علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
سہیل بن عمرو بھی اسلام کے ایک ایسے ہی " تاریخی دشمن" رہ چکے تھے جن کو اس پیغام کو خود قبول کرنا تو کیا دوسروں کو قبول کرتے دیکھنا بھی شاق تھا لیکن ان کی تقدیر کی “ستم ظریفی" سے جب اسی انسان کے گوشت وخون سے بنا ہوا اس کا اپنا بیٹا "مسلمان" ہو گیا تو سہیل کی اسلام دشمنی جنون کی حد تک پہنچ گئی ۔ گلی گلی اور سڑک سڑک پر وہ اس نفرت کی آگ اگلتے پھرتے _زہر میں بجھی ہوئی تقریروں سے اسلام کے خلات نفرت و انتقام کا آتشیں اشتعال پھیلاتے _ لوگوں کو پُکار پُکار کر جمع کرتے اور کہتے کہ ان کی زندگی کا سب سے پہلا کام اس" پیغام" کو موت کے گھاٹ اتار دینا ہے۔____ باپ کے مجنونانہ ظلم واستبداد کی یہ مہم " غیروں" ہی کو تختۂ مشق بنانے پراکتفا نہیں کر رہی تھی بلکہ اس نے پوری بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ شفقت پدری کی شہ رگوں کو بھی کاٹ دیا تھا اور "باپ" کے ہاتھوں نے اپنے مسلمان بیٹے کو آہنی زنجیروں میں جکڑ کر قید و بند میں گھٹ گھٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ یہی وہ شخص تھا جو محمد عربی ﷺ کے چاہنے والے انسانوں کے لیے ایک ناقابلِ برداشت گستاخ ترین کافر کی حیثیت اختیار کر چکا تھا ۔ جس کو رسول کریم ﷺ کے خلاف زہر ناک لاف وگزاف میں ڈوبا ہوا دیکھ کر عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی غیرت حق بار بار خُدا کے رسول ﷺ کے سامنےیہ اجازت حاصل کرنے کے لیے تڑپ تڑپ کر آتی تھی کہ " میرا جی چاہتا ہے کہ اس کے دانتوں کو پاش پاش کر دوں"۔___ یہی وہ انسان تھا جو اسلام کے خلاف پہلی جنگ___ جنگ بدر میں کفر کی صف اولیں میں پیچ و تاب کھاتا ہوا نظر آیا___ یہی وہ شخص تھا جس کے کفر کے مشتعل غلو نے صلح حدیبیہ کی دستاویز میں "محمد رسول اللہ" کے الفاظ کاٹ دینے کی پہلی آواز اٹھائی تھی___ یہی وہ اسلام کا آخری مخالف تھا جس نے اس وقت بھی اسلام کے خلاف تلوار اُٹھائی جب مکے پر مسلمانوں کی چڑھائی ہو رہی تھی اور بڑے بڑے "اشتہاری مجرم" فرار و مصلحت کی راہیں تلاش کر رہے تھے لیکن اب وقت آگیا تھا کہ ظالمانہ طاقت کا طلسم ٹوٹے اور مظلوم سچائی فاتحانہ شان سے حیات و کائنات کے روشن اُفق پر نمودار ہو___ کفر و شرک کے ہزاروں سالہ بُت کدے ان انسانوں کے قدموں پر اوندھے منہ گر رہے تھے ، جن کو ضعیف و ناتواں سمجھ کر ان کے گھروں اور بستیوں سے تہی دامن اور بے دست و پا کر کے نکالا گیا تھا ۔ لیکن آج اس کے باوجود ان کے فاتحانہ سر ایک نامعلوم طاقت کے احترام سے جُھکے ہوئے تھے___ نفرت و انتقام کے خلاف جوابی رد عمل کے بجائے ان کے سینے محبت و انسانیت کے جوش سے پھٹے جاتے تھے _ ہاتھوں میں چمکنے والی تیز وبراں تلواروں سے زیادہ ان کے سوزِ دروں کا یہی وہ " تیر نیم کش" تھا جو سہیل کے قلب میں ترازو ہو گیا___ ہتھیاروں سے صرف سر جھکائے جاسکتے ہیں مگر اخلاق کی زد میں پتھر یلے دل جُھک جاتے ہیں۔ سہیل ؓ نے مایوسی کے ساتھ جب رسول خدا ﷺ سے " امان" چاہی تو اُن کو کامل یقین تھا کہ اس کے جواب میں اُن کی گردن اُڑا دی جائے گی اور زبان قلم کر دی جائے گی اور اس طرح اُن کی عمر بھر کی اسلام دشمنی کا حساب پل بھر میں ہمیشہ کے لیے چُکا دیا جائے گا، لیکن جس باپ نے اپنے بیٹے کو حق پسندی کے جُرم میں بدترین عقوبتوں کے شکنجے میں کسا تھا اس بیٹے نے آج باپ کی دردناک پکار سنی ۔ وہی آج ایک سچا انسان ثابت ہوا اور وہی اپنے باپ کی جان بخشی کی درخواست رسولِ خدا ﷺ تک پہنچانے کے کام آیا ۔ سہیل اس دوران میں مایوسی کی کرب انگیز کیفیت میں زندگی کے سانس گن رہے تھے۔ بیٹے کی غم گساری میں خون کے فطری جوش کی توجیہ کی جاسکتی ہے، مگر محمد عربی اپنے جانی دشمن پر کیوں ترس کھانے لگے ہیں ! سہیل یہی سوچ رہے تھے اور ان کا وہ ماضی ایک ہولناک تصویر کی طرح ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا جب وہ اسلام___ خدا اور محمد کے خلاف مکے کے طول و عرض میں آگ لگاتے پھرتے تھے لیکن سہیل یہ دیکھ کر حیرت و عقیدت سے سکتے میں آگئے کہ رسالت کا کشادہ سینہ اپنے اتنے بڑے دشمن کے لیے بھی تنگ نہیں اور یہ کہ ٹھیک اس وقت جب عمر بھر کے طویل جرائم کی آخری سزا دی جانی تھی۔ رحم طلبی کی ایک پشیمان پکار پر محمد عربی ﷺ نے ان کی طرف رقت و شفقت کے نرم بازو پھیلا دیے ہیں___
/channel/ilmokitab
آج کی وفیات
/channel/ilmokitab
حافظ عبدالرشید رائے پوری 25 جنوری 1996
دلاورفگار (دلاورحسین ) 25 جنوری 1998
خلیل الرحمٰن، میر 25 جنوری 1992
عبدالوارث،مولانا 25 جنوری 1982
غلام رسول کشمیری،مولانا 25 جنوری 1995
مجاز دہلوی 25 جنوری 1998
محمد ہادی حسن نعیمی،مولانا 25 جنوری 1984
قاضی عبدالودود 25 جنوری 1984
جوان سندیلوی، منی لال 25 جنوری 1974
*مولانا فتح محمد جالندھری کی تاریخ وفات*
الحمد للہ علمی وتحقیقی منصوبوں سے وابستہ طلبہ اور اہل قلم وقتا فوقتا ہمیں بھی خدمت کا شرف دیتے رہتے ہیں، آج یم فل کے ایک طالب علم نے مولانا فتح محمد جالندھری کی درست تاریخ وفات کے سلسلے میں دریافت کیا، ویکی پیڈیا سے رجوع کیا تو تاریخ وفات غلط نکلی، چونکہ مولانا کے ترجمہ قرآن کو جو قبولیت عامہ حاصل ہوئی ہے شاذ ونادر ہے کسی او رترجمہ کو حاصل ہوئی ہے، گزشتہ سواسو سال سے اس کے ایڈیشن پر ایڈیشن نکل رہے، قاری شاکر قاسمی، مولانا احتشام الحق تھانوی، قاری علی شرف الحسینی کی اواز میں تلاوت اور مولانا سلیم الدین شمسی، شہریار قدوسی وغیرہ ریڈیو کے بہترین صداکاروں کی آواز میں آپ کا ترجمہ جس قدر ریکارڈ ہوا، فنی طور پر اتنا معیاری ترجمہ شاید وباید ہی ریکارڈ ہو کر مقبول ہوا ہے۔ ذلک فضل الله يوتيه من يشاء-
ہمارا خیال تھا کہ اتنی مقبول ومشہور شخصیت کی تاریخ وفات تلاش کرنا پہلی نظر میں بہت آسان لگ رہا تھا، تاریخ وفات کی تلاش میں وفیات اہم قلم / محمد منیر احمد سلیچ، وفیات مشاہیر پاکستان/پروفیسر محمد اسلم، پاکستان کرانیکل/ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری، وفیات اعیان پاکستان/ پروفیسر محمد اسلم، جائزہ تراجم قرآن/ مولانا محمد سال قاسمی، قرآن حکیم کے اردو تراجم/ ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین، قرآن مجید کے اردو تراجم/ ڈاکٹر سید حمید شطاری اور نہ جانے اور مجلات کے اشارئے چھان مارے، جن میں تحقیقات اسلامی علی گڑھ، تحقیق پنجاب یونیورسٹی لاہور، میں آپ کے بارے میں کچھ مواد ملا، جن جن کی کل کائنات حفیظ جالندھری کے مخزن لاہور سنہ ۱۹۲۸ء میں شائع شدہ ایک مضمون تھا، پربھی تاریخ وفات کو نظروں کے سامنے نہ آنا تھا نہ آئی ، احباب میں سے کسی کی نظر اس پر پڑے تو پھر مطلع کریں، بس آپ کی دلچسپی کے لئے مخزن لاہور کا مضمون پیش خدمت ہے۔
/channel/ilmokitab
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
( *مولانا مفتی اسعدالدین گونڈوی کا سانحۂ وفات* )
*مولانا ضیاء الحق خیرآبادی*
دنیا میں جو آیا ہے جانے ہی کے لئے آیا ہے، ہر شخص کو اپنی مقررہ مدت کے بعد اپنے دائمی مستقر کے لئے روانہ ہونا ہے، لیکن بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں جو طبیعت کو اندر سے ہلا دیتے ہیں ، ایسا ہی ایک واقعہ آج پیش آیا ۔ صبح سات بجے موبائل اٹھایا تو محب گرامی مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری کے ایک میسیج کو پڑھ کر دل دھک سے ہوکر رہ گیا ، انھوں نے خبر دی کہ :
*’’بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھاطلاع دی جاتی ہے کہ ہمارے رفیق محترم مفتی اسعد الدین صاحب قاسمی رحمہ اللہ کا آج صبح تقریباً سوا پانچ بجے حیدرآباد میں انتقال ہوگیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔*
*باری تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائیں اور ان کے بزرگ والدین، اہل خانہ ، برادران اور متعلقین کو صبر جمیل نصیب فرمائیں۔‘‘*
مفتی اسعد الدین صاحب کی وفات کی خبر نے دل کی دنیا زیر وزبر کرڈالی ، موصوف میرے محب وکرم فرما مولانا معزالدین صاحب گونڈوی ؒ کے چھوٹے بھائی اور ایک باصلاحیت عالم ، بہترین مدرس ، اعلیٰ پایہ کے مقرر وخطیب،اچھے منتظم اور بڑے خلیق ومتواضع انسان تھے ۔ وہ ایک ایسے شخص تھے کہ ان سے ملاقات کے بعد پھر ملنے کا جی چاہتاتھا ، جب بھی وہ ملتے اپنی خوبیوں اور کمالات کا ایک نیا نقش دل پہ بٹھادیتے تھے ۔ ان سے آخری ملاقات چارماہ قبل مدرسہ فیض القرآن دیناجپور میں منعقدہ فقہی سیمینار میں ہوئی تھی ، سیمینار ختم ہونے کے بعد ہم لوگ دارجلنگ گھومنے کے لئے گئے تھے ۔ اس وقت تک وہ بالکل چاق چوبند اور صحت مند تھے ، اچانک 17؍ جنوری بدھ کو ’’محبان حبیب ‘‘ گروپ میں یہ خبر دیکھی کہ حیدرآباد کے ایک ہاسپٹل میں اپنے والد اور بھائیوں کی نگرانی میں مفتی صاحب زیر علاج ہیں اور اس وقت ان کے گردے کا آپریشن چل رہا ہے، یہ جان کر ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے کہ شافیٔ برحق مفتی صاحب کو شفاء کاملہ عاجلہ مستمرہ نصیب فرما۔دوسرے روز کامیاب آپریشن کی خبر سن کر قدرے اطمینان ہوا ۔ اس دوران معلوم ہوا کہ دسمبر میں ان کو فالج کا اٹیک ہوا تھا جس کا علاج کانپور میں ہوتا رہا،جس سے افاقہ تو ہوا لیکن طبیعت نارمل نہیں رہتی تھی، اتار چڑھاؤ لگا رہتا تھا ، مسلسل ہچکی آتی رہتی تھی جس کی وجہ سے کھانے پینے میں دقت ہوتی تھی۔
اسی دوران سردی کی شدت کی وجہ سے ان کے والد گرامی مولانا عبد الحمید صاحب مدظلہ حیدرآباد جارہے تھے جہاں مفتی صاحب کے بڑے بھائی مولانا قطب الدین اور چھوٹے بھائی مولانا اسجد الدین صاحبان تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ، حیدرآبادکا موسم بہت معتدل رہتا ہے۔ اس وقت سب لوگوں کی رائے ہوئی کہ مفتی صاحب کو بھی لے جاکروہاں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں، وہاں جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ ایک گردہ جو بچپن سے ہی قدرے متاثر تھافالج کے بعد اس کی کارکردگی صفر کے بقدر رہ گئی ہے ، اس لئے ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ اسے جلد از جلد نکال دینا چاہئے ، چنانچہ اس کا آپریشن حیدرآباد کے ورنچی ہاسپٹل میں ہوا جو کامیاب رہا ، طبیعت بہتر تھی ،لیکن مسلسل بیماری اور غذا کی کمی کے باعث کمزوری بہت تھی ،ابھی ہاسپٹل ہی میں تھے کہ رات ہارٹ اٹیک کا عارضہ پیش آیا اور صبح پانچ بجے کے قریب انھوں نے جان ،جاں آفریں کے سپرد کردی۔ اناللہ واناالیہ راجعون ،اللھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ
مفتی اسعد الدین قاسمی مولانا معزالدین صاحب ؒکے چھوٹے بھائی تھے ، یہ کل چھ بھائی تھے ۔
۱، مولانا معزالدین صاحب(متوفی:۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۰ء)
۲۔مولانا مفتی وحید الدین صاحب( مدرس وصدر مفتی فلاح دارین ترکیسر گجرات)
۳۔مولانا مفتی قطب الدین صاحب ( مدرس سراج العلوم سکندرآباد، حیدرآباد)
۴۔مولانا قمر الدین [م: مئی ۱۹۹۹ء]
۵۔مولانامفتی اسعد الدین صاحب[م: ۲۳؍ جنوری ۲۰۲۴ء]
۶۔مولانا اسجد الدین صاحب ۔
مفتی اسعد الدین نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی ، حفظ کا آغاز 1990ء میں مدرسہ فرقانیہ گونڈہ میں کیا اور تکمیل مدرسہ فیض ہدایت رحیمی رائے پور میں 1993ء میں کی ، یہاں ان کے بڑے بھائی مفتی وحید الدین صاحب اس وقت مدرس تھے۔ان کی عربی کی تعلیم دارالعلوم دیوبندمیں ہوئی، جہاں وہ 1995ء سے 2004ء تک یعنی دس سال رہے ، دورۂ حدیث سے 2001ء میں فارغ ہوئے ،ان کا شمار دارالعلوم کے ممتاز اور ذہین طلباء میں ہوتا تھا ،ڈاکٹر یاسر ندیم وغیرہ ان کے رفقائے درس میں سے ہیں ، کئی سال مدنی دارالمطالعہ کے ناظم بھی رہے۔ فراغت کے بعد افتاء بھی کیا اور معین مدرس بھی رہے۔ ان کے بھائی مولوی قمر الدین مرحوم میرے درسی ساتھی تھے،ہم لوگوں کی فراغت شعبان ۱۴۱۹ھ ( دسمبر 1998ء) میں ہوئی، مولوی قمر الدین ( اﷲ ان کی مغفرت فرمائیں)فراغت کے چند ماہ بعد مئی 1999ء میں علی گڈھ میں ایک ٹرین حادثہ میں شہید ہوگئے ۔
بدنصیبی کی بات ہوتی۔
نجانے کب سے سنتے آتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمان مکی دور میں رہ رہے ہیں، ارے بھئی تو مکی دور کے بعد مدنی دور بھی آیا تھا، وہ ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں کتنی صدی بعد آئے گا؟ اور پھر مکی دور میں بت پرستی کے سامنے کبھی سر تسلیم خم نہیں کیا گیا تھا، کبھی اسلامی اصولوں سے کمپرومائز نہیں کیا گیا تھا، کبھی یہ نہیں کہا گیا تھا کہ تم اللہ اکبر کہہ دو، ہم جے شری رام کہہ لیں گے، مکی دور اپنانا ہی ہے تو مکمل اس کی مضبوطی کے ساتھ اپنائیں، یہ کیا من مرضی کا اسلام بنا رکھا ہے کہ کچھ چیزیں اپنائیں گے، کچھ چیزیں چھوڑ دیں گے۔
بس نام رہے گا الله کا!
عزیر احمد
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (وفات ۲۳ جنوری ۲۰۲۲ء) خاکہ نویسَ اویس سنبھلی
Читать полностью…سچی باتیں (۲۱؍اکتوبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ مشورہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
اگرآپ کے جسم میں کوئی بیماری پیدا ہوچکی ہو، اور آپ کو اُس کی خبر نہ ہو، اور کوئی شخص آپ کو اُس پر مطلع کردے، توآپ اُس شخص کے شکرگزار ہوں گے، یا اُلٹے اُس کے دشمن ہوجائیں گے؟ آپ کے گھر میں خدا نخواستہ آگ لگ چکی ہے، اور آپ بے خبر پڑے سورہے ہیں، ایسی حالت میں کوئی صاحب آکر آپ کو جھنجھوڑ کر اُٹھا دیتے ہیں، توآپ ان صاحب کو اپنا دوست وہواخواہ تسلیم کریں گے یا انھیں اپنا بدخواہ اور دشمن قرار دیں گے؟آپ کے سرپر کوئی اور مصیبت آنے والی ہے، اور ابھی آپ کو اس کا احساس نہیں، اتنے میں آپ کی ایک مِلنے والے آتے ہیں، اور آپ کو اس آنے والے خطرہ سے چونکا دیتے ہیں، بلکہ خود اُس کے رفع کرنے کی تدبیروں میں بھی آپ کے شریک ومعین ہوجاتے ہیں، توآپ اُن سے خوش اور راضی ہوں گے، یا ناخوش وناراض؟
دنیا کے کسی شعبہ کو بھی لے لیجئے، جوکوئی آپ کو کسی باب میں کوئی مفید مشورہ دیتاہے، آپ اُس مشورہ کی قدر ہی کرتے ہیں، اور مشورہ دینے والے کے شکر گزار ہوتے ہیں، ممنونِ احسان ہوتے ہیں ، باربار اُس کا ذکر تعریف کے ساتھ کرتے ہیں۔یہ آپ نے ایک عام قاعدہ مقرر کررکھاہے، خود آپ کی فطرت وسرشت اسی تائید میں ہے ، پر یہ کیاہے، کہ جب کوئی دینی مشورہ آپ کو دینا چاہتاہے، جب کوئی آپ کی عاقبت وآخرت کے سنوارنے میں آپ کو مدد دینے پر آمادہ ہوتاہے، تو آپ اپنے بنائے ہوئے قاعدہ کوخود ہی توڑ دیتے ہیں، اپنی فطرت سلیم کے خلاف اُس سے بگڑبیٹھتے ہیں، لڑ پڑتے ہیں، اُس کا مُنہ نوچ لینے کو تیار ہوجاتے ہیں؟ چاہئے تو یہ تھا، کہ آپ اُس شکر گزار وممنون احسان بدرجہا زائد ہوتے، کہ وہ آپ کی عارضی نہیں، دائمی راحت کا سامان بہم پہونچارہاہے، لیکن اس کے برعکس آپ اُلٹے اُسے اپنا دشمن ، اپنا مخالف، اپنا بدخواہ قرار دے لیتے ہیں، اور اُس کی ہر سیدھی سی سیدھی بات کو بھی ٹیڑھی سمجھنے لگتے ہیں!
فرض کیجئے، کوئی آپ کو یہ آکے مشورہ دیتاہے، کہ قلب کے اندر جو جو بیماریاں موجود ہیں، رشک، حسدوطمع، حُب جاہ، خودبینی وغیرہ جس طرح پرورش پارہے ہیں، بہتر ہوگا، کہ ان کے دَفع کرنے کی فکر کی جائے، ان کے علاج کے لئے فلاں فلان اطبائے حاذقین کی طرف رجوع کیاجائے۔ یا آپ سے عبادات کے اندر، معاملات کے اندر، ادائے حقوقِ اللہ کے اندر، ادائے حقوق العباد کے اندر، یہ یہ کوتاہیاں ہورہی ہیں، ان کی تلافی اور تدارک کی یہ یہ صورتیں ہیں، فلاں کا آپ نے دل دُکھایاہے، اس سے معافی مانگ لیجئے، فلاں کا حق آپ نے ماررکھاہے، اُس کا کفارہ دیجئے، یا آپ کے فلاں فلاں عقیدے، بلاتحقیق، محض ناعقلوں کی صحبت کے اثر سے آپ کے دل میں جم گئے ہیں، ذرااُن کی تحقیق کسی محقق کی طرف رجوع کرکے، فرمالیجئے، توان سب موقعوں پر آپ کو فی الحقیقت اس شخص کا شکر گزار ہوناچاہئے ، اسے اپنا اصلی مخلص ، محسن وہواخواہ ماننا چاہئے، یا یہ کہ، اس کے برعکس آپ اُس سے زبان درازی پر، ہاتھا پائی، آمادہ ہوجائیں؟ ذرا سوچئے تو، ایسے موقع پر آپ کو چاہئے کیاکرنا، اورآپ کررہے کیاہیں؟ ہونا کیا چاہئے، اور ہورہاکیاہے؟
/channel/ilmokitab
مولانا محمد حسین آزاد(وفات ۲۲ جنوری ۱۹۱۰)خاکہ نگار: مولانا راشد الخیری
Читать полностью…آج کی وفیات
/channel/ilmokitab
مولانا محمد تقی امینی 21 جنوری 1991
حسن عسکری ، مرزا(ایم ایچ عسکری) 21 جنوری 2005
دلاورفگار (دلاورحسین ) 21 جنوری 1998
سعد طارق، میجر جنرل 21 جنوری 2005
ظہیرمشرقی (ظہیر الحق) 21 جنوری 2000
عزیز عزمی( عبدالعزیز) 21 جنوری 2009
مقصود احمد اصلاحی،حافظ 21 جنوری 1987
راو فرمان علی 21 جنوری 2004
بات سے بات : مولانا اصلاحی کا دوبارہ ذکر خیر
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )
دلی خوشی ہوئی جب دو روز بعد اصلاحی اور ندوی فکر کے تعلق سے ہماری پوسٹ کو علم وکتاب میں پذیرائی ملی، اس سے محسوس ہوا کہ احباب اس بزم پر پوسٹ ہونے والے پیغامات کو اہمیت سے دیکھتے ہیں۔ یہ اس بزم کے لئے شرف کی بات ہے۔ ایک دوست نے مولانا امین احسن اصلاحی کے جماعت سے وابستگی کے دور کو جلسے جلوس سے تعبیر کرنے پر تعجب کا اظہار کیا ہے، جس کی وضاحت مولانا خلیل الرحمن چشتی صاحب نے بخوبی کردی ہے، اس پر مزید بتاتے چلیں کہ چائے وائے کی طرح جلسے کے ساتھ جلوس کا لاحقہ استعمال کرنے کے ہم عادی ہیں، اب یہ کہاں تک درست ہے ہمارے اہل علم احباب ہی بتاسکیں گے، ماحول کی تبدیلی سے تعبیرات میں بھی فرق آجاتا ہے، ہم نے مولانا کے ابتدائی دنوں میں تدریس سے زیادہ تقریروں اور جلسوں اور تنظیمی امور میں زیادہ مشغولیت کو جلسے جلوس سے تعبیر کیا ہے۔
مولانا اصلاحی کو جماعت اسلامی کے دور میں دیکھنے والے کئی ایک بزرگوں سے ہمارے تعلقات رہیں ہیں، ان میں مولانا نثار احمدؒ ( یوکے اسلامی مشن لندن) اور مولانا خلیل احمد حامدیؒ ( دارالعروبہ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کا کہنا تھا کہ مولانا سلیم الطبع ہونے کے سات ساتھ بڑے سریع الغضب، اور جلد جذبات سے مغلوب ہونے والے فرد تھے، یہ حضرات مولانا سے شاکی نہیں تھے، بلکہ ان کا بہت احترام کرتے تھے، انہیں اپنے پرانے ساتھیوں سے بدگمان کرنے کا سہرا وہ کسی اور کے نام باندھتے تھے، جس کا ذکر ہم یہاں چھوڑ دیتے ہیں۔
مولانا حامدی صاحب بتاتے تھے کہ جب نیا نیا ٹیپ ریکارڈ آیاتھا تو انہوں نے آپ کی تقریر ریکارڈ کی اور انہیں بتائے بغیر سنادی ، تو کہنے لگے یہ کون مقرر ہے، بہت اچھی تقریر کررہا ہے۔
یہاں ہم ایک اہم نکتے کی طرف احباب کی توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ صحیح علم دین اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے ہی سے آتا ہے، یہ علم کتابوں کے ساتھ جب سینہ بہ سینہ بھی چلے تو قابو میں آتا ہے، جس طرح کوئی زبان صرف کتاب پڑھ کر نہیں آسکتی اسی طرح علم کا فہم اسے فن کے جید اساتذہ سے پڑھے بغیر نہیں آسکتا۔ سینے میں علم کی بنیاد ڈالنے والا درحقیقت استاد ہی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں احباب کو مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کا درس سورہ فاتحہ بغور سننا چاہئے، یہ پانچ مجلسوں پر مشتمل ہے، اور بھٹکلیس ڈاٹ کام کے آغاز مین اسے ہم پوسٹ کرچکے ہیں۔
عام طور پر مشہور ہے کہ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد میں اساتذہ سے حصول علم کی اہمیت نہیں ہے، لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ صاحب تفہیم نے حیدرآباد دکن کے علماء سے عربی فارسی اور دینی علوم سیکھے ہیں، اور یہاں سے دہلی جانے کے بعد اور الجمعیۃ سے وابستگی کے دنوں میں بھی وہاں کے اکابر علماء سے علوم دینیہ کے سبق باقادگی سے لئے ہیں، آپ کے والد ماجد نے مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک واسطے سے صحاح ستہ کی سند لی تھی،اور آپ کے فرزند کو اورنگ آباد اور حیدرآباد سے فراغت تک انگریزی تعلیم کی بھنک تک پڑنے نہ دی تھی۔ یہ سبھی دستاویزت اب بھی محفوظ ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد ہوں یا جاوید احمد غامدی یا خالد مسعود انہوں نے علم دین میں اپنے اعتبار کو باقی رکھنےکے لئے خود کو مولانا اصلاحی سے جوڑ رکھا ہے، یہ اچھی بات ہے اگر اس میں استحصال کا پہلو نہ ہو۔ ڈاکٹر اسرار صاحب نے تو مولانا سے سنہ پچاس کی دہائی میں قید وبند کے زمانے میں استفادہ کیا ہے، اس وقت مولانا ابھی توانا تھے، لیکن آخر الذکر دونوں نے مولانا کی پیرانہ سالی اور تقریبا دو عشروں تک درس وتدریس اور عوامی زندگی سے انقطاع کے بعد آپ سے استفادہ کیا ہے۔
خان عبد الغفار خان (۲۰ جنوری ۱۹۸۸ء) ۔ تحریر آصف جیلانی
Читать полностью…1۔ آغازِکلام، 2۔ اللہ، رحمٰن، رحیم، 3۔ تخلیقِ آدم کے مراحل، 4۔ عربی زبان کا فلسفہ لغت، 5۔ آذر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد، 6۔ داستانِ خلیل علیہ السلام، 7۔ بکہ مبارکہ، 8۔ شہر بابل، 9۔ ہاروت و ماروت، 10۔ گو سالہ سامری، 11۔ السّامری، 12۔ ایذائے موسیٰ علیہ السلام، 13۔ حضرت ایوب علیہ السلام، 14۔ الرّوم، 15۔ بشاراتِ دانیال علیہ السلام، 16۔ سورہ روم کا اندازِ استدلال، 17۔ سنگِ شبام، 18۔ نمل اور نملۃ، 19۔ طٰس۔ نشان زدہ مستحق ِنجات لوگ، 20۔ یدِ بیضاء و عصائے موسیٰ علیہ السلام، 21۔ ذکرِ سلیمان علیہ السلام، 22۔ وادی نمل، 23۔ قصہ نملہ، 24۔ النمل کی وجہ تسمیہ، 25۔ ملکہ سبا، 26۔ فزعِ اکبر۔ سورہ سبا، 27۔ ذوالکفل علیہ السلام، 28۔ مریم بنتِ عمران، اخت ہارون علیہ السلام، 29۔ تاریخِ یمن پر ایک سطر، 30۔ کتبات حصن غراب، 31۔ عمرو بن عامر عرف مزیقیا کے عہد کا سیل ِعرم، 32۔ جنت ِسبا، 33۔ اسرائیل، وجہ تسمیہ اور تاریخ، 34۔ اصحاب الاخدود، 35۔ اصحاب الفیل کا واقعہ، 36۔ اصحاب الفیل کا واقعہ (تصحیح)، 37۔ ذو حجر، 38۔ فرقلیط موعود اور محمدﷺ، 39۔ عدد السنین والحساب۔
ان میں دو مضامین ایسے بھی ہیں جو مولانا مرحوم کے ابتدائی زمانے کی تحریریں ہیں، جب معارف میں شائع ہونے والے مضامین پر ان کا نام شائع نہیں ہوا کرتا تھا۔ مولانا نے ایک طویل مقالہ سورہ نمل پر لکھا تھا جو رسالہ ’طلوعِ اسلام‘ میں بڑی قطع و برید کے بعد شائع ہوا۔ یہ مقالہ اپنی مکمل صورت میں آٹھ عنوانات کے ساتھ اس کتاب میں بھی شامل ہے۔
قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کے باب میں مولانا مرحوم کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اسے یکسر نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ تشنگانِ علم و تحقیق مولانا کی عالمانہ اور سیر حاصل تشریح و تفسیر سے ضرور مستفید ہوں گے۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
’کے ساتھ‘، ’کے ہمراہ‘ یا ’کے سنگ‘ کے معنوں میں بھی ’سے‘ استعمال کیا جاتا ہے جیسے ’یہ دوا دودھ سے کھانی ہے اور یہ دوا پانی سے‘‘۔ جدائی اور دُوری کے معنی دینے کے لیے بھی: ’’کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات پھر نہیں آتی‘‘۔ دوبارہ یا پھر کے معنوں میں یوں بولتے ہیں: ’’اب سے یہ غلطی مت کرنا‘‘۔ سمت کے تعین کو ’مشرق سے، مغرب سے، شمال سے اور جنوب سے‘ بولتے ہیں، یا ’اوٹ سے‘:
سورج تو پتھر کی اوٹ سے آ نکلا
اب تم کس کا رستہ روکے بیٹھے ہو؟
’کے اندر سے‘ کہنا ہو تو اس موقعے پر بھی صرف ’سے‘ کہنے سے کام چل جاتا ہے، مثلاً ’صندوق سے بندوق نکال لو‘۔ شدت، زیادتی یا کثرت کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے کہ ’گرمی سے بُرا حال ہوگیا ہے‘۔ یا ’پیسے سے پاگل ہوگئے ہیں‘۔ بعض جگہ ’سے‘ نہ ہو تب بھی ’سے‘ سمجھ لیا جاتا ہے، یعنی محذوف گردانا جاتا ہے۔ استاد ذوقؔ کے اس شعر میں دوسرے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے کو دیکھیے:
لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
اپنی خوشی سے آئے، نہ اپنی خوشی چلے
متضاد چیزوں میں موازنے کے لیے بھی ’سے‘ استعمال ہوتا ہے مثلاً ’خواص سے عوام تک‘۔ ’عالم سے جاہل تک‘۔ یا جیسا کہ فناؔ نظامی کانپوری کے ساتھ ایک حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا:
شیخ لے آیا تھا مے خانے سے مسجد کی طرف
وہ تو کہیے کچھ خدا کی مہربانی ہو گئی
/channel/ilmokitab
آج کی وفیات
اوپندر ناتھ اشک 19 جنوری 1996
حمیدہ سلطان احمد بیگم 19 جنوری 2003
ادریس ، ڈاکٹر ایس ایم 19 جنوری 1990
بدر الہ آبادی(ظلِ حسنین) 19 جنوری 1976
جمیل نقوی (سید جمیل احمد امروہوی) 19 جنوری 1999
راغب مرادآبادی (سید اصغر حسین) 19 جنوری 2011
رضوان عنایتی 19 جنوری 2006
شمس وارثی (سید شمس الحسن) 19 جنوری 2008
عبدالحفیظ،سید 19 جنوری 1982
قصری کانپوری(مطلوب حسین ) 19 جنوری 1996
محمد بن خلیل عرب 19 جنوری 1986
مشتاق احمد، نواب 19 جنوری 1984
بیگم حمیدہ سلطان احمد 19 جنوری 2003
شمس تبریز خاں 19 جنوری 2013
مولانا عبدالباری فرنگی محلی 19 جنوری 1926
ثاقب عظم آبادی۔سید حسن رضا 19 جنوری 1974
حیدر بیابانی 19 جنوری 2022
ساقی فاروقی 19 جنوری 1918
شمس تبریز خان 19 جنوری 2013
ثاقب عظیم آبادی 19 جنوری 1974
بلال اصغر دیوبندی 19 جنوری 2023
منو بھائی 19 جنوری 2018
/channel/ilmokiab
*کیا ہم مسلمان ہیں (۲۶ )۔۔۔ اسلام ایک بے پناہ سچائی (پہلی قسط )*
*تحریر: شمس نوید عثمانی*
یہ دنیا____ خدا سے مایوس اور مذہب سے بے زار نام نہاد مہذب دنیا جو خداے حی و قیوم کے بجائے سائنس کے بے حس آلات پر اعتماد کرتی ہے ___جو حقیقت آشنا بصیرت کے بجائے خورد بینوں کے کمزور شیشوں پر دل و جان سے فدا ہے ۔ جو حق کوشی کو چھوڑ کر حق پوشی کے فن پر فخر کرتی ہے اور جو سچائی پر طاقت کو اورسوز دروں پر قوت بازو کو فوقیت دیتی ہے _ ہاں یہی مغرور دنیا خواہ اور سب ہی کچھ کر چکی ہو لیکن کبھی یہ نہیں کرسکی کہ انسان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں گھس جائے اور وہاں نفرت و انتقام کے اُبال کو ٹھنڈا کر کے اسے محبت وسپردگی کے لطیف ترین جوش میں تبدیل کر دے محبت اور نفرت کے پُراسرار جذبات____ تہلکہ ڈالنے والے عظیم ترین جذبات پر قابو پانا " جھوٹ " کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہوا ۔ یہ کام ہمیشہ سچائی نے کیا ہے دھو کے اور جعل سے ہمیشہ انسان کی فطرت ِ صالحہ نے نفور کیا ہے اور "سچ" کو جہاں کہیں محسوس کیا ہے فی الفور اس کی عظمت کے آگے جذبات نے ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ نفس اور ضمیر کی کش مکش میں سچائی کے اعتراف بالجہر اور اعلائے کلمتہ الحق کی توفیق صرف ان مُٹھی بھر انسانوں ہی کو حاصل ہوتی رہی ہے جو سچ کو جاننے کے بعد اس کو ماننے اور استعمال کرنے کی جرات پیدا کر سکے ہوں ۔ یہ وہ نقطۂ عروج ہے جہاں آدمی خوب محسوس کر لیتا ہے کہ اس دنیائے فانی میں جو شے ہرشے سے زیادہ قیمتی اور عزیز ہے وہ زندگی نہیں، بلکہ سچائی پر جان دینا ہے____ زندگی___ حقیقی زندگی کا پہلا سانس ہی آدمی اس وقت لیتا ہے جب اس کے خون کا آخری قطرہ تک سچائی کو اپنے کردار کی "لوح محفوظ" پر نقش دوام بنا دینے کے کام آجائے ۔
اس زاویے سے جب ہم اسلام کا تاریخی مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ کس طرح اور کس حد تک اسلام کے پیغام نے اپنے جانی دشمنوں کے جذبات پر فاتحانہ اثر کیا ۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ وقت کی سرکش سیاسی قوتوں کو پست و زبوں کر کے دکھایا___ مُٹھی بھر انسانوں کی نہتی ٹولی نے آہن و فولاد میں ڈوبی ہوئی غنیم کی صفوں کو پرکاہ کی طرح ہوا میں اڑا کر رکھ دیا___ اور چٹانوں کی صلابت رکھنے والے شاہی قلعوں کو عرب کے پیدائشی غلاموں کے قدموں پر خم کر دیا۔ بلکہ اس نے اس سے بھی زیادہ حیرت ناک فتح یہ بھی حاصل کی کہ جو انسان پوری قوت سے اس کا نام سننے سے جلتے تھے ان کی نفرت کو محبت اور سپردگی کے سانچوں میں ڈھال دیا___ جذبات کے طوفانی دھاروں کا رخ بدل دیا ۔ دل کی دھڑکنوں میں تہلکے ڈال دیے _ آرزوؤں کی قسمت بدل دی اور جذبات و خیالات کی ان دیکھی دنیاؤں کو مسخر کر کے ایک انسان کو بالکل دوسرا انسان بنا کر دکھایا___ اسلام بھی اگر انسان کی "شاطرانہ دماغ" کی کوئی سیاسی اور نظریاتی تخلیق ہوتا تو جولوگ ہوش و حواس کے عالم میں اس کے نام سے متنفر تھے اور اس کو بیخ و بن سے اکھاڑ دینے میں پسینے پسینے ہوئے جاتے تھے کبھی بھی اسلام کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ اپنا کراس کی راہ میں پروانہ وار قربانیاں پیش کرنے کی تحریک نہ پا سکتے_ _ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ جو دشمن ایک دو دن نہیں _سالہا سال تک اپنی دولت اور خون پسینے کو اسلام کو مٹا دینے کی راہ میں پانی کی طرح بہاتے رہے ہوں___ جن کی پوری زندگی "اسلام دشمنی" کے مرکز پر سمٹ گئی ہو جو اس نفرت کے خون آشام جُنون میں دن رات کا سکون و آرام تج چکے ہوں وہ اچانک اسلام کو جھوٹ سمجھتے ہوئے اس پر اس طرح قربان ہو جائیں کہ جس کا خواب بہت سے سچائیوں کو ماننے والے بھی نہ دیکھ سکیں___ اگر تاریخ انسان کے اپنے ہی ماضی کی کہانی ہے اور یہ کہانی ہمارے مستقبل کی میزان فکر و عمل میں کوئی بھی وزن رکھتی ہے تو اسلام کی اس نفرت سوز___ انقلاب آفریں سچائی سے زیادہ سچا اور وزنی کوئی واقعہ اس تاریخ کے دامن میں موجود نہیں ___
*آج کی وفیات*
/channel/ilmokitab
مولانا زکی کیفی 24 جنوری 1975
مولانا آزاد سبحانی 24 جنوری 1957
رضوان واسطی 24 جنوری 2011
عبدالمجید خان وحشی، ڈاکٹر 24 جنوری 1983
محمد جمن ، استاد 24 جنوری 1990
مولانا مفتی عبد الله 24 جنوری 1981
شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی 24 جنوری 1957
ارشاد احمد حقانی 24 جنوری 2010
زمانۂ طالب علمی اور فراغت کے بعد ابتدائی دس بارہ سال میں ان سےملاقات یاد نہیں ہے ، فراغت کے بعد وہ جامعہ محمودیہ اشرف العلوم کانپور میں مدرس ہوگئے ، جہاں وہ ایک کامیاب، ہر دلعزیز اور مقبول مدرس تھے اور کئی سال سے صدارت تدریس کے منصب پر بھی فائز تھے، اہل انتظام بھی ان کے قدرداں اور ان سے مطمئن وخوش تھے ۔ ان سے پہلی تفصیلی ملاقات آٹھ دس سال پہلے جمعیۃ کے ایک پروگرام میں کانپور میں ہوئی ، جس میں ان کے والد گرامی مولانا عبد الحمید صاحب بھی شریک تھے ۔ ناشتہ میں نے ان کے گھر کیا تھا ، اس کے بعد کئی ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں ۔ مولانا معزالدین صاحب کے انتقال کے بعد جب وہ ناظم امارت شرعیہ کی حیثیت سے دہلی آئے تو بکثرت ملاقاتیں ہونے لگیں، ان کے برادر گرامی سے جو مراسم تھے اس کا انھوں نے پورا پورا لحاظ رکھا اور حد درجہ اکرام وتعظیم کا معاملہ کرتے تھے ۔وہ تقریباً ایک سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ دہلی میں رہے ، درحقیقت وہ درس وتدریس کے آدمی تھے اور دہلی میں ان کا جی نہ لگا اور وہ جامعہ محمودیہ کانپور میں اپنی سابقہ تدریسی خدمت پر واپس آگئے ۔
اس دوران کبھی فون پر بات ہوجاتی تو خیریت معلوم ہوجاتی یا کبھی کسی پروگرام میں ملاقات ہوجاتی، آخری ملاقات دیناجپور میں امارت شرعیہ جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سیمینار میں ہوئی ، جہاں تین دن ساتھ رہا ، پروگرام کے بعد دارجلنگ کی سیر میں رفاقت رہی ، کیا معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے۔ مولانا متین الحق اسامہ قاسمی ( بانی جامعہ محمودیہ اشرف العلوم کانپور) کے انتقال کے بعد ان کے خلف الرشید مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی نے ان کی حیات وخدمات پر ایک سیمینار کرانے کا فیصلہ کیا،جو ان شاء اللہ عید بعد ہوگا۔مفتی صاحب کی انتظامی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کو اس کا نگراں اور ذمہ داربنایا ، انھوں نے خود بھی مجھ سے مقالہ لکھنے اور سیمینار میں شرکت کے لئے تاکید کی اور مولانا محمد جنید گنج مرادآبادی( کنوینر سیمینار) سے تاکید کی کہ مجھ سے ضرور مقالہ لکھوائیں۔ ان شاء اللہ بہر صورت ان کے حکم کی تعمیل کی کوشش کروں گا۔ جب سےان کی وفات کی خبر سنی ہے دل کا عجیب حال ہے ، رہ رہ کر ان کے والد گرامی اوردیگر اہل خانہ کا خیال آتا ہے کہ جب دور رہنے والے ایک شخص کی یہ کیفیات ہیں تو ان خونی قرابت داروں کا کیا حال ہوگا، رب کریم ان تمام لوگوں کے ساتھ اپنے خصوصی رحم وکرم کا معاملہ فرمائے۔ پورا وجود دعاگو ہےکہ باری تعالیٰ مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائیں ،اعلیٰ علیین میں جگہ دیں ، ان کی قبر کو روضۃ من ریاض الجنۃ بنائیں ،ان کے والدین ، بھائیوں ، اولادوں ، اہلیہ اور جملہ اہل خاندان کو اپنے حفظ وامان میں رکھیں اور اپنے فضل خاص کا معاملہ فرمائیں۔آمین یارب العالمین
*تمہیں اپنی زبان کا حساب دینا ہے*
مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی مدظلہ لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ میں نے (مولانا سید رابع حسنی ندویؒ) سے جاکر کہا: فلاں صاحب سے آپ اِس طرح ملتے ہیں اور اتنا اُن کا خیال رکھتے ہیں اور وہ اِس اِس طرح، آپ کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ یہ کہتے کہتے میرے منہ سے کچھ سخت باتیں اُن کے لیے نکل گئیں۔ مولاناؒ ایک دم سے سنجیدہ ہوگئے اور سختی کے ساتھ بولے کہ تم زیادہ تیز بول رہے ہو، تمہیں اپنی زبان کا حساب دینا ہے، اُن کو اپنی زبان کا۔ تم اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ یہ سننا تھا کہ جیسے میرے بریک لگ گیا اور آج بھی ان کا یہ جملہ، یہ تنبیہ سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ جب بھی زبان تیز چلنے لگتی ہے، تو زبان کو خودبخود، لگام لگ جاتی ہے۔
پیامِ عرفات، خصوصی اشاعت، بیاد حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ/صفحہ: ۴۸
https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
شروع شروع میں دانشوری کا خمار جب چڑھتا ہے تو ہر برائی اپنوں ہی میں نظر آتی ہے، جو لوگ مجھے مستقل پڑھتے رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں میں خود کس قدر مسلمانوں کے عادت و اطوار کے خلاف لکھتا رہا ہوں کہ ان کو تو غیر مسلموں کے ساتھ رہنا ہی نہیں آتا، ان کو پرامن بقائے باہمی کا مطلب نہیں پتہ، ان کو فلاں "اصطلاح" کے بارے میں علم نہیں، ڈھکاں ٹرم سے واقفیت نہیں ہے، یہی ہر فتنے کی جڑ ہیں، لیکن میدان عمل میں آنے کے بعد جس طرح ہر سیکولر بندے کو رنگ بدلتے دیکھتا چلا گیا، دانشوری کا خمار بھی سر سے اترتا چلا گیا، کتنے لیڈر ہیں جنہوں نے ہمارا کندھا استعمال کرکے اپنی لیڈری چمکائی، آج وہ کسی اور در پر پڑے نظر آتے ہیں۔
بہت پہلے میں نے لکھا تھا کہ ہندوستان کی اکثریت اب سیکولر نہیں ہے، بھلے ہی سیکولرزم کا دکھاوا کریں، الحمد للہ کل کے شو نے اس بات کو کںفرم کردیا ہے، یوگی اور مودی جی نے رام راجیہ کا اشارہ دیدیا ہے، کانسٹیٹوشن کے پنوں میں ایودھیا میں نمکین بیچے گئے ہیں، تھیوری کا کہنا ہے کہ انڈین کانسٹیٹیوشن کے بیسک اسٹرکچر میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی ہے، مگر حقیقت حال یہ ہے کہ مودی جی آج آفیشیل اعلان کردیں تو اکثریت اسی طرح خوشیاں منائے گی، جس طرح کل منا رہی تھی، سچائی یہی ہے کہ "ہندوتوا" اسٹریم لائن کردیا گیا ہے، اب جس کو بھی سیاست کرنی ہے اسی کے دائرے میں رہ کر کرنی ہے، محبت کی دکان اگلے پچاس سالوں کے لئے بند ہے۔
میں اس صورتحال کو لے کر پریشان نہیں ہوں، میرا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ ہم سب اپنی منزل کو چل رہے ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ایک دن کسی نہ کسی منزل پر پہونچنا ضرور ہے، جتنی زیادہ مصیبتیں آئیں گی اتنے ہی زیادہ اپنے ایمان میں پختہ ہوتے جائیں گے، ہمارے بہت سارے احباب قرآن و سنت کی بات کرتے ہیں، لیکن قرآن و سنت میں غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کتنی اور کس حد تک ہے، اس کا پرچار و پرسار کبھی نہیں کرتے، نتیجہ دیکھ لیجئے، ایک آندھی آئی اور نجانے کتنے پیڑ گر گئے، لوگ شرک جیسی عظیم گناہ میں شرکت کے لئے سڑکوں پر چل رہے ہوتے ہیں، اور ہم رواداری کے نام پر سبیلیں لگاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ شرک ایک ایسا گناہ جسے کبھی نہ معاف کرنے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے، اللہ نے ہمیں اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کا حکم دیا ہے، اور ہمارے دانشوران قوم کیا کر رہے ہیں؟ اس کی بعض آیتوں میں ایمان لا رہے ہیں، اور بعض آیتوں سے پہلوتہی اختیار کر لیتے ہیں۔
بھئی آپ سلف صالحین کے فتاوے ڈھونڈئیے، غیر مسلموں کے ساتھ رہائش اور ان ساتھ بود و باش اختیار کرنے کے مسئلے پر ان کی آراء کا تتبع کریں، آپ کو بہت سارے رائج الوقت سکہ بند آراء کا واضح بطلان نظر آئے گا، دن رات بدعت، اہل بدعت اور فلانے ڈھکانے کی باتیں کرتے رہیں گے، اور ایک پوری نسل ہماری بیجا رواداری کے نام پر ارتداد کا شکار ہورہی ہے، اس پر ایک لفظ نہیں لکھیں گے، کل دیکھا ہوگا کتنے باریش مسلمان چھاتی پیٹ پیٹ کر مائک کے سامنے اعلان کرتے نظر آئے کہ رام ہمارے ہیں، رام ہمارے ہیں، ارے بھائی تمہارے کیسے ہیں؟ کچھ ہے کیا قرآن و سنت میں اس تعلق سے رہنمائی؟ اگر ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پھر تمہارے کیسے ہوئے؟ شرک کی خباثت اور اس کی رذالت کا احساس دلوں سے عنقا ہوتا جارہا ہے، یہ سب کس غیر اسلامی فکر کی پیداوار ہے؟
مسلمانوں کو اللہ تعالی نے اس طرح بنایا ہے کہ وہ زیادہ دن تک غیر فطری اور غیر اسلامی چیزوں کے ساتھ نہیں چل سکتے، ایک نسل برائیوں میں ملوث ہوگی تو دوسری نیکوکار بن کر سامنے آجائے گی، اسلام میں قدرت نے ہمیشہ لچک رکھی ہے، ادھر ڈوبیں گے، ادھر نکلیں گے، ہسپانیہ میں سورج غروب ہورہا تھا تو قسطنطنیہ میں طلوع ہورہا تھا، تو یہاں بھی وہی ہوگا، اللہ کی رحمت سے نہ مایوس ہیں، اور نہ ہی بزدلی اور وہن کے شکار ہیں، ہوگا وہی جو نوشتۂ تقدیر ہے۔
کل دیکھا میں نے کہ بہت سارے لوگ لکھ رہے ہیں کہ بابری پر رونے والے اپنے محلے کی مسجدوں کو کب آباد کریں گے، ان کی بات صحیح ہے، لیکن صحیح بات غلط موقع پر ہے، موقع ایک ایسی زمین پر جہاں صدیوں تک نمازیں ادا کی گئیں، رب کا نام لیا گیا، اس پر شرک و بت پرستی کے غلبے پر رونے کا تھا، نہ کہ مسلمانوں کی بد اعمالیوں پر، اگر مسلمانوں کی بد اعمالیاں جواز کا سبب ہیں تو پھر تو جو لوگ سال بھر باہر رہتے ہیں، اپنے گھر نہیں جاتے، ان کے گھر پر اگر کوئی قبضہ کرلے تو ان کا حق ہی نہیں بنتا ہے کہ اس کے لئے مقدمہ کریں، دوڑ بھاگ کریں، کیونکہ الزامی جواب کے طور پر انہیں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر تم نے اپنے گھر کو آباد کیا ہوتا تو قبضہ نہ ہوتا، مسلمانوں کی بد اعمالیاں ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، احتساب ہوتے رہنا چاہئے، لیکن اس کے مواقع الگ ہیں، کم سے کم اسی بات پر خوش ہونا چاہئے کہ اتنی بد اعمالیوں کے باوجود بھی پوری قوم درد محسوس کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے، ورنہ وہیں اگر احساس بھی نہ ہوتا تب تو اور بڑی
آج کی وفیات
/channel/ilmokitab
بدرشکیب (محمد بدالدین خان) 23 جنوری 1973
حیدر عباس، پروفیسر مرزا 23 جنوری 1993
رئیس احمد خاں نظامی 23 جنوری 2005
ریاض صدیقی، پروفیسر(ریاض الدین) 23 جنوری 2006
سوزشاہجہانپوری(سید جوادعلی ) 23 جنوری 1996
محمد عثمان،مولانا 23 جنوری 1971
محمد علقمہ، پروفیسر 23 جنوری 2001
محمد ہادی،مولانا سید 23 جنوری 1966
ڈاکٹر سلامت اللہ 23 جنوری 2002
سراج لکھنوی، سراج الحسن 23 جنوری 1968
عتیق الرحمن سنبھلی 23 جنوری 2022
یہ تصویریں بابری مسجد کی نہیں ہیں۔ پہلے بھی کئی بار سوشل میڈیا میں بابری مسجد کے نام سے آچکی ہیں۔ میں نے ۱۹۸۷ اور ۱۹۸۹ میں دوبار بابری مسجد میں داخل ہوکر اندرونی صورتحال کا جائزہ لیا۔ بابری مسجد کے درودیوار اور آثار اس سے بالکل مختلف تھے۔
معصوم مراد آبادی
آج کی وفیات
/channel/ilmokitab
احمد عبدالستار الجواری، ڈاکٹر 22 جنوری 1988
احمد خاں بروہی،حاجی 22 جنوری 2022
اشتیاق حسین قریشی ، ڈاکٹر 22 جنوری 1981
امیرخان (حامد میاں) 22 جنوری 1992
جلال الدین رفاعی،سید 22 جنوری 1982
راغب احسن ،علامہ 22 جنوری 1904
رضی اختر شوق(خواجہ رضی الحسن انصاری) 22 جنوری 1999
سخاوت مرزا ، محمد 22 جنوری 1977
سلیمان آدم جی،حاجی 22 جنوری 1978
عرفان حیدر عابدی،علامہ 22 جنوری 1998
مولانا محمد حسین آزاد 22 جنوری 1920
مولانا محمد علاء الدین ندوی 22 جنوری 1955
محدث کبیر علامہ عبد الرحمن مبارک پوری 22 جنوری 1935
منشی سجاد حسین 22 جنوری 1915
نقش لائلپوری 22 جنوری 2017
رفیع الدین دیوبندی 22 جنوری 1891
یہاں یہ بات ذہن میں آتی ہے جو جناب م نسیم اعظمی مرحوم نے ہم سے کہی تھی، مرحوم ہندوستان میں اسلامی ادب کی تحریک کے سرخیل تھے، آپ کا مجلہ نئی نسلیں لکھنو اس تحریک کا اولین ترجمان ہوا کرتا تھا، نسیم صاحب نے ہمارے استفسار پر کہ جماعت میں بہترین لکھنے والوں اور باصلاحیت لوگوں کی وافر تعداد میں موجود گی کے باوجود ادب اسلامی صرف نعروں تک محدود کیوں رہ گیا؟اور معاشرے میں کوئی زیادہ موثر کردار ادا نہ کرسکا تو انہوں نے فرمایا کہ جماعت والوں نے جب کسی لکھنے پڑھنے کو دیکھا کہ اچھا بول بھی سکتا ہے تو اسے درس قرآن، تقاریر اور تنظیمی کاموں میں لگا دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باصلاحیت افراد ان کاموں میں پڑ کر چن چن کا مربہ بن کر رہ گئے، اورکسی ایک میدان کے ہوکر اپنی شناخت بنا نہ سکے۔جماعت اسلامی سے وابستگی کے بعد مولانا اصلاحی اپنے استاد مولانا فراہی کےلئے علامہ شبلی کے سید سلیمان نہ بن سکے، اور جب پاکستان چلے گئے تو مولانا فراہی کی میراث کو مدرسۃ الاصلاح اور یہاں کے ناظم مولانا بدر الدین اصلاحی مرحوم نے سنبھالا، جنہوں نے فراہی کے آثار کو سینت سینت کررکھا، اور انہیں ایڈیٹ کرکے شائع کیا، آج مولانا بدر الدین کو لوگ نہیں جانتے ، ورنہ ہمارے مولانا شہباز اصلاحی مرحوم کے بقول مولانا آزاد کے طرز خطابت کے نمائندہ مقرر تھے، لیکن ان کے آثار محفوظ نہیں رہے، اس حیثیت سے اب انہیں کوئی نہیں جانتا۔
مولانا اصلاحی نے جماعت سے وابستگی کے دور میں بڑی پیاری کتابیں لکھیں، تزکیہ نفس، دعوت دین، حقیقت شرک، حقیقت توحید، وغیرہ کئی ساری ایسی کتابیں ہیں جو آج بھی اپنے اندر طراوت رکھتی ہیں، اور اپنے موضوع پر ان کی اہمیت جاودانی ہے، تدبر قرآن کو ہمیں اس وقت پڑھنے کا موقعہ ملا تھا جب ۱۹۸۰ کی دہائی میں موازناتی مطالعہ تفسیر ایک حلقہ ہم نے شروع کیا تھا، اب تو ان باتوں پر زمانہ گذرچکا ہے، اور بہت سی باتیں صرف یاد داشتوں کی بنیاد ہی پرکہنی پڑتی ہیں، ہم نے مولانا اصلاحی کو نہیں دیکھا، لیکن آپ کی کتابیں دیکھ کر ہمیں موریتانی مفسر قرآن اور جلیل القدر عالم دین شیخ محمد الامین شنقطی علیہ الرحمۃ کے شاگرد مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری کی بات یاد آتی ہے کہ شیخ صاحب کے ہاتھ میں ہم نے کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی، لیکں ان کے سینے میں علم کا ایک سمندر موجزن تھا، عہد جاہلی وغیرہ کے اشعار انکے نوک زبان رہتے تھے، مولاانا اصلاحی کی تحریروں سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے یہاں تدبر ہی تدبر تھا، روایت کا پہلو کمزور ہونے کا ایک اہم سبب یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ بات چونکہ پھیل گئی اسے درج ذیل نکات پر ختم کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
۔ مسلک کی اپنی اہمیت ہے، لیکن دعوت ہمیشہ دین کی دی جائے گی۔
۔ ایک حد تک اپنے مسلک اور منہج کی شناخت ظاہر کرنا مناسب اور مفید ہوسکتا ہے، لیکن یہ حد سے گذر جائے تو کھانے میں نمک کی طرح زیادہ ہونے پر منہ کو کڑوا کردیتا ہے۔
۔ علم دین کو اس کے ماہر اساتذہ سے حاصل کرنا ضروری ہے، جب علم کی بنیاد بن جائے تو اس پر مزید علوم کی کی عمارت تعمیر ہو سکتی ہے، لیکن اساتذہ سے فیض پائے بغیر کوئی صرف کتاب اور ترجمہ پڑھ کر خود کو عالم سمجھنے لگے تو یہ تحریف کا دروازہ کھولنے والا عمل ہوگا۔
۔ اس بات کی کوشش ہونی چاہئے کہ مسلمان ایک دوسرے سے خود کو الگ ثابت کرنے کے بجائے، ایک ہی ثابت کرنے کی کوشش کریں، اور اختلاف کے پہلوؤں کو تلاش کرنے کے بجائے اتحاد کے پہلوؤں کو اجاگر کریں۔
/channel/ilmokitab
سنت وبدعت سے متعلق مسائل میں علمائے دیوبند کا مسلک
( الف ): سنت و بدعت سے متعلق مسائل ۔ (ب) مختلف فیہ مسائل۔ (ج): وہ مسائل ، جن میں علامہ شامی کی رائے ، ہمارے اکابر نے قبول نہیں فرمائی۔
ایک موقع پر حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم نے ارشاد فرمایا:
ہم لوگ محض حنفی نہیں ہیں، ہم حنفی دیوبندی ہیں، اور اکابر علمائے دیوبند نے سنت و بدعت کے سلسلہ میں ، قرون اولی کے ذوق و مزاج پر اعتماد کیا ہے، قرون متوسطہ کی آراء پر اعتماد نہیں کیا؛ کیوں کہ قرون متوسطہ کے لوگوں میں بدعات کی طرف میلان رکھنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں ؛ اس لیے اکابر علمائے دیو بند نے قرون متوسطہ کے لوگوں کی وہ تخریجات قبول نہیں فرمائیں، جو از قبیل بدعات تھیں، یا ان میں بدعت کا ذوق و مزاج کارفرما تھا، اور اصل فقہ حنفی بعض متاخرین کے اس ذوق و مزاج سے بالکل پاک اور صاف ہے ، اور ہم دیو بندیوں میں اور بریلویوں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ بریلوی ، احناف کی طرف منسوب ہر کتاب کا مسئلہ آنکھ بند کر کے لیتے ہیں؛ جب کہ دیو بندی ایسا نہیں کرتے ؛ اس لیے فقہ حنفی میں اکابر علمائے دیوبند کے ذوق و مزاج کی رعایت اہم ہے"۔
نیز ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:
حضرت مفتی سعید احمد صاحب اجراڑوی رحمتہ اللہ علیہ (سابق مفتی مظاہر علوم سہارن پور) کے پاس شامی کا جو نسخہ تھا، اس میں جگہ جگہ حضرت مفتی صاحب نے لکھ رکھا تھا۔ یہ شامی کی ذاتی رائے ہے، میں اس سے متفق نہیں“۔
اس لیے شامی کا حوالہ دینے میں ، اکابر علمائے دیوبند کے فتاوی بھی مد نظر رکھنا اہم وضروری ہے۔
. اکابر یا معاصر کسی کے فتاوی اور تحریرات کے مطالعہ میں، ایک اہم اصول یہ ہے کہ آدمی کسی کی کوئی بات آنکھ بند کر کے نہ لے؛ بلکہ ہر بات قرآن وسنت اور فقہ کی روشنی میں سمجھنے کی بھی کوشش کرے؟
( محمود الاحکام۔ جلد دوم۔ صفحۃ : ۳۹۔ از : مولانا مفتی محمود حسن صاحب پرنام بٹی رحمۃ اللہ علیہ،خلیفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ ؒ۔ ناشر : مدرسہ دینیہ وصیۃ العلوم پرنام بٹ، ضلع ویلور ، تمل ناڈو، انڈیا)
/channel/ilmokitab
آج کی وفیات
عابد علی عابد 20 جنوری 1971
پروفیسر محمد مجیب 20 جنوری 1985
پروفیسرسید ضیاء الحسن ندوی 20 جنوری 2003
رضوان علوی، محمد، پروفیسر 20 جنوری 1996
رسوامیرٹھی (امیر حسن) 20 جنوری 1978
ساجد الرحمٰن صدیقی کاندھلوی 20 جنوری 2012
فضل احمد،مولانا حافظ 20 جنوری 1962
محمد عثمان بلوچ،مولوی 20 جنوری 1971
نسیم فاضلی، محمد 20 جنوری 1980
پروفیسر محمد رضوان علوی 20 جنوری 1996
خان عبد الغفار خان ۔ باشا خان 20 جنوری 1988
عابد لاہوری،سید عابد علی 20 جنوری 1971
اکمل جالندھری، رام پرتاب 20 جنوری 1974
مولانا سید احمد رضا بجنوری 20 جنوری 1998
شریف کنجاہیء 20 جنوری 2007
عاصی کرنالی 20 جنوری 2011
محرم علی چشتی 20 جنوری 1934
امام محمد بن ادریس الشافعی 20 جنوری 820
ملک خضر حیات ٹوانہ 20 جنوری 1975
مہدی بازرگان 20 جنوری 1995
/channel/ilmokitab
تبصرہ کتب: اعلام القرآن (مجموعہ مضامین)۔۔۔ - ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب: اعلام القرآن( مجموعہ مضامین )
تحقیق و تصنیف : مولانا ابوالجلال ندوی
تدوین و تہذہب نو: معظم جاوید بخاری
صفحات : : 460 قیمت : 1600 روپے
ناشر: محمد فہیم عالم
رابطہ
03004611953 :
پیشِ نظر کتاب دارالمصنفین اعظم گڑھ کے سابق رفیق اور ماہر لسانیات مولانا ابوالجلال مرحوم (1894ء۔1984ء) کی جدید اثری تحقیقات کی روشنی میں ’’اعلام القرآن‘‘ کے موضوع پر اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔
مولانا مرحوم کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ قدیم زبانوں عبرانی اور سنسکرت کے بھی ماہر تھے۔ عبرانی پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ اعلام القرآن میں عبرانی مآخذ کے براہِ راست حوالے اور جابجا عبرانی بائبل اور صحف ِبنی اسرائیل کے اقتباسات درج کیے ہیں۔ اہلِ کتاب کے مآخذ و مصادر پر مولانا پوری دستگاہ رکھتے تھے اور اہل ِکتاب کے مقدس اسفار براہِ راست پڑھتے اور سمجھتے تھے۔ مولانا مرحوم کئی علوم میں یکتا تھے، البتہ لسانیات، علم الاشتقاق اور تقابل ِادیان مولانا کی دلچسپی اور تحقیق کے خاص موضوعات تھے۔ مولانا کی تحقیقات، بالخصوص مضامین ِاعلام القرآن اور تنقیدی تبصرے ’باب التقریظ والانتقاد‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ) کے صفحات کی زینت بنے۔
1949ء میں سید سلیمان ندوی کی فرمائش پر مولانا مرحوم نے ’’اعلام القرآن‘‘ کے نام سے کتاب لکھنا شروع کی تھی جس کے وہ چند ہی مضامین لکھ پائے تھے کہ یہ سلسلہ رک گیا، اور بوجوہ یہ کتاب مکمل نہ ہوسکی۔ پیشِ نظر کتاب میں وہ تمام مضامین شامل ہیں جو مولانا نے اس سلسلے میں پون صدی پہلے لکھے تھے اور ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ) میں شائع ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر مضامین بھی شاملِ کتاب ہیں جو قرآنِ مجید کی تشریح و تفسیر پر مبنی ہیں۔ قرآن مجید کی تشریح و تفسیرکے حوالے سے مولانا مرحوم جمہور علماء سے مختلف رائے رکھتے تھے جس کا اظہار ان کے مقالات و مضامین میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ مضامین علمی و تحقیقی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور اپنی پہلی اشاعت ہی پر پاک و ہند کے نامور اہلِ علم ودانش سے خراجِ تحسین وصول کرچکے ہیں۔
قرآن مجید میں بیان کردہ انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات میں غیر معمولی اختصار پایا جاتا ہے، جسے بالعموم مفسرین اسرائیلی روایات سے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ مولانا قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کو بے سروپا دیومالائی اور مافوق الفطرت قصے کہانیوں کے بجائے عقلی دلائل اور جدید اثری تحقیقات کی روشنی میں دیکھتے تھے اور سابقہ طرزِ بیان سے اختلاف بھی رکھتے تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مختلف آیات ِ مبارکہ کی تفسیر میں تحریف شدہ اسرائیلی روایات و قصص کے تسلسل نے ان کی حقیقی افادیت کو اوجھل کردیا ہے۔
مولانا مرحوم پر جن جن اہلِ علم نے قلم اٹھایا، انھوں نے ہمیشہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ کوئی ان بکھرے ہوئے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کردے تاکہ قاری کو مختلف پرانے رسائل کی تلاش نہ کرنا پڑے جو اب کمیاب ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سعادت جناب معظم جاوید بخاری کے نصیب میں لکھی تھی۔ انھوں نے اپنی تلاش و جستجو سے مولانا مرحوم کے اس موضوع پر تقریباً تمام دستیاب مضامین کو مرتب کردیا ہے۔ علاوہ ازیں مولانا مرحوم کے نواسے جناب یحییٰ بن زکریا صدیقی کی معاونت سے مولانا کے چند غیر مطبوعہ مضامین بھی کتاب میں شامل کردیے ہیں۔ اس طرح اس موضوع پر مولانا کے مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین کا ایک عمدہ مجموعہ مرتب اور شائع ہوگیا ہے، جس کے لیے فاضل مرتب لائق ِ تحسین ہیں۔ بخاری صاحب اس سے قبل مولانا کے دیگر متفرق مضامین کو ’’جمع المتفرقات‘‘ کے عنوان سے مرتب اور شائع کرچکے ہیں، جس کا ذکر ان ہی صفحات (فرائیڈے اسپیشل، 28جولائی 2023ء) میں کیا جاچکا ہے۔
پیش نظر کتاب میں مولانا ابوالجلال ندوی کے درجِ ذیل مضامین شامل ہیں:
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ماشاء اللہ سے اور اچانک سے۔۔۔ - احمد حاطب صدیقی*
گزشتہ جمعے کو حروفِ ربط ’میں‘ اور ’کو‘ پر بات ہوئی تھی۔ بات ایسی تھی کہ پڑھتے ہی ہمارے ایک باتونی دوست آدھمکے۔ ہم اپنی فکرِ سخن میں غلطاں و پیچاں و حیراں و پریشاں تھے کہ کوئی موضوع نہیں مل رہا، کیاکریں؟ موصوف نے آتے ہی اپنی گفتگو کا ربط پچھلے کالم کے حروفِ ربط سے جوڑ دیا: ’’میاں! تم فقط دو حروف کو رو رہے ہو، یہاں ایک تیسرا حرفِ ربط بھی ہے جو آج کل شدید بے ربطی کا شکار ہے‘‘۔
جھنجھلا کر کہا: ’’تینوں حروف پر چار حرف۔ تمھیں اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں‘‘۔
سب بھول بھال کرپوچھنے لگے: ’’ارے ہاں! بھائی یہ بتاؤ کہ وہ چار حروف کون کون سے ہوتے ہیں جو لوگوں پر بھیجے جاتے ہیں؟‘‘
اُسی بیزار لہجے میں جواب دیا: ’’ل ع ن ت‘‘۔
ایک ایک کرکے اِن حروف کی گنتی کی۔ چار کا عدد پورا ہوگیا تو مطمئن ہوکر بولے:’’اب ایک قصہ سنو، بیزاری دور ہوجائے گی‘‘۔
چار و ناچار سننا پڑا اور واقعی بیزاری دور ہوگئی۔ اُن کے سنائے ہوئے قصے کا لُبِّ لُباب یہ تھا کہ ان کے عملے کا ایک نوبیاہتا نوجوان ، جس کی شادی کو فقط سال بھر ہوا تھا، ہفتے بھر سے غائب تھا۔ اُس کا غیاب جس روز حضوری میں تبدیل ہوا اور وہ نوجوان چمکتے چہرے کے ساتھ ان کے دفتر میں طلوع ہوا تو اِنھوں نے اُس کو ڈپٹ کر اس کا استقبال کیا اور پوچھا:’’میاں! ہفتے بھر سے کہاں غائب تھے؟‘‘
نوجوان نے پُر مسرت لہجے میں جواب دیا: ’’سر! بیگم بیمار ہیں۔ مختلف جگہوں سے مختلف ٹسٹ کروانے پڑے۔ کبھی اس اسپتال سے، کبھی اُس اسپتال سے، کبھی کسی لیبارٹری سے، کبھی کسی لیبارٹری سے۔ پورا ہفتہ بس اسی بھاگ دوڑ میں گزر گیا‘‘۔
ان کا ناریل چٹخ گیا: ’’بیگم بیمار ہیں اور تم دانت نکال رہے ہو۔ اتنی جلدی عاجز آگئے؟ دو دن ہوئے نہیں کہ نعلین در بغلین؟‘‘
لڑکا بوکھلا گیا: ’’سر!… وہ… وہ … ماشاء اللہ سے بیمار ہیں‘‘۔
خبر خوشی کی تھی مگر خفا ہوکر ایسے بھڑکے جیسے ان پر کوئی شدید صدمہ ٹوٹ پڑا ہو:
’’ماشاء اللہ سے؟… ماشاء اللہ سے؟…کیا مطلب؟… یوں کہو کہ ماشاء اللہ بیگم بیمار ہیں‘‘۔
نوجوان نے پھر گڑبڑا کر معذرت کی: ’’ معاف کیجیے سر! بس اچانک سے یہ جملہ نکل گیا‘‘۔
اب تو اور بھڑک اٹھے: ’’یک نہ شُد، دو شُد۔ ماشاء اللہ سے… اچانک سے… یہ تم نے کون سی اُردو ایجاد کی ہے؟‘‘
’’سر! ایجاد نہیں کی۔ میں نے ٹی وی سنا ہے‘‘۔
لڑکا ایسا حواس باختہ ہوا کہ جہاں ’سے‘ استعمال کرنے کا محل تھا، وہاں بھی مارے ڈر کے حذف کربیٹھا۔
صاحبو! ٹی وی سے آج کل ایسی ہی حواس باختہ اُردو سنائی دیتی ہے۔ مگر لڑکا بھی کیا کرے؟ ’سے‘ کے استعمال کی کوئی حد ہی نہیں۔ تاہم ’ماشاء اللہ‘ اور’ اچانک’ کے بعد ’سے‘ لگانا حد سے گزر جانا ہے۔ ہاں ’اللہ کی منشا سے‘کہہ لیجے اور ’اچانک سے‘ کی جگہ’ کھٹ سے‘۔ ڈاکٹر علم الدین غازی نے ’سے‘ کے استعمال پر مفصل مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون ’سے‘ ہم نے بھی استفادہ کیا ہے، جتنا ہم ’سے‘ ہوسکا۔
حرفِ جر یا حرفِ ربط ’سے‘ ایک تو ابتدا اور آغاز کے موقعے اور محل کی نشان دہی کے لیے آتا ہے۔’ہم کل سے کام شروع کریں گے‘۔ یا ’’اِلٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا‘‘۔ دوسرے ربط و تعلق کے لیے بھی ’سے‘ بولتے ہیں جیسا کہ خمارؔ بارہ بنکوی بولے:
یہ کہنا تھا اُن سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں
یا جس طرح ناسخؔ نے بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے واسطہ قائم کرلینے پر ’خوشی سے‘ اعلان کیا:
بیعت خدا سے مجھ کو ہے بے واسطہ نصیب
’دستِ خدا‘ ہے نام مرے دستگیر کا
علت یا سبب بتا نے کے لیے بھی ’سے‘ کا استعمال عام ہے۔جوشِ تعلیل میں کسی نامعلوم شاعر کو غلط فہمی یا شاید خوش فہمی ہو گئی تھی:
ڈر گئے ہیں مرے نالوں سے مؤذن ایسے
اُنگلیاں کان میں ہنگامِ اذاں رکھتے ہیں
سبب اور علت کے معنوں میں ’سے‘ کا استعمال دیکھنے کے لیے ابوظفر زینؔ مرحوم کا یہ فقرہ بھی دیکھ لیجے:
’’مہمان ہر طرح سے خوشی کا باعث ہوتے ہیں۔ کسی کے آنے سے خوشی ہوتی ہے اور کسی کے جانے سے‘‘۔
’ذریعے سے‘ یا ’مدد سے‘ کا اظہار کرنے کے لیے بھی فقط ’سے‘ استعمال ہوتا ہے۔ فون پر ہونے والا ایک مکالمہ سنیے: ’’کہاں سے بول رہے ہو؟ منہ سے بول رہا ہوں‘‘۔ ’زمین پر بکھرے ہوئے انگارے چمٹے سے اُٹھالو‘۔ ’ماموں ہوائی جہاز سے کراچی گئے ہیں‘۔ اور آرزو لکھنوی کو تجسس تھا کہ ’’ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر؟‘‘ علاوہ ازیں مفعول کی علامت کے طور پر بھی ’سے‘ لگایا جاتا ہے، مثلاً ’خالد سے کہا‘ یا ’حامد سے پوچھا‘۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کے پیش کردہ درجِ ذیل مکالمات میں ’مجنوں‘ اور ’تجھ‘ مفعول ہیں، لیلیٰ ماں فاعل:
کہا مجنوں سے، یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تُو اگر کر لے ایم اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقّت میں بن جاؤں تری ساس
احسان عارف صاحب کا مزید فرمانا ہے کہ "جہاں تک اصلاحی و ندوی علما میں مماثلت کی بات ہے تو وہ بالکل نہیں ہے۔ اصلاحی علما مولانا فراہی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ مولانا فراہی نے فہم تدبر قرآن کے جو اصول فراہم کیے ہیں، وہ ان اصولوں کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی روشنی میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں ۔ مولانا اصلاحی نے بھی اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے۔ علامہ خالد مسعود نے بھی اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے ۔ مدرسہ الاصلاح کے اہل علم حضرات کے ہاں بھی بہت ساری آیتوں میں مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی رائے سے اتفاق نہیں پایا جاتا۔ یہ سب باتیں فکر فراہی کا حصہ ہیں "۔
احسان عارف صاحب کا یہ کہنا کہ" مولانا اصلاحی نے بھی اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے۔ علامہ خالد مسعود نے بھی اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے ۔ مدرسہ الاصلاح کے اہل علم حضرات کے ہاں بھی بہت ساری آیتوں میں مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی رائے سے اتفاق نہیں پایا جاتا۔ یہ سب باتیں فکر فراہی کا حصہ ہیں"۔ اس سلسلے میں ہم مزید اضافہ کریں گے کہ مولانا اصلاحی نے ممکن ہے اپنے استاد سے اختلاف رائے کیا ہو، لیکن انہوں نے اپنی بعض تحریروں اور دروس میں خیر القرون کے ہمارے بعض اسلاف کا استہزا کیا ہے۔ اس بات کو بھی اپنی شناخت میں شامل کریں، اور بتائیں کہ کیا یہ آپ کے لئے باعث فخر ہوسکتی ہے؟
فراہی مکتب فکر کا جماعت اسلامی سے ابتداہی سے گہرا ربط رہا ہے، مولانا مودودیؒ نے مولوی تک تعلیم مدرسہ فوقانیہ شرقیہ اورنگ آباد میں حاصل کی تھی، اس کے بعد دارالعلوم (حیدرآباد) میں داخلہ لیا تھا، جس کے پرنسپل مولانا حمید الدین فراہی تھے، قیام جماعت سے پہلے پٹھانکوٹ سے آپ کے رفقاء میں مولانا صدر الدین اصلاحی تھے، جو ماہنامہ ترجمان القرآن کی مجلس ادارت میں شامل تھے، ان کے علاوہ مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا اختر احسن اصلاحی تھے، مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی(امیر جماعت) بھی الاصلاح می تدریس سے وابستہ تھے۔
سنہ ۱۹۶۰ کی دہائی میں مولانا بدر الدین اصلاحی کے دور نظامت میں غالبا جماعت کے نظم سے وابستگی کے مسئلہ پر شاید اختلافات ہوئے تھے، اور جماعت نے اپنا خود ایک دارالعلوم جامعۃ الفلاح کے نام سے قائم کیا تھا، جس میں الاصلاح کے کئی سارے تجربہ کار اساتذہ منسلک ہوئے، اس طرح جامعۃ الفلاح بھی فکر فراہی کا ایک تسلسل بن گیا، ان دونوں جامعات کے فارغین نے فکر فراہی اور قرآن سے اس کی وابستگی کو زندہ رکھنے کی قابل قدر کوششیں کی ہیں، مولانا بدر الدین اصلاحی نے تقسیم ہند کے بعد مولانا حمید الدین فراہی کے باقی ماندہ مسودات کی حفاظت اور اس کی تدوین وترتیب پر توجہ دی، اس طرح علی گڑھ سے مجلہ علوم قرآن اور تحقیقات اسلامی جاری ہوئے، جو غیر علانیہ طور پر فکر فراہی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔فکر فراہی کے موضوع پر یہاں سیمینار بھی منعقد ہوچکے ہیں۔
یہ بات ہمارے کالم نگاروں اور میڈیا سے وابستہ افراد کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے کہ ہماری دینی جامعات اور دارالعلوموں میں مصنفین سے زیادہ اہمیت اور عزت مدرسین کی ہے، اور مدرسین ہی سینہ بہ سینہ علوم کو منتقل کرتے ہیں، لہذا جب مدارس کی علمی ترقی پر بات ہو تو تصنیف کی ساتھ ساتھ تدریسی معیار کو بھی سامنے رکھیں، اور یہ فیصلہ دور بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے اداروں میں جاکر قریب سے دیکھنا ہوگا۔
2024-01-18
/channel/ilmokitab