نازلی ف 1996ء
محمد حیات سندھی ف 1750ء
نسیم حسن شاہ ف 2015ء
كان العرب يقولون قديمًا:
لا ترافق حديث السن ...وحديث الغنى...وحديث القيادة..
لا تعاند قديم المهنة ...وقديم المعرفة .. وقديم الجيرة....
لا تطعن في نظيف الشرف...ونظيف السمعة...ونظيف اليد...
لا تجامل قليل العقل ..وقليل الخبرة... وقليل الخير...
لا تتحدى قوي الايمان ...وقوي العضلات ...وقوي الذاكرة....
لا تشاور ضعيف الشخصية وضعيف النفس وضعيف الحجة...
لا تتجاوز كبير القلب وكبير الهمة وكبير الميعاد...
لا تنسى واسع الأفق...وواسع البال... وواسع الحيلة...
لا تُقنع ضيّق الخلق... وضيّق النظرة...وضيّق التفكير...
لا تجادل صغير العقل وصغير السن وصغير التجربة.