علمی و ادبی مواد کتابوں اور صوتیات کا چینل اس میں شامل ہونے کے لئے لنک پر کلک کریں https://telegram.me/muniri
یہ صفات صرف مسجد ومدرسے کی ظاہری عمارت پر ہی ہویدا نہیں تھیں بلکہ استاذ مولیٰ بخش رحمہ اللہ کے مزاج، ماحول اور نظم کے ہر حصے اور گوشے میں نمایاں تھیں۔ ان کی مجلس میں اگر کوئی علمی مسئلہ چھڑتا تو ان کی گفتگو ایسی دقیق، نکتہ رس اور مدلل ہوتی کہ ایسا لگتا کہ حضرت کا بس کتابوں کی دنیا میں ہی بسیرا ہوگا، دنیاوی معاملات سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہوگا لیکن جب ان کے سامنے کوئی سماجی، معاشرتی یا عائلی مسئلہ یا قضیہ پیش کیا جاتا تو وہ اس پر ایسی پختہ، ہمہ جہت اور ٹھوس رائے اور حل پیش فرما دیتے کہ جیسے ان کا سارا وقت ہی سماج کے مشاہدے اور معاشرتی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں گزرا ہو۔غرض یہ کہ ان کی بزم میں آنے والا کوئی بھی شخص ان کی عالمانہ شان،بے پایاں محبت و شفقت اور عمدہ اخلاق سے متاثر بلکہ فریفتہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا
ان کی محفل میں نصیر ان کے تبسم کی قسم!
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
وقت کی بات آئی تو حضرت وقت کے انتہائی قدردان تھے۔ ان کا آخری دنوں کا ایک وائس میسج عام ہوا ہے جس میں وہ اہل علم اور دینی طلبہ کی جانب سے وقت کی ناقدری اور کتاب سے دوری پر تشویش کا اظہار فرما رہے ہیں۔ وہ اپنے مدرسے میں ہر چھوٹے اور بڑے کام میں خود حصہ لیتے، ہر ہر طالب علم کی انفرادی ضروریات کا خیال رکھتے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے۔ مدرسے کے مصارف میں امانت ودیانت کا انتہائی درجے خیال رکھتے۔ ان کے صاحبزادے مدرسے میں مدرس اور اچھے قابل مدرس ہیں لیکن انہوں نے ان کی تنخواہ نہیں رکھی کیونکہ انہیں ایک دوسری جگہ امامت کی تنخواہ مل جاتی ہے۔ مولانا مولیٰ بخش حقیقی معنوں میں اپنے طلبہ کے لیے ”استاذ“ کی حیثیت رکھتے تھے کہ طلبہ ان سے صرف پڑھ کر ہی نہیں بلکہ ان کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھ لیتے تھے۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کو زمین کا نمک اور انسانیت کے ماتھے کا جھومر کہا جاسکتا ہے
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را !
حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمت اللہ علیہ اپنی کتاب المرتضی کے آخری میں قلمبند کیا ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کے
ذخیرہ میں صرف خلافت راشدہ کے دو باب (جو دراصل ایک ہی باب کی دو فصلیں ہیں) اور صرف خلافت صدیقی اور خلافت فاروقی کا نمونہ ہو تو یہ رہنمائی نا تمام ہوتی اور دور انتشار اور دور فتن کے لئے مسلمانوں کے پاس تقلید و اتباع کے لئے کوئی امام اور پیشوا نہ ہوتا میں اُمت کے لئے قیامت تک باقی رہنے اور تمام انسانی ادوار اور تاریخ کے نشیب وفراز سے گزرنا مقدر تھا، اس کے لئے دونوں طرح کے نمونوں کی ضرورت تھی، اور خلافت راشدہ نے اپنے پورے اجزاء کے ساتھ ان نمونوں کو فراہم اور اس رہنمائی کو مکمل کر دیا ، رضی الله تعالى عن ابي بكر وعمر
وعثمان وعلى وارضاهم واكرمهم وجزاهم عن الاسلام وعن
هذه الأمة خير الجزاء .
" ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ذہانت بھی عجیب چیز ہے، بشرطیکہ اس کا استعمال محل ( اپنی جگہ) پر ہو، سلطان عبدالحمید سے کسی یورپین بادشاہ نے کہا تھا کہ آپ یورپ کے درمیان میں ایسے ہیں، جیسے بتیس دانتوں کے درمیان زبان، اس میں تعریض ( طنز ) تھی عجز وضعف ( کمزوری) کی طرف، جس کو سلطان سمجھ گئے اور فرمایا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے، مگر قدرتی سنت یہ ہے کہ دانت فنا ہوجاتے ہیں، اور زبان باقی رہتی ہے، عجیب جواب ہے!! آخر شاہی دماغ تھا! " ۔
( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: 7، صفحہ نمبر: 332 ) ۔
/channel/ilmokitab
شاعری قیس رامپوی کاپہلا عشق تھا یا دوسرا، اس کا علم مجھے نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اخبار کی سرخیاں لکھتے وقت بھی شعر گنگناتے رہتے تھے۔ ان کی شاعری بھی عصری موضوعات میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ’نئی دنیا‘ کے صفحہ اوّل پر شائع شدہ ان کے ایک شعر نے بڑی دھوم مچائی تھی، جو انھوں 90 کی دہائی میں برپا ہونے والے خونریز فسادات پر کہا تھا۔ شعر یوں تھا
دئیے جلانے کی رسمیں بھلا چکے شاید
ہمارے شہر میں انساں جلائے جاتے ہیں
شاعری ان کا شوق ضرور تھا مگر ان کی سب سے زیادہ دلچسپی خطاطی اورآرٹ کے فن میں تھی۔ انھوں نے اپنے ذوق لطیف کی بدولت ہفتہ واری صحافت کی منہ بولتی سرخیاں لکھنے اور خوبصورت لے آؤٹ بنانے کا ہنر خود ایجاد کیا تھا۔ نفاست ان کی انگلیوں میں ہی نہیں بلکہ ان کی پوری شخصیت میں تھی۔ وہ ہرروز اجلے کپڑے پہن کر دفتر آتے تھے۔ان کی شخصیت تو دیدہ زیب تھی ہی، ان کے جملے اور تبصرے بھی دلچسپ ہوا کرتے تھے۔ پان کھانا ان کی عادت تھی، جو وہ اپنے گھر سے بنواکر لاتے تھے۔ پان کے کثرت استعمال سے ان کی زبان اور ہونٹ ہمیشہ سرخ رہتے تھے۔
شاعری کے حوالے سے ان کی یادگار ان کا واحد مجموعہ کلام ”سمندردرسمندر‘‘ہے، جو1987 میں شائع ہوا تھا۔ اس کی اشاعت خود انھوں نے ہی اپنے’صدف پبلی کیشنز‘سے کی تھی جس کا پتہ فراش خانہ میں واقع ان کا گھرتھا۔ قیس رامپوری نے پرانی دہلی کے اس تنگ وتاریک علاقہ کی گلی راجان میں لمبا عرصہ گزارا۔ بعد کو وہ اپنے بیٹے کے پاس شاہین باغ منتقل ہوگئے اور وہیں انھوں نے آخری سانس لی۔
قیس رامپوری کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا ہجوم ہے۔ انھوں نے بڑی انقلابی قسم کی شاعری کی ہے۔ ان کے دوست اور ممتاز شاعر امیرقزلباش نے ’سمندر درسمندر‘ میں لکھا ہے کہ:
”قیس رامپوری میرے عزیزترین دوست اور پسندیدہ شاعر ہیں۔قیس کے یہاں ذاتی واردات اور عصر حاضر کے مسائل کی جھلکیاں فنی اہتمام کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ اسلوب بیان انتہائی شاداب اور حسّیت سے لبریز ہے۔ انھوں نے جن خارجی کیفیات کو بنیاد بنایا ہے، وہ کیفیات موجودہ نسل کے چند شاعروں کو ہی میسر ہوئی ہیں۔ان کے ہاں زندگی کے تناظر میں جس باریک بینی سے کام لیا گیا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ چاک دامانی اور آبلہ پائی کے تمام تجربات سے گزرے ہیں۔ وہ معنوی تہہ داری، سیاسی وسماجی نشیب وفراز اور معاشرے میں پھیلی ہوئی مکروہیت سے باخبر ہیں۔ انسانی درد اور رشتوں کا کرب ان کی شاعری کا جزوخاص ہے۔ ان کے یہاں نظم میں موضوع کی گرفت اور غزل میں دروں کاری بڑی خوبی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔“(’سمندر درسمندر‘صفحہ 9)
قیس رامپوری کی شاعری کا غالب حصہ عصری موضوعات پر ہے۔ انھوں نے سیاسی،سماجی ماحول کا گہرا اثر قبول کیا ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ اخبارات وجرائد سے ان کی پیشہ ورانہ وابستگی ہو۔ وہ اپنے عہد کے سیاسی مسائل سے بھی نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ قومی اور عالمی حالات کی پیچیدگیوں کا کرب ان کی شاعری میں بہت نمایاں ہے۔ ایمرجنسی کے خاتمہ پر کہی ہوئی مختصرنظم ’نیا سویرا‘ ملاحظہ ہو:
چلو سویرا ہوا
اذنِ پرَ کشائی ملا
مگر سوال تو یہ ہے مرے تعاقب میں
دہانے کھولے ہوئے اب بھی بے شمار عفریت
مرے بدن کا لہو چاٹنے کی فکر میں ہیں
قیس رامپوری کی شاعری کا خاصا یہ ہے کہ انھوں نے سیاسی اور سماجی ماحول کا گہرا اثر قبول کیا ہے۔ اس کا نتیجہ صحافتی شاعری کی صورت میں برآمد ہوا۔ ’نیا سویرا‘ہو یا کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے خلاف ان کی نظم ’ابھی فلسطین جل رہا ہے‘یا پھر بھوپال گیس ٹریجڈی پر ان کی نظم ’شب خون‘۔ یہ سب حالات حاضرہ اور عالمی واقعات پر مرکوز ہیں، لیکن ان میں شاعرکے اپنے جذبات ومحسوسات اور تاثرات موضوع بنے ہیں۔ انھوں نے غنائیہ شاعری کا کافی اثر قبول کیا ہے۔چند اشعار اورملاحظہ ہوں:
یہ تجربہ بھی ہمیں ایک بار کرنا ہے
کہ مڑکے دیکھیں اسے اور سنگ ہوجائیں
اب بہار کو کس نام سے پکاریں ہم
کہ شاخ شاخ پہ خنجر سجائے جاتے ہیں
محض اللہ تعالی کے فضل و کرم سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی جانب سے منعقدہ ۲۶ ویں کتاب میلے(ممبئی) میں شرکت کا موقع ملا، کل کتاب میلے کا پہلا دن تھا، عام طریقے پر کتاب میلے کے چند دن گزر جانے پر کتابیں چھٹ جاتی ہیں اور کام کی کتابیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اس لیے پہلے دن ہی حاضری کی ترتیب بنائی گئی تھی، ٥ جنوری جمعہ کے دن ممبرا میں کئی پروگرام تھے، جلسے سے فارغ ہوکر رات ہی ممبئی حاضر ہوا اور سنیچر کی صبح کتاب میلے میں شریک رہا، افتتاحی تقریب میں بھی تھوڑے وقت کے لیے شرکت رہی پھر دوپہر بارہ بجے سے لے کر رات نو بجے تک مختلف بک اسٹال پر کتابیں دیکھتا اور خریدتا رہا، کتابوں کے شوق میں دوپہر کا کھانا بھی موقوف کر دیا، ماشاءاللہ کافی بڑا کتاب میلہ ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے پبلشرز شریک ہیں۔ نو گھنٹے صرف کرکے سات سو سات چھوٹی بڑی کتابیں خریدیں ، زیادہ تر اپنے لئے اور کچھ اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کیلئے ۔ بہت سے اہم افراد سے ملاقاتیں بھی رہیں، ممبئی کی متعدد اہم شخصیات نے فقیر کی آمد کی خبر پاکر کتاب میلے ہی میں ملاقات کی، کئی حضرات سے مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر گفتگو رہی۔ کل پورا دن نہایت مشغول رہا اور زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے پیروں پر ورم بھی آگیا۔ پھر رات بھر سفر کرکے اب وطن پہنچا ہوں اور خریدی ہوئی کتابوں کے درمیان یہ سطریں لکھ رہا ہوں، بدن تھکا ہوا ہے مگر دل خوشی و مسرت سے لبریز ہے گویا کہ ہفت اقلیم کی دولت ہاتھ آگئی ہے، چند مفید کتابوں کے سرورق ارسال خدمت ہیں۔
محمد عمرین محفوظ رحمانی
خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن ہزاربرس
ـــــــــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
دور طالبعلمی کی بات ہے، دارالعلوم امدادیہ ممبئی میں حضرت مفتی عزیزالرحمن فتحپوری مدظلہ ہم لوگوں کو ھدیہ سعیدیہ پڑھا رہے تھے، فلسفہ قدیم کی کتاب ہے، انتہائی خشک موضوع ہے، ذیادہ تر طلبا مجبورا سبق میں بیٹھے رہتے ہیں، جمائیاں لیتے ہیں، سب کے دماغوں میں طرح طرح کے خارجی خیالات کا ہجوم رہتا ہے، سبق پر توجہ دینے کے بجائے پلان بناتے رہتے ہیں کہ سالانہ چھٹیوں میں ایک مہینہ رہ گیا ہے، اس سال چھٹیوں میں ماموں کے لڑکے کی شادی ہونی ہے، کپڑے سلوانے ہیں، جوتے تو ابھی پچھلے ماہ ہی خریدے تھے چل جائیں گے، آج ہی گھر خط لکھنا ہے ( آجکل تو فون آگئے ہیں) پیسے ختم ہورے ہیں اس بار لیٹ کیوں ہوگئے وغیرہ وغیرہ ـ ........... بہر حال سبق ہورہا تھا ہم سب سر جھکائے بظاہر انتہائی سعادت مندی سے بغور سُن رہے تھے، استاذ محترم " لوانی“ سے ( روانی پڑھا جائے دراصل حضرت مفتی صاحب کبھی کبھی " ر " کا تلفظ " ل" سے بھی کرتے ہیں) درس دے رہے تھے ـ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ حضرت جو عبارت پڑھ رہے ہیں وہ کتاب میں نظر نہیں آرہی ہے، میں نے اپنے دوسرے ساتھیوں پر نظر دوڑائی وہ سب بدستور سرجھکائے اس طرح بیٹھے تھے جیسے سبق کو دماغ تہہ میں محفوظ کررہے ہوں، دوچار منٹ میں بہت پریشان رہا پھر بات سمجھ میں آگئی، دراصل مفتی صاحب کے سامنے جو کتاب کا نسخہ تھا وہ الگ تھا اور مفتی صاحب جب صفحہ پلٹ رہے تھے تو ایک ساتھ دو صفحے پلٹنے میں آرہے تھے، صورت حال کچھ یوں بن رہی تھی ایک صفحہ کے آخر میں " ھٰذا " اور دو صفحے کے بعد " قیل" کا لفظ آرہا تھا اور حضرت مفتی صاحب " ھٰذا قیل“ اور اس کے بعد کی عبارت پڑھ رہے تھے، مگر یہ ھٰذا قیل کسی طرح قابو میں نہیں آرہا تھا، کئی کئی تاویلیں، کئی کئی تعبیریں بیان ہوئیں مگر بات تھی کہ پکڑ ہی میں نہیں آرہی تھی، ............ جب مجھے احساس ہوا تو میں نے اپنے قریب کے ساتھی کو کان میں بتایا حالانکہ وہ بھی حالت استغراق میں تھے، لیکن میرے بتانے پر یوں ظاہر کیا کہ جیسے وہ بھی صورت حال کو سمجھ چکے ہوں ـ اس دوران ہوا یہ کہ اپنے دوسرے ساتھیوں کی سعادت مندانہ کیفیت اور استاذ مکرم کی زبردست تاویلوں پر ہم دونوں کوساختہ ہنسی آگئی ـ بس پھر کیا تھا گویا قیامت آگئی، حضرت کو جلال آگیا، " میں مسخرہ ہوں، ڈرامہ کررہا ہوں، تم نے کیا سمجھ رکھا ہے " اور بھی نہ جانے کیسی کیسی نوازشات ہوئیں، حکم ہوا کہ فورا میری نظروں سے دور ہوجاو، حلق کے آخری حصے کو استعمال کرتے ہوئے فرمایا گیا " نکل جاو" ـ ............. خیر، قہر درویش بجان درویش ہم دونوں ساتھی کتاب اُٹھا کر باہر آگئے ـ اس کے بعد ایک اور سبق کی گھنٹی تھی دوسرے استاذ کے پاس وہاں سے فارغ ہوکر جب حضرت مفتی صاحب کی طرف واپس آئے تب تک دریائے تندوتیز اُتر چکا تھا، ہم نے کتاب کھولی اور پوری بات عرض کی تو فرمانے لگے ہنس کیوں رہے تھے، ہم نے بتایا کہ ہمارے کسی ساتھی کو احساس نہیں ہوا سب اس طرح بیٹھے تھے جیسے سبق کا ایک ایک حرف اپنے دل کے کانوں سے سن رہے ہوں ـ اپنے ساتھیوں کی یہ ظاہر داری دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی، ہماری بات سن کر مسکرائے، فرمانے لگے کہ " ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ یہ ھٰذا قیل تو عربی قواعد کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے "
پینتالیس پچاس سال پرانے اس قصہ کو بیان کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ آج پھر مدرسے کا دور یاد آگیا، ......... حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب مدظلہ ان دنوں علیل ہیں اسپتال میں داخل ہیں، حضرت سے ہمارا جس طرح کا تعلق ہے اُس کا تقاضا تو یہ تھا کہ کئی دن پہلے عیادت کے لئے آتے، مگر آج کل ہم بھی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، آج طبیعت کچھ پہتر محسوس ہوئی اس لئےآج حضرت کی مزاج پرسی کے لئے حاضری ہوپائی، الحمدللہ طبیعت رو بہ صحت نظر آئی، حسب معمول گفتگو ہوئی، خوشگوار موڈ میں تھے، تفریحی باتیں بھی کیں، معلوم ہوا کل صبح انشااللہ اسپتال سے رخصت مل جائے گی، اللہ تعالی تادیر بعافیت سلامت رکھے ـ
ہمیں مفتی صاحب سے ایک ضروری موضوع پر گفتگو کرنی تھی، اس وقت ہمیں مفتی صاحب کا مزاج شگفتہ نظر آیا، صحت کے تعلق سے بھی معلوم ہوا کہ کل اسپتال سے گھر روانگی ہوجائے گی، اس لئے موقع مناسب دیکھ کر ہم نے بات شروع کی، لیکن ہمارا اندازہ غلط تھا، بعد میں ہمیں احساس ہوا کہ کسی نازک موضوع پر گفتگو کا یہ موقع بالکل نہیں تھا، ہماری بہت بڑی غلطی تھی ـ بہر حال نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بار پھر ھدیہ سعیدیہ کا زمانہ یاد آگیا، مفتی صاحب کا جاہ وجلال دیکھتے بنتا تھا، حکم ہوا کہ فورا نکل جاو، تم عیادت کے لئے آئے ہوئے یا نمک پاشی کرنے، .........
*سچی باتیں (۷؍اکتوبر ۱۹۳۲ء۔۔۔ رضائے الہی*
*تحریر: مولانا عبد الماجد دردیابادیؒ*
﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَاحَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ (٣١) وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (٣٢)﴾ [الأنعام: 31-32]
جنہوں نے اللہ سے ملنے کو جھٹلائے رکھا، وہ بڑے خسارہ میں آپڑے، یہاں تک کہ جب وہ وقت مقرر آپہونچا، تو کہنے لگے ہائے افسوس ہماری کوتاہیوں پر، جو اس کے بارہ میں ہم سے سرزد ہوتی رہیں! اور حال یہ ہوگا کہ وہ اپنے بار اپنی پشت پرلادے ہوں گے۔ اور کیسی بُری ہوگی وہ چیز جسے وہ اپنے اوپر لادے ہوں گے!اورعالَم آخرت جس کو وہ دنیوی مشاغل کے آگے بھولے ہوئے ہیں، اُس کے سامنے۔ یہ دنیوی زندگی تو کچھ ہے ہی نہیں۔ بجز لہو ولعب کے، اور جو لوگ تقویٰ سے کام لیتے ہیں، اُن کے لئے تو وہی دارِ آخرت ہے۔ پس اے منکرو، کیا تم سمجھ سے کام نہیں لیتے؟
جن دنیوی ترقیوں پر آپ مٹے ہوئے ہیں، اُن کی کُل کائنات آپ نے خالقِ کائنات کی نظر میں دیکھ لی؟ وما الحیاۃ الدنیا الا لہو ولعب ، حیاتِ دنیوی، ساری کی ساری ، مع اپنی تمام فروع اور اپنے تمام متعلقات کے، اپنے سارے کمالات اور ساری ترقیات کے، کچھ وزن ہی نہیں رکھتی ، کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی۔محض ایک کھیل تماشہ ہے، محض لہو ولعب ہے۔ کالج اور یونیورسٹیاں، سائنس اور آرٹ ، بڑی سے بڑی ڈگریاں ، بڑے سے بڑے عہدے اور بہتر سے بہتر پیشے، کمشنری اور ججی، ہائیکورٹ کی ججی اور صوبہ کی منسٹری، وکالت اور بیرسٹری، انجینری اور ڈاکٹری، اونچے سے اونچے خطابات اور مناصب، نامور اخباروں کی ایڈیٹری اور قوم کی لیڈری، کونسلوں میں خوش تقریری اور پبلک جلسوں میں جوش خطابت، اِس انجمن کی نظامت اور اُس انجمن کی صدارت، ان سب کی ’’کَل‘‘ کیا وقت نظر آئے گی؟’’کَل‘‘ یہ سب ضائع اوربرباد، رائیگاں اور اکارت نظرآئیں گے، اگر ان کا تعلق رضائے الٰہی سے نہیں رہاہے، بلکہ یہ خود مقصود رہی ہیں۔
اصل اور پائدار شے جو کچھ ہے، وہ عالَمِ آخرت ہے۔ عقل وعاقبت اندیشی سے کام لیاجائے، تو ہر کوشش ، ہرجنبش قدم، ہرسعیِ عمل، وہیں صرف وہیں کے لئے ہونی چاہئے، وللدار الآخرۃ خیر للذین یتقون افلا یعقلون۔ اگر یہ منزل مقصود پیش نظر نہیں، تو عملًا روزِ آخرت کی تکذیب کرناہے، عملًا لِقاء رب سے اِنکار کرناہے، اِس حال میں اگر ہمیں علوم وفنون میں ’’ڈاکٹر‘‘ ڈگری مل گئی تو، اور ہم علامۂ وقت تسلیم کرلئے گئے تو، سرکار دولتمدار کے خاص مقرّبین میں داخل ہوکر کسی صوبہ کے گورنر ہم مقرر ہوگئے تو، اور بڑے سے بڑے نیشنلسٹ لیڈر ہوکر سالہا سال کے لئے جیل میں چلے گئے تو، بہرحال وبہرصورت ہماری قسمت میں گھاٹا ہی گھاٹا، اور انجام میں خسارہ ہی خسارہ ہے، قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَاحَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ ۔ رضائے حق، اگر پیش نظر نہیں، تو آج کی ساری ترقیاں اور ساری شہرتیں ، ساری ناموری اور ساری کامیابی، کل وبالِ جان اور عذابِ جان ہی بن کر رہیں گے۔ اللہم أحفظنا۔
/channel/ilmokitab
میڈم! میں جنگ عظیم کی بات نہیں کر رہا ہوں
ڈاکٹر ف عبدالرحیم رحمۃ اللّٰه علیہ، لفظ تکرار کی بحث میں ایک حاشیہ قائم کرکے لکھتے ہیں:
لفظ "جنگ عظیم" سے ایک بات یاد آئی۔ میں جس وقت انگریزی زبان میں (B.A. Hons کر رہا تھا، ہر ہفتہ ایک طالب علم لسانیات کے کسی موضوع پر پروفیسر کی نگرانی میں اپنا مقالہ پڑھتا تھا۔ ایک بار میں نے "Chinese Ideogram" پر اپنا مقالہ پڑھا۔ چینی نظامِ تحریر میں جو الفاظ مستعمل ہیں، وہ در اصل کسی بھی چیز کی مختصر تصویر ہوتی ہے۔ اور بعض معنوں کو ادا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ تصویر بنادی جاتی ہے۔ جیسے روشنی کے لیے چاند اور سورج کی تصویر۔ میں نے اپنے مقالے میں بتایا کہ "جنگ" کے تصور کو ادا کرنے کے لیے گھر کے اندر ایک عورت کی تصویر بنادی جاتی ہے۔ میری پروفیسر نے اعتراض کیا، کہا کہ یہ غلط ہے۔ جنگ کے تصور کے لیے گھر کے اندر دو عورتوں کی تصویر بنائی جاتی ہے۔ میں نے فوراً کہا: میڈم! میں جنگ عظیم کی بات نہیں کر رہا ہوں۔
گلستانِ الفاظ و معانی/صفحہ: ٦۴
https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
جمعیۃ علمائے ہند سے وابستگی:
دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی خدمت میں رہنے کی وجہ سے، آپ کو ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ اور اُس کے مقاصد سے ایک قلبی تعلق پیدا ہوگیا تھا، چناں چہ یہی وجہ تھی کہ آپ ’’جمعیۃ علمائے ہند‘‘ کی تمام تحریکات، خواہ وہ ملک وملت بچاؤ تحریک ہو یا ریزر ویشن کے حق میں دستخطی مہم، مدارس اسلامیہ پر دہشت گردی کے الزام کی تردید کا مسئلہ ہو یا فساد زدگان کی امداد و نصرت کا معاملہ، ہر تحریک میں ہمیشہ پیش پیش رہے، جمعیۃ علماء ضلع مظفرنگر کے دو ٹرم تک صدر رہنے کے ساتھ، شاملی کے ضلع بن جانے کے بعد، جمعیۃ علماء ضلع شاملی کی صدارت بھی آپ ہی کے حصہ میں آئی۔
اصلاح معاشرہ کی تحریک:
حضرت کو معاشرہ کی اصلاح ودرستگی اور تعلیمی بیداری کا بڑا فکر تھا، علاقہ میں جہالت عام تھی، نشہ کا مرض پھیلتا جا رہا تھا، اورشادی بیاہ کی تقریبات میں بردرانِ وطن کی دیکھا دیکھی بہت سی غلط اور خلافِ شرع رسومات داخل ہوگئی تھیں، مثلاً لمبی لمبی بارات لے جانا، نکاح سے ایک دن پہلے عام دعوت جسے لوگ اپنی زبان میں منڈھا کہتے ہیں، سلامی، دان، بھات، لڑکیوں کی شادی میں عمومی دعوت کا اہتمام، غیر محرم مرد وعورتوں کا اجتماع وغیرہ، حضرت نے ان رسومات کو ختم کرکے خالص اسلامی طریقے پر شادی بیاہ کرنے، نشہ جیسی مہلک بیماری کے خاتمہ اور تعلیمی بیداری کے سلسلے میں ایک منظم تحریک چلائی، مختلف مقامات میں پروگرام اور جلسے کئے، ہر گاؤں میں اس کے لیے کمیٹیاں بنائیں، چھوٹے چھوٹے پمفلٹ چھپواکر تقسیم کرائے، اور خود فرداً فرداً جاکر لوگوں کو سمجھایا، جس کا اثر یہ ہوا کہ علاقہ سے کافی حد تک یہ رسومات ختم ہوگئیں اور اسلامی طریقے پر شادی کا رجحان عام ہوگیا، نشہ کافی حد تک کم ہوگیا اور نونہالانِ امت کی اسلامی تعلیم ودینی تربیت کے لیے علاقہ میں مدارس ومکاتب کا ایک وسیع جال پھیل گیا۔
حضرت کا خاص وصف:
یوں تو حضرت کو اللہ تعالی نے ہرطرح کے ظاہری وباطنی کمالات سے نوازا تھا؛ لیکن آپ کا خاص وصف تواضع اور خوش اخلاق تھی، بڑے سے بڑا کام کرتے؛ لیکن اُس کی نسبت اپنی طرف نہ کرتے؛ بلکہ دوسروں کی طرف کرکے یہ فرماتے: ’’بھائی میں تو کچھ بھی نہیں ہوں‘‘۔ حد یہ ہے کہ اپنے چھوٹوں کو بھی اپنے سے بڑا سمجھتے اور اونچے کلمات سے پکار تے تھے، ایک موقع پر فرمایا : ’’میرے مدرسے میں جتنے بھی لوگ ہیں سب بڑے ہیں‘‘۔
جو بھی آپ سے ملنے جاتا، خواہ شناسا ہوتا یا اجنبی، مسلمان ہوتا یا کافر، اُس سے ایسی خوش اخلاقی اور نرمی سے ملتے کہ وہ سمجھتا کہ حضرت کو سب سے زیادہ تعلق اورمحبت مجھ ہی سے ہے، جو ایک مرتبہ آپ سے مل لیتا وہ ہمیشہ کے لیے آپ ہی کا ہوکر رہ جاتا، حسب موقع بلحاظ فرقِ مراتب ہر وارد و صادر کی ضیافت فرماتے۔ گرمی کی دوپہر میں پورا مدرسہ سوتا رھتا؛ مگر حضرت آنے والے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے بیٹھے رہتے،کوئی دعا کی درخواست کرتا اُس کے لیے دعا فرماتے، کسی کو تعویذ کی ضرورت ہوتی اُسے تعویذ دیتے، کوئی مسئلہ پوچھتا، اگر ذہن میں ہوتا بتادیتے، ورنہ مدرسے کے کسی مفتی صاحب کے پاس بھیج دیتے، اور فرماتے کہ ’’بھائی! میں مسائل نہیں جانتا؛ مفتیان کرام مسائل جانتے ہیں، اُن سے مسائل دریافت کرو‘‘۔
وفات:
اس طرح راہِ ہدایت کا یہ آفتاب تقریباً ۸۲ سال ضیاء پاشی کرتا ہوا، ۱۵؍ ربیع الاول 1436ھ مطابق ۷؍ جنوری 2015ء بروز بدھ، صبح سوا چھ بجے، طویل علالت کے بعد،’’میرٹھ کڈنی ہوسپٹل‘‘ میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ رجعون ۔ جنازہ میرٹھ سے کاندھلہ لایا گیا، اور اُسی دن ظہر کی نماز کے بعد تقریباً ڈھائی بجے، عیدگاہ کاندھلہ کے وسیع وعریض میدان میں، حضرت کے استاذ حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی نے ہزاروں کے مجمع میں آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی، اور کاندھلہ بائی پاس روڈ سے تھوڑے فاصلہ پر’’چار کھمبوں‘‘ کے سامنے خاندانی مقبرہ میں، آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
تواضع وانابت کا سرمایہ دار تھا ، نہ رہا
وہ ایک زاہد شب زندہ دار تھا، نہ رہا
آپ کی عمر تقریباً پندرہ سال تھی، ازہر ہند دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، اوروہاں مسلسل پانچ سال تعلیم میں مشغول رہ کر ۱۹۵۲ء میں ’’دورۂ حدیث شریف‘‘ سے فراغت حاصل کی، بخاری شریف حضرت شیخ الاسلام ؒ سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ آپ کے رفقائے دورۂ حدیث میں حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری سابق شیخ الحدیث دار العلوم وقف دیوبند، حضرت مولانا زین العابدین صاحب اعظمی سابق صدر شعبۂ تخصص فی الحدیث مظاہر علوم سہارن پور اور بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی صدر شعبۂ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دورہ سے فراغت کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تجوید میں داخلہ لیا؛ لیکن کسی عارض کی بناء پر اس کی تکمیل نہ فرماسکے۔
اساتذہ:
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الادب، مولانا اعزاز علی صاحب، علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی، مولانا فخر الحسن صاحب، مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوری، مولانا حسین احمد بہاری، مولانا عبد الاحد صاحب اور حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب وغیرہ آپ کے خاص اساتذہ میں ہیں۔ دوارنِ تعلیم آپ حضرت شیخ الاسلامؒ کی’’ مدنی مسجد‘‘ کے امام ومؤذن اور حضرت کے خادم بھی رہے۔ یوں تو آپ کو اپنے تمام ہی اساتذہ سے عقیدت ومحبت تھی؛ لیکن حضرت شیخ الاسلام اور آپ کے خانوادے سے آپ کا محبت وعقیدت کا والہانہ تعلق دیدنی تھا، بندے نے بارہا دیکھا جب بھی آپ حضرت شیخ الاسلام کا ذکر کرتے تو فر طِ محبت سے آبدیدہ ہوجاتے تھے۔
تدریسی خدمات:
فراغت کے بعد، تجوید کی تعلیم کا سلسلہ درمیان میں موقوف کرکے، ۱۹۵۲ء میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہ کے مشورے سے، ٹپرانہ(جو شاملی اور جھنجھانہ کے درمیان کرنال روڈ پر ایک مسلم اکثریتی گاؤں ہے) تشریف لائے، اور پورے انہماک کے ساتھ مسلسل چودہ سال یہاں کی بڑی مسجد میں، امامت کے ساتھ، قرآن کریم کی تعلیم وتدریس ، وعظ وخطابت اور تفسیر قرآن میں مشغول رہے۔
اس کے بعد ۱۹۶۷ء میں مہتمم کی حیثیت سے جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت میں(جو اس وقت مکتب کی شکل میں تھا) تشریف لائے، وہاں آپ نے قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم کے ساتھ فارسی وعربی کی تعلیم شروع فرمائی، یہاں فارسی عربی اول ودوم کی تقریبا تمام کتابوں کے ساتھ، کنز الدقائق اور جلالین شریف جیسی اہم کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔
تلامذہ:
آپ سے پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جن میں مولانا محمد ساجد صاحب استاذ حدیث وتفسیر مظاہر علوم سہارن پور، مولانا محمد یعقوب صاحب استاذ تفسیر مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد، مولانا شبیر احمد صاحب استاذ ادب عربی مفتاح العلوم جلال آباد، مولانا محمد عاقل صاحب شیخ الحدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، مولانا محمد ہارون صاحب مہتمم مدرسہ سبیل الرشاد سنولی ضلع پانی پت ہریانہ، مولانا محمد شمشیر صاحب گڑھی دولت، مولانا محمد زبیر صاحب گڑھی دولت، مولانا محمد زاہد صاحب مرحوم سابق مہتمم مدرسہ گل زار حسینیہ تیترواڑہ، مفتی رفیق احمد استاذ حدیث مدرسہ مسیح العلوم بنگلور(کرناٹک)اور مولانا محمد ارشد صاحب استاذ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
بیعت وخلافت:
علوم اسلامیہ کی تحصیل کے ساتھ، ظاہر وباطن کی اصلاح نہایت ضروری چیز ہے، قرآنی ہدایات اور اسلامی تعلیمات پر کما حقہ عمل، عموماً اسی وقت ہوتا ہے جب کہ کسی صاحب نسبت شیخ کامل کے دست حق پرست پر بیعت کرکے اپنے ظاہر وباطن کی اصلاح کرائی جائے۔ آپ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لیے علوم ظاہری کی تحصیل کے دوران ہی آپ نے اس طرف توجہ فرمائی، اور حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ سے اصلاحی تعلق قائم کرکے، حضرت کی رہ نمائی میں راہِ سلوک طے کرنے میں مشغول ہوگئے؛ لیکن ابھی سلوک وطریقت کی تکمیل نہ کرسکے تھے1377ھ میں حضرت مدنی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، حضرت مدنی کے وصال کے بعد آپ نے حضرت کے جانشین فدائے ملت امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ سے رجوع کیا، باضابطہ بیعت ہوئے، اور بہت تیزی کے ساتھ منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے، جلدی ہی حضرت فدائے ملت کی طرف سے خلعتِ خلافت سے نوازے گئے۔ حضرت فدائے ملت کے علاوہ آپ کے استاذ محترم حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی کی طرف سے بھی آپ کو اجازت وخلافت حاصل تھی۔
جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت میں آمد:
جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت مورخہ ۱۴؍ ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ، مطابق مئی۱۹۶۲ء میں قائم ہوچکا تھا۔ مدرسہ کے ابتدائی دور میں حضرت مولانا ظہور احمد صاحب عماد پوری استاذ مظاہر علوم وقف سہارن پور اور حضرت مولانا حکیم عبد اللہ مغیثی صدر آل انڈیا ملی کونسل وغیرہ متعدد اہل علم مدرسہ کے انتظام وانصرام کے لیے تشریف لائے؛ مگر مدرسے کی تعمیر و ترقی کے لیے ازل ہی سے آپ کا انتخاب ہوچکا تھا، چناں چہ مدرسہ کے سرپرست حضرت مولانا زاہد حسن صاحب ابراہیمی خلیفہ حضرت
" ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ سب میں سہل ( آسان ) یہ نامِ مبارک ہے، یعنی " اللہ " حتی کہ اگر کوئی بہت ہی چھوٹے بچے کو سکھلادے، اللہ اللہ، تو بسهولت ( آسانی کے ساتھ) سیکھ سکتا ہے، مسمی ( ذات) تو اتنی بڑی شان کے، کہ وہاں تک رسائی مشکل، اور نام اتنا سہل ( آسان) کہ بچے بھی اس کے لینے پر قادر ہیں، کیا برکت والا نام ہے اور کیسا پیارا؟!! سبحان اللہ!! " ۔
( ملفوظات حکیم الامت، جلد نمبر: 7، صفحہ نمبر: 230 ) ۔
/channel/ilmokitab
[1/7, 7:54 AM] عمرین محفوظ رحمانی: محض اللہ تعالی کے فضل و کرم سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی جانب سے منعقدہ ۲۶ ویں کتاب میلے(ممبئی) میں شرکت کا موقع ملا، کل کتاب میلے کا پہلا دن تھا، عام طریقے پر کتاب میلے کے چند دن گزر جانے پر کتابیں چھٹ جاتی ہیں اور کام کی کتابیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اس لیے پہلے دن ہی حاضری کی ترتیب بنائی گئی تھی، ٥ جنوری جمعہ کے دن ممبرا میں کئی پروگرام تھے، جلسے سے فارغ ہوکر رات ہی ممبئی حاضر ہوا اور سنیچر کی صبح کتاب میلے میں شریک رہا، افتتاحی تقریب میں بھی تھوڑے وقت کے لیے شرکت رہی پھر دوپہر بارہ بجے سے لے کر رات نو بجے تک مختلف بک اسٹال پر کتابیں دیکھتا اور خریدتا رہا، کتابوں کے شوق میں دوپہر کا کھانا بھی موقوف کر دیا، ماشاءاللہ کافی بڑا کتاب میلہ ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے پبلشرز شریک ہیں۔ نو گھنٹے صرف کرکے سات سو سات چھوٹی بڑی کتابیں خریدیں ، زیادہ تر اپنے لئے اور کچھ اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کیلئے ۔ بہت سے اہم افراد سے ملاقاتیں بھی رہیں، ممبئی کی متعدد اہم شخصیات نے فقیر کی آمد کی خبر پاکر کتاب میلے ہی میں ملاقات کی، کئی حضرات سے مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر گفتگو رہی۔ کل پورا دن نہایت مشغول رہا اور زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے پیروں پر ورم بھی آگیا۔ پھر رات بھر سفر کرکے اب وطن پہنچا ہوں اور خریدی ہوئی کتابوں کے درمیان یہ سطریں لکھ رہا ہوں، بدن تھکا ہوا ہے مگر دل خوشی و مسرت سے لبریز ہے گویا کہ ہفت اقلیم کی دولت ہاتھ آگئی ہے، چند مفید کتابوں کے سرورق ارسال خدمت ہیں۔
محمد عمرین محفوظ رحمانی
خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں
[1/7, 11:29 AM] Muniri india internet: بہت شکریہ مولانا عمرین محفوظ صاحب نے اورنگ آباد کتاب میلے کے بعد اب ممبئی کے کتاب میلے کی سیر کرائی ہے۔ مولانا جیسی شخصیات کی سرپرستی اسی طرح ان کتابوں کے میلوں پر ہونی چاہئے، اس طرح ہمارے اور اہل علم کو سامنے آنا چاہئے، آج کی دنیا معاشی مفادات سے وابستہ ہے، قومی کونسل کو اگر مالی فائدہ ہوگا تو پھر وہ اردو کتابوں کے فروغ میں حصہ لے گی، ورنہ ایک قیمتی ادارہ اردو والوں کی سردمہری سے ختم ہوجائے گا۔ ہماری معلومات کی حد تک بھارت کی قومی کونسل نے ابتک اردو کتابوں اور مجلات کے لئے جو کام کیا ہے وہ پڑوس کی کونسل سے زیادہ معیاری اور بڑھا ہوا ہے۔ اس کے مجلات آج کل وغیرہ کا معیار سرکاری پرچہ ہونے کے باوجود بہت اچھا رہا ہے۔ جہاں تک وطن عزیز میں اردو دشمنی کا تعلق ہے، اس میں اردو والے زیادہ مجرم ہیں، ان کے شاعروں، ادیبوں اور پروفیسروں کا اس زوال میں حصہ زیادہ رہا ہے۔(ع۔م۔م)
دارالمصنفین کی اکسٹھ سالہ زندگی کے ہر نشیب و فراز میں اس کے ہمدم اور ہمراز بنے رہے، شروع میں اس کی مجلس انتظامیہ کے رکن تھے، پھر اس کی مجلس ارکان کے صدر بھی ہوگئے، اس کا شائد ہی کوئی ایسا جلسہ ہواہو جس میں ان کی شرکت نہ ہوئی ہو، آخری بار گزشتہ نومبر میں ان کی علالت کے زمانہ میں ملنے گیا تو رخصت کرتے وقت فرمایا کہ، خدا کرے دارالمصنفین کے آئندہ جلسہ میں پھر حاضری کا موقع مل جائے، وہ یہاں تشریف لاتے تو تمام لوگ ان کے سامنے مودب بیٹھتے، سید صاحب سے وہ عمر میں بہت چھوٹے تھے، مگر وہ ان کا بڑا احترام کرتے، ان کو کوئی خط لکھتے تو اس احترام کو برقرار رکھتے، خود وہ سید صاحب کی بڑی عزت بلکہ ان سے بڑی محبت کرتے، جب کبھی ان پر کوئی مضمون لکھا، ان کا قلم بہت ہی رواں اور شگفتہ ہوگیا، مولوی مسعود علی ندوی سے ان کی بڑی بے تکلفی رہتی، وہ طبعاً بہت ہی متین سنجیدہ اور خاموش تھے کسی مجلس میں مشکل سے کچھ بولتے، مگر مولوی مسعود علی ندوی سے باتیں کرتے تو عندلیب شیوا بیان بن جاتے، صدق میں ان سے کسی سے قلمی جنگ شروع ہوجاتی تو سید صاحب فرماتے کہ ان کے گوریلا جنگ کے خلاف کسی کا کامیاب ہونا آسان نہیں، سید صاحب کے بعد وہ دارالمصنفین کے علمی محتسب بھی بن گئے تھے، معارف اور یہاں کی نئی تصانیف ان کی خدمت میں ضرور بھیجی جاتیں، زبان اور انداز بیان میں کوئی فروگذاشت ہوجاتی تو اس کی طرف توجہ ضرور دلاتے اور جو چیز پسند آجاتی اس کی تعریف دل کھول کر کرتے، افسوس دارالمصنفین اپنے ایک بڑے علمی محتسب سے محروم ہوگیا۔
ان تمام اوصاف کے ساتھ ان کا ایک بہت بڑا صف یہ بھی تھا کہ انھوںنے بڑی جرأت کے ساتھ اسلامی جمعیت کی دیدبانی، اسلامی شعار کی پاسبانی اور ملی غیرت کی رجز خوانی کی، ان کی تفسیر کے ساتھ ان کا وہ سوز نہاں اور درد پنہاں جو ان کے دل میں اسلام کے لئے رہا، ان کا توشہ آخرت بنے گا، ان ہی کی بدولت جنت کے رضوان نے ان کا خیر مقدم کیا ہوگا اور حوریں پیشوائی میں شراب طہور کا مینا و ساغر لے کر بڑھی ہوں گی، ان سطروں کے لکھتے وقت اخبار سے معلوم ہوا کہ ان کے جنازہ کی نماز ندوۃ العلماء کے احاطہ میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے پڑھائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے، مولانا علی میاں سے تو وہ محبت نہیں بلکہ عشق کرتے، ندوہ سے بھی ان کو غیر معمولی لگائو رہا، ندوہ میں مولانا علی میاں نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھا کر اپنا فرض اور قرض دونوں ادا کیا، یہ راقم بخار میں مبتلا تھا، اس لئے تعزیت میں نہیں پہنچ سکا لیکن جنازہ کی شرکت کے لئے ایک سہ رکنی وفد دارالمصنفین کی طرف سے بھی گیا، دل کے تقاضے سے مجبور ہوکر یہ سطریں بستر علالت ہی پر سے قلمبند کی جارہی ہیں۔ ع اے نالہ! نشانِ جگر سوختہ کہاں ہے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے، مگر مولانا سپردخاک ہوئے تو ان کے سینہ میں علم کی جو ہمہ گیری، قلم کی جو صاحبقرانی تحریر کی جو برق روشنی، علم و عرفان کی جو فرمانروائی اور اسلام کی عزت و ناموس کی خاطر جو قلمی سرفروشی اور جانبازی تھی، وہ بھی ان کے ساتھ خاک ہوگئی، عالم بقا کے مسافر! تجھ پر رحمت، تیری روح پر رحمت، اسلامی روایت کی تیری حدی خوانی پر رحمت، تیرے قلم کی اس کوہ کنی پر رحمت جس سے جوئے شیر اسلامیہ بہتی نظر آتی، الوداع، السلام، تو جاچکا، مگر تو زبان حال سے کہتا گیا:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
(’’ص۔ ع‘‘، جنوری ۱۹۷۷ء)
/channel/ilmokitab
*آہ! مولانا عبدالماجد دریابادی(وفات : 6 جنوري 1977ء)... صباح الدین عبد الرحمن*
معارف کے زیر نظر شمارہ کی کتابت ہوچکی تھی کہ فخر روزگار، یگانہ وقت، مجاہد العلم، رئیس القلم اور دارالمصنفین کی مجلس ارکان کے صدر نشین مولانا عبدالماجد دریاباری کی رحلت کی اچانک خبر ریڈیو سے سنی تو ع عجب اک سانحہ ہوگیا ہے۔
ان کی زندگی کی شاندار کتاب ختم ہوگئی، جس کا ہر ورق اپنی گوناگوں خوبیوں سے مزین رہا، یہ عاجز راقم گزشتہ ۴۲ سال سے ایک ادنی خورد کی حیثیت سے ان کی بزرگانہ شفقت اور علمی جلالت کے سامنے سرتسلیم خم کرتا رہا، اس مدت میں ان کی زندگی کی جو سرگرمیاں رہیں وہ متحرک تصویروں کی طرح نظروں کے سامنے گھومنے لگیں۔
گل و آئینہ کیا ، خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا
کیننگ کالج لکھنؤ سے بی،اے کرنے کے بعد ان کی زندگی کا آغاز الحاد وبے دینی کی وادی کی سیر سے ہوا، مگر یہیں ان کی نظر شعلۂ طور بن کر چمکی، جس کے بعد وہ توحید اور رسالت کے ایسے داعی اور مبلغ بنے کہ سندیافتہ عالم نہ ہونے کے باوجود باوقار عالم تسلیم کیے گئے، اچھے اچھے علماء ان کے سامنے جھکے، کبھی علماء کی مجلس کے سرخیل بھی منتخب ہوئے اور ان کا خاتمہ بالخیر کلام پاک کے مفسر اور شارح کی حیثیت سے ہوا، انھوں نے اردو اور انگریزی میں جو تفسیر لکھی ہے اس میں اسرائیلیات کی فتنہ سامانیاں اور توریت و انجیل کی تحریفات کی شرانگیزیوں کی راز کشائی میں جو دیدہ وری اور نکتہ وری دکھائی ہے اس سے کلام پاک کے مفسروں میں ان کا مقام ہمیشہ نمایاں رہے گا، ان کی یہ تفسیر گنجینہ معارف و تحقیق بھی سمجھی جاتی رہے گی۔
وہ کچھ دنوں تک فلسفی بھی رہے، ان کی ’’فلسفہ جذبات‘‘ اور ’’فلسفہ اجتماع‘‘ ان کی ابتدائی دور کی تصانیف ہیں جن کے بعد ان کی ’’مبادی فلسفہ‘‘ کی دو جلدیں ’’فلسفہ اور اس کی تعلیم‘‘، ’’ہم اور آپ بھی نکلیں‘‘، ان کے فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا اور جب اردو کا خالی دامن ان کے فلسفیانہ خیالت سے پر ہورہا تھا تو انھوں نے فلسفہ کے چناں وچنیں سے منہ موڑ کر اقبال ہی کی طرح پیرروم کو اپنا معنوی مرشد قرار دیا، اسلامی تصوف اور فیہ مافیہ لکھ کر راہ سلوک کے ایک پرجوش سالک بن گئے، مولانا حسین احمد مدنیؒ سے بیعت بھی ہوئے، مگر حکیم الامت لکھ کر مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تعلیمات کے اسرار و رموز کے شارح بنے جس کے بعد
؎جس طرف کے لے چلا رہبر چلے
وہ بڑے اچھے مترجم بھی تھے، انگریزی سے اردو میں برکلے کے مکالمات، لیسکی کی تاریخ اخلاق یورپ بکل کی تاریخ تمدن، سیوپال کے پیام امن کے ترجمے کیے ان کے ترجمے میں اصل کتاب ہی کی لذت اور کیفیت محسوس ہوتی ہے، ان کتابوں سے یورپ کے تہذیب و تمدن سے واقف ہوئے تو ان سے متاثر ہونے کے بجائے ان کو یا جوجی تمدن اوردجالی فتنہ قرار دیا، وہاں کی فحاشی، عریانی، رندی اور بے راہ روی پر اپنی مختلف تحریروں سے ایسی کاری ضربیں لگاتے رہے کہ جن لوگوں نے ہندوستان کو یورپ کی تمدنی فریب کاریوں سے بچایا ہے ان میں ان کا نام بھی نمایاں طور پر لیا جائے گا۔
وہ اردو تنقید نگاری کے ایک خاص رنگ کے امام بھی رہے، اردو شعر و ادب کی رمزشناسی میں ان سے شاید ہی کوئی سبقت لے جاسکا، لکھنوی تہذیب کے ساتھ لکھنو کی شاعری اور اس کے نثری اسلوب کے بڑے دلدادہ تھے، زہر عشق، مرزا رسوا اور گل بکائولی پر ان کے تبصرے ان کے نقادانہ دقت نظر کے شاہکار ہیں، غالب کو ایک فلسفی کے بجائے ہر بات کو حکیمانہ انداز میں کہنے والا شاعر مرزا شوق کو ایک بدنام شاعر حالی کو ایک واعظ شاعر، اکبر آبادی کی شوخی اور دل لگی کو ایک نیا آئین اکبری، شکوہ والے اقبال کو صاحب حال اور سالک اور جواب شکوہ کے اقبال کو صاحبِ مقام اور عارف کہکر نقادوں کے ذہن کے لیے نئے دریچے کھول دیئے۔
*غلطی ہائے مضامین۔۔۔کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن۔۔۔ - احمد حاطب صدیقی*
خوشی کی بات ہے کہ برقی ذرائع ابلاغ کے کچھ لوگوں کا احساس جاگ اُٹھا ہے۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ میں کچھ صاحبِ احساس بھی پائے جاتے ہیں۔ اُردو کی جن شیریں اور شائستہ اصطلاحات کو انگریزی کی گٹ پٹ اصطلاحات نے بے دخل کردیا تھا، بالخصوص خبروں سے… اب دھیرے دھیرے اُن کی واپسی ہونے لگی ہے۔ بعضے بعضے نشریاتی اداروں سے اب وزارتِ عظمیٰ، عدالتِ عالیہ اور افواجِ پاکستان جیسے الفاظ سنائی دینے لگے ہیں۔ تازہ خبر، مختصر خبریں اور خاص خاص خبریں جیسے الفاظ بھی انگریزی اصطلاحات کی جگہ لے رہے ہیں۔ بعض کالم نگار بھی فون کرکے انگریزی تراکیب کی متبادل اردو اصطلاحات اور تراکیب دریافت کرنے لگے ہیں۔ خالص اردو تراکیب استعمال کرنے سے ان کی تحریروں میں بھی شیرینی و شائستگی پیدا ہونے لگی ہے۔ رکاوٹوں کی جگہ روانی آگئی ہے۔ صحافت میں کچھ شائستگی آئے تو شاید سیاست میں بھی انگریزی اصطلاحات کی مارا ماری سے بچاؤ کی کوئی بہتر صورت نکل آئے۔ مثلاً ‘Level Playing Field’ کی جگہ اگر ’یکساں مواقع‘ کی مختصر سی ترکیب استعمال کی جانے لگے تو کیا عجب کہ جن لوگوں کو ‘Level Playing Field’نہیں مل رہی ہے، اُن کو یکساں مواقع مل جائیں۔ خیر، صحافت کے خوش رفتاری کی طرف مائل ہونے سے یہ امید ہوچلی ہے کہ یک دم تو نہیں، مگر رفتہ رفتہ قومی زبان اور قومی تشخص بحال ہوتا چلا جائے گا۔ آخر ہماری تمام اقدار بھی تو یوں ہی یعنی رفتہ رفتہ ہی غصب ہوئی تھیں۔ بقول مولانا اسمٰعیل میرٹھی مرحوم:
گیا ایک ہی بار سورج نہ ڈوب
مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب
پس ہماری اصطلاحات اور ہمارے الفاظ بھی یکبارگی نہیں، رفتہ رفتہ ہی طلوع ہوں گے۔ اچھی بات ہے کہ لوگ اردو لکھنے لگے ہیں۔ ان شاء اللہ اردو الفاظ کا درست استعمال بھی جلد ہی سیکھ لیں گے۔ ہم اپنی جامعہ میں اپنے شعبۂ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات سے اکثر کہا کرتے ہیں کہ اُردو میں روزنامچہ لکھا کیجیے۔ روزانہ کا مشاہدہ، آج کے دن ذہن میں در آنے والا کوئی نیا خیال یا کسی متاثر کُن شخصیت سے آج ہوجانے والی ملاقات پر اپنے تاثرات۔ سال بھر بعد آپ یہ روزنامچہ پڑھیں گے تو گردشِ ایام پلٹ آئے گی۔ تب آپ کو اپنی تحریر کی خامیاں بھی نظر آنے لگیں گی اور خوبیاں بھی۔ کیوں کہ سال بھر میں آپ کی تحریر میں اچھا خاصا ارتقا ہوچکا ہوگا۔ لہٰذا آج ہی سے:
کاغذ پر اُلجھاتے رہیے حرفوں کی زنجیر
آتے آتے آ جائے گا لکھنے کا انداز
لکھنے والے اور بولنے والے آج کل ذرائع ابلاغ پر غماز اور غمازی کا لفظ جگہ جگہ استعمال کررہے ہیں، مگر بالکل بے جگہ۔ایک ممتاز ماہر تعلیم نے فرمایا:
’’مسلمانوں کی پوری تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ جب تک انھوں نے علم سے رشتہ برقرار رکھا دنیا پرغالب رہے‘‘۔
حضرت! ’غماز‘ تو چغل خور کو کہتے ہیں اورمسلمانوں کی تاریخ کا چغلی کھانا کوئی قابلِ فخر بات نہیں۔ یہاں ’غماز‘ کی جگہ ’شاہد‘ یا ’گواہ‘ کا لفظ استعمال کرلیتے تونہایت مناسب ہوتا۔یوں بھی عربی زبان میں ’غامزہ، مغامزہ‘ کا مطلب ایک دوسرے کو طعنے مارنا، ایک دوسرے کو حقیر ثابت کرنا، بدگوئی کرنا یا ایک دوسرے کی عیب جوئی کرنا ہے۔ ’غماز‘ یعنی چغل خور بھی عیب ہی بیان کرتا ہے۔ ’غماز‘ کا ایک مطلب آنکھ سے اشارہ کرنے والا بھی ہے۔ آنکھ سے اشارہ کرنا بھی گویا آنکھ سے چغلی کرنے ہی کے مترادف ہے۔ ’غماز‘ یا ’غمازی‘ کا لفظ ہمیشہ منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’اُس کی بوکھلاہٹ اُس کے دروغ کی غمازی کررہی تھی‘‘۔ یا ’’اس کی کینہ توز مسکراہٹ اُس کی باطنی خباثت کی غماز تھی‘‘۔ امتِ مسلمہ کے زوال کے زمانوں کی نقشہ کشی کرتے ہوئے،چمن کا بھید چمن سے باہر پہنچا دینے پراقبالؔ نے اپنی معرکہ آرا مسدس ’’شکوہ‘‘ میں پھولوں کو بھی چغل خور قرار دے ڈالا تھا:
بوئے گُل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن
پھرپھولوں ہی پر نہیں، اقبالؔ نے تو فرشتوں پر بھی چغل خوری کا الزام عائد کردیا تھا۔ فرشتوں کی چغلی کھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمازی
گستاخ ہے، کرتا ہے فطرت کی حنا بندی
قصہ مختصر یہ کہ کسی کی خامیوں، عیوب اور برائیوں کو ظاہر کرنا ’غمازی‘ ہے۔اور کسی کی خوبیوں، اچھی صفات اور نیکیوں کا اظہار کیا جائے تو شاید شہادت یا گواہی کہلائے۔ مزید یہ کہ اگر آپ ہماری خوبیاں اور نیکیاں کسی سے بیان فرمائیں گے تو اِسے آپ کا ’حسنِ ظن‘ کہا جائے گا، مگر مولانا حالیؔ نے ہمیں آپ سے ایسا مطالبہ کرنے اور مقبولیت کی ایسی خواہش رکھنے سے منع فرما دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
کرو نہ مقبولیت کی پروا، جو چاہو مقبولِ عام ہونا
رہو گے گر حسنِ ظن کے طالب، تو تم سے یاں بدظنی رہے گی
دوائے دل
استاذ مولیٰ بخش رحمہ اللہ
مولانا محمد شفیع چترالی
جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کے سابق مدرس اور ہمارے دادا استاذ حضرت مولانا مولیٰ بخش صاحب طویل علالت کے بعد گزشتہ ہفتے مستونگ میں انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بہت ممکن ہے کہ بہت سے قارئین نے یہ نام پہلی بار سنا ہو، اس دنیائے رنگ وبو میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو شہرت وناموری سے بہت دور گمنامی کے کسی صحرا میں اپنی ایک الگ چھوٹی سی دنیا بسائے رکھتے ہیں،اپنے اختیاری ارادے اور فیصلے کے تحت بڑا نام کمانے اور لوگوں میںمقبول ہونے کی فکر سے آزادی حاصل کرلیتے ہیں اور اپنی محدود کائنات میں ہی شاد وآباد رہتے ہیں۔ حضرت مولانا مولیٰ بخش صاحبؒ ساٹھ کی دہائی میں بلوچستان مستونگ کے ایک پسماندہ علاقے میں حصول علم کی پیاس لیے عروس البلاد کراچی آئے جہاں محدث العصرحضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ نے تشنگان علم کے لیے مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاو ¿ن (موجودہ جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاو ¿ن) اور جامعہ دارالعلوم کراچی جیسے سلسبیل قائم کرکے زلال علم کی تقسیم شروع کردی تھی۔مولانا مولیٰ بخش نے حضرت بنوری کا دامن تھاما اور پوری توجہ، شوق اور لگن سے حصول علم میں مصروف ہوگئے اور اپنی قابلیت، تقویٰ اور صلاحیت کے بل بوتے پر اساتذہ کے منظور نظر ہوگئے۔
1971 ءمیں دورہ ¿ حدیث کاسالانہ امتحان دینے کے بعد بوجھل قدموں سے روانہ ہونے کی تیاری میں تھے کہ ان کے عظیم استاذ مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن کی نظر ان پر پڑ گئی اور انہوں نے ان سے فرمایا کہ آپ نے یہیں رہنا اور نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اپنی مادر علمی میں ہی تدریس کرنی ہے۔ مفتی ولی حسنؒ نے انہیں حضرت بنوریؒ سے ملوایا اور ان کی تعلیمی قابلیت اور صلاحیت کا حوالہ دے کر انہیں مدرس رکھنے کی سفارش کی۔ مولانا مولیٰ بخش نے عرض کیا کہ حضرت! ابھی سالانہ امتحان کا نتیجہ بھی نہیں آیا، معلوم نہیں میں پاس ہوں گا یا فیل؟۔ حضرت بنوریؒ نے فرمایا: ہمیں ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے جو خود کو فیل سمجھتے ہوں!
چنانچہ آپ نے ان بزرگوں کے زیر سایہ جامعہ میں تدریس شروع کی اور اپنی قابلیت، محنت، انتظامی صلاحیت اور ذوق وشوق کے باعث ایک ہر دلعزیز مدرس کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ مولانا مولیٰ بخشؒکے دور تدریس کے کئی شاگرد اس وقت خود جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاو ¿ن کی مسند حدیث پر فائز ہیں اور ملک بھر میں اور بیرون ملک اعلیٰ دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہمارے گرامی قدر اساتذہ حضرت مولانا محب اللہ صاحب، حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب اور حضرت مولانا سید محمد زرین شاہ صاحب حضرت کے خاص شاگردوں میں سے ہیں اور ہم نے ان حضرات سے درسگاہ میں استاذ مولیٰ بخش کے بہت سے افادات اور واقعات سنے۔ ابھی چند سال قبل 2017 ءمیں استاذ محترم حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب کے ہمراہ مستونگ میں حضرت کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا، حضرت نے انتہائی پرتپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا اورپر خلوص مہمان نوازی کی۔ ہماری آمد پر فارسی کا یہ شعر سنایا کہ
آسمان رشک کند بہر زمینے کے در آں
یک دو کس، یک دو نفس، بہر خدا می نشینند
(آسمان زمین کے اس ٹکڑے کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جہاں ایک دو لوگ ایک دو گھڑی صرف اللہ کی رضا کی خاطر مل بیٹھے ہوں)
استاذ مولیٰ بخشؒ نے تقریباً چار سال تک حضرت بنوریؒ کی زندگی میں اور چھ سات سال ان کے بعد حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن کے دور اہتمام میں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ ان کے ابتدائی درجات کے ایک استاذ مولانا قاضی عبدالرحمنؒ نے ان سے تقاضا کیا کہ اپنے آبائی علاقے مستونگ میں دینی خدمات کی شدید ضرورت کے پیش نظر انہیں وہاں منتقل ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ استاذ مولیٰ بخش نے تعمیل ارشاد کرتے ہوئے مستونگ جاکر وہاں کے ایک غیرمعروف مدرسے ”مدرسہ عربیہ صدیقیہ“ میں تدریس شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مدرسے کو ترقی وکامیابی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ مستونگ شہر کے بیچ میں واقع یہ مدرسہ طلبہ کے بڑھتے ہوئے رجوع کے باعث تنگ دامنی کی شکایت کرنے لگا تو حضرت نے شہر سے دو کلو میٹر باہر ایک کھلی جگہ حاصل کرکے وہاں ”جامعہ امام ابوحنیفہؒ “ کے نام سے ایک عظیم ادارے کی بنیاد رکھی جو اس وقت نہ صرف مستونگ شہر بلکہ پورے بلوچستان سے آئے ہوئے طلبہ کے لیے ایک بہترین درسگاہ کی حیثیت سے معروف ہے۔ جامعہ امام ابوحنیفہ میں ایک عظیم الشان جامع مسجد اور وسیع کشادہ دارالاقامہ کی تعمیر حضرت نے اپنی نگرانی میں اپنے اعلیٰ ذوق کے مطابق مکمل کرائی جہاں سادگی کے ساتھ سلیقہ اور نفاست کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔
قرآن کا مقصد
مجاہد فی سبیل اللّٰه مولانا عبیداللّٰه سندھی رحمۃ اللّٰه علیہ لکھتے ہیں:
مجھ سے یورپ میں بارہا سوال کیا گیا کہ قرآن کا آپ کے نزدیک کیا مطلب ہے؟ یعنی میں اپنے فلسفی انداز میں کس طرح تفسیر کرتا ہوں؟ میرا جواب یہ تھا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت تک جو کچھ مسلمانوں کی جماعت نے کیا (رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کے زمانے تک) وہ قرآن کا مقصد ہے، اس کی تشریح میں جس فلسفہ سے چاہوں کر سکتا ہوں۔ متن یہ ہے قرآن کا، مقصد یہ ہے۔
مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں/صفحہ: ۴۰
https://chat.whatsapp.com/CGPZnv2OFOJ5tK8o7xePs0
محترم معصوم مراد آبادی صاحب کو ہم حیدرآباد کے روزنامہ اعتماد میں پابندی سے پڑھتے تھے۔ جب سے علم وکتاب گروپ میں آپ تشریف لائے ہیں، آپ کی تازہ بہ تازہ تحریریں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ معصوم صاحب کے قلم میں بڑی زندگی ہے۔ خصوصا شخصیات پر لکھتے ہیں تو ڈوب کر لکھتے ہیں۔ اور ہم جیسے طالب علموں کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اب اسی مضمون میں قیس صاحب کا ایک شعر ہے:
دیے جلانے کی رسمیں بھلاچکے شاید
ہمارے شہر میں انسان جلائے جاتے ہیں
ہمیں پہلا مصرع کچھ فرق کے ساتھ یاد ہے:
دیے جلانے کی رسمیں بہت پرانی ہیں
ہمارے شہر میں انسان جلائے جاتے ہیں
قیس صاحب کا کچھ کلام ہم نے طھی پڑھا ہے ۔ ان کے کلام میں دل میں اترنے کی صلاحیت ہے۔ ایک شعر یاد آتا ہے:
اگر اجالوں کی ہے تمنا، نہ بجھنے پائے چراغ دل کا
کہ دل میں جب روشنی نہ ہوگی، تو ہر طرف تیرگی ملے گی
قیس صاحب کی علالت کا جیسا کچھ نقشہ معصوم صاحب نے کھینچا ہے، پڑھ کر دل بھر آیا۔ یہ صحیح ہے کہ جس شخص نے پوری زندگی زندہ دلی کے ساتھ بسر کی ہو،اس کے لیے اس سے زیادہ اذیت ناک لمحہ کوئی نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے جذبات واحساسات کے اظہار ہی سے محروم ہوجائے۔۔۔
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔۔۔ اور معصوم صاحب کو جزاے خیر دے۔۔۔ ان کا قلم ہمیں اسی طرح مستفید کرتا رہے۔۔۔۔ بہت بہت شکریہ
قیس رامپوری کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
رات گئے فون کی گھنٹی بجتی ہے تو اسے ریسیو کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ خدا کرے کوئی برُی خبر نہ ہو۔ گزشتہ رات بھی ایسا ہی ہوا۔ سردترین رات تھی اور میں گہری نیند میں تھا۔ فون اٹھایا تو روزنامہ ’انقلاب‘سے عزیزم شاہ عالم اصلاحی کی کال تھی۔ ”قیس رامپوری صاحب انتقال کرگئے۔“اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”کچھ تفصیل درکار ہے۔ کاپی جانے میں وقت بہت کم ہے۔چند منٹ میں کچھ بھیج دیجئے۔“سردی میں کمپیوٹر کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی تو واٹس ایپ پر قیس صاحب کے بارے میں بنیادی معلومات لکھ کربھج دیں۔نیند اڑچکی تھی اور رہ رہ کر قیس صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات یاد آرہے تھے۔
مجھے پانچ سال تک ان کی رفاقت میں ہفتہ وار”نئی دنیا“ میں کام کرنے کا موقع ملا، جہاں میں نے انھیں قریب سے دیکھا اور جانا بھی۔ یہ 35 برس پرانی بات ہے۔ پچھلے دنوں یہ اطلاع بھی روزنامہ ’انقلاب‘ کے ایڈیٹربرادرم ودودساجد کے توسط سے ہی ملی تھی کہ قیس صاحب فالج کے حملے کے بعد بہت بیمار ہیں اور ان کی قوت گویائی چلی گئی ہے۔ ہم دونوں نے طے کیا تھا کہ ان کی عیادت کے لیے ساتھ چلیں گے، مگر یہ ممکن نہ ہوسکا اورقیس صاحب ہم سے ملے بغیر ہی چلے گئے۔موت برحق ہے اور ہم سب کو آگے پیچھے ایک دن چلے ہی جانا ہے۔آنے اور جانے کا یہ سلسلہ اسی وقت سے چل رہا ہے، جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے۔ایک دن خود اسے بھی فنا ہوجانا ہے۔اللہ باقی من کل فانی۔
قیس رامپوری بڑی باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے۔ ہرمحفل میں اپنے شعروں اور جملوں سے لوگوں کی توجہ مبذول کرنے والے قیس رامپوری کی بے بسی اور لاچاری کی خبریں سن کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ انھوں نے بہت زندہ دلی کے ساتھ اپنے ایام بسر کئے تھے۔ان کی ظاہری وضع قطع جتنی دلکش تھی، اتنا ہی ان کا فن بھی دلآویز تھا۔وہ روایتی خطاطی اور جد ید آرٹ کے امتزاج سے جو منفردفن پارے تخلیق کرتے تھے،انھیں دیکھتے ہی رہنے کو جی چاہتا تھا۔ جو نفاست ان کے لباس اور شخصیت میں تھی، وہی ان کے فن کا بھی طرہ امتیاز تھا۔انھیں تزئین کاری سے جو شغف تھا، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک بیٹی کا نام بھی تزئین رکھا ۔
فالج کے حملہ کے بعدان کی حالت ایسی تھی کہ ناک کے ذریعہ انھیں غذا پہنچائی جارہی تھی اور وہ بولنے پر قادر نہیں تھے۔ کسی فن کار کے لیے اس سے زیادہ اذیت ناک لمحہ کوئی اورنہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے جذبات واحساسات کے اظہار سے ہی محروم ہوجائے۔ الفاظ ہی تو انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں اور جب وہی ساتھ چھوڑ دیں تو پھرباقی کیا رہتا ہے۔ یہ بات ہم جیسے لوگوں کے لیے اور بھی اذیت کا باعث تھی، جنھوں نے انھیں ہمیشہ بولتے، چہچہاتے، لفظوں کا جادو جگاتے اور سدا مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان ہی کا ایک شعر ہے
بار احساں تو اٹھائے نہ اٹھا
دوستو، قیس کو مرجانے دو
قیس رامپوری کا اصل نام سیدسجاد علی تھا۔وہ 1947میں مغربی اترپردیش کے شہر رامپور میں پیدا ہوئے تھے، جہاں انھوں نے خوشنویسی کافن سیکھا۔ 1962کے آس پاس روزگار کی تلاش میں دہلی آئے اور یہاں مولانا عبدالوحید صدیقی کے روزنامہ’نئی دنیا‘سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے بعد جب مولانا نے 1966 میں ’ہما‘ ڈائجسٹ نکالا تو وہ اس کے تزئین کار بن گئے۔1973 میں جب ’نئی دنیا‘ ہفتہ وار ہوا تو قیس صاحب نے اس میں چار چاند لگانا شروع کئے۔ بعد کو وہ" نئی دنیا " سے الگ ہوکر روزنامہ "راشٹریہ سہارا" سے وابستہ ہوگئے تھے اور وہاں ہر روز عصری موضوعات پر ایک قطعہ لکھا کرتے تھے۔
قیس رامپوری لفظوں کونشست وبرخاست کا ایسا سلیقہ سکھاتے تھے کہ ان کی انگلیوں پر جادو گری کا گمان ہوتا تھا۔ وہ اپنی طرز کے خود ہی موجد تھے اور خود ہی خاتم بھی۔ جب سے اردو خطاطی کا فن کمپیوٹر کے قالب میں ڈھلا ہے تب سے ایسے فن کار معدوم ہوگئے ہیں جو اپنی انگلیوں میں قلم کو ایسی جنبش دیتے تھے کہ الفاظ میں قدرتی حسن کی آمیزش ہوجاتی تھی۔ راقم الحروف نے کئی برس ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ میں ان کی رفاقت میں کام کیا۔ یہ 35 برس پرانا قصہ ہے۔حالانکہ وہاں میرا میدان صحافت تھا، لیکن کتابت وخطاطی کے فن سے واقفیت کے سبب میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا تھا۔ جب کبھی وہ چھٹی پر جاتے یا طبیعت ناسازہوتی تو ان کی ذمہ داریاں میرے ناتواں کاندھوں پر آن پڑتیں۔ اس طرح میں ان کی کرسی پر بیٹھ کر اخبار کا لے آؤٹ اور سرخیاں بناتا تھا۔میں نے روایتی خطاطی کی تربیت حاصل کی تھی، جبکہ قیس صاحب کو روایتی خطاطی کے ساتھ ساتھ جدید آرٹ اور تزئین کاری کا بڑا تجربہ تھا۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ ہفتہ وار’’نئی دنیا‘‘کی مقبولیت میں ان کی تزئین کاری اور آرٹ کو بڑا دخل تھا۔ ’نئی دنیا‘ کی منہ بولتی سرخیوں کی بدولت ہی لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ باقی چیخ وپکار اس کے مواد میں ہوتی تھی۔
ہم نے کئی بار بات سنبھالنے کی کوشش کی مگر بات سبنھلتی کیا، غیض وغضب کا طوفان تیز سے تیز تر ہوتا گیا، آخر میں یہ بھی فرمایا کہ اگر تو میری زندگی چاہتا ہے تو فورا یہاں سے نکل جا،............. بہر حال .........
اُٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتاہے کہ کس دل سےآئے ہیں
اتفاق یہ بھی تھا کہ ہم مفتی صاحب کی خدمت میں پہونچنے سے قبل ایک اور پروگرام میں تھے، اُس پروگرام میں ہمارا استقبال بھی ہواتھا، شال پوشی، گل پیشی اور گل پوشی کے ذریعے زبردست پذیرائی بھی ہوئی، " حضرت" کہنے والے ساتھ میں سلفی لینے والے، گروپ فوٹو کے خواہشمند بہت ملے، کچھ احباب ہمارے ساتھ مفتی صاحب کی خدمت میں بھی پہونچے تھے ـ سچی بات یہ ہے کہ عوام و خواص کی نظروں میں اپنا یہ مقام دیکھ کر بہت اچھا لگا تھا، نفس بھی موٹا ہوگیا تھا ـ
الحمدللہ کوئی تو ایسا ہے جو ہماری ساری " حضرتی “ جھاڑ کر پچاس برس پرانی ہماری اوقات یاد دلاسکتا ہے ـ
زبانِ تلخ می زیبد لبِ لعلِ شکرخارا
محمود احمد خاں دریابادی
8 جنوری 2024, شب دوبجے
چودھری افضل حق(وفات ۸ جنوری ۱۹۴۱ء) تحریر: شورش کاشمیری
Читать полностью…معروف شاعر، خطاط اور صحافی قیس رامپوری صاحب کا انتقال ہوگیا، آج بعد نماز عصر ان کی دہلی میں تدفین عمل میں آئی - قیس صاحب برسوں پہلے اپنے وطن رامپور سے ہجرت کرکے دہلی آ گئے تھے، انہوں نے دارالحکومت کو ہی اپنا وطن ثانی بنا لیا تھا - وہ راشٹر یہ سہارا اردو دہلی سے ابتدا میں ہی منسلک ہو گئے تھے، وہ ابو الفضل کےپاس جسولہ میں رہتے تھے، راشٹر یہ سہارا اردو کے تمام پبلیکیشنز میں ان کی شاہ سرخیوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا - وہ کئ برس سے فالج میں مبتلا تھے-اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین
Читать полностью…مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائپوری قدس سرہ کے مشورہ سے1967ء میں مقامی لوگوں کا ایک وفد ٹپرانہ پہنچا، اور بحیثیت مہتمم وذمہ دار آپ کو گڑھی دولت لاکر مدرسہ آپ کے سپرد کردیا۔ بس پھر کیا تھا، آپ نے رات دیکھی نہ دن، سردی دیکھی نہ گرمی، بیماری کو خاطر میں لائے نہ ضعف و نقاہت اورپیرانہ سالی کی پرواہ کی، شبانہ روز مدرسہ کی ترقی کی فکر میں لگ گئے، ابتدائی دور میں مدرسہ کے لیے مالیات کی فراہمی کی خاطر ایک عرصہ تک کبھی پیدل اور کبھی سائیکل سے علاقہ بھر میں گھومے، اپنی تمام تر محنتوں اور مجاہدوں کامرکز مدرسہ کو بنالیا، اور مسلسل ۴۷ سال تک ایک مخلص، مدبر معاملہ فہم، مزاج شناس کامیاب مہتمم ومنتظم کی حیثیت سے مدرسہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔
حضرت کے سوز دروں، شب وروز کی انتھک محنت، اورمسلسل جد وجہد کی برکت سے مدرسہ تعلیمی، تحویلی اور تعمیری ہر اعتبارسے اب ایک بڑے جامعہ کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور اپنے اصول وضوابط میں دیگر مدارس سے ممتاز ہونے کے ساتھ، اس وقت ہندوستان کے اہم اور بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے، اور نہایت حسن وخوبی کے ساتھ دینی تعلیم وتربیت کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ حضرت کے انتظام سنبھالنے کے بعد سے آج تک جامعہ ہذا نے جو علمی، دینی، فکری، اصلاحی اور تربیتی خدمات انجام دی ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
جامعہ ہذا میں حفظ وناظرہ قرآن پاک، تجوید وقراء ت، ہندی، انگلش، کمپیوٹر اور فارسی کے علاوہ، عربی اول سے دورۂ حدیث شریف تک نہایت ٹھوس اور معیاری تعلیم کا نظم ہے۔ دورۂ حدیث شریف شوال ۱۴۳۱ھ میں شروع کیا گیا تھا، جو بحمد اللہ پوری کامیابی کے ساتھ علوم حدیث کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنا ہو ا ہے۔
اصلاح وتربیت:
آپ نے جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت میں لوگوں کی اصلاح وتربیت کے لیے ایک خانقاہ قائم کی، جس میں ہزاروں گم گشتہ راہ لوگوں نے آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوکر راہ پائی، اور سلوک وطریقت کی منازل طے کی۔ بیعت اور اصلاحی تعلق کا پورا فائدہ اُسی وقت ہوتا ہے جب کہ مرید کا اپنے شیخ سے رابطہ اور قوی تعلق ہو، اسی مقصد سے حضرت نے اپنے منتسبین ومریدین کی دینی رہ نمائی اور رابطے کے استحکام کے لیے ماہانہ ’’ذکر کی مجلس‘‘ کا اہتمام فر مایا، جو کئی سالوں سے ہر قمری ماہ کی آخری جمعرات کو منعقد کی جاتی رہی، قرب وجور اور دور دراز سے حضرت کے متوسلین اس میں شرکت کرکے اپنی روحانی واصلاحی قوت کو پروان چڑھا تے تھے، ان مجالس سے علاقہ میں بڑا فائدہ ہوا۔ اس کے علاوہ ہر سال ماہ رمضان کے آخری عشرہ کے اجتماعی اعتکاف کا بھی حضرت اہتمام فرماتے رہے، اس میں بھی آپ کے محبین ومتوسلین کافی بڑی تعداد میں شریک ہوکر، حضرت کے فیوض وبرکات اور ارشادات وہدایات سے اپنا دامن بھرتے تھے۔
اصلاح و تربیت کے حوالے سے آپ بڑے حساس واقع ہوئے تھے، طلبہ، ملازمین، اساتذہ، ملاقات کے لیے آنے والے حضرات کے لباس، وضع قطع اور اعمال و اخلاق پر گہری نظر رکھتے، جب کبھی کسی میں کوئی اخلاقی بے راہ روی، یا لباس اور وضع قطع میں بے اعتدالی دیکھتے، فوراً بڑی حکمت، مصلحت، شفقت اور محبت کے ساتھ اس پر تنبیہ فرماتے ۔
حضرت کا اندازِ اصلاح بڑا عجیب اور حکیمانہ تھا، کسی کو کوئی خلافِ شرع کام کرتے ہوئے دیکھتے، تو اُسے ڈانٹنے کے بجائے، بڑی حکمت کے ساتھ اس انداز سے اُس پر نکیر فرماتے کہ مخاطب بالکل برا نہیں مانتا تھا، اور فوراً اُس عمل سے توبہ کرلیا کرتا تھا، آپ کی نظر کسی کی کٹی ہوئی ڈاڑھی پرپڑجاتی، تو فرماتے :’’بھائی دیکھو! کہیں میری ڈاڑھی تو کٹی ہوئی نہیں‘‘، کسی کوپائجامہ یا لنگی ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے دیکھتے، تو فرماتے ’’دیکھو بھائی شاید میرا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہوا ہے‘‘۔ اللہ اکبر کیا عجیب اور حکیمانہ انداز تھا منکر پر نکیر کا۔ اللہ تعالی ہمیں بھی حضرت کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق فرمائے۔
حضرت کے خلفاء:
جن توفیق یافتہ حضرات نے حضرت کی خانقاہ سے وابستہ ہوکر حضرت سے اکتسابِ فیض کیا، اُن میں سے بعض حضرات وہ بھی ہیں جو حضرت کی نگرانی میں محنت ومجاہدے کے ساتھ راہ سلوک کی تکمیل کرنے کے بعد اجازت وخلافت کے مستحق قرار پائے، اُن میں حضرت کے بڑے صاحبزادے وجانشین حضرت مولانا محمد عاقل صاحب مہتمم جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، مولانا محمد ارشد صاحب جوگی پورہ صدر المدرسین جامعہ بدر العلوم گڑھی دولتــ، حاجی شاہ نظر صاحب مرحوم (چرھو ضلع سہارنپور)، استاذ محترم حضرت مولانا عبد الحق صاحب قاسمی( لوئی ) اور میرے رفیق درس مولانا محمد شرافت صاحب قاسمی خواج پوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مفتی محمد عباس صاحب بجرولوی اورقاری محمد عرفان صاحب کیرانوی نے بھی آپ ہی سے بیعت ہوکر راہ سلوک کی تکمیل کی؛ لیکن آپ نے غایت تواضع کی وجہ سے اُن کو خود اجازت دینے کے بجائے، اپنے شیخ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی رحمہ اللہ سے اجازت دلوائی۔
یوم وفات
مولانا محمد کامل کاندھلوی
*تواضع وانابت کا سرمایہ دار تھا، نہ رہا*
✒️: محمد جاوید قاسمی بالوی استاذِ حدیث ومفتی جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت
تغیرات وتلونات کی اس دنیا میں ، جہاں ہر چیز کا وجود اُس کی فنائیت کی دلیل، اور ہر شئی کا ظہور اُس کے عدم کی علامت بن کر ابھر تا ہے، چشم فلک نے ابتدائے آفرینش سے لے کراب تک نہ معلوم کتنے انسانوں کو شکم مادر سے جنم لیتے اور ایک مقررہ وقت پر ہمیشہ کے لیے پیوندِ خاک ہوتے دیکھا ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ اب تک کتنے انسان پیدا ہوئے اور آئندہ قیامت تک کتنے اور پیدا ہوں گے، بنی نوع انسان کا یہ ایک بے اتاہ سمندر ہے جس کا تموج روز افزوں ہے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اور جنات کی تخلیق جس اہم اور پاکیزہ مقصد (یعنی لا شعوری زندگی کے زمانے سے گذر کر، شعوری زندگی کے دور میں داخل ہونے کے بعد ، زندگی کے ہر شعبے وہرطرح کے حالات میں مکمل طور پر ربِّ کائنات کی اطاعت وبندگی) کے تحت ہوئی ہے، اس کی تحصیل وتکمیل میں جو لوگ زندگی بھر حیراں وسرگرداں اور اپنی سی آخری درجے کی کد وکاوش میں مصروف رہتے ہیں، انھیں کو اس دنیا میں خالقِ کائنات کی طرف سے حیاتِ ابدی حاصل ہوتی ہے، اُن کو اُن کی زندگی میں تو لوگ یاد کرتے ہی ہیں، دارِ فانی سے دارِ باقی کی جانب کوچ کر جانے کے بعد بھی اُنھیں یاد رکھا جاتا ہے، اور مرورِ ایام کے ساتھ اس یاد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے؛ چناں چہ صدیاں بیت جانے کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے کل تک وہ زندہ تھے، یہ سب ان کی صلاح ونیکی، ورع وتقوی، تضرع وانابت، تواضع وفنائیت، اخلاص وللہیت اور مقصدِ حیات کی تحصیل میں اُن کی طرف سے کی جانے والی جد وجہد کا غیر متخلف نتیجہ ہوتا ہے۔
ولی کامل، نمونۂ اسلاف ، تواضع وبے نفسی کے پیکر، اخلاقِ نبوی کی چلتی پھرتی تصویر، رہبرِ قوم وملت، حضرت اقدس مولانا الحاج محمد کامل صاحب کاندھلوی نور اللہ مرقدہ انھیں پاکیزہ نفوس میں سے تھے جنھوں نے مقصد حیات کو پوری طرح سمجھا، خود بھی مسلسل اس کی تحصیل میں مشغول رہے، اور دوسروں کے اندر بھی اُس کا شعور واحساس پیدا کرنے کی فکر میں زندگی بسر کی، اتباع سنت اور تواضع وعاجزی (جو مقصدِ حیات کا بنیادی عنصر) ہے آپ کی ذات عالی میں کچھ اس طرح چھائی ہوئی تھی، کہ ایسا لگتا تھا کہ گویا آپ کا خمیر ہی اتباع سنت اور تواضع سے اٹھا ہے، ایک ایک چیز میں سنتِ نبوی کی تلاش وجستجو اس کی کامل پیروی اور تبلیغ واشاعت، اپنے اور پرائے کا فرق کیے بغیر ہر وارد وصادر کے ساتھ حسن اخلاق اور نرمی کا برتاؤ، انتہائی درجہ کی تواضع، عاجزی اور انکساری حضرت کاندھلوی کے وہ اوصاف ہیں جو دوسرے لوگوں میں خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔
مولانا موصوف شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ کے عاشق زار شاگرد وخادم خاص، اور فدائے ملت امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی قدسرہ کے مجاز وخلیفہ، ایک صاحب ِ ارشاد بزرگ تھے، تقوی وپرہیزگاری، صدق ودیانت، اخلاص و للہیت، علم وعمل اور تصوف وسلوک میں اسلاف کا نمونہ تھے۔
ولادت:
آپ کا آبائی وطن علم وحکمت کی سرزمین قصبہ کاندھلہ (محلہ گوجران )ہے، آپ۱۹۳۳ء میں پیدا ہوئے (دن اور مہینہ معلوم نہیں ہوسکا)، آپ نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہاں کوئی خاص دینی ماحول نہیں تھا، آپ کے والد چودھری مشرف علی اگرچہ اپنی آخری زندگی میں اچھے دین دار ہوگئے تھے؛ لیکن شروع میں اُن کی دینی حالت کوئی زیادہ اچھی نہ تھی، وہ پہلوانی کرتے تھے، اور بعد میں سرکاری ملازم بھی ہوگئے تھے، البتہ آپ کی والدہ ایک باخدا نیک خاتون تھی، حضرت کی تعلیم وتربیت میں آپ کی والدہ، حضرت کے تایاجان اشرف علی اور دادا شمس الدین کا زیادہ دخل رہا۔ اسے حق تعالی کی رحمت خاصہ اور حضرت کی دین اور احکام دین سے فطری وطبعی دل چسپی کا نتیجہ ہی کہا جائے گا کہ بچپن ہی سے صلاح ونیکی اور ولایت وتقوی کے آثار آپ میں ظاہر ہونے لگے۔
تعلیم:
ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے وطن کاندھلہ میں حاصل کی، چھ یا سات سال کی عمر تھی جب آپ کو مکتب میں بٹھایا گیا، شروع میں حافظ عبد اللطیف صاحب کے پاس ’’گڑھواؤں والی مسجد‘‘ میں بھیجے گئے، وہاں آپ نے قاعدہ بغدادی پڑھا، اس کے بعد ’’مدرسہ نصرۃ الاسلام جامع مسجد‘‘ میں منتقل کردئیے گئے، وہاں اولًا حافظ شریف احمد صاحب سے دوپارے پڑھے، پھر حافظ عبدالعزیز صاحب کے پاس پہنچ کر باقی قرآن کریم حفظ وناظرہ ایک ساتھ مکمل کیا ، آپ کو پڑھنے کا بڑا شوق تھا، جمعرات کو دو دن کا سبق لے کر سنیچر کو دوگنا سبق سنادیا کرتے تھے۔ حفظ کی تکمیل کے بعد ،’’مدرسہ نصرۃ الاسلام‘‘ ہی میں مولانا عبدالجلیل صاحب بستویؒ اور حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب نور اللہ مرقدہ کے پاس عربی سوم تک کی کتابیں پڑھی۔ اس کے بعد حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ سابق شیخ التفسیر دار العلوم دیوبند کے ایماء پر، شوال ۱۳۶۸ھ مطابق ۱۹۴۸ء میں، جب کہ
*بات سے بات: خالی مسندیں کیسے پر ہوں*
علم وکتاب گروپ پر اسلامیات کا یہودی پروفیسر کے عنوان سے ایک مضمون پوسٹ ہوا ہے، خیال پڑتا ہے کہ یہ مضمون بہت عرصہ پہلے اردو ڈائجسٹ لاہور میں چھپا تھا، مضمون نگار احمد الین مارہروی پرانی نسل کے بزرگ تھے، مولانا آزاد سے ان کی دوستی تھی، اور ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان گئے تھے، اردو ڈائجسٹ میں ان کے بڑے دلچسپ مضامین پڑھنے کو ملتے تھے، معلوم نہیں ان کے مضامین کا کوئی مجموعہ شائع ہوا ہے یا نہیں، اردو ڈائجسٹ نے اپنے دور میں علم وادب کی بڑی خدمت کی ہے، امریکہ کے ریڈر ڈائجسٹ کے نقش قدم پر یہ اردو کا پہلا رسالہ تھا، پھر اس کی نقالی میں ڈائجسٹوں کی ایک بھیڑ لگ گئی، اورپھر آہستہ آہستہ نصف صدی میں سبھی مرحوم ہوگئے، ورنہ کبھی ان میں سے بعض ڈائجسٹ لاکھوں میں چھپتے تھے، سب رنگ ڈائجسٹ ہی کو مثال میں لیجئے۔ اردو ڈائجسٹ کے مضامین کے انتخاب پر ابھی کسی نے توجہ نہیں دی، ورنہ ذوق مطالعہ کو فروغ دینے کے لئے یہ مضامین مہمیز کا کام دے سکتے ہیں۔
احمد الدین مارہروی نے جب ہندوستان سے ہجرت کی تھی تو حکومت وقت نے انہیں سفر میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، بس ان کے کتب خانے کو منتقل ہونے نہیں دیا تھا، مولانا ابو الکلام آزاد سے ذاتی تعلقات بھی کام نہ آسکے،(اپنے ایک مضمون میں آپ نے اس کی تفصیل دی ہے) وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کتابوں کی منتقلی کی اجازت کسی حال میں نہیں دی، جس سے ہماری حکومت کے پاس کتابوں کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے، اور اس اہمیت میں ابھی تک کمی محسوس نہیں ہوتی، اتنا ضرور ہے کہ اب ان قدیم کتابوں کی حیثیت مزارات کی ہوکر رہ گئی ہے، اور اس کی ذمہ داری حکومت سے زیادہ امت کے اہل علم اور دانشوروں کی ان سے لاتعلقی اور بے اعتنائی پر زیادہ عائد ہوتی ہے، گذشتہ سال رضا لائبریری رامپور جانا ہوا تھا تو اس کے ذمہ دار بتا رہے تھے کہ وزیر اعظم مودی جب سعودیہ جارہے تھے تو انہوں نے بادشاہ کو پیش کرنے کے لئے کتب خانے کا ایک نادر مخطوطہ منگوایا تھا، بعد میں اس کی بڑی تحقیق ہوئی اور مخطوطے کی کتب خانہ سے منتقلی کے ذمہ دار کو عہدے سے برخواست کردیا گیا۔
ہندوستان میں اس وقت ہماری معلومات کی حد تک دنیا کا تیس فیصد سے زیادہ عربی وفارسی قلمی کتابوں کا ذخیرہ محفوظ ہے، لیکن بدقسمتی سے عربی وفارسی جاننے والے فارغین مدارس کا رجوع ان کتب خانوں سے نہ ہونے کی برابر ہیں، جو بھی ہے وہ یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ اور یم فل کرنے والے طلبہ کا ہے، ان کی صلاحیت کتنی ہے بتانے کی ضرورت نہیں، سرٹیفکٹ کے حصول کے تقاضوں سے وہ کتب خانوں کو آتے ہیں، خود ہمارے دینی تعلیمی اداروں کے کتب خانوں کا حال اس سے مختلف نہیں ہے، زیادہ تر کتب خانے طلبہ و اساتذہ کے استفادے سے زیادہ اداروں کی تشہیر کے لئے رکھے گئے ہیں، مہمان آتے ہیں، انہیں مقدس سمجھ کر ایک نظر دیکھ کر تعریف کرجاتے ہیں، کتب خانے اب صرف میوزیم کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں، بس ان کا استعمال اتنا ہی رہ گیا ہے۔ اب شکایت کریں تو کس سے؟، اس کا نتیجہ سامنے ہے، ہماری دینی جامعات میں ایک بڑا استاد جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا استاد اس سے کم درجہ کا آتا ہے، یہ بات عصری اداروں میں نہیں ہے، وہاں روز بروز معیار تعلیم بڑھ رہا ہے۔ جب کہ ان کے پاس ترقی کے لئے ماضی کے وہ تجربات اور ذخیرے نہیں ہیں، جو ہمارے دینی اداروں کے پاس ہیں۔ لیکن ہمارے ادارے روز بروز زوال پذیر ہیں، اصولا ایسا نہیں ہونا چاہئے،کم از کم جانے والے کی خالی جگہ نہ بھرنے کا شکوہ ہم مسلمانوں کو نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ہمارے پاس گذشتہ صدیوں کا جو علمی ذخیرہ اور عملی نمونے موجود ہیں، وہ کسی اور کے پاس نہیں ہیں، بس کمی حوصلہ صبر اور محنت کی ہے، تن آسانی ہوگی، شہرت کی خواہش کا غلبہ ہوگا، اور اسلاف سےتعلق کٹے گا تو اس کا یہی نتیجہ نکلے گا، جس کی کاشت ہم روز کاٹ رہے ہیں ، اللہ ہی ہمیں توفیق دے۔
عبد المتین منیری
2024-01-07
/channel/ilmokitab
شیخ محمد اکرام(وفات 7 جنوري 1973ء ) تحریر مظہر محمود شیرانی
Читать полностью…وہ اپنے زمانہ میں اردو کی انشاء پردازی کے بھی امام رہے، وہ اپنے طرز کے موجد اور خاتم تھے، شبلیؒ، مہدی افادی اور سید سلیمانؒ کے انداز بیان کے بڑے پرستار اور قدردان تھے، مگر اپنے طرز نگارش میں کسی کی تقلید پسند نہیں کی، بالکل منفرد اور غیر مقلد رہے، ان کی تحریروں میں جہاں تندی صہبا موجِ خرامِ یار، نکہتِ بادِ بہاری اور فکری لالہ کاری ملے گی وہاں کج رو حریفوں کے مقابلہ میں سانپ کی پھنکار، بچھو کا ڈنک اور خنجر کا وار بھی ہے، وہ اپنے مخالفوں کے خلاف اپنے قلم سے صف شکن یلغار اور مردافگن یورش کرکے اپنی انشا پردازی کا جوہر دکھاتے، اپنے عزیز دوستوں اور محبوب معاصروں کی موت پر ماتم کرتے تو اس میں دلسوزی، عقیدت مندی اور وفاکہشی کے ساتھ ان کے قلم کی رعنائی، شگفتگی اور رنگینی کی پوری بہار آفریں قوس قزح نظر آتی، مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، مولانا عبدالماجد بدایونی، بہادر یارجنگ اور سید سلیمان ندوی اور حکیم عبدالمجید لکھنوی پر ان کی ماتمی تحریروں میں ان کے زور بیان کے ساتھ اثر، تاثیر اخلاص محبت اور درد کے جھلملاتے جواہر ریزے نظر آتے ہیں، ان کے مضامین کے مجموعے انشائے ماجدی میں جمع کردیئے گئے ہیں جو ہر زمانہ میں بلاغت کی سحرکاری، فصاحت کی تازگی اور سلاست کی پرکاری کے لحاظ سے اردو ادب کے شہ پارے بنے رہیں گے، یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ لکھنو کی زبان کا بانکپن اور رسیلاپن دکھانے والا سفر حجاز اور تفسیر کی زبان لکھنے میں کس قدر باوقار، باوزن اور متین ہوگیا ہے۔
انھوں نے سچ اور صدق نکال کر اپنے کو شیر دل بلکہ کفن بردوش صحافی بھی ثابت کیا، حکومت کا دبدبہ قانون کا شکنجہ، انقلاب کا کوئی ہچکولہ ان کے قلم کی آزادی کو نہ روک سکا، مسلمانوں کے غمخوار، غمگسار اور دمساز بن کر ان کے سیاسی المناک حوادث پر خون کے آنسو روئے، ان کی سیاسی کامیابی اور فتح پر اپنی مسرت و شادمانی کا اظہار دل کھول کرکیا، خواہ ان کی یہ تحریریں حکومت کی پالیسی کے خلاف ہی کیوں نہ ہوتیں، سچ اور صدق جدید میں سچی باتیں لکھ کر ایمان، ایقان اور عرفان کے موتی بکھیرتے رہے، اس انداز کی تحریر اب مدت مدید تک کوئی اور نہ لکھ سکے گا، اسی کے ساتھ اسلامی طرز فکر کی راہ چھوڑنے والوں کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اترتے، کردار کو نیلام کی بولی پر بھینٹ چڑھانے والوں کے نہاں خانے میں پہنچ کر شب خوں مارتے، اپنی تحریروں کی ناوک فگنی سے تجدد پسندوں کے کلیجوں کو چھلنی کرتے رہے، ان کے اخبار کا ایک شعر ایک جلی سرخی، ایک زہریلا فقرہ ان کے حریفوں کے پورے مضمون پر بھاری ہوتا۔
ان کے چھوٹے سائز کا ہفتہ وار اخبار سچ یا صدق جدید کل آٹھ صفحے پر مشتمل ہوتا، اس کو شروع سے آخر تک خود ہی لکھتے جو ان کے قلم کی صاعقہ پاشی کی دلیل ہوتی، اس میں کبھی تو واعظ، کبھی فقیہ، کبھی مرد مومن، کبھی مفسر قرآن، کبھی متکلم اسلام، کبھی نقاد، کبھی سیاسی مبصراور ہاں کبھی قلم کے افراسیاب، کبھی اسلوب کے جمشید اور کبھی زور بیان کے رستم بن جاتے اور اپنی آخر عمر میں خوش ہوں گے کہ علم، ادب اور فن کا ایک انبار نہیں بلکہ گل و گلزار لگاکر زندگی ختم کررہے ہیں۔
وہ خلافت تحریک میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی اور مولانا محمد علی کے اصرار سے شریک ہوئے، مگر کبھی سیاسی رہنما ہونے کے دعوے دار نہیں ہوئے، البتہ علی برادران کی طرح جو کھدر کا کرتہ اور پائجامہ اور چغہ پہنا تو آخر عمر تک پہنتے رہے، مولانا محمد علی کے نام پر جان چھڑکتے رہے، ان کی یاد میں محمد علی کی ڈائری کے نام سے جو دوجلدیں لکھی ہیں ان میں ان کے نہ صرف دل و جگر کے ٹکڑے بلکہ انشا پردازانہ کمالات کے سارے جلوے نظر آتے ہیں، مولانا محمد علی پر ان دونوں جلدوں سے بہتر اب تک کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی۔
بد ظنی ہی غمازی پر اُکساتی ہے۔غماز کی اصل ’غمزہ‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے چشم و ابرو سے اشارہ کرنا۔مجازاً معشوقانہ ناز، نخروں اور اداؤں کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ادائیں بھی تو ایک طرح کا اشارہ ہی ہوتی ہیں، خواہ یہ اشارہ چشم و ابرو سے کیا جائے یا دست وانگشت سے۔ اگر آپ ہم سے پوچھ ہی بیٹھیں کہ ’’ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟‘‘ تو ہم عرض کریں گے صاحبو! سب ایک ہی چیز ہیں۔ غالبؔ نے بھی اشارت و ادا کو ساتھ ہی باندھا ہے۔ محبو ب کی بلاؤں سے بلبلا کر کہتے ہیں:
بلائے جاں ہے غالبؔ اُس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا
حکیم مومن خان مومنؔ کاشعر ہے:
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا
اس شعر میں وہ محبوب کی تربیت کر رہے ہیں۔ اُسے دیکھنا سکھا رہے ہیں کہ مجھے کچھ ایسی ادا سے دیکھنا جس میں تحقیر ہو، تشنیع ہو، عیب جوئی ہو اورطعنہ زنی ہو۔یہ ’غمزہ‘ صرف محبوباؤں اور لیلاؤں تک محدود نہیں۔ لیلیٰ کے اونٹ کو بھی یہ ادائیں آتی ہیں۔ ذوقؔ کہتے ہیں:
عزیزو! ناقۂ لیلیٰ کے دیکھو گے شتر غمزے
اگر مجنوں کو مل جائے گی خدمت ساربانی کی
سو،کبھی کبھی اونٹ بھی موج مستی میں آکر اٹھلانے اور نخرے دکھانے لگتا ہے۔ آخر اسے بھی ناز نخرے دکھانے کا پورا پورا حق ہے۔ مگر نہ جانے کیوں اس کا یہ حق اہلِ لغت پر گراں گزرا۔ چناں چہ بے جا ناز نخرے دکھانے اور عیاری و مکاری کا مظاہرہ کرنے کو ’شتر غمزہ‘ کہاجانے لگا۔ نتیجہ یہ کہ ہماری دنیائے ادب، دنیائے صحافت اور بالخصوص دنیائے سیاست میں شتربھی بڑھے، شتر غمزہ بھی اور شترکینہ بھی۔
بہ شکریہ فرائیڈے اسپیشل
/channel/ilmokitab
خدایا نئی زندگی چاہتاہوں
نعت: بہزاد لکھنوی
لنک اردو آڈیو ڈاٹ کام
https://audio.bhatkallys.com/audios/?id=khudaya-ek-nai-zindagi-chahta-hun, Khudaya Ek Nai Zindagi Chahta Hun