علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت میں باقی رہنے والے مرکزی تعلیمی ادارے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو اور مدرسۃ الاصلاح وغیرہ نے اپنے منہج روایات اور مرجعیت کو حسب سابق نہ صرف باقی رکھا ہے بلکہ ان کا دائرہ اثر کئی گنا بڑھ گیا ہے، ہوسکتا ہے کہ وسعت کار کی وجہ سے ان کا وہ معیار نہ رہا ہو جو ان کا طرہ امتیاز تھا، لیکن ان اداروں کے مقام اور منہج میں فرق نہیں آیا ہے، اکابر نے جن بنیادوں پر انہیں قائم کیا تھا انہی بنیادوں پر وہ قائم ہیں، عمارت کچھ کمزور ہوسکتی ہے، لیکن کبھی محسوس ہوتا ہے کہ پڑوس میں ایک بڑا حلقہ جو ان اداروں کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے وہ شاہ سے زیادہ شاہ پرستی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جن لوگوں نے بھارت میں قائم ان اداروں کو قریب سے دیکھا ہے، یا ان کے اکابر کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا ہے، وہ اپنی شناخت کا ہر جگہ اتنا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے انہیں نہیں پائیں گے، جتنا پڑوس کے بعض عقیدت مند پائے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بی بی سی پر دارالعلوم دیوبند میں رواداری کے موضوع پر ایک رپورٹ آئی تھی۔ مکمل اتفاق نہ بھی ہو تواس کا پڑھنا فائدے سے خالی نہیں ہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کا جب سے قیام عمل میں آیا ہے قرآن فہمی اس کا ایک امتیاز رہا ہے، یہاں پر چوٹی کے علمائے تفسیر نے درس دیا ہے، ان میں مولانا امیر علی(مصنف تفسیر مواہب الرحمن)، شیخ التفسیر مولانا محمد اویس نگرامی ندوی، مولانا حلیم عطا سلونوی، اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ شامل ہیں، ندوے کی ابتدا سے کوشش رہی ہے کہ یہاں کے طلبہ کی دوران تعلیم ایک مرتبہ ترجمہ قرآن براہ راست انہیں سکھایا جائے۔
مولانا فراہی کی اصل شناخت ان کا نظریہ نظم قرآن ہے، اور کوئی شک نہیں کہ مولانا اپنے دور کے بہت بڑے مفسر قرآن تھے، ان کی زندگی قرآن میں تدبر کرتے ہوئے گذری تھی، لیکن آپ کو اپنی زندگی میں اپنے نظرئے کو منظم انداز سے ترتیب دینے کا موقعہ نہیں ملا، ان کی زیادہ تر کتابیں نامکمل اور مسودے کی شکل میں ہیں، شاید اس میں خدا کی کوئی مصلحت تھی کہ آپ کسی ایک پارے کی بھی تفسیر مکمل نہ کرسکے، جمہرۃ البلاغہ اور مفردات القرآن جسی آپ کی فکر کی نمائندہ کتابیں بھی نامکمل ہیں، مولانا کے دروس کو بھی اس طرح محفوظ نہیں کیا جاسکا جیسے علامہ انور شاہ کشمیری وغیرہ کی تقریر بخاری کو محفوظ کیا گیا ہے، مولانا امین احسن اصلاحی لکھنے پڑھنے والے اور جلسہ جلوس کے آدمی تھے، تقسیم ہند سے پہلے جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے اور ان سے مدرسے کے ماحول میں درس وتدریس چھوٹ گیا، اس منصب کو مولانا اختر حسن اصلاحیؒ نے سنبھالا، اور سینہ بہ سینہ مولانا فراہی کے علم کی روشنی پھیلاتے رہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، اس کے بالمقابل مولانا امین احسن اصلاحی نے اس طرح درس وتدریس کے منصب کو نہیں سنبھالا، ایک طویل عرصہ تک انتشار کا شکار رہے، اور آخری عمر میں خالد مسعود صاحب کی کوششوں سے درس وتدریس کے منصب کو سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن ایک عالم دین جسے دسیوں سال تک کسی مدرسے میں درس وتدریس کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہو، رٹائرمنٹ کی عمر میں تدریس کا از سر نو سلسلہ شروع کرے تو اس کا حق کیسے ادا کرسکتا ہے، اس پر ہمارے کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔کوئی ربع صدی پیشتر خالد مسعود صاحب کے تدبر کے ذریعہ جب معلوم ہوا مولانا اصلاحی کے دروس کی ریکارڈنگ ہورہی ہے تو ہم نے مولانا کے ویڈیو اور کیسٹوں کی حصولیابی کے لئے آپ سے رابطہ کیا تو جواب آیا کہ مولانا اصلاحی ویڈیو کو حرام سمجھتے ہیں، اور ان کے کیسٹوں کی فراہمی سے انہوں نے معذرت کردی، لیکن ہماری کوششیں جاری رہیں، ہمارے عزیز مولانا محمد انصارخطیب ندوی صاحب بحرین گئے ہوئے تھے تو معلوم ہوا کہ مولانا کے دروس کے کیسٹ وہاں پائے جاتے ہیں، تو ہم نے وہاں سے دروس قرآن کے (۷۵) کیسٹ حاصل کئے، یہ کیسٹ کتب خانہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں اب بھی محفوظ ہیں، ان کی ریکارڈنگ بہت صاف ہے، انہیں سن کر اندازہ ہوا کہ اللہ تعالی کو مولانا اصلاحی کی عزت اور ان کے اچھے کاموں کو باقی رکھنا تھا، مولانا خالد مسعود صاحب نے ان کیسٹوں کی اشاعت نہ ہونے کے سلسلے میں جو فیصلہ کیا تھا، یہ ایک دانا کی دوستی تھی۔ مولانا اصلاحی کے افادات کی ترتیب میں خالد مسعود مرحوم کی خدمات کا وہی مقام ہے جو شیخ محمد رشید رضا مصری نے شیخ محمد عبدہ کی تفسیر المنار کی ترتیب میں کیا ہے، شیخ کی تفسیر عم دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اسے رشید رضا ایڈیٹ نہ کرتے تو یہ بھی سر سید احمد خان کی تفسیر کا عربی چربہ بن جاتا۔
علم وکتاب ٹیلگرام چینل سے زیادہ سے زیادہ احباب کو متعارف کرانے کے لئے ہماری مندرجہ ذیل لنک زیادہ سے زیادہ فورورڈ کریں۔
Читать полностью…مختلف شخصیات اور تحریکات سے فکری اور جذباتی وابستگی، اور ان سے حاصل شدہ تاثر نے ،خلافت عثمانیہ اور مصطفی اتاترک کے سلسلے میں لوگوں کو جذباتی بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے ایک عظیم اسلامی سلطنت کے زوال اور اس کے نتیجے میں امت مسلمہ کے تنزل کے اسباب کو جان کر ان سے بچنا مشکل ہوگیا ہے۔کیونکہ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب واقعات کا منصفانہ تجزیہ ہو۔
اتاترک کے سلسلے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے ایک الرجل الصنم ہے، جسے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ایک اسلامی تحریک کے حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی تھی،اس کے سر ورق پر مصنف کے بارے میں ایک سابق ترکی فوجی آفیسر لکھا ہوا تھا۔
اس کتاب کے مصنف کے سلسلے میں اب جو تحقیقات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اسے مشہور ترکی ادیب نجیب فاضل کیساکورک نے عثمانی ترکی زبان میں تحریر کرکے ۱۹۷۲ء میں اپنے عرقی دوست ڈاکٹر محسن عبد الحمید کو دیا تھا، جنہوں نے اسے ترکمان مصنف اورھان محمد علی کو دیا، جنہوں نے اس کا عربی ترجمہ کرکے عام کیا۔ اور یہ کہ الرجل الصنم کے مصنف نے اس کتاب کی معلومات میں مندرجہ ذیل مراجع سے استفادہ کیا ہے۔
مارکسی مصنف شوکت کی کتاب (Atatürk Nutuk) اور (Atatürk Nutuk ) کمال اتاترک نے اس مصنف کو لینینی افکار وخیالات کی وجہ سے دس سال کی قید دی تھی، پھر آزاد کیا تھا۔اس کے علاوہ جن کتابوں سے اس میں استفادہ کیا گیا وہ اتاترک کی ثنا خوانی میں لکھی گئی ہیں، ان میں ایک ڈاکٹر علی رضا کی ہے جو کمال اتاترک کے جانشین عصمت انونو کے زمانے میں حکومت میں دوسری اہم شخصیت تھے، پھر آپسی اختلاف کے بعد ترکی سے بھاگ کر (Hayat ve hatıram) لکھی تھی۔
ترکی میں صرف کمال اتاترک کی تعریف میں کوئی کتاب چھپ سکتی ہے، اتاترک کی عظمت ومحبت آج بھی ترکوں کے دلوں میں باقی ہے، ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ترکی میں اسلامی تحریک کے بانی انجینیر نجم الدین اربکان کی چند ایک تقاریر سننے کو موقعہ ملا تھا ، تنقید کرتے ہوئے وہ اتاترک کا نام نہیں لیتے تھے، بلکہ جس طرح پڑوس میں آج کا محکمہ زراعت کی اصطلاح رائج ہے، اسی طرح اتاترک کے بجائے وہ دوسرا نام لیتے تھے، جسے سامع سمجھ لیتا تھا، خود اردوگان اپنے پارٹی کے غلبہ کے باوجود اتاترک کی تعریف اور اس کی قبر پر پھول چڑھا سکتے ہیں۔
اس کتاب کا تعارف ترکی میں پہلی بار ترکی اسلامی مصنف اور اتاترک کے شدید نقاد قدیر اوغلو نے اپنی تحریروں میں کیا تھا، اس کے باوجود وہ اس کتاب کے ناقد تھے، اس کا سوقیانہ انداز انہیں پسند نہیں تھا، اپنے متبعین کو اس کتاب کی سب باتیں قبول کرنے سے وہ روکتے تھے۔
عبد المتین منیری
/channel/ilmokitab
’بالمشافہ‘:ایک تعارف
معصوم مرادآبادی
’بالمشافہ‘ ادبی انٹرویوزکامجموعہ ہے، جس میں ہمارے عہدکے شہرہ آفاق ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں سے مکالمہ شامل ہے۔پہلے پہل اس کی اشاعت 1996 میں عمل میں آئی تھی۔ کتاب عرصے سے نایاب تھی اور مجھ پر اسے نئے اضافوں کے ساتھ دوبارہ شائع کرنے کا دباؤ تھا۔مگر کاروبار زندگی نے اس کی مہلت ہی نہیں دی کہ میں ایسا کرپاتا۔کام کی بہتات اور وقت کی قلت حسن نعیم کے اس شعر کی مانند میرا تعاقب کرتی رہی ہے۔
کون مجھ سے پوچھتا ہے روز اتنے پیار سے
کام کتنا ہوچکا ہے، وقت کتنا رہ گیا
ہم صحافیوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ ہروقت ہاتھ میں کوئی نہ کام رہتاہے۔ادھر جب سے میں نے سرکردہ شخصیات اور کتابوں پر لکھنا شروع کیا ہے، تب سے صورتحال پیچیدہ ہوگئی ہے۔کئی ایسے لوگوں کی ناراضگی کا نشانہ بنا ہوں، جن کی توقعات پر میں کھرا نہیں اترسکا۔باوجود کوشش کے ایسے کئی کام چھوٹ جاتے ہیں، جنھیں میں اوّل وقت میں پورا کرنا چاہتا ہوں۔ ان ہی اہم کاموں میں ’بالمشافہ‘ کی نئی اشاعت کاکام بھی تھا، جوبالآخر اب پورا ہوا ہے۔کتاب بائنڈنگ میں ہے اور جلد ہی آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔یہ میری پہلی کتاب تھی اور اس سے مجھے وہی انسیت ہے جو پہلی اولاد سے ہوتی ہے۔مکتبہ جامعہ کے منیجراور میرے کرم فرماشاہد علی خاں مرحوم ایک بارمیری ایک نئی کتاب کی مبارکباد دیتے ہوئے کہاتھا ”کتاب اولاد کی طرح ہوتی ہے۔“
اردوصحافت سے اپنی چالیس سالہ وابستگی کے دوران سیاست دانوں کے انٹرویولینا میری ہابی تھی۔میں نے کم وبیش ایک ہزار لوگوں کے انٹرویو لیے۔اسی دوران خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے عہد کے نمائندہ ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں سے بھی مکالمہ کیا جائے۔ یہ نوّے کی دہائی کا وہ دور تھا، جب دہلی میں علی صدیقی نے عالمی اردو کانفرنسیں شروع کی تھیں۔اس دوران عالمی سطح کے اردو ادیبوں اور شاعروں کا دہلی میں میلہ سا لگا رہتاتھا۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا اور ان کے انٹرویوز لینے شروع کردئیے۔ شاعروں میں اخترالایمان،کیف بھوپالی، حبیب جالب،علی سردار جعفری، احمد فراز،افتخار عارف، مظفر وارثی، بیکل اتساہی، ملک زادہ منظوراحمد،بشیر بدر،جاوید اختر، عطاء الحق قاسمی، سریندر شرما اور صلاح الدیں پرویزکے انٹرویوزاس کتاب میں شامل ہیں،جبکہ فکشن نگاروں میں جوگندر پال اوربھگوان گڈوانی کے علاوہ بھیشم ساہنی اور حبیب تنویروغیرہ بھی ہیں۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ کے تعاون سے شائع ہوا تھا، جس نے اس کتاب میں شامل صلاح الدین پرویز کے انٹرویو کو سینسر کردیا تھا، لیکن اب نئے اڈیشن میں یہ انٹرویو جوں کا توں شامل کردیا گیاہے۔اس میں جو اضافے کئے گئے ہیں، ان میں صلاح الدیں پرویز کے علاوہ ملک زادہ منظوراحمد، اورعطاء الحق قاسمی کے انٹرویوز ہیں۔اس کتاب میں اردو سافٹ وئیر کے موجداحمد مرزا جمیل کا بھی انٹرویو ہے جو میں نے کراچی جاکر لیا تھااور اس انٹرویو کے ذریعہ ہی ہندوستان میں لوگ کمپیوٹر کی کتابت سے واقف ہوئے تھے۔ ایک خاص مکالمہ فرقہ واریت کے مسئلہ پر ہے جس میں بھیشم ساہنی، جاوید اختر،حبیب تنویر اور سریندر شرما جیسے لوگ شامل ہیں۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ تلاش بسیار کے بعد بھی پاکستانی شاعر قتیل شفائی کا انٹرویو ریکارڈ میں نہیں مل سکا، البتہ اس انٹرویو پر مظفر وارثی کا دھواں دھار ردعمل کتاب میں شامل ہے۔
اس کتاب کا دیباچہ پروفیسر شمیم حنفی نے لکھا تھاجبکہ اس پر سیرحاصل تبصرے کرنے والوں میں ڈاکٹر خاور ہاشمی، جی ڈی چندن،ڈاکٹر رضوان احمد،حقانی القاسمی،رحمت اللہ فاروقی، پروفیسر سراج اجملی اور جعفرعباس جیسے معتبر نام شامل ہیں۔یہ تبصرے بھی اس کتاب میں شامل کردئیے گئے ہیں۔
انٹرویوز کی کتابیں اردو میں شاذونادر ہی شائع ہوتی ہیں۔ سرحد پار یہ کام ڈاکٹر طاہر مسعود نے بڑی مہارت اور خوش اسلوبی سے انجام دیاہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے مخاطب سے وہ باتیں کہلواؤں جو ادب کے عام قاری کے ذہن میں پیدا ہوتی ہیں۔اپنی اس کوشش میں مجھے کتنی کامیابی ملی ہے، اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔میں اپنی کاوشوں کے بارے میں کبھی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہا۔ جو کچھ لکھتا پڑھتا ہوں، وہ بے کم وکاست آپ کے حوالے کردیتا ہوں، سو یہ کتاب بھی پچھلی تمام کتابوں کی طرح آپ کے سپرد ہے۔ اس سلسلہ میں برادرعزیز اویس سنبھلی کا شکریہ مجھ پر واجب ہے، جنھوں نے نہ صرف اس کتاب کی اشاعت نو پر مسلسل اصرار کیا بلکہ طباعت کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر لے لی۔ خدا انھیں ہمیشہ شادوآباد رکھے۔یہ کتاب ان ہی کے ادارے نعمانی کئیر فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لئے اس واٹس ایپ پر رابطہ کرسکتے ہیں۔9810780563
خاکہ : قاضی عبد الغفار(وفات ۱۷ جنوری ۱۹۵۶ء) تحریر: فاطمہ عالم علی
Читать полностью…درد کو اعتبار دل کم ہے
کلام وآواز: نظر امرہوی
وفات (۱۷ جنوری ۲۰۱۴ )
لنک
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=dard-ko-itibar-dil, Dard ko Itibar Dil
شاعر کی آواز میں مزید کلام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?q=nazar&c=&s=nazar-amrohvi&t=
آج کی وفیات
/channel/ilmokitab
حسین امام ،سید 16 جنوری 1985
طفیل علی عبدالرحمٰن، جسٹس 16 جنوری 1975
عزت لکھنوی (مرزاآغاعزت الزماں) 16 جنوری 1981
محسن بھوپالی (عبدالرحمٰن ) 16 جنوری 2007
محمد اکبر خان رنگروٹ، میجر جنرل 16 جنوری 1984
ہاتف عارفی (عبدالحمید خان) 16 جنوری 2006
سعید انصاری 16 جنوری 1984
حاجی محمد عاصم مراد آباد 16 جنوری 2010
مولانا عبدالحفیظ مکی 16 جنوری 2017
مولاناسید محمد واضح رشید ندوی 16 جنوری 2019
طالب خوندمیری 16 جنوری 2011
سچی باتیں (۱۴؍اکتوبر ۱۹۳۲ء)
تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
عن عمر بن الخطاب أن رجلًا علیٰ عہد النبی ﷺ کان اسمہ عبد اللہ و کان یلقب حمارًا وکان یضحک رسول اللہﷺ وکان رسول اللہﷺ قد جلدہ‘ فی الشراب فأتی بہ یومًا فأمر بہ فجلد فقال رجل من القوم اللہم ألعنہ بأکثر ما یؤتی بہ فقال النبیﷺ: لا تلعنوا فواللہ ما علمت الا أنہ یحب اللہ ورسولہ۔ (صحیح بخاری، کتاب الحدود)
حضرت عمرؓ سے روایت ہے ، کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں ایک صاحب عبد اللہ نامے تھے، جنھیں لوگ حمار کہا کرتے تھے، اور وہ حضورﷺ کو ہنسایا کرتے تھے۔ حضورﷺ انھیں شراب نوشی کی علت میں کوڑوں کی سزائیں دے چکے تھے ۔ اس کے بعد ایک روز وہ پھر حضورﷺ کے سامنے اسی جرم میں پیش ہوئے، اُس رو ز بھی حضورﷺ کے حکم سے اُن کو کوڑے پڑے۔ اس پر ایک شخص بول اُٹھے، کہ خدا کی لعنت ہو اس پر، کتنی دفعہ شراب پینے پر پٹ چکاہے ۔ حضورﷺ نے یہ سُن کر ارشاد فرمایا، کہ نہیں، اِس پر لعنت نہ کرو، خدا گواہ ہے، کہ میں نے تواِسے اللہ اور رسول سے محبت رکھنے والا ہی پایاہے۔
یہ روایت، حدیث کی معتبر ترین کتاب، بخاری کی ہے۔ دوسری روایات بھی اسی مفہوم کی اس کی تائید میں ملتی ہیں۔ اب ذرا غور ہو۔ شراب کی حرمت کوئی اختلافی مسئلہ نہیں۔ اتنا کھلا ہوا اور سنگین جُرم، اور وہ بھی پہلی دفعہ نہیں، دوسری دفعہ کا بھی نہیں، باربار وہی جرم۔ ہلکا سا ہلکا جُرم بھی اصرار وتکرار کے بعد سخت ہوجاتاہے، چہ جائیکہ وہ جرم جو پہلے ہی سے اتنا شدید تھا ۔ ایک صحابی طبعًا غصہ میں آجاتے ہیں، اور سزائے شرعی کے علاوہ مجرم پر لعنت بھی کر بیٹھتے ہیں، حضورؐ معًا اس سے روکتے ہیں، لعنت کا مستحق ایسا کھلاہوا اور عادی مجرم بھی نہیں! اتنا ہی نہیں، بلکہ حضورؐ علانیہ وبرملا، اس کی محبتِ الٰہی ومحبتِ رسول کی بھی شہادت دیتے ہیں! اللہ اکبر! اس وسعتِ قلب کا کوئی ٹھکاناہے!……امام بخاری ؒ اپنی صحیح ؔکی اسی کتاب الحدود میں زری ہی سا آگے بڑھ کر ایک اور باب باندھتے ہیں، جس کا عنوان رکھتے ہیں، لعن السارق اذا لم یُسمّ۔ چور پر لعنت، جبکہ اس کانام نہ لیاجائے۔ چوری کا جُرم، جس درجہ کا ہے، ظاہر ہے، اس پر بھی چور کا نام لے کر، اُس پر لعنت کی اجازت نہیں، لعنت کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب اُس کا نام مخفی رکھاجائے،محض ایک مجمل وغیرمعیّن صورت میں!
آپ کے رسولؐ کا یہ ارشاد ، ایسے جرائم کے مجرموں سے متعلق تھا، جو بالکل واضح، صریح اور منصوص ہیں، جن میں اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اب ہمارا اور آپ کا طرز عمل، اپنے اُن ’’مجرموں‘‘ کے باب میں کیاہے، جن کا جرم صرف یہ ہے، کہ اُن کا اجتہاد ہم سے مختلف ، اُن کی بصیرت ہم سے الگ ہے؟ اگر ہم ’’طبقۂ احرار‘‘ میں داخل ہیں، ’’نیشنلسٹ‘‘ ہیں، کانگرس میں شریک ہیں، تو ہروہ مسلمان ، جو کانگرس کا مخالف ہے، ٹوڈی ہے، قوم فروش ہے، گورنمنٹ کا پِٹھوہے، اُس کی نماز، اور اُس کا روزہ، سب اُس کے عبث ولاحاصل ہیں، وہ قطعًا وحتمًا انگریزوں کا رشوت خوارہے، اور کوئی توجیہ، کوئی تاویل، اُس کے مخلص اور نیک نیت ہونے کے حق میں ہوہی نہیں سکتی! اگر ہم کانگرس کے مخالف ہیں، مسلم کانفرنس کے ہمنوا ہیں، تحفظ حقوق مسلمین کے دعویدار ہیں، تو ہر وہ مسلمان ، جو کانگرس کا کسی حیثیت سے بھی ہمدرد وہواخواہ ہے، جو کھدّر کی ٹوپی سرپر پہنتاہے، وہ قطعًا اور یقینا ہندوپرست ہے، فرقۂ گاندھوی میں شامل ہے، مشرکوں کا دوست وشریک ہے، کوئی گفتگو اس کے حُسن نیت اور اخلاص مندی کے باب میں سُنی ہی نہیں جاسکتی!
https://bhatkallys.com/articles/?author=abdul-majid-daryabadi
ہر باب کے اندر بیسیوں ذیلی موضوعات بھی درج کیے گئے، جس کی مثال یہ ہے کہ پہلے باب قرآن و علومِ قرآن میں اعجاز القرآن، وحی و نزولِ قرآن، تدوین و کتابت قرآن، اُصولِ تفسیر، قرآن کے حقوق، قرآن اور سائنس، قرآن اور دیگر سماوی کتب، اسماء القرآن، قرآن اور مستشرقین، فہم قرآن، علوم قراء ات، قصص القرآن، ارض القرآن، مشکلات القرآن، نسخ و منسوخ، نظمِ قرآن وغیرہ۔ …… مزید برآں تعارف تفسیر، تراجم قرآن کے ضمن میں کئی ذیلی موضوعات بھی ملیں گے جن میں صرف تعارف تفسیر کے حصے میں 140تفاسیر کے بارے میں لکھے گئے مقالات سے آگاہی ملتی ہے۔اس طرح تمام ابواب میں بیسیوں ذیلی موضوعات کے تحت مقالات کو احسن انداز میں مرتب کیا گیا ہے، جس سے کوئی بھی محقق یا طالب علم قدیم تحقیق سے آگاہ ہوتے ہوئے اپنے لئے نئے موضوعات کا تعین کرنے میں مدد لے سکتا ہے۔
تحقیقی دنیا میں یہ ایک علمی شاہکار ہے۔ بنیادی ابواب بندی کے بعد ذیلی موضوعات میں پیش کیے گئے ان مقالات کی جامع فہرست طلبا، محققین اور اساتذہ کرام کے لئے ایک نعمت الٰہی ہے۔ کتاب کے آخر میں مقالہ جات کے نگرانوں کا اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ بعض اندراجات میں معلومات نامکمل نظرآتی ہیں، آئندہ ایڈیشن میں اس کی تلافی کی جاسکتی ہے۔ زیر نظر کتاب جو 1630 صفحات پر لمبائی کے رُخ (Land Scap) پر تین جلدوں میں آرٹ پیپر پر دو رنگہ شائع کی گئی ہے، لیکن لمبوتری، دو رنگہ اور آرٹ پیپر پر شائع کرنے کی وجہ سے نہ صرف کتاب کی ہیئت متاثر ہوئی، بلکہ بہت زیادہ مہنگی ہونے کی وجہ سے طلبا و محققین کی پہنچ سے بھی دور ہوگئی ہے۔ کتاب کے آغاز میں اشاعتی ضابطہ اور سن وغیرہ بھی نہیں لکھا گیا۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑی علمی کاوش ہے، جس کے لئے پراجیکٹ کمیٹی اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں۔ /channel/ilmokitab
صاحب زادہ محمد امانت مدظلہ العالی کی سربراہی میں ادارۂ فکر جدید ایک بہترین کاوش کو پیش کررہا ہے، باقی تین جلدیں بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اردو میں تفسیر کے قارئین کے لیے یہ ایک بڑا تحفہ ہے۔ امید ہے کہ اردو ترجمہ میسر ہونے کی وجہ سے اب نہ صرف پاکستان بلکہ اردو جاننے والی ساری دنیا میں اس کاوش کو سراہا جائے
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
1۔ سیاسی بنیادوں پر معتوب ادب، 2۔ مذہبی بنیادوں پر معتوب ادب، 3۔ جنسی بنیادوں پر معتوب ادب،4۔ سماجی بنیادوں پر معتوب ادب، 5۔ چند اور معتو ب کتابیں، 6۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والی کچھ معتوب کتابیں
ان معتوب کتابوں میں جارج اورویل کی ’’اینیمل فارم‘‘، ایڈولف ہٹلر کی ’’میری جدوجہد‘‘، کرٹ وونے گٹ جونیئر کی ’’سلاٹر ہائوس فائیو‘‘، ٹامس پین کی ’’ایج آف دی ریزن‘‘، ڈپٹی نذیر احمد کی ’’امہات الامہ‘‘، بروک کول کی ’’بھیڑ بکریاں‘‘، جون ہووارڈ گریفن کی ’’مجھ جیسا سیاہ فام‘‘، چارلس بودلیئر کی ’’بدی کے پھول‘‘، نواب حکیم مرزا شوق لکھنوی کی ’’مثنوی زہرِ عشق‘‘، منشی پریم چند کی ’’سوزِ وطن‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
کتاب کا انتساب بجا طور پر پاکستان کے نامور صحافی، مصنف اور آزادیِ صحافت کے علَم بردار ضمیر نیازی مرحوم (م:2004ء) کے نام کیا گیا ہے، جو دنیا بھر میں سنسر کا نشانہ بننے والی کتابوں کی روداد”Books in Chains, Libraries in Flames”کے نام سے لکھنے کے خواہش مند تھے، مگر زندگی نے انھیں مہلت نہیں دی۔
اردو زبان میں اس عمدہ اور منفرد کاوش پر فاضل مترجم، مدون اور مصنف لائق ِ تحسین ہیں۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
انشاجی اب کوچ کرو
کلام وآواز: ابن انشا
اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=insha-ji-ab-kuch-karo, Insha Ji Ab Kuch Karo
شاعر کی آواز میں مزید کلام
https://audio.bhatkallys.com/speakers/ibn-insha/
آبروۓ سائنس و ادب پروفیسر شمیم جیراج پوری کی رحلت
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ علم الحیوانیات (Zoology) کے سابق صدر ، فیکلٹی آف لائف سائنس کے سابق ڈین، زولوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ڈائریکٹر اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی( قیام ١٩٩٧) کے اولین شیخ الجامعہ پروفیسر شمیم جیراج پوری 82 سال کی عمر میں آج بتاریخ 10 جنوری 2024ء کو دہلی میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے _ انا للہ وانا الیہ راجعون
مؤرخ، مفسر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں اسلامیات کے سابق استاذ مولانا اسلم جیراج پوری (1882-1955) کے حفید پروفیسر شمیم جیراج پوری کی ولادت اعظم گڑھ کے معروف موضع جیراج پور کے ایک متوسط زمین دار خانوادے میں ڈاکٹر معظم صاحب جامعی ( متوفی 1993 ) کے یہاں 1942ء میں ہوئ تھی_ علامہ شبلی کے شاگرد اور دار المصنفین کے بانیوں میں شامل مولانا عبد السلام ندوی (1883_1955) ان کے قریبی رشتے کے نانا تھے _ اعظم گڑھ میں اسکول کے زمانہ میں ہی کہانیاں لکھنے لگے تھے جو قومی آواز لکھنؤ ، پیام تعلیم اور کھلونا وغیرہ میں شائع ہوئیں _ شمیم جیراج پوری کی اہم اردو تصنیفات میں ابھرتے نقوش(١٩٩٩)، یاد مہرباں و رفتگاں(٢٠١٢) ، اور کچھ یادیں کچھ باتیں(٢٠٠٢) قابلِ ذِکر ہیں _ مؤخر الذکر تصنیف کا مقدمہ سابق وزیراعظم آنجہانی اندر کمار گجرال نے لکھا ہے _ "ابھرتے نقوش" دراصل بطور شیخ الجامعہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کی ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ اور تجربات و مشاہدات پر مبنی تاریخی روداد ہے _
شمیم صاحب نے 1964ء میں پی ایچ ڈی مکمل کی تھی اور اسی وقت بحیثیت لکچرر تقرری ہوگئ تھی _ علی گڑھ
میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران 1957 سے 1961 تک موریسن کورٹ ہاسٹل میں مقیم رہے _ شبلی کالج ، اعظم گڑھ میں اردو کے استاد ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی مرحوم اور ڈاکٹر عقیل الرحمان مرحوم وغیرہ ان کے ماموں زاد بھائی تھے _
استاذ گرامی قدر پروفیسر ابو سفیان اصلاحی نے جون ٢٠١٣ء میں تہذیب الاخلاق کے مشاہیر علی گڑھ نمبر میں شمیم جیراج پوری کی حیات وخدمات کا جامع تعارف کرایا ہے _
علی گڑھ میں فیکلٹی آف لائف سائنس کے ڈین پروفیسر عرفان احمد نے شمیم جیراج پوری کی حیات وخدمات پر مشتمل Romance of Research نامی کتاب تقریباً 20 برس قبل مرتب کی تھی ، مگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا میں ان کی متنوع علمی خدمات ، سائنسی تحقیقات اور تعلیمی کارناموں کا تذکرہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا _ یہاں قابل غور پہلو یہ ہے کہ اب ایسی علمی شخصیات کا نعم البدل ہمیں کیوں نظر نہیں آتا ؟
اللہ پاک پروفیسر شمیم جیراج پوری کی خدمات ، حسنات اور اعمال صالحہ کو شرف قبولیت بخشیں اور خطاؤں کو معاف فرمائیں _ آمین
(نعمان بدر, ریسرچ اسکالر شعبہ عربی , علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)
مکرمی رفیع کلوری صاحب کے تاثرات نے دل خوش کردیا، ہماری اس بزم میں جو مضامین اور خاکے پوسٹ کئے جاتے ہیں، انہیں جمع کرنے میں ربع صدی کی محنت لگی ہے، اور اس کا مقصد پی ڈی یف کتابوں کو عام کرنا نہیں ہے بلکہ معیاری ادب کا چسکہ لگانا اور اس کی طلب پیدا کرنا ہے، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ علم اور معلومات کا حصول جتنا اہم ہے اس سے زیادہ اس کے حصول کی طلب اہمیت رکھتی ہے، معلومات ایک حد تک پہنچنے کے بعد جی بھر جاتا ہے، لیکن جب طلب موجود ہو تو پھر یہ لحد تک جاری رہتی ہے، ہم نہیں کہتے کہ کلوری صاحب جیسے احباب اس بزم میں نہیں ہے، لیکن آپ نے جس طرح اپنا مافی الضمیر پیش کیا ہے اس سے ہمیں ایک نئی تحریک اور ولولہ بخشا ہے۔ اللہ جزائے خیر دے۔(ع۔م۔م)
Читать полностью…بات سے بات: مولانا فراہی اور ندوۃ العلماء
تحریر: عبد المتین منیری)بھٹکل)
دو روز قبل علم وکتاب گروپ کے ایک معزز ممبر نے جناب حسان عارف صاحب کا ایک کالم پوسٹ کیا ہے جس کا عنوان ہے"کیا انڈیا کے اصلاحی حلقے اور ندوی حلقے میں مماثلت ہے؟"
یہ کالم خورشید ندیم صاحب کے ایک کالم کے جواب میں لکھا گیا ہے، ہمیں احسان صاحب کی اس عبارت نے متوجہ کیا کہ " فکر فراہی علما کا انداز فکر بالکل دوسرا ہے اور ندوی علما کا بالکل دوسرا ہے۔ قرآن مجید کے فہم و تدبر کے حوالے سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ یہ کہا جا سکے کہ دونوں میں مماثلت ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے"۔
ہم نے خورشید ندیم صاحب کے متعلقہ کالم کی تلاش کی تو ہمیں آپ کا ایک کالم "تدبرکا احیاء" کے عنوان سے ملا ہے ، اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ احسان صاحب کے والد ماجد مولانا خالد مسعود مرحوم ،مولانا امین احسن اصلاحی کی آخری عمر میں ، مدرسۃ الاصلاح، جماعت اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد، اور غامدی صاحب سے جدائی کے بعد جب لوگوں کو یاد بھی نہیں رہا تھا کہ مولانا بقید حیات ہیں بھی یا نہیں، اور محمد صلاح الدین مرحوم مدیر ہفت روزہ تکبیر کراچی نے مولانا کا ایک انٹرویو شائع کرکے یاد دلانا پڑا تھا کہ مولانا ابھی بقید حیات ہیں، تو اس دور کے یا قریبی زمانے کے شاگرد مولانا خالد مسعود صاحب نے چند نوجوانوں کو جمع کرکے آپ کے درس قرآن اور درس حدیث کا سلسلہ منظم کیا تھا، اور ان دروس کی اشاعت کے لئے ایک مجلہ تدبر کے نام سے جاری کیا تھا، خالد مسعود صاحب کی وفات کے ساتھ یہ مجلہ بھی بند ہوگیا، جسے آپ کے خلف الرشید حسان عارف صاحب نے از سرنو جاری کیا ہے، اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے خورشید ندیم صاحب نے یہ کالم لکھا تھا، جس میں آپ نے فکرفراہی کے دعویداروں کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اس کے تیسرے حصے کے بارے میں لکھا تھا کہ:
"تیسر احصہ وہ ہے جو بھارت کے اُن علما پر مشتمل ہے جو مدرستہ الاصلاح کی نسبت سے اصلاحی کہلواتے ہیں۔ اس میں بڑے جلیل القدر علما شامل ہیں۔ ان کا علمی کام اس پر شاہد ہے ، تاہم انہوں نے بطور گروہ اپنا الگ فکری تشخص قائم نہیں کیا۔ ان میں سے کچھ جدید جامعات سے وابستہ ہیں، کچھ جماعت اسلامی میں شامل ہو کر
خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کچھ انفرادی حیثیت میں علمی کام میں منہمک ہیں۔ ان کا معاملہ میرے نزدیک وہی ہے جو مولانا شبلی نعمانی کے بعد ندوی علما کا ہے، جس طرح ندوی علماء مسلمانوں کی غالب علمی روایت میں ضم ہو گئے ، اسی طرح یہ اصلاحی بھی اب اس روایت کا حصہ ہیں"۔
ہماری رائے میں خورشید ندیم صاحب کی یہ تحریر احسان عارف صاحب کا مقصود ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر اپنی الگ شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ جگہ اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ندوے نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ فکر فراہی کا علمبردار ہے، البتہ امت کے سواد اعظم کی طرح ندوے کا بھی یہی مسلک رہا ہے کہ قرآن مجید کی جو تشریح خیر القروں کے دور میں کی گئی تھی اس کے مخالف تفسیر وتشریح قابل قبول نہیں، البتہ فکر وتدبر کے نتیجے میں فہم قرآن کے نئے زاوئے کھلتے ہوں اور وہ خیرالقرون کی تشریح سے نہیں ٹکراتے تو ان کا خیر مقدم ہے، احسان صاحب کا عمومی انداز سے اظہار براءت درست نہیں ہے۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ مولانا حمید الدین فراہی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ابو الکلام آزاد یہ سبھی علامہ شبلی کے چراغ کے پرتو ہیں، علامہ شبلی ہی نے ان حضرات کی رہنمائی کی تھی ، اور انہیں آگے بڑھا یا تھا، اول الذکر علامہ شبلی کے عزیز بھی تھے، اور آپ کے قائم کردہ دارالمصنفین کے اولین صدر بھی، یہ ندوے والوں کے لئے بھی اتنے ہی محترم تھے جتنے مدرسۃ الاصلاح والوں کے لئے، مولانا فراہی دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامیہ کے رکن بھی تھے، علامہ سید سلیمان سے آپ کے تعلقات کی گہرائی کو جاننے کے لئے وفیات میں آپ کا مضمون ضروردیکھنا چاہئے۔
(خاکہ) سعادت حسن منٹو۔۔۔ وفات : ۱۸ جنوری ۱۹۵۵۔۔۔ تحریر: حسن عباس
Читать полностью…مصطفی کمال کے بارے میں ایک کتاب کا عربی ترجمہ "الرجل الصنم" کے نام سے موجود ہے، اصل کتاب کے مصنف کے نام پر صرف اتنا لکھا ہوا ملتا ہے: "ضابط ترکی سابق"
کیا کسی طرح ان کے نام کی نشاندہی ہوسکتی ہے؟
حلقہ میں جن حضرات کے ترکی اہل علم سے روابط ہوں ، ان سے توجہ کی خصوصی درخواست ہے۔
محمد توصیف
عقیدہ ہی سے قوت فراہم ہوتی ہے
خلف الصالح علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰه علیہ، مولانا پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں:
فتح و شکست دونوں کا، پسِ پردہ عقیدہ کام کرتا ہے، عقیدہ یا جذبہ کے بغیر فتح و اقدام ممکن نہیں۔ صرف قومیت یہ روح فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اسلامی فتح کا راز، محض مادی تیاری نہیں، بلکہ جذبۂ دینی میں بھی پوشیدہ ہے۔ مادی قوت بھی اس عقیدہ کا دفاع کرتی ہے۔ مسلمانوں کی طاقت اسلام میں پوشیدہ ہے، قومیت میں نہیں۔ طارقؒ نے اسپین کو بنام دین فتح کیا، بنام بربر نہیں۔ محمد بن قاسمؒ نے بھی اسلام کے نام پر فتوحات حاصل کیں، عرب کے نام پر نہیں۔ خود مصطفیٰ کمال کی تمام فتوحات، بالخصوص سکاریہ (Sakaria) کی فتح، اسلام کے نام پر ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں اس کی پالیسی میں تبدیلی آئی۔
فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات/مقدمہ/ صفحہ: ٢٩/٣٠
https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
گوہر جان(وفات : ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ء)۔۔۔ شیخ عبد الشکور
Читать полностью…اج کی وفیات
/channel/ilmokitab
قاضی عبد الغفار 17 جنوری 1956
گوہر جان 17 جنوری 1930
امین الدین قریشی دہلوی، منشی 17 جنوری 1983
آذر حفیظ ، پروفیسر (حفیظ احمد خان) 17 جنوری 2006
زبیر عباسی 17 جنوری 2012
شاہ محمد وکیل کفیلی دنا پوری ، حکیم سید 17 جنوری 1989
عابد عباس، مرزا 17 جنوری 2002
محمد مودود احمد الفاروقی القادری 17 جنوری 2000
محمد یٰسین،حکیم 17 جنوری 2000
مظہرامام،سید 17 جنوری 2013
نظر امروہوی (سید علی منصرم خاں نقوی) 17 جنوری 2014
واجد علی خان برکی، لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر 17 جنوری 1989
ہاشم باوانی 17 جنوری 1964
فضا ابن فیضی 17 جنوری 2009
عبدالرحمن چغتائی 17 جنوری 1975
مولا نا محمد ابراہیم عمادی اعظمی 17 جنوری 1985
مولانا برہان الدین سنبھلی 17 جنوری 2020
عبدالرحمن چغتائی 17 جنوری 1975
مولانا محمد برہان الدین سنبھلیؒ 17 جنوری 2020
فضا ابن فیضی ۱۷ جنوری ۲۰۰۹
مسکین حجازی ۱۷ جنوری ۲۰۰۹
https://www.youtube.com/watch?v=j72EIVbIqTw&list=PLDE0CAC9E73C4162C&index=114
Читать полностью…جامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات۔۔۔۔ تحریر: رانا شفیق پسروری
تحقیق زندگی کے ہر شعبے کے لئے ضروری ہے لیکن تعلیم کے میدان میں تحقیق ہی بنیادی اکائی ہے اور تعلیم ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے لازمی جزو ہے۔ تعلیم و تحقیق کے میدان میں دیکھا جائے تو خاص طور پر یونیورسٹیاں علم و تحقیق کا بنیادی اور اہم ترین مراکز ہوتی ہیں جہاں تعلیم کے مختلف میدانوں میں ابتدائی مراحل سے تخصیص تک دادِ تحقیق دی جاتی ہے۔
جامعات سے فارغ التحصیل طالب علم ہی زندگی کے ہر شعبے میں اپنی مہارت کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے اردو، اسلامیات، تاریخ، عربی، سائنس، ریاضی، مقامی و غیر مقامی زبانوں کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی اور دیگر سندی مقالات تحریر کروائے جاتے ہیں۔
مختلف النوع موضوعات پر مقالات لکھوانے کی وجہ سے طلبا و طالبات کی تحقیقی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور اُن کو تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ اس موضوع پر اس سے قبل کیا تحقیق ہوچکی ہے اور کتنے مقالات و کتب تحریر ہوچکے ہیں۔ تحقیق کا یہ مرحلہ نہایت مشکل ہوتا ہے۔
پہلے سے تحریر کردہ علمی مقالے، کتب، مقالات اور دیگر تحریروں تک رسائی اور ان کے بارے میں معلومات سے آگاہی حاصل کرنے کا درست ذریعہ تو ان مقالات کا حصول ہے، لیکن چونکہ مشکل امر ہے اس لیے اس کمی کا ازالہ کرنے لیے ”کتابیات“ کے نام سے ایک موضوع پر دستیاب مواد و کتب کے بارے میں معلومات بہم پہنچانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ”کتابیات“ کے کام کو مزید کھولنے اور نکھارنے کا عمل ”اشاریہ سازی“ سے ممکن ہوا۔ اشاریہ سازی کا عمل ابتدا میں کتب پھر رسائل و جرائد تک تھا، لیکن جب جامعاتی تحقیققات کا دائرہ وسیع تر ہوا تو جامعاتی سندی تحقیق مقالات کے بارے میں آگہی اورمعلومات دینے کے لئے ان کی ”اشاریہ سازی“ ضروری قرار پائی۔
جامعاتی سطح پر لکھے جانے والے تحقیقی مقالات کی اشاریہ سازی نہ صرف طلبا اور اساتذہ بلکہ دیگر محققین کے لیے بھی نہایت اہم ہے، جس سے تمام لوگوں کا قیمتی وقت اور سرمایہ بچتا ہے نیز نئے موضوع کو مقرر کروانے کے علاوہ سابقہ تحقیق سے استفادہ بھی آسان تر ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں باقاعدہ سرکاری سطح پر تو نہیں لیکن انفرادی طور پر مختلف لوگ اور اداروں نے ضرور کام کیا ہے اور کربھی رہے ہیں۔ اُن میں سید جمیل احمد رضوی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر حافظ محمد سجاد، ڈاکٹر معین الرحمن، ڈاکٹر سعید الرحمن اور محمد شاہد حنیف اور سمیع الرحمن کے نام قابلِ ذکر ہیں
”جامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات“ کے نام سے زیر نظر تحقیقی کام جس کو ”پراجیکٹ“ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے یونیورسٹی آف لاہور نے شائع کیا ہے۔ اور مرتبین یا مدیران کے لفظ کی بجائے ”پراجیکٹ کمیٹی“ میں جو نام دیئے گئے ہیں اُن میں محمد شاہد حنیف اور سمیع الرحمن کے ناموں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحقیقی شاہکار ان کی محنت کا ہی نتیجہ ہے۔ شاید اسی لئے ہی کتاب میں پراجیکٹ کمیٹی کے افراد کا تعارف بھی نہیں دیا گیا۔ بہرحال اس علمی و تحقیقی پراجیکٹ میں پاک و ہند کی بیاسی (82) سے زائد یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے مقالات کی اشاریہ سازی کی گئی ہے۔ زیر نظر کتاب میں نو سو (900) سے زائد ماہرین (اساتذہ کرام) کی نگرانی میں ہونے والے تقریباً پندرہ ہزار مقالات کو ایک ہزار کے قریب بنیادی اور ذیلی موضوعات میں پیش کیا گیا ہے،جس سے کسی بھی موضوع سے متعلقہ مقالہ تک رسائی نہایت آسان ہو گئی ہے۔ بعض مقالات کو ایک سے زائد موضوع میں رکھنا ناگزیر ہوتا ہے اس لئے کتاب میں اندراجات کی تعداد19ہزار139ہے۔
مامعات میں اسلامی تحقیقی مقالہ جات“ کے عنوان سے اس تحقیقی شاہکار میں اکیس بنیادی ابواب بنائے گئے ہیں جن میں قرآن و علومِ قرآن، حدیث و علومِ حدیث، ایمان و عقائد، عبادات، فقہ و اجتہاد، معاشرتی نظام، تعلیم و تعلم، دعوت و تبلیغ اور تزکیہ نفس، سیاسی نظام، معاشی نظام، عدلیہ اور نظامِ قضا، طب و سائنس، عالم اسلام و عالم مغرب، سیروسوانح، تاریخ، اسلام اور مغرب، تقابل فِرق و ادیان، ادارے، جماعتیں، صحافت، شعر و ادب اور لسانیات اور متفرقات شامل ہیں۔
*تبصرہ کتب: تفسیر کشاف اردو جلد اول سورۃ الفاتحہ، سورۃ البقر۔۔۔ تحریر: تحریر- عرفان جعفر خان*
کتاب : تفسیر کشاف اردو جلد اول !
سورة الفاتحہ، سورة البقره
مصنف : علامہ جار اللہ زمخشری
زیرنگرانی : صاحبزادہ محمد امانت رسول
مترجمین مولانا بشارت علی ، مولانا سلمان
مولانا صہیب حسن، مولانا عامر،
مولانا کاشف عمر ،مولانا ہارون
صفحات : 495 قیمت : 2000 روپے
ناشر : ادارہ فکر جدید ، 128 ای ہوئی گیس
سوسائٹی ، ڈیفنس فیز 1 ،لاہور
موبائل : 4220263-0300
ادارۂ فکرِ جدید خالصتاً ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو جدید فرقہ واریت سے بلند، اور صرف دینِ اسلام کا داعی ہے۔ دورِ حاضر کا تقاضا ہے کہ امت میں ایسا رجحان اور ماحول پیدا کیا جائے جو ہر طرح کی ملاوٹ و آمیزش سے پاک ہو۔ پاکستانی معاشرہ جن شدت پسند رجحانات اور تشدد آمیز رویوں کی زد میں ہے ان سے خلاصی اسی صورت میں ممکن ہے جب لوگوں میں غور و فکر اور علم و تحقیق کا مزاج پیدا ہو۔ ادارۂ فکرِ جدید ایک ایسے معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے جو جذبات، تعصب، اشتعال، شدت پسندی سے پاک، اور علم و تحقیق، اعتدال اور تحمل مزاجی جیسے اوصاف سے متصف وسیع الظرف افراد پر مشتمل ہو۔
عربی تفاسیر میں جتنی بھی معروف و متداول ہیں تقریباً سب کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے، شاذونادر کوئی عربی تفسیر ایسی ہوگی جو معروف و متداول ہو اور اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو، سوائے ایک ’’تفسیر الکشاف‘‘ کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشاف کا قدیم عربی تفاسیر میں ایک اہم مقام ہے اور بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ کشاف کا شمار امہات التفاسیر میں ہوتا ہے۔
یہ تفسیر ہمیں ایسے نہج و اسلوب سے متعارف کرواتی ہے جو دیگر تفاسیر کے منہج و اسلوب سے قدرے مختلف ہے۔ کشاف کا یہ ترجمہ اردو داں طبقے کے لیے ایک تحفہ ہے کہ جس سے وہ تفسیر کشاف و علامہ زمخشری پر مزید کچھ لکھنے اور کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
علامہ جاراللہ زمخشریؒ اور ان کی تفسیر ’’کشاف‘‘ اہلِ علم کے ہاں ہمیشہ مطالعے اور استفادے کا موضوع رہے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ قرآن کے احکام و آیات کی عقلی تشریح بھی صاحبِ کشاف کی اس تفسیر قرآن کریم کا امتیاز ہے جسے بعض معاملات میں اختلافِ رائے اور تحفظات کے باوجود ہر دور میں اہلِ علم کے لیے استفادے اور فہم قرآن کریم کے حوالے سے راہ نمائی کا باعث سمجھا گیا ہے اور اس کی افادیت آج بھی مسلّم ہے۔
علامہ زمخشریؒ عقائد میں معتزلہ کی طرف مائل تھے۔ ان کے عقائد و نظریات سے واقفیت کا سب سے بہترین ذریعہ ان کی تفسیر ہے۔ علامہ زمخشری معتزلی ہونے کی وجہ سے عقائدِ معتزلہ کے ثبات اور دیگر فقہی آرا کے بیان سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
علامہ زمخشریؒ علمِ کلام کے ماہر تھے اور معتزلی ہونے کی وجہ سے آپ نے مختلف آیات کی تفسیر کرتے ہوئے عقائدِ معتزلہ کو آیات کی تفسیر میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ امر انتہائی باعث ِتعجب ہے کہ آپ فقہی آرا میں دیگر مذاہب کا رد کرتے ہوئے فقہ حنفی کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قرآن کی وضاحت و فصاحت و بلاغت، نحوی و صرفی تشریحات اور لغوی و معنی کی ابحاث کی وضاحت اور دلائل عربی شاعری سے پیش کیے ہیں۔علامہ جار اللہ زمخشری کی تفسیر ’’الکشاف‘‘ کی خصوصیات کا مختصر تعارف اس لیے پیش کیا ہے تاکہ قاری کے علم میں آجائے کہ جس کتاب کا ترجمہ اس کے ہاتھوں میں ہے وہ کس پائے اور کس مرتبے کی ہے اور تفسیری ادب میں اس کاکیا مقام ہے۔
’’الکشاف‘‘ کا ترجمہ نہایت علمی منصوبہ ہے۔ اردو خواں طبقے کے لیے ترجمے کی یہ پہلی کوشش ہورہی ہے، چوں کہ تفسیرکشاف انتہائی اہم اور دقیق ہے اس لیے اس کا ترجمہ کرنے والے احباب کا علم متداولہ سے ہم آہنگ ہونا نہایت اہم ہے۔ مترجمین کی کہکشاں اگرچہ مختصر ہے مگر وہ انتہائی عرق ریزی سے اپنے اہم کام کی طرف متوجہ ہیں۔ ابھی پہلی جلد کی تفسیر مکمل ہوئی ہے۔ الکشاف سے براہِ راست استفادہ ایک مسلمہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت عقلیت پسند جس طرح اسلام کے خلاف کھل کر صف آرا ہورہے ہیں اس کتاب کا ترجمہ اسلام پسندوں اور اسلام کا دفاع کرنے والوں کو عمدہ ہتھیار کی صورت میں دستیاب ہورہا ہے۔ عقلیت کا جواب عقلیت اور عربی زبان کے علوم بلاغہ کے ذریعے ہی ممکن ہے جو کہ اس کتاب کے ذریعے کشید کرنا انتہائی آسان ہے۔
کشاف کی پہلی جلد میں درج ذیل امور کو پیش نظر رکھا گیا ہے:
ترجمہ بامحاورہ اور سلیس ہے، آیات و احادیث کے ساتھ حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے، استشہادی اشعار کے ساتھ ان کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ ادارۂ فکرِ جدید نے وقت کی اس اہم ضرورت کو سمجھا اور اس منصوبے کو پوری ذمہ داری سے پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا۔
تبصرہ کتب: معتوب کتابیں۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
کتاب : : معتوب کتابیں
مصنف : ڈاکٹر عقیل عباس جعفری
صفحات : 647 قیمت : 5000 رویے
ناشر : ورثہ پہلی کیشنز، کراچی
رابطہ :
03009242098
پیش ِ نظر کتاب ’’معتوب کتابیں‘‘ دنیا بھرکی اُن 140 کتابوں کی رودادہے جو مختلف زمانوںاورمختلف علاقوںمیں پابندیوں کا نشانہ بنیں۔ ان 140 کتابوں میں سے بعض معتوب کتابیں ایسی بھی ہیں جو کسی ایک ملک میں پابندی کی زد میں آئیں جب کہ دنیا کے باقی خطوں میں وہ بآسانی دستیاب رہیں، یا کسی ایک صوبے میں زیرِ عتاب آئیں مگر دوسرے صوبوں میں فروخت ہوتی رہیں۔ بعض کتابیں حکومتی پابندیوں کی زد میں آئیں اور بعض کتابیں عوام الناس کے غیظ و غضب کا نشانہ بنیں۔ بعض کتابوں کو جلایا بھی گیا۔
ان معتوب کتابوں میں کچھ ایسی بھی ہیں جو عارضی طور پر عتاب کا نشانہ بنیں مگر بعد میں ان پر عائد پابندی اٹھالی گئی۔ اسی طرح سماجی اخلاقیات کے معیار کی تبدیلی نے ایسی بہت سی کتابوں کو جو ممنوعہ تھیں، مقفل الماریوں سے نکال کر لائبریریوں، کتب خانوں اور کتابوں کی دنیا کی زینت بنادیا ہے، اور بہت سی ایسی کتابیں ادبی نصاب کی مطلوبہ فہرست ِ مطالعہ میں شامل ہوچکی تھیں۔
یہ کتابیں اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہیں۔ کچھ تخلیقات مقابلتاً محدود سنسرشپ کی زد میں آئیں، اور کچھ کتابیں سنسرشپ کی وسیع اور متاثر کن تاریخ رکھتی ہیں۔ کتابوں پرپابندی کی زد میں صرف کتابیں ہی نہیں آئیں بلکہ کہیں کہیں ان کے مصنفین بھی زیرِ عتاب آئے، اور بعض کو تو سزائے موت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کہیں ان کتابوں کا ناشر قتل ہوا، کہیں مصنفین کے قتل کے فتوے جاری ہوئے، اور کہیں ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا کر جلوس نکالاگیا۔ اس کے برعکس بیسویں صدی میں ایسی کئی کتابوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن کو فلم کے قالب میں ڈھالا گیا، ان کے مصنفین کو ادب کے نوبیل انعام سے سرفراز کیا گیا، اور اردو سمیت دنیا کی متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے گئے۔
پیش نظر کتاب کے مرتبین نکولس جے کارو لائیڈس، مارگریٹ بالڈ اور ڈان پی سووا ہیں۔ جب کہ ترجمے، اضافے اور تدوین کی خدمت ممتاز شاعر اور محقق ڈاکٹر عقیل عباس جعفری (تمغۂ امتیاز) نے انجام دی ہے۔ جعفری صاحب کی تحقیق کا خصوصی موضوع ادب، لسانیات اور پاکستانیات ہے۔ تحقیق کے شعبے میں آپ کی درجِ ذیل تصانیف مشہور ہیں:
’’پاکستان کرونیکل‘‘، ’’پاکستان کی اردو فلمی صنعت‘‘، ’’بیسویں صدی سال بہ سال‘‘، ’’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘‘، ’’قائداعظم کی ازدواجی زندگی‘‘، ’’پاکستان کا قومی ترانہ: کیا ہے حقیقت، کیا ہے فسانہ؟‘‘، ’’سوز خوانی کا فن‘‘، ’’کراچی کی عزاداری اپنی یاد میں‘‘، ’’پاکستان کی ناکام سازشیں‘‘، ’’366 دن‘‘، ’’پاکستان کی انتخابی سیاست‘‘، ’’لیاقت علی خان قتل کیس‘‘، ’’پاکستان کی ناکام سازشیں‘‘ وغیرہ۔
جعفری صاحب حرفِ آغاز میں لکھتے ہیں:
’’کتابوں اور علم کی ترسیل پر پابندی کی کہانی بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی۔ چین میں ایک بادشاہ گزرا ہے جس کا اصل نام ونگ چنگ اور معروف نام شی ہوانگ ٹی تھا، جس کے معنی ہیں پہلا شہنشاہ۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا کی تاریخ کا آغاز اُس کے عہد سے ہو۔ اسی سبب سے اُس نے اپنے ملک کی گزشتہ تاریخ اور بادشاہوں کا ذکر ختم کرنے کے لیے حکم جاری کیا کہ ایسی تمام کتابیں نذرِ آتش کردی جائیں جن میں ماضی کا ذکر ہو۔ اس حکم کی زد میں کنفیوشس کی کتابیں بھی آئیں۔ موصوف نے حکم جاری کیا تھا کہ جو لوگ موجودہ زمانے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ماضی کی اہمیت بڑھائیں گے انھیں ان کے اہلِ خانہ سمیت قتل کردیا جائے گا۔
اسی طرح جب 48 ق م میں جولیس سیزر نے اسکندریہ کا محاصرہ کیا تو اسکندریہ کے شہرۂ آفاق کتب خانے کو تباہ کردیا۔ 391ء میں تھیوفلس اعظم کے حکم سے عیسائیوں نے اس کتب خانے کی کتابوں کو نیست و نابود کردیا، کیوں کہ ان کے خیال میں ان سے کفر پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ رہی سہی کسر اورلین کے عہد میں خانہ جنگی کے دوران پوری کردی گئی۔
کتابوں پر پابندی کا یہ سلسلہ برصغیر میں بھی جاری رہا۔ یہاں پہلے پہل اخبارات پابندیوں اور بندش کا نشانہ بنے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد حکومت نے انڈین پریس ایکٹ 1910ء کی طرز پر مختلف قوانین نافذ کیے جن کی زد میں اخبارات کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی آنے لگیں۔ یہاں زیادہ تر مذہبی اور سیاسی تصانیف پابندی کی زد میں آئیں۔ ‘‘
پیشِ نظر کتاب میں شامل ’’معتوب کتابوں‘‘ کی فہرست بڑی محنت اور جستجو کے بعد تیار کی گئی ہے۔ جعفری صاحب نے ہر کتاب کا تعارف، مصنف کی مختصر سوانح عمری، کتاب کا خلاصہ، طباعت کی تاریخ اور کتاب پر سنسر کی پابندی یا کسی اورظلم و ستم کے بارے میں تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ان کتابوں کو درجِ ذیل چھے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے:
حفیظ ہوشیارپوری(وفات ۱۰ جنوری ۱۹۷۳ء) تحریر محمد طفیل نقوش
Читать полностью…حکیم محمود احمد برکاتی(وفات ۹ جنوری ۲۰۱۳ء) ۔۔۔ ڈاکٹر یونس حسنی
Читать полностью…معصوم صاحب دور حاضر کے چند ایسے قلم کاروں میں ہیں جنہوں نے اردو صحافت کی آبرو رکھی ہوئی ہیں، آپ کی تحریریں اپنے اندر عجیب سا حسن سموئے ہوئے رہتی ہیں، اور جب بھی ان کی تحریر سامنے آتی ہے تو ایک نظر اس پر اٹھ ہی جاتی ہے، ہفت روزہ نئی دنیا کا آغاز ہمارے دور شعور میں ہوا تھا، مولانا عثمان فارقلیط الجمعیۃ سے علحدہ ہونے کے بعد مولانا عبد الوحید صدیقی کے نئی دنیا سے جڑ گئے تھے، الجمعیت کے دور میں تو آپ کی تحریروں کا تاثر ذہن میں محفوظ نہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہو کہ شمالی ہند کے روزنامے ہمارے علاقوں میں شاذونادر آتے تھے، البتہ نئی دنیا کے آخری صفحہ پر آپ کی تحریریں خوب یاد ہیں، اس زمانے میں بمبئی کے پفتہ وار بلٹز کی بڑی دھوم تھی، نئی دنیا اس کے بالمقابل ایک طاقتور آواز تھی، آج معلوم ہوا کہ اس کا حسن قیس رامپوری مرحوم کی دین تھا، اللہ آپ کے درجات بلند کرے۔
Читать полностью…