ilmokitab | Unsorted

Telegram-канал ilmokitab - علم و کتاب

7762

علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri

Subscribe to a channel

علم و کتاب

محمد خالد اختر(وفات ۲ فروری ۲۰۰۲ء) تحریر محمد کاظم

Читать полностью…

علم و کتاب

Audio from Abdul Mateen Muniri

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات

/channel/ilmokitab

اطہر ضیائی 1 فروری 2011
قاسم جہانگیری اجمیری(خواجہ محمد غیاث الدین) 1 فروری 1990
نور محمدلاشاری 1 فروری 1997
مولانا حکیم سید عبدالحی 1 فروری 1923
امجد نجمی ، محمد امجد 1 فروری 1974
جلیل قدوائی 1 فروری 1996
عبد المجید لدھیانوی 1 فروری 2015

Читать полностью…

علم و کتاب

سیماب اکبرآبادی(وفات ۳۱ جنوری ۱۹۵۱ء) تحریر صادق الخیری

Читать полностью…

علم و کتاب

خطاب مولانا سید عبد اللہ الحسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ (وفات ۳۰ جنوری ۲۰۱۳ء) https://www.youtube.com/watch?v=JQ2xK6kaY5A&list=PL5AFF3B0018DDC975&index=87

Читать полностью…

علم و کتاب

*سچی باتیں (۲۸؍اکتوبر ۱۹۳۲ء).۔۔۔ انبیاء کی دعوت*
*تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ*

سورۂ یٓس میں، ایک شخص اپنے ہم قوموں سے، وقت کے پیغمبروں پر ایمان لانے کی سفارش کرتاہے، اور پیغمبروں کا وصف مشترک یہ بتاتاہے،
قال یاقوم اتبعوا المرسلین اتبعوا مَن لا یسألکم أجرًا۔
کہ یہ وہ حضرات ہیں ، جو اپنی شبانہ روز کی مشغولیت کی کوئی اُجرت نہیں مانگتے، اپنی دن رات کی خدماتِ دینی کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے۔ اسی طرح سورۂ شعراءؔمیں حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ، حضرت لوطؑ، حضرت شعیبؑ، پانچ انبیاء جلیل القدر کی زبان سے یہ قول نقل فرمایاگیاہے،
وما أسألکم علیہ من أجر اِن أجری الا علی رب العالمین۔
کہ میں تم لوگوں سے تو تبلیغ رسالت پر کسی طرح کا معاوضہ نہیںچاہتا، مجھے انعام جوکچھ ملتاہے، پروردگار عالم کے ہاں سے ملے گا۔
اور یہی مضمون بکثرت دوسری آیتوں میں بھی وارد ہواہے۔ مثلًا قل ما أسألکم علیہ من أجر۔ قل ما سألتکم من أجر۔ یا قوم لا أسألکم علیہ أجرًا۔ أم تسألہم أجرًا فہم من مغرمٍ مثقلون۔ وغیرہا۔
دنیا کی سب سے زیادہ معزز ہستیوں کا طریقِ کار آپ نے دیکھ لیا۔ نہ بڑی بڑی فیسیں، نہ محنتانے، نہ نذرانے، نہ بڑے بڑے مشاہرے، نہ جاگیریں، نہ جائدادیں۔ نہ زمینداری ،نہ بڑے بڑے تعلقے۔ نہ تجارتی کوٹھیاں نہ بڑے بڑے فرم، اور کمپنیاں، نہ ساہوکاروں کی ہان بَہی کھاتے، نہ بینک میں بھاری بھاری ’ڈپازٹ‘۔ جس شغل میں رات دن صبح وشام لگے ہوئے اس کے عوض میں آمدنی ہزاروں کی توکیا، سیکڑوں کی، دہائیوں کی، اکائیوں کی بھی نہیں! اگرآپ محض زبان ہی سے نہیں، دل سے بھی انھیں حضرات کو سب سے زیادہ معزز سمجھ رہے ہیں، اگرآپ انھیں کی انتہائی عزت کے قائل ہیں، تو قدرۃً آپ کے دل میں بھی ولولہ انھیں کے نقش قدم پر چلنے کا، انھیں کی راہ اختیار کرنے کا پیدا ہوناچاہئے۔
لیکن اس کے برعکس، آج دنیا نے عزت وناموری کے ساتھ، کن کن ناموں کو چمکاکر آپ کے سامنے پیش کررکھاہے؟ فلاں بیرسٹر صاحب اور فلاں وکیل صاحب، جو ایک ایک پیشی کی’’فیس‘‘ میں سیکڑوں ہزاروں لے لیتے ہیں، جو صرف کاغذاتِ مقدمہ دیکھنے اور مشورہ دینے میں ہزاروں کمالیتے ہیں۔ فلاں ڈاکٹر صاحب اور فلاں حکیم صاحب، جو ایک ایک Call میں اپنی جبیں بھر بھر لیتے ہیں، جو ایک ایک آپریشن میں مالامال ہوجاتے ہیں۔ فلاں جج اور فلاں کمشنر، فلاں منسٹر اور فلاں ایکزیکٹوکونسل جن کی اتنی اتنی تنخواہیں ہیں۔ فلاں رئیس اور فلاں زمیندار جن کی لاکھوں کی آمدنیاں ہیں۔ اور خیر یہ تو پھر دنیوی پیشے، اور کھُلے خزانے ’’پیٹ کے دھندے‘‘ ہیں، فلاں شاہ صاحب اور فلاں مولوی صاحب، جن کے نذرانے اور جن کے ہاں کے ’’چڑھاوے‘‘ سُن سُن کردنیا داروں کو بھی رشک آجاتاہے!……اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھئے کہ دل میں اُمنگیں کس کی روش پر چلنے کی ہیں۔ انبیاء کرام کے طریق پر ، یا آج کے معززین اور اہل وجاہت کی راہ پر؟ زمانہ نے آپ کی نظر میں خوش آیند اور قابلِ تقلید کس کو بنارکھاہے۔ ’’اجر‘‘ سے بھاگنے والوں کو یا ’’اجر‘‘ پر دَوڑ دَوڑ کر گرنے والوں کو؟
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*آج کی وفیات*


/channel/ilmokitab

ڈاکٹر جرمانوس 28 جنوری 1967
امت الله تسنیم (عائشہ بی ) 28 جنوری 1976
مولانا قاری رشید الحسن حسینی 28 جنوری 2001
امیرمظہر علی شاہ قادری چشتی نقشبندی،سید 28 جنوری 1968
حامد حسن بلگرامی، ڈاکٹر 28 جنوری 2001
حمید الرحمٰن،مولانا مفتی 28 جنوری 2001
شجاعت علی قادری، ڈاکٹر مفتی سید 28 جنوری 1993
عنایت اللہ خان،مولانا 28 جنوری 2001
محمد اقبال ، مفتی 28 جنوری 2001
محمود، ایس (محمود حسین) 28 جنوری 1977
مظاہر باری 28 جنوری 1998
یونس راٹھور، محمد 28 جنوری 2014
عبد العزیز خالد 28 جنوری 2010
مولانا مظہر کلیم قاسمی 28 جنوری 2005
مولوی فہیم الدین صاحب میرٹھی 28 جنوری 1991
سراج الدین خان آرزو 28 جنوری 1756
پیر امین الحسنات مانکی شریف 28 جنوری 1960
مظفر علی سید 28 جنوری 2000
مظفر وارثی 28 جنوری 2011
کیف مرادآبادی 28 جنوری 1976
شاہد حمید 28 جنوری 2018

Читать полностью…

علم و کتاب

*قافلہ کا آخری مُسافر۔۔۔ نواب وقارالملک مرحوم(وفات : ۲۷ جنوری ۱۹۱۷ء) تحریر: علامہ سید سلیمان ندوی*

علم والے علم کا دریا بہا کر چل دیئے

واعظانِ قوم سوتوں کو جگا کر چل دیئے
کچھ سخنور تھے کہ سحر اپنا دکھا کر چل دیئے

کچھ مسیحا تھے کہ مردوں کو جلا کر چل دیئے
نواب محسن الملک کی وفات پر ہم نے تدبر و سیاست کا ماتم کیا، مولانا نذیر احمد کے مرنے پر سحر نگاری اور بزم آرائی کا مرثیہ پڑھا، مولانا شبلی کی موت پر ہم نے علم کے فقدان پر نوحہ کیا، لیکن نواب وقارالملک کی رحلت پر ہم قوم کا ماتم کرتے ہیں اور الوالعزمانہ اخلاق کی گم شدگی پر فریاد۔
یہ ہستی گراں مایہ جس نے ہماری دنیا کو ۲۷، جنوری ۱۹۱۷ء؁ میں الوداع کہا، ہمارے کارفرما قافلہ کا آخری مسافر تھا، اس کے بعد وہ دور جو انقلاب ہند کے بعد شروع ہوا تھا ختم ہوگیا، وہ دور جو انگریزی کالجوں کی کائنات نہیں، بلکہ بوریا نشین مدارس کا نتیجہ تھی، گزرگیا، وہ دور جو قدیم تعلیم اور قدیم اخلاق کے دنوں کو پیش کرتا تھا، منقطع ہوگیا، یعنی آئندہ ہماری قسمت کے مالک عربی مدارس کے شملے نہ ہونگے، بلکہ انگریزی درسگاہوں کے ہیٹ ہونگے، اب مشرق، مشرق کی قومیت پر حکومت نہیں کرے گا، بلکہ مغرب، اب لیڈری اور رہبریٔ جمہور کے لئے جوش دل اور اخلاص عمل ضروری نہ ہوگا بلکہ صرف ایک کامیاب عہدہ اور ایک عمدہ سوٹ فیا ویلاہ علی فقید الاسلام ویا خیباہ للمسلمین۔
مرحوم کو سب سے پہلے میں نے دارالعلوم ندوہ میں دیکھا، غالباً ۱۹۰۳ء؁ یا ۱۹۰۴ء؁ میں، پست قد، فربہ جسم، چھوٹی گردن، کچی پکی لمبی داڑھی، سرگھٹا ہوا اور سر پر ایک ترکی ٹوپی منڈھی ہوئی، ساتھ ایک ملازم اور اس کے کندھے پر جانماز۔
۱۹۰۶ء؁ میں دارالعلوم کی طرف سے مولانا شبلی مرحوم کے زیر ہدایت طالبعلموں کا ایک وفد بریلی و مراد آباد و رامپور و امروہہ میں مدرسہ کے لئے چندہ کی فراہمی کے لئے گیا تھا، اس وفد میں راقم الحروف بھی تھا، یہ وفد امروہہ میں دارالعلوم کے ایک مدرس مولانا سید علی زینبی کے مکان پر ٹھہرا تھا اور من جملہ دوسرے ممتازاصحاب کے نواب صاحب کی خدمت میں بھی حاضر ہوا، موصوف کی جس چیز نے ہم کو گرویدہ کیا وہ انکی بے مثال خاکساری اور تواضع تھی، چند گم نام و بے نشان طالب علموں کی ایسی قدر و منزلت فرمائی جو بیان سے باہر ہے، مرحوم کا مکان گلی کے اندر تھا۔ اﷲ اکبر! مسلمانوں کا یہ مسلم لیڈر چند بے مایہ طالب علموں کی مشایعت میں گھر سے گلی اور گلی سے سڑک تک چلا آیا اور یکّہ پر ان کو سوار کرکے واپس گیا اور دوسری دفعہ اصرار کرکے اپنے گھر پر مدعو کیا۔
مولانا شبلی مرحوم نے جب ندوہ میں قدم رکھا تو اپنے قدیم احباب کو ندوہ کی مالی اعانت کی طرف متوجہ فرمایا، مرحوم کا جو جواب آیا وہ کچھ اب بھی یاد ہے، ان کو غالباً چھ سو کے قریب حیدرآباد سے پنشن ملتی تھی، نصف علی گڑھ کی نذر، پھر نصف کا سالانہ حساب لکھا تھا، جس میں غریبوں، بیوائوں اور یتیموں کے سلسلۂ امداد کے بعد چند روپے رہ جاتے تھے جو ان کے ذاتی صرف میں کام آتے تھے، آخر میں لکھا تھا کہ آپ فرمائیںتو اسی میں سے کاٹ کر کچھ حاضر کروں۔
مولانا شبلی مرحوم، نواب وقارالملک کے سچے اور پکے کیرکٹر کے ثبوت میں دو واقعے بیان فرماتے تھے، ایک طرف تو اس واقعہ کا کہ وہ کبھی سرسید کی ماتحتی میں ملازم رہے تھے، ان کو سرکار کہتے تھے، حیدرآباد کے وفد میں سرسید کے ساتھ مولانا شبلی بھی گئے تھے، انہوں نے خود اپنا دیکھا ہوا واقعہ بیان کیا کہ ایک مجلس میں سرسید اور سروقار الامراء دونوں تشریف فرما تھے، نواب صاحب ہاتھ جوڑ کر سرکار ایک طرف سروقار الامراء کو کہہ رہے تھے، تو دوسری طرف حسب دستور اسی طرح سرسید کو بھی، حالانکہ وہ حیدرآباد میں اس وقت بہت بڑی شخصیت بن چکے تھے۔
لیکن سرسید نے جب زبردستی سید محمود کو اپنا جانشین بنایا تو نواب صاحب نے نہایت صفائی سے انہیں لکھا کہ اسلام میں دو ہی شخص گزرے ہیں، ایک معاویہ جنہوں نے یزید کو اپنا جانشین بنایا اور ایک آپ جو محمود کو اپنا جانشین بنارہے ہیں، اور اس پر بس نہیں کی بلکہ اس زمانہ میں روزانہ ’’پیسہ‘‘ اخبار میں سرسید کے خلاف ایک نہایت پر زور مضمون لکھ کر بھیجا، لیکن اس واقعہ کے چند ہی روز بعد سرسید نے وفات پائی، مرحوم نے تار بھیج کر اس مضمون کو رکوا دیا، غالباً ۱۹۱۰ء؁ تھا، یوپی کے کوئی لیفٹیننٹ گورنر ولایت واپس جارہے تھے، ان کی مشایعت کے لئے معززین اسٹیشن جارہے تھے، مولانا شبلی مرحوم عالمانہ شان سے ایک سبز عبا پہن کر تشریف لے گئے، جب واپس آئے تو فرمایا کہ مجھ کو نواب وقارالملک کو معمولی سادہ کپڑوں میں دیکھ کر بڑی شرم آئی۔ ان چند واقعات سے مرحوم کے پورے کیرکٹر کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( 8) اتفاق الفاظ و اختلاف معانی ۔۔۔ ڈاکٹر ف عبد الرحیم

کوئی چالیس پینتالیس سال پہلے کی بات ہے۔ حج کے ایام تھے اور میں منی میں تھا۔ آج کل حاجیوں کے لیے جو سہولتیں میسر ہیں اس زمانے میں ان کا خواب و خیال میں ہی تصور کیا جاسکتا تھا۔ ان دنوں منی میں پانی کی بہت قلت ہوتی تھی اور یمنی لوگ ٹینوں میں پانی لا کر بیچتے تھے۔ میں اپنے خیمے میں بیٹھا ہوا تھا۔ خیمے میں اردو اور تمل بولنے والے حاجی تھے، ایک یمنی سقا پانی بیچتے ہوئے وہاں پہنچا، اس نے آکے پوچھا: تبعون مویا؟ یعنی کیا پانی چاہیے ؟ وہاں بیٹھی مستوارت نے کہا ”لا“ یعنی پانی لے آؤ۔ مستورات نے اردو کا لفظ بولا تھا۔ اس نے عربی والا لفظ (لا)سمجھا یعنی ”نہیں“، اور واپس جانے لگا۔ عور تیں کہنے لگیں۔ اس شخص کی بے وقوفی دیکھو ہم اسے پانی لانے کو کہہ رہے ہیں اور وہ واپس جارہا ہے۔
زبانوں کے در میان اتفاق الفاظ اور اختلاف معانی کی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے جہاں کچھ دردناک ایسے واقع ہوئے ہیں وہیں کچھ دلچسپ اور مضحکہ خیز لطیفے بھی رونما ہوئے ہیں۔ ابن بطوطہ نے اپنی کتاب "تحفة النظار" میں اس قسم کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ یہ واقعہ ترکیا میں پیش آیا۔ ابن بطوطہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ترک میزبان سے گھی کی فرمائش کی۔ اس وقت وہ سب کھانے کے دستر خوان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میزبان نے کہا کہ میں ابھی اس کا انتظام کرتا ہوں۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو اس کا حکم دیا۔ کافی دیر کے بعد دولوگ واپس آئے۔ میزبان نے ابن بطوطہ کو خوشخبری دی کہ آپ کی فرمائش آگئی ہے۔ وہ ان کو لے کر گھر کے باہر گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ گھاس سے لدی ہوئی ایک گاڑی کھڑی ہے۔ ابن بطوطہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میزبان نے کہا یہی سمن ہے جس کی فرمایش آپ نے کی تھی۔
اس لطیفے کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جانا چاہیے کہ ابن بطوطہ نے "سمن" کی فرمایش کی تھی جو عربی میں بمعنی "گھی“ ہے۔ میزبان نے اسے ترکی کا لفظ saman سمجھا جو بمعنی "گھاس“ ہے۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

’’یہاں لوگ جدت پسند ہیں… جدت کی حد یہ ہے کہ نومولود کو یہاں جدیدالورود کہتے ہیں۔ نو میں جو تازگی کے علاوہ توقعات کی دنیا آباد ہے وہ جدید میں کہاں؟ جدید محض قدیم کی ضد ہے۔ آج کل یہ لفظ کم درجہ چیزوں کے درجات کی بلندی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جو تحریر، تصویر یا عمل، نفسِ مضمون کے لحاظ سے کلاسیک کا مقابلہ نہ کرسکے اسے جدیدیت کا لیبل لگا کر فضیلت دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِدھر نو کا عالم یہ ہے کہ جس لفظ کے ساتھ لگا دیجیے اُس کی تازگی اور توانائی میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا خواہ وہ جوانی ہو، بہار ہو، مولود ہو کہ مسلم‘‘۔ (’’لوحِ ایَّام‘‘ باب چہاردہم ’’الفاظ‘‘)

نو عروس بھی تو فارسی اور عربی کا مرکب ہے۔ اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ایسے مرکبات کی اُردو میں بھرمارہے جیسے شبِ قدر۔

ہندی الفاظ کے ساتھ ’نو‘ کے استعمال کی ایک اور مثال یاد آگئی، ’’نوچندی‘‘۔ اس سے مراد نئے چاند کی پہلی جمعرات ہوتی ہے۔ لکھنؤ میں اس رات کچھ لوگ شاہ میناؔ کی درگاہ پر جایا کرتے تھے اور کچھ لوگ [لکھنؤ کے] کربلا۔ دونوں جگہ حسینوں کا مجمع ہوتا تھا۔ مصحفیؔ غالباً اس رات اپنے کربلا جانے ہی کو ترجیح دیتے تھے۔ فرماتے ہیں:

نو چندی آئی دھوم سے، چل تو بھی مصحفیؔ
جاتی ہیں کربلا کو حسینوں کی ڈولیاں

نوچندی ہی نہیں ایک ترکیب ’نوچندا‘ بھی اردو میں مستعمل رہی ہے۔یہ ترکیب نئے چاند کے بعد آنے والے دنوں کے ساتھ لگائی جاتی تھی۔ جیسے ’نو چندا جمعہ‘ یا ’نو چند ا اتوار‘۔سوداؔ کا شعر ہے:

کہتا تھا کوئی مجھ سے کہ مجھ کو بھی لے چڑھا
دوں گا ٹکا تجھے میں ہے نو چندا ایتوار

’نو‘ چوں کہ ایک عدد بھی ہے، دس سے پہلے والا، چناں چہ اس ’نو‘ کے مرکبات بھی پائے جاتے ہیں جیسے ’نولکّھا‘ یعنی نو لاکھ روپے کی قدر رکھنے والا، مجازاً بیش قیمت۔اسی طرح ’نوماسا ‘یعنی نو ماہ کا(جیسے ستوانسا سات ماہ کا) وغیرہ وغیرہ۔ اکبرؔ بادشاہ کے ’نورتن‘ بھی مشہور ہیں۔ مگر نورتن کا مطلب ہوتا ہے ’نوجواہر‘۔ان جواہر میں لعل، موتی، پکھراج، زمرد، مونگا، لاجورد،نیلم، ہیرا اور یاقوت شامل ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

واضح رہے کہ یہ خبر جو ہم نے مولانا ثمیرالدین صاحب کے انتقال کے حوالے سے لکھی تھی وہ غلط تھی درست یہ ہے کہ انتقال مولانا کے بہنوئی کا ہوا ہے لیکن چونکہ جب میرے مامو مولانا ساجد صاحب کا فون آیا تو سمجھنے میں بھول ہوئی اور میں نے تاکیدا ان سے پوچھا بھی تو ہاں کہا شاید وہ میری بات نہ سمجھ سکے اور اس طرح شدت جذبات میں ہمارے گھر میں ماتم کا سماں تھا اور کچھ لکھا چلایا لہذا آپ تمام حضرات سے میں معذرت خواہ ہوں
الحمدللہ حضرت صحیح سالم ہیں
ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کا سایہ تادیر ہم سب قائم رکھے
الیاس ثمر قاسمی ڈائریکٹر الفتح اسلامک مشن اسکول ۔۔

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات


/channel/ilmokitab

دیوان سنگھ مفتون 26 جنوری 1975
سعید انصاری،مولانا 26 جنوری 1984
اسلم رضا صدیقی ، پیرزادہ 26 جنوری 2012
حاتم علی علوی 26 جنوری 1976
حبیب علی کڈی 26 جنوری 1983
حیرت لکھنوی (شیخ عبدالکریم صدیقی) 26 جنوری 1984
رشید سینئر 26 جنوری 2009
ساقی جاوید(سید شوکت علی ) 26 جنوری 1994
شبیر علی گیلانی قادری،سید 26 جنوری 1976
صادق الخیری 26 جنوری 1989
صغیر ملال 26 جنوری 1992
عقیل احمد جعفری،سید 26 جنوری 1971
علی حیدر عثمانی 26 جنوری 1970
قاضی ، ڈاکٹر ایم اے 26 جنوری 1999
پروفیسرمولانا الیاس برنی 26 جنوری 1959
ملا محمد اصغر ٹنڈ ھیڑوی 26 جنوری 1995
قیس کو ٹوی ، نور محمد . 26 جنوری 1976
دیوان سنگھ مفتون 26 جنوری 1975
جناب حاجی محمد شفیع پھلواروی 26 جنوری 1983
علامہ عبد القدوس ہاشمی 26 جنوری 1989
صاحبزادہ یعقوب خان 26 جنوری 2016
جارج حبش 26 جنوری 2008
محمد یحیی گوندلوی 26 جنوری 2009
خان عبد الولی خان 26 جنوری 2006
خلیل الرحمن داؤودی 26 جنوری 2002
شجاع الدولۃ 26 جنوری 1775

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کردار اور انکسار کی دولت سے مالا مال ہیں، وہ ان نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ہیں جو نام ونمود اور تشہیر سے بے نیاز ہو کر اپنا کام غیرمعمولی لگن اور مشنری جذبے کے ساتھ مکمل کرتے ہیں۔ــ نہ ستائش کی تمنّا، نہ صلے کی پرواہ۔ ڈاکٹر صاحب نے تقریب میں گلے کی خرابی کے باعث تقریر کرنے سے گریز کیا۔

ویسے بھی وہ تقریر کے نہیں تحقیق کے آدمی ہیں۔ مگر اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مقرّرین نے ڈاکٹر صاحب کو پرجوش خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کے تحقیقی کارناموں کو دل وجان سے سراہا۔ مقررین نے بجا طور پر ’کتابیاتِ اقبال‘ کو ایک گرانقدر تاریخی دستاویز اور اقبالیات کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کتاب اور صاحبِ کتاب پر بڑی موثر گفتگو کی۔ افتخار عارف صاحب کے حافظے نے بہت متاثر کیا جو پیرانہ سالی میں بھی توانا ہے۔

انھوں نے دیگر مقررین کی تقاریر کے اہم نقاط کے حوالے دیے اور انھیں اپنے نقطۂ نظر سے ملا کر بڑی دلپذیر گفتگو کی۔ سامعین نے تمام باتیں بڑی دلچسپی اور جذبے کے ساتھ سنیں اور دو گھنٹے تک جم کر بیٹھے رہے۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب میرے ذاتی طور پر بھی محسن ہیں، وہ خود اس بات سے آگاہ نہیں تھے اس لیے میں نے اپنی تقریر میں اس کا برملا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ پندرہ سال پہلے میرے گرائیں اور بچپن کے دوست سلیم منصور خالد صاحب نے مجھے ان کی کتاب ’’علامہ اقبال… شخصیت اور فکروفن‘‘ بھیجی۔ اس وقت میں ڈی آئی جی تھا اور گوجرانوالہ جیسی اہم ڈویژن کی کمان کررہا تھا۔

نوکری کی مصروفیات کی وجہ سے میں کتاب پر زیادہ توجہ نہ دے سکا۔ کبھی کبھار ایک آدھ صفحہ پڑھ لیتا۔ پھر ایک روز میری نظریں اس صفحے پر جم گئیں جس میں علامہ اقبال کے سفرِ فلسطین کا ذکر ہے۔

فلسطین میں علامہ صاحب کو ایک اسکول کا بھی دورہ کرایا گیا جہاں طلباء نے فتحِ اندلس کا ڈرامہ پیش کیا۔ آخر میں علّامہ صاحب سے بھی کچھ کہنے کی درخواست کی گئی تو انھوں نے فاتحِ اندلس طارق بن زیاد کے بارے میں کہے گئے اپنے تاریخی اشعار سنائے کہ

طارق جو برکنارۂ اندلس سفینہ سوخت

گفتند کارِ توبہ نگا ہے خرد خطااست

خندید ودستِ خویش بہ شمشیر بردوگفت

ہر ملک ملکِ ماست بہ ملکِ خرائے ماست

عالمی سطح کے اسکالر سیّد ابوالحسن علی ندوی (جنھوں نے فکرِ اقبال پر عربی میں کتاب لکھی ہے) کہتے ہیں جب میں کلامِ اقبال پڑھتا ہوں تو خون جوش مارنے لگتا ہے اور رگوں میںبہادری اور شجاعت کی رو دوڑنے لگتی ہے۔ یہ اشعار پڑھ کر میرا حال بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔

اس کے بعد میں کتاب کی جانب زیادہ متوّجہ ہوا اور پھر نظروں کے سامنے کتاب کا وہ واقعہ آگیا جس نے دل ودماغ میں تلاطم برپا کردیا۔ یہاں علّامہ اقبال کے وہ روح پرور اشعار درج تھے جنھوں نے میری دنیا بدل دی۔ 1919 میں اٹلی نے دوسرے یورپی ممالک کی مدد سے عثمانی سلطنت کے شہر طرابلس پر حملہ کیا جس سے ترکوں کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔

اس خبر سے برصغیر کے مسلمانوں میں غم وغصّے کی لہر دوڑگئی اور ترک بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے بادشاہی مسجد لاہور میں عظیم الشّان جلسہ منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے تمام مسلم راہنما شریک ہوئے اور انھوں نے بڑی پرجوش تقریریں کیں۔

آخر میں علامہ اقبالؒ سے گذارش کی گئی کہ وہ بھی کچھ کہیں۔ انھوں نے اس موقع پر چھوٹی سی نظم پڑھی۔ جس کا تھیم یہ ہے کہ علامہ اقبال آسمانوں کا خیالی سفر کرکے دربارِ رسالت مآب میں پہنچتے ہیں اور وہاں ان کا حضور نبی کریمؐ کے ساتھ مکالمہ ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ ’بلبل باغِ حجاز‘ سے پوچھتے ہیں کہ دنیا سے ہمارے لیے کیا تحفہ لے کر آئے ہو، اس پر اقبال عرض کرتے ہیں

مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں

جو چیز اس میں ہے جنّت میں بھی نہیں ملتی

جھلکتی ہے تیری اُمّت کی آبرو اس میں

طرابلس کے شہیدوں کا لہو اس میں

عینی شاہدوں نے لکھا ہے کہ آخری شعر سننے کے بعد بادشاہی مسجد کے جلسے کے شرکاء دھاڑیں مار کر رونے لگے، میری اپنی آنکھیں بھی بڑی دیر تک نمناک رہیں، ان دو نظموں نے مجھے کلامِ اقبال کی طرف اس طرح کھینچا جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے اور پھر میں اقبال کی شاعری میں غوطہ زن ہوگیا اور علامہ کے بارے میں درجنوں کتابیں پڑھ ڈالیں اور اس نتیجے تک پہنچا کہ امت کے لیے حوصلے اور امید کا پیغام اگر کہیں ملتا ہے تو وہ کلامِ اقبالؒ ہے اور اب کئی سالوں سے نئی نسل کو فکرِ اقبال(پختہ ایمان، خودداری، جدّوجہد نبی کریم ؐ سے محبّت اور امّید جس کے نمایاں پہلو ہیں) سے روشناس کرانے کا فریضہ سر انجام دے رہا ہوں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب اور سلیم منصور صاحب آپ کا بہت شکریہ اور جزاک اﷲ۔

/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

معروف ادیب، محقق اور شاعر
ڈاکٹر ساحل احمد کا انتقال

✒️محمد عمران قنوجی

اردو کے معروف ادیب، محقق، شاعر اور افسانہ نگار ڈاکٹر ساحل احمد، نئی دہلی کے ہولی فیملی ہسپتال میں آج صبح (25 جنوری 2024) انتقال کرگئے۔ ان کی عمر تقریباً 86 برس تھی۔ وہ کئی برسوں سے بیمار تھے لیکن ایک ماہ قبل طبیعت بگڑنے لگی تو ان کو ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ ان کو تقریباً 28 دنوں سے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔ وہ 21 اپریل 1938 کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ اور الٰہ آباد میں تعلیم حاصل کی۔ یوئنگ کرسچین آٹونامس کالج، الٰہ آباد یونیورسٹی، الٰہ آباد کے شعبہ اردو کے صدر اور ریڈر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی سعدیہ ہیں۔ ان کی تدفین بعد نماز مغرب اوکھلا کے بٹلہ ہائوس قبرستان میں عمل میں آئے گی۔ ڈاکٹر ساحل احمد نے اردو زبان و ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی کم و بیش 90 کتابیں شائع ہوئیں۔ ان کی کتابوں سے ادب کے طلبا اور ریسرچ اسکالرز نے بے پایاں استفادہ کیا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ آمین!

Читать полностью…

علم و کتاب

جلوہ ہائے پابہ رکاب۔۔۔ ( 7) گاؤں کے تیل سے حیرت انگیز علاج ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ف۔ عبد الرحیم
یہ ۱۹۴۷ کی بات ہے۔ میرے بائیں قدم کے ٹخنے پر ایک چھوٹا سا پھوڑا نکلا، دو چار دن میں یہ بڑھ کر ایک چھوٹی سی طشتری کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کی گیرائی اس زمانے کے روپے کے برابر تھی۔ قصبے کے سب سے بڑے اور مشہور (ڈاکٹر (ڈاکٹر عبد اللہ کا علاج شروع ہوا، چار پانچ دن وہ مرہم پٹی کرتے رہے، لیکن ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں ہوا، میں نے ان کا علاج چھوڑ دیا اور ہمارے یہاں کے میونسپل ہسپتال میں علاج شروع ہوا۔ یہ ہسپتال مدرسہ کے راستے میں پڑتا تھا۔ میں مدرسہ جانے کے لیے تقریبا آدھے گھنٹے پہلے نکل جاتا، اور ہسپتال میں مرہم پٹی کراکر مدرسہ چلا جاتا، یہ علاج ایک ماہ جاری رہا۔ لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، ان دو ڈاکٹروں کے علاج کے بعد بھی پھوڑا اپنی پرانی حالت پر ہی رہا۔
میں اب مایوس ہو چکا تھا۔ لوگ مختلف تجویزیں دے رہے تھے ، جتنے منہ اتنی باتیں۔ ان دنوں ہمارے قصبے میں اطراف واکناف کے قریوں سے وہاں کے لوگ اپنے اپنے گاوں کی چیزیں فروخت کرنے کے لیے آیا کرتے تھے، ان میں سے ایک شخص صرف سوموار کو آیا کرتا تھا، وہ صدا لگاتا کٹڑ کا توڑ ینی" یعنی کڑکا توڑ کا تیل"۔ شاید اس کے گاوں کا نام کڑکا توڑ تھا، اس کے ہاتھ میں تیل کا ایک چھوٹا سا شیشہ ہو تا تھا۔ میں نے اس کے تیل کو try کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس فیصلہ کے بعد والے سوموار کو میں اس شخص کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا، جب اس کی صدا سنائی دی تو میں بہت خوش ہوا، تھوڑی دیر بعد جب وہ میرے گھر کے سامنے سے گزرنے لگا، تو میں نے اسے بلایا۔ میں نے اسے اپنا پھوڑا دکھایا اور پوچھا کہ کیا تمہارے تیل سے اس کا علاج ہو سکتا ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے اس سے ایک آنے کا تیل خریدا۔ اس زمانے میں روپے کے سولہ آنے ہوتے تھے۔ میری چھوٹی سی شیشی میں اس نے تھوڑا سا تیل ڈال دیا۔ میں نے اس سے اس کا طریقہ پوچھا، اس نے کہا: تھوڑی سی روٹی کو تیل میں بھگو کر زخم پر رکھ دیں، اور اس پر پٹی باندھ لیں۔ میں نے گھر جاکر فورا علاج شروع کر دیا۔ دوسرے دن مرہم پٹی کا جب وقت آیا تو میں بیم و ر جاکے عالم میں تھا۔ اگر زخم کی حالت میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئے تو بڑی مایوسی ہو گی۔ کچھ دیر اسی تذبذب میں بیٹھا رہا، پھر ہمت کر کے پٹی کھولی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کا ثبوت میرے سامنے تھا۔ میں نے دیکھا کہ زخم مرجھا گیا تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ دوبارہ مرہم پٹی کی۔ دوسرے دن جب پٹی کھلی تو زخم تقریبا مندمل ہو چکا تھا۔ تیسرے دن زخم بالکل بند ہو چکا تھا۔ میں نے احتیاطا علاج کچھ اور دن جاری رکھا۔ زخم کا نشان آج بھی میرے ٹخنے پر نظر آتا ہے۔
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

مورخہ ۲: فروری
آج کی وفیات
/channel/ilmokitab
محمد خالد اختر---2002
مولانا ضیاء الدین اصلاحی---2008
اختر علی نقوی حنفی ---1970
ارشد تھانوی،مولانا (رشید احمد)---1968
آمنہ نازلی(آمنہ بیگم)---1993
خاور قریشی (عبدالرحمٰن )---1993
سخی احمد ہاشمی، ڈاکٹرسید ---1995
سراج الحق میمن ---2013
محمد ادریس میرٹھی،مولانا ---1989
محمد عادل رضوی،مولانا سید ---1975
محمد نسیم تلوی---1961
مسلم عظیم آبادی ، پروفیسر محمد ---1977
مشنی عطاء اللہ---1992
پروفیسر ظہیر احمد صدیقی ---2003
سید حسین ---1949
مولانا حکیم نظام الحق ---2007
ابوسلمان شاہجہان پوری---2021
فواد عبد الباقی---1968
انتظار حسین---2016

Читать полностью…

علم و کتاب

گیان واپی مسجد، بنارس کے متعلق عدالتی فیصلے کی مناسبت سے مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی بنارسی (مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) کا انتہائی اہم پیغام، جس میں تاریخ کے مختلف ادوار میں امتِ مسلمہ کے زوال کے تذکرے کے ساتھ دوبارا حصولِ عروج و ترقی کے نسخۂ کیمیا اور اس حوالے سے قرآنی و حدیثی وعدے وعید کا ایمان افروز اور ہمت افزا بیان ہے۔
بتاریخ: یکم فروری، 2024


https://linktr.ee/muftiabulqasimnomani

Читать полностью…

علم و کتاب

ظ انصاری(وفات ۳۱ جنوری ۱۹۹۱ء) تحریر انور ظہیر خان

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات

/channel/ilmokitab

سیماب اکبر آبادی،مولانا عاشق حسین 31 جنوری 1951
ظ انصاری 31 جنوری 1991
مولوی عبد النور ( نور عظیم ) ندوی 31 جنوری 1993
ابوالحسن علی فراہی اصلاحی 31 جنوری 1987
انجم اعظمی (مشتاق احمد عثمانی ) 31 جنوری 1990
شاہد وحید 31 جنوری 2014
ظفر حسن،مولوی 31 جنوری 1965
عباس حیدرعابدی،علامہ 31 جنوری 1994
عبدالحمید شملوی 31 جنوری 1979
عبدالقیوم خان 31 جنوری 2010
عبدالمعید خان 31 جنوری 1989
عشرت ہاشمی 31 جنوری 2005
مجید سلیمان باوانی 31 جنوری 1979
مقبول نقش (عبدالسبحان) 31 جنوری 2005
نورحمد وارث،مولانا 31 جنوری 1987
سیماب اکبر آبادی 31 جنوری 1951
مولانا سید شاہ محمد قمر الدین پھلواروی 31 جنوری 1957
عزمی خیر آبادی 31 جنوری 2001
مولانا محمد ادریس میرٹھی 31 جنوری 1989
مولانا حافظ ابو محمد عبد اللہ چھپر وی 31 جنوری 1930

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات

/channel/ilmokitab

مولانا عبد الباری ندوی 30 جنوری 1976
موہن داس کرم چند گاندھی 30 جنوری 1948
مولانا احسان اللہ خاں تاجورنجیب آبادی 30 جنوری 1951
اقبال اختر 30 جنوری 2002
بدر قریشی (بدرالدین بدر) 30 جنوری 1990
دانش عظیم آبادی (سید ظضنفرنواب) 30 جنوری 1988
شبیر علی کاظمی،پروفیسر 30 جنوری 1985
عبداللہ کامل دہلوی، ڈاکٹر 30 جنوری 1994
محمد ابراہیم مضطر 30 جنوری 1983
مسرور کیفی(صلالح محمد) 30 جنوری 2003
وارث محمد ترمذی، ڈاکٹر 30 جنوری 1985
مولوی مفتی نسیم احمد قاسمی 30 جنوری 2003
مولاناسید محمد اسحٰق حسینی ندوی 30 جنوری 2007
مولانا محمد افتخار الحق 30 جنوری 2008
مولاناسید عبداللہ حسنی ندوی 30 جنوری 2013
مولانا محمد ادریس 30 جنوری 2015
عارف عبد المتین 30 جنوری 2001

Читать полностью…

علم و کتاب

عبد العزیز خالد (وفات ۲۸جنوری ۲۰۱۰ء) تحریر: مقبول جہانگیر

Читать полностью…

علم و کتاب

جواب شکوہ
علامہ اقبال کا جواب شکوہ مشہور براڈکاسٹر
شکیل احمد مرحوم کی آواز میں
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=jawab-e-shikwa-voice-shakeel-ahmed, Jawab E Shikwa (Voice Shakeel Ahmed)

Читать полностью…

علم و کتاب

آج کی وفیات


/channel/ilmokitab

آدم جی حاجی داؤد، سر 27 جنوری 1948
حسن اخریٰ (سید محمد عظیم برخیا) 27 جنوری 1979
دینا مستری، مس 27 جنوری 2011
علی احمد قاضی، ڈاکٹر 27 جنوری 1970
ممتاز باندوی (سید ممتاز حسین) 27 جنوری 1988
نواب وقار الملک 27 جنوری 1917
پروفیسر انامری شمل 27 جنوری 2003
ڈاکٹر احمد عبدالستار الجواری 27 جنوری 1988
عقیل جعفری،سید عقیل احمد 27 جنوری 1971
مفتی شجاعت علی 27 جنوری 1993
شریف المجاہد 27 جنوری 2020
ضیاء سرحدی 27 جنوری 1997
علی سفیان سرحدی 27 جنوری 2015
نظیر لدھیانوی 27 جنوری 1987
نصیر الدین ہمایون 27 جنوری 1556

Читать полностью…

علم و کتاب

سہ ماہی تدبر(لاہور) ۔۔۔ تبصرہ - ڈاکٹر محمد سہیل شفیق



کتاب : سہ ماہی تدبر (لاہور)
مدیر : ڈاکٹر منصور الحمید
صفحات : 160 قیمت : 500 روپے
ناشر : اداره تدبر قرآن وحدیث لاہور
رابطه : 03234015825

1958ء میں جب مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ لکھنی شروع کی تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے کالج کے چند فارغ التحصیل طلبہ کو بھی قرآن و حدیث کی تعلیم دینا شروع کی۔ کالجوں کے ذہین، پڑھے لکھے نوجوانوں کا یہ حلقہ، حلقہ تدبرِ قرآن کہلایا۔ پھر 1980ء میں جب مولانا کی تفسیر مکمل ہوگئی تو اسی حلقے کے احباب اور مولانا کے دیگر محبین و مخلصین کے اصرار پر اس حلقے کو بڑھاکر اسے ایک ادارے کی شکل دے دی گئی۔ چنانچہ 10 نومبر 1980ء کو ادارہ قرآن و حدیث کا قیام عمل میں آیا جس کے رکنِ اوّل مولانا اصلاحی تھے۔

اسی ادارے کے تحت سہ ماہی ’’تدبر‘‘ کا اجراء ہوا اور پہلا شمارہ جنوری 1981ء میں شائع ہوا، جس کا بنیادی مقصد قرآنِ مجیداور حدیثِ نبوی کی نشرواشاعت اور ان کی بنیاد پر دیگر علوم و فنون کا پرکھا جانا ہے۔ ’’تدبر‘‘ میں قرآن وحدیث پر گراں قدر مقالے شائع ہوتے رہے۔ علامہ خالد مسعود اور ان کی مختصر سی ٹیم نے ناکافی وسائل کے باوجود انتھک محنت سے اس سلسلے کو جاری رکھا لیکن دسمبر 2007ء میں ’’تدبر‘‘ کا یہ دورِ اوّل اختتام پذیر ہوگیا۔


اب جناب حسان عارف (فرزند علامہ خالد مسعود)کی کوششوں سے ’’تدبر‘‘کے احیاء اور دورِ نو کا آغاز خوش آئند اور قابلِ تحسین ہے۔ عارف صاحب اس کے معاون مدیر اور انتظام و انصرام کے ذمے دار بھی ہیں۔ مدیر کے فرائض ڈاکٹر منصورالحمید نے انجام دیے ہیں جنھیں ادارہ تدبر قرآن و حدیث کے تاسیسی رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جب کے تدبر کی مجلس ِمشاورت و ادارت کا ڈاکٹر راشد ایوب اصلاحی، ڈاکٹر مستنصر میر، سید احسان اللہ وقاص، ابوسعید اصلاحی، پروفیسر ڈاکٹر سید عدنان حیدر، پروفیسر ڈاکٹر عاصم نعیم، محمد صدیق بخاری، محمد امانت رسول، محسن فارانی اور پروفیسر عبدالخالق فاروقی جیسے اصحابِ علم و فضل حصہ ہیں۔

پیشِ نظر شمارے میں درجِ ذیل مضامین و مقالات شامل ہیں:

’’تفسیر سورہ آل عمران‘‘ امام حمید الدین فراہی، ’’مولانا حمیدالدین فراہی اور حدیث و سنت‘‘ مولانا نسیم ظہیر اصلاحی، ’’تفسیر تدبر قرآن میں دعوتی اسلوب‘‘ محمد صدیق بخاری، ’’قرآن کریم میں جغرافیائی اشارات (مصر)‘‘ حسان عارف، ’’مفردات القرآن‘‘ امام حمید الدین فراہی، ’’سورتوں کا نظم: مولانا امین احسن اصلاحی کی توضیح‘‘ ڈاکٹر نیل رابنسن، حسان عارف، ’’رفع انجیل‘‘ امام حمید الدین فراہی، ’’کیا مسجدِ اقصیٰ ہیکل سلیمانی کے ملبے پر بنی؟‘‘ محسن فارانی، ’’متوفیٰ پر طعن کرنا خلافِ اسلام ہے‘‘ محمد امانت رسول، ’’حیاتِ رسولِ امی‘‘ (تبصرہ کتب)، پروفیسر ڈاکٹر عاصم نعیم، تحقیقاتِ مکتبِ فراہی‘‘ (توضیحی اشاریہ)، ڈاکٹر سعید الرحمن ۔
فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab

Читать полностью…

علم و کتاب

*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ نو بیاہتا الفاظ۔۔۔ - احمد حاطب صدیقی*

ہفتۂ رفتہ کے کالم کی بات ہے۔ بال بچوں والے ایک بیاہتا بزرگ نے لفظ ’نوبیاہتا‘ پر اعتراض جڑ دیا۔ دلیل اُن کی درست ہے۔ مگر عرض ہے کہ بے شک ’نو‘ فارسی کا ہے اور ’بیاہتا‘ ہندی کا۔ لیکن اب تو اُردو نے ان دونوںکا بیاہ کرکے ’نوبیاہتا‘بنا لیا ہے۔ اُردو میں ایسے اوربھی بہت سے بیاہتا اور نوبیاہتا مرکبات مل جاتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کی ’’زرگزشت‘‘ میں چاچا فضل دین کے نام گاؤں سے آئے ہوئے ایک خط کی خوش خبری یوں منقول ہے:

’’دیگر احوال یہ کہ رضائے الٰہی سے آپ کے بال بچے کے یہاں بال بچہ ہوا ہے‘‘۔

بال یا بالک بھی ہندی کا لفظ ہے، مگرہندی اور فارسی الفاظ کو اُردو کے بندھن میں باندھ دینے سے جو ’بال بچہ‘ ہوا وہ اُردو کا روزمرہ بن گیا۔ پنجابی زبان میں بھی ’بال‘ کا مطلب بچہ ہی لیا جاتا ہے۔ بلکہ ایک زمانہ ایسا تھا جب ہم سمجھتے تھے کہ پنجابی زبان میں ’بال‘ کا بس ایک ہی مطلب ہوتا ہے ’بچہ‘۔ مگر جب سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لفظ دوسرے معنوں میں بھی مستعمل ہے تب سے شاہ فریدؔ کی کافی کے اس مصرعے کا سارا لطف ہی غارت ہوگیا:

ترے لمّے لمّے بال فریداؔ ٹریا ٹریا جا

گیسو کو بال کہنے کا رواج ہندی اور اُردو میں ہے۔ فارسی میں پرندوں اور پرندوں کے بازوؤں کے اُس جوڑ کو ’بال‘ کہتے ہیں جس کی قوت سے پرندے پرواز کرتے ہیں۔ اقبالؔ کے ایک مصرعے کو پاک فضائیہ کے پرندوں (یعنی شاہینوں) نے اپنا کلمۂ امتیاز بنا رکھا ہے

صحرا ست کہ دریا ست تہِ بال و پرِ ما ست
صحرا ہو کہ دریا، میرے بازوؤں اور پروں کے نیچے( یعنی تَھلّے) ہے۔


بال کا ذکر تو مثال ہی مثال میں آگیا ورنہ ’بال‘ پر کئی کالم ارسال ہوسکتے ہیں۔ بال ایک دو تو ہوتے نہیں۔ قسما قسم کے ہوتے ہیں۔ دیکھیے امیرؔ مینائی نے ایک ہی شعر میں دو قسم کے بال باندھ دیے:

یہ مرا دل ہے کہ ہے اس میں نہاں اُلفتِ زلف
دیکھو آئینے سے اِک بال چھپایا نہ گیا

مگر آج کے کالم میں تو ’بیاہ‘کی بات چل رہی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ ’بیاہ‘ شادی، عقد اور نکاح کو کہتے ہیں۔ جو شخص بیاہا گیا وہ ’بیاہتا‘ ہوگیا۔ بالعموم مردوں کو نہیں، خواتین ہی کو بیاہتا قرار دیا جاتا ہے۔ بیاہ بھی، سچ پوچھیے تو، خواتین ہی کا ہوتا ہے، جنھیں بیاہ کے بعد نیا گھر مل جاتا ہے، ورنہ مردوں کے بیاہ کے لیے تو ہمارے ایک پروفیسر دوست فرماتے ہیں کہ موزوں ترین لفظ ’سگائی‘ ہے۔ اُن کی اس رائے کا سبب اُن کا یہ ناموزوں خیال ہے کہ ’سگائی‘ کا لفظ فارسی کے سگ سے ماخوذ ہے۔

پچھلے زمانے میں مرد بھی ’بیاہتا‘ کہے جاتے تھے۔ اُس زمانے میں ایک مثل مشہور تھی ’’کاتے جا، ری کاتے جا، تیرا تار نہ ٹوٹے، بیاہتا خصم چھوٹے‘‘۔ مطلب یہ کہ اپنے کاموں کا چرخا چلانے میں اتنی مگن ہوجائے کہ شوہر کا خیال نہ رکھ پائے۔ شوہر کو خصم کہنے کا رواج بھی اب کم ہوتا جارہا ہے۔ شاید پنجاب میں اب بھی کہہ لیا جاتا ہو۔ خصم کے اصل معنی تو مدمقابل کے ہیں۔ آپ فریقِ ثانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مدمقابل ہونے کی وجہ سے خصم کے معنوں میں دشمن، بیری، بدخواہ اور حریف کے معنی بھی شامل ہوئے۔ مدمقابل عموماً جھگڑا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ’خصم‘ کے تمام مشتقات جھگڑے ہی کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً سورۃ النحل کی آیت 4میں انسان کو ’خصیم‘ (جھگڑالو) کہا گیا ہے۔ اُردو کی بھی عجب شان ہے۔ جھگڑا کرنے والے کو ہمارے حساب سے تو ’جھگڑو‘ کہنا چاہیے تھا۔ نہ جانے ’جھگڑالو‘ کس حساب میں کہہ دیا گیا۔ بہرحال اُردو میں ’خصم کرنا‘ کے معنی عورت کا نکاح کرنا یعنی اپنا جوڑی دار اور خاوند بنانا ہے۔ ’بیاہتا‘ کو ’خصم والی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ عورت جو خاوند سے سُکھ نہ پائے، مصیبت کی ماری ہو یا شوہر سے نالاں، اُسے ’خصموں جلی‘ کہا جاتا ہے۔ عورتیں ایک دوسرے کو کوسنے دیتے ہوئے ’خصم پِیٹی‘ کا کوسنا بھی دے جاتی ہیں۔ یہ ایک طرح کی بد دعا ہے۔ مطلب یہ کہ تُو اپنے شوہر کا ماتم کرے۔ اپنے شوہر کو روئے پیٹے۔ ایک محاورہ بھی زباں زدِ خاص و عام ہے جو کبھی نانی سے منسوب کردیا جاتا ہے کبھی کسی کی والدۂ ماجدہ سے: ’’تیری ماں نے خصم کیا، بُرا کیا، کرکے چھوڑ دیا اور بُرا کیا‘‘۔ صاحب! وطنِ عزیز میں یہ محاورہ ہماری سیاسی جماعتوں پرخوب پھبتا ہے۔

بہرکیف، کوئی جوڑا ’نوبیاہتا‘ ہو یا کہنہ… میاں بیوی میں جھگڑا ہو ہی جاتا ہے۔ اس جھگڑے سے مزاحیہ ادب کی آبیاری ہوتی ہے… شعر میں بھی اور نثر میں بھی۔کسی شاعر نے کسی نوبیاہتا ہمسائے کا احوال یوں بیان کیا ہے:


نو گرفتہ تھا کوئی، خوار ہوا ہے کتنا
شور دن بھر پسِ دیوار ہوا ہے کتنا

’نو‘ کا سابقہ جس لفظ کے ساتھ پڑ جائے اُس میں نئی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ مختار مسعود ایران گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ

Читать полностью…

علم و کتاب

دیوان سنگھ مفتون(وفات : ۲۶ جنوری ۱۹۷۵) خاکہ نگار: مقبول احمد جہانگیر

Читать полностью…

علم و کتاب

آج ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی رحلت کی خبر سن کربہت رنج ہوا، کتاب وتحقیق کی ایک عظیم شخصیت سےاردودنیا محروم ہوگئی، ابھی دو ماہ قبل آپ کی کتابیات اقبال کے تازہ ایڈیش کا اجرا ہوا تھا، جسے آپ کا بہت عظیم کارنامہ شمار کیا گیا تھا۔
مرحوم کو قریب سے جاننے والے ان شاء اللہ آپ کے علم و تحقیق، شرافت واخلاق اور سیرت کے قابل اسوہ روشن پہلؤوں کو اجاگر کریں گے، اقبال کے محققین تو بہت ہوئے ہیں لیکن ان میں اقبال کی فکر سے مکمل آہنگی رکھنے والی شخصیات شاید ایک ہاتھ کی انگلی پر گنی جاسکیں، ڈاکٹر صاحب اپنی سلیم الفکری کا ایک انمول نمونہ تھے، ڈاکٹر صاحب کتابیات کے آدمی تھے، خرم جاہ مراد کے زمانے سے آپ نے ترجمان القرآن میں تبصرہ کتب کے شعبہ کو سنبھالا تھا، اور کہنا چاہئے کہ آپ کی سرپرستی میں اس مجلے نے تبصرہ کتب کے شعبہ میں اپنا ایک معیار قائم کیا تھا،یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ ترجمان القرآن کی طرح اسی فکر کے ایک ہفتہ وار فرائیڈے اسپیشل نے بھی تبصرہ کتب کے میدان میں ایک اچھا معیار قائم کیا ہے، اس شعبہ میں دوسرے دینی اداروں او رجماعتوں کے پرچے فنی معیار میں بہت پیچھے نظر آتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر اس ناچیز نے بھی ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ترجمان میں نئی عربی کتابوں پر تبصروں کا سلسلہ شروع کیا تھا، لیکن یہ زیادہ دن چل نہیں سکا، کیونکہ ہمیں محسوس ہوا کہ اس مجلے کے قارئین میں عربی کتابوں سے دلچسپی رکھنے والے شاذ نادر پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تبصروں کو معیاری بنانے کے لئے رہنمائی بھی کرتے تھے اور ہمت افزائی بھی۔ وہ بہت کھلے ذہن ودماغ کے انسان تھے۔
ابھی چند روز قبل بھٹکل میں ادارہ ادب اطفال کے ذمہ دار ڈاکٹر عبد الحمید اطہر رکن الدین ندوی کے فرزند جو ابھی چھوٹی عمر کے ہیں، ان کی کتاب پر آپ نے ہمت افزائی کے کلمات لکھے تھے، اس سے آپ کے اخلاق اور رویوں کی بلندی کا احساس ہوتا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جن سے قوم کی رہنمائی کرنے والی نسلیں بنتی ہیں، اللہ آپ کے اعمال کو قبول کرے، اور اعلی علیین میں جگہ عطا کرے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
عبد المتین منیری
2024-01-25

Читать полностью…

علم و کتاب

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا تاریخی کارنامہ۔۔۔ ذوالفقار احمد چیمہ




اس وقت بلاشبہ اقبالؒ شناسی اور اقبال فہمی کے حوالے سے پورے ملک میں سب سے مستند اور معتبر نام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا ہے، قوم کو ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے ہمارے عظیم محسن ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کو اچھی طرح جانا، سمجھا اور پھر ان کی شخصیت کے مختلف گوشوں سے اور ان کی فکر کی مختلف پرتوں سے یہاں کے خواص اور عوام کو روشناس کرایا۔

ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے اقبالیات پر 27 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی اور جی سی یونیورسٹی لاہور جیسے اداروں میں 35 سال تک نئی نسل کو پڑھایا ہے۔


درجنوں بار بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے، ہندوستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں بھی ان کا بے حد احترام پایا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے اقبال شناس انھیں استاد کا درجہ دیتے ہیں۔
ہندوستان کے معروف ماہرِ اقبال اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر عبدالحق لکھتے ہیں ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی دانائے اقبال ہیں۔


وہ اقبالیاتی ادب کے رازدانوں کے درمیان ایک امتیاز کے مالک ہی نہیں، اقبالؒ کے مقام و پیغام کے نگہدار بھی ہیں اور تفہیمِ اقبال کے رہبرِ فرزانہ کی بلندی اور بزرگی پر بھی فائز ہیں‘‘۔ علّامہ اقبالؒ کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال، علّامہ کی سوانح عمری ’زندہ رود‘ مرتب کرتے وقت سب سے زیادہ ڈاکٹر ہاشمی صاحب سے راہنمائی لیتے رہے، مگر کس قدر تشویش کی بات ہے کہ پاکستان میں بہت کم لوگ ان کے مقام اور مرتبے سے واقف ہیں۔ کل اسلام آباد کلب میں خاصے پڑھے لکھے حضرات کے سامنے ان کا نام لیا تو دس میں سے صرف دو ڈاکٹر صاحب سے متعارف نکلے۔


اُن کے بعد ایک ایکٹریس کا نام لیا تو دس کے دس اس کے تمام معاشقوں اور موجودہ اور سابقہ شوہروں سے آگاہ تھے۔ یہ حکومتوں اور میڈیا کے طرزِ عمل کا نتیجہ ہے۔ حکومتی درباروں میں صاحبانِ علم ودانش کے بجائے خوشامدیوں کو پذیرائی ملتی ہے اور ٹی وی اسکرینوں کے دروازے ملک کا درد رکھنے والے معمارانِ قوم کے لیے مستقل بند ہیں۔

ہمارے قومی زوال کی ایک بڑی وجہ ہمارے حکمرانوں اور برقی میڈیا کی غلط ترجیحات بھی ہیں، منی اسکرین پر کرکٹ کے کھلاڑیوں اور فلموں کی رقاصاؤں کو اس طرح رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے ہم نے نئی نسل کو یا کھلاڑی بناناہے یا ڈانسر۔ اگر ہماری ترجیحات درست ہوتیں، ہم نے تعلیم کو اہمیت اور استاد کو عزت دی ہوتی تو آج ہمارے حالات بہت بہتر ہوتے۔

اگر ہمارے برقی میڈیا کے کارپرداز تعلیم اور استاد کی اہمیت سے آگاہ ہوتے تو مختلف چینل انٹرویو کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے علمی اور تحقیقی کارناموں کے پیشِ نظر حکمرانوں کو ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ڈاکٹر صاحب کے گھر جا کر انھیں پیش کرنا چاہیے تھا اور یہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔

ڈاکٹر ہاشمی صاحب کی تحریروں کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور تخلیقات پر دنیا کے 41 زبانوں میں کتابیں لکھیں جاچکی ہیں اور اتنی ہی زبانوں میں ان کی شاعری کے ترجمے ہوچکے ہیں ڈاکٹر صاحب نے کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد دنیا کی اکتالیس زبانوں میں علامہ اقبال کی نظم ونثر اور ان کے تراجم، تشریحات اور تنقید پر مشتمل پونے چھ ہزار کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں ضروری معلومات پر مبنی مواد کو یکجا کرکے ’کتابیاتِ اقبال‘ کے نام سے مرتب کردیا ہے۔

اس گرانقدر تحقیقی سرمائے کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبۂ اقبال برائے ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ نے بڑے خوبصورت پیرائے میں چھاپ دیا ہے۔ چند روز قبل اسلامی یونیورسٹی میں ہی پونے دو ہزار صفحات پر مشتمل ’’کتابیاتِ اقبال‘‘ کے نام سے چھپنے والی اس عظیم تحقیقی کتاب کی تقریبِ رونمائی منعقد کی گئی۔ جس کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب خصوصی طور پر لاہور سے تشریف لائے۔

آئی آر ڈی کے ڈائریکٹر حسن آفتاب صاحب نے اظہارِ خیال کے لیے مجھے بھی مدعو کیا، میرے لیے اس تقریب کی سب سے بڑی اہمیت اور دلکشی یہ تھی کہ ڈاکٹر ہاشمی صاحب کی زیارت کا شرف حاصل ہوجائے گا۔ اسلامی یونیورسٹی پہنچ کر دیکھا تو مقررین میں معروف شاعر جناب افتخار عارف، اکیڈمی آف لیٹرز کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاکٹر حبیب الرحمٰن عاصم جیسے جید اسکالر بھی موجود تھے۔

ہال اساتذہ اور طالبات سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ چند طلباء بھی ایک جانب سہمے ہوئے بیٹھے تھے، وہ کالج جو ہر شہر میں مردوں یعنی طلباء کے لیے بنائے گئے تھے وہاں طالبات کا قبضہ ہو چکا ہے اور اب کسی بھی تعلیمی درسگاہ کی تقریب میں نوّے فیصد لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں۔

Читать полностью…

علم و کتاب

صور من حياة الصحابة(81)... جليبيب بصوت المؤلف الدكتور عبد الرحمن رافت باشا رحمه الله

Читать полностью…

علم و کتاب

نہایت افسوس سے مطلع کیا جاتا ہے کہ نامور محقق اور اردو کے معروف استاد پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی آج شام 5 بجے منصورہ ٹیچنگ ہسپتال ملتان روڈ لاہور میں انتقال گر فرما گئے ۔ ان للہ و انا الیہ راجعون

Читать полностью…
Subscribe to a channel